ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
یَسۡتَبۡشِرُوۡنَ بِنِعۡمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ فَضۡلٍ ۙ وَّ اَنَّ اللّٰہَ لَا یُضِیۡعُ اَجۡرَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۱۷۱﴾ۚ٪ۛ اِن آیتوں پر غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ ان کے ذریعے سے قرآن نے نہایت بلاغت کے ساتھ وہ تمام اثرات مٹا دیے ہیں جو منافقین مسلمانوں، بالخصوص شہدا کے پس ماندگان کے دلوں میں پیدا کرنا چاہتے تھے۔
اَلَّذِیۡنَ اسۡتَجَابُوۡا لِلّٰہِ وَ الرَّسُوۡلِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَاۤ اَصَابَہُمُ الۡقَرۡحُ ؕۛ لِلَّذِیۡنَ اَحۡسَنُوۡا مِنۡہُمۡ وَ اتَّقَوۡا اَجۡرٌ عَظِیۡمٌ ﴿۱۷۲﴾ۚ یہ اس مہم کا ذکر ہے جس کی منادی اللہ و رسول کی طرف سے احد کی جنگ کے بعد دشمن کے تعاقب کے لیے کی گئی۔ استاذ امام لکھتے ہیں :”۔۔ تاریخ و سیرت کی کتابوں میں بیان ہوا ہے کہ احد میں مسلمانوں کی شکست کے بعد قریش کی فوج اول اول تو واپس چلی گئی، لیکن روحاء کے مقام تک پہنچنے کے بعد ابو سفیان اور ان کے ساتھیوں کو احساس ہوا کہ انھوں نے اس قدر جلد واپس ہونے میں سخت غلطی کی ہے، لگے ہاتھوں انھیں مدینے کا قصہ بھی پاک کردینا تھا۔ یہ سوچ کر انھوں نے اپنی فوج کی ازسرنو تنظیم شروع کردی اور ادھر مسلمانوں کو ہراساں کرنے کے لیے منافقین کے ذریعے سے یہ افواہ پھیلا دی گئی کہ قریش نئے ساز و سامان سے مدینے پر حملہ کرنے کے لیے تیاریاں کر رہے ہیں۔ حضور کو جب اس کی اطلاع پہنچی تو آپ نے بھی لوگوں کو قریش کے تعاقب کے لیے تیار ہوجانے کا حکم دے دیا۔ اس فوج میں صرف انھی لوگوں کو شامل ہونے کی اجازت دی گئی جو پہلے روز کی جنگ میں شریک رہے تھے۔ یہ احتیاط غالباً اس لیے کی گئی کہ منافقین کے لوث سے یہ لشکر پاک رہے۔ چنانچہ حضور جاں نثاروں کی ایک جماعت کے ساتھ ابو سفیان کے تعاقب میں نکلے اور حمراء الاسد تک گئے جو مدینہ سے ٨ میل کے فاصلے پر ہے۔ ابو سفیان نے جب دیکھا کہ ابھی مسلمانوں کے حوصلے میں کوئی فرق نہیں آیا ہے تو ارادہ بدل دیا اور مسلمان کامیاب وبامراد واپس آگئے۔ “*(تدبر قرآن ٢/ ٢١٦) اصل میں ’
لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا مِنْھُمْ وَاتَّقَوْا
‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں ’
اِحْسَان
‘ سے مراد اللہ و رسول کی وفاداری کے حق کو بہتر سے بہتر صورت میں ادا کرنا ہے اور ’
تَقْوٰی
‘ کے معنی نفاق کی تمام آلایشوں سے بچنے کے ہیں۔ تاریخ الامم والملوک، الطبری ٢/ ٧٤۔ الکامل فی التاریخ، ابن الاثیر ٢/ ٥٢۔ السیرۃ النبویہ، ابن ہشام ٣/ ٤٤۔
اَلَّذِیۡنَ قَالَ لَہُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدۡ جَمَعُوۡا لَکُمۡ فَاخۡشَوۡہُمۡ فَزَادَہُمۡ اِیۡمَانًا ٭ۖ وَّ قَالُوۡا حَسۡبُنَا اللّٰہُ وَ نِعۡمَ الۡوَکِیۡلُ ﴿۱۷۳﴾ یہ بات بھی، ظاہر ہے کہ مسلمانوں کو ہراساں کرنے کے لیے کہی گئی، لیکن ان کے عزم و جزم میں اس سے کوئی فرق نہیں آیا۔ استاذ امام لکھتے ہیں :”۔۔ یہ خبر بجائے اس کے کہ ان کے اندر خوف وہراس پیدا کرتی، ان کے عزم و ایمان کو بڑھانے کا سبب بن گئی۔ قاعدہ ہے کہ جس کنوئیں کے سوتے زوردار ہوں، اس کے اندر سے جتنا ہی پانی نکالا جائے، اتنا ہی اس کے سوتے اور زیادہ جوش کے ساتھ ابلتے ہیں۔ اسی طرح آگ اگر قوت ور ہو تو گیلی لکڑی بھی اس میں ڈالیے تو اس کو بھی اپنی غذا بنا کر مزید طاقتور بن جاتی ہے۔ یہی حال اصحاب عزم و ایمان کا ہے۔ ان کو بھی رکاوٹیں ضعیف کرنے کے بجائے اور زیادہ پر عزم اور پر حوصلہ بنا دیتی ہیں۔ ہر آزمائش ان کی مخفی صلاحیتوں کے لیے مہمیز کا کام دیتی ہے اور ہر امتحان ان کے لیے فتح مندی کا ایک نیا میدان کھولتا ہے۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٢١٧)
اِنَّمَا ذٰلِکُمُ الشَّیۡطٰنُ یُخَوِّفُ اَوۡلِیَآءَہٗ ۪ فَلَا تَخَافُوۡہُمۡ وَ خَافُوۡنِ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ ﴿۱۷۵﴾ شیطان کے ساتھیوں سے مراد، ظاہر ہے کہ یہاں قریش اور ان کے اعوان و انصار ہیں۔
لن تنالوالبر : سورۃ آل عمران :
آیت 176-177-178
تفسیر موجود نہیں۔
مَا کَانَ اللّٰہُ لِیَذَرَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ عَلٰی مَاۤ اَنۡتُمۡ عَلَیۡہِ حَتّٰی یَمِیۡزَ الۡخَبِیۡثَ مِنَ الطَّیِّبِ ؕ وَ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُطۡلِعَکُمۡ عَلَی الۡغَیۡبِ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَجۡتَبِیۡ مِنۡ رُّسُلِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ ۪ فَاٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖ ۚ وَ اِنۡ تُؤۡمِنُوۡا وَ تَتَّقُوۡا فَلَکُمۡ اَجۡرٌ عَظِیۡمٌ ﴿۱۷۹﴾ اس لیے کہ رسول اللہ (
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
) کی طرف سے اتمام حجت کے بعد جزا و سزا کا جو فیصلہ ان کے لیے اسی دنیا میں صادر ہونے والا تھا، وہ اس کے بغیر نہیں ہوسکتا تھا۔ اس طرح کے کسی فیصلے کے لیے انصاف کا تقاضا یہی تھا کہ پہلے لوگوں کو ایمان و عمل کے لحاظ سے الگ الگ کردیا جائے۔
وَ لَا یَحۡسَبَنَّ الَّذِیۡنَ یَبۡخَلُوۡنَ بِمَاۤ اٰتٰہُمُ اللّٰہُ مِنۡ فَضۡلِہٖ ہُوَ خَیۡرًا لَّہُمۡ ؕ بَلۡ ہُوَ شَرٌّ لَّہُمۡ ؕ سَیُطَوَّقُوۡنَ مَا بَخِلُوۡا بِہٖ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ وَ لِلّٰہِ مِیۡرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرٌ ﴿۱۸۰﴾٪ یہ اس لیے فرمایا ہے کہ منافقین جس طرح جان دینے سے جی چراتے تھے، اسی طرح مال کے معاملے میں بھی چور تھے اور اسے خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے لیے کسی طرح آمادہ نہیں ہوتے تھے۔
لَقَدۡ سَمِعَ اللّٰہُ قَوۡلَ الَّذِیۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّ اللّٰہَ فَقِیۡرٌ وَّ نَحۡنُ اَغۡنِیَآءُ ۘ سَنَکۡتُبُ مَا قَالُوۡا وَ قَتۡلَہُمُ الۡاَنۡۢبِیَآءَ بِغَیۡرِ حَقٍّ ۙ وَّ نَقُوۡلُ ذُوۡقُوۡا عَذَابَ الۡحَرِیۡقِ ﴿۱۸۱﴾ یہ منافقین کے اس استہزا کا ذکر ہے جو وہ قرآن کی دعوت انفاق کا کرتے تھے۔ قرآن جب یہ کہتا کہ کون ہے جو اللہ کو قرض دے تو یہ اس کا مذاق اڑاتے ہوئے کہتے کہ جی ہاں، اللہ ان دنوں بہت غریب ہوگئے ہیں، اس لیے وہ ہم امیروں سے قرض مانگ رہے ہیں۔ اصل الفاظ ہیں : ’
سَنَکْتُبُ مَا قَالُوْا
‘۔ یہ تہدید نہایت بلیغ ہے۔ استاذ امام نے اس کی بلاغت اس طرح واضح فرمائی ہے : ”۔۔ فن بلاغت کے اداشناس اندازہ کرسکتے ہیں کہ ان دو لفظوں کے اندر جو قہر و غضب چھپا ہوا ہے، اس کی تعبیر ہم عاجزوں کے قلم سے صفحوں میں بھی ممکن نہیں ہے۔ پھر اس سے زیادہ بلیغ بات یہ ہے کہ اسی پر عطف کردیا ہے ’
وَقَتْلَھُمُ الْاَنْبِیَآءَ بِغَیْرِ حَقٍّ
‘ کو ، یعنی ان کے ناحق قتل انبیاء کو بھی ہم نے لکھ رکھا ہے۔ یہ قتل انبیاء کا جرم، ظاہر ہے کہ یہود کا ہے۔ منافقین کے ایک قول اور یہود کے ایک فعل کو ایک ہی زمرے میں اس طرح شمار کرنا اور دونوں کے لیے ضمیر بھی ایک ہی استعمال کرنا یہاں دو باتوں پر دلیل ہے : ایک تو اس بات پر کہ یہ سنگین بات کہہ کر یہ منافقین یہود کی اسی برادری میں پھر جا شامل ہوئے ہیں جس سے نکل کر انھوں نے اسلام میں داخل ہونے کا ڈھونگ رچایا تھا۔ دوسری یہ کہ منافقین کا یہ استہزا اور یہود کا یہ عمل، دونوں ایسے سنگین جرائم ہیں کہ خدا ان کو بھولنے والا نہیں ہے، بلکہ وہ بھی ایک دن ان سے کہے گا کہ ’
ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ
‘، خدا کا یہ عذاب چکھو اور یہ عذاب جو کچھ بھی ہوگا، ان کے اعمال ہی کا ثمرہ و نتیجہ ہوگا، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ بندوں پر کسی قسم کا ظلم کرنے والا نہیں ہے۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٢١٩)
اَلَّذِیۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّ اللّٰہَ عَہِدَ اِلَیۡنَاۤ اَلَّا نُؤۡمِنَ لِرَسُوۡلٍ حَتّٰی یَاۡتِیَنَا بِقُرۡبَانٍ تَاۡکُلُہُ النَّارُ ؕ قُلۡ قَدۡ جَآءَکُمۡ رُسُلٌ مِّنۡ قَبۡلِیۡ بِالۡبَیِّنٰتِ وَ بِالَّذِیۡ قُلۡتُمۡ فَلِمَ قَتَلۡتُمُوۡہُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۱۸۳﴾ اس سے پہلے منافقین کے ذکر سے بات یہود کے ذکر تک پہنچ گئی تھی، اس لیے یہ ان کی ایک شرارت کا حوالہ دے کر اس کی بھی تردید فرما دی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں :” یہود کی جس شرارت کا حوالہ دیا ہے، وہ یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو چپ کرنے کے لیے یہ کہتے کہ ہمیں تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ ہدایت ہے کہ ہم کسی شخص کے دعویٰ رسالت کی اس وقت تک تصدیق ہی نہ کریں، جب تک اس سے یہ معجزہ نہ صادر ہو کہ وہ ایسی قربانی پیش کرے جس کو کھانے کے لیے قبولیت کے نشان کے طور پر آسمان سے آگ اترے۔ یہ بات یہود محض شرارت کی وجہ سے کہتے تھے۔ تو رات میں بعض انبیاء سے اس معجزے کا صادر ہونا مذکور ہے۔ مثلاً سلاطین ١٨: ٣٧۔ ٣٨ میں ایلیا نبی کے متعلق اور تواریخ ٧: ١ میں حضرت سلیمان کے متعلق، لیکن یہ کہیں مذکور نہیں ہے کہ یہ معجزہ لوازم و شرائط نبوت میں سے ہے، جب تک کوئی نبی یہ معجزہ نہ دکھائے، اس کا دعویٰ نبوت ہی قابل غور نہیں، بالخصوص آخری نبی سے متعلق تو ان کے ہاں جو پیشین گوئیاں ہیں، وہ اس قسم کے تکلفات سے بالکل ہی خالی ہیں۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٢٢٠)
فَاِنۡ کَذَّبُوۡکَ فَقَدۡ کُذِّبَ رُسُلٌ مِّنۡ قَبۡلِکَ جَآءُوۡ بِالۡبَیِّنٰتِ وَ الزُّبُرِ وَ الۡکِتٰبِ الۡمُنِیۡرِ ﴿۱۸۴﴾ اصل میں یہاں تین لفظ استعمال ہوئے ہیں : بینات، زبر اور کتاب منیر۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے ان کی وضاحت اس طرح فرمائی ہے :”’ بینات ‘ کے معنی واضح اور روشن کے ہیں۔ یہ لفظ آیات کی صفت کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ قرآن میں جہاں کہیں یہ لفظ تنہا بغیر موصوف کے استعمال ہوا ہے، دو معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ واضح اور مسکت دلائل کے معنی میں یا حسی معجزات کے معنی میں۔ ’ زبر ‘ زبور کی جمع ہے۔ اس کے معنی ٹکڑے، قطعے اور صحیفے کے ہیں۔ مزامیر داؤد کے لیے اس کا استعمال معروف ہے۔ یہاں اس سے مراد انبیاء کے وہ صحائف ہیں جو توراۃ کے مجموعہ میں شامل ہیں۔’ کتاب منیر ‘ سے مراد توراۃ ہے۔ قرآن سے پہلے کی نازل شدہ چیزوں میں سے توراۃ ہی ہے جو اس لفظ کا اصلی مصداق ہوسکتی ہے۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٢٢١)
لَتُبۡلَوُنَّ فِیۡۤ اَمۡوَالِکُمۡ وَ اَنۡفُسِکُمۡ ۟ وَ لَتَسۡمَعُنَّ مِنَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ وَ مِنَ الَّذِیۡنَ اَشۡرَکُوۡۤا اَذًی کَثِیۡرًا ؕ وَ اِنۡ تَصۡبِرُوۡا وَ تَتَّقُوۡا فَاِنَّ ذٰلِکَ مِنۡ عَزۡمِ الۡاُمُوۡرِ ﴿۱۸۶﴾ یہ ان آزمائشوں کی طرف اشارہ ہے جو پیغمبر کے ساتھیوں کو اس کے منکرین کی طرف سے ان کی تطہیر کے لیے لازماً پیش آتی ہیں تاکہ عذاب سے پہلے وہ ان سے الگ بالکل نمایاں ہوجائیں۔