• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

سیرت المہدی

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{ 91} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جب میری شادی ہوئی اور میں ایک مہینہ قادیان ٹھہر کر پھر واپس دہلی گئی توان ایام میں حضرت مسیح موعود ؑ نے مجھے ایک خط لکھا کہ میں نے خواب میں تمہارے تین جوان لڑکے دیکھے ہیں۔والدہ صاحبہ فرماتی تھیںکہ مجھے دو یادتھے مگر حضرت صاحب فرماتے تھے کہ نہیں میں نے تین دیکھے تھے اور تین ہی لکھے تھے ۔
{ 92} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے کاموں میں بھی کیسا اخفا ہوتا ہے ۔پسر موعود کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا مگر ہمارے موجودہ سارے لڑکے ہی کسی نہ کسی طرح تین کو چار کرنے والے ہیں ۔چنانچہ والدہ صاحبہ فرماتی تھیں کہ میاں (حضرت خلیفۃ المسیح ثانی ) کو تو حضرت صاحب نے اس طرح تین کو چار کرنے والا قراد دیا کہ مرزا سلطان احمد اور فضل احمد کو بھی شمار کر لیا ۔اور بشیر اوّل متوفّی کو بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تمہیں (یعنی خاکسار راقم الحروف کو ) اس طرح پر کہ صرف زندہ لڑکے شمار کر لئے اور بشیر اوّل متوفی کوچھوڑ دیا ۔شریف احمد کواس طرح پر قرار دیا کہ اپنی پہلی بیوی کے لڑکے مرزا سلطان احمداور فضل احمد چھوڑدیئے اور میرے سارے لڑکے زندہ متوفّی شمار کر لئے اور مبارک کوا س طرح پر کہ میرے صرف زندہ لڑکے شمار کرلئے اور بشیر اوّل متوفّی کو چھوڑ دیا ۔
{ 93} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنی وفات کے قریب بڑی کثرت سے اپنی وفات کے متعلق الہامات اور خوابیں شروع ہوگئی تھیں ۔جب آپ لاہور تشریف لے گئے تو وہاں زیادہ کثرت سے ایسے الہام ہونے شروع ہوئے ۔اس وجہ سے اور کچھ ویسے بھی ۔ میں نے گھبرا کر ایک دن حضرت صاحب سے کہا کہ چلو اب قادیان واپس چلیں ۔ حضرت صاحب نے فرمایا کہ اب تو جب ہمیں خدا لے جائے گا تب ہی جائیں گے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ بھی حضرت صاحب کی صداقت کی ایک دلیل ہے کہ باوجود اس کے کہ آپ کو اس کثرت سے اپنی وفات کے متعلق الہامات ہو تے تھے اور وفات کے قریب تو کثرت کا یہ حال تھا کہ گویا موت بالکل سر پر کھڑی ہے آپ اپنے کام میں اسی تندہی سے لگے رہے بلکہ زیادہ ذوق شوق او ر محنت سے کا م شروع کر دیا ۔چنانچہ جس وقت آپ کی وفات ہوئی ان دنوںمیں بھی آپ رسالہ پیغام صلح کی تصنیف میں مصروف تھے اور تقاریر کا سلسلہ بھی برابر جاری تھا کوئی اور ہوتا تو قرب موت کی خبر سے اس کے ہاتھ پائوں ڈھیلے پڑ جاتے اور کوئی مفتری ہوتا تو یہ وقت اس کے راز کے طشت ازبام ہونے کا وقت تھا ۔
{ 94} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ ۲۵؍ مئی ۱۹۰۸ء کو عصر کی نماز کے بعد یعنی اپنی وفات سے صرف چند گھنٹے پیشتر حضور نے لاہور میں خوا جہ کمال الدین صاحب کے مکان پر جہاں نماز ہو ا کرتی تھی ایک بڑی پر جوش تقریر فرمائی جس کی وجہ یہ تھی کہ مولوی ابراہیم سیالکوٹی کی طرف سے ایک شخص مباحثہ کا چیلنج لے کر آپ کے پاس آیا تھا۔آ پ نے مباحثہ کی شرائط کے لئے مولوی محمد احسن صاحب کو مقرر فرمایا اور پھراس شخص کی موجودگی میں ایک نہایت زبردست تقریر فرمائی اور جس طرح جوش کے وقت آپ کا چہرہ سرخ ہو جایا کرتا تھا اسی طرح اس وقت بھی یہی حال تھا ۔اس تقریر کے بعض فقرے اب تک میرے کانوں میںگونجتے ہیں ۔ فرمایا تم عیسٰی کو مرنے دو کہ اسی میں اسلام کی زندگی ہے نیز فرمایا اب ہم تو اپنا کا م ختم کر چکے ہیں ۔
{ 95} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیامجھ سے حاجی عبدالمجید صاحب لدھیانوی نے کہ ایک دفعہ حضور لدھیانہ میں تھے ۔میرے مکان میں ایک نیم کا درخت تھا چونکہ برسات کا موسم تھا اسکے پتے بڑے خوشنما طور پر سبز تھے ۔ حضور نے مجھے فرمایا حاجی صاحب اس درخت کے پتوں کی طرف دیکھئے کیسے خوشنما ہیں۔حاجی صاحب کہتے ہیں کہ میں نے اس وقت دیکھا کہ آپ کی آنکھیں آنسوئوںسے بھری ہوئی تھیں۔
{ 96} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ بیان کیا ہم سے حاجی عبدالمجید صاحب نے کہ ایک دفعہ جب ازالہ اوہام شائع ہوئی ہے حضرت صاحب لدھیانہ میں باہر چہل قدمی کے لئے تشریف لے گئے۔ میں اور حافظ حامدعلی ساتھ تھے ۔ راستہ میں حافظ حامد علی نے مجھ سے کہا کہ آج رات یا شاید کہا ان دنوں میں حضرت صاحب کو الہام ہوا ہے کہ ’’ سلطنت برطانیہ تاہشت سال بعد ازاںایام ضعف و اختلال ‘‘۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس مجلس میں جس میں حاجی عبدالمجید صاحب نے یہ روایت بیان کی میاںعبداللہ صاحب سنوری نے بیان کیا کہ میرے خیال میں یہ الہام اس زمانہ سے بھی پرانا ہے ۔حضرت صاحب نے خود مجھے اور حافظ حامد علی کو یہ الہام سنایا تھا اور مجھے الہام اس طرح پر یاد ہے ۔’’سلطنت برطانیہ تا ہفت سال ۔ بعد ازاں باشد خلاف و اختلا ل ‘‘۔میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے تھے کہ دوسرا مصرع تو مجھے پتھر کی لکیر کی طرح یاد ہے کہ یہی تھا ۔ اور ہفت کا لفظ بھی یاد ہے ۔جب یہ الہام ہمیں حضرت صاحب نے سنایا تواس وقت مولوی محمد حسین بٹالوی مخالف نہیںتھا ۔شیخ حامد علی نے اسے بھی جا سنایا ۔پھر جب وہ مخالف ہوا تو اس نے حضرت صاحب کے خلاف گورنمنٹ کو بدظن کر نے کے لئے اپنے رسالہ میں شائع کیا کہ مرزا صاحب نے یہ الہام شائع کیا ہے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ میاں عبداللہ صاحب اور حاجی عبدالمجید صاحب کی روایت میں جو اختلاف ہے وہ اگر کسی صاحب کے ضعفِ حافظہ پر مبنی نہیں تو یہ بھی ممکن ہے کہ یہ الہام حضور کو دو وقتوں میں دو مختلف قرا ء توں پر ہوا ہو ۔ واللہ اعلم ۔نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس الہام کے مختلف معنی کئے گئے ہیں ۔ بعضوں نے تاریخ الہام سے میعاد شمار کی ہے ۔بعضوں نے کہا ہے کہ ملکہ وکٹوریا کی وفات کے بعد سے اس کی میعاد شما ر ہوتی ہے ۔کیونکہ ملکہ کے لئے حضور نے بہت دعائیں کی تھیں ۔بعض اور معنے کرتے ہیں۔میاںعبداللہ صاحب کہتے تھے کہ میرے نزدیک آغاز صدی بیسویں سے اس کی میعاد شروع ہوتی ہے ۔چنانچہ وہ کہتے تھے کہ واقعات اس کی تصدیق کرتے ہیں او ر واقعات کے ظہور کے بعد ہی میں نے اس کے یہ معنی سمجھے ہیں ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ میرے نزدیک یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ حضرت صاحب کی وفات سے اس کی میعاد شمار کی جاوے کیونکہ حضرت صاحب نے اپنی ذات کو گورنمنٹ برطانیہ کے لئے بطور حرز کے بیان کیا ہے پس حرز کی موجودگی میں میعاد کا شمار کرنا میرے خیال میں درست نہیں ۔ اس طرح جنگ عظیم کی ابتدا اور ہفت یاہشت سالہ میعاد کا اختتام آپس میں مل جاتے ہیں ۔واللہ اعلم ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ گورنمنٹ برطانیہ کے ہم لوگوں پر بڑے احسانات ہیں ہمیں دعا کرنی چاہئیے کہ اللہ تعالیٰ اسے فتنوں سے محفوظ رکھے ۔ (نیز اس روایت کی مزید تشریح کے لئے دیکھو حصہ دوم۔ روایت نمبر ۳۱۴)
{ 97} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۸۸۹ء میں لدھیانہ میں بیعت کا اعلان کیا تو بیعت لینے سے پہلے آپ شیخ مہر علی رئیس ہوشیار پور کے بلانے پرا س کے لڑکے کی شادی پر ہوشیار پور تشریف لے گئے ۔میں اورمیر عباس علی اور شیخ حامد علی ساتھ تھے۔راستہ میں یکہ پر حضور نے ہم کو اپنے اس چلّہ کا حال سنایا جس میں آپ نے برابر چھ ماہ تک روزے رکھے تھے ۔حضرت صاحب فرماتے تھے کہ میں نے ایک چھینکا رکھا ہوا تھا اسے میں اپنے چوبارے سے نیچے لٹکا دیتا تھا تو اس میں میری روٹی رکھدی جاتی تھی پھر اسے میں اوپر کھینچ لیتا تھا ۔میاں عبداللہ صاحب کہتے تھے کہ شیخ مہر علی نے یہ انتظام کیا تھا کہ دعوت میں کھانے کے وقت رؤسا کے لئے الگ کمرہ تھا اور ان کے ساتھیوں اور خدام کے واسطے الگ تھا مگر حضرت صاحب کا یہ قاعدہ تھاکہ اپنے ساتھ والوںکو ہمیشہ اپنے ساتھ بٹھایا کرتے تھے چنانچہ اس موقعہ پر بھی آپ ہم تینوں کو اپنے داخل ہونے سے پہلے کمرہ میں داخل کرتے تھے اور پھر خود داخل ہوتے تھے اور اپنے دائیںبائیں ہم کو بٹھاتے تھے۔انہی دنوںمیں ہوشیار پور میں مولوی محمود شاہ چھچھ ہزاروی کا وعظ تھا جو نہایت مشہور اور نامور اور مقبول واعظ تھا ۔ حضرت صاحب نے میرے ہاتھ بیعت کا اشتہار دے کر انہیں کہلا بھیجا کہ آپ اپنے لیکچر کے وقت کسی مناسب موقع پر میرا یہ اشتہار بیعت پڑھ کر سنا دیں اور میں خود بھی آپ کے لیکچر میں آئوں گا ۔اس نے وعدہ کر لیا ۔چنانچہ حضرت صاحب اس کے وعظ میں تشریف لے گئے لیکن اس نے وعدہ خلافی کی اور حضور کا اشتہار نہ سنایا بلکہ جس وقت لوگ منتشر ہو نے لگے اس وقت سنایا مگر اکثر لوگ منتشر ہوگئے تھے ۔حضرت صاحب کو اس پر بہت رنج ہوا فرمایا ہم اس کے وعدہ کے خیال سے ہی اس کے لیکچر میں آئے تھے کہ ہماری تبلیغ ہوگی ورنہ ہمیں کیاضرورت تھی ۔اس نے وعدہ خلافی کی ہے ۔میاں عبداللہ صاحب کہتے تھے کہ پھر تھوڑے عرصہ کے اندر ہی وہ مولوی چوری کے الزام کے نیچے آکر سخت ذلیل ہوا ۔
{ 98} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ جب حضرت صاحب نے پہلے دن لدھیانہ میں بیعت لی تو اس وقت آپ ایک کمرہ میں بیٹھ گئے تھے اور دروازہ پر شیخ حامدعلی کو مقرر کر دیا تھا ۔اور شیخ حامد علی کو کہہ دیا تھا کہ جسے میں کہتا جائوں اسے کمرہ کے اندر بلاتے جائو چنانچہ آپ نے پہلے حضرت خلیفہ اوّل کو بلوایا ان کے بعد میر عباس علی کو پھر میاں محمد حسین مراد آبادی خوش نویس ۱ ؎ کو اور چوتھے نمبر پر مجھ کو اور پھر ایک یادو اور لوگوں کو نام لے کر اند ربلایا پھر اس کے بعد شیخ حامد علی کو کہہ دیا کہ خود ایک ایک آدمی کو اند ر داخل کرتے جائو۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ اوائل میں حضور ایک ایک کی الگ الگ بیعت لیتے تھے لیکن پھربعد میں اکٹھی لینے لگ گئے ۔اور میاں عبداللہ صاحب نے بیان کیا کہ پہلے دن جب آپ نے بیعت لی تو وہ تاریخ ۲۰؍رجب۱۳۰۶ ء ھجری مطابق ۲۳مارچ ۱۸۸۹ء تھی ۲ ؎ اور اس وقت بیعت کے الفاظ یہ تھے ۔’’آج میں احمد کے ہاتھ پر اپنے تمام گناہوں اور خراب عادتوں سے توبہ کرتا ہوں جن میں مَیں مبتلا تھا اور سچے دل اور پکے ارادہ سے عہد کرتا ہوں کہ جہاں تک میری طاقت او ر سمجھ ہے اپنی عمر کے آخری دن تک تمام گناہوں سے بچتا رہوں گا اور دین کو دنیا کے آراموں اور نفس کی لذات پر مقدم رکھونگا اور ۱۲؍جنوری کی دس شرطوں پر حتی الوسع کا ر بند رہوں گا اور اب بھی اپنے گذشتہ گناہوں کی خدا تعالیٰ سے معافی چاہتا ہوں ۔’’ اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ رَبِّیْ ـ اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ رَبِّیْ ـ اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَّ اَتُوْبُ اِلَیْہِ ۔اَشْھَدُاَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ وَ اعْتَرَفْتُ بِذَنْبِیْ فَاغْفِرْلِیْ ذُنُوْبِیْ فَاِنَّہٗ لَایَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اَنْتَ ـ‘‘ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام عام طور پر مصافحہ کے طریق پر بیعت کنندگان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میںلیتے تھے لیکن بعض لوگوں سے آپ نے پنجہ کے اوپر کلائی پر سے بھی ہاتھ پکڑ کر بیعت لی ہے ۔ چنانچہ حضرت خلیفہ اول فرماتے تھے کہ میری بیعت آپ نے اسی طرح لی تھی ۔نیز خاکسار عرض کرتاہے کہ میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے تھے کہ بیعت اولیٰ کے دن مولوی عبدالکریم صاحب بھی وہیں موجود تھے مگر انہوں نے بیعت نہیں کی ۔ (مزید تشریح کے لئے دیکھو حصہ دوم۔ روایت نمبر ۳۰۹، ۳۱۵)
{99} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ لدھیانہ میں پہلی دفعہ بیعت لے کر یعنی ابتدائ۱۸۸۹ء میں حضرت صاحب علی گڑھ تشریف لے گئے تھے۔ میںاور میر عباس علی اور شیخ حامد علی ساتھ تھے ۔حضرت صاحب سیدتفضل حسین صاحب تحصیل دارکے مکان پر ٹھہرے جو ان دنوں دفتر ضلع میں سپر نٹنڈنٹ تھے۔ وہاں ایک تحصیل دار نے جو سید صاحب کا واقف تھا حضرت صاحب کی دعوت کی اور شہر کے دوسرے معز زین کو بھی مدعو کیا ۔حضورتشریف لے گئے اور ہم تینوںکو حسب عادت اپنے دائیںبائیںبٹھایا۔ تحصیلدار صاحب نے کھانے کے لئے چوکیوں یعنی چھوٹے چھوٹے تخت پوشوں کا انتظام کیا تھا جن پر کھانا رکھا گیا اور لوگ ان کے گرد بیٹھ گئے ۔چوکیوں پر کنچ کے گلاسوں میں گلدستے رکھے ہوئے تھے ۔جب کھانا شروع ہو ا تومیر عباس علی نے کھانا کی طرف ہاتھ نہیں بڑھایا بلکہ خاموش بیٹھے رہے۔حضرت صاحب نے ان سے دریافت کیا میر صاحب آپ کیوںنہیں کھاتے؟ انہوں نے کہا یہ نیچریوںکے طریق کا کھانا ہے ۔حضرت صاحب نے فرمایا نہیں اس میںکوئی حرج نہیں یہ خلاف شرع نہیںہے۔میر صاحب نے کہا میرا تو دل نہیں چاہتا ۔ حضرت صاحب نے فرمایا میر صاحب !ہم جو کھاتے ہیں۔میر صاحب نے کہا حضرت آپ کھائیں میں تو نہیںکھاتا۔غرض میر عباس علی نے کھانا نہیں کھایا ۔ میاںعبداللہ صاحب کہتے تھے کہ جب عباس علی مرتد ہوا تو مجھے یہ بات یاد آئی کہ وہ تو دراصل اسی وقت سے کٹ چکا تھا ۔نیز میاں عبداللہ صاحب نے بیان کیا کہ علی گڑھ میں لوگوں نے حضرت صاحب سے عرض کر کے حضور کے ایک لیکچر کا انتظام کیا تھا اور حضور نے منظور کر لیا تھا۔جب اشتہار ہوگیا اور سب تیاری ہوگئی اور لیکچر کا وقت قریب آیاتو حضرت صاحب نے سّید تفضل حسین صاحب سے فرمایا کہ مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام ہو ا ہے کہ میں لیکچر نہ دوںاس لئے میں اب لیکچر نہیں دوں گا ۔ انہوں نے کہا حضور اب توسب کچھ ہوچکا ہے لوگوں میں بڑی ہتک ہوگی ۔حضرت صاحب نے فرمایا خواہ کچھ ہو ہم خدا کے حکم کے مطابق کریں گے ۔ پھر اور لوگوں نے بھی حضرت صاحب سے بڑے اصرار سے عرض کیا مگر حضرت صاحب نے نہ مانا اور فرمایا یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ میں خدا کے حکم کو چھوڑ دوںاس کے حکم کے مقابل میں مَیں کسی ذلت کی پروا نہیں کرتا ۔غرض حضرت صاحب نے لیکچر نہیں دیا اور قریباً سات دن وہاں ٹھہر کر واپس لدھیانہ تشریف لے آئے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ میاں عبداللہ صاحب نے جب پہلے پہل یہ روایت بیان کی تو یہ بیان کیا کہ یہ سفر حضرت صاحب نے ۱۸۸۴ء میں کیا تھا۔خاکسار نے والدہ صا حبہ سے عرض کیا تو انہوںنے اس کی تردیدکی اور کہا کہ یہ سفر میاں (یعنی حضرت خلیفۃ المسیح ثانی ) کی پیدائش بلکہ ابتدائی بیعت کے بعد ہوا تھا ۔ جب میں نے والدہ صاحبہ کی یہ روایت میاں عبداللہ صاحب کے پاس بیان کی توانہوں نے پہلے تو اپنے خیال کی صحت پر اصرارکیا لیکن آخر ان کو یاد آگیا کہ یہی درست ہے ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ میاںعبداللہ صاحب کہتے تھے کہ علی گڑھ کے سفر سے حضرت صاحب کا وہ ارادہ پورا ہوا جو حضور نے سفر ہندوستان کے متعلق کیا تھا۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ اسی سفر میں مولوی محمد اسماعیل علی گڑھی نے حضور کی مخالفت کی اور آخر آپ کے خلاف ایک کتاب لکھی مگر جلد ہی اس جہاں سے گذر گیا ۔ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تصنیف فتح اسلام کے حاشیہ میں اس سفر کا مکمل ذکر کیا ہے)
{ 100} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ غالباً یہ ۱۸۸۴ء کی بات ہے کہ ایک دفعہ ماہ جیٹھ یعنی مئی جون میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد مبارک میں نماز فجر پڑ ھ کر اس کے ساتھ والے غسل خانہ میں جو تا زہ پلستر ہونے کی وجہ سے ٹھنڈاتھا ایک چارپائی پر جو وہاں بچھی رہتی تھی جالیٹے ۔چارپائی پر بستر اور تکیہ وغیرہ کو ئی نہ تھا ۔حضرت کا سر قبلہ کی طرف اور منہ شمال کی طرف تھا ۔ایک کہنی آپ نے سر کے نیچے بطور تکیہ کے رکھ لی اور دوسری اسی صورت میں سر کے اوپر ڈھانک لی ۔میں پائوں دبانے بیٹھ گیا ۔وہ رمضان کا مہینہ تھا اور ستائیس تاریخ تھی اور جمعہ کا دن تھا اس لئے میں دل میں بہت مسرور تھا کہ میرے لئے ایسے مبارک موقعے جمع ہیں ۔یعنی حضرت صاحب جیسے مبارک انسان کی خدمت کر رہاہوں وقت فجر کا ہے جو مبارک وقت ہے مہینہ رمضان کا ہے جو مبارک مہینہ ہے ۔تاریخ ستائیس اور جمعہ کا دن ہے اور گزشتہ شب شَب قدر تھی کیونکہ میں نے حضرت صاحب سے سنا ہوا تھا کہ جب رمضان کی ستائیس تاریخ اور جمعہ مل جاویں تو وہ رات یقینا شب قدر ہوتی ہے ۔میں انہی باتوں کا خیال کر کے دل میں مسرور ہو رہا تھا کہ حضرت صاحب کا بدن یکلخت کانپا اور اس کے بعد حضور نے آہستہ سے اپنے اوپر کی کہنی ذرا ہٹاکر میری طرف دیکھا اس وقت میں نے دیکھا کہ حضرت صاحب کی آنکھوں میںآنسو بھرے ہوئے تھے ۱ ؎ اس کے بعد آپ نے پھر اسی طرح اپنی کہنی رکھ لی۔ میں دباتے دباتے حضرت صاحب کی پنڈلی پر آیا تو میں نے دیکھا کہ حضور کے پائوں پر ٹخنے کے نیچے ایک اٹن یعنی سخت سی جگہ تھی اس پر سرخی کا ایک قطرہ پڑا تھا جو ابھی تازہ گرے ہونے کی وجہ سے بستہ تھا ۔میں نے اسے دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی لگا کر دیکھا کہ کیا ہے ۔اس پر وہ قطرہ ٹخنے پر بھی پھیل گیا اور میری انگلی پر بھی لگ گیا ،پھر میں نے اسے سونگھا کہ شاید اس میں کچھ خوشبو ہو مگر خوشبو نہیں تھی ۔میں نے اسے اس لئے سونگھا تھا کہ اسی وقت میرے دل میں یہ خیال آیا تھا کہ یہ کوئی خدا تعالیٰ کی طرف سے بات ہے اس لئے اس میں کوئی خوشبو ہوگی ۔پھر میں دباتا دباتا پسلیوں کے پاس پہنچا وہاں میںنے اسی سرخی کا ایک اور بڑا قطرہ کرتہ پر دیکھا ۔اس کو بھی میں نے ٹٹولا تو وہ بھی گیلا تھا ۔ ۲ ؎ اس وقت پھر مجھے حیرانی سی ہوئی کہ یہ سرخی کہاں سے آگئی ہے ۔پھر میں چارپائی سے آہستہ سے اُٹھا کہ حضرت صاحب جاگ نہ اُٹھیں اور پھر اس کا نشان تلاش کرنا چاہا کہ یہ سرخی کہاں سے گری ہے ۔ بہت چھوٹا سا حجرہ تھا ۔چھت میں اردگرد میں نے اس کی خوب تلاش کی مگر خارج میں مجھے اس کا کہیں پتہ نہیں چلاکہ کہاںسے گِری ہے ۔مجھے یہ بھی خیال آیا کہ کہیںچھت پر کسی چھپکلی کی دم کٹی ہو تو اس کا خون گرا ہواس لئے میں نے غور کے ساتھ چھت پر نظر ڈالی مگر اس کا کوئی نشان نہیں پایا ۔پھر آخرمیں تھک کر بیٹھ گیا اور بدستور دبانے لگ گیا ۔تھوڑی دیر کے بعد حضرت صاحب اُٹھ کر بیٹھ گئے اور پھر حجرہ میں سے نکل کر مسجد میںجاکر بیٹھ گئے ۔میں وہاں پیچھے بیٹھ کر آپ کے مونڈھے دبانے لگ گیا۔اس وقت میں نے عرض کیا کہ حضوریہ آپ پر سرخی کہاںسے گری ہے ۔حضور نے بہت بے توجہی سے فرمایا کہ آموںکا رس ہوگا اور مجھے ٹال دیا ۔ میں نے دوبارہ عرض کیا کہ حضور یہ آموںکا رس نہیں یہ تو سرخی ہے ۔اس پر آپ نے سر مبارک کو تھوڑی سی حرکت دے کر فرمایا ’’ کتھّے ہے ‘‘؟ یعنی کہاں ہے ؟ میں نے کر تہ پر و ہ نشان دکھا کر کہا کہ یہ ہے اس پر حضور نے کُرتے کو سامنے کی طرف کھینچ کر اور اپنے سر کو ادھر پھیر کراس قطرہ کو دیکھا ۔پھر اس کے متعلق مجھ سے کچھ نہیں فرمایا بلکہ رؤیت باری اور امور کشوف کے خارج میںوجود پانے کے متعلق پہلے بزرگوںکے دو ایک واقعات مجھے سنائے اور فرمایا کہ خدا تعالیٰ کی ہستی وراء الوراء ہے اس کو یہ آنکھیں دنیامیں نہیں دیکھ سکتیں البتہ اس کی بعض صفات جمالی یا جلالی متمثل ہو کر بزرگوںکو دکھائی دے جاتے ہیں ۔ شاہ عبدالقادر صاحب لکھتے ہیںکہ مجھے کئی دفعہ خدا تعالیٰ کی زیارت اپنے والد کی شکل میںہوئی ہے نیز شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ مجھے اللہ تعالیٰ کی زیارت ہوئی اور خدا تعالیٰ نے مجھے ایک ہلدی کی گٹھی دی کہ یہ میری معرفت ہے اسے سنبھال کر رکھنا جب وہ بیدار ہوئے تو ہلدی کی گٹھی ان کی مٹھی میںموجود تھی ۔ اور ایک بزرگ جن کا حضور نے نام نہیں بتایا تہجد کے وقت اپنے حجرہ کے اند ر بیٹھے مصلّٰی پرکچھ پڑ ھ رہے تھے کہ انہوں نے کشف میں دیکھا کہ کوئی شخص باہر سے آیا ہے اور ان کے نیچے کا مصلّٰی نکال کر لے گیا ہے ۔ جب وہ بیدار ہوئے تو دیکھا کہ فی الواقع مصلّٰی ان کے نیچے نہیںتھا ۔ جب دن نکلنے پر حجرہ سے باہر نکلے تو کیا دیکھتے ہیں کہ مصلّٰی صحن میںپڑا ہے ۔یہ واقعات سنا کر حضرت صاحب نے فرمایا کہ یہ کشف کی باتیں تھیں مگر خداتعالیٰ نے ان بزرگوں کی کرامت ظاہر کر نے کیلئے خارج میںبھی ان کاوجود ظاہر کر دیا ۔اب ہمارا قصہ سنو ۔جس وقت تم حجرہ میں ہمارے پائوں دبا رہے تھے میں کیا دیکھتا ہوںکہ ایک نہایت وسیع اور مصفّٰی مکان ہے اس میں ایک پلنگ بچھا ہوا ہے اور اس پر ایک شخص حاکم کی صورت میںبیٹھاہے ۔میرے دل میںڈالا گیاکہ یہ احکم الحاکمین یعنی رب العالمین ہیں اورمیں اپنے آپ کو ایسا سمجھتا ہوں جیسے حاکم کا کوئی سر رشتہ دار ہوتا ہے۔میں نے کچھ احکام قضا و قدر کے متعلق لکھے ہیں اور ان پر دستخط کر انے کی غرض سے ان کے پاس لے چلا ہوں ۔جب میں پاس گیا تو انہوں نے مجھے نہایت شفقت سے اپنے پاس پلنگ پر بٹھا لیا۔اس وقت میری ایسی حالت ہوگئی کہ جیسے ایک بیٹا اپنے باپ سے بچھڑا ہو ا سالہاسال کے بعد ملتا ہے اور قدرتًا اس کا دل بھر آتا ہے یا شاید فرمایا اس کو رقت آجاتی ہے اور میرے دل میں اس وقت یہ بھی خیال آیا کہ احکم الحاکمین یا فرمایا رب العالمین ہیں اور کس محبت اور شفقت سے انہوں نے مجھے اپنے پاس بٹھا لیا ہے ۔ اس کے بعد میں نے وہ احکام جو لکھے تھے دستخط کرانے کی غرض سے پیش کئے ۔ انہوں نے قلم سرخی کی دوات میں جو پاس پڑی تھی ڈبویا اور میری طرف جھاڑ کردستخط کر دیئے ۔میاں عبداللہ صاحب کہتے ہیں کہ حضرت صاحب نے قلم کے جھاڑ نے اور دستخط کرنے کی حرکتوں کو خود اپنے ہاتھ کی حرکت سے بتایا تھاکہ یوں کیا تھا ۔ پھر حضرت صاحب نے فرمایایہ وہ سرخی ہے جو اس قلم سے نکلی ہے ۔پھر فرما یا دیکھو کو ئی قطرہ تمہارے اوپربھی گرا۔میں نے اپنے کُرتے کو ادھر اُدھر سے دیکھ کر عرض کیا کہ حضور میرے پر تو کوئی نہیں گرا۔فرمایا کہ تم اپنی ٹوپی پر دیکھو ۔ان دنوں میں ململ کی سفید ٹوپی میرے سر پر ہوتی تھی میں نے وہ ٹوپی اتار کر دیکھی تو ایک قطرہ اس پر بھی تھا ۔مجھے بہت خوشی ہوئی اور میں نے عرض کیا حضور میری ٹوپی پر بھی ایک قطرہ ہے ۔پھر میرے دل میں یہ شوق پیدا ہوا کہ یہ کُرتہ بڑا مبارک ہے اس کو تبرکاً لے لینا چاہئیے ۔ پہلے میں نے اس خیال سے کہ کہیں حضور جلدی انکار نہ کر دیں حضور سے مسئلہ پوچھا کہ حضور کسی بزرگ کا کوئی تبرک کپڑے وغیرہ کالے کر رکھنا جائز ہے ؟ فرمایا ہاں جائز ہے ۔رسول اللہ ﷺ کے تبرکا ت صحابہ نے رکھے تھے ۔پھر میں نے عرض کیا کہ حضور خدا کے واسطے میرا ا یک سوال ہے ۔فرمایا کہو کیا ہے ؟ عرض کیا کہ حضور یہ کُرتہ تبرکاً مجھے دے دیں ۔فرمایا نہیں یہ تو ہم نہیں دیتے ۔میں نے عرض کیا حضور نے ابھی تو فرمایا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے تبرکات صحابہ نے رکھے ۔اس پر فرمایا کہ یہ کُرتہ میں اس واسطے نہیں دیتا کہ میرے اور تیرے مرنے کے بعد اس سے شرک پھیلے گا اس کی لوگ پوجا کر یں گے۔اس کو لوگ زیارت بنالیں گے ۔میں نے عرض کیا کہ حضور رسول اللہ ﷺ کے تبرکات سے شرک نہ پھیلا ۔فرمایا میاں عبداللہ دراصل بات یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے تبرکات جن صحابہ کے پاس تھے وہ مرتے ہوئے وصیتیں کر گئے کہ ان تبرکات کو ہمارے کفن کے ساتھ دفن کر دینا چنانچہ ایسا ہی کیا گیا ۔ جو تبرک جن صحابہ کے پاس تھا وہ ان کے کفن کے ساتھ دفن کر دیا گیا ۔میں نے عرض کیا کہ حضور میں بھی مرتا ہوا وصیت کر جائو ں گا کہ یہ کُرتہ میرے کفن کے ساتھ دفن کر دیا جاوے۔فرمایا ہاں اگر یہ عہد کرتے ہو تو لے لو ۔چونکہ وہ جمعہ کا دن تھا تھوڑی دیر کے بعد حضورنے غسل کر کے کپڑے بدلے اور میں نے یہ کُرتہ سنبھال لیا۔میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ ابھی آپ نے یہ کُرتہ پہنا ہی ہوا تھا کہ دو تین مہمان جو اردگرد سے آئے ہوئے تھے ان سے میں نے اس نشان کا ذکر کیا۔وہ پھر حضرت صاحب کے پاس آئے او ر عرض کیا کہ میاں عبداللہ نے ہم سے ایسا بیان کیا ہے حضور نے فرمایا ۔ہاں ٹھیک ہے ۔پھر انہوںنے کہا کہ حضوریہ کُرتہ ہم کو دیدیں ہم سب تقسیم کر لیں گے کیونکہ ہم سب کا اس میں حق ہے ۔ حضرت صاحب نے فرمایا ہاں لے لینا اور ان سے کوئی شرط اور عہد وغیرہ نہیں لیا ۔مجھے اس وقت بہت فکر ہوا کہ یہ نشان میرے ہاتھ سے گیا ۔اور میرے دل میں بہت گھبراہٹ پیدا ہوئی اس لئے میں نے حضرت صاحب سے عرض کیا کہ حضوراس کُرتہ پر آپ کا کوئی اختیار نہیں کیونکہ یہ میری مِلک ہوچکا ہے ۔میرا اختیار ہے میں ان کو دو ں یا نہ دوں کیونکہ میں حضور سے اس کو لے چکا ہوں ۔اس وقت حضورنے مسکراکر فرمایا کہ ہاں یہ تو میاں عبداللہ ہم سے لے چکے ہیںاب ان کا اختیار ہے یہ تمہیں دیں یا نہ دیں ۔پھر انہوں نے مجھ سے بڑے اصرار سے مانگا مگر میں نے انکار کر دیا ۔میاں عبداللہ صاحب فرماتے ہیں کہ آج تک اس کُرتہ پر سرخی کے ویسے ہی داغ موجود ہیں کوئی تغیر نہیں ہوا۔اور اس کُرتہ کے کپڑے کو پنجابی میں نینو کہتے ہیں ۔یہ کُرتہ حضو ر نے سات دن سے پہنا ہوا تھا ۔میں یہ کُرتہ پہلے لوگوں کو نہیںدکھایا کر تا تھا کیونکہ حضور کے یہ الفاظ کہ یہ کُرتہ زیارت نہ بنا لیا جاوے مجھے یاد رہتے تھے ۔ لیکن لوگ بہت خواہش کیا کرتے تھے او ر لوگ اس کے دیکھنے کے لئے مجھے بہت تنگ کر نے لگے ۔میں نے حضر ت خلیفہ ثانی سے اس کا ذکر کیاکہ مجھے حضرت صاحب کے الفاظ کی وجہ سے اس کُرتہ کے دکھانے سے کراہت آتی ہے مگر لوگ تنگ کرتے ہیں کیا کیا جاوے؟ حضرت میاں صاحب نے فرمایا اسے بہت دکھایا کرو اورکثرت کے ساتھ دکھائو تاکہ اس کی رؤیت کے گواہ بہت پیدا ہو جاویں اور ہر شخص ہماری جماعت میں سے یہ کہے کہ میں نے بھی دیکھا ہے ۔ میں نے بھی دیکھا ہے ،میںنے بھی دیکھا ہے یا شاید میں نے کی جگہ ہم نے کے الفاظ کہے ۔اس کے بعد میںدکھانے لگ گیا ۔مگر اب بھی صرف اس کو دکھاتا ہوںجو خواہش کرتا ہے ۔اور ازخوددکھانے سے مجھے کراہت ہے کیونکہ حضرت صاحب کے الفاظ میرے دل پر نقش ہیں اور ہر سفر میں مَیں اسے پاس رکھتا ہوںاس خیال سے کہ کچھ معلوم نہیں کہ کہاں جان نکل جاوے۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے یہ کُرتہ دیکھا ہے سرخی کا رنگ ہلکا ہے یعنی گلابی سا ہے اور مجھے میاں عبداللہ صاحب سے معلوم ہو اہے کہ رنگ ابتدا سے ہی ایسا چلا آیا ہے ۔ (نیز دیکھو روایت نمبر ۴۳۶)
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{ 101} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ جب میں ۱۸۸۲ء میں پہلے پہل قادیان آیا تو اس وقت میری عمر سترہ اٹھا رہ سال کی تھی اور میری ایک شادی ہوچکی تھی اور دوسری کا خیال تھاجس کے متعلق میں نے بعض خوابیں بھی دیکھی تھیں ۔میں نے ایک دن حضرت صاحب کے ساتھ ذکرکیا کہ مجھے ایسی ایسی خوابیں آئی ہیں حضر ت صاحب نے فرمایا یہ تمہاری دوسری شادی کے متعلق ہیں اور فرمایا مجھے بھی اپنی دوسری شادی کے متعلق الہام ہوئے ہیں۔دیکھئے تمہاری شادی پہلے ہو تی ہے کہ ہماری ۔میں نے ادب کے طور پر عرض کیا کہ حضور ہی کی پہلے ہوگی۔پھراس کے بعد مجھے اپنے ایک رشتہ کے ماموں محمد اسماعیل کی لڑکی کے ساتھ نکاح کا خیال ہوگیا ۔چنانچہ میں نے قادیان آکر حضرت صاحب کے ساتھ اس کا ذکر کیا ۔اس سے پہلے میرے ساتھ اسماعیل مذکور بھی ایک دفعہ قادیا ن ہو گیا تھا ۔ حضور نے مجھ سے فرمایا تم نے اس وقت کیوں نہ مجھ سے ذکر کیا جب اسماعیل یہاں آیا تھا ہم اسے یہیں تحریک کر تے ۔پھر آپ نے میرے ماموں محمد یوسف صاحب مرحوم کو جو حضرت صاحب کے بڑے معتقد تھے اور جن کے ذریعہ مجھے حضرت صاحب کی طرف رہنمائی ہوئی تھی خط لکھا اور اس میں اسماعیل کے نام بھی ایک خط ڈالا اور لکھا کہ اسماعیل کے نام کا خط اسکے پاس لے جائیں اور اسے تحریک کریں ۔اور اس خط میں میرے والداور دادا اور خسر کی طرف بھی حضور نے خطوط ڈال کر بھیجے اور ان سب خطوط کو اہم بنانے کیلئے ان پر اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ والی مہر لگائی اور میرے والد اور دادا اور خسر کے خط میں لکھا کہ میاں عبداللہ دینی غرض سے دوسری شادی کر نا چاہتے ہیں ان کو نہ روکیں اور ان پر راضی رہیں۔میاں عبداللہ صاحب کہتے ہیں کہ حضرت صاحب نے ایسا اس لئے لکھا تھا کہ میں نے حضور کو کہا تھاکہ میں نے اپنے والد اور دادا سے اس امر کے متعلق کھل کر ذکر نہیں کیا مجھے ڈر ہے کہ وہ کہیں اس میں روک نہ ہوں کیونکہ اس زمانہ میں نکاح ثانی کو بُرا سمجھا جاتا تھا ۔حضرت صاحب نے ادھر یہ خطوط لکھے اور اُدھر میرے واسطے دعا شروع فرمائی۔ابھی میرے ماموں محمد یوسف صاحب کا جواب نہیں آیا تھا اور حضرت صاحب میری تحریک پراس امر کے واسطے دعا میں مصرو ف تھے کہ عین دعا کرتے کر تے حضرت صاحب کو الہام ہوا ’’ ناکامی ‘‘ پھر دعا کی تو الہام ہوا ’’ اے بسا آرزو کہ خاک شدہ ‘‘ پھر اس کے بعد ایک اور الہام ہوا ’’ فَصَبْرٌجَمِیْل ‘‘ ۔حضرت صاحب نے مجھے یہ الہام بتا دیئے ۔ان دنوں میں میر عباس علی بھی یہاں آئے ہوئے تھے ان سے حضرت صاحب نے ان الہامات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ معلوم نہیں میاں عبداللہ صاحب کا ہمارے ساتھ کیسا تعلق ہے کہ ادھر دعا کرتا ہوں اور اُدھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب مل جاتا ہے ۔چند دنوں کے بعد میاں محمد یوسف صاحب کا جواب آگیا کہ میاں عبداللہ کے والد اور دادا اور خسر تو راضی ہوگئے ہیں مگر اسماعیل انکار کرتا ہے ۔اس پر حضرت نے فرمایا کہ اب ہم اسماعیل کو خود کہیں گے ۔میں نے عرض کیا کہ حضور اِدھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ناکامی کا الہام ہوا ہے اُدھر اسماعیل انکاری ہے اب اس معاملہ میں کیا کامیابی کی صورت ہوسکتی ہے ؟ فرمایا نہیں قرآن شریف میں ہے کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِیْ شَاْنٍ (الرَّحمٰن:۳۰) یعنی ہر دن اللہ تعالیٰ الگ شان میں ہوتا ہے پس کو شش نہیں چھوڑنی چاہیے ۔ممکن ہے اللہ تعالیٰ کے الہامات کا یہ منشا ء ہو کہ جس طریق پر کوشش کی گئی ہے اس میں ناکامی ہے اور کسی اور طریق پر کامیابی مقدر ہو۔چنانچہ اس کے بعدبدستور میرا اس کی طرف خیال رہا اور میں حضور سے دعائیں بھی کراتا رہا ۔اسماعیل ان دنوں میں سر ہند کے پاس پٹواری تھا اور سرہند میں حشمت علی خان صاحب تحصیلدار تھے ۔جو ڈاکٹر عبدالحکیم خاں کے قریبی رشتہ دار تھے ۔انہوں نے حضرت صاحب سے وعدہ لیا ہوا تھا کہ کبھی حضور سر ہند تشریف لے چلیں گے ۔ چنانچہ جب آپ انبالہ جانے لگے تو مجھے کہا کہ حشمت علی خاں صاحب کو لکھ دو کہ ہم انبالہ جاتے ہوئے سر ہند آئیں گے اور مجھے حضرت صاحب نے فرمایا کہ سر ہند میں مجدّد صاحب کے روضہ پر بھی ہو آئیں گے ۔اور اسماعیل سے بھی تمہارے متعلق بات کرنے کا موقعہ مل جائے گا ۔چنانچہ آپ وہاں گئے اور تحصیل میں حشمت علی خاں صاحب کے پاس ٹھہرے ۔رات کو جب نماز اور کھانے سے فراغت ہو چکی تو حضورچارپائی پر لیٹ گئے اور حشمت علی خان صاحب سے فرمایا تحصیل دار صاحب اب آپ آرام کریں ہم نے میاں اسماعیل سے کچھ علیحدگی میںبات کرنی ہے اس پر وہ اور ان کے ساتھی اُٹھ گئے اور میں بھی اُٹھ آیا ۔اس وقت اسماعیل حضرت صاحب کے پائوں دبا رہا تھا ۔پھر حضرت صاحب نے اسماعیل کو میرے متعلق کہا مگر اس نے انکار کیا اور کئی عذر کر دیئے کہ دو بیویوں میںجھگڑے ہوا کرتے ہیں نیز یہ کہ عبداللہ کی تنخواہ بہت قلیل ہے (اس وقت میری تنخواہ ساڑھے چار روپے ماہوار تھی)گذارہ کس طرح ہوگا اور میاں عبداللہ کے خُسر میرے قریبی ہیں ان کو ملال ہوگا وغیرہ ۔حضرت صاحب نے فرمایا ان سب باتوںکا میں ذمہ لیتاہوں مگراس نے پھر بھی نہیں مانا اور عذر کیا کہ میری بیوی نہیں مانے گی ۔حضرت صاحب فرماتے تھے کہ میں نے خدا اور اس کے رسول کا حکم پیش کیا اوراپنی طرف سے بھی کہا مگر اس نے انکار کیا گویا اس کا خدا اس کا رسول اور اس کا پیر سب اس کی بیوی ہے کیونکہ وہ کہتا تھا کہ میں تو جووہ کہے گی وہی کرونگا ۔میاں عبداللہ صاحب کہتے تھے کہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ ابھی میں نے اسماعیل سے بات شروع نہیں کی تھی کہ مجھے کشف ہوا تھاکہ اس نے میرے بائیں ہاتھ پر دست پھر دیا ہے نیز میںنے کشف میںدیکھا تھا کہ اسکی شہادت کی انگلی کٹی ہوئی ہے ۔اس پر میں سمجھ گیا تھا کہ یہ اس معاملہ میں مجھے نہایت گندے جواب دے گا ۔حضرت صاحب فرماتے تھے کہ اس کا جواب سن کر مجھے اس سے ایسی نفرت ہو ئی کہ دل چاہتا تھا کہ یہ ابھی اُٹھ جاوے اور پھر کبھی تازیست میرے سامنے نہ آوے ۔میاں عبد اللہ صاحب کہتے ہیں اسکے بعد اسماعیل نے اپنی لڑکی کی دوسری جگہ شادی کردی جس پر مجھ کو سخت صدمہ پہنچا ۔میری اس حالت کی میرے والد صاحب نے حضرت صاحب کو بذریعہ خط اطلاع دی تو آپ نے مجھے خط لکھا کہ تم کچھ عرصہ کے واسطے تبدیل خیالات کے لئے یہاں میرے پاس آجائو ۔مگر اس شادی کے بعدا سماعیل پر بڑی مصیبت آئی ۔اس کے دو جوان لڑکے اور بیوی فوت ہو گئے ۔پھر جب میری دوسری شادی ماسٹر قادر بخش صاحب کی ہمشیرہ کے ساتھ ہوئی تو اسمٰعیل بہت پچھتایا اوراس نے مجھے کہا کہ حضرت سے مجھے معافی لے دو ۔میں نے حضرت صاحب کو لکھا حضورنے اس کی بیعت قبول فر مالی مگراس کے بعد بھی اسماعیل کو حضرت صاحب کی ملاقات نصیب نہیں ہوئی ۔میاں عبداللہ صاحب کہتے تھے کہ میرے متعلق جو حضرت صاحب نے اپنے نشانات کے ذکر میں لکھاہے کہ مجھے دکھایا گیا تھاکہ میاں عبداللہ کو ایک معاملہ میں ناکامی ہوگی سو ایسا ہی ہوا وہ اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضور نے اپنی تصنیف حقیقۃ الوحی نشان نمبر ۵۵ میں میاںعبداللہ صاحب کی اس ناکامی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ جب میرے ماموں اسماعیل کی لڑکی کا نکاح دوسری جگہ ہو گیاتو میں نے ایک اور جگہ تجویز کی اورسب باتوں کا تصفیہ کر کے حضرت صاحب کو خط لکھا کہ میں نے ایک جگہ شادی کی تجویز کر لی ہے اور سب باتوں کا فیصلہ ہو چکا ہے اورتاریخ نکاح بھی مقرر ہو چکی ہے ۔اب حضور سے تبرکاً مشورہ پوچھتا ہوں۔حضرت صاحب نے جواب دیا کہ اس معاملہ میںجلدی نہ کرو۔بڑی احتیاط سے کام لینا چاہیے اور تاکید فرمائی کہ ضرور پہلے لڑکی کو دیکھ لو ۔خط ختم کر نے کے بعد پھر لکھا کہ میری اس بات کو خوب یاد رکھنا ۔چنانچہ میں ارشاد کے مطابق لڑکی کو دیکھنے کے لئے اس کے گائوں گیا تو دیکھتے ہی میرے دل میںاتنی کراہت پیدا ہوئی کہ قریب تھا کہ قے ہو جاتی حالانکہ لڑکی شکل کی خراب نہیں تھی ۔اس کے بعد لدھیانہ کی ایک معلمہ کے ساتھ تجویز ہوئی مگر حضرت صاحب نے اسے بھی پسند نہیںفرمایا اس کے بعد میںنے ماسٹر قادر بخش صاحب کی ہمشیرہ کا ذکر کیا تو فرمایا یہ بہت اچھا موقعہ ہے یہاں کرلو۔چنانچہ حضورنے میری گزارش پر خود ماسٹر قادر بخش صاحب سے میرے متعلق کہا ۔انہوں نے بلا عذر قبول کر لیا حالانکہ وہ جانتے تھے کہ میری صرف ساڑھے چار روپے تنخواہ ہے اور بیوی بچے بھی ہیں ۔ قبول کرنے کے بعد انہوں نے کہا کہ حضور میراباپ بڑا مخالف ہے مگر وہ بغیر میری مرضی کے کچھ نہیں کر سکتا ۔ پس یا تو میں اُسے راضی کر لوں گا اور یا جب وہ مر جائے گا تو شادی کر دوں گا ۔حضرت صاحب بہت خوش ہوئے اور پھر مجھے باغ کی طرف لے گئے اور راستہ میں مجھے ان کا جواب سنایا اور باپ کے مرنے کے الفاظ سنا کر ہنسے ۔میاں عبداللہ صاحب کہتے تھے کہ اس کے بعد ماسٹر قادر بخش صاحب کو اپنے باپ کی طرف سے بہت تکلیفیں دیکھنی پڑیں مگر انہوں نے اپنی ہمشیرہ کی شادی دوسری جگہ نہیںہونے دی اور آخر میرے ساتھ اپنی بہن کی خفیہ شادی کر دی ۔نکاح کے وقت میں نے ان کو کہا کہ جو تحریر یا شرائط وغیرہ مجھ سے لکھانی ہو ں لکھا لو۔ انہوں نے کہا شرائط کیسی میری تحریر اور شرائط سب حضرت صاحب ہیں ۔ پھر مہر کے متعلق میں نے پوچھا تو انہوں نے کہاکہ سوا تیس روپے مہر ہوگا ۔ میں نے کہا نہیں بلکہ ایک سو روپیہ ہونا چاہئیے مگر انہوں نے اپنی رائے پر اصرار کیا اس پر میں نے ان کو کہا کہ مجھے خواب آیا تھا کہ میرا دوسرا نکاح ہوا ہے اور مہر ایک سو روپیہ رکھا گیا ہے اس پر انہوں نے مان لیا ۔پھر رخصتانہ بھی خفیہ ہوا۔لیکن آخر ماسٹر قادر بخش صاحب کا والد بھی راضی ہو گیا ۔نیز میاں عبداللہ صاحب بیا ن کرتے تھے کہ جب حضرت صاحب سر ہند تشریف لے گئے تھے تو اسی سفر میں تھوڑی دیر کے لئے سنور بھی گئے تھے ۔
{ 102} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتاہے کہ حضرت خلیفہ اوّل بیان کیا کرتے تھے کہ جب میں پہلی دفعہ قادیان آیا تو یہاں چھوٹی مسجد کے پاس جو چوک ہے اس میں یکہ پر سے اترا اور پھر میںنے یکہ والے سے یا شاید فرمایا کسی سے پوچھا کہ مرزا صاحب کہاں ہیں ؟ اس وقت مرزا امام الدین اور مرزانظام الدین اپنے صحن میںچارپائیوں پر مجلس لگائے بیٹھے تھے اس نے ان کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ وہ ہیں ۔میں نے ادھر دیکھا تو میرا دل بیٹھ گیا اور میں نے یکہ والے سے کہا ابھی نہ جائو ذرا ٹھہر جائو شاید مجھے ابھی واپس جانا پڑے۔پھر میں آگے بڑھ کر اس مجلس میںگیا لیکن میرے دل میںایسا اثرتھاکہ میں جاکر بغیر سلام کئے چارپائی پر بیٹھ گیا۔مرزا امام الدین یاشاید فرمایا مرزا نظام الدین نے میرا نام پوچھا میںنے بتا یا تو انہوں نے کہا کہ آپ شاید مرزا صاحب کوملنے آئے ہیں۔مولوی صاحب فرماتے تھے تب میری جان میں جان آئی کہ یہاں کوئی اور مرزا بھی ہے ۔پھر میرے ساتھ انہوںنے ایک آدمی کر دیا جو مجھے چھوٹی مسجد میں چھوڑگیا ۔اس وقت حضرت صاحب مکان کے اندر تشریف رکھتے تھے آپ کو اطلاع کرائی گئی تو فرمایا میں ظہر کی نماز کے وقت باہر آئوں گا ۔پھر حضورتشریف لائے تو میں ملا ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مولوی صاحب براہین احمدیہ کے زمانہ میںیہاں آئے تھے اور مولوی شیر علی صاحب بیان کرتے تھے کہ حضرت صاحب نے کہیںلکھاہے کہ میں دعا کیا کرتا تھاکہ خدا مجھے موسیٰ کی طرح ہارون عطا کر ے پھر جب مولوی صاحب آئے تو میں نے دیکھتے ہی پہچان لیا کہ ھٰذا دعائی ۔
(خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ نے آئینہ کمالات اسلام میں اپنی اس دعا کا ذکر کیا ہے مگر حضرت موسیٰ اور ہارون کی مثال اس جگہ نہیں دی اور عجیب بات ہے کہ جیسا کہ حضرت مولوی صاحب کی تحریر مندرجہ کرامات الصادقین میں درج ہے ۔ حضرت مولوی صاحب کو بھی اپنی طرف کسی ایسے مرد کامل کی تلاش تھی جو اس پُر آشوب زمانہ کے فتنوں کا مقابلہ کر سکے اور اسلام کو دوسرے مذاہب پر غالب کر کے دکھا سکے۔)
{ 103} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا کرتے تھے حضرت خلیفہ اوّل کہ جب میںجموںکی ملازمت سے فارغ ہو کر بھیرہ آیا تو میں نے بھیرہ میں ایک بڑا مکان تعمیر کرانا شروع کیااو ر اس کے واسطے کچھ سامان عمارت خریدنے کے لئے لاہور آیا ۔لاہور آکر مجھے خیال آیا کہ چلو قادیان بھی ایک دن ہوتے آویں ۔خیر میں یہاں آیا ۔حضرت صاحب سے ملا تو حضور نے فرمایا مولوی صاحب اب تو آپ ملازمت سے فارغ ہیں امید ہے کچھ دن یہاں ٹھہر یں گے ۔میں نے عرض کیا ہاں حضور ٹھہر وں گا ۔پھر چند دن کے بعد فرمانے لگے مولوی صاحب آپ کو اکیلے تکلیف ہوتی ہو گی اپنے گھروالوںکو بھی یہاںبلا لیں ۔میںنے گھر والوں کو بھیرہ خط لکھ دیا کہ عمارت بند کر ا دو اوریہاں چلے آئو ۔پھر ایک موقعہ پر حضرت صاحب نے مجھے فرمایا کہ مولوی صاحب اب آپ اپنے پچھلے وطن بھیرہ کا خیال بھی دل میں نہ لاویں۔مولوی صاحب فرماتے تھے کہ میں دل میں بہت ڈرا کہ یہ ہو سکتاہے کہ میںوہاںکبھی نہ جائوں مگر یہ کس طرح ہوگا کہ میرے دل میں بھی بھیرہ کا خیال نہ آوے مگر مولوی صاحب فرماتے تھے کہ خداکا ایسا فضل ہوا کہ آج تک میرے دل میں کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ بھیرہ بھی میرا وطن ہوتا تھا۔
(خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مولوی صاحب غالباً جموں کی ملازمت سے ۱۸۹۱ء یا ۱۸۹۲ء میں فارغ ہوئے تھے اور ۱۸۹۲ ء یا ۱۸۹۳ء میں قادیان آگئے تھے۔)
{ 104} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیا ن کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے تھے کہ ہماری جتنی عربی تحریریںہیں یہ سب ایک رنگ کی الہام ہی ہیں کیونکہ سب خدا کی خاص تائید سے لکھی گئی ہیں ۔ فرماتے تھے بعض اوقات میں کئی الفاظ اور فقرے لکھ جاتا ہوں مگر مجھے ان کے معنے نہیں آتے پھر لکھنے کے بعد لغت دیکھتا ہوںتو پتہ لگتا ہے ۔نیز مولوی صاحب موصوف بیان کرتے ہیں کہ حضرت صاحب عربی کتابوں کی کاپیاں اور پروف حضرت خلیفہ اوّل اور مولوی محمد احسن صاحب کے پاس بھی بھیجا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ اگر کسی جگہ اصلاح ہو سکے تو کردیں ۔حضرت خلیفہ اوّل تو پڑ ھ کر اسی طرح واپس فرمادیتے تھے لیکن مولوی محمد احسن صاحب بڑی محنت کر کے اس میں بعض جگہ اصلاح کے طریق پر لفظ بدل دیتے تھے ۔مولوی شیر علی صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود ؑ نے ایک وقت فرمایا کہ مولوی محمداحسن صاحب اپنی طرف سے تو اصلاح کرتے ہیںمگر میں دیکھتا ہوں کہ میرا لکھا ہو الفظ زیادہ بر محل اور فصیح ہو تا ہے اور مولوی صاحب کا لفظ کمزور ہوتا ہے لیکن میں کہیں کہیں انکا لکھا ہوا لفظ بھی رہنے دیتا ہوں تا ان کی دل شکنی نہ ہو کہ ان کے لکھے ہو ئے سب الفاظ کا ٹ دیئے ہیں ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ کا قاعدہ تھاکہ عربی کتب کی کاپیاں اور پروف سلسلہ کے علماء کے پاس یہ کہہ کر بھجوا دیتے تھے کہ دیکھو کوئی اصلاح ہو سکے تو کر دو۔اور اس کا رروائی سے ایک مطلب آپ کا یہ بھی ہوتا تھا کہ یہ لوگ اس طریق سے حضورکی تصانیف پڑ ھ لیں اور حضور کی تعلیم اور سلسلہ سے واقف رہیں۔ یہ خاکسارکا اپنا خیال ہے کسی روایت پر مبنی نہیں ۔
{ 105} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حافظ روشن علی صاحب نے کہ حضرت مسیح موعود ؑ نے جن دنوں میں اَیَا اَرْضَ مُدٍّ قَدْ دَفَاکِ مُدَمِّّرُ والا قصیدہ اعجاز احمدی میں لکھا تو اسے دوبارہ پڑھنے پر باہر آکر حضرت خلیفہ اوّل سے دریافت فرمانے لگے کہ مولوی صاحب کیا اَیَا بھی ندا کیلئے آتا ہے۔؟ عرض کیا گیاہاں حضور بہت مشہور ہے ۔فرمایا شعر میںلکھا گیا ہے ہمیں خیال نہیں تھا۔نیز حافظ صاحب بیان کرتے ہیں کہ کئی دفعہ حضور فرماتے تھے کہ بعض الفاظ خود بخود ہمارے قلم سے لکھے جاتے ہیں اور ہمیں ان کے معنی معلوم نہیں ہو تے ۔حافظ صاحب کہتے ہیںکہ کئی دفعہ حضرت صاحب سے ایسا محاورہ لکھا جاتا تھا کہ جس کا عام لغت میں بھی استعمال نہ ملتا تھالیکن پھر بہت تلاش سے پتہ چل جاتا تھا۔
{ 106} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے مولوی ذوالفقار علی خان صاحب نے کہ جب کرم دین کے مقدمہ کے لئے حضرت صاحب گورداسپور میں تھے تو وہاں آپ کے پاس الہ آباد کے تین غیر احمدی مہمان آئے جن میں سے ایک کا نام مولوی الٰہی بخش تھا ۔ان کی حضرت صاحب سے گفتگو ہو تی رہی آخر وہ قائل ہو گئے ۔ایک دفعہ جب حضرت صاحب مکان کے صحن میں ٹہل رہے تھے اور مولو ی الٰہی بخش صاحب بھی ساتھ ساتھ پھرتے تھے ۔مولوی الٰہی بخش صاحب نے حضرت صاحب سے کہا کہ اگر میںنے بیعت کر لی تو میرے ساتھ اور بہت سے لوگ بیعت کریں گے ۔حضر ت صاحب چلتے چلتے ٹھہر گئے اور آپ کا چہرہ سرخ ہوگیا اور آپ نے فرمایا مجھے کیا پروا ہے یہ خدا کا کام ہے وہ خود لوگوں کی گردنیں پکڑ پکڑ کر میرے پائوں پر گرائے گا ۔اور گرا رہا ہے ۔خان صاحب کہتے تھے کہ مولوی الٰہی بخش صاحب نے یہ الفاظ ایسے طریق پر کہے تھے جس میں کچھ احسان پایا جاتا تھا ۔خان صاحب بیان کرتے تھے کہ دوسرے دن جب مولوی صاحب اور ان کے ساتھی واپس جانے لگے تو حضرت صاحب سے ملنے آئے۔میں بھی وہیں تھا میں نے مولوی صاحب سے پوچھا کہئے مولوی صاحب اب کو ئی اعتراض تو باقی نہیں رہا۔مولوی صاحب نے کہا نہیںمیری تسلی ہوگئی ہے ۔ میں نے کہا تو پھر بیعت ؟ حضرت صاحب نے فرمایا خان صاحب یہ کہنا آپ کا حق نہیں ہے ۔ہمارا کام پہنچا دینا ہے آگے ماننا یا نہ ماننا ان کا کام ہے ۔خیر وہ واپس چلے گئے۔تیسرے چوتھے دن حضرت صاحب قادیان آئے اور میں بھی آیا تو حضور نے مجھے بلا کر مسکراتے ہوئے اپنے رومال سے ایک پوسٹ کارڈ کھولا اور میر ی طرف پھینکا اور فرمایا تحصیل دار صاحب ! آپ جلدی کرتے تھے لیجئے ان کا خط آگیا ہے ۔میں نے خط دیکھا تو مولوی الٰہی بخش صاحب کا تھا اور پنسل سے لکھا ہوا تھا جو انہوں نے راستہ میں لکھنؤ سے بھیجا تھا ۔اس میں انہوں نے لکھا تھا کہ میں نے ریل میں بیٹھے ہو ئے خیال کیا کہ اب جبکہ مجھ پر حق کھل گیا ہے تو اگر میں راستہ میں ہی مرجائوں تو خدا کو کیا جواب دوں گا اس لئے میں حضور کے سلسلہ میں داخل ہوتا ہوں میری بیعت قبول فر مائی جاوے ۔حضرت صاحب نے فرمایا کہ جب آدمی الگ ہوتا ہے تو پھر اسے سوچنے کا اچھا موقعہ ملتا ہے اور گذشتہ باتوں پر غور کرکے وہ کسی نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے ۔
{ 107} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے مولوی سید سرور شاہ صاحب نے کہ جن دنوں میں گورداسپور میں کرم دین کے ساتھ مقدمہ تھا اور مجسٹریٹ نے تاریخ ڈالی ہوئی تھی اور حضرت صاحب قادیان آئے ہوئے تھے حضور نے تاریخ سے دو روز پہلے مجھے گورداسپور بھیجا کہ میں جاکر وہاں بعض حوالے نکال کر تیار رکھوں کیونکہ اگلی پیشی میں حوالے پیش ہونے تھے ۔میرے ساتھ شیخ حامد علی اور عبدالرحیم نائی باورچی کو بھی حضور نے گورداسپور بھیج دیا ۔جب ہم گورداسپور مکان پر آئے تو نیچے سے ڈاکٹر محمد اسماعیل خان صاحب مرحوم کوآواز دی کہ وہ نیچے آویںاور دروازہ کھولیں۔ڈاکٹر صاحب موصوف اس وقت مکان میں اوپر ٹھہر ے ہوئے تھے۔ہمارے آواز دینے پر ڈاکٹر صاحب نے بے تاب ہوکررونا اور چلّا ناشروع کر دیا ۔ ہم نے کئی آوازیں دیںمگر وہ اسی طرح روتے رہے آخر تھوڑی دیر کے بعد وہ آنسو پونچھتے ہوئے نیچے آئے ۔ ہم نے سبب پوچھا تو انہوںنے کہا کہ میرے پاس محمد حسین منشی آیا تھا۔مولوی صاحب کہتے تھے کہ محمد حسین مذکور گورداسپور میں کسی کچہری میںمحرریا پیشکار تھااور سلسلہ کا سخت مخالف تھا۔اور مولو ی محمد حسین بٹالوی کے ملنے والوں میںسے تھا۔خیر ڈاکٹر صاحب نے بیان کیا کہ محمدحسین منشی آیا اوراس نے مجھے کہا کہ آج کل یہاںآریوں کا جلسہ ہو ا ہے۔بعض آریے اپنے دوستوںکو بھی جلسہ میں لے گئے تھے چنانچہ اسی طرح میں بھی وہاںچلا گیا۔جلسہ کی عام کارروائی کے بعد انہوں نے اعلان کیا کہ اب جلسہ کی کارروائی ہو چکی ہے اب لوگ چلے جاویںکچھ ہم نے پرائیویٹ باتیں کرنی ہیں چنانچہ سب غیر لوگ اُٹھ گئے میں بھی جانے لگا مگر میرے آریہ دوست نے کہا کہ اکٹھے چلیں گے آپ ایک طرف ہو کر بیٹھ جاویں یاباہر انتظار کریںچنانچہ میں وہاں ایک طرف ہو کر بیٹھ گیا پھر ان آریوں میں سے ایک شخص اُٹھااور مجسٹریٹ کومرزا صاحب کا نام لے کر کہنے لگا کہ یہ شخص ہمارا سخت دشمن اور ہمارے لیڈر لیکھرام کا قاتل ہے ۔اب وہ آپ کے ہاتھ میں شکار ہے اور ساری قوم کی نظرآپ کی طرف ہے اگر آپ نے اس شکار کو ہاتھ سے جانے دیا تو آپ قوم کے دشمن ہوںگے اوراسی قسم کی جوش دلانے کی باتیں کیں ۔اس پر مجسٹریٹ نے جواب دیا کہ میرا تو پہلے سے خیال ہے کہ ہو سکے تو نہ صرف مرزا کو بلکہ اس مقدمہ میں جتنے بھی اس کے ساتھی اور گواہ ہیں سب کو جہنم میں پہنچا دوںمگر کیا کیا جاوے کہ مقدمہ ایسا ہوشیاری سے چلایا جارہاہے کہ کوئی ہاتھ ڈالنے کی جگہ نہیں ملتی لیکن اب میں عہد کرتا ہوں کہ خواہ کچھ ہوا س پہلی پیشی میں ہی عدالتی کارروائی عمل میں لے آئوںگا ۔ مولوی صاحب کہتے تھے کہ ڈاکٹر صاحب بیان کرتے تھے کہ محمد حسین مجھ سے کہتا تھا کہ آپ یہ نہیںسمجھے ہوںگے کہ عدالتی کارروائی سے کیا مراد ہے ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر مجسٹریٹ کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ شروع یا دوران مقدمہ میںجب چاہے ملزم کو بغیر ضمانت قبول کئے گرفتار کر کے حوالات میں دے دے ۔محمد حسین نے کہا ۔ڈاکٹر صاحب آپ جانتے ہیں کہ مَیں آپ کے سلسلہ کا سخت مخالف ہوں مگرمجھ میں یہ بات ہے کہ میں کسی معزز خاندان کو ذلیل و برباد ہوتے خصوصاً ہندوئو ں کے ہاتھ سے ذلیل ہوتے نہیں دیکھ سکتا اور میں جانتا ہوں کہ مرزا صاحب کا خاندان ضلع میں سب سے زیادہ معزز ہے ۔پس میں نے آپ کو یہ خبر پہنچادی ہے کہ آپ اس کا کوئی انتظام کر لیں ۔اور میرے خیال میں دو تجویزیں ہو سکتی ہیں ایک تو یہ ہے کہ چیف کورٹ لاہور میں یہاں سے مقدمہ تبدیل کرانے کی کوشش کی جاوے اور دوسرے یہ کہ خواہ کسی طرح ہو مگر مرزا صاحب اس آئندہ پیشی میں حاضر عدالت نہ ہوں اور ڈاکٹری سرٹیفیکیٹ پیش کردیں ۔مولوی صاحب نے بیان کیا کہ ڈاکٹر صاحب نے یہ واقعہ بیان کیا تو ہم سب بھی سخت خوف زدہ ہوگئے اور فیصلہ کیا کہ اسی وقت قادیان کوئی آدمی روانہ کر دیا جاوے جو حضرت صاحب کو یہ واقعات سناوے ۔را ت ہوچکی تھی ہم نے یکہ تلاش کیا اور گو کئی یکے موجود تھے مگر مخالفت کا اتنا جوش تھا کہ کوئی یّکہ نہ ملتا تھا ہم نے چارگنے کرایہ دینا کیا مگر کوئی یکہ والا راضی نہ ہوا آخر ہم نے شیخ حامد علی اور عبدالرحیم باورچی اور ایک تیسرے شخص کو قادیان پیدل روانہ کیا ۔وہ صبح کی نماز کے وقت قادیان پہنچے اور حضرت صاحب سے مختصراً عرض کیا حضور نے بے پروائی سے فرمایا خیر ہم بٹالہ چلتے ہیںخوا جہ صاحب اور مولوی محمد علی صاحب لاہور سے واپس آتے ہوئے وہاں ہم کو ملیںگے ان سے ذکر کریں گے اور وہاںپتہ لگ جائے گا کہ تبدیل مقدمہ کی کوشش کا کیا نتیجہ ہوا۔چنانچہ اسی دن حضور بٹالہ آگئے ۔گاڑی میں مولوی محمد علی صاحب اور خوا جہ صاحب بھی مل گئے انہوں نے خبر دی کہ تبدیل مقدمہ کی کوشش کامیاب نہیں ہوئی ۔پھر حضرت صاحب گورداسپور چلے آئے اور راستہ میں خوا جہ صاحب اور مولوی صاحب کو اس واقعہ کی کوئی اطلاع نہیںدی ۔جب آپ گورداسپور مکان پر پہنچے تو حسب عادت الگ کمرے میں چارپائی پر جالیٹے مگراس وقت ہمارے بدن کے رونگٹے کھڑے تھے کہ اب کیا ہوگا ۔ حضور نے تھوڑی دیر کے بعد مجھے بلایا ۔میں گیا اس وقت حضرت صاحب نے اپنے دونوں ہاتھوںکے پنجے ملا کر اپنے سر کے نیچے دیئے ہوئے تھے اور چت لیٹے ہوئے تھے۔میرے جانے پر ایک پہلو پر ہو کر کہنی کے بل اپنی ہتھیلی پر سر کا سہارا دے کر لیٹ گئے اور مجھ سے فرمایا میں نے آپ کو اس لئے بلایا ہے کہ وہ سارا واقعہ سنوں کہ کیاہے ۔اس وقت کمرے میں کوئی اور آدمی نہیں تھا صرف دروازے پر میاں شادی خان کھڑے تھے ۔ میں نے سارا قصہ سنایا کہ کس طرح ہم نے یہاں آکر ڈاکٹر اسماعیل خان صاحب کو روتے ہوئے پایا پھر کس طرح ڈاکٹر صاحب نے منشی محمد حسین کے آنے کا واقعہ سنایا اور پھر محمد حسین نے کیا واقعہ سنایا ۔حضور خاموشی سے سنتے رہے جب میں شکار کے لفظ پر پہنچا تو یکلخت حضرت صاحب اُٹھ کر بیٹھ گئے اور آپ کی آنکھیں چمک اُٹھیںاور چہرہ سُرخ ہوگیا اور آپ نے فرمایا میں اس کا شکار ہوں ! میںشکار نہیںہوں میں شیرہوں اور شیر بھی خدا کا شیر ۔وہ بھلا خدا کے شیر پر ہاتھ ڈال سکتاہے ؟ ایسا کر کے تو دیکھے ۔ یہ الفاظ کہتے ہوئے آپ کی آواز اتنی بلند ہوگئی کہ کمرے کے باہر بھی سب لوگ چونک اُٹھے اور حیرت کے ساتھ ادھر متوجہ ہوگئے مگر کمرے کے اندر کو ئی نہیں آیا ۔حضور نے کئی دفعہ خدا کے شیر کے الفاظ دہرائے اور اس وقت آپ کی آنکھیں جو ہمیشہ جھکی ہوئی اور نیم بند رہتی تھیں واقعی شیر کی آنکھوں کی طرح کھل کر شعلہ کی طرح چمکتی تھیں اور چہرہ اتنا سرخ تھا کہ دیکھا نہیںجاتا تھا ۔پھر آپ نے فرمایا میں کیا کروں میں نے تو خدا کے سامنے پیش کیا ہے کہ میں تیرے دین کی خاطر اپنے ہاتھ اور پائوں میں لوہا پہننے کو تیار ہوں مگر وہ کہتا ہے کہ نہیں میں تجھے ذلت سے بچائوں گا اور عزت کے ساتھ بری کروں گا ۔پھر آپ محبت الٰہی پر تقریرفرمانے لگ گئے اور قریباً نصف گھنٹہ تک جوش کے ساتھ بولتے رہے لیکن پھر یکلخت بولتے بولتے آپ کو اُبکائی آئی اور ساتھ ہی قے ہوئی جو خالص خون کی تھی جس میں کچھ خون جما ہوا تھا اور کچھ بہنے والا تھا ۔ حضرت نے قے سے سر اُٹھا کر رومال سے اپنا منہ پونچھا اور آنکھیں بھی پونچھیں جو قے کی وجہ سے پانی لے آئی تھیں۔مگر آپ کو یہ معلوم نہیں ہوا کہ قے میں کیا نکلا ہے کیونکہ آپ نے یکلخت جھک کر قے کی اور پھر سر اُٹھالیا ۔مگر میں اس کے دیکھنے کے لئے جھکا تو حضور نے فرمایا کیا ہے ؟ میں نے عرض کیا حضورقے میں خون نکلا ہے ۔تب حضور نے اس کی طرف دیکھا ۔پھر خوا جہ صاحب اور مولوی محمد علی صاحب اور دوسرے سب لوگ کمرے میں آگئے اورڈاکٹر کو بلوایا گیا ۔ڈاکٹر انگریزتھا ۔وہ آیا اور قے دیکھ کر خوا جہ صاحب کے ساتھ انگریزی میں باتیں کرتا رہا جس کا مطلب یہ تھا کہ اس بڑھاپے کی عمر میں اس طر ح خون کی قے آنا خطر ناک ہے ۔پھر اس نے کہا کہ یہ آرام کیوں نہیںکرتے؟ خوا جہ صاحب نے کہا آرام کس طرح کریںمجسٹریٹ صاحب قریب قریب کی پیشیاںڈال کر تنگ کرتے ہیںحالانکہ معمولی مقدمہ ہے جو یونہی طے ہوسکتا ہے۔ اس نے کہا اس وقت آرام ضروری ہے میں سرٹیفکیٹ لکھ دیتا ہوں ۔ کتنے عرصہ کیلئیسرٹیفکیٹچاہئیے ؟ پھر خود ہی کہنے لگا میرے خیال میںدو مہینے آرام کرنا چاہئیے ۔خوا جہ صاحب نے کہا کہ فی الحال ایک مہینہ کا فی ہوگا ۔اس نے فوراً ایک مہینے کیلئیسرٹیفکیٹلکھ دیا اور لکھا کہ اس عرصہ میں مَیںان کو کچہری میں پیش ہونے کے قابل نہیںسمجھتا ۔اس کے بعد حضرت صاحب نے واپسی کا حکم دیا ۔ مگر ہم سب ڈرتے تھے کہ اب کہیں کوئی نیا مقدمہ نہ شروع ہو جاوے ۔کیونکہ دوسرے دن پیشی تھی اور حضورگورداسپور آکر بغیر عدالت کی اجازت کے واپس جارہے تھے مگر حضرت صاحب کے چہرہ پربالکل اطمینان تھاچنانچہ ہم سب قادیان چلے آئے۔بعد میںہم نے سنا کہ مجسٹریٹ نیسرٹیفکیٹپر بڑی جرح کی اور بہت تلملایااور ڈاکٹر کو شہادت کے لئے بلایا مگر اس انگریز ڈاکٹر نے کہا کہ میرا سر ٹیفکیٹ بالکل درست ہے اور میںاپنے فن کا ماہر ہوں اس پر میرے فن کی روسے کوئی اعتراض نہیں کر سکتااور میرا سرٹیفکیٹتمام اعلیٰ عدالتوں تک چلتا ہے ۔مجسٹریٹ بڑ بڑاتا رہا مگر کچھ پیش نہ گئی۔پھر اسی وقفہ میں اس کا گورداسپور سے تبادلہ ہوگیا ۔اور نیز کسی ظاہراً نا معلوم وجہ سے اس کا تنزل بھی ہو گیایعنی وہ ای اے۔سی سے منصف کر دیا گیا ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ غالباً اس مجسٹریٹ کا نام چندولال تھا اور وہ تاریخ جس پر اس موقعہ پر حضرت صاحب نے پیش ہو نا تھا غالباً ۱۶،فروری ۱۹۰۴ء تھی ۔
{ 108} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے قاضی امیر حسین صاحب نے کہ ایک دفعہ ہم نے حضرت صاحب سے دریافت کیا کہ حضور حدیث میں آتا ہے کہ سب نبیوں نے بکریاں چرائی ہیں کیا کبھی حضور نے بھی چرائی ہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں میں ایک دفعہ باہر کھیتوں میں گیا وہاں ایک شخص بکریاں چرا رہا تھا اس نے کہا کہ میں ذرا ایک کام جاتا ہوں آپ میری بکریوں کا خیال رکھیںمگر وہ ایسا گیا کہ بس شام کو واپس آیا اور اس کے آنے تک ہمیں اس کی بکریاں چرانی پڑیں ۔
{ 109} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت خلیفہ اوّل فرماتے تھے کہ جب فتح اسلام ، توضیح مرام شائع ہوئیں تو ابھی میرے پاس نہ پہنچی تھیں اورایک مخالف شخص کے پاس پہنچ گئی تھیں ۔اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا دیکھو اب میں مولوی صاحب کو یعنی مجھے مرزا صاحب سے علیحد ہ کئے دیتا ہوں ۔ چنانچہ وہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ مولوی صاحب ! کیا نبی کریم ﷺ کے بعد کوئی نبی ہو سکتا ہے ؟ میں نے کہا نہیں اس نے کہا اگر کوئی نبوت کا دعویٰ کر ے تو پھر ؟ میں نے کہا تو پھر ہم یہ دیکھیں گے کہ کیا وہ صادق اور راستباز ہے یا نہیں ۔اگر صادق ہے تو بہر حال اس کی بات کو قبول کریں گے ۔میرا یہ جواب سن کر وہ بولا ۔ واہ مولوی صاحب آپ قابو نہ ہی آئے ۔یہ قصہ سناکر حضرت مولوی صاحب فرمایا کرتے تھے کہ یہ تو صرف نبوت کی بات ہے میرا تو ایمان ہے کہ اگر حضرت مسیح موعود صاحب شریعت نبی ہو نے کا دعویٰ کریں اور قرآنی شریعت کو منسوخ قرار دیں تو پھر بھی مجھے انکا ر نہ ہو کیونکہ جب ہم نے آپ کو واقعی صادق اور منجانب اللہ پایا ہے تو اب جو بھی آپ فرمائیں گے وہی حق ہوگا او رہم سمجھ لیں گے کہ آیت خاتم النبیین کے کوئی اور معنی ہوں گے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ واقعی جب ایک شخص کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونا یقینی دلائل کے ساتھ ثابت ہو جائے تو پھر اس کے کسی دعویٰ میں چون و چرا کرنا باری تعالیٰ کا مقابلہ کرنا ٹھہرتا ہے ۔
(مگر ویسے حضرت مولوی صاحب نے جو کچھ فرمایا ۔ وہ صرف ایک اصولی رنگ کی بات تھی۔ ورنہ ہمارا ایمان ہے اور یہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم ہے کہ قرآنی شریعت آخری شریعت ہے۔ پس حضرت مولوی صاحب کے یہ الفاظ اسی رنگ کے سمجھے جائیں گے۔جس رنگ میں اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ قُلْ اِنْ کَانَ لِلرَّحْمٰنِ وَلَدٌ فَاَنَا اَوَّلُ الْعَابِدِیْن ـ (الزخرف:۸۲)
{ 110} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ پسر موعود کی پیشگوئی کے بعد حضرت صاحب ہم سے کبھی کبھی کہاکرتے تھے کہ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہم کو جلد وہ موعود لڑکا عطا کرے ۔ ان دنوں میںحضرت کے گھر امید واری تھی ۔ایک دن بارش ہوئی تو میں نے مسجد مبارک کے اوپر صحن میں جاکر بڑی دعا کی کیونکہ میں نے حضرت صاحب سے سنا ہوا تھا کہ اگر بارش میں دعا کی جاوے توزیادہ قبول ہوتی ہے ۔پھر مجھے دعا کرتے کرتے خیال آیا کہ باہر جنگل میں جاکر دعا کروں کیونکہ میں نے حضرت صاحب سے یہ بھی سنا ہوا تھا کہ باہر جنگل کی دعا بھی زیادہ قبول ہوتی ہے اور میں نے غنیمت سمجھا کہ یہ دو قبولیت کے موقعے میرے لئے میسر ہیں ۔ چنانچہ میں قادیان سے مشرق کی طرف چلا گیا اور باہر جنگل میں بارش کے اندر بڑی دیر تک سجدہ میں دعا کرتا رہا ۔ گویا وہ قریباً سارا دن میرا بارش میں ہی کٹا ۔اسی دن شام یا دوسرے دن صبح کو حضرت صاحب نے مجھ سے فرمایا کہ مجھے الہام ہوا ہے کہ ــ’’ ان کو کہہ دو انہوں نے رنج بہت اُٹھا یا ہے ثواب بہت ہوگا ‘‘ ۔میں نے عرض کیا حضور یہ الہام تو میرے متعلق معلوم ہوتا ہے حضور نے فرمایا کس طرح ؟ میں نے اپنی دعا کا سارا قصہ سنایا ۔حضورخوش ہوئے اور فرمایا ایسا ہی معلوم ہوتاہے پھر میں نے اس خوشی میں ایک آنہ کے پتاشے بانٹے ۔مگر اس وقت میں اس کے اصل معنے نہیںسمجھا ۔پھر جب عصمت پیدا ہوئی تو میں سمجھا کہ دراصل اس الہام میں یہ بتا یا گیا تھا کہ گودعا قبول نہیں ہوگی مگر مجھے ثواب پہنچ جائے گا ۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{ 111} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ جب ابھی حضور نے سلسلہ بیعت شروع نہیں فرمایا تھا میں نے ایک دفعہ حضرت سے عرض کیا کہ حضور میری بیعت لیں ۔آپ نے فرمایا پیر کا کام بھنگی کاسا کام ہے اسے اپنے ہاتھ سے مرید کے گندنکال نکال کر دھونے پڑتے ہیں اور مجھے اس کام سے کراہت آتی ہے ۔میںنے عرض کیا حضور تو پھر کوئی تعلق تو ہونا چاہیے میں آتا ہوں اور اوپرا اوپرا چلاجاتا ہوں۔ حضور نے فرمایا اچھا تم ہمارے شاگرد بن جائو اور ہم سے قرآن شریف کا ترجمہ پڑ ھ لیا کرو ۔پھر عید کے دن حضور نے فرمایا جائو ایک آنہ کے پتاشے لے آئو تا باقاعدہ شاگرد بن جائو ۔میں نے پتاشے لاکر سامنے رکھ دیئے جو حضور نے تقسیم فرمادیئے اور کچھ مجھے بھی دے دیئے ۔پھر حضور مجھے ایک ہفتہ کے بعد ایک آیت کے سادہ معنے پڑھا دیا کرتے تھے اور کبھی کسی آیت کی تھوڑی سی تفسیر بھی فرمادیتے تھے ۔ ایک دن فرمایا میاں عبداللہ میں تم کو قرآن شریف کے حقائق و معارف اس لئے نہیں بتا تا کہ میںتم میں ان کے برداشت کر نے کی طاقت نہیں دیکھتا ۔میاں عبداللہ صاحب کہتے تھے کہ اس کامطلب میںیہ سمجھا ہوں کہ اگر مجھے اس وقت وہ بتائے جاتے تو میں مجنون ہو جاتا ۔مگر میں اس سادہ ترجمہ کا ہی جو میں نے آپ سے نصف پارہ کے قریب پڑھا ہوگا اب تک اپنے اندر فہم قرآن کے متعلق ایک خاص اثر دیکھتا ہوں نیز میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے تھے کہ میں نے ایک دفعہ حضرت صاحب سے عرض کیا کہ حضور میں جب قادیان آتا ہوں تو اور تو کوئی خاص بات محسوس نہیں ہوتی مگر میں یہ دیکھتا ہوں کہ یہاں وقتاً فوقتاً یکلخت مجھ پر بعض آیات قرآنی کے معنے کھولے جاتے ہیں اور میں اس طرح محسوس کرتا ہوں کہ گویا میرے دل پر معانی کی ایک پوٹلی بندھی ہوئی گرادی جاتی ہے ۔ حضرت صاحب نے فرمایا کہ ہمیں قرآن شریف کے معارف دے کر ہی مبعوث کیا گیا ہے اور اسی کی خدمت ہمارا فرض مقرر کی گئی ہے پس ہماری صحبت کا بھی یہی فائدہ ہونا چاہئیے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھ سے حاجی عبدالمجید صاحب لدھیانوی نے بھی بیان کیا کہ ہمارے پہلے پیر منشی احمد جان صاحب مرحوم نے بھی حضرت صاحب سے بیعت کی درخواست کی تھی مگر حضور نے فرمایا لَسْتُ بِمَأْمُوْرٍ یعنی مجھے اس کا حکم نہیں دیا گیا ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت خلیفہ اوّل نے بھی جب حضور سے بیعت کی درخواست کی تھی تو حضور نے یہی جواب دیا تھا کہ مجھے اس کا حکم نہیں ملا پھر بعد میں جب حکم ہوا تو حضور نے بیعت کا سلسلہ شروع فرمایا ۔
{ 112} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ ایک دفعہ حضرت صاحب بڑی مسجد میں ٹہل رہے تھے ۔میں ایک کونہ میں قرآن شریف پڑھنے بیٹھ گیا ۔اس وقت اور کوئی شخص مسجد میں نہیں تھا ۔ حضور نے ٹہلتے ٹہلتے ایک دفعہ ٹھہر کر میری طرف دیکھا او ر میں نے بھی اسی وقت آپ کی طرف دیکھا تھا ۔جب میری اور حضور کی نظر ملی تو خبر نہیں اس وقت حضور کی نظر میں کیا تھا کہ میرا دل میرے سینہ کے اندر پگھل گیا اور میں نے دعا کے لئے ہاتھ اُٹھالئے اور بڑی دیر تک دعا کرتا رہا اور حضور ٹہلتے رہے پھر آخر حضور نے ہی مجھ سے فرمایا میاں عبداللہ دعا بہت ہوچکی اب بند کرو ۔میاں عبداللہ صاحب کہتے تھے میں نے اس دن سمجھا کہ یہ جو کہاجاتا ہے کہ بعض وقت کامل کی ایک نظر انسان کو کیا سے کیا بنا دیتی ہے اس کا کیامطلب ہے ۔میاں عبداللہ صاحب کہتے تھے کہ جب حضور کی محبت اور شفقت یاد آتی ہے تو میری جان گداز ہوجاتی ہے ۔
{ 113} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ میں شروع میں حُقَّہ بہت پیا کرتا تھا۔شیخ حامد علی بھی پیتا تھا ۔کسی دن شیخ حامد علی نے حضرت صاحب سے ذکر کر دیا کہ یہ حُقَّہ بہت پیتا ہے ۔اس کے بعد میں جو صبح کے وقت حضرت صاحب کے پاس گیا اور حضور کے پائوں دبانے بیٹھا تو آپ نے شیخ حامد علی سے کہا کہ کوئی حُقَّہ اچھی طرح تازہ کر کے لائو جب شیخ حامد علی حُقَّہ لایا تو حضور نے مجھ سے فرمایا کہ پیو ۔میں شرما یا مگر حضرت صاحب نے فرمایا جب تم پیتے ہو تو شرم کی کیا بات ہے ۔پیو کوئی حرج نہیں۔ میں نے بڑی مشکل سے رُک رُک کر ایک گھونٹ پیا ۔پھر حضور نے فرمایا میاں عبداللہ مجھے اس سے طبعی نفرت ہے ۔میاں عبداللہ صاحب کہتے تھے بس میں نے اسی وقت سے حقہ ترک کر دیا اور اس ارشاد کے ساتھ ہی میرے دل میں اس کی نفرت پیدا ہوگئی ۔پھر ایک دفعہ میرے مسوڑھوں میں تکلیف ہوئی تو میں نے حضور سے عرض کیا کہ جب میں حقہ پیتا تھا تو یہ درد ہٹ جاتا تھا ۔حضور نے جواب دیا کہ ’’ بیماری کیلئے حُقَّہ پینا معذوری میں داخل ہے اور جائز ہے جب تک معذوری باقی ہے ۔‘‘ چنانچہ میں نے تھوڑی دیر تک بطور دوا استعمال کر کے پھر چھوڑ دیا ۔میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضور کے گھر میں حُقَّہ استعمال ہوتا تھا ۔ایک دفعہ حضور نے مجھے گھر میں ایک توڑا ہوا حُقَّہ کیلی پر لٹکا ہوا دکھا یا اور مسکرا کر فرمایا ہم نے اسے توڑ کر پھانسی دیا ہوا ہے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ گھر میں کوئی عورت شاید حُقَّہ استعمال کرتی ہوگی ۔
{ 114} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیامجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ ایک دفعہ حضرت صاحب قادیان کے شمالی جانب سیر کے لئے تشریف لے گئے۔میں اور شیخ حامد علی ساتھ تھے ۔راستہ کے اوپر ایک کھیت کے کنارے ایک چھوٹی سی بیری تھی اور اسے بیر لگے ہوئے تھے اور ایک بڑا عمدہ پکا ہوا لال بیر راستہ میں گرا ہوا تھا ۔ میں نے چلتے چلتے اسے اُٹھا لیا اور کھانے لگا ۔حضرت صاحب نے فرمایا نہ کھائو اور وہیں رکھ دو آخر یہ کسی کی ملکیت ہے ۔میاں عبداللہ صاحب کہتے ہیں کہ اس دن سے آج تک میں نے کسی بیری کے بیر بغیر اجازت مالک اراضی کے نہیں کھائے کیونکہ جب میں کسی بیری کی طرف دیکھتا ہوں تو مجھے یہ بات یاد آجاتی ہے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس ملک میں بیریاں عموماً خود رو ہوتی ہیں اور ان کے پھل کے متعلق کوئی پروا نہیںکی جاتی ۔
{ 115} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے مولوی سیّد محمد سرور شاہ صاحب نے کہ ایک دفعہ حضرت خلیفہ اوّل کے پاس کسی کا خط آیا کہ کیا نماز میں ناف سے اوپر ہاتھ باندھنے کے بارے میں کوئی صحیح حدیث بھی ملتی ہے ؟ حضرت مولوی صاحب نے یہ خط حضرت صاحب کے سامنے پیش کیا اور عرض کیا کہ اس بارہ میں جو حدیثیں ملتی ہیں وہ جرح سے خالی نہیں ۔حضرت صاحب نے فرمایا مولوی صاحب آپ تلاش کریں ضرور مل جائے گی کیونکہ باوجود اس کے کہ شروع عمر میں بھی ہمارے اردگرد سب حنفی تھے مجھے ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا کبھی پسند نہیں ہوا بلکہ ہمیشہ طبیعت کا میلان ناف سے اوپر ہاتھ باندھنے کی طرف رہا ہے اور ہم نے بارہا تجربہ کیا ہے کہ جس بات کی طرف ہماری طبیعت کا میلا ن ہو وہ تلاش کر نے سے ضرور حدیث میںنکل آتی ہے ۔خواہ ہم کو پہلے اُس کا علم نہ ہو۔ پس آپ تلاش کر یں ضرور مل جائے گی ۔مولوی سرور شاہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس پر حضرت مولوی صاحب گئے اور کوئی آدھا گھنٹہ بھی نہ گذرا تھا کہ خوش خوش ایک کتا ب ہاتھ میںلئے آئے اور حضرت صاحب کو اطلاع دی کہ حضور حدیث مل گئی ہے اور حدیث بھی ایسی کہ جو علی شرط الشیخین ہے جس پر کوئی جرح نہیں ۔پھر کہا کہ یہ حضور ہی کے ارشاد کی برکت ہے ۔
{ 116} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ گوبراہین احمدیہ کی تالیف اور اسکے متعلق مواد جمع کرنے کا کام پہلے سے ہو رہا تھا مگر براہین احمدیہ کی اصل تصنیف اور اس کی اشاعت کی تجویز ۱۸۷۹ء سے شروع ہوئی اور اس کا آخری حصہ یعنی حصہ چہارم۱۸۸۴ء میں شائع ہوا ۔براہین کی تصنیف سے پہلے حضرت مسیح موعود ایک گمنامی کی زندگی بسر کرتے تھے اور گوشہ نشینی میں درویشانہ حالت تھی ۔گو براہین سے قبل بعض اخباروں میں مضامین شائع کر نے کا سلسلہ آپ نے شروع فرما دیا تھا اور اس قسم کے اشتہارات سے آپ کا نام ایک گونہ پبلک میں بھی آگیا تھا مگر بہت کم ۔ہاں اپنے ملنے والوں میں آپ کی تبلیغ و تعلیم کا دائرہ عالم شباب سے ہی شروع نظر آتا ہے چنانچہ ۶۵،۱۸۶۴ء میں جب آپ ابھی بالکل نوجوان تھے آپ نے اپنے تبلیغی کام کے متعلق ایک رؤیا دیکھا تھا پھر انہی دنوں میں جب کہ آپ سیالکوٹ ملازم ہوئے تواس وقت کے متعلق بھی یقینی شہادت موجود ہے کہ آپ نے تبلیغ و تعلیم کا کام شروع فرما دیا تھا اور غیرمذاہب والوں سے آپ کے زبانی مباحثے ہوتے رہتے تھے مگر یہ سب محض پرائیویٹ حیثیت رکھتے تھے ،پبلک میں آپ نے تصنیف براہین سے صرف کچھ قبل یعنی ۷۸،۱۸۷۷ء میں آنا شروع کیا اور مضامین شائع کر نے شروع فرمائے اور تبلیغی خطوط کا دائرہ بھی وسیع کیا ۔مگر دراصل مستقل طور پر براہین احمدیہ کے اشتہار نے ہی سب سے پہلے آپ کو ملک کے سامنے کھڑا کیا اور اس طرح علم دوست اور مذہبی امور سے لگائو رکھنے والے طبقہ میں آپ کاانٹروڈکشن ہوا اور لوگوں کی نظریں اس دیہات کے رہنے والے گمنام شخص کی طرف حیرت کے ساتھ اُٹھنی شروع ہوئیں جس نے اس تحدّی اور اتنے بڑے انعام کے وعدہ کے ساتھ اسلا م کی حقانیت کے متعلق ایک عظیم الشان کتاب لکھنے کا اعلان کیا ۔اب گویا آفتاب ہدایت جو لاریب اس سے قبل طلوع کر چکا تھا اُفق سے بلند ہو نے لگا ۔اس کے بعد براہین احمدیہ کی اشاعت نے ملک کے مذہبی حلقہ میں ایک غیرمعمولی تموج پیدا کر دیا ۔مسلمانوں نے عام طور پر مصنف براہین کا ایک مجدّد ذی شان کے طور پر خیرمقدم کیا اور مخالفین اسلام کے کیمپ میں بھی اس گولہ باری سے ایک ہلچل مچ گئی ۔خود مصنف کے لئے بھی تصنیف براہین کا زمانہ ایک حالت میں نہیں گذرا بلکہ وہ جو شروع تصنیف میں ایک عام خادم اسلام کے طور پر اُٹھا تھا ۔دوران تصنیف میں تجلّی الٰہی کے خاص جلوے موسیٰ عمران کی طرح اسے کہیں سے کہیں لے گئے اور اختتام تصنیف براہین سے قبل ہی وہ ایک پرائیویٹ سپاہی کی طرح نہیں بلکہ شہنشاہ عالم کی طرف سے ایک مامور جرنیل کے طور پر میدان کا رزار میںھَلْ مِنْ مُّبَارِزٍ پکاررہا تھا۔خلاصہ یہ کہ براہین احمدیہ کی تصنیف نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ملک کے علم دوست اور مذہبی امور میں دلچسپی رکھنے والے طبقہ میں ایک بہت نمایاں حیثیت دے دی تھی اور خاص معتقدین کا ایک گروہ بھی قائم ہوگیاتھااور قادیان کا گمنام گائوں جو ریل اور سڑک سے دور پر دۂ پوشیدگی کے نیچے مستور تھا اب گاہے گاہے بیرونی مہمانوں کا منظر بننے لگا تھا اور مخالفین اسلام بھی اپنے منہ کی پھونکوں سے اس نور کوبجا نے کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے تھے ۔ براہین کی اشاعت کے بعد حضرت مسیح موعود ؑ نے بیس ہزار اردو اور انگریزی اشتہاروں کے ذریعہ دنیاکے تمام ممالک میں اپنی ماموریت کا اعلان فرمایا ۔اس کے بعد جب شروع ۱۸۸۶ء میں حضرت مسیح موعود ؑ نے خدائی حکم کے ماتحت ہوشیار پور جاکر وہاں چالیس دن خلوت کی اور ذکر خدا میںمشغول رہے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے آپ کو ایک عظیم الشان بیٹے کی بشارت دی جس نے اپنے مسیحی نفس سے مصلح عالم بن کر دنیا کے چاروں کونوں میں شہرت پانی تھی ۔یہ الہام اس قدر جلال اور شان وشوکت کے ساتھ ہوا کہ جب حضور نے ۲۰؍ فروری ۱۸۸۶ء کے اشتہار میں اس کا اعلان فرمایا توا س کی وجہ سے ملک میں ایک شور بر پا ہوگیااور لوگ نہایت شوق کے ساتھ اس پسر موعود کی راہ دیکھنے لگے ۔اور سب نے اپنے اپنے خیال کے مطابق اس پسر موعود کے متعلق امیدیں جمالیں ۔بعض نے اس پسر موعود کو مہدی معہود سمجھا جس کا اسلام میںوعد ہ دیا گیا تھا اور جس نے دنیا میں مبعوث ہو کر اسلام کے دشمنوں کو ناپید اور مسلمانوں کو ہر میدان میںغالب کرنا تھا ۔بعض نے اورا سی قسم کی امیدیںقائم کیںاور بعض تماشائی کے طور پر پیشگوئی کے جلال اور شان و شوکت کودیکھ کر ہی حیرت میں پڑ گئے تھے اوربغیر کوئی امید قائم کئے اس انتظارمیں تھے کہ دیکھئے پردۂ غیب سے کیا ظہور میںآتاہے ۔غیر مذاہب والوںکو بھی اس خبر نے چونکا دیا تھا۔غرض اس وحی الٰہی کی اشاعت رجوع عام کا باعث ہوئی۔ان دنوں حضور کے ہاں بچہ پیدا ہونیوالا تھامگر اللہ نے بھی ایمان کے راستہ میں ابتلا رکھے ہوتے ہیں۔سو قدرت خدا کہ چند ماہ کے بعد یعنی مئی ۱۸۸۶ء میں بچہ پیدا ہوا تو وہ لڑکی تھی اس پر خوش اعتقادوں میں مایوسی اور بداعتقادوں اور دشمنوں میں ہنسی اوراستہزا کی ایک ایسی لہر اُٹھی کہ جس نے ملک میں ایک زلزلہ پیدا کردیا اس وقت تک بیعت کا سلسلہ تو تھا ہی نہیںکہ مریدین الگ نظر آتے بس عام لوگوں میں چہ میگوئی ہورہی تھی کہ یہ کیا ہوا۔کوئی کچھ کہتا تھا کو ئی کچھ ۔حضور نے بذریعہ اشتہار اور خطوط اعلان فرمایا کہ وحی الٰہی میں یہ نہیں بتا یا گیا تھا کہ اس وقت جو بچہ کی امید واری ہے تو یہی وہ پسر موعود ہوگا اور اس طرح لوگوں کی تسلی کی کوشش کی چنانچہ اس پر اکثر لوگ سنبھل گئے اور پیشگوئی کے ظہور کے منتظر رہے ۔کچھ عرصہ بعد یعنی اگست ۱۸۸۷ء میں حضرت کے ہاں ایک لڑ کا پیدا ہوا جس کا نام بشیر احمد رکھا گیا ۔ اس لڑکے کی پیدائش پر بڑی خوشی منائی گئی اور کئی لوگ جو متزلزل ہوگئے تھے پھر سنبھل گئے اور لوگوں نے سمجھا کہ یہی وہ موعود لڑکا ہے اور خود حضرت صاحب کو بھی یہی خیال تھا ۔ گو آپ نے اس کے متعلق کبھی قطعی یقین ظاہر نہیں کیا مگر یہ ضرور فرماتے رہے کہ قرائن سے ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ یہی وہ لڑکا ہے ۔واللّٰہ اعلم ۔
غرض بشیر اول کی پیدائش رجوع عام کا باعث ہوئی مگر قدرت خدا کہ ایک سال کے بعد یہ لڑکا اچانک فوت ہوگیا ۔بس پھر کیا تھا ملک میں ایک طوفان ِ عظیم بر پا ہوا اور سخت زلزلہ آیا حتیّٰ کہ میاں عبداللہ صاحب سنوری کا خیال ہے کہ ایسا زلزلہ عامۃ الناس کے لئے نہ اس سے قبل کبھی آیا تھا نہ اس کے بعد آیا گویا وہ دعویٰ مسیحیت پرجوزلزلہ آیا تھا اسے بھی عامۃ الناس کیلئے اس سے کم قرار دیتے ہیں ۔مگر بہر حال یہ یقینی با ت ہے کہ اس واقعہ پر ملک میں ایک سخت شور اُٹھا اور کئی خوش اعتقادوں کو ایسا دھکا لگا کہ وہ پھر نہ سنبھل سکے ، مگر تعجب ہے کہ مولوی محمد حسین بٹالوی اس واقعہ کے بعد بھی خوش اعتقاد رہا ۔حضر ت صاحب نے لوگوں کو سنبھالنے کے لئے اشتہاروں اور خطوط کی بھر مار کر دی اور لوگوں کو سمجھایا کہ میں نے کبھی یہ یقین ظاہر نہیں کیا تھا کہ یہی وہ لڑکا ہے ہاںیہ میں نے کہا تھاکہ چونکہ خاص اس لڑکے کے متعلق بھی مجھے بہت سے الہام ہوئے ہیں جن میں اس کی بڑی ذاتی فضیلت بتا ئی گئی تھی اس لئے میرا یہ خیال تھا کہ شاید یہی وہ موعود لڑکا ہو مگر خدا کی وحی میں جو اس معاملہ میں اصل اتباع کے قابل ہے ہر گز کو ئی تعیین نہیں کی گئی تھی غرض لوگوں کو بہت سنبھالا گیا چنانچہ بعض لوگ سنبھل گئے لیکن اکثر وں پر مایوسی کا عالم تھا اورمخالفین میں پر لے درجہ کے استہزاء کا جوش تھا ۔اس کے بعد پھر عامۃ الناس میں پسر موعود کی آمد آمد کا اس شدو مد سے انتظار نہیں ہوا جو اس سے قبل تھا ۔اس کے بعد یکم دسمبر۱۸۸۸ء کو حضور نے خداکے اس حکم کے مطابق جو اس سے قریباً دس ماہ پہلے ہوچکا تھا سلسلہ بیعت کا اعلان فرمایا اور سب سے پہلے شروع ۱۸۸۹ء میں لدھیانہ میں بیعت لی ۔ مگر اس وقت تک بھی مسلمانوں کا عام طور پر حضرت مسیح موعود ؑکی ذات کے متعلق خیال عموماً بہت اچھاتھا اور اکثر لوگ آپ کو ایک بے نظیر خاد م اسلام سمجھتے تھے ۔صرف اتنا اثرہوا تھاکہ لوگوں میں جو پسر موعود کی پیشگوئی پر ایک عام رجوع ہوا تھا اس کا جوش ان دو لگاتار مایوسیوں نے مدھم کر دیا تھا اور عامۃ الناس پیچھے ہٹ گئے تھے ہاں کہیں کہیں عملی مخالفت کی لہر بھی پیدا ہو نے لگی تھی ۔اس کے بعد آخر ۱۸۹۰ء میں حضرت مسیح موعود نے خدا سے حکم پا کر رسالہ فتح اسلام تصنیف فرمایا جو ابتداء ۱۸۹۱ء میں شائع ہوا۔ اس میں آپ نے حضرت مسیح ناصری کی وفات اور اپنے مسیح موعود ہونے کا اعلان فرمایا ۔اس پر ملک میںایک زلزلہ عظیم آیا جو پہلے سب زلزلوں سے بڑا تھا بلکہ ایک لحاظ سے پچھلے اور پہلے سب زلزلوں سے بڑا تھا۔ ملک کے ایک کونہ سے لیکر دوسرے کونے تک جوش و مخالفت کا ایک خطرناک طوفان بر پا ہوا اور علماء کی طرف سے حضرت صاحب پر کفر کے فتوے لگا ئے گئے اور آپ کو واجب القتل قرار دیا گیا اور چاروں طرف گویا ایک آگ لگ گئی ۔ مولوی محمد حسین بٹالوی بھی جو اب تک بچا ہوا تھا اسی زلزلہ کا شکار ہوا اور یہ سب سے پہلا شخص تھا جو کفر کا استفتاء لے کر ملک میں ادھر اُدھر بھاگا ۔بعض بیعت کنندے بھی متزلزل ہو گئے۔اس کے بعد چوتھا زلزلہ آتھم کی پیشگوئی کی پندرہ ماہی میعاد گذر نے پر آیا ۔یہ دھکا بھی اس وقت کے لحاظ سے نہایت کڑا دھکا تھا مگر جماعت حضرت صاحب کی تربیت کے نیچے ایک حد تک مستحکم اورسنت اللہ سے واقف ہو چکی تھی اس لئے برداشت کر گئی لیکن مخالفوں میں سخت مخالفت و استہزاء کی لہر اُٹھی ۔اس کے بعد زلزلہ کے خفیف خفیف دھکے آتے رہے مگر وہ قابل ذکر نہیں لیکن سب کے آخر میں جماعت پر پانچواں زلزلہ آیا یہ حضرت مسیح موعود ؑکی وفات کازلزلہ تھا۔اس دھکے نے بھی اس وقت سلسلہ کی عمارت کو بنیاد تک ہلا دیا تھا اور یہ وہ زلزلہ عظیم تھاجسے زلزلۃ الساعۃ کہنا چاہئیے ،اور اسکو زیادہ خطر ناک اس بات نے کر دیا تھا کہ اس سے پہلے زلزلے خواہ کیسے بھی سخت تھے مگر حضرت مسیح موعود کا مقناطیسی وجود لوگوں کے اندر موجود تھا اورآپ کا ہاتھ ہر گرتے ہوئے کو سنبھالنے کیلئے فوراً آگے بڑھتا تھا مگر اب وہ بات نہ تھی ۔یہ وہ پانچ زلزلے تھے جو حضرت مسیح موعود کے متعلق آپ کی جماعت پر آئے ۔ان کے بعد حضرت خلیفہ اوّل کی وفات پر بھی سخت زلزلہ آیا مگر وہ اور نوعیت کا تھا اور نیز وہ خاص جماعت احمدیہ کے متعلق تھا ۔یعنی یہ دھکا حضرت مسیح موعود کے متعلق نہیں تھایعنی ایسا واقعہ نہیں تھا جو آپ کے صدق دعویٰ کے متعلق کمزور دلوں میں عام طور پر کوئی اشتبا ہ پیداکر سکے اس کے بعد اور بھی آئندہ سنت اللہ کے موافق اور حضر ت مسیح موعود کی پیشگوئیوں کے مطابق مصائب کی آندھیاں آئیں گی مگر یہ پانچ زلزلے اپنی نوعیت میں اور ہی رنگ رکھتے ہیں اور یہ عبارت لکھتے لکھتے خاکسار کو خیال آیا کہ حضرت مسیح موعود کو جو پانچ زلزلوں کی خبر دی گئی تھی اور آخری زلزلہ کو زلزلۃ الساعۃ کہا گیا تھا وہ گو دنیا کے واسطے الگ بھی مقدر ہوںمگر اس میں شک نہیں کہ ان پانچ زلزلوں پر بھی آپ کی اس پیشگوئی کے الفاظ صادق آتے ہیں ۔
{ 117} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ اوائل زمانہ کی بات ہے کہ ایک دفعہ رمضان کے مہینہ میں کوئی مہمان یہاں حضر ت صاحب کے پاس آیا ۔اسے اس وقت روزہ تھا اور دن کا زیادہ حصہ گذر چکا تھا بلکہ شاید عصر کے بعد کا وقت تھا حضرت صاحب نے اسے فرمایا آپ روزہ کھول دیں اس نے عرض کیا کہ اب تھوڑا سا دن رہ گیا ہے اب کیا کھولنا ہے ۔حضور نے فرمایا آپ سینہ زوری سے خدا تعالیٰ کوراضی کرنا چاہتے ہیں ۔خدا تعالیٰ سینہ زوری سے نہیں بلکہ فرمانبرداری سے راضی ہوتا ہے۔جب اس نے فر ما دیا ہے کہ مسافر روزہ نہ رکھے تو نہیںرکھنا چاہیے ۔اس پر اس نے روزہ کھول دیا ۔ خاکسار عرض کر تا ہے کہ مولوی شیر علی صاحب بیان کرتے تھے کہ ایک دفعہ حضر ت صاحب کے زمانہ میں حکیم فضل الدین صاحب بھیروی اعتکاف بیٹھے مگر اعتکاف کے دنوں میں ہی ان کو کسی مقدمہ میں پیشی کے واسطے با ہر جانا پڑگیا چنانچہ وہ اعتکاف توڑ کر عصرکے قریب یہاں سے جانے لگے تو حضرت صاحب نے مسکراتے ہو ئے فرمایا کہ اگر آپکو مقدمہ میں جانا تھا تو اعتکاف بیٹھنے کی کیا ضرورت تھی ۔
{ 118} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیاہماری تائی صاحبہ نے کہ میرے تایا (یعنی خاکسار کے دادا صاحب ) کبھی کبھی مرزا غلام احمدیعنی حضر ت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو مسیتی یا مسیتڑکہا کرتے تھے۔ تائی صاحبہ نے کہا کہ میرے تایا کو کیا علم تھا کہ کسی دن ان کی خوش قسمتی کیا کیا پھل لائے گی ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ مسیتی پنجابی میں اسے کہتے ہیں جو ہروقت مسجد میں بیٹھا رہے ۔نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ سنا ہے کہ بعض دوسرے لوگ بھی حضرت صاحب کے متعلق یہ لفظ بعض اوقات استعمال کر دیتے تھے۔
{ 119} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیا ن کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جب گورداسپور میں کرم دین کے ساتھ حضرت صاحب کا مقدمہ تھا تو ایک دفعہ میں نے خواب دیکھا کہ کوئی کہتا ہے کہ حضرت صاحب کو امرتسر میں سولی پر لٹکا یا جائے گاتا کہ قادیان والوں کوآسانی ہو۔میں نے یہ خواب حضرت صاحب سے بیان کیاتو حضرت صاحب خوش ہوئے اور کہا کہ یہ مبشر خواب ہے ۔والدہ صاحبہ فرماتی تھیں کہ حضرت صاحب سولی پر چڑھنے کی یہ تعبیر کیا کرتے تھے کہ عزت افزائی ہوگی ۔خاکسارعرض کرتا ہے کہ اس مقدمہ میں پھر اپیل ہو کر امرتسر میں ہی آپ کی بریت کا فیصلہ ہوا ۔نیز بیان کیا حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جن دنوںمیں یہ مقدمہ تھا ایک دفعہ حضرت صاحب نے گھر میں ذکر کیا کہ مجسٹریٹ کی نیت بہت خراب معلوم ہوتی ہے اور یہ بھی بیان کیا کہ مجسٹریٹ کی بیوی نے خواب دیکھاہے کہ اگر اس کا خاوند کوئی ایسی ویسی بات کرے گا توا س کے گھر پر وبال آئیگاچنانچہ اس نے اپنے خاوند کو یہ خواب سنا دیا ہے اور کہا ہے کہ کوئی ایسی ویسی حرکت نہ کر ے۔والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ جب مجسٹریٹ کا ایک لڑکامر گیا تواس کی بیوی نے اسے کہاکہ کیا تو نے گھر کو اجاڑکر چھوڑناہے ؟ نیز والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ جس دن اس مقدمہ کا فیصلہ سنا یا جا نا تھااس دن کئی لوگ اپنی جیبوںمیں روپیہ بھر کر لے گئے تھے کہ اگر مجسٹریٹ جرمانہ کرے تو ادا کر دیں ۔اور نواب محمد علی خان صاحب بھی لاہور سے کئی ہزار روپیہ ساتھ لائے تھے ۔نیز والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ حضرت صاحب بیان کر تے تھے کہ اس مقدمہ کے دنوں میں جہاںعدالت کے باہر درختوںکے نیچے حضرت صاحب بیٹھا کرتے تھے اس کے سامنے سے ہر روز ڈپٹی کمشنر گذر ا کرتا تھا کیونکہ یہی اس کا راستہ تھا ۔ایک دفعہ اس نے اپنے اردلی سے پوچھا کہ کیا یہ مقدمہ اب تک جاری ہے ؟ اس نے کہا ہاں ۔ڈپٹی کمشنر نے ہنس کر کہا اگر میرے پاس ہوتا تو میںایک دن میں فیصلہ کر دیتا۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ ڈپٹی کمشنر انگریز تھا ۔
{ 120} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیا ن کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ ایک دفعہ میں اور چند اورآدمی جن میں غالباً مولوی محمد علی صاحب اورخوا جہ کمال الدین صاحب بھی تھے حضرت صاحب سے ملنے کے لئے اندر آپ کے مکان میں گئے ۔اس وقت آپ نے ہم کو خربوزے کھانے کے لئے دیئے ۔مولوی صاحب کہتے ہیں کہ جو خربوزہ مجھے آپ نے دیا وہ زیادہ موٹا تھا چنانچہ آپ نے دیتے ہوئے فرمایا اسے کھا کر دیکھیں یہ کیسا ہے ؟ پھر خود ہی مسکرا کر فرمایا موٹا آدمی منافق ہوتا ہے ۔یہ پھیکا ہی ہوگا ۔ مولوی صاحب کہتے ہیں چنانچہ وہ پھیکا نکلا۔مولوی صاحب نے یہ روایت بیان کر کے ہنستے ہوئے کہا کہ اس وقت میں دبلا ہوتا تھا۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ ہر موٹا آدمی منافق ہوتا ہے بلکہ حضرت صاحب کا منشاء یہ معلو م ہوتا ہے کہ جو آرام طلبی کے نتیجہ میں موٹا ہوگیا ہو وہ منافق ہوتا ہے ۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{ 121} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے چوہدری غلام محمد صاحب بی اے نے کہ جب میں۱۹۰۵ء میں قادیان آیا تو حضرت صاحب نے سبز پگڑی باندھی ہو ئی تھی ۔مجھے یہ دیکھ کر کچھ گراں گذرا کہ مسیح موعود ؑ کو رنگدار پگڑی سے کیا کام ۔پھر میں نے مقدمہ ابن خلدون میں پڑھا کہ آنحضرت ﷺ جب سبز لباس میں ہوتے تھے تو آپ کو وحی زیادہ ہوتی تھی۔
{ 122} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے ماسٹر محمد دین صاحب بی ۔اے نے کہ جب ہم حضرت مسیح موعودؑکی مجلس میں بیٹھتے تھے تو ہم خاص طور پر محسوس کر تے تھے کہ ہماری اندرونی بیماریاں دُھل رہی ہیںاور روحانیت ترقی کر رہی ہے لیکن جب آپ سے الگ ہوتے تھے تو پھر یہ بات نہ رہتی تھی ۔نیز بیان کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ جب ہم حضرت صاحب کی مجلس میں ہوتے تھے تو خواہ اس سے پہلے کیسا ہی حال ہواس وقت طبیعت بہت ہی خوش رہتی تھی ۔
{ 123} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ۱۸۷۹ء میںبراہین کے متعلق اعلان شائع فرمایا تو اس وقت آپ براہین احمد یہ تصنیف فر ما چکے تھے اور کتا ب کا حجم قریباً دو اڑھائی ہزار صفحہ تک پہنچ گیا تھا اور اس میں آپ نے اسلام کی صداقت میں تین سو ایسے زبردست دلائل تحریر کئے تھے کہ جن کے متعلق آپ کا دعویٰ تھاکہ ان سے صداقت اسلام آفتاب کی طرح ظاہرہو جائے گی اور آپ کا ارادہ تھاکہ جب اس کے شائع ہو نے کا انتظام ہو تو کتا ب کو ساتھ ساتھ اور زیادہ مکمل فرماتے جاویں اور اس کے شروع میں ایک مقدمہ لگائیں اور بعض اور تمہید ی باتیں لکھیں اور ساتھ ساتھ ضروری حواشی بھی زائد کرتے جاویں ۔چنانچہ اب جو براہین احمدیہ کی چار جلدیں شائع شدہ موجود ہیں ان کا مقدمہ اور حواشی وغیر ہ سب دوران اشاعت کے زمانہ کے ہیں اور اس میں اصل ابتدائی تصنیف کا حصہ بہت ہی تھوڑا آیا ہے یعنی صرف چند صفحات سے زیادہ نہیں ۔اس کااندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ تین سو دلائل جو آپ نے لکھے تھے ان میں سے مطبوعہ براہین احمدیہ میں صرف ایک ہی دلیل بیا ن ہوئی ہے اور وہ بھی نا مکمل طورپر ۔ان چار حصوںکے طبع ہونے کے بعد اگلے حصص کی اشاعت خدائی تصرف کے ماتحت رک گئی اور سنا جاتاہے کہ بعد میں اس ابتدائی تصنیف کے مسودے بھی کسی وجہ سے جل کر تلف ہوگئے ۔حضرت مسیح موعود ؑ نے براہین احمدیہ حصہ چہارم کے آخر میں جو اشتہار ’’ ہم اور ہماری کتاب ‘‘ کے عنوان کے نیچے دیا ہے اس میں آپ نے بیان فرمایا ہے کہ ابتدا میں جب براہین احمدیہ تصنیف کی گئی تو اور صورت تھی مگر بعد میں یعنی دوران اشاعت میں جب حواشی وغیرہ لکھے جارہے تھے اور کتاب طبع ہو کر شائع ہورہی تھی صورت بدل گئی یعنی جناب باری تعالیٰ کی طرف سے آپ کو خلعت ماموریت عطا ہوا اور ایک اور عالم سے آپ کو اطلاع دی گئی اس پر آپ نے اپنے پہلے ارادوں کو ترک کر دیا اور سمجھ لیا کہ اب معاملہ خدا کے ہاتھ میں ہے وہ جس طرح چاہے گا آپ سے خدمت دین کا کام لے گا ۔چنانچہ یہ جو اس کے بعد اَسی کے قریب کتابیں اور سینکڑوں اشتہارات اور تقریریں آپ کی طرف سے خدمت دین کے راستہ میںشائع ہوئیںاور اب آپ کی وفات کے بعد بھی جو خدمت دین آپ کے متبعین کی طر ف سے ہورہی ہے یہ سب اسی کا نتیجہ ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اسلام کی جتنی صداقت ان تین سودلائل سے ثابت ہوتی جو آپ نے براہین احمدیہ میں تحریر فرمائے تھے اس سے کہیں بڑھ کر محض آپ کے وجود سے ہوئی جس کا ظہور بعد میں مہدویت اور مسیحیت کے رنگ میں ہوا ۔گویا قطع نظر ان عظیم الشان تحریرات کے جو بعد میں خدا وند تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ سے شائع کر وائیں محض آپ کا وجود با جود ہی ان تین سو دلائل سے بڑھ کر صداقت اسلام پر روشنی ڈالنے والا ہے کیونکہ یہ تین سو دلائل تو بہر حال زیادہ تر عام عالمانہ رنگ میں لکھے گئے ہونگے لیکن آپ کا وجود جو شان نبوت میں ظاہر ہوا اپنے اندر اور ہی جذب اور طاقت رکھتا ہے ۔
{ 124} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ ایک دفعہ لالہ ملاوامل نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک مرتبہ مرزا صاحب یعنی حضرت مسیح موعود علیہ۱ السلام نے مجھے ایک صندوقچی کھول کر دکھائی تھی جس میں ان کی ایک کتاب کا مسودہ رکھا ہوا تھا اور آپ نے مجھ سے کہا تھا کہ بس میری جائیداد اور مال سب یہی ہے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ براہین احمدیہ کے مسودہ کا ذکر ہے ۔
{ 125} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ ایک دفعہ پیر سراج الحق صاحب کو روزہ تھا مگر ان کو یاد نہ رہا اور انہوں نے کسی شخص سے پینے کے واسطے پانی منگایا ۔ اس پر کسی نے کہا آپ کو روزہ نہیں ؟ پیر صاحب کو یاد آگیا کہ میرا روزہ ہے ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی اس وقت وہاں موجود تھے آپ پیر صاحب سے فرمانے لگے کہ روزہ میں جب انسان بھول کر کوئی چیز کھا پی لیتا ہے تو یہ خداکی طرف سے اس کی مہمانی ہو تی ہے ۔ لیکن آپ نے جو پانی کے متعلق سوال کیا اور سوال کرنا ناپسند یدہ ہوتاہے تو اس سوال کی وجہ سے آپ اس نعمت سے محروم ہو گئے ۔
{ 126} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ میں جب پہلی دفعہ قادیان آیا تو حضرت صاحب نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ تمہارے والد صاحب کا کیا حال ہے ؟ میں نے کہا حضور آپ نے کس کا نام لے دیا میرا والد تو بہت بُرا آدمی ہے ۔شراب پیتا ہے اور بُری بُری عادتیں ہیں حضرت صاحب نے فرمایا تو بہ کر و اپنے والد کے متعلق ایسا نہیں کہنا چاہئیے ۔پھرآپ نے مجھے یہ حدیث سنائی کہ بعض اوقات ایک آدمی برے اعمال کر تے کرتے دوزخ کے کنارے پر پہنچ جاتا ہے لیکن پھر وہ وہاں سے واپس ہوتا ہے اور نیک اعمال شروع کرتا ہے اور آخر جنت میں داخل ہو جا تا ہے ۔میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد میرے والدصاحب کی حالت میں تغیر آیا اور پھر آخران کا انجام نہایت اچھا ہوا اور حضرت مسیح موعود ؑ کے ساتھ ان کی عشق کی سی حالت ہو گئی تھی ۔
{ 127} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کر تا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حقیقی ہمشیرہ مرادبی بی مرزا غلام غوث ہوشیار پوری کے ساتھ بیاہی گئی تھی مگر مرزا محمد بیگ جلد فوت ہوگیا اور ہماری پھوپھی کو باقی ایام زندگی بیوگی کی حالت میں گذارنے پڑے ۔ہماری پھوپھی صاحبِ رؤیا و کشف تھیں ۔ مرزا محمد بیگ مذکور کے چھوٹے بھائی مرزا ا حمد بیگ ہوشیار پوری کے ساتھ حضر ت مسیح موعود علیہ السلام کے چچیرے بھائیوں یعنی مرزا نظا م الدین و غیرہ کی حقیقی بہن عمر النسا ء بیاہی گئی تھی ۔اس کے بطن سے محمد ی بیگم پیدا ہوئی ۔مرزا نظام الدین و مرزا امام الدین وغیرہ پر لے درجہ کے بے دین او ر دہریہ طبع لوگ تھے اور مرزا احمد بیگ مذکور ان کے سخت زیر اثر تھا اور انہیں کے رنگ میں رنگین رہتا تھا ۔یہ لوگ ایک عرصہ سے حضرت مسیح موعود ؑ سے نشان آسمانی کے طالب رہتے تھے کیونکہ اسلامی طریق سے انحراف اور عناد رکھتے تھے اور والد محمدی بیگم یعنی مرزا احمد بیگ ان کے اشارہ پر چلتا تھا ۔اب واقعہ یوں ہو اکہ حضرت مسیح موعود ؑ کا ایک اور چچا زاد بھائی مرزا غلام حسین تھاجو عرصہ سے مفقود الخبرہوچکا تھا او را س کی جائیداد اس کی بیوی امام بی بی کے نام ہو چکی تھی ۔یہ امام بی بی مرزا احمد بیگ مذکور کی بہن تھی ۔ اب مرزا احمد بیگ کو یہ خواہش پیدا ہوئی کہ مسماۃ امام بی بی اپنی جائیداد اس کے لڑکے مرزا محمد بیگ برادر کلاں محمدی بیگم کے نام ہبہ کر دے لیکن قانوناً امام بی بی اس جائیداد کا ھبہ بنام محمد بیگ مذکور بلا رضا مندی حضرت مسیح موعود ؑ نہ کر سکتی تھی اس لئے مرزا احمدبیگ باتما م عجزو انکساری حضرت مسیح موعود کی طرف ملتجی ہوا کہ آپ ھبہ نامہ پر دستخط کر دیں۔ چنانچہ حضرت صاحب قریباً تیار ہوگئے لیکن پھر اس خیال سے رُک گئے کہ دریں بارہ مسنون استخارہ کر لینا ضروری ہے۔چنانچہ آپ نے مرزا احمد بیگ کو یہی جواب دیا کہ میں استخارہ کر نے کے بعد دستخط کرنے ہوں گے تو کردوں گا چنانچہ اس کے بعد مرزا احمد بیگ کے متواتر اصرار سے استخارہ کیا گیا ۔وہ استخارہ کیا تھاگویا آسمانی نشان کے دکھانے کا وقت آن پہنچا تھاجس کو خداتعالیٰ نے اس پیرایہ میں ظاہر کر دیا ۔ چنانچہ استخارہ کے جواب میں خدا وند تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود ؑ سے یہ فرمایاکہ’’ اس شخص کی دختر کلاں کے نکاح کے لئے سلسلہ جنبانی کر اور ان کو کہہ دے کہ تمام سلوک او ر مروت تم سے اسی شرط سے کیا جائے گا ۔ اور یہ نکاح تمہارے لئے موجب برکت اور ایک رحمت کانشان ہوگا اور ان تمام بر کتو ں اور رحمتوںسے حصہ پائو گئے جو اشتہار ۲۰؍ فروری ۱۸۸۶ء میں درج ہیں ۔لیکن اگر نکاح سے انحراف کیا تو اس لڑکی کا انجام نہایت ہی برا ہوگا اور جس کسی دوسرے شخص سے بیاہی جاوے گی وہ روز نکاح سے اڑھائی سال تک اور ایسا ہی والد اس دختر کا تین سال تک فوت ہو جائے گا اور ان کے گھر پر تفرقہ اور تنگی اور مصیبت پڑے گی اور درمیانی زمانہ میں بھی اس دختر کے لئے کئی کراہت اور غم کے امر پیش آئیں گے ۔ــ‘‘ اس وحی الہامی کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نوٹ دیا کہ ’’ تین سال تک فوت ہونا روز نکاح کے حساب سے ہے مگر یہ ضروری نہیں کہ کو ئی واقعہ اور حادثہ اس سے پہلے نہ آوے ۔بلکہ مکاشفات کے رو سے مکتوب الیہ (یعنی مرزا احمد بیگ) کازمانہ حوادث جن کا انجام معلوم نہیں نزدیک پا یا جاتا ہے ۔واللّٰہ اعلم ‘‘ جب استخارہ کے جواب میں یہ وحی ہوئی تو حضرت مسیح موعود ؑ نے اسے شائع نہیں فرمایا بلکہ صرف ایک پرائیویٹ خط کے ذریعہ سے والد محمد ی بیگم کو اس سے اطلاع دے دی کیونکہ آپ کو یقین تھا کہ وہ اس کی اشاعت سے رنجیدہ ہوگا لہٰذا آپ نے اشاعت کے لئے مصلحتاً دوسرے وقت کی انتظارکی ۔لیکن جلد ہی خود لڑکی کے ماموںمرزا نظام الدین نے شدت غضب میں آکر اس مضمون کو آپ ہی شائع کر دیا اور علاوہ زبانی اشاعت کے اخباروں میںبھی اس خط کی خوب اشاعت کی ۔تب پھر حضرت مسیح موعود ؑ کو بھی اظہارکاعمدہ موقعہ مل گیا ۔
{ 128} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ ہمارے آباء میں سے وہ بزرگ جو ابتداء ً ہندوستان میں آکرآباد ہوئے ان کا نام مرزا ہادی بیگ تھا۔ان کے ہندوستان میں آکرآباد ہو نے کا زمانہ ۱۵۳۰ء کے قریب کا معلوم ہوتا ہے یعنی ایسا پتہ چلتا ہے کہ یا تو وہ بابر بادشاہ کے ساتھ آئے تھے یا کچھ عرصہ بعد۔مرزا ہادی بیگ صاحب حاجی برلاس کی اولاد میں سے تھے جو تیمور کے چچا تھے ۔مرزا ہادی بیگ سے لے کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام تک کا شجرہ نسب مشمولہ ورق پر درج ہے ۔




شجرئہ نسب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام

اس شجرہ میںجن ناموں کے سامنے سٹار’’ ‘‘ کا نشان دکھایا گیا ہے یہ ایسے لوگوں کے نام ہیں جن کی نسل آگے نہیں چلی۔
{ 129} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کئی جگہ اپنے قلم سے اپنے اور اپنے خاندان کے حالات لکھے ہیں مگر سب سے مفصل وہ بیان ہے جو کتاب البریہ میں درج ہے ۔یہ بیان ایسا تو نہیں ہے کہ اس میں سب ضروری باتیں آگئی ہوں اور نہ ہی یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ حالات جو حضرت مسیح موعود نے خود دوسری جگہ تحریر فرمائے ہیں وہ سب اس میں آگئے ہیں ۔لیکن چونکہ یہ بیان سب سے زیادہ مفصل ہے اور حضرت صاحب نے ایک خاص تحریک کی بنا پر تحریر فرما یا تھا اس لئے اس کے خاص خاص حصے ہدیہ نا ظرین کر تا ہوں۔ حضرت صاحب فرماتے ہیں ۔
’’ اب میرے سوانح اس طر ح پر ہیں کہ میرا نام غلام احمد میرے والد صاحب کا نام غلام مرتضٰی اور دادا صاحب کا نام عطا محمداور میرے پردادا صاحب کا نام گُل محمد تھا۔اور جیسا کہ بیان کیا گیا ہے ہماری قوم مغل برلاس زہے اور میرے بزرگوں کے پر انے کاغذات سے جو اب تک محفوظ ہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس ملک میں سمر قند سے آئے تھے اور ان کے ساتھ قریباً دو سو آدمی ان کے توابع اور خدام اور اہل و عیال میںسے تھے اور وہ ایک معزز رئیس کی حیثیت سے اس ملک میں داخل ہو ئے اور اس قصبہ کی جگہ میں جو اس وقت ایک جنگل پڑا ہوا تھا ۔جو لاہور سے تخمیناً بفاصلہ پچاس کو س بگوشہ ئِ شمال مشرق واقع ہے ۔فروکش ہو گئے جس کو انہوں نے آباد کر کے اس کا نام اسلام پورہ رکھا جو پیچھے سے اسلام پور قاضی ماجھی کے نا م سے مشہور ہوا اور رفتہ رفتہ اسلام پور کا لفظ لوگوں کو بھول گیا ۔اور قاضی ماجھی کی جگہ پر قاضی رہا اور پھر آخر قادی بنا اور پھراس سے بگڑ کرقادیان بن گیا ۔اور قاضی ماجھی کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی گئی ہے کہ یہ علاقہ جس کا طولانی حصہ قریباًساٹھ کوس ہے ۔ان دنوں میں سب کا سب ماجھ کہلاتا تھا ۔غالباً اس وجہ سے اس کا نام ماجھ تھا کہ اس ملک میں بھینسیں بکثرت ہوتی تھیں اور ماجھ زبان ہندی میں بھینس کو کہتے ہیں اورچونکہ ہمارے بزرگوں کو علاوہ دیہات جاگیرداری کے اس تمام علاقہ کی حکومت بھی ملی تھی ۔اس لئے قاضی کے نام سے مشہور ہوئے ۔مجھے کچھ معلوم نہیں کہ کیوں اور کس وجہ سے ہمارے بزرگ سمر قند سے اس ملک میں آئے ۔مگر کاغذات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اُس ملک میں بھی وہ معزز امرا ء اور خاندان والیان ملک میں سے تھے اور انہیں کسی قومی خصومت اور تفرقہ کی وجہ سے اس ملک کو چھوڑنا پڑا تھا۔پھراس ملک میں آکر بادشاہ وقت کی طرف سے بہت سے دیہات بطور جاگیران کو ملے ۔چنانچہ اس نواح میں ایک مستقل ریاست ان کی ہوگئی ۔
سکھوںکے ابتدائی زمانہ میں میرے پردادا صاحب مرزا گُل محمد ایک نامور اور مشہور رئیس اس نواح کے تھے ۔جن کے پا س اس وقت85گائوںتھے ۔اور بہت سے گائوں سکھوں کے متواترحملوں کی وجہ سے ان کے قبضہ سے نکل گئے ۔تاہم ان کی جو انمردی اور فیاضی کی یہ حالت تھی کہ اس قدر قلیل میں سے بھی کئی گائوں انہوں نے مروّت کے طور پر بعض تفرقہ زدہ مسلمان رئیسوں کو دیدئے تھے ۔ جو اب تک ان کے پاس ہیں ۔غرض وہ اس طوائف الملوکی کے زمانہ میںاپنے نواح میں ایک خودمختاررئیس تھے ۔ہمیشہ قریب پانچ سو آدمی کے یعنی کبھی کم او رکبھی زیادہ ان کے دستر خوان پر روٹی کھاتے تھے اور ایک سو کے قریب علماء او ر صلحاء اور حافظ قرآنِ شریف کے ان کے پا س رہتے تھے جن کے کافی وظیفے مقرر تھے اور ان کے دربار میں اکثر قال اللّٰہ اور قال الرسول کا ذکربہت ہوتا تھا۔اور عجیب تر یہ کہ کئی کرامات ان کی ایسی مشہور ہیں جن کی نسبت ایک گروہ کثیر مخالفا ن دین کا بھی گواہی دیتارہا ہے ۔غرض وہ علاوہ ریاست اور امارت کے اپنی دیانت اور تقویٰ اور مردانہ ہمت اور اولو العزمی اور حمایت دین اور ہمدردیٔ مسلمانا ں کی صفت میں نہایت مشہور تھے اور ان کی مجلس میں بیٹھنے والے سب کے سب متقی اور نیک چلن اور اسلامی غیرت رکھنے والے اور فسق و فجور سے دور رہنے والے اور بہادر اور بارُعب آدمی تھے ۔چنانچہ میں نے کئی دفعہ اپنے والد صاحب مرحوم سے سنا ہے کہ اس زمانہ میں ایک دفعہ ایک وزیر سلطنت مغلیہ کا قادیا ن میں آیا ۔ جو غیاث الدولہ کے نام سے مشہور تھا اور اس نے مرزا گل محمد صاحب کے مد برانہ طریق اور بیدار مغزی اور ہمت اور اولو العزمی اور استقلال اور فہم اور حمایت اسلام اور جوش نصرت دین اور تقویٰ اور طہارت اور دربار کے وقار کودیکھا اور ان کے اُس مختصر دربار کو نہایت متین اورعقلمند اور نیک چلن اور بہادروں سے پُر پایا تب وہ چشم پُر آب ہو کر بولا کہ اگر مجھے پہلے خبر ہو تی کہ اس جنگل میں خاندان مغلیہ میں سے ایسا مرد موجود ہے جس میں صفات ضرور یہ سلطنت کے پائے جاتے ہیں ۔تو میں اسلامی سلطنت کے محفوظ رکھنے کے لئے کوشش کرتا کہ ایّام کسل اور نالیاقتی اور بد وضعی ملوک چغتائیہ میں اسی کو تخت دہلی پر بٹھا یا جائے ۔اس جگہ اس بات کا لکھنا بھی فائدہ سے خالی نہ ہوگا کہ میرے پڑ دادا صاحب موصوف یعنی مرزاگل محمدنے ہچکی کی بیماری سے جس کے ساتھ اور عوارض بھی تھے وفات پائی تھی۔ بیماری کے غلبہ کے وقت اطبا نے اتفاق کرکے کہا کہ اس مرض کے لئے اگر چند روز شراب کو استعمال کر ایا جائے تو غالبًااس سے فائدہ ہوگا ۔مگر جرأت نہیںرکھتے تھے کہ ان کی خدمت میں عرض کریں ۔آخر بعض نے ان میں سے ایک نرم تقریر میں عرض کر دیا۔تب انہوں نے کہا کہ اگر خدا تعالیٰ کو شفا دینا منظور ہو تواس کی پیدا کردہ اور بہت سی دوائیں ہیں ۔میں نہیں چاہتا کہ اس پلید چیز کو استعمال کروں اور میں خدا کے قضا و قدر پر راضی ہوں ۔آخر چند روزکے بعد اسی مرض سے انتقال فرما گئے۔موت تومقدر تھی مگر یہ ان کا طریق تقویٰ ہمیشہ کے لئے یاد گاررہا کہ موت کو شراب پر اختیار کر لیا اب خلاصہ کلام یہ ہے کہ جب میرے پڑدادا صاحب فوت ہو ئے توبجائے ان کے میرے دادا صاحب یعنی مرزا عطا محمد فرزند رشید ان کے گدی نشین ہوئے ۔ا ن کے وقت میں خداتعالیٰ کی حکمت اور مصلحت سے لڑائی میں سکھ غالب آئے۔ دادا صاحب مرحوم نے اپنی ریاست کی حفاظت کے لئے بہت تدبیریں کیں مگر جبکہ قضا و قدر ا ن کے ارادہ کے موافق نہ تھی اس لئے نا کام رہے ۔اور کوئی تدبیر پیش نہ گئی ۔ اور روز بروز سکھ لوگ ہماری ریاست کے دیہات پر قبضہ کرتے گئے۔یہا ں تک کہ دادا صاحب مرحوم کے پاس صرف ایک قادیان رہ گئی ۔اور قادیان اس وقت ایک قلعہ کی صورت پر قصبہ تھا ۔اور اس کے چار برج تھے ۔اور برجوں میں فوج کے آدمی رہتے تھے ۔اور چند توپیں تھیںاور فصیل بائیس فٹ کے قریب اونچی اور اس قدر چوڑی تھی کہ تین چھکڑے آسانی سے ایک دوسرے کے مقابل اس پر جاسکتے تھے ۔اور ایسا ہوا کہ ایک گروہ سکھوں کا جورام گڑھیہ کہلاتا تھا اوّل فریب کی راہ سے اجازت لے کر قادیان میں داخل ہوا اور پھر قبضہ کر لیا ۔اس وقت ہمارے بزرگوں پر بڑی تباہی آئی اور اسرائیلی قوم کی طر ح وہ اسیروں کی مانند پکڑے گئے ۔ اور ان کے مال و متاع سب لوٹی گئی ۔کئی مسجدیں اور عمدہ عمدہ مکانات مسمار کئے گئے اور جہالت اور تعصب سے باغوں کو کاٹ دیا گیا ۔اور بعض مسجدیں جن میں سے اب تک ایک مسجد سکھوں کے قبضہ میں ہے دھرم سالہ یعنی سکھوں کا معبد بنا یا گیا ۔اس دن ہمارے بزرگو ں کا ایک کتب خانہ بھی جلایا گیا ۔جس میں پانچ سو نسخہ قرآن شریف کا قلمی تھا ۔ جو نہایت بے ادبی سے جلایا گیا ۔اور آخر سکھوں نے کچھ سوچ کر ہمارے بزرگوں کو نکل جانے کا حکم دیا ۔ چنانچہ تمام مر د و زن چھکڑوں میں بٹھا کر نکالے گئے ۔اور وہ پنجاب کی ایک ریاست میں پناہ گزیں ہوئے ۔ تھوڑے عرصہ کے بعد ان ہی دشمنوں کے منصوبے سے میرے داد ا صاحب کو زہر دی گئی ۔پھر رنجیت سنگھ کی سلطنت کے آخری زمانہ میں میرے والد صاحب مرحوم مرزا غلام مرتضیٰ قادیا ن میں واپس آئے اور مرزا صاحب موصوف کو اپنے والد صاحب کے دیہات میں سے پانچ گائوں واپس ملے کیونکہ اس عرصہ میں رنجیت سنگھ نے دوسری اکثر چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو دبا کر ایک بڑی ریاست اپنی بنا لی تھی۔سو ہمارے تمام دیہات بھی رنجیت سنگھ کے قبضہ میں آگئے تھے ۔اور لاہور سے لے کر پشاور تک اور دوسری طرف لدھیانہ تک اس کی ملک داری کا سلسلہ پھیل گیا تھا ۔غرض ہماری پرانی ریاست خاک میں ملکر آخر پانچ گائوں ہاتھ میں رہ گئے ۔پھر بھی بلحاظ پرانے خاندان کے میرے والد صاحب مرزا غلام مرتضیٰ اس نواح میں ایک مشہور رئیس تھے ۔گورنر جنرل کے دربار میں بزمرہ کرسی نشین رئیسوں کے ہمیشہ بلائے جاتے تھے ۔۱۸۵۷ء میں انہو ں نے سر کارانگریزی کی خدمت گزاری میں پچاس گھوڑے مع پچاس سواروں کے اپنی گرہ سے خرید کر دیئے تھے اور آئندہ گورنمنٹ کوا س قسم کی مدد کا عندا لضرورت وعدہ بھی دیا ۔ اور سرکار انگریزی کے حکام وقت سے بجلدوے خدمات عمدہ عمدہ چٹھیات خوشنودیٔ مزاج ان کو ملی تھیں ۔ چنانچہ سر لیپل گریفن صاحب نے بھی اپنی کتاب تاریخ ’’رئیسان پنجاب‘‘ میں ان کا تذکرہ کیا ہے ۔غرض وہ حکام کی نظرمیں بہت ہر دل عزیز تھے ۔اور بسا اوقات ان کی دلجوئی کیلئے حکام وقت ڈپٹی کمشنر ،کمشنر اُ ن کے مکان پر آکر اُن کی ملاقات کرتے تھے ۔یہ مختصر میرے خاندان کا حال ہے ۔میں ضروری نہیںدیکھتا کہ اس کو بہت طوالت دوں۔۔۔
میری پیدائش سے پہلے میرے والد صاحب نے بڑے بڑے مصائب دیکھے ۔ایک دفعہ ہندوستان کا پیادہ پاسیر بھی کیا ۔لیکن میری پیدائش کے دنوں میں ان کی تنگی کا زمانہ فراخی کی طرف بدل گیا تھا ۔ اور یہ خداتعالیٰ کی رحمت ہے کہ میں نے ان کے مصائب کے زمانہ سے کچھ بھی حصہ نہیں لیا ۔اور نہ اپنے دوسرے بزرگوں کی ریاست اور ملک داری سے کچھ حصہ پا یا ۔
بچپن کے زمانہ میں میری تعلیم اس طرح پر ہوئی کہ جب میں چھ سات سال کا تھا تو ایک فارسی خوان معلم میرے لئے نوکر رکھا گیا ۔جنہوں نے قرآن شریف اور چند فارسی کتابیں مجھے پڑھائیں ۔اور اس بزرگ کا نا م فضل الٰہی تھا۔اور جب میری عمر قریباًدس برس کی ہوئی تو ایک عربی خواں مولوی صاحب میری تربیت کے لئے مقرر کئے گئے ۔جن کا نام فضل احمدتھا ۔میں خیال کرتا ہوں کہ چونکہ میری تعلیم خدا تعالیٰ کے فضل کی ایک ابتدائی تخم ریزی تھی اس لئے ان استادوں کے نام کا پہلا لفظ بھی فضل ہی تھا ۔مولوی صاحب موصوف جو ایک دیندار اور بزرگوار آدمی تھے ۔وہ بہت توجہ او ر محنت سے پڑھاتے رہے ۔اور میں نے صرف کی بعض کتابیں اور کچھ قوا عد نحو اُن سے پڑھے ۔ اور بعد اس کے جب میں سترہ یا اٹھارہ سال کا ہوا تو ایک اور مولوی صاحب سے چند سال پڑھنے کا اتفاق ہوا ۔ان کا نام گل علی شاہ تھا ۔ان کوبھی میرے والدصاحب نے نو کر رکھ کر قادیان میں پڑھانے کے لئے مقرر کیاتھا ۔اور ان آخر الذکرمولوی صاحب سے میں نے نحو اورمنطق اور حکمت وغیرہ علوم مروجہ کو جہاں تک خدا تعالیٰ نے چاہا حاصل کیا او ربعض طبابت کی کتابیں میں نے اپنے والد صاحب سے پڑھیں اور وہ فن طبابت میں بڑے حاذق طبیب تھے ۔اور ان دنوں میں مجھے کتابوں کے دیکھنے کی طرف اس قدر توجہ تھی کہ گویا میں دنیا میں نہ تھا ۔میرے والد صاحب مجھے بار بار یہی ہدایت کرتے تھے کہ کتابوں کا مطالعہ کم کر نا چاہئیے کیونکہ وہ نہایت ہمدردی سے ڈرتے تھے کہ صحت میں فرق نہ آوے ۔اورنیز ان کا یہ بھی مطلب تھا کہ میں اس شغل سے الگ ہو کر ان کے غموم و ہموم میں شریک ہو جائوں ۔آخر ایسا ہی ہوا ۔میرے والد صاحب اپنے بعض آباء واجداد کے دیہات کو دوبارہ لینے کے لئے انگریزی عدالتوں میں مقدمات کر رہے تھے ۔انہوں نے ان ہی مقدمات میں مجھے بھی لگا یا اور ایک زمانہ دراز تک میںان کاموں میں مشغول رہا ۔مجھے افسوس ہے کہ بہت سا وقت ِعزیز میرا اِن بیہودہ جھگڑوں میں ضائع گیا اور اس کے ساتھ ہی والد صاحب موصوف نے زمینداری امور کی نگرانی میں مجھے لگا دیا ۔میں اس طبیعت اور فطرت کا آدمی نہیں تھا ۔اس لئے اکثر والد صاحب کی ناراضگی کا نشانہ رہتا رہا ۔ان کی ہمدردی اور مہربانی میرے پر نہایت درجہ پر تھی ۔مگر وہ چاہتے تھے کہ دنیاداروں کی طرح مجھے روبخلق بناویں ۔اور میری طبیعت اس طریق سے سخت بیزار تھی ۔ایک مرتبہ ایک صاحب کمشنر نے قادیا ن میں آنا چاہا میرے والد صاحب نے بار بار مجھ کو کہا کہ ان کی پیشوائی کے لئے دو تین کوس جانا چاہئیے ۔مگر میری طبیعت نے نہایت کراہت کی اور میں بیمار بھی تھا اس لئے نہ جاسکا ۔پس یہ امر بھی ان کی ناراضگی کا موجب ہوا ۔اور وہ چاہتے تھے کہ میںدنیوی امور میں ہردم غرق رہوں ۔جومجھ سے نہیں ہو سکتاتھا۔مگر تاہم میں خیال کرتا ہو ں کہ میں نے نیک نیتی سے نہ دنیا کے لئے بلکہ محض ثواب اطاعت حاصل کرنے کے لئے اپنے والد صاحب کی خدمت میں اپنے تئیں محو کر دیا تھا اور ان کے کے لئے دعا میں مشغول رہتا تھا۔اور وہ مجھے دلی یقین بِرٌّبِالْوَالِدَیْن سے جانتے تھے اور بسا اوقات کہا کرتے تھے کہ ’’ میں صرف ترحم کے طور پر اپنے اس بیٹے کو دنیا کے امور کی طرف توجہ دلاتا ہوںورنہ میں جانتا ہوں کہ جس طرف اس کی توجہ ہے۔یعنی دین کی طرف صحیح اورسچ بات یہی ہے ۔ہم تواپنی عمر ضائع کر رہے ہیں ۔‘‘ ایسا ہی ان کے زیر سایہ ہو نے کے ایّام میں چند سال تک میری عمر کراہت طبع کے سا تھ انگریزی ملازمت میں بسر ہوئی ۔آخر چونکہ میرا جدا رہنا میرے والد صاحب پر بہت گراں تھا ۔ اس لئے ان کے حکم سے جوعین میری منشا کے موافق تھا میں نے استعفٰی دے کر اپنے تئیں اس نوکری سے جو میری طبیعت کے مخالف تھی سبکدوش کر دیا ۔اور پھر والدصاحب کی خدمت میں حاضر ہو گیا ۔اس تجربہ سے مجھے معلوم ہوا کہ اکثر نوکوی پیشہ نہایت گندی زندگی بسر کرتے ہیں ۔اور جب میں حضرت والد صاحب مرحوم کی خدمت میں پھر حاضر ہوا ۔تو بد ستور ان ہی زمینداری کے کاموں میں مصروف ہوگیا۔مگراکثر حصہ وقت کا قرآن شریف کے تدبر اور تفسیروں اور حدیثوں کے دیکھنے میں صرف ہوتا تھا۔اور بسا اوقات حضرت والد صاحب کو وہ کتابیں سنایا بھی کرتا تھا ۔اور میرے والد صاحب اپنی ناکامیوں کی وجہ سے اکثر مغموم اور مہموم رہتے تھے۔انہوں نے پیروی مقدمات میں ستر ہزار روپیہ کے قریب خرچ کیا تھا ۔جس کا انجام آخر ناکامی تھی ۔ کیونکہ ہمارے بزرگوں کے دیہات مدت سے ہمارے قبضہ سے نکل چکے تھے اور ان کا واپس آنا ایک خیال خام تھا ۔اسی نامرادی کی وجہ سے حضرت والدصاحب مرحوم ایک نہایت عمیق گرداب غم اور حزن اور اضطراب میں زندگی بسر کر تے تھے ۔اور مجھے ان حالات کو دیکھ کر ایک پاک تبدیلی کر نے کا موقعہ حاصل ہوتا تھا کیونکہ حضرت والد صاحب کی تلخ زندگی کا نقشہ مجھے اس بے لوث زندگی کا سبق دیتا تھا ۔ جو دنیوی کدورتوںسے پاک ہے ۔اگرچہ حضرت والد صاحب کے چند دیہات ملکیت باقی تھے اور سرکا ر انگریزی کی طرف سے کچھ انعام بھی سالانہ مقرر تھا ۔اور ایام ملازمت کی پنشن بھی تھی مگر جو کچھ وہ دیکھ چکے تھے اس لحاظ سے وہ سب کچھ ہیچ تھا۔اس وجہ سے وہ ہمیشہ مغموم اور محزون رہتے تھے ۔اور بارہا کہتے تھے کہ جس قدر میں نے اس پلید دنیا کے لئے سعی کی ہے اگر میں وہ سعی دین کے لئے کرتا تو شایدآ ج قطب یا غوث وقت ہوتا اور اکثر یہ شعر پڑھا کرتے تھے ؎
عمر بگذشت و نماند ست جزایّامے چند
بہ کہ در یادِ کسے صبح کنم شامے چند
اور میں نے کئی دفعہ دیکھا کہ وہ ایک اپنا بنا یا ہوا شعر رقت کیساتھ پڑھتے تھے اور وہ یہ ہے ۔ ؎
ازدر تو اے کس ہر بے کسے
نیست امیدم کہ رَوَم نا امید
اور کبھی درددِل سے یہ شعر اپنا پڑھا کر تے تھے ؎
بآب دیدۂ عشاق و خا کپائے کسے
مرا د لیست کہ درخوں تپد بجائے کسے
حضرت عزت جلّ شانہ‘ کے سامنے خالی ہاتھ جانے کی حسرت روز بروز آخری عمر میں ان پر غلبہ کر تی گئی تھی ۔ بار ہا افسوس سے کہا کر تے تھے کہ دنیا کے بیہودہ خرخشوں کے لئے میں نے اپنی عمر ناحق ضائع کر دی ۔ایک مرتبہ حضرت والدصاحب نے یہ خواب بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ ایک بڑی شان کے ساتھ میرے مکان کی طرف چلے آتے ہیں۔جیسا کہ ایک عظیم الشان بادشاہ آتا ہے ۔تومیں اُس وقت آپ کی طرف پیشوائی کے لئے دوڑ ا جب قریب پہنچا تو میںنے سوچا کہ کچھ نذر پیش کرنی چاہئیے ۔یہ کہہ کر جیب میں ہاتھ ڈالا جس میں صرف ایک روپیہ تھا اور جب غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ بھی کھوٹا ہے ۔یہ دیکھ کر میں چشم پُر آب ہوگیا ۔اور پھر آنکھ کھل گئی اور پھرآپ ہی تعبیر فرمانے لگے کہ دنیاداری کے ساتھ خدا اور رسول کی محبت ایک کھوٹے روپیہ کی طرح ہے اور فرمایا کر تے تھے کہ میری طرح میرے والد صاحب کا بھی آخر حصہ زندگی کا مصیبت اور غم اور حزن میں گذرا اورجہاں ہاتھ ڈالاآخر ناکامی تھی اور اپنے والد صاحب یعنی میرے پڑدادا صاحب کا ایک شعر بھی سنایا کر تے تھے جس کا ایک مصرع راقم کو بھو ل گیا ہے اور دوسرایہ ہے کہ ۔ ع
’’کہ جب تدبیر کرتا ہوںتو پھر تقدیر ہنستی ہے ــ‘‘
اور یہ غم اور درد ان کا پیرانہ سالی میں بہت بڑھ گیا تھا ۔اسی خیال سے قریباً چھ ماہ پہلے حضرت والدصاحب نے اس قصبہ کے وسط میں ایک مسجد تعمیر کی کہ جو اس جگہ کی جامع مسجد ہے ۔اور وصیت کی کہ مسجد کے ایک گوشہ میں میری قبر ہو ۔تا خدائے عزّوجل کا نام میرے کان میں پڑتا رہے ۔کیا عجب کہ یہی ذریعہ ٔ مغفرت ہو ۔ چنانچہ جس دن مسجد کی عمارت بہمہ وجوہ مکمل ہوگئی اورشاید فرش کی چند اینٹیں باقی تھیں کہ حضرت والد صاحب صرف چند روز بیمار رہ کر مرض پیچش سے فوت ہوگئے ۔اور اس مسجد کے اسی گوشہ میں جہاں انہوں نے کھڑے ہو کر نشان کیا تھا دفن کئے گئے ۔ اللھم ارحمہ وادخلہ الجنۃ ۔اٰمین قریباً اَسّی یا پچاسی برس کی عمر پائی ۔
ان کی یہ حسرت کی باتیں کہ میں نے کیوں دنیاکے لئے وقت عزیز کھویا ۔اب تک میرے دل پر درد ناک اثر ڈال رہی ہیں اور میں جانتا ہوں کہ ہر ایک شخص جو دنیا کا طالب ہو گا آخر اس حسرت کو ساتھ لے جائے گا ۔ جس نے سمجھنا ہو سمجھے ۔۔۔۔مجھے ایک خواب میں بتلایا گیا تھاکہ اب ان کے انتقال کا وقت قریب ہے ۔ میں اس وقت لاہور میں تھاجب مجھے یہ خواب آیا تھاتب میں جلدی سے قادیان پہنچا اور ان کو مرض زحیر میں مبتلاپایا ۔لیکن یہ امید ہر گز نہ تھی کہ وہ دوسرے دن میرے آنے سے فوت ہو جائیں گے کیونکہ مرض کی شدت کم ہو گئی تھی اور وہ بڑے استقلال سے بیٹھے رہتے تھے ۔دوسرے دن شدت دوپہر کے وقت ہم سب عزیزان کی خدمت میں حاضرتھے کہ مرزا صاحب نے مہربانی سے مجھے فرمایا کہ اس وقت تم ذرا آرام کر لو کیونکہ جو ن کا مہینہ تھا اور گرمی سخت پڑتی تھی ۔میں آرام کیلئے ایک چوبارہ میں چلا گیا۔اور ایک نوکر پیر دبانے لگا کہ اتنے میں تھوڑی سی غنودگی ہو کر مجھے الہام ہوا۔ ’’ وَالسَّمَآئِ وَالطَّارِق‘‘ یعنی قسم ہے آسمان کی جو قضا و قدر کا مبدء ہے اور قسم ہے اس حادثہ کی جو آج آفتاب کے غروب کے بعد نازل ہوگا اور مجھے سمجھایا گیا کہ یہ الہام بطور عزا پرسی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے ۔اور حادثہ یہ ہے کہ آج ہی تمہاراوالد آفتاب کے غروب کے بعد فوت ہو جائے گا۔ــ‘‘ سبحان اللہ کیا شان خدا وند عظیم ہے کہ ایک شخص جو اپنی عمر ضائع ہونے پر حسرت کرتا ہوا فوت ہوتاہے اس کی وفات کو عزا پرسی کے طور پر بیان فرماتا ہے اس بات سے اکثر لوگ تعجب کریں گے کہ خدا تعالیٰ کی عزا پُرسی کیا معنے رکھتی ہے۔ مگریاد رہے کہ حضرت عزوجل شانہٗ جب کسی کو نظر رحمت سے دیکھتا ہے تو ایک دوست کی طرح ایسے معاملات اس سے کرتا ہے۔چنانچہ خدا تعالیٰ کا ہنسنا بھی جوحدیثوں میں آیا ہے ۔ان ہی معنوںکے لحاظ سے آیا ہے۔
اب خلاصہ کلام یہ ہے کہ جب مجھے حضرت والد صاحب مرحوم کی وفات کی نسبت اللہ جل شانہٗ کی طرف سے یہ الہام ہوا جو میں نے ابھی ذکر کیا ہے توبشریّت کی وجہ سے مجھے خیال آیا کہ بعض وجوہ آمدن حضرت والد صاحب کی زندگی سے وابستہ ہیں پھر نہ معلوم کیا کیا ابتلا ہمیں پیش آئے گا ۔تب اسی وقت یہ دوسرا الہام ہوا۔اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ یعنی کیا خدا اپنے بندے کو کافی نہیںہے ؟ اوراس الہام نے عجیب سکینت اور اطمینان بخشا او ر فولادی میخ کی طرح میرے دل میں دھنس گیا ۔پس مجھے اس خدائے عزّوجل کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اس نے اپنے اس مبشرانہ الہام کو ایسے طور سے مجھے سچا کر کے دکھلادیاکہ میرے خیال اور گمان میں بھی نہ تھا ۔ میرا وہ ایسا متکفل ہوا کہ کبھی کسی کا باپ ہر گز ایسا متکفل نہیں ہوگا ۔میرے پر اس کے وہ متواتر احسان ہو ئے کہ بالکل محال ہے کہ میں ان کا شمار کرسکوں اورمیرے والد صاحب اسی دن بعد غروب آفتاب فوت ہوگئے ۔یہ ایک پہلا دن تھا جو میں نے بذریعہ خدا کے الہام کے ایسارحمت کا نشان دیکھا جس کی نسبت میں خیال نہیں کر سکتا کہ میری زندگی میں کبھی منقطع ہو ۔ میں نے اس الہام کوا ن ہی دنوںمیں ایک نگینہ میں کھدوا کر اس کی انگشتری بنائی ۔ جو بڑی حفاظت سے اب تک رکھی ہوئی ہے ۔غرض میری زندگی قریب قریب چالیس برس کے زیر سایہ والد بزرگوار کے گذری ۔ایک طرف ان کا دنیا سے اٹھایا جانا تھااور ایک طرف بڑے زور شورسے سلسلہ مکالمات الٰہیہ کا مجھ سے شروع ہوا ۔میں کچھ بیان نہیں کر سکتاکہ میرا کون سا عمل تھا جس کی وجہ سے یہ عنایت الٰہی شامل حال ہوئی ۔صرف اپنے اندر یہ احساس کر تا ہوںکہ فطرتاً میرے دل کو خداتعالیٰ کی طرف وفاداری کے ساتھ ایک کشش ہے جو کسی چیز کے روکنے سے رُک نہیںسکتی۔سو یہ اسی کی عنایت ہے میں نے کبھی ریاضات شاقہ بھی نہیں کیں ۔اور نہ زمانہ حال کے بعض صوفیوںکی طرح مجاہدات شدیدہ میں اپنے نفس کو ڈالا اور نہ گوشہ گزینی کے التزام سے کوئی چلّہ کشی کی او ر نہ خلاف سنت کوئی ایسا عمل رہبانیت کیا جس پر خدا تعالیٰ کے کلام کو اعتراض ہو ۔ بلکہ میں ہمیشہ ایسے فقیروںاور بدعت شعار لوگوںسے بیزار رہا جوانواع اقسام کے بدعات میں مبتلاہیں ۔ہاںحضرت والدصاحب کے زمانہ میں ہی جبکہ ان کازمانہ وفات بہت نزدیک تھا۔ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ ایک بزرگ معمر پاک صورت مجھ کو خواب میںدکھائی دیا ۔اور اس نے یہ ذکر کر کے کہ کسی قدر روزے انوار سماوی کی پیشوائی کے لئے رکھنا سنت خاندان نبوت ہے ۔‘‘ اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ میں اس سنتِ اہلِ بیت ِرسالت کو بجا لائوں ۔سو میں نے کچھ مدت تک التزام صوم کو مناسب سمجھا مگر ساتھ ہی یہ خیال آیا کہ اس امر کو مخفی طور پر بجا لانا بہتر ہے ۔پس میں نے یہ طریق اختیار کیا کہ گھر سے مردانہ نشست گاہ میں اپنا کھانا منگواتا اور پھر وہ کھانا پوشیدہ طور پر بعض یتیم بچوں کو جن کو میں نے پہلے سے تجویز کر کے وقت پر حاضری کے لئے تاکید کر دی تھی دے دیتا ۔اور اس طرح تمام دن روزہ میں گذارتا ۔ اور بجز خداتعالیٰ کے، ان روزوں کی کسی کو خبر نہ تھی ۔پھر دو تین ہفتہ کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ ایسے روزوں سے جوایک وقت میں پیٹ بھر کر روٹی کھا لیتا ہوںمجھے کچھ بھی تکلیف نہیں بہتر ہے کہ کسی قدر کھانے کو کم کروں ۔سو میں اس روزسے کھانے کو کم کرتا گیا یہاں تک کہ رات دن میں صرف ایک روٹی پر کفایت کرتا تھا ۔اور اسی طرح میں کھانے کو کم کرتا گیا یہاں تک کہ شاید صرف چند تولہ روٹی میں سے آٹھ پہر کے بعد میری غذا تھی ۔غالباً آٹھ یا نوما ہ تک میں نے ایسا ہی کیا ۔اور باوجوداس قدر قلت غذا کے کہ دو تین ماہ کا بچہ بھی اس پر صبر نہیںکر سکتاخدا تعالیٰ نے مجھے ہر ایک بلا اور آفت سے محفوظ رکھا اور اس قسم کے روزہ کے عجائبات میں سے جو میرے تجربہ میںآئے وہ لطیف مکاشفات ہیں جو اس زمانہ میںمیرے پر کُھلے ۔چنانچہ بعض گزشتہ نبیوں کی ملاقاتیں ہوئیں اورجو اعلیٰ طبقہ کے اولیا اس امت میں گذر چکے ہیںان سے ملاقات ہوئی ۔ایک دفعہ عین بیداری کی حالت میںجناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مع حسنین وعلی رضی اللہ عنہ و فاطمہ رضی اللہ عنہا کے دیکھا ۔۔۔۔۔۔
غرض اس مدت تک روزہ رکھنے سے جو میرے پر عجائبات ظاہر ہوئے وہ انواع اقسام کے مکاشفات تھے ۔ ایک اورفائدہ مجھے یہ حاصل ہوا کہ میں نے ان مجاہدات کے بعد اپنے نفس کو ایسا پایا کہ میں وقت ضرورت فاقہ کشی پر زیادہ سے زیادہ صبر کر سکتا ہوں۔میں نے کئی دفعہ خیال کیا کہ اگر ایک موٹا آدمی جو علاوہ فربہی کے پہلوان بھی ہو میرے ساتھ فاقہ کشی کے لئے مجبور کیا جاوے توقبل اس کے کہ مجھے کھانے کے لئے کچھ اضطرار ہو وہ فوت ہو جائے ۔ اس سے مجھے یہ بھی ثبوت ملا کہ انسان کس حد تک فاقہ کشی میں ترقی کر سکتا ہے اور جب تک کسی کا جسم ایسا سختی کش نہ ہو جائے میرا یقین ہے کہ ایسا تنّعم پسند روحانی منازل کے لائق نہیں ہو سکتا ۔ لیکن میں ہر ایک کو یہ صلاح نہیں دیتا کہ ایساکرے اور نہ میں نے اپنی مرضی سے ایسا کیا ۔۔۔۔۔بہتر ہے کہ انسان اپنے نفس کی تجویز سے اپنے تئیں مجاہدہ شدیدہ میں نہ ڈالے اور دین العجائز اختیار رکھے ۔آج کل کے اکثر نادان فقیرجو مجاہدات سکھلاتے ہیں ان کا انجام اچھا نہیں ہوتا ۔پس ان سے پرہیز کرنا چاہیے ۔‘‘
(منقول از کتاب البریہ صفحہ ۱۳۴تا۱۶۶حاشیہ)
(خاکسار عرض کرتا ہے کہ کتاب البریہ کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی مندرجہ ذیل تصانیف میں اپنے خاندانی حالات کا ذکر کیا ہے ۔ازالہ اوہام۔ آئینہ کمالات اسلام حصہ عربی۔ استفتاء عربی۔ لجۃ النور۔تریاق القلوب۔ کشف الغطا۔ شہادت القرآن۔ تحفہ قیصریہ۔ ستارہ قیصریہ۔ نجم الہدیٰ ۔ اشتہار ۱۸۹۴ء )
{ 130} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ بندوبست مال۱۸۶۵ء کے کاغذات کے ساتھ جو ہمارے خاندان کا شجرہ نسب منسلک ہے اس میں قصبہ قادیان کی آبادی اور وجہ تسمیہ کے عنوان کے نیچے بثبت دستخط مرزا غلام مرتضٰی صاحب و مرزا غلام جیلانی و مرزا غلام محی الدین وغیرہ یہ نوٹ درج ہے کہ :’’ عرصہ چودہ پشت کا گزرا ۔کہ مرزا ہادی بیگ قوم مغل گوت بر لاس مورث اعلیٰ ہم مالکان دیہہ کا بعہد شاہان سلف ملک عرب سے بطریق نوکری ہمراہ بابر شاہ بادشاہ کے آکر حسب اجازت شاہی اس جنگل افتادہ میںگائوں آباد کیا ۔وجہ تسمیہ یہ ہے کہ مورثان ہمارے کو جانب بادشاہ سے عہدہ قضا کا عطا ہوا تھا ۔بباعث لقب قاضیاں کے نام گائوں کا قاضیان اسلام پورہ رکھا پھر رفتہ رفتہ غلطی عوام الناس سے قصبہ قادیان مغلاںمشہور ہو گیا تب سے برابر آباد چلا آتا ہے ۔کبھی ویران نہیں ہوا۔‘‘ (اس روایت میں جو عرب سے آنا بیان ہوا ہے یہ غالباً سہو کتابت ہے)
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{ 131} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ مغلیہ سلطنت کی تباہی پر پنجاب کا ملک خصوصاً اٹھارویں صدی عیسوی کے آخری نصف حصہ میںخطرناک طوائف الملوکی کا منظر رہا ہے۔شمال سے احمدشاہ ابدالی اور شاہ زمان کے حملے ایک عارضی تسلط سے زیادہ اثر نہیںرکھتے تھے اور دراصل سکھ قوم کا دور دورہ شروع ہو چکا تھا۔لیکن چونکہ ابھی تک سکھ قو م کے اندر اتحاد و انتظام کا مادہ مفقود تھا ۔اورنہ ہی ان کا اس وقت کوئی واحد لیڈر تھا۔اس لئے ان کا عروج بجائے امن پید ا کرنے کے آپس کے جنگ و جدال کی وجہ سے پرلے درجہ کا امن شکن ہورہا تھا ۔اس زمانہ میںسکھ بارہ مسلوں یعنی بارہ جتھوں اور گروہوںمیں منقسم تھے ۔ اور ہر مسل اپنے سردار یا سرداروں کے ماتحت ماردھاڑ کر کے اپنے واسطے خود مختارریاستیں بنا رہی تھی۔اس وجہ سے اس زمانہ میں پنجاب کے اندر ایک مستقل سلسلہ کشت و خون کا جاری تھا۔اور کسی کا مال و جان اور آبرو محفوظ نہ تھے ۔حتّٰی کہ وہ وقت آیا کہ راجہ رنجیت سنگھ نے سب کو زیر کر کے پنجاب میں ایک واحد مرکزی سکھ حکومت قائم کر دی ۔قادیان اوراس کے گردو نواح کا علاقہ چونکہ ہمارے بزرگوں کے زیر حکومت تھا ۔ اس لئے اس طوائف الملوکی کے زمانہ میں ہمارے بزرگوں کو بھی سکھوں کے ساتھ بہت سے معرکے کر نے پڑے ۔جن سکھ مسلوں کے ساتھ ہمارے بزرگوں کا واسطہ پڑا وہ رام گڑھی مسل اورکنھیا مسل کے نام سے مشہور تھیں ۔کیونکہ قادیان کی ریاست کا علاقہ زیادہ تر انہی دو مسلوں کے علاقہ سے ملتا تھا ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پڑدادا مرز اگُل محمد صاحب نے ایک حد تک سکھوں کی دست برد سے اپنے علاقہ کو بچائے رکھا ۔لیکن پھر بھی بہت سے دیہات ان کے ہاتھ سے نکل گئے مگر ان کی وفات کے بعد جو غالبًا ۱۸۰۰ء میں ہوئی ان کے فرزند مرزا عطا محمد صاحب کے زمانہ میں جلد ہی قادیان کے گردونواح کا سارا علاقہ اور بالآخر خود قادیان سکھوںکے قبضہ میں چلے گئے اور مرزا عطا محمد صاحب اپنی جدّی ریاست سے نکل جانے پر مجبور ہو گئے۔چنانچہ مرزا عطامحمدصاحب دریائے بیاس سے پار جا کر موضع بیگو وال میں سردار فتح سنگھ اہلووالیہ رئیس علاقہ کے مہمان ٹھہر ے۔سردار موصوف اہلووالیہ مسل کا سر گروہ تھااور اس زمانہ میںایک بڑا ذی اقتدار شخص تھا۔موجودہ راجہ صاحب کپورتھلہ اسی کے سلسلہ میں سے ہیں ۔بارہ سال کے بعد مرزا عطامحمد صاحب کو بیگووال میںہی دشمنوں کے ہاتھ سے زہر دیدیا گیا۔خاکسارعرض کرتاہے واللّٰہ اعلم کہ رام گڑھی مسل کے مشہور و معروف سرگروہ جسّا سنگھ نے خود یا اس کے متبعین نے غالباً۱۸۰۲ء کے قریب قریب قادیان پر قبضہ پایا ہے۔جسا سنگھ ۱۸۰۳ء میں مر گیا اوراس کے علاقہ کے بیشتر حصہ پر اس کے بھتیجے دیوان سنگھ نے قبضہ کر لیا ۔چنانچہ دیوان سنگھ کے ماتحت قریباًپندرہ سال رام گڑھی مسل قادیا ن پر قابض رہی۔ جس کے بعد راجہ رنجیت سنگھ نے رام گڑھیوں کو زیر کر کے ان کا تمام علاقہ اپنے قبضہ میں کر لیا۔ یہ ۱۸۱۶ء کے بعد کی بات ہے اس کے بعدغالباً۱۸۳۴ء یا ۱۸۳۵ء کے قریب راجہ رنجیت سنگھ کی طرف سے ہمارے دادا مرزاغلام مرتضٰی صاحب کوقادیان کی جاگیر واپس مل گئی اس دوران میں ہمارے دادا صاحب کو بڑے بڑے مصائب کا سامنا کرناپڑا ۔
{ 132} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسارعرض کرتاہے کہ کتاب پنجاب چیفس یعنی تذکرہ روسائے پنجاب میں جسے اولاً سرلیپل گریفن نے زیر ہدایت پنجاب گورنمنٹ تالیف کرنا شروع کیا اور بعد میں مسٹر میسی اورمسٹر کریک نے (جو اب بوقت ایڈیشن ثانی کتاب ھٰذا سرہنری کریک کی صورت میں گورنمنٹ آف انڈیا کے ہوم ممبر ہیں) علی الترتیب گورنمنٹ پنجاب کے حکم سے اسے مکمل کیااوراس پر نظر ثانی کی۔ ہمارے خاندان کے متعلق مندرجہ ذیل نوٹ درج ہے ۔
’’ شہنشاہ بابر کی عہد حکومت کے آخری سال یعنی۱۵۳۰ء میںایک مغل مسمی ہادی بیگ باشندہ سمر قند اپنے وطن کو چھوڑ کر پنجاب میںآیا اور ضلع گورداسپور میں بود و باش اختیار کی ۔ یہ شخص کچھ عالم آدمی تھا اور قادیان کے گردو نواح کے ستر مواضعات کا قاضی یا حاکم مقرر کیا گیا ۔کہتے ہیں کہ قادیا ن اسی نے آباد کیا اور اس کا نام اسلام پور قاضی رکھا جو بگڑتے بگڑتے قادیان ہوگیا ۔کئی پشتوں تک یہ خاندان شاہی حکومت کے ماتحت معزز عہدو ں پر ممتاز رہا اور محض سکھوں کے عروج کے زمانہ میں یہ افلاس کی حالت میں ہوگیا تھا ۔گل محمد اور اس کا بیٹا عطا محمد رام گڑھیہ اور کنھیامسلوں سے جن کے قبضے میں قادیان کے گردو نواح کا علاقہ تھا ہمیشہ لڑتے رہے اور آخر کا ر اپنی تمام جاگیر کھو کر عطا محمد بیگووال میں سردار فتح سنگھ اہلو والیہ کی پناہ میں چلا گیا اور وہاںبارہ سال تک امن کی زندگی بسر کی ۔اس کی وفات پر رنجیت سنگھ نے جو رام گڑھیہ مسل کی جاگیر پر قابض ہو گیا تھا غلام مرتضٰی کو قادیان واپس بلا لیا اور اس کی جدّی جاگیر کا ایک معقول حصہ اسے واپس کر دیا ۔ اس پر غلام مرتضٰی اپنے بھائیوں سمیت مہاراجہ کی فوج میں داخل ہو گیا اور کشمیر کی سرحداور دوسرے مقامات پر قابل قدر خدمات سر انجام دیں ۔
نو نہال سنگھ شیر سنگھ اور دربار لاہور کے دور دوراں میں غلام مرتضٰی ہمیشہ فوجی خدمت پر مامور رہا۔۱۸۴۱ء میں یہ جرنل ونچورا کے ساتھ منڈی اور کلّو کی طرف بھیجا گیا اور ۱۸۴۳ء میں ایک پیادہ فوج کا کمیندار بنا کر پشاور روانہ کیا گیا ۔ہزارہ کے مفسدے میں اس نے کارہائے نمایاں کئے اور جب ۱۸۴۸ء کی بغاوت ہوئی تو وہ اپنی سرکار کا وفادار رہا اور اس کی طرف سے لڑا ۔اس موقعہ پر اس کے بھائی غلام محی الدین نے بھی اچھی خدمات کیں ۔جب بھائی مہاراج سنگھ اپنی فوج کو لئے دیوان مولراج کی امداد کے واسطے ملتان جارہا تھا تو غلام محی الدین اور دوسرے جاگیرداران لنگر خان ساہیوال اور صاحب خا ن ٹوانہ نے مسلمان آبادی کو برانگیختہ کیا اور مصر صاحب دیال کی فوج کے ساتھ مل کر باغیوں پر حملہ کر کے ان کو شکست فاش دی اور دریائے چناب کی طرف دھکیل دیا جہاں چھ سو سے زیادہ باغی دریا میں غرق ہو کر ہلاک ہو گئے ۔
انگریزی گورنمنٹ کی آمد پر اس خاندان کی جاگیر ضبط ہو گئی مگر سات سو کی ایک پنشن غلام مرتضٰی اور اس کے بھائیوں کو عطا کی گئی اور قادیان اور اس کے گردو نواح پر ان کے حقوق مالکانہ قائم رہے ۔اس خاندان نے غدر۱۸۵۷ء میں نہایت عمدہ خدمات کیں ۔ غلام مرتضٰی نے بہت سے آدمی بھر تی کئے اور اس کا بیٹا غلام قادر اس وقت جنرل نکلسن کی فوج میںتھاجب کہ افسر موصوف نے تریمو گھاٹ پر نمبر۴۶ نیو انفنٹری کے باغیوں کو جو سیالکوٹ سے بھاگے تھے تہ تیغ کیا تھا۔ جنرل نکلسن نے غلا م قادر کو ایک سند دی جس میں یہ لکھا کہ ۱۸۵۷ء کے غدر میں خاندان قادیان نے ضلع کے دوسرے تمام خاندانوں سے زیادہ وفاداری دکھائی ہے ۔
{ 133} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ رسالہ کشف الغطا ء میں جو حکام گورنمنٹ کے واسطے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا تھاحضرت مسیح موعود تحریرفرماتے ہیں کہ :۔
’’ میرا خاندان ایک خاندان ریاست ہے اور میرے بزرگ والیان ملک اور خودسر امیر تھے جو سکھوں کے وقت میں یکلخت تباہ ہوئے اورسرکار انگریزی کا اگرچہ سب پر احسان ہے مگر میرے بزرگوں پر سب سے زیادہ احسان ہے کہ انہوں نے اس گورنمنٹ کے سایۂ دولت میں آکر ایک آتشی تنورسے رہائی پائی اور خطرناک زندگی سے امن میں آگئے ۔میرا باپ مرزا غلام مرتضٰی اس نواح میں ایک نیک نام رئیس تھااور گورنمنٹ کے اعلیٰ افسروں نے پُر زور تحریروںکے ساتھ لکھا کہ وہ اس گورنمنٹ کا سچا مخلص اوروفادار ہے اور میرے والد صاحب کو دربار گورنری میں کرسی ملتی تھی اور ہمیشہ اعلیٰ حکام عزت کی نگاہ سے ان کو دیکھتے تھے اور اخلاق کریمانہ کی وجہ سے حکام ضلع اور قسمت کبھی کبھی ان کے مکان پر ملاقات کے لئے بھی آتے تھے کیونکہ انگریزی افسروں کی نظر میں وہ ایک وفا دار رئیس تھے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ گورنمنٹ ان کی اس خدمت کو کبھی نہیں بھولے گی کہ انہوں نے 1857ء کے ایک نازک وقت میں اپنی حیثیت سے بڑھ کر پچاس گھوڑے اپنی گرہ سے خرید کر اور پچاس سوار اپنے عزیزوں اور دوستوں سے مہیا کر کے گورنمنٹ کی امداد کے لئے دیئے تھے چنانچہ ان سواروں میں سے کئی عزیزوں نے ہندوستا ن میں مردانہ لڑائی مفسدو ں سے کر کے اپنی جانیں دیں اورمیرا بھائی مرزا غلام قادر تمّون کے پتن کی لڑائی میں شریک تھا اور بڑی جانفشانی سے مدد دی۔غرض اسی طرح میرے بزرگوں نے اپنے خون سے اپنے مال اپنی جان سے اپنی متواتر خدمتو ں سے اپنی وفاداری کو گورنمنٹ کی نظر میں ثابت کیا ہے ۔سوا نہی خدمات کی وجہ سے میں یقین رکھتا ہوں کہ گورنمنٹ عالیہ ہمارے خاندان کو معمولی رعایا میں سے نہیں سمجھے گی اور اس کے اس حق کو کبھی ضائع نہیں کر ے گی جوبڑے فتنے کے وقت میں ثابت ہو چکا ہے ۔سر لیپل گریفن صاحب نے بھی اپنی کتاب تاریخ رئیسان پنجاب میں میرے والد صاحب اور میرے بھائی مرزا غلام قادر کا ذکر کیا ہے اور میں ذیل میںان چند چٹھیات حکام بالادست کو درج کر تا ہوں جن میں میرے والد صاحب اور میرے بھائی کی خدمات کا کچھ ذکرہے:۔
نقل مراسلہ
ولسن صاحب نمبر ۳۵۳
تہور پناہ شجاعت دستگاہ مرزا غلام مرتضیٰ
رئیس قادیان حفظہ
عریضۂ شمامشعر بریاد دہانی خدمات و حقوقِ خود وخاندانِ خود بملاحظہ حضور اینجانب درآمد۔ ماخوب میدانیم کہ بلاشک شما و خاندانِ شما از ابتدائے دخل و حکومتِ سرکار انگریزی جاں نثار وفاکیش ثابت قدم ماندہ آید و حقوق شمادراصل قابل قدر اند۔ بہر نہج تسلی و تشفی دارید ۔سرکار انگریزی حقوق و خدمات خاندان شماہرگز فراموش نخواہد کرد ۔بموقعہ مناسب بر حقوق و خدمات شما غور و توجہ کردہ خواہد شد۔ باید کہ ہمیشہ ہوا خواہ و جان نثار سرکار انگریزی بمانند کہ دریں امر خوشنودی سرکار و بہبودی شما متصور است۔فقط
المرقوم ۱۱، جون ۱۸۴۹ء
مقام لاہور انارکلی

Translation of Certificate of J.M.Wilson.
To,
Mirza Ghulam Murtaza Khan chief of Qadian.
I have perused your application reminding me your and your family`s past services and rights. I am well aware that since the introduction of the British Government you and your family have certainly remained devoted faithful and steady subjects and that your rights are really worthy of regard, In every respect you may rest assured and satisfied that the British Government will never forget your family`s rights and services which will receive due consideration when a favourable opportunity offers itself.
you must continue to be faithful and devoted subjects as in it lies the satisfaction of the Government and your welfare.
‏11-06-1849 - Lahore
نقل مراسلہ
رابرٹ کسٹ صاحب بہادر کمشنر لاہور
تہورو شجاعت دستگاہ مرزا غلام مرتضیٰ رئیس قادیان بعافیت باشند ۔از آنجا کہ ہنگام مفسدہ ہندوستان موقوعہ ۱۸۵۷ء از جانب آپ کے رفاقت و خیر خواہی و مدد دہی سرکار دولتمدار انگلشیہ در باب نگہد اشت سواران وبہمر سانی اسپان بخوبی بمنصہ ظہور پہنچی۔ اور شروع مفسدے سے آج تک آپ بدل ہوا خواہ سرکار رہے اور باعث خوشنودی سرکار ہوا۔ لہٰذا بتعلق اس خیر خواہی اور خیر سگالی کے خلعت مبلغ دو صد روپیہ سرکار سے آپ کو عطا ہوتا ہے اور حسب منشا چٹھی صاحب چیف کمشنر بہادر نمبری ۵۷۶ مورخہ ۱۰؍ اگست ۱۸۵۸ء پروانہ ھٰذا باظہار خوشنودی سرکار و نیک نامی وفاداری بنام آپ لکھا جاتا ہے۔
مرقومہ تاریخ ۲۰؍ ستمبر ۱۸۵۸ء
Translation of Mr. Robert Cast's Certificate
Mirza Ghulam Murtaza Khan
Chief of Qadian.
As you rendered great help in enlisting sowars and supplyig horses to Government in the mutiny of 1857 and maintained loyalty since its beginning uptodate and thereby gained the favour of the Government a Khilat worth Rs.200/- is presented to you in recognition of good services and as a reward for you loyalty. More over in accordance with the wishes of chief commissioner as conveyed in his No.576 dated 10th August 1858. This parwana is addressed to you as a token of satisfaction of Government for your fidelity and repute.
20-09-1858 Lahore.
نقل مراسلہ
فنانشل کمشنر پنجاب مشفق مہربان دوستان مرزاغلام قادر رئیس قادیان حفظہ۔
آپ کا خط ۲؍ماہ حال کا لکھا ہوا ملاحظہ حضور اینجانب میں گزرا۔مرزا غلام مرتضیٰ صاحب آپ کے والد کی وفات سے ہم کو بہت افسوس ہوا۔ مرزا غلام مرتضیٰ سرکار انگریزی کا اچھا خیر خواہ اور وفادار رئیس تھا۔ ہم آپ کی خاندانی لحاظ سے اسی طرح عزت کریں گے جس طرح تمہارے باپ وفادار کی کی جاتی تھی۔ ہم کو کسی اچھے موقعہ کے نکلنے پر تمہارے خاندان کی بہتری اور پابحالی کا خیال رہے گا۔
المرقوم۲۹؍ جون ۱۸۷۶ء
الراقم سررابرٹ ایجرٹن صاحب بہادر
فنانشل کمشنر پنجاب
Translation Sir Robert Egerton
Financial Commissioner`s Letter
Dated 29 June 1876.
My dear friend Ghulam Qadir.
I have perused your letter of the 2nd instant and deeply regret the death of your father Mirza Ghulam Murtaza who was a great well wisher and faithful chief of Government.
In consideration of your family services I will esteem you with the same respect as that bestowed on your loyal father. I will keep in mind the restoration and welfare of your family when a favourable opportunity occurs.
{ 134} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کر تا ہے کہ کتاب پنجاب چیفس میں ہمارے خاندا ن کے حالات ما بعد وفات مرزا غلام مرتضٰی صاحب کے متعلق ذیل کا نوٹ لکھا ہے:۔
’’مرزا غلا م مرتضیٰ جو ایک مشہور اور ماہر طبیب تھا ۱۸۷۶ء میںفوت ہوا ا ور اس کا بیٹا غلام قادر اس کا جانشین ہوا۔مرزا غلام قادر لوکل افسران کی امداد کے واسطے ہمیشہ تیار رہتا تھا اور اس کے پاس ا ن افسران کے جن کا انتظامی امور سے تعلق تھابہت سے سرٹیفکیٹ تھے ۔یہ کچھ عرصہ تک دفتر ضلع گورداسپور میں سپرنٹنڈنٹ رہا ہے ۔اس کا اکلوتا بیٹا صغر سنی میں فوت ہو گیاتھا اوراس نے اپنے بھتیجے سلطان احمد کو متبنّٰی بنا لیا تھا جو غلام قادر کی وفات یعنی ۱۸۸۳ء سے خاندان کا بزرگ خیال کیا جاتا ہے ۔مرزا سلطان احمدنے نائب تحصیل داری سے گورنمنٹ کی ملازمت شروع کی اور اب اکسٹرا ا سسٹنٹ کمشنر ہے ۔مرزا سلطا ن احمد قادیا ن کا نمبردار ہے مگر نمبر داری کا کام بجائے اس کے اس کا چچا زاد بھائی نظام دین جو غلام محی الدین کا سب سے بڑا لڑکا ہے کر تا ہے ۔نظام دین کا بھائی امام دین جو ۱۹۰۴ء میںفوت ہوا دہلی کے محاصرہ کے وقت ہاڈسن ہارس میں رسالدار تھا ۔اس کا باپ غلام محی الدین تحصیل دار تھا۔
اس جگہ یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ مرزا غلام احمدجوغلام مرتضٰی کا چھوٹا بیٹا تھا۔مسلمانوں کے ایک بڑے مشہورمذہبی سلسلہ کا بانی ہوا جو احمدیہ سلسلہ کے نام سے مشہور ہے۔مرزا غلام احمد۱۸۳۹ء میںپیدا ہوا تھااور اس کو بہت اچھی تعلیم ملی ۔۱۸۹۱ء میں اس نے بموجب مذہب اسلام مہدی یا مسیح موعود ؑ ہونے کا دعویٰ کیا ۔ چونکہ مرزا ایک قابل مذہبی عالم اور مناظر تھااس لئے جلد ہی بہت سے لوگوںکواس نے اپنا معتقد بنا لیا اور اب احمدیہ جماعت کی تعداد پنجاب اور ہندوستان کے دوسرے حصوںمیں تین لاکھ کے قریب بیان کی جاتی ہے ۔مرزا عربی ،فارسی اور اردو کی بہت سی کتابوں کا مصنف تھاجن میںاس نے مسئلہ جہاد کی تردید کی اور یقین کیا جاتاہے کہ ان کتابوںنے مسلمانوں پر معتدبہ اثرکیاہے ۔کئی سال تک مرزاغلام احمد نے بڑی مصیبت کی زندگی بسر کی کیونکہ اپنے مذہبی مخالفوںکے ساتھ وہ ہمیشہ مباحثوںاور جھگڑوں مقدموںمیں مبتلا رہالیکن اپنی وفات سے پہلے جو۱۹۰۸ء میں واقع ہو ئی اس نے ایسا رتبہ حاصل کر لیا تھاکہ اس کے مخالف بھی اسے عزت کی نظر سے دیکھنے لگے تھے ۔اس سلسلہ کا صدر مقام قادیان ہے جہاں انجمن احمدیہ نے ایک بڑاسکول کھولا ہے اور ایک مطبع جاری کیا ہے جس کے ذریعہ سے سلسلہ کی خبروںکی اشاعت کی جاتی ہے ۔ مرزا غلام احمدکا روحانی خلیفہ مولوی نورالدین ہوا ہے جو ایک مشہور طبیب ہے اور چند سال مہاراجہ کشمیر کی ملازمت میں رہ چکاہے۔مرزا غلام احمدکے اپنے رشتہ داروں میں سے اس کے مذہب کے پیرو بہت ہی کم ہیں ۔
اس خاندان کو سالم موضع قادیان پر جو ایک بڑا موضع ہے حقوق مالکانہ حاصل ہیں اورنیز تین ملحقہ مواضعات پر بشرح پانچ فی صدی حقوق تعلقداری ہیں۔‘‘
اقتباس مندرجہ بالا میں مصنف سے بعض غلطیاں واقعات کے متعلق ہو گئی ہیں جن کی اصلاح ضروری ہے۔ اول یہ کہ لکھا ہے کہ ہمارے تایا صاحب نے مرزا سلطا ن احمد صاحب کو متبنّٰی بنا لیا تھا ۔ یہ درست نہیں ہے بلکہ امر واقع اس طرح پر ہے کہ تایا صاحب کی وفات کے بعد تائی صاحبہ کی خواہش پر ان کو کاغذات مال میں افسران متعلقہ نے بطور متبنّٰی درج کر دیا تھا ۔دوسرے مرزا سلطان احمد صاحب کو حضرت مسیح موعود کی زندگی میں ہی خاندان کا بزرگ لکھا ہے جو درست نہیں ۔تیسرے مرزا نظام الدین کو مرزا سلطان احمد صاحب کا چچازاد بھائی لکھا ہے یہ غلط ہے بلکہ مرزا نظا م الدین چچا تھے ۔چوتھے مرزا نظام الدین کو مرزاغلام محی الدین کاسب سے بڑا لڑکا لکھا ہے یہ غلط ہے۔سب سے بڑا لڑکا مرزا امام الدین تھا ۔پانچویں حضرت مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود کی پیدائش کی تاریخ ۱۸۳۹ء بیان کی ہے یہ جیسا کہ بیان ہو چکا ہے تحقیقات سے صحیح ثابت نہیں ہوتی بلکہ صحیح تاریخ ۳۷-۱۸۳۶ء معلوم ہوتی ہے ۔چھٹے یہ لکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود کے اپنے رشتہ داروں میں سے بہت ہی کم ان کے معتقد ہیں ۔یہ بات غلط ہے بلکہ امرواقعہ یہ ہے کہ شروع شروع میں بے شک بہت سے رشتہ دارو ں نے مخالفت کی تھی لیکن کچھ تو تباہ ہوگئے اور بعضوں کو ہدایت ہوگئی چنانچہ اب بہت ہی کم رشتہ دار آپ کے مخالف رہ گئے ہیں اور اکثر آپ پر ایمان لاتے اور آپ کے خدام میں داخل ہیں ۔ علاوہ ازیں حضرت مسیح موعود کی ترقی اور کامیابی کی وجہ یہ لکھی ہے کہ ا ن کو بہت اچھی تعلیم ملی اور یہ کہ وہ ایک قابل مذہبی عالم اور مناظر تھے یہ غلط ہے کیونکہ ظاہری کسبی علوم کے لحاظ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ئی بڑے عالموں میں سے نہ تھے اور نہ ہی علم مناظرہ میںآپ کو کو ئی خاص دسترس تھی بلکہ شروع شروع میں تو آپ پبلک جلسوں میں کھڑے ہو کر تقریر کرنے سے بھی گھبراتے تھے اور طبیعت میں حجاب تھا مگر جب آپ کو خدانے اس مقام پر کھڑا کیا تو پھر آپ کے اندر وہ طاقت آگئی کہ آپ کے ایک ایک وار سے دشمن کی کئی کئی صفیں کٹ کر گر جاتی تھیں اور آپ کا ایک ایک لفظ خصم کی گھنٹوں کی تقریروتحریر پر پانی پھیر دیتا تھا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ کو منہاج نبوت پر ایک مقناطیسی جذب دیا گیا تھا جس سے سعید روحیں خود بخود آپ کی طرف کھچی چلی آتی تھیں اور خدا کی طرف سے آپ کو ایک رعب عطا ہوا تھا ۔جس کے سامنے دلیر سے دلیر دشمن بھی کانپنے لگ جاتا تھا ۔اور آپ ایک معجز نما حسن و احسان سے آراستہ کئے گئے تھے اور ہر قدم پر خدائی نصرت و تائید آپ کے ساتھ تھی ورنہ آپ سے زیادہ عالم و منطقی دنیا میں پیدا ہوئے اور حباب کی طرح اُٹھ کر بیٹھ گئے۔
{ 135} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے چوہدری حاکم علی صاحب نے کہ جب مرزا امام الدین و مرزا نظام الدین مسجدمبارک کا راستہ دیوار کھینچ کر بند کرنے لگے تو حضرت صاحب نے چند آدمیوں کوجن میں مَیں بھی تھا فرمایا کہ ان کے پاس جائو اور بڑی نر می سے سمجھائو کہ یہ راستہ بند نہ کریں اس سے میرے مہمانوں کو بہت تکلیف ہو گی اور اگر چاہیں تو میری کوئی اور جگہ دیکھ کر بے شک قبضہ کر لیںاور حضرت صاحب نے تاکید کی کہ کوئی سخت لفظ استعمال نہ کیا جاوے ۔چوہدری صاحب کہتے ہیں ہم گئے تو آگے دونو مرزے مجلس لگائے بیٹھے تھے ۔اور حقّے کا دور چل رہا تھا ۔ہم نے جاکر حضرت صاحب کا پیغام دیا اور بڑی نرمی سے بات شروع کی لیکن مرزا امام الدین نے سنتے ہی غصہ سے کہا وہ (یعنی حضرت صاحب ) خود کیوں نہیں آیا اور میں تم لوگوں کو کیا جانتا ہوں ۔پھر طعن سے کہا کہ جب سے آسمانوں سے وحی آنی شروع ہو ئی ہے اس وقت سے اسے خبر نہیں کیا ہو گیا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ چوہدری صاحب کہتے ہیں ہم لوگ اپنا سامنہ لے کر واپس آگئے ۔پھر حضرت صاحب نے ہمارے ساتھ اور بعض مہمانوں کو ملا دیا اور کہا کہ ڈپٹی کمشنر کے پاس جائو اور اس سے جا کر ساری حالت بیان کرو اور کہو کہ ہم لوگ دور دراز سے دین کی خاطر یہاں آتے ہیں اور یہ ایک ایسا فعل کیا جارہا ہے جس سے ہم کو بہت تکلیف ہو گی کیونکہ مسجد کا راستہ بند ہو جائیگا ۔ان دنوں میں قادیان کے قریب ایک گائوں میں کوئی سخت واردات ہو گئی تھی اور ڈپٹی کمشنر اور کپتان پولیس سب وہاں آئے ہوئے تھے۔چنانچہ ہم لوگ وہا ں گئے اور ذرا دور یّکے ٹھہرا کر آگے بڑھے ۔ڈپٹی کمشنر اس وقت باہر میدان میں کپتان کے ساتھ کھڑا باتیں کر رہا تھا ۔ہم میں سے ایک شخص آگے بڑھا اور کہا کہ ہم قادیا ن سے آئے ہیںاور اپنا حال بیان کرنا شروع کیا ۔مگر ڈپٹی کمشنر نے نہایت غصہ کے لہجہ میں کہا کہ تم بہت سے آدمی جمع ہو کر مجھ پر رعب ڈالنا چاہتے ہو ۔میں تم لوگوں کو خوب جانتا ہوںاور میں خوب سمجھتا ہوں کہ یہ جماعت کیوں بن رہی ہے ۔اور میں تمہاری باتوں سے ناواقف نہیں اور میں اب جلد تمہاری خبر لینے والا ہوں اور تم کو پتہ لگ جائے گا کہ کس طرح ایسی جماعت بنا یا کر تے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔چوہدری صاحب کہتے ہیں ہم ناچار وہاںسے بھی ناکام واپس آگئے اور حضرت صاحب کو سارا ماجرا سنایا ۔چوہدری صاحب کہتے ہیں کہ ان دنو ں میں مخالفت کا سخت زور تھا اور انگریز حکام بھی جماعت پر بہت بدظن تھے اور سمجھتے تھے کہ یہ کوئی سازش کے لئے سیاسی جماعت بن رہی ہے ۔اور بٹالہ میں ان دنوں پولیس کے افسر بھی سخت معاند و مخالف تھے اور طرح طرح سے تکلیف دیتے ر ہتے تھے اور قادیان کے اند ر بھی مرزا امام الدین اور مرزا نظام الدین وغیرہ اور ان کی انگیخت سے قادیان کے ہندواور سکھ اور غیر احمدی سخت ایذا رسانی پر تلے ہوئے تھے او ر قادیا ن میں احمدیوں کو سخت ذلت اورتکلیف سے رہنا پڑتا تھا اور ان دنوں میں قادیان میں احمدیوں کی تعداد بھی معمولی تھی اور احمدی سوائے حضرت کے خاندان کے قریباًسب ایسے تھے جو باہر سے دین کی خاطر ہجرت کر کے آئے ہوئے تھے یا مہمان ہو تے تھے ۔حضرت صاحب نے یہ حالات دیکھے اور جماعت کی تکلیف کا مشاہد ہ کیا تو جماعت کے آدمیوں کو جمع کر کے مشورہ کیا اور کہا کہ اب یہاں ایسے حالات پیدا ہوگئے ہیں کہ یہاں رہنا مشکل ہو گیا ہے اور ہم نے تو کا م کرنا ہے ۔یہاں نہیں تو کہیں اور سہی ۔اور ہجرت بھی انبیا ء کی سنت ہے ۔پس میرا ارادہ ہے کہ کہیں باہر چلے جائیں ۔چوہدری صاحب کہتے ہیں کہ اس پر پہلے حضرت خلیفہ اوّل نے عرض کیا کہ حضور بھیرہ تشریف لے چلیں ۔وہاں میرے مکانات حاضر ہیں اور کسی طرح کی تکلیف نہیں ۔مولوی عبدا لکریم صاحب نے سیالکوٹ کی دعوت دی ،شیخ رحمت اللہ صاحب نے کہا لاہور میرے پاس تشریف لے چلیں ۔میرے دل میں بھی بار باراُٹھتا تھا کہ میں اپنا مکان پیش کر دوں مگر میں شرم سے رُک جاتا تھا آخر میں نے بھی کہا کہ حضور میرے گائوں میں تشریف لے چلیں ۔وہ سالم گائوں ہمارا ہے اور کسی کا دخل نہیں اور اپنے مکان موجود ہیں اور وہ ایک ایسی جگہ ہے کہ حکام کا بھی کم دخل ہے ۔اور زمیندارہ رنگ میں گویا حکومت بھی اپنی ہے ،حضرت صاحب نے پوچھا وہاں ضروریات مل جاتی ہیں۔ میں نے کہا ۔رسد وغیرہ سب گھر کی اپنی کافی ہو تی ہے ۔اور ویسے وہاں سے ایک قصبہ تھوڑے فاصلہ پر ہے جہا ں سے ہر قسم کی ضروریات مل سکتی ہیں ۔حضرت صاحب نے کہا ! اچھا وقت آئے گا تو دیکھا جائے گا ۔ جہاں اللہ لے جائے گا وہیں جائیںگے۔خاکسارعرض کرتاہے کہ ایک دفعہ ۱۸۸۷ء میںبھی حضرت صاحب نے قادیان چھوڑکر کہیں باہر جانے کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔جیسا کہ آپ نے اپنی کتاب شحنۂ حق میں اس کا تذکرہ لکھا ہے ۔
{ 136} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسارعرض کرتا ہے کہ مَیں نے میاں عبداللہ صاحب سنوری کی وہ نوٹ بک یعنی کاپی دیکھی ہے جس میں وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سفر ہوشیار پور کا حساب کتاب درج کیا کر تے تھے ۔یہ وہی سفر ہے جس میں حضرت صاحب نے چالیس دن کا چلہ کیا اور جس میں آپ کا ماسٹر مرلی دھر آریہ کے ساتھ مباحثہ ہو ا۔جس کا سرمہ چشم آریہ میں ذکر ہے ۔اس کاپی سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود اس سفر سے ۱۷؍مارچ ۱۸۸۶ء کو واپس قادیان پہنچے تھے ۔حساب کتاب کی پہلی تاریخ کاپی میں یکم فروری ۱۸۸۶ء درج ہے ۔مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میاں عبداللہ صاحب نے حساب کتاب بعد میں لکھنا شروع کیا تھا اور حضرت صاحب ہوشیار پور جنوری کے تیسرے ہفتہ میں ہی پہنچ گئے تھے ۔ورنہ چالیس دن کا چلہ اور اس کے بعد بیس روز کا قیام تاریخ ہائے مذکورہ میں سما نہیں سکتے علاوہ ازیں میاں عبداللہ صاحب کویہ بھی یا د پڑتا ہے کہ ہوشیار پور میں حضرت صاحب نے دو ماہ قیام فر مایا تھا واللہ اعلم ۔
کاپی مذکور میں ۳؍۱ ؎ مارچ ۱۸۸۶ء کا حساب حسب ذیل درج ہے ۔مربیٰ انبہ ،اچار ،شیر ،مصری ،چٹنی ،گوشت ، لفافہ ،پالک ،دال ماش ،نمک ،دھنیا ،پیاز ،تھوم ،آردگندم ،ٹکٹ،مرمت تھیلا ،ریوڑی ،میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ کاپی میں صرف وہی چیزیں درج نہیں ہوتی تھیں جو حضرت کے لئے آئی ہوں بلکہ سب حساب درج ہوتا تھا خواہ کچھ ہمارے لئے منگایا گیا ہو یا کسی مہمان کے لئے ۔
{ 137} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیا ن کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ ۱۳۰۳ء ماہ ذی الحجہ بروز جمعہ بوقت دس بجے حضرت صاحب نے مجھ سے فرمایا کہ اگر کسی شخص کا خوف ہو اوردل پر اس کے رعب پڑنے کا اندیشہ ہو تو آدمی صبح کی نماز کے بعد تین دفعہ یٰسین پڑھے اوراپنی پیشانی پر خشک انگلی سے یَاعَزِیْز ُ لکھ کر اس کے سامنے چلاجاوے انشاء اللہ اس کا رعب نہیں پڑے گا بلکہ خود اس پر رعب پڑ جائے گا ۔ اور ویسے بھی حضرت صاحب نے مجھے ہر روز کے واسطے بعد نماز فجر تین دفعہ یٰسین پڑھنے کاوظیفہ بتایا تھا ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا یہ فرمان میاں عبداللہ صاحب نے اپنی نوٹ بک میں نوٹ کیا ہوا تھااس لئے تاریخ وغیرہ پوری پوری محفوظ رہی اور خاکسار اپنی رائے سے عرض کرتا ہے کہ یا عزیزُ کے الفاظ میں حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ جب انسان اپنے قلب پر خدا کی طاقت و جبروت اور قہر وغلبہ کی صفات کا نقشہ جمائے گا اور ان کا تصور کرے گا تو لازمی طور پر اس کا قلب غیر اللہ کے رعب سے آزاد ہو جائے گا اور بوجہ اس کے کہ وہ مومن ہے اس کو ان صفات کے مطالعہ سے ایک طاقت ملے گی جو دوسرے کو مرعوب کر دے گی اور انگلی سے لکھنا علم النفس کے مسئلہ کے ماتحت تصورکو مضبوط کر نے کے واسطے ہے ورنہ وظائف کوئی منتر جنتر نہیں ہوتے ۔واللہ اعلم
{ 138} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا ہم سے حافظ روشن علی صاحب نے کہ جب میں شروع شروع میں قادیان آیا تو اس کے چند دن بعد ایک بڑا معمر شخص بھی یہاں آیا تھا ۔یہ شخص حضرت سیّد احمد صاحب بریلوی کے مریدوں میں سے تھا اور بیان کر تا تھا کہ میں سیّد صاحب مرحوم کے ساتھ حج میں ہم رکاب تھا اور ان کے جنگوں میں بھی ان کے ساتھ رہا تھااور اپنی عمر قریباًسو ا سو سال کی بتاتا تھا قادیان میں آکر اس نے حضرت صاحب کی بیعت کی ۔یہ شخص دین دار تہجد گذار تھا اورباوجود اس پیرانہ سالی کے بڑا مستعد تھا ۔دو چار دن کے بعد وہ قادیان سے واپس جانے لگا اور حضرت صاحب سے اجازت چاہی تو آپ نے فرمایا کہ آپ اتنی جلدی کیوں جاتے ہیںکچھ عرصہ اور قیام کر یںاس نے کہا میں حضور کے واسطے موجب تکلیف نہیں بننا چاہتا ۔حضرت صاحب نے فرمایا ہمیںخدا کے فضل سے کوئی تکلیف نہیںآپ ٹھہریں ہم سب انتظام کر سکتے ہیں۔چنانچہ وہ یہاں ڈیڑھ دو ماہ ٹھہرا او رپھر چلا گیا۔ایک دفعہ دو بارہ بھی وہ قادیان آیا تھااور پھر اس کے بعد فوت ہو گیا ۔خاکسار عرض کرتاہے کہ میںنے جب یہ روایت سنی توا سے بہت عجیب سمجھا کیونکہ ایک شخص کا دو صدیوںکے سر کو پانا اور پھر دو اماموں کی ملاقات اور بیعت سے مشرف ہو نا کوئی معمولی بات نہیں چنانچہ میں نے اسی شوق میں یہ روایت مولو ی شیر علی صاحب کے پاس بیان کی تو انہوںنے کہا کہ میںنے بھی اس شخص کو دیکھا ہے ۔اس کا چھوٹا قد تھااور وہ بہت معمر آدمی تھااوراس کے بدن پر زخموںکے نشانات تھے اوراس نے حضرت مولوی صاحب خلیفہ اوّل کو صلوٰۃ خوف کے عملی طریقے بتائے تھے اور بتایا تھا کہ کس طرح ہم سید صاحب کے ساتھ لڑائی کے وقت نماز پڑھا کرتے تھے۔ حضرت مولوی صاحب خلیفہ اوّل نے ایک دفعہ درس کے وقت فرمایا تھا کہ میںنے ان سے صلوٰۃ خوف کے عملی طریقے سیکھے ہیں۔خاکسار عرض کرتاہے کہ حافظ صاحب نے بیان کیا کہ یہ شخص چونڈہ ضلع امرتسر کا تھا ۔
{ 139} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا ہم سے قاضی امیر حسین صاحب نے کہ ایک دفعہ ایک شخص نے اپنے اس دعویٰ سے پنجاب میں بڑا شور پیدا کیا کہ میں جلتی ہوئی آگ میں گھس جاتا ہوں او ر مجھے کچھ نہیں ہوتا اور اس نے حضرت صاحب کا بھی نام لیا کہ یہ مسیح بنتا پھر تا ہے کو ئی ایسا معجزہ تو دکھائے ۔حضرت صاحب کے پاس اس کی یہ بات پہنچی تو آپ نے فرمایا کہ اگر میرے سامنے وہ آگ میں داخل ہو تو پھر کبھی نہ نکلے ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ اللہ کے رسول مداریوں کی طرح تماشے نہیں دکھاتے پھر تے بلکہ جب اللہ تعالیٰ کو ئی حقیقی ضرورت محسوس کر تا ہے تو ان کے ذریعہ کوئی نشان ظاہر فرماتا ہے اور حضرت صاحب کا یہ فرمانا کہ اگر یہ شخص میرے سامنے آگ میں گھسے تو پھر کبھی نہ نکلے۔ اس کا یہ مطلب معلوم ہوتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ حق کے مقابلہ پر کھڑا ہونے کی وجہ سے آگ اسے جلا کر راکھ کر دے گی بلکہ اگلے جہاں میں بھی وہ آگ ہی کی خوراک رہے گا ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ ہمیں یہ معلوم نہیں کہ وہ واقعی آگ میں جاتا تھا یا نہیں بہر حال حضرت صاحب تک اس کا یہ دعویٰ پہنچا تھا جس پر آپ نے یہ فرمایا۔
{ 140} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کے زمانہ میں خصوصاً ابتدائی ایام میں قادیان کے لوگوں کی طرف سے جماعت کو سخت تکلیف دی جاتی تھی ۔مرزا امام الدین ومرزا نظام الدین وغیرہ کی انگیخت سے قادیان کی پبلک خصوصاً سکھ سخت ایذا رسانی پر تلے ہوئے تھے اور صرف باتوں تک ایذا رسانی محدود نہ تھی بلکہ دنگا فساد کرنے اور زدو کوب تک نو بت پہنچی ہوئی تھی ۔اگرکوئی احمدی مہاجر بھولے سے کسی زمیندار کے کھیت میں رفع حاجت کے واسطے چلا جاتا تھا تو وہ بدبخت اسے مجبور کرتا تھا کہ اپنے ہاتھ سے اپنا پاخانہ وہاں سے اُٹھائے ۔کئی دفعہ معزز احمدی ان کے ہاتھ سے پٹ جاتے تھے اگر کوئی احمدی ڈھاب میں سے کچھ مٹی لینے لگتا تو یہ لوگ مزدوروں سے ٹوکریاں اورکدالیں چھین کر لے جاتے اور ان کو وہاں سے نکال دیتے تھے اور کوئی اگر سامنے سے کچھ بولتا تو گندی اور فحش گالیوں کے علاوہ اسے مارنے کے واسطے تیارہو جاتے ۔آئے دن یہ شکائتیں حضرت صاحب کے پاس پہنچتیں رہتی تھیں مگر آپ ہمیشہ یہی فرماتے کہ صبر کرو ۔بعض جوشیلے احمدی حضرت صاحب کے پاس آتے اور عرض کرتے کہ حضور ہم کو صرف ا ن کے مقابلہ کی اجازت دے دیں ۔اور بس پھر ہم ان کو خود سیدھا کر لیں گے ۔حضور فرماتے نہیں صبر کرو۔ایک دفعہ سیّداحمد نور مہاجر کابلی نے اپنی تکلیف کا اظہار کیا۔اور مقابلہ کی اجازت چاہی مگر حضرت صاحب نے فرمایا دیکھو اگر امن اور صبر کے ساتھ یہاں رہنا ہے تو یہاں رہو اور اگر لڑنا ہے اور صبر نہیں کر سکتے تو کابل چلے جائو ۔چنانچہ یہ اسی تعلیم کا نتیجہ تھا کہ بڑے بڑے معزز احمدی جو کسی دوسرے کی ذراسی بات بھی برداشت نہیں کر سکتے تھے ۔وہ ذلیل و حقیر لوگو ں کے ہاتھ سے تکلیف اور ذلت اٹھا تے تھے اور دم نہ مارتے تھے ۱ ؎ مگر ایک دفعہ ایسا اتفاق ہوا کہ ایک غریب احمدی نے اپنے مکان کے واسطے ڈھاب سے کچھ بھرتی اٹھائی تو سکھ وغیرہ ایک بڑا جتھا بنا کر اور لاٹھیوں سے مسلح ہو کر اس کے مکان پر حملہ آور ہو گئے۔ پہلے تو احمدی بچتے رہے۔لیکن جب انہوں نے بے گناہ آدمیوں کو مارنا شروع کیا اور مکان کو بھی نقصان پہنچانے لگے تو بعض احمدیوں نے بھی مقابلہ کیا جس پر طرفین کے آدمی زخمی ہوئے اور بالآخر حملہ آوروں کو بھاگنا پڑا۔چنانچہ یہ پہلا موقعہ تھا کہ قادیان کے غیر احمدیوں کو عملاً پتہ لگا کہ احمدیوں کا ڈر ان سے نہیں بلکہ اپنے امام سے ہے ۔اس کے بعد پولیس نے اس واقعہ کی تحقیقات شروع کی۔ اور چونکہ احمدی سراسر مظلوم تھے اور غیر احمدی جتھا بنا کر ایک احمدی کے مکان پر جارحانہ طور پر لاٹھیوںسے مسلح ہو کر حملہ آور ہوئے تھے ۔اس لئے پولیس باوجود مخالف ہونے کے ان کا چالان کر نے پر مجبور تھی جب ان لوگوں نے دیکھا کہ اب ہتھکڑی لگتی ہے تو ان کے آدمی حضرت صاحب کے پاس دوڑے آئے کہ ہم سے قصور ہوگیاہے۔حضور ہمیں معاف کر دیںحضرت صاحب نے معاف کردیا ۔یہ پہلا دھکا تھا جو قادیا ن کی غیر احمدی پبلک کو پہنچا ۔اور یہ غالباً ۱۹۰۶ء کی بات ہے ۔اس کے بعد ان کی شرارتیں تو بد ستور جاری رہیں اور اب تک جاری ہیں ۔مگر اب خدا کے فضل سے قادیان میں احمدیوں کی تعدا د بھی بہت زیادہ ہے جو طبعاً غیر احمدیوں کو ہمارے خلاف جرأت کر نے سے روکے رکھتی ہے ۔دوسرے حضرت صاحب کی وفات کے بعد بعض دفعہ غیر احمدیوں کی شرارت کی وجہ سے لڑائی کی صورت پیدا ہو چکی ہے ۔او ر ہر دفعہ غیر احمدیوں کو سخت ذلت اٹھا نی پڑی ہے ۔ لہٰذا اب ان کی شرارتیںگہری چال کی صورت میں بدل کر قانون کی آڑ میں آگئی ہیں ۔
(خاکسار ایڈیشن ثانی کے موقعہ پر عرض کرتا ہے کہ میرے مندرجہ بالا ریمارک سے وہ حالت خارج ہے جو اب کچھ عرصہ سے احرار کی فتنہ انگیزی اور بعض حکام کی جنبہ داری سے قادیان میں جماعت احمدیہ کے خلاف پیدا ہو رہی ہے۔)
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{ 141} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے میاں عبدا للہ صاحب سنوری نے کہ جب حضور کو وَسِّعْ مَکَانَکَ (یعنی اپنا مکان وسیع کر) کا الہام ہوا ۔تو حضور نے مجھ سے فرمایا کہ مکانا ت بنوانے کے لئے تو ہمارے پاس روپیہ ہے نہیں اس حکم الہٰی کی اس طرح تعمیل کر دیتے ہیں کہ دو تین چھپر بنوا لیتے ہیں ۔چنانچہ حضور نے مجھے اس کام کے واسطے امرتسر حکیم محمد شریف صاحب کے پاس بھیجا جو حضور کے پرانے دوست تھے ۔اور جن کے پاس حضور اکثر امرتسرمیں ٹھہرا کر تے تھے ۔تاکہ میں ان کی معرفت چھپر باندھنے والے اور چھپر کا سامان لے آئوں ۔چنانچہ میں جاکر حکیم صاحب کی معرفت امرتسر سے آدمی ۱؎ اورچھپر کا سامان لے آیا ۔اور حضرت صاحب نے اپنے مکان میں تین چھپر تیار کر وائے یہ چھپر کئی سال تک رہے ۔پھر ٹوٹ پھوٹ گئے۔خاکسارعرض کرتا ہے کہ میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ یہ بات دعویٰ مسیحیت سے پہلے کی ہے نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ توسیع مکان سے مرادکثرت مہمانان و ترقی قادیان بھی ہے ۔
{ 142} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں اعجازاحمدی کی تصنیف کے بعد مولوی ثنا ء اللہ قادیان آیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ اس کی دستی خط وکتابت ہوئی تو اس نے ایک دفعہ اپنا ایک آدمی کسی بات کے دریافت کر نے کے لئے حضرت صاحب کے پاس بھیجا ۔یہ شخص جب مسجد مبارک میں حضرت صاحب کے پاس آیا تو حضرت صاحب اس وقت اُٹھ کراندرون خانہ تشریف لے جارہے تھے۔اس نے حضرت صاحب سے کوئی بات پوچھی اورحضرت صاحب نے اس کا جواب دیا ۔ جس پر اس نے کوئی سوال کیا جس کا مطلب یہ تھا کہ یہ کام یا یہ بات کو ن کرے ۔مولوی صاحب کہتے ہیںکہ سوال مجھے یاد نہیں رہا مگر اس پر حضرت صاحب نے اسے فرمایا ’تو‘ مولوی صاحب فرماتے ہیںکہ میں نے اس دفعہ کے علاوہ کبھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منہ سے کسی شخص کو توُ کہتے نہیں سنا ۔موافق ہو یا مخالف۔غریب سے غریب اور چھوٹے سے چھوٹابھی ہو تا تھاتو حضرت صاحب اسے ہمیشہ آپ کے لفظ سے مخاطب کر تے تھے ۔مگر اس وقت اس شخص کو آپ نے خلاف عادت ’’تو‘‘ کا لفظ کہا ۔اور ہم سب نے اس بات کو عجیب سمجھ کر محسوس کیا ۔
(خاکسار عرض کرتا ہے کہ اگر حضرت مولوی شیر علی صاحب کو اس لفظ کے سننے میں غلطی نہیں لگی تو یہ لفظ حضرت صاحب نے کسی خاص مصلحت سے استعمال فرمایا ہو گا۔ یا یہ بھی ممکن ہے کہ جلدی میں سہواً نکل گیا ہو۔)
{ 143} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مولوی سیّد محمد سرور شاہ صاحب نے کہ جب منشی احمدجان صاحب مرحوم لدھیانوی پہلی مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملے تو حضرت صاحب نے ان سے دریافت کیا کہ آپ نے جس طریق کو اختیارکیا ہے اس میںخاص کیا کمال ہے۔ منشی صاحب نے کہامیں جس شخص پر توجہ ڈالوںتو وہ بے تاب ہو کر زمین پر گر جاتا ہے ۔حضرت صاحب نے فرمایا تو پھر نتیجہ کیاہوا ؟ منشی صاحب موصوف کی طبیعت بہت سعید اور ذہین واقع ہو ئی تھی بس اسی نکتہ سے ان پر سب حقیقت کھل گئی اور وہ اپنا طریق چھوڑ کرحضرت صاحب کے معتقد ہوگئے۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ قرون اولی کے بعد اسلام میں صوفیوں کے اندر تو جہ کے علم کا بڑا چرچا ہو گیا تھا ۔اور اس کو روحانیت کا حصہ سمجھ لیا گیا تھا حالانکہ یہ علم دنیا کے علوم میں سے ایک علم ہے جسے روحانیت یا اسلام سے کو ئی خاص تعلق نہیںاور مشق سے ہر شخص کو خواہ مسلم ہو یا غیرمسلم اپنی استعداد کے مطابق حاصل ہو سکتا ہے اورتعلق با للہ اوراصلاح نفس کے ساتھ اسے کوئی واسطہ نہیں ۔لیکن چونکہ نیک لوگ اپنی قلبی توجہ سے دوسرے کے دل میںایک اثرپیدا کردیتے تھے جس سے بعض اوقات وقتی طور پر وہ ایک سرور محسوس کر تا تھا اس لئے اسے روحانیت سمجھ لیا گیا اورچونکہ فَیْجِ اَعْوَج کے زمانہ میں حقیقی تقویٰ و طہارت اوراصلاح نفس اور تعلق باللہ بالعموم معدو م ہو چکا تھااورعلمی طور پر توجہ کے فلسفہ کو بھی دنیا ابھی عام طور پر نہیں سمجھتی تھی اس لئے یہ باتیں طبقہ صوفیا میںرائج ہو گئیںاور پھرآہستہ آہستہ ان کا اثر اتنا وسیع ہوا کہ بس انہی کو روحانی کمال سمجھ لیا گیااور اصل روح جس کی بقا کے واسطے ڈوبتے کو تنکے کاسہارا سمجھ کر اس جسم کو ابتدا میںاختیارکیا گیا تھانظر سے اوجھل اوردل سے محوہوگئی لیکن مسیح موعود کے زمانہ میں جو آخَرِیْنَ مِنْہُمْ کا زمانہ ہے حقیقت حال منکشف کی گئی چنانچہ جب حضرت مسیح موعود ؑنے منشی صاحب کویہ فرمایا کہ اگر آپ نے کسی شخص کو اپنی توجہ سے گرا لیا تو اس کا نتیجہ یا فائدہ کیا ہوا یعنی دینی اور روحانی لحاظ سے اس توجہ نے کیا فائدہ دیا کیونکہ یہ بات تو مشق کے ساتھ ایک دہریہ بھی اپنے اندرپیدا کرسکتاہے تو منشی صاحب کی آنکھیںکھل گئیںاور ان کو پتہ لگ گیا کہ خواہ ہم علم توجہ میں کتنا بھی کمال حاصل کرلیںلیکن اگرلوگ حقیقی تقویٰ و طہارت اورتعلق باللہ کے مقام کو حاصل نہیں کرتے تو یہ بات روحانی طور پرکچھ بھی فائدہ نہیں دے سکتی ۔واقعی منہاج نبوت کے مقابلہ میں جس پر حضرت مسیح موعود ؑ کوقائم کیا گیااور جس نے روحانیت کا ایک سورج چڑھا دیا ۔ یہ دود آمیز مکدر اور عارضی روشنی جس سے بسا اوقات ایک چور بھی لوگوںکے قلوب سے ایمان و اسلام کا اثاثہ چرا نے کی نیت سے اپنی سیاہ کاری میںممد بنا سکتا ہے کب ٹھہر سکتی تھی ۔نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ منشی احمدجان صاحب لدھیانوی ایک بڑے صوفی مزاج آدمی تھے اور اپنے علاقہ کے ایک مشہور پیر سجادہ نشین تھے مگر افسوس کہ حضرت صاحب کے دعویٰ مسیحیت سے پہلے ہی فوت ہوگئے۔ان کو حضرت مسیح موعود ؑسے اس درجہ عقیدت تھی کہ ایک دفعہ انہوں نے آپ کومخاطب کر کے یہ شعر فرمایا ؎
ہم مریضوںکی ہے تمہیںپہ نظر
تم مسیحا بنو خداکے لئے
منشی صاحب موصوف کی لڑکی سے حضرت خلیفہ اوّل کی شادی ہوئی او ر حضرت مولوی صاحب کی سب نرینہ اولاد انہی کے بطن سے ہے۔منشی صاحب کے دونوںصاحبزادے قادیان میں ہی ہجرت کر کے آگئے ہوئے ہیں اور منشی صاحب کے اکثر بلکہ قریباً سب متبعین احمدی ہیں۔نیز خاکسارعرض کرتاہے کہ مولوی سید سرور شاہ صاحب منشی صاحب مرحوم سے خودنہیںملے لہٰذا انہوں نے کسی اور سے یہ واقعہ سنا ہوگا۔
{ 144} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چند مہمانوں کی دعوت کی اور ان کے واسطے گھر میں کھانا تیار کر وایا مگر عین جس وقت کھانے کا وقت آیا اتنے ہی اور مہمان آگئے اور مسجد مبارک مہمانوں سے بھر گئی ۔حضرت صاحب نے اندر کہلابھیجا کہ اور مہمان آگئے ہیں کھانا زیادہ بھجوائو ۔اس پر بیوی صاحبہ نے حضرت صاحب کو اندر بلوا بھیجا اور کہا کہ کھانا تو تھوڑا ہے ۔صرف ان چند مہمانوں کے مطابق پکایا گیا تھا ۔جن کے واسطے آپ نے کہا تھا مگر شاید باقی کھانے کا تو کچھ کھینچ تان کر انتظام ہو سکے گا لیکن زردہ تو بہت ہی تھوڑا ہے اس کا کیا کِیا جاوے ۔ میرا خیال ہے کہ زردہ بھجواتی ہی نہیں صرف باقی کھانا نکال دیتی ہوں ۔حضرت صاحب نے فر مایا نہیں یہ مناسب نہیں ۔تم زردہ کا برتن میرے پاس لائو چنانچہ حضرت صاحب نے اس برتن پر رومال ڈھانک دیا اور پھر رومال کے نیچے اپنا ہاتھ گزار کر اپنی انگلیاں زردہ میں داخل کر دیں اور پھر کہا اب تم سب کے واسطے کھانا نکالو خدا بر کت دے گا ۔چنانچہ میاں عبد اللہ صاحب کہتے ہیں کہ زردہ سب کے واسطے آیا اور سب نے کھایا اور پھر کچھ بچ بھی گیا ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ جب میاں عبداللہ صاحب نے یہ روایت بیان کی تو مولوی عبدالمغنی صاحب بھی پاس تھے انہوں نے کہا کہ سید فضل شاہ صاحب نے بھی یہ روایت بیان کی تھی ۔ میاں عبداللہ صاحب نے کہا اچھا تب تو اس روایت کی تصدیق بھی ہوگئی ۔شاہ صاحب بھی اس وقت موجود ہوں گے ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ دوسرے دن میاں عبداللہ صاحب نے مجھ سے بیان کیاکہ میں نے سید فضل شاہ صاحب سے پوچھا ہے وہ بھی اس وقت موجو دتھے اور ان کو یہ روایت یا د ہے ۔اور میاں عبداللہ صاحب نے بیان کیا کہ مجھ سے یہ گھر والی بات خود حضرت صاحب نے بیان فرمائی تھی ۔خاکسارعرض کرتا ہے کہ میں نے یہ روایت سن کر حضرت والدہ صاحبہ سے پوچھا کہ کیا آپ کو یہ واقعہ یاد ہے انہوں نے کہا کہ خاص یہ واقعہ تو مجھے یاد نہیں لیکن ایسا ضرور ہوا ہو گا ۔کیونکہ ایسے واقعات بار ہا ہوئے ہیں ۔میں نے پو چھا کس طرح ۔والدہ صاحبہ نے فرمایا یہی کہ تھوڑا کھانا تیا ر ہوا اور پھر مہمان زیادہ آگئے ۔مثلاً پچاس کا کھا نا ہوا توسو آگئے ۔لیکن وہی کھاناحضرت صاحب کے دم سے کافی ہو جاتا رہا۔پھر حضرت والدہ صاحبہ نے ایک واقعہ بیان کیا کہ ایک دفعہ کو ئی شخص حضرت صاحب کے واسطے ایک مرغ لایا ۔میں نے حضرت صاحب کے واسطے اس کا پلائو تیا ر کر ایا او ر وہ پلائو اتنا ہی تھا کہ بس حضرت صاحب ہی کے واسطے تیار کروایا تھا مگر اسی دن اتفاق ایسا ہوا کہ نواب صاحب نے اپنے گھر میںدھونی دلوائی تو نواب صاحب کے بیوی بچے بھی ادھر ہمارے گھر آگئے اور حضرت صاحب نے مجھ سے فرمایا کہ ان کو بھی کھانا کھلائو ۔ میں نے کہا کہ چاول تو بالکل ہی تھوڑے ہیں صرف آپ کے واسطے تیار کروائے تھے ۔حضرت صاحب نے فرمایا چاول کہاں ہیں پھرحضرت صاحب نے چاولوں کے پاس آکر ان پر دم کیا اور کہا اب تقسیم کر دو۔والدہ صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ ان چاولوں میں ایسی برکت ہوئی کہ نواب صاحب کے سارے گھر نے کھائے اور پھر بڑے مولوی صاحب (یعنی حضرت مولوی نورالدین صاحب)اور مولوی عبدالکریم صاحب کو بھی بھجوائے گئے اور قادیان میں اور بھی کئی لوگوں کو دئے گئے ۔اور چونکہ وہ برکت والے چاول مشہور ہوگئے تھے اس لئے کئی لوگوں نے آآکر ہم سے مانگے اور ہم نے سب کو تھوڑے تھوڑے تقسیم کئے اور وہ سب کے لئے کافی ہوگئے ۔
{ 145} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا ہم سے شیخ کرم الہٰی صاحب پٹیالوی نے کہ ایک دفعہ جب ابھی حضرت صاحب نے مسیحیت کا دعویٰ نہیں کیا تھا میں نے پٹیالہ میں پٹیالہ کے ایک باشندہ محمد حسین کا وعظ سنا۔یہ شخص اب مر چکا ہے اور اس کا خاتمہ حضرت صاحب کی مخالفت پر ہوا تھا مگر میں نے سنا کہ وہ لوگوں کو یہ وعظ کر رہا تھا کہ لوگ جب آنحضرت ﷺ کے یہ معجزے سنتے ہیں کہ آپ کی برکت سے کھانا زیادہ ہو گیا یا تھوڑا سا پانی اتنا بڑھ گیا کہ بہت سے آدمی سیراب ہوگئے تو وہ حیران ہو تے ہیں اور ان باتوں کا یقین نہیں کر تے حالانکہ خد اکی قدرت سے یہ باتیں بالکل ممکن ہیں ۔چنانچہ اس زمانہ میں بھی بزرگوں اور اولیا ء اللہ سے ایسے خوارق ظہور میں آجاتے ہیں ۔ پھر اس نے ایک واقعہ سنایا کہ میں ایک دفعہ انبالہ میں حضرت مرزا صاحب کی ملاقات کو گیا ۔وہاں اندر سے ان کے واسطے کھانا آیا جو صرف ایک دو آدمیوں کی مقدار کا کھانا تھا۔مگر ہم سب نے کھایا اور ہم سب سیر ہو گئے حالانکہ ہم دس بارہ آدمی تھے ۔شیخ کر م الہٰی صاحب بیان کرتے تھے کہ دعویٰ مسیحیت پر اس شخص کو ٹھوکر لگی اور وہ مخالف ہو گیا ۔ اور اب وہ مر چکا ہے ۔
{ 146} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا ہم سے حافظ روشن علی صاحب نے کہ ان سے ڈاکٹر محمد اسماعیل خاںصاحب مرحوم نے بیان کیا تھا کہ ایک دفعہ جب کوئی جلسہ وغیرہ کا موقعہ تھااور ہم لوگ حضرت صاحب کے پاس بیٹھے ہو ئے تھے اور مہمانوں کے لئے باہر پلائوزردہ وغیرہ پک رہا تھا کہ حضرت صاحب کے واسطے اندر سے کھانا آگیا ۔ہم سمجھتے تھے کہ یہ بہت عمدہ کھانا ہو گا لیکن دیکھا تو تھوڑا سا خشکہ تھااور کچھ دال تھی اور صرف ایک آدمی کی مقدار کا کھانا تھا ۔حضرت صاحب نے ہم لوگوں سے فرمایا آپ بھی کھانا کھالیںچنانچہ ہم بھی ساتھ شامل ہو گئے ۔ حافظ صاحب کہتے تھے کہ ڈاکٹر صاحب بیان کر تے تھے کہ اس کھانے سے ہم سب سیر ہوگئے۔حالانکہ ہم بہت سے آدمی تھے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے تعجب آیا کرتا ہے کہ خدا پر ایمان رکھنے کا دم بھرنے والے لوگ خوارق کے ظہور کے متعلق کیوںشک کر تے ہیں۔جب یہ بات مان لی گئی ہے کہ ایک قادر مطلق خدا موجود ہے جس کے قبضۂ تصّرف میں یہ سارا عالم ہے ۔اور جو اشیاء اور خواصِ اشیاء کا خالق و مالک ہے تو پھر خوارق کا وجود کس طرح مشتبہ ہو سکتاہے کیونکہ وہ خدا جس نے مثلاً کھانے میں یہ خاصیت ودیعت کی تھی کہ اس قدر کھانا ایک آدمی کے لئے کافی ہو ۔کیا وہ اپنی تقدیرخاص سے کسی مصلحت کی بنا پر اس میںوقتی طور پر یہ خاصیت نہیںرکھ سکتا کہ وہی کھانا مثلاً دس آدمی کا پیٹ بھر دے یا بیس آدمی کو سیر کر دے؟اگر اشیاء کے خواص خدا کی طرف سے قائم شدہ تسلیم کئے جاویں تو میں نہیں سمجھ سکتا کہ بعض مصالح کے ماتحت ان میںوقتی طور پر تغیر تبدل پر خداکیوں نہیں قادر ہو سکتا اگر وہ قادر مطلق ہے تو ہر اک امر جو قدرت کے نام سے موسوم ہوسکتا ہے اس کے اندر تسلیم کرنا پڑے گا ۔اسی طرح باقی تمام صفات کا حال ہے اور یہ جو ہم کو تعلیم دی گئی ہے کہ تقدیر پر ایمان لائو تو اس سے مراد یہی ہے کہ ہم اس بات پر ایمان لائیں کہ نہ صرف یہ کہ خواص الاشیاء تمام خد اکی طرف سے ہیںبلکہ خدا تعالیٰ اپنی تقدیر خاص سے ان میںتغیر تبدل بھی کرسکتا ہے گویا ہم تقدیر عام اور تقدیر خاص ہر دو پر ایمان لائیں یعنی اول ہم یہ ایمان لائیں کہ مثلاً آگ میں جو جلانے کی صفت ہے یہ خود بخودنہیں بلکہ خدائی حکم کے ماتحت ہے اور پھر ہم یہ ایما ن لائیں کہ خداتعالیٰ جب چاہے اس کی اس صفت کو مبدّل معطل یا منسوخ کر سکتا ہے اور پھر ہم یہ بھی ایمان لائیں کہ اپنی ہستی کو محسوس و مشہود کرانے کے لئے خداتعالیٰ اپنے خاص بندوں کے ذریعہ بعض اوقات ایسا کرتابھی ہے اور دنیا کو اپنی تقدیر خاص کے جلوے دکھاتا ہے کیونکہ ایمان باللہ اس کے بغیر مستحکم نہیںہو سکتا۔مگر یہ یاد رکھنا چاہئیے کہ خدا کا کوئی فعل عبث نہیں ہوتا بلکہ حکمتوں پر مبنی ہوتا ہے۔اس لئے جب خدائی مصلحت تقاضا کر تی ہے تب ہی کو ئی خارق عادت امر ظاہر ہوتا ہے اور پھر اسی طریق پر ظاہر ہو تا ہے جس طرح وہ چاہتا ہے یہ نہیں کہ نشان کا طالب جب چاہے اور جس طریق پر چاہے اسی طریق پر نشان ظاہر ہو ۔ خدا کسی کا محتاج نہیںبندے اس کے محتاج ہیں اور ضرورت کا فیصلہ کرنا بھی اسی کا کام ہے ۔
{ 147} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے چوہدری حاکم علی صاحب نے کہ ایک دفعہ کسی ہندو نے اعتراض کیا کہ حضرت ابراہیم پر آگ کس طرح ٹھنڈی ہو گئی ۔اس اعتراض کا جواب حضرت مولوی صاحب خلیفہ اول نے لکھا کہ آگ سے جنگ اور عداوت کی آگ مراد ہے ۔انہی ایام میں ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام چھوٹی مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے اور ہم لوگ آپ کے پائوں دبا رہے تھے اور حضرت مولوی صاحب بھی پاس بیٹھے تھے کہ کسی نے حضرت صاحب کو یہ اعتراض اور اس کا جواب جو مولوی صاحب نے لکھا تھاسنایا ۔حضرت صاحب نے فرمایا اس تکلّف کی کیا ضرورت ہے ہم موجود ہیںہمیںکوئی آگ میںڈال کر دیکھ لے کہ آگ گلزار ہو جاتی ہے یا نہیں ۔خاکسار عرض کرتاہے کہ یہ اعتراض دھرم پال آریہ مُرتد از اسلام نے کیا تھا اورحضرت مولوی صاحب نے اس کی کتاب ترک اسلام کے جواب میں نورالدین کتاب لکھی تھی ۔اس میں آپ نے یہ جواب دیا تھاکہ آگ سے مراد مخالفوں کی دشمنی کی آگ ہے مگر حضرت صاحب تک یہ بات پہنچی توآپ نے اس کو ناپسند فرمایا اور فرمایا کہ اس تاویل کی ضرورت نہیں اس زمانہ میںہم موجود ہیں ہمیں کوئی مخالف دشمنی سے آگ کے اندر ڈال کر دیکھ لے کہ خدا اس آگ کو ٹھنڈا کر دیتا ہے کہ نہیں ۔چنانچہ حضرت مسیح موعود ؑ نے ایک دوسرے موقعہ پر اس مفہوم کو اپنے ایک شعر میں بھی بیان فرما یا ہے ۔ ؎
ترے مکروں سے اے جاہل مرانقصاں نہیں ہر گز
کہ یہ جاں آگ میں پڑ کر سلامت آنے والی ہے
اور آپ کا ایک الہام بھی اس مفہوم کو ظاہر کرتا ہے جس میں خداتعالیٰ آپ سے فرماتا ہے کہ تو لوگوں سے کہہ دے کہ’’ آگ سے ہمیں مت ڈرائوآگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے ۔‘‘ خاکسار عرض کرتا ہے کہ چوہدری حاکم علی صاحب نے اس ذکر میں یہ واقعہ بھی بیان کیاکہ ایک دفعہ کسی شخص نے یہ تماشا دکھاناشروع کیا کہ آگ میں گھس جاتا تھا اورآگ اسے ضرر نہ پہنچاتی تھی ۔اس شخص نے مخالفت کے طور پر حضرت صاحب کا نام لے کرکہا کہ ان کو مسیح ہو نے کا دعویٰ ہے اگر سچے ہیں تو یہاں آجاویںاور میرے ساتھ آگ میںداخل ہو ںکسی شخص نے یہ بات باہر سے خط میں مجھے لکھی اور میں نے وہ خط حضرت صاحب کے سامنے پیش کیا ۔آپ نے فرمایا کہ یہ ایک شعبدہ ہے ہم تو وہاں جانہیں سکتے مگر آپ لکھ دیں کہ وہ یہاں آجاوے ۔پھر اگر میرے سامنے وہ آگ میں داخل ہو گا تو زندہ نہیں نکلے گا ۔ چنانچہ میںنے آپ کا یہ جواب لکھ دیا مگر وہ نہیں آیا ۔خاکسار عرض کرتاہے کہ نادان لوگ بعض اوقات ایسی باتوں سے خدائی قدرت نمائیوں کے متعلق شکوک میں مبتلا ہو جاتے ہیں حالانکہ خدائی باتوں میں خدائی جلوے ہوتے ہیں جو خدا کے چہرہ کو ظاہر کر نے والے ہو تے ہیں مگر انسان خواہ اپنے علم سے کیا کچھ بنالے مگر پھر بھی حالات کا مطالعہ کرنے والوں کو انسانی کاموں میں انسان سے بڑھ کر کو ئی چہرہ نظر نہیں آسکتا چنانچہ بعض اوقات ایک ہی بات ہوتی ہے مگر جب وہ خدا کی طرف سے آتی ہے تو اور شان رکھتی ہے اور انسان کی طرف سے آتی ہے تو اور شان رکھتی ہے ۔اسی مثال میں ظاہر ہو رہا ہے کہ کس طرح خدائی قدرت نمائی کے سامنے انسانی طلسم پر پانی پھر گیا ۔معلوم ہوتا ہے یہ شخص بھی حضرت موسٰیؑ کے زمانہ کے شعبدہ بازوں کی طرح کو ئی شعبدہ دکھاتا ہوگا ۔ مگر مسیح موعود پر اس معاملہ میں خدا کا فضل موسٰی ؑ سے بڑھ کر معلوم ہوتا ہے کیونکہ وہاں تو انسانی طلسم کو مٹانے کے لئے موسیٰ کو کچھ دکھانا پڑا اور یہاں صرف دکھانے کا نام لینے پر ہی طلسم پاش پاش ہو گیا اور دشمن کو سامنے آنے کی جرأت ہی نہ ہوئی فالحمد للہ علی ذالک۔
{ 148} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیا ن کیا ہم سے حافظ روشن علی صاحب نے کہ جب منارۃ المسیح کے بننے کی تیاری ہو ئی تو قادیان کے لوگوں نے افسران گورنمنٹ کے پاس شکائتیں کیں کہ اس منارہ کے بننے سے ہمارے مکانوں کی پردہ دری ہوگی ۔چنانچہ گورنمنٹ کی طرف سے ایک ڈپٹی قادیا ن آیا او ر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مسجد مبارک کے ساتھ والے حجرہ میں ملا۔اس وقت قادیان کے بعض لوگ جو شکایت کر نے والے تھے وہ بھی اس کے ساتھ تھے ۔حضرت صاحب سے ڈپٹی کی باتیں ہوتی رہیں اور اسی گفتگو میں حضرت صاحب نے ڈپٹی کو مخاطب کر کے فرمایا کہ یہ بڈھامل بیٹھاہے آپ اس سے پوچھ لیں کہ بچپن سے لے کر آج تک کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ اسے فائدہ پہنچانے کا مجھے کو ئی موقعہ ملا ہو اور میں نے فائدہ پہنچانے میں کو ئی کمی کی ہو اور پھر اسی سے پوچھیں کہ کبھی ایسا ہوا ہے کہ مجھے تکلیف دینے کا اسے کوئی موقعہ ملا ہو تو اس نے مجھے تکلیف پہنچانے میں کو ئی کسر چھوڑی ہو ۔حافظ صاحب نے بیان کیا کہ میں اس وقت بڈھامل کی طرف دیکھ رہا تھا اس نے شرم کے مارے اپنا سر نیچے اپنے زانوئوں میں دیا ہو اتھا ۔اور اس کے چہرہ کا رنگ سپید پڑگیا تھا اور وہ ایک لفظ بھی منہ سے نہیں بول سکا۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ بڈھامل قادیان کے آریوں کا ایک ممتاز رکن ہے اور اسلام اور اس سلسلہ کا سخت دشمن ہے اور آج تک زندہ اور یَمُدُّھُمْ فِیْ طُغْیَا نِھِمْ کا مصداق ہے ۔
{ 149} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان فرمایا حضرت خلیفۃ المسیح ثانی نے کہ لالہ بھیم سین صاحب سیالکوٹی کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بہت اچھے تعلقات تھے حتّٰی کہ آخری ایام میں بھی مَیں نے دیکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوکبھی کچھ روپے کی ضرورت ہو تی تھی تو ان سے بطور قرض منگا لیتے تھے چنانچہ وفات سے دو تین سال قبل ایک دفعہ حضرت صاحب نے لالہ بھیم سین صاحب سے چند سو روپیہ بطور قرض منگوایا تھا۔ حالانکہ اپنی جماعت میں بھی روپیہ دے سکنے والے بہت موجود تھے ۔خاکسار عرض کرتاہے کہ لالہ بھیم سین صاحب سے ابتداء ً ملازمت سیالکوٹ کے زمانہ میں حضرت صاحب کے تعلقات پیدا ہوئے اور پھر یہ رشتہ ٔ محبت آخر دم تک قائم رہا ۔لالہ صاحب حضرت صاحب کے ساتھ بہت عقید ت رکھتے تھے ۔چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح ثانی کی روایت ہے کہ جن ایام میں جہلم کا مقدمہ دائر ہو ا تھا۔ لالہ بھیم سین صاحب نے حضرت صاحب کو تار دیا تھا کہ میرے لڑکے کو جو بیرسٹر ہے اجازت عنایت فرما ویںکہ وہ آپ کی طرف سے مقدمہ کی پیروی کرے مگر حضرت صاحب نے شکریہ کے ساتھ انکار کر دیا ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ جس لڑکے کی خدمات لالہ صاحب نے پیش کی تھیں ان کا نام لالہ کنور سین ہے جو ایک لائق بیرسٹر ہیں اور گذشتہ دنوں میںلاء کالج لاہور کے پرنسپل تھے اور آجکل کسی ریاست میں چیف جج کے معزز عہدہ پر ممتا ز ہیں ۔نیز حضرت خلیفۃ المسیح ثانی بیان فرماتے ہیں کہ جو چھت گر نے کا واقعہ ہے اس میں بھی غالباً لالہ بھیم سین صاحب شریک تھے۔ خاکسارعر ض کرتا ہے کہ لالہ بھیم سین صاحب موصوف امتحان مختاری کی تیاری میں بھی حضرت صاحب کے ساتھ شریک تھے ۔چنانچہ وہ اس امتحان میں کامیاب ہو کر مختا ر بن گئے ۔مگر آپ کے لئے چونکہ پردہ غیب میں اور کام مقدر تھا اس لئے آپ کو خدا نے اس راستہ سے ہٹا دیا ۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ لالہ بھیم سین صاحب کی کامیابی کے متعلق بھی حضرت صاحب نے خواب دیکھا تھاکہ جتنے لوگوں نے امتحان دیا ہے ان میںسے صرف لالہ بھیم سین صاحب پاس ہوئے ہیں۔چنانچہ ایسا ہی ہو ا۔
{ 150} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ شیخ یعقوب علی صاحب نے اپنی کتاب حیاۃ النبی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ ملازمت سیالکوٹ کے متعلق مولوی سید میر حسن صاحب سیالکوٹی کی ایک تحریر نقل کی ہے جو میں مولوی صاحب موصوف سے براہ راست تحریری روایت لے کر درج ذیل کرتا ہوں ۔مولوی صاحب موصوف سید میر حامد شاہ صاحب مرحوم سیالکوٹی کے چچا ہیں اور سیالکوٹ کے ایک بڑے مشہور مولوی ہیں ۔ مولوی صاحب مذہباً احمدی یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متبع نہیںبلکہ وہ سر سید مرحوم کے خیالات کے دلدادہ ہیں ۔وہ لکھتے ہیں: ۔
’’ حضرت مرزا صاحب۱۸۶۴ء میں بتقریب ملازمت شہر سیالکوٹ میں تشریف لائے اور قیام فرمایا۔چونکہ آپ عزلت پسند اور پارسا اور فضول ولغو سے مجتنب اور محترز تھے ۔اس واسطے عام لوگوں کی ملاقات جو اکثر تضیع اوقات کا باعث ہوتی ہے ۔آپ پسند نہیں فرماتے تھے ۔لالہ بھیم سین صاحب وکیل جن کے نانا ڈپٹی مٹھن لال صاحب بٹالہ میں اکسٹرا اسسٹنٹ تھے ان کے بڑے رفیق تھے ۔اور چونکہ بٹالہ میں مرزا صاحب اور لالہ صاحب آپس میں تعارف رکھتے تھے اس لئے سیالکوٹ میں بھی ان سے اتحاد کامل رہا۔پس سب سے کامل دوست مرزا صاحب کے اگر اس شہر میں تھے تو لالہ صاحب ہی تھے ۔اور چونکہ لالہ صاحب طبع سلیم اور لیاقت زبان فارسی اور ذہن رسا رکھتے تھے اس سبب سے بھی مرزا صاحب کو علم دوست ہونے کے باعث ان سے بہت محبت تھی ۔مرزا صاحب کی علمی لیاقت سے کچہری والے آگاہ تھے مگر چونکہ اسی سال کے اوائل گرما میں ایک عرب نوجوان محمد صالح نام شہر میں وارد ہوئے اور ان پر جاسوسی کا شبہ ہواتو ڈپٹی کمشنر صاحب نے (جن کا نام پرکسن تھا ۔اور پھر وہ آخر میں کمشنر راولپنڈی کی کمشنری کے ہوگئے تھے ) محمدصالح کو اپنے محکمہ میں بغرض تفتیش حالات طلب کیا۔ترجمان کی ضرورت تھی ۔مرزا صاحب چونکہ عربی میں کامل استعداد رکھتے تھے اور عربی زبان میں تحریر و تقریر بخوبی کر سکتے تھے ۔ اس واسطے مرزا صاحب کو بلا کر حکم دیا کہ جو جو بات ہم کہیں عرب صاحب سے پوچھو۔اور جو جواب وہ دیں اردو میں ہمیں لکھو اتے جائو۔مرزا صاحب نے اس کام کو کماحقہ ادا کیا ۔اور آپ کی لیاقت لوگوں پر منکشف ہو ئی ۔
اس زمانہ میں مولوی الہٰی بخش صاحب کی سعی سے جو چیف محرر مدارس تھے ۔(اب اس عہدہ کا نام ڈسٹرکٹ انسپکٹر مدارس ہے ) کچہری کے ملازم منشیوں کے لئے ایک مدرسہ قائم ہوا کہ رات کو کچہری کے ملازم منشی انگریزی پڑھا کریں ۔ڈاکٹر امیر شاہ صاحب جو اس وقت اسسٹنٹ سرجن پنشنر ہیںاستاد مقرر ہوئے ۔مرزا صاحب نے بھی انگریزی شروع کی اور ایک دو کتابیں انگریزی کی پڑھیں ۔
مرزا صاحب کو اس زمانہ میں بھی مذہبی مباحثہ کا بہت شوق تھا ۔چنانچہ پادری صاحبوں سے اکثر مباحثہ رہتا تھا ۔ ایک دفعہ پادری الایشہ صاحب جو دیسی عیسائی پادری تھے اور حاجی پورہ سے جانب جنوب کی کوٹھیوں میں سے ایک کوٹھی میںرہا کرتے تھے مباحثہ ہوا۔ پادری صاحب نے کہا کہ عیسوی مذہب قبول کرنے کے بغیر نجات نہیں ہو سکتی ۔مرزا صاحب نے فرمایا نجات کی تعریف کیا ہے ؟ اور نجات سے آپ کیا مراد رکھتے ہیں ؟ مفصل بیان کیجئے ۔ پادری صاحب نے کچھ مفصل تقریر نہ کی اور مباحثہ ختم کر بیٹھے اور کہا ’’میں اس قسم کی منطق نہیں پڑھا ۔‘‘
پادری بٹلر صاحب ایم ۔اے سے جو بڑے فاضل اور محقق تھے ۔مرزا صاحب کا مباحثہ بہت دفعہ ہو ا۔یہ صاحب موضع گوہد پور کے قریب رہتے تھے ۔ایک دفعہ پادری صاحب فرماتے تھے کہ مسیح کو بے باپ پیدا کرنے میںیہ سرّ تھا کہ وہ کنواری مریم کے بطن سے پیدا ہوئے ۔ اور آدم کی شرکت سے جوگنہگار تھا بری رہے ۔مرزا صاحب نے فرمایا کہ مریم بھی تو آدم کی نسل سے ہے پھر آدم کی شرکت سے بریت کیسے ۔اور علاوہ ازیں عورت ہی نے تو آدم کو ترغیب دی ۔جس سے آدم نے درخت ممنوع کا پھل کھایا اور گنہگار ہوا ۔ پس چاہیے تھا کہ مسیح عورت کی شرکت سے بھی بری رہتے ۔اس پر پادری صاحب خاموش ہو گئے ۔
پادری بٹلر صاحب مرزا صاحب کی بہت عزت کرتے تھے۔اور بڑے ادب سے ان سے گفتگو کیا کرتے تھے ۔ پادری صاحب کو مرزا صاحب سے بہت محبت تھی ۔چنانچہ جب پادری صاحب ولایت جانے لگے تو مرزا صاحب کی ملاقات کے لئے کچہری تشریف لائے ۔ ڈپٹی کمشنر صاحب نے پادری صاحب سے تشریف آوری کا سبب پوچھا ۔تو پادری صاحب نے جواب دیا کہ میں مرزا صاحب سے ملاقات کرنے کو آیا تھا ۔چونکہ میں وطن جانے والا ہوں اس واسطے ان سے آخری ملاقات کر وں گا ۔چنانچہ جہاں مرزا صاحب بیٹھے تھے وہیں چلے گئے اور فرش پر بیٹھے رہے ۔اور ملاقات کر کے چلے گئے ۔
چونکہ مرزا صاحب پادریوں کے ساتھ مباحثہ کو بہت پسند کر تے تھے ۔اس واسطے مرزا شکستہ تخلص نے جو بعد ازاں موحد تخلص کیا کرتے تھے اور مراد بیگ نام جالندھر کے رہنے والے تھے ۔مرزا صاحب کو کہا کہ سید احمد خاں صاحب نے تورات و انجیل کی تفسیر لکھی ہے ۔آپ ان سے خط وکتابت کریں ۔اس معاملہ میں آپ کو بہت مدد ملے گی ۔چنانچہ مرزا صاحب نے سر سید کو عربی میں خط لکھا ۔
کچہری کے منشیوں سے شیخ الہ داد صاحب مرحوم سابق محافظ دفتر سے بہت اُنس تھا ۔اور نہایت پکی اور سچی محبت تھی ۔شہر کے بزرگوں سے ایک مولوی صاحب محبوب عالم نام سے جو عزلت گزیں اور بڑے عابد اور پارسا اور نقشبندی طریق کے صوفی تھے ۔مرزاصاحب کو دلی محبت تھی۔
چونکہ جس بیٹھک میں مرزا صاحب مع حکیم منصب علی کے جو اس زمانہ میں وثیقہ نویس تھے رہتے تھے اور وہ سربازار تھی اور اس دکان کے بہت قریب تھی جس میں حکیم حسام الدین صاحب مرحوم سامان دوا سازی اور دوا فروشی اور مطب رکھتے تھے اس سبب سے حکیم صاحب اور مرزا صاحب میں تعارف ہو گیا۔ چنانچہ حکیم صاحب نے مرزا صاحب سے قانونچہ اور موجز کا بھی کچھ حصہ پڑھا ۔
چونکہ مرزا صاحب ملازمت کو پسند نہیں فرماتے تھے ۔اس واسطے آپ نے مختاری کے امتحان کی تیاری شروع کر دی ۔ اور قانونی کتابوں کا مطالعہ شروع کیا ۔پر امتحان میں کامیاب نہ ہو ئے اور کیوں کر ہو تے وہ دنیوی اشغال کے لئے بنائے نہیں گئے تھے ۔سچ ہے ع
ہر کسے را بہر کارے ساختند
ان دنوں میں پنجاب یونیورسٹی نئی نئی قائم ہو ئی تھی ۔اس میں عربی استاد کی ضرورت تھی ۔جس کی تنخواہ ایک سو روپیہ ماہوار تھی میں نے ان کی خدمت میں عرض کی کہ آپ درخواست بھیج دیں چونکہ آپ کی لیاقت عربی زباندانی کی نہایت کامل ہے ۔آپ ضرور اس عہدہ پر مقرر ہو جائیں گے ۔فرمایا:۔
ـ’’ میں مدرسی کو پسند نہیں کر تا ۔کیونکہ اکثر لوگ پڑھ کر بعد ازاں بہت شرارت کے کام کرتے ہیں ۔اور علم کو ذریعہ اور آلہ ناجائز کاموں کا بناتے ہیں ۔میں اس آیت کے وعید سے بہت ڈرتا ہوں ۔ اُحْشُرُ وا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا وَاَزْوَاجَھُمْ ـ (الصافات :۲۳)اس جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیسے نیک باطن تھے ۔
ایک مرتبہ کسی نے پوچھا کہ انبیاء کو احتلام کیوں نہیں ہوتا ؟ آپ نے فرمایا کہ چونکہ انبیاء سوتے جاگتے پاکیزہ خیالوں کے سوا کچھ نہیں رکھتے ۔اور ناپاک خیالوں کو دل میں آنے نہیں دیتے ۔اس واسطے ان کو خواب میں بھی احتلام نہیں ہوتا ۔
ایک مرتبہ لباس کے بارہ میں ذکر ہورہا تھا ،ایک کہتا کہ بہت کھلی اور وسیع موہری کا پاجامہ اچھاہوتا ہے ۔جیسا ہندوستانی اکثر پہنتے ہیں ۔ دوسرے نے کہا کہ تنگ موہری کا پاجامہ بہت اچھا ہوتا ہے ۔مرزا صاحب نے فرمایا کہ :۔
’’بلحاظ ستر عورت تنگ موہری کاپاجامہ بہت اچھا اور افضل ہے ۔اور اس میں پردہ زیادہ ہے ۔کیونکہ اس کی تنگ موہری کے باعث زمین سے بھی ستر عورت ہو جاتا ہے ۔سب نے اس کو پسند کیا ۔
آخر مرزا صاحب نوکری سے دل برداشتہ ہو کر استعفیٰ دے کر۱۸۶۸ء میں یہاں سے تشریف لے گئے۔ ایک دفعہ ۱۸۷۷ء میں آپ تشریف لائے ۔اور لالہ بھیم سین صاحب کے مکان پر قیام کیا اور بتقریب دعوت حکیم میر حسام الدین صاحب کے مکان پر تشریف لائے ۔
اسی سال سرسید احمد خاں صاحب غفرلہ نے قرآن شریف کی تفسیر شروع کی تھی ۔تین رکوع کی تفسیر یہاں میرے پاس آچکی تھی ۔ جب میں اور شیخ الہ داد صاحب مرزا صاحب کی ملاقات کیلئے لالہ بھیم سین صاحب کے مکان پر گئے تو اثناء گفتگو میں سرسید صاحب کا ذکر شروع ہوا۔اتنے میں تفسیر کا ذکر بھی آگیا ۔راقم نے کہا کہ تین رکوعوں کی تفسیر آگئی جس میں دعا اور نزول وحی کی بحث آگئی ہے ۔فرمایا :۔
’’ کل جب آپ آویں تو تفسیر لیتے آویں ‘‘
جب دوسرے دن وہاں گئے تو تفسیر کے دونوں مقام آپ نے سنے اور سُن کر خوش نہ ہوئے اور تفسیر کو پسند نہ کیا ۔
اس زمانہ میں مرزا صاحب کی عمرراقم کے قیاس میں تخمینًا ۲۴سے کم اور۲۸سے زیادہ نہ تھی ۔ غرضیکہ ۱۸۶۴ء میں آپ کی عمر ۲۸سے متجاوز نہ تھی ۔راقم میر حسن ‘‘
خاکسارعرض کرتا ہے کہ اوّل مولوی میر حسن صاحب موصوف نے جو یہ لکھا ہے کہ حضرت صاحب نے سیالکوٹ میں ایک دو کتابیں انگریزی کی پڑھی تھیں اس سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ آپ انگریزی خواں تھے۔ ایک یادو کتابیں پڑھنے کا صرف یہ مطلب ہو سکتا ہے کہ آپ کو حروف شناسی ہو گئی تھی کیونکہ پہلے ز مانہ میں جو انگریزی کی پہلی کتاب ہو تی تھی ۔ اس میں صرف انگریزی کے حروف تہجی کی شناخت کروا ئی جاتی تھی ۔اور دوسری کتاب میں حروف جوڑ کر بعض چھوٹے چھوٹے آسان الفاظ کی شناخت کروائی جاتی تھی۔اور آج کل بھی انگریزی کی ابتدائی ایک دو کتابوں میں قریباً اسی قدر استعداد مدنظر رکھی جاتی ہے۔خاکسار کو یاد ہے کہ جب میں غالباً ساتویں جماعت میں تھا تو ایک دفعہ میں گھر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس کھڑا تھا اور میرے پاس ایک انگریزی طرز کا قلمدان تھا جس میں تین قسم کی سیاہی رکھی جاسکتی ہے ۔اس میں Red.Copying.Blue کے الفاظ لکھے ہو تے ہیں ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے میرے ہاتھ میں یہ قلم دان دیکھا تو اسے اپنے ہاتھ میں لے کر یہ الفاظ پڑھنے چاہے۔مگر مجھے یاد ہے کہ پہلا اور تیسرا تو آپ نے غور کے بعد پڑھ لیا مگر درمیان کے لفظ کے متعلق پڑھنے کی کوشش کی مگر نہیں پڑھ سکے ۔چنانچہ پھر آپ نے مجھ سے وہ لفظ پوچھا اور اس کے معنے بھی دریافت فرمائے۔ غرض معلوم ہو تا ہے کہ چھوٹے مفرد اور آسان الفاظ آپ غور کرنے سے پڑھ سکتے تھے جس کے یہ معنی ہیں کہ آپ کو انگریزی حروف شنا سی ہوگئی بس اس سے زیادہ نہیں۔
دوسرے :۔ مولوی میر حسن صاحب نے لکھا ہے کہ زمانہ قیام سیالکوٹ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو عربی میں کامل استعداد تھی اور آپ عربی میں تحریر و تقریر کر سکتے تھے۔ یہ ریمارک جس رنگ میں مولوی صاحب نے کیا ہے درست ہے۔ مگر یہ ایک نسبتی ریمارک ہے۔ جس سے صرف یہ مراد ہے کہ اس وقت سیالکوٹ کے ایک خاص حلقہ میں حضرت صاحب کی عربی استعداد دوسروں کی نسبت اچھی تھی اور آپ ایک حد تک عربی میں اپنے ما فی الضمیر کو ادا کر سکتے تھے لیکن ویسے حقیقۃً دیکھا جائے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اکتسابی تعلیم عام مرو جہ حد سے ہرگز متجاوز نہیں تھی۔ اور وہ بھی اس حد تک محدود تھی جو اس وقت قادیان میں گھر پر استاد رکھنے سے میسر آسکتی تھی۔ کیونکہ آپ نے کسب علم کے لئے کبھی کسی بڑے مرکز یا شہر کا سفر اختیار نہیں کیا۔
تیسرے:۔ مولوی میر حسن صاحب نے لکھا ہے کہ حضرت صاحب نے سر سید کی تفسیر دیکھی مگر پسند نہیں فرمایا اس کی یہ وجہ ہے کہ گو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سرسید مرحوم کو ایک لحاظ سے قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور انہیں قوم کا ہمدرد اور بہی خواہ سمجھتے تھے لیکن سر سید کے مذہبی خیالات کے آپ سخت مخالف تھے ۔کیونکہ مذہبی معاملات میں سر سید کی یہ پالیسی تھی کہ نئے علوم اور نئی روشنی سے مرعوب ہو کر ان کے مناسب حال اسلامی مسائل کی تاویل کر دیتے تھے ۔چنانچہ یہ سلسلہ اتنا وسیع ہوا کہ کئی بنیادی اسلامی عقائد مثلاً دعا ،وحی والہام ، خوارق ومعجزات ،ملائک وغیرہ کے گویا ایک طرح منکر ہی ہو گئے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سر سید کی یہ حالت دیکھ کر انہیں اپنی کتاب آئینہ کمالات اسلام میں نہایت درد مندانہ طریق پر مخاطب کر کے ان کی اس سخت ضرر رساں پالیسی پر متنبہ فر ما یا ہے ۔
نیز خاکسار عرض کر تا کہ حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اول بھی اوائل میں سر سید کے خیالات اور طریق سے بہت متاثر تھے ۔مگر حضرت صاحب کی صحبت سے یہ اثر آہستہ آہستہ دُھلتا گیا ۔مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم مغفور بھی ابتدا میں سر سید کے بہت دلدادہ تھے چنانچہ حضرت صاحب نے بھی اپنے ایک شعر میں ان کے متعلق اس کا ذکرفر ما یا ہے ۔ فرماتے ہیں ؎
مدتے درآتش نیچر فرو افتادہ بود

ایں کرامت بیں کہ از آتش بروں آمد سلیم
(نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی میر حسن صاحب کی ایک دوسری روایت حضرت مسیح موعود کے زمانہ سیالکوٹ کے متعلق نمبر ۲۸۰ پر بھی درج ہے۔)
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{ 151} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے حافظ روشن علی صاحب نے کہ حضرت مولوی صاحب خلیفہ اول بیان فرماتے تھے کہ ایک دفعہ میں نے کسی شخص سے ایک زراعتی کنواں ساڑھے تین ہزار روپیہ میں رہن لیا مگر میں نے اس سے نہ کوئی رسید لی اور نہ کوئی تحریر کروائی اور کنواں بھی اسی کے قبضے میں رہنے دیا کچھ عرصہ کے بعد میں نے اس سے کنوئیں کی آمد کا مطالبہ کیا تو وہ صاف منکر ہوگیا اور رہن کا ہی انکار کر بیٹھا ۔ حافظ صاحب کہتے تھے کہ مولوی صاحب فرماتے تھے کہ کسی نے یہ خبر حضرت مسیح موعود علیہ السلام تک پہنچا دی اور مولوی صاحب کے نقصان پر افسوس کیا مگر حضرت صاحب نے فرمایا تمہیں ان کے نقصان کی فکر ہے مجھے ایمان کی فکر ہے مولوی صاحب نے کیوں دوسرے شخص کو ایسی حالت میںرکھا جس سے اس کو بد دیانتی کا موقعہ ملا اور کیوں اسلامی حکم کے مطابق اس سے کوئی تحریر نہ لی اورکیوںاس سے باقاعدہ قبضہ نہ حاصل کیا ؟
{ 152} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ گو قا دیان میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام ابتدا سے ہی گوشہ تنہائی کی زندگی بسر کرتے رہے لیکن پھر بھی قادیان کے بعض ہندوئوں کی آپ سے اچھی ملاقات تھی چنانچہ لالہ شرم پت اور لالہ ملاوامل سلسلہ بیعت سے بہت پہلے کے ملاقاتی تھے ان سے حضرت صاحب کی اکثر مذہبی گفتگو ہو تی رہتی تھی اور باوجود متعصب آریہ ہونے کے یہ دونوں آپ سے عقیدت بھی رکھتے تھے اور آپ کے تقدس اور ذاتی طہارت کے قائل تھے ۔ابتداء ً لالہ ملاوامل کے تعلقات بہت زیادہ تھے چنانچہ ہماری والدہ صاحبہ کی شادی کے موقعہ پر لالہ ملا وامل حضرت صاحب کے ساتھ دہلی گئے تھے مگر بعد میں اس کا آنا جا نا کم ہوگیا کیونکہ یہ سخت متعصب آریہ تھا اور آریوں کو حضرت صاحب کے ساتھ سخت عداوت ہو گئی تھی چنانچہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ حضرت صاحب کا الہام ’’ یہودا اسکر یوطی ‘‘ ملاوامل ہی کے متعلق ہے ۔مگر لالہ شرم پت کے تعلقات حضرت اقدس کے ساتھ آخر تک قریباً ویسے ہی رہے ۔ لالہ ملا وامل اب تک بقید حیات ہے مگر لالہ شرم پت کئی سال ہو ئے فوت ہو چکے ہیں ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کئی تحریرات میں ان ہر دو کو اپنی بعض پیشگوئیوں کی تصدیق میں شہادت کے لئے مخاطب کیا ہے اور ان کو بار بار پوچھا ہے کہ اگر تم نے میری فلاں فلاں پیشگوئیاں پوری ہوتی مشاہد ہ نہیں کیں تو حلف اٹھا کر ایک اشتہار شائع کرو اور دوسرے آریوں کو بھی ابھارا ہے کہ ان سے حلفیہ بیان شائع کروائو مگر یہ دونوں خاموش رہے۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ والی انگوٹھی تیار کروانی چاہی تو اس کے لئے بھی آپ نے لالہ ملاوامل کو روپیہ دے کر امرتسر بھیجا تھا ۔چنانچہ لالہ ملاوامل امرتسر سے یہ انگوٹھی قریباً پانچ روپے میں تیار کروا کر لائے تھے ۔حضرت صاحب نے اپنی کتابو ں میں لکھا ہے کہ میں نے ایسا اس لئے کیا تھا تاکہ لالہ ملاوامل اس الہام کا پوری طرح شاہد ہو جاوے چنانچہ حضرت صاحب نے اپنی کتب میں اس پیشگوئی کی صداقت کے متعلق بھی لالہ ملا وامل کو شہادت کے لئے بلایا ہے۔
{ 153} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے چوہدری حاکم علی صاحب نے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں حضرت مولوی صاحب خلیفہ اول کے بعض شاگردوں کے متعلق بدکاری کا شبہ ہوا اور یہ خبر حضرت صاحب تک بھی جاپہنچی۔ حضور نے حکم دیا کہ وہ طالب علم فوراً قادیان سے چلے جاویں۔ مولوی صاحب نے حضرت صاحب کے سامنے بطور سفارش کہا کہ حضور صرف شبہ کیا گیا ہے کوئی بات ثابت تو نہیں ہوئی ۔حضرت صاحب نے فرمایا مولوی صاحب ہم بھی تو ان کو شرعی حد نہیں لگا رہے بلکہ جب ایسی افواہ ہے اور شبہ پیدا ہوا ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ احتیاطاً ان کو قادیان سے رخصت کردینا چاہئیے ۔مگر ہم ان پر کوئی شرعی الزام نہیں رکھتے ۔
{ 154} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے میاںعبدا للہ صاحب سنوری نے کہ اوائل میں مَیں سخت غیر مقلد تھااور رفع یدین اور آمین بالجہر کا بہت پابند تھا اور حضرت صاحب کی ملاقات کے بعد بھی میں نے یہ طریق مدت تک جاری رکھا ۔عرصہ کے بعد ایک دفعہ جب میں نے آپ کے پیچھے نماز پڑھی تو نماز کے بعد آپ نے مجھ سے مسکرا کر فرمایا میاں عبداللہ اب تو اس سنت پر بہت عمل ہو چکا ہے اور اشارہ رفع یدین کی طرف تھا۔میاں عبداللہ صاحب کہتے ہیں کہ اس دن سے میں نے رفع یدین کرنا ترک کر دیا بلکہ آمین بالجہر کہنا بھی چھوڑ دیا اور میاں عبدا للہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت صاحب کو کبھی رفع یدین کر تے یا آمین بالجہر کہتے نہیں سنا اور نہ کبھی بسم اللہ بالجہر پڑھتے سنا ہے ۔خاکسارعرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا طریق عمل وہی تھا جو میاں عبداللہ صاحب نے بیان کیا لیکن ہم احمدیوںمیں حضرت صاحب کے زمانہ میں بھی اور آپ کے بعد بھی یہ طریق عمل رہا ہے کہ ان باتوں میں کوئی ایک دوسرے پر گرفت نہیں کرتا بعض آمینبالجہر کہتے ہیں بعض نہیں کہتے بعض رفع یدین کر تے ہیں اکثر نہیں کر تے بعض بسم اللہ بالجہرپڑھتے ہیں اکثر نہیں پڑھتے اور حضرت صاحب فرماتے تھے کہ دراصل یہ تمام طریق آنحضرت ﷺ سے ثابت ہیں مگر جس طریق پر آنحضرت ﷺ نے کثرت کے ساتھ عمل کیا وہ وہی طریق ہے جس پر خود حضرت صاحب کا عمل تھا ۔
{ 155} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے میاں عبدا للہ صاحب سنوری نے کہ اوائل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود ہی اذان کہا کرتے تھے اور خود ہی نماز میں امام ہو ا کرتے تھے۔خاکسارعرض کرتا ہے کہ بعد میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب امام نماز مقرر ہوئے اور سنا گیا ہے کہ حضرت صاحب نے دراصل حضرت مولوی نور الدین صاحب کو امام مقرر کیا تھا لیکن مولوی صاحب نے مولوی عبدالکریم صاحب کو کروا دیا ۔چنانچہ اپنی وفات تک جو ۱۹۰۵ء میں ہوئی مولوی عبدالکریم صاحب ہی امام رہے ۔ حضرت صاحب مولوی عبدالکریم صاحب کے ساتھ دائیں طرف کھڑے ہوا کرتے تھے اور باقی مقتدی پیچھے ہو تے تھے ۔ مولوی عبدالکریم صاحب کی غیر حاضری میں نیز ان کی وفات کے بعد مولوی نور الدین صاحب امام ہوتے تھے ۔جمعہ کے متعلق یہ طریق تھا کہ اوائل میں اور بعض اوقات آخری ایام میں بھی جب حضرت صاحب کی طبیعت اچھی ہوتی تھی جمعہ بڑی مسجد میں ہوتا تھا جس کوعموماً لوگ مسجد اقصیٰ کہتے ہیں اور مولوی عبدالکریم صاحب امام ہوتے تھے ۔بعد میں جب حضرت کی طبیعت عموماً نا ساز رہتی تھی مولوی عبدالکریم صاحب حضرت صاحب کے لئے مسجد مبارک میں جمعہ پڑھاتے تھے اور بڑی مسجد میں حضرت مولوی نورالدین صاحب جمعہ پڑھا تے تھے ۔مولوی عبدالکریم صاحب کی وفات کے بعد مسجد مبار ک میں مولوی محمد احسن صاحب اور ان کی غیر حا ضر ی میں مولو ی محمد سرور شاہ صاحب امام جمعہ ہوتے تھے اور بڑی مسجد میں حضرت مولوی نورالدین صاحب امام ہوتے تھے ۔حضرت صاحب کی وفات تک یہی طریق رہا ۔عید کی نماز میں عموماً مولوی عبدالکریم صاحب اور ان کے بعد حضرت مولوی نورالدین صاحب امام ہوتے تھے ۔ جنازہ کی نماز حضرت مسیح موعو د ؑ جب آپ شریک نماز ہوں خود پڑھایا کرتے تھے ۔
{ 156} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ جب حضرت مسیح موعود ؑ نے عید الاضحی کے موقعہ پر خطبہ الہامیہ پڑھا تو میں قادیان میں ہی تھا ۔حضرت صاحب مسجد مبارک کی پرانی سیڑھیوں کے راستہ سے نیچے اُترے آگے میں انتظا ر میں موجود تھا ۔ میں نے دیکھا کہ اس وقت آپ بہت بشاش تھے اور چہرہ مسرت سے دمک رہا تھا پھر آپ بڑی مسجد کی طرف تشریف لے گئے اور وہاں نماز کے بعد خطبہ شروع فرمایا ۔اور حضرت مولو ی نورالدین صاحب اور مولوی عبدالکریم صاحب کو خطبہ لکھنے پر مقرر کر دیا۔میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت صاحب اس خیال سے کہ لکھنے والے پیچھے نہ رہ جائیں بہت تیز تیز نہیں بولتے تھے بلکہ بعض اوقات لکھنے والوں کی سہولت کے لئے ذرا رُک جاتے تھے اور اپنا فقرہ دہرا دیتے تھے ۔اور میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ ایک وقت آپ نے لکھنے والوں سے یہ بھی فرمایا کہ جلدی لکھو ۔یہ وقت پھر نہیں رہے گا اور بعض اوقات آپ یہ بھی بتاتے تھے کہ مثلاً یہ لفظ ’’ص‘‘ سے لکھو یا ’’سین‘‘ سے لکھو ۔
اور بیان کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ خطبہ کے وقت حضرت صاحب کرسی کے اوپر بیٹھے تھے اور آپ کے بائیں طرف فرش پر حضرت مولوی صاحب خلیفہ اوّل و مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم تھے جن کو آپ نے خطبہ لکھنے کے لئے مقرر کیا تھا اور آپ کی آواز عام آواز سے ذرا متغیرتھی۔اور آواز کا آخری حصہ عجیب انداز سے باریک ہوجا تا تھا ۔اور دوران خطبہ میں آپ نے مولوی صاحبا ن سے یہ فرمایا تھا کہ جو لفظ لکھنے سے رہ جاوے وہ مجھ سے ابھی پوچھ لو کیوں کہ بعد میں ممکن ہے کہ وہ مجھے بھی معلوم رہے یا نہ رہے ۔ اور مولوی صاحب نے بیان کیا کہ بعد خطبہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ یہ خطبہ میری طر ف سے نہ تھا بلکہ میرے دل میں اللہ کی طرف سے الفاظ ڈالے جاتے تھے اور بعض اوقات کچھ لکھا ہوا میرے سامنے آجاتا تھا اور جب تک ایسا ہوتا رہا خطبہ جاری رہا ۔لیکن جب الفاظ آنے بند ہوگئے خطبہ بند ہو گیا ۔اور فرماتے تھے کہ یہ خطبہ بھی ہمارے دوستوں کو یاد کر لینا چاہئیے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ ہم اُس وقت بچے تھے ۔صرف سات آٹھ سال کی عمر تھی لیکن مجھے بھی وہ نظارہ یادہے ۔ حضرت صاحب بڑی مسجد کے پرانے حصہ کے درمیانی در کے پاس صحن کی طرف منہ کئے ہوئے تھے اور اس وقت آپ کے چہرہ پر ایک خاص رونق اور چمک تھی اور آپ کی آوازمیں ایک خاص درد اور رعب تھا اور آپ کی آنکھیں قریباً بند تھیں ۔یہ خطبہ ،خطبہ الہامیہ کے نام سے چھپ چکا ہے ۔لیکن اس خطبہ الہامیہ کے صرف پہلے اڑتیس صفحے جہاں باب اوّ ل ختم ہوتا ہے اصل خطبہ کے ہیں۔جو اس وقت حضرت نے فرمایا اور باقی حصہ بعد میں حضرت صاحب نے تحریراً زیادہ کیا تھا ۔نیز خاکسارعرض کرتا ہے کہ خطبہ الہامیہ اس عیدالاضحی میں دیا گیا تھا جو ۱۹۰۰ء میں آئی تھی مگر شائع بعد میں ۱۹۰۲ء میں ہوا۔
{ 157} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے اصحاب کے متعلق اپنے اشعار میں لکھا ہے ۔ ؎
مبار ک وہ جو اب ایمان لایا صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا
وہی مے ان کو ساقی نے پلا دی

فسبحان الذی اخزی الاعادی
یعنی مبارک ہے وہ شخص جو اب میری موجود گی میں ایمان لاتا ہے کیونکہ وہ میری صحبت میں آکر صحابہ کی جماعت میں داخل ہوجا تا ہے ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ جو عرفان اور تقویٰ کی مے صحابہ کرام کو ملی تھی وہی میرے صحابہ کو بھی دی گئی ہے ۔پھر ایک اور موقع پر جب عبدا لحکیم خان مرتد نے آپ کی جماعت پر کچھ اعتراضات کئے تو آپ نے اس کے جواب میں تحریر فرمایا کہ :۔’’ آپ کہتے ہیں کہ صرف ایک حکیم مولو ی نورالدین صاحب اس جماعت میں عملی رنگ اپنے اندر رکھتے ہیں دوسرے ایسے ہیں اور ایسے ہیں ۔میں نہیں جانتا کہ آپ اس افترا کا کیا خدا تعالیٰ کو جواب دیں گے ۔میں حلفًا کہہ سکتا ہوں کہ کم از کم ایک لاکھ آدمی میری جماعت میں ایسے ہیں کہ سچے دل سے میرے پر ایمان لائے ہیں ۔اور اعمال صالحہ بجا لاتے ہیں اور باتیں سننے کے وقت اس قدر روتے ہیں کہ ان کے گریبان تر ہو جاتے ہیں ۔میں اپنے ہزار ہا بیعت کنندوں میں اس قدر تبدیلی دیکھتا ہوں کہ موسیٰ نبی کے پیرو ان سے جو ان کی زندگی میں ان پر ایمان لائے تھے ہزارہا درجہ ان کو بہتر خیال کرتا ہوں اور ان کے چہرہ پر صحابہ کے اعتقاد اور صلاحیت کا نور پاتا ہوں ۔ ہاں شاذو نادر کے طور پر اگر کوئی اپنے فطرتی نقص کی وجہ سے صلاحیت میں کم رہا ہو تو وہ شاذ ونادرمیں داخل ہیں ۔ میں دیکھتا ہوں کہ میری جماعت نے جس قدر نیکی اور صلاحیت میں ترقی کی ہے یہ بھی ایک معجزہ ہے ۔ہزارہا آدمی دل سے فدا ہیں اگر آج ان کو کہا جائے کہ اپنے تمام اموال سے دست بردار ہو جائو تو وہ دست بردار ہو جانے کے لئے مستعد ہیں ۔پھر بھی میں ہمیشہ ان کو اور ترقیات کے لئے ترغیب دیتا ہوں اور ان کی نیکیاں ان کو نہیں سناتا ۔مگر دل میں خوش ہو ں ۔‘‘
اسی طرح بعض اور موقعوں پر بھی آپ نے اپنی جماعت کی بہت تعریف کی ہے لیکن بعض نادان اس میں شک کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ صحابہ کرام میں تو ہمیں سب کچھ نظر آتا ہے مگر یہاں بہت کم گویا مقابلۃً کچھ بھی نہیں ۔اس دھوکے کا ازالہ یہ ہے کہ بعض ایسی باتیں ہیں کہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قائم کردہ جماعت کی حقیقی قدر پہچاننے کے رستہ میں روک ہو رہی ہیں ۔مگر صحابہ کرام کے متعلق وہ روک نہیںہے مثلاً
اوّل ہم عصر یت ہے یعنی ایک ہی زمانہ میں ہونا ۔جس طرح ہم وطن ہونا ۔انسان کی حقیقی قدر کے پہچانے جانے کے رستہ میں روک ہوتا ہے جیسے کہ کہاگیا ہے کہ نبی ذلیل نہیں مگر اپنے وطن میں اسی طرح مثلاً پنجابی میں کہاوت ہے کہ ’’گھر کی مرغی دال برابر‘‘ ٹھیک اسی طرح ہم عصر ہونا بھی حقیقی قدر کے پہچانے جانے کے رستہ میں ایک بہت بڑی روک ہوتا ہے ۔اور عموماً انسان اپنے زمانہ کے کسی آدمی کی بڑائی کو سمجھنے اور تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا ۔اور یہ تعصب گویا طبعی طور پر انسان کے اندر کام کرتا ہے ۔پس چونکہ اس زمانہ کے لوگوں کے لئے صحابہ کی جماعت ایک دور دراز کی بات ہے لیکن مسیح موعود ؑ کی جماعت خود اپنے زمانہ کی ہے اور اپنی آنکھوں کے سامنے ہے اس لئے وہ بالعموم مسیح موعود کے صحابہ کی قدر پہچا ن نہیں سکتے ہاں جب یہ زمانہ گذر جائے گا اور حضرت مسیح موعود کی صحبت یافتہ جماعت ایک گزشتہ کی چیز ہو جائے گی توپھر دیکھنا کہ آئندہ نسلوں میں یہی جماعت کس نظر سے دیکھی جاتی ہے ۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ لوگ عموماً اسلامی تاریخ سے تفصیلی طور پر واقف نہیں مگر یہاں کی باتیں وہ خود اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔صحابہ کی جماعت کے متعلق لوگوں کا عمل عموماً واعظوں کے وعظوں سے ماخوذ ہے اور یہ ظاہر ہے کہ واعظ اپنی بات میں اثر پیدا کرنے کے لئے عموماً خاص خاص موقعوں کی خاص خاص باتوں کو سجا سجا کر بیان کرتا ہے مگر لوگ یہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ گویا اس جماعت کے سارے افراد سارے حالات میں اسی رنگ میں رنگین تھے اور اسی کے مطابق وہ اپنے ذہن میں نقشہ جما لیتے ہیں ۔اور پھر وہ حضرت مسیح موعود کی جماعت کو بھی اسی معیار سے ناپتے ہیں جس کا نتیجہ ظاہر ہے ۔اس میں شک نہیں کہ صحابہ کرام جیسا اعلیٰ نمونہ نہ پہلی کسی امت میں نظر آتا ہے نہ اب تک بعد میں کہیں ہوا ہے اور نہ آئندہ ہوگا۔یعنی بحیثیت مجموعی ۔مگر احادیث سے ثابت ہے کہ بعض صحابہ میں بھی کمزوریاں تھیں اور کمزوریاں بھی مختلف اقسام کی نظر آتی ہیں مگر اس سے صحابہ کے تقدس پر بحیثیت مجموعی کوئی حرف گیری نہیں ہوسکتی اور صحابہ کا بے نظیر ہونا بہر حال ثابت ہے (اے اللہ تو مجھے آنحضرت ﷺ اور مسیح موعود علیہ السلام کی مقدس جماعتوں پر حرف گیری کرنے سے بچا اور مجھے ان کے پاک نمونہ پر چلنے کی توفیق دے )۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے صحابہ کے حالات تو اجتماعی حیثیت میں منضبط اور مدون طور پر ہمارے سامنے موجود ہیں لیکن باوجود ہمعصر ہونے کے حضرت مسیح موعود ؑ کے صحابہ کے حالات ابھی تک ہمارے سامنے اس طرح موجود نہیں ورنہ میں سچ سچ کہتا ہوںکہ حضرت مسیح موعودؑ کے صحابہ میں بھی بے شمار ایسے اعلیٰ نمونے موجود ہیں کہ جن کے مشاہدہ سے ایمان ترو تازہ ہوجاتا ہے ۔ جب اسلامی تاریخ کی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے صحابہ کے حالات جمع ہو کر منضبط اور مدون ہوں گے اس و قت انشاء اللہ حقیقت حال منکشف ہوگی ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جو تفصیلی حالات آنحضرت ﷺ کے صحابہ کرام کے بحیثیت مجموعی ہم کو معلوم ہیں یا ہوسکتے ہیں وہ خود صحابہ کو بھی معلوم نہیں تھے ۔
چوتھی وجہ یہ ہے کہ ہر ایک زمانہ کی مختلف خصوصیات اور مختلف حالات ہوتے ہیں۔صحابہ کو مشیّت ایزدی سے ایسے جسمانی مواقع پیش آئے جن سے راسخ الایمان لوگوں کاایمان چمکا اور دنیا میں ظاہر ہوا ۔مگر حضرت مسیح موعود ؑ کی جماعت کے لئے اس قسم کے ابتلا مقدر نہیں تھے ورنہ ہم اللہ سے امید رکھتے ہیں کہ ان کا ایمان بھی علیٰ قدر مراتب اسی طرح چمکتا اور ظاہر ہوتا۔ حضرت مسیح موعود ؑ کے صحابہ میں سے صر ف دو آدمیوں زپر وہ وقت آیا کہ خدا کی راہ میں ان سے ان کی جان کی قر بانی مانگی گئی ۔اور دنیا دیکھ چکی ہے کہ انہوں نے کیا نمونہ دکھا یا ۔ (اس جگہ میری مراد کابل کے شہداء سے ہے)
پانچویں وجہ یہ ہے جس کو لوگ عمومًا نظر انداز کردیتے ہیں کہ کسی قوم کے درجہ اصلاح کا اندازہ کرنے کے لئے ان مخالف طاقتوں کا اندازہ کرنا بھی ضروری ہوتا ہے جو اس قوم کو ایمان کے راستہ میں پیش آتی ہیں ۔ اگر ایک قوم کے مقابل میں مخالف طاقتیں نہایت زبر دست اور خطرناک ہیں تو اس کا ایمان کے راستہ میں نسبتًا تھوڑی مسافت طے کر نا بھی بڑی قدرو منزلت رکھتا ہے ۔پس صرف یہ دیکھنا کافی نہیں کہ فلاں قوم ایمان کے راستہ پر کس قدر ترقی یافتہ ہے بلکہ یہ بھی دیکھنا ضروری ہوتا ہے کہ اس نے یہ ترقی کن مخالف طاقتوں کے مقابل پر کی ہے ۔پس اس لحاظ سے دیکھیں تو یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ کی جماعت کی اصلاح واقعی معجزنما ہے ۔کیونکہ یہ مسلمات میں سے ہے کہ اس زمانہ میں جو مخالف طاقتیں ایمان کے مقابلہ میں کام کر رہی ہیں اس کی نظیر گزشتہ زمانوں میں نہیں پائی جاتی ۔حتیّٰ کہ خود سرور کائنات کے زمانہ سے بھی اس زمانے کے فتن بڑھ کر ہیں کیونکہ یہ دجال کا زمانہ ہے جس کے متعلق حدیث میں آتا ہے کہ سب نبی اس سے ڈراتے آئے ہیں ۔اور خود آنحضرت ﷺ نے بھی اس سے اپنی امت کو بہت ڈرایا ہے اور اس بات پر اجما ع ہوا ہے کہ دجّالی فتنہ سب فتنوں سے بڑھ کر ہے اور واقعی جو مادیت اور دہریت اور دنیاپرستی کی زہریلی ہوائیں اس زمانہ میں چلی ہیں ایسی پہلے کبھی نہیں چلیں اور مذاہب باطلہ و علوم مادی کا جو زور اس زمانہ میں ہوا ہے ایسا کبھی نہیں ہوا ۔پس ایسے خطرناک زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک ایسی جماعت تیار کرلینا جو واقعی زندہ اور حقیقی ایمان پر قائم ہے اور اعمال صالحہ بجا لاتی ہے اور تمام مخالف طاقتوں کے مقابلہ میں سینہ سپر ہے ایک بے نظیرکامیابی ہے۔ بے شک آنحضرت ﷺکے زمانہ میں ایمان کے راستہ پر شیطان کے شمشیر بردار سپاہی موجود تھے اور یہ ایک بہت بڑی روک تھی کیونکہ ایک مومن کو خون کی نہر میں سے گزر کرایمان کی نعمت حاصل کرنی پڑتی تھی مگر جہاں ایمان کے راستہ پر شیطان نے نہ صرف یہ کہ اپنی ساری فوجیں جمع کررکھی ہیں بلکہ اس نے ایسے سپاہی مہیا کئے ہیں جو نظر نہیں آتے مگر راہ گیروں سے ایمان کی پونجی لوٹتے چلے جارہے ہیں ۔اور سوائے روحانی طاقتوں کے کوئی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا ۔ پس حضرت مسیح موعو د ؑ کی کامیابی ایک واقعی بے نظیر کامیابی ہے مگر یہ کامیابی بھی دراصل آنحضرت ﷺ ہی کی کامیابی ہے ۔کیونکہ شاگرد کی فتح استاد کی فتح ہے اور خادم کی فتح آقا کی فتح ۔لہٰذا ان حالات میں اگر حضرت مسیح موعود ؑ کی جماعت میں کوئی کمی بھی ہے تو وہ بحیثیت مجموعی جماعت کی شان کو کم نہیں کرسکتی ۔
چھٹی وجہ یہ ہے کہ انسانی دماغ کا یہ بھی خاصہ ہے کہ جب تک کو ئی شخص زندہ ہے اس کا حسن مخفی رہتا ہے اور کمزوریاں زیادہ سامنے آتی ہیں ۔یعنی عموماً تصویر کا کمزور پہلو ہی زیادہ مستحضر رہتا ہے لیکن اس کے مرنے کے بعد معاملہ بر عکس ہوجاتا ہے۔یعنی مرنے کے بعد مرنے والے کی خوبیاں زیادہ چمک اٹھتی ہیں اور زیادہ یاد رہتی ہیں اور کمزوریاں مدھم پڑ جاتی ہیں او ر یاد سے محو ہوجاتی ہیں ۔پس حضرت مسیح موعود ؑ کی جماعت کا بھی یہی حال ہے جب وہ وقت آئے گا کہ حضرت مسیح موعود ؑ کے صحابہ گزر جائیں گے تو پھر ان کا اخلاص اور ان کی قربانیاں چمکیں گی اور وہی یاد رہ جائیں گی اور کمزوریاں مٹ جائیں گی اور ہم خود اس بات کو عملاً محسو س کر رہے ہیں کیونکہ جو احباب ہمارے فوت ہو چکے ہیں ان کی خوبیاں ہمارے اندر زیادہ گہرا نقش پیدا کر رہی ہیں ۔بمقابلہ ان کے جو بقید حیات ہیں اسی طرح گزرے ہو ئے دوستوں کی کمزوریاں ہمارے ذہنوں میں کم نقش پیدا کرتی ہیں بمقابلہ ان کے جو ہم میں زندہ موجود ہیں ۔اور تاریخ کے مطالعہ سے پتہ لگتا ہے کہ صحابہ میں بھی یہی احساس تھا۔
ساتویں وجہ یہ ہے کہ لوگ عموماً اس بات کو نہیں سمجھتے کہ انفرادی اصلاح اور جماعت کی اجتماعی اصلاح میں فرق ہے اور دونوں کا معیار جدا ہے ۔کسی جماعت کو اصلاح یافتہ قرار دینے کے لئے یہ ضروری نہیں ہوتا کہ اس کے سارے افراد اصلاح یافتہ ہوں بلکہ جس قوم کے اکثر افراد نے اپنے اندرتبدیلی کی ہے اور اپنے اندر ایمان اور صلاحیت کا نور پیدا کیا ہے وہ اصلاح یافتہ کہلائے گی خواہ اس کے بعض افراد میں اصلاح نظر نہ آئے ۔اسی طرح یہ بھی ضروری نہیں ہوتا کہ کسی جماعت کے اصلاح یافتہ افرادسب کے سب ایک درجہ صلاحیت پر قائم ہوں بلکہ مدارج کا ہونا بھی متحقق ہے ۔لہٰذا بحیثیت مجموعی جماعت کی حالت کو دیکھنا چاہئیے اور پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہئیے کہ مختلف افراد کے فطری قویٰ اور فطری استعدادیں الگ الگ ہوتی ہیں پس سب سے ایک جیسی اصلاح متوقع نہیں ہو سکتی اور نہ کسی جماعت میںہم کو اس کے سب افراد ایک جیسے نظر آتے ہیں ۔لہٰذا ہمارا معیار یہ ہونا چاہئیے ۔کہ ایک انسانی جماعت سے جس میںہر قسم کے لوگ شامل ہیں بحیثیت مجموعی کس درجہ کی اصلاح کی توقع رکھی جا سکتی ہے اور اس لحاظ سے حضرت مسیح موعود ؑ کی جماعت کا قدم بہت بلند نظر آتا ہے۔
آٹھویںوجہ یہ ہے کہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کمزور لوگ خواہ جماعت میں بہت ہی تھوڑے ہوں مگر زیادہ نظر آتے ہیں کیونکہ بدی آنکھ میں کھٹکتی ہے اور نیکی بوجہ لطافت کے سوائے لطیف حس کے عموماً محسوس نہیں ہوتی۔ میں نے دیکھا ہے کہ ہزاروں میں اگر پانچ دس بھی شریر ہوں تو عموما ً لوگوں کو ایسا نظر آتا ہے کہ گویا اکثر شریر ہی ہیں اور بھلے مانس کم ہیں کیونکہ شریر اپنی شرارت کی وجہ سے نمایاں ہو جاتا ہے اور اس کی طرف لوگوں کی نظر فوراً اُٹھتی ہے۔ دیکھ لو آنکھ میں ہوا ہر وقت بھری رہتی ہے مگر آنکھ اسے محسوس نہیں کرتی لیکن اگر اس میں ایک چھوٹا سا تنکا بھی پڑ جاوے تو قیامت برپا کر دیتا ہے لیکن جب وہ وقت گذر جاتا ہے یعنی وہ جماعت فوت ہوجاتی ہے تو پھر ایسا ہوتا ہے کہ گویا آنکھ کا تنکا نکل گیا اور صرف لطیف اور خنک ہوا آنکھ کو ٹھنڈاکرنے کے لئے باقی رہ گئی ۔مجھے یاد ہے کہ میرے سامنے ایک دفعہ ایک شخص نے اعتراض کیا کہ قادیان کے احمدیوں میں سے اکثر لوگ بُرے ہیں میں نے کہا کہ تم غلط کہتے ہو۔ اس نے کہا کہ نہیں میں خوب جانتا ہوں ۔میں نے اس سے کہا کہ اکثر کا بُرا ہونا یہ ظاہر کرتا ہے کہ کم از کم ساٹھ ستر فی صدی تو برے ہوں گے۔ اس نے کہا کہ اس سے بھی زیادہ ہیں میں نے اس سے کہا کہ منہ سے کہہ دینا آسان ہے مگر ثابت کرنا مشکل ، تم مجھے صرف دس فی صدی بتا دو چلو پانچ فی صدی بتا دو اور میں تمہیں یہ یہ انعام دوں گا مگر وہ ایک شرمندہ انسان کی طرح ہنس کر خاموش ہو گیا ۔اگر اس طرح منہ سے کہہ دینا ہی کافی ہو تو مشرکین اور یہود بھی صحابہ کرام کے متعلق کیا کچھ نہ کہتے ہوں گے ۔
نویںوجہ یہ ہے کہ بعض لوگوں نے یہ سمجھ رکھاہے کہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں تو منافق ہوتے تھے لیکن احمدیوں میں منافق کوئی نہیں بلکہ جو بھی احمدی کہلاتا ہے وہ سچا مومن ہے ۔حالانکہ یہ بالکل غلط ہے ۔بلکہ جس طرح صحابہ کے زمانہ میں منافق ہوتے تھے اسی طرح اب بھی ہیں اور یہ خیال کہ وہ تلوار کا زمانہ تھا اس لئے اس میں نفاق ممکن تھا لیکن اس آزادی کے زمانہ میں نفاق نہیں ہوسکتا ۔ ایک نادانی کا خیال ہے ۔کیونکہ اول توا س سے نعوذ با للہ یہ لازم آتا ہے کہ اس وقت گویا اسلام کے لئے اکراہ ہوتا تھا جو ایک با لکل غلط اور بے بنیاد بات ہے ۔دوسرے اگر بفرض محال تلوار کا ڈر ہو بھی تو پھر کیا دنیا میں بس صرف تلوار ہی ایسی چیز رہ گئی ہے جو طبائع پر دبائو ڈال سکے ۔کیا کوئی اور ایسی چیز نہیں جو کمزور انسان کو خلاف ضمیر کرنے پر آمادہ کردے ۔ہم تو دیکھتے ہیںکہ جتنا نفاق آج کل روز مرہ کی زندگی میں دیکھا جاتا ہے ایسا شاید ہی کسی گذشتہ زمانہ میں ہوا ہو ۔غرض یہ غلط ہے کہ آج کل منافق نہیں ہوتے اور ہم عملاً دیکھ رہے ہیں کہ احمدی کہلانے والوں میں بھی منافق پائے جاتے ہیں جن میں سے کسی نے کسی وجہ سے نفا ق اختیارکیا ہے تو کسی نے کسی وجہ سے ۔ تو اب جب کہ احمدیوں میں بھی منافق موجود ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں مسلما ن کہلانے والوں میں اگر ہم کو کو ئی برے نمونے نظر آویں تو ہم ان کومنافق کہہ کر صحابہ کو ان سے الگ کر لیں لیکن احمدی کہلانے والوں میں سے جو لوگ احمدیت کی تعلیم کے خلاف نمونہ رکھتے ہیں اور اپنی روش پرعملاً مصر ہیں ۔ان کو ہم منافق نہ سمجھیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ میں شمار کریں ۔اور اس طرح ظلم کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کو بدنام کریں ۔میرا یہ مطلب نہیں کہ جس شخص سے بھی کمزوری سر زد ہوتی ہے وہ منافق ہے ۔ حاشا وکلا بلکہ مطلب یہ ہے کہ جب جماعت میں منافق بھی موجو د ہیں تو ہر اس شخص کو جس کا طریق احمدیت کی تعلیم کے خلاف ہے صرف اس وجہ سے کہ وہ اپنے آپ کو احمدی کہتا ہے خواہ نخواہ مومنین کی جماعت میں نہ سمجھنا چاہئیے لیکن اس سے یہ مراد نہیں کہ ہم اس اصول کے ماتحت افراد کے متعلق کوئی حکم لگائیں کیونکہ یہ طریق فتنہ کا موجب ہے ۔مگر ہاں بحیثیت مجموعی جماعت کے متعلق رائے لگاتے ہو ئے اس اصول کو ضرور مدنظر رکھنا چاہیے ۔
دسویں وجہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے صحابہ تو دوسرے مسلمانوں سے صاف ممتاز نظر آرہے ہیں کیونکہ تدوین تاریخ سے ہم کو ابتدائی مسلمانوں کے متعلق یہ علم حاصل ہوچکا ہے کہ یہ صحابی ہے یا نہیں لیکن یہاں حضرت مسیح موعود ؑ کے صحابی اور غیر صحابی سب ملے جلے ہیں اور سوائے خاص خاص لوگوں کے عام طور پر یہ پتہ نہیں ہوتا کہ فلاں احمدی حضرت مسیح موعود ؑ کا صحبت یافتہ ہے یا نہیں اور اس میں دو طرح کا اشکال ہے یعنی اول تو عموماً لوگوں کو یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ فلاں احمدی حضرت مسیح موعود ؑ کے زمانہ کا احمدی ہے یا بعد کا پھر اگر یہ پتہ بھی ہو کہ وہ آپ کے زمانہ کا احمدی ہے تو یہ پتہ نہیں ہوتا کہ وہ آپ کا صحبت یافتہ ہے یا نہیں اور ظاہر ہے کہ صحابی وہی کہلا سکتا ہے جو صحبت یافتہ ہو ۔ہر شخص جو نبی کے زما نہ میں ایمان لاتا ہے صحابی نہیں ہوتا چنانچہ دیکھ لو آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں قریباً سارا عرب مسلمان ہو گیا تھا تو کیا سارے عرب صحابی بن گئے تھے ؟ ہرگز نہیں بلکہ صحابی صرف وہی لوگ سمجھے جاتے تھے جنھوں نے آنحضرت ﷺ کی صحبت اٹھا ئی تھی اور اگر سب کو صحابی سمجھا جاوے تووہ رائے جو اَب ہم صحابہ کے متعلق رکھتے ہیں یقینا اس مقام پر نہیں رہ سکتی جس پر کہ وہ اب ہے ۔پس صحابی صرف وہی ہے جس نے صحبت اٹھائی ہو مگر یہاں نہ صرف یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کے سب احمدی ملے جلے ہیں اور لوگوں کو ان کے درمیان کسی امتیاز کا علم نہیں بلکہ آپ کی وفات کے بعد احمدی ہونے والے بھی ان کے ساتھ مخلوط ہیں ۔اندریں حالات حضرت مسیح موعود ؑ کے صحابہ کے متعلق جب تک ان کا الگ علم نہ ہو کس طرح کو ئی رائے لگا ئی جاسکتی ہے یا موجودہ جماعت کی عام حالات سے صحابہ مسیح موعود ؑ کے متعلق کس طرح استدلا ل ہو سکتا ہے ۔ہاں جب تاریخی رنگ میں حالات جمع ہوں گے اور صحابہ مسیح موعود ؑ کی جماعت ممتاز نظر آئے گی تو پھر حالت کا اندازہ ہو سکے گا۔
گیارہویں وجہ یہ ہے کہ بعض لوگ اس واسطے جماعت احمدیہ کے متعلق بد ظنی کے مرتکب ہو جاتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء نے بعض اوقات جماعت کی کمزوریو ں کا اظہار کیا ہے ۔اور جماعت کو اس کی حالت پر زجرو توبیخ کی ہے مگر یہ بھی ایک دھوکہ ہے ۔ کیونکہ جس طرح وعظ کا یہ کام ہوتا ہے کہ وہ گذشتہ لوگوں کے خاص خاص کارنامے چن کر مؤثر پیرایہ میں لوگوں کو سنائے تا ان کو نیکی کی تحریک ہو ۔ اسی طرح اس کا یہ بھی کام ہوتا ہے کہ وہ اپنے مخاطبوں کی کمزوریوں کو کھول کھول کر بیان کرے تا ان کو اپنی کمزوری کا احساس ہو او ر وہ ترقی کی کوشش کریں ۔واعظ عموماًاپنے مخاطبین کی خوبیوں کا ذکر نہیں کرتا بلکہ کمزوریوں کو لیتا ہے اور ان کو بھی ایسے رنگ میں بیان کرتا ہے کہ لوگ یہ سمجھیں کہ ابھی ان کی حالت بالکل ناقابل اطمینان ہے ۔تا وہ اپنی اصلاح کی بڑھ چڑھ کرکو شش کریں ۔چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو خط عبدالحکیم خان مرتد کو لکھا اس میں آپ نے اس نقطہ کو بیان فرمایا ہے ۔چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ ’’ میں ہمیشہ ان کو اور ترقیات کیلئے ترغیب دیتا ہوں اور ان کی نیکیاں ان کو نہیں سناتا مگر دل میں خوش ہوں ۔‘‘
حدیث سے پتہ لگتا ہے کہ عام طور پر آنحضرت ﷺ کا بھی یہی طریق تھا ۔پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت خلیفہ اول ،حضرت خلیفہ ثانی رضی اللہ عنھما یا بعض دیگر بزرگان سلسلہ کے بعض بیانوں سے جماعت کے متعلق کو ئی اس رنگ میں استدلال نہیں ہو سکتا جو جماعت کی شان کے منافی ہو ۔ہاں بعض بزرگوں کا میلان طبع جو اس طرف ہے کہ وہ ہمیشہ صرف کمزورپہلو پر ہی زور دیتے ہیں اوروہ بھی ضرورت سے زیادہ اور نا مناسب طریق پر ۔یہ بھی خاکسار کی رائے میں درست طریق نہیں کیونکہ اس طرح جماعت اپنی نظروں میں آپ ذلیل ہو جاتی ہے اور اس کی ہمتیںپست ہو جاتی ہیں ۔پس ان معاملات میں حکیمانہ طریق پر اعتدال کا راستہ اختیا ر کرنا چاہیے ۔جیسا کہ حضرت مسیح موعود ؑ کا طریق تھا ۔ یا اب حضرت خلیفہ ثانی کا طریق ہے ۔ایمانی ترقی کے لئے بیم ورجاکی درمیانی حالت ہی مناسب رہتی ہے ۔
بارہویں وجہ یہ ہے کہ لوگ صحابہ کے متعلق تو یہ دیکھتے ہیں کہ اللہ نے اپنے کلام پاک میں ان کی تعریف فرمائی ہے ۔ مگر حضرت مسیح موعود ؑ کے صحابہ کے متعلق ان کو بز عم خود کوئی ایسی بات نظر نہیں آتی۔ مگر یہ بھی ایک دھوکہ ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود ؑ کے الہامات کا مطالعہ کیا جاوے تو ان میں بھی آپ کے صحابہ کی بہت تعریف پائی جاتی ہے ۔مگر میں کہتا ہوں کہ کسی الگ تعریف کی ضرورت بھی نہیں ہے ۔کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم میں جہاں صحابہ کی تعریف پائی جاتی ہے وہاں بنص صریح ’’ وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ‘‘(الجمعۃ:۴) یہ بھی تو بتایا گیا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ کے صحابہ آنحضرت ﷺ کے صحابہ میں شامل ہیں ۔اور انہیں کا ایک حصہ ہیں ۔اور اس آیت کی تفسیر خود حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنی کتب میں متعدد جگہ فرمائی ہے ۔چنانچہ تحفۂ گولڑویہ صفحہ ۱۵۲پر تحریر فرماتے ہیں کہ ’’ ہمارے نبی ﷺ کے دو بعث ہیں اور اس پر نص قطعی آیت کریمہ ’’وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ‘‘(الجمعۃ:۴) ہے۔تمام اکابر مفسرین اس آیت کی تفصیل میں لکھتے ہیں کہ اس امت کا آخری گروہ یعنی مسیح موعود ؑ کی جماعت صحابہ کے رنگ میں ہوں گے۔اور صحابہ رضی اللہ عنھم کی طرح بغیر کسی فرق کے آنحضرت ﷺ سے فیض اور ہدایت پائیں گے ۔پس جب کہ یہ امرنص صریح قرآن شریف سے ثابت ہے کہ جیسا کہ آنحضرت ﷺ کا فیض صحابہ پر جاری ہوا ایسا ہی بغیر کسی امتیازاور تفریق کے مسیح موعود کی جماعت پر فیض ہو گا ۔توا س صورت میں آنحضرت ﷺ کا ایک اور بعث ماننا پڑا ۔جو آخری زمانہ میں مسیح موعود کے وقت میں ہزار ششم میں ہوگا۔ ‘‘
پھر حقیقۃ الوحی تتمہ صفحہ ۶۷پر فرماتے ہیں ’’ وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ‘‘ یعنی آنحضرت ﷺ کے اصحاب میں سے ایک اور فرقہ ہے جو ابھی ظا ہر نہیں ہوا۔یہ تو ظاہر ہے کہ اصحاب وہی کہلاتے ہیںجو نبی کے وقت میں ہوں اور ایمان کی حالت میں اس کی صحبت سے مشرف ہوں۔اور اس سے تعلیم و تربیت پاویں پس اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آنے والی قوم میں ایک نبی ہو گا کہ وہ آنحضرت ﷺ کا بروز ہوگا ۔اس لئے اس کے اصحاب آنحضرت ﷺ کے اصحاب کہلائیں گے ۔اور جس طرح صحابہ رضی اللہ عنھم نے اپنے رنگ میں خداتعالیٰ کی راہ میں دینی خدمتیں ادا کی تھیں وہ اپنے رنگ میں ادا کر یں گے ۔‘‘
پس جب خدا وند عالمیا ن جو عالم الکل ہے اور جس سے کوئی بات پوشیدہ نہیں ۔ حضرت مسیح موعود ؑ کی جماعت کو آنحضرت ﷺ کے صحابہ میں داخل کرتا ہے اور ان کی تعریف فرماتا ہے تو زیدو بکر کو اس میں چہ میگوئی کرنے کا کیا حق ہے ۔ اَللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ۔
تیرہویں وجہ یہ ہے جسے لوگ عموماً نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر جماعت کی ترقی کے لئے ایک خاص طریق مقرر کر رکھا ہے اور قرآن شریف سے پتہ لگتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ کی جماعت کی ترقی آہستہ آہستہ مقدر ہے ۔جیسا کہ فرمایا کہ کَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْأَہٗ الایۃ(الفتح:۳۰) یعنی حضرت مسیح موعو د ؑ کی جماعت کی ترقی اس پودے کی طرح ہے جو شروع شروع میں زمین سے اپنی کمزور کمزور پتیاں نکالتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ مضبوط ہوتا چلا جاتا ہے ۔چنانچہ حضرت مسیح موعود ؑ اپنی کتاب اعجاز المسیح صفحہ ۱۲۳پر تحریر فرماتے ہیں کہ ’’ فا شا ر موسیٰ بقو لہ اشدا ء علے الکفار الی الصحابۃ ادرکوا صحبۃنبینا المختار واشار عیسیٰ بقولہ کزرع اخرج شطأ ہ الیٰ قوم اٰخرین منھم و امامھم المسیح بل ذکر اسمہ احمد بالتصر یح ۔یعنی موسیٰ علیہ السلام نے اَشِدَّائُ عَلَی الْکُفَّارِ کے الفاظ کہہ کر صحابہ کی طرف اشارہ کیا جنہوں نے ہمارے آنحضرت ﷺ کی صحبت پائی اور عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے قو ل کَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْأَہٗ سے اس قوم کی طرف اشارہ کیا جو اٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ ہے ۔اور نیز ان کے امام مسیح موعود ؑ کی طرف اشارہ کیا بلکہ اس کا تو نام احمد بھی صاف صاف بتلادیا ۔‘‘
اس سے پتہ لگا کہ حضرت مسیح موعود ؑ کی جماعت کی ترقی انقلابی رنگ میں مقدر نہیں بلکہ تدریجی رنگ میں مقدر ہے ۔اس کی یہ وجہ ہے کہ جس طرح جسمانی بیماریاں مختلف نو عیت کی ہوتی ہیں اسی طرح اخلاقی اور روحانی بیماریاں بھی مختلف نوعیت کی ہو تی ہیں ۔چنانچہ بعض بیماریاں ایسی ہوتی ہیں جو سخت تکلیف دہ ہوتی ہیں اور بیمار کو نہایت بے تاب کر دیتی ہیں ۔مگر مناسب علاج سے وہ جلد ہی دور بھی ہو جاتی ہیں ۔اور وہ بیمار جو اس بیماری کی وجہ سے سخت مضطربانہ کرب میں مبتلا تھا جلد بھلا چنگا ہو کر چلنے پھرنے لگ جاتا ہے ۔لیکن اس کے مقابل میں بعض بیماریاں ایسی ہوتی ہیں جوا یک روگ کے طور پر انسان کے ساتھ لاحق ہو جاتی ہیں اور گو بیما ر ان سے وہ مضطربانہ دکھ نہیں اٹھاتا مگر اند ر ہی اندر تحلیل ہو تا چلاجاتا ہے ۔اور ان میں کوئی فوری علاج بھی فائدہ نہیں دیتا بلکہ ایک بڑا لمبا باقاعدہ علاج ان کے لئے ضروری ہوتا ہے ۔ مقدم الذکر کی مثال یوں سمجھنی چاہئیے جیسے ایک بڑا پھوڑا ہو جس میں پیپ پڑی ہو ئی ہو اور بیمار اس کے درد سے بے تاب ہومگر ڈاکٹر نے چیرہ دیا اور پیپ نکل گئی درد دور ہو گئی اور بیمار دو چار دن کی مرہم پٹی میں بھلا چنگا ہو کر چلنے پھرنے لگ گیا ۔اور مؤخر الذکر کی مثال یوں ہے کہ ایک شخص کو سل کی بیماری ہو ۔یہ بیمار پھوڑے کے بیمار کی طرح کرب اور دکھ میں مبتلا نہیں بلکہ اندر ہی اندر گھلتا چلا جاتا ہے اور اس سے مقدم الذکر بیمار کی طرح کوئی فوری علاج بھی فائدہ نہیں دے سکتا ۔بلکہ ایک لمبا باقاعدہ علاج کا کورس درکار ہوتا ہے ۔پس چونکہ اس زمانہ کی اخلاقی اور روحانی بیماریاں سل کی بیماری کے مشابہ ہیں اس لئے اس زمانہ میں علاج کے نتیجے بھی فوراً ظاہر نہیں ہوتے بلکہ وقت چاہتے ہیں اور یہ یاد رکھنا چاہئیے کہ خدا تعالیٰ نے جو حضرت مسیح موعود ؑ کے صحابہ کے متعلق کَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْأَہٗ فرمایا ہے تو اس سے صرف ان کی تعدادی ترقی کی حالت بتانا مقصود نہیں ۔ بلکہ ہر قسم کی ترقی کی کیفیت بتانا مقصود ہے ۔واللّٰہ اعلم ۔
پس اعتراض اور نکتہ چینی کی طرف جلد قدم نہیں اُٹھانا چاہیے ۔
یہ تیرہ باتیں ہیں جو عموماً صحابہ حضرت مسیح موعود ؑ کی حقیقی قدر پہچانی جانے کے رستہ میں روک ہوتی ہیں ۔ میں نے ان کو صرف مختصراً بیان کیا ہے اور بعض کو تو دیدہ دانستہ نہایت ہی مختصر رکھا ہے اور خدا گواہ ہے کہ میں اس نازک مضمون میں ہر گز نہ پڑتا اور یہ تو غالباً اس کا ایسا موقع بھی نہ تھا مگر میں نے دیکھا ہے کہ یہ باتیں لوگوں کو دھوکے میں ڈال رہی ہیں اور اس دھوکے کا اثر وسیع ہو رہا ہے ۔اس لئے میں خاموش نہیں رہ سکا۔ ہاں یہ بات نوٹ کرنی ضروری ہے کہ جس طرح ہم بفضلہ تعالیٰ آنحضرت ﷺ کو سب اولین و آخرین سے افضل جانتے ہیں اسی طرح آپ کی جماعت کو بھی تمام جماعتوں سے افضل مانتے ہیں ۔اللھم صل علی محمد وعلی ال محمد وبارک وسلم ۔
{ 158} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ جب ہمارا چھوٹا بھائی مبارک احمد بیمار ہوا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام دن رات اس کی تیما داری میں مصروف رہتے تھے اور بڑے فکر اور توجہ کے ساتھ اس کے علاج میں مشغول رہتے تھے اور چونکہ حضرت صاحب کواس سے بہت محبت تھی اس لئے لوگوں کا خیال تھا کہ اگر خدا نخواستہ وہ فوت ہو گیا تو حضرت صاحب کو بڑا سخت صدمہ گزرے گا ۔لیکن جب وہ صبح کے وقت فوت ہوا تو فوراً حضرت صاحب بڑے اطمینان کے ساتھ بیرونی احباب کو خطوط لکھنے بیٹھ گئے کہ مبارک فوت ہو گیاہے اور ہم کو اللہ کی قضا پر راضی ہو نا چاہئیے ۔اور مجھے بعض الہاموں میں بھی بتا یا گیا تھاکہ یا یہ لڑکا بہت خدا رسیدہ ہو گا اور یا بچپن میں فوت ہو جائے گا ۔سو ہم کو اس لحاظ سے خوش ہو نا چاہیے کہ خد اکا کلام پورا ہوا ۔ اور حضرت خلیفۃ المسیح ثانی بیان کر تے ہیں کہ جس وقت مبار ک احمد فوت ہونے لگا تو وہ سویا ہوا تھا ۔حضرت خلیفہ اول نے اس کی نبض دیکھی تو غیر معمولی کمزوری محسوس کی جس پر آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا کہ حضور نبض میں بہت کمزوری ہے ۔کچھ کستوری دیں حضرت صاحب جلدی سے صندوق میں سے کستوری نکالنے لگے مگر مولوی صاحب نے پھر کہا کہ حضور نبض بہت ہی کمزور ہو گئی ہے ۔ حضرت صاحب نے کستوری نکالنے میں اور جلدی کی مگر پھر مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضور نبض نہایت ہی کمزور ہے ۔ حضرت خلیفہ ثانی بیان کرتے تھے کہ اس وقت دراصل مبارک احمد فوت ہو چکا تھا ۔ مگر حضرت مولوی صاحب حضر ت مسیح موعود ؑ کی تکلیف کا خیال کر کے یہ کلمہ زبان پر نہ لا سکتے تھے ۔مگر حضرت صاحب سمجھ گئے اور خود آکر نبض پر ہاتھ رکھا تو دیکھا کہ مبارک احمد فوت ہو چکا ہے ۔اس پر حضرت صاحب نے انا للہ و انا الیہ راجعون کہا اور بڑے اطمینان کے ساتھ بستہ کھولا اور مبارک احمد کی وفات کے متعلق دوستوں کو خطوط لکھنے بیٹھ گئے اور مجھ سے حافظ روشن علی صاحب نے بیان کیا کہ جب حضرت صاحب مبارک احمد کو دفن کر نے کے لئے گئے تو ابھی قبر کی تیاری میں کچھ دیر تھی اس لئے حضرت صاحب قبر سے کچھ فاصلے پر باغ میں بیٹھ گئے ۔اصحاب بھی ارد گرد بیٹھ گئے ۔تھوڑی دیر خاموشی کے بعد حضرت صاحب نے مولوی صاحب خلیفہ اول کو مخاطب کر کے فرمایا ۔مولوی صاحب ایسے خوشی کے دن بھی انسان کو بہت کم میسر آتے ہیں پھر آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے راستہ میں انسان کی ترقی کے لئے ایک قانون شریعت رکھاہے اور ایک قانون قضا ء و قدر ۔قانون شریعت کے نفاذ کو خدا نے بندے کے ہاتھ میں دے دیا ہے ۔پس بندہ اس میں اپنے لئے کئی قسم کے آرام اور سہولتیں پیدا کرلیتا ہے ۔وضو سے تکلیف نظر آتی ہے تو تیمم کرلیتا ہے ۔نمازکھڑے ہوکر پڑھنے میں تکلیف محسوس کر تا ہے تو بیٹھ کر یا اگر بیٹھنے میں بھی تکلیف ہو تو لیٹ کر پڑھ لیتا ہے ۔روزہ میں کوئی بیماری محسوس کر تا ہے تو کسی دوسرے وقت پر ٹال دیتا ہے اسی طرح چونکہ قانون شریعت کا نفاذ خود بندے کے ہاتھ میں ہے وہ اپنے لئے بہت سی سہولتیں پیدا کر لیتا ہے اور اس طرح اس کی ظاہری تکلیف سے بچ جاتا ہے ۔لیکن قضا وقدر کا قانون خدا نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے اور بندے کا اس میں کچھ اختیار نہیں رکھا ۔پس جب قضا وقدر کے قانون کی چوٹ بندے کو آکر لگتی ہے اور وہ اس کو خدا کے لئے برداشت کرتا ہے اور صبر سے کا م لیتا ہے اور خدا کی قضا پر راضی ہوتا ہے تو پھر و ہ اس ایک آن میں اتنی ترقی کرجاتا ہے جتنی کہ چالیس سال کے نماز روزے سے بھی نہیںکر سکتا تھا ۔پس مومن کے لئے ایسے دن درحقیقت ایک لحاظ سے بڑی خوشی کے دن ہیں ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ شیخ عبدالرحمن صاحب مصری نے بھی یہ روایت بیان کی تھی ۔
{ 159} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ حضرت صاحب بعض اوقات کسی بزرگ کا واقعہ سنایا کرتے تھے کہ ان کا کوئی لڑکا فوت ہوگیا اور لوگوں نے ان کو آکر اطلاع دی تو انہوں نے کہا ’’سگ بچہ مُرد د فن بکنید ‘‘۔خاکسارعرض کرتا ہے کہ یہ خاص حالت کی باتیں ہیں ۔انبیاء جنھوں نے لوگوں کیلئے اسوۂ حسنہ بننا ہوتا ہے اور حقوق العباد کی بھی بہترین مثال قائم کرنی ہوتی ہے ۔ عموماً ایسا طریق اختیار نہیں کرتے ۔
{ 160} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ جب آتھم کی میعا د میں صرف ایک دن باقی رہ گیا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھ سے اور میاں حامد علی مرحوم سے فرمایا کہ اتنے چنے ( مجھے تعداد یاد نہیںرہی کہ کتنے چنے آپ نے بتا ئے تھے ) لے لو اوران پر فلاں سورۃ کا وظیفہ اتنی تعدا د میں پڑھو (مجھے وظیفہ کی تعداد بھی یاد نہیں رہی )۔میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ مجھے وہ سورۃ یاد نہیں رہی مگر اتنا یاد ہے کہ وہ کوئی چھوٹی سی سورۃ تھی ۔جیسے اَلَمْ تَرَکَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْحَابِ الْفِیْلِ(الفیل:۲) ہے الخ۔ اور ہم نے یہ وظیفہ قریباً ساری رات صرف کر کے ختم کیا تھا ۔وظیفہ ختم کرنے پر ہم وہ دانے حضرت صاحب کے پاس لے گئے کیونکہ آپ نے ارشاد فرمایا تھا کہ وظیفہ ختم ہونے پر یہ دانے میرے پاس لے آنا۔اس کے بعد حضرت صاحب ہم دونوں کو قادیان سے باہر غالباً شمال کی طرف لے گئے اور فرمایا یہ دانے کسی غیر آباد کنوئیں میں ڈالے جائیں گے ۔اور فرمایا کہ جب میں دانے کنوئیں میں پھینک دو ں تو ہم سب کو سرعت کے ساتھ منہ پھیر کر واپس لوٹ آنا چاہئیے اور مڑ کر نہیں دیکھنا چاہئیے ۔چنانچہ حضرت صاحب نے ایک غیر آباد کنوئیں میں ان دانوں کو پھینک دیااور پھر جلدی سے منہ پھیر کر سرعت کے ساتھ واپس لوٹ آئے اور ہم بھی آپ کے ساتھ جلدی جلدی واپس چلے آئے اور کسی نے منہ پھیر کر پیچھے کی طرف نہیں دیکھا۔
(اس روایت میں جس طرح دانوں کے اوپر وظیفہ پڑھنے اور پھر ان دانوں کو کنوئیں میں ڈالنے کا ذکر ہے۔ اس کی تشریح حصہ دوم کی روایت نمبر۳۱۲میں کی جا چکی ہے۔ جہاں پیر سراج الحق صاحب مرحوم کی روایت سے یہ بیان کیا گیا ہے کہ یہ کام ایک شخص کی خواب کو ظاہر میں پورا کرنے کے لئے کروایا گیا تھا۔ ورنہ ویسے اس قسم کا فعل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عادت اور سنت کے خلاف ہے اور دراصل اس خواب کے تصویری زبان میں ایک خاص معنی تھے۔ جو اپنے وقت پر پورے ہوئے۔)
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{ 161} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ ایک دفعہ میں مسجد مبارک میں ظہر کی نماز سے پہلی سنتیں پڑھ رہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیت الفکر کے اندر سے مجھے آواز دی ۔میں نماز توڑ کر حضرت کے پاس چلاگیا اور حضرت سے عرض کیا کہ حضور میں نماز توڑ کر حاضر ہوا ہوں ۔آپ نے فرمایا اچھا کیا ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ بیت الفکر اس حجرہ کا نام ہے جو حضرت کے مکان کا حصہ ہے اور مسجد مبارک کے ساتھ شمالی جانب متصل ہے ۔ابتدائی ایام میں حضرت عموماً ا س کمرہ میں نشست رکھتے تھے ۔ اور اسی کی کھڑکی میں سے نکل کر مسجد میں تشریف لایا کرتے تھے ۔میاں عبداللہ صاحب سنوری نے بیان کیا کہ یہ ابتدائی زمانہ کی بات ہے ۔ خاکسارعرض کرتا ہے کہ رسول کی آواز پر نماز توڑ کر حاضر ہونا شرعی مسئلہ ہے ۔دراصل بات یہ ہے کہ عمل صالح کسی خاص عمل کا نام نہیں بلکہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا نام ہے ۔
{ 162} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ اوائل میںجب ابھی حضرت مولوی خلیفہ اول قادیان نہیں آئے تھے انہوں نے جموں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خط لکھا کہ اگر حضوریہاں تشریف لا سکیں تو مہاراج حضور کی ملاقات کی خواہش رکھتے ہیں ۔میاں عبداللہ صاحب کہتے ہیں کہ حضرت صاحب نے مجھ سے فرمایا کہ جواب لکھ دو بِئْسَ الْفَقِیْرُعَلٰی بَابِ الْاَمِیْرِ ۔
{ 163} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے عبداللہ صاحب سنوری نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے میرے خاتمہ اور خاتمہ تک کے سب حالات بتا دیئے ہوئے ہیں ۔جو مجھ پر آنے والے ہیں اور میں دیکھتا ہوں کہ مجھ پر اسی کے مطابق حالات آرہے ہیں ۔
{ 164} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیامجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ اوائل میں مَیںنو گائوں میں پٹواری ہوتا تھا۔اور میری پچپن سالانہ تنخواہ تھی مگر میں نے ایک اور پٹواری کے ساتھ مل کر جو تحصیل پائل میں ہوتا تھا اپنا تبادلہ تحصیل پائل میں کروا لیا۔لیکن وہاں جانے کے بعد میرا دل نہیں لگا اور میں بہت گھبرا یا کیونکہ وہ ہندو جاٹوں کا گائوں تھا اور وہاں کوئی مسجد نہ تھی اور نوگائوں میں جس کومیں چھوڑ آیا تھا مسجد تھی ۔ میں نے حضرت صاحب سے عرض کیا کہ یہاں میرا دل بالکل نہیں لگتا۔ حضور دعا فرماویں کہ میں پھر نوگائوں میں چلا جائوں اور بڑی بیقرار ی سے عرض کیا ۔حضور نے فرمایا جلدی نہیں کرنی چاہیے ۔اپنے وقت پر یہ خود بخود ہو جائیگا ۔میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ کچھ عرصہ بعد میرا تبادلہ غوث گڑھ میں ہو گیا جہاں میرا اتنا دل لگا کہ نو گائوں کی خواہش دل سے نکل گئی اور میں نے حضرت کے فرمان کی یہ تاویل کر لی کہ چونکہ غوث گڑھ بھی مسلمانوں کا گائوں ہے اور اس میں مسجد ہے اور یہاں میرا دل بھی خوب لگ گیا ہے اس لئے حضرت کے فرمان کے یہی معنی ہونگے جو پورے ہوگئے مگر کچھ عرصہ بعد نو گائوں کا حلقہ خالی ہوا اور تحصیل دار نے میری ترقی کی سفارش کی او ر لکھا کہ ترقی کی یہ صورت ہے کہ مجھے علاوہ غوث گڑھ کے نوگائوں کاحلقہ بھی جو وہ بھی پچپن سالانہ کا تھا دیدیا جاوے اور دونوں حلقوں کی تنخواہ یعنی ایک سو دس مجھے دی جاوے ۔ یہ سفارش مہاراج سے منظور ہو گئی اور اس طرح میرے پاس غوث گڑھ اور نو گائوں دونوں حلقے آگئے اور ترقی بھی ہوگئی ۔میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ یہ خدا تعالیٰ کا ایک خاص اقتداری فعل تھا ورنہ نوگائوں غوث گڑھ سے پندرہ کوس کے فاصلہ پر ہے اور درمیان میں کئی غیر حلقے ہیں ۔خاکسارعر ض کرتا ہے کہ غوث گڑھ کا تمام گائوں میاں عبداللہ صاحب کی تبلیغ سے احمدی ہو چکا ہے ۔نیز خاکسارعرض کرتا ہے کہ یہ تمام دیہات ریاست پٹیالہ میں واقع ہیں ۔
{ 165} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ ایک دفعہ کسی شخص نے حضرت صاحب کو ایک جیبی گھڑی تحفہ دی ۔حضرت صاحب اسکو رومال میں باندھ کر جیب میں رکھتے تھے زنجیر نہیں لگاتے تھے ۔اور جب وقت دیکھنا ہوتا تھا تو گھڑی نکال کر ایک ہندسے یعنی عدد سے گِن کر وقت کا پتہ لگا تے تھے اور انگلی رکھ رکھ کر ہندسے گنتے تھے اور منہ سے بھی گنتے جاتے تھے اور گھڑی دیکھتے ہی وقت نہ پہچان سکتے تھے ۔میاں عبداللہ صاحب نے بیان کیا کہ آپ کا جیب سے گھڑی نکال کر اس طرح وقت شمار کرنا مجھے بہت ہی پیارا معلوم ہوتا تھا۔
{ 166} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ ایک دفعہ حضرت صاحب نے بیان فرمایا کہ قرآن شریف کی جوآیات بظاہر مشکل معلوم ہوتی ہیں اور ان پر بہت اعتراض ہوتے ہیں دراصل ان کے نیچے بڑے بڑے معارف اور حقائق کے خزانے ہو تے ہیں اور پھر مثال دے کر فرمایا کہ ان کی ایسی ہی صورت ہے جیسے خزانہ کی ہوتی ہے جس پر سنگین پہرہ ہوتا ہے اور جو بڑے مضبوط کمرے میں رکھا جاتاہے جس کی دیواریں بہت موٹی ہو تی ہیں اور دروازے بھی بڑے موٹے اور لوہے سے ڈھکے ہو ئے ہوتے ہیں اور بڑے بڑے موٹے اور مضبوط قفل اس پر لگے ہوتے ہیں۔اور اسکے اندر بھی مضبوط آ ہنی صندوق ہوتے ہیںجن میں خزانہ رکھا جاتا ہے اور پھر یہ صندوق بھی خزانہ کے اندر اندھیری کوٹھڑیوں اور تہ خانوں میں رکھے جاتے ہیں ۔جس کی وجہ سے ہر شخص وہاں تک نہیں پہنچ سکتا اور نہ اس سے آگاہ ہو سکتا ہے بمقابلہ نشست گاہ ہو نے کے جو کھلے کمرے ہوتے ہیں اور دروازوں پر بھی عموماً شیشے لگے ہوئے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے باہر والا شخص بھی اندر نظر ڈال سکتا ہے اور جو اندر آنا چاہے بآسانی آسکتا ہے ۔
{ 167} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ حضرت صاحب جب بڑی مسجد میں جاتے تھے تو گرمی کے موسم میں کنوئیں سے پانی نکلوا کر ڈول سے ہی مُنہ لگا کر پانی پیتے تھے اور مٹی کی تازہ ٹِنڈیا تازہ آبخورہ میں پانی پینا آپ کو پسند تھا ۔اور میاں عبداللہ صاحب نے بیان کیا کہ حضرت صاحب اچھے تلے ہوئے کرارے پکوڑے پسند کرتے تھے کبھی کبھی مجھ سے منگوا کر مسجد میں ٹہلتے ٹہلتے کھا یا کرتے تھے ۔اور سالم مرغ کا کباب بھی پسند تھا چنانچہ ہوشیار پور جاتے ہوئے ہم مُرغ پکوا کر ساتھ لے گئے تھے ۔مولی کی چٹنی اور گوشت میں مونگرے بھی آپ کو پسند تھے ۔گوشت کی خوب بھُنی ہوئی بوٹیاں بھی مرغوب تھیں ۔چپاتی خوب سِکی ہوئی جو سِکنے سے سخت ہو جاتی ہے پسندتھی۔گوشت کا پتلا شوربہ بھی پسند کر تے تھے جو بہت دیر تک پکتا رہا ہو ۔حتیّٰ کہ اس کی بوٹیاں خوب گل کر شوربہ میں اس کا عرق پہنچ جاوے۔سکنجبین بھی پسند تھی۔ میاں جان محمد مرحوم آپکے واسطے سکنجبین تیا ر کیا کرتا تھا ۔نیز میاں عبداللہ صاحب نے بیان کیا کہ حضرت صاحب نے ایک دفعہ یہ بھی فرمایا تھا کہ گوشت زیادہ نہیں کھانا چاہیے جو شخص چالیس دن لگا تار کثرت کے ساتھ صرف گوشت ہی کھاتا رہتا ہے اسکا دل سیاہ ہوجاتا ہے ۔ دال ،سبزی ترکاری کے ساتھ بدل بدل کر گوشت کھانا چاہیے بھیڑکا گوشت نا پسند فرماتے تھے ۔میٹھے چاول گُڑ یعنی قند سیاہ میں پکے ہوئے پسند فرماتے تھے ۔ابتدا میں چائے میں دیسی شکر (جو گُڑ کی طرح ہوتی ہے ) ڈال کر استعمال فرماتے تھے ۔شوربہ کے متعلق فرماتے تھے کہ گاڑھا کیچڑ جیسا ہم کو پسند نہیں ۔ایسا پتلا کرنا چاہیے کہ ایک آنہ کا گوشت آٹھ آدمی کھائیں ۔اس وقت ایک آنہ کا سیر خام گوشت آتا تھا ۔
{ 168} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ ایک دفعہ کو ئی شخص حضرت صاحب کیلئے ایک تسبیح تحفہ لایا۔ وہ تسبیح آپ نے مجھے دے دی اور فرمایا لوا س پر درود شریف پڑھا کرو۔وہ تسبیح بہت خوبصورت تھی ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ تسبیح کے استعمال کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام عام طور پر پسند نہیں فرماتے تھے ۔
{ 169} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ حضرت صاحب بیان فرماتے تھے کہ قیامت کو ایک شخص اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہوگا اور اللہ اس سے دریافت کرے گا کہ اگر تو نے کبھی کوئی نیکی کی ہے تو بتا مگر وہ نہیں بتا سکے گا ، اس پر اللہ فرمائے گا اچھا تو کیا تو کبھی کسی بزرگ شخص سے ملا تھا ؟ وہ جواب دیگا نہیں ۔اس پر خدا فرمائے گا اچھی طرح یاد کر کے جواب دے اس پر وہ بولے گا۔ کہ ہاں ایک دفعہ میں ایک گلی میں سے گذر رہا تھا تو میرے پا س سے ایک شخص گذرا تھا جس کو لوگ بزرگ کہتے تھے ۔اللہ تعالیٰ فرمائے گا ۔جا میں نے تجھے اسی وجہ سے بخش دیا ۔میاں عبداللہ صاحب کہتے ہیں کہ حضرت صاحب نے ایک وقت یہ بھی فرمایا تھا کہ جو شخص کسی کامل کے پیچھے نماز پڑھتا ہے تو پیشتر اس کے کہ وہ سجدہ سے اپنا سر اُٹھاوے ۔اللہ اسکے گناہ بخش دیتا ہے ۔خاکسارعرض کرتا ہے کہ یہ کوئی منتر جنتر نہیں اخلاص اور صحتِ نیت شرط ہے ۔ (یہ روایت زیادہ تفصیل کے ساتھ حصہ دوم کی روایت نمبر 425میں بھی بیان ہوئی ہے۔)
{ 170} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیامجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ ایک دفعہ ایک شخص آیااور اس نے حضرت صاحب سے دریافت کیا کہ کیا آپ واقعی مسیح اور مہدی ہیں ؟آپ نے فرمایا ہاں میں واقعی مسیح اور مہدی ہوں اور آپ نے ایسے انداز سے یہ جواب دیا کہ وہ شخص پھڑک گیا اور اسی وقت بیعت میں داخل ہوگیا اور میرے دل پر بھی حضرت صاحب کے اس جواب کا بہت اثر ہوا ۔
{ 171} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیامجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ ایک دفعہ حضرت صاحب نے فرمایا کہ دو بیویاں کر کے انسان درویش ہو جاتا ہے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ واقعی اگر ان شروط کو ملحوظ رکھا جاوے جو اسلام ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے والے کیلئے واجب قرار دیتا ہے تو دو یا اس سے زیادہ بیویاں عیش و عشرت کا ذریعہ ہر گز نہیں بن سکتیں بلکہ یہ ایک قربانی ہے جو خاص حالات میں انسان کو کرنی پڑتی ہے ۔
{ 172} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیامجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ ایک دفعہ یہ ذکر تھا کہ یہ جو چہلم کی رسم ہے یعنی مردے کے مرنے سے چالیسویں دن کھانا کھلا کر تقسیم کرتے ہیں غیر مقلد اس کے بہت مخالف ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر کھانا کھلانا ہو تو کسی اور دن کھلا دیا جائے ۔اس پر حضرت نے فرمایا کہ چالیسویں دن غربا میں کھانا تقسیم کر نے میں یہ حکمت ہے کہ یہ مردے کی روح کے رخصت ہو نے کا دن ہے۔ پس جس طرح لڑکی کو رخصت کرتے ہوئے کچھ دیا جاتا ہے اسی طرح مردے کی روح کی رخصت پر بھی غرباء میں کھا نا دیاجاتا ہے ۔ تا اسے اس کا ثواب پہنچے ۔گویا روح کا تعلق اس دنیا سے پورے طور پر چالیس د ن میں قطع ہوتا ہے ۔خاکسارعرض کرتا ہے کہ یہ صرف حضرت صاحب نے اس رسم کی حکمت بیان کی تھی ورنہ آپ خود ایسی رسوم کے پابند نہ تھے ۔
{ 173} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے میاں عبد اللہ صاحب سنوری نے کہ جس سال پہلا جلسہ سالانہ ہوا تھا اس میں حضرت صاحب نے جو تقریر فرمائی تھی۔ اس سے پہلے حضرت صاحب نے میرے متعلق بھی یہ فرمایا تھا کہ میاں عبد اللہ سنوری ہمارے اس وقت کے دوست ہیں جبکہ ہم گو شۂِ گمنامی میں پڑے ہوئے تھے اور یہ ذکر میں نے اس لئے کیا ہے کہ تا آپ لوگ ان سے واقف ہو جاویں ۔پھر اس کے بعد تقریر شروع فرمائی۔ (خاکسار عرض کرتا ہے کہ پہلا جلسہ سالانہ ۱۸۹۱ء میں ہوا تھا۔)
{ 174} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے میاں عبد اللہ صاحب سنوری نے کہ حضرت صاحب اکثر فرمایا کرتے تھے ۔
خدا داری چہ غم داری
{ 175} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے میاں فخر الدین صاحب ملتانی نے کہ جب میں ۱۹۱۰ء میں نور پور ضلع کانگڑہ میں تھا تو ضلع کانگڑہ کے کورٹ انسپکٹر آف پو لیس نے بعض دوسرے لوگوں کے ساتھ میری بھی دعوت کی۔کورٹ انسپکٹرصاحب غیر احمدی تھے مگر شریف اور متین آدمی تھے اور نماز کے پابند تھے ۔ انہوں نے دوران گفتگو میں بیان کیا کہ جب آتھم کی پندرہ ماہی میعاد کا آخری دن تھا تو اس وقت ان کی کوٹھی کے پہرہ کا انتظام میرے سپرد تھا ۔کوٹھی کے اندر آتھم کے دوست پادری وغیرہ تھے اور باہر پولیس کا چاروں طرف پہرہ تھا ۔اس وقت آتھم کی حالت سخت گھبراہٹ کی تھی ۔اور بالکل مخبوط الحواسی کی سی صورت ہو رہی تھی۔باہر دور سے اتفاقاً کسی بندوق کے چلنے کی آواز آئی تو آتھم صاحب کی حالت دگر گوں ہو گئی ۔آخر جب ان کا کرب اور گھبراہٹ انتہا کو پہنچ گئے تو ان کے دوستوں نے ان کو بہت سی شراب پلا کر بے ہوش کر دیا ۔ آخری رات آتھم نے اسی حالت میں گذاری ۔ صبح ہوئی تو ان کے دوستوں نے ان کے گلے میں ہار پہنا کر اور ان کو گاڑی میں بٹھا کر خوشی کا جلوس پھرا یا اور اس دن لوگوںمیں شور تھا کہ مرز ے کی پیشگوئی جھوٹی گئی ۔مگر کورٹ انسپکٹر صاحب بیان کرتے تھے کہ ہم سمجھتے تھے کہ جو حالت ہم نے آتھم صاحب کی دیکھی ہے اس سے تو وہ مرجاتے تو اچھا تھا ۔
اورخاکسارعر ض کرتاہے کہ مجھ سے ماسٹرقادر بخش صاحب لدھیانوی نے بیان کیا کہ آتھم کی پندرہ ماہی میعاد کے دنوں میں لدھیانہ میں لوئیس صاحب ڈسٹرکٹ جج تھا ۔آتھم چونکہ لوئیس صاحب کا داماد تھا اس لئے لدھیانہ میں لوئیس صاحب کی کوٹھی پر آکر ٹھہرا کرتا تھا ۔ایک دفعہ دوران میعاد میں آتھم لدھیانہ میں آیا۔ان دنوں میں میرا ایک غریب غیر احمدی رشتہ دار لوئیس صاحب کے پاس نوکر تھا اور آتھم کے کمرے کا پنکھا کھینچا کرتا تھا ۔ ایک دن میں نے اس سے پوچھا کہ تم آتھم کا پنکھا کھینچا کرتے ہو ۔کبھی اس کے ساتھ کوئی بات بھی کی ہے ۔اس نے کہا صاحب (یعنی آتھم ) رات کو روتا رہتا ہے ۔چنانچہ اس پر میں نے ایک دفعہ صاحب سے پوچھا تھا کہ آپ روتے کیوں رہتے ہیں تو صاحب نے کہا تھا کہ مجھے تلواروں والے نظر آتے ہیں ۔میں نے کہا تو پھر آپ ان کو پکڑوا کیوں نہیں دیتے ۔صاحب نے کہا وہ صرف مجھے ہی نظر آتے ہیں اور کسی کو نظر نہیں آتے ۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ آتھم والی پیشگوئی کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصانیف میں اکثر جگہ آچکا ہے ۔دراصل جس وقت حضرت مسیح موعود ؑ نے مباحثہ کے اختتام پر آتھم کے متعلق پندرہ ماہ کے اندر ہاویہ میں گرائے جانے کی پیشگوئی کا اظہار کیا تھا ۔اس وقت سے ہی آتھم کے اوسان خطا ہونے شروع ہو گئے تھے ۔چنانچہ سب سے پہلے تو آتھم نے اسی مجلس میں جبکہ حضرت صاحب نے فرمایا کہ آتھم نے اپنی کتاب میں آنحضرت ﷺ کو نعوذ باللہ دجال کہا ہے ۔اپنے کانوں کو ہاتھ لگا کر اور ایک خوف زد ہ انسان کی طرح زبان باہر نکا ل کر کہا کہ نہیں میں نے تو نہیں کہا ۔ حالانکہ وہ اپنی کتاب اندر ونہ بائیبل میں دجّال کہہ چکاتھا ۔اس وقت مجلس میں قریباً ستر آدمی مختلف مذاہب کے پیر وموجود تھے ۔ا سکے بعد میعاد کے اندر آتھم نے جس طرح اپنے دلی خوف اور گھبراہٹ اور بے چینی کا اظہار کیا اس کی کیفیت حضرت مسیح موعود ؑ کی تصانیف میں مختصراً آچکی ہے ۔اس کا اپنا بیان ہے کہ کبھی اس کو سانپ نظر آتے جو اس کو ڈسنے کو بھاگتے ۔ کبھی اس پر کتے حملہ کرتے۔ کبھی ننگی تلواروں والے اس کو آآکر ڈراتے اور وہ ایک شہر سے دوسرے شہر کی طرف بھاگتا پھرتا تھا ۔اور عموماً پولیس کا خاص پہرہ اپنے ساتھ رکھتا تھا اور اسلام کے خلاف اس نے اپنی تحریرو تقریر کو روک دیا تھا ۔حتّٰی کہ جب میعاد ختم ہونے کے قریب آئی تو اس کا خوف اس قدر ترقی کر گیا کہ پادریوں کو اسے سخت شراب پلا پلا کر بدمست کرنا پڑا ۔کیا یہ باتیں اس بات کی علامت نہیں کہ خدائی پیشگوئی کا خوف اس کے دل پر غالب ہو گیاتھا ۔اور وہ اپنے آپ کو اس عذاب سے بچانا چاہتا تھا۔پس خدا نے پیشگوئی کی شرط کے مطابق اسے عذاب موت سے بچا لیا۔اور ہمارے مخالف مولویوں کا یہ کہنا کہ آتھم کا ڈر پیشگوئی کے خوف کی وجہ سے نہ تھا ۔بلکہ اس لئے تھا کہ کہیں احمدی اسے قتل نہ کردیں اور اسی وجہ سے وہ اپنی جان کی حفاظت کرتا تھا ۔ ایک نہایت ابلہانہ خیال ہے ۔کیونکہ دشمن کی طرف سے کسی سازش وغیرہ کا خوف کرنا اور اس کے مقابل میں احتیاطی تجاویز عمل میں لانا ایک اور بات ہے۔ مگر جس قسم کا خوف آتھم نے ظاہرکیا وہ ایک بالکل ہی اور چیز ہے ۔ ہم کو دونوں قسم کے خوفوںکی نوعیت پر غور کرنا چاہیے اور پھر رائے لگانی چاہیے کہ جس قسم کا خوف اور بے چینی آتھم نے ظاہر کی آیا وہ دشمن کی شرارت سے خوف کر کے احتیاطی تجاویز عمل میں لانے والی قسم میںداخل ہے یا پیشگوئی سے مرعوب ہو کر بد حواس ہو جانے والے خوف میں داخل ہے ۔ہم یقین کر تے ہیں کہ جو شخص تعصب سے الگ ہو کر میعاد کے اندر آتھم کے حالات پر غور کرے گا وہ اس بات کو تسلیم کر نے پر مجبور ہوگا کہ جس قسم کے خوف کا آتھم نے اظہار کیا وہ دشمن سے بچنے والا خوف ہر گز نہیں تھا بلکہ اور قسم کا خوف تھا ۔پس جاہل لوگوں کی طرح صرف یہ پکارتے رہنا کہ ہر آدمی دشمن کی شرارت سے بچنے کیلئے خوف کرتا ہے اس لئے اگر آتھم نے خوف کا اظہار کیاتوکیا ہوا۔یا تو پر لے درجہ کی جہالت اور بے وقوفی ہے اور یا دیدہ دانستہ مخلوق خدا کو دھوکا دینا ہے ۔
اور اس جگہ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ نظام عالم خد اکی دو صفات پر چل رہا ہے اور درحقیقت ہر ایک حکومت ان دو صفتوں پر ہی چلتی ہے ۔ایک صفت علم ہے اور ایک صفت قدرت۔ اور جتنی جتنی یہ صفات زیادہ ترقی یافتہ ہو تی ہیں انتظام حکومت بہتر ہو تا چلا جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ خدا وند تعالیٰ کی یہ صفات اپنے انتہائی کمال میںہیںیعنی خدا کا علم بھی کامل ہے اور قدرت بھی کامل۔ یعنی نہ تو کوئی علم کی بات ہے جواس سے پوشیدہ ہے اور نہ کوئی قدرت کا امر ہے جوا س کی طاقت سے باہر ہے ۔یہ وہ دو ستون ہیں جن کے اوپر اس کا عرش قائم ہے۔ پس جب وہ اپنا کوئی رسول بھیجتا ہے تو اپنی تجلّی کیلئے اسکے ذریعہ اپنی ان صفات کی دو نہریں جاری کر دیتا ہے تا دنیا پر ظاہر کرے کہ سب حکومت میرے ہاتھ میں ہے اور میں نے ہی اسے رسول بنا کر بھیجا ہے ۔بعض آیات وہ اپنے رسول کے ذریعہ ایسی ظاہر کرتا ہے جن سے اسے اپنے علم ازلی کا اظہار مقصود ہوتا ہے اور بعض آیات ایسی ظاہر کر تا ہے جن سے اسے اپنی قدرت کاملہ کا اظہار مقصود ہو تا ہے اور وہ ایسا نہیں کرتا کہ صرف ایک قسم کے نشان ظاہر کر ے کیونکہ حکومت کیلئے ہر د وصفات کا ہونا ضروری ہے ۔علم خواہ کتنا کامل ہو مگر بغیر قدرت کے ناقص ہے اور قدرت خواہ کتنی کامل ہو مگر بغیر علم کے ناقص ہے پس کمال تصرف کا اظہار نہیں ہوسکتا جب تک دو نو صفات کااظہار نہ ہو ۔اس لئے نبیوں کی پیشگوئیاں بھی جو آیات اللہ میں داخل ہیں دو قسم کی ہوتی ہیں ۔اوّل وہ جو خدا کی صفت علیم کے ماتحت ہوتی ہیں یعنی جن سے خد اکو اپنے علم ازلی کا اظہار مقصود ہوتا ہے ۔دوسری وہ جو خدا کی صفت قدیر کے ماتحت ہوتی ہیں یعنی جن سے خدا کو اپنی قدر ت کا ملہ کا اظہار مقصود ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ ہر قسم کی پیشگوئیوں کے الگ الگ حالات ہونگے جن سے وہ پہچانی جائیں گی اور ان کی صداقت کے پرکھنے کیلئے الگ الگ معیار ہونگے اور یہ ہماری سخت نادانی ہو گی کہ ان دونوں قسموں کو مخلوط کر کے ان پر ایک ہی حکم لگا ویں اور ایک ہی قسم کے معیاروں سے دونوں کو پرکھیں۔ بلکہ علم والی پیشگوئیوں کو علم کے معیار سے پرکھنا ہوگا کیونکہ وہ اظہار علم کے راستہ پر چلیں گی اور قدرت والی پیشگوئیوں کو قدرت کے معیار سے پرکھنا ہو گا کیونکہ وہ قدرت نمائی کے راستہ پر چلیں گی اور ممکن نہیں کہ وہ اپنا راستہ بدلیں ۔پس جب ہمارے سامنے کوئی پیشگوئی آئے تو سب سے پہلے ہمیں اس کے حالات پر غور کر کے اس کی قسم کی تشخیص کر نی ہوگی ۔اور پھر اس تشخیص کے بعد جس قسم میں سے وہ ثابت ہو اس کے معیاروں سے اس کی صداقت کو پرکھنا ہوگا ۔ہمارے مخالفوں کو یہ سخت دھوکا لگا ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود ؑ کی سب پیشگوئیوں کو خدا کے علم ازلی کے ماتحت سمجھتے ہیں اور اسی معیار سے انہیں ناپتے ہیں ۔کیونکہ ہمیشہ ان کی یہی دلیل ہو تی ہے کہ بس جو صورت اور الفاظ جو پیشگوئی میں بتائے گئے ہیں بعینہٖ وہی وقوع میں آنے چاہئیں ورنہ سمجھا جائے گا کہ پیشگوئی غلط گئی۔حالانکہ یہ شرط اظہار علم والی پیشگوئیوں کی ہے ۔بلکہ ان میں مجاز کا دخل مانا جاوے تو ان کے لئے بھی ظاہری صور ت کا فرق ہو سکتا ہے۔گو تخلف اور نسخ ممکن نہیں ، کیونکہ تخلف اور نسخ علم ازلی کے منافی ہیں ۔لیکن اظہار قدرت والی پیشگوئیوں میں حالات کے بدل جانے سے تخلف ہو سکتا ہے ۔کیونکہ حالات بدل جانے کی صورت میں تخلف قدرت نمائی کے منافی نہیں ہوتا بلکہ مؤید ہو تا ہے ۔دونوں قسم کی پیشگوئیوں کی مثال یوں سمجھنی چاہیے کہ مثلاً کسی ملہم کو کسی شخص کے متعلق الہام ہوتا ہے کہ وہ فلاں کا م کر ے گا ۔اور حالات ظاہر کر رہے ہیں کہ یہ الہام خدا کی صفت علیم کے ماتحت ہے ۔ صفت قدیر کے ماتحت نہیں ہے۔یعنی اس کے اس فعل کے کر لینے کو خد اکی قدرت کے اظہار سے کو ئی طبعی تعلق نہیں ، بلکہ محض اظہار علم مرا د ہے تو اب خواہ اس شخص میں کتنے تغیرات آویں وہ ضرور اس بتا ئے ہوئے کا م کو کرے گا ۔ورنہ خدا کا علم ازلی غلط جاتا ہے ،جو ناممکن ہے لیکن اگر کسی ملہم کو یہ بتا یا جاتا ہے کہ ہم تیرے فلاں دشمن کو جو تیری دشمنی میں کمر بستہ ہے ذلت کے عذاب میں مبتلا کر یں گے تو ظاہر ہے کہ یہ پیشگوئی صفت علیم کے ماتحت نہیں ۔بلکہ صفت قدیر کے ماتحت سمجھی جاوے گی۔لہٰذااگر وہ دشمن جس کے متعلق ذلت کی پیشگوئی ہے اپنے اندر تغیر پیدا کر تا ہے تو خوب سوچ لو کہ خدا کی وہی صفت قدیر جو پہلے اس دشمن کی ذلت کی پیشگوئی کی محر ک ہو ئی تھی اب اسے ذلت سے بچائے جانے کا موجب ہو گی ۔یعنی جس طرح ایسے شخص کے تغیر نہ کر نے کی صور ت میں اس کی ذلت خدا کی قدرت کے اظہار کا موجب تھی ۔اب اس کا ذلت سے بچایا جانا قدرت الہٰی کے اظہار کا موجب ہو گا ۔بلکہ اگر باوجود تغیر کے اسے ذلت کا عذاب آدبائے تو صفت قدرت جس کا اظہار مقصود تھا مشتبہ ہو کر پیشگوئی کی اصل غرض ہی فوت ہو جائے گی کیونکہ قدرت کاملہ اس کا نام نہیں کہ جب انجن چل گیا تو پھر جو اپنا بیگانہ سامنے آیا اُسے پیس ڈالا ۔بلکہ قدرت کاملہ کے یہ معنی ہیں کہ جب کوئی عذاب کا مستحق ہو تو اسے عذاب دے سکے اور کوئی چیز اسے عذاب سے بچا نہ سکے ۔ اور جب کوئی رحمت کا مستحق بنے تو اس پر رحمت نازل کر سکے اور پھر کوئی چیز بھی اسے عذاب نہ دے سکے یعنی قدیر وہ ہے جس کی قدرت کا اظہار موقعہ کے مطابق ہو ورنہ اگر موقعہ کے مطابق قدرت کا اظہار نہ ہو تو وہ قدیر نہیں بلکہ یاتو مشین کا ایک پہیہ ہے اور یا ظلم و ستم کا مجسمہ ۔
تاریخی طور پر علم ازلی اور قدرت کاملہ والی پیشگوئیوں کی مثال چاہو تو یوں سمجھو کہ حضرت فاطمہ کی وفات کی پیشگوئی جو آنحضرت ﷺ نے اپنی مرض الموت میں فرمائی علم ازلی کے ماتحت تھی اور یونس نبی نے اپنی قوم پر عذاب آنے کی جو پیشگوئی کی وہ قدرت کاملہ کے اظہار کیلئے تھی ۔
یہ باتیں ہمارے نزدیک بینات میں داخل ہیں ۔پس مخالفوں کے استہزاء سے ہم ان بینات کو کس طرح چھوڑ سکتے ہیں ۔ عوام کو دھو کادے لینا اور بات ہے اور حق کی پیروی اور بات۔
اس جگہ ایک شبہ پیدا ہو تا ہے کہ جب خدا کو اپنی صفت علیم کے ماتحت یہ علم ہو تا ہے کہ صفت قدیر کے ماتحت جو فلاں پیشگوئی کی گئی ہے اس میںشخص موعود لہ کے فلاں تغیر کی وجہ سے اس اس رنگ کا تخلف ہو جائے گا تو پھر خدا وہی انتہائی بات ہی کیوں نہیں بتا دیتا جو بالآخر وقوع میں آنی ہوتی ہے یعنی وہ جو بالآخر واقعی ہو نا ہوتا ہے وہی لوگو ں کو بتا دیا جاوے تا لوگ ٹھو کر سے بچ جاویں ۔اس شبہ کا یہ جواب ہے کہ اگر ایسا کیا جاوے تو پھر اس کے یہ معنے ہو نگے کہ تمام پیشگوئیاں صفت علیم کے ماتحت ہوا کریں ۔صفت قدیر کے ماتحت کوئی بھی پیشگوئی نہ ہو ۔کیونکہ جب لازمی طور پر آخری بات بتائی جاوے گی تو لا محالہ وہ پیشگوئی صفت قدیر سے نکل کر صفت علیم کے ماتحت آجائے گی ۔ حالانکہ ترقی عرفان و ایمان کیلئے ہر دو قسم کی پیشگوئیوں کا ہونا ضروری ہے بلکہ اظہار قدرت والی پیشگوئیاں جہاں ایک طرف اپنے اندر ابتلا کا پہلو رکھتی ہیں وہاں ایمان و عرفا ن کو ترقی دینے والا مادہ بھی ان میں بہت زیادہ ہوتا ہے ۔ اس لئے خدا کی مصلحت نے چاہا کہ خدا کے نبیوں کے منہ سے ہر دو قسم کی پیشگوئیاں ظاہر ہو ں ۔
اس جگہ ایک بات کا یاد رکھنا نہایت ضروری ہے کہ خاکسارنے جو یہ لکھا ہے کہ بعض پیشگوئیاں علم ازلی کے اظہار کیلئے ہوتی ہیں اور بعض قدرت نمائی کیلئے تو اس سے یہ مراد نہیں کہ قدرت نمائی والی پیشگوئیاں علم غیب کے عنصر سے خالی ہوتی ہیں ۔کیونکہ کوئی پیشگوئی خواہ وہ کسی غرض سے کی گئی ہو علم غیب کے عنصر سے خالی نہیں ہوتی ۔ اور دراصل پیشگوئی کا لفظ ہی علم غیب کو ظاہر کر رہا ہے ۔پس قدرت نمائی والی پیشگوئی سے مراد یہ ہے کہ عاقبۃ الامور والے علم کا اظہار اس میں مقصود نہیں ہوتا ورنہ درمیانی حالات اور ان کے تغیر ات اور ان کے نتائج کے متعلق جو علم غیب خدا کو ہے اس کا اظہار تو قدرت نمائی والی پیشگوئی میں بھی مقصود ہوتا ہے۔غرض جو علم کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اس سے عاقبۃ الامور والا علم مراد ہے نہ کہ مطلقاً علم غیب جو ہر پیشگوئی کا جز و غیر منفک ہے اور یہ خیال کہ اگر کوئی ایسی پیشگوئی ہو جو قدرت نمائی کی غرض سے کی گئی ہو مگر وہ ایسی ثابت ہو کہ جس شخص یا چیز کے متعلق پیشگوئی کی گئی تھی اس کے حالات تبدیل نہیں ہو ئے یعنی جس حالت کی بنا پر یہ پیشگوئی تھی وہ قائم رہی اور پیشگوئی بغیر کسی جگہ راستہ بدلنے کے سیدھی اپنے نشانہ پر جا لگی تو اس صورت میں اظہار علم والی پیشگوئی اور اس قسم کی اقتداری پیشگوئی کا راستہ ایک ہوجائے گا اور کوئی امتیاز نہ رہے گا ۔تو اس کا جواب یہ ہے کہ بیشک ایسا ہوسکتا ہے کہ دونوں کا راستہ عملاً ایک ہو جاوے مگر دونوں اپنے مقصود کے لحاظ سے ممتاز رہیں گی ۔یعنی حالات بتا رہے ہونگے کہ ایک میں مقصود اظہار علم ازلی ہے اور دوسری میں اظہار قدرت کاملہ ۔اور ہمیں اس سے بھی انکا ر نہیں کہ ایسی صورت میںاظہار قدرت اور اظہار علم ہر دو مقصود ہو سکتے ہیں ۔
اس جگہ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ یہ جو عام طور پر کہا جاتا ہے کہ وعید کی پیشگوئی ٹل جاتی ہیں اس سے یہ مراد نہیں کہ وعید کی پیشگوئی کے اندر کو ئی خاص تخلف کا مادہ ہوتا ہے ۔بلکہ اس سے بھی یہی مراد ہے کہ وعید چونکہ اظہار قدرت کیلئے ہوتا ہے اس لئے اس میں تخلف ممکن ہو تا ہے اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ پیشگوئی کے ٹل جانے یا تخلف پیدا ہو جانے سے یہ مراد نہیں ہوتی کہ پیشگوئی نعوذباللہ غلط گئی ۔کیونکہ خدائی پیشگوئی خواہ کسی قسم کی ہو غلط ہر گز نہیں جاسکتی بلکہ بہر حال پوری ہوتی ہے ۔پس جب ہم تخلف یا ٹل جانے وغیرہ کا لفظ بولتے ہیں تو مراد یہ ہو تی ہے کہ جو صورت قدرت الہٰی کے اظہار کیلئے بتائی گئی تھی وہ چونکہ حالات کے بدل جانے سے قدرت الہٰی کے اظہار کا موجب نہیں رہی اس لئے قدرت الہٰی کا اظہار دوسری صورت میں کر دیا گیا ۔پس پیشگوئی غلط نہ گئی کیونکہ اس کی اصل غرض اظہار قدرت تھی اور وہ غرض پوری ہوگئی ۔ہاں اگر حالات بدل جانے کے باوجود پیشگوئی پہلی صورت میں ہی ظاہر ہو تی توپھر بے شک پیشگوئی غلط جاتی ۔ کیونکہ اظہار قدرت الہٰی جو اصل مقصود تھا وقوع میں نہ آتا ۔
آتھم کی پیشگوئی بھی اظہار قدرت الہٰی کیلئے تھی نہ کہ اظہار علم کیلئے جیسا کہ پیشگوئی کے حالات اور پیشگوئی کے الفاظ سے ظاہرہے خصوصاً یہ الفاظ کہ ’’ بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کر ے‘‘ کیونکہ اگر اظہار علم مقصود ہوتا تو اس میں کو ئی شرط وغیرہ نہیں ہوسکتی تھی۔ پس جب یہ ثابت ہو گیا کہ یہ پیشگوئی اظہار قدرت کیلئے تھی تو پھر ماننا پڑیگا کہ پیشگوئی پوری ہوگئی کیونکہ اظہار قدرت ہو گیا کَمَا مَرَّـاور آتھم کی پیشگوئی تو عام اظہار قدرت والی پیشگوئیوں میں بھی ممتاز حیثیت رکھتی ہے کیونکہ یہ پیشگوئی ایک مرکب پیشگوئی ہے ۔جس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر آتھم حق کی طرف رجوع کر ے گا تو پندرہ ماہ میں نہیں مرے گااور اگر رجوع نہ کر ے گا تو پندرہ ماہ کے اند ر اندر ہاویہ میںگرا یا جاوے گا ۔پس بوجہ مرکب پیشگوئی ہونے کے یہ پیشگوئی عام پیشگوئیوں سے اپنی شان میں ارفع ہے کیونکہ جو اظہار قدرت کی شان مرکب یعنی ایک سے زیادہ پہلو والی پیشگوئیوں میں ظاہر ہوتی ہے وہ مفرد پیشگوئیوں میں نہیں ہوتی ۔ جس کی آنکھیں ہو دیکھے ۔
{ 176} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کاامرتسر میں آتھم کے ساتھ مباحثہ ہو ا تو دوران مباحثہ میں ایک دن عیسائیوں نے خفیہ طور پر ایک اندھااور ایک بہرہ اور ایک لنگڑا مباحثہ کی جگہ میں لا کر ایک طرف بٹھا دیئے اور پھر اپنی تقریر میں حضرت صاحب کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ مسیح ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔لیجئے یہ اندھے اور بہرے اور لنگڑے آدمی موجود ہیں مسیح کی طرح ان کو ہاتھ لگا کر اچھا کر دیجئے۔میرصاحب بیان کرتے ہیں کہ ہم سب حیران تھے کہ دیکھئے اب حضرت صاحب اس کا کیا جواب دیتے ہیں ۔پھر جب حضرت صاحب نے اپنا جواب لکھوانا شروع کیا تو فرمایا کہ میں تواسبات کو نہیں مانتا کہ مسیح اس طر ح ہاتھ لگا کر اندھوں اور بہروں اور لنگڑوں کو اچھا کر دیتا تھا ۔اس لئے مجھ پر یہ مطالبہ کوئی حجت نہیں ہو سکتا ۔ہاں البتہ آپ لوگ مسیح کے معجزے اس رنگ میں تسلیم کرتے ہیں اور دوسری طرف آپ کا یہ بھی ایمان ہے کہ جس شخص میں ایک رائی کے برابر بھی ایمان ہو وہ وہی کچھ دکھا سکتا ہے جو مسیح دکھا تا تھا ۔پس میں آپ کا بڑا مشکور ہو ں کہ آپ نے مجھے اندھوں اور بہروں اور لنگڑوں کی تلاش سے بچا لیا ۔ اب آپ ہی کا تحفہ آپ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے کہ یہ اندھے بہرے لنگڑے حاضر ہیں اگر آپ میں ایک رائی کے برابر بھی ایمان ہے تو مسیح کی سنت پر آپ ان کو اچھا کر دیں ۔میر صاحب بیان کر تے ہیں کہ حضرت صاحب نے جب یہ فرمایا تو پادریوں کی ہوائیاں اُڑ گئیںاور انہوں نے جھٹ اشارہ کر کے ان لوگوں … کو وہاںسے رخصت کروا دیا ۔میر صاحب بیان کرتے ہیں کہ وہ نظارہ بھی نہایت عجیب تھا کہ پہلے تو عیسائیوں نے اتنے شوق سے ان لوگوں کو پیش کیا اور پھر ان کو خود ہی ادھر اُدھر چھپانے لگ گئے۔
{ 177} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے خلیفہ نورالدین صاحب جمونی نے کہ آتھم کے مباحثہ میںمَیں بھی لکھنے والوں میں سے تھا ۔ آخری دن جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آتھم کی پیشگوئی کا اعلان فرمایا تو آتھم نے خوفزدہ ہو کر کانوں کی طرف ہاتھ اُٹھائے اور دانتوں میں انگلی لی اور کہا کہ میں نے تو دجال نہیں کہا ۔
{ 178} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے ڈاکٹر میرمحمد اسماعیل صاحب نے کہ ایک دفعہ میاں (یعنی خلیفۃ المسیح ثانی )دالان کے دروازے بند کرکے چڑیاںپکڑ رہے تھے کہ حضرت صاحب نے جمعہ کی نماز کیلئے باہر جاتے ہو ئے ان کو دیکھ لیا اور فرمایا میاں گھر کی چڑیاں نہیں پکڑا کر تے۔ جس میں رحم نہیں اس میں ایمان نہیں ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ بعض باتیں چھوٹی ہو تی ہیں مگر ان سے کہنے والے کے اخلاق پر بڑی روشنی پڑتی ہے ۔
{ 179} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ ایک دفعہ حضرت صاحب جالندھر جاکر قریباً ایک ماہ ٹھہرے تھے اور ان دنوں میں محمدی بیگم کے ایک حقیقی ماموں نے محمدی بیگم کا حضرت صاحب سے رشتہ کرا دینے کی کوشش کی تھی ۔مگر کامیاب نہیں ہوا۔ یہ ان دنوںکی بات ہے کہ جب محمدی بیگم کا والد مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری زندہ تھا اور ابھی محمدی بیگم کا مرزا سلطان محمد سے رشتہ نہیں ہوا تھا ۔محمدی بیگم کا یہ ماموں جالندھر اور ہوشیار پور کے درمیا ن یکہ میں آیا جایا کرتا تھا ۔اور وہ حضرت صاحب سے کچھ انعام کا بھی خواہاں تھا اور چونکہ محمدی بیگم کے نکاح کا عقدہ زیادہ تر اسی شخص کے ہاتھ میں تھا ۔اس لئے حضرت صاحب نے اس سے کچھ انعام کا وعدہ بھی کر لیا تھا ۔خاکسارعر ض کرتاہے کہ یہ شخص اس معاملہ میں بد نیت تھا اور حضرت صاحب سے فقط کچھ روپیہ اُڑانا چاہتا تھا کیونکہ بعد میں یہی شخص اور اسکے دوسرے ساتھی اس لڑکی کے دوسری جگہ بیاہے جانے کا موجب ہو ئے ۔مگر مجھے والدہ صاحبہ سے معلوم ہو ا کہ حضرت صاحب نے بھی اس شخص کو روپیہ دینے کے متعلق بعض حکیمانہ احتیاطیں ملحوظ رکھی ہو ئی تھیں ۔والدہ صاحبہ نے یہ بھی بیان کیا کہ اس کے ساتھ محمد ی بیگم کا بڑا بھائی بھی شریک تھا ۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ بعض لوگ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ جب خدا کی طرف سے پیشگوئیاں تھیں تو حضرت صاحب خود ان کے پورا کر نے کی کیوں کوشش کیا کرتے تھے مگر یہ ایک محض جہالت کا اعتراض ہے ۔کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے باوجود خدائی وعدوں کے اپنی پیشگوئیوں کو پورا کر نے کیلئے ہر جائز طریق پر کوشش نہ کی ہو ۔درحقیقت خدا کے ارادوں کو پوراکر نے کی کوشش کر نے سے یہ مراد نہیں ہوتا کہ نعوذ باللہ خدا انسان کی امداد کا محتاج ہے بلکہ اس سے بعض اور باتیں مقصود ہوتی ہیں ۔ مثلاً
اوّل ۔اگر انسان خود ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جاوے اور یہ سمجھ لے کہ خدا کا وعدہ ہے وہ خود پورا کر ے گا اور باوجود طاقت رکھنے کے کوشش نہ کرے تو یہ بات خدا کے استغنائے ذاتی کو برانگیخت کر نے کا موجب ہوتی ہے ۔اور یہ وہ مقام ہے جس سے انبیا ء تک کانپتے ہیں ۔
دوسرے یہ کہ یہ ایک محبت کا طبعی تقاضاہوتا ہے کہ انسان اپنے محبوب کے ارادوں کے پورا کرنے میں اپنی طرف سے کوشش کرے اور یہ محبت کا جذبہ اس قدر طاقت رکھتا ہے کہ با وجود اس علم کے کہ خدا کو انسانی نصرت کی ضرورت نہیں عاشق انسان نچلا نہیں بیٹھ سکتا ۔
تیسرے چونکہ خدا کے تمام ارادوں میں دین کا غلبہ مقصود ہوتا ہے ۔اس لئے نبی اپنے فرض منصبی کے لحاظ سے بھی اس میں ہاتھ پاؤں ہلانے سے باز نہیں رہ سکتا۔
چوتھے ۔خدا کی یہ سنت ہے کہ سوائے بالکل استثنائی صورتوں کے اپنے کاموں میں اسباب کے سلسلہ کو ملحوظ رکھتا ہے پس نبی کی کوشش بھی ان اسباب میں سے ایک سبب ہوتی ہے ۔ وغیر ذالک (مگر یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ایسی کوشش صرف رحمت کی پیش گوئیوں میں ہوتی ہے عذاب کی پیش گوئیوں کے متعلق انبیاء کی یہی سنت ہے کہ ان میں سوائے خاص حالات کے معاملہ خدا پر چھوڑ دیتے ہیں۔ )
نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ محمدی بیگم کے نکاح کی پیشگوئی میں مخالفوں کی طرف سے بڑا طوفان بے تمیزی بر پا ہوا ہے ۔حالانکہ اگر وہ سنت اللہ کے طریق پر غور کرتے تو بات مشکل نہ تھی ۔دراصل سب سے پہلے ہم کو اس بات کا فیصلہ کرنا چاہیے کہ یہ پیشگوئی کس غرض اور کن حالات کے ما تحت تھی ۔جب تک اس سوال کا فیصلہ نہ ہو پیشگوئی کا سمجھنا محال ہے ۔سو جاننا چاہیے کہ یہ خیال کرنا کہ حضرت مسیح موعودؑ اس شادی سے کسی قسم کی اپنی بڑائی چاہتے تھے ۔ایک مضحکہ خیز بات ہے ۔کیونکہ خدا کے فضل سے مرزا احمد بیگ کا خاندان کیابلحاظ حسب نسب ،کیا بلحاظ دنیاوی عز ت وجاہت ،کیا بلحاظ مال و دولت حضرت مسیح موعود ؑ کے خاندان کا مقابلہ نہیں کر سکتا ۔اور یہ ایک ایسی بیّن بات ہے جس پر ہم کو کسی دلیل کے لانے کی ضرورت نہیں ۔ پس شادی کی یہ وجہ تو ہو نہیں سکتی تھی باقی رہا یہ خیال کہ محمدی بیگم میں خود کوئی خاص وجہ کشش موجود تھی جس کی وجہ سے حضرت کو یہ خیال ہوا۔ سو جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ بھی باطل ہے ۔علاوہ ازیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات زندگی کو دیکھو۔ کیا انصاف کومدّنظر رکھتے ہوئے آپؑ کی طرف کوئی نفسانی خواہش منسوب کی جا سکتی ہے۔ عقل سے کورے دشمن اور اندھے معاند کاہمارے پاس کوئی علاج نہیں ۔مگر وہ شخص جو کچھ بھی عقل اور کچھ بھی انصاف کا مادہ رکھتاہے اس بات کو تسلیم کر نے پر مجبور ہو گا کہ کم از کم جہاں تک نفسانی خواہشات کا تعلق ہے ۔حضرت مسیح موعود ؑ کا عظیم الشان پر سنل کریکٹر یعنی سیر ت و خلق ذاتی ایسے خیال کو دور ہی سے دھکے دیتا ہے۔ تو پھر سوال ہو تا ہے کہ اس پیشگوئی کی اصل غرض کیا تھی؟سو اس کا یہ جواب ہے کہ اس کی غرض وہی تھی جو حضرت مسیح موعود نے اپنی تصانیف میں لکھی ہے ۔اور وہ یہ کہ حضرت مسیح موعود ؑ کے قریبی رشتہ دار یعنی محمدی بیگم کے حقیقی ماموں اور خالہ اور پھوپھی اور والد وغیرہ پرلے درجہ کے بے دین لوگ تھے اور دین داری سے ان کو کچھ بھی مس نہ تھا بلکہ دین کی باتوں پر تمسخر اُڑا تے تھے اور اس معاملہ میں لڑکی کے ماموں لیڈر تھے اور مرزا احمد بیگ ان کا تابع تھا اور با لکل ان کے زیر اثر ہو کر ان کے اشارہ پر چلتا تھا ۔اور جیسا کہ منکرین حق کا دستور ہے یہ لوگ ہمیشہ حضرت مسیح موعود ؑ سے کسی نشان کے طالب رہتے تھے اور حضرت مسیح موعود ؑ کے دعویٰ الہام پر ہنسی اُڑایا کرتے تھے ۔ اس دوران میں اتفاق ایسا ہوا کہ حضرت صاحب کا ایک چچا زاد بھائی غلام حسین مفقود الخبر ہو کر کالمیّت سمجھا گیا اور اسکے ترکہ کی تقسیم کا سوال پیدا ہوا ۔ مرزا غلام حسین کی بیوہ مسماۃ امام بی بی مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری کی بہن تھی۔اس لئے مرز ااحمد بیگ نے اپنی بہن امام بی بی اور مرزا نظام الدین اور مرزا امام الدین وغیرہ کے مشورہ سے یہ کوشش کی کہ غلام حسین مذکور کا ترکہ اپنے لڑکے یعنی محمدی بیگم کے بڑے بھائی محمد بیگ کے نام کر وا لے مگر یہ بغیر رضامندی حضرت مسیح موعود ؑ ہو نہیں سکتا تھا ۔اس لئے نا چار مرزا احمد بیگ حضرت صاحب کی طرف رجوع ہوا اوربڑی عاجزی اور اصرار کے ساتھ آپ سے درخواست کی کہ آپ اس معاملہ میں اپنی اجازت دے دیں ۔ قریب تھا کہ حضرت صاحب تیار ہو جاتے مگر پھر اس خیال سے کہ اس معاملہ میں استخارہ کر لینا ضروری ہے رُک گئے اور بعد استخارہ جواب دینے کا وعدہ فرمایا۔چنانچہ اس کے بعد مرزا احمد بیگ کی با ر بار کی درخواست پر حضرت صاحب نے دریں بارہ استخارہ فرمایا تو جواب میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے و ہ الہامات ہو ئے جو محمدی بیگم والی پیشگوئی کا بنیادی پتھر ہیں گویا ان لوگوں کو نشان دکھا نے کا وقت آگیا۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جس کا مفہوم یہ ہے کہ احمد بیگ کی دختر کلاں محمدی بیگم کیلئے ان سے تحریک کر۔ اگر انہوں نے مان لیا تو ان کیلئے یہ ایک رحمت کانشان ہوگا اور یہ خدا کی طرف سے بے شمار رحمت و برکت پائیں گے اور اگر انہوں نے انکار کیا تو پھر خدا ان کو عذاب کا نشان دکھا ئے گا اور ان پر مختلف قسم کی آفات اور مصیبتیں آئیں گی اور اس صورت میں والد اس لڑکی کا لڑکی کے کسی اور جگہ نکاح کئے جانے کی تاریخ سے تین سال کے اندر اندر ہلاک ہوجائے گا اور جس سے نکاح ہو گا وہ بھی ڈھائی سال میں مر جائے گا۔ (نیز دیکھو روایت نمبر ۱۲۷) یہ اصل پیشگوئی تھی جو اس وقت کی گئی اب اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس پیشگوئی کی اصل غرض محمدی بیگم کے والد اور ماموؤں کی بار بار کی درخواست پر ایک نشان دکھانا تھی نہ کہ کچھ اور۔ نیزیہ بھی ظاہر ہے کہ یہ پیشگوئی اظہار قدرت الٰہی کے ماتحت تھی نہ کہ اظہار علم الٰہی کے لئے۔ کیونکہ پیشگوئی میں صاف موجود تھا کہ اگر مان لو گے تو یوں ہوگا اور اگر انکار کرو گے تو یوں ہوگا گویا خدا کو اپنا اقتدار دکھانا منظور تھا اور منشاء الہٰی میں یہ تھا کہ یہ دکھائے کہ حضرت مسیح موعود اور جو بھی آپ کے ساتھ عقیدت مندانہ تعلق رکھے گا وہ خدا سے رحمت اور برکت پائے گا اور جو آپ کی عداوت میں کھڑا ہوگا وہ خدا کے عذاب کا مورد ہوگا ۔چنانچہ اس پیشگوئی کا اعلان ہوگیا اور دنیا دیکھ چکی ہے کہ اس خاندان نے خدائی منشاء کے خلاف چل کر کیا کیا خدائی قہر و غضب کے نشان دیکھے ۔
مرزااحمد بیگ تاریخ نکاح سے چند ماہ کے اندر اندر تپ محرقہ سے ہوشیار پور کے شفاخانہ میں رخصت ہوا اور محمدی بیگم کی والدہ اپنے پانچ چھ بچوںکے گراں بوجھ کے نیچے دبی ہوئی بیوہ رہ گئی اور ساری خوشیاں خاک میں مل گئیں اور علاوہ مرزا احمد بیگ کے اور بعض موتیں بھی اس خاندان میں ہوئیں اور بعض دوسرے مصائب بھی آئے ۔دوسری طرف محمدی بیگم کے ماموؤں پر جس طرح خدائی عذاب کی تجلی ظاہر ہوئی وہ ایک نہایت عبرت انگیز کہانی ہے ۔یہ تین بھائی تھے اور ان کا گھر اس وقت خانگی رونق اور چہل پہل کا ایک بہترین نمونہ تھا ۔مگر پھر اسکے بعد ان پر خدائی چکی چلی اور وہ مختلف قسم کی تنگیوں اور مصیبتوںمیں مبتلا ہوئے اور انکا گھر خالی ہوناشروع ہوا حتیّٰ کہ وہ وقت آیا کہ سارے گھر میں صرف ایک یتیم بچہ رہ گیا اور باقی سب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کی دن دگنی رات چوگنی ترقی اور اپنی تباہی دیکھتے ہوئے رخصت ہوئے ۔کیا یہ نظارے خدائی قدرت نمائیوں کی چمکتی ہو ئی تجلیاں نہیں ؟ پھر اور سنو وہ یتیم بچہ جو اپنے بڑے وسیع گھرانے میں اکیلا چھوڑا گیا تھا آج اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود ؑ کے حلقہ بگوشوں میں شمار کرتا ہے اور یہی وہ خدائی تعویذ ہے جس نے اسے تباہی سے بچا رکھا ہے ۔
اب رہا یہ سوال کہ محمدی بیگم کا خاوند مرزا سلطان محمد کیوں میعاد کے اندر نہیں مرا اور اب تک بقید حیات ہے۔ سو جاننا چاہیے کہ وہی قدرت الہٰی جس نے مرزا احمد بیگ کو ہلاک کیا، مر زا سلطان محمد کے بچانے کا موجب ہوئی ۔محمدی بیگم کے نکاح سے پہلے اور نکا ح کے وقت جو حالات تھے وہ اس بات کے مقتضی تھے کہ قدرت الہٰی عذاب کے رنگ میں ظاہر ہو ۔لیکن جب پیشگوئی کے نتیجہ میں مرزا احمد بیگ کی بے وقت موت نے مرزا سلطان محمد کے خاندان میں ایک تہلکہ مچا دیا اور یہ لوگ سخت خوف زدہ ہو کر حضرت مسیح موعود ؑ کی طرف عجزو انکسار کے ساتھ جھکے اور آپ سے دعا کی درخواستیں کیں تو اب سنت اللہ وَمَا کَانَ اللّٰہُ مُعَذِّ بَھُمْ وَھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ (الانفال :۳۴)کے مطابق قدرت نمائی مرزا سلطان محمد کے ہلاک کئے جانے کے ساتھ نہیں بلکہ بچائے جانے کے ساتھ وابستہ ہو گئی ۔خود مرزا سلطان محمدؐ کا رویہ مرزا احمد بیگ کی موت سے لے کر آج تک حضرت مسیح موعود ؑ کے ساتھ بہت مخلصانہ رہا ہے ۔ چنانچہ انہوں نے کئی موقعوں پر اپنی عقیدت اور اخلاص کا اظہار کیا ہے اور با وجود حضرت مسیح موعود ؑ کے دشمنوں کی طرف سے رنگا رنگ میں طمع اور غیرت اور جوش دلائے جانے کے کبھی کوئی لفظ مرزا سلطان محمد کی زبان سے حضرت صاحب کے خلاف نہیں نکلا ۔بلکہ جب کبھی کوئی لفظ منہ سے نکلاہے۔ تو تا ئید اور تعریف میں ہی نکلا ہے تو کیا کوئی عقل تجویز کر سکتی ہے کہ ایسے شخص کے متعلق خدا کی قدرت نمائی عذاب کی صورت میں ظاہر ہو گی ؟ایک ظالم سے ظالم انسان بھی اپنے گرے ہوئے دشمن پر وار نہیں کرتا تو کیا خدا جو ارحم الراحمین ہے اس شخص پر وار کرے گا جو اس کے سامنے گر کر اس کی پناہ میں آتا ہے ؟ اور اگر یہ کہو کہ جب خدا کو یہ معلوم تھا کہ مرزا سلطان محمد ؐ کے رشتہ دار نہایت عقیدت اور عاجزی کے ساتھ حضرت صاحب کی طرف جھکیں گے اور رحم اور دعا کے طالب ہو نگے اور خود مرزا سلطان محمد کا رویہ بھی حضرت مسیح موعود ؑ سے بڑا مخلصانہ ہو گاتو پھر کیوں اس کے متعلق ڈھائی سال میں ہلاک ہوجانے کی پیشگوئی کی گئی ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ شبہ اس لئے واقعہ ہو ا ہے کہ پیشگوئی کی غرض کو نہیں سمجھا گیا ۔پیشگوئی کی غرض جیسا کہ اوپربتا یا گیا ہے یہ نہ تھی کہ خدائے تعالیٰ اپنے علم ازلی کا اظہار کرے بلکہ پیشگوئی کی غرض یہ تھی کہ قدرت الہٰی کا اظہار کیا جاوے ۔جیسا کہ پیشگوئی کے الفاظ اور حالات سے بھی واضح ہوتا ہے کیونکہ اگر خدا کے علم ازلی کا اظہار مقصود ہوتا تو صرف ایک بات جوبالآخر وقوع میں آنی تھی بلا شرائط بتا دی جاتی لیکن ایسا نہیں کیا گیا بلکہ الفاظ کا مفہوم یہ تھا کہ اگر یہ لوگ مان لیں گے تو ان کیلئے یہ ایک رحمت کا نشان ہوگا اور اگر انکار کریں گے تو یہ ایک عذاب کا نشان ہوگا جس سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ علم ازلی کا اظہارمقصود نہ تھا بلکہ قدرت نمائی مقصود تھی ۔اسکے بعد اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس پیشگوئی کے متعلق امکاناً چار راستے کھلے تھے یعنی اوّل:۔ آخری حالت کے لحاظ سے مرزا سلطان محمد کے متعلق جو بات فی الواقع ہو نے والی تھی صرف وہ بتائی جاتی اور درمیانی حالات نظر انداز کر دیئے جاتے تا جب پیشگوئی کے مطابق وقوع میں آتا تو لوگوں کو پیشگوئی کے پورا ہو نے کا یقین ہوتا اور وہ فائدہ اُٹھاتے ۔ دوئم:۔ جب کہ مرزا سلطان محمد کے ڈھائی سال میں ہلاک ہو جانے کے متعلق پیشگوئی کر دی گئی تھی تو خواہ حالات کتنے بدلتے بہر حال اس کو پورا کیا جاتا یا خدائی تصرّف حالات کو بدلنے ہی نہ دیتا اور اس طرح لوگوں کو ٹھوکر سے بچایا جاتا۔ سوئم :۔ اگر حالات بدلنے سے پیشگوئی کا حکم بدل جانا تھا تو اس کے متعلق پہلے ہی اطلاع دے دی جاتی یعنی پیشگوئی میں ہی ایسے الفاظ رکھ دیئے جاتے کہ مثلا ً بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے یااس قسم کے کوئی اور الفاظ ہوتے تا لوگ پیشگوئی کو قطعی نہ سمجھتے ۔ چہارم:۔ موجودہ حالات پر حکم لگا دیا جاتا پھر اگر وہ حالات قائم رہتے تو وہی حکم وقوع میں آتا اور اگر حالات بدل جاتے تو نئے حالات کے مناسب حال حکم وقوع میں آتا ۔یہ وہ چار رستے تھے جو امکاناً اختیار کئے جاسکتے تھے لیکن ہر ایک عقل مند سوچ سکتا ہے کہ مقدم الذکر دو طریق قدرت نمائی کے منشاء کے منافی ہیں ۔کیونکہ پہلی صورت میں تو پیشگوئی قدرت نمائی کے دائرہ سے نکل کر اظہار علم ازلی کے دائرہ میں آجاتی ہے ۔کیونکہ جب پیشگوئی فریق مخالف کی خاص متمردانہ حالت پر مبنی تھی تو اس صورت میں حالات کو نظر انداز کرنااس کو قدرت نمائی کے دائرہ سے خارج کردیتا ہے ۔ہاں اگر اس کی بنیاد فریق متعلقہ کی کسی حالت پر نہ ہوتی تو پھر بے شک حالات اور ان کا تغیر نظر انداز کئے جاسکتے تھے مگراس صورت میں پیشگوئی اظہار قدرت کیلئے نہ رہتی بلکہ علم ازلی کے اظہار کے ماتحت آجاتی اور پیشگوئی کی اصل غرض ہی فوت ہو جاتی ۔اور اگر دوسرے طریق کو اختیار کیا جاتا تو یہ بات علاوہ کمال قدرت نمائی کے منافی اور سنت اللہ کے مخالف ہونے کے خدا کی مقدس ذات پر سخت اعتراض کا موجب ہوتی اور اس صورت میں بھی اصل غرض پیشگوئی کی باطل ہو جاتی ۔پس لا محالہ پیشگوئی کی غرض اظہار قدرت نمائی ثابت ہونے کے بعد ہم کو مؤخر الذکر دو طریقوں میں محدود ہونا پڑے گا اور یہ دونوں طریق ایسے ہیں کہ سنت اللہ سے ثابت ہیں ۔ تیسرے طریق پر تو کسی جرح کی گنجائش نہیں مگر ہاں چوتھے طریق پر بادی النظر میں یہ شبہ وارد ہوتا ہے کہ پیشگوئی کی شرط کو تیسرے طریق کے طور پر واضح کیوں نہ کیا جاوے مخفی کیوں رکھا جائے ۔سو اس کا جواب یہ ہے کہ جب قرآن مجید کے نص صریح سے یہ شرط بطور اصول کے بیان کر دی گئی ہے کہ حالات کے بدلنے سے اقتداری پیشگوئیوں میں قدرت نمائی کی صورت بدل جاتی ہے اور عقل انسانی کابھی یہی فتویٰ ہے کہ ایسا ہونا چاہیے کیونکہ اگر یہ نہ مانا جاوے تو اصل غرض فوت ہو کر خدا کی بعض صفات کا انکار کرنا پڑتا ہے تو پھر ہر گز ضروری نہیں کہ یہ شرط ہر پیشگوئی میں واضح طور پر بیان کی جاوے ۔خصوصاً جب ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ایمان کے راستے میں خدا کی یہ سنت ہے کہ بعض اخفا کے پردے بھی رکھے جاتے ہیں اور ایمان کے ابتدائی مدارج میں شہود کا رنگ نہیںپیدا کیا جاتا اور یہاں تو پیشگوئی کے الفاظ ہی اس کے شرطی ہونے کو ظاہر کر رہے ہیں۔
خلاصہ کلام یہ کہ سارا اعتراض پیشگوئی کی غرض نہ سمجھنے کے نتیجہ میں پیدا ہوا ہے کیونکہ بدقسمتی سے یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ پیشگوئی کی غرض یہ تھی کہ علم الہٰی کے ماتحت محمد ی بیگم حضرت صاحب کے نکاح میں آجاوے اور بس ۔حالانکہ یہ غرض ہر گز نہ تھی بلکہ غرض یہ تھی کہ حضرت صاحب کے قریبی رشتہ داروں کو اقتداری نشان دکھایا جاوے اور مرزا احمد بیگ اور مرزا سلطان محمد کا ہلاک ہونا اور محمدی بیگم کا حضرت صاحب کے عقد میں آنا اس وقت کے حالات کے ماتحت اس قدرت نمائی کیلئے بطور علامات کے تھے نہ کہ مقصود بالذّات ۔
اگر اس جگہ یہ شبہ پیدا ہو کہ حضرت صاحب کے بعض الہامات میں ہے کہ محمد ی بیگم بالآخر تیری طرف لوٹائی جاوے گی اور تمام روکیں دور کی جاویں گی وغیر ہ وغیرہ ۔اور اس کو تقدیر مبرم کے طور پر ظاہر کیا گیا تھا تواس کا یہ جواب ہے کہ اوّل تو یہ قطعی طور پرثابت کرنا چاہیے کہ یہ سب الہامات حضرت مسیح موعود ؑ اور محمدی بیگم کے ہی متعلق ہیں ۔دوسرے اگر یہ سب الہامات محمدی بیگم اور حضرت صاحب ہی کے متعلق ہوں تو پھر بھی ان کو الگ الگ مستقل الہامات سمجھنا سخت نادانی ہے ۔بلکہ یہ سارے الہامات ابتدائی الہامات کے ساتھ ملحق اور اس کے ماتحت سمجھے جاویں گے ۔اور ان سب کو یکجائی طورپر سامنے رکھ کر کوئی رائے قائم کرنی پڑے گی اور ابتدائی الہام کو اصل قرار دینا ہوگا اور باقی بعد کے سب الہامات گو اس اصل کی شاخیں سمجھنا ہوگا ۔اب اس اصول کو مدنظر رکھ کر تمام پیشگوئی پر غور کریں تو صاف پتہ لگ رہا ہے کہ حضرت صاحب کو یہ حکم تھا کہ محمدی بیگم کے متعلق سلسلہ جنبانی کر اگر انہوں نے مان لیا تو یہ ان کے واسطے ایک رحمت کا نشان ہوگا اور اگر لڑکی کا کسی دوسری جگہ نکا ح کر دیا تو یہ انکے لئے ایک عذاب کا نشان ہوگا اور اس صورت میں لڑکی کا والد تین سال میں اور لڑکی کا خاوند ڈھائی سال میں مرجائیں گے ۔اور لڑکی بالآخر تیری طرف لوٹائی جاوے گی اور تما م روکیں دور کی جاویں گی وغیرہ وغیرہ ۔اب ظاہر ہے کہ لڑکی کے حضرت صاحب کی طرف لوٹائے جانے اور روکوں کے دور ہونے کو مرزا سلطان محمد کے ہلاک ہو نے سے تعلق ہے اور یہ باتیںاسکے ماتحت ہیں نہ کہ مستقل۔ یعنی جب اس وقت کے حالات کے ماتحت مرزا سلطان محمد کی ہلاکت کی پیشگوئی ہوئی اور قدرت نمائی کو اس کی ہلاکت کی صور ت کے ساتھ وابستہ کیا گیا تو اس کے نتیجہ میں جو باتیں ظہور میں آنی تھیں ان کا بھی اظہار کیا گیا ۔یعنی یہ کہ مرزا سلطان محمد کی وفات ہو گی اور ان کی زندگی کی وجہ سے جو روکیں ہیں اور نیز دوسری روکیںوہ دور ہونگی اور پھر لڑکی تیرے گھر آئے گی ۔گویا یہ سب باتیں مرزا سلطان محمد کی ہلاکت کی شق کو مدنظر رکھ کر بیان کی گئیں تھیں اور جس طرح ہلاکت کے مقابل کی شق یعنی بچائے جانے کو مخفی رکھا گیا ۔اسی طرح بچائے جانے کے بعد جو کچھ وقوع میں آناتھا اس کو بھی مخفی رکھا گیایعنی ہلاکت والا پہلو اور اس کے نتائج بیان کر دیئے گئے اور بچائے جانے والا پہلو اور اس کے نتائج مخفی رکھے گئے۔ اور یہ سراسر نادانی اور ظلم ہو گا اگر ہم یہ سمجھیں کہ لڑکی کے لوٹائے جانے کی جو پیشگوئی ہے وہ ہلاکت اور عدم ہلاکت دونوں پہلوئوں کا نتیجہ ہے ۔کیونکہ جب عدم ہلاکت کا پہلو ہی مذکور نہیں تو اس کا نتیجہ کیونکر مذکور ہو سکتا ہے ۔ مذکور نتیجہ لامحالہ مذکور شق کے ساتھ وابستہ سمجھا جائے گا کیونکہ وہ اسی لڑی میں پرویا ہوا ہے اور دوسری لڑی ساری کی ساری مخفی رکھی گئی ہے ۔ ہاں جب واقعات نے قدرت نمائی کیلئے مرزا سلطان محمد کے بچائے جانے والے پہلو کو ظاہر کیا (جو لفظاً مذکور نہیں تھا ) تو پھر اس پہلو کے وہ نتائج بھی ظاہرکئے گئے جو لفظاً مذکور نہیں تھے ۔ہاں اگر عذاب والا پہلو ظاہر ہوتا تو پھر اس پہلو کے نتائج بھی ظاہر ہوتے ۔ لیکن جب وہ پہلو ہی ظاہر نہیں ہوا تو اس کے نتائج کس طرح ظاہر ہوجاتے اِذَا فَاتَ الشَّرْطُ فَاتَ الْمَشْرُوْطُ اور تقدیر مبرم کے بھی یہی معنی ہیں کہ صرف ہلاکت والے پہلو کا حضرت صاحب کو علم دیا گیا تھا اور حقیقی واقعہ کا علم صرف خدا کو تھا ۔پس حضرت صاحب کے لئے وہ تقدیر مبرم تھی اور ظاہر ہے کہ بعض اوقات مخاطِب ،مخاطَب کے علم کو مدنظر رکھ کر ایک لفظ بولتا ہے حالانکہ اس کے اپنے علم کے لحاظ سے وہ لفظ نہیں بولا جاسکتا ۔دوسرے یہ کہ تقدیر مبرم سے ان خاص حالات میں یہ بھی مراد ہو سکتا ہے کہ جو شق مذکور ہے اس کے نتیجہ کے طور پر یہ تقدیر مبرم ہے نہ کہ مطلقا ً یعنی اگر ہلاکت والی شق ظہور میں آئے تو پھر یہ تقدیر مبر م ہے کہ وہ تیرے نکا ح میں آئے گی اور چونکہ دوسری شق کو بالکل مخفی رکھا گیا تھا اس لئے محض مذکور شق کو مدنظر رکھ کر تقدیر مبرم کا لفظ استعمال کرنا کوئی جائے اعتراض نہیں ہوسکتا۔
خلاصہ کلام یہ کہ محمدی بیگم کے حضرت صاحب کے نکاح میں آنے کے متعلق جتنے بھی الہامات ہیں وہ سب ابتدائی الہام کی فرع ہیں۔مستقل پیشگوئیاں نہیں ہیں اور ان سب کی بنیاد مرزا سلطان محمد کے عذاب میں مبتلا ہوکر ہلاک ہونے پر ہے ۔پس جب مرزا سلطان محمد کی ہلاکت حالات کے بدل جانے سے قدرت نمائی کا ذریعہ نہ رہی بلکہ عذاب کا ٹل جانا قدرت نمائی کا ذریعہ ہو گیا تو پھر عذاب والی صورت پر جتنے نتائج مترتب ہونے تھے وہ بھی منسوخ ہوگئے اور عدم عذاب والا مخفی پہلو مع اپنے تمام مخفی نتائج کے ظاہر ہو گیا گویا مرزا سلطان محمد کے متعلق تصویر کے دو پہلو تھے اول ۔عذاب کے ماتحت موت اور اس کے نتائج یعنی محمدی بیگم کا بیوہ ہو کر حضرت صاحب کے نکا ح میں آنا وغیرہ۔ پیشگوئی میں صرف یہی پہلو ظاہر کیا گیا تھا ۔ دوسرے ۔حالات کے بدل جانے سے عذاب اور موت کے رک جانے کی صورت میں اظہار قدرت ہونا اور اس کے نتائج یعنی محمدی بیگم کا مرزا سلطان محمد ہی کے پاس رہنا وغیرہ ۔یہ دوسرا پہلو مخفی رکھا گیا تھا۔ پس خدا نے سنت اللہ کے مطابق ظاہر پہلو کو منسوخ کر کے مخفی پہلو کو ظاہر کردیا ۔جو پہلو بیان کیا گیا تھا وہ سارے کا سارا بیان کیا گیا تھا اور جو مخفی رکھا گیا تھا وہ سارے کا سارا مخفی رکھا گیا تھا ۔در اصل سارا دھوکا اس بات سے لگا ہے کہ محمدی بیگم کے نکاح کو اصل غرض پیشگوئی کی سمجھ لیا گیا ہے۔ حالانکہ یہ بات واقعات کے بالکل خلاف ہے ۔بلکہ اصل غرض رشتہ داروں کی درخواست پر قدرت نمائی تھی اور مرزا احمد بیگ اور مرزا سلطان محمد کامرنا اور محمدی بیگم کا حضر ت کے نکاح میں آنا وغیرہ یہ سب اس وقت کے حالات کے ماتحت اس قدرت نمائی کیلئے بطور علامات کے رکھے گئے تھے لیکن جب مرزا احمد بیگ کی اچانک موت نے حالات کی صورت بدل دی تو قدرت نمائی کے علامات بھی بدل گئے۔ حق یہی ہے چاہو تو قبول کرو ۔ہاں اگر حضرت مسیح موعود ؑ کی زندگی میں کسی وقت مرزا سلطان محمد کی طرف سے متمردانہ طریق اختیار کیا جاتا تو تصویر کا جو ظاہر پہلو تھا وہ بتمامہ وقوع میں آجاتا چنانچہ حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنی کتب میں اپنے مخالفوں کو بار بار مخاطب کر کے لکھا ہے کہ اگر تمہیں اس پیشگوئی کے متعلق کوئی اعتراض ہے تو مرزا سلطان محمد کی طرف سے کو ئی مخالفت کا اشتہار دلوائو اور پھر دیکھو کہ خدا کیا دکھاتا ہے مگر باوجود ہمارے مخالفوں کی طرف سے سر توڑ کوشش اور بے حد غیرت اور طمع دلائے جانے کے مرزا سلطان محمد نے حضرت مسیح موعود کے متعلق جب کبھی بھی کوئی اظہار کیا تو عقیدت اور اخلاص کا ہی اظہار کیا۔ اندریں حالات مخالفت والے پہلو پر جو نتائج مترتب ہو نے تھے وہ کس طرح ظاہر ہو جاتے ۔خدا کی خدائی اندھیر نگر ی تو نہیں کہ کاشت کریں آم اور نکل آئے حنظل بلکہ وہاں کا تو یہ قاعدہ ہے کہ ’’ گندم ازگندم بَرَویَد جَو زِ جَو ۔ازمکافاتِ عمل غافل مشو ‘‘۔محمدی بیگم کے نکاح کا درخت مرزا سلطان محمد کی ہلاکت کی سرزمین سے نکلنا تھا اور ہلاکت کی سرزمین خدائی عذاب کے زلزلہ نے تیار کرنی تھی اور یہ عذاب کا زلزلہ مرزاسلطان محمد کے تمرّد نے پیدا کرنا تھا اب جب تمردنہ ہوا تو عذاب کا زلزلہ کیسا اور جب زلزلہ نہ آیا تو ہلاکت کیسی؟ اب محمدی بیگم کے نکاح کو بیٹھے روتے رہو۔خدانے تو اپنی قدرت نمائی کا جلوہ دکھادیا اور پیشگوئی پوری ہوگئی۔
اب ایک شبہ باقی رہ جاتا ہے اوروہ یہ کہ بے شک حالات کے تغیر سے قدرت نمائی کی صورت بدل جاتی ہے اور بدل جانی چاہیے مگر تغیر ایسا ہونا چاہیے جو کسی کام کا ہو مثلاً کسی غیر مسلم معاند کے عذاب کی خبر ہے تو وہ عذاب اس صورت میں ٹلنا چاہیے کہ وہ شخص تائب ہو کر مسلمان ہو جاوے یا غیر احمدی مسلمان ہو تو وہ احمدی ہو جاوے ورنہ اپنے مذہب پر رہ کر ہی کچھ تغیر کر لینا موجب رہائی کا نہ ہونا چاہیے کیونکہ یہ معاملہ کو مشتبہ کر دیتا ہے ۔اس کا یہ جواب ہے کہ یہ شبہ نادانی سے پیدا ہوتا ہے کیونکہ وہی شخص ایسا شبہ کر سکتا ہے جو موجبات عذاب سے بے خبر ہو ۔دراصل بات یہ ہے کہ یہ مسلم حقیقت ہے کہ اس دنیا میں عذاب کسی نبی کے محض انکار کی وجہ سے نہیں آتا بلکہ اس کے مقابل میں فساد اور سر کشی او ر تمّر د سے آتا ہے ۔محض انکا ر کیلئے آخرت کی جزا سزا مقرر ہے ،اس دنیا کا عذاب صرف سرکشی اور تمرد کے نتیجہ میں ہوتا ہے چنانچہ ہمارا مشاہدہ اس پر شاہد ہے اب جب یہ بات معلوم ہو گئی تو کوئی اعتراض نہ رہا ۔ایک شخص جو اپنی سرکشی اور تمرد کی وجہ سے اس دنیا میں عذاب کا مستحق بنا تھا وہ جب تمرد کی حالت کو بدل دے گا تو عذاب ٹل جائے گا ۔خواہ وہ منکر ہی رہے اور انکار کی پرسش آخر ت میں ہوگی۔ جو چیز اس دنیا میں عذاب کی موجب تھی وہ جب جاتی ر ہی تو اس دنیا کا عذاب بھی جاتا رہا ۔باقی رہا محض انکا ر اور علیحدگی سو اس کیلئے دنیا میں عذاب نہیں ہوتا بلکہ اس کی پرسش اگلے جہاں میں ہوگی۔ پس یہ کہنا کہ غیر مسلم کے مسلمان اور غیر احمدی کے احمدی ہو جانے پر عذاب ٹلنا چاہیے تھا ۔ایک جہالت کی بات ہے جب غیر مسلم کا محض غیر مسلم ہونا اور غیر احمدی کا محض غیر احمدی ہونا اس دنیا میں موجبات عذاب کے نہیں اور نہ اس وجہ سے ان کیلئے کوئی عذا ب کی پیشگوئی تھی تو یہ اعتراض بے ہودہ ہے ہاں اگر عذاب کی وجہ ان کا غیر مسلم یاغیر احمدی ہونا بتائی جاتی تو پھر بے شک جب تک وہ احمدی یا مسلمان نہ ہو جاتے عذاب نہیں ٹلنا چاہیے تھا ۔ لیکن جب عذاب کی یہ وجہ ہی نہیں اور نہ ہو سکتی ہے بلکہ عذاب کی وجہ فساد فی الارض اور تمرد ہے تو عذاب کے ٹلنے کیلئے ایمان لانے کی شرط ضروری قرار دینا محض جہالت ہے اور اگر یہ کہا جاوے کہ مرزا سلطان محمد نے گو بے شک اخلاق و عقیدت کا اظہار کیا اور تمرد نہیں دکھایا لیکن محمدی بیگم کو اپنے نکاح میں تو رکھا اور اس طرح گویا عملاً تمرد سے کام لیا ۔تو یہ بات گذشتہ اعتراض سے بھی بڑھ کر جہالت کی بات ہو گی کیونکہ جب یہ ثابت ہو گیا کہ پیشگوئی کی غرض ہر گز محمدی بیگم کا نکا ح نہ تھی بلکہ متمرد رشتہ داروں کو اقتداری نشان دکھانا تھا تو پھر یہ کہنا کہ گو اس نے تمرد نہیں دکھا یا مگر چونکہ محمدی بیگم کو اپنے نکا ح میں رکھا اس لئے عذاب نہ ٹلنا چاہیے تھا ۔ایک ابلہانہ بات ہے ۔اگر غرض پیشگوئی کی یہ ہوتی کہ محمدی بیگم حضرت صاحب کے نکا ح میں آجاوے تو پھر بے شک مرزا سلطان محمد کا فقط تمرد نہ دکھانا کسی کام نہ آتا جب تک وہ محمدی بیگم کو الگ نہ کرتا لیکن جب پیشگوئی کی یہ غرض ہی ثابت نہیں ہوتی تو پھر عذاب کے ٹلنے کو مرزا سلطان محمدکے محمدی بیگم سے علیحدہ ہو جانے کے ساتھ مشروط قرار دینا ایک عجیب منطق ہے ۔جو ہماری سمجھ سے بالا ہے ۔دراصل یہ سارے اعتراضات پیشگوئی کی غرض پر غور نہ کرنے سے پیدا ہو ئے ہیں ورنہ بات کو ئی مشکل نہ تھی ۔
اور یہ شبہ کہ اگر محض انکا ر سے اس دنیا میں عذاب نہیں آتا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس زمانہ کے مختلف عذابوں کو اپنی وجہ سے کیوں قرار دیا ہے ایک دھوکے پر مبنی ہے۔ آج کل جو دنیا کے مختلف حصوں میں عذاب آرہے ہیں ان کو حضرت صاحب نے اپنی طرف اس لئے منسوب کیا ہے کہ یہ لوگوں کوجگانے کیلئے ہیں ۔یعنی ان کی یہ غرض ہے کہ لوگ اپنی غفلتوں سے بیدار ہو جائیں اور حق کی تلاش میں لگ جاویں اور حق کے قبول کر نے کیلئے ان کے دل نرم ہو جاویں۔لہٰذا یہ عذاب اور نوعیت کا عذاب ہے جس کو اس دوسری قسم کے عذاب سے کو ئی واسطہ نہیں۔ یہ عام قومی عذاب تو صرف بیدار کر نے کیلئے آتے ہیں یعنی جب کبھی کوئی رسول آتا ہے تو خدا کی سنت ہے کہ اس کی قوم کو جن کی طرف وہ مبعوث ہو عذاب کے دھکوں سے بیدار کرتا ہے ۔اسی لئے یہ قومی عذاب رسول کی بعثت کی علامت رکھے گئے ہیں ورنہ یہ عذاب تو بسا اوقات ایسے لوگوں کو بھی پہنچتے رہتے ہیں جن تک رسول کی تبلیغ بھی نہیں پہنچی ہوتی ۔اور جن کی طرف سے رسول کے خلاف تمرّد تو درکنار محض انکا ر بھی نہیں ہوا ہوتا ۔پس ان عذابوں کو اس خاص عذاب کے ساتھ مخلوط کرنا نادانی ہے۔زیر بحث تو وہ خاص انفرادی عذاب ہیں جو ان لوگوں کو پہنچتے ہیں جو رسول کے مقابل پر کھڑے ہوتے ہیں ایسے عذاب محض انکار پر مبنی نہیں ہوتے بلکہ فساد فی الارض اور سرکشی اور تمرد سے آتے ہیں ۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضرت صاحب نے جو اس رشتہ کی کوشش میں اپنے بعض رشتہ داروں کو خط لکھے اور اس کے لئے بڑی جدو جہد کی اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پیشگوئی کی اصل غرض محمدی بیگم کا نکاح تھی مگر یہ ایک سراسر باطل بات ہے ۔جبکہ پیشگوئی کے الفاظ سے یہ غرض ثابت نہیں ہوتی اور جب کہ حضرت صاحب کی تحریرات میں یہ بات صاف طور پر لکھی ہو ئی موجود ہے کہ پیشگوئی کی غرض نکاح نہ تھی بلکہ قدرت نمائی تھی اور ایک دفعہ نہیں بلکہ بار بار حضرت صاحب نے اسے کھول کھول کر بیان کر دیا اور محمدی بیگم کے مرزا سلطان محمد کے ساتھ بیاہے جانے سے پہلے بھی اور بیاہے جانے کے بعد بھی اس غرض کا اظہار کیا ۔یعنی برابر اس وقت سے جب کہ ابھی محمدی بیگم بیاہی بھی نہ گئی تھی اور اس پیشگوئی کے متعلق اعتراض وغیرہ نہ تھا ۔ حضرت صاحب ہمیشہ یہی بیان کر تے چلے آئے ہیں کہ اس کی غرض محمدی بیگم کو نکا ح میں لانا نہیں بلکہ قدرت الہٰی کا ایک نشان دکھانا ہے۔ تو نکاح کی کوشش کرنے اور اپنے بعض رشتہ داروںکوا س کوشش کے متعلق خطوط لکھنے سے یہ استنباط کس طرح ہو سکتا ہے کہ پیشگوئی کی غرض نکاح کرنا تھی ۔کیا ایسے رکیک استنباطوں سے نصوص صریح کا رد کرنا جائز ہے ۔رشتہ کی کوشش اور اس کیلئے رشتہ داروں کو تحریک تو فقط اس غرض سے تھی کہ اس وقت تک چونکہ محمدی بیگم کا مرزا سلطان محمد سے نکاح نہ ہوا تھا ۔ اس لئے حضرت صاحب کی خواہش اور کوشش تھی کہ محمدی بیگم کا نکاح آپ کے ساتھ ہو جاوے تا آپ کے رشتہ دار خدا کی رحمت اور برکت سے حصہ پاویں اور خدا کا نشان پورا ہو اور آپکی صداقت ظاہر ہو ۔اس سے پیشگوئی کی غرض کے متعلق کس طرح استدلال ہو سکتا ہے ۔اس جگہ اس بات کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جب تک محمدی بیگم کا مرزا سلطان محمد کے ساتھ نکاح نہیں ہوا تھا محمدی بیگم کا حضرت صاحب کے رشتہ میں آنا رشتہ داروں کیلئے ایک نشانِ رحمت تھا لیکن جب محمدی بیگم مرزا سلطان محمد کے عقد میں چلی گئی اور آپ کے رشتہ داروں نے تمرّد سے کام لیا تو اب محمدی بیگم کا حضرت صاحب کی طرف لوٹنا مرزا سلطان محمد کے عذاب میں مبتلا ہونے کے ساتھ مشروط ہو گیا یعنی مرزا سلطان محمد پر عذاب کی موت آئے اور پھر محمدی بیگم حضرت صاحب کی طرف لوٹے اسی لئے جب تک محمدی بیگم کا حضرت صاحب کے عقد میں آنا رشتہ داروں کیلئے ایک رحمت کا نشان تھا ۔آپ نے اس کیلئے کوشش کی اور پوری کوشش کی اور یہ کوشش آپکی صداقت اور اخلاق فاضلہ پر ایک زبردست دلیل ہے ۔لیکن جب محمدی بیگم کے دوسری جگہ نکاح ہوجانے کے بعد اُس کا آپکی طرف لوٹنا رشتہ داروں کے عذاب دیئے جانے کی علامت ہو گیا تو آپ نے معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا ۔پس آپ کی کوششوں سے پیشگوئی کی غرض کے متعلق استدلال کر نا باطل ہے ۔یہ کوشش تو محض اس لئے تھی کہ اس وقت کے حالات کے ماتحت محمدی بیگم کا آپکے نکاح میں آنا اظہار قدرت کی ایک علامت تھا ۔پس آپ نے اس علامت کے پورا کرنے کی کوشش کی تا پیشگوئی کی اصل غرض یعنی قدرت نمائی وقوع میں آوے اور خصوصیت کے ساتھ کوشش اس لئے کی کہ اُس وقت کے حالات کے ماتحت محمدی بیگم کا آپ کے عقد میں آناآپ کے رشتہ داروں کے لئے موجب رحمت و برکت تھا ۔لہٰذا یہ کو شش تو آپ کی صداقت اور اخلاق فاضلہ اور رشتہ داروں پر رحم و شفقت کی ایک دلیل ہے نہ کہ آپ کے خلاف جائے اعتراض۔
خلاصہ کلام یہ کہ یہ پیشگوئی خدا کے علم ازلی کے اظہار کے لئے نہ تھی تا بہر حال اپنی ظاہری صورت میں پوری ہوتی بلکہ اظہار قدرت کاملہ کے لئے تھی ۔پس پیشگوئی کے وقت حالات موجودہ جس قسم کی قدرت نمائی کے مقتضی تھے اُس کا اظہار کیا گیا اور بعد میں حالات کے تغیر سے جو جو رستہ قدرت نمائی کا متعیّن ہوتا گیا اس کے مطابق اظہار قدرت ہوتا گیا ۔تا یہ ثابت ہو کہ خدا کوئی مشین نہیں ہے کہ جب پہیہ چل گیا تو بس پھر جو اپنا بیگانہ سامنے آیا اُس کو پیس ڈالا کیونکہ یہ بات قدرت کاملہ کے منافی ہے ۔بلکہ خدا ایک قدیر ہستی ہے ۔جب کوئی شخص عذاب کا مستحق ہوتا ہے تو وہ اُسے عذاب میں گرفتار کرتا ہے اور پھر اسے کوئی نہیں بچا سکتا اور جب وہ موجبات عذاب کو دور کر دیتا ہے تو خدا بھی اُس سے اپنا عذاب کھینچ لیتا ہے اور پھر اُسے کو ئی عذاب میں نہیں ڈال سکتا اور یہی قدرت کاملہ ہے ۔باقی رہی یہ بات کہ محمدی بیگم کے نکاح کے متعلق حضرت صاحب کو بہت سے الہامات ہوئے کہ وہ تیرے نکاح میں آئے گی سو اس کا جواب گذرچکا ہے ۔کہ محمدی بیگم کے نکاح کی پیشگوئی کوئی مستقل پیشگوئی نہیں بلکہ رشتہ داروں کو جو نشان دکھلانا تھا اُس کا حصہ اور فرع ہے اور یہ بات حضرت صاحب کی تحریرات بلکہ خود الہامات سے اَظْہَرٌ مِّنَ الشَّمْس ہو جاتی ہے اور جو شخص اس کے خلاف دعویٰ کرتا ہے بار ثبوت اس کے ذمہ ہے ۔پس جب نکاح کی پیش گوئی مستقل پیشگوئی نہ ہوئی بلکہ تمام پیشگوئی کا حصہ اور فرع ہوئی تو اعتراض کوئی نہ رہا ۔کیونکہ پیشگوئی کا منشاء یہ قرار پایا کہ مرزا سلطان محمد عذاب موت میں گرفتار ہوگا اور پھر محمدی بیگم حضرت مسیح موعود ؑ کے عقد میں آئے گی۔اور مرزا سلطان محمد کے عذاب موت میں مبتلا ہونے کی صورت میں کوئی چیز محمدی بیگم کے حضرت صاحب کی طرف لوٹنے میں روک نہ ہو سکے گی لیکن جب حالات کے بدل جانے پر مصلحت الہٰی نے قدرت نمائی کا منشاء پورا کرنے کے لئے عذاب کی صورت کو بدل دیا تو نکاح بھی جو عذاب والی صورت کا نتیجہ تھا منسوخ ہو گیا ۔اصل غرض قدرت نمائی تھی اور باقی سب اُس وقت کے حالات کے ماتحت اُس کی علامات تھیں۔پس ہم کہتے ہیں کہ جب حالات کے بدل جانے سے اصل غرض اور علامات آپس میں ٹکرانے لگیں تو اصل غرض کو لے لیا گیا اور علامات کو چھوڑ دیا گیا اور یہی حکمت کی راہ ہے اور اگر کہو کہ ایسا کیوں نہ کیا گیا کہ وہی علامات مقرر کی جاتیں جو آخر تک ساتھ رہتیں تو اس کا جواب اوپر گذر چکا ہے کہ چونکہ یہ پیش گوئی علم ازلی کے اظہار کے لئے نہ تھی بلکہ قدرت نمائی کے لئے تھی ۔اس لئے حالات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا اور اگر حالات کو نظر انداز کیا جاتا تو پیشگوئی کی اصل غرض(یعنی قدرت نمائی)فوت ہو کر پیشگوئی اظہار علم ازلی کے ماتحت آجاتی اور یہ مقصود نہ تھا ۔خوب سوچ لو کہ قدرت کاملہ کا اظہا ر بغیر حالات کو مد نظررکھنے کے ناممکن ہے کیونکہ یہ صورت دو نتیجوں سے خالی نہیں یا تو خداکو بغیر ارادے کے ایک مشین کی طرح ماننا پڑے گا اور یا پھرظالم و سفاک قرار دینا ہوگا ۔اور یہ دونوں باتیں قدرت کاملہ کے مفہوم کے منافی ہیں ۔ وَمَا عَلَیْنَا اِلَّاالْبَـلَاغ ـ
اس جگہ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ خاکسار نے پیشگوئیوں کے جو اصول بیان کئے ہیں اُن پر پیشگوئیوں کے اصول کا حصر نہیں ہے ۔یعنی یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ پیشگوئیوں کے بس صرف یہی اصول ہیں جو بیان ہو گئے بلکہ یہاں تو صرف اس جگہ کے مناسب حال اور وہ بھی صرف خاص خاص اُصول بیان کئے گئے ہیں ورنہ اُن کے علاوہ اور بھی بہت سے اصول ہیں بلکہ ان بیان شدہ اصول کے بھی بہت سے اور پہلو ہیں جو بیان نہیں کئے گئے کیونکہ یہ موقع پیشگوئیوں کے اصول بیان کر نیکا نہیں ہے بلکہ حضر ت مسیح موعود ؑ کی سیرت و سوانح کے بیان کرنے کا ہے ۔
{180} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حافظ جمال احمد صاحب جو سلسلہ کے ایک مبلّغ ہیںایک دفعہ پٹّی گئے اور مرزا سلطان محمد بیگ صاحب سے ملے تھے ۔ اس ملاقات کے متعلق وہ ۱۳؍۹جون ۱۹۲۱ء کے اخبار الفضل قادیان میں لکھتے ہیں کہ ’’ عندا لملاقات میں نے مرز اسلطان محمد صاحب سے سوال کیا کہ اگر آپ برا نہ مانیں تو میں حضرت مرزا صاحب کی نکاح والی پیشگوئی کے متعلق کچھ دریافت کرنا چاہتا ہوں جسکے جواب میں انہوں نے کہا کہ آپ بخوشی بڑی آزادی سے دریافت کریں اور کہا کہ میرے خُسر مرزا احمد بیگ صاحب واقعہ میں عین پیشگوئی کے مطابق فوت ہوئے ہیں مگر خدا تعالیٰ غفورالرحیم بھی ہے اپنے دوسرے بندوں کی بھی سنتا اور رحم کرتا ہے اس سے اُن کا مطلب یہ تھا کہ خداتعالیٰ نے میری زاری و دعا کی وجہ سے وہ عذاب مجھ سے ٹال دیا ۔
پھر میں نے ان سے سوال کیا ۔آپ کو حضرت مرزا صاحب کی اس پیشگوئی پر کو ئی اعتراض ہے ؟ یا یہ پیشگوئی آپ کیلئے کسی شک و شبہ کا باعث ہوئی ہے ؟ جسکے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں ایمان سے کہتا ہوں کہ یہ پیشگوئی میرے لئے کسی شبہ کا باعث نہیں ہوئی ۔پھر میں نے سوال کیا کہ اگر پیشگوئی کی وجہ سے آپ کو حضرت مرزا صاحب پر کوئی اعتراض یا شک و شبہ نہیں تو کیا کوئی اور ان کے دعویٰ کے متعلق آپ کو اعتراض ہے ۔جس کی وجہ سے آپ ابھی تک بیعت کر نے سے رکے ہوئے ہیں ؟ اس پر بھی انہوں نے خداتعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر یہی جواب دیا کہ مجھے کسی قسم کا بھی اُن پر اعتراض نہیں بلکہ جب میں انبالہ چھائونی میں تھا تو ہمارے رشتہ داروں میں سے ایک احمدی نے مرزا صاحب کے متعلق میرے خیالات دریافت کئے تھے جس کا میں نے اس کو تحریری جواب دیدیا تھا ۔ (خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ تحریر رسالہ تشحیذ میں چھپ چکی ہے ۔) اس کے بعد میں نے ان سے پوچھا کہ جب آپ کو کوئی اعتراض نہیں تو پھر بیعت کیوں نہیں کر تے ؟ جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس کے وجوہات اور ہیں جن کا اس وقت بیان کرنا میں مصلحت کے خلاف سمجھتا ہوں ۔میں بہت چاہتا ہوں کہ ایک دفعہ قادیان جائوں کیونکہ مجھے حضرت میاں صاحب کی ملاقات کا بہت شوق ہے اورمیرا ارادہ ہے کہ ان کی خدمت میں حاضر ہو کر تمام کیفیت بیان کروں پھر چاہے شائع بھی کر دیں تو مجھے کو ئی اعتراض نہیں ہوگا ۔باقی میرے دل کی حالت کا آپ اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس پیشگوئی کے متعلق آریوں نے لیکھرام کی وجہ سے اور عیسائیوں نے آتھم کی وجہ سے مجھے لاکھ لاکھ روپیہ تک دینا چاہا تا میں کسی طرح مرزا صاحب پر کوئی نالش کروں ۔اگر وہ روپیہ میں لے لیتا تو امیر کبیر بن سکتا تھا ۔مگر وہی اعتقاد اور ایمان تھا جس نے مجھے اس فعل سے روکا ۔
پھر میں نے پوچھا کہ میں نے سنا ہے کہ آپ کے گھروالوں (محمدی بیگم صاحبہ ) نے کوئی رؤیا دیکھی ہے جس کے جواب میں انہوں نے کہا مجھ سے تو انہوں نے ذکر نہیں کیا مگر آپ احمد بیگ ( ہیڈکلرک احمدی ) کے ذریعہ میرے گھر سے خود دریافت کر سکتے ہیں ۔ چنانچہ مرزا احمد بیگ صاحب نے ان کو اپنے گھر بلوایا اور دریافت کرنے پر انہوںنے کہا کہ جس وقت فرانس سے اُن کو ( یعنی مرزا سلطان محمد صاحب کو ) گولی لگنے کی اطلاع مجھے ملی تو میں سخت پریشان ہو ئی اور میرا دل گھبرا گیا ۔اسی تشویش میں مجھے رات کے وقت مرزا صاحب رؤیا میں نظر آئے اُن کے ہاتھ میں ایک دودھ کا پیالہ ہے اور وہ مجھ سے کہتے ہیں کہ لے محمدی بیگم یہ دودھ پی لے اور تیرے سر کی چادر سلامت ہے فکر نہ کر ۔اس سے مجھے ان کی خیریت کے متعلق اطمینان ہو گیا۔‘‘
خاکسارعرض کرتا ہے کہ میں نے مرزا احمد بیگ صاحب احمدی سے اس واقعہ کے متعلق دریافت کیا تھا ۔ چنانچہ انہوں نے اس کی پوری پوری تصدیق کی ۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{ 181} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسارعرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت یا سوانح کے متعلق جو تصنیفات احمدیوں کی طرف سے اس وقت تک شائع ہو چکی ہیں وہ یہ ہیں ۔
(۱) سیرۃ مسیح موعودمصنفہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب
مولوی صاحب مرحوم اکابر صحا بہ میں سے تھے اور حضرت مولوی صاحب یعنی خلیفہ اول کے بعد جماعت میں انہی کا مرتبہ سمجھا جاتا تھا ۔یہ تصنیف نہایت مختصر ہے لیکن چونکہ مولوی صاحب مرحوم کی طبیعت نہایت ذکی اور نکتہ سنج واقع ہو ئی تھی اس لئے بعض چھوٹی چھوٹی باتوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا اور اچھے اچھے استدلال کئے ہیں عموماً خانگی اخلاق پر روشنی ڈالی ہے۔اورہر بات کی بنا اپنے ذاتی مشاہدہ پر رکھی ہے اور چونکہ مولوی صاحب مرحوم حضر ت مسیح موعود ؑ کے مکان کے ایک حصہ میں ہی رہتے تھے اس لئے ان کو حضرت صاحب کے اخلاق وعادات کے مطالعہ کا بہت اچھا موقعہ میّسر تھا اس پر خدانے تقریرو تحریر کی طاقت بھی خاص عطا کی تھی ۔یہ رسالہ نہایت دلچسپ اور قابل دید ہے ۔ روایات چونکہ سب حضرت مولوی صاحب مرحوم کی ذاتی ہیں اس لئے شک و شبہ کی گنجائش سے با لا ہیں ۔ہاں مولوی صاحب کے قلم کے زورنے ان کو بعض جگہ الفاظ کی پابندی سے آزاد کر دیا ہے یعنی معلوم ہوتا ہے کہ کہیں کہیں مفہوم لے کر واقعات کو اپنے طرز کلام میں بیان کر دیا ہے ۔تاریخ تصنیف جنوری ۱۹۰۰ء ہے ۔حضرت مولوی صاحب موصوف کی وفات ۱۹۰۵ء میں ہوئی تھی ۔کیا خوب ہوتا اگر مولوی صاحب اس رسالہ کو زیادہ مکمل و مبسوط کر جاتے ۔یہ رسالہ سوانح کے حصہ سے بالکل خالی ہے یعنی سیرت و خلق ذاتی پر روشنی ڈالنے کیلئے صرف جُستہ جُستہ واقعات لے لئے ہیں مگر ہر لفظ عشق و محبت میں ڈوبا ہو ا ہے۔ناظرین اس مختصر رسالہ کا ضرور مطالعہ کریں ۔
(۲) احمد علیہ السلام بزبان انگریزی مصنفہ مولوی محمد علی صاحب ایم ۔اے
مولوی صاحب موصوف پرانے احمدی ہیں ۔غالباً ۱۸۹۷ء میں احمدی ہو ئے تھے ۔حضر ت مسیح موعود ؑ کی زندگی کے آخری چندسال قادیان ہجرت کر آئے تھے اور حضرت صاحب نے ان کو اپنے مکان کے ایک حصہ میں جگہ دی تھی اور ریویو کی ایڈیٹری ان کے سپرد کی تھی ۔ مولوی صاحب حضر ت صاحب کے زمانہ میں مقربین میں سمجھے جاتے تھے مگر افسوس اپنے بعض دوستوں اور نیز زمانہ کے اثر کے نیچے آکر فتنہ کی رومیں بہہ گئے ۔ ان کی انگریزی تصنیف ’’احمد علیہ السلام‘‘ مختصر طور پرحضر ت مسیح موعود ؑ کے سوانح اور سیر ت پر مشتمل ہے اور دلچسپ پیرایہ میں لکھی گئی ہے ،سوانح کے معاملے میں کوئی خاص تحقیق نہیں کی گئی بلکہ عام معروف باتوں کو لکھ دیا ہے ۔ سیرت کا حصہ عموماً اپنے ذاتی مشاہدہ پر مبنی ہے اور عمدہ طور پر لکھا گیا ہے،تاریخ تصنیف ۱۹۰۶ء ہے ۔
( ۳) حضرت مسیح موعود کی زندگی کے مختصر حالات مصنفہ میاں معراج دین صاحب عمر لاہوری
میاں صاحب موصوف پرانے احمدی ہیں ۔ہجرت نہیں کی لیکن حضر ت مسیح موعود ؑ کی صحبت کافی اٹھائی ہے اور ذہین اور منشی آدمی ہیں ۔یہ مضمون براہین احمدیہ کے ایک ایڈیشن کے ساتھ شامل ہوکر شائع ہوا ہے ۔اور آپ کے خاندانی حالات سوانح و سیرت پر مشتمل ہے جو عمدگی کے ساتھ مرتب کئے ہوئے معلوم ہوتے ہیں ۔ واقعات میں کوئی مستقل تحقیق نہیں کی گئی ۔بلکہ عمو ماً معروف واقعات کو لے لیا ہے۔ تاریخ تصنیف ۱۹۰۶ء ہے ۔
(۴)حیات النبی ۔مصنفہ شیخ یعقوب علی صاحب تراب عرفانی ۔شیخ صا حب موصوف پرانے احمدی ہیں ۔ اور سلسلہ کے خاص آدمیوں میں سے ہیں مہاجر ہیں اور کئی سال حضرت مسیح موعود کی صحبت اُٹھا ئی ہے ۔ ان کے اخبار الحکم میں سلسلہ کی تاریخ اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے سوانح اور سیرت کا کافی ذخیرہ موجود ہے۔ شیخ صاحب کو شروع سے ہی تاریخ سلسلہ کے محفوظ رکھنے اور جمع کرنے کا شوق رہاہے اور در اصل صرف حیات النبی ہی وہ تصنیف ہے جو اس وقت تک حضرت مسیح موعود ؑ کے سوانح اور سیرت میں ایک مستقل اور مفصل تصنیف کے طور پر شروع کی گئی ہے ۔ اس کی دو جلدیں شائع ہو چکی ہیں اور قابل دید ہیں ۔ تاریخ تصنیف ۱۹۱۵ء ہے ۔
(۵)تذکرۃ المہدی ۔مصنفہ پیر سراج الحق صاحب نعمانی جو بہت پرانے احمدی ہیں ۔غالباً ۸۲-۱۹۸۱ء سے اُن کی قادیان میں آمد ورفت شروع ہوئی تھی ۔حضرت صاحب کی صحبت بھی بہت اُٹھائی ہے ۔ بلکہ کئی سال قادیان آکر خدمت میں رہے ہیں ۔لکھنے اور بات کرنے کا پیرایہ پرانے انداز کا ہے مگر اپنے اندر کشش رکھتا ہے ۔اُن کی تصنیف تذکرۃ المہدی بہت دلچسپ ہے۔مسلسل سوانح نہیں بلکہ جستہ جستہ واقعات ہیں مگر خوب تفصیل اور بسط کے ساتھ لکھے ہوئے ہیں اور سب چشم دید باتیں لکھی ہیں ۔گویا اپنا مشاہدہ بیان کیا ہے ۔عموماً سفروں میں حضرت کے ہمرکاب رہے ہیں ۔اُن کی کتاب اپنے رنگ میںبہت دلچسپ اور قابل دید ہے ۔کتاب کے دو حصے شائع ہو چکے ہیں ۔تاریخ تصنیف ۱۹۱۴ء ہے ۔ ز
(۶)سیرت مسیح موعود ؑ مصنفہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ ثانی ۔یہ ایک مختصر رسالہ ہے ۔ جس میں وفات تک کے معروف و مشہور واقعات درج ہیں ۔اس میں کوئی مستقل یا مفصل تاریخی تحقیق نہیں کی گئی ۔ بلکہ صرف عام معروف سوانح کو بیان کر دیا گیا ہے ۔اور دراصل اس کی اشاعت سے غرض بھی یہی تھی ۔اسلوب بیان اور عام طرز تحریر کے متعلق مصنف کے نام نامی سے قیاس ہو سکتا ہے ۔تاریخ تصنیف ۱۹۱۶ء ہے ۔
ان کے علاوہ دو عیسائی امریکن پادریوں نے بھی انگریزی میں حضرت مسیح موعود کے حالات لکھے ہیں ۔یعنی (۱) ڈاکٹر گرس فولڈ پر وفیسر مشن کالج لاہو ر اور (۲) مسٹر والٹر سیکرٹری ینگ مین کرسچین ایسوسی ایشن لاہور ۔ ان میں سے ڈاکٹر گرس فولڈ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملا تھا ۔لیکن مسٹر والٹر نہیں ملا ۔مؤخر الذکر کی تصنیف کچھ مفصل ہے اور مقدم الذکر کی مختصر ہے ۔گو معلومات عموماً احمدیہ لٹریچر سے حاصل کی گئی ہیں مگر یہ کتابیں واقعات کی غلطی سے خالی نہیں مگر غلطی بالعموم غلط فہمی سے واقع ہوئی ہے ۔باقی استدلال و استنباط کا وہی حال ہے جو ایک عیسائی پادری سے متوقع ہوسکتا ہے یعنی کچھ تو سمجھے نہیں اور کچھ سمجھے تو اس کا اظہار مناسب نہیں سمجھا ۔تعصب بھی آگ کی ایک چنگاری کی طرح ہے کہ معلومات کے خرمن کو جلا کر خاک کر دیتا ہے ۔مگر خاکسار کی رائے میں تعصب کے علاوہ ایک اور چیز بھی ہے جو واقعات کو سمجھنے اور صحیح نتائج پر پہنچنے کے رستے میں ایک بہت بڑی روک ہو جاتی ہے اور وہ اجنبیت اور غیر مذہب اور غیر قوم سے متعلق ہو نا ہے جس کی وجہ سے آدمی بسا اوقات بات کی تَہ تک نہیں پہنچ سکتا ۔ مگر بہر حال یہ دو تصنیفات بھی قابل دید ہیں۔
ان کے علاوہ سلسلہ کے اخبارات و رسالہ جات ہیں ۔یعنی الحکم ، البدر ۔ ریویو (انگریزی و اردو) اور تشحیذالاذہان ۔ جن میں وقتاً فوقتاً حضرت مسیح موعود ؑ کے حا لات اور ڈائریاں چھپتی رہی ہیں ،ان میں بھی معلومات کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے ۔
پھر خود حضر ت مسیح موعود ؑ کی اپنی تصنیفات ہیں یعنی ۸۰کے قریب کتب و رسالجات ہیں ۔اور دوسو کے قریب اشتہارات ہیں ان میں بھی حضرت صاحب کی سیرت و سوانح کے متعلق ایک بہت بڑا حصہ آگیا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ حصہ سب سے زیادہ معتبر اور یقینی ہے اور درحقیقت حضرت مسیح موعود ؑ کے سوانح کے متعلق جتنی کتب شائع ہوئی ہیں وہ سب سوائے حیات النبی کے زیادہ تر صرف حضرت صاحب کے خود اپنے بیان کردہ حالات پر ہی مشتمل ہیں مگر اس ضمن میں ایک بات یاد رکھنی چاہیے اور وہ یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بعض اوقات واقعات کی تاریخ معیّن صورت میں یاد نہیں رہتی تھی درحقیقت حافظہ کی مختلف اقسام ہیں ۔ بعض لوگوں کا حافظہ عموماً پختہ ہوتا ہے مگر ایک خاص محدود میدان میں اچھا کا م نہیں کرتا اور دراصل تاریخوں کو یاد رکھنا خصوصاً جب وہ ایسے واقعات کے متعلق ہوں جو منفرد ہیں اور سلسلہ واقعات کی کسی لڑی میں منسلک نہیں ۔ایک ایسے شخص کیلئے خصوصاً مشکل ہو تا ہے جس کا دماغ کسی نہایت اعلیٰ کام کیلئے بنا یا گیا ہو۔ درحقیقت واقعات کی تاریخوں کو یاد رکھنے کے متعلق جو حافظہ کی طاقت ہے وہ انسانی دماغ کی دوسری طاقتوں کے مقابلہ میں ایک ادنیٰ طاقت ہے بلکہ عموماً دیکھا گیا ہے کہ جن لوگوں کی یہ طاقت تیز ہوتی ہے وہ بالعموم دماغ کے اعلیٰ طاقتوں میں فروتر ہو تے ہیں ۔واللہ اعلم
{ 182} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت صاحب نے تم بچوں کی شادیاں تو چھوٹی عمر میں ہی کر دی تھیں مگر اُن کا منشا ء یہ تھا کہ زیادہ اختلا ط نہ ہو تاکہ نشوونما میں کسی قسم کا نقص پیدا نہ ہو ۔
{ 183} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے شیخ عبدالرحمن صاحب مصری نے کہ جب میں پہلے پہل قادیان آیا تو اُسی دن شیخ رحمت اللہ صاحب لاہوری بھی ایک عیسائی نوجوان کو مسلمان کر نے کیلئے ساتھ لائے تھے ۔ہم دونوں اکٹھے ہی حضرت مسیح موعود کے سامنے پیش ہوئے ۔لیکن حضرت مسیح موعود نے میری بیعت تو لے لی اور اسکو درخواست بیعت کے خط کے جواب میں لکھا کہ پھر بیعت لیں گے ابھی ٹھہر و حالانکہ اُس کو حضرت صاحب کے سامنے شیخ رحمت اللہ صاحب نے پیش کیا تھا جو ایک بڑے آدمی تھے اور حضرت صاحب کو اُن کا بہت خیال تھا ۔اس عیسائی نوجوان نے دوبارہ حضرت صاحب کو لکھا مگر اس دفعہ بھی حضرت صاحب نے یہی جواب دیا کہ پھر بیعت لیں گے ۔پھر اس نے تیسری دفعہ لکھا کہ کوئی دن مقرر کر دیا جائے ۔ اس دن غالباًمنگل یا بدھ تھا ۔حضرت صاحب نے کہا جمعرات کے دن بیعت لیں گے ۔یہ جواب لے کر وہ شخص نا راض ہو کر چلا گیا اور پھر عیسائی ہو گیا ۔اس کے بعد کسی نے حضرت صاحب سے ذکر کیا کہ وہ لڑکا تو واپس جا کر عیسائی ہو گیا ۔حضرت صاحب نے فرمایا کہ میں بھی اسی لئے توقف کرتا تھا اور فرمایا کہ جو لوگ ہندوؤں سے مسلمان ہوتے ہیں وہ عموماً سچے دل سے ہوتے ہیں ۔اور ان میں ایمان کی محبت ہوتی ہے ۔ مگر عیسائیوں میں سے اسلام کی طرف آنے والے بالعموم قابل اعتبار نہیں ہوتے ۔ مجھے اس لڑکے پر اعتماد نہیں تھا اور میں چاہتا تھا کہ وہ کچھ عرصہ اور ٹھہرے۔
{ 184} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے عزیزم مرزا رشید احمد صاحب (جو مرزا سلطان احمد صاحب کا چھوٹا لڑکا ہے )کے ذریعے مرزا سلطان احمد صاحب سے دریافت کیا تھا کہ آپ کو حضرت مسیح موعود ؑ کے سن ولادت کے متعلق کیا علم ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ جہاں تک مجھے معلوم ہے ۔ ۱۸۳۶ء میں آپ کی ولادت ہوئی تھی ۔
{ 185} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے مولوی رحیم بخش صاحب ایم اے افسر ڈاک (یعنی پرائیویٹ سیکرٹری ) کی معرفت مرزا سلطان احمد صاحب سے دریافت کیا تھا کہ آپ کی پیدائش کس سال کی ہے ؟ تو انہوں نے کہا کہ مجھے اچھی طرح معلوم نہیں ۔بعض کاغذوں میں تو ۱۸۶۴ء لکھا ہے ۔ مگر ہندو پنڈت مجھے کہتا تھا کہ میری پیدائش۱۹۱۳ء بکرمی کی ہے اور میں نے سنا ہے کہ والد صاحب کی عمر میری ولادت کے وقت کم وبیش اٹھارہ سال کی تھی ۔خاکسار عرض کرتا ہے ۔۱۹۱۳ء بکرمی والی روایت زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے کیونکہ دوسرے قرائن اس کے مؤید ہیں ۔نیز یہ بات بھی اس کے حق میں ہے کہ ہندو عموماً جنم پتری کی حفاظت میں بہت ماہر ہوتے ہیں ۔اس لحاظ سے مرزا سلطان احمد صاحب کی پیدائش ۱۸۵۶ء کے قریب کی بنتی ہے ۔اور اگر اس وقت حضرت صاحب کی عمر ۱۸یا ۱۹ سال سمجھی جاوے تو آپ کا سن ولادت وہی۳۷۔ ۱۸۳۶ء کے قریب پہنچتا ہے ۔پس ثابت ہوا کہ ۱۸۳۶ ء والی روایت صحیح ہے۔ اس کا ایک اوربھی ثبوت ہے اور وہ یہ کہ حضرت صاحب نے لکھا ہے (دیکھو التبلیغ آئینہ کمالات اسلام)اور بیان بھی فرمایا کرتے تھے کہ ہماری والدہ صاحبہ فرمایا کرتی تھیں کہ ہمارے خاندان کے مصیبت کے دن تیری ولادت کے ساتھ پھر گئے تھے اور فراخی میسّر آگئی تھی اور اسی لئے وہ میری پیدائش کو مبارک سمجھا کرتی تھیں۔اب یہ قطعی طور پر یقینی ہے کہ را جہ رنجیت سنگھ کے زمانہ میں ہی خاندان کے مصائب کے دن دور ہو کر فراخی شروع ہو گئی تھی اور قادیان اور اس کے ارد گرد کے بعض مواضعات دادا صاحب کو راجہ رنجیت سنگھ نے بحال کر دیئے تھے اور دادا صاحب کو اپنے ماتحت ایک معزز عہدہ فوجی بھی دیا تھا اور را جہ کے ماتحت دادا صاحب نے بعض فوجی خدمات بھی سرانجام دی تھیں ۔پس بہر حال حضرت صاحب کی پیدائش رنجیت سنگھ کی موت یعنی ۱۸۳۹ء سے کچھ عرصہ پہلے ماننی پڑے گی ۔لہٰذا اس طرح بھی ۱۸۳۶ء والی روایت کی تصدیق ہوتی ہے ۔ وھو المراد ۔اور حضرت صاحب نے جو۱۸۳۹ء لکھا ہے سو اس کو خود آپ کی دوسری تحریریں رد کرتی ہیں ۔ چنانچہ ایک جگہ آپ نے ۱۹۰۵ء میںاپنی عمر ۷۰ سال بیان کی ہے اور وہاں یہ بھی لکھا ہے یہ تمام اندازے ہیں ۔صحیح علم صرف خدا کو ہے ۔خاکسار عر ض کرتا ہے کہ میری تحقیق میں اوائل ۱۲۵۲ھ میں آپ کی ولادت ہوئی تھی اور وفات ۱۳۲۶ھ میں ہوئی۔واللہ اعلم ۔
{ 186} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم ۔ اے ۔کہ میں بچپن میںوالد صاحب یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تا ریخ فرشتہ ،نحو میر اور شائد گلستان ۔بوستان پڑھا کرتا تھا اور والدصاحب کبھی کبھی پچھلا پڑھا ہوا سبق بھی سنا کرتے تھے ۔مگر پڑھنے کے متعلق مجھ پر کبھی ناراض نہیں ہوئے ۔حالانکہ میں پڑھنے میں بے پرواہ تھا لیکن آخر دادا صاحب نے مجھے والدصاحب سے پڑھنے سے روک دیا اور کہا کہ میں نے سب کو ملّاں نہیں بنادینا ۔تم مجھ سے پڑھا کرو مگر ویسے داداصاحب والد صاحب کی بڑی قدر کرتے تھے ۔
{ 187} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم۔اے کہ ایک دفعہ والد صاحب اپنے چو بارے کی کھڑکی سے گر گئے اور دائیں بازو پر چوٹ آئی چنانچہ آخری عمر تک وہ ہاتھ کمزور رہا۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ والدہ صا حبہ فرماتی تھیں کہ آپ کھڑکی سے اُترنے لگے تھے سامنے سٹول رکھا تھا وہ الٹ گیا اور آپ گر گئے اور دائیں ہاتھ کی ہڈی ٹوٹ گئی اور یہ ہاتھ آخر عمر تک کمزور رہا ۔اس ہاتھ سے آپ لقمہ تو منہ تک لے جا سکتے تھے مگر پانی کا برتن وغیرہ منہ تک نہیں اُٹھا سکتے تھے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ نماز میں بھی آپ کو دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کے سہارے سے سنبھالنا پڑتا تھا۔
{ 188} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب تیرنا اور سواری خوب جانتے تھے ۔ اور سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ بچپن میں مَیں ڈوب چلا تھا ۔تو ایک اجنبی بڈھے سے شخص نے مجھے نکالا تھا اس شخص کو میں نے اس سے قبل یا بعد کبھی نہیں دیکھا ۔نیز فرماتے تھے کہ میں ایک دفعہ ایک گھوڑے پر سوار ہوا ۔اس نے شوخی کی اور بے قابو ہو گیا ۔میں نے بہت روکنا چاہا مگر وہ شرارت پر آمادہ تھا نہ رکا ۔ چنانچہ وہ اپنے پورے زور میں ایک درخت یا دیوار کی طرف بھاگا ۔(اَلشَّکُّ مِنّی)اور پھر اس زور کے ساتھ اس سے ٹکرایا کہ اس کا سر پھٹ گیا اور وہ وہیں مر گیا ۔مگر مجھے اللہ تعالیٰ نے بچا لیا ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب بہت نصیحت کیا کرتے تھے کہ سر کش اور شریر گھوڑے پر ہرگز نہیں چڑھنا چاہیے۔اور یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ اس گھوڑے کا مجھے مارنے کا ارادہ تھا ۔مگر میں ایک طرف گر کربچ گیا اور وہ مرگیا ۔
{ 189} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم۔اے کہ والد صاحب باہر چوبارے میں رہتے تھے ۔وہیں اُن کے لئے کھانا جاتا تھا ۔اور جس قسم کا کھانا بھی ہوتا تھا کھالیتے تھے ۔کبھی کچھ نہیں کہتے تھے ۔
{ 190} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم ۔ اے کہ والد صاحب تین کتابیں بہت کثرت کے ساتھ پڑھا کرتے تھے ۔یعنی قرآن مجید،مثنوی رومی اور دلائل الخیرات اور کچھ نوٹ بھی لیا کرتے تھے اور قرآن شریف بہت کثرت سے پڑھا کرتے تھے۔
{ 191} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم ۔اے کہ والد صاحب میاں عبد اللہ صاحب غزنوی اور سماں والے فقیر سے ملنے کے لئے کبھی کبھی جایا کرتے تھے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی عبدا للہ صاحب غزنوی کی ملاقات کا ذکر حضرت صاحب نے اپنی تحریرات میں کیا ہے ۔اور سماں والے فقیرکے متعلق شیخ یعقوب علی صاحب نے لکھا ہے کہ اُن کا نام میاں شرف دین صاحب تھا اور وہ موضع سُم نزد طالب پور ضلع گورداسپور کے رہنے والے تھے۔سُم میں پانی کا ایک چشمہ ہے اور غالباً اسی وجہ سے وہ سُم کہلاتا ہے ۔
{ 192} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم ۔ اے ،کہ دادا صاحب ہمارے تا یا مرزا غلام قادر صاحب کو کرسی دیتے تھے ۔یعنی جب وہ دادا صاحب کے پاس جاتے تو وہ ان کو کرسی پر بٹھا تے تھے لیکن والد صاحب جا کر خود ہی نیچے صف کے اوپر بیٹھ جاتے تھے ۔کبھی دادا صاحب ان کو اوپر بیٹھنے کو کہتے تو والد صاحب کہتے کہ میں اچھا بیٹھا ہوں ۔
{ 193} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم ۔ اے، کہ والد صاحب کا دستور تھا کہ سارا دن الگ بیٹھے پڑھتے رہتے تھے ۔اور ارد گرد کتا بوں کا ڈھیر لگا رہتا تھا ۔ شام کو پہاڑی در وازے یعنی شمال کی طرف یا مشرق کی طرف سیر کرنے جایا کرتے تھے ۔
{ 194} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم ۔ اے ،کہ والد صاحب اردو اور فارسی کے شعر کہا کرتے تھے اور فرخ تخلص کرتے تھے ۔
{ 195} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم ۔ اے ،کہ والد صاحب دادا صاحب کی کمال تابعداری کرتے تھے ۔افسروں وغیرہ کے ملنے کو خود طبیعت نا پسند کرتی تھی ۔لیکن دادا صاحب کے حکم سے کبھی کبھی چلے جاتے تھے ۔
{ 196} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مولوی رحیم بخش صاحب ایم۔ اے نے، کہ میں نے مرزا سلطان احمد صاحب سے پوچھا کہ حضرت صاحب کے ابتدائی حالات اور عا دات کے متعلق آپ کو جو علم ہو وہ بتائیں تو انہوں نے جواب دیا کہ والد صاحب ہر وقت دین کے کا م میں لگے رہتے تھے ۔گھر والے اُن پر پورا عتماد کرتے تھے ۔گاؤں والوں کو بھی اُن پر پورا اعتبار تھا۔شریک جو ویسے مخالف تھے ۔ اُن کی نیکی کے اتنے قائل تھے کہ جھگڑوں میں کہہ دیتے تھے کہ جو کچھ یہ کہہ دیں گے ہم کو منظور ہے ۔ہر شخص اُن کو امین جانتا تھا ۔ مولوی صاحب کہتے ہیں میں نے پوچھا کہ کچھ اور بتا ئیے ۔مرزا صاحب نے کہا اور بس یہی ہے کہ والد صاحب نے اپنی عمر ایک مغل کے طور پر نہیں گزاری بلکہ فقیر کے طور پر گزاری ۔اور مرزا صاحب نے اسے باربار دہرایا ۔مولوی صاحب نے کہا کہ میں نے دریافت کیا کہ کیا حضرت صاحب کبھی کسی پر ناراض بھی ہوتے تھے ؟ مرزا صاحب نے جواب دیا کہ اُن کی نا راضگی بھی صرف دینی معاملات میں ہوتی تھی ۔ بعض اوقات مجھے نماز کے لئے کہا کرتے تھے مگر میں نماز کے پاس تک نہ جاتا تھا ۔ہاں ایک بات میں نے خاص طور پر دیکھی ہے کہ حضرت صاحب (یعنی آنحضرت ﷺ )کے متعلق والد صاحب ذرا سی بات بھی برداشت نہیں کرسکتے تھے ۔اگر کوئی شخص آنحضرت ﷺ کی شان میں ذرا سی بات بھی کہتا تھا تو والد صاحب کا چہرہ سرخ ہو جاتا تھا اور آنکھیں متغیر ہو جاتی تھیں اور فوراً ایسی مجلس سے اُٹھ کر چلے جاتے تھے ۔ مولوی صاحب نے بیان کیا کہ مرزا صاحب نے اس مضمون کو باربار دہرایا اور کہا کہ حضرت صاحب سے تو بس والد صاحب کو عشق تھا ۔ ایسا عشق میں نے کبھی کسی شخص میں نہیں دیکھا ۔خاکسارعر ض کرتا ہے حضرت خلیفہ ثانی بیان کر تے تھے کہ جب دسمبر۱۹۰۷ء میں آریوں نے وچھو والی لاہور میں جلسہ کیا اور دوسروں کو بھی دعوت دی تو حضرت صاحب نے بھی ان کی درخواست پر ایک مضمون لکھ کر حضرت مولوی صاحب خلیفہ اوّل کی امارت میں اپنی جماعت کے چند آدمیوں کو لاہور شرکت کے لئے بھیجا ۔مگر آریوں نے خلاف وعدہ اپنے مضمون میں آنحضرت ﷺ کے متعلق سخت بدزبانی سے کام لیا۔ اس کی رپورٹ جب حضرت صاحب کو پہنچی تو حضرت صاحب اپنی جماعت پر سخت ناراض ہوئے کہ ہماری جماعت کے لوگ اس مجلس سے کیوں نہ اُٹھ آئے اور فرمایا کہ یہ پرلے درجہ کی بے غیرتی ہے کہ آنحضرت ﷺ کو ایک مجلس میں برا کہا جاوے اور ایک مسلمان وہاں بیٹھا رہے اور غصہ سے آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور آپ سخت ناراض ہوئے کہ کیوں ہمارے آدمیوں نے غیر ت دینی سے کام نہ لیا۔ جب انہوں نے بد زبانی شروع کی تھی تو فوراً اس مجلس سے اُٹھ آنا چاہیے تھا۔اور حضرت خلیفہ ثانی بیان کر تے تھے کہ میں اس وقت اٹھنے بھی لگا تھا مگر پھر مولوی صاحب کی وجہ سے ٹھہر گیا اور حافظ روشن علی صاحب بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت صاحب نارض ہو رہے تھے تو آپ نے مجھ سے کہا کہ حافظ صاحب و ہ کیا آیت ہے کہ جب خدا کی آیات سے ٹھٹھا ہو تو اس مجلس میں نہ بیٹھو اس پر میں نے حَتّٰی یَخُوْ ضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِہٖ (النّسائ:۱۴۱) والی آیت پڑھ کر سنائی اور حافظ صاحب کہتے ہیں کہ اس وقت حضرت مولوی صاحب سر نیچے ڈالے بیٹھے تھے ۔
{ 197} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم ۔ اے کہ میاں جان محمد والد صاحب کے ساتھ بہت رہتا تھا اور میاں جان محمد کا بھائی غفار ہ والدصاحب کے ساتھ سفروں میں بعض دفعہ بطور خدمت گار کے جایا کرتا تھا ۔اور بعض دفعہ کو ئی اور آدمی چلا جاتا تھا ۔خاکسارعرض کرتا ہے کہ میاں جان محمد قادیان کا ایک نیک مزاج مُلّا تھا اور حضرت صاحب کے ساتھ بہت تعلق رکھتا تھا ۔اوائل میں بڑی مسجد میں نماز وغیرہ بھی وہی پڑھایا کرتا تھا غالباً حضرت خلیفہ ثانی کو بھی بچپن میں اُس نے پڑھا یا تھا ۔غفار ا اُس کا بھائی تھا ،یہ شخص بالکل جاہل اور ان پڑھ تھا ۔اور بعض اوقات حضرت صاحب کی خدمت میں رہتا تھا ۔ بعد میں جب قادیان میں آمدو رفت کی ترقی ہوئی تو اس نے یّکے بنا کر یّکہ بانی شروع کر دی تھی ۔اس کے لڑکے اب بھی یہی کام کر تے ہیں بوجہ جاہل مطلق ہو نے کے غفارے کو دین سے کو ئی مس نہ تھا مگر اپنے آخری دنوں میں یعنی بعہد خلافت ثانیہ احمدی ہوگیا تھا ۔شیخ یعقوب علی صاحب نے لکھا ہے کہ حضرت صاحب کی نصیحت سے غفارے نے اوائل میں جب وہ حضرت صاحب کی خدمت میں تھا نماز شروع کر دی تھی مگر پھر چھوڑ دی ۔اصل میں ایسے لوگ اعراب کے حکم میں ہوتے ہیں مگر جان محمد مرحوم نیک آدمی تھا اور کچھ پڑھا ہوا بھی تھا ۔ اُس کے لڑکے میاں دین محمد مرحوم عرف میاں بگا کو ہمارے اکثر دوست جانتے ہونگے ۔قوم کا کشمیری تھا ۔
{ 198} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم ۔ اے ،کہ ہمارے ساتھ والد صاحب کے بہت کم تعلقات تھے ۔یعنی میل جول کم تھا ۔وہ ہم سے ڈرتے تھے اور ہم اُن سے ڈرتے تھے (یعنی وہ ہم سے الگ الگ رہتے تھے اور ہم اُن سے الگ الگ رہتے تھے کیونکہ ہر دو کا طریق اور مسلک جدا تھا ) اور چونکہ تایا صاحب مجھے بیٹوں کی طرح رکھتے تھے اور جائداد وغیرہ بھی سب اُنہی کے انتظام میں تھی ۔والد صاحب کا کچھ دخل نہ تھا اس لئے بھی ہمیں اپنی ضروریات کے لئے تایاصاحب کے ساتھ تعلق رکھنا پڑتا تھا ۔
{ 199} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیا ن کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولو ی رحیم بخش صاحب ایم ۔ اے، کہ والد صاحب کی ایک بہن ہوتی تھیں ان کو بہت خواب اور کشف ہو تے تھے ۔مگر داد ا صاحب کی ان کے متعلق یہ رائے تھی کہ ان کے دماغ میں کو ئی نقص ہے ۔لیکن آخر انہوں نے بعض ایسی خوابیں دیکھیں کہ داد اصاحب کو یہ خیال بدلنا پڑا ۔ چنانچہ انہوں نے ایک دفعہ خواب میں دیکھا کہ کوئی سفید ریش بڈھا شخص ان کو ایک کاغذ جس پر کچھ لکھا ہوا ہے بطور تعویذ کے دے گیا ہے ۔جب آنکھ کھلی تو ایک بھوج پتر کا ٹکڑا ہاتھ میں تھا جس پر قرآن شریف کی بعض آیات لکھی ہو ئی تھیں ۔پھر انہوں نے ایک اور خواب دیکھا کہ وہ کسی دریا میں چل رہی ہیں جس پر انہوں نے ڈر کر پانی پانی کی آواز نکالی اور پھر آنکھ کھل گئی ۔دیکھا تو ان کی پنڈلیاںتر تھیں اور تازہ ریت کے نشان لگے ہو ئے تھے ۔ داداصاحب کہتے تھے کہ ان باتوں سے خلل دماغ کو کوئی تعلق نہیں ۔
{ 200} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیامجھ سے مرزا سلطا ن احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم۔اے ،کہ ایک دفعہ والد صاحب سخت بیمار ہو گئے اور حالت نازک ہو گئی اور حکیموں نے نا امیدی کا اظہار کر دیا اور نبض بھی بند ہو گئی مگر زبان جاری رہی ۔والد صاحب نے کہا کہ کیچڑ لا کر میرے اوپر اور نیچے رکھو چنانچہ ایسا کیا گیا اور اس سے حالت روباصلا ح ہو گئی ۔خاکسارعر ض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ نے لکھا ہے کہ یہ مرض قولنج زحیری کا تھا اور یہ کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو دکھا یا تھا کہ پانی اور ریت منگوا کر بدن پر ملی جاوے ۔ سو ایسا کیا گیا تو حالت اچھی ہوگئی ۔مرزاسلطان احمد صاحب کو ریت کے متعلق ذہول ہو گیا ہے ۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{ 201} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ حضرت صاحب ایک دفعہ غیر معمولی طور پر غرب کی طرف سیر کو گئے تو راستے سے ہٹ کر عید گاہ والے قبرستان میں تشریف لے گئے اور پھر آپ نے قبرستان کے جنوب کی طرف کھڑے ہو کر دیر تک دعا فرمائی ۔خاکسار نے دریافت کیا کہ کیا آپ نے کوئی خاص قبر سامنے رکھی تھی ؟ مولوی صاحب نے کہا میں نے ایسا نہیں خیال کیا اور میں نے اس وقت دل میں یہ سمجھا تھا کہ چونکہ اس قبرستا ن میں حضرت صاحب کے رشتہ داروں کی قبریں ہیں اس لئے حضرت صاحب نے دعا کی ہے ۔ خاکسارعر ض کرتا ہے کہ شیخ یعقوب علی صاحب نے لکھا ہے کہ وہاں ایک دفعہ حضرت صاحب نے اپنی والدہ صاحبہ کی قبر پر دعا کی تھی ۔مولوی صاحب نے یہ بھی بیان کیا کہ جب حضرت صاحب کی لڑکی امۃ النصیر فوت ہو ئی تو حضرت صاحب اسے اسی قبرستان میں دفنانے کیلئے لے گئے تھے اور آپ خود اسے اُٹھا کر قبر کے پاس لے گئے ۔ کسی نے آگے بڑ ھ کرحضور سے لڑکی کو لینا چاہا مگر آپ نے فرمایا کہ میں خود لے جائوں گا اور حافظ روشن علی صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس وقت حضرت صاحب نے وہاں اپنے کسی بزرگ کی قبر بھی دکھائی تھی ۔
{ 202} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ میرے چچا مولوی شیر محمد صاحب مرحوم بیان کرتے تھے کہ اوائل میں بعض اوقا ت حضرت مسیح موعودؑ بھی حضر ت مولوی نورالدین صاحب کے درس میں چلے جایا کرتے تھے ۔ایک دفعہ مولوی صاحب نے درس میں بدر کی جنگ کے موقع پرفرشتے نظر آنے کا واقعہ بیان کیا اور پھر اس کی کچھ تاویل کر نے لگے تو حضر ت صاحب نے فرمایا کہ نہیں ایسا ہو سکتا ہے کہ فرشتوں کے دیکھنے میں نبی کے ساتھ دوسرے لوگ بھی شریک ہو گئے ہوں ۔
{ 203} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ جب ۴؍اپریل ۱۹۰۵ء کا زلزلہ آیا تھا اس دن میں نے حضرت صاحب کو باغ میں آٹھ نو بجے صبح کے وقت نماز پڑھتے دیکھا تھا اور میں نے دیکھا کہ آپ نے بڑی لمبی نماز پڑھی تھی۔
{ 204} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ ایک دن حضرت صاحب شمال کی طرف سیر کو تشریف لے گئے۔ راستہ میں کسی نے حضرت صاحب کے سامنے پیش کیا کہذٰلِکَ لِیَعْلَمَ اَنِّیْ لَمْ اَخُنْہُ بِالْغَیْبِ(یوسف:۵۳) والی آیت کے متعلق مولوی نورالدین صاحب نے بیان کیا ہے کہ یہ زلیخا کا قول ہے ۔حضرت صاحب نے کہا کہ مجھے کو ئی قرآن شریف دکھائو چنانچہ ماسٹر عبدالرئوف صاحب نے حمائل پیش کی آپ نے آیت کا مطالعہ کر کے فرمایا کہ یہ تو زلیخا کا کلام نہیں ہو سکتا ۔یہ یوسف علیہ السلام کا کلام ہے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے دوسرے طریق پر سنا ہے کہ اس وقت وَمَا أُبَرِّیُٔ نَفْسِیْ اِنَّ النَّفْسَ لَاَ مَّارَۃٌ بِا لسُّوئِ (یوسف:۵۴) کے الفاظ کا ذکر تھا اور یہ کہ حضر ت صاحب نے اس وقت فرمایا تھا کہ یہ الفاظ ہی ظاہر کر رہے ہیں کہ یہ زلیخا کا کلام نہیں بلکہ نبی کا کلام ہے کیونکہ ایسا پاکیزہ،پر معنی کلام یوسف ہی کے شایا ن شان ہے ۔زلیخا کے منہ سے نہیں نکل سکتا تھا۔
{ 205} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم۔اے ، کہ والد صاحب عموماً غرارا پہنا کرتے تھے۔مگر سفروں میں بعض اوقات تنگ پاجامہ بھی پہنتے تھے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ جیسا کہ ناظرین بھی سمجھتے ہوںگے۔مرزا سلطان احمد صاحب کی سب روایات حضرت مسیح موعود ؑ کے زمانہ شباب یا کہولت کے متعلق سمجھنی چاہئیں۔طفولیت یا بڑھاپے کی عمر کے متعلق اگر ان کی کوئی روایت ہو تو یہ سمجھنا چاہیے کہ عموماً انہوں نے وہ کسی اور سے سن کر بیان کی ہے۔ کیونکہ اس زمانہ میں انکا تعلق حضرت مسیح موعود سے نہیں رہا تھا ۔الا ماشاء اللہ۔
{ 206} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے مولوی رحیم بخش صاحب ایم۔اے نے کہ میں نے مرزا سلطان احمد صاحب سے سوال کیا تھا کہ حضرت صاحب سے زیادہ تر قادیان میں کن لوگوں کی ملاقات تھی؟ مرزا صاحب نے کہا کہ ملاوامل اور شرم پت ہی زیادہ آتے جاتے تھے کسی اور سے ایسا راہ ورسم نہ تھا ۔
{ 207} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مولوی رحیم بخش صاحب ایم ۔اے نے کہ ان سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بیان کیا کہ ایک دفعہ مسٹر میکانکی ڈپٹی کمشنر گورداسپور قادیان دورہ پر آئے ۔راستے میں انہوں نے دادا صاحب سے کہا کہ آپکے خیال میں سکھ حکومت اچھی تھی یا انگریزی حکومت اچھی ہے ؟ دادا صاحب نے کہا کہ گائوں چل کر جواب دوں گا ۔جب قادیان پہنچے تو داد اصاحب نے اپنے اور اپنے بھائیوں کے مکانات دکھا کر کہا کہ یہ سکھوں کے وقت کے بنے ہو ئے ہیں مجھے امید نہیں کہ آپ کے وقت میں میرے بیٹے ان کی مرمت بھی کر سکیں ۔
خاکسارعرض کرتا ہے کہ سکھوں کی حکومت قدیم شاہی رنگ کے طرز پر تھی۔ اب اور رنگ ہے اور ہر رنگ اپنی خوبیاں رکھتا ہے ۔
{ 208} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مولوی رحیم بخش صاحب ایم۔اے نے کہ ان سے مرزا سلطا ن احمد صاحب نے بیان کیا کہ میں نے تحصیلداری کا امتحان ۱۸۸۴ء میں دیا تھا اس وقت میں نے والد صاحب کودعا کیلئے ایک رقعہ لکھا تو انہوں نے رقعہ پھینک دیا اور فرمایا ’’ ہمیشہ دنیا داری ہی کے طالب ہوتے ہیں ‘‘۔ جو آدمی رقعہ لے کر گیا تھا اس نے آکر مجھے یہ واقعہ بتا یا ۔اس کے بعد والد صاحب نے ایک شخص سے ذکر کیا کہ ہم نے تو سلطا ن احمد کا رقعہ پھینک دیا تھا مگر خدا نے ہمیں القاء کیا ہے کہ ’’اس کو پاس کر دیا جاوے گا ‘‘۔اس شخص نے مجھے آکر بتا دیا چنانچہ میں امتحان میں پاس ہو گیا ۔
{ 209} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مولوی رحیم بخش صاحب نے کہ ان سے مرزا سلطا ن احمد صاحب نے بیان کیا کہ داد اصاحب نے قریباًساٹھ سال طبابت کی ۔مگرکبھی کسی سے ایک پائی تک نہیں لی ۔ خاکسارعر ض کرتا ہے کہ حضرت صاحب بھی یہی فرمایا کرتے تھے کہ بڑے مرزا صاحب نے کبھی علاج کے معاوضہ میں کسی سے کچھ نہیں لیا یعنی اپنی طبابت کو ہمیشہ ایک خیراتی کام رکھا اور اس کو اپنی معاش کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ بعض دفعہ بعض لوگوں نے آپ کو بہت بہت کچھ دینا چاہا مگر آپ نے انکار کردیا ۔خاکسار عرض کرتا ہے۔ مجھے تعجب آتا ہے کہ میاںمعراج دین صاحب عمر نے اپنے مضمون میں ہمارے دادا صاحب کے متعلق یہ کس طرح لکھ دیا کہ ’’ خوش قسمتی سے طبابت کا جوہر ہاتھ میں تھا اس کی بدولت گذارا چلتا گیا ۔‘‘ اور پھر یہ بات اس زمانہ کے متعلق لکھی ہے کہ جب پڑدادا صاحب کی وفات ہوئی تھی۔
چہ خوش یک نہ شد دو شد
{ 210} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے مولوی رحیم بخش صاحب ایم ۔اے نے کہ ان سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بیان کیا کہ والد صاحب رجب علی کا اخبار ’’سفیر امرتسر‘‘ اور اگنی ہوتری کا رسالہ ’’ہندو بندو‘‘ اور اخبار ’’منشور محمدی‘‘ منگا یا اور پڑھا کرتے تھے اور مؤخر الذکر میں کبھی کبھی کو ئی مضمون بھی بھیجا کر تے تھے ۔خاکسارعر ض کرتا ہے کہ آخری عمر میں حضرت صاحب ’’اخبار عام‘‘ لاہور منگایا کرتے تھے ۔
{ 211} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جس دن میں قادیان بیاہی ہوئی پہنچی تھی اسی دن مجھ سے چند گھنٹے قبل مرزا سلطان احمد اپنی پہلی بیوی یعنی عزیز احمد کی والدہ کو لے کر قادیان پہنچے تھے ۔اور عزیز احمد کی والدہ مجھ سے کچھ بڑی معلوم ہوتی تھیں اور والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ فضل احمد کی شادی مرزا سلطان احمد سے بھی کئی سال پہلے ہو چکی تھی ۔
{ 212} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے کہ حضر ت صاحب کے ایک حقیقی ماموں تھے (جن کا نام مرزا جمعیت بیگ تھا ) ان کے ہاں ایک لڑکا اور ایک لڑکی ہوئے اور ان کے دماغ میں کچھ خلل آگیا تھا ۔ لڑکے کا نام مرزا علی شیر تھا اور لڑکی کا نام حرمت بی بی ۔لڑکی حضرت صاحب کے نکاح میں آئی اور اسی کے بطن سے مرزا سلطان احمد اور مرزا فضل احمد پیدا ہوئے ۔مرزا علی شیر مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری کی بہن حرمت بی بی سے بیاہا گیا جس سے ایک لڑکی عزت بی بی پیدا ہو ئی ۔یہ عزت بی بی مرزا فضل احمد کے نکاح میں آئی ۔مرز ا احمد بیگ کی دوسری بہن امام بی بی مرزا غلام حسین کے عقد میں آئی تھی ۔ مرزا سلطان احمد کی پہلی بیوی ایمہ ضلع ہوشیار پور کی رہنے والی تھی اور حضرت صاحب اس کو اچھا جانتے تھے ۔ مرزا سلطان احمد نے اسی بیوی کی زندگی میں ہی مرزا امام الدین کی لڑکی خورشید بیگم سے نکا ح ثانی کر لیا تھا اس کے بعد عزیز احمد کی والدہ جلد ہی فوت ہو گئی ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دادی یعنی تمہارے داد ا صاحب کی والدہ بہت عرصہ تک زندہ رہیں ۔حضرت مسیح موعود ؑ نے ان کو دیکھا تھا مگر بوجہ درازیٔ عمر ان کے ہوش و حواس میں کچھ فرق آگیا تھا۔تمہارے دادا صاحب کے بھائی مرزا غلام محی الدین کی اولاد کی تفصیل یہ ہے اول حرمت بی بی جو تمہارے تایا صاحب مرزا غلام قادر صاحب کے عقد میں آئیں اور اب تائی کے نام سے معروف ہیں ان کے ہاں ایک لڑکی عصمت اور ایک لڑکا عبدالقادر پیدا ہوئے تھے مگر بچپن میں ہی فوت ہوگئے دوسرے مرزا امام الدین ۔تیسرے مرزا نظام الدین ۔چوتھے مرزا کمال ا لدین ۔پانچویں عمر النساء اور صفتاں جو توام پیدا ہوئیں ۔ان میں سے مقدم الذکر مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری کے نکاح میں آئی اور مؤخر الذکر ہوشیار پور کے ضلع میں کسی جگہ بیاہی گئی تھی مگر بے اولاد فوت ہو گئی ۔چھٹے فضل النساء جو مرزا اعظم بیگ لاہوری کے لڑکے مرزا اکبر بیگ کے عقد میں آئی ۔مرزا احسن بیگ صاحب جو احمدی ہیں انہی کے بطن سے ہیں ۔نیز والدہ صاحبہ نے بیان کیاکہ مرزا امام الدین حضرت صاحب سے بڑے تھے باقی سب باستثناء تمہاری تائی کے جو مرزا امام الدین سے بھی بڑی ہیں حضرت صاحب سے چھوٹے تھے ۔اور والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ تائی تمہارے تایا مرزا غلام قادر صاحب سے بھی کچھ بڑی ہیں نیز والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں نے سنا ہوا ہے کہ تمہارے تایا کے بعد تمہارے داد ا کے ہاں دو لڑکے پیدا ہو کر فوت ہوگئے تھے اسی لئے میں نے سنا ہے کہ حضرت صاحب کی ولادت پر آپ کے زندہ رہنے کے متعلق بڑی منتیں مانی گئی تھیں اور گویا ترس ترس کر حضرت صاحب کی پرورش ہو ئی تھی ۔ اگر تمہارے تایااورحضرت صاحب کے درمیان کو ئی غیر معمولی وقفہ نہ ہوتا یعنی بچے پیدا ہوکر فوت نہ ہو تے تو اس طرح منتیں ماننے اور ترسنے کی کوئی وجہ نہ تھی پس ضرور چند سال کا وقفہ ہوا ہوگا اور مرزا سلطان احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ شاید پانچ یا سات سال کا وقفہ تھا ۔اور والد ہ صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ مجھے جہاں تک یاد ہے وہ یہ ہے کہ سب سے پہلے تمہارے داد ا کے ہاں ایک لڑکا ہوا جو فوت ہوگیا پھر تمہاری پھوپھی مراد بی بی ہوئیں پھر تمہارے تایا پیدا ہوئے پھر ایک دو بچے ہو ئے جو فوت ہو گئے پھر حضر ت صاحب اور جنت توام پیدا ہوئے اور جنت فوت ہوگئی اور والدہ صاحبہ کہتی ہیں کہ تمہاری تائی کہتی تھیں کہ تمہارے تایا اور حضرت صاحب اوپر تلے کے تھے مگر جب میں نے منتیں ماننے اور ترسنے کا واقعہ سنا یا تو انہوں نے اسے تسلیم کیا مگر اصل امر کے متعلق خاموش رہیں ۔
{ 213} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم ۔ اے کہ ایک دفعہ بٹالہ کے را جہ تیجا سنگھ کو ایک خطر نا ک قسم کا پھوڑا نکلا۔بہت علاج کئے گئے مگر کچھ فائدہ نہ ہوا آخر اس نے دادا صاحب کی خدمت میں آدمی بھیجا ۔ داداصاحب گئے اور ( خداکے فضل سے ) وہ اچھا ہو گیا ۔اس پر راجہ مذکور نے دادا صاحب کو ایک بڑی رقم اور خلعت اور دو گائوں شتاب کوٹ اور حسن پور یا حسن آباد جو آپکی قدیم ریاست کا ایک جزو تھے پیش کئے اور ان کے قبول کر نے پر اصرار کیا مگر داد اصاحب نے یہ کہہ کر صاف انکا رکر دیا کہ میں ان دیہات کو علاج کے بدلے میں لینا اپنے اور اپنی اولاد کیلئے موجب ہتک سمجھتا ہوں ۔
{ 214} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم ۔ اے کہ داد ا صاحب نہایت وسیع الاخلاق تھے اور دشمن تک سے نیک سلوک کر نے میں دریغ نہ کرتے تھے چنانچہ ایک دفعہ جُوتی ولددولہ برہمن جس نے ایک دفعہ ہمارے خلاف کو ئی شہادت دی تھی بیمار ہو گیا تو داد اصاحب نے اس کا بڑی ہمدردی سے علاج کیا اور بعض لوگوں نے جتلایا بھی کہ یہ وہی شخص ہے جس نے خلاف شہادت دی تھی ۔مگر انہوں نے اس کی کوئی پروا نہیں کی ۔ایسی ایسی اور بھی کئی مثالیں ہیں ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ داد اصاحب کی بلند ہمتی اور وسعت حوصلہ مشہور ہے ۔
{ 215} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مرزاسلطان احمد صاحب نے کہ داد اصاحب شعر بھی کہا کرتے تھے اور تحسین تخلص کرتے تھے۔چنانچہ ان کے دو شعر مجھے یاد ہیں ۔ ؎
اے وائے کہ مابہ ماچہ کردیم
کردیم ناکردنی ہمہ عمر
دردِسَر من مشو طبیبا
ایں دردِ دل است دردِسر نیست
خاکسارعر ض کرتا ہے کہ داد اصاحب کے بعض شعر حضرت صاحب نے بھی نقل کئے ہیں ۔اور مرزا سلطان احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ اُن کا کلام جمع کر کے حافظ عمردراز صاحب ایڈیٹر پنجابی اخبار کو دیا تھا مگر وہ فوت ہو گئے ۔اور پھر نہ معلوم وہ کہاں گیا ۔نیز مرزا سلطان احمد صاحب نے بیان کیا کہ تایا صاحب بھی شعر کہتے تھے انکا تخلص مفتون تھا ۔نیز بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک ایرانی قادیان میں آیا تھا وہ داداصاحب سے کہتا تھا کہ آپ کا فارسی کلام ایسا ہی فصیح ہے جیسا کہ ایرانی شاعروں کا ہوتا ہے ۔
{ 216} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم ۔ اے کہ ایک دفعہ بٹالہ کے ایک ہندو حجام نے دا دا صاحب سے کہا کہ میری معافی ضبط ہو گئی ہے آپ ایجرٹن صاحب فنانشل کمشنر سے میری سفارش کریں ۔داد اصاحب اُسے اپنے ساتھ لاہور لے گئے ۔ اُس وقت لاہور کے شالا مار باغ میں ایک جلسہ ہو رہا تھا ۔دا دا صاحب نے وہاں جاکر جلسہ کی کارروائی ختم ہونے کے بعد ایجرٹن صاحب سے کہا کہ آپ اس شخص کا ہاتھ پکڑ لیں۔صاحب گھبرایا کہ کیا معاملہ ہے مگرداد اصاحب نے اصرار سے کہا تو اس نے ان کی خاطر اس حجام کا ہاتھ پکڑ لیا ۔اس کے بعد داد ا صاحب نے صاحب سے کہا کہ ہمارے ملک میں دستور ہے کہ جب کسی کا ہاتھ پکڑ لیتے ہیں توپھر خواہ سر چلاجائے چھوڑتے نہیں ۔اب آپ نے اس کا ہاتھ پکڑ ا ہے اس کی لاج رکھنا ۔پھر کہا کہ اس کی معافی ضبط ہو گئی ہے ۔ کیا معافیاں دیکر بھی ضبط کیا کرتے ہیں ؟ اس کی معافی بحال کر دیں ۔ایجرٹن صاحب نے اس کی مسل طلب کر کے معافی بحال کر دی ۔ یہی ایجرٹن صاحب بعد میں پنجاب کا لفٹیننٹ گورنر ہوگیا تھا ۔
{ 217} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم ۔ اے کہ دا دا صاحب میں خود داری بہت تھی ۔ایک دفعہ رابرٹ کسٹ صاحب کمشنر سے ملاقات کیلئے گئے ۔باتوں باتوں میں ا س نے پوچھا کہ قادیان سے سری گوبند پور کتنی دور ہے ؟ دادا صاحب کو یہ سوال ناگوار ہوا ۔فوراً بولے میں ہر کارہ نہیں اور سلام کہہ کر رخصت ہونا چاہا۔صاحب نے کہا مرزا صاحب آپ ناراض ہو گئے ؟ دادا صاحب نے کہا کہ ہم آپ سے اپنی باتیں کر نے آتے ہیں اور آپ اِدھر اُدھر کی باتیں پوچھتے ہیں جو آپ نے مجھ سے پوچھا ہے وہ میرا کام نہیں ہے ۔صاحب داد اصاحب کے اس جواب پر خوش ہوا ۔
{ 218} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم ۔ اے کہ ایک دفعہ جب ڈیوس صاحب اس ضلع میں مہتمم بندوبست تھا اور ان کا عملہ بٹالہ میں کام کرتا تھا ۔قادیان کا ایک پٹواری جو قوم کا برہمن تھا اور محکمہ بندوبست مذکور میں کام کرتا تھا ۔تایا صاحب مرزا غلام قادر صاحب کے ساتھ گستاخانہ رنگ میں پیش آیا ۔تایا صاحب نے وہیں اسکی مرمت کر دی۔ڈیوس صاحب کے پاس شکایت گئی ۔اُس نے تایا صاحب پر ایک سو روپیہ جر مانہ کر دیا ۔دا دا صاحب اُس وقت امرتسر میں تھے ان کو اطلاع ہوئی تو فوراً ایجرٹن صاحب کے پاس چلے گئے اور حالات سے اطلاع دی اس نے داد اصاحب کے بیان پر بلا طلب مسل جرمانہ معاف کر دیا ۔
{ 219} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم ۔ اے کہ ایک دفعہ تایا صاحب پولیس میں ملازم تھے۔ نسبٹ صاحب ڈپٹی کمشنر ضلع نے کسی بات پر اُن کو معطل کر دیا اس کے بعد جب نسبٹ صا حب قادیان آیا تو خود دادا صاحب سے ذکر کیا کہ میں نے آپ کے لڑکے کو معطل کر دیا ہے دادا صاحب نے کہا کہ اگر قصور ثابت ہے تو ایسی سخت سزا دینی چاہئے کہ آئندہ شریف زادے ایسا قصور نہ کریں ۔ صاحب نے کہا جس کا باپ ایسا ادب سکھانے والا ہو اس کو سزا دینے کی ضرورت نہیں ۔ اور تایا صاحب کو بحال کر دیا۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ تایا صاحب نے بھی بہت سے محکموں میں کام کیا ہے ۔پولیس میں بھی کام کیا ہے ۔ضلع کے سپرنٹنڈ نٹ بھی رہے ہیں ۔اور سُنا ہے نہر میں بھی کام کیا تھا اور بعض کاغذات سے معلوم ہوتا ہے کہ سرکاری کاموں کی ٹھیکہ داری بھی کی ہے ۔ چنانچہ میں نے ۱۸۶۰ء کے بعض کاغذات دیکھے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ تایا صاحب نے چھینہ کے پاس کسی پل کا بھی ٹھیکہ لیا تھا ۔
{ 220} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم ۔ اے کہ ایک دفعہ مہاراجہ شیر سنگھ کا ہنوو ان کے چھنب میں شکار کھیلنے کے لئے آیا ۔دادا صاحب بھی ساتھ تھے۔ مہاراجہ کے ایک ملازم کو جو قوم کا جولاہا تھا سخت زکام ہو گیا ۔دادا صاحب نے اس کو ایک نسخہ لکھ دیا اور وہ اچھا ہو گیا ۔ لیکن پھر یہی بیماری خود شیر سنگھ کو ہو گئی ۔اور اس نے علاج کے لئے دادا صاحب سے کہا ۔داداصاحب نے ایک بڑا قیمتی نسخہ لکھا ۔شیر سنگھ نے کہا کہ جولاہے کو دو ڈھائی پیسہ کا نسخہ اور مجھے اتنا قیمتی ؟دادا صاحب نے جواب دیا ۔شیر سنگھ اور جولاہا ایک نہیں ہو سکتے ۔شیر سنگھ اس جواب سے بہت خوش ہوا ۔اوراُس زمانہ کے دستور کے مطابق عزت افزائی کے لئے سونے کے کڑوں کی ایک جوڑی پیش کی ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ اس علاج کے بدلہ میں نہ تھی بلکہ مشرقی رؤساء اور بادشاہوں کا یہ دستورر ہا ہے کہ جب کسی بات پر خوش ہوتے ہیں تو ضرور کچھ چیز تقریب وانعام کے طور پرپیش کرتے ہیں ۔شیر سنگھ نے بھی جب ایسا برجستہ کلام سُناتو محظوظ ہو کر اس صورت میں اظہار خوشنودی کیا ۔
 
Top