• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

تفسیر کبیر قادیانی خلیفہ زانی مرزا بشیر الدین محمود جلد نمبر1 یونیکوڈ

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
صفحہ 21​
نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ (بصرہ ع ۴) لیکن کہیں بھی احمد یا نحمد کے الفاظ مخلوق کی طرف منسوب نہیں ہوئے۔ گونسّبِحُ اور نقدّس کے الفاظ یا یُسَبَحُ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اس میں اس امر کی طرف لطیفہ اشارہ ہے کہ خالص حمد کا مکمل طور پر سمجھنا بندہ کی شان سے بالا ہے حدیثوں میں یہ الفاظ آتے ہیں۔ مگر ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کے کلام میں الفاظ کے اور معنے ہوتے ہیں اور بندہ کے کلام میں اور۔ بندہ جب اپنی طرف سے ایک لفظ بولتا ہے تو اس کے معنے اتنے وسیع نہیں لئے جاتے جتنے وسیع کہ اس وقت لئے جاتے ہیں۔ جب خدا تعالیٰ کے کلام اور پھر کلام شریعت میں وہ الفاظ آئیں۔
لِلّٰہ کے الفاظ سے اس شبہ کو بھی دُور کیا ہے کہ حمد تو انسانو ںکی بھی کی جاتی ہے۔ پھر سب تعریف خدا تعالیٰ کی کس طرح ہوئی۔ اور وہ اس طرح کہ لام ملکیت ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے پس لام کے ذریعہ سے یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد حقیقی ہوتی ہے اور غیر اللہ کی طفیلی۔ کیونکہ انسان میں جو خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ ذاتی نہیں ہوتیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے عطا شدہ ہوتی ہیں۔ پس جو تعریف کسی انسان کی کی جاتی ہے اس کا بھی اصل مستحق اللہ تعالیٰ ہی ہوتا ہے۔
آیت کے مطالب
اس آیت کے بعض مطالب ذیل میں لکھے جاتے ہیں (۱) اس جہان کا خالق سب نقصوں سے پاک اور سب خوبیوں کا جامع ہے۔ (۲) وہ تمام مخلوق کی کنہ اور حقیقت سے واقف ہے اور اس کے سوا کوئی شخص بھی کسی چیز کی کامل ماہیت سے واقف نہیں۔ اس دعویٰ کا روشن ثبوت سائنس کی ترقی سے مل چکا ہے۔ مختلف اشیاء کی تحقیق میںسینکڑوں علماء لکھے ہوئے ہیں لیکن اب تک ادنیٰ سے ادنیٰ شے کی کامل حقیقت سے بھی کوئی آگاہ نہیں ہو سکا۔ اور ہر چیز کے متعلق تازہ انکشافات ہوتے چلے جا رہے ہیں (۳) خدا تعالیٰ کامل حمد کا مالک تب ہی ہو سکتا ہے کہ وہ رَبّ الْعالَمِیْن ہو۔ اگر رب العالمین نہ ہو تو وہ کامل حمد کا مالک نہیں ہو سکتا۔ اس لئے ضروری ہے کہ جس طرح اس کا جسمانی نظام سب کے فائدہ میں لگا ہوا ہے۔ اس کا روحانی نظام بھی سب پر حاوی ہو۔ اور کوئی ملک اور کوئی قوم روحانی ترقی کے سامانوں سے محروم نہ ہو۔ پس اگر کوئی الہام کسی خاص قوم سے مخصص ہے۔ تو دوسری قوم کے لئے الگ الہام نازل ہونا چاہیئے۔ اور جب دوسری قوموں کے لئے الگ الہام نازل نہ ہو۔ تو ایسے وقت میں جو الہام نازل ہو وہ سب دنیا کی ہدایت کے لئے ہونا چاہیئے (پس جو مذاہب اس امر کے قائل ہیں کہ الہام صرف انہی کی قوم کی ہدایت کے لئے نازل ہوا ہے۔ یا یہ کہ نجات صرف انہی کی قوم یا مذہب کا حق ہے غلطی پر ہیں)
(۴) انسانوں کے اندر جس قدر کمالات ہیں وہ سب خدا تعالیٰ کے عطا کردہ ہیں۔ اس لئے جو نیکی بھی وہ کریں۔ اس کی تعریف کا حقیقی مستحق اللہ تعالیٰ ہی ہے (۵) حمد کو ربوبیت عالمین کے ساتھ وابستہ کر کے یہ بتایا ہے کہ حقیقی خوشی انسان کو اسی وقت ہونی چاہیئے۔ جب اللہ تعالیٰ کی صفت رب العالمین ظاہر ہو۔ جو شخص اپنے فائدہ پر خوش ہوتا ہے اور دُنیا کے نقصان کی طرف نگاہ نہیں کرتا۔ وہ اسلام کی تعلیم کو نہیں سمجھتا۔ حقیقی خوشی یہی ہے کہ سب دنیا آرام میں ہو۔
(۶) یہ فرما کر کہ اللہ تعالیٰ رَبُّ الْعَالَمِیْن ہے۔ اس طرف اشارہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر شے ربوبیت کا محل ہے یعنی ارتقاء کے قانون کے ماتحت ہے۔ یہ بتایا ہے کہ دنیامیں کوئی چیز نہیں جس کی ابتداء اور انتہا یکساں ہو۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز تغیر پذیر ہے۔ اور ادنیٰ حالت سے ترقی کر کے اعلیٰ کی طرف جاتی ہے۔ جس سے دو امر ثابت ہوتے ہیں۔ اوّل خدا تعالیٰ کے سوا ہر شے مخلوق ہے کیونکہ جو چیز ترقی کرتی اور تغیر پکڑتی ہے وہ آپ ہی آپ نہیں ہو سکتی۔
دوسرے ارتقاء کا مسئلہ درست ہے۔ ہر شے ادنیٰ حالت سے اعلیٰ کی طرف گئی ہے خواہ انسان ہو ںخواہ حیوان۔ خواہ نباتات ہوں خواہ جمادات۔ کیونکہ رب العالمین کے معنی یہ ہیں کہ ہر شے کو ادنیٰ حالت سے اعلیٰ کی طرف لے جا کر اللہ تعالیٰ کمال تک پہنچاتا ہے پس ثابت ہوا کہ ارتقاء کا مسئلہ دُنیا کی
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
صفحہ 22​
ہرشے میں جاری ہے (۷) نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ ارتقاء مختلف وقتوں اور مدارج (STAGES)میں حاصل ہوتا ہے۔ کیونکہ رب کے معنی ہیں۔ اِنْشَائُ الشَیُٔ حالاًفحا لًا اِلیٰ حدِّ التَّمامِ چیز کو مختلف وقتوں اور مختلف درجو ںمیں ترقی دیکر کمال تک پہنچانا (نہ کہ ایک ہی کڑی کو مکمل کرنا)۔
(۸) یہ بھی معلوم ہوا کہ ارتقاء اللہ تعالیٰ کے وجود کے منافی نہیں۔ کیونکہ فرمایا کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ ارتقاء کے ذریعہ سے پیدائش خدا تعالیٰ کے عقیدہ کے خلاف نہیں پڑتی۔ بلکہ اس سے وہ حمد کا مستحق ثابت ہوتا ہے۔ اسی لئے رَبّ الٔعَالَمِیْن کے ساتھ اَلْحمدُلِلّٰہِ کے الفاظ استمعال فرمائے۔
(۹) اس آیت میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ انسان کو لامتناہی ترقیات کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ کیونکہ فرماتا ہے کہ سب تعریف اللہ تعالیٰ کی ہے کہ وہ مختلف انواع و اقسام کی مخلوق کو ادنیٰ حالت سے اُٹھا کر اعلیٰ تک پہنچاتا ہے اور یہ مضمون صحیح نہیں ہو سکتا جب تک ہر مقام اور درجہ سے اوپر کوئی اور درجہ تسلیم نہ کیا جائے۔
(۱۰) سب سے آخر میں یہ کہ اس سورۃ کو جو سب سے پہلی سورۃ ہے اور قرآن کریم کے مطالب کا خلاصہ اَلْحَمدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ سے شروع کر کے یہ بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کامل حمد اب شروع ہو گی کیونکہ اسلام جو رب العالمین کی صفت کا کامل مظہر ہے سب دنیا کی طرف آیا ہے اور جسمانی عالم کی طرح روحانی عالم میں بھی اتحاد پیدا کر دیا گیا ہے پہلے جب مختلف اقوام کی طرف الگ رسول آتے تھے۔ بعض نادان متبع دسرے انبیاء کی تعلیم کو غلط سمجھ کر ان کی تردید کرتے تھے ہندو کہتے ہم یہودا کو نہیں جانتے پر میشور کو جانتے ہیں یہود پر میشور پر ہنسی اُڑاتے۔ لیکن اسلام کے ظہور سے سب دنیا کے لئے ایک دین ہو گیا۔ اور ہندی اور چینی اور مصری اور ایرانی اور مغربی اور مشرقی سب خدا کی تعریف میں لگ گئے اور یہ تسلیم کیا گیا کہ ہر قوم کا خدا الگ نہیں ہے بلکہ سب اقوام کا خدا ایک ہی ہے۔

۴؎ حل لغات
رَحْمٰنِ اور رَحِیْم کے لئے دیکھو لغت ۲؎ سورۃ ہذا۔
تفسیر۔ الرحمن الرحیم۔ ان الفاظ کے معنی بسم اللہ میں بیان ہو چکے ہیں۔ بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ ان دونوں صفات کا ذکر میں ہو چکا ہے بِسْمِ اللّٰہِ الرّحْمٰنِ الرّحِیْمِ میں ہو چکا ہے پھر ان کو دُہرایا کیوں گیا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ بسم اللہ میں ایک مستقل مضمون بیان ہوا ہے اور وہ ہر سورۃ کی کنجی ہے۔ اس لئے سورۃ کے مضمون میں اگر اپنے موقعہ پر انہی صفات کو دوبارہ بیان کیا جائے۔ تو یہ امر تکرار نہیں کہلا سکتا۔ چنانچہ یہاں بھی اسی حکمت سے ان صفات کو دُہرایا گیا ہے۔ رب العالمین میں یہ مضمون بتایا گیا تھا۔ کہ خدا تعالیٰ پیدا کر کے آہستہ آہستہ اور درجہ بدرجہ اعلیٰ ترقیات تک پہنچاتا ہے۔ آیت زیر تفسیر میں الرّحْمٰنِ الرَّحِیْم کے الفاظ سے طریق ربوبیت بتایا ہے اور وہ یہ کہ (۱) اللہ تعالیٰ رحمٰن ہے اس نے ہر چیز کے لئے ایسے سامان پیدا کئے ہیں جو اِس کی ترقی میں حمد ہوتے ہیں اور باریک دربار یک سامان پیدا کر کے مخفی اور مخفی قوتوں کو قوت ظہور عطا فرمائی ہے۔ اور ترقی کے ذرائع بہم پہنچائے ہیں۔ انسان حیوان نباتات جمادات سب اپنے گرد و پیش سے متاثر ہو رہے ہیں۔ اور اپنے قیام یا اپنی تکمیل کے سامان حاصل کر رہے ہیں (۲) وہ رَحِیْم ہے پس جب کوئی مخلوق اپنے فرائض کو اچھی طرح ادا کرتی ہے تو اس کی قدر دانی کی جاتی ہے اور اس پر خاص فضل کیا جاتا ہے اور مزید ترقی کی اس میں اُمنگ پیدا کی جاتی ہے اور اسی طرح
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
صفحہ23​
یہ سلسلہ لامتنا ہی طور پر چلا جاتا ہے۔
الرَّحْمٰن۔ ایسی صفت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اس کا استعمال دوسروں پر نہیں ہوتا سوائے اضافت کے جیسا کہ مسیلمہ کذاب اپنے آپ کو رحمٰن یمامہ کہلواتا تھا۔ اس کے معنی جیسا کہ بتایا جا چکا ہے بلا مبادلہ اور بلا استحقاق رحم کرنے کے ہیں۔ اور اس مفہوم میںکفارہ کا رد پایا جاتا ہے۔ کیونکہ کفارہ کی بنیاد اس خیال پر ہے کہ اللہ تعالیٰ بلا استحقاق رحم نہیں کر سکتا۔ مسیحیوں کو اس کا اس قدر احساس ہے کہ عرب کے نصاریٰ بھی جب اپنی تصنیفات یا خطوں پر خدا تعالیٰ کا نام لکھتے ہیں تو بسم اللہ کے بعد اور صفات کا ذکر کر دیتے ہیں۔ رحمٰن کا لفظ استعمال نہیں کرتے۔ سوائے ایسے شخص کے جو اسلامی تمدن سے متاثر ہو۔ مثلاً یہ لکھ دیں گے۔ بِسْمِ اللّٰہِ الکریم الرَّحِیْم یا اور کوئی صفت بیان کر دینگے۔ رحمٰن کا لفظ استعمال نہیں کریں گے۔ کیونکہ ان کا دل مانتا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ رحمن ہے تو پھر اس کے لئے مسیح کا کفارہلئے بغیر بندوں کے گناہ بخشنا کچھ بھی مشکل نہیں۔
رحیم کی صفت میں تناسخ کا ردّ ہے۔ کیونکہ تناسخ کی بنیاد محدود عمل کی غیر محدود جزاء نہ مل سکنے کا عقیدہ ہے صفت رحیم بتاتی ہے۔ کہ محدود عمل کی غیر محدود جزاء نہیں ملتی بلکہ نیک عمل کی خاصیت یہ ہے کہ وہ مکرر ہوتا ہے پس اس کے بدلہ میں جزاء بھی مکرر ملتی ہے۔ رحیم کا لفظ بار بار رحم کرنے پر دلالت کرتا ہے اور بار بار رحم کے معنے یہ نہیں کہ ایک ہی فعل کا بار بار انعام ملتا ہے بلکہ اس سے یہ مراد ہے کہ جو شخص نیکی کی حقیقت کو سمجھتا ہے وہ باربار نیک اعمال بجا لاتا ہے اور کم سے کم اس کے دل میں بار بار نیک عمل بجا لانیکی خواہش ضرور پائی جاتی ہے پس ہر دفعہ جب نیک عمل کی جزا بندہ کو ملتی ہے اور نیکی کرنے کی طاقت اور اس کے بار بار بجا لانے کی خواہش اور بھی ترقی کی جاتی ہے جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ اس پر پھر رحم کرتا ہے اور مومن کی نیکی کی خواہش او ربھی زیادہ ہو جاتی ہے اور وہ نیکی کے کاموں میں اور بھی بڑھ جاتا ہے اور اس طرح رحم بار بار نازل ہوتا جاتا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ کا رحم صرف گذشتہ فعل پر انعام کا رنگ ہی نہیں رکھتا بلکہ آیندہ نیکی کے لئے ایک بیج کا کام بھی دیتا ہے۔
در حقیقت محمدود عمل کا خیال ہندوئوں میں محض اس وجہ سے پیدا ہوا ہے کہ انہوں نے جنت کو بیکاری او ربے عملی کا ایک مقام سمجھ لیا ہے اور ان کو سمجھنا بھی ایسا ہی چاہیئے کیونکہ وہ نجات کے معنی نروان یعنی تمام خواہشات ا ور اعمال سے آزاد ہونا سمجھتے ہیں۔ پس ان کے نزدیک عمل اسی دُنیا میں ختم ہو جاتا ہے اور اس وجہ سے محدود ہوتا ہے۔ اور چونکہ عمل محدود ہوتا ہے ان کے نزدیک اس کا بدلہ بھی محدود ہونا چاہیئے۔ مگر اسلام بار بار رحم اور بار بار عمل کے مسئلہ کو پیش کرتا ہے اور جنت کو دارالعمل ہی قرار دیتا ہے جب خدا تعالیٰ رب العالمین ہے تو جنت بھی تو ایک عالم ہے وہاں بھی ترقی ہو گی۔ ورنہ رب العالمین صحیح نہیں ٹھہرتا۔ اور جب انسان وہاں بھی ترقی کرے گا۔ تو لازماً اس کے تقویٰ اور اس کی محبت الٰہی میں بھی ترقی ہو گی اورجب ان چیزوں میں ترقی ہو گی تو اس ترقی کے مقابل پر اللہ تعالیٰ کا رحم بھی پھر سے نازل ہو گا۔ اور جب یہ رحم اور عمل کا بار بار تبادلہ ہوتا رہے گا تو نجات کا وقت محدود کس طرح ہو سکتا ہے اس دنیا اور اگلے جہاں کے عمل میں صرف یہ فرق ہے کہ اس دُنیا میں تنزل کا خطرہ بھی ساتھ لگا ہوا ہے۔ مگر اگلے جہان میں صرف ترقی ہو گی تنزل نہ ہو گا۔ ورنہ روحانی عمل اور روحانی ترقی وہاں بھی ہو گی۔ پس محدود عمل اور غیر محدود جزاء کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
۵؎ حل لغات
مالکِ ملَک اور مِلک
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
صفحہ24​
تین ملتے مجلتے ہوئے لفظ ہیں۔ مالک جسے کسی چیز پر جائز قبضہ اور اقتدار حاصل ہو۔ ملک۔ فرشتہ۔ اور ملک بادشاہ یعنی جسے سیاسی اقتدار حاصل ہو۔
یَوْم۔ اس کے معنی مطلق وقت کے ہوتے ہیں قرآن کریم میں ہے۔ اِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّکَ کَاَلْفِ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ (حج ع ۶) خدا تعالیٰ کا بعض دن ہزار سال کا ہوتا ہے ایک شاعر کہتا ہے یو ماہ یومر ندیً ویوم طعاء ن میرے ممدوح پر دو ہی قسم کے وقت آتے ہیں۔ یا ِتو وہ سخاوت میں مشغول وتا ہے یا دشمنو ںکو قتل کرنے میں اسی طرح عرب کہتے ہیں۔ یو ماہُ یومُ نُعمٍ ویوم بُؤسٍ ای الدّھر۔ یعنی زمانہ دو حال سے خالی نہیں یا تو اسنان کے لئے نعمتیں لاتا ہے یا تکالیف لاتا ہے۔ (لسان العرب) اسی طرح سیبویہ کا قول ہے کہ عرب کہتے ہیں۔ اَنَا الْیَوْمَ اَفْعَلُ کَذَا الاَ یُرِ یْدُونَ یَوْمًا بِعَیْنِہٖ وَلٰکِنَّھُمْ یُرِیْدُونَ الْوَقْتَ الْحَاضِرَ (لسان العرب) یعنی جب کہتے ہیں کہ میں آج کے دن اس اس طرح کروں گا۔ تو اس سے مراد چوبیس گھنٹہ والا دن نہیں ہوتا۔ بلکہ اس سے مراد صرف موجودہ وقت ہوتا ہے۔ اسی طرح اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ جو قرآن کریم میں آتا ہے۔ اس سے بھی مُراد معروف دن نہیں بلکہ زمانہ اور وقت مراد ہے (لسان العرب) پھر لکھا ہے وَقَدْ یُرَادُ بِالْیَوِمَ اَلْوَقْتُ مُطْلَقًا وَمِنْہُ الحَدِیْثُ تِلْکَ اَیَّامُ الْھَرَجُ اَیْ وَقْتہٌ (لسان العرب) یعنی کبھی یوم سے مطلق وقت مراد ہوتا ہے جیسے حدیث میں ہے کہ یہ دن فتنہ اور لڑائی کے دن ہیں۔ مراد یہ کہ یہ فتنہ اور لڑائی کا زمانہ ہے۔
الدین۔ الجزاء و المکافاۃ۔ بدلہ۔ الطاعۃ اطاعت۔ الحساب۔ محاسبہ۔ القھر و الغلبہ والا ستعلاء غلبتہ السطان و الملک و الحکم۔ تصرف۔ حکومت۔ السیرۃ خصلت۔ التدبیر۔ تدبیر۔ اِسْمٌ لِجَمِیِعَ مایُعْبَدُ بِہٖ اللّٰہُ وہ تمام طریقے جن سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جاتی ہے وہ سب دین کہلاتے ہیں۔ یعنی شریعت۔ نیز اس کے معنی ہیں الِملَّۃ مذہب۔ الوَرَعُ۔ نیکی۔ المَعصیۃ نافرمانی۔ الحال۔ کیفیت القضاء فیصلہ۔ العادۃ۔ عادت۔ الشان۔ خاص حالت (اقرب)
تفسیر۔ آیت کے یہ معنی ہوئے کہ اللہ تعالیٰ جزاء سزا کے وقت کا مالک ہے۔ شریعت کے وقت مالک ہے۔ فیصلہ کے وقت کا مالک ہے۔ شریعت کے وقت کا مالک ہے۔ مذہب کے زمانہ کا مالک ہے۔ نیکی کے زمانہ کا مالک۔ گناہ کے زمانہ کا مالک ہے۔ محاسبہ کے وقت کا مالک ہے۔ اطاعت کے وقت کا مالک ہے۔ غلبہ کے وقت کا مالک ہے۔ خاص اور اہم حالتوں کا مالک ہے۔
عام طور پر تو اس کے معنی قیامت کے دن کا مالک کئے جاتے ہیں لیکن جیسا کہ لغت سے ظاہر ہے۔ یہ معنی محض تفسیری ہیں لغوی نہیں۔ دین کے ایک معنی جزاء سزا کے ہیں۔ اور جزاء سزا کامل مظاہرہ چونکہ قیامت کے دن ہو گا۔ اس لئے مفسرین نے جزاء سزا کے معنوں کی بنیاد پر اس آیت کے یہ معنی کر دیئے کہ قیامت کے دن کا مالک ہے۔ حالانکہ لغت کے رو سے اس آیت کے مختلف معنی ہوتے ہیں اور سب کے سب قرآنی مطالب کے مطابق اور درست ہیں۔ پس کوئی وجہ نہیں کہ ایک معنوں کو تو لے لیا جائے اور دوسروں کو چھوڑ دیا جائے۔
جیسا کہ بتایا جا چکا ہے۔ مفسرین اس کے یہ معنی کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جزاء سزا کے وقت کا مالک ہے۔ ان معنوں کے رو سے ایک تو اس آیت کی یہ تشریح ہو گی۔ کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کا مالک ہے۔ یعنی اس دن جزاء سزا میں کسی اور کا دخل نہ ہو گا بلکہ جزاء سزا صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملے گی۔ اس طرح اس دُنیا اور اگلے جہان کے نتائج میں فرق بتایا ہے کہ اس دُنیا میں تو اچھے برے افعال کی جزاء سزاء انسانوں کے ذریعہ سے بھی ملتی ہے اور اس میں لوگوں سے غلطی بھی ہو جاتی ہے مگر قیامت کے دن صرف اللہ تعالیٰ ہی جزاء سزاء دے گا۔ اور یہ ناممکن ہو گا کہ کسی پر ظلم ہو اور اسے بے گناہ سزا مل جائے یا جُرم سے زیادہ سزا مل جائے۔ نیز مجرم کے لئے بھی ناممکن ہو گا کہ جھوٹ فریب سے کام لے کر سزا سے محفوظ ہو جائے۔
نیز اس میں اس امر کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ جزاء سزاء کے وقت صرف بطور مِلک نہیں کام کریگے
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
صفحہ25​
صفحہ 25
بلکہ بطور مالک کام کرے گا۔ مِلک یعنی بادشاہ جب فیصلہ کرتا ہے تو اس کا کام صرف یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ انصاف کیا ہے۔ کیونکہ جن امور کا فیصلہ وہ کرتا ہے وہ مدعی اور مدعا علیہ کے حقوق کے ساتھ متعلق ہوتے ہیں۔ اس لئے اسے یہ اختیار نہیں ہوتا۔ کہ وہ کسی کو معاف کر دے لیکن اللہ تاعلیٰ چونکہ بادشاہ ہی نہیں بلکہ مالک بھی ہے اس لئے اُسے حق حاصل ہے کہ وہ اپنے حق میں سے جس قدر چاہے معاف کر دے۔ اس مضمون سے ایک طرف تو امید کا ایک اہم پہلو پیدا کر دیا گیا ہے او رمایوسی سے انسان کو بچا لیا گیا ہے۔ دوسری طرف انسان کو ہوشیار بھی کر دیا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کے رحم سے ناجائز فائدہ اُٹھانے کا خیال دل میں نہ لانا۔ کیونکہ مالک ہونے کے لحاظ سے جہاں وہ رحم کر سکتا ہے۔ وہاں اپنی پیدائش کو گندہ دیکھنا بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ گویا امید اور خوف کے خیالات یکساں پیدا کر کے انسان کے اندر چستی او رہمت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ برخلاف مسیحی نجات کی تعلیم کے کہ ایک طرف انصاف کا غلط مفہوم پش کر کے گناہ پر دلیر کر دیا گیا ہے گویا مسیحی عقیدہ کے دونو ںپہلوئوں نے پاکیزگی کی نہیں بکہ گناہ کی مدد کی ہے حد سے زیادہ مایوسی نے بھی گناہ ہی پیدا کیا ہے اور حد سے زیادہ امید نے بھی گناہ ہی پیدا کیا ہے کچھ لوگ تو پاکیزگی سے مایوس ہو کر نیکی کو چھوڑ بیٹھیں گے اور کچھ لوگ کفارہ پر توکل کر کے گناہ پر دلیر ہو جائینگے۔
دوسرے معنے اس آیت کے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ شریعت اور مذہب کے وقت کا مالک ہے۔ اس میں ایک لطیف مضمون قانونِ قدرت کے بارہ میں بیان کیاگیا ہے عام طور پر خدا تعالیٰ کی معاملہ دُنیا کے ساتھ عام قانونِ قدرت کے ماتحت ہوتا ہے۔ لیکن جس زمانہ میں مذہب یا شریعت کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ صفت مالکیت کا اظہار کرتا ہے۔ یعنی نہ صرف بادشاہت کا ظہور ہوتا ہے جو عام قانون سے تعلق رکھتا ہے۔ بلکہ ان دنوں مالکیت کی صفت کا خاص طور پر ظہور ہوتا ہے یعنی خاص تصرف سے اللہ تعالیٰ کام لیتا ہے اور وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی صفات کی باریکیوں سے واقف نہیں بظاہر قانونِ قدرت کو ٹوٹتے ہوئے دیکھتے ہیں ایک بیچارہ اور بے کس وجود دُنیا کے سامنے آ کر دعویٰ پیش کرتا ہے۔ سب لوگ اس کی مخالفت کرتے ہیں لیکن باوجود ظاہری سامانوں کے مخالف ہونے کے وہ شخص کامیاب ہو جاتا ہے۔ اسی طرح او ربہت سے معاملات میں دُعائوں اور معجزات کے ذریعہ سے ایسے واقعات ظاہر ہوتے ہیں کہ دنیا انہیں دیکھ کر حیران ہو جاتی ہے در حقیقت ان واقعات کی حکمت یہی ہوتی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی روحانی سلسلہ کو چلاتا ہے یا کسی شریعت کی بنیاد قائم کرتا ہے توان ایام میں اپنی ملوکیت کیں نہیں بلکہ مالکیت کی صفت کو خاص طور پر ظاہر کرتا ہے۔ یعنی عام قانون کی بجائے اپنے خاص طور پر ظاہر کرتا ہے۔ یعنی عام قانون کی بجائے اپنے خاص قانون کو جو سا کے محبوبوں سے مخصوص ہے ظاہر کرنا شروع کر دیتا ہے اور ایسے واقعات ان دنوں میں ظاہر ہوتے ہیں جو خارق عادت نظر آتے ہیں۔ ہر نبی کے زمانہ میں خدا تعالیٰ کی سنت اسی طرح ظاہر ہوتا چلی آئی ہے۔ اور اس سورۃ میں بتایا گیا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں بھی اسی طرح ہو گا۔ خارق عادت واقعات سے جو بظاہر قانونِ قدرت کے مخالف نظر آئینگے۔ اللہ تعالیٰ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدد کرے گا۔ اور یہ امر اس بات کا ثبوت ہوگا کہ یہ زمانہ قیام شریعت کا ہے۔ اور محمدؐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا تعالیٰ کے سچے رسول ہیں۔
ایک معنی اس آیت کے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نیکی کے وقت کا اور گناہ کے وقت کا مالک ہے اس میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ دنیا پر دو دور آتے ہیں۔ ایک دور تو وہ ہوتا ہے جبکہ نیکی اور بدی یکساں طور پر دنُیا میں پائی جاتی ہے اس وقت اللہ تعالیٰ کا عام قانون دنیا میں جاری رہتا ہے لیکن ایک زمانہ ایسا آتا ہے کہ دُنیا میں گناہ ہی گناہ پھیل
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
صفحہ 26​
جاتا ہے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ مالک کی حیثیت سے ظاہر ہوتا ہے۔ اور اپنے باغ کی اصلاح کرتا ہے اور نبی مبعوث فرماتا ہے اور اس کے ذریعہ سے ایک قوم دنیا میں ایسی قائم ہو جاتی ہے جو نیکی کے مقام کے مقام پر اس طرح قائم ہوتی ہے کہ کہا جا سکتا ہے کہے گویا وہ سب کی سب نیک ہے۔ اس وقت بھی اللہ تعالیٰ اپنی خاص تقدیروں کے ذریعہ اس قوم کی تائید کرتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ قوم اپنے اس معیار کو کھو دیتی ہے۔ اور اس میں نیکی بدی کی متوازی تحریکیں جا رہی ہو جاتی ہیں۔ تب اللہ تعالیٰ اپنی خاص تقدیر کو واپس کر لیتا ہے اور عام قانونِ قدرت کے ماتحت اس سے معاملہ کرنے لگتا ہے یہاں تک کہ وہ قوم ایک وقت میں جا کر بالکل خراب ہو جاتی ہے۔ تب سنت اللہ کے ماتحت پھر اللہ تعالیٰ مالکیت کی صفت کو ظاہر کرتا ہے۔ پھر نبی مبعوث ہوتا ہے پھر گناہ کا قلع قمع کیا جاتا ہے پھر ایک پاکوں کی جماعت بنائی جاتی ہے اور اس تمام عرصہ میں قدرت خاص یعنی مالکانہ قدرت اور تصرف کا ظہور ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ پھر وہ قوم نیکی کے اعلیٰ معیار سے نیچے گر جاتی ہے او رپھر وہی پہلا سا دور شروع ہو جاتا ہے۔
ایک معنے اس آیت کے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اطاعت کے وقت کا مالک ہے یعنی وہی قانون خاص جس کا ذکر اوپر ہوا ہے اور جو اقوام کے متعلق جاری ہوتا ہے اسے اللہ تعالیٰ خاص افراد کے لئے بھی جاری کرتا ہے یعنی جب کسی شخص کی زندگی اللہ تعالیٰ کی کامل اطاعت میں گذرنے لگتی ہے تو اس کے لئے بھی اللہ تعالیٰ خاص قدرت کا اظہار کتا ہے اور وہ انسان عام انسانوں کی طرح نہیں رہتا بلکہ اللہ تعالیٰ اس کے لئے خاص قدرت کا اظہار کرتا ہے۔
ایک معنی اس آیت کے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اہم حالتو ںکے وقت کا مالک ہے۔ اس سے اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ دُنیامیں ہر کام ایک زنجیر سے مشابہت رکھتا ہے یعنی منفرد نہیں ہوتا۔ بلکہ اس کی بہت سی کڑیاں ہوتی ہیں۔ جب انسان بیمار ہوتا ہے تو اس کی بیماری اس دن کی کسی غلطی کے نتیجہ میں نہیں ہوتی۔ نہ تندرستی اس دن کی کسی غلطی کے نتیجہ میں نہیں ہوتی۔ نہ تندرستی اس دن کی ورزش یا غذا کی وجہ سے ہوتی ہے۔ پس انسان کے اعمال دو نتیجے پیدا کرتے ہیں۔ ایک نتیجہ تو عارضی اور وقتی ہوتا ہے۔ اور ایک نتیجہ آخری او رمستقل ہوتا ہے۔ ایک بے احتیاط آدمی آنکھوں کا غلط استمعال کرتا ہے تو اس کی آنکھیں دکھنے آ جاتی ہیں۔ مگر علاج سے اچھی ہو جاتی ہیں۔ پھر بے احتیاطی کرتا ہے پھر دیکھنے آ جاتی ہیں پھر علاج کرتا ہے پھر اچھی ہو جاتی ہیں۔ آخر ایک دن نظر جاتی ہی رہتی ہے اور علاج بپے فائدہ ہو جاتا ہے ایک محنتی طالب سلم سبق یاد کرتا ہے دوسرے دن اُستاد اس سے خوش ہو جاتا ہے یہ نتیجہ تو ساتھ کے ساتھ نکلتا رہتا ہے مگر اس محنت کا ایک خوشگوار اثر اس کے دماغ پر پڑتا جاتا ہے او راس کتابی علم کے علاوہ جو سبق یاد کرنے سے اسے حاصل ہو رہا تھا۔ ایک ذہانت ایک علم کی باریکیوں کے سمجھنے کا ملکہ اس کے دماغ میں پیدا ہوتا چلا جاتا ہے جو ایک دن اسے دنیا کا مرجع اور ممدوح بنا دیتا ہے یہ آخری نتائج ایسے باریک طور پر پیدا ہوتے ہیں کہ ساتھ اور دوست بھی اسے دیکھ نہیں سکتے اور اس کی وجہ سمجھ نہیں سکتے۔
اس مضمون سے اللہ تعالیٰ نے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ آخری اور مستقل کامیابی اللہ تعالیٰ کے تعلق سے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ بیشک انسان عام قانون کی فرمانبرداری کر کے عزت اور رتبہ حاصل کر لیتا ہے لیکن ایک آخری نتیجہ جو اعمال کی زنجیر کے مکمل ہونے سے پیدا ہوتا ہے اصل میں وہی قابل قدر شے ہے خصوصاً جو موت کے وقت ایمان کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے کہ اسی پر اگلے جہان کی زندگی کا انحصار ہے۔
مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن سے یہ مُراد نہیں۔ کہ اللہ تعالیٰ اس دُنیاکا مالک نہیں ہے بلکہ اگر اس آیت کے معنی قیامت
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
صفحہ27
کے دن کے مالک کے کئے جائیں تب بھی آیت کا مطلب یہ ہے کہ اس دن ظاہری طو رپر بھی کوئی مالک نہ ہو گا جیسا کہ فرمایا وَمَآ اَدْرٰکَ مَایَوْمُ الدِّیْنِ ثُمَّ مَآ اَدْرٰکَ مَایَوْمُ الدِّیْنِ یَوْمَ لَا تَمْلِکُ نَفْسٍ لَّنَفْسٍ شَیْئًا وَالْاَ مْرُیَوُ مَئِذٍلِلّٰہِ (انغطار) یعنی تم کو کیا معلوم کہ یوم الدین کیا ہے۔ یوم الدین وہ دن ہے کہ کوئی شخص دوسرے کے کسی کام نہ آ سکے گا۔ اور صرف خدا تعالیٰ کا حکم جاری ہو گا۔ پس مالک سے مراد یہ ہے کہ اس دُنیا میں جو ظاہر میں بادشاہ اور حاکم اور مالک نظر آتے ہیں۔ یہ سلسلہ اگلے جہان میں ختم ہو جائے گا۔ اور یہ مراد نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس جہان ا مالک نہیں ہے۔
ان چاروں صفات میں اور جس ترتیب سے وہ بیان ہوئی ہیں سلوک کا ایک اعلیٰ نکتہ بیان کیا گیا ہے جب ہم اس امر کو دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کا مقام اعلیٰ ہے اور بندہ کا ادنیٰ تو یہ امر ہمارے لئے واضح ہو جاتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ بندہ کی طرف متوجہ ہو گا تو اوپر سے نیچے کی طرف آئے گا لیکن جب بندہ اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کرے گا تو نیچے سے اوپرکی طرف جائے گا۔ اس نکتہ کو سمجھ لینے کے بعد ان صفات کو دیکھ کر جو سورۃ فاتحہ میں بیان ہوئی ہیں ہم سمجھ سکتے ہیں۔ کہ اللہ تعالیٰ بندہ کی طرف (۱) رَبِّ الْعَالَمِیْنَ (۲) رحمٰن (۳) رحیم (۴) مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن کی صفات سے درجہ بدرجہ تنزل کرتا ہے۔ یعنی جب وہ اپنے بندہ پر ظاہر ہونے لگتا ہے۔ تو پہلے رب العالمین کی صفت کا ظہور ہوتا ہے یعنی وہ ایسے ماحول تیار کرتا ہے جن میں اس کے منظور اور محبوب بندہ کی صحیح نشوونما ہو سکے۔ پھر وہ ان سامانوں کو اپنے بندہ کے ہاتھ میں دیتا ہے جن سے وہ روحانی ترقی کر سکے۔ پھر بندہ جب ان سامانوں سے فائدہ اٹھاتا ہے تو اس کے اعلیٰ سے اعلیٰ نتائج پیدا کرتا ہے اور انعامات کے ایک لمبے سلسلہ کے بعد بندہ کی جدوجہد کا آخری نتیجہ نکالتا ہے یعنی اسے دنیا پر غالب کر دیتا ہے اور اپنی مالکیت کی صفت اس کے لئے ظاہر کر کے اسے دنیا پر غلبہ دے دیتا ہے۔
اس کے برخلاف جب ہندو اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کرتا ہے تو اسے پہلے مالک کی صفت کا مظہر ہونا پڑتا ہے یعنی وہ انصاف اور عدل کو دنیا میں جاری کرتا ہے مگر اس کے انصاف کے ساتھ رحم کی ملونی ہوتی ہے۔ اور عفو کا پہلو غالب ہوتا ہے جس کے معنے ایصال شر سے اجتناب کے ہیں۔ جب بندہ اور ترقی کرتا ہے۔ تو رحیمیت کی صفت کا مظہر ہو جاتا ہے۔ یعنی جو لوگ اس کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں وہ نہ صرف یہ کہ ان کے کاموں کی قدردانی کرتا ہے بلکہ ان کے حق سے زیادہ ان پر انعام کرتا ہے یعنے ایصال خیر کی عادت اس میں پائی جاتی ہے جسے احسان کہتے ہیں۔ پھر اس کے اوپر انسان ترقی کرتا ہے۔ اور رحمانیت کی صفت کا ظہور اس کے ذریعہ سے ہونا شروع ہوتا ہے اور وہ اپنے پرائے سب سے نیک سلوک کرنا شروع کرتا ہے اور اس کا دل وسیع ہو جاتا ہے۔ اور وہ رحمانیت کا مظہر بن جاتا ہے کافر و مومن سب کی محبت اس کے دل میں پیدا ہو جاتی ہے۔ اور خواہ کسی نے اس سے حسن سلوک کیا ہو یا نہ کیا ہو۔ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ سب سے نیک سلوک کرے۔ اسے اِیْتَائِ ذِی الْقُرْبیٰ کی حالت کہتے ہیں۔ یعنی جس طرح ماں اپنے بچہ کی خدمت اطاعت کا خیال کئے بغیر یا کسی بدلہ کی امید رکھے بغیر کرتی ہے اسی طرح یہ شخص بنی نوع انسان کا خیر خواہ ہو جاتا ہے پھر اس مقام سے ترقی کر کے انسان رب العالمین کا مظہر ہو جاتا ہے یعنی اس کی نظر فرد سے اُٹھ کر نظام تک جا پہنچتی ہے۔ اور وہ اپنے آپ کو دنیا کا نگران اور داروغہ سمجھ لیتا ہے اور دنیا کی اصلاح کی طرف بحیثیت مجموعی توجہ کرتا ہے اور سوسائٹی کی حالت کو بدل ڈالتا ہے۔ یہ صعود اور ہبوط کی راہیں جو ان صفات میں بیان کی گئی ہیں۔ سلوک کے اعلیٰ گر اپنے اندر محفی رکھتی ہیں اور سالکوں کے لئے ایک عظیم الشان رحمت ہیں۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
صفحہ28​
؎۶ حل لغات
اِیَّاکَ عام قاعدہ کے رو سے لَعْبُدُکَ چاہئے تھا مگر معنوں میں اختصاص پیدا کرنے کے لئے ک کو پہلے لایا گیا۔ اور چونکہ ک اکیلا پہلے نہیں آ سکتا اس لئے ایا کو ضمیر منصوبہ ہے اس پر پڑھایا گیا۔ پس اِیَّاکَ نَصْبُدُ کے معنی ہوئے ہم تجھے عبادت کے لئے مخصوص کرتے ہیں۔
نَعْبُدُ ہم عبادت کرتے ہیں۔ اس کا ماضی عَبَدَ ہے اور اس کے مندرجہ ذیل معنی ہیں۔ عَبَدَ اللّٰہَ طاعَ لُہٗ وَخَضَعَ وَ ذَلَّ وَ خَدَمَہٗ وَالْتَزَمَ شَرَائعَ دِیْنِہِ وَ وَحَّدَہٗ (اقرب) یعنی عبد کے معنی ہیں اس کی اطاعت کی اور اس کے حکم کے آگے سر جھکایا اور اس کی خدمت کی اور اس کے دین کے احکام پر مستقل طور پر عمل کرنے لگا اور اس کی توحید کا اقرار کیا۔
عبد کے ایک معنی کسی کے نقش قبول کرنے کی ہیں چنانچہ کہتے ہیں۔ طریق معبّدٌ اے مذتّلٌ ایسا رستہ جو کثرت آمدو رفت سے اس طرح ہو گیاہو کہ پائوں کے نقش قبول کرنے لگ جائے۔
پس عبادت ایک ایسی کامل ہستی کی ہو سکتی ہے جو اپنے کمالات میں منفرد ہو اور اس کا کوئی شریک نہ ہو اور جس کی اطاعت افر فرمابرداری انسان کے لئے ممکن ہو کیونکہ جس کی فرمانبرداری ممکن ہی نہ ہو اس کی عبادت ایک بیمعنی لفظ ہو گا۔
یہ ظاہر ہے کہ ایسی ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہے کیونکہ اس کے سوا کوئی نہیں جس کی حقیقی معنوں میں فرمانبرداری کی جا سکے اور جس کی ذات کو چن کر انسان اسی کا ہو جائے اس کے سوا جس کی بھی انسان اطاعت کرے وہ اطاعت محدود ہو گی اور پھر اس کے سوا اور وجود بھی یا اور قانون بھی ایسے ہوں گے جن کی اطاعت پر انسان مجبو رہو گا۔
نَسْتَعِیْن ۔ استعانتہ سے ہے جس کے معنی مدد حاصل کرنے یا طلب کرنے کے ہیں۔ پس ایّاکَ نَسْتَعِیْن کے معنے ہوئے ہم مدد طلب کرنے کے لئے تجھے مخصص کرتے ہیں یعنی اور کسی لائق نہیں سمجھتے کہ اس سے مدد طلب کریں۔
تفسیر۔ اَلْحَمْدَلِلّٰہِ سے لے کر مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن تک کی عبارت سے یُوں ظاہر ہوتا ہے کہ گویا خدا تعالیٰ بندہ کی نظر سے اوجھل ہے اور وہ اس کی تعریف کر رہا ہے۔ لیکن ایّاک نَعْبُدُ سے یک دم خدا تعالیٰ کو مخاطب کر لیا گیا ہے بعض نادانوں نے اس پر اعتراض کیا ہے کہ یہ حسنِ کلام کے خلاف ہے۔ حالانکہ یہ حسنِ کلام کے خلاف نہیں۔ بلکہ حسنِ کلام کی ایک اعلیٰ مثال ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات وراء الوراء ہے وہ بندہ کو نظر نہیں آتی۔ اس کی صفات کے ذریعہ سے وہ اسے شناخت کرتا ہے۔ اور اس کے ذکر کے ذریعہ سے وہ اس کے قریب ہوتا ہے یہاں تک کہ اس کے دل کی آنکھیں اسے دیکھ لیتی ہیں۔ ان آیات میں سلوک کے اس نکتہ کو بیان کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ رَبّ الْعَالَمِیْن رَحْمٰن۔ رَحِیْم۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن کی صفات پر جب انسان غور کرتا ہے۔ تو اس کی آنکھیں کھل جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی محبت شدید طور پر اس کے دل میں پیدا ہو جاتی ہے تب وہ روحانی طو رپر اللہ تعالیٰ کے دیدار سے مشرف اور اس کی محبت سے مغلوب ہو کر بے اختیار چلا اٹھتا ہے۔ کہ اے رب میں تیری ہی عبادت کرتا ہوں اور تجھ ہی سے مدد مانگتا ہوں۔ پس اس طرح ضمائر کر بدل کر اس مضمون کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ کہ قرآن کریم میں بتائی ہوئی صفات پر غور کرنے سے انسان کو اللہ تعالیٰ کی ملاقات حاصل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات بندہ کے سامنے آ جاتی ہے۔
حدیث میں آتا ہے عن ابی ھُریرۃ عن رسولِ اللّٰہِ صلی اللّٰہِ عُلیہ وسلم یقول اللّٰہ قسمتُ الصّلوٰۃ بَیْنِی و بین عبدی نِصْفین فنصفہالی و نصفہا لعبدی و لعبدی ماسألَ فاِذَا قال العبدُ الحمدُلِلّٰہِ
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
صفحہ29​
ربّ العالمین قال اللّٰہُ حَمَدَنی عبدی واذا قال الرَّحْمٰن الرَّحیم۔ قال اثنٰی عَلَیّ عبدی و اذا قال مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن قال مجد نی عبدی و ربما قال فَوَّضَ اِلیّ عبدی و اذا قال اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْن قال ھذا بینی و بین عبدی و لعبدی ماسأل و اذا قال اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم الخ (الیٰ اٰخرسورۃ) قال ھذا العبدی و لعبدی ماسال (مسلم کتاب الصلوۃ باب و جوب قراء ۃ الفاتحہ فی کل رکتہ) یعنی حضرت ابوہریرۃ فرماتے ہیں کہ بیٹے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں نے سورۃ فاتحہ کو اپنے اور اپنے بندہ کے درمیان تقسیم کر دیا ہے۔ پس اس کا نصف میرے لئے ہے اور نصف میرے بندے کے لئے ہے۔ اور میرا بندہ جو کچھ مجھ سے (اس کے ذریعہ سے طلب کرتا ہے) وہ میں اسے دُونگا۔ جب بندہ میرے بندے نے میری حمد کی۔اور جب بندہ کہتا ہے اَلرَّحَمٰنِ الرَّحِیْم تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندے نے میری ثنا کی ہے۔ او رجب بندہ کہتا ہے مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی ہے اور بعض دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے اپنا معاملہ میرے سپرد کر دیا ہے۔ او رجب بندہ کہات ہے اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنتو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ آیت میرے اور میرے بندے کے درمیان مشترک ہے اور میرے بندے نے جو کچھ مانگا ہے میں اُسے دُونگا۔ پھر جب بندہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم سے لے کر آخر تک کی آیات پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ یہ دعا میرے بندے کے لئے ہے اور یہ سب کچھ میرے بندہ کو ملے گا۔
اس حدیث سے مندرجہ ذیل امو رکا استنباط ہوتا ہے۔ اول حمد ثنا اور تمجید میں فرق ہے۔ دوم مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن کی آیت کامل تو کل پر دلالت کرتی ہے۔ یعنی اس میں یہ اشارہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کو آخری نتائج کا مرتب کرنے والا قرار دے کر جب اَلْحَمْدُ کہتا ہے تو گویا وہ اس امر پر اطمینان کا اظہار کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ درست ہے اور مجھے منظور ہے اور جب وہ اللہ تعالیٰ پر اس طرح توکل کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کیوں نہ اس سے بخشش اور نرمی کا معاملہ کرے۔سوم یہ کہ اس سورۃ میں جن انعامات کے حصول کے لئے دُعا سکھائی گئی ہے وہ مسلمانوں کو بحیثیت قوم ضرور ملیں گے کیونکہ اس دُعا کے متعلق حدیث میں آتا ہے کہ لعبدی ماسأل میرے بندہ نے جو کچھ مانگا ہے اُسے ضرور ملے گا۔
اس آیت میں نَعْبُدُ پہلے اور نَسْتَعِیْن بعد میں۔ بعض لوگ اس پر اعتراض کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی عبادت کی توفیق تو اللہ تعالیٰ کی مدد سے ہی حاصل ہو سکتی ہے پھرنَعْبُدُ کو پہلے کیو ںرکھا۔ نَسْتَعِیْن پہلے چاہیئے تھا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ بیشک عبادت بھی اللہ تعالیٰ کی مدد سے ہوتی ہے لیکن اس جگہ اعانت کا ذکر نہیں بلکہ استعانت کا ذکر ہے۔ یعنی مدد مانگنے کا۔ اور اس میں کیا شک ہے کہ جب بندہ کے دل میں عبودیت اور عبادت کا خیال پیدا ہو گا۔ اس کے بعد ہی وہ اللہ تعالیٰ دے دُعا مانگنے کا خیال کرے گا۔ جو عبادت کی طرف راغب ہی نہ ہو وہ مدد کیوں طلب کرے گا پس گو اللہ تعالیٰ کے فضل اور اعانت کے بغیر عبادت کی توفیق نہیں ملتی لیکن استعانت یعنی بندہ کا اللہ تعالیٰ کے دروازہ پرجُھکنا عباد ت کا خیال آنے کے بعد ہی پیدا ہوتا ہے۔ اس وجہ سے نعبدُ کو پہلے اور نستعین کو بعد میں رکھا گیا ہے۔
دوسرا جواب اس کا یہ ہے کہ ارادہ بندہ کی طرف سے ہوتا ہے اور عمل کی توفیق اللہ تعالیٰ کی طرف سے۔ اگر ارادہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو تو انسان کے اعمال اضطراری اعمال ہو جائیں۔ پس اس آیت میں یہ کہا گیا ہے کہ جب بندہ کے دل میں عبادت کا خیال پیدا ہو۔ اسے اللہ تعالیٰ سے تکمیل ارادہ
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
صفحہ30​
کے لئے دُعا کرنی چاہیئے اور کہنا چاہیئے کہ اے میرے رب میں تیری عبادت کا فیصلہ کر چکا ہوں۔ مگر اس عہد کی تکمیل تیری تیری عباد ت کا فیصلہ کر چکا ہوں۔ مگر اس عہد کی تکمیل تیری امداد کے سوا نہیں ہو سکتی۔ اس لئے تو میری مدد کر او رمجھے اس امر کی تفیق دے کہ تیرے سوا کسی کی عبادت نہ کروں۔
عبادت کامل تذال کا نام ہے۔ پس عبادت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کو بندہ اپنے اندر پیدا کر لے عبادت کی ظاہری علامات صرف قلبی کیفیت کو بدلنے کے لئے مقرر ہیں۔ ورنہ اس میں کوئی شک انہیں کہ عبادت دل کی کیفیت اور اس کے ماتحت انسانی اعمال کے صدور کا نام ہے اور خاص اوقات کی تعیین اور قبلہ رو ہونا اور ہاتھ باندھ کر کھڑا ہونا یا رکوع سجود کرنا یہ اصل عبادت نہیں بلکہ جسم کی ظاہری حالت کا اثر چونکہ دل پر ہوتا ہے اور توجہ بھی قائم ہوتی ہے نماز کے لئے کچھ ظاہری علامات بھی مقرر کر دی گئی ہیں۔ مگر وہ بمنزلہ برتن کے ہیں۔ جس میں معرفت کا دودھ ڈالا جاتا ہے یا بطور چھلکے کے ہیں جس میں عبادت کا مغز رہتا ہے۔
اس آیت میں اور بعد کی آیات میں جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے۔ یعنی یوں کہا گیا ہے کہ ’’ہم عبادت کرتے ہیں‘‘ اور ’’ہم مدد مانگتے ہیں‘‘ اور ’’ہمیں سیدھا راستہ دکھا‘‘ اس میں اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ اسلام ایک مدنی مذہب ہے وہ سب کے لئے ترقی چاہتا ہے۔ نہ کہ کسی ایک شخص کے لئے اور یہ بھی کہ ہر مسلمان دوسرے کا نگران مقرر کیا گیا ہے اس کا یہی کام نہیں کہ وہ خود عبادت کرے بلکہ یہ بھی ہے کہ دوسروں کو عبادت کی تحریک کرے او راس وقت تک تحریک نہ چھوڑے جب تک وہ اس کے ساتھ عبادت کرنے میں شامل نہ ہو جائیں۔ اور وہ آپ ہی اللہ تعالیٰ پر توکل نہ کرے بلکہ دوسروں کو بھی توکل کی تعلیم دے اور اس وقت تک بس نہ کرے جب تک وہ توکل میں اس کے ساتھ شامہ نہ ہو جائیں اور وہ خود ہی ہدایت کا طالب نہ ہو بلکہ دوسروں کو بھی ہدایت طلب کرنے کی نصیحت کرے۔ او ربس نہ کرے جب تک ان کے دل میں بھی ہدایت طلب کرنے کی تڑپ پیدا ہو کر وہ اس کے ساتھ شامل نہ ہو جائیں۔ اور خود بھی ہر دعا میں ’’میں‘‘ کی جگہ ہم کا لفظ استعمال نہ کرنے لگیں۔یہی تبلیغی اور تربیتی روح ہے جس نے اسلام کو چند سالوں میں کہیں کا کہیں پہنچا دیا۔ اور گر آج مسلمان ترقی کر سکتے ہیں تو صرف اسی جذبہ کو اپنے دل میںپیدا کر کے جب تک مسلمان نَعْبُدُ اور نَسْتَعِیْن اور اِھْدِنَا کے الفاظ نہیں کہتے۔ جب تک ان الفاظ کو سچے طور پر کہنے کیلئے جدوجہد نہیں کرتے۔ اس وقت تک ان کا نہ دین میں ٹھکانا ہو گا نہ دُنیا میں۔
حقیقت یہ ہے کہ عبادت بھی اور استعانت بھی اور طلب ہدایت بھی بحیثیت جماعت ہی ہو سکتی ہے کیونکہ اکیلا آدمی صرف ایک محدود عرصہ کے لئے اور ایک محدود دائرہ میں عبادت کو قائم کر سکتا ہے۔ ہاں جو اپنی اولاد کو بھی اور اپنے ہمسائیوں کو بھی اپنے ساتھ شامل کر لیتا ہے وہ عبادت کا دائرہ وسیع کر دیتا ہے اور اس کا زمانہ ممتد کر دیتا ہے اور اس میں کیا شبہ ہے کہ سچا عبد وہی ہے۔ جو اپنے آقا کی ملمو کہ اشیاء کو دشمن کے ہاتھ میں نہ پڑنے دے جو اپنے آقا کے باغ کو لٹتے دیکھتا اور اس کیلئے جدوجہد نہیں کرتا وہ ہر گز سچا بندہ نہیں کہلا سکتا۔
اِیّاکَ نَعْبُدُ و اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کی آیت میں جبر اور قدر کے متعلق جو غلط خیالات لوگوں میں پھیل رہے ہیں۔ ان کا بھی رد کیا گیا ہے انسانی اعمال کے بارہ میں لوگوں میں دو غلط فہمیاں پیدا ہیں بعض تو یہ کہتے ہیں کہ جس قدر اعمال انسان سے سر زد ہو رہے ہیں جبر کے ماتحت ہیں یعنی انسان ان کے کرنے پر مجبور ہے۔ یہ خیال مذہبی لوگوں میں بھی ہے اور فلسفیوں میں بھی۔ اور اب علم النفس کے ماہرین کا ایک گروہ بھی ایک رنگ میں اس کا قائل ہو رہا ہے اور ان کا سردار ڈاکٹر فرائڈ آسٹرین پروفیسر ہے جو لوگ اس عقیدہ پر غلط مذہبی عقیدہ کی وجہ سے قائم ہیں ان کا یہ خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ مالک ہے جس طرح ایک انجینئر جب عمارت بناتا ہے تو کسی اینٹ کو پاخانہ میں اور کسی کو بالاخانہ میں لگاتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ محتار ہے
 
Top