ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
ذٰلِکَ نَتۡلُوۡہُ عَلَیۡکَ مِنَ الۡاٰیٰتِ وَ الذِّکۡرِ الۡحَکِیۡمِ ﴿۵۸﴾ یہ خاتمہ بحث کے موقع پر نبی (
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
) کی طرف التفات ہے تاکہ مخاطبین جو رویہ اختیار کر رہے ہیں، اس کے مقابل میں آپ کو تسلی دی جائے کہ سیدنا مسیح (علیہ السلام) کے بارے میں حق وہی ہے جو آپ کو بتایا جارہا ہے۔ نصاریٰ کے تصنیف کردہ اساطیر اس کے برخلاف محض گمراہی ہیں، ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
اِنَّ مَثَلَ عِیۡسٰی عِنۡدَ اللّٰہِ کَمَثَلِ اٰدَمَ ؕ خَلَقَہٗ مِنۡ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ ﴿۵۹﴾ یعنی آدم (علیہ السلام) اگر ماں باپ ، دونوں کے بغیر پیدا ہو کر معبود نہیں بن گئے تو سیدنا مسیح کو یہ لوگ آخر کیوں معبود بنا بیٹھے ہیں ؟
اَلۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّکَ فَلَا تَکُنۡ مِّنَ الۡمُمۡتَرِیۡنَ ﴿۶۰﴾ اصل الفاظ ہیں : ’
اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ
‘۔ اس جملے میں مبتدا محذوف ہے۔ یہ اس موقع پر کیا جاتا ہے، جب مخاطب کی ساری توجہ خبر پر مرکوز کرانا پیش نظر ہو۔ اِس میں خطاب ، بظاہر نبی (
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
) سے ہے، لیکن روے سخن ، اگر غور کیجیے تو عام مسلمانوں کی طرف ہے کہ انھیں اب اس معاملے میں کوئی شبہ نہیں رہنا چاہیے کہ سیدنا مسیح (علیہ السلام) سے متعلق اصل حقیقت یہی ہے جو قرآن نے بیان کردی ہے۔ اس کے علاوہ جو کچھ ہے ، وہ سب نصاریٰ کی افسانہ طرازی ہے۔ چنانچہ جملے میں جو عتاب محسوس ہوتا ہے، اس کا تعلق انھی افسانہ طرازی کرنے والوں سے ہے۔
فَمَنۡ حَآجَّکَ فِیۡہِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَکَ مِنَ الۡعِلۡمِ فَقُلۡ تَعَالَوۡا نَدۡعُ اَبۡنَآءَنَا وَ اَبۡنَآءَکُمۡ وَ نِسَآءَنَا وَ نِسَآءَکُمۡ وَ اَنۡفُسَنَا وَ اَنۡفُسَکُمۡ ۟ ثُمَّ نَبۡتَہِلۡ فَنَجۡعَلۡ لَّعۡنَتَ اللّٰہِ عَلَی الۡکٰذِبِیۡنَ ﴿۶۱﴾ یہ جملہ اصل میں جس طرح آیا ہے، اس میں عربی زبان کے اسلوب کے مطابق بعض چیزیں حذف ہوگئیں ہیں۔ اُنھیں ظاہر کردیا جائے تو پوری بات گویا اس طرح ہے : ’
ندع نحن ابناء نا وانتم ابنائکم، ونحضر نحن انفسنا وانتم انفسکم، ثم نبتھل نحن وانتم ‘
۔ ہم نے ترجمے میں انھیں کھول دیا ہے۔ اصل میں لفظ ’
نَبْتَھِلْ
‘ آیا ہے۔ اس کے معنی دعا اور تضرع کے ہیں ، لیکن اس کے ساتھ ترک کا جو مفہوم اس میں پایا جاتا ہے، اس کے باعث یہ ایک دوسرے پر لعنت کی بددعا کے لیے معروف ہوگیا ہے۔ اِس طرح کی بددعا سے حق و باطل کے فیصلے کا چیلنج وہی دے سکتا ہے جسے اپنے موقف کی صحت و صداقت کا پورا یقین ہو۔ چنانچہ نبی (
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
) کی طرف سے یہ چیلنج نصاریٰ کو اسی اذعان کے ساتھ دیا گیا، مگر تاریخ سے ثابت ہے کہ انھوں نے اسے قبول کرنے کی جرات نہیں کی جس سے یہ بات آخری درجے میں واضح ہوگئی کہ وہ خودبھی اپنے موقف کو صحیح نہیں سمجھتے تھے، بلکہ محض بات کی پچ اور اپنی ہٹ دھرمی کی آن قائم رکھنے کے لیے اس پر اڑے ہوئے تھے۔
اِنَّ ہٰذَا لَہُوَ الۡقَصَصُ الۡحَقُّ ۚ وَ مَا مِنۡ اِلٰہٍ اِلَّا اللّٰہُ ؕ وَ اِنَّ اللّٰہَ لَہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۶۲﴾ یعنی الوہیت صرف اللہ ہی کو سزا وار ہے۔ اس میں مسیح کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ ان کا جو درجہ و مرتبہ بھی ہے ، اللہ کے ایک بندے اور اس کے رسول کی حیثیت سے ہے۔
قُلۡ یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ تَعَالَوۡا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآءٍۢ بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَکُمۡ اَلَّا نَعۡبُدَ اِلَّا اللّٰہَ وَ لَا نُشۡرِکَ بِہٖ شَیۡئًا وَّ لَا یَتَّخِذَ بَعۡضُنَا بَعۡضًا اَرۡبَابًا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ ؕ فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَقُوۡلُوا اشۡہَدُوۡا بِاَنَّا مُسۡلِمُوۡنَ ﴿۶۴﴾ یہ خطاب اگرچہ عام ہے، لیکن پیچھے کے مضمون سے واضح ہے کہ روے سخن نصاریٰ کی طرف زیادہ ہے۔ قرآن نے یہ دعوت ٹھیک اس طریقے کے مطابق دی ہے جس کی تلقین اس نے خود فرمائی ہے کہ اللہ کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ذریعے سے بلانا چاہیے۔ استاذ امام لکھتے ہیں : ”۔۔ اس طریقہ حکمت کا ایک خاص پہلو یہ ہے کہ اگر مخاطب سے بحث کے لیے کوئی مشترک بنیاد مل سکتی ہو تو اسی پر گفتگو کو آگے بڑھایا جائے، خواہ مخواہ اپنی انفرادیت کی دھونس جمانے کی کوشش نہ کی جائے۔ چنانچہ قرآن نے یہاں یہی طریقہ اختیار فرمایا ہے۔ اہل کتاب آسمانی صحیفوں کے حامل ہونے کے سبب سے توحید کی تعلیم سے اچھی طرح آشنا بھی تھے اور اس کے علم بردار ہونے کے مدعی بھی تھے۔ ان کے صحیفوں میں نہایت واضح الفاظ میں توحید کی تعلیم موجود تھی۔ انھوں نے اگر شرک اختیار کیا تھا تو اس وجہ سے نہیں کہ ان کے دین میں شرک کے لیے کوئی گنجایش تھی ، بلکہ اپنے نبیوں اور صحیفوں کی تعلیمات کے بالکل خلاف محض بدعت کی راہ سے انھوں نے یہ چیز اختیار کی اور پھر متشابہات کی پیروی کرکے ، جیسا کہ ہم اوپر اشارہ کر آئے ہیں، اس کے حق میں الٹی سیدھی دلیلیں گھڑنے کی کوشش کی۔ قرآن نے ان کو دعوت دی کہ یہ بات ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں مسلم ہے کہ اللہ کے سوا نہ کسی کی بندگی کی جائے، نہ اس کا کسی کو ساجھی ٹھیرایا جائے اور نہ ہم میں سے کوئی ایک دوسرے کو رب ٹھیرائے، پھر اس مسلم و مشترک حقیقت کے برخلاف تم نے خدا کی عبادت میں دوسروں کو شریک کیوں بنا رکھا ہے اور اپنے احبارو رہبان اور فقیہوں صوفیوں کو ’
اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ
‘ کا درجہ کیوں دے دیا۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ١١٢) یعنی اپنے عقائد کا جائزہ لیں اور جو باتیں محض بدعات ومتشابہات کی پیروی میں عقیدہ بنا لی گئی ہیں، انھیں چھوڑ کر توحید خالص کو اختیار کریں جس کی تعلیم تمام انبیاعلیہم السلام نے دی ہے۔ یہاں خاص طور پر یہ بات جو آئی ہے کہ ہم میں سے کوئی ایک دوسرے کو اللہ کے سوا اپنا رب نہ بنائے، اس سے اشارہ تحلیل و تحریم کے ان اختیارات کی طرف ہے جو اہل کتاب نے اپنے احبارو رہبان کو دے رکھے تھے۔ اس لیے کہ کسی کو اپنی ذات میں شارع و حاکم سمجھ کر اس کی اطاعت بھی درحقیقت اس کی عبادت ہی ہے۔ قرآن نے ایک دوسرے مقام پر وضاحت فرمائی ہے کہ یہ انھیں رب بنادینا ہے۔ یہ اظہار برأت کے الفاظ ہیں۔ یعنی اس بات کے گواہ رہو کہ ہم نے اپنا فرض ادا کردیا اور تمہیں بتادیا کہ اسلام کی حقیقت یہی توحید ہے۔ اس سے محرومی کے بعد کسی شخص کو خدا حاصل نہیں ہوسکتا۔
یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ لِمَ تُحَآجُّوۡنَ فِیۡۤ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَتِ التَّوۡرٰىۃُ وَ الۡاِنۡجِیۡلُ اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِہٖ ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ ﴿۶۵﴾ یہودو نصاریٰ اور مشرکین ، تینوں ہی اپنی گمراہیوں کی حمایت میں سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کا نام استعمال کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ یہ قرآن نے ان کے اس جھگڑے کا حوالہ دیا ہے کہ ان میں سے ہر کوئی یہ کہتا ہے کہ ابراہیم ہمارے طریقے پر تھے، دراں حالیکہ توراۃ اور انجیل، دونوں ان کے صدیوں بعد نازل ہوئی ہیں، پھر وہ یہودیت یا نصرانیت پر کس طرح ہوسکتے ہیں ؟ فرمایا ہے کہ حق کی عداوت کا یہ کیسا جنون ہے کہ اتنی سی بات بھی ان لوگوں کی سمجھ میں نہیں آرہی ہے۔
مَا کَانَ اِبۡرٰہِیۡمُ یَہُوۡدِیًّا وَّ لَا نَصۡرَانِیًّا وَّ لٰکِنۡ کَانَ حَنِیۡفًا مُّسۡلِمًا ؕ وَ مَا کَانَ مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ﴿۶۷﴾ یعنی اپنے پروردگار کا فرمان بردار اور پورییک سوئی کے ساتھ توحید کی راہ پر گامزن تھا۔ اس سے ہٹ کر کج پیچ کے یہ مشرکانہ راستے اس نے کبھی اختیار نہیں کیے تھے۔ یعنی ابراہیم (علیہ السلام) کو جس طرح یہودیت اور نصرانیت سے کوئی تعلق نہ تھا ، اسی طرح بنی اسماعیل کے ان مشرکین سے بھی کوئی واسطہ نہ تھا ۔ استاذ امام لکھتے ہیں : ”۔۔ یہ بات جملے کے عام سیاق سے الگ کرکے اس لیے فرمائی کہ یہ مشرکین بنی اسماعیل کی تردید میں ہے جو اس سورة میں براہ راست مخاطب نہیں ہیں۔ اس سورة کا خطاب ، جیسا کہ اوپر وضاحت ہوچکی ہے ، اہل کتاب بالخصوص نصاریٰ سے ہے، مشرکین کی تردید میں اگر اس میں کوئی بات آئی ہے تو وہ ضمناً ہی آئی ہے۔ یہ بات بھی ضمنی باتوں ہی میں سے ہے، اوراس کے ذکر کی ضرورت ، جیسا کہ ہم نے اوپر اشارہ کیا، اس لیے تھی کہ جس طرح یہود اور نصاریٰ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے نام کو اپنی گمراہیوں کی تائید میں پیش کرتے تھے ، اسی طرح ، بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ زورو شور کے ساتھ قریش کے مشرکین ان کے نام کو اپنی حمایت میں پیش کرتے تھے ، بلکہ ان کا تو یہ دعویٰ تھا کہ جس دین پر وہ ہیں، یہ دین ان کو حضرت ابراہیم ہی سے وراثت میں ملا ہے۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ١١٥)
اِنَّ اَوۡلَی النَّاسِ بِاِبۡرٰہِیۡمَ لَلَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُ وَ ہٰذَا النَّبِیُّ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ؕ وَ اللّٰہُ وَلِیُّ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۶۸﴾ یعنی ساتھی ہے تو یقیناً اِن کی مدد بھی کرے گا اور ان کے مخالفوں پر انھیں غلبہ بھی عطا فرمائے گا۔
یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ لِمَ تَکۡفُرُوۡنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَ اَنۡتُمۡ تَشۡہَدُوۡنَ ﴿۷۰﴾ یعنی ان میں جو حقائق بیان ہوتے ہیں، انھیں تم پہلے سے جانتے ہو اور دنیا کے آگے ان کی شہادت دینے کا اقرار کرچکے ہو۔