صفحہ 21
نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ (بصرہ ع ۴) لیکن کہیں بھی احمد یا نحمد کے الفاظ مخلوق کی طرف منسوب نہیں ہوئے۔ گونسّبِحُ اور نقدّس کے الفاظ یا یُسَبَحُ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اس میں اس امر کی طرف لطیفہ اشارہ ہے کہ خالص حمد کا مکمل طور پر سمجھنا بندہ کی شان سے بالا ہے حدیثوں میں یہ الفاظ آتے ہیں۔ مگر ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کے کلام میں الفاظ کے اور معنے ہوتے ہیں اور بندہ کے کلام میں اور۔ بندہ جب اپنی طرف سے ایک لفظ بولتا ہے تو اس کے معنے اتنے وسیع نہیں لئے جاتے جتنے وسیع کہ اس وقت لئے جاتے ہیں۔ جب خدا تعالیٰ کے کلام اور پھر کلام شریعت میں وہ الفاظ آئیں۔لِلّٰہ کے الفاظ سے اس شبہ کو بھی دُور کیا ہے کہ حمد تو انسانو ںکی بھی کی جاتی ہے۔ پھر سب تعریف خدا تعالیٰ کی کس طرح ہوئی۔ اور وہ اس طرح کہ لام ملکیت ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے پس لام کے ذریعہ سے یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد حقیقی ہوتی ہے اور غیر اللہ کی طفیلی۔ کیونکہ انسان میں جو خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ ذاتی نہیں ہوتیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے عطا شدہ ہوتی ہیں۔ پس جو تعریف کسی انسان کی کی جاتی ہے اس کا بھی اصل مستحق اللہ تعالیٰ ہی ہوتا ہے۔
آیت کے مطالب
اس آیت کے بعض مطالب ذیل میں لکھے جاتے ہیں (۱) اس جہان کا خالق سب نقصوں سے پاک اور سب خوبیوں کا جامع ہے۔ (۲) وہ تمام مخلوق کی کنہ اور حقیقت سے واقف ہے اور اس کے سوا کوئی شخص بھی کسی چیز کی کامل ماہیت سے واقف نہیں۔ اس دعویٰ کا روشن ثبوت سائنس کی ترقی سے مل چکا ہے۔ مختلف اشیاء کی تحقیق میںسینکڑوں علماء لکھے ہوئے ہیں لیکن اب تک ادنیٰ سے ادنیٰ شے کی کامل حقیقت سے بھی کوئی آگاہ نہیں ہو سکا۔ اور ہر چیز کے متعلق تازہ انکشافات ہوتے چلے جا رہے ہیں (۳) خدا تعالیٰ کامل حمد کا مالک تب ہی ہو سکتا ہے کہ وہ رَبّ الْعالَمِیْن ہو۔ اگر رب العالمین نہ ہو تو وہ کامل حمد کا مالک نہیں ہو سکتا۔ اس لئے ضروری ہے کہ جس طرح اس کا جسمانی نظام سب کے فائدہ میں لگا ہوا ہے۔ اس کا روحانی نظام بھی سب پر حاوی ہو۔ اور کوئی ملک اور کوئی قوم روحانی ترقی کے سامانوں سے محروم نہ ہو۔ پس اگر کوئی الہام کسی خاص قوم سے مخصص ہے۔ تو دوسری قوم کے لئے الگ الہام نازل ہونا چاہیئے۔ اور جب دوسری قوموں کے لئے الگ الہام نازل نہ ہو۔ تو ایسے وقت میں جو الہام نازل ہو وہ سب دنیا کی ہدایت کے لئے ہونا چاہیئے (پس جو مذاہب اس امر کے قائل ہیں کہ الہام صرف انہی کی قوم کی ہدایت کے لئے نازل ہوا ہے۔ یا یہ کہ نجات صرف انہی کی قوم یا مذہب کا حق ہے غلطی پر ہیں)
(۴) انسانوں کے اندر جس قدر کمالات ہیں وہ سب خدا تعالیٰ کے عطا کردہ ہیں۔ اس لئے جو نیکی بھی وہ کریں۔ اس کی تعریف کا حقیقی مستحق اللہ تعالیٰ ہی ہے (۵) حمد کو ربوبیت عالمین کے ساتھ وابستہ کر کے یہ بتایا ہے کہ حقیقی خوشی انسان کو اسی وقت ہونی چاہیئے۔ جب اللہ تعالیٰ کی صفت رب العالمین ظاہر ہو۔ جو شخص اپنے فائدہ پر خوش ہوتا ہے اور دُنیا کے نقصان کی طرف نگاہ نہیں کرتا۔ وہ اسلام کی تعلیم کو نہیں سمجھتا۔ حقیقی خوشی یہی ہے کہ سب دنیا آرام میں ہو۔
(۶) یہ فرما کر کہ اللہ تعالیٰ رَبُّ الْعَالَمِیْن ہے۔ اس طرف اشارہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر شے ربوبیت کا محل ہے یعنی ارتقاء کے قانون کے ماتحت ہے۔ یہ بتایا ہے کہ دنیامیں کوئی چیز نہیں جس کی ابتداء اور انتہا یکساں ہو۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز تغیر پذیر ہے۔ اور ادنیٰ حالت سے ترقی کر کے اعلیٰ کی طرف جاتی ہے۔ جس سے دو امر ثابت ہوتے ہیں۔ اوّل خدا تعالیٰ کے سوا ہر شے مخلوق ہے کیونکہ جو چیز ترقی کرتی اور تغیر پکڑتی ہے وہ آپ ہی آپ نہیں ہو سکتی۔
دوسرے ارتقاء کا مسئلہ درست ہے۔ ہر شے ادنیٰ حالت سے اعلیٰ کی طرف گئی ہے خواہ انسان ہو ںخواہ حیوان۔ خواہ نباتات ہوں خواہ جمادات۔ کیونکہ رب العالمین کے معنی یہ ہیں کہ ہر شے کو ادنیٰ حالت سے اعلیٰ کی طرف لے جا کر اللہ تعالیٰ کمال تک پہنچاتا ہے پس ثابت ہوا کہ ارتقاء کا مسئلہ دُنیا کی