محمد اویس پارس
رکن ختم نبوت فورم
تلک الرسل : سورۃ آل عمران : آیت 27
تُوۡلِجُ الَّیۡلَ فِی النَّہَارِ وَ تُوۡلِجُ النَّہَارَ فِی الَّیۡلِ ۫ وَ تُخۡرِجُ الۡحَیَّ مِنَ الۡمَیِّتِ وَ تُخۡرِجُ الۡمَیِّتَ مِنَ الۡحَیِّ ۫ وَ تَرۡزُقُ مَنۡ تَشَآءُ بِغَیۡرِ حِسَابٍ ﴿۲۷﴾
یہ اسی بات پر جو اوپر بیان ہوئی ہے، آفاق کی شہادت ہے کہ لوگ اسے کوئی دور کی چیز نہ سمجھیں ، جس طرح دن سے رات، رات سے دن، اور موت سے زندگی اور زندگی سے موت نمودار ہوتی رہتی ہے، اسی طرح قوموں کے لیے عزل و نصب، عزت وذلت اور موت وحیات کے فیصلے بھی صادر ہوتے رہتے ہیں۔ بنی اسماعیل اور بنی اسرائیل کی موت وحیات کی طرف جو اشارہ اس تمثیل میں کیا گیا ہے، اس کی وضاحت استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اس طرح فرمائی ہے : ”۔۔ حضرت ابراہیم نے جو پودا فلسطین کی سرسبز و شاداب زمین میں لگایا تھا، اب وہ سوکھ چکا تھا اور جیسا کہ حضرت یحییٰ نے فرمایا، اس کی جڑ پر کلہاڑا رکھا ہوا تھا۔ اس کے برعکس انھوں نے جو پودا عرب کی خشک اور بنجر زمین میں لگایا تھا، اور جو مرجھایا ہوا پڑا تھا ، اب اس میں شگوفے نکل رہے تھے اور جیسا کہ حضرت عیسیٰ نے فرمایا : وہ ایک تناور درخت بن کر ایک عالم کو اپنے سایے کی پناہ میں لینے والا تھا۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٦٥) یعنی اتنا دیتا ہے کہ اس کی کوئی حدونہایت نہیں رہتی اور وہاں سے دیتا ہے، جہاں سے کسی کو اس کا گمان بھی نہیں ہوتا۔