ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
فَتَقَبَّلَہَا رَبُّہَا بِقَبُوۡلٍ حَسَنٍ وَّ اَنۡۢبَتَہَا نَبَاتًا حَسَنًا ۙ وَّ کَفَّلَہَا زَکَرِیَّا ۚؕ کُلَّمَا دَخَلَ عَلَیۡہَا زَکَرِیَّا الۡمِحۡرَابَ ۙ وَجَدَ عِنۡدَہَا رِزۡقًا ۚ قَالَ یٰمَرۡیَمُ اَنّٰی لَکِ ہٰذَا ؕ قَالَتۡ ہُوَ مِنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یَرۡزُقُ مَنۡ یَّشَآءُ بِغَیۡرِ حِسَابٍ ﴿۳۷﴾ یہ زکریا جن کا ذکر یہاں ہوا ہے، سیدنا ہارون (علیہ السلام) کے خاندان سے اور سیدہ مریم کے خالو تھے۔ بنی اسرائیل میں کہانت کا جو نظام قائم کیا گیا تھا، اس کی رو سے لاوی بن یعقوب کا گھرانا مذہبی خدمات کے لیے خاص تھا۔ پھر بنی لاوی میں سے بھی مقدس میں خداوند کے آگے بخور جلانے اور پاک ترین چیزوں کی تقدیس کی خدمت سیدنا ہارون کے خاندان کے سپرد تھی۔ دوسرے بنی لاوی مقدس کے اندر نہیں جاسکتے تھے، بلکہ صحنوں اور کوٹھڑیوں میں کام کرتے تھے، سبت کے دن اور عیدوں کے موقع پر سوختنی قربانیاں چڑھاتے تھے اور مقدس کی نگرانی میں بنی ہارون کی مدد کرتے تھے۔ زکریا بنی ہارون کے خاندان میں سے ابیاہ کے سربراہ تھے۔ چنانچہ اپنے خاندان کی طرف سے یہی معبد کی خدمت انجام دیتے تھے۔ اِس سے مراد وہ محراب نہیں ہے جو ہماری مسجدوں میں امام کے کھڑے ہونے کے لیے بنائی جاتی ہے۔ بیت المقدس میں جو حجرے اور گوشے عبادت گزاروں کے لیے بنائے گئے تھے، انھیں محراب کہا جاتا تھا ۔ یہاں اس سے مراد وہ خاص گوشہ اور حجرہ ہے جس میں بیٹھ کر سیدہ مریم ذکر و عبادت میں مشغول ہوتی تھیں۔اِس سے دو باتیں معلوم ہوتی ہیں : ایک یہ کہ حضرت زکریا سیدہ کی نگہداشت اور دیکھ بھال کے لیے اکثر ان کے پاس جاتے رہتے تھے، دوسری یہ کہ سیدہ اپنا تمام وقت اسی محراب میں، ذکر و عبادت میں گزارتی تھیں۔ اصل میں ’
وَجَدَ عِنْدَھَا رِزْقًا
‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں رزق سے مراد وہ حکمت و معرفت ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی شخص کو عطا ہوتی ہے۔ قرآن نے یہ لفظ ایک سے زیادہ مقامات میں وحی و ہدایت کے لیے استعمال کیا ہے۔ قدیم صحیفوں میں بھی یہ تعبیر اس مفہوم کے لیے اختیار کی گئی ہے۔ یہ محض استفہام نہیں، بلکہ اظہار تحسین کے لیے استعجاب کا جملہ ہے۔ یعنی تمہارے پاس آتا ہوں تو روحانی کمالات کے جو نفحات محسوس کرتا ہوں، یہ تمہیں کہاں سے حاصل ہوتے ہیں ؟ سیدہ مریم کا یہ جواب کم سنی کے باوجود ان کے پختہ علم اور فہم و بصیرت پر دلالت کرتا ہے کہ انھوں نے اسے اپنے زہد و ریاضت کا کرشمہ قرار نہیں دیا، بلکہ اللہ کی عنایت اور اس کا فضل قرار دیا ہے۔ یہ جملہ، جیسا کہ استاذ امام نے لکھا ہے، سیدہ مریم کے جواب کا حصہ نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سیدہ کی تحسین اور ان پر اپنے بےپایاں فضل کا اظہار ہے۔ شان کلام اس سے ابا کرتی ہے کہ اسے سیدہ کے جواب کا حصہ قرار دیا جائے۔
ہُنَالِکَ دَعَا زَکَرِیَّا رَبَّہٗ ۚ قَالَ رَبِّ ہَبۡ لِیۡ مِنۡ لَّدُنۡکَ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً ۚ اِنَّکَ سَمِیۡعُ الدُّعَآءِ ﴿۳۸﴾ سیدہ مریم کو جو حکمت و معرفت اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوئی تھی، اسے دیکھ کر زکریا اس درجہ متاثر ہوئے کہ ان کے اندر بھی یہ آرزو بھڑک اٹھی کہ کاش ایسا ہی کوئی نیک اور صالح فرزند اللہ تعالیٰ اُنھیں بھی عطا فرمائے۔
فَنَادَتۡہُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ وَ ہُوَ قَآئِمٌ یُّصَلِّیۡ فِی الۡمِحۡرَابِ ۙ اَنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکَ بِیَحۡیٰی مُصَدِّقًۢا بِکَلِمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ سَیِّدًا وَّ حَصُوۡرًا وَّ نَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیۡنَ ﴿۳۹﴾ اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ فرشتوں سے قرب واتصال اور اپنے پروردگار سے رازو نیاز اور دعا ومناجات کے لیے سب سے زیادہ موزوں وقت نماز ہی کا ہے۔ یہ وہی یحییٰ پیغمبر ہیں جن کا نام بائیبل میں یوحنا آیا ہے۔ سید نا مسیح (علیہ السلام) سے یہ صرف چھ ماہ پہلے پیدا ہوئے تھے۔ اصل میں ’
مُصَدِّقًا بِکَلِمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ
‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اسی سورة کی آیت ٤٥ میں آگے قرآن نے صراحت کردی ہے کہ اس سے مرادسیدنا مسیح (علیہ السلام) ہیں۔ اُنھیں ’
کَلِمَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ
‘ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ ان کی ولادت عام ضابطہ اسباب کے خلاف براہ راست اللہ تعالیٰ کے کلمہ ’
کُنْ
‘ سے ہوئی تھی۔ نصاریٰ نے اسی سے سید نا مسیح (علیہ السلام) کی الوہیت ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، دراں حالیکہ یہ ان کے دعوے کی تردید ہے۔ چنانچہ لفظ ’
کَلِمَۃ
‘ کی تنکیر سے قرآن نے واضح کردیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بیشمار کلمات میں سے حضرت مسیح بھی ایک کلمہ تھے۔ جس طرح اس عالم رنگ و بو کی ان گنت چیزیں محض کلمہ ’
کُنْ
‘ سے پیدا ہوئی ہیں ، اِسی طرح وہ بھی اسی کلمہ سے پیدا ہوئے تھے۔ یہ ان کی شخصیت کا بیان ہے کہ وہ اپنی ذات میں سرداری کی شان رکھنے والے ہوں گے۔ استاذ امام لکھتے ہیں : ”۔۔ نبی اپنی فطرت، اپنی دعوت اور اپنے مشن کے لحاظ سے سردار ہوتا ہے۔ وہ داعی بن کر لوگوں کو پکارتا، منذر بن کر لوگوں کو جگاتا اور ہادی و مرشد بن کر لوگوں کی رہنمائی کرتا ہے۔ اس کام کے لیے وہ قدرت کی طرف سے تمام لوازم و اسلحہ سے مسلح ہوتا ہے۔ اس کا سینہ خلق کے لیے شفقت و رأفت سے لبریز ہوتا ہے، اس کے کلام میں بےپناہ سطوت و جلالت ہوتی ہے ، اس کی آواز اور اس کے انداز میں ہیبت ہوتی ہے، اس کی تاب ناک پیشانی اس کی عظمت و صداقت کی گواہی دیتی ہے۔ اگرچہ وہ کمل کی پوشاک پہنتا ہو اور جنگلی شہد اور ٹڈیوں پر گزارہ کرتا ہو، لیکن اس کے رعب و دبدبہ سے بادشاہوں پر لرزہ طاری ہوتا ہے۔ وہ حق کے لیے ان کو بھی اسی طرح سرزنش کرتا ہے، جس طرح دوسروں کو کرتا ہے۔ انجیلوں میں حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ ، دونوں حضرات کے متعلق آتا ہے کہ وہ ’ با اختیار ‘ کی طرح بات کرتے تھے۔ ظاہر ہے کہ ان کے کلام میں بااختیاری کی یہ شان ان کی اس منصبی سرداری ہی کا ایک جلوہ تھی۔ اس کی تحویل میں قدرت کی طرف سے ایک گلہ بھی ہوتا ہے جس کی چرواہی اس کے سپرد کی جاتی ہے اور اس بات سے اس کی حیثیت عرفی میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا کہ گلے نے اس کی اطاعت کی یا نہیں کی ۔ اگر اس نے اپنا فرض ادا کیا تو اس نے سرداری کا حق ادا کردیا اور یہی اس سے مطلوب ہوتا ہے۔ “ ( تدبر قرآن ٢/ ٨١) اِس کنارہ کشی کی وجہ یہ تھی کہ یحییٰ و مسیح، دونوں بنی اسرائیل پر عذاب سے پہلے آخری اتمام حجت کے لیے آئے تھے۔ وہ اس بستی میں گھر کیا بناتے جو سیلاب کی زد میں تھی اور اس درخت کی بہار کیا دیکھتے جس کی جڑوں پر کلہاڑا رکھا ہوا تھا۔ ایک ایک دروازے پر دستک دے کر لوگوں کو آنے والے طوفان سے خبردار کرنے والے اپنا گھر بسانے اور اپنا کھیت اگانے میں لگ جاتے تو اپنے فرض سے کوتاہی کے مرتکب قرار پاتے۔ چنانچہ دونوں نے تجردو انقطاع کا طریقہ اختیار کیا، قوت لایموت پر اکتفا کی، درویشوں کا لباس پہنا اور زمین و آسمان ہی کو چھت اور بچھونا بنا کر زندگی بسر کرتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوگئے۔ یہ نصاریٰ کی بدقسمتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ان جلیل القدر پیغمبروں کی اس منصبی ذمہ داری کو سمجھنے کے بجائے انھوں نے اسے رہبانیت کا رنگ دیا اور پھر اسی کو دین کا اصلی مطالبہ قرار دے کر رہبانیت کا ایک پورا نظام کھڑا کردیا۔ ہمارے ہاں بھی صوفیوں نے پیغمبروں کی زندگی میں اسی طرح کی بعض چیزوں کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بہت سے اجنبی تصورات دین میں داخل کردیے ہیں اور اب گزشتہ کئی صدیوں سے علما کو بھی ان سے متاثر کرلینے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ یعنی ان اوصاف و کمالات کے ساتھ وہ زمرہ صالحین میں سے ایک پیغمبر بھی ہوگا جسے اللہ تعالیٰ لوگوں کی رہنمائی کے لیے مبعوث فرمائے گا۔
قَالَ رَبِّ اَنّٰی یَکُوۡنُ لِیۡ غُلٰمٌ وَّ قَدۡ بَلَغَنِیَ الۡکِبَرُ وَ امۡرَاَتِیۡ عَاقِرٌ ؕ قَالَ کَذٰلِکَ اللّٰہُ یَفۡعَلُ مَا یَشَآءُ ﴿۴۰﴾ یہ لفظ واحد اس لیے آیا ہے کہ کوئی متعین فرشتہ یا فرشتوں کی جماعت حضرت زکریا کے سامنے نہیں آئی، بلکہ ایک غیبی آواز تھی جو انھیں سنائی دی۔ یعنی اسباب تو محض ظاہر کا پردہ ہیں۔ اصلی چیز اللہ تعالیٰ کا ارادہ ہے۔ وہ چاہے تو دریا کو سراب بنا دے اور چاہے تو صحرا سے حباب اٹھادے۔ اس کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔
قَالَ رَبِّ اجۡعَلۡ لِّیۡۤ اٰیَۃً ؕ قَالَ اٰیَتُکَ اَلَّا تُکَلِّمَ النَّاسَ ثَلٰثَۃَ اَیَّامٍ اِلَّا رَمۡزًا ؕ وَ اذۡکُرۡ رَّبَّکَ کَثِیۡرًا وَّ سَبِّحۡ بِالۡعَشِیِّ وَ الۡاِبۡکَارِ ﴿٪۴۱﴾ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زکریا کا گمان تو اگرچہ یہی تھا کہ یہ بشارت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، لیکن دل کے کسی گوشے میں یہ کھٹک ضرور تھی کہ ممکن ہے یہ اپنے ہی گنبد دل کی صدا اور اپنی ہی آرزوؤں کے ہجوم میں شیطان کا کوئی القا ہو جسے وہ فرشتوں کا الہام سمجھ بیٹھے ہیں۔ یہ چیز، ظاہر ہے کہ شیطانی تصرف کے ہر امکان کو ختم کردیتی۔ استاذ امام لکھتے ہیں : ”۔۔ کسی شیطانی اثر سے یہ بات پیدا ہوتی تو اس کا نتیجہ اس کے بالکل برعکس ظاہر ہونا تھا، یعنی آدمی اپنی دنیا داری کی باتیں تو کرسکتا، لیکن اللہ اللہ کرنا اس پر شاق گزرتا۔ اگر حضرت زکریا پر یہ حالت غیر اختیاری طور پر طاری کردی گئی تو یقیناًیہ اس بات کی ایک قطعی نشانی تھی کہ ان کو بیٹے کی جو بشارت ملی ہے ، من جانب اللہ ہے ، اس میں شیطانی دھوکے کو کوئی دخل نہیں ہے۔ قرآن نے یہاں ضمناً اس بات کی تردید بھی کردی جو انجیل لوقا میں بیان ہوئی ہے کہ حضرت زکریا کو جو یہ حالت پیش آئی، وہ ان کے اس جرم کی سزا کے طور پر تھی کہ انھوں نے فرشتے کی بات کا اعتبار نہ کیا اور سوال کر بیٹھے کہ مجھے اس کی کوئی نشانی دی جائے۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٨٣)
وَ اِذۡ قَالَتِ الۡمَلٰٓئِکَۃُ یٰمَرۡیَمُ اِنَّ اللّٰہَ اصۡطَفٰکِ وَ طَہَّرَکِ وَ اصۡطَفٰکِ عَلٰی نِسَآءِ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۴۲﴾ یعنی لوگوں سے الگ کرکے تمہاری خاص تربیت کردی ہے تاکہ آنے والے مراحل میں حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے تم اپنے آپ کو تیار کرلو۔ یعنی سیدنا مسیح (علیہ السلام) کی ولادت کے لیے منتخب کرلیا ہے جو بنی اسرائیل پر اتمام حجت کے لیے فی الواقع اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نشانی بن کر آئے تھے۔ اس میں شبہ نہیں کہ سیدہ مریم کے لیے یہ ایک ایسا شرف ہے جس میں ان کا کوئی شریک وسہیم نہیں ہے۔
یٰمَرۡیَمُ اقۡنُتِیۡ لِرَبِّکِ وَ اسۡجُدِیۡ وَ ارۡکَعِیۡ مَعَ الرّٰکِعِیۡنَ ﴿۴۳﴾ اپنے پروردگار کی فرمان برداری میں لگے رہنے کی جو ہدایت اس سے پہلے ہوئی ہے، یہ اس کے اجمال کی تفصیل بھی ہے اور اس نماز باجماعت کی تصویر بھی جس کی سعادت سیدہ مریم کو ہیکل میں معتکف ہونے کی وجہ سے ہمہ وقت حاصل تھی۔ پھر یہ بھی ملحوظ رہے کہ نماز کو یہاں رکوع و سجود سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس سے اگر غور کیجیے تو
استغراق وانہماک اور تبتل الی اللہ
کی وہ کیفیت سامنے آتی ہے جو نماز کا اصلی حسن ہے۔ قرآن نے یہ اسلوب جگہ جگہ نماز کے اسی پہلو کو نمایاں کرنے کے لیے اختیار کیا ہے۔
ذٰلِکَ مِنۡ اَنۡۢبَآءِ الۡغَیۡبِ نُوۡحِیۡہِ اِلَیۡکَ ؕ وَ مَا کُنۡتَ لَدَیۡہِمۡ اِذۡ یُلۡقُوۡنَ اَقۡلَامَہُمۡ اَیُّہُمۡ یَکۡفُلُ مَرۡیَمَ ۪ وَ مَا کُنۡتَ لَدَیۡہِمۡ اِذۡ یَخۡتَصِمُوۡنَ ﴿۴۴﴾ اثناے کلام میں یہ نبی (
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
) کی طرف التفات ہے اور مقصود اس سے مخاطبین کو اس بات کی طرف توجہ دلانا ہے کہ وحی والہام کے بغیر آپ یہ واقعات اس صحت و صداقت کے ساتھ ہرگز نہیں سنا سکتے تھے، اس لیے کہ اہل کتاب کی تاریخ کا یہ حصہ بائیبل میں بھی تقریباً غائب ہی ہے۔ بائیبل سے معلوم ہوتا ہے کہ ہیکل میں ذمہ داریوں کا فیصلہ بالعموم قرعے سے کیا جاتا تھا، لیکن اس موقع پر جھگڑے کی وجہ غالباً یہ ہوئی کہ سیدہ مریم کے بارے میں قبولیت کے جو آثار پہلے دن سے نمایاں تھے، انھیں دیکھ کر ہیکل کے خدام میں سے کوئی بھی اس سعادت سے محروم نہیں رہنا چاہتا تھا۔
اِذۡ قَالَتِ الۡمَلٰٓئِکَۃُ یٰمَرۡیَمُ اِنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَۃٍ مِّنۡہُ ٭ۖ اسۡمُہُ الۡمَسِیۡحُ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ وَجِیۡہًا فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ وَ مِنَ الۡمُقَرَّبِیۡنَ ﴿ۙ۴۵﴾ سیدہ مریم کے لیے یہ بغیر کسی مرد کی ملاقات کے بچے کی پیدایش کی بشارت ہے۔ لیکن صرف لفظ فرمان کے ساتھ اس بشارت کی ابتدا اس لیے کی گئی ہے کہ معاملے کی نوعیت بھی ان پر واضح رہے اور ایک کنواری اور شرم وحیا کی پیکر خاتون اس بات کو سننے کے لیے بھی تیار ہوجائے جو اسے کہنا پیش نظر ہے۔ یہ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کا لقب ہے۔ بنی اسرائیل کے یہاں روایت تھی کہ نبیوں اور بادشاہوں کو ان کے منصب پر مامور کرنے کا اعلان بالعموم اُ ن کے سر پر ایک قسم کا مقدس تیل مل کر کیا جاتا تھا۔ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کے لیے یہ اعلان ان کی پیدایش کے فوراً بعد گہوارے ہی میں گویا براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوا۔ چنانچہ مسیح کا یہ لقب انھی کے لیے خاص ہوگیا۔ انجیل میں اسی بنا پر انھیں ” خداوند کا مسیح “ کہا گیا ہے۔ یعنی وہ کسی باپ کا بیٹا نہیں ہوگا۔ استاذ امام کے الفاظ میں سیدنا مسیح (علیہ السلام) کو ابن مریم کہہ کر یہ قرآن نے ان لوگوں کے لیے گفتگو کی ہر گنجایش ختم کردی ہے جو کمزور تاویلات کے ذریعے سے قرآن کے نہایت واضح نصوص میں تحریف کرنا چاہتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں :”۔۔ اگر حضرت عیسیٰ کسی باپ کے بیٹے تھے تو آخر قرآن کو مسیح بن مریم کہنے کے بجائے ان کے باپ کی طرف ان کی نسبت کرنے میں کیا رکاوٹ تھی ؟ قرآن بھی مسیح بن یوسف کہہ سکتا تھا، لیکن اس نے ایسا نہیں کہا۔ آخر کیوں نہیں کہا ؟ “ (تدبر قرآن ٢/ ٩٣) یہ وہی وجاہت ہے جس کا ذکر اس سے پہلے سیدنا یحییٰ (علیہ السلام) کے بیان میں ہوچکا ہے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اس کے مختلف پہلوؤں کی وضاحت اس طرح فرمائی ہے : ”۔۔ لوقا کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ١٢ سال کی عمر میں حضرت مسیح نے پہلی بارہیکل میں تعلیم دی ، لیکن اس کم سنی کے باوجود ان کی تعلیم کی حکمت و معرفت، کلام کی بلاغت و جزالت اور لب و لہجہ کی عظمت و جلالت کا عالم یہ تھا کہ فقیہ اور فریسی، سردار کاہن اور ہیکل کا تمام عملہ دم بخود رہ گیا۔ وہ حیرانی کے عالم میں ایک ایک سے پوچھتے پھرتے تھے کہ یہ کون ہے جو اس شکوہ سے بات کرتا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ آسمان سے اس کو اختیار ملاہوا ہے۔ یہود یہ کی بستیوں میں جب انھوں نے تبلیغ شروع کی تو ایک سرے سے دوسرے سرے تک ہلچل مچ گئی۔ خلقت ان پر ٹوٹی پڑتی تھی۔ فقیہ اور فریسی سب پر ایک سراسیمگی کا عالم تھا، وہ ان کو زچ کرنے اور عوام میں ان کی مقبولیت کم کرنے کے لیے ان سے طرح طرح کے سوالات کرتے، لیکن سیدنا مسیح دو دو لفظوں میں ان کو ایسے دندان شکن جواب دیتے کہ پھر ان کو زبان کھولنے کی جرات نہ ہوتی۔ تھوڑے ہی دنوں میں ان کی وجاہت کا یہ غلغلہ ہوا کہ عوام ان کو اسرائیل کا بادشاہ کہنے اور ان کی بادشاہی کے گیت گانے لگے، یہاں تک کہ رومی حکام ہیرو دیس اور پیلاطوس کے سامنے بھی یہ مسئلہ ایک نہایت اہم مسئلہ کی حیثیت سے آگیا ، لیکن وہ بھی اپنی تمام قوت و جبروت کے باوجود سیدنا مسیح کی عظمت و صداقت اور ان کی بےپناہ مقبولیت سے مرعوب ہوگئے۔ اِس وجاہت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ باوجودیکہ سیدنا مسیح بن باپ کے پیدا ہوئے اور بن باپ کے پیدا ہونے والے کسی بچے کے لیے عام حالات میں کسی عزت ووجاہت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ، لیکن سیدنا مسیح چونکہ اللہ تعالیٰ کے کلمہ ’
کُنْ
‘ سے پیدا ہوئے تھے، اس وجہ سے اس کا معجزانہ اثر یہ ظاہر ہوا کہ روز اول سے ان کو خلق کی نگاہوں میں وہ وجاہت حاصل رہی جو اس عہد میں کسی کو بھی حاصل نہیں ہوئی۔ وہ زندگی بھر اپنے جانی دشمنوں میں گھرے رہے ، لیکن اس پہلو سے کسی کو ان پر طعن کرنے کی جرات نہیں ہوئی ۔ یہود کے ایک گروہ نے اگر جسارت بھی کی تو بعد کے زمانوں میں کی، ان کے عہد مبارک میں کسی کو بھی اس قسم کی جرات نہ ہوسکی۔ ان کی اس وجاہت کی بشارت ان کی ولادت کی بشارت کے ساتھ ہی حضرت مریم کو اس لیے دی گئی کہ ان کو اس پہلو سے کوئی خلجان نہ ہو کہ بن باپ کے پیدا ہونے کے سبب سے بچے کی یا خود ان کی وجاہت پر کوئی اثر پڑے گا۔ اِس کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ اس سے ان تمام خرافات کی تردید ہورہی ہے جو انجیلوں میں مذکور ہیں کہ یہودیوں نے سیدنا مسیح کے نعوذ باللہ طمانچے لگائے، ان کا مذاق اڑایا، ان کو گالیاں دیں، ان کے منہ پر تھوکا۔ اِن خرافات کا اکثر حصہ، جیسا کہ ہم آگے واضح کریں گے، غلط ہے۔ اللہ کے رسولوں کے دشمن ان کی توہین و تحقیر کی جسارت تو کرتے ہیں اور اس سلسلے میں ایک حد تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو ڈھیل بھی مل جاتی ہے ، لیکن یہ ڈھیل بس ایک خاص حد تک ہی ہوتی ہے ، جب کوئی قوم اس حد سے آگے بڑھنے کی جسارت کرتی ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو اپنی حفاظت میں لے لیتا ہے اور اس ناہنجار قوم کا بیڑا غرق کردیا جاتا ہے۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٩٢)
وَ یُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الۡمَہۡدِ وَ کَہۡلًا وَّ مِنَ الصّٰلِحِیۡنَ ﴿۴۶﴾ مسیح (علیہ السلام) کے معاملے میں یہ غیر معمولی واقعہ اس لیے ہوا کہ سیدہ مریم پر کسی تہمت کی گنجایش نہ رہے اور انھیں یہ بشارت اسی موقع پر اس لیے دی گئی کہ وہ مطمئن ہوجائیں کہ لوگوں کے ان کے خلاف زبان کھولنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ ایک ایسی زبان ان کے حق میں کھول دے گا جو سب کی زبانیں بند کردے گی۔ یعنی اس کے بعد وہ بڑی عمر کو پہنچے گا اور نبوت کا یہی کلام اپنی قوم سے کرے گا۔