• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

سیرت المہدی

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{ 361} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیاکہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام بڑی سختی کے ساتھ اس بات پر زور دیتے تھے کہ مقتدی کوامام کے پیچھے بھی سورۃ فاتحہ پڑھنی ضروری ہے۔ مگر ساتھ ہی یہ بھی فرماتے تھے کہ باوجودسورۃ فاتحہ کوضروری سمجھنے کے میں یہ نہیں کہتا کہ جو شخص سورۃ فاتحہ نہیں پڑھتااس کی نمازنہیں ہوتی ۔کیونکہ بہت سے بزرگ اوراولیاء اللہ ایسے گذرے ہیں جو سورۃ فاتحہ کی تلاو ت ضروری نہیں سمجھتے تھے۔اور میں ان کی نمازو ںکوضائع شدہ نہیں سمجھ سکتا ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حنفیوں کا عقیدہ ہے کہ امام کے پیچھے مقتدی کو خاموش کھڑے ہوکر اس کی تلاوت کو سننا چاہیے اور خود کچھ نہیں پڑھنا چاہیے ۔اور اہل حدیث کا یہ عقیدہ ہے کہ مقتدی کے لئے امام کے پیچھے بھی سورۃ فاتحہ کا پڑھنا ضروری ہے اور حضرت صاحب اس مسئلہ میں اہل حدیث کے مؤید تھے مگر باوجوداس عقیدہ کے آپ غالی اہل حدیث کی طرح یہ نہیں فرماتے تھے کہ جوشخص سورۃ فاتحہ نہیںپڑھتا اس کی نمازنہیں ہوتی۔
{ 362} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حضرت والدہ صاحبہ نے مجھ سے بیان کیاکہ عصمت جو تمہاری سب سے بڑی بہن تھی وہ جمعہ سے پہلی رات کو صبح کی نماز سے قبل پیدا ہوئی تھی اور بشیر اوّل اتوارسے قبل رات کو بعد از نصف شب پیدا ہوا تھا اور محمود (یعنی حضرت خلیفہ ثانی)ہفتہ سے پہلی رات کو دس گیارہ بجے کے قریب پیدا ہوئے تھے اور شوکت پیر کے دن چار بجے شام کے پیدا ہوئی تھی اور تم (یعنی یہ خاکسار )جمعرات کی صبح کو بعد طلوع آفتاب پیدا ہوئے تھے اور شریف بھی جمعرات کی صبح کو قبل طلوع آفتاب پیدا ہوئے تھے اور مبارکہ منگل سے پہلی رات کے نصف اوّل میں پیدا ہوئی تھیں۔اور مبارک بدھ کے دن سہ پہر کے وقت پیدا ہوا تھا اور امۃ النصیر کے متعلق یاد نہیں اور امۃ الحفیظ شائد پیر سے پہلی رات عشاء کے بعد پیدا ہوئی تھیں۔نیز والدہ صاحبہ نے بیان فرمایا کہ جب مبارکہ پیدا ہونے لگیں تو حضرت صاحب نے دُعا کی تھی کہ خدا اسے منگل کے(شدائد والے )اثر سے محفوظ رکھے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ دن اپنی تاثیرات اور افاضۂ برکات کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحفہ گولڑویہ میں مفصل بحث کی ہے یہ تا ثیرات قانون نیچر کے ماتحت ستاروں کے اثر کا نتیجہ ہیں ۔
{ 363} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مولوی محمدعلی صاحب کے پاس سفارش کی کہ مولوی یار محمدؐ صاحب کومدرسہ میں بطور مدرس کے لگالیا جاوے ۔مولوی محمد علی صاحب نے عرض کیا کہ حضور تو ان کی حالت کو جانتے ہیں ۔حضرت صاحب مسکراکر فرمانے لگے کہ میں آپ سے بہتر جانتا ہوں مگر پھر بھی لگا لینا چاہیے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی یار محمد صاحب ایک بڑے مخلص احمدی تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ان کوبہت محبت تھی مگر چونکہ ان کے اندر ایک خاص قسم کادماغی نقص تھا اس لئے غالباً اسے مد نظر رکھتے ہوئے مولوی محمدعلی صاحب نے حضرت صاحب کی سفارش پر یہ الفاظ عرض کئے ہوںگے ۔لیکن بایں ہمہ حضرت صاحب نے ان کے لگائے جانے کی سفارش فرمائی جو شائد اس خیال سے ہوگی کہ ایک تو ان کیلئے ایک ذریعہ معاش ہوجائیگا اور دوسرے شائد کام میں پڑنے سے ان کی کچھ اصلاح ہوجاوے۔اور یہ جو حضرت صاحب نے فرمایاکہ میں ان کو آپ سے بدتر جانتا ہوں۔ یہ اس لئے تھا کہ مولوی یار محمد صاحب کی اس دماغی حالت کا نشانہ زیادہ تر خودحضرت مسیح موعود ؑ رہتے تھے ۔ اور بہترکی جگہ بدتر کا لفظ استعمال کرناغالباًمعاملہ کی اصل حقیقت کو ظاہرکرنے کیلئے تھااور شائد کسی قدر بطور مزاح بھی ہو۔
{ 364} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی دائی کو بلا کر اس سے شہادت لی تھی کہ آپ کی ولادت توام ہوئی تھی اور یہ کہ جو لڑکی آپ کے ساتھ پیدا ہوئی تھی وہ پہلے پیدا ہوئی تھی اور اس کے بعد آپ پیدا ہوئے تھے اور پھر اس کے تحریری بیان پر اس کے انگوٹھے کا نشان بھی ثبت کروایا تھا اور بعض دوسری بو ڑھی عورتوں کی شہادت بھی درج کروائی تھی ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ نے تحفہ گولڑویہ میں لکھا ہے کہ آپ کی ولادت جمعہ کے دن چاند کی چودھویںتاریخ کو ہوئی تھی ۔
{ 365} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیاکہ میں نے حکیم فضل دین صاحب مرحوم بھیروی کی زبانی سُنا ہے کہ ایک دفعہ کوئی انگریزی خوان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ عربی زبان میں مفہوم کے ادا کرنے کے لئے انگریزی کی نسبت زیادہ طول اختیار کرنا پڑتا ہے۔حضرت صاحب فرمانے لگے کہ اچھا آپ انگریزی میں ’’ آب من‘‘ کے مفہوم کو کس طرح ادا کریں گے ؟اس نے جواب دیا کہ اس کے لئے ’’مائی واٹر‘‘کے الفاظ ہیں۔حضرت صاحب نے فرمایاکہ عربی میں صرف ’’مائی ‘‘ کہنا کافی ہے ۔خاکسار عرض کرتاہے۔کہ یہ صرف ایک وقتی جواب بطورلطیفے کا تھا ۔ورنہ یہ نہیں کہ حضرت صاحب کے نزدیک صرف یہ دلیل اس مسئلہ کے حل کے لئے کافی تھی۔
{ 366} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک ہندوستانی مولوی قادیان آیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس حاضرہو کر کہنے لگا کہ میں ایک جماعت کی طرف سے نمائندہ ہو کر آپ کے دعویٰ کی تحقیق کے لئے آیا ہوں ۔اور پھر اس نے اختلافی مسائل کے متعلق گفتگو شروع کردی اور وہ بڑے تکلف سے خوب بنا بنا کر موٹے موٹے الفاظ استعمال کرتا تھا ۔اس کے جوا ب میںجو حضرت صاحب نے کچھ تقریر فرمائی تو وہ آپ کی بات کاٹ کر کہنے لگا کہ آپ کو مسیح ومہدی ہونے کا دعویٰ ہے مگر آپ الفاظ کا تلفظ بھی اچھی طرح ادا نہیں کر سکتے ۔اس وقت مولوی عبد اللطیف صا حب شہید بھی مجلس میں حضرت صاحب کے پاس بیٹھے تھے ان کو بہت غصہ آگیا اور انہو ں نے اسی جوش میں اس مولوی کے ساتھ فارسی میں گفتگو شروع کر دی ۔حضرت صاحب نے مولوی عبد اللطیف صاحب کوسمجھا بجھا کر ٹھنڈا کیا ۔اور پھر کسی دوسرے وقت جب کہ مولوی عبد اللطیف صاحب مجلس میں موجود نہ تھے ۔فرمانے لگے کہ اس وقت مولوی صاحب کو بہت غصہ آگیا تھا چنانچہ میں نے اسی ڈر سے کہ کہیں وہ اس غصہ میں اس مولوی کو کچھ مار ہی نہ بیٹھیں مولوی صاحب کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں دبائے رکھا تھا ۔
{ 367} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی شیر علی صا حب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ سیر کے وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا۔کہ انبیاء کے متعلق بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ان کو ہسٹیریا کا مرض ہوتا ہے لیکن یہ ان کی غلطی ہے ۔دراصل بات یہ ہے کہ انبیاء کے حواس میں چونکہ بہت غیرمعمولی حدت اور تیزی پیدا ہو جاتی ہے ۔اس لئے نا واقف لوگ غلطی سے اسے ہسٹیریا سمجھنے لگ جاتے ہیں ۔ حالانکہ دراصل وہ ہسٹیریا نہیں ہوتا بلکہ صرف ظاہری صورت میں ہسٹیریا سے ملتی جلتی حالت ہوتی ہے ۔ لیکن لوگ غلطی سے اس کا نا م ہسٹیریا رکھ دیتے ہیں ۔
{ 368} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ وہ رہن نامہ جس کے رو سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنا باغ حضرت والدہ صاحبہ کے پاس رہن رکھا تھا میں نے دیکھا ہے وہ باقاعدہ رجسٹری شدہ ہے اور اس کی تاریخ ۲۵جون ۱۸۹۸ء ہے ۔زررہن پانچ ہزار روپیہ ہے جس میں سے ایک ہزار نقد درج ہے اور باقی بصورت زیورات ہے ۔اس رہن میں حضرت صاحب کی طرف سے مندرجہ ذیل الفاظ درج ہیں:۔
’’اقرار یہ ہے کہ عرصہ تیس سال تک فک الرہن مرہونہ نہیں کراؤں گا ۔بعد تیس سال مذکور کے ایک سال میں جب چاہو ں زررہن دوں تب فک الرہن کرالوں ۔ورنہ بعد انفصال میعاد بالا یعنی اکتیس سال کے بتیسویں سال میں مرہو نہ بالا ان ہی روپیوں میں بیع بالوفا ہو جائے گا اور مجھے دعویٰ ملکیت کا نہیں رہے گا۔قبضہ اس کا آج سے کرادیا ہے اور داخل خارج کرا دونگا اور منافع مرہونہ بالا کی قائمی رہن تک مرتہنہ مستحق ہے اور معاملہ سر کاری فصل خریف ۱۹۵۵(بکرمی )سے مر تہنہ دے گی اور پیدا وار لے گی ۔‘‘
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ عبارت ظاہر کرتی ہے کہ اس کے الفاظ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تجویزکردہ نہیں ہیں بلکہ کسی وثیقہ نویس نے حضرت صاحب کے منشاء کو اپنے الفاظ میں لکھ دیا ہے۔
{ 369} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ جب ہماری ہمشیرہ مبارکہ بیگم کا نکاح حضرت صاحب نے نواب محمد علی خا ن صاحب کے ساتھ کیا تو مہر چھپن ہزار (۵۶۰۰۰)روپیہ مقرر کیا گیا تھا اورحضرت صاحب نے مہر نامہ کوباقاعدہ رجسٹری کروا کے اس پر بہت سے لوگوں کی شہادتیں ثبت کروائی تھیں اور جب حضرت صاحب کی وفات کے بعدہماری چھوٹی ہمشیرہ امۃ الحفیظ بیگم کا نکاح خان محمدؐ عبداللہ خان صاحب کے ساتھ ہواتو مہر (۱۵۰۰۰)مقرر کیا گیا اور یہ مہر نامہ بھی باقاعدہ رجسٹری کرایا گیا تھا ۔لیکن ہم تینو ں بھائیوں میں سے جن کی شادیاں حضرت صاحب کی زندگی میں ہو گئی تھیں کسی کا مہر نامہ تحریر ہو کر رجسٹری نہیں ہوا اور مہر ایک ایک ہزار روپیہ مقرر ہوا تھا ۔در اصل مہر کی تعدادزیادہ تر خاوند کی موجودہ حیثیت اور کسی قدر بیوی کی حیثیت پر مقرر ہوا کرتی ہے اور مہر نامہ کا باقاعدہ لکھا جانا اور رجسٹری ہونا یہ شخصی حالات پر موقوف ہے۔چونکہ نواب محمد علی خان صاحب کی جائیداد سرکار انگریزی کے علاقہ میں واقع نہ تھی بلکہ ایک ریاست میں تھی اور اس کے متعلق بعض تنازعات کے پیدا ہونے کااحتمال ہو سکتا تھا اس لئے حضرت صاحب نے مہر نامہ کو باقاعدہ رجسٹری کروانا ضروری خیال کیا اور ویسے بھی دیکھا جاوے تو عام حالات میںیہی بہتر ہوتا ہے کہ مہر نامہ اگر رجسٹری نہ بھی ہو تو کم از کم باقاعدہ طور پر تحریر میں آجاوے اور معتبر لوگو ں کی شہادتیںاس پر ثبت ہو جاویں۔کیونکہ در اصل مہر بھی ایک قرضہ ہوتا ہے جس کی ادائیگی خاوند پر فرض ہوتی ہے ۔پس دوسرے قرضہ جات کی طرح اس کے لئے بھی عام حالات میں یہی مناسب ہے کہ وہ ضبط تحریر میں آجاوے۔
{ 370} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ڈاکٹر میر محمدؐ اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مولوی عبد اللطیف صاحب شہید کی شہادت کے بعد ان کا کوئی مرید ان کے کچھ بال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس قادیان لایا ۔ آپ نے وہ بال ایک کُھلے منہ کی چھوٹی بوتل میں ڈال کر اور اس کے اندر کچھ مشک رکھ کر اس بوتل کوسر بمہر کر دیا اور پھر اس شیشی میں تاگہ باندھ کر اسے اپنی بیت ا لدُّعا کی ایک کھونٹی سے لٹکا دیا ۔اور یہ سارا عمل آپ نے ایسے طور پر کیا کہ گویا ان بالوں کو آپ ایک تبرک خیال فرماتے تھے اور نیز بیت الدُعا میں اس غرض سے لٹکائے گئے ہوں گے کہ دُعا کی تحریک رہے۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ بوتل کئی سال تک بیت ا لدُّعا میں لٹکی رہی ۔لیکن اب ایک عرصہ سے نظر نہیں آتی ۔
{ 371} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمدؐ اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی ریش مبارک کے زیادہ بڑھے ہوئے بالوں کو قینچی سے کتر وا دیا کرتے تھے۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ آنحضور ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ مسلمان داڑھی کو بڑھائیں اور مونچھوں کو چھوٹا کریں۔جس کی یہ وجہ ہے کہ داڑھی مردانہ زینت اور وقار کا موجب ہے اور مونچھوں کا بڑھانا عُجب اور تکبر پیدا کرتا ہے ۔لیکن اس کا یہ منشاء نہیں کہ داڑھی کی کوئی خاص مقدار شریعت نے مقرر کردی ہے ۔اس قسم کی جزئی باتوں میں شریعت دخل نہیں دیتی بلکہ شخصی مناسبت اور پسندیدگی پر چھوڑ دیتی ہے ۔منشاء صرف یہ ہے کہ داڑھی منڈوائی نہ جاوے بلکہ رکھی جاوے لیکن داڑھی کا بہت زیادہ لمبا کرنا بھی پسند نہیں کیا گیا ۔چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ ایک مشت و دو انگشت کے اندازہ سے زیادہ بڑھی ہوئی داڑھی کتر وا دینی مناسب ہے۔جس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ بہت لمبی داڑھی بھی خلاف زینت ہوتی ہے ۔اور اس کا صاف رکھنا بھی کچھ دقت طلب ہے۔مگر اس کے مقابلہ میں داڑھی کو ایسا چھوٹا کتر وانا بھی کہ وہ منڈھی ہوئی کے قریب قریب ہو جاوے آنحضرت ﷺ کے ارشادکے احترام کے خلاف ہے جو ایک مخلص مسلمان کی شان سے بعید سمجھا جانا چاہیے۔
{ 372} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ڈاکٹر میر محمدؐ اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے کئی دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سُناہے کہ مجھے ہسٹیریا ہے ۔بعض اوقات آپ مراق بھی فرمایا کرتے تھے لیکن در اصل بات یہ ہے کہ آپ کو دماغی محنت اور شبانہ روز تصنیف کی مشقت کی وجہ سے بعض ایسی عصبی علامات پیدا ہو جایا کرتی تھیں جو ہسٹیریا کے مریضوں میں بھی عموماً دیکھی جاتی ہیں ۔مثلاً کام کرتے کرتے یکدم ضعف ہو جانا۔چکروں کاآنا ۔ہاتھ پاؤں کا سرد ہوجانا ۔ گھبراہٹ کا دورہ ہو جانا یا ایسا معلوم ہوناکہ ابھی دم نکلتا ہے یا کسی تنگ جگہ یا بعض اوقات زیادہ آدمیوں میں گھر کر بیٹھنے سے دل کا سخت پریشا ن ہونے لگنا وغیر ذالک۔یہ اعصاب کی ذکاوت حس یا تکان کی علامات ہیں اور ہسٹیریا کے مریضوں کو بھی ہوتی ہے اور انہی معنو ں میں حضرت صاحب کو ہسٹیریا یا مراق بھی تھا ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ دوسری جگہ جو مولوی شیر علی صاحب کی روایت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ یہ جو بعض انبیاء کے متعلق لوگوں کا خیال ہے کہ ان کو ہسٹیریا تھا یہ ان کی غلطی ہے بلکہ حق یہ ہے کہ حس کی تیزی کی وجہ سے ان کے اندر بعض ایسی علامات پیدا ہو جاتی ہیں جو ہسٹیریا کی علامات سے ملتی جلتی ہیں ۔ اس لئے لوگ غلطی سے اسے ہسٹیریا سمجھنے لگ جاتے ہیں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت صاحب جو کبھی کبھی یہ فرمادیتے تھے کہ مجھے ہسٹیریا ہے یہ اسی عام محاورہ کے مطابق تھاورنہ آپ علمی طورپر یہ سمجھتے تھے کہ یہ ہسٹیریا نہیں۔بلکہ اس سے ملتی جلتی علامات ہیںجوذکاوت حس یا شدت کار کی وجہ سے پیدا ہو گئی ہیں ۔نیز خاکسارعرض کرتا ہے کہ ڈاکٹر میرمحمدؐ اسماعیل صاحب ایک بہت قابل اور لائق ڈاکٹر ہیں ۔چنانچہ زمانہ طالب علمی میں بھی وہ ہمیشہ اعلیٰ نمبروں میں کامیاب ہوتے تھے اور ڈاکٹری کے آخری امتحان میں تمام صوبہ پنجاب میں اوّل نمبر پر رہے تھے اور ایّام ملازمت میں بھی ا ن کی لیاقت و قابلیت مسلّم رہی ہے ۔اور چونکہ بوجہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بہت قریبی رشتہ دار ہونے کے ان کو حضرت صاحب کی صحبت اور آپ کے علاج معالجہ کا بھی بہت کافی موقعہ ملتا رہتا تھا اس لئے ان کی رائے اس معاملہ میںایک خاص وز ن رکھتی ہے جو دوسری کسی رائے کو کم حاصل ہے۔
{ 373} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ڈاکٹر میر محمدؐ اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں گھر کے بچے کبھی شب برات وغیرہ کے موقع پریو نہی کھیل تفریح کے طور پر آتش بازی کے انار وغیرہ منگا کر چلا لیا کرتے تھے ۔اور بعض اوقات اگر حضرت صاحب موقعہ پر موجود ہوںتو یہ آتش بازی چلتی ہوئی آپ خود بھی دیکھ لیتے تھے۔نیز حضرت خلیفۃالمسیح ثا نی بیان کرتے تھے کہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ گھر میں آتش بازی کے انار وغیرہ چلانا طاعونی مادہ کو مارنے اور ہوا کی صفائی کے لئے مفید ہوتا ہے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ ہم بچپن میں بعض اوقات آتش بازی کی اس قسم کی غیر ضرر رساں چیزیں جیسے انار ہوتا ہے منگا کر گھر میں چلا لیتے تھے اور حضرت صاحب دیکھتے تھے اور منع نہیں فرماتے تھے بلکہ بعض دفعہ ان چیزو ں کے منگانے کے لئے ہم حضرت صاحب سے پیسے مانگتے تھے تو آپ دے دیتے تھے ۔
{ 374} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ان کے چچا چوہدری شیرمحمدؐصاحب مرحوم ان سے بیان کرتے تھے کہ جب حضرت صاحب دہلی تشریف لے گئے تھے اور وہاں کی جمعہ مسجد میں مولوی نذیر حسین صاحب کے ساتھ مباحثہ کی تجویز ہوئی تھی تو اس وقت میں بھی حضرت صاحب کے ساتھ تھا ۔ چونکہ شہر میں مخالفت کا خطرناک زور تھا اور حضرت صاحب کے اہل وعیال بھی سفر میں ساتھ تھے ۔اس لئے حضرت صاحب مباحثہ کی طرف جاتے ہوئے مکان کی حفاظت کے لئے مجھے ٹھہرا گئے تھے ۔چنانچہ آپ کی واپسی تک میں نے مکان کا پہرا دیا اور میں نے دل میں یہ پختہ عہد کر لیا تھا کہ میں اپنی جان دے دوں گا لیکن کسی کو مکان کی طرف رخ نہیں کرنے دوں گا ۔مولوی شیر علی صاحب بیان کرتے تھے کہ میرے چچا ایک خوب مضبوط آدمی تھے اور ہمارے خاندان میں انہوں نے سب سے پہلے حضرت صاحب کی بیعت کی تھی ۔
{ 375} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ان کے چچا چوہدری شیرمحمدؐصاحب مرحوم بیان کرتے تھے کہ شروع شروع میں جب حضرت مولوی نور الدین صاحب قرآن شریف کا درس دیا کرتے تھے تو کبھی کبھی حضرت مسیح موعودعلیہ السلام بھی ان کا درس سننے کے لئے تشریف لے جاتے تھے اور بعض اوقات کچھ فرمایا بھی کرتے تھے چنانچہ ایک دفعہ جب حضرت مولوی صاحب درس دے رہے تھے تو ان آیات کی تفسیر میں جن میں جنگ بدر کے وقت فرشتوں کی فوج کے نازل ہونے کا ذکر آتا ہے ۔حضرت مولوی صاحب کچھ تاویل کرنے لگے کہ اس سے روحانی رنگ میں قلوب کی تقویت مراد ہے ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سُنا تو فرمانے لگے کہ اس تا ویل کی ضرورت نہیں ۔اس وقت واقعی مسلمانوں کو فرشتے نظر آئے تھے ۔اور کشفی حالات میں ایسا ہو جاتا ہے کہ صا حب کشف کے علاوہ دوسرے لوگ بھی کشفی نظارہ میں شریک ہو جاتے ہیں ۔ پس اس موقعہ پر بھی آنحضرت ﷺ کے اس کشفی نظارہ میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کو شا مل کر لیا تا کہ ان کے دل مضبوط ہو جائیں ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ نزول ملائکہ کی حقیقت کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب ’’توضیح مرام‘‘’’ازالہ اوہام ‘‘اور خصو صاً ’’آئینہ کمالات اسلام ‘‘ میں مفصل بحث فرمائی ہے ۔نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اوّل چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت سے مشرف ہونے سے پہلے سر سیّد احمد خان مرحوم کے خیالات اور ان کے طریق استدلال کی طرف مائل تھے اس لئے بسا اوقات معجزات اور اس قسم کے روحانی تصر فات کی تا ویل فرمادیا کرتے تھے اور ان کی تفسیر میں اس میلان کی جھلک احمدیت کے ابتدائی ایام میں بھی نظر آتی ہے۔لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت میں آہستہ آہستہ یہ اثر دھلتا گیا اور خالص پر تو نبوت سے طبیعت متاثر ہوتی گئی ۔
{ 376} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد ؐ اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔کہ آتھم کے مباحثہ کے قریب ہی کے زمانہ میں ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر کے ایک ملازم لڑکے مسمی چراغ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس بیان کیاکہ باہر دو میمیں آئی ہیـں ۔حضرت صاحب اس وقت چھت کے صحن پر ٹہل رہے تھے۔فرمایا کیوں آئی ہیں؟اس نے اپنے اجتہاد کی بنا پر کہہ دیاکہ بحث کرنے کے لئے آئی ہیں۔حضور فوراً اپنا چغہ پہن کر اور عصا ہا تھ میں لے کر نیچے اُترے اور احمدیہ چوک میں تشریف لے گئے۔جب ان میموں نے حضور صاحب کو دیکھا تو کہا کہ مرزا صاحب ہم نے فلاں گاؤں میں جانا ہے ہمارے لئے کوئی سواری کا انتظام کر دیں ۔ موجودہ یکہ کو ہم یہیں چھوڑ دیں گے ۔حضرت صاحب نے کسی خادم کو اس کاانتظام کرنے کا حکم دیا اور خود واپس گھر میں تشریف لے آئے۔در اصل ان میموں نے بطور رئیس قصبہ کے آپ سے یہ امداد مانگی تھی مگر چراغ نے یہ سمجھ کر کہ حضور ہمیشہ عیسائیوں کے ساتھ مباحثات میں مصروف رہتے ہیں اپنی طرف سے یہ اجتہاد کر لیا کہ یہ میمیں بھی اسی کام کے لئے آئی ہیں۔
{ 377} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمدؐ اسماعیل صا حب نے مجھ سے بیان کیاکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے آخری زمانہ میں اکثر دفعہ احباب آپ کیلئے نیا کرتہ بنوا لاتے تھے اور اسے بطور نذر پیش کر کے تبرک کے طور پر حضور کا اترا ہوا کرتہ مانگ لیتے تھے ۔اسی طرح ایک دفعہ کسی نے میرے ہا تھ ایک نیا کرتہ بھجواکر پرانے اترے ہوئے کرتے کی درخواست کی ۔گھر میں تلاش سے معلوم ہواکہ اس وقت کوئی اترا ہوا بے دھلاکرتہ موجود نہیں ۔جس پر آپ نے اپنا مستعمل کرتہ دھوبی کے ہا ںکا دھلا ہوا دیئے جانے کا حکم فرمایا ۔میں نے عرض کیا کہ یہ تو دھوبی کے ہاں کا دھلا ہوا کرتہ ہے اور وہ شخص تبرک کے طور پر میلا کرتہ لے جانا چاہتا ہے ۔حضور ہنس کر فرمانے لگے کہ وہ بھی کیا برکت ہے جو دھوبی کے ہاں دھلنے سے جاتی رہے ۔ چنانچہ وہ کرتہ اس شخص کو دیدیا گیا ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ وہ شخص غالباً یہ تو جانتا ہوگا کہ دھوبی کے ہاں دھلنے سے برکت جاتی نہیں رہتی ۔لیکن محبت کا یہ بھی تقاضا ہو تا ہے کہ انسان اپنے مقدس محبوب کا اُترا ہو امیلا بے دھلا کپڑا اپنے پاس رکھنے کی خواہش کرتا ہے اور اسی طبعی خواہش کا احترام کر تے ہوئے گھر میںپہلے میلے کپڑے کی تلاش کی گئی لیکن جب وہ نہ ملا تو دُھلا ہوا کرتہ دیدیا گیا۔
{ 378} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیا ن کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی جسمانی عادات میں ایسے سادہ تھے کہ بعض دفعہ جب حضور جراب پہنتے تھے تو بے تو جہی کے عالم میں اس کی ایڑی پائوں کے تلے کیطرف نہیں بلکہ اوپر کی طرف ہو جاتی تھی اور بارہا ایک کاج کابٹن دوسر ے کا ج میں لگا ہوا ہوتا تھا ۔اور بعض اوقات کو ئی دوست حضور کیلئے گر گابی ہدیۃً لا تا تو آپ بسا اوقات دایاں پائوں بائیں میں ڈال لیتے تھے اور بایاں دائیں میں چنانچہ اسی تکلیف کی وجہ سے آپ دیسی جوتی پہنتے تھے ۔اسی طرح کھانا کھانے کا یہ حال تھا کہ خود فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں تو اس وقت پتہ لگتا ہے کہ کیا کھارہے ہیں کہ جب کھاتے کھاتے کوئی کنکر وغیرہ کا ریزہ دانت کے نیچے آجا تا ہے ۔
{ 379} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنی وفات سے قبل سالہاسال اسہال کا عارضہ رہا تھا ۔چنانچہ حضور اسی مرض میں فوت ہوئے ۔ بار ہا دیکھا کہ حضور کو دست آنے کے بعد ایسا ضعف ہوتا تھا کہ حضور فوراً دودھ کا گلاس منگوا کر پیتے تھے ۔
{ 380} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ڈا کٹر میر محمد ؐ اسما عیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مولوی محمد علی صاحب ایم۔اے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مکان کے ایک حصہ میں بالا خانہ میں رہا کرتے تھے اور جب تک ان کی شادی اور خانہ داری کا انتظام نہیں ہوا حضرت صاحب خود ان کے لئے صبح کے وقت گلاس میں دودھ ڈال کر اور پھر اس میں مصری حل کر کے خاص اہتمام سے بھجوایا کرتے تھے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کو مہمانوں کی بہت خاطر منظور ہوتی تھی اور پھر جو لوگ دینی مشاغل میں مصروف ہوں ان کو تو آپ بڑی قدر اور محبت کی نظر سے دیکھتے تھے ۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{ 381} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ڈاکٹر میر محمدؐ اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ لاہور سے کچھ احباب رمضان میں قادیان آئے ۔حضرت صاحب کو اطلاع ہوئی تو آپ معہ کچھ ناشتہ کے ان سے ملنے کے لئے مسجد میں تشریف لائے ۔ان دوستوں نے عرض کیا کہ ہم سب روزے سے ہیں ۔آپ نے فرمایا ۔سفر میں روزہ ٹھیک نہیں اللہ تعالیٰ کی رخصت پر عمل کرنا چاہیے ۔چنانچہ ان کو ناشتہ کر وا کے ان کے روزے تڑوا دیئے۔
{ 382} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈا کٹر میر محمد ؐ اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو صفائی کا بہت خیال ہوتا تھا ۔خصو صاً طاعون کے ایام میں اتنا خیال رہتا تھا کہ فینائل لوٹے میں حل کر کے خود اپنے ہاتھ سے گھر کے پا خانوں اور نالیوں میں جا کر ڈالتے تھے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ بعض اوقات حضرت مسیح موعود علیہ السلام گھر میں ایندھن کا بڑا ڈھیر لگوا کر آگ بھی جلوایا کرتے تھے تا کہ ضرر رساں جراثیم مر جاویں اور آپ نے ایک بہت بڑی آ ہنی انگیٹھی بھی منگوائی ہوئی تھی ۔جسے کوئلے ڈال کر اور گندھک وغیرہ رکھ کر کمروں کے اندر جلایا جاتا تھا اور اس وقت دروازے بند کر دیئے جاتے تھے ۔اس کی اتنی گرمی ہوتی تھی کہ جب انگیٹھی کے ٹھنڈا ہو جانے کے ایک عرصہ بعد بھی کمرہ کھولا جاتا تھا تو پھر بھی وہ اندر سے بھٹی کی طرح تپتا تھا ،نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ انبیاء کی عجیب شان ہوتی ہے کہ وہ ایک طرف تو اسباب کی اتنی رعایت کرتے ہیںکہ دیکھنے والے کو یہ شبہ ہونے لگتا ہے کہ ان کی نظر میں انہی اسباب کے ہاتھ میں سارا قضاء و قدر کا معاملہ ہے اور اگر ان کی رعایت نہ رکھی گئی تو پھر کام نہیں بن سکتا اور دوسری طرف ان کو خدا کی ذات پر اس درجہ توکل ہوتا ہے کہ اسباب کووہ ایک مردہ کیڑے کی طرح سمجھتے ہیں اور ایک سطحی نظر رکھنے والا انسان اس حالت کو دیکھ کر حیرانی میں پڑ جاتا ہے لیکن در اصل بات یہ ہوتی ہے کہ جس قدر بھی رعایت وہ اسباب کی رکھتے ہیں وہ اس لئے نہیں ہوتی کہ اسباب کے ہا تھ میں کوئی قضاء و قدر کی چابیاں ہیں بلکہ اس لئے ہوتی ہیں کہ اسباب خداکے پیدا کردہ ہیں اور خدا کا احترام یہ چاہتا ہے بلکہ یہ خدا کا حکم ہے کہ اس کے پیدا کردہ اسباب کی رعایت ملحوظ رکھی جاوے ۔پس چونکہ وہ خدا تعالیٰ کے احکام کی اطاعت میں سب سے اعلیٰ مقام پر کھڑے ہوتے ہیں اس لئے اسباب کی رعایت رکھنے میں بھی وہ دوسروں سے فائق نظر آتے ہیں ۔لیکن اصل بھروسہ ان کا خدا کی ذات کے سوا اور کسی چیز پر نہیں ہوتا اور در اصل یہی وہ تو حید کا نکتہ ہے جس پر قائم کرنے کیلئے انبیاء مبعوث ہوتے ہیں اور غور کیا جاوے تو یہ مقام کوئی آسان مقام نہیں بلکہ ہر وقت کا مجاہدہ اور نہایت پختہ ایمان چاہتاہے عموماً لوگ اسباب کو کام میں لاتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیںکہ اسباب کو جو بھی طاقت اور اثر حاصل ہے وہ سب خدا کی طرف سے ودیعت کیا گیا ہے اور اپنی ذات میں وہ ایک مُردہ کیڑے سے بھی بڑھ کر حیثیت نہیں رکھتے اور یہ کمزوری ایک حد تک ان لوگوں میں بھی پائی جاتی ہے جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم صرف رسمی طور پر خدا کو نہیں مانتے بلکہ واقعی اور حقیقتاًدل کی بصیرت کے ساتھ اس پر ایمان لائے ہیں ۔ہر شخص اپنے دل کے اندر غورکر کے دیکھے کہ جب اس کا کوئی قریبی عزیز سخت بیمار ہو جاتا ہے یا اس کے خلاف کوئی نہایت سنگین مقدمہ کھڑا ہو جاتا ہے یا وہ کسی ایسے قرضہ یا مالی بوجھ کے نیچے دب جاتا ہے کہ جو اس کی طاقت سے باہر ہے اور جس کے ادا نہ ہونے کی صورت میں اسے اپنی یقینی تباہی نظر آتی ہے تو وہ کس طرح بے تاب ہو کر ڈاکٹروں کی طرف بھاگتا اور علاج معالجہ میں منہمک ہو جاتا ہے یا وہ کس طرح وکیلوں کے پیچھے پیچھے جاتا اور ان کو باوجود ایک بڑی رقم بطور فیس کے دینے کے ان کی خوشامد اور منت سماجت کرکے ان کی توجہ کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور بعض اوقات اگر موقعہ پائے تو عدالت کی خوشامد کرتا اور سفارشوں کے ذریعہ اسے اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔یا وہ کس طرح سر مایہ داروں کے در کی جبہ سائی کرنا اور ان سے روپیہ حا صل کر کے اپنی مالی مصیبت سے رہائی پانے کی راہ تلاش کرتا ہے اور یہ ساری کارروائی وہ اس طرح منہمک ہو کر کرتا ہے کہ گویا خدا تو صرف ایک نام ہی نام ہے اور اصل حاجت براری کا موجب یہی اسباب ہیں ۔کیونکہ اسباب کے میسّر نہ آنے پر وہ ما یوس ہونے لگتا ہے اور یقین کر لیتا ہے کہ بس اب اس کی رہائی کی کوئی صورت نہیں اوریہی وہ مخفی شرک ہے جس سے نجات دینے کے لئے انبیاء مبعوث ہوتے ہیں جو آکر یہ تعلیم دیتے ہیں کہ اسباب کو اختیار کرو کیونکہ وہ خدا کے پیدا کردہ ہیں اور خدا کی حکمت ازلی نے ان کے اندر تاثیرات ودیعت کی ہیں ۔جن سے تم فائدہ اُٹھا سکتے ہو ۔لیکن ساتھ ہی ہر وقت تمہارے دل اس یقین سے معمور رہیں کہ تمام طاقتوں اور قدرتوں کا منبع ذات باری تعالیٰ ہے ۔اور اگر اس منبع سے چشمہ فیض بند ہو جاوے تو یہ اسباب ایک مُردہ کیڑے سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتے ۔تم ایمان لاؤ کہ کونین ملیریا کے کیڑوں کو مارتی ہے لیکن ساتھ ہی یہ ایمان تمہارے دلوں میں قائم ہو کہ اس کی یہ خاصیت خدا کی طرف سے ہے ۔خود بخود نہیں۔اور اگر خدا چاہے تو اس سے اس کی یہ خاصیت چھین کر ایک مٹی کے ڈلے میں وہی خاصیت پیدا کر دے یا محض اپنے حکم سے بلا کسی درمیانی سبب کے وہ نتائج پیدا کر دے جو کونین پیدا کرتی ہے ۔یہ ایمان کہنے کو تو ہر مومن کے دل میں ہوتا ہے لیکن کم ہیں بہت ہی کم ہیں جن کے دل عملاً اس ایمان کی زندہ حقیقت سے منور ہوتے ہیں ۔اور اکثر یہی ہوتا ہے کہ بعض لوگ تو اسباب کو ترک کر دیتے ہیں کہ جو ہونا ہے وہ ہورہے گا ۔اور اس طرح خدا کے پیدا کردہ سامانوں کی بے حرمتی کر کے خدا کی ناراضگی کا نشانہ بنتے اور نقصان اُٹھاتے ہیں اور بعض اس طرح اسباب پر گرتے ہیں کہ گویا خدا کچھ بھی نہیں اور جو کچھ ہونا ہے ان اسباب سے ہونا ہے یہ دونوں گروہ راہ صواب سے دُور اور پردہ ظلمت میں مستور ہیں ۔اور حق پر صرف وہی ہے جو انبیاء کی سنت پر چل کراسباب کی پوری پوری رعایت رکھتا ہے مگر اس کا دل اس زندہ ایمان سے معمور رہتاہے کہ ان اسباب کے پیچھے ایک اور طاقت ہے جس کے اشارہ پر یہ سب کار خانہ چل رہا ہے اور جس کے بغیر یہ سب اسباب بالکل مردہ اور بے تا ثیر ہیں ۔مگر یہ مقام ایمان کا ایک بڑے مجاہدہ کے بعد حاصل ہوتا ہے اور اس پر قائم رہنا بھی ہر وقت کا مجاہدہ چاہتا ہے ۔ بلکہ حق یہ ہے کہ ؎
ایں سعادت بزور بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
{ 383} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمدؐ اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب میں انٹرنس کا امتحان دے کر ۱۸۹۷ء میں قادیان آیا تو نتیجہ نکلنے سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اکثر مجھ سے پوچھا کرتے تھے کہ کوئی خواب دیکھا ہے ؟ آخر ایک دن میں نے بیان کیا کہ میں نے خواب میں گلاب کے پھول دیکھے ہیں ۔ فرمانے لگے اس کی تعبیر تو غم ہے ۔چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ میں اس سال امتحان میں فیل ہو گیا۔ نیز ویسے بھی جن دنوں میں کوئی اہم امر حضور کے زیر نظر ہوتا تھا تو آپ گھر کی مستورات اور بچوں اور خادمہ عورتوں تک سے پوچھا کرتے تھے کہ کیا تم نے کوئی خواب دیکھا ہے ؟اگر کسی نے دیکھا ہوتا تو بڑے غور اور توجہ سے اسے سنتے تھے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ آج کل کی مادیت کا ایک اثر یہ بھی ہے کہ لوگ خوابوں کے قائل نہیں رہے اور انہیں کلیۃً جسمانی عوارض کا نتیجہ سمجھتے ہیں حالانکہ گو اس میں شک نہیں کہ بعض خوابیں جسمانی عوارض کا نتیجہ بھی ہوتی ہیں لیکن یہ بھی ایک ابدی حقیقت ہے کہ خدا کی طرف سے آئندہ ہونے والے امور یا مخفی باتوں کے متعلق خواب میں نظارے دکھائے جاتے ہیں ۔جو وقت پر پورے ہو کر خوابوں کی سچائی پر مہر تصدیق کا کام دیتے ہیں اور ان سے انکار کرنا ایسا ہی ہے جیسا کہ کوئی آدمی دوسری محسوس و مشہود چیزوں کا انکار کر دے۔نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ میر صاحب ہمیشہ اپنے تعلیمی امتحانوں میںاعلیٰ نمبروں پرکامیاب ہوتے رہے ہیں اور ان کا اس دفعہ انٹرنس میں فیل ہونا اس وجہ سے تھا کہ اس سال چونکہ لیکھرام کے قتل کی وجہ سے ہندوؤں میں بہت سخت مخالفت تھی اس لئے بہت سے مسلمان بچے ہندو ممتحنوں کے غیظ و غضب کا شکار ہو گئے تھے ۔کیونکہ اس زمانہ میں بچوں کو امتحان کے پرچوں پر اپنے نام لکھنے پڑتے تھے جس سے ممتحن کو ہندو مسلمان کا پتہ چل جاتا تھا ۔
{ 384} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حضرت والدہ صاحبہ نے مجھ سے بیان کیا کہ جب مبارک احمدؐ فوت ہو گیا اور مریم بیگم جس کے ساتھ اس کی شادی ہوئی تھی بیوہ رہ گئی تو حضرت صاحب نے گھر میں ایک دفعہ یہ خواہش ظا ہر کی تھی کہ یہ لڑکی ہمارے گھر میں ہی آجاوے تو اچھا ہے۔یعنی ہمارے بچوں میں سے ہی کوئی اس کے ساتھ شادی کر لے توبہتر ہے۔چنانچہ خاکسار عرض کرتا ہے کہ زیادہ تر اسی بنا پرحضرت خلیفۃالمسیح ثانی نے مریم بیگم سے شادی کی ہے نیز والدہ صاحبہ بیان کرتی تھیں کہ جب حضرت صاحب کے سامنے تم لڑکوں کی شادی کی تجویز ہوتی تھی اور کبھی یہ خیال ظاہر کیا جاتا تھا کہ فلاں لڑکی کی عمر لڑکے کی عمر کے قریباً قریباً برابر ہے۔جس سے بڑے ہو کر لڑکے کو تکلیف کا اندیشہ ہے۔کیونکہ عموماً عورت جلد بوڑھی ہو جاتی ہے اور مرد کے قوٰی دیر تک قائم رہتے ہیں تو حضرت صاحب فرماتے تھے کہ کوئی حرج نہیں ہے ۔ اگر ضرورت ہو گی تو بڑے ہو کر بچے اور شادی کر لیں گے۔نیز والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ حضرت صاحب اس بات کو پسند فرماتے تھے کہ اسلامی حدود کو ملحوظ رکھتے ہوئے احمدؐی زیادہ شادیاں کریں تاکہ نسل جلدی جلدی ترقی کرے اور قوم پھیلے ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ بے شک نسل کی ترقی کا یہ ایک بہت عمدہ ذریعہ ہے اور نیز اس طرح یہ فا ئدہ بھی حاصل ہو سکتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحبت یافتوں کو اپنے سامنے زیادہ بچوں کی تربیت کا موقعہ مل سکتا ہے ۔جو قومی فلاح و بہبود کے لئے بہت ضروری ہے ۔ لیکن تعددازدواج کے متعلق عدل و انصاف کی جو کڑی شرطیں اسلام پیش کرتا ہے۔ان کا پورا کرنا بھی ہر کس و ناکس کا کام نہیں ۔ہاں جن کو یہ تو فیق حاصل ہو اور ان کو کوئی جائز ضرورت پیش آ جائے وہ بے شک زیادہ بیویاں کریں تاکہ علاوہ ان فوائد کے جو اوپر بیان ہوئے ہیں یہ فائدہ بھی حاصل ہو کہ ایسے لوگوں کے نیک نمونے سے وہ بد ظنی اور بدگمانی دُور ہو جو بعض لوگوں کے بد نمونے کے نتیجہ میں تعدد ازدواج کے متعلق اس زمانہ میں خصوصاًحلقہ نسواں میں پیدا ہو رہی ہے ۔
{ 385} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حافظ نور محمدؐ صاحب متوطن فیض اللہ چک نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کئی دفعہ فرمایا کرتے تھے کہ سلطان احمد(یعنی مرزا سلطان احمدؐ صاحب )ہم سے سولہ سال چھوٹا ہے اور فضل احمد بیس برس اورا س کے بعد ہمارا اپنے گھر سے کوئی تعلق نہیں رہا ۔
{ 386} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حافظ نور محمدؐ صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میر حا مد شاہ صاحب مرحوم سیالکوٹی اور ان کے والد میر حسام الدین صاحب قادیان میں موجود تھے حضرت صاحب کے سامنے ذکر ہوا کہ میر حسام الدین صاحب کی بیوی فوت ہو چکی ہے ۔جس پر حضرت صاحب نے فرمایا کہ میر صاحب کہیں اور شادی کرالیں ۔بلکہ میر حامد شاہ صاحب سے فرمایا کہ میر حسام الدین صاحب کی شادی کا بندو بست کرادیں ۔اس وقت میر حسام الدین صاحب بہت معمر تھے۔
{ 387} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر سیّد عبدالستارشاہ صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ انسپکٹر جنرل آف ہاسپٹلز کی طرف سے یہ حکم جاری ہوا کہ سب ڈاکٹر جو برانچ ہسپتالوں میں کام کرتے ہیں سال میں دو ماہ ضلع کے صدر ہسپتال میں جا کر کا م کیا کریں تا کہ نئے نئے تجربات اور طریق کار سے واقف رہیں چنانچہ نمبر وار ڈاکٹروں کی ڈیوٹی شروع ہوئی اور میری باری آنے والی تھی ۔مجھے بہت تردد اور فکر ہوا کیونکہ ہر سال معہ اہل و عیال و سامان وغیرہ کے ضلع میں جانا ایک سخت مصیبت تھی اتفاقاً میں چند روز کی رخصت لے کر قادیان آیا اور حضرت اقدس کی خدمت میں یہ سب ماجرا عرض کیا ۔حضور نے فرمایا ،آپ فکر نہ کریں شائد آپ کی باری وہاں جانے کی نہ آوے گی ۔گو آپ نے شائد کا لفظ بولا تھا لیکن میرے دل کو اطمینان ہو گیا ۔چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ انسپکٹر جنرل کی طرف سے میرے نام ایک حکم آگیا کہ تم اس ڈیوٹی سے مستثنیٰ ہو۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ خاص حالات کی باتیں ہوتی ہیں اس سے یہ مطلب نہیں سمجھنا چاہیے کہ جو بات بھی انبیاء فرما دیں وہ اسی طرح وقوع میں آجاتی ہے ۔ابنیاء عالم الغیب نہیںہوتے ۔
{ 388} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حضرت والدہ صاحبہ نے مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت صاحب شروع دعویٰ مسیحیت میںدہلی تشریف لے گئے تھے اور مولوی نذیر حسین کے ساتھ مباحثہ کی تجویز ہوئی تھی ۔ اس وقت شہر میں مخالفت کا سخت شور تھا ،چنانچہ حضرت صاحب نے افسران پولیس کے ساتھ انتظام کر کے ایک پولیس مین کو اپنی طرف سے تنخواہ دینی کر کے مکان کی ڈیوڑھی پر پہرہ کے لئے مقرر کرا لیا تھا ۔یہ پولیس مین پنجابی تھا ۔ اس کے علاوہ ویسے بھی مردانہ میں کافی احمدؐی حضرت صاحب کے ساتھ ٹھہرے ہوئے تھے ۔
{ 389} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر سیّد عبد الستار شاہ صا حب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب میں ۱۹۰۰ء میں پہلی دفعہ قادیان میںآیا تو حضور ان دنوں میں صبح اپنے باغ کی طرف سیر کے لئے تشریف لے جایا کرتے تھے ۔ چنانچہ جب حضرت صاحب باغ کی طرف تشریف لے گئے تو میں بھی ساتھ گیا اور حضور نے شہتوت منگوا کر درختوں کے سائے کے نیچے خدام کے ساتھ مل کر کھائے اور پھر مجھے مخاطب فرما کر اپنے دعویٰ کی صداقت میں تقریر فرمائی ۔میں نے عرض کیا کہ مجھے آپ کی صداقت کے متعلق تو کوئی شبہ نہیں رہا لیکن اگر بیعت نہ کی جاوے اور آپ پر ایمان رکھا جاوے کہ آپ صادق ہیں ،تو کیا حرج ہے ؟آپ نے فرمایا کہ ایسے ایمان سے آپ مجھ سے رو حانی فیض حاصل نہیں کر سکتے۔بیعت سنت انبیا ء ہے اور اس سنت میں بہت بڑے فوائد اور حکمتیں ہیں ۔چنانچہ سب سے زیادہ فائدہ یہ ہے کہ انسان کے نفسانی درخت کا جو کڑوا پھل اور بد ذائقہ اثر ہے اسے دور کرنے کے لئے ایک پیوند کی ضرورت ہے اور وہ پیوند بیعت کامل ہے۔اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی کڑوے ترش اوربد ذائقہ پھل دار درخت کو اگر میٹھا اور لذیذ بنانا ہوتو پھر کسی عمدہ خوش ذائقہ شیریں پھل دار درخت کے ساتھ اسے پیوند کرتے ہیں اور اس طرح اس کے بد ذائقہ اور کڑوے پھل خودبخود شیریں اور عمدہ ہو جاتے ہیں ۔اسی طرح جب کسی انسان کا نفسانی پھل خراب گندہ اور بد مزہ ہو تو ایک پاک نفس کی بیعت یعنی اس کے روحانی تعلق اور توجہ اور دُعا وغیرہ سے پیوند ہو کر یہ بھی حسب استعداد پاک نفس اور مطہر و ظل انبیاء ہو جاتا ہے ۔اور بغیر اس بیعت اور تا ثیر روحانی کے اس کا روح محروم رہتا ہے نیز مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت صاحب نے بیعت کے فوائد پر تقریر فرماتے ہوئے فرمایا کہ کیا یہ فائدہ بیعت کا کوئی کم ہے کہ انسان کے پہلے سارے گناہ بخشے جاتے ہیں۔
{ 390} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ مولوی محمد ؐ ابراہیم صاحب بقا پوری نے مجھ سے بیان کیا کہ جب حقیقۃ الوحی طبع ہو رہی تھی ۔ایک دفعہ خواجہ کمال الدین صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ یہ جو حقیقۃ الوحی میں سعد اللہ لدھیانوی کے بیٹے کے نامرد ہونے کے متعلق تحدی کی گئی ہے اس کو کاٹ دیا جاوے ۔ کیونکہ اگر اس نے مقدمہ کر دیا تو نا مرد ثابت کرنا مشکل ہو گا ۔مگر حضرت صاحب نے انکار کیا۔ خواجہ صاحب نے پھر عرض کیا کہ اس سے مشکلات پیدا ہونے کا اندیشہ ہے حضرت صاحب نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ خواجہ صاحب اگر اس نے مقدمہ کیاتو ہم آپ کو وکیل نہیں کریں گے ۔اس کے کچھ دن بعد جب خواجہ صاحب لاہور چلے گئے تو مولوی محمد علی صاحب نے سیر کے وقت حضرت صاحب سے عرض کیا کہ خواجہ صاحب کا خط آیا ہے کہ مجھے سعد اللہ کے متعلق اتنا فکر ہے کہ بعض اوقات رات کو نیند نہیں آتی یا تو وہ مر جاوے یا حضرت صاحب اس کے بیٹے کے نامرد ہونے کے الفاظ اپنی کتاب سے کاٹ دیں۔ حضرت صا حب نے فرمایا کہ کیا تعجب ہے کہ اللہ تعالیٰ سعداللہ کو جلد ہی موت دے دے۔اس کے چند دن بعد تار آیا کہ سعداللہ لدھیانوی مر گیا ہے اور حضرت صاحب نے سیر میں اس کا ذکر کیا اور مولوی محمد علی صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اب خواجہ صاحب کو لکھ دیں کہ آپ تو کہتے تھے کہ وہ الفاظ کاٹ دیں۔ لیکن اب تو ہمیں اور بھی لکھنا پڑا ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ خواجہ صاحب نے ازراہ ہمدردی اپنی رائے پر اصرار کیا ہو گا کہ مبادا یہ بات شماتت اعداء کا موجب نہ ہو جائے۔مگر ان سے یہ غلطی ہوئی کہ انہوں نے صرف ایک قانون دان کی حیثیت میں غور کیا۔اور اس بات کو نہیں سو چاکہ خدائی تصرفات سب طاقتوں پر غالب ہیں ۔نیز خاکسار عرض کرتاہے کہ اب سعد اللہ کا لڑکا بھی لا ولدمر چکا ہے۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{ 391} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دن حضرت صاحب کی مجلس میں عورتوں کے لباس کا ذکر ہو ا تو آپ نے فرمایا کہ ایسا تنگ پاجامہ جو بالکل بدن کے ساتھ لگا ہو ا ہو اچھا نہیں ہوتا ۔ کیونکہ اس سے عورت کے بدن کا نقشہ ظاہر ہو جاتا ہے ۔جو ستر کے منافی ہے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ صوبہ سرحد میں اور اس کے اثر کے ماتحت پنجاب میں بھی عورتوں کا عام لباس شلوار ہے۔ لیکن ہندوستان میں تنگ پاجامہ کا دستور ہے ۔اور ہندوستان کے اثر کے ماتحت پنجاب کے بعض خاندانوں میںبھی تنگ پا جامے کا رواج قائم ہو گیا ہے ۔چنانچہ ہمارے گھروں میں بھی بوجہ حضرت والدہ صاحبہ کے اثر کے جو دلّی کی ہیں ،زیادہ تر تنگ پاجامے کا رواج ہے ۔لیکن شلوار بھی استعمال ہوتی رہتی ہے ۔مگر اس میں شک نہیں کہ ستر کے نکتہ نگاہ سے تنگ پاجامہ ضرور ایک حد تک قابل اعتراض ہے اور شلوار کا مقابلہ نہیں کرتا۔ ہاں زینت کے لحاظ سے دونوں اپنی اپنی جگہ اچھے ہیں یعنی بعض بدنوں پر تنگ پاجامہ سجتا ہے اور بعض پر شلوار۔ اندریں حالات اگر بحیثیت مجموعی شلوار کو رواج دیا جاوے تو بہتر ہے ۔یہ کہا جا سکتا ہے کہ عورت نے تو اپنے گھر کی چار دیواری میں ہی رہنا ہے اور اگر باہر بھی جانا ہے تو عورتوں میں ہی ملنا جلنا ہے تو اس صورت میں تنگ پاجامہ اگر ایک حد تک ستر کے خلاف بھی ہو تو قابل اعتراض نہیں لیکن یہ خیال درست نہیں کیونکہ اول تو اس قسم کا ستر شریعت نے عورتوں کا خود عورتوں سے بھی رکھا ہے اور اپنے بدن کے حسن کو بیجا طور پربر ملا ظاہر کرنے سے مستورات میں بھی منع فرمایا ہے علاوہ ازیں گھروں میں علاوہ خاوند کے بعض ایسے مردوں کا بھی آنا جانا ہوتا ہے جن سے مستورات کا پردہ تو نہیں ہوتا لیکن یہ بھی نہایت معیوب بلکہ ناجائز ہوتا ہے کہ عورت ان کے سامنے اپنے بدن کے نقشہ اور ساخت کو بر ملا ظاہر کرے ۔پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایسے تنگ پاجامہ کو جس سے بدن کا نقشہ اور ساخت ظا ہر ہو جاوے نا پسند کرنا نہایت حکیمانہ دانشمندی پر مبنی اور عین شریعت اسلامی کے منشاء کے مطابق ہے ۔ہاں خاوند کے سامنے عورت بے شک جس قسم کا لباس وہ چاہے یا اس کا خاوند پسند کرے پہنے۔اس میں حرج نہیں ۔لیکن ایسے موقعوں پر جبکہ گھر کے دوسرے مردوں کے سامنے آنا جانا ہو یا غیر عورتوں سے ملنا ہو ،شلوار ہی بہتر معلوم ہوتی ہے ۔ہاں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ایک تنگ پاجامہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو بدن کے ساتھ بالکل پیوست نہیں ہوتا ۔بلکہ کسی قدر ڈھیلا رہتا ہے اور اس سے عورت کے بدن کی ساخت پوری طرح ظاہر نہیں ہوتی ۔ایسا تنگ پاجامہ گو شلوار کا مقابلہ نہ کر سکے مگر چندا ںقابل اعتراض بھی نہیںاور ہمارے گھروں میں زیادہ تر اسی قسم کے پا جامہ کا رواج ہے ۔قابل اعتراض وہ پاجامہ ہے کہ جو بہت تنگ ہو یا جسے عورت ٹانک کر اپنے بدن کے ساتھ پیوست کر لے ۔واللہ اعلم ۔
{ 392} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی فضل دین صاحب وکیل نے مجھ سے بیان کیا کہ مقدمہ مولوی کرم دین جہلمی میں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر یہ سوال ہوا تھا کہ کیا واقعی آپ کی وہی شان ہے جو آپ نے اپنی فلاں کتاب میں لکھی ہے ؟ اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے’’ حقیقۃ الوحی ‘‘میں لکھا ہے کہ یہ سوال تریاق القلوب کے متعلق تھا ۔لیکن در اصل یہ درست نہیں ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کتاب کے نام کے متعلق نسیان ہو گیا ہے یا سہواً بلامحسوس کئے تریاق القلوب کا نام لکھا گیاہے ۔کیونکہ حق یہ ہے کہ عدالت میں تحفہ گولڑویہ پیش کی گئی تھی اور تحفہ گولڑویہ ہی کی ایک عبارت پیش کر کے یہ سوال کیا گیا تھا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ سرکاری عدالت میں جو اس مقدمہ کی مسل محفوظ ہے اس میں تحفہ گولڑویہ کا نام درج ہے اور یہ صاف طور پر لکھا ہے کہ تحفہ گولڑویہ کی ایک عبارت کے متعلق یہ سوال تھا ۔چنانچہ مسل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بیان آپ کے اپنے الفاظ میں اس طرح پر درج ہے :۔
’’تحفہ گو لڑویہ‘‘ میری تصنیف ہے ۔یکم ستمبر ۱۹۰۲ء کو شائع ہوئی ۔پیر مہر علی کے مقابلہ پرلکھی ہے۔ یہ کتاب سیف چشتیائی کے جواب میں نہیں لکھی گئی ‘‘
سوال۔جن لوگوں کا ذکر صفحہ نمبر۴۸لغائت نمبر۵۰اس کتاب میں لکھا ہے آپ ہی اس کا مصداق ہیں ؟
جواب۔خدا کے فضل اور رحمت سے میں اس کا مصداق ہوں ۔
سوال۔ان روحانی طاقتوں کو کام میں لا کر جس سے جھوٹے اور سچے ہیرے شناخت کئے گئے آپ نے کرم دین کے دونوں خطوں کو پرکھا یعنی p،۴اور مضمون مندرجہ سراج الاخبار جہلم اور نیز نوٹ ہائے مندرجہ حاشیہ اعجاز المسیح؟
جواب۔میں نے نہ ان صفحات میں اور نہ کسی اور جگہ کبھی دعویٰ نہیں کیا کہ میں عالم الغیب ہوں ۔
سوال ۔صفحہ۲۹کی سطر۶سے جو مضمون چلتا ہے وہ آپ نے اپنی نسبت لکھا ہے ؟
جواب۔میں اس مضمون کو اپنی طرف منسوب کرتا ہوں ۔اور صفحہ۸۹پر بھی جو کچھ لکھا ہے وہ اپنی نسبت لکھا ہے ۔
سوال۔بلحاظ اندراج صفحات۲۹،۳۰،۴۸،۴۹،۵۰،۸۹ تحفہ گولڑویہ آپ نے کرم دین کے خطوں کو اور محمدحسین کی تحریر کو پر کھا ؟
جواب۔ ایسی عام طاقت کامیں نے کبھی دعویٰ نہیں کیا ۔
سوال ۔جو طاقت چند پیسوں کے کھوٹے ہیروں پر برتی گئی تھی اور جس سے وہ ہیرے شناخت کئے گئے تھے وہ عام تھی یا خاص؟
جواب ۔وہ خاص طاقت تھی کبھی انسان دھوکہ کھا لیتا ہے ۔اور کبھی اپنی فراست سے ایک بات کی تہ تک پہنچ جاتا ہے ۔
سوال ۔روحانی طاقت سے جو کچھ غیب ظاہر ہوتا ہے اس میں غلطی ہوتی ہے ؟
جواب۔اس میں اجتہادی یعنی رائے لگانے میں غلطی لگ جاتی ہے ۔ طاقت میں غلطی نہیں ہوتی ۔ الخ
آپ کے اس بیان سے جس کی مصدقہ نقل دفتر تالیف و تصنیف قادیان میں موجود ہے ظاہر ہے کہ سوال تحفہ گولڑویہ کے متعلق تھا نہ کہ تریاق القلوب کے متعلق ۔اور حضرت صاحب نے جو کسی جگہ اپنی بعد کی تحریرمیں تریاق القلوب لکھا ہے تو اس کی وجہ نسیان یا سہو قلم ہے کیو نکہ خود حضرت صاحب کا مصدقہ بیان جو اسی وقت تحریر میں آکر مسل کے ساتھ شامل ہو گیا تھا اس کو غلط ثابت کر رہاہے اور پھر اسی پر بس نہیں بلکہ اس سوال وجواب کا مضمون بھی اس بات کو قطعی طور پر ثابت کر رہا ہے کہ اس وقت تحفہ گولڑویہ پیش کی گئی تھی نہ کہ تریاق القلوب۔ کیونکہ اس سوال و جواب میں جو سچے اور جھوٹے ہیروں کے شناخت کئے جانے کے متعلق ذکر ہے وہ صرف تحفہ گولڑویہ کے اندر ہے اور تریاق القلوب میںقطعاً ایسا کوئی مضمون درج نہیں ہے ۔ چنانچہ جن صفحات کا حوالہ دیا گیا ہے ان کے مطابق ہر دو کتب کا مطالعہ کر کے اس بات کی صداقت کا فیصلہ آسانی کے ساتھ کیا جا سکتا ہے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی فضل دین صاحب کی اس روایت سے مولوی شیر علی صاحب کی اس روایت کی تصدیق ہو گئی جو حصہ اوّل میں درج ہو چکی ہے اور جس میں اس موقعہ پر تحفہ گولڑویہ کا پیش کیا جانا بیان کیا گیا ہے ۔
{ 393} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں حیات محمدؐ صاحب پنشنر ہیڈ کانسٹیبل پولیس نے مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کرم دین کے مقدمہ میں جہلم تشریف لے گئے۔تو میں ان دنوں میں لائن پو لیس میں تھا اور میں نے حضرت صاحب کی تشریف آوری پر تین دن کی ر خصت حاصل کر لی تھی ۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی گاڑی جہلم کے سٹیشن پر پہنچی تو سٹیشن پر لوگوں کا اس قدر ہجوم تھا کہ بس جہاں تک نظر جاتی تھی آدمی ہی آدمی نظر آتے تھے ۔اور مرد ،عورت ،بچے ،جوان ،بوڑھے پھر ہندو، مسلمان، سکھ ، عیسائی،یورپین،ہر مذہب و قوم کے لوگ موجود تھے اور اس قدر گھمسان تھا کہ پولیس اور سٹیشن کا عملہ باوجود قبل از وقت خاص انتظام کرنے کے قطعاً کوئی انتظام قائم نہ رکھ سکتے تھے ۔اوراس بات کا سخت اندیشہ پیدا ہو گیا تھا کہ کوئی شخص ریل کے نیچے آکر کٹ نہ جائے ۔ یا لوگوں کے ہجوم میں دب کر کوئی بچہ یا عورت یا کمزور آدمی ہلاک نہ ہو جاوے ۔لوگوںکا ہجوم صرف سٹیشن تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ سٹیشن سے باہر بھی دور دراز فاصلہ تک ایک ساہجوم چلا جاتا تھااور جس جگہ بھی کسی کو موقعہ ملتا تھا وہ وہاں کھڑا ہو جاتا تھا۔حتیٰ کہ مکانوں کی چھتوں اور درختوں کی شاخوں پر لوگ اس طرح چڑھے بیٹھے تھے کہ چھتوں اور درختوں کے گرنے کا اندیشہ ہو گیا تھا ۔میں نے دیکھا کہ ایک انگریز اور لیڈی فو ٹوکا کیمرہ ہاتھ میں لئے ہوئے ہجوم میں گھرے ہوئے کھڑے تھے کہ کوئی موقع ملے تو حضرت صاحب کا فوٹو لے لیں ۔مگر کوئی موقعہ نہ ملتا تھا اور میں نے سنا تھا کہ وہ پچھلے کئی سٹیشنوں سے فوٹو کی کوشش کرتے چلے آرہے تھے ۔مگر کوئی موقع نہیں ملا ۔جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام ریل سے اُتر کر اس کو ٹھی کی طرف روانہ ہوئے جو سر دارہری سنگھ رئیس اعظم جہلم نے آپ کے قیام کے لئے پیش کی تھی تو راستہ میں تمام لوگ ہی لوگ تھے اور آپ کی گاڑی بصد مشکل کوٹھی تک پہنچی ۔ جب دوسرے دن آپ عدالت میں تشریف لے گئے تو مجسٹریٹ ڈپٹی سنسار چند آپ کی تعظیم کے لئے سروقد کھڑا ہو گیا اور اس وقت وہاں لوگوں کا اس قدر ہجوم تھاکہ جگہ نہیں ملتی تھی ۔بعض لوگ عدالت کے کمرے میں الماریوں کے اوپر اور بعض مجسٹریٹ کے چبوترے پر چڑھے ہوئے تھے ۔جہلم میں اتنے لوگوں نے حضرت صاحب کی بیعت کی کہ ہمارے وہم وخیال میں بھی نہ تھا ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ اخبار البدر بابت آخر جنوری۱۹۰۳ء میں سفر جہلم کے حالات مفصل درج ہیں ۔اس میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ ۱۵؍جنوری ۱۹۰۳ء کو قادیان سے روانہ ہوئے تھے اور ۱۶کی صبح کو جہلم پہنچے اور ۱۹؍جنوری کو واپس قادیان تشریف لائے ۔راستہ میں کچھ دیر لاہور میں بھی قیام فرمایا ۔ اس سفر میں کم و بیش ایک ہزار آدمیوں نے بیعت کی ۔راستہ کے سٹیشنوں پر بھی لوگوں کا غیر معمولی ہجوم ہوتا تھا۔چنانچہ لاہور کے غیر احمدی اخبار ’’پنجہ فولاد‘‘ کی مندرجہ ذیل عبارت اس پر شاہد ہے ۔’’جہلم کی واپسی پر مرزا غلام احمدؐ صاحب قادیانی وزیرآباد پہنچے۔ باوجودیکہ نہ انہوں نے شہر میں آنا تھا اور نہ آنے کی کوئی اطلاع دی تھی اور صرف سٹیشن پر ہی چند منٹوں کا قیام تھا ۔پھر بھی ریلوے سٹیشن کے پلیٹ فارم پر خلقت کا وہ ہجوم تھا کہ تل دھرنے کو جگہ نہ ملتی تھی۔ اگر سٹیشن ماسٹر صاحب جو نہایت خلیق اور ملنسار ہیں ،خاص طور پر اپنے حسن انتظام سے کام نہ لیتے تو کچھ شبہ نہیں کہ اکثر آدمیوں کے کچل جانے اور یقیناًکئی ایک کے کٹ جانے کا اندیشہ تھا۔مرزا صاحب کے دیکھنے کیلئے ہندو اور مسلمان یکساں شوق سے موجود تھے ‘‘۔دیکھو الحکم بابت ۳۱جنوری۱۹۰۳ئ۔
{ 394} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جب مولوی محمد علی صاحب سے کوئی بات وغیرہ دریافت کرنی ہوتی تھی تو آپ بجائے اس کے کہ ان کو اپنے پاس بلا بھیجتے خود مولوی صاحب کی کوٹھری میں تشریف لے آیا کرتے تھے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں مولوی محمد علی صاحب آپ کے مکان کے ایک حصہ میں رہائش رکھا کرتے تھے اور ان کا کام کرنے کا دفتر اس چھوٹی سی کو ٹھری میں ہوتا تھا ۔جو مسجد مبارک کے ساتھ جانب شرق واقع ہے ۔
{ 395} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے بیان فرمایا کہ ہمیں یہ خیال آیا تھا کہ تبلیغ کے لئے انگریزی کے سیکھنے کی طرف توجہ کریں اور ہمیں امید تھی کہ اللہ تعالیٰ اپنے خاص فضل سے ہمیں اس کا علم عطا کر دے گا ۔بس صرف ایک دو رات دُعا کی ضرورت تھی ۔لیکن پھر یہ خیال آیا کہ مولوی محمد علی صاحب اس کام میں لگے ہوئے ہیں اور ان کی انگریزی کی تعریف بھی کی جاتی ہے ۔ اس لئے ہماری توجہ اس امر کی طرف سے ہٹ گئی۔
{396} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی زندگی کے آخری سالوں میں فرماتے تھے کہ اب تبلیغ و تصنیف کا کام تو ہم اپنی طرف سے کر چکے اب ہمیں باقی ایام دُعا میں مصروف ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل خاص سے دنیا میں حق و صداقت کو قائم فرمائے اور ہمارے آنے کی غرض پوری ہو ۔ چنانچہ اسی خیال کے ماتحت آپ نے اپنے گھر کے ایک حصہ میں ایک بیت الدُعا بنوائی ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ بیت الدعاحضرت صاحب کے رہائشی کمرے کے ساتھ واقع ہے اور اس کی پیمائش شمالاًجنوباً چار فٹ دس انچ اور شرقاً غرباًپانچ فٹ سات انچ ہے ۔
{ 397} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت اور مجلس میں بیٹھنے سے دل میں خوشی اور بشاشت اور اطمینان پیدا ہوتے تھے اور خواہ انسان کتنا بھی متفکر اور غمگین یا مایوس ہو ،آپ کے سامنے جاتے ہی قلب کے اندر مسرت اور سکون کی ایک لہر دوڑ جاتی تھی ۔
{ 398} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بچوں کو بدنی سزا دینے کے بہت مخالف تھے اور جس استاد کے متعلق یہ شکایت آپ کو پہنچتی تھی کہ وہ بچوں کو مارتا ہے ۔ اس پر بہت ناراض ہوتے تھے اور فرمایاکرتے تھے کہ جو استاد بچوںکو مارکر تعلیم دینا چاہتاہے ۔یہ در اصل اس کی اپنی نا لائقی ہوتی ہے۔اور فرماتے تھے دانا اور عقلمند استاد جو کام حکمت سے لے لیتا ہے وہ کام نالائق اور جاہل استاد مارنے سے لینا چاہتا ہے ۔ایک دفعہ مدرسہ کے ایک استاد نے ایک بچے کو کچھ سزا دی تو آپ نے سختی سے فرمایا کہ پھر ایسا ہوا تو ہم اس استاد کو مدرسہ سے الگ کر دیں گے ۔حالانکہ ویسے وہ استاد بڑا مخلص تھا اور آپ کو اس سے محبت تھی ۔بعض اوقات فرماتے تھے کہ استاد عموماًاپنے غصہ کے اظہار کے لئے مارتے ہیں ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ سرکاری ضابطہ تعلیم میں بھی بچوں کو بدنی سزادینے کی بہت ممانعت ہے اور صرف ہیڈ ماسٹر کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ کسی اشد ضرورت کے وقت مناسب بدنی سزا دے ۔نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب نے جو یہ فرمایا ہے کہ بچوں کو سزا نہیں دینی چاہیے ۔اس سے یہ منشاء نہیں کہ گویا بدنی سزا بالکل ہی ناجائز ہے اور کسی صورت میں بھی نہیں دینی چاہیے ۔بلکہ منشاء صرف یہ ہے کہ یہ جو بعض مدرسین میں بات بات پر سزادینے کے لئے تیار ہو جانے کی عادت ہوتی ہے اسے سختی کے ساتھ روکا جاوے ۔اور صرف خاص حالات میں خاص شرائط کے ماتحت اس کی اجازت ہو والّا ویسے تو شریعت نے بھی اپنی تعزیرات میں بدنی سزا کو رکھا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود بھی بعض اوقات بچوں کو بدنی سزا دی ہے ۔لیکن غصہ سے مغلوب ہو کر مارنا یا بات بات پر مارنا یا بُری طرح مارنا وغیر ذالک۔یہ ایسی باتیں ہیں جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نہایت نا پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے تھے مگر افسوس ہے اور میں اپنے چشم دیدتجربہ کی بناپر یہ کہتاہوں کہ اکثر استاد خواہ وہ اسے خود محسوس کریں یا نہ کریں ۔غصہ سے مغلوب ہونے کی حالت میں سزا دیتے ہیں ۔یعنے جب بچے کی طرف سے کوئی غفلت یا جرم کا ارتکاب ہوتا ہے تو اس وقت اکثر استادوں کی طبیعت میں نہایت غصہ اور غضب کی حالت پیدا ہو جاتی ہے اور اس حالت سے مغلوب ہو کر وہ سزا دیتے ہیں اور اس میں اصلاح کا خیال عملاً مفقود ہوتا ہے ۔بلکہ ایک گو نہ انتقام کا رنگ اور اپنا غصہ نکالنے کی صورت ہوتی ہے ۔جو بجائے مفید ہونے کے الٹا نقصا ن کا موجب ہو جاتی ہے ۔اس نقص کی اصلاح کے لئے یہ ایک عمدہ قاعدہ ہے کہ کوئی ماتحت استاد بدنی سزا نہ دے ۔بلکہ جب اسے یہ ضرورت محسوس ہو کہ کسی لڑکے کو بدنی سزا ملنی چاہیے تو وہ اسے ہیڈ ماسٹر کے پاس بھیج دے اور پھر اگر ہیڈ ماسٹر مناسب سمجھے تو اسے بدنی سزا دے ۔اس طرح علاوہ اس کے کہ ہیڈ ماسٹر بالعموم ایک زیادہ تجربہ کار اور زیادہ قابل اور زیادہ فہمیدہ شخص ہوتا ہے ۔چونکہ اسے اس معاملہ میں کوئی ذاتی غصہ نہیں ہو گا ۔اس لئے اس کی سزا مصلحانہ ہو گی اور کوئی ضرر رساں اثر پیدا نہیں کرے گی ۔ اور اگر ہیڈ ماسٹر بطور خود کسی بچے کو بدنی سزا دینی چاہے تو اس کے لئے میری رائے میں یہ قید ضروری ہے کہ وہ جس وقت سزا کا فیصلہ کرے اس وقت کے اور عملاً سزا دینے کے وقت کے درمیان کچھ مناسب وقفہ رکھے تاکہ اگر اس کا یہ فیصلہ کسی مخفی اور غیر محسوس جذبہ انتقام کے ماتحت ہو یا غصہ یاغضب کی حالت سے مغلوب ہو کر دیا گیا ہو تو وہ بعد کے ٹھنڈے لمحات میں اپنے اس فیصلہ میں ترمیم کر سکے ۔واللہ اعلم۔
{ 399} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے تھے کہ بعض اوقات ہماری جماعت کے طالب علم مجھے امتحانوں میں کامیابی کی دعا کیلئے کہتے ہیں اور گو یہ ایک معمولی سی بات ہوتی ہے ۔لیکن میں ان کے واسطے توجہ کے ساتھ دعا کرتا ہوں کہ اس طرح ان کو دعا کی طرف رغبت اور خیال پیدا ہو ۔
{ 400} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیاکہ ایک دن سخت گرمی کے موسم میں چند احباب دوپہر کے وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں اندر حاضر ہوئے جہاں حضور تصنیف کا کام کر رہے تھے۔پنکھا بھی اس کمرہ میں نہ تھا بعض دوستوں نے عرض کیاکہ حضورکم از کم پنکھا تو لگوا لیں تا کہ اس سخت گرمی میں حضور کوکچھ آرام تو ہو ۔حضور نے فرمایا کہ اس کا یہی نتیجہ ہو گانا کہ آدمی کو نیند آنے لگے اور وہ کام نہ کر سکے ۔ہم تو وہاں کام کرنا چاہتے ہیں جہاں گرمی کے مارے لوگوں کا تیل نکلتا ہو۔یہ بات میں نے ان لوگوں سے سُنی ہے جواس وقت مجلس میں موجود تھے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ کوئی حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی کی خصوصیت تھی ۔کہ آپ سخت گرمی میں بغیر پنکھے کے تصنیف کا کام کر لیتے تھے ۔ورنہ میں نے دیکھا ہے کہ شدت گرمی کے وقت اگر پنکھا نہ ہو تو گو اور کام تھوڑے بہت ہو سکیں۔ لیکن تصنیف کا کام بہت ہی مشکل ہو جاتا ہے ۔ خصوصاً جن لوگوں کو پسینہ زیادہ آتا ہو ان کے لئے تو بغیرپنکھے کے لکھنے کا کام کرنا ایک مصیبت ہو جاتا ہے ۔ چنانچہ خود میرا بھی قریباً یہی حال ہے ۔علاوہ ازیں گو بعض نادان لوگ اسے ایک وہم قرار دیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے زمانہ میں خدا کا کوئی ایسا خاص فضل تھا کہ زیادہ دن لگا تار شدت کی گرمی نہیں ہوتی تھی اور بر وقت بارشوں وغیرہ سے ٹھنڈ ہوتی رہتی تھی ۔اس احساس کا اظہار میرے پاس بہت سے فہمیدہ دوستوں نے کیا ہے اور میں نہیں سمجھ سکتا کہ اتنے با شعور لوگوں کی رائے کسی وہم پر مبنی ہو۔اور یہ بات اصول جغرافیہ کے بھی خلاف نہیں ہے کیونکہ تجربہ سے یہ ثابت ہے کہ بعض اسباب کے نتیجہ میں بارشوں اور خنک ہواؤں کے زمانہ میں اتار چڑھاؤہوتا رہتا ہے اور ہر زمانہ میں بالکل ایک سا حال نہیں رہتا۔پس اگر خدا کے منشاء کے ماتحت حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے زمانہ میں ایسے سامان پیدا ہو گئے ہوں کہ جن کے نتیجہ میں بر وقت بارشوں اور ٹھنڈی ہواؤں کا سلسلہ عام طور پر قائم رہا ہو تو یہ کوئی تعجب انگیز امر نہیں۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{401} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام معہ چند خدام کے باوا صاحب کا چولہ دیکھنے کے لئے ڈیرہ بابا نانک تشریف لے گئے تو وہاں ایک بڑ کے درخت کے نیچے کچھ کپڑے بچھا کر جماعت کے لوگ معہ حضور کے بیٹھ گئے ۔مولوی محمد احسن صاحب بھی ہمراہ تھے۔ گاؤں کے لوگ حضور کی خبر سُن کر وہاں جمع ہونے لگے تو ان میں سے چند آدمی جو پہلے آئے تھے مولوی محمداحسن صاحب کو مسیح موعود خیال کر کے ان کے سا تھ مصافحہ کر کر کے بیٹھتے گئے۔ تین چار آدمیوں کے مصافحہ کے بعد یہ محسوس کیا گیا کہ ان کو دھوکہ ہوا ہے ۔اس کے بعد مولوی محمد احسن صاحب ہر ایسے شخص کوجو ان کے ساتھ مصافحہ کرتا تھا حضور کی طرف متوجہ کر دیتے تھے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام یہ ہیں ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ بعض اوقات آنحضور ﷺ کی مجلس میں بھی ایسا دھوکہ لگ جاتا تھادراصل چونکہ انبیاء کی مجلس بالکل سادہ اور ہر قسم کے تکلفات سے پاک ہوتی ہے اور سب لوگ محبت کے ساتھ باہم ملے جلے بیٹھے رہتے ہیں۔اور نبی کے لئے کوئی خاص امتیازی شان یا مسند وغیرہ کی صورت نہیں ہوتی اس لئے اجنبی آدمی بعض اوقات عارضی طور پر دھوکا کھا جاتا ہے ۔
{ 402} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ مولوی عبدالکریم صاحب معہ چند خاص احباب کے مسجد مبارک کی چھت پر بیٹھے ہوئے تھے ۔فرمانے لگے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت مولوی نور الدین صاحب کی مجلسوں میں نمایاں فرق ہے۔حضرت اقدس کی مجلس میں ہمیشہ نمایاں خوشی اور بشاشت ہوتی ہے اور کیسا ہی غم ہو فوراً دور ہو جاتا ہے ۔بر خلاف اس کے حضرت مولوی صاحب کی مجلس میں ایک غم اور درد کی کیفیت دل پر محسوس ہوتی ہے۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ قلب انسانی سے مختلف قسم کی روئیں جاری ہوتی رہتی ہیں ۔جن سے اس کے ارد گرد کی چیزیں متاثر ہوتی ہیںاور جس قسم کے جذبات اور احساسات کسی شخص کے دل میں غالب ہوں اسی قسم کی اس کی رو ہوتی ہے ۔ انبیاء چونکہ بشاشت اور نشاط اور امید اور مسرت کا مژدہ لیکر دنیا میں آتے ہیں ۔اور مایوسی وغیرہ کے خیالات ان کے پاس نہیں پھٹکتے اور ان کا دل بھی خدا کے خاص الخاص افضال وبرکات اور رحمتوں کا مہبط رہتا ہے ۔اس لئے ان کی مجلس اور صحبت کا یہ لازمی نتیجہ ہوتا ہے کہ پاس بیٹھنے والے اس مخفی رو کے ذریعہ سے جو ان کے دل سے جاری ہوتی رہتی ہے اسی قسم کے جذبات و احساسات اپنے اندر محسوس کرنے لگ جاتے ہیں ۔بر خلاف اس کے بعض دوسرے لوگوں کے قلب پر چونکہ خوف اور خشیت اللہ اور خدا کی ناراضگی کے ڈر کے خیالات کا غلبہ رہتا ہے ۔اس لئے ان کی مجلس بھی خاموش طور پر غم اور درد کے خیالات کا موجب ہوتی ہے ۔بہر حال یہ مجلسی اثر صدر مجلس کی اپنی قلبی کیفیات کا نتیجہ ہوتا ہے۔واللّٰہ اعلم۔نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ کی صحبت کا یہ اثر واقعی نہایت نمایاں تھا کہ انسان کا دل خوشی اور امید اور ایک گونہ استغناء کے خیالات سے بھر جاتا تھا اور ایسا معلوم ہوتاتھا کہ بس ساری دنیا اپنی ہی اپنی ہے اور یہ کہ دنیا کی ساری طاقتیں ہمارے سامنے ہیچ ہیں ۔
{ 403} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت خلیفہ اوّلؓ فرماتے تھے کہ ایک طالب علم جو کالج میں پڑھتا تھا وہ میرے پاس آ کر بیان کرنے لگا کہ کچھ عرصہ سے میرے دل میں دہریت کے خیالات پیدا ہونے شروع ہو گئے ہیں ۔اور میں ان کا بہت مقابلہ کرتا ہوں مگر وہ میراپیچھا نہیں چھوڑتے ۔ مولوی صاحب فرماتے تھے کہ میں نے اسے مناسب نصیحت کی اور کہا کہ تم اپنی حالت سے مجھے اطلاع دیتے رہا کرو ۔مگراس کی حالت روبہ اصلاح نہ ہوئی ۔بلکہ اس کے یہ شبہات ترقی کرتے گئے۔پھر جب وہ قادیان آیا تو میں نے اسے حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کیا۔ حضرت صاحب ؑ نے اس کے حالات سُن کر فرمایا کہ آپ کالج میں جس جگہ بیٹھا کرتے ہیں وہ جگہ بدل دیں ۔اس کے کچھ عرصہ بعد جب وہ پھر قادیان آیا تو کہنے لگا کہ اب میرے خیالات خود بخود ٹھیک ہونے لگ گئے ہیں ۔اور اس نے یہ بیان کیا کہ مجھے اب معلوم ہوا ہے کہ جس جگہ میں پہلے بیٹھتا تھا اس کے ساتھ ایک ایسے طالب علم کی جگہ تھی جو دہریہ تھا۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ انسان کے قلب سے مخفی طور پر اس کے خیالات کی رو جاری ہوتی رہتی ہے۔جو پاس بیٹھنے والوں پر اپنا اثر پیدا کرتی ہے ۔معلوم ہوتا ہے کہ یہ طالب علم کمزور طبیعت کا ہوگا اورباوجود خدا پر ایمان رکھنے کے اس کا قلب اپنے دہریہ پڑوسی کی مخفی رو سے متاثر ہو گیا لیکن چونکہ حضرت صاحب نے اپنی فراست سے سمجھ لیا تھا کہ یہ اثر کسی دہریہ کے پاس بیٹھنے کا ہے اس لئے آپ نے اسے نصیحت فرمائی کہ اپنی جگہ بدل دے ۔چنانچہ یہ تجویز کا ر گر ہوئی اور اس کی اصلاح ہو گئی ۔علم توجہ جسے انگریزی میں ہپناٹزم کہتے ہیں وہ بھی اسی مخفی قلبی روکا نتیجہ ہے۔صرف فرق یہ ہے کہ ہپنا ٹزم میں توجہ ڈالنے والا ارادہ اور شعور کے ساتھ اپنی توجہ کا ایک مرکز قائم کر تا ہے لیکن اس قسم کی عام حالت میں بلا ارادہ ہر شخص کے قلب سے ایک رو جاری رہتی ہے اور اسی لئے یہ رَو ہپنا ٹزم کی رَو کی نسبت بہت کمزور اور بطی ٔ الاثر ہوتی ہے ۔
{ 404} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ڈاکٹر محمداسماعیل خان صاحب مرحوم نے حضرت مسیح موعود ؑ سے عرض کیا کہ میرے ساتھ شفا خانہ میں ایک انگریز لیڈی ڈاکٹر کا م کرتی ہے اور وہ ایک بوڑھی عورت ہے ۔وہ کبھی کبھی میرے ساتھ مصافحہ کر تی ہے اسکے متعلق کیا حکم ہے ۔حضرت صاحب نے فرمایا کہ یہ تو جائز نہیں ہے ۔آپ کو عذر کر دینا چاہیے کہ ہمارے مذہب میں یہ جائز نہیں ۔
{ 405} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مولوی سیّد سرور شاہ صاحب بیان کرتے تھے کہ ایک دفعہ قادیان کے قصابوں نے کو ئی شرارت کی تو اس پر حضرت صاحب نے حکم دیا کہ ان سے گوشت خریدنا بند کردیا جاوے ۔چنانچہ کئی دن تک گوشت بند رہا اور سب لوگ دال وغیرہ کھاتے رہے ۔ان دنوں میں نے( مولوی سید سرور شاہ صاحب نے ) حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کی کہ میرے پاس ایک بکری ہے وہ میں حضور کی خدمت میں پیش کر تا ہوں حضور اسے ذبح کروا کے اپنے استعمال میں لائیں ۔حضرت صاحب نے فرمایا کہ ہمارا دل اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ ہمارے دوست دالیں کھائیں اور ہمارے گھر میں گوشت پکے ۔ خاکسارعرض کرتا ہے کہ اس یہ مراد نہیں ہے کہ حضرت صاحب اس بات کے قائل تھے کہ سب مومنوں کے گھر میں ایک سا کھانا پکنا چاہیے اور سب کا تمدن و طریق ایک سا ہو نا چاہیے بلکہ منشاء صرف یہ ہے کہ ایسے وقت میں جبکہ گوشت خریدنے کی ممانعت کی گئی تھی آپ کے اخلاق نے یہ گوارا نہیں کیا کہ آپ اپنے لئے تو کوئی خاص انتظام کر لیں اور دوسرے ذی استطاعت احباب جو گوشت خریدنے کی طاقت تو رکھتے تھے مگر بوجہ ممانعت کے رکے ہوئے تھے دالیں کھائیں والّا ویسے اپنے گھر میں ہر شخص کو اختیار ہے کہ اعتدال کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی حیثیت کے مطابق جس طرح کا چاہے کھانا کھائے ۔
{ 406} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم بیان فرماتے تھے کہ میں حضرت صاحب کے مکان کے اوپر کے حصہ میں رہتا ہوں ۔میں نے کئی دفعہ حضرت صاحب کے گھر کی عورتوں کو آپس میں یہ باتیں کر تے سُنا ہے کہ حضرت صاحب کی تو آنکھیں ہی نہیں ہیں ۔ان کے سامنے سے کوئی عورت کسی طرح سے بھی گذر جاوے ا ن کو پتہ نہیں لگتا ۔یہ وہ ایسے موقعہ پر کہا کر تی ہیں کہ جب کو ئی عورت حضرت صاحب کے سامنے سے گذرتی ہوئی خاص طور پر گھونگھٹ یا پردہ کا اہتمام کرنے لگتی ہے ۔اور ان کا منشا ء یہ ہوتا ہے کہ حضرت صاحب کی آنکھیں ہر وقت نیچی اور نیم بند رہتی ہیں اور وہ اپنے کا م میں با لکل منہمک رہتے ہیں ان کے سامنے سے جاتے ہوئے کسی خاص پردہ کی ضرورت نہیں ۔نیز مولوی شیر علی صاحب نے بیان کیا کہ باہر مردوں میں بھی حضرت صاحب کی یہی عادت تھی کہ آپ کی آنکھیں ہمیشہ نیم بند رہتی تھیں اور ادھر اُدھر آنکھ اُٹھا کر دیکھنے کی آپ کو عادت نہ تھی ۔بسا اوقات ایسا ہوتا تھا کہ سیر میں جاتے ہوئے آپ کسی خادم کا ذکر غائب کے صیغہ میں فرماتے تھے حالا نکہ وہ آپ کے ساتھ ساتھ جارہا ہوتا تھا اور پھر کسی کے جتلانے پر آپ کو پتہ چلتا تھا کہ وہ شخص آپ کے ساتھ ہے ۔
{ 407} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت صاحب معہ چند خدام کے فوٹو کھینچوانے لگے تو فوٹو گرافر آپ سے عرض کرتا تھا کہ حضور ذرا آنکھیں کھو ل کر رکھیں ورنہ تصویر اچھی نہیں آئے گی اور آپ نے اس کے کہنے پر ایک دفعہ تکلف کے ساتھ آنکھوں کو کچھ زیادہ کھولا بھی مگر وہ پھر اسی طرح نیم بند ہوگئیں۔
{ 408} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ انسان کی فطرت میں اللہ تعالیٰ نے گناہوں پر غالب آنے کا مادہ رکھ دیا ہے پس خواہ انسان اپنی بداعمالیوں سے کیسا ہی گندہ ہو گیا ہو وہ جب بھی نیکی کی طرف مائل ہو نا چاہے گا اس کی نیک فطرت اس کے گناہوں پر غالب آجائے گی اور اس کی مثال اس طرح پر سمجھایا کرتے تھے کہ جیسے پانی کے اندر یہ طبعی خاصہ ہے کہ وہ آگ کو بجھا تا ہے۔پس خواہ پانی خود کتنا ہی گرم ہو جاوے حتیّٰ کہ وہ جلانے میں آگ کی طرح ہو جاوے لیکن پھر بھی آگ کو ٹھنڈا کر دینے کی خاصیت اس کے اندر قائم رہے گی۔ خاکسارعرض کرتا ہے کہ یہ ایک نہایت ہی لطیف نکتہ ہے جسے نہ سمجھنے کی وجہ سے عیسائی اور ہندو مذہب تباہ ہوگئے اور لاکھوں مسلمان کہلانے والے انسان بھی مایوسی کا شکار ہو گئے ۔
{ 409} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان مبارک پر بعض فقرے کثرت کے ساتھ رہتے تھے ۔مثلاً آپ اپنی گفتگو میں اکثر فرمایا کرتے تھے دست درکار دل بایار ، خداداری چہ غم داری ، اَلْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ ، اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ ، آنچناںصیقل زدند آئینہ نماند، گرحفظ مراتب نہ کنی زندیقی ، مَالَایُدْرَکُ کُلُّہٗ لَایُتْرَکُ کُلُّہٗ ، اَلطَّرِیْقَۃُ کُلُّھَا اَدَبٌ ،
اد ب تا جیست از لطف الٰہی
بنہ بر سربرو ہر جا کہ خواہی
{ 410} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت صاحب فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص ہماری کتابوں کو کم از کم تین دفعہ نہیں پڑھتا اس میں ایک قسم کا کبر پایا جاتا ہے۔
{ 411} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک بچہ نے گھر میں ایک چھپکلی ماری اور پھر اسے مذاقاً مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کی چھوٹی اہلیہ پر پھینک دیا جس پر مارے ڈر کے ان کی چیخیں نکل گئیں ۔اور چونکہ مسجد کا قرب تھا ان کی آواز مسجد میں بھی سنائی دی ۔مولوی عبدالکریم صاحب جب گھر آئے تو انہوں نے غیرت کے جوش میں اپنی بیوی کو بہت کچھ سخت سُست کہا حتیّٰ کہ انکی یہ غصہ کی آواز حضرت مسیح موعود ؑ نے نیچے اپنے مکان میں بھی سن لی ۔چنانچہ اس واقعہ کے متعلق اسی شب حضرت صاحب کو یہ الہام ہو ا کہ ’’ یہ طریق اچھا نہیں اس سے روک دیا جائے ، مسلمانوں کے لیڈر عبدالکریم کو ‘‘ لطیفہ یہ ہو ا کہ صبح مولوی صاحب مرحوم تو اپنی اس بات پر شرمندہ تھے اور لوگ انہیں مبارک باد یں دے رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کا نام مسلمانوں کا لیڈر رکھا ہے ۔
{412} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک شہادت کیلئے ملتان تشریف لے گئے تو راستہ میں لاہور بھی اترے اور وہاں جب آپکو یہ علم ہوا کہ مفتی محمدصادق صاحب بیمار ہیں تو آپ ان کی عیادت کیلئے انکے مکان پر تشریف لے گئے ۔اور ان کو دیکھ کر حدیث کے یہ الفاظ فرمائے کہ لَا بَأْسَ طَہُوْرًا اِنْشَآئَ اللّٰہُ ۔
یعنی کوئی فکر کی بات نہیں انشاء اللہ خیر ہو جائے گی اور پھر آپ نے مفتی صاحب سے یہ بھی فرمایا کہ بیمار کی دعا زیادہ قبول ہوتی ہے ،آپ ہمارے لئے دعا کریں ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ ملتان کا یہ سفر حضرت صاحب نے ۱۸۹۷ء میں کیا تھا ۔
{413} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسارعر ض کرتا ہے کہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ ہمیں خوب تیرنا آتا ہے اور فرماتے تھے کہ میں ایک دفعہ اوائل عمر میں ڈھاب کے اندر ڈوبنے لگا تھا اور ایک بوڑھے عمر رسیدہ آدمی نے مجھے پانی سے نکالا تھا ۔وہ شخص کوئی اجنبی آدمی تھا جسے میں نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا اور نہ بعد میں دیکھا ۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ ایک دفعہ گھر کے بچوں نے چندہ جمع کر کے قادیان کی ڈھاب کیلئے ایک کشتی جہلم سے منگوائی تھی اور حضرت صاحب نے بھی اس چندہ میں ایک رقم عنایت کی تھی ۔
{414} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حضرت والدہ صاحبہ نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک ابتدائی زمانہ میں احباب کے جمع ہونے کی وجہ سے ایک جلسہ کی سی صورت ہوگئی اور لوگوں نے خواہش کی کہ حضرت صاحب کچھ تقریر فرمائیں ۔ جب آپ تقریر کیلئے باہر تشریف لے جانے لگے تو فرمانے لگے کہ مجھے تو تقریر کرنی نہیں آتی میں جا کر کیا کہوں ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت موسیٰ نے جو یہ کہاتھا کہ لاَ یَنْطَلِقُ لِسَانِیْ (الشعراء :۱۴) اس کا بھی یہی مطلب تھا کہ میں تقریر کرنا نہیں جانتا ۔مگر خدا جس کو کسی منصب پر کھڑا کرتا ہے اس کو اس کااہل پا کر ایسا کرتا ہے اور اگر اس میں کوئی کمی بھی ہو تی ہے تو اسے خود پورا فرما دیتا ہے ۔چنانچہ جب موسیٰ علیہ السلام فرعون کے دربار میں پہنچے تو آپ کی زبان ایسی چلی کہ حضرت ہارون جن کو وہ اپنی جگہ منصب نبوت کے لئے پیش کر رہے تھے ۔گویا بالکل ہی پس پشت ہو گئے ۔اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا نے وہ تقریر کی طاقت دی کہ دنیا داروں نے آپ کی سحر بیانی کو دیکھ کر یہ کہنا شروع کردیا کہ اس شخص کی زبان میں جادو ہے ۔
{ 415} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔پیر سراج الحق صاحب نے اپنی کتاب تذکرۃ المہدی حصہ دوم میں لکھا ہے کہ قادیان کے پاس گائوں کا ایک سکھ جاٹ جو عرصہ ہوا فوت ہو گیا ہے اور وہ بہت معمر آدمی تھا مجھ سے بیان کرتا تھا کہ میں مرزا صاحب (یعنی حضرت صاحب) سے بیس سال بڑا ہوں اور بڑے مرزا صاحب (یعنی حضرت صاحب کے والدصاحب) کے پاس میرا بہت آنا جانا رہتا تھا ۔میرے سامنے کئی دفعہ ایسا ہوا کہ کوئی بڑا افسر یا رئیس بڑے مرزا صاحب سے ملنے کیلئے آتا تھا تو باتوں باتوں میں ان سے پوچھتا تھا کہ مرزا صاحب ! آپ کے بڑے لڑکے (یعنی مرزا غلام قادر ) کے ساتھ تو ملاقات ہو تی رہتی ہے لیکن آپ کے چھوٹے بیٹے کو کبھی نہیں دیکھا ۔وہ جواب دیتے تھے کہ ہاں میرا ایک چھوٹا لڑکا بھی ہے لیکن وہ الگ الگ ہی رہتا ہے اور لڑکیو ں کی طرح شرم کرتا ہے اور شرم کی وجہ سے کسی سے ملاقات نہیں کرتا ۔پھر وہ کسی کو بھیج کر مرزا صاحب ( یعنی حضرت مسیح موعود ؑ ) کو بلواتے تھے ۔ مرزا صاحب آنکھیں نیچے کئے ہوئے آتے اور اپنے والد سے کچھ فاصلہ پر سلام کر کے بیٹھ جاتے ۔بڑے مرزا صاحب ہنستے ہو ئے فرماتے کہ لو اب تو آپ نے اس دلہن کو دیکھ لیا ہے اور پیر صاحب نے لکھا ہے کہ وہی سکھ جاٹ ایک دفعہ قادیان آیا اس وقت ہم بہت سے آدمی گول کمرے میں کھا ناکھا رہے تھے ۔اس نے پوچھا کہ مرزا جی کہاں ہیں ؟ ہم نے کہا اندر ہیں اورچونکہ اس وقت آپ کے باہر تشریف لانے کا وقت نہیں ہے اس لئے ہم بلا بھی نہیں سکتے کیونکہ آپ کام میں مشغول ہو نگے ۔جب وہ تشریف لائیں گے مل لینا ۔اس پر اس نے خودہی بے دھڑک آواز دیدی کہ مرزا جی ذرا باہر آئو ۔حضرت اقدس برہنہ سر اسکی آواز سن کر باہر تشریف لے آئے اور اسے دیکھ کر مسکراتے ہوئے فرمایا سردار صاحب! اچھے ہو ،خوش ہو ۔بہت دنوں کے بعدملے۔ اس نے کہا ہاں میں خوش ہوں مگر بڑھاپے نے ستا رکھا ہے ۔چلنا پھرنا بھی دشوار ہے پھر زمینداری کے کام سے فرصت کم ملتی ہے ۔مرزا جی آپ کو وہ پہلی باتیں بھی یاد ہیں ۔بڑے مرزا صاحب کہا کرتے تھے کہ میرا یہ بیٹا مسیتڑ ہے ۔نہ نوکری کرتا ہے نہ کماتا ہے اور پھر وہ آپ کو ہنس کر کہتے تھے کہ چلو تمہیں کسی مسجد میں مُلّا کروا دیتا ہوں ۔دس من دانے تو گھر میںکھانے کو آجایا کریںگے ۔پھر آپ کو وہ بھی یاد ہے کہ بڑے مرزا صاحب مجھے بھیج کر آپ کو اپنے پاس بلا بھیجتے تھے۔اور آپ کو بڑے افسوس کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔کہ افسوس میرا یہ لڑکا دنیا کی ترقی سے محروم رہا جاتا ہے ۔آج وہ زندہ ہوتے تو یہ چہل پہل دیکھتے کہ کس طرح ان کا وہی مسیتڑ لڑکا بادشاہ بنا بیٹھا ہے ۔ اور بڑے بڑے لوگ دور دور سے آکر اس کے در کی غلامی کرتے ہیں ۔حضرت اقدس اس کی ان باتوں کو سُن کر مسکراتے جاتے تھے اور پھر آخر میں آپ نے فرمایا ۔ہاں مجھے یہ ساری باتیں یاد ہیں ۔یہ سب اللہ کا فضل ہے ہمارا اس میں کوئی دخل نہیں ہے اور پھربڑی محبت سے اسے فرمایا کہ ٹھہرو میں تمہارے لئے کھانے کا انتظام کرتا ہوں اور یہ کہہ کر آپ اندر مکان میں تشریف لے گئے ۔ پیر صاحب لکھتے ہیںکہ پھر وہ بڈھا سکھ جاٹ میرے ساتھ باتوں میں مصروف ہو گیا ۔اور کہنے لگا کہ بڑے مرزا صاحب کہا کرتے تھے کہ میرا یہ لڑکا ملّا ہی رہے گا اور مجھے فکر ہے کہ میرے بعد یہ کس طرح زندگی بسر کرے گا ۔ہے تو وہ نیک مگر اب زمانہ ایسا نہیں ۔چالاک آدمیوں کا زمانہ ہے۔ پھر بعض اوقات آب دیدہ ہو کر کہتے تھے کہ غلام احمد ؐ نیک اور پاک ہے ۔جو حال اس کا ہے وہ ہمارا کہاں ہے ۔پیر صاحب کہتے ہیں کہ یہ باتیں سُناتے ہوئے وہ سکھ خود بھی چشم پر آب ہو گیا اور کہنے لگا آج مرزا غلام مرتضیٰ زندہ ہوتا تو کیا نظارہ دیکھتا؟
{ 416} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ پیر سراج الحق صاحب نے اپنی کتا ب ’’تذکرۃالمہدی ‘‘ میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ ایک میمن سیٹھ بمبئی کا قادیان آیا اور پانچ سوروپیہ حضرت صاحب کے لئے نذرانہ لایا اور آتے ہی مجھ سے کہا کہ میں حضرت صاحب کی زیارت کے لئے آیا ہوں ۔اور ابھی واپس چلا جاؤں گا ۔مجھے زیادہ فرصت نہیں۔ ابھی اندر اطلاع کر دیں تاکہ میں ملاقات کر کے واپس چلا جاؤں۔ میں نے حضرت صاحب کی خدمت میں رقعہ لکھا اور سارا حال اس شخص کا لکھ دیا حضرت صاحب نے جواب میں تحریر فرمایاکہ ان کو کہہ دیں کہ اس وقت میں ایک دینی کام میں مصروف ہوں ظہر کی نماز کے وقت انشاء اللہ ملاقات ہو گی ۔ اس سیٹھ نے کہا کہ مجھے اتنی فرصت نہیں کہ میں ظہر تک ٹھہروں ۔میں نے پھر لکھا کہ وہ یوں کہتا ہے ۔ مگر حضرت صاحب نے کوئی جواب نہ دیا اور وہ واپس چلا گیا۔ظہر کے وقت جب آپ باہر تشریف لائے تو بعد نماز ایک شخص نے عرض کیا کہ ایک میمن سیٹھ حضور ؑ کی زیارت کے لئے آیا تھا ۔اور پانچ صد روپیہ نذرانہ بھی پیش کرنا چاہتا تھا۔حضرت صاحب نے فرمایا ہمیں اس کے روپے سے کیا غرض؟ جب اسے فرصت نہیں تو ہمیں کب فرصت ہے جب اسے خدا کی غرض نہیں تو ہمیں دنیا کی کیا غرض ہے۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ انبیاء جہاں ایک طرف شفقت اور توجہ کے اعلیٰ مقام پرفائز ہوتے ہیں ۔ وہاں صفت استغناء میں بھی وہ خدا کے ظل کامل ہوتے ہیں ۔اور بسا اوقات ان کو اپنی فراست فطری سے یہ بھی پتہ لگ جاتا ہے کہ فلاں شخص قابل توجہ ہے یا نہیں ؟
{ 417} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔پیر سراج الحق صاحب نے تذکرۃالمہدی حصہ دوم میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ قادیان میں بہت سے دوست بیرو ن جات سے آئے ہوئے حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر تھے اور منجملہ ان کے حضرت خلیفہ اوّل اور مولوی عبد الکریم صاحب اور مولوی محمدؐ احسن صاحب اور منشی ظفر احمد صاحب اور محمدخان صاحب اور منشی محمد اروڑا صاحب اور مولوی عبد القادر صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب اور مولوی محمد علی صاحب اور شیخ غلام احمد صاحب اور ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب وغیرھم بھی تھے ۔مجلس میں اس بات کا ذکر شروع ہوا کہ اولیاء کو مکاشفات میں بہت کچھ حالات منکشف ہو جاتے ہیں ۔ اس پر حضرت اقدس تقریر فرماتے رہے اور پھر فرمایا کہ آج ہمیں دکھایا گیا ہے کہ ان حاضر الوقت لوگوں میں بعض ہم سے پیٹھ دیئے ہوئے بیٹھے ہیں اور ہم سے رو گرداں ہیں ۔یہ بات سُن کر سب لوگ ڈر گئے اور استغفار پڑھنے لگ گئے ۔اور جب حضرت صاحب ؑ اندر تشریف لے گئے تو سیّد فضل شاہ صاحب بہت گھبرائے ہوئے اٹھے اور ان کا چہرہ فق تھااور انہوں نے جلدی سے آپ کے دروازہ کی زنجیر ہلائی ۔حضرت صاحب واپس تشریف لائے اور دروازہ کھول کر مسکراتے ہوئے پوچھا ۔ شاہ صاحب کیا بات ہے؟شاہ صاحب نے عرض کیا کہ میں حضورؑ کو حلف تو نہیں دے سکتا کہ ادب کی جگہ ہے اور نہ میں اوروں کا حال دریافت کرتا ہوں ۔صرف مجھے میرا حال بتا دیجئے کہ میں تو رو گردا ں لوگوں میںسے نہیں ہوں ؟ حضرت صاحب ؑ بہت ہنسے اور فرمایا۔نہیں شاہ صاحب آپ اُن میں سے نہیں ہیں ۔اور پھر ہنستے ہنستے دروازہ بند کر لیا۔اور شاہ صاحب کی جان میں جان آئی ۔
{418} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میری اہلیہ مجھ سے کہتی تھی کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے زمانہ میں قادیان میں نماز استسقاء پڑھی گئی تھی یہ نماز عید گاہ میں ہوئی تھی۔اور اسی دن شام سے قبل بادل آگئے تھے ۔مولوی شیر علی صاحب نے بیان کیا کہ مجھے یہ نماز یا د نہیں بلکہ مجھے یہ یاد ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے زمانہ میں یہ ایک عام احساس تھاکہ زیادہ دن تک لگاتار شدت کی گرمی نہیں پڑتی تھی اور بر وقت بارشوں اور ٹھنڈی ہواؤں سے موسم عموماً اچھا رہتا تھا۔بلکہ مجھے یاد ہے کہ اسی زمانہ میں لوگ آپس میں یہ باتیں بھی کیا کرتے کہ اس زمانہ میں زیادہ دن تک لگاتار شدت کی گرمی نہیں پڑتی اور جب بھی دو چار دن شدت کی گر می پڑتی ہے تو خداتعالیٰ کی طرف سے بارش وغیرہ کا انتظام ہو جاتا ہے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ گو میں نے بعض دوسرے لوگوں سے بھی سُنا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں نماز استسقا نہیں پڑھی گئی ۔ لیکن اگر کبھی پڑھی بھی گئی ہو تو یہ دوباتیں آپس میں مخالف نہیں ہیں ۔کیونکہ یہ بالکل ممکن ہے کہ عام طور پر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے زمانہ میں یہی صورت رہی ہو کہ زیادہ دن تک لگا تار شدّت کی گرمی نہ پڑتی ہو۔ اور وقت کی بارشوں اور ٹھنڈی ہواؤں سے موسم عموماً اچھا رہتا ہو۔لیکن کبھی کسی سال نسبتاًزیادہ گرمی پڑنے اور نسبتاً زیادہ عرصہ بارش کے رکے رہنے سے نماز استسقاء کی ضرورت بھی سمجھی گئی ہو ۔پس عام طو رپر موسم کے اچھا رہنے کا احساس اور کبھی ایک آدھ دفعہ نماز استسقاء کا پڑھا جانا ہر گز آپس میں ایک دوسرے کے مخالف نہیںہیں ۔اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جس زمانہ میں عموماً موسم عمدہ رہتا ہو اس زمانہ میں بوجہ اچھے موسم کی عادت ہو جانے کے موسم کا تھوڑا بہت اونچ نیچ بھی لوگوں کے لئے تکلیف کا موجب ہوجاتا ہے اور وہ موسم کی خرابی کی شکایت کرنے لگ جاتے ہیں ۔ پس اگر کبھی حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے زمانہ میں نماز استسقاء پڑھی گئی تھی تو وہ بھی غالباً کسی ایسی ہی احساس شکایت کے ماتحت پڑھی گئی ہو گی ۔یعنی بوجہ عموماً اچھے موسم کے عادی ہو جانے کے لوگوں نے موسم کے تھوڑے بہت اونچ نیچ پر ہی نماز استسقاء کے پڑھے جانے کی ضرورت محسوس کر لی ہو گی ۔علاوہ ازیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں لوگوں کے اندر قادیان میں یہ ایک عام احساس تھا کہ زیادہ شدّت کی گرمی نہیں پڑتی اور جب بھی چند دن لگا تار گرمی کی شکایت پیدا ہوتی ہے تو خدا کے فضل سے ایسا انتظام ہو جاتا ہے کہ بارشوں یا بادلوں یا ٹھنڈی ہواؤں سے موسم اچھا ہو جاتا ہے ۔یہ ایک صرف نسبتی امر ہے اور اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ گویا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے زمانہ میں خدا کا قانون قدرت بدل گیا تھا اور گرمیوں کا موسم سرما میں تبدیل ہو گیا تھا بلکہ صرف یہ مراد ہے کہ خدا کا کوئی ایسا فضل تھا کہ لگا تار شدّت کی گرمی نہیں پڑتی تھی ۔اور بر وقت بارشوں اور بادلوں اور ٹھنڈی ہواؤں سے عموماً موسم اچھا رہتا تھا ۔ورنہ ویسے تو گرماگرما ہی تھا اور سرما سر ما ہی۔اور یہ بات عام قانون نیچر کے خلاف نہیں ہے کیونکہ علم جغرافیہ اور نیز تجربہ اور مشاہدہ سے یہ بات ثابت ہے کہ بارشوں اور خنک ہواؤں کے زمانہ میں ایک حد تک اتار چڑھاؤ ہوتا رہتا ہے اور ہر زمانہ میں بالکل ایک سا حال نہیں رہتا ۔بلکہ کبھی بارشوں اور خنک ہواؤں کی قلت اور گرمی کی شدّت ہو جاتی ہے اور کبھی بر وقت بارشوں اور بادلوں اور خنک ہواؤں سے موسم میں زیادہ گرمی پیدا نہیں ہوتی چنانچہ گورنمنٹ کے محکمہ آب و ہوا کے مشاہدات بھی اسی پرشاہد ہیں ۔پس اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں خدا کی طرف سے ایسے سامان جمع ہو گئے ہوں کہ جن کے نتیجہ میں موسم عموماًاچھا رہتا ہو۔ تو یہ کوئی تعجب انگیز بات نہیں اور نہ اس میں کوئی خارق عادت امر ہے ۔واللّٰہ اعلم۔دراصل خدا تعالیٰ اپنے پاک بندوں کی دو طرح نصرت فرماتا ہے ۔ اوّل تو یہ کہ بسااوقات وہ اپنی تقدیر عام یعنی عام قانون قدرت کے ماتحت ایسے سامان جمع کر دیتا ہے جو ان کے لئے نصرت و اعا نت کا موجب ہوتے ہیں اور گو زیادہ بصیرت رکھنے والے لوگ اس قسم کے امور میں بھی خدائی قدرت نمائی کا جلوہ دیکھتے ہیں ۔لیکن عامۃالناس کے نزدیک ایسے امور کوئی خارق عادت رنگ نہیں رکھتے ۔کیونکہ معروف قانون قدرت کے ماتحت ان کی تشریح کی جا سکتی ہے ۔دوسری صورت خدائی نصرت کی تقدیر خاص کے ماتحت ہو تی ہے ۔ جس میں تقدیر عام یعنی معروف قانون قدرت کا دخل نہیں ہوتا اور یہی وہ صورت ہے جو عرف عام میں خارق عادت یا معجزہ کہلاتی ہے ۔اور گو اس میں بھی ایک حد تک سنت اللہ کے مطابق اخفاء کا پردہ ہوتا ہے ۔ لیکن ہر عقلمند شخص جسے تعصب نے اندھا نہ کر رکھا ہو ۔اس کے اندر صاف طور پر خدا کی قدرت خاص کا نظارہ دیکھتا ہے۔پس اگر خدا تعالیٰ نے قسم اوّل کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں اپنے عام قانون قدرت کے ماتحت ایسے سامان جمع کر دیئے ہوں کہ جن کے نتیجہ میں موسم عموماً اچھا رہتا ہواور بادل اور بارشیں اور خنک ہوائیں بر وقت وقوع میں آکر زیادہ دن تک لگا تار گرمی کی شدت نہ پیدا ہونے دیتی ہو ںتو یہ کوئی تعجب انگیز بات نہیں ۔آخر جہاں خدا نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کام کو آسان کرنے کے لئے اپنی عام قدرت کے ماتحت ڈاک اور تار اور ریل اور دخانی جہاز اور مطبع وغیرہ کی سہولتیں پیدا کردیں اور دوسری طرف اپنی تقدیر خاص کے ماتحت ہزاروں خارق عادت نشان ظاہر فرمائے وہاںاگر اس خیال کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ آپ نے خصوصیت کے سا تھ تصنیف کا کام کرنا ہے جو عموماً اچھے موسم کو چاہتا ہے ۔ اگر خدا تعالیٰ نے اپنی عام تقدیر کے ماتحت ایسے سامان جمع کر دئیے ہوں کہ جن کے نتیجہ میں موسم میں عموماً زیادہ شدت کی گرمی نہ پیدا ہوتی ہو ۔تو کسی عقل مند مومن کے نزدیک جائے اعتراض نہیں ہو سکتا۔باقی رہا حضرت مسیح موعود ؑ کے زمانہ میں کبھی ایک آدھ دفعہ نماز استسقاء کا پڑھا جانا ۔سو اس سے بھی جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کوئی حرج واقع نہیں ہوتا ۔ واللہ اعلم۔
{419} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے تھے کہ یہ بھی خدا تعالیٰ کا ایک فضل ہے کہ اس نے ہمیں ایسے زمانہ میں مبعوث فرمایا ہے کہ رمضان کا مہینہ سردیوں میں آتا ہے اور روزے زیادہ جسمانی تکلیف کا موجب نہیں ہوتے اور ہم آسانی کے ساتھ رمضان میں بھی کام کر سکتے ہیں ۔مولوی صاحب کہتے تھے کہ ان دنوں میں رمضان دسمبر میں آیا تھا۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے ا س زمانہ کی جنتری کو دیکھا ہے ۔حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے مسیحیت کا دعویٰ ۱۸۹۱ء میں فرمایا تھا۔اور۱۸۹۱ء میں رمضان کا مہینہ ۱۱؍اپریل کو شروع ہوا تھا ۔گویا یہ رمضان کے مہینہ کے لئے موسم سرما میں داخل ہونے کی ابتدا تھی۔چنانچہ ۱۸۹۲ء میں رمضان کے مہینہ کی ابتدا ۳۱مارچ کو ہوئی ۔اور ۱۸۹۳ء میں ۲۰مارچ کو ہوئی ۔ اور اس کے بعد رمضان کا مہینہ ہر سال زیادہ سردیوں کے دنوں میں آتا گیا۔ اور جب ۱۹۰۸ء میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا وصال ہواتو اس سال رمضان کے مہینہ کی ابتدا یکم اکتوبر کو ہوئی تھی۔اس طرح گویا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی بعثت کا زمانہ تمام کا تمام ایسی حالت میں گذرا کہ رمضان کے روزے سردی کے موسم میں آتے رہے ۔اور یہ خدا تعالیٰ کا ایک فضل تھا جو اس کی تقدیر عام کے ماتحت وقوع میں آیا۔اور جسے حضرت مسیح موعود ؑ کی نکتہ شناس طبیعت نے خدا کا ایک احسان سمجھ کر اپنے اندر شکر گذاری کے جذبات پیدا کئے ۔
{ 420} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ جب ۲۶ مارچ ۱۸۹۱ء کو حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنے دعویٰ مسیحیت کااعلانی اشتہار شائع کیا تو اس وقت آپ لدھیانہ میں مقیم تھے ۔اور کئی ماہ تک وہیںمقیم رہے ۔ اس جگہ ۲۰جولائی ۱۸۹۱ء سے لے کر۲۹جولائی ۱۸۹۱ء تک آپ کا اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا مباحثہ ہوا جس کی سر گذشت رسالہ الحق لدھیانہ میں شائع ہو چکی ہے ۔شروع اگست میں آپ لدھیانہ سے چند دن کے لئے امرتسر تشریف لائے اور پھر واپس لدھیانہ تشریف لے گئے ۔امرتسر آنے کی یہ وجہ ہوئی کہ لدھیانہ میں مخالفت کا بہت زور ہو گیا تھااور لوگوں کے طبائع میں ایک ہیجان کی حالت پیدا ہو گئی تھی ۔کیونکہ مولوی محمد حسین نے مباحثہ میں اپنی کمزوری کو محسوس کر کے لوگوں کو بہت اشتعال دلانا شروع کر دیا اور فساد کا اندیشہ تھا۔جس پر لدھیانہ کے ڈپٹی کمشنر نے مولوی محمد حسین کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ لدھیانہ سے چلا جاوے اس حکم کی اطلاع جب حضرت صاحب کو پہنچی تو بعض دوستوں نے مشورہ دیاکہ چونکہ یہ امکان ہے کہ آپ کے متعلق بھی ایسا حکم جاری کیا گیا ہو یا جاری کر دیاجاوے اس لئے احتیاطاً لدھیانہ سے چلے جانا چاہیے چنانچہ آپ امرتسر تشریف لے آئے اور ایک چٹھی ڈپٹی کمشنر کے نام لکھی جس کے جواب میں ڈپٹی کمشنر کی چٹھی آئی کہ آپ کے متعلق کوئی ایسا حکم نہیں دیا گیا کہ آپ لدھیانہ سے چلے جاویں ۔بلکہ آپ کو بمتابعت و ملحوظیت قانون سرکاری لدھیانہ میں ٹھہرنے کے لئے وہی حقوق حاصل ہیں جیسے دیگر رعایا تابع قانون سر کار انگریزی کو حاصل ہیں ۔المر قوم ۱۶؍اگست ۱۸۹۱ئ۔ اس کے بعدآپ پھر لدھیانہ تشریف لے گئے اور ایک عرصہ تک وہاںمقیم رہے اور پھر قادیا ن تشریف لے آئے اس کے کچھ عرصہ بعد آپ پھر لدھیانہ گئے اور وہاں سے دہلی تشریف لے گئے۔ دہلی چونکہ ان دنوں میں تمام ہندوستان کا علمی مرکز سمجھا جاتا تھا اس لئے آپ کو خیال تھا کہ وہاں اتمام حجت کا اچھا موقعہ ملے گا۔اور مخالفین نے بھی وہاں مخالفت کا پورازور ظاہر کر رکھا تھا۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وہاں جاکر ۲؍اکتوبر ۱۸۹۱ء کو ایک اشتہار شائع کیا جس میں دہلی والوں کو اپنے وعویٰ کی طرف دعوت دی اور اس اشتہار میں مولوی سید نذیر حسین صاحب محدث دہلوی اور مولوی ابو محمد عبد الحق صاحب کو مباحثہ کے لئے بھی بلایا۔تاکہ لوگوں پر حق کھل جاوے اور اپنی طرف سے مباحثہ کے لئے تین شرطیں بھی پیش کیں۔اس کے بعد آپ نے ۶ ؍اکتوبر کو ایک اوراشتہار دیا۔اور اس میں دہلی والو ں کے افسوس ناک رویہ کااظہار کیا اور یہ بھی لکھا کہ چونکہ مولوی عبد الحق صاحب نے ہم سے بیان کیا ہے کہ میں ایک گوشہ گزیں آدمی ہوں اور اس قسم کے جلسوں کوجن میں عوام کے نفاق وشقاق کا اندیشہ ہو پسند نہیں کرتا ۔اور نہ حکام کی طرف سے حفظ امن کا انتظام کروا سکتا ہوں اس لئے اب ہم ان سے مخاطب نہیں ہوتے بلکہ مولوی سیّدنذیرحسین صاحب محدث دہلو ی اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ ہم سے بپا بندی شرائط مباحثہ کر لیں۔ اس اشتہار کے بعد مولوی محمد حسین بٹالوی اور مولوی سید نذیر حسین صاحب نے خفیہ خفیہ مباحثہ کی تیاری کر لی اور پھر خود بخود لوگوں میں مشہور کر دیا کہ فلاں وقت اور فلاں روز فلاں جگہ مباحثہ ہو گا اور عین وقت پر حضرت صاحب کے پاس آدمی بھیجا کہ مباحثہ کے لئے تشریف لے چلئے ۔حضرت صاحب نے جواب دیاکہ یہ کہاں کی دیانتداری ہے کہ خود بخود یک طرفہ طور پر بغیر فریق ثانی کی منظوری اور اطلاع کے اور بغیر شرائط کے تصفیہ پانے کے مباحثہ کا اعلان کر دیا گیا ہے اور مجھے عین وقت پر اطلاع دی گئی ہے ۔اور مجھے تو اس صورت میں بھی انکا ر نہ ہوتا اور میں مباحثہ کیلئے چلا جاتا مگر آپ کے شہر میں مخالفت کا یہ حال ہے کہ سینکڑوں آوارہ گردبد معاش میرے مکان کے اردگرد شرارت کی نیت سے جمع رہتے ہیں اور ذمہ دار لوگ انہیں نہیں روکتے بلکہ اشتعال انگریز الفاظ کہہ کہہ کر الٹا جوش دلاتے ہیں ۔پس جب تک میں اپنے پیچھے اپنے مکان اور اپنے اہل و عیال کی حفاظت کا انتظام نہ کر لوں میں نہیں جاسکتا اور علاوہ ازیں ابھی تک جائے مباحثہ اور راستہ میں بھی حفظ امن کا کوئی انتظام نہیں ہے ۔ حضرت صاحب کے اس جواب پر جو سراسر معقول اور شریفانہ تھا دہلی والوں نے ایک طوفان بے تمیزی بر پا کر دیا اور شور کرنا شروع کیا کہ مرزا مباحثہ سے بھاگ گیا ہے اور شہر میں ایک خطرناک شور مخالفت کا پیدا ہوگیا اور جدھر جائو بس یہی چرچہ تھا اور ہزاروں مفسد فتنہ پرداز لوگ حضرت صاحب کے مکان پر آ آ کر گلی میں شورو پکار کرتے رہتے تھے ۔اور طرح طرح کی بد زبانی اور گالی گلوچ اور طعن و تشنیع اور تمسخر و استہزاء سے کام لیتے تھے ۔اور بعض شریر حملہ کر کے مکان کے اندر گھس آتے اور اپنے شورو غوغا سے آسمان سر پر اُٹھا لیتے تھے ۔اس حالت کو دیکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۷؍اکتوبر ۱۸۹۱ء کو ایک اشتہار شائع فرمایا جس کے اندر تمام حالات اور گذشتہ سرگذشت درج کی اور بالآخر لکھا کہ اب میں نے حفظ و امن کا انتظام کر لیا ہے اور جس تاریخ کو مولوی سیدنذیر حسین پسند کریں میں ان کے ساتھ مباحثہ کرنے کیلئے حاضر ہوجائوں گا۔ اور جو فریق اس مباحثہ سے تخلف کرے اس پر خدا کی * ہو ۔ اور آپ نے بڑے غیرت دلانے والے الفاظ استعمال کر کے مولوی نذیر حسین کو مناظرہ کیلئے ابھاراچنانچہ یہ فیصلہ ہو ا کہ ۲۰؍اکتوبر ۱۸۹۱ء کو فریقین جامع مسجد دہلی میں جمع ہو کر مسئلہ حیات ممات مسیح ناصری میں بحث کریں اور یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دلائل سن کر مولوی سید نذیر حسین صاحب مجمع عام میں خداکی قسم کھا جائیں کہ یہ دلائل غلط ہیں اور قرآن شریف اور حدیث صحیح مرفوع متصل کی رو سے مسیح ناصری زندہ بجسم عنصری آسمان پر موجود ہیں اور اسی جسم کے ساتھ زمین پر نازل ہونگے ۔اور پھر اگر ایک سال کے عرصہ کے اندراندر مولوی صاحب پر خدا کا کھلا کھلا عذاب نازل نہ ہو تو حضرت صاحب اپنے دعویٰ میں جھوٹے سمجھے جاویں ۔چنانچہ ۲۰؍اکتوبر ۱۸۹۱ء کو ہزارہا لوگ جامع مسجد میں جمع ہو گئے اور شہر میں ایک خطر ناک جوش پیدا ہو گیا ۔بعض خدام نے حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کی کہ حضور لوگوں کی طبائع میں خطر ناک اشتعال ہے اور امن شکنی کا سخت اندیشہ ہے۔ بہتر ہے کہ حضور تشریف نہ لے جائیں کیونکہ لوگوں کی نیت بخیر نہیں ہے۔ حضرت صاحب نے فرمایا کہ اب تو ہم کسی صورت میں بھی رک نہیں سکتے کیونکہ ہم نے خود دعوت دی ہے اور پیچھے رہنے والے پر * بھیجی ہے پس خواہ کیسی بھی خطرناک حالت ہے ہم خدا کے فضل اور اس کی حفاظت پر بھروسہ کر کے ضرور جائیں گے۔ چنانچہ آپ نے بعض دوستوں کو مکان پر حفاظت کیلئے مقرر فرمایا اور روانہ ہو گئے اس وقت بارہ آدمی آپ کے ساتھ تھے اور آپ ان کے ساتھ گاڑیوں میں بیٹھ کر روانہ ہو ئے ۔جب آپ مسجد میں پہنچے تو ہزارہا لوگوں کا مجمع تھا اور ایک عجیب طوفان بے تمیزی کا نظارہ تھا ۔آپ اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ لوگوں کے اس متلاطم سمندر میں سے گذرتے ہوئے مسجد کی محراب میں پہنچے اس وقت لوگ عجیب غیظ و غضب کی حالت میں آپ کی طرف دیکھ رہے تھے اور ان کی آنکھوں سے خون ٹپکتا تھا اور اگر پولیس کا انتظام نہ ہو تا تو وہ ضرور کوئی حرکت کر گذرتے ۔مگرپو لیس کے افسر نے جو ایک یورپین تھا نہایت محنت اور کوشش کے ساتھ انتظام کو قائم رکھا اور کوئی عملی فساد کی صورت نہ پیداہونے دی ۔تھوڑی دیر کے بعد مولوی سید نذیر حسین صاحب مع اپنے شاگرد مولوی محمد حسین بٹالوی اور مولوی عبد المجید وغیرہ کے پہنچ گئے اور ان کے ساتھیوں نے ان کو مسجد کے ساتھ ایک دالان میں بٹھا دیا ۔ اتنے میں چونکہ عصر کی نماز کا وقت ہو گیا تھا نماز شروع ہوئی لیکن چونکہ حضرت صاحب اور آپ کے ساتھی گھر پر نمازجمع کرکے آئے تھے اس لئے آپ نماز میں شامل نہیں ہوئے نماز کے بعد لوگوں نے شرائط کے متعلق گفتگو شروع کر دی اور کہا کہ مباحثہ حیات ممات مسیح ناصری کے مضمون پر نہیں ہونا چاہیے بلکہ مرزا صاحب کے دعویٰ مسیحیت کے متعلق ہونا چاہیے ۔اور ادھر سے ان کو یہ جواب دیا گیا ہے کہ مضمون کی طبعی ترتیب کو بگاڑنا اچھا نتیجہ نہیں پیدا کر سکتا جبکہ لوگوں کے دل میں یہ خیالات پختہ طور پر جمے ہوئے ہیں کہ حضرت عیسیٰ آسمان پر زندہ موجود ہیں اور وہی آخری زمانہ میں زمین پر نازل ہوںگے تو جب تک یہ مسئلہ صاف نہ ہو لے کسی اور مسئلہ کو چھیڑنا یونہی وقت کو ضائع کرنا ہے۔ جس مسند پر بیٹھنے کے حضرت مرزا صاحب مدعی بنتے ہیں جب لوگوں کے نزدیک وہ مسند خالی ہی نہیں ہے اور حضرت عیسیٰ ؑ اس پر رونق افروز ہیں تو حضرت مرزا صاحب کے دعویٰ مسیحیت پر بحث کرنا فضول ہے ۔کیونکہ کوئی شخص مسیح ناصری کو زندہ مانتے ہوئے حضرت مرزا صاحب کے دعویٰ کی طرف توجہ نہیں کر سکتا ۔ پس حضرت مرزا صاحب کے دعویٰ مسیحیت پر تب بحث ہو سکتی ہے کہ جب پہلے اس مسند کا خالی ہونا ثابت کر لیا جاوے۔ پولیس کا انگریز افسر جو اس موقعہ پر موجود تھا وہ اس بات کو خوب سمجھ گیا اور اس نے بھی لوگوں کو سمجھایا کہ جو بات مرزا صاحب کی طرف سے پیش کی جارہی ہے کہ پہلے مسیح ناصری کی حیات ممات کے مسئلہ پر بحث ہونی چاہیے وہی درست ہے مگر مولویوں نے نہ مانا اور ایک شور پیدا کر دیا ۔اس کے بعد مولوی نذیر حسین صاحب کے قسم کھانے کے متعلق بحث ہوتی رہی مگر اس سے بھی مولویوں نے حیل و حجت کر کے انکار کر دیا اس وقت لوگوں میں ایک عجیب اضطراب اور غیظ وغضب کی حالت تھی۔اور کوئی کچھ کہتا تھا اور کوئی کچھ اور کان پڑی آواز نہیں سُنائی دیتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس موقع پر علیگڑھ کے ایک رئیس اور آنریری مجسٹریٹ محمد یوسف صاحب نے حضرت صاحب کے پاس آکر کہا کہ لوگوں کے اندر یہ سخت شور ہے کہ آپ کا عقیدہ خلافِ اسلام ہے ۔اگر یہ درست نہیں تو آپ اپنا عقیدہ لکھ دیں تاکہ میں لوگوں کو بلند آواز سے سُنا دوں ۔حضرت صاحب نے فوراً لکھ دیا کہ میں مسلمان ہوں اور آنحضرت ﷺ کی رسالت پر ایمان لاتا ہوں اور شریعت قرآنی کو خدا کی آخری شریعت یقین کرتا ہوں اور مجھے کسی اسلامی عقیدہ سے انکار نہیں وغیر ذالک۔ ہاں میرے نزدیک قرآن سے یہ بات ثابت ہے کہ مسیح ناصری جو بنی اسرائیل کی طرف رسول ہو کر آئے تھے فوت ہو چکے ہیں ۔محمد یوسف صاحب نے بہت کوشش کی کہ حضرت صاحب کی اس تحریر کو بلند آواز سے سُنا دیں ۔مگر مولویوں نے جن کی نیت میں فساد تھا ۔سُنانے نہ دیا اور لوگوں میں ایک شور پیدا ہو گیا۔اور مولویوں کے بہکانے اور اشتعال دلانے سے وہ سخت غیظ و غضب میں بھر گئے جب افسر پولیس نے یہ حالت دیکھی کہ لوگوں کی آنکھوں سے خون ٹپک رہا ہے ۔اور وہ اپنے آپ سے باہر ہوئے جاتے ہیں ۔ تو اس نے اپنے ماتحت افسر کوحکم دیاکہ فوراً مجمع کو منتشر کر دیا جائے جس پر اس پولیس افسر اور محمد یوسف صاحب آنریری مجسٹریٹ نے بلند آواز سے کہہ دیا کہ کوئی مباحثہ وغیرہ نہیں ہو گا سب صاحب چلے جاویں ۔اور پولیس کے سپاہیوں نے لوگوں کو منتشر کرنا شروع کر دیا۔ اس وقت سب سے پہلے مولوی نذیر حسین صاحب اور اُن کے شاگرد اور دوسرے مولوی رخصت ہوئے کیونکہ وہ دروازہ کے قریب بیٹھے تھے ۔پس انہوں نے موقع کو غنیمت جانا اور چل دیئے جب زیادہ لوگ مسجد سے نکل گئے تو حضرت صاحب بھی اُٹھ کر باہر تشریف لائے اور بہت سے سپاہی اور پولیس افسر آپ کے ارد گرد تھے جب آپ دروازہ شمالی پر آئے تو آپ کے خادموں نے اپنی گاڑیاں تلاش کیں ۔ کیونکہ ان کو آنے جانے کا کرایہ دینا کر کے ساتھ لائے تھے اور کرایہ پیشگی دے دیا گیا تھا لیکن معلوم ہوا کہ لوگوں نے ان کے مالکوں کو بہکا کر روانہ کر دیا تھا اور دوسری بھی کوئی گاڑ ی یکہ ٹمٹم ٹانگہ پاس نہ آنے دیتے تھے ۔اس طرح حضرت صاحب کو قریباًپندرہ منٹ دروازہ پر انتظار کرنا پڑا اور اس اثنا میں لوگوں کے گروہ در گروہ جو مسجد کے باہر کھڑے تھے ۔بلوہ کر کے حضرت صاحب کی طرف آنے لگے ۔افسر پولیس ہوشیار تھا اس نے حضرت صاحب سے کہا کہ آپ فوراً میری گاڑی میں بیٹھ کر اپنے مکان کی طرف روانہ ہو جائیں۔ کیونکہ لوگوں کا ارادہ بد ہے چنانچہ حضرت صاحب اور مولوی عبد الکریم صاحب دونوں اس گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہو گئے ۔اور باقی لوگ بعد میں پیدل مکان پر پہنچے ۔ اس موقع پر حضرت صاحب کے ساتھ مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی اور سید امیر علی شاہ صاحب اور غلام قادر صاحب فصیح اور محمد خان صاحب کپورتھلوی اور حکیم فضل دین صاحب بھیروی اور پیر سراج الحق صاحب اور چھ اور دوست تھے ۔اس جامع مسجد والے واقعہ کے تین چار دن بعد حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا اپنے مکان پر ہی مولوی محمد بشیر صاحب بھوپالوی کے ساتھ تحریری مباحثہ ہوا جس میں یہ باہم فیصلہ ہوا تھاکہ طرفین کے پانچ پانچ پرچے ہوں گے۔ لیکن جب حضرت مسیح موعودؑ نے دیکھا کہ مولوی محمد بشیر صاحب کی طرف سے اب انہی پرانی دلیلوں کا جو غلط ثابت کی جاچکی ہیں اعادہ ہو رہا ہے ۔اور وہ کوئی نئی دلیل پیش نہیں کرتے۔تو آپ نے فریق مخالف کو یہ بات جتا کر کہ اب مناظرہ کو آگے جاری رکھنا تضیع اوقات کا موجب ہے تین پرچوں پر ہی بحث کو ختم کر دیا۔اور فریق مخالف کے طعن وتمسخر کی پرواہ نہیں کی یہ مناظرہ الحق دہلی کے نام سے شائع ہو چکا ہے اور ناظرین دیکھ سکتے ہیں کہ حضرت صاحب نے واقعی اس وقت بحث کو ختم کیاکہ جب مولوی محمد بشیر کی پونجی ختم ہو چکی تھی اور صرف تکرار سے کام لیا جا رہا تھا۔دراصل انبیاء و مرسلین کو دنیا کی شہرت سے کوئی غرض نہیں ہوتی بلکہ ان کو صرف اس بات سے کام ہوتا ہے کہ دنیا میں صداقت قائم ہو جاوے اور اپنے اس مقصد کے حصول کے لئے وہ ہر اک دوسری چیز کو قربان کر دیتے ہیں ۔ان کی سب عزتیں خدا کے پاس ہوتی ہیںاور دنیا کی عزت اور دنیا کی نیک نامی کا ان کو خیال نہیں ہوتااور پھر جب وہ خدا کی خاطر اپنی ہر عزت اور نیک نامی کو لات مار دیتے ہیں تو پھر خدا کی طرف سے ان کے لئے آسمان سے عزت اترتی ہے اور دین و دنیا کا تاج ان کے سر کا زیور بنتا ہے ۔میں اپنے اندر عجیب لذت و سرور کی لہر محسوس کرتا ہوں اور خدائے قدوس کی غیرت و محبت ، وفاداری وذرہ نوازی کاایک عجیب نظارہ نظر آتا ہے ۔کہ جب میں اس واقعہ کو پڑھتا ہوں کہ جب ایک دفعہ قبل دعویٰ مسیحیت لوگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مولوی محمدحسین بٹالوی کے مقابلہ میں بعض حنفی اور وہابی مسائل کی بحث کے لئے بلایااور ایک بڑا مجمع لوگوں کا اس بحث کے سننے کے لئے جمع ہو گیااور مولوی محمد حسین نے ایک تقریر کر کے لوگوں میں ایک جوش کی حالت پیدا کردی اور وہ حضرت صاحب کا جواب سننے کے لئے ہمہ تن انتظار ہو گئے ۔مگر حضرت صاحب نے سامنے سے صرف اس قدر کہاکہ اس وقت کی تقریر میں جو کچھ مولوی صاحب نے بیان کیا ہے اس میں مجھے کو ئی ایسی بات نظر نہیں آئی کہ جو قابل اعتراض ہو۔اس لئے میں اس کے جواب میں کچھ نہیں کہنا چاہتا ۔کیونکہ میرامقصد خوانخواہ بحث کرنا نہیں بلکہ تحقیق حق ہے ۔آپ کے اس جواب نے جو مایوسی اور استہزا کی لہر لوگوں کے اندر پیدا کی ہو گی وہ ظاہر ہے مگر آپ نے حق کے مقابل میں اپنی ذاتی شہرت و نام و نمود کی پرواہ نہیں کی اور ’’ڈر گئے ‘‘ ’’بھاگ گئے‘‘ ’’ذلیل ہو گئے ‘‘ کے طعن سنتے ہوئے وہاں سے اُٹھ آئے۔مگر خدا کو اپنے بندے کی یہ’’ شکست ‘‘جو اس کی خاطر اختیار کی گئی تمام فتحوں سے زیادہ پیاری ہوئی اور ابھی ایک رات بھی اس واقعہ پر نہ گذری تھی کہ اس نے اپنے اس بندے کو الہام کیا کہ ’’خدا کو تیرا یہ فعل بہت پسند آیااور وہ تجھے بہت عزت اور برکت دے گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے ‘‘ اور پھر عالم کشف میں وہ بادشاہ دکھائے گئے کہ جو گھوڑوں پر سوار تھے ۔اور تعداد میں سات تھے ۔جس میں غالباً یہ اشارہ تھا۔کہ ہفت اقلیم کے فرمانروا تیرے حلقہ بگوشوں میں داخل ہو کر تجھ سے برکتیں پائیں گے ۔یہ خدائی غیرت اور خدائی محبت اور خدائی وفاداری اور خدائی ذرہ نوازی کا ایک کرشمہ ہے ۔اور حضرت صاحب پر ہی بس نہیں بلکہ ہر ایک وہ شخص جو خالصتاً خدا کی خاطر بغیر کسی قسم کی نفس کی ملونی کے خدا سے اس قسم کا پیوند باندھے گاوہ یقینا اسے ایسا ہی مہربان پائے گا۔ لان ذٰلک سنۃ اللہ ولن تجد لسنۃ اللہ تبدیلا۔ الغرض حضرت مسیح موعود ؑ نے مولوی محمد بشیر کے ساتھ مباحثہ کرتے ہوئے بجائے پانچ پرچوں کے تین پرچوں پر ہی بحث کو ختم کر دیا۔اور پھر غالباً اسی روز دہلی سے روانہ ہو کر پٹیالہ تشریف لے آئے جہاں ان دنوں میں ہمارے نانا جان میر ناصر نواب صاحب مرحوم ملازم تھے ۔اور یہاں آکر آپ نے ایک اشتہار مورخہ ۳۱؍اکتوبر ۱۸۹۱ء کے ذریعہ سے مولوی محمداسحاق کو وفات حیات مسیح ناصر ی کے مسئلہ میں بحث کی دعوت دی ۔مگر کوئی مباحثہ نہیں ہوا۔اور اس کے بعد آپ قادیان واپس تشریف لے آئے۔مگر ۱۸۹۲ء کے شروع میں آپ پھر عازم سفر ہوئے اور سب سے پہلے لاہور تشریف لے گئے ۔جہاں۳۱؍جنوری کو آپ کی ایک پبلک تقریر ہوئی اور مولوی عبد الحکیم صاحب کلانوری کے ساتھ ایک مباحثہ بھی ہوا ۔جو۳فروری ۱۸۹۲ء کو ختم ہوا۔لاہور سے آپ سیالکوٹ اور سیالکوٹ سے جالندھر اور جالندھر سے لدھیانہ تشریف لے گئے اور لدھیانہ سے واپس قادیان تشریف لے آئے۔ اور اس طرح آپ کے دعویٰ مسیحیت کے بعد کے ابتدائی سفروں کا اختتام ہوا ۔۱۸۹۳ء کے ماہ مئی میں آپ پھر قادیان سے نکلے اور امرتسر میں ڈپٹی عبداللہ آتھم عیسائی کے ساتھ تحریر ی مباحثہ فرمایا جس کی روئداد جنگ مقدس میں شائع ہو چکی ہے ۔یہ مباحثہ ۲۲؍مئی ۱۸۹۳ء کو شروع ہو کر ۵؍جون ۱۸۹۳ء کو ختم ہوا اور حضرت صاحب نے اپنے آخری پرچہ میں آتھم کے لئے خدا سے خبر پا کر وہ پیشگوئی فرمائی جس کے نتیجہ میں آتھم بالآخر اپنے کیفرکردار کو پہنچا۔ انہی دنوں میں آپ نے ایک دن یعنی ۱۰ذی قعدہ ۱۳۱۰ھ مطابق ۲۷؍مئی ۱۸۹۳ء کو مولوی عبدالحق غزنوی کے ساتھ امرتسر کی عیدگاہ کے میدان میں مباہلہ فرمایا اور گو حضرت صاحب نے اپنے اشتہار مورخہ ۳۰شوال ۱۳۱۰ھ میں ہندوستان کے تمام مشہور علماء کو جو مکفرین میں سے تھے مباہلہ کیلئے بلایا تھا لیکن سوائے مولوی عبدالحق غزنوی کے کوئی مولوی میدان میں سامنے نہیں آیا ( اس ساری سر گذشت کیلئے ملاحظہ ہو حضرت صاحب کی تصانیف از الہ اوہام و الحق لدھیانہ و الحق دہلی و جنگ مقدس و اشتہارات مورخہ ۳۰شوال ۱۳۱۰ھ و مورخہ ۹؍ذی قعدہ ۱۳۱۰ھ ونیز اشتہارات مورخہ۲؍اکتوبرو ۶؍اکتوبر و ۱۷؍اکتوبر و ۲۳؍اکتوبر ۱۸۹۱ء و ۲۸جنوری و۳فروری و ۱۷؍مارچ ۱۸۹۲ء و خط وکتابت مابین حضرت صاحب و میر عباس علی مورخہ ۶ و ۷و ۹؍مئی ۱۸۹۲ء و تذکرۃ المہدی حصہ اوّل و سیرۃ المسیح موعود مصنفہ حضرت خلیفۃ المسیح ثانی اید ہ اللہ بنصرہ) اس جگہ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس مباہلہ میں کوئی میعاد مقرر نہیں کی گئی تھی اور نہ ہی حضرت صاحب نے فریق مخالف کیلئے بد دعا کی تھی بلکہ صرف یہی دعا کی تھی کہ اگر میں جھوٹا اور مفتری ہوں تو ’’خدا تعالیٰ وہ *** اور عذاب میرے پر نازل کرے جو ابتدائے دنیا سے آج تک کسی کافر بے ایمان پر نہ کی ہو ‘‘ چنانچہ حضرت صاحب نے مباہلہ سے قبل ہی اپنے اشتہار مورخہ ۹ذیقعد ہ۱۳۱۰ھ مطابق ۲۶؍مئی ۱۸۹۳ء میں یہ شائع فرما دیا تھاکہ میں صرف اپنے متعلق اس قسم کی دعا کرو ںگا ۔چنانچہ اس مباہلہ کے بعد جو ترقی خدا نے حضرت صاحب کو دی وہ ظاہر ہے ۔اس کے بعد ۱۸۹۶ء میں ایک اور اشتہار مباہلہ آپ نے اپنی کتاب انجام آتھم میں شائع فرمایا۔اور اس میں آپ نے ایک سال کی میعادبھی مقرر فرمائی۔اور یہ بھی شرط لگائی کہ اگر اس عرصہ میں مَیں عذاب الہٰی میں مبتلا ہو جاؤں یا میرے مقابل پر مباہلہ کرنے والوں میں سے خواہ وہ ہزاروں ہوں کوئی ایک شخص بھی خدا کے غیرمعمولی عذاب کا نشانہ نہ بنے تو میں جھوٹا ہوں۔اور آپ نے بڑی غیرت دلانے والے الفاظ میں مولویوں کو ابھارا مگر کوئی سامنے نہیں آیا۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{ 421} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیاکہ مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم بیان کرتے تھے کہ میں نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو ہمدردی اور وفا داری کے ذکر میں یہ فرماتے ہوئے سُنا ہے ۔ کہ اگر ہمارا کوئی دوست ہواور اس کے متعلق ہمیں یہ اطلاع ملے کہ وہ کسی گلی میں شراب کے نشے میں مدہوش پڑا ہے تو ہم بغیر کسی شرم اور روک کے وہاں جاکر اسے اپنے مکان میں اُٹھا لائیں اور پھر جب اسے ہوش آنے لگے تو اس کے پاس سے اُٹھ جائیںتاکہ ہمیں دیکھ کر وہ شرمندہ نہ ہو۔اور حضرت صاحب فرماتے تھے کہ وفا داری ایک بڑا عجیب جوہر ہے۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ شرابیوں اور فاسق فاجروں کو اپنا دوست بنانے میں کوئی حرج نہیں بلکہ منشاء یہ ہے کہ اگر کسی شخص کا کوئی دوست ہواور وہ کسی قسم کی عملی کمزوری میں مبتلا ہوجاوے ۔تو اس وجہ سے اسکا ساتھ نہیں چھوڑ دینا چاہیے بلکہ اسکے ساتھ ہمدردی اور وفاداری کا طریق برتنا چاہیے اور مناسب طریق پر اس کی اصلاح کی کوشش کر نی چاہیے ۔کیونکہ دراصل یہی وہ وقت ہے جبکہ اسے اپنے دوستوں کی حقیقی ہمدردی اور ان کی محبت آمیز نصائح کی ضرورت ہوتی ہے اور ایسے وقت پر چھوڑ کر الگ ہو جانا دوستانہ وفاداری کے بالکل خلاف ہے ہاں البتہ اگر خود اس دوست کی طرف سے ایسے امور پیش آجاویں کہ جو تعلقات کے قطع ہو جانے کا باعث ہوں تو اور بات ہے ۔انسان کو حتی الوسع اپنے لئے ہمیشہ اچھے دوستوں کا انتخاب کرنا چاہیے ۔لیکن جب کسی کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم ہو جائیں تو پھر ان تعلقات کا نبھانا بھی ضروری ہو تا ہے اور صرف اس وجہ سے کہ دوست کی طرف سے کوئی عملی کمزوری ظاہر ہوئی ہے یا یہ کہ اس کے اندر کوئی کمزوری پیدا ہوگئی ہے ۔تعلقات کا قطع کر نا جائز نہیں ہوتا بلکہ ایسے وقت میں خصوصیت کے ساتھ ہمدردی اور محبت اور دوستانہ نصیحت کو کام میں لانا چاہیے اور یہ خیال نہ کرنا چاہیے کہ لوگ یہ اعتراض کر یں گے کہ ایک خراب آدمی کے ساتھ کیوں تعلقات رکھے جاتے ہیں۔مومن کو لوگوں کے گندوں کو دھونے کیلئے پیدا کیا گیا ہے اگر وہ ایسے موقعوں پر چھوڑ کر الگ ہوجائے گا تو علاوہ بے وفائی کا مرتکب ہو نے کے اپنے فرض منصبی میں بھی کو تاہی کر نے والا ٹھہریگا ۔ہاں بے شک جس شخص کی اپنی طبیعت کمزور ہو اور اس کے متعلق یہ اندیشہ ہو کہ وہ بجائے اپنا نیک اثر ڈالنے کے خود دوسرے کے ضرر رساں اثر کو قبول کرنا شروع کر دیگا تو ایسے شخص کیلئے یہی ضروری ہے کہ وہ اپنے اس قسم کے دوست سے میل جول تر ک کر دے اور صرف اپنے طور پر خدا تعالیٰ سے اس کی اصلاح کے متعلق دعائیں کرتا رہے ۔بچے بھی بوجہ اپنے علم اور عقل اور تجربہ کی خامی کے اس قسم کے اندر شامل ہیں یعنی بچوں کو بھی چاہیے کہ جب اپنے کسی دوست کو بد اعمالی کی طرف مائل ہو تا دیکھیں یا جب ان کے والدین یا گارڈین انہیں کسی خراب شخص کی دوستی سے منع کریں تو آئندہ اس کی صحبت کو کلیۃً ترک کر دیں ۔‘
{ 422} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ دعویٰ مسیحیت سے قبل مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ بہت تعلق تھا چنانچہ مجھے یاد ہے کہ قادیان سے انبالہ چھائونی جاتے ہوئے آپ مع اہل و عیال کے مولوی محمد حسین صاحب کے مکان پر بٹالہ میں ایک رات ٹھہر ے تھے اور مولوی صاحب نے بڑے اہتمام سے حضرت صاحب کی دعوت کی تھی نیز ڈاکٹر صاحب موصوف نے بیان کیا کہ جس جس جگہ حضرت والد صاحب ( یعنی خاکسار کے نانا جان مرحوم ) کا قیام ہو تا تھا وہاں حضر ت مسیح موعود علیہ السلام بھی عموماً تشریف لایا کر تے تھے مثلاً انبالہ چھاؤنی ۔لدھیانہ ۔پٹیالہ ۔فیروز پو ر چھائونی میں آپ تشریف لے گئے تھے اور سب سے زیادہ آپ لدھیانہ میں رہے ۔حضور کی سب سے بڑی لڑکی عصمت انبالہ چھائونی میں پیدا ہوئی تھی اور باقی سب بچے قادیان میں پیدا ہوئے۔بیعت اولیٰ ۔فتح اسلام ۔توضیح مرام کی اشاعت مباحثہ مولوی محمد حسین اور وفات عصمت لدھیانہ میں ہوئے۔انبالہ میں کچھ مدت کیلئے ایک بنگلہ کرایہ پر لیا تھا اور لدھیانہ میں ہمارے رہائشی مکان کے ساتھ بالکل ملحق شاہزادہ والا گوہر کا ایک اور بڑا مکان محلہ اقبال گنج میں تھا وہ کرایہ پر لے لیتے تھے ۔جب حضور لدھیانہ تشریف لاتے تھے تو ہم سب حضور کے مکان میں آجاتے تھے اور ہمارے والا مکان مردانہ کے طور پر استعمال ہوتا تھا چنانچہ اسی میں مولوی محمد حسین والا مباحثہ بھی ہوا تھا ۔اس کے سوا کسی اور جگہ حضور نے الگ مکان نہیں لیا اور نہ کسی جگہ حضور اتنا زیادہ ٹھہرے۔
{ 423} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ڈاکٹر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سرکے بال منڈوانے کو بہت ناپسند یدگی کی نظر سے دیکھتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ یہ خارجیوں کی علامت ہے نیز حضرت صاحب فرماتے تھے کہ ہمارے سر کے بال عقیقہ کے بعد نہیں مونڈے گئے ۔چنانچہ آپ کے سر کے بال نہایت باریک اور ریشم کی طرح ملائم تھے اور نصف گردن تک لمبے تھے لیکن آپ کی ریش مبارک کے بال سر کے بالوں کی نسبت موٹے تھے۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ جو میر صاحب نے بیان کیا ہے کہ حضرت صاحب کے بال نصف گردن تک لمبے تھے اس سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ جس طرح ا ن لوگوں کے بال نظر آتے ہیں جنھوں نے پٹے رکھے ہوتے ہیں اس طرح آپ کے بال نظر آتے تھے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ گو آپ کے بال لمبے ہو تے تھے لیکن بوجہ اس کے کہ وہ نہایت نرم اور باریک تھے اور گھنے بھی نہ تھے وہ پٹوں کی طرح نظر نہ آتے تھے ۔
{ 424} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پرندوں کا گوشت پسند تھا اور بعض دفعہ بیماری وغیرہ کے دنوں میں بھائی عبدالرحیم صاحب کو حکم ہو تا تھا کہ کوئی پرندہ شکار کر لائیں ۔اسی طرح جب تازہ شہد معہ چھتہ کے آتا تھا تو آپ اسے پسند فرما کر نوش کرتے تھے ۔ شہد کا چھتہ تلاش کرنے اور توڑنے میں بھائی عبدالعزیز صاحب خوب ماہر تھے۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ بھائی عبدالرحیم صاحب اور بھائی عبدالعزیز صاحب ہر دو نو مسلمین میں سے ہیں ۔بھائی عبدالرحیم صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بڑے شوق سے حصہ لیتے تھے اور حضر ت صاحب بھی ازراہ شفقت بعض متفرق خدمات ان کے سپرد فرمادیتے تھے ۔آجکل وہ ہمارے مدرسہ تعلیم الاسلام میں دینیات کے اوّل مدرس ہیں ۔
{ 425} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں عبداللہ صاحب سنوری نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے خدام کے ساتھ بالکل بے تکلفی سے گفتگو فرماتے تھے ۔میں آپ کی خدمت میں اپنے سارے حالات کھل کر عرض کر دیتا تھا اور آپ ہمدردی اور توجہ سے سنتے تھے اور بعض اوقات آپ اپنے گھر کے حالات خود بھی بے تکلفی سے بیان فرمادیتے تھے اور ہمیشہ مسکراتے ہو ئے ملتے تھے جس سے دل کی ساری کلفتیں دور ہو جاتی تھیں ۔
{ 426} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی قطب الدین صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ اوائل زمانہ میں جب میں نے علم طب کے حاصل کرنے کی طرف توجہ کی تو میں نے بعض ابتدائی درسی کتابیں پڑھنے کے بعد کسی ماہر فن سے علم سیکھنے کا ارادہ کیا اور چونکہ میں نے حکیم محمد شریف صاحب امرتسری کے علم و کمال کی بہت تعریف سُنی تھی اس لئے میں ان کے پاس گیا اور علم سیکھنے کی خواہش کی مگر انہوں نے جواب دیدیا اور ایسے رنگ میں جواب دیا کہ میں ان کی طرف سے مایوس ہو گیا۔اسکے بعد میں جب قادیان آیا تو میں نے حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کی کہ میں طب کا علم کسی ماہر سے حاصل کرنا چاہتا ہوں ۔حضرت صاحب نے حکیم محمد شریف صاحب کا نام لیا میں نے عرض کیا کہ انہوں نے تو جواب دیدیا ہے ۔حضرت صاحب فرمانے لگے کہ بعض اوقات ایک شخص اپنے عام حالات کے ماتحت دوسرے کی درخواست کو رد کر دیتا ہے لیکن جب اس امر کے متعلق اس کے پاس کسی ایسے شخص کی سفارش کی جاتی ہے جس کا اسے خاص لحاظ ہو تا ہے تو پھر وہ مان لیتا ہے ۔پس ہمیں بھی امید ہے کہ حکیم صاحب ہماری سفارش کو رد نہیں کریں گے ۔چنانچہ میں حضرت صاحب کی سفارش لے کر گیا تو حکیم صاحب خوشی کے ساتھ رضامند ہو گئے اور کہنے لگے کہ تم ایک ایسے شخص کی سفارش لائے ہو جس کا کہنا میں نے آج تک کبھی رد نہیں کیا اور نہ کر سکتا ہوں ۔
{ 427} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی عبداللہ صاحب سنوری نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے میں نے سنا ہے کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ بعض اوقات ایک انسان بد اعمالی میں مبتلا ہوتا ہے اور ترقی کرتا جاتا ہے حتیّٰ کہ دوزخ کے منہ تک پہنچ جاتا ہے لیکن پھر اس کی زندگی میں ایک پلٹا آتا ہے اور وہ نیکی کی طرف مائل ہو جاتا ہے اور اس کا انجام بہت اچھا ہو جاتا ہے ۔اورایک دوسرا شخص نیک ہوتا ہے اور اچھے اعمال بجا لاتا ہے ۔حتیّٰ کہ جنت کے منہ تک پہنچ جاتا ہے لیکن پھر اسے کوئی ٹھو کر لگتی ہے اور وہ بدی کی طرف جھک جاتا ہے اور اس کا انجام خراب ہوجا تا ہے ۔اور میاں عبداللہ صاحب کہتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ حدیث بیان فر ما کر فرماتے تھے کہ جو شخص بد اعمالی میں زندگی گذارتا ہے لیکن بالآخر اسی دنیا میں اسکا انجام نیک ہوجاتا ہے وہ بھی عجیب نصیبے والا انسان ہوتا ہے کہ اس جہان میں بھی وہ اپنی خواہشات کے مطابق آزادانہ زندگی گذار لیتا ہے اور اگلے جہان میں بھی اسے جنت میں جگہ ملتی ہے ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جو شخص ساری عمر بد اعمالی میں مبتلا رہ کر آخری عمر میں تو بہ کا موقعہ پا کر جنت میں داخل ہو جاتا ہے وہ سب سے زیادہ خوش نصیب ہے کیونکہ اگر دوسرے حالات مساوی ہوں تو یقینا ایسا شخص اُس شخص سے رتبہ میں بہت کم ہے جو دنیا کی زندگی بھی خدا کے لئے تقویٰ و طہارت میں صرف کرتا ہے مگر ہاں چونکہ آخری عمر کی توبہ مقدم الذکر شخص کی نجات اُخروی کا موجب ہو جاتی ہے ۔ اس لئے اس میں شک نہیں کہ وہ خاص طور پر خوش نصیب سمجھا جانا چاہیے ۔اور یہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ایسا شخص اس جہان میں بھی اپنی خواہشات کے مطابق آزادانہ زندگی گذار لیتا ہے اسکا مطلب یہ نہیں کہ جو شخص خدا کے لئے اس دنیا میں زندگی گذارتا ہے اور اپنی خواہشات نفسانی کو دبا کر رکھتا ہے اس کی زندگی کو ئی تلخی کی زندگی ہو تی ہے ۔کیونکہ گو مادی نقطہ نگا ہ سے اس کی زندگی تلخ سمجھی جاسکتی ہے لیکن اس کیلئے وہی خوشی کی زندگی ہو تی ہے بلکہ حق یہ ہے کہ خدا کیلئے زندگی گذارنے والا جو روحانی سرور اور لطف اپنی زندگی میں پاتا ہے وہ ہر گز ایک دنیا دار کو اپنی جسمانی لذات میں حاصل نہیں ہو سکتا۔ پس حضرت صاحب کا مطلب صرف یہ ہے کہ ایک دنیا دار شخص اپنے رنگ میں خوش رہتا ہے کیونکہ اس کی جسمانی خواہشات بالکل آزاد ہو تی ہیں ۔
{ 428} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی عبداللہ صاحب سنوری مجھ سے بیان کرتے تھے کہ حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے تھے اور میں نے خود بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ بیان فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قیامت کے دن ایک شخص خدا تعالیٰ کے سامنے پیش ہوگا اور اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا کہ اگر تو نے دنیا میں کوئی نیک عمل کیا ہے تو بیان کر اور وہ جواب دیگا اے میرے خدا میں نے کبھی کوئی نیک عمل نہیں کیا ۔خدا فرمائے گا کہ اچھی طرح یا د کرکے اپنا کوئی ایک نیک عمل ہی بیان کردے۔وہ جواب دیگا کہ مجھے اپنا کوئی ایک نیک عمل بھی یاد نہیں ہے ۔خدا فرمائے گا اچھا یہ بتا کہ کیا تو نے کبھی میرے کسی نیک بندے کی صحبت اُٹھائی ہے ؟ وہ کہے گا اے میرے خدا میں کبھی تیرے کسی نیک بند ے کی صحبت میں نہیں بیٹھا ۔خدا فرمائے گا اچھا یہ بتا کہ کیا کبھی تو نے میرے کسی نیک بندے کو دیکھا ہے ؟ وہ جواب دیگا کہ اے میرے خدا مجھے زیادہ شرمندہ نہ کر میں نے کبھی تیرے کسی نیک بندے کو دیکھا بھی نہیں ۔خدا فرما ئیگا تیرے گائوں کے دوسرے کنارے پر میرا ایک نیک بند ہ رہتا تھا کیا فلاں دن فلاں وقت جب کہ تو فلاں گلی میں سے جار ہا تھا اور وہ میرا بندہ سامنے سے آتا تھا تیری نظر اس پر نہیں پڑی ؟ وہ جواب دیگا ہاں ہاں میرے خدا اب مجھے یاد آیا اس دن میں نے بے شک تیرے اس بندے کو دیکھا تھا مگر اے میرے خدا ! تو جانتا ہے کہ صرف ایک دفعہ میری نظر اس پر پڑی اور پھر میں اس کے پاس سے نکل کر آگے گذر گیا ، خدا فرمائے گا۔ میرے بندے جا میں نے تجھے اس نظر کی وجہ سے بخشا ۔جا اور میری جنت میں داخل ہو جا۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ مثال خدا کے رحم اور بخشش کو ظاہر کر نے کیلئے بیان فرماتے تھے۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس مثال کا یہ مطلب نہیں سمجھنا چاہیے کہ انسان خواہ اس دنیا میں کیسی حالت میں رہا ہو اور کیسی بد اعمالی میں اس کی زندگی گذر گئی ہو وہ محض اس قسم کی وجہ کی بنا پر بخش دیا جاوے گا بلکہ منشاء یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی انسان دنیا میں ایسی حالت میں رہا ہے کہ اس کی فطرت کے اندر نیکی اور سعادت کا تخم قائم رہا ہے لیکن اس تخم کو نشو و نما دینے والے عناصر اسے میسر نہیں آئے اور وہ ہمیشہ بد صحبت اور غافل کن حالات میں گھرارہنے کی وجہ سے بد اعمالی کا مرتکب ہو تا رہا ہے ۔مگر اس کا فطری میلان ایسا تھا کہ اگر اسے نیکی کی طرف مائل کرنے والے حالات پیش آتے تو وہ بدی کو ترک کر کے نیکی کو اختیار کر لیتا تو ایسا شخص یقینا خدا کی بخشش خاص سے حصہ پائے گا ۔ علاوہ ازیں حق یہ ہے کہ گو کوئی خشک مزاج مولوی میرے اس ریمارک پر چونکے لیکن خدا کی بخشش اور رحم کیلئے کو ئی قاعدہ اور قانون تلاش کرنا یہ محض لا علمی اور تنگ خیالی کی باتیں ہیں ۔اس کے عذاب و سزا کے واسطے بیشک قواعد اور قوانین موجود ہیں جو خود اس نے بیان فرمادیئے ہیں۔لیکن اسکے رحم کے واسطے کوئی قانون نہیں کیونکہ اس کی یہ صفت کسی نہ کسی صورت میں ہر وقت ہر چیز پر ہر حالت میں اور ہر جگہ جاری رہتی ہے ۔چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے عَذَابِیْ اُصِیْبُ بِہٖ مَنْ اَشَآئُ وَ رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئٍ (الاعراف: ۱۵۷( یعنی میرا عذاب تو صرف میری مقرر کردہ قانون کے ماتحت خاص خاص حالتوں میں پہنچتا ہے لیکن میری رحمت ہر وقت ہر چیز پر وسیع ہے ۔اس آیت کریمہ میںجو مَنْ اَشَآء کا لفظ ہے اس سے یہ مراد نہیں کہ خدا کا عذاب تو اس کی مرضی کے ماتحت ہے لیکن اس کی رحمت مرضی کے حدود کو توڑ کر ہر چیز پر وسیع ہو گئی ہے ۔بلکہ بات یہ ہے کہ یہ لفظ قرآنی محاورہ کے ماتحت خدائی قانون کی طرف اشارہ کر نے کیلئے آتا ہے یعنی مراد یہ ہے کہ خدا کا عذاب اس کے قانون کے ماتحت خاص خاص حالتو ں میں آتا ہے لیکن خدا کی رحمت کیلئے کوئی قانون نہیںہے ۔ بلکہ وہ صرف خدا کی مرضی اور خوشی پر موقوف ہے اور چونکہ خدا کی صفت رحمت اس کی ہر دوسری صفت پر غالب ہے اس لئے اس کی یہ صفت ہر وقت ہر چیز پر ظاہر ہو رہی ہے اوربسا اوقات اس کی رحمت ایسے رنگ میں ظاہر ہو تی ہے کہ انسان کی کوتہ نظر اس کا موجب دریافت کر نے سے قاصر رہتی ہے اور ممکن ہے کہ بعض صورتوں میں اس کا کو ئی بھی موجب نہ ہوتا ہو سوا ئے اس کے کہ خدا رحیم ہے اور اپنے پیدا کردہ بندے پر رحم کر نا چاہتا ہے اور بس ۔ واللہ اعلم ۔
{ 429} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی محمد اسماعیل صاحب مولوی فاضل نے مجھ سے بیان کیا کہ جب میں ۱۹۰۸ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کر نے کیلئے قادیان آیا تو اس وقت نماز ظہر کے قریب کا وقت تھا اور میں مہمان خانہ میں وضو کر کے مسجد مبارک میں حاضر ہوا ۔اس وقت حضر ت مسیح موعود علیہ السلام مسجد میں ہی تشریف رکھتے تھے اور حضور کے بہت سے اصحاب حضرت کے پاس بیٹھے تھے۔ میں بھی مجلس کے پیچھے ہو کر بیٹھ گیا ۔ اس وقت شیخ محمد یوسف صاحب ایڈیٹر نور چشمۂ معرفت کیلئے سکھ مذہب کے متعلق بعض حوالجات حضور کے سامنے پیش کر رہے تھے اور حضور کبھی کبھی ان کے متعلق گفتگو فرماتے تھے اور بعض دفعہ ہنستے بھی تھے ۔حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ حضور کے بائیں طرف بیٹھے تھے ۔میں جب آکر بیٹھا تو مجھے کچھ وقت تک یہ شبہ رہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کون ہیں ۔کیونکہ میں حضرت مولوی صاحب اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے در میان پوری طرح یہ فیصلہ نہیں کر سکا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ ہیں یا وہ ۔لیکن پھر گفتگو کے سلسلہ میں مجھے سمجھ آگئی ۔جب حوالہ جات کے متعلق گفتگو بند ہوئی تو میں بیعت کی خواہش ظاہرکر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف آگے بڑھنے لگا۔ جس پر سیّد احمد نور صاحب کابلی نے کسی قدر بلند آواز سے کہا کہ یہ شخص مسلمان ہونا چاہتا ہے اسے رستہ دے دیا جاوے۔میں دل میں حیران ہوا کہ مسلمان ہونے کے کیا معنی ہیں ۔لیکن پھر ساتھ ہی خیال آیا کہ واقعی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں داخل ہونا مسلمان ہونا نہیں ہے تو اور کیا ہے ۔ چنانچہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت سے مشرف ہو گیااس وقت میرے ساتھ ایک اور شخص نے بھی بیعت کی تھی بیعت کے بعد دعا کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نماز کے لئے کھڑے ہو گئے اور حضرت مولوی نورالدین صاحب نے نماز کرائی اور حضرت مسیح موعودؑ نے پہلی صف سے آگے حضرت مولوی صاحب کے ساتھ جانب شمال حضرت مولوی صاحب کی اقتدا میں نماز ادا کی ۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نماز فریضہ ادا کرتے ہی اندرون خانہ تشریف لے گئے ۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ آخری ایام میں ہمیشہ امام کے ساتھ کھڑے ہو کر نماز ادا فرمایا کرتے تھے اور آپ کے وصال کے بعد حضرت خلیفہ اوّل ہمیشہ مصلے پر آپ والی جگہ کو چھوڑ کر بائیں جانب کھڑے ہوا کرتے تھے ۔اور کبھی ایک دفعہ بھی آپ مصلے کے وسط میں یا دائیں جانب کھڑے نہیں ہوئے اور اب حضرت خلیفہ ثانی کا بھی یہی طریق ہے ۔اور ایسا غالباً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے احترام کے خیال سے کیا جاتا ہے ۔واللّٰہ اعلم۔
{ 430} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مکرمی مفتی محمد صادق صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب کسی سفر پر تشریف لے جانے لگتے تھے تو عموماً مجھے فرما دیتے تھے کہ ساتھ جانے والوں کی فہرست بنا لی جاوے اور ان دنوں میں جو مہمان قادیان آئے ہوئے ہوتے تھے ۔ان میں سے بھی بعض کے متعلق فرما دیتے تھے کہ ان کا نام لکھ لیں اور اوائل میں حضرت صاحب انٹر کلاس میں سفر کیا کرتے تھے اور اگر حضرت بیوی صاحبہ ساتھ ہوتی تھیںتو ان کو اور دیگر مستورات کو زنانہ تھرڈ کلاس میں بٹھا دیا کرتے تھے۔اور حضرت صاحب کا یہ طریق تھا کہ زنانہ سواریوں کو خود ساتھ جا کر اپنے سامنے زنانہ گا ڑیوں میں بٹھاتے تھے۔اور پھر اس کے بعد خود اپنی گاڑی میں اپنے خدام کے ساتھ بیٹھ جاتے تھے ۔اور جس سٹیشن پر اترنا ہوتا تھااس پر بھی خود زنانہ گاڑی کے پاس جا کر اپنے سامنے حضرت بیوی صاحبہ کو اتارتے تھے ۔مگر دوران سفر میں سٹیشنوں پر عموماً خود اُتر کر زنانہ گاڑی کے پاس دریافت حالات کے لئے نہیں جاتے تھے ۔ بلکہ کسی خادم کو بھیج دیا کرتے تھے۔اور سفر میں حضرت صاحب اپنے خدام کے آرام کا بہت خیال رکھا کرتے تھے اور آخری سالوں میں حضور عموماً ایک سالم سیکنڈ کلاس کمرہ اپنے لئے ریزرو کر والیا کرتے تھے اور اس میں حضرت بیوی صاحبہ اور بچوں کے ساتھ سفر فرماتے تھے۔ اور حضور ؑ کے اصحاب دوسری گاڑی میں بیٹھتے تھے ۔مگر مختلف سٹیشنوں میں اتر اتر کر وہ حضور ؑ سے ملتے رہتے تھے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضور ؑ الگ کمرہ کو اس خیال سے ریزرو کروا لیتے تھے کہ تا کہ حضرت والدہ صاحبہ کو علیحدہ کمرہ میں تکلیف نہ ہو ۔ اور حضور اپنے اہل و عیال کے ساتھ اطمینان کے ساتھ سفر کر سکیں نیز آخری ایام میں چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سفر کے وقت عموماً ہر سٹیشن پر سینکڑوں ہزاروں زائرین کا مجمع ہوتا تھا اور ہر مذہب اور ملت کے لوگ بڑی کثرت کے ساتھ حضور کو دیکھنے کے لئے جمع ہو جاتے تھے ۔اور مخالف و موافق ہر قسم کے لوگوں کا مجمع ہوتا تھا۔اس لئے بھی کمرہ کا ریزرو کرانا ضروری ہوتا تھاتا کہ حضور اور حضرت والدہ صاحبہ وغیرہ اطمینان کے ساتھ اپنے کمرہ کے اندر تشریف رکھ سکیں اور بعض اوقات حضور ملاقات کر نے کے لئے گاڑی سے باہر نکل کر سٹیشن پر تشریف لے آیا کرتے تھے ۔مگر عموماً گاڑی ہی میں بیٹھے ہوئے کھڑکی میں سے ملاقات فرمالیتے تھے اور ملنے والے لوگ باہر سٹیشن پر کھڑے رہتے تھے۔نیز مفتی صاحب نے بیان فرمایا کہ جس سفر میں حضرت ام المومنین حضور کے ساتھ نہیں ہوتی تھیں اس میں مَیں حضور کے قیام گاہ میں حضور کے کمرہ کے اندر ہی ایک چھوٹی سی چارپائی لے کر سو رہتا تھا تاکہ اگر حضور کو رات کے وقت کوئی ضرورت پیش آئے تو میں خدمت کر سکوں چنانچہ اس زمانہ میں چونکہ مجھے ہو شیا ر اور فکرمند ہو کر سونا پڑتا تھا تاکہ ایسا نہ ہو حضرت صاحب مجھے کوئی آواز دیں اور میں جاگنے میں دیر کروں اس لئے اس وقت سے میری نیند بہت ہلکی ہو گئی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اگر کبھی مجھے آواز دیتے تھے اور میری آنکھ نہ کھلتی تھی تو حضور آہستہ سے اُٹھ کر میری چارپائی پر آکر بیٹھ جاتے تھے اور میرے بدن پر اپنا دست مبارک رکھ دیتے تھے جس سے میں جاگ پڑتا تھا اور سب سے پہلے حضور وقت دریافت فرماتے تھے اور حضور کو جو الہام ہوتا تھا حضور مجھے جگا کر نوٹ کر وا دیتے تھے ۔چنانچہ ایک رات ایسا اتفا ق ہو اکہ حضو ر نے مجھے الہام لکھنے کیلئے جگا یا مگر اس وقت اتفاق سے میرے پاس کو ئی قلم نہیں تھا چنانچہ میں نے ایک کوئلہ کا ٹکڑا لے کر اس سے الہام لکھا لیکن اس وقت کے بعد سے میں باقاعدہ پنسل یا فائو نٹین پین اپنے پاس رکھنے لگ گیا ۔
{ 431} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام عموماً صبح کے وقت سیر کیلئے تشریف لے جایا کرتے تھے اور عموماً بہت سے اصحاب حضور کے ساتھ ہو جاتے تھے ۔تعلیم الا سلام ہائی سکو ل قادیان کے بعض طالب علم بھی حضور کے ساتھ جانے کے شوق میں کسی بہانہ وغیرہ سے اپنے کلاس روم سے نکل کر حضور کے ساتھ ہو لیتے تھے ۔اساتذہ کو پتہ لگتا تھا تو تعلیم کے حرج کا خیال کر کے بعض اوقات ایسے طلبہ کو بلا اجازت چلے جانے پر سزا وغیرہ بھی دیتے تھے مگر بچوں کو کچھ ایسا شو ق تھا کہ وہ عموماًمو قعہ لگا کر نکل ہی جاتے تھے ۔
{ 432} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مکرمی مفتی محمد صادق صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں مَیں کسی وجہ سے اپنی بیوی مرحومہ پر کچھ خفا ہوا جس پر میری بیوی نے حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کی بڑی بیوی کے پاس جاکر میری ناراضگی کا ذکر کیا اور حضرت مولوی صاحب کی بیوی نے مولوی صاحب سے ذکر کر دیا ۔اس کے بعد میں جب حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سے ملا تو انہوں نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ ’’ مفتی صاحب آپ کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہاں ملکہ کا راج ہے‘‘۔ بس اس کے سو ا اور کچھ نہیں کہا مگر میں ان کا مطلب سمجھ گیا ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کے یہ الفاظ عجیب معنی خیز ہیں کیونکہ ایک طرف تو ان دنوں میں برطانیہ کے تخت پر ملکہ وکٹوریا متمکن تھیں اور دوسری طرف حضرت مولوی صاحب کا اس طرف اشار ہ تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے خانگی معاملات میں حضرت ام المومنین کی بات بہت مانتے ہیں اور گویا گھر میں حضرت ام المومنین ہی کی حکومت ہے ،اور اس اشارہ سے مولوی صاحب کا مقصد یہ تھا کہ مفتی صاحب کو اپنی بیوی کے ساتھ سلوک کرتے ہو ئے محتاط رہنا چاہیے ۔
{ 433} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مکرمی مفتی محمد صادق صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے خدام کے ساتھ بہت بے تکلف رہتے تھے ۔جس کے نتیجہ میں خدام بھی حضور کے ساتھ ادب و احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے بے تکلفی سے بات کر لیتے تھے چنانچہ ایک دفعہ میں لاہور سے حضور کی ملاقات کیلئے آیا اور وہ سردیوں کے دن تھے اور میرے پاس اوڑھنے کیلئے رضائی وغیرہ نہیں تھی میں نے حضرت کی خدمت میں کہلا بھیجا کہ حضور رات کو سردی لگنے کا اندیشہ ہے حضور مہربانی کر کے کو ئی کپڑا عنائت فرماویں ۔حضرت صاحب نے ایک ہلکی رضائی اور ایک دُھسا ارسال فرمائے اور ساتھ ہی پیغام بھیجا کہ رضائی محمود کی ہے اور دُھسا میرا ہے ۔آپ ان میں سے جوپسند کریں رکھ لیں اور چاہیں تو دونو ں رکھ لیں۔میں نے رضائی رکھ لی اور دُھسا واپس بھیج دیا نیز مفتی صاحب نے بیان کیا کہ جب میں قادیان سے واپس لاہورجایا کرتا تھا تو حضور اندر سے میر ے لئے ساتھ لے جانے کے واسطے کھانا بھجوایا کر تے تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ جب میں شام کے قریب قادیان سے آنے لگا تو حضر ت صاحب نے اندر سے میرے واسطے کھا نا منگایا جو خادم کھانا لایا وہ یونہی کھلا کھانا لے آیا۔حضرت صاحب نے اس سے فرمایا کہ مفتی صاحب یہ کھانا کس طرح ساتھ لے جائیں گے ۔کوئی رومال بھی تو ساتھ لانا تھا جس میں کھانا باندھ دیا جاتا۔ اچھا میں کچھ انتظام کرتا ہوں ۔اور پھر آپ نے اپنے سر کی پگڑی کا ایک کنارہ کا ٹ کر اس میں وہ کھانا باندھ دیا۔ ایک دفعہ سفر جہلم کے دوران میں جب کہ حضورؑ کو کثرت پیشاب کی شکایت تھی حضورؑ نے مجھ سے فرمایا کہ مفتی صاحب !مجھے پیشاب کثرت کے ساتھ آتا ہے کو ئی برتن لائیں جس میں میں رات کو پیشاب کر لیا کروں ۔میں نے تلاش کر کے ایک مٹی کالوٹا لا دیا جب صبح ہوئی تو میں لوٹا اُٹھانے لگا تاکہ پیشاب گرا دوںمگر حضرت صاحب نے مجھے روکا اور کہا کہ نہیں آپ نہ اُٹھائیں میں خود گرا دوں گا اور با وجود میرے اصرارکے ساتھ عرض کرنے کے آپ نے نہ مانا اور خود ہی لوٹا اُٹھا کرمناسب جگہ پیشاب کو گرا دیا ۔ لیکن اس کے بعد جب پھر یہ موقع آیا تو میں نے بڑے اصرار کے ساتھ عرض کیا کہ میں گراؤں گا جس پر حضرت صاحب نے میری عرض کو قبول کر لیا نیز مفتی صاحب نے بیان کیا کہ حضرت صاحب نے ایک دفعہ مجھے دو گھڑیاں عنایت فرمائیں اور کہا کہ یہ ایک عرصہ سے ہمارے پاس رکھی ہوئی ہیں اور کچھ بگڑی ہوئی ہیں آپ انہیں ٹھیک کرالیں ۔اور خود ہی رکھیں ۔
{ 434} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مکرمی مفتی محمد صادق صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ اوائل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کلک کے قلم سے لکھا کرتے تھے ۔اور ایک وقت میں چار چار پانچ پانچ قلمیں بنوا کر اپنے پاس رکھتے تھے۔تا کہ جب ایک قلم گھس جاوے تو دوسری کے لئے انتظار نہ کرنا پڑے کیو نکہ اس طرح روانی میں فرق آتا ہے لیکن ایک دن جب کہ عید کا موقعہ تھامیں نے حضور کی خدمت میں بطور تحفہ دو ٹیڑھی نبیں پیش کیں ۔اس وقت تو حضرت صاحب نے خاموشی کے ساتھ رکھ لیں لیکن جب میں لاہور واپس گیا تو دو تین دن کے بعد حضرت کا خط آیا کہ آپ کی وہ نبیں بہت اچھی ثابت ہوئی ہیں۔اور اب میں انہیں سے لکھا کروں گا ۔آپ ایک ڈبیہ ویسی نبوںکی بھیج دیں۔چنانچہ میں نے ایک ڈبیہ بھجوا دی اور اس کے بعد میں اسی قسم کی نبیں حضور کی خدمت میں پیش کر تا رہا ۔ لیکن جیسا کہ ولایتی چیزوں کا قاعدہ ہو تا ہے کہ کچھ عرصہ کے بعد مال میں کچھ نقص پید ا ہو گیا اور حضر ت صاحب نے مجھ سے ذکر فرمایاکہ اب یہ نب اچھا نہیں لکھتا جس پر مجھے آئندہ کیلئے اس ثواب سے محروم ہو جانے کا فکر د امنگیرہوا اور میں نے کارخانہ کے مالک کو ولایت میں خط لکھا کہ میں اس طرح حضر ت مسیح موعودؑ کی خد مت میں تمہارے کارخانہ کی نبیں پیش کیا کرتا تھا لیکن اب تمہارا مال خراب آنے لگا ہے اور مجھے اندیشہ ہے کہ حضرت صاحب اس نب کے استعمال کو چھوڑ دیں گے اور اس طرح تمہاری وجہ سے میں اس ثواب سے محروم ہو جائوں گا اور اس خط میں میں نے یہ بھی لکھا کہ تم جانتے ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ن ہیں ؟ اور پھر میں نے حضور کے دعاوی وغیرہ کا ذکر کر کے اس کو اچھی طرح تبلیغ بھی کر دی ۔کچھ عرصہ کے بعد اس کا جواب آیا جس میں اس نے معذرت کی اور ٹیڑھی نبوں کی ایک اعلیٰ قسم کی ڈبیا مفت ارسال کی جو میں نے حضرت کے حضور پیش کر دی ۔اور اپنے خط اور اس کے جواب کا ذکر کیا ۔حضور یہ ذکر سن کر مسکرائے مگر حضرت مولوی عبدالکریم صاحب جو اس وقت حاضر تھے ہنستے ہو ئے فرمانے لگے کہ جس طر ح شاعر اپنے شعروں میں ایک مضمون سے دوسرے مضمون کی طرف گریز کرتا ہے اس طرح آپ نے بھی اپنے خط میں گریز کرنا چاہا ہو گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں نبوں کے پیش کر نے کا ذکر کرتے ہوئے آپ کے دعاوی کا ذکر شروع کردیا لیکن یہ کو ئی گریز نہیں ہے بلکہ زبر دستی ہے ۔
{ 435} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مکرمی مفتی محمد صادق صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضر ت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک دفعہ نماز استسقاء ہو ئی تھی جس میں حضرت صاحب بھی شامل ہوئے تھے اور شاید مولوی محمداحسن صاحب مرحوم امام ہو ئے تھے ۔لوگ اس نماز میں بہت روئے تھے مگر حضرت صاحب میں چونکہ ضبط کمال کا تھا اس لئے آپ کو میں نے روتے نہیں دیکھا اور مجھے یاد ہے کہ اس کے بعد بہت جلد بادل آکر بارش ہو گئی تھی۔بلکہ شاید اسی دن بارش ہو گئی تھی ۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{ 436} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مکرمی مفتی محمد صادق صاحب نے بیان کیا کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو صرف ایک دفعہ روتے دیکھا ہے اور وہ اس طرح کہ ایک دفعہ آپ خدام کے ساتھ سیر کیلئے تشریف لے جارہے تھے اور ان دنوں میں حاجی حبیب الرحمن صاحب حاجی پورہ والوں کے دامادقادیان آئے ہو ئے تھے ۔کسی شخص نے حضرت صاحب سے عرض کیا کہ حضور یہ قرآن شریف بہت اچھا پڑھتے ہیں۔ حضرت صاحب وہیں راستہ کے ایک طرف بیٹھ گئے اور فرمایا کہ کچھ قرآن شریف پڑھ کر سنائیں ۔ چنانچہ انہوں نے قرآن شریف سنا یا تو اس وقت میں نے دیکھا کہ آپ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے اور حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کی وفات پر میں نے بہت غور سے دیکھا مگر میں نے آپ کو روتے نہیں پایا۔ حالانکہ آپ کو مولوی صاحب کی وفات کا نہایت سخت صدمہ تھا ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ بالکل درست ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بہت کم روتے تھے اور آپ کو اپنے آپ پر بہت ضبط حاصل تھا اور جب کبھی آپ روتے بھی تھے تو صرف اس حد تک روتے تھے کہ آپ کی آنکھیں ڈبڈباآتی تھیں۔اس سے زیادہ آپ کو روتے نہیں دیکھا گیا ۔
{ 437} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مکرمی مفتی محمد صادق صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میاں الہ دین عرف فلاسفر نے جن کی زبان کچھ آزاد واقع ہو ئی ہے حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کی کچھ گستاخی کی جس پر حضرت مولوی صاحب کو غصہ آگیا اور اُنہوں نے فلاسفر کو ایک تھپڑ ما ر دیا ۔اس پر فلاسفر صاحب اور تیز ہوگئے اور بہت برا بھلا کہنے لگے جس پر بعض لوگوں نے فلاسفر کو خوب اچھی طرح زدو کو ب کیا ۔اس پر فلاسفر نے چوک میں کھڑے ہو کر بڑے زور سے رونا چلانا شروع کر دیا اور آہ و پکار کے نعرے بلند کئے ۔یہ آواز اندرون خانہ حضر ت مسیح موعود علیہ السلام کے کانوں تک بھی جاپہنچی اور آپ بہت سخت ناراض ہوئے۔ چنانچہ آپ نماز مغرب سے قبل مسجد میں تشریف لائے تو آپ کے چہرے پر ناراضگی کے آثار تھے اور آپ مسجد میں اِدھر ُادھر ٹہلنے لگے اس وقت حضرت مولو ی عبدالکریم صاحب بھی موجود تھے ۔حضرت صاحب نے فرما یا کہ اس طرح کسی کو مارنا بہت ناپسند یدہ فعل ہے اور یہ بہت بُری حرکت کی گئی ہے ۔مولوی عبدالکریم صاحب نے فلاسفر کے گستاخانہ روّیہ اور اپنی بریت کے متعلق کچھ عرض کیا مگر حضرت صاحب نے غصہ سے فرمایا کہ نہیں یہ بہت نا واجب بات ہوئی ہے ۔جب خدا کا رسول آپ لوگوں کے اندر موجود ہے تو آپ کو خود بخود اپنی رائے سے کوئی فعل نہیں کرنا چاہیے تھا بلکہ مجھ سے پوچھنا چاہیے تھا وغیرہ ذلک ـ حضرت صاحب کی اس تقریر پر حضرت مولوی عبدالکریم صاحب رو پڑے اور حضرت صاحب سے معافی مانگی اور عرض کیا کہ حضور میرے لئے دعا فرمائیں اور اس کے بعد مارنے والوں نے فلاسفر سے معافی مانگ کر اسے راضی کیا اور اسے دودھ وغیر ہ پلایا ۔
{ 438} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں فخر الدین صاحب ملتانی ثم قادیانی نے مجھ سے بیان کیا کہ جب ۱۹۰۷ء میں حضرت بیوی صاحبہ لاہور تشریف لے گئیں توان کی واپسی کی اطلاع آنے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان کو لانے کیلئے بٹالہ تک تشریف لے گئے ۔میں نے بھی مولوی سید محمد احسن صاحب مرحوم کے واسطے سے حضرت صاحب سے آپ کے ساتھ جانے کی اجازت حاصل کی اور حضرت صاحب نے اجازت عطا فرمائی مگر مولوی صاحب سے فرمایا کہ فخر الدین سے کہہ دیں کہ اور کسی کو خبر نہ کرے اور خاموشی سے ساتھ چلا چلے ،بعض اور لوگ بھی حضرت صاحب کے ساتھ ہم رکاب ہوئے۔حضرت صاحب پالکی میں بیٹھ کر روانہ ہوئے جسے آٹھ کہا ر باری باری اُٹھا تے تھے ۔ قادیان سے نکلتے ہی حضرت صاحب نے قرآن شریف کھو ل کر اپنے سامنے رکھ لیا اور سورہ فاتحہ کی تلاوت شروع فرمائی اور میں غور کے ساتھ دیکھتا گیا کہ بٹالہ تک حضرت صاحب سورۃ فاتحہ ہی پڑھتے چلے گئے اور دوسرا ورق نہیں اُلٹا ۔راستہ میں ایک دفعہ نہر پر حضرت صاحب نے اتر کر پیشاب کیا اور پھر وضو کر کے پالکی میں بیٹھ گئے اور اسکے بعد پھر اسی طرح سورۃ فاتحہ کی تلاوت میں مصروف ہو گئے ۔بٹالہ پہنچ کر حضرت صاحب نے سب خدام کی معیت میں کھانا کھایا اور پھر سٹیشن پر تشریف لے گئے جب حضرت صاحب سٹیشن پر پہنچے تو گاڑی آچکی تھی اور حضرت بیوی صاحبہ گاڑی سے اُتر کر آئی ہوئی تھیں اور حضرت صاحب کو اِدھر اُدھر دیکھ رہی تھیں ۔حضرت صاحب بھی بیوی صاحبہ کو دیکھتے پھرتے تھے کہ اتنے میں لوگوں کے مجمع میں حضرت بیوی صاحبہ کی نظر حضرت صاحب پر پڑگئی اور انہوں نے ’’ محمود کے ابا‘‘ کہہ کر حضرت صاحب کو اپنی طرف متوجہ کیا اور پھر حضرت صاحب نے سٹیشن پر ہی سب لوگوں کے سامنے بیوی صاحبہ کے ساتھ مصافحہ فرمایا اورا ن کو ساتھ لے کر فرود گا ہ پر واپس تشریف لے آئے ۔
{ 439} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ آج بتاریخ ۷؍اکتوبر ۱۹۲۷ء بروز جمعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک بہت بڑی یاد گار اور خدا وند عالم کی ایک زبر دست آیت مقبرہ بہشتی میں سپر د خاک ہوگئی یعنی میاں عبداللہ صاحب سنوری کے ساتھ حضرت مسیح موعود ؑ کا وہ کرتہ جس پر خدائی روشنائی کے چھینٹے پڑے تھے دفن کر دیا گیا ۔خاکسار نے سیرۃ المہدی حصہ اوّل میں میاں عبداللہ صاحب کی زبانی وہ واقعہ قلم بند کیا ہے جو حضرت مسیح موعود ؑ کے کرتہ پر چھینٹے پڑنے کے متعلق ہے ۔حضرت صاحب نے میاں عبداللہ صاحب کے اصرار پر ان کو یہ کرتہ عنایت کر تے ہوئے ہدایت فرمائی تھی کہ یہ کرتہ میاں عبداللہ صاحب کی وفات پر ان کے ساتھ دفن کر دیا جاوے تاکہ بعد میں کسی زمانہ میں شرک کا موجب نہ بنے۔ سو آج میاں عبداللہ صاحب کی وفات پر وہ ان کے ساتھ دفن کر دیا گیا ۔مجھے یہ کرتہ میاں عبداللہ صاحب نے اپنی زندگی میں کئی دفعہ دکھا یا تھا اور میں نے وہ چھینٹے بھی دیکھے تھے جو خدائی ہاتھ کی روشنائی سے اس پر پڑے تھے ۔ اور جب آج آخری وقت میں غسل کے بعد یہ کرتہ میاں عبداللہ صاحب کو پہنایا گیا تو اس وقت بھی خاکسار وہاں موجود تھا ۔میاں عبداللہ صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ کا دیا ہوا ایک صابن کا ٹکڑا اور ایک بالوں کو لگانے کے تیل کی چھوٹی بوتل اور ایک عطر کی چھوٹی سی شیشی بھی رکھی ہوئی تھی اور غسل کے بعد جو اسی صابن سے دیا گیا۔یہی تیل اور عطر میاں عبداللہ صاحب کے بالوں وغیرہ کو لگا یا گیا ۔اور کرتہ پہنائے جانے کے بعد خاکسار نے خود اپنے ہاتھ سے کچھ عطر اس کرتہ پر بھی لگا یا ۔ نماز جنازہ سے قبل جب تک حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ کی آمد کا انتظار رہا لوگ نہایت شوق او ر درد و رِقّت کے ساتھ میاں عبداللہ صاحب کو دیکھتے رہے جو اس کرتہ میں ملبوس ہو کر عجیب شان میں نظر آتے تھے اور جنازہ میں اس کثرت کے ساتھ لوگ شریک ہوئے کہ اس سے قبل میں نے قادیان میں کسی جنازہ میں اتنا مجمع نہیں دیکھا ۔اس کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح کے سامنے میاں عبداللہ صاحب کو اس کرتہ کے ساتھ بہشتی مقبر ہ کے خاص بلاک میں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سابقون اور اَوّلُون خدام کیلئے مخصوص ہے، دفن کیا گیا اور حضرت خلیفۃ المسیح نے دفن کئے جانے کے وقت فرمایا کہ جن لوگوں کے سامنے یہ کرتہ بعد غسل میاں عبداللہ صاحب کو پہنایا گیا ان کی ایک حلفیہ شہادت اخبار میں شائع ہونی چاہیے تاکہ کسی آئندہ زمانہ میں کوئی شخص کو ئی جعلی کر تہ پیش کر کے یہ دعویٰ نہ کر سکے کہ یہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وہ کرتہ ہے جس پر چھینٹے پڑے تھے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ میاں عبداللہ صاحب مرحوم سابقون اولّون میں سے تھے اور حضرت مسیح موعود ؑ کے ساتھ ان کو ایک غیر معمولی عشق تھا ۔میرے ساتھ جب وہ حضرت صاحب کا ذکر فرماتے تھے تو اکثر ان کی آنکھیں ڈبڈبا آتی تھیں اور بعض اوقات ایسی رقت طاری ہو جاتی تھی کہ وہ بات نہیں کرسکتے تھے ، جب وہ پہلے پہل حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ان کی عمر صرف اٹھار ہ سال کی تھی اور اس کے بعد آخری لمحہ تک ایسے روز افزوں اخلاص اور وفاداری کے ساتھ مرحوم نے اس تعلق کو نبھایا کہ جو صرف انبیاء کے خاص اصحاب ہی کی شان ہے ۔ایسے لوگ جماعت کیلئے موجب برکت و رحمت ہوتے ہیں اور ان کی وفات ایک ایسا قومی نقصان ہو تی ہے جس کی تلافی ممکن نہیں ہوتی ۔مرحوم کو اس خاکسار کے ساتھ بہت انس تھا اور آخری ایّام میں جب کہ وہ پنشن لے کر قادیان آگئے تھے۔ انہوں نے خاص شوق کے ساتھ ہمارے اس نئے باغ کا انتظام اپنے ہا تھ میں لے لیا تھا جو فارم کے نام سے مشہور ہے اور جو یہ خاکسار کچھ عرصہ سے تیار کروا رہا ہے اور پھر مرحوم نے اس انتظام کو ایسی خوبی کے ساتھ نبھایا کہ میں اس کے تفکرات سے قریباً بالکل آزاد ہوگیا ۔اللہ تعالیٰ مرحوم کو عالم اُخروی میں اعلیٰ انعامات کا وارث کرے اور حضرت مسیح موعو د علیہ السلام کے خاص قرب میں جگہ عطا فرمائے جن کا عشق مرحوم کی زندگی کا جزو تھا اور مرحو م کے پسماندگان کو صبرجمیل کی توفیق دے۔اللھم آمین
بوقت وفات مرحوم کی عمر کم و بیش چھیاسٹھ سال کی تھی ۔وفات مرض فالج سے ہوئی جسمیں مرحوم نے تیرہ دن بہت تکلیف سے کاٹے ۔فالج کا اثر زبان پر بھی تھا اور طاقت گو یا ئی نہیں رہی تھی مگر ہوش قائم تھے ۔یوں تو سب نے مرنا ہے مگر ایسے پاک نفس بزرگوں کی جدائی دل پر سخت شاق گذرتی ہے اور زیادہ افسوس یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دیرینہ صحبت یافتہ یکے بعد دیگرے گذرتے جاتے ہیں اور ابھی تک ہم میں اکثرنے ان سے وہ درس وفا نہیں سیکھا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدا کی طرف سے لائے تھے اور جس کے بغیر ایک مذہبی قوم کی ترقی محال ہے ۔
{ 440} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ہماری تائی صاحبہ نے مجھ سے بیا ن کیا کہ میں تمہارے تایا سے عمر میں چند ماہ بڑی تھی اور تمہارے تایا تمہارے ابا سے دوسال بڑے تھے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس حساب سے ہماری تائی صاحبہ کی عمر اس وقت جو اکتوبر ۱۹۲۷ء ہے قریباً ستانوے سال کی بنتی ہے مگر یہ عمروں کا معاملہ کچھ شکی سا ہے کیونکہ سارا حساب زبانی ہے ،اس زمانہ میں عمروں کے متعلق کوئی تحریری ضبط نہیں تھا ۔نیز تائی صاحبہ نے بیان کیا کہ تمہارے دادا کے ہاں صرف چار بچے پیدا ہوئے ۔سب سے بڑی مراد بیگم تھیں پھر تمہارے تایا پیدا ہوئے اور پھر تمہارے ابا اور ان کے ساتھ ایک لڑکی توام پیدا ہوئی مگر یہ لڑکی جلد فوت ہوگئی۔ ا ن سب میں دو،دو سال کا فرق تھا ۔
{ 441} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار کی نانی اماں نے مجھ سے بیان کیا کہ جب تمہارے نانا جان کی اس نہر کے بنوانے پر ڈیوٹی لگی جو قادیان سے غرب کی طرف دو ڈھائی میل کے فاصلہ پر سے گذرتی ہے تو اس وقت تمہارے تایا مرزا غلام قادر صاحب کے ساتھ ان کا کچھ تعارف ہو گیا اور اتفاق سے ان دنوں میں مَیں کچھ بیمار ہوئی تو تمہارے تایا نے میر صاحب سے کہا کہ میرے والدصاحب بہت ماہر طبیب ہیں ۔ آپ ان سے علاج کرائیں چنانچہ تمہارے نانا مجھے ڈولے میں بٹھا کر قادیان لائے ۔جب میں یہاں آئی تو نیچے کی منزل میں تمہارے تا یا مجلس لگا ئے ہوئے بیٹھے تھے اور کچھ لوگ ان کے آس پاس بیٹھے تھے اور ایک نیچے کی کوٹھری میں تمہارے ابا (حضرت مسیح موعودعلیہ السلام ) ایک کھڑکی کے پاس بیٹھے ہوئے قرآن شریف پڑھ رہے تھے اور اوپر کی منزل میں تمہارے داد ا صاحب تھے ۔تمہارے دادا نے میری نبض دیکھی اور ایک نسخہ لکھ دیا اور پھر میر صاحب کے ساتھ اپنے دہلی جانے اور وہاں حکیم محمد شریف صاحب سے علم طب سیکھنے کا ذکر کرتے رہے ۔اس کے بعد میں جب دوسری دفعہ قادیان آئی تو تمہارے دادا فوت ہوچکے تھے اورا ن کی برسی کا دن تھا جو قدیم رسوم کے مطابق منائی جارہی تھی ۔ چنانچہ ہمارے گھر بھی بہت سا کھا نا وغیرہ آیا تھا ۔اس دفعہ تمہارے تایا نے میر صاحب سے کہا کہ آپ تتلہ ( قادیان کے قریب ایک گائوں ہے ) میں رہتے ہیں جہاں آپ کو تکلیف ہو تی ہو گی اور وہ گائوں بھی بدمعاش لوگوں کا گائوں ہے ۔بہتر ہے کہ آپ یہاں ہمارے مکان میں آجائیں میں گورداسپور رہتا ہوں اور غلام احمد ؐ (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام) بھی گھر میں بہت کم آتا ہے اس لئے آپ کو پردہ وغیرہ کی تکلیف نہیں ہو گی ۔چنانچہ میر صاحب نے مان لیا ۔ اور ہم یہاں آکر رہنے لگے ان دنوں میں جب بھی تمہارے تایا گورداسپورسے قادیان آتے تھے۔تو ہمارے لئے پان لایا کرتے تھے ۔اور میں ان کے واسطے کوئی اچھا ساکھاناوغیرہ تیار کر کے بھیجا کرتی تھی۔ ایک دفعہ جو میں نے شامی کباب ان کیلئے تیار کئے اور بھیجنے لگی تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ گورداسپور واپس چلے گئے ہیں جس پر مجھے خیال آیا کہ کباب تو تیار ہی ہیں میں ان کے چھوٹے بھائی کو بھجوا دیتی ہوں ۔چنانچہ میں نے نائن کے ہاتھ تمہارے ابّا کو کباب بھجوا دیئے اور نائن نے مجھے آکر کہا کہ وہ بہت ہی شکر گذار ہوئے تھے۔ اور انہوں نے بڑی خوشی سے کباب کھائے اور اس دن انہوں نے اپنے گھر سے آیا ہوا کھانا نہیں کھایا اس کے بعد میں ہر دوسرے تیسرے ان کو کچھ کھانا بنا کر بھیج دیا کرتی تھی ۔ اور وہ بڑی خوشی سے کھاتے تھے۔ لیکن جب اس بات کی اطلاع تمہاری تائی کو ہوئی تو انہوں نے بہت برا منایا کہ کیوں ان کو کھانا بھیجتی ہوں۔ کیونکہ وہ اس زمانہ میں تمہارے ابا کی سخت مخالف تھیں اور چونکہ گھر کا سارا انتظام اُن کے ہاتھ میں تھا وہ ہر بات میں انہیں تکلیف پہنچاتی تھیں مگر تمہارے ابا صبر کے ساتھ ہر بات کو بر داشت کرتے تھے ۔ان دنوں میں گو میر صاحب کا زیادہ تعلق تمہارے تایا سے تھا مگر وہ کبھی کبھی گھر میں آکر کہتے تھے کہ مرزا غلام قادر کا چھوٹا بھائی بہت نیک اور متقی آدمی ہے ۔اس کے بعد ہم رخصت پر دہلی گئے اور چونکہ تمہاری اماں اس وقت جوان ہو چکی تھیں ہمیں ان کی شادی کافکر پیدا ہوا ۔اور میر صاحب نے ایک خط تمہارے ابا کے نام لکھا کہ مجھے اپنی لڑکی کے واسطے بہت فکر ہے دعا کریں خدا کسی نیک آدمی کے ساتھ تعلق کی صورت پیدا کر دے۔ تمہارے ابا نے جواب میں لکھا کہ اگر آپ پسند کریں تو میں خود شادی کرنا چاہتا ہوں ۔اور آپ کو معلوم ہے کہ گو میری پہلی بیوی موجود ہے اور بچے بھی ہیںمگر آج کل میں عملاً مجردہی ہوںوغیر ذالک ۔میر صاحب نے اس ڈر کی وجہ سے کہ میں اسے بُرا مانوں گی مجھ سے اس خط کا ذکر نہیں کیا ۔اور اس عرصہ میں اور بھی کئی جگہ سے تمہاری اماں کے لئے پیغام آئے لیکن میری کسی جگہ تسلی نہ ہوئی حالانکہ پیغا م دینے والوں میں سے بعض اچھے اچھے متمول آدمی بھی تھے اور بہت اصرار کے ساتھ درخواست کرتے تھے ۔مولوی محمد حسین بٹالوی کے ساتھ تمہارے نانا کے بہت تعلقات تھے انہوں نے کئی دفعہ تمہارے ابا کے لئے سفارشی خط لکھا اور بہت زور دیا کہ مرزا صاحب بڑے نیک اور شریف اور خاندانی آدمی ہیں مگر میری یہاں بھی تسلی نہ ہوئی کیونکہ ایک تو عمر کا بہت فرق تھا ۔دوسرے ان دنوں میں دہلی والوں میں پنجابیوں کے خلاف بہت تعصب ہوتا تھا۔ بالآخر ایک دن میر صاحب نے ایک لدھیانہ کے باشندہ کے متعلق کہا کہ اس کی طرف سے بہت اصرار کی درخواست ہے اور ہے بھی وہ اچھا آدمی۔ اسے رشتہ دے دو۔ میں نے اس کی ذات وغیرہ دریافت کی تو مجھے شرح صدر نہ ہوا اور میں نے انکار کیا۔جس پر میر صاحب نے کچھ ناراض ہو کر کہا ۔ کہ لڑکی اٹھارہ سال کی ہو گئی ہے کیا ساری عمر اسے یو نہی بٹھا چھوڑوگی۔میں نے جواب دیا کہ ان لوگوں سے تو پھر غلام احمدؐ ہی ہزار درجہ اچھا ہے ۔میر صاحب نے جھٹ ایک خط نکال کر میرے سامنے رکھ دیا کہ لو پھر مرزاغلام احمدؐ کا بھی خط آیا ہوا ہے۔جو کچھ ہو ہمیں اب جلد فیصلہ کرنا چاہیے میں نے کہا کہ اچھا۔ پھر غلام احمد کو لکھ دو۔ چنانچہ تمہارے نانا جان نے اسی وقت قلم دوات لے کر خط لکھ دیا اور اس کے آٹھ دن بعد تمہارے ابا دہلی پہنچ گئے۔ ان کے ساتھ ایک دو نوکر تھے اور بعض ہندو اور مسلمان ساتھی تھے ۔جب ہماری برادری کے لوگوں کو معلوم ہوا تو وہ سخت ناراض ہوئے کہ ایک بوڑھے شخص کو اور پھر پنجابی کو رشتہ دے دیا ہے ۔اور کئی لوگ ان میں سے اسی ناراضگی میں نکاح میں شامل بھی نہیں ہوئے مگر ہم نے فیصلہ کر لیا ہوا تھا ۔ نکاح پڑھا کر رخصتانہ کر دیا۔ تمہارے ابا اپنے ساتھ کوئی زیور یا کپڑا وغیرہ نہیں لے گئے تھے ۔بلکہ صرف ڈھائی سو روپیہ نقد لے گئے تھے۔ اس پر بھی برادری والوں نے بہت طعن دیئے کہ اچھا نکاح ہوا ہے کہ کوئی زیور کپڑا ساتھ نہیں آیا۔ جس کا جواب ہماری طرف سے یہ دیا گیا کہ مرزا صاحب کے اپنے رشتہ داروں کے ساتھ زیادہ تعلقات نہیں ہیں ۔اور گھر کی عورتیں ان کے مخالف ہیں ۔اور پھر وہ جلدی میں آئے ہیں ۔ اس حالت میں وہ زیور اور کپڑے کہاں سے بنوا لاتے ۔الغرض برادری کی طرف سے اس قسم کے طعن تشنیع بہت ہوئے اور مزید برآں یہ اتفاق ہوا کہ جب تمہاری اماں قادیان آئیں تو یہاں سے ان کے خط گئے کہ میں سخت گھبرائی ہوئی ہوں اور شائد میں اس غم اور گھبراہٹ سے مر جاؤں گی ۔چنانچہ ان خطوں کی وجہ سے ہمارے خاندان کے لوگوںکو اور بھی اعتراض کا موقعہ مل گیا اور بعض نے کہا کہ اگر آدمی نیک تھا تو اس کی نیکی کی وجہ سے لڑکی کی عمر کیو ں خراب کی اس پر ہم لوگ بھی کچھ گھبرائے اور رخصتانہ کے ایک مہینہ کے بعد میر صاحب قادیان آکر تمہاری اماں کو لے گئے ۔اور جب وہ دہلی پہنچے تو میں نے اس عورت سے پوچھا جس کو میں نے دلی سے ساتھ بھیجا تھاکہ لڑکی کیسی رہی ؟ اس عورت نے تمہارے ابا کی بہت تعریف کی اور کہا کہ لڑکی یو نہی شروع شروع میں اجنبیت کی وجہ سے گھبرا گئی ہو گی ورنہ مرزا صاحب نے تو ان کو بہت ہی اچھی طرح سے رکھا ہے اور وہ بہت اچھے آدمی ہیں ۔اور تمہاری اماں نے بھی کہا کہ مجھے انہوں نے بڑے آرام کے ساتھ رکھا مگر میں یو نہی گھبرا گئی تھی اس کے تھوڑے عرصہ کے بعد تمہاری اماں پھر قادیان آگئیں اور پھر بہت عرصہ کے بعد واپس ہمارے پاس گئیں۔
{ 442} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ میاں غلام نبی صاحب سیٹھی نے جو پہلے راولپنڈی میں تجارت کرتے تھے اور آج کل قادیان میں ہجرت کر آئے ہوئے ہیں ۔مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک خط دیا جو حضور ؑ نے سیٹھی صاحب کو اپریل ۱۸۹۸ء میں اپنے دست مبارک سے لکھ کر ارسال کیا تھا۔اس خط میں مسئلہ سود کے متعلق حضرت کا ایک اصولی فیصلہ درج ہے اور اس لئے میں اسے ذیل میں نقل کرتا ہوں :۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم نحمدہٗ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی شیخ غلام نبی صاحب سلمہٗ تعالیٰ ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
’’کل کی ڈاک میں مجھ کو آپ کا عنایت نامہ ملا۔ میں امید رکھتاہوں کہ آپ کی اس نیک نیتی اور خوف الٰہی پر اللہ تعالیٰ خود کوئی طریق مخلصی پیدا کر دے گا۔اُس وقت تک صبر سے استغفار کرنا چاہیے ۔اور سود کے بارے میں میرے نزدیک ایک انتظام احسن ہے ۔اور وہ یہ ہے کہ جس قدر سود کا روپیہ آوے آپ اپنے کام میں اس کو خرچ نہ کریں بلکہ اس کو الگ جگہ جمع کرتے جا ئیں اور جب سود دینا پڑے اسی روپیہ میں سے دے دیں ۔اور اگر آپ کے خیال میں کچھ زیادہ روپیہ ہو جائے تواس میں کچھ مضائقہ نہیں ہے کہ وہ روپیہ کسی ایسے دینی کام میں خرچ ہو جس میں کسی شخص کا ذاتی خرچ نہ ہو۔بلکہ صرف اس سے اشاعت دین ہو۔ میں اس سے پہلے یہ فتویٰ اپنی جماعت کے لئے بھی دے چکا ہوںکہ اللہ تعالیٰ نے جو سود حرام فرمایا ہے وہ انسان کی ذاتیات کے لئے ہے۔ حرام یہ طریق ہے کہ کوئی انسا ن سود کے روپیہ سے اپنی اور اپنے عیال کی معیشت چلاوے یا خوراک یا پو شاک یا عمارت میں خرچ کرے یا ایسا ہی کسی دوسرے کو اس نیت سے دے کہ وہ اس میں سے کھاوے یا پہنے ۔لیکن اس طرح پر کسی سود کے روپیہ کا خرچ کرنا ہرگزحرام نہیں ہے کہ وہ بغیر اپنے کسی ذرہ ذاتی نفع کے خدا تعالیٰ کی طرف رد کیا جائے یعنی اشاعت دین پر خرچ کیا جائے ۔قرآن شریف سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک چیز کا مالک ہے جو چیز اس کی طرف آتی ہے وہ پاک ہو جاتی ہے بجز اس کے کہ ایسے مال نہ ہوں کہ انسانوں کی مرضی کے بغیر لئے گئے ہوں جیسے چوری یا رہزنی یا ڈاکہ، کہ یہ مال کسی طرح سے بھی خدا کے اور دین کے کاموں میں بھی خرچ کرنے کے لائق نہیں لیکن جو مال رضامندی سے حاصل کیا گیا ہو وہ خدا تعالیٰ کے دین کی راہ میں خرچ ہو سکتا ہے۔ دیکھنا چاہیے کہ ہم لوگوں کو اس وقت مخالفوں کے مقابل پر جو ہمارے دین کے ردّ میں شائع کرتے ہیں ۔کس قدر روپیہ کی ضرورت ہے ۔گویا یہ ایک جنگ ہے جو ہم ان سے کر رہے ہیں ۔اس صورت میں اس جنگ کی امداد کے لئے ایسے مال اگر خرچ کئے جائیں تو کچھ مضائقہ نہیں ۔یہ فتویٰ ہے جو میں نے دیا ہے اور بیگانہ عورتوں سے بچنے کے لئے آنکھوں کو خوابیدہ رکھنا اور کھول کر نظر نہ ڈالنا کافی ہے ۔اور پھر خدا تعالیٰ سے دعا کرتے رہیں ۔ یہ تو شکر کی بات ہے کہ دینی سلسلہ کی تائید میں آپ ہمیشہ اپنے مال سے مدد دیتے رہتے ہیں ۔اس ضرورت کے وقت یہ ایک
ایسا کام ہے کہ میرے خیال میں خداتعالیٰ کے راضی کرنے کے لئے نہایت اقرب طریق ہے سو شکر کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تو فیق دے رکھی ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ ہمیشہ آپ اس راہ میں سر گرم ہیں ۔ ان عملوں کو اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے وہ جزا دیگا ۔ ہاں ماسوائے اس کے دعا اور استغفار میں بھی مشغول رہنا چاہیے زیادہ خیریت ہے ۔‘‘ والسلام ۔
خاکسار مرزا غلام احمدؐ از قادیان ۔۲۴؍اپریل ۱۸۹۸ء
سود کے اشاعت دین میں خرچ کرنے سے میرا یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی انسان عمداً اپنے تئیں اس کام میں ڈالے ۔بلکہ مطلب یہ ہے کہ اگر کسی مجبوری سے جیسا کہ آپ کو پیش ہے یا کسی اتفاق سے کوئی شخص سود کے روپیہ کا وارث ہو جائے تو وہ روپیہ اُس طرح پر جیسا کہ میں نے بیان( کیاہے) خرچ ہو سکتا ہے ۔اور اس کے ساتھ ثواب کا بھی مستحق ہو گا ۔غ۔‘‘
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس خط سے جسے میں خوب اچھی طرح پہچانتاہوں کہ وہ آپ ہی کا ہے مندرجہ ذیل اصولی باتیں پتہ لگتی ہیں ۔
(۱)سودی آمدنی کا روپیہ سود کی ادائیگی پر خرچ کیا جا سکتاہے۔بلکہ اگر حالات کی مجبوری پیدا ہو جائے اور سود دینا پڑ جا وے تو اس کے واسطے یہی انتظام احسن ہے کہ سودی آمد کا روپیہ سود کی ادائیگی میں خرچ کیا جاوے ۔مسلمان تاجر جو آج کل گرد وپیش کے حالات کی مجبوری کی وجہ سے سود سے بچ نہ سکتے ہوں وہ ایسا انتظام کر سکتے ہیں ۔
(۲) سود کی آمد کا روپیہ باقی روپے سے الگ حساب کر کے جمع کرنا چاہیے تاکہ دوسرے روپے کے حساب کے ساتھ مخلوط نہ ہو اور اس کا مصرف الگ ممتاز رکھا جاسکے ۔
(۳)سود کا روپیہ کسی صورت میں بھی ذاتی مصارف میں خرچ نہیں کیا جا سکتا اور نہ کسی دوسرے کو اس نیت سے دیا جا سکتا ہے کہ وہ اسے اپنے ذاتی مصارف میں خرچ کرے ۔
(۴)سودی آمدکا روپیہ ایسے دینی کام میں خرچ ہو سکتا ہے جس میں کسی شخص کاذاتی خرچ شامل نہ ہو مثلاً طبع و اشاعت لٹریچر ۔مصارف ڈاک وغیر ذٰلک۔
(۵)دین کی راہ میں ایسے اموال خرچ کئے جا سکتے ہیں جن کا استعمال گو افراد کے لئے ممنوع ہو لیکن وہ دوسروں کی رضا مندی کے خلاف نہ حاصل کئے گئے ہوں یعنی ان کے حصول میں کوئی رنگ جبر اور دھوکے کا نہ ہو جیسا کہ مثلاً چوری یا ڈاکہ یا خیانت وغیرہ میں ہوتا ہے ۔
(۶) اسلام اور مسلمانوں کی موجودہ نازک حالت اس فتویٰ کی مُؤیّد ہے ۔
(۷) لیکن ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ کوئی شخص اپنے آپ کو عمداً سود کے لین دین میں ڈالے بلکہ مذکورہ بالا فتویٰ صرف اسی صورت میں ہے کہ کوئی حالات کی مجبوری پیش آجائے یا کسی اتفاق کے نتیجہ میں کوئی شخص سودی روپے کا وارث بن جاوے ۔
(۸) موجودہ زمانہ میں تجارت وغیرہ کے معاملات میںجو طریق سود کے لین دین کا قا ئم ہوگیا ہے اور جس کی وجہ سے فی زمانہ کوئی بڑی تجارت بغیر سود ی لین دین میں پڑنے کے نہیں کی جا سکتی ۔وہ ایک حالات کی مجبوری سمجھی جاوے گی جس کے ماتحت سود کا لینا دینا مذکورہ بالا شرائط کے مطابق جائز ہو گا ۔کیونکہ حضرت صاحب نے سیٹھی صاحب کی مجبوری کو جو ایک تاجر تھے اور اسی قسم کے حالات ان کو پیش آتے تھے اس فتویٰ کی اغراض کے لئے ایک صحیح مجبوری قراردیا ہے ۔گویا حضرت صاحب کا منشاء یہ ہے کہ کوئی شخص سود کے لین دین کو ایک غرض و غایت بنا کر کاروبار نہ کرے۔لیکن اگر عام تجارت وغیرہ میں گرد و پیش کے حالات کے ماتحت سودی لین دین پیش آجاوے تو اس میں مضائقہ نہیں اور اس صورت کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ فتویٰ دیا گیا ہے ۔اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نزدیک ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ سود میں ملوث ہونے کے اندیشہ میں مسلمان لوگ تجارت چھوڑ دیں یا اپنے کاروبار کو صرف معمولی دکانوں تک محدود رکھیں جن میں سود کی دقّت بالعموم پیش نہیں آتی ۔اور اس طرح مخالف اقوام کے مقابلہ میں اپنے اقتصادیات کو تباہ کر لیں ۔
(۹)اس فتویٰ کے ماتحت اس زمانہ میں مسلمانوں کی بہبودی کے لئے بینک بھی جاری کئے جا سکتے ہیں جن میں اگر حالات کی مجبوری کی وجہ سے سودی لین دین کرنا پڑے تو بشرائط مذکورہ بالا حرج نہیں ۔
(۱۰)جو شخص اس فتویٰ کے ماتحت سودی روپیہ حاصل کرتا ہے اورپھر اسے دین کی راہ میں خرچ کرتا ہے وہ اس خرچ کی وجہ سے بھی عند اللہ ثواب کا مستحق ہوگا۔
(۱۱)ایک اصولی بات اس خط میں موجودہ زمانہ میں بے پردہ عورتوں سے ملنے جلنے کے متعلق بھی پائی جاتی ہے اور وہ یہ کہ اس زمانہ میں جو بے پردہ عورتیں کثرت کے ساتھ باہر پھرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔اور جن سے نظر کو مطلقاً بچانا قریباً قریباً محال ہے اور بعض صورتوں میں بے پردہ عورتوں کے ساتھ انسان کو ملاقات بھی کرنی پڑ جاتی ہے اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ ایسی غیر محرم عورتوں کے سامنے آتے ہوئے انسان کو یہ احتیاط کر لینی کافی ہے کہ کھول کر نظر نہ ڈالے اور اپنی آنکھوں کو خوابیدہ رکھے اور یہ نہیں کہ ان کے سامنے بالکل ہی نہ آئے ۔ کیونکہ بعض عورتوںمیں یہ بھی ایک حالات کی مجبوری ہے ہاں آدمی کو چاہیے کہ خدا سے دعا کرتا رہے کہ وہ اسے ہر قسم کے فتنے سے محفوظ رکھے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں بچپن میں دیکھتا تھا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام گھر میں کسی ایسی عورت کے ساتھ بات کرنے لگتے تھے جو غیر محرم ہوتی تھی اور وہ آپ سے پردہ نہیں کرتی تھی تو آپ کی آنکھیں قریباً بند سی ہوتی تھیں اور مجھے یاد ہے کہ میں اس زمانہ میں دل میں تعجب کیا کرتا تھا کہ حضرت صاحب اس طرح آنکھوں کو بند کیوں رکھتے ہیں ۔لیکن بڑے ہو کر سمجھ آئی کہ در اصل وہ اسی حکمت سے تھا۔
(۱۲)ایک بات حضرت صاحب کے اس خط سے یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ جو موجودہ نازک و قت اسلام اور مسلمانوں پر آیا ہوا ہے اس میں سب اعمال سے بہتر عمل اسلام کی خدمت و نصرت ہے اور اس سے بڑھ کر خدا تک پہنچنے کا اور کوئی ذریعہ نہیں ۔
اس خط میں ایک عجیب بات یہ بھی ہے کہ جو نوٹ حضرت اقدس نے اس خط کے نیچے اپنے دستخط کرنے کے بعد لکھا ہے اس کے اختتام پر حضرت صاحب نے بجائے پورے دستخط کے صرف ’’غ‘‘ کا حرف درج فرمایا ہے جیسا کہ انگریزی میں قاعدہ ہے کہ نام کا پہلا حرف لکھ دیتے ہیں ۔
{ 443} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حافظ نور احمدصاحب لدھیانوی نے مجھ سے بیان کیا کہ ابھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کوئی دعویٰ وغیرہ نہیںتھا اور میں نے آپ کا نام تک نہیں سُنا تھا کہ مجھے خواب میں ایک نظارہ دکھایا گیا جس میں مَیں نے آنحضرت ﷺ کو دیکھا اور آپ کے ساتھ بہت سے عالی مرتبہ صحابہ بھی تھے اور اس جماعت میں ایک شخص ایسا تھا جس کا لباس وغیرہ آنحضرت ﷺ اور صحابہ سے مختلف تھا اس کے متعلق میں نے آنحضرت ﷺ سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ یہ کون شخص ہے ؟جس پر آپ نے فرمایا ھٰذا عیسٰی یعنی یہ عیسیٰ مسیح ہیں اور آپ نے فرمایا کہ یہ قادیان میں رہتا ہے اور تم اس پر ایمان لانا اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی اور میں نے قادیان کی تلاش شروع کی اور ضلع لدھیانہ میں ایک قادیان گاؤں ہے وہاں آیا گیا مگر کچھ پتا نہ چلا۔آخر جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب لدھیانہ تشریف لے گئے تو میں آپ کا نام سُن کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے دیکھتے ہی آپ کو پہچان لیا کہ یہ وہی ہیں جو مجھے آنحضرت ﷺ کے ساتھ خواب میں دکھائے گئے تھے اور جن کے متعلق آپ نے فرمایا تھا کہ یہ عیسیٰ ہیں تم اس پر ایمان لانا مگر اس وقت آپ کو مسیحیت کا کوئی دعویٰ نہ تھا اور نہ ہی سلسلہ بیعت شروع ہوا تھا غرض اس وقت سے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے معتقدین میں شامل ہو گیا اور جب پہلی دفعہ لدھیانہ میں بیعت ہوئی تو میں نے پہلی بیعت کے دوسرے دن چونسٹھ نمبر پر بیعت کی اور پہلے دن سب سے پہلی بیعت حضرت مولوی نور الدین صاحب نے کی تھی اور ان کے دوسرے نمبر پر شائد میر عباس علی نے کی تھی ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حافظ صاحب بہت پرانے آدمیوں میں سے ہیں اور ان دنوں قادیان ہجرت کر کے آگئے ہیں اور معمر آدمی ہیں ۔
{ 444} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حافظ نور احمدؐ صاحب لدھیانوی نے مجھ سے بیان کیاکہ ایک دفعہ جب کہ میں قادیان میں آیا ہوا تھا حضرت صاحب نے مجھ سے فرمایا کہ امرتسر سے کچھ سودامنگوانا ہے آپ جا کر لے آئیں اور آپ نے مجھے بٹالہ تک سواری کے لئے اپنا گھوڑا دینا چاہا ۔مگر میں نے یہ کہہ کر عذر کیا کہ حضور گھوڑے کو میں کہاں سنبھالتا پھروں گا میں بٹالہ تک پیدل ہی چلا جاتا ہوں ۔حضرت صاحب نے فرمایا کہ نہیں بٹالہ میں میاں عبد الرحیم صاحب ہیں ان کے مکان پر گھوڑا چھوڑ جانا اور آتے ہوئے لے آنا ۔میں نے عرض کیا نہیں حضور میں پیدل ہی جاتاہوں چنانچہ میں پیدل گیا اور بٹالہ سے ریل پر سوار ہوکر امرتسر سے سودا لے آیا ۔حافظ صاحب بیان کرتے تھے کہ میاں عبد الرحیم صاحب مولوی محمدحسین بٹالوی کے والد تھے اور حضرت صاحب کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتے تھے ۔نیز حافظ صاحب نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود ؑ گھوڑے کی اچھی سواری کر لیتے تھے میں نے کئی دفعہ اوائل میں آپ کو گھوڑے پر چڑھے ہوئے دیکھا ہے باوجود اس کے کہ آپ کا دایاں ہاتھ بوجہ ضرب کے کمزور تھا ۔ آپ اچھی سواری کرتے تھے ۔اور شروع شروع میں آپ کے گھر میں کوئی نہ کوئی گھوڑا رہا کرتا تھا۔
{ 445} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں غلام نبی صاحب سیٹھی نے مجھ سے بیان کیا کہ شروع شروع میں بوجہ اس کے میری بیوی کو اٹھراکا مرض تھامیری اولاد ضائع ہو ہو جاتی تھی اور اس کے لئے میں ایک دفعہ قادیان آیا اور حضرت خلیفۃ المسیح اوّل کا علاج شروع کیا اور ساتھ ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دعا کے لئے عرض کرتا رہا انہی دنوں میں ایک دن میں حضرت خلیفۃ اوّل ؓ کے مطب میں بیٹھا تھا کہ آپ تشریف لائے اور مجھے مخاطب کر کے فرمانے لگے ۔میاں غلام نبی تمہیں مبارک ہو !اب تمہیں زیادہ علاج وغیرہ کی ضرورت نہیں ۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے تمہارے لئے لڑکے کی بشارت دے دی ہے اور پھر انہوں نے مجھے یہ قصّہ سُنایا کہ آج صبح حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت ام المومنین کے ساتھ سیر کے لئے اپنے باغ کو تشریف لے گئے تھے ۔تمہاری بیوی بھی ساتھ چلی گئی تھی اور میری بیوی اور بعض مستورات بھی ساتھ تھیں باغ میں جاکر حضرت مسیح موعودؑ نے کچھ شہتوت منگوائے جس پر بعض عورتیں حضرت کے لئے شہتوت لانے کے واسطے گئیں اور تمہاری بیوی بھی گئی ۔مگر اور عورتیں تو یونہی درخت پر سے شہتوت جھاڑ کر لے آئیں مگر تمہاری بیوی باغ کے ایک طرف جا کر اورخود شہتوت کے درخت پر چڑھ کر اچھے اچھے شہتوت اپنے ہاتھ سے توڑ کر لائی ۔حضرت صاحب نے جب ان دونوں شہتوتوں کو دیکھا تو فرمایا کہ کیا بات ہے یہ شہتوت میلے ہیں اور یہ بہت صاف ہیں؟حضرت بیوی صاحبہ نے عرض کیا کہ یہ جو صاف شہتوت ہیں یہ غلام نبی کی بیوی خود درخت پر چڑھ کر آپ کے لئے ایک ایک دانہ توڑ کر لائی ہے اس پر حضرت صاحب بہت خوش ہوئے اور اس کے لئے دعا فرمائی اور فرمایا کہ خدا اسے بچہ دے !میاں غلام نبی صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک لڑکا عطا کیالیکن لڑکا ڈیڑھ سال کی عمر پا کر فوت ہو گیا اور میں نے اس کی وفات پر حضرت صاحب کی خدمت میں خط لکھا کہ یہ لڑکا تو حضور کی دعا اور بشارت سے ہوا تھا۔مگر یہ بھی فوت ہو گیا ہے ۔حضور نے میرے اس خط کے جواب میں مندرجہ ذیل خط ارسال فرمایا۔
’’۱۷؍اکتوبر۱۹۰۲ء ۔ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ـ نحمدہٗ و نصلے۔
محبی عزیزی ۔میاں شیخ غلام نبی صاحب سلمہ تعالیٰ ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ۔کارڈ پہنچا آپ کو اپنے فرزندد لبند کی وفات پر بہت صدمہ ہوا ہو گا۔اللہ تعالیٰ آپ کو نعم البدل عطا فرماوے ۔یہ خیال آپ دل میں نہ لاویں کہ اس بچے کی پیدائش تو بطور معجزہ تھی پھر وہ کیوں فوت ہو گیا ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰیَۃٍ اَوْ نُنْسِھَا نَأْتِ بِخَیْرٍ مِّنْھَا اَوْ مِثْلِھَا اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْرٌ(البقرۃ:۱۰۷) یعنی اگر کوئی نشان یا معجزہ ہم دور کر دیتے ہیں تو اس سے بہتر اور نشان ظاہر کرتے ہیں اور اولاد کے بارے میں یہ بھی فرمایا ہے ۔ اِنَّمَا اَمْوَالُکُمْ وَاَوْلاَدُکُمْ فِتْنَۃٌ (الانفال:۲۹) یعنی تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہارے لئے فتنہ ہے۔یعنی آزمائش کی جگہ ہے۔ خدا تعالیٰ دیکھتا ہے کہ تم میں سے کون قائم رہتا ہے اور کون ٹھوکر کھاتا ہے ۔ بالخصوص جبکہ آپ کی عمر ہنوز بہت چھوٹی ہے اور مرد کو تو نوے ۹۰ برس کی عمر میں بھی اولاد ہو سکتی ہے اس لئے میں لکھتا ہوں کہ آپ اب کی دفعہ تو ثواب حاصل کر لواوراس آیت کی رو سے موعودہ رحمت میں سے حصہ لے لو جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْ ئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِیْنَ الَّذِیْنَ اِذَا اَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْا اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ (البقرہ:۱۵۶)سو ہر گز خوف نہ کر و اور خدا تعالیٰ کے دوسرے معجزہ کے منتظر رہو۔والسلام
خاکسار غلا م احمد ازقادیان ۔‘‘
میاں غلام نبی صاحب نے بیان کیا کہ جب حضرت صاحب کا یہ خط مجھے ملا تو مجھے بہت ہی خوشی ہوئی اور لڑکے کی وفات کا سارا غم دل سے دُھل گیا اور جو لوگ ماتم پُرسی کیلئے اس وقت میرے گھر آئے ہوئے تھے ان سب سے میں نے کہہ دیا کہ اب آپ لوگ جائیں مجھے کوئی غم نہیں ہے ۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے مجھے ایک اور لڑکے کی بشارت لکھ کر بھیجی ہے ۔چنانچہ میاں غلام نبی صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس کے کچھ عرصہ بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک اور لڑکا عطا کیا جو خدا کے فضل سے اب تک زندہ موجود ہے اور اس کا نام کر م الٰہی ہے ۔اور وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے صاحب اولاد ہے ۔
{ 446} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ دعا کا ذکر کر تے ہوئے اکثر فرمایا کرتے تھے کہ دعا کی تو یہ مثال ہے کہ
’’ جو منگے سو مر رہے ،مرے سو منگن جائے ‘‘
یعنی جو شخص مانگتا ہے اسے اپنے واسطے ایک موت قبول کر نے کو تیار ہو جانا چاہیے اور جو مر رہا ہو وہی مانگنے کیلئے نکلتا ہے۔مطلب یہ ہے کہ دعا کی قبولیت کیلئے یہ ضروری ہے کہ انسان اپنے اوپر ایک موت وارد کرے اور آستانہ درگاہ باری پر ایک بے جان مردہ کی طرح گر جاوے اور خدا کے دروازے کے سوا اپنی ساری امیدوں کو قطع کر دے ۔اور مصرع کے دوسرے حصہ کا مطلب یہ ہے کہ مانگتا بھی دراصل وہی ہے جو مر رہا ہو یعنی جسے کو ئی ایسی حقیقی ضرورت پیش آگئی ہو کہ اس کے لئے سوائے سوال کے کوئی چارہ نہ رہے لیکن دعا کے مسئلہ کے ساتھ صرف مصرع کے پہلے حصہ کا تعلق معلوم ہو تا ہے۔واللہ اعلم۔
{ 447} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب جو ہمارے حقیقی ماموں ہیں ان کا ایک مضمون الحق دہلی مورخہ ۲۶؍۱۹جون ۱۹۱۴ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے شمائل کے متعلق شائع ہوا تھا یہ مضمون حضرت صاحب کے شمائل میں ایک بہت عمدہ مضمون ہے اور میر صاحب موصوف کے بیس سالہ ذاتی مشاہدہ اور تجربہ پر مبنی ہے ۔لہٰذا درج ذیل کیا جاتا ۔میر صاحب تحریر فر ماتے ہیں:
احمدی تو خدا کے فضل سے ہندوستان کے ہر گوشہ میں موجود ہیں بلکہ غیر ممالک میں بھی مگر احمد کے دیکھنے والے اور نہ دیکھنے والے احمدیوں میں بھی ایک فرق ہے ۔دیکھنے والوں کے دل میں ایک سرور اور لذت اسکے دیدار اور صحبت کی اب تک باقی ہے ۔نہ دیکھنے والے بارہا تاسف کر تے پائے گئے کہ ہائے ہم نے جلدی کیوں نہ کی اور کیوں نہ اس محبوب کا اصلی چہرہ اس کی زندگی میں دیکھ لیا ۔تصویر اور اصل میں بہت فرق ہے اور وہ فرق بھی وہی جانتے ہیں جنھوں نے اصل کو دیکھا۔میرا دل چاہتا ہے کہ احمد (علیہ السلام) کے حلیہ اور عادات پر کچھ تحریر کروں ۔ شاید ہمارے وہ دوست جنہوں نے اس ذات بابرکت کو نہیں دیکھا حظ اُٹھاویں ۔
حلیہ مبارک :۔ بجائے اس کے کہ میں آپ کا حلیہ بیان کروں اور ہر چیز پر خود کوئی نوٹ دوں یہ بہتر ہے کہ میں سر سری طور پر اس کا ذکر کرتا جائوں اور نتیجہ پڑھنے والے کی اپنی رائے پر چھوڑدوں ۔آپ کے تمام حلیہ کا خلاصہ ایک فقرہ میں یہ ہو سکتا ہے کہ
’’ آپ مردانہ حسن کے اعلیٰ نمونہ تھے ‘‘
مگر یہ فقرہ بالکل نامکمل رہے گا اگر اس کے ساتھ دوسرا یہ نہ ہو کہ
’’ یہ حسن انسانی ایک روحانی چمک دمک اور انوار اپنے ساتھ لئے ہوئے تھا ۔‘‘
اور جس طرح آپ جمالی رنگ میں اس امت کیلئے مبعوث ہو ئے تھے اسی طرح آپ کا جمال بھی خدا کی قدرت کا نمونہ تھا اور دیکھنے والے کے دل کو اپنی طرف کھینچتا تھا ۔آپ کے چہرہ پر نورانیت کے ساتھ رعونت ، ہیبت اور استکبار نہ تھے ۔بلکہ فروتنی ،خاکساری اور محبت کی آمیزش موجود تھی ۔چنانچہ ایک دفعہ کا واقعہ میں بیان کرتا ہوں کہ جب حضرت اقدس چولہ صاحب کو دیکھنے ڈیرہ بابا نانک تشریف لے گئے تو وہاں پہنچ کر ایک درخت کے نیچے سایہ میں کپڑا بچھا دیا گیا اور سب لوگ بیٹھ گئے ۔آس پاس کے دیہات اور خاص قصبہ کے لوگوں نے حضرت صاحب کی آمد سُن کر ملاقات اور مصافحہ کیلئے آنا شروع کیا ۔اور جو شخص آتا مولوی سید محمد احسن صاحب کی طرف آتا اور اُن کو حضرت اقدس سمجھ کر مصافحہ کر کے بیٹھ جاتا۔غرض کچھ دیر تک لوگوں پر یہ امر نہ کھلا،جب تک خود مولوی صاحب موصوف نے اشارہ سے اور یہ کہہ کر لوگوں کو ادھر متوجہ نہ کیا کہ ’’حضرت صاحب یہ ہیں ‘‘ بعینہٖ ایسا واقعہ ہجرت کے وقت نبی کریم ﷺ کو مدینہ میں پیش آیا تھا ۔وہاں بھی لوگ حضرت ابو بکر ؓ کو رسول ِخدا سمجھ کر مصافحہ کر تے رہے جب تک کہ انہوں نے آپ پر چادر سے سایہ کرکے لوگوںکوا ن کی غلطی سے آگاہ نہ کر دیا ۔
جسم اور قد :۔ آپ کا جسم دُبلا نہ تھا نہ آپ بہت موٹے تھے البتہ آپ دوہر ے جسم کے تھے ۔ قد متوسط تھا اگرچہ ناپا نہیں گیا مگر اندازاً پانچ فٹ آٹھ انچ کے قریب ہوگا ۔کندھے اور چھاتی کشادہ اور آخرعمر تک سیدھے رہے نہ کمر جھکی نہ کندھے تمام جسم کے اعضاء میں تناسب تھا ۔یہ نہیں کہ ہاتھ بے حد لمبے ہوں یا ٹانگیں یا پیٹ اندازہ سے زیادہ نکلا ہو ا ہو۔غرض کسی قسم کی بد صورتی آپ کے جسم میں نہ تھی ۔جلد آپ کی متوسط درجہ کی تھی نہ سخت ،نہ کھردری اورنہ ایسی ملائم جیسی عورتوں کی ہوتی ہے ۔آپ کا جسم پلپلا او رنرم نہ تھا بلکہ مضبوط اور جوانی کی سی سختی لئے ہوئے ۔ آخر عمر میں آپ کی کھال کہیں سے بھی نہیں لٹکی نہ آپ کے جسم پر جھُرّیاں پڑیں ۔
آپ کا رنگ:۔ رنگم چوگندم است و بمو فرق بین ست
زاں ساں کہ آمد ست در اخبار سرورم
آپ کا رنگ گندمی اور نہایت اعلیٰ درجہ کا گندمی تھا یعنی اس میں ایک نورانیت اور سُرخی جھلک مارتی تھی ۔ اور یہ چمک جو آپ کے چہرہ کے ساتھ وابستہ تھی عارضی نہ تھی بلکہ دائمی ۔کبھی کسی صدمہ ،رنج ، ابتلا، مقدمات اور مصائب کے وقت آپ کا رنگ زرد ہو تے نہیں دیکھا گیا اور ہمیشہ چہرہ مبارک کندن کی طرح دمکتا رہتا تھا ۔کسی مصیبت اور تکلیف نے اس چمک کو دور نہیں کیا ۔علاوہ اس چمک اور نور کے آپ کے چہرہ پر ایک بشاشت اور تبسم ہمیشہ رہتا تھا اور دیکھنے والے کہتے تھے کہ اگر یہ شخص مفتری ہے اور دل میں اپنے تئیں جھوٹا جانتا ہے تو اسکے چہرہ پر یہ بشاشت اور خوشی اور فتح اور طمانیت قلب کے آثار کیونکر ہو سکتے ہیں۔ یہ نیک ظاہر کسی بد باطن کے ساتھ وابستہ نہیں رہ سکتا ۔اور ایمان کا نور بد کا ر کے چہرہ پر درخشندہ نہیں ہوسکتا ۔ آتھم کی پیشگوئی کا آخری دن آگیا اور جماعت میں لوگوں کے چہرے پژ مردہ ہیں اور دل سخت منقبض ہیں۔بعض لوگ ناواقفی کے باعث مخالفین سے اس کی موت پر شرطیں لگا چکے ہیں ۔ہر طرف سے اُداسی کے آثار ظاہر ہیں۔لوگ نمازوں میں چیخ چیخ کر رو رہے ہیں کہ اے خداوند ہمیں رسوا مت کریو۔ غرض ایسا کہرام مچ رہا ہے کہ غیروں کے رنگ بھی فق ہو رہے ہیں مگر یہ خدا کا شیر گھر سے نکلتا ہے ہنستا ہوا اور جماعت کے سربر آوردوں کو مسجد میں بلاتا ہے مسکراتا ہوا ۔ ادھر حاضرین کے دل بیٹھے جاتے ہیں ۔ادھر وہ کہہ رہا ہے کہ لو پیش گوئی پوری ہوگئی ۔اِطَّلَعَ اللّٰہُ عَلٰی ھَمِّہٖ وَغَمِّہٖ ۔مجھے الہام ہوا اس نے حق کی طرف رجوع کیا حق نے اس کی طرف رجوع کیا ۔کسی نے اس کی بات مانی نہ مانی اس نے اپنی سُنا دی اور سننے والوں نے اس کے چہرہ کو دیکھ کر یقین کیا کہ یہ سچا ہے ۔ہم کو غم کھا رہا ہے اور یہ بے فکر اور بے غم مسکرا مسکرا کر باتیں کر رہا ہے ۔اس طرح کہ گویا حق تعالیٰ نے آتھم کے معاملہ کا فیصلہ اسی کے اپنے ہاتھ میں دید یا ۔اور پھر اس نے آتھم کا رجوع اور بیقراری دیکھ کر خود اپنی طرف سے مہلت دیدی اور اب اس طرح خوش ہے جس طرح ایک دشمن کو مغلوب کر کے ایک پہلوان پھر محض اپنی دریا دلی سے خودہی اسے چھوڑدیتا ہے کہ جائو ہم تم پر رحم کرتے ہیں ۔ ہم مرے کو مارنا اپنی ہتک سمجھتے ہیں ۔
لیکھرام کی پیشگوئی پو ری ہوئی مخبروں نے فوراً اتہام لگانے شروع کئے ۔پولیس میں تلاشی کی درخواست کی گئی۔ صاحب سپر نٹنڈنٹ پولیس یکا یک تلاشی کیلئے آموجود ہوئے ۔لوگ الگ کر دیئے گئے اندر کے باہر باہر کے اندر نہیں جاسکتے ۔مخالفین کا یہ زور کہ ایک حرف بھی تحریر کا مشتبہ نکلے تو پکڑ لیں مگر آپ کا یہ عالم کہ وہی خوشی اور مسرت چہرہ پر ہے اور خود پولیس افسروں کو لیجا لیجا کر اپنے بستے اور کتابیں تحریریں اور خطوط اور کوٹھریاں اور مکان دکھا رہے ہیں ۔کچھ خطوط انہوں نے مشکوک سمجھ کر اپنے قبضہ میں بھی کر لئے ہیں ۔مگر یہاں وہی چہرہ ہے اور وہی مسکراہٹ ۔گویا نہ صرف بے گناہی بلکہ ایک فتح مبین اور اتمام حجت کا موقعہ نزدیک آتا جاتا ہے ۔ بر خلاف اس کے باہر جو لوگ بیٹھے ہیں ان کے چہروں کو دیکھو وہ ہر ایک کانسٹیبل کو باہر نکلتے اور اندر جاتے دیکھ دیکھ کرسہمے جاتے ہیں ۔ان کا رنگ فق ہے ان کو یہ معلوم نہیں کہ اندر تو وہ جس کی آبرو کا انہیں فکر ہے خود افسروں کو بلا بلا کر اپنے بستے اور اپنی تحریریں دکھلا رہا ہے اور اسکے چہرے پر ایک مسکراہٹ ایسی ہے جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اب حقیقت پیشگوئی کی پورے طور پر کھلے گی اور میرا دامن ہر طرح کی آلائش اور سازش سے پاک ثابت ہو گا۔
غرض یہی حالت تمام مقدمات ،ابتلائوں مصائب اور مباحثات میں رہی اور یہ وہ اطمینان قلب کا اعلیٰ اوراکمل نمونہ تھا جسے دیکھ کر بہت سی سعید روحیں ایمان لے آئی تھیں ۔
آپ کے بال :۔ آپ کے سرکے بال نہایت باریک سیدھے ،چکنے ،چمکدار اور نرم تھے اور مہندی کے رنگ سے رنگین رہتے تھے ۔گھنے اور کثرت سے نہ تھے بلکہ کم کم اور نہایت ملائم تھے ۔گردن تک لمبے تھے ۔ آپ نہ سر منڈواتے تھے نہ خشخاش یا اس کے قریب کتر واتے تھے بلکہ اتنے لمبے رکھتے تھے جیسے عام طور پر پٹے رکھے جاتے ہیں ۔سر میں تیل بھی ڈالتے تھے ۔چنبیلی یا حنا وغیرہ کا ۔یہ عادت تھی کہ بال سو کھے نہ رکھتے تھے ۔
ریش مبارک :۔ آپ کی داڑھی اچھی گھندار تھی ،بال مضبوط ،موٹے اور چمکدار سیدھے اور نرم ،حنا سے سرخ رنگے ہوئے تھے ۔ ڈاڑھی کو لمبا چھوڑ کر حجامت کے وقت فاضل آپ کتروا دیتے تھے یعنی بے ترتیب اور ناہموار نہ رکھتے تھے بلکہ سیدھی نیچے کو اور برابر رکھتے تھے ۔داڑھی میں بھی ہمیشہ تیل لگا یا کرتے تھے ۔ایک دفعہ ایک پھنسی گال پر ہونے کی وجہ سے وہاں سے کچھ بال پورے بھی کتروائے تھے اور وہ تبرک کے طور پر لوگوں کے پاس اب تک موجود ہیں ۔ریش مبارک تینوں طرف چہرہ کے تھی ۔اور بہت خوبصورت ۔نہ اتنی کم کہ چھدری اور نہ صرف ٹھوڑھی پر ہو نہ اتنی کہ آنکھوں تک بال پہنچیں ۔
وسمہ مہندی :۔ابتداء ایام میں آپ وسمہ اور مہندی لگا یا کرتے تھے ۔پھر دماغی دورے بکثرت ہو نے کی وجہ سے سر اور ریش مبارک پر آخر عمر تک مہندی ہی لگاتے رہے وسمہ ترک کردیا تھا ۔البتہ کچھ روز انگریزی وسمہ بھی استعمال فرمایا مگر پھر ترک کر دیا ۔آخری دنوں میں میر حامد شاہ صاحب سیالکوٹی نے ایک وسمہ تیار کر کے پیش کیا تھا وہ لگاتے تھے ۔اس سے ریش مبارک میں سیاہی آگئی تھی ۔مگر اس کے علاوہ ہمیشہ برسوں مہندی پر ہی اکتفا کی جو اکثر جمعہ کے جمعہ یا بعض اوقات اور دنوں میں بھی آپ نائی سے لگوا یا کر تے تھے ۔
ریش مبارک کی طرح موچھوں کے با ل بھی مضبوط اور اچھے موٹے اور چمکدار تھے ۔آپ لبیں کترواتے تھے۔مگرنہ اتنی کہ جو وہابیوں کی طرح مونڈی ہوئی معلوم ہوں نہ اتنی لمبی کہ ہونٹ کے کنارے سے نیچی ہوں ۔
جسم پر آپ کے بال صرف سامنے کی طرف تھے ۔پشت پر نہ تھے اور بعض اوقات سینہ اور پیٹ کے بال آپ مونڈ دیا کرتے تھے یا کتر وا دیتے تھے ۔پنڈلیوں پر بہت کم بال تھے اور جو تھے وہ نرم اور چھوٹے اس طرح ہاتھوں کے بھی۔
چہرۂ مبارک :۔ آپکا چہرہ کتابی یعنی معتدل لمبا تھا اور حالانکہ عمر شریف ۷۰اور ۸۰کے درمیان تھی پھر بھی جھریوں کا نام و نشان نہ تھا ۔اور نہ متفکر اور غصّہ ور طبیعت والوں کی طرح پیشانی پر شکن کے نشانات نمایاں تھے ۔ رنج ،فکر ،تردد یا غم کے آثار چہرہ پر دیکھنے کی بجائے زیارت کنند ہ اکثر تبسم اور خوشی کے آثار ہی دیکھتا تھا ۔
آپ کی آنکھوں کی سیاہی ،سیاہی مائل شربتی رنگ کی تھی اور آنکھیں بڑی بڑی تھیں مگر پپوٹے اس وضع کے تھے کہ سوائے اس وقت کے جب آ پ ان کو خاص طور پر کھولیں ہمیشہ قدرتی غض بصر کے رنگ میں رہتی تھیں بلکہ جب مخاطب ہو کربھی کلام فرماتے تھے تو آنکھیں نیچی ہی رہتی تھیں اسی طرح جب مردانہ مجالس میں بھی تشریف لے جاتے تو بھی اکثرہر وقت نظر نیچے ہی رہتی تھی ۔گھر میں بھی بیٹھتے تو اکثر آپ کو یہ نہ معلوم ہوتا کہ اس مکان میں اور کون کون بیٹھا ہے ۔ اس جگہ یہ بات بھی بیان کے قابل ہے کہ آپ نے کبھی عینک نہیں لگائی اور آپ کی آنکھیں کام کرنے سے کبھی نہ تھکتی تھیں۔ خدا تعالیٰ کا آپ کے ساتھ حفاظت عین کا ایک وعدہ تھا جس کے ماتحت آپ کی چشمانِ مبارک آخر وقت تک بیماری اور تکان سے محفوظ رہیں البتہ پہلی رات کا ہلال آپ فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں نظر نہیں آتا ۔ناک حضرت اقدس کی نہایت خوبصورت اور بلند بالا تھی ،پتلی ،سیدھی ،اونچی اور موزوں نہ پھیلی ہو ئی تھی نہ موٹی ۔کان آنحضور کے متوسط یا متوسط سے ذرا بڑے ۔نہ باہر کو بہت بڑھے ہوئے نہ بالکل سر کے ساتھ لگے ہو ئے ۔قلمی آم کی قاش کی طرح اوپر سے بڑے نیچے سے چھوٹے ۔قوت شنوائی آپ کی آخر وقت تک عمدہ اور خدا کے فضل سے برقرار رہی ۔
رخسار مبارک آپ کے نہ پچکے ہوئے اندر کو تھے نہ اتنے موٹے کہ باہر کو نکل آویں ۔نہ رخساروں کی ہڈیاں اُبھری ہوئی تھیں ۔بھنویں آپ کی الگ الگ تھیں ۔پیوستہ ابرونہ تھے ۔
پیشانی اور سر مبارک:۔ پیشانی مبارک آپ کی سیدھی اور بلند اور چوڑی تھی اور نہایت درجہ کی فراست اور ذہانت آپ کے جبیں سے ٹپکتی تھی ۔علم قیافہ کے مطابق ایسی پیشانی بہترین نمونہ اعلیٰ صفات اور اخلاق کا ہے ۔ یعنی جو سیدھی ہو نہ آگے کو نکلی ہوئی نہ پیچھے کو دھسی ہوئی اور بلند ہو یعنی اونچی اور کشادہ ہو ا ور چوڑی ہو ۔بعض پیشانیاں گواونچی ہوں مگر چوڑان ماتھے کی تنگ ہوتی ہے ،آپ میں یہ تینوں خوبیاں جمع تھیں ۔اور پھر یہ خوبی کہ چیں بجبیں بہت کم پڑتی تھی۔سَر آپکا بڑا تھا ،خوبصورت بڑا تھا ،اور علم قیافہ کی رو سے ہر سمت سے پورا تھا ۔یعنی لمبا بھی تھا ،چوڑا بھی تھا ،اونچا بھی اور سطح اوپر کی ۔اکثر حصہ ہموار اور پیچھے سے بھی گولائی درست تھی ۔آپ کی کنپٹی کشادہ تھی اور آپ کی کمال عقل پر دلالت کرتی تھی۔‘
لب مبارک :۔ آپ کے لب مبارک پتلے نہ تھے مگر تاہم ایسے موٹے بھی نہ تھے کہ برے لگیں ۔دہانہ آپ کا متوسط تھا۔اور جب بات نہ کرتے ہوںتو منہ کھلا نہ رہتا تھا ۔بعض اوقات مجلس میں جب خاموش بیٹھے ہوں تو آپ عمامہ کے شملہ سے دہان مبارک ڈھک لیا کرتے تھے ۔دندان مبارک آپ کے آخر عمر میں کچھ خراب ہوگئے تھے یعنی کیڑا بعض ڈاڑھوں کو لگ گیا تھا جس سے کبھی کبھی تکلیف ہو جاتی تھی ۔چنانچہ ایک دفعہ ایک ڈاڑھ کا سرا ایسا نوکدار ہو گیا تھا کہ اس سے زبان میں زخم پڑگیا تو ریتی کے ساتھ اس کو گھسوا کر برابر بھی کرایا تھا ۔مگر کبھی کوئی دانت نکلوایا نہیں ۔مسواک آپ اکثر فرمایا کرتے تھے ۔
پیر کی ایڑیاں آپ کی بعض دفعہ گرمیوں کے موسم میں پھٹ جایا کرتی تھیں ۔اگرچہ گرم کپڑے سردی گرمی برابر پہنتے تھے۔تاہم گرمیوں میں پسینہ بھی خوب آجاتا تھا مگر آپ کے پسینہ میں کبھی بو نہیں آتی تھی خواہ کتنے ہی دن بعد کرتا بدلیں اور کیسا ہی موسم ہو ۔
گردن مبارک :۔ آپ کی گردن متوسط لمبائی اور موٹائی میں تھی ۔آپ اپنے مطاع نبی کریم ﷺ کی طرح ان کے اتباع میں ایک حد تک جسمانی زینت کا خیال ضرور رکھتے تھے ۔غسل جمعہ ،حجامت ،حنا ، مسواک روغن اور خوشبو ۔کنگھی اور آئینہ کا استعمال برابر مسنون طریق پر آپ فرمایا کرتے تھے مگر ان باتوں میں انہماک آپ کی شان سے بہت دُور تھا ۔
لباس:۔ سب سے اوّل یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ آپ کو کسی قسم کے خاص لباس کا شوق نہ تھا۔آخری ایّام کے کچھ سالوں میں آپ کے پاس کپڑے سادے اور سلے سلائے بطور تحفہ کے بہت آتے تھے ۔ خاص کر کوٹ صدری اور پائجامہ قمیض وغیرہ جو اکثر شیخ رحمت اللہ صاحب لاہوری ہر عید بقر عید کے موقعہ پر اپنے ہمراہ نذر لاتے تھے وہی آپ استعمال فرمایا کرتے تھے ۔مگر علاوہ ان کے کبھی کبھی آپ خود بھی بنوا لیا کرتے تھے ۔ عمامہ تو اکثر خود ہی خرید کر باندھتے تھے ۔جس طرح کپڑے بنتے تھے اور استعمال ہوتے تھے اُس طرح ساتھ ساتھ خرچ بھی ہوتے جاتے تھے یعنی ہر وقت تبرک مانگنے والے طلب کرتے رہتے تھے۔ بعض دفعہ تو یہ نوبت پہنچ جاتی کہ آپ ایک کپڑا بطور تبرک کے عطا فرماتے تو دوسرا بنوا کر اس وقت پہننا پڑتا اور بعض سمجھدار اس طرح بھی کرتے تھے کہ مثلاً ایک کپڑا اپنا بھیج دیا اور ساتھ عرض کر دیا کہ حضور ایک اپنا اتراہوا تبرک مرحمت فرما دیں ۔
خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا۔ اب آپ کے لباس کی ساخت سُنئے۔عموماً یہ کپڑے آپ زیب تن فرمایا کرتے تھے ۔ کرتہ یا قمیض ،پائجامہ ،صدری ،کوٹ ، عمامہ ۔اس کے علاوہ رومال بھی ضرور رکھتے تھے اور جاڑوں میں جرابیں۔ آپ کے سب کپڑوں میں خصوصیت یہ تھی کہ وہ بہت کھلے کھلے ہو تے تھے ۔اور اگرچہ شیخ صاحب مذکور کے آور دہ کوٹ انگریزی طرز کے ہوتے مگر وہ بھی بہت کشادہ اور لمبے یعنی گھٹنوں سے نیچے ہوتے تھے اور جبّے اور چوغہ بھی جو آپ پہنتے تھے تو وہ بھی ایسے لمبے کہ بعض تو ان میں سے ٹخنے تک پہنچتے تھے ۔اسی طرح کُرتے اور صدریاں بھی کشادہ ہو تی تھیں ۔
بنیان آپ کبھی نہ پہنتے تھے بلکہ اس کی تنگی سے گھبراتے تھے ۔گرم قمیض جو پہنتے تھے ان کا اکثر اوپر کا بٹن کُھلارکھتے تھے ۔اسی طرح صدری اور کوٹ کا اور قمیض کے کفوں میں اگر بٹن ہوں تو وہ بھی ہمیشہ کُھلے رہتے تھے۔ آپکا طرز عمل ’’ مَااَنَا مِنَ الْمُتَکَلِّفِیْنَ ‘‘ کے ماتحت تھا کہ کسی مصنوعی جکڑ بندی میں جو شرعاً غیرضروری ہے پابند رہنا آپ کے مزاج کے خلاف تھا اور نہ آپ کو کبھی پروا ہ تھی کہ لباس عمدہ ہے یا برش کیا ہواہے یا بٹن سب درست لگے ہوئے ہیں یانہیں صرف لباس کی اصلی غرض مطلوب تھی ۔با رہا دیکھا گیا کہ بٹن اپنا کاج چھوڑ کر دوسرے ہی میں لگے ہو ئے ہوتے تھے بلکہ صدری کے بٹن کو ٹ کے کاجوں میں لگائے ہو ئے دیکھے گئے ۔آپ کی توجہ ہمہ تن اپنے مشن کی طرف تھی اور اصلاح امت میں اتنے محو تھے کہ اصلاح لباس کی طرف توجہ نہ تھی۔آپ کا لباس آخر عمر میں چند سال سے بالکل گرم وضع کا ہی رہتا تھا ۔ یعنی کوٹ اور صدری اور پاجامہ گرمیوں میں بھی گرم رکھتے تھے اور یہ علالت طبع کے باعث تھا ۔سردی آپ کو موافق نہ تھی ۔ا س لئے اکثر گرم کپڑے رکھا کرتے تھے۔ البتہ گرمیوں میں نیچے کرتہ ململ کا رہتا تھا بجائے گرم کُرتے کے۔ پاجامہ آپ کا معروف شرعی وضع کا ہو تا تھا ( پہلے غرارہ یعنی ڈھیلا مردانہ پاجامہ بھی پہنا کرتے تھے ۔مگر آخر عمر میں ترک کردیا تھا ) مگر گھر میں گرمیوں میں کبھی کبھی دن کو اور عادتًا رات کے وقت تہ بند باندھ کر خواب فرمایا کرتے تھے ۔
صدری گھر میں اکثر پہنے رہتے مگر کوٹ عموماً باہر جاتے وقت ہی پہنتے اور سردی کی زیادتی کے دنوں میں اوپر تلے دو دو کوٹ بھی پہنا کرتے بلکہ بعض اوقات پو ستین بھی ۔
صدری کی جیب میں یا بعض اوقات کو ٹ کی جیب میں آپکا رومال ہوتا تھا ۔آپ ہمیشہ بڑا رومال رکھتے تھے ۔نہ کہ چھوٹا جنٹلمینی رومال جو آج کل کا بہت مروج ہے اسی کے کونو ں میں آپ مشک اور ایسی ہی ضروری ادویہ جو آپ کے استعمال میں رہتی تھیں اور ضروری خطوط وغیرہ باندھ رکھتے تھے اور اسی روما ل میں نقد وغیرہ جو نذر لوگ مسجد میں پیش کر دیتے تھے باندھ لیا کر تے ۔
گھڑی بھی ضرور آپ اپنے پاس رکھا کرتے مگر اس کی کنجی دینے میں چونکہ اکثرناغہ ہو جا تا اس لئے اکثر وقت غلط ہی ہوتا تھا ۔اور چونکہ گھڑی جیب میں سے اکثر نکل پڑتی اس لئے آپ اسے بھی رومال میں باندھ لیا کرتے ۔گھڑی کو ضرورت کیلئے رکھتے نہ زیبائش کیلئے ۔
آ پ کو دیکھ کر کوئی شخص ایک لمحہ کیلئے بھی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ اس شخص کی زندگی میں یا لباس میں کسی قسم کا بھی تصنع ہے یا یہ زیب و زینت دنیوی کا دلدادہ ہے ۔ہاں البتہ وَالرُّجْزَ فَاھْجُرْ کے ماتحت آپ صاف اور ستھری چیز ہمیشہ پسند فرماتے اور گندی اور میلی چیز سے سخت نفرت رکھتے ۔
صفائی کا اس قدر اہتمام تھا کہ بعض اوقات آدمی موجود نہ ہوتو بیت الخلا میں خود فینائل ڈالتے تھے۔ عمامہ شریف آپ ململ کا باندھا کرتے تھے اور اکثر دس گز یا کچھ اوپر لمبا ہو تا تھا ۔شملہ آپ لمبا چھوڑتے تھے کبھی کبھی شملہ کو آگے ڈال لیا کر تے اور کبھی اس کا پلّہ دہن مبارک پر بھی رکھ لیتے ۔جبکہ مجلس میں خاموشی ہوتی ۔عمامہ کے باندھنے کی آپ کی خاص وضع تھی ۔نوک تو ضرور سامنے ہوتی مگر سر پر ڈھیلا ڈھالا لپٹا ہوا ہوتا تھا ۔عمامہ کے نیچے اکثر رومی ٹوپی رکھتے تھے اور گھر میں عمامہ اُتار کر صرف یہ ٹوپی ہی پہنے رہا کرتے مگر نرم قسم کی دوہری جو سخت قسم کی نہ ہوتی ۔
جرابیں آپ سردیوں میں استعمال فرماتے اور ان پر مسح فرماتے ۔بعض اوقات زیادہ سردی میں دو دو جرابیں اوپر تلے چڑھا لیتے ۔مگر بار ہا جراب اس طرح پہن لیتے کہ وہ پیر پر ٹھیک نہ چڑھتی ۔کبھی تو سرا آگے لٹکتا رہتا اور کبھی جراب کی ایڑی کی جگہ پیر کی پشت پر آجاتی ۔کبھی ایک جراب سیدھی دوسری الٹی ۔اگر جراب کہیں سے کچھ پھٹ جاتی تو بھی مسح جائز رکھتے بلکہ فرماتے تھے کہ رسول ﷺ کے اصحاب ایسے موزوں پر بھی مسح کر لیا کرتے تھے جس میں سے ان کی انگلیوں کے پوٹے باہر نکلے رہا کرتے ۔
جوتی آپ کی دیسی ہو تی ،خواہ کسی وضع کی ہو ،پوٹھواری ،لاہوری ۔لدھیانوی ، سلیم شاہی ہر وضع کی پہن لیتے مگر ایسی جو کھلی کھلی ہو ۔انگریزی بوٹ کبھی نہیں پہنا ۔گر گابی حضرت صاحب کو پہنے میں نے نہیں دیکھا ۔
جوتی اگر تنگ ہوتی تو اس کی ایڑی بٹھا لیتے مگر ایسی جوتی کے ساتھ با ہر تشریف نہیں لیجاتے تھے ۔ لباس کے ساتھ ایک چیز کا اور بھی ذکر کردیتا ہوں وہ یہ کہ آپ عصاضرور رکھتے تھے ۔گھر میں یا جب مسجد مبارک میں روزانہ نماز کو جانا ہوتا تب تو نہیں مگر مسجد اقصٰی کو جانے کے وقت یا جب با ہر سیر وغیرہ کیلئے تشریف لاتے تو ضرور ہاتھ میں ہو ا کرتا تھا ۔اور موٹی اور مضبوط لکڑی کو پسند فرماتے مگر کبھی اس پر سہارا یا بوجھ دے کر نہ چلتے تھے جیسے اکثر ضعیف العمر آدمیوں کی عادت ہوتی ہے۔
موسم سرما میں ایک دھسّہ لیکر آپ مسجدمیں نماز کیلئے تشریف لایا کرتے تھے جو اکثر آپ کے کندھے پر پڑا ہوا ہوتا تھا ۔اور اسے اپنے آگے ڈال لیا کرتے تھے ۔جب تشریف رکھتے توپھر پیروں پر ڈال لیتے ۔
کپڑوں کی احتیاط کا یہ عالم تھا کہ کوٹ ،صدری ، ٹوپی ،عمامہ رات کو اُتار کر تکیہ کے نیچے ہی رکھ لیتے اور رات بھر تمام کپڑے جنہیں محتاط لوگ شکن اور میل سے بچانے کو الگ جگہ کھونٹی پر ٹانک دیتے ہیں۔ وہ بستر پر سر اور جسم کے نیچے ملے جاتے اور صبح کو ان کی ایسی حالت ہو جاتی کہ اگر کو ئی فیشن کا دلدادہ اور سلوٹ کا دشمن ان کو دیکھ لے تو سر پِیٹ لے ۔
موسم گرما میںدن کو بھی اور رات کو تو اکثر آپ کپڑے اُتار دیتے اور صرف چادر یا لنگی باندھ لیتے۔ گرمی دانے بعض دفعہ بہت نکل آتے توا س کی خاطر بھی کرتہ اُتاردیا کرتے ۔تہ بند اکثر نصف ساق تک ہوتا تھا اور گھٹنوں سے اوپر ایسی حالتوں میں مجھے یاد نہیں کہ آپ بر ہنہ ہو ئے ہوں ۔
آپ کے پاس کچھ کنجیاں بھی رہتی تھیں یہ یا تو رومال میں یا اکثر ازار بند میں باندھ کر رکھتے۔ روئی دار کوٹ پہننا آپ کی عادت میں داخل نہ تھا ۔نہ ایسی رضائی اوڑھ کر باہر تشریف لاتے بلکہ چادر پشمینہ کی یا دھسہ رکھا کرتے تھے اور وہ بھی سر پر کبھی نہیں اوڑھتے تھے بلکہ کندھوں اور گردن تک رہتی تھی ۔گلوبند اور دستانوں کی آپکو عادت نہ تھی ۔بستر آپ کا ایسا ہوتا تھا کہ ایک لحاف جس میں پانچ چھ سیر روئی کم از کم ہوتی تھی اور اچھالمبا چوڑا ہوتا تھا ۔چادر بستر کے اوپر اور تکیہ اور توشک ۔توشک آپ گرمی ،جاڑے دونوں موسموں میں بسبب سردی کی نا موافقت کے بچھواتے تھے ۔
تحریر وغیرہ کا سب کام پلنگ پر ہی اکثر فرمایا کرتے اور دوات ،قلم ،بستہ اور کتابیں یہ سب چیزیں پلنگ پر موجود رہا کرتی تھیں کیونکہ یہی جگہ میز کرسی اور لائبریری سب کا کام دیتی تھی ۔اور مَااَنَا مِنَ الْمُتَکَلِّفِیْنَ کا عملی نظارہ خوب واضح طور پر نظر آتا تھا ۔ایک بات کا ذکر کر نا میں بھول گیا وہ یہ کہ آپ امیروں کی طرح ہر روز کپڑے نہ بدلا کرتے تھے بلکہ جب ان کی صفائی میں فرق آنے لگتا تب بدلتے تھے ۔
خوراک کی مقدار :۔ قرآن شریف میں کفار کیلئے وارد ہے یَأْ کُلُوْنَ کَمَا تَأْ کُلُ الْاَنْعَام(محمد:۱۳) اورحدیث شریف میں آیا ہے کہ کافر سات انتڑی میں کھا تا اور مومن ایک میں ۔ مراد ان باتوں سے یہ ہے کہ مومن طیب چیز کھانے والا او ر دنیا دار یا کافر کی نسبت بہت کم خور ہوتا ہے ۔ جب مومن کا یہ حال ہو ا تو پھر انبیاء اور مرسلین علیہم السلام کا تو کیا کہنا ۔ آنحضرت ﷺ کے دستر خوان پر بھی اکثر ایک سالن ہی ہوتا تھا ۔بلکہ سَتّو یا صرف کھجور یا دودھ کا ایک پیالہ ہی ایک غذا ہو ا کرتی تھی۔اسی سنت پر ہمارے حضرت اقدس علیہ السلام بھی بہت ہی کم خور تھے اور بمقابلہ ا س کام اور محنت کے جس میں حضور دن رات لگے رہتے تھے اکثر حضور کی غذا دیکھی جاتی تو بعض اوقات حیرانی سے بے اختیار لوگ یہ کہہ اُٹھتے تھے کہ اتنی خوراک پر یہ شخص زندہ کیونکر رہ سکتا ہے ۔خواہ کھانا کیسا ہی عمدہ اور لذیذ ہو اور کیسی ہی بھوک ہو آپ کبھی حلق تک ٹھونس کر نہیں کھاتے تھے ۔عام طور پر دن میں دو وقت مگر بعض اوقات جب طبیعت خراب ہوتی تو دن بھر میںایک ہی دفعہ کھا نا نوش فرمایا کرتے تھے۔علاوہ اس کے چائے وغیرہ ایک پیالی صبح کو بطور ناشتہ بھی پی لیا کرتے تھے ۔مگر جہاں تک میں نے غور کیا آپ کو لذیذ مزیدار کھانے کا ہر گز شوق نہ تھا۔
اوقات:۔ معمولاً آپ صبح کا کھانا ۱۰بجے سے ظہر کی اذان تک اور شام کا نماز مغرب کے بعد سے سونے کے وقت تک کھا لیا کرتے تھے ۔کبھی شاذو نادر ایسا بھی ہوتا تھا کہ دن کا کھانا آپ نے بعد ظہر کھا یا ہو۔شام کا کھانا مغرب سے پہلے کھانے کی عادت نہ تھی ۔مگرکبھی کبھی کھا لیا کرتے تھے۔مگر معمول دو طرح کا تھا جن دنوں میں آپ بعد مغرب، عشاء تک باہر تشریف رکھاکرتے تھے اور کھانا گھر میں کھاتے تھے ان دنوں میں یہ وقت عشاء کے بعد ہو اکرتا تھا ورنہ مغرب اور عشاء کے درمیان۔
مدتوں آپ باہر مہمانوں کے ہمراہ کھانا کھایا کرتے تھے ۔اور یہ دستر خوان گول کمرہ یا مسجد مبارک میں بچھا کرتا تھا ۔اور خاص مہمان آپ کے ہمراہ دسترخوان پر بیٹھا کرتے تھے ۔یہ عام طور پر وہ لوگ ہوا کرتے تھے جن کو حضرت صاحب نامزد کر دیا کرتے تھے ۔ایسے دسترخوان پر تعداد کھانے والوں کی دس سے بیس پچیس تک ہو جایا کرتی تھی۔
گھر میں جب کھانا نوش جان فرماتے تھے تو آپ کبھی تنہا مگر اکثر ام المومنین اور کسی ایک یا سب بچوں کو ساتھ لیکر تناول فرمایا کرتے تھے ۔یہ عاجز کبھی قادیان میں ہوتا تو اس کوبھی شرف اس خانگی دستر خوان پر بیٹھنے کا مل جایا کرتا تھا۔
سحری آپ ہمیشہ گھر میں ہی تناول فرماتے تھے اور ایک دو موجودہ آدمیوں کے ساتھ یا تنہا ۔ سوائے گھر کے باہر جب کبھی آپ کھانا کھاتے تو آپ کسی کے ساتھ نہ کھاتے تھے یہ آپ کا حکم نہ تھا مگر خدام آپ کو عزت کی وجہ سے ہمیشہ الگ ہی برتن میں کھانا پیش کیا کرتے تھے ۔اگر چہ اور مہمان بھی سوائے کسی خاص وقت کے الگ الگ ہی برتنوں میں کھایا کرتے تھے ۔
کس طرح کھانا تناول فرماتے تھے :۔جب کھانا آگے رکھا جاتا یا دسترخوان بچھتا تو آپ اگر مجلس میں ہوتے تو یہ پوچھ لیا کرتے ۔کیوں جی شروع کریں؟مطلب یہ کہ کوئی مہمان رہ تو نہیں گیا یا سب کے آگے کھانا آگیا ۔پھر آپ جواب ملنے پر کھانا شروع کرتے اور تمام دوران میں نہایت آہستہ آہستہ چبا چبا کر کھاتے ۔کھانے میں کوئی جلدی آپ سے صادر نہ ہوتی آپ کھانے کے دوران میں ہر قسم کی گفتگو فرمایا کرتے تھے ۔سالن آپ بہت کم کھاتے تھے ۔اور اگر کسی خاص دعوت کے موقعہ پر دو تین قسم کی چیزیں سامنے ہو ں تو اکثر صرف ایک ہی پر ہاتھ ڈالا کرتے تھے اور سالن کی جو رکابی آپ کے آگے سے اُٹھتی تھی وہ اکثر ایسی معلوم ہوتی تھی کہ گویا اسے کسی نے ہاتھ بھی نہیں لگایا ۔بہت بوٹیاں یا ترکاری آپ کو کھانے کی عادت نہ تھی بلکہ صرف لعاب سے اکثر چھوا کر ٹکڑا کھا لیا کرتے تھے ۔لقمہ چھوٹا ہوتا تھا اور روٹی کے ٹکڑے آپ بہت سے کر لیا کرتے تھے ۔اور یہ آپ کی عادت تھی دسترخوان سے اُٹھنے کے بعد سب سے زیادہ ٹکڑے روٹی کے آپ کے آگے سے ملتے تھے اور لوگ بطور تبرک کے اُن کو اُٹھا کر کھا لیا کرتے تھے ۔آپ اس قدر کم خور تھے کہ باوجود یہ کہ سب مہمانوں کے برابر آپ کے آگے کھانا رکھا جاتا تھا مگر پھر بھی سب سے زیادہ آپ کے آگے سے بچتا تھا۔
بعض دفعہ تو دیکھا گیا کہ آپ صرف روکھی روٹی کا نوالہ منہ میں ڈال لیا کرتے تھے ۔اور پھر انگلی کا سرا شوربہ میں تر کر کے زبان سے چھوا دیا کرتے تھے تا کہ لقمہ نمکین ہو جاوے ۔ پچھلے دنوں میں جب آپ گھر میں کھانا کھاتے تھے تو آپ اکثر صبح کے وقت مکی کی روٹی کھایا کرتے تھے ۔اور اس کے ساتھ کوئی ساگ یاصرف لسّی کا گلاس یا کچھ مکھن ہوا کرتا تھا یا کبھی اچار سے بھی لگا کر کھا لیا کرتے تھے ۔آپ کا کھانا صرف اپنے کام کے لئے قوّت حاصل کرنے کے لئے ہواکرتا تھا نہ کہ لذت نفس کے لئے۔بارہا آپ نے فرمایا کہ ہمیں توکھانا کھا کر یہ بھی معلوم نہ ہواکہ کیا پکا تھااور ہم نے کیا کھایا۔
ہڈیاں چوسنے اور بڑا نوالہ اُٹھانے، زور زور سے چپّڑچپّڑ کرنے ،ڈکاریں مارنے یا رکابیاں چاٹنے یا کھانے کے مدح و ذم اور لذائذکا تذکرہ کرنے کی آپ کو عادت نہ تھی ۔بلکہ جو پکتا تھا وہ کھا لیا کرتے تھے۔ کبھی کبھی آپ پا نی کا گلاس یا چائے کی پیالی بائیں ہاتھ سے پکڑ کرپیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ ابتدائی عمر میں دائیں ہاتھ پر ایسی چوٹ لگی تھی کہ اب تک بوجھل چیز اس ہاتھ سے برداشت نہیں ہوتی۔ اکڑوں بیٹھ کر آپ کو کھانے کی عادت نہ تھی بلکہ آلتی پالتی مار کر بیٹھتے یا بائیں ٹانگ بٹھا دیتے اور دائیاں گھٹنا کھڑا رکھتے۔
کیا کھاتے تھے؟ میں نے پہلے ذکر کیا ہے کہ مقصد آپ کے کھانے کا صر ف قوّت قائم رکھنا تھا نہ کہ لذت اور ذائقہ اُٹھانا اس لئے آپ صرف وہ چیزیں ہی کھاتے تھے جو آپ کی طبیعت کے موافق ہوتی تھیں اور جن سے دماغی قوّت قائم رہتی تھی تاکہ آپ کے کام میں حرج نہ ہوعلاوہ بریں آپ کوچند بیماریاں بھی تھیں۔ جن کی وجہ سے آپ کو کچھ پرہیز بھی رکھنا پڑتا تھا مگر عام طور پر آپ سب طیبات ہی استعمال فرمالیتے تھے اور اگرچہ آپ سے اکثر یہ پوچھ لیا جاتا تھا کہ آج آپ کیا کھائیں گے مگر جہاں تک ہمیں معلو م ہے خواہ کچھ پکاہوآپ اپنی ضرورت کے مطابق کھا ہی لیا کرتے تھے اور کبھی کھانے کے بد مزہ ہونے پر اپنی ذاتی وجہ سے خفگی نہیں فرمائی بلکہ اگر خراب پکے ہوئے کھانے اور سالن پر ناپسندیدگی کا اظہار بھی فرمایا تو صرف اس لئے اور یہ کہہ کر کہ مہمانوں کو یہ کھانا پسند نہ آیا ہوگا ۔
روٹی آپ تندوری اور چولہے کی دونوں قسم کی کھاتے تھے۔ ڈبل روٹی چائے کے ساتھ یا بسکٹ اوربکرم بھی استعمال فرما لیا کرتے تھے ۔بلکہ ولائتی بسکٹوں کو بھی جائز فرماتے تھے اس لئے کہ ہمیں کیا معلوم کہ اس میں چربی ہے کیونکہ بنانے والوں کا ادعاتو مکھن ہے اور پھر ہم ناحق بد گمانی اور شکوک میں کیوں پڑیں ۔مکی کی روٹی بہت مدت آپ نے آخری عمر میں استعمال فرمائی ۔کیونکہ آخری سات آٹھ سال سے آپ کو دستوں کی بیماری ہو گئی تھی اور ہضم کی طاقت کم ہو گئی تھی علاوہ ان روٹیوں کے آپ شیر مال کو بھی پسند فرماتے تھے اور باقر خانی اور قلچہ وغیرہ غرض جو جو اقسام روٹی کے سامنے آجایا کرتے تھے آپ کسی کو رد نہ فرماتے تھے ۔
سالن آپ بہت کم کھاتے تھے ۔گوشت آپ کے ہاں دو وقت پکتا تھا مگر دال آپ کو گوشت سے زیادہ پسند تھی یہ دال ماش کی یا اوڑدھ کی ہوتی تھی جس کے لئے گورداسپور کاضلع مشہور ہے۔ سالن ہر قسم کا اور ترکاری عام طور پر ہر طرح کی آپ کے دسترخوان پر دیکھی گئی ہے اور گوشت بھی ہر حلال اور طیّب جانور کا آپ کھاتے تھے ۔ پرندوں کا گوشت آپ کو مرغوب تھا اس لئے بعض اوقات جب طبیعت کمزور ہوتی تو تیتر ، فاختہ وغیرہ کے لئے شیح عبدالرحیم صاحب نو مسلم کو ایسا گوشت مہیا کرنے کو فرمایا کرتے تھے۔مرغ اور بٹیروں کا گوشت بھی آپ کو پسند تھا مگر بٹیرے جب سے کہ پنجاب میں طاعون کا زور ہوا کھانے چھوڑ دیئے تھے ۔بلکہ منع کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ اس کے گوشت میں طاعون پیدا کرنے کی خاصیت ہے ۔اور بنی اسرائیل میں اس کے کھانے سے سخت طاعون پڑی تھی۔ حضور ؑ کے سامنے دو ایک دفعہ گوہ کا گوشت پیش کیا گیامگر آپ نے فرمایا کہ جائز ہے ۔جس کا جی چاہے کھا لے مگر حضور ﷺ نے چونکہ اس سے کراہت فرمائی اس لئے ہم کو بھی اس سے کراہت ہے ۔اور جیسا کہ وہاں ہوا تھا یہاں بھی لوگوں نے آپ کے مہمان خانہ بلکہ گھر میں بھی کچھ بچوں اور لوگوں نے گوہ کا گوشت کھایا مگر آپ نے اسے اپنے قریب نہ آنے دیا ۔ مرغ کا گوشت ہر طرح کاآپ کھا لیتے تھے ۔سالن ہو یا بھنا ہوا۔ کباب ہو یا پلاؤ ۔مگر اکثر ایک ران پر ہی گذارہ کر لیتے تھے ۔اور وہی آپ کو کافی ہو جاتی تھی بلکہ کبھی کچھ بچ بھی رہا کرتا تھا ۔ پلاؤ بھی آپ کھاتے تھے مگر ہمیشہ نرم اور گدازاور گلے گلے ہوئے چاولوں کااور میٹھے چاول تو کبھی خود کہہ کر پکوالیا کرتے تھے ۔ مگر گڑکے اور وہی آپ کو پسند تھے ۔عمدہ کھانے یعنی کباب ،مرغ ،پلاؤ یا انڈے اور اسی طرح فیرنی میٹھے چاول وغیرہ تب ہی آپ کہہ کر پکوا یا کرتے تھے جب ضعف معلوم ہوتا تھا۔جن دنوں میں تصنیف کا کام کم ہوتا یا صحت اچھی ہوتی ان دنوںمیں معمولی کھانا ہی کھاتے تھے اور وہ بھی کبھی ایک وقت ہی صرف اور دوسرے وقت دودھ وغیرہ سے گذارہ کر لیتے ۔ دودھ ،بالائی،مکھن یہ اشیاء بلکہ بادام روغن تک صرف قوّت کے قیام اور ضعف کے دور کرنے کو استعمال فرماتے تھے اور ہمیشہ معمولی مقدار میں۔ بعض لوگوں نے آپ کے کھانے پر اعتراض کئے ہیں ۔ مگر اُن بیوقوفوں کو یہ خبر نہیں کہ ایک شخص جو عمر میں بوڑھا ہے اور اُسے کئی امراض لگے ہوئے ہیں اور باوجود ان کے وہ تمام جہان سے مصروف پیکار ہے۔ایک جماعت بنا رہا ہے جس کے فرد فرد پر اس کی نظر ہے ۔اصلاح امّت کے کام میں مشغول ہے ۔ہر مذہب سے الگ الگ قسم کی جنگ ٹھنی ہوئی ہے ۔دن رات تصانیف میں مصروف ہے جو نہ صرف اردو بلکہ فارسی اور عربی میں اور پھر وہی اُن کو لکھتا اور وہی کاپی دیکھتا ۔وہی پروف درست کرتا اور وہی اُن کی اشاعت کا انتظام کرتا ہے ۔پھر سینکڑوں مہمانوں کے ٹھہرنے اُترنے اور علیٰ حسب مراتب کھلانے کا انتظام ۔ مباحثات اور وفود کا اہتمام ۔ نمازوں کی حاضری۔ مسجد میںروزانہ مجلسیں اور تقریریں ۔ہر روز بیسیوں آدمیوں سے ملاقات ۔پھر ان سے طرح طرح کی گفتگو ۔مقدمات کی پیروی ۔روزانہ سینکڑوں خطوط پڑھنے اور پھر ان میں سے بہتوں کے جواب لکھنے اورپھر گھر میں اپنے بچو ں اور اہل بیت کو بھی وقت دینا اور باہر گھر میں بیعت کا سلسلہ اور نصیحتیں اور دعائیں ۔ غرض اس قدر کام اور دماغی محنتیں اور تفکرات کے ہوتے ہوئے اور پھر تقاضائے عمر اور امراض کی وجہ سے اگر صرف اس عظیم الشان جہاد کے لئے قوّت پیدا کرنے کو وہ شخص بادام روغن استعمال کرے تو کون بیوقوف اور نا حق شناس ظالم طبع انسان ہے جو اس کے اس فعل پر اعتراض کرے ۔کیا وہ نہیں جانتا کہ بادام روغن کوئی مزیدار چیز نہیں اور لوگ لذت کے لئے اس کا استعمال نہیں کرتے ۔پھر اگر مزے کی چیز بھی استعمال کی تو ایسی نیت اور کام کرنے والے کے لئے تو وہ فرض ہے ۔حالانکہ ہمارے جیسے کاہل الوجود انسانوں کے لئے وہی کھانے تعیش میں داخل ہیں ۔
اور پھر جس وقت دیکھا جائے کہ وہ شخص ان مقوی غذاؤں کو صرف بطور قوت لایموت اور سدِّ رمق کے طور پر استعمال کرتا ہے تو کون عقل کا اندھا ایسا ہو گا کہ اس خوراک کو لذائذ حیوانی اور حظوظ نفسانی سے تعبیر کرے ۔ خدا تعالیٰ ہر مومن کوبد ظنی سے بچائے۔
دودھ کا استعمال آپ اکثر رکھتے تھے اور سوتے وقت تو ایک گلاس ضرور پیتے تھے اور دن کو بھی پچھلے دنوں میں زیادہ استعمال فرماتے تھے ۔کیونکہ یہ معمول ہو گیا تھا کہ اِدھر دودھ پیا اور اُدھر دست آگیا اس لئے بہت ضعف ہو جاتا تھا ۔ اس کے دور کرنے کو دن میں تین چار مرتبہ تھوڑا تھوڑا دودھ طاقت قائم کرنے کو پی لیا کرتے تھے ۔
دن کے کھانے کے وقت پانی کی جگہ گرمی میں آپ لسّی بھی پی لیا کرتے تھے اور برف موجود ہو تو اس کو بھی استعمال فرما لیتے تھے ۔ان چیزوں کے علاوہ شیرہ ٔبادام بھی گرمی کے موسم میں جس میں چند دانہ مغز بادام اور چند چھوٹی الائچیاں اور کچھ مصری پیس کر چھن کر پڑتے تھے ۔پیا کرتے تھے ۔اور اگر چہ معمولاً نہیں مگر کبھی کبھی رفع ضعف کے لئے آپ کچھ دن متواتر یخنی گوشت یا پاؤں کی پیا کرتے تھے یہ یخنی بھی بہت بدمزہ چیز ہوتی تھی یعنی صرف گوشت کا ابلا ہوا رس ہوا کرتا تھا۔
میوہ جات آپ کو پسند تھے اور اکثر خدام بطور تحفہ کے لایا بھی کرتے تھے ۔گاہے بگاہے خود بھی منگواتے تھے ۔ پسندیدہ میووں میں سے آپ کو انگور،بمبئی کا کیلا،ناگپوری سنگترے ،سیب ،سردے اور سرولی آم زیادہ پسند تھے ۔باقی میوے بھی گاہے ماہے جو آتے رہتے تھے کھا لیا کرتے تھے۔ گنّا بھی آپ کو پسند تھا۔
شہتوت بیدانہ کے موسم میں آپ بیدانہ اکثر اپنے باغ کی جنس سے منگوا کر کھاتے تھے اور کبھی کبھی ان دنوں سیر کے وقت باغ کی جانب تشریف لے جاتے اور مع سب رفیقوں کے اسی جگہ بیدانہ تڑوا کر سب کے ہمراہ ایک ٹوکرے میںنوش جان فرماتے اور خشک میووں میں سے صرف بادام کو ترجیح دیتے تھے ۔
چائے کا میں پہلے اشارہ کر آیا ہوں آپ جاڑوں میں صبح کو اکثر مہمانوں کے لئے روزانہ بنواتے تھے اور خود بھی پی لیا کرتے تھے ۔مگر عادت نہ تھی ۔سبز چائے استعمال کرتے اور سیاہ کو نا پسند فرماتے تھے ۔ اکثر دودھ والی میٹھی پیتے تھے ۔
زمانہ موجودہ کے ایجادات مثلاً برف اور سوڈا لیمونیڈ جنجر وغیرہ بھی گرمی کے دنوں میں پی لیا کرتے تھے ۔ بلکہ شدّت گرمی میں برف بھی امرتسر ۔لاہور سے خود منگوا لیا کرتے تھے ۔
بازاری مٹھائیوں سے بھی آپ کو کسی قسم کا پرہیز نہ تھا نہ اس بات کی پرچول تھی کہ ہندو کی ساختہ ہے یا مسلمانوں کی ۔لوگوں کی نذرانہ کے طور پر آوردہ مٹھائیوں میں سے بھی کھا لیتے تھے اور خود بھی روپیہ دو روپیہ کی مٹھائی منگوا کر رکھا کرتے تھے ۔مٹھائی بچوں کے لئے ہوتی تھی کیونکہ وہ اکثر حضور ہی کے پاس چیزیں یا پیسہ مانگنے دوڑے آتے تھے ۔میٹھے بھرے ہوئے سموسے یا بیدانہ عام طور پر یہ دو ہی چیزیں آپ ان بچوں کے لئے منگوا رکھتے کیونکہ یہی قادیان میں ان دنوں میں اچھی بنتی تھیں ۔
ایک بات یہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ آپ کو اپنے کھانے کی نسبت اپنے مہمانوں کے کھانے کا زیادہ فکر رہتا تھا اور آپ دریافت فرما لیا کرتے تھے کہ فلاں مہمان کو کیا کیا پسند ہے اور کس کس چیز کی اس کو عادت ہے ۔چنانچہ مولوی محمد علی ایم ۔اے کا جب تک نکاح نہیں ہوا ۔تب تک آپ کو ان کی خاطر داری کا اس قدر اہتمام تھا کہ روزانہ خود اپنی نگرانی میں ان کے لئے دودھ ،چائے ،بسکٹ،مٹھائی ،انڈے وغیرہ برابر صبح کے وقت بھیجا کرتے اورپھر لے جانے والے سے دریافت بھی کر لیتے تھے کہ انہوں نے اچھی طرح سے کھا بھی لیا ۔تب آپ کو تسلّی ہوتی ۔اسی طرح خواجہ صاحب کا بڑا خیال رکھتے اور بار بار دریافت فرمایا کرتے کہ کوئی مہمان بھوکا تو نہیں رہ گیا یا کسی کی طرف سے ملازمانِ لنگر خانہ نے تغافل تو نہیں کیا ۔بعض موقعہ پر ایسا ہوا کہ کسی مہمان کیلئے سالن نہیں بچا یا وقت پر ان کے کھانا رکھنا بھول گیا تو اپنا سالن یا سب کھانا اسکے لئے اُٹھوا کر بھجوا دیا۔
بار ہا ایسا بھی ہو اکہ آپ کے پاس تحفہ میں کو ئی چیز کھانے کی آئی تو یا خود کوئی چیز آپ نے ایک وقت منگوائی پھر اس کا خیال نہ رہا اور وہ صندوق میں پڑی پڑی سڑ گئی یا خراب ہوگئی ۔اور اسے سب کا سب پھینکنا پڑا ۔یہ دنیا دار کا کام نہیں۔
ان اشیاء میں سے اکثر چیزیں تحفہ کے طورپر خدا کے وعدوں کے ماتحت آتی تھیں ۔اور بار ہا ایسا ہوا کہ حضرت صاحب نے ایک چیز کی خواہش فرمائی اور وہ اسی وقت کسی نو وارد یا مرید با اخلاص نے لاکر حاضر کر دی ۔
آپ کو کوئی عادت کسی چیز کی نہ تھی ۔پان ا لبتہ کبھی کبھی دل کی تقویت یا کھانے کے بعد منہ کی صفائی کیلئے یا کبھی گھر میں سے پیش کردیا گیا تو کھا لیا کرتے تھے ۔یا کبھی کھانسی نزلہ یا گلے کی خراش ہو ئی تو بھی استعمال فرمایا کرتے تھے۔حقہ تمباکو کو آپ نا پسند فرمایا کرتے تھے بلکہ ایک موقعہ پر کچھ حقہ نوشوں کو نکال بھی دیا تھا ۔ہاں جن ضعیف العمر لوگوں کو مدت العمر سے عادت لگی ہو ئی تھی ان کو آپ نے بسبب مجبوری کے اجازت دے دی تھی ۔کئی احمدیوں نے تو اس طرح پر حقہ چھوڑا کہ ان کو قادیان میں وارد ہونے کے لئے حقہ کی تلاش میں تکیوں میں یا مرزانظام الدین وغیرہ کی ٹولی میںجانا پڑتا تھا ۔اور حضرت صاحب کی مجلس سے اُٹھ کر وہاں جانا کیونکہ بہشت سے نکل کر دوزخ میں جانے کا حکم رکھتا تھا اس لئے با غیرت لوگوں نے حقہ کو الوداع کہی ۔
ہاتھ دھونا وغیرہ:۔ کھانے سے پہلے عموماً اور بعد میں ضرور ہاتھ دھویا کر تے تھے ۔اور سردیوں میں اکثر گرم پانی استعمال فرماتے۔ صابن بہت ہی کم بر تتے تھے ۔کپڑے یا تولیہ سے ہاتھ پونچھا کرتے تھے ۔ بعض ملانوں کی طرح داڑھی سے چکنے ہاتھ پونچھنے کی عادت ہر گز نہ تھی ۔کلی بھی کھانا کے بعد فرماتے تھے اور خلال بھی ضرور رکھتے تھے جو اکثر کھانے کے بعد کیا کرتے تھے ۔
رمضان کی سحری کیلئے آپ کے لئے سالن یا مرغی کی ایک ران اور فرنی عام طور پر ہوا کرتے تھے اور سادہ روٹی کے بجائے ایک پراٹھا ہو ا کرتا تھا ۔اگرچہ آپ اس میں سے تھوڑا سا ہی کھاتے تھے ۔
کھانے میں مجاہدہ :۔ اس جگہ یہ بھی ذکر کر نا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اوائل عمر میں گوشہ تنہائی میں بہت بہت مجاہدات کئے ہیں اور ایک موقعہ پر متواتر چھ ماہ کے روزے منشاء الہٰی سے رکھے اور خوراک آپکی صرف نصف روٹی یا کم روزہ افطار کر نے کے بعد ہو تی تھی ۔اور سحری بھی نہ کھاتے تھے اور گھر سے جو کھانا آتا وہ چھپا کر کسی مسکین کو دیدیا کرتے تھے ۔تاکہ گھر والوں کو معلوم نہ ہو مگر اپنی جماعت کیلئے عام طورپر آپ نے ایسے مجاہدے پسند نہیں فرمائے بلکہ اس کی جگہ تبلیغی اور قلمی خدمات کو مخالفانِ اسلام کے برخلاف اس زمانہ کا جہاد قرار دیا ۔ پس ایسے شخص کی نسبت یہ خیال کرنا کہ وہ دنیاوی لذتوں کا خواہش مند ہے سراسر ظلم نہیں تو کیا ہے ؟۔
لنگر خانہ میں آپ کے زمانہ میں زیادہ تر دال اور خاص مہمانوں کیلئے گوشت پکا کرتا تھا ۔مگر جلسوں یا عیدین کے موقعہ پر جب کبھی آپ کے بچوں کا عقیقہ یا کوئی اور خوشی کا موقعہ ہو تو آپ عام طور پر اس دن گوشت یا پلائو یا زردہ کا حکم دے دیا کرتے تھے کہ غربا کو بھی اس میں شریک ہو نے کا موقع ملے ۔
الہام:۔ کھانا کھلانے کی بابت آپ کو ایک الہامی حکم ہے ۔ یَا اَیُّھَاالنَّبِیُّ اَطْعِمُوا الْجَا ئِعَ وَالْمُعْتَرّ
(تذکرہ صفحہ ۶۳۱مطبوعہ۲۰۰۴ئ)
یعنی اے نبی بھوکے اور سوال کر نے والے کو کھلائو ۔
ادویات:۔ آپ خاندانی طبیب تھے ۔آپ کے والد ماجد اس علاقہ میں نامی گرامی طبیب گزر چکے ہیں اور آپ نے بھی طب سبقاً سبقاً پڑھی ہے مگر باقاعدہ مطب نہیں کیا ۔کچھ تو خود بیمار رہنے کی وجہ سے اور کچھ چونکہ لوگ علاج پوچھنے آجاتے تھے ۔آپ اکثر مفیدا ور مشہور ادویہ اپنے گھر میں موجود رکھتے تھے نہ صرف یونانی بلکہ انگریزی بھی ۔ اور آخرمیں تو آپکی ادویات کی الماری میں زیادہ تر انگریزی ادویہ ہی رہتی تھیں ۔ مفصل ذکر طبابت کے نیچے آئے گا ۔ یہاں اتنا ذکر کر دینا ضروری ہے کہ آپ کئی قسم کی مقوی دماغ ادویات کا استعمال فرمایا کرتے تھے ۔مثلاًکوکا ۔ کولا۔مچھلی کے تیل کا مرکب۔ایسٹن سیرپ ۔کونین ۔فولاد وغیرہ اور خواہ کیسی ہی تلخ یا بد مزہ دوا ہوآپ اس کو بے تکلف پی لیا کرتے ۔
سر کے دورے اور سردی کی تکلیف کے لئے سب سے زیادہ آپ مشک یا عنبر استعمال فرمایا کرتے تھے ۔ اور ہمیشہ نہایت اعلیٰ قسم کا منگوایا کرتے تھے ۔یہ مشک خریدنے کی ڈیوٹی آخری ایام میںحکیم محمد حسین صاحب لاہوری موجد مفرح عنبری کے سپرد تھی ۔عنبر اور مشک دونوں مدت تک سیٹھ عبد الرحمٰن صاحب مدراسی کی معرفت بھی آتے رہے ۔مشک کی تو آپ کو اس قدر ضرورت رہتی کہ بعض اوقات سامنے رومال میں باندھ رکھتے تھے کہ جس وقت ضرورت ہوئی فوراً نکال لیا۔‘‘
خاکسار عرض کرتا ہے کہ میر صاحب کا ارادہ اس مضمون کو مکمل کرنے کا تھا مگر افسوس کہ نا مکمل رہا اور اس کے باقی حصص ابھی تک لکھے نہیںگئے ۔نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے اس مضمون میں کہیں کہیں کسی قدر لفظی تبدیلی کر دی ہے ۔
{ 448} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی محمدؐ اسما عیل صاحب مولوی فاضل نے مجھ سے بیان کیا کہ مولوی عبد اللہ صاحب سنوری مر حوم بیان فرماتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن شریف سے فال لینے سے منع فرمایا ہے ۔
{ 449} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی محمدؐ اسما عیل صاحب مولوی فاضل نے مجھ سے بیان کیا کہ مولوی عبد اللہ صاحب سنوری مر حوم بیان فرماتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے قرضہ سے نجات پانے کے لئے یہ دُعا سکھائی تھی کہ پانچوں فرض نمازوں کے بعد التزام کے ساتھ گیارہ دفعہ لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ پڑھنا چاہیے اور میں نے اس کو بار ہا آزمایا ہے اور بالکل درست پایا ہے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس قسم کی باتیں بطور منتر جنتر کے نہیں ہوتیں کہ کوئی شخص خواہ کچھ کرتا رہے وہ محض اس وظیفہ کے ذریعہ سے قرض سے نجات حاصل کر سکتا ہے ۔ بلکہ خدا کے پیدا کردہ اسباب کی رعایت نہایت ضروری ہے ۔اور ان معاملات میں اس قسم کی دعاؤ ں کا صرف یہ مطلب ہو سکتا ہے کہ اگر دوسرے حالات موافق ہوں تو ایسی دعا خدا کے رحم کو اپنی طرف کھینچنے کا موجب ہوتی ہے ۔ نیز اس دعا کے الفاظ بھی ایسے ہیں کہ وہ اس قسم کے معاملات میں خدا کے رحم کو ابھارنے والے ہیں ۔ واللّٰہ اعلم ۔
{ 450} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ مولوی محمدؐ ابراہیم صاحب بقا پوری نے مجھ سے بذریعہ خط بیان کیا کہ ایک دفعہ مسجد مبارک میں حقیقۃ الوحی کے عربی استفتاء کا پروف دیکھتے وقت مولوی محمدؐ احسن صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا کہ فلاں لفظ تو صحیح ہے مگر حضور نے اس پر نشان لگایا ہے ۔حضور نے فرمایا کہ میں نے تو کوئی نشان نہیں لگایا ۔اور مولوی صاحب کے عرض کرنے پر کہ پھر یہ نشان کس نے لگایا ہے حضرت صاحب نے فرمایا کہ شائد میر مہدی حسین صاحب نے لگایا ہوگا۔ مولوی صاحب نے کہا کہ میر صاحب کو کیا حق تھا ؟حضرت صاحب نے مسکراتے ہوئے فرمایاکہ ان کو بھی ایک حق ہے جسے دخل بے جا کہتے ہیں ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کے آخری ایام میں میر مہدی حسین صاحب حضرت صاحب کے کتب خانہ کے مہتمم ہوتے تھے اور حضرت صاحب کے دیکھنے کے بعد کبھی کبھی اپنے شوق سے کاپی اور پروف وغیرہ دیکھ لیا کرتے تھے اور ان کی عادت میں چونکہ کسی قدر وہم ہے بعض اوقات اپنے خیال میں کسی لفظ کو سہو کاتب سمجھ کر اپنی رائے سے درست کرنا چاہتے تھے ۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{451} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی محمدؐ ابراہیم صاحب بقا پوری نے مجھ سے بذریعہ خط بیان کیا کہ ایک دفعہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا کہ نماز میںآپ نے ناک پر دائیاں ہاتھ پھیر کر کھجلی کی۔ اسی طرح دوسری دفعہ میں نے دیکھا کہ حضور علیہ السلام نے پاؤں کی کھجلی دائیں پاؤں سے رفع فرمائی۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سوانح یا سیرت کے لحاظ سے اس روایت میں کوئی بات خاص طور پر قابل ذکر نہیں ہے ۔لیکن میں نے اس وجہ سے درج کر دیا ہے کہ تا یہ پتہ لگے کہ کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ اپنے آقا کی حرکات و سکنات کا باریک مطالعہ رکھتے تھے ۔ دراصل یہ بات صرف غیر معمولی محبت سے حاصل ہو سکتی ہے کہ اس قدر جزئی باتیں محسوس طور پر نظر میں آکر ذہن میں محفوظ رہ جائیں۔اس قسم کی روایات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق میرے پاس بہت پہنچی ہیں جن کے اندر آپ کی سیرت وسوانح کے متعلق کوئی خاص مواد نہیں ہے ۔لیکن ان سے آپ کے صحابہ کی اس غیر معمولی محبت کا پتہ لگتا ہے جو ان کو آپ کی ذات سے تھی مگر میں نے بخوف طوالت عموماًایسی روایات کو درج نہیں کیا ۔
{ 452} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی محمدؐ ابراہیم صاحب بقا پوری نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ سیر کے وقت میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ بخاری میں حضرت ابوہریرہ کی ایک روایت آتی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے مجھے دو برتن علم کے دیئے ہیں ایک کو تو میں نے لوگوں میں پھیلا دیا ہے اور اگر دوسرا ظاہر کروں تو میرا گلا کاٹا جاوے ۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺاپنی بعض باتیں بعض صحابہ سے مخفی رکھتے تھے ۔اس پر حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ اس کا اگر یہی مطلب ہے تو چاہیے تھا کہ اس طرح کی خاص باتیں حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمر ؓ وغیرہ خاص خاص صحابہ کوبتلائی جاتیں نہ کہ صرف ابو ہریرہ کو ۔پھر فرمایا کہ بعض اوقات انسان کو کوئی بات بتلائی جاتی ہے تو وہ اس کو اپنی سمجھ کے مطابق بڑی عظمت اور اہمیت دے کر خود بتلانا نہیں چاہتا۔
{ 453} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی رحیم بخش صاحب ساکن تلونڈی جھنگلاں نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ میں قادیان میں حضرت مسیح موعو د علیہ السلام کی خدمت میں حاضر تھا حضرت صاحب نے فرمایاکہ چلو ذرا سیر کر آئیں۔چنانچہ حضرت صاحب بڑے بازار میں سے ہوتے ہوئے اس طرف تشریف لے گئے جہاں اب ہائی سکول ہے ۔جب سیر کرتے کرتے واپس شہر کو آئے تو حضرت صاحب نے فرمایا کہ مجھے الہام ہوا ہے یُنْجِیْکَ مِنَ الْغَمِّ وَکَانَ رَبُّکَ قَدِیْرًااور آپ نے فرمایا کہ ہمیں خدا کے فضل سے غم تو کوئی نہیںہے شائد آئندہ کوئی غم پیش آئے ۔جب مکان پر آئے تو ایک شخص امرتسر سے یہ خبر لایا کہ آپ کا وہ نگینہ جو اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ لکھنے کے واسطے حکیم محمد شریف صاحب کے پاس امرتسر بھیجا ہوا تھا وہ گم ہو گیا ہے اور نیز ایک ورق براہین احمدیہ کا لایا جو بہت خراب تھا اور پڑھا نہیں جاتا تھا ۔یہ معلوم کر کے آپ کو بہت تشویش ہوئی اور فرمایا کہ حکیم محمد شریف ہمارا دوست ہے اور اس کو دل کی بیماری ہے نگینہ گم ہو جانے سے اسے بہت تشویش ہوئی ہوگی اور اندیشہ ہے کہ اس کی بیماری زیادہ نہ ہو جاوے اور کتاب کے ورق کے متعلق فرمایا کہ بہت ردی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کتاب بالکل خراب چھپتی ہے۔ اس طرح لوگ اسے نہیں پڑھیں گے اور ہمارے پاس پیسے بھی نہیں ہیں کہ دوبارہ اچھی کر کے چھپوائیں ۔المختصر حضرت صاحب اسی وقت بٹالہ کی طرف پا پیادہ روانہ ہو گئے اور میں اور دو اور آدمی جو اس وقت موجود تھے ساتھ ہو لئے ۔جب ہم دیوانیوال کے تکیہ پر پہنچے تو حضور ؑ نے فرمایا کہ نماز پڑھ لیں اور حضور نے خاکسار کو فرمایا کہ رحیم بخش تو نماز پڑھا ۔چنانچہ میں نے ظہر اورعصر کی نماز جمع کرائی جس کے بعد ہمارے ساتھی تو علیحدہ ہو گئے اور حضرت صاحب اور یہ خاکسار بٹالہ سے گاڑی میں سوار ہو کر امرتسر پہنچے۔ جب حکیم صاحب کے مکان پر پہنچے تو حکیم صاحب نے بہت خوش ہو کر کہا کہ یہ آپ کا نگینہ گم ہو گیا تھا مگر ابھی مل گیا ہے اور جب مطبع میں جاکر کتاب دیکھی تو وہ اچھی چھپ رہی تھی جس پر آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو پہلے سے بشارت دے دی تھی کہ ہم تجھے غم سے نجات دیں گے سو وہ یہی غم تھا ۔اس کے بعد آپ نے فرمایا رحیم بخش چلو رام باغ کی سیر کر آئیں ۔ شہر سے باہر سیر کرتے کرتے خاکسار نے عرض کیا مرزا جی جو ولی ہوتے ہیں کیا وہ بھی باغوںکی سیر کیا کرتے ہیں ؟ وہ تو عبادت الہٰی میں رات دن گذارتے ہیں ۔آپ نے فرمایا کہ باغ کی سیر منع نہیں ہے پھر ایک قصہ سنایا کہ ایک بزرگ تھے وہ عمر بھر عبادت الہٰی کرتے رہے اور جب آخر عمر کو پہنچے تو خیال آیا کہ اپنے پیچھے کچھ نیکی چھوڑ جائیں چنانچہ ایک کتاب لکھنے کا ارادہ کیا مگر کتاب لکھنے بیٹھے تو چونکہ دنیا کا کچھ بھی دیکھا ہو ا نہیں تھا کوئی مثال نہیں دے سکتے تھے کہ کس طرح نیکی اور بدی پر جزا سزا کا ہوناوغیرہ سمجھائیں آخر ان کو دنیا میں پھر کر دنیا کو دیکھنا پڑا اور پھر انہوں نے میلے وغیرہ بھی دیکھے ۔پھر آپ نے مجھ سے مسکراتے ہوئے فرمایا رحیم بخش ! ہم نے بھی براہین میں گلاب کے پھول کی مثال دی ہوئی ہے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ واقعہ ۱۸۸۲ء یا۱۸۸۳ء یا ۱۸۸۴ء کا معلوم ہوتا ہے ۔کیونکہ براہین کی طبع کا یہی زمانہ ہے لیکن یہ بات حیرت میں ڈالتی ہے کہ اس روایت میں اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ والے نگینہ کی تیاری کا زمانہ بھی یہی بتا یا گیا ہے ۔حالانکہ حضرت صاحب کی تحریرات سے ایسا معلوم ہوتا ہے ( گو اس معاملہ میں صراحت نہیں ہے ) کہ جب ہمارے دادا صاحب کی وفات ہوئی اور اس سے قبل حضرت صاحب کو یہ الہام ہوا تو اسی زمانہ میں حضرت صاحب نے یہ انگوٹھی تیار کروالی تھی ۔سو یا تو اس روایت میں جو نگینہ کی تیاری کا ذکر ہے یہ کوئی دوسرا واقعہ ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاید یہ نگینہ دو دفعہ تیار کرایا گیا ہے اور یا اس کی پہلی تیاری ہی بعد میں براہین احمدیہ کے زمانہ میں ہوئی ہے یعنی الہام ۱۸۷۶ء میں ہوا ہے ۔جبکہ داداصاحب کی وفات ہوئی اور انگوٹھی چند سال بعد میں تیار کرا ئی گئی ہے ۔اور اس روایت کو تسلیم کرتے ہوئے بھی مؤخرا لذکر صورت زیادہ درست معلوم ہوتی ہے ۔واللّٰہ اعلم ۔
{ 454} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ خواجہ کمال الدین صاحب سے میں نے سُنا ہے کہ مولوی کرم دین بھیں والے کے مقدمہ کے دورا ن میں ایک دفعہ حضرت صاحب بٹالہ کے رستے گورداسپور کی طرف روانہ ہوئے ۔آپ کے ساتھ رتھ میں خود خواجہ صاحب اور مولوی محمد احسن صاحب مرحوم تھے اور باقی لوگ یکّوں میں پیچھے آرہے تھے ۔اتفاقاً یکّے کچھ زیادہ پیچھے رہ گئے اور رتھ اکیلی رہ گئی ۔رات کا وقت تھا آسمان ابر آلود تھا اور چاروں طرف سخت اندھیرا تھا ۔ جب رتھ و ڈالہ سے بطرف بٹالہ آگے بڑھا تو چند ڈاکو گنڈاسوں اور چھریوں سے مسلح ہو کر راستہ میں آگئے اور حضرت صاحب کی رتھ کو گھیر لیا اور پھر وہ آپس میں یہ تکرارکرنے لگ گئے کہ ہر شخص دوسرے سے کہتا تھا کہ تو آگے ہو کر حملہ کر مگر کوئی آگے نہ آتا تھا اور اسی تکرار میں کچھ وقت گذر گیا اور اتنے میں پچھلے یکّے آن ملے اور ڈاکو بھاگ گئے ۔قاضی صاحب لکھتے ہیں کہ خواجہ صاحب بیا ن کرتے تھے کہ اس وقت یعنی جس وقت ڈاکو حملہ کر کے آئے تھے میں نے دیکھا کہ حضرت صاحب کی پیشانی سے ایک خاص قسم کی شعاع نکلتی تھی جس سے آپ کا چہرہ مبارک چمک اُٹھتا تھا۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ قادیان اور بٹالہ کی درمیانی سڑک پر اکثر چوری اور ڈاکہ کی وارداتیں ہو جاتی ہیں مگر اس وقت خدا کا خاص تصرف تھا کہ ڈاکو خود مرعوب ہو گئے اور کسی کو آگے آنے کی جرأت نہیں ہوئی ۔قاضی صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں نے یہ واقعہ خواجہ صاحب سے انہی دنوں میں بمقام پشاور سنا تھا ۔
{ 455} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ میر شفیع احمد صاحب محقق دہلوی نے مجھ سے بذریعہ خط بیان کیا کہ جب آخری دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام لاہو ر جا کر ٹھہرے تو میں ان دنوں خواجہ صاحب کا ملازم تھا ۔اور حضرت صاحب کی ڈاک لا کر حضور کو پہنچا یا کرتا تھا ۔اور ڈاک میں دو تین خط بیرنگ ہو ا کرتے تھے جو میں وصول کر لیتا تھا اور حضرت صاحب کو پہنچا دیتا تھا اور حضرت صاحب مجھے ان کے پیسے دید یا کرتے تھے۔ ایک دن میں نے خواجہ صاحب کے سامنے بیرنگ خط وصول کئے تو خواجہ صاحب نے مجھے روکا کہ بیرنگ خط مت لو ۔میں نے کہا میں تو ہر روز وصول کرتا ہوں اور حضرت صاحب کو پہنچا تا ہوں اور حضرت نے مجھے کبھی نہیں روکا ۔مگر اس پر بھی مجھے خواجہ صاحب نے سختی کیساتھ روک دیا۔جب میں حضرت صاحب کی ڈاک پہنچانے گیا تو میں نے عرض کیا کہ حضور آج مجھے خواجہ صاحب نے بیرنگ خط وصول کرنے سے سختی سے روک دیاہے ۔حضور فرمائیں تو میں اب بھی بھاگ کر لے آئوں ۔ حضرت صاحب مسکرائے اور فرمانے لگے کہ ان بیرنگ خطوں میں سوائے گالیوں کے کچھ نہیں ہوتا اور یہ خط گمنام ہوتے ہیں ۔اگر یہ لوگ اپنا پتہ لکھ دیں تو ہم انہیں سمجھا سکیں مگر شاید یہ لوگ ڈرتے ہیں کہ ہم ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی نہ کریں حالا نکہ ہمارا کام مقدمہ کرنا نہیں ہے ۔اس دن سے میں نے بیرنگ خط وصول کر نے چھوڑ دیئے ۔
{ 456} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میر شفیع احمد صاحب دہلوی نے مجھ سے بذریعہ خط بیان کیا کہ میں نے خواجہ کمال الدین صاحب کی زبانی سُنا ہے کہ جن دنوں میں حضرت صاحب کے خلاف مولوی کرم دین نے گورداسپور میں مقدمہ دائر کر رکھا تھا اور خواجہ صاحب اور مولوی محمد علی صاحب حضرت صاحب کی طرف سے پیروی کر تے تھے ۔ ان دنوں میں ایک دفعہ خواجہ صاحب کچھ دنوں کے لئے پشاور اپنے اہل و عیال کے پاس آئے جہاں وہ اس زمانہ میں پریکٹس کیا کرتے تھے اوران کے ساتھ حضرت مولوی عبدالکریم مرحوم بھی حضرت صاحب سے اجازت لے کر پشاور دیکھنے کیلئے چلے آئے۔خواجہ صا حب نے بیان کیا کہ جب میں پشاور آیا تو بیوی بچوں کو بہت پریشان حال پایا کیونکہ ان کے پاس کو ئی روپیہ پیسہ نہیں تھا اور وہ کچھ دنوں سے قرض لے کر گذارہ کر تے تھے جس پر میں نے بیوی کے تین سو روپے کے کٹرے فروخت کر دیئے اور اس طرح اپنے گذارہ کا انتظام کیا اس حالت کا حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کو بھی علم ہو گیا اور انہوں نے واپس آکر گورداسپور میں حضرت صاحب سے ساری کیفیت عرض کردی ۔حضرت صاحب کو یہ واقعہ سن کر رنج ہوا اور آپ نے فرمایا کہ ہم انشا ء اللہ دعا کریں گے ۔تھوڑی دیر کے بعد حضرت صاحب نے اندرون خانہ سے تین سو روپے میاں محمود احمد صاحب ( یعنی حضرت خلیفہ ثانی ) کے ہاتھ مولوی عبدالکریم صاحب کو بھجوائے کہ یہ روپیہ خواجہ صاحب کیلئے ہے ان کو دیدیں ۔مولوی صاحب نے میاں صاحب کو میرے پاس بھیج دیا ۔مجھے جب یہ روپیہ ملا تو میں اسے لے کر فوراً مولوی صاحب کے پاس آیا اور کہا کہ یہ کیسا روپیہ ہے ۔مولوی صاحب نے فرمایا کہ میں نے تمہاری حالت حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کردی تھی اور اب حضرت صاحب نے یہ روپیہ بھجوا یاہے ۔میں نے عرض کیا مولوی صاحب آپ نے یہ کیا غضب کر دیا۔مولوی صاحب نے فرمایا اگر حضرت صاحب سے عرض نہ کیا جاتا تو اور کس سے کہا جاتا ۔اللہ تعالیٰ کے نیچے ہمارے لئے اس وقت حضور ہی ہیں ۔تم خاموش ہو کر روپیہ لے لو اور خدا کا شکرکرو یہ روپیہ بہت بابرکت ہے ۔اور حضرت صاحب نے تمہارے واسطے دعا کا بھی وعدہ فرمایا ہے ۔چنانچہ میں نے وہ روپیہ رکھ لیا اور پھر اس کے بعد میں نے دیکھا کہ گورداسپور میں ہی میرے پا س مقدمات آنے لگ گئے اور روز دو چار موکل آجاتے تھے اور میں نے اس قدر جلد حضرت کی دعاکا اثر دیکھا کہ جس کی کوئی حدنہیں۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے یہ واقعہ کسی قدر اختلاف کے ساتھ حضرت خلیفۃ المسیح ثانی سے بھی سنا ہوا ہے ۔مگر اس کی تفصیل مجھے یا دنہیں رہی ۔
{ 457} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ میر شفیع احمد صاحب دہلوی نے مجھ سے بذریعہ خط بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک معزز احمدی کو سر پر تول چند ر چٹرجی بنگالی کا ایک رشتہ دار گاڑی میں مل گیا اور اسے انہوں نے تبلیغ کی اور وہ بہت متاثر ہوا اور ان کے ساتھ قادیان چلا آیا اور یہاں آکر مسلمان ہوگیا ۔نام کی تبدیلی کے متعلق کسی نے عرض کیا تو حضور نے فرمایا کہ ان کا اپنا نام بھی اچھا ہے بس نام کے ساتھ احمد زیادہ کر دو کسی اور تبدیلی کی ضرورت نہیں ۔لوگوں نے اس کے بنگالی طرز کے بال کتروا دیئے جسے دیکھ کر حضور نے فرمایا کہ بال کیوں کتروا دیئے ؟ پہلے بال بھی اچھے تھے بلکہ اب خراب ہوگئے ہیں۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی نے اسکے بال ایسے رنگ میں کتروادیئے ہو ں گے جو قریباً منڈے ہوئے کے برابر ہوں اور ایسی طرز کے بال حضرت صاحب پسند نہیں فرماتے تھے بلکہ سر کے بال منڈانے کے متعلق فرمایا کرتے تھے کہ یہ خارجیوں کا طریق ہے ۔نیز خاکسارعرض کرتا ہے کہ اسلام لانے کے وقت نا م بدلنا ضروری نہیں ہوتا ہاں البتہ اگر مشرکانہ نام ہو تو وہ ضرور بدل دینا چاہیے ۔
{ 458} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ میر شفیع احمد صاحب دہلوی نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے وزیر محمد خان صاحب سے سنا ہے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود ؑ باہر کھانا تناول فرما رہے تھے اور آپ کے ساتھ حضرت مولوی نورالدین صاحب اور مولوی عبدالکریم صاحب اور مولوی محمد احسن صاحب بھی تھے اور میں بھی شریک تھا ۔اس وقت اند رسے قیمہ بھرے ہوئے کریلے حضرت مائی صاحبہ نے بھجوائے اور حضرت صاحب نے ایک ایک کریلا حضرت خلیفہ اوّل اور مولوی عبدالکریم صاحب اور مولوی محمد احسن صاحب کے سامنے رکھ دیا اور اسکے بعد دو کریلے حضرت صاحب کے سامنے رہے ۔مجھے خیال آیا کہ شاید حضرت صاحب میرے سامنے کو ئی کریلا نہیں رکھیں گے ۔ مگر یہ خیال آنا ہی تھا کہ حضرت صاحب نے وہ دونوں کریلے اُٹھا کر میرے سامنے رکھ دیئے ۔میں نے بہت عرض کیا کہ ایک حضور بھی لے لیں مگر حضرت صاحب نے نہیں لیا ۔
{ 459} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ پیر سراج الحق صاحب نعمانی نے مجھ سے بیان کیا کہ میں جب ابتداء ً ۱۸۸۱ء میں قادیان آیا تو اس وقت میرے اندازہ میں حضرت صاحب کی عمر پینتالیس سال کے قریب معلوم ہوتی تھی اور ابھی آپ کی شادی حضرت ام المومنین کے ساتھ نہیں ہوئی تھی ۔
{ 460} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ میاں محمد خان صاحب نمبردار گل منج ضلع گورداسپور نے مجھ سے بذریعہ خط بیان کیا کہ ایک دفعہ جب کہ میری عمر سولہ سترہ سال کی تھی میں اپنے گائوں کے ایک آدمی کے ساتھ امرتسر اپنے ایک رشتہ دار سے ملنے گیا اور واپسی پر ہم قادیان میں سے گذر ے چونکہ نماز عصر کا وقت تنگ ہو رہا تھا ہم نماز پڑھنے کیلئے بڑی مسجد میں چلے گئے۔وہاں ہم نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اکیلے ٹہل رہے تھے اور آپ کے ہاتھ میں کو ئی کتاب تھی ۔جب ہم نماز سے فارغ ہو چکے تو حضرت صاحب نے ہم سے پنجابی زبان میں پوچھا ۔لڑکو ! تمہارا گھر کہاں ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ گل منج میں ہے۔ جس پر آپ نے ہم سے گل منج کا فاصلہ دریافت کیا ۔اور میں نے عرض کیا کہ قادیان سے چار پانچ میل پر ہے ۔پھر حضر ت صاحب نے فرمایا کہ کیا تمہارے گائوں میں میری کتاب پہنچ گئی ہے ؟ہم نے عرض کیا کہ وہاں تو کوئی کتاب نہیں گئی ۔حضرت صاحب نے فرمایا دور دراز جگہوں میں تو وہ پہنچ گئی ہے تعجب ہے تمہارے گائوں میں نہیں پہنچی۔ تم میرے ساتھ چلو میں تمہیں کتاب دیتا ہوں ۔سو حضرت صاحب ہم دونوں کو لے کر مسجد مبارک کے ساتھ والی کوٹھری میں تشریف لے گئے ۔وہاں بہت کتابیں رکھی تھیں ۔ حضرت صاحب نے دریافت فرمایا تمہارے گائوںمیں کتنے آدمی پڑھے ہوئے ہیں ۔میں نے زیادہ کتابوں کے لالچ سے کہہ دیا کہ آٹھ نو آدمی پڑھے لکھے ہیں ۔حالانکہ صرف چار پانچ آدمی پڑھے ہوئے تھے ۔ان دنوں میں مَیں تیسری جماعت میں پڑھا کرتا تھا ۔اسکے بعد تمام علاقہ میں حضرت صاحب کا چرچا ہو نے لگ گیا کہ قادیان والا مرزا مہدی اور مسیح ہونیکا دعویٰ کرتا ہے ۔اور میں نے جلد ہی بیعت کر لی ۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{ 461} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ میر عنایت علی صاحب لدھیانوی نے مجھ سے بذریعہ خط بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت اقدس معہ مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم اور غلام قادر صاحب فصیح لدھیانہ محلہ اقبال گنج میں تشریف رکھتے تھے ۔دعویٰ مسیحیت ہو چکا تھا اور مخالفت کا زور تھا اور مولوی محمد حسین بٹالوی حضور کے مقابلہ میں آکر شکست کھا چکا تھا ۔غرض لدھیانہ میں ایک شورش ہو رہی تھی اور محرم بھی غالباً قریب تھا ۔اس پر لدھیانہ کے ڈپٹی کمشنر کو اندیشہ ہو ا کہ کہیں لدھیانہ میں ان مولویوں کیوجہ سے فساد نہ ہو جاوے ان کو لدھیانہ سے رخصت کر دینے کا حکم دیا اور اس کا م کیلئے ڈپٹی کمشنر نے ڈپٹی دلاور علی صاحب اور کرم بخش صاحب تھانہ دار کو مقرر کیا ۔ان لوگوں نے مولوی محمد حسین کو ڈپٹی کمشنر کا حکم سُنا کر لدھیانہ سے رخصت کردیا۔اور پھر وہ حضرت صاحب کے پاس حاضر ہوئے اور سڑک پر کھڑے ہو کر اندر آنے کی اجازت چاہی ،حضرت صاحب نے ان کو فوراً اندر مکان میں بلا لیا اور ہم لوگوں کو حضرت صاحب نے فرمادیا کہ آپ ذرا باہر چلے جائیں۔چنانچہ ڈپٹی صاحب وغیرہ نے حضر ت صاحب کے ساتھ کوئی آدھ گھنٹہ ملاقات کی اور پھر واپس چلے گئے ۔ہم نے اندر جاکر حضرت صاحب سے دریافت کیا کہ یہ لوگ کیوں آئے تھے ؟ جس پر حضرت صاحب نے فرمایا کہ وہ ڈپٹی کمشنر کا ایک پیغام لائے تھے کہ لدھیانہ میں فساد کا اندیشہ ہے بہتر ہے کہ آپ کچھ عرصہ کیلئے یہاں سے تشریف لے جائیں۔حضر ت صاحب نے جواب میں فرمایا کہ اب یہاں ہمارا کوئی کام نہیں ہے اور ہم جانے کو تیار ہیں لیکن سردست ہم سفر نہیں کر سکتے کیونکہ بچوں کی طبیعت اچھی نہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ خیر کوئی بات نہیں ہم ڈپٹی کمشنر سے کہہ دیں گے اور ہمیں آپ کی ملاقات کا بہت شوق تھا سو شکر ہے کہ اس بہانہ سے زیارت ہوگئی ۔اس کے بعد حضرت صاحب اندرون خانہ تشریف لے گئے او ر ایک چٹھی ڈپٹی کمشنر کے نام لکھ کر لائے جس میں اپنے خاندانی حالات اور اپنی تعلیم وغیرہ کا ذکر فرمایا اور بعض خاندانی چٹھیات کی نقل بھی ساتھ لگا دی ۔اس چٹھی کا غلام قادر صاحب فصیح نے انگریزی میں ترجمہ کیا اور پھر اسے ڈپٹی کمشنر صاحب کے نام ارسال کر دیا گیا ۔وہاں سے جواب آیا کہ آپ کیلئے کوئی ایسا حکم نہیں ہے ۔ آپ بے شک لدھیانہ میں ٹھہر سکتے ہیں جس پر مولوی محمد حسین نے لاہو ر جا کر بڑا شور بر پا کیا کہ مجھے تو نکال دیا گیا ہے اور مرزا صاحب کو اجازت دی گئی ہے ۔مگر کسی حاکم کے پاس اس کی شنوائی نہیں ہوئی ۔اس کے بعد دیر تک حضرت صاحب لدھیانہ میں رہے ۔خاکسارعر ض کرتا ہے کہ میں نے حضرت خلیفہ ثانی سے سنا ہوا ہے کہ اس موقعہ پر حضرت صاحب احتیاطاً امرتسر چلے آئے تھے اور امرتسر میں آپ کو ڈپٹی کمشنر کی چٹھی ملی تھی جس پر آپ پھر لدھیانہ تشریف لے گئے ۔ واللّٰہ اعلم ۔ان دونوں روایتوں میں سے کون سی درست ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ دونوں ٹھیک ہوں ۔یعنی حضرت صاحب ڈپٹی دلاور علی صاحب وغیرہ کی ملاقات کے بعد احتیاطاً امرتسر چلے آئے ہوں۔لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ڈپٹی دلاور علی صاحب وغیرہ کو ڈپٹی کمشنر کے حکم کے متعلق غلط فہمی پید اہوگئی تھی اور ڈپٹی کمشنر کا منشاء صرف مولو ی محمدحسین کے رخصت کئے جانے کے متعلق تھا چنانچہ ڈپٹی کمشنر کے جواب سے جو دوسری جگہ نقل کیا جا چکا ہے ۔ پتہ لگتا ہے کہ اس نے کبھی بھی حضرت صاحب کے متعلق ایسے خیال کا اظہار نہیں کیا ۔واللّٰہ اعلم ۔
{ 462} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جس دن شب کو عشاء کے قریب حسین کامی سفیر روم قادیان آیا اس دن نماز مغرب کے بعد حضرت صاحب مسجد مبارک میں شاہ نشین پر احباب کے ساتھ بیٹھے تھے کہ آپ کو دوران سر کا دورہ شروع ہوا اور آپ شاہ نشین سے نیچے اتر کر فرش پر لیٹ گئے اور بعض لوگ آپ کو دبانے لگ گئے مگر حضور نے دیر میں سب کو ہٹا دیا ۔جب اکثر دوست وہاں سے رخصت ہوگئے تو آپ نے مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم سے فرمایا کہ کچھ قرآن شریف پڑھ کر سنائیں ۔مولوی صاحب مرحو م دیر تک نہایت خوش الحانی سے قرآن شریف سُناتے رہے یہاں تک کہ آپ کواِفاقہ ہو گیا ۔
{ 463} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ لیکھرام کے قتل کے واقعہ پر جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر کی تلاشی ہو ئی تو پولیس کے افسر بعض کا غذات اپنے خیال میں مشتبہ سمجھ کر ساتھ لے گئے اور چند دن کے بعد ان کاغذات کو واپس لے کر پھر بعض افسرقادیان آئے اور چند خطوط کی بابت جس میں کسی ایک خاص امر کا کنا یۃًذکر تھا حضرت صاحب سے سوال کیا کہ یہ کیا معاملہ ہے ؟ حضرت صاحب نے فوراً بتا دیا کہ یہ خطوط محمدی بیگم کے رشتے کے متعلق ہیں اور امر معلومہ سے مراد یہی امر ہے اور یہ خط مرزا امام دین نے میرے نام بھیجے تھے جو میرا چچا زاد بھائی ہے اور محمدی بیگم کا حقیقی ماموں ہے ۔اس پر مرزا امام دین کو پولیس والوں نے حضور کے مکان کے اندر ہی بلوالیا۔اور اس سے سوال کیا کہ کیا یہ خط آپ کے لکھے ہوئے ہیں ؟ وہ صاف مکر گیا ۔پھر زیادہ زور دینے پر کہنے لگا کہ مجھے ٹھیک معلوم نہیں ہے ۔اس پر مرزا امام دین کا خط پہچاننے کیلئے اس سے ایک سادہ کاغذ پر عبارت لکھوائی گئی تو مبصروں اور کاتبوں نے دونوں تحریروں کو ملا کریقینی طور پر پولیس افسروں کے اوپر ثابت کر دیا کہ یہ خطوط مرزا امام دین ہی کے لکھے ہوئے ہیں ۔جب مرزا امام دین کو کوئی گنجائش مفرکی نہ رہی اور پولیس افسر نے کسی قدر سختی سے پوچھا تو کہنے لگا شاید میرے ہی ہوں اور بالآخر صاف تسلیم کرلیا کہ میرے ہی ہیں اور امر معلومہ سے وہی مراد ہے جو مرزا غلام احمد صاحب ( حضرت مسیح موعود ؑ ) نے بیان کیا ہے ۔اس واقعہ کے وقت کئی لوگ موجود تھے اس سارے دوران میں مرزا امام دین کے چہرہ پر ایک رنگ آتا اور ایک جاتا تھا اور حاضرین نے اسکی ذلت کو خوب محسوس کیا ۔بعد ازاں پولیس افسرچلے گئے اور تلاشی کا معاملہ رفع دفع ہو گیا ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب نے اپنی خانہ تلاشی کا ذکر اشتہار مورخہ ۱۱؍اپریل ۱۸۹۷ء میں کیا ہے ۔ جہاں لکھا ہے کہ یہ خانہ تلاشی ۸؍اپریل ۱۸۹۷ء کو ہوئی تھی نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ محمدی بیگم کے جس ماموں کا ذکر سیرۃ المہدی حصہ اوّل کی روایت نمبر ۱۷۹میں ہے وہ یہی صاحب مرزا امام دین تھے ۔
{ 464} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں پانچ وقت کی نماز اور جمعہ کی نماز تو مولوی عبدالکریم صاحب پڑھاتے تھے ۔مگر عیدین کی نماز ہمیشہ حضرت مولوی نورالدین صاحب پڑھایا کرتے تھے ۔الاّ ماشاء اللہ۔ اور جنازوں کی نماز عموماً حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود پڑھا تے تھے ۔
{ 465} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لالہ ملاوامل کے متعلق یہ واقعہ سنا یا کہ ایک دفعہ ملا وامل تپ کہنہ سے سخت بیمار ہو گیا اور یہ خیال ہو گیا کہ اسے دق ہے۔جب دوائوں سے فائدہ نہ ہو ا تو میں نے اسے چوزہ کی یخنی کچھ عرصہ تک مسلسل استعمال کر نے کیلئے بتائی اس پر پہلے تو اس نے بوجہ گوشت خور نہ ہو نے کے اعتراض کیا مگر بالآخر اس نے مان لیا اور کچھ عرصہ تک اس کا استعمال کرتا رہا حتیّٰ کہ اس کا بخار بالکل جاتا رہا ۔اس واقعہ کے ایک عرصہ بعد پھر ملا وامل ہمارے پاس آیا اور کہنے لگا مرزا صاحب مجھے پھر کچھ حرارت محسوس ہونے لگی ہے۔ خوف ہے کہ پھر نہ اسی طرح بیمار ہو جاؤں اور اشارۃً یہ بھی ذکر کیا کہ پہلی دفعہ آپ نے چوزہ کی یخنی بتائی تھی۔ میں نے اس کی نبض دیکھی تو کچھ حرارت وغیرہ معلوم نہ ہوئی ۔اس پر میں نے خیال کیا کہ شائد وہ پھر چوزے کا استعمال کرنا چاہتا ہے ۔مگر خود بخود استعمال کرنے سے حجاب کرتا ہے اور بطور معالج کے میری اجازت حاصل کرنا چاہتا ہے ۔چنانچہ میں نے اسے کہہ دیا کہ ہاں چوزہ کی یخنی بہت مفید ہے ضرور استعمال کرو۔
{ 466} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمداسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت صاحب نے مجھے ایک کاغذ کی تلاش کے لئے اپنے پرانے بستے دیکھنے کے لئے دیئے وہ کاغذ تو نہ ملا لیکن اس بستہ میں مجھے لالہ ملا وامل کے پرانے خطوط دستیاب ہوئے جو اس نے طالب علمی کے زمانہ میں حضرت صاحب کے نام دینی مسائل کی دریافت کے متعلق لکھے تھے اور ایک جگہ حضرت صاحب کا اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا یہ الہام ملا ۔
بر تر گمان و وہم سے احمد کی شان ہے
جس کا غلام دیکھو مسیح الزمان ہے
لیکن تعجب ہے کہ آج کل درثمین میں ’’اس کا‘‘ کی بجائے ’’جس کا‘‘ چھپاہوا ہے نیز ایک بستہ میں مجھے ایک پرچہ ملا جس پرحضور کا اپنا دستخطی یہ مضمون لکھا ہوا تھا کہ وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَااُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ وَبِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ (البقرۃ:۵) سے یہ مراد ہے کہ جو لوگ اس وحی پر ایمان لاتے ہیں جو تجھ پر نازل کی گئی ہے اور اس وحی پر جو تجھ سے پہلے نازل ہوئی ہے اور اس وحی پر بھی یقین رکھتے ہیں جو آخری زمانہ میں مسیح موعودؑ پر نازل ہو گی ۔
{ 467} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حافظ نور محمدؐ صاحب ساکن فیض اللہ چک نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان فرمایا کہ میں نے سُنا ہے کہ ایک دفعہ مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم نے حضرت صاحب سے دریافت کیا کہ کیا کبھی حضور کو بھی ریا پیدا ہوتا ہے حضور نے فرمایا اگر آپ چار پایوں کے اندر کھڑے ہوں تو کیا آپ کو ریا پیدا ہو ؟پھر فرمایا کہ ریا تو اپنی جنس میں ہوتا ہے ۔مطلب یہ کہ انبیاء اپنے روحانی کمال کی وجہ سے گویا دوسرے لوگوں کی جنس سے باہر ہوتے ہیں اور دنیا سے کٹ کر ان کا آسمان کے ساتھ پیوند ہو جاتا ہے ۔پس وہ اہل دنیا کے اندر ریا نہیں محسوس کرتے ۔
{ 468} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حافظ نور محمدؐ صاحب متوطن فیض اللہ چک نے مجھ سے تحریری طور پر بیان کیا کہ میں نے حافظ حامد علی صاحب مرحوم سے سُنا ہے کہ حضرت اقدس نے فرمایا ہے اگر کبھی کسی مقدمہ میں یا اور کسی طرح کسی حاکم کے سامنے جانا ہو تو جانے سے پہلے سات مرتبہ سورۃ فاتحہ پڑھ لینی چاہیے ۔اور سات مرتبہ اپنی انگلی سے اپنی پیشانی پر ’’یا عزیز‘‘ لکھ لینا چاہیے ۔اس طرح اللہ تعالیٰ کامیابی دیتاہے۔ خاکسار عرض کرتا ہے یہ طریق غالباً حالت استغناء عن غیر اللہ اور حالت توکل علی اللہ کے پیدا کرنے کے لئے ہے ۔
{ 469} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حافظ نور محمدؐ صاحب فیض اللہ چک والے نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے فرمایا کہ فرشتوں نے جو آدم کی پیدائش کے وقت کہا تھا۔ اَتَجْعَلُ فِیْھَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْھَا وَیَسْفِکُ الدِّمَآئَ (البقرۃ:۳۱) سوحضرت آدم ؑ سے تو کوئی ایسا فعل سر زد نہیں ہوا لیکن معلوم ہوتا ہے کہ فرشتوں کی نظر مستقبل پر جا پڑی ہوگی ۔یعنی ان کو معلوم ہو گیا ہو گا کہ آئندہ نسل آدم میں ایسے ایسے واقعات ہوں گے۔ اس سے ہمیں بعض اوقات خیال آتا ہے کہ یہ جو ہمارے بعض مخالف کہتے ہیں کہ ان کو ہمارے خلاف الہام ہوا ہے ممکن ہے کہ یہ بھی جھوٹے نہ ہوں اور کسی آئندہ کے زمانہ میں ہمارے سلسلہ میں بعض خرابیاں پیدا ہو جائیں جیسا کہ بعد زمانہ سے ہر امّت میں پیدا ہو جایا کرتی ہیں ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ مخالفوں کے الہام کا سچا یا جھوٹا ہونا تو الگ سوال ہے ۔لیکن حضرت صاحب کی احتیاط اور حسن ظنی کمال کو پہنچی ہوئی ہے ۔جس سے بڑھ کر ممکن نہیں ۔ایک طرف مخالفین ہیں جو ہزار ہانشانات دیکھ کر اور سینکڑوں دلائل و براہین کا مطالعہ کر کے پھر بھی جھوٹا اور مفتری کہتے چلے جاتے ہیں اوردوسری طرف حضرت مسیح موعود ؑ ہیں کہ باوجود اس یقین کامل کے کہ آپ حق پر ہیں اور آپ کے مخالفین سراسر باطل پرہیں ۔آپ ان کے متعلق حسن ظنی کا دامن نہیں چھوڑتے اور جھوٹا کہنے سے تامل فرماتے ہیں اسی قسم کا منظر آنحضرت ﷺ کے حالات زندگی میں بھی نظرآتا ہے ۔ابن صیاد جس کے متعلق بعض صحابہ نے یہاں تک یقین کر لیا تھا کہ وہ دجا ل ہے وہ آنحضرت ﷺ کے سامنے آتا ہے اور آپ سے پوچھتا ہے کہ کیا آپ مجھے خدا کا رسول نہیں مانتے ؟ آپ جواب میں یہ نہیں فرماتے کہ تو جھوٹا ہے بلکہ یہ فرماتے ہیں کہ میں تو خدا کے سارے رسولوں کو مانتا ہوں ۔اللہ اللہ ۔اللہ اللہ کیا شان دلربائی ہے ۔
{ 470} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ جہاں تک میں نے تحقیق کی ہے حضرت مسیح موعود ؑ کی زندگی کے مندرجہ ذیل واقعات ذیل کے سنین میں وقوع پذیر ہوئے ہیں ۔واللّٰہ اعلم۔
۱۸۳۶ء یا ۱۸۳۷ء ۔ ولادت حضرت مسیح موعود علیہ السلام
۱۸۴۲ء یا ۱۸۴۳ئ۔ ابتدائی تعلیم از منشی فضل الٰہی صاحب۔
۱۸۴۶ء یا ۱۸۴۷ئ۔ صرف و نحو کی تعلیم از مولوی فضل احمد صاحب۔
۱۸۵۲ء یا ۱۸۵۳ء ۔ حضرت مسیح موعود ؑ کی پہلی شادی( غالباً)۔
۱۸۵۳ء یا ۱۸۵۴ئ۔ نحو و منطق و حکمت و دیگر علوم مروجہ کی تعلیم از مولوی گل علی شاہ صاحب اور اسی زمانہ
کے قریب بعض کتب طب اپنے والد ماجد سے۔
۱۸۵۵ء یا ۱۸۵۶ئ۔ ولادت خان بہادر مرزا سلطان احمد ؐ صاحب (غالباً)۔
۱۸۵۷ء یا ۱۸۵۸ئ۔ ولادت مرزا فضل احمد (غالباً)۔
۱۸۶۴ء یا ۱۸۶۵ئ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو رؤیا میں آنحضرت ﷺ کی زیارت اور اشارات
ماموریت۔
۱۸۶۴ ء تا ۱۸۶۸ئ۔ ایام ملازمت بمقام سیالکوٹ۔
۱۸۶۸ئ۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی والدہ ماجدہ کا انتقال ۔
۱۸۶۸ء یا ۱۸۶۹ئ۔ مولوی محمد حسین بٹالوی کے ساتھ بعض مسائل میں مباحثہ کی تیاری اور الہام ’’بادشاہ
تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے ‘‘۔جو غالباً سب سے پہلا الہام ہے۔
۱۸۷۵ء یا ۱۸۷۶ئ۔ حضرت مسیح موعود ؑ کا آٹھ یا نو ماہ تک لگا تار روزے رکھنا۔(غالباً)
۱۸۷۶ء تعمیر مسجد اقصیٰ ۔ الہام اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ ۔اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام
کے والد ماجد کاانتقال ۔
۱۸۷۷ئ۔ اخبارات میں مضامین بھیجوانے کا آغاز (غالباً) ،مقدمہ از جانب محکمہ ڈاک خانہ (غالباً)
سفر سیالکوٹ۔
۱۸۷۸ئ۔ انعامی مضمون رقمی پانچ صد روپیہ بمقابلہ آریہ سماج ۔تیاری تصنیف براہین احمدیہ (غالباً)
۱۸۷۹ئ۔ ابتداء تصنیف براہین احمدیہ واعلان طبع و اشاعت۔
۱۸۸۰ئ۔ اشاعت حصہ اوّل و دوئم براہین احمدیہ ۔
۱۸۸۲ئ۔ اشاعت حصہ سوئم بر اہین احمدیہ و الہام ما موریت ۔قُلْ اِنِّیْ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ ۔
۱۸۸۳ئ۔ وفات مرزا غلام قادر صاحب برادر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام ۔
۱۸۸۴ئ۔ اشاعت حصہ چہارم براہین احمدیہ ۔اشتہار اعلان دعویٰ مجددیت و اشتہار دعوت برائے دکھانے نشان آسمانی ۔تعمیر مسجد مبارک۔حضرت مسیح موعود کے کرتے پر چھینٹے پڑنے کا نشان۔ نکاح حضرت ام المومنین بمقام دہلی۔
۱۸۸۵ئ۔ لیکھرام کاقادیان میں آنا ۔قادیان کے آریوں کے ساتھ نشان آسمانی دکھانے کی قرار داد۔
۱۸۸۶ئ۔ چلّہ ہو شیار پور ۔الہام دربارہ مصلح موعود ۔مناظرہ ماسٹر مرلی دھر بمقام ہو شیار پور ۔ولادت عصمت ۔ تصنیف و اشاعت سرمہ چشم آریہ ۔
۱۸۸۷ئ۔ تصنیف و اشاعت شحنہ حق ۔ولادت بشیر اوّل۔
۱۸۸۸ئ۔ پیشگوئی دربارہ مرزا احمد بیگ ہو شیار پوری و نکاح محمدی بیگم ۔وفات بشیر اوّل۔اشتہار اعلان
بیعت ۔
۱۸۸۹ئ۔ ولادت حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح ثانی ۔بیعت اولیٰ بمقام لدھیانہ ۔سفر علیگڑھ
۱۸۹۰ئ۔ تصنیف فتح اسلام و توضیح مرام ۔
۱۸۹۱ئ۔ سفر لدھیانہ ۔اشاعت فتح اسلام و تو ضیح مرام ۔اعلان دعویٰ مسیحیت ۔دعوت مباحثہ بنام مخالف علماء ۔ مناظرہ مولوی محمد حسین بٹالوی بمقام لدھیانہ (الحق لدھیانہ)سفر دہلی ۔تیاری مناظرہ مولوی نذیر حسین دہلوی بمقام جامع مسجد دہلی ۔ مناظرہ مولوی محمد بشیربھو پالوی بمقام دہلی (الحق دہلی)سفر پٹیالہ ۔ولادت شوکت ۔وفات عصمت ۔تصنیف و اشاعت ازالہ اوہام ۔اعلان دعویٰ مہدویت طلاق زوجہ اوّل ۔فتویٰ کفر ۔تصنیف واشاعت آسمانی فیصلہ ۔پہلا سالانہ جلسہ۔
۱۸۹۲ئ۔ سفر لاہور۔مناظرہ مولوی عبد الحکیم کلا نوری بمقام لاہور ۔سفر سیالکوٹ۔ سفر جالندھر۔وفات شوکت۔تصنیف و اشاعت نشان آسمانی ۔موت مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری ۔ابتداء تصنیف آئینہ کمالات اسلام۔
۱۸۹۳ئ۔ بقیہ تصنیف و اشاعت آئینہ کمالات اسلام ۔قادیان میں پریس کاقیام۔ دعوت مباہلہ بنام مخالفین مخالفین کو آسمانی نشان دکھانے کی دعوت ۔لیکھرام کے متعلق پیشگوئی میعادی چھ سال۔عربی میں مقابلہ کی دعوت ۔تصنیف و اشاعت برکات الدعائ۔ولا دت خاکسار مرزا بشیر احمد۔تصنیف و اشاعت حجۃ الاسلام وسچائی کا اظہار ۔مناظرہ آتھم بمقام امرتسر و پیشگوئی در بارہ آتھم (جنگ مقدس)مباہلہ عبد الحق غزنوی بمقام امرتسر ۔تصنیف و اشاعت تحفہ بغداد و کرامات الصادقین و شہادۃ القرآن۔
۱۸۹۴ء تصنیف و اشاعت حمامۃ البشریٰ ۔نشان کسوف و خسوف ۔تصنیف و اشاعت نور الحق و اتمام الحجۃو سر الخلافہ پیشگوئی آتھم کی میعاد گذر جانے اور آتھم کے بوجہ رجوع الی الحق کے نہ مرنے پر مخالفین کا شور و استہزاء اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی طرف سے جوابی اشتہارات۔ تصنیف و اشاعت انوار الاسلام ۔
۱۸۹۵ء ولادت مرزا شریف احمد صاحب ۔تصنیف منن الرحمٰن ۔اس تحقیق کے متعلق کہ عربی ام الالسنہ ہے تصنیف و اشاعت نور القرآن ۔سفر ڈیرہ بابا نانک ۔تصنیف و اشاعت ست بچن ۔بابا نانک علیہ الرحمۃ کے مسلمان ہونے کی تحقیق کا اعلان ۔مسیح ناصری علیہ السلام کی قبر واقع سری نگر کی تحقیق کا اعلان ۔تصنیف و اشاعت آریہ دھرم۔
۱۸۹۶ء تحریک تعطیل جمعہ ۔ موت آتھم ۔ابتدا تصنیف انجام آتھم۔تصنیف و اشاعت اسلامی اصول کی فلاسفی۔ نشان جلسہ اعظم مذاہب لاہور۔
۱۸۹۷ء اشاعت انجام آتھم ۔ مخالف علماء کو نام لے لے کر مباہلہ کی دعوت ۔موت لیکھرام ۔ولادت مبارکہ بیگم ۔ تلاشی مکانات حضرت مسیح موعودعلیہ السلام ۔تصنیف واشاعت استفتاء و سراج منیر و تحفہ قیصریہ ۔و حجۃ اللہ و محمود کی آمین و سراج الدین عیسائی کے سوالوں کا جواب ۔قادیان میں ترکی قونسل کی آمد۔مقدمہ اقدام قتل منجانب پادری مارٹن کلارک ۔مقدمہ انکم ٹیکس ۔الحکم کا اجراء امرتسر سے۔سفر ملتان برائے شہادت ۔میموریل بخدمت وائسرائے ہند برائے اصلاح مذہبی مناقشات ۔ ابتدائی تصنیف کتاب البریّہ۔ تجویز قیام مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان۔
۱۸۹۸ء قیام مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان ۔اشاعت کتاب البریّہ ۔پنجاب میں طاعون کے پھیلنے کی پیشگوئی ۔الحکم کا اجراء قادیان سے ۔تصنیف فریاد درد۔تصنیف واشاعت ضرورۃ الامام ۔تصنیف نجم الہدٰے۔تصنیف و اشاعت راز حقیقت و کشف الغطاء ۔جماعت کے نام رشتہ ناطہ اور غیر احمدیوں کی امامت میں نماز پڑھنے کے متعلق احکام۔تصنیف ایام الصلح ۔
۱۸۹۹ء اشاعت ایام الصلح ۔مقدمہ ضمانت برائے حفا ظت امن منجانب مولوی محمد حسین بٹالوی ۔تصنیف و اشاعت حقیقۃ المہدی۔ تصنیف مسیح ہندوستان میں ۔ولادت مبارک احمد۔تصنیف و اشاعت ستارہ قیصرہ۔جماعت میں عربی کی تعلیم کے لئے سلسلہ اسباق کا جاری کرنا ۔تصنیف تریاق القلوب ۔
۱۹۰۰ء مسجد مبارک کے رستہ میں مخالفین کی طرف سے دیوار کا کھڑا کر دیا جانا ۔تصنیف تحفہ غزنویّہ ۔خطبہ الہامیہ بر موقع عید الاضحی۔بشپ آف لاہور کو مقابلہ کا چیلنج۔تجویز عمارت منارۃالمسیح ۔فتویٰ ممانعت جہاد۔تصنیف و اشاعت رسالہ جہاد ۔ تصنیف لجۃ النور۔ابتداتصنیف تحفہ گولڑویہ ۔ تصنیف و اشاعت اربعین۔جماعت کا نام احمدی رکھا جانا۔
۱۹۰۱ء بقیہ تصنیف تحفہ گو لڑویہ ۔تصنیف خطبہ الہامیہ ۔تصنیف و اشاعت اعجاز المسیح ۔بشیر و شریف و مبارکہ کی آمین۔مقدمہ دیوار وہدم دیوار۔
۱۹۰۲ء رسالہ ریویو آف ریلیجنز اردو انگریزی کا اجرائ۔تصنیف و اشاعت دافع البلاء والہدٰے ۔تصنیف نزول المسیح۔اشاعت تحفہ گولڑویہ و تحفہ غزنویہ ۔و خطبہ الہامیہ و تریاق القلوب ۔البدر کا قادیان سے اجراء ۔نکاح خاکسار مرزا بشیر احمد۔نکاح و شادی حضرت خلیفۃ المسیح ثانی ۔تصنیف و اشاعت کشتی نوح و تحفہ ندوہ ۔مناظرہ مابین مولوی سیّد سرور شاہ صاحب و مولوی ثناء اللہ امرتسر ی بمقام مُدّ ضلع امرتسر۔تصنیف و اشاعت اعجاز احمدی وریویوبر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی ۔ مولوی ثنا اللہ کا قادیان آنا۔
۱۹۰۳ء تصنیف و اشاعت مواہب الرحمٰن ۔سفر جہلم برائے مقدمہ مولوی کرم دین ۔تصنیف و اشاعت نسیم دعوت وسناتن دھرم ۔منارۃ المسیح کی بنیادی اینٹ کا رکھا جانا۔طاعون کا پنجاب میں زور اور بیعت کی کثرت کا آغاز۔ولادت امۃ النصیر ۔ مقدمہ مولوی کرم دین گورداسپورمیں۔شہادت مولوی عبد اللطیف صاحب شہید بمقام کابل۔تصنیف و اشاعت تذکرۃالشہادتین و سیرۃ الابدال۔ وفات امۃ النصیر۔
۱۹۰۴ء مقدمہ مولوی کرم دین گورداسپورمیں ۔سفر لاہور اور لیکچر لاہور۔سفر سیالکوٹ اور لیکچر سیالکوٹ۔ اعلان دعویٰ مثیل کرشن۔ولادت امۃ الحفیظ بیگم ۔فیصلہ مقدمہ مولوی کرم دین ماتحت عدالت میں
۱۹۰۵ء مقدمہ مولوی کرم دین کا فیصلہ عدالت اپیل میں ۔بڑا زلزلہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا باغ میں جاکر قیام کرنا۔تصنیف براہین احمدیہ حصہ پنجم ۔البدر کا بدر میں تبدیل ہونا۔وفات حضرت مولوی عبد الکریم صاحب۔وفات مولوی برہان الدین صاحب جہلمی۔تجویز قیام مدرسہ احمدیہ قادیان۔سفر دہلی و قیام لدھیانہ وامرتسر و لیکچر ہر دو مقامات۔الہامات قرب وصال۔تصنیف و اشاعت الوصیت ۔تجویز قیام مقبرہ بہشتی ۔
۱۹۰۶ء اشاعت ضمیمہ الوصیت ۔ابتداانتظام بہشتی مقبرہ۔قیام صدر انجمن احمدیہ قادیان۔تصنیف و اشاعت چشمہ مسیحی۔تصنیف تجلیات الہٰیہ۔شادی خاکسار مرزا بشیر احمد۔ولادت نصیر احمدپسر حضرت خلیفۃ المسیح ثانی۔ تشحیذالاذہان کا اجرائ۔
۱۹۰۷ء تصنیف و اشاعت قادیان کے آریہ اور ہم۔ ہلاکت اراکین اخبار شبھ چنتک قادیان۔ ہلاکت ڈوئی ہلاکت سعد اللہ لدھیانوی ۔ تصنیف و اشاعت حقیقۃ الوحی۔ ولادت امۃ السلام دختر خاکسار مرزا بشیر احمد۔ نکاح مبارک احمد۔وفات مبارک احمد۔ توسیع مسجد مبارک ۔ نکاح مرزا شریف احمد۔ نکاح مبارکہ بیگم۔جلسہ وچھووالی لاہور و مضمون حضرت مسیح موعود علیہ السلام۔
۱۹۰۸ء تصنیف و اشاعت چشمہ معرفت ۔فنانشل کمشنر پنجاب کا قادیان آنااور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ملاقات۔سفر لاہور۔رؤسا کو تبلیغ بذریعہ تقریر۔تصنیف لیکچر پیغام صلح۔الہام دربارہ قرب وصال۔وصال حضرت مسیح موعودعلیہ السلام بمقام لاہور۔قیام خلافت و بیعت خلافت بمقام قادیان ۔تدفین حضرت مسیح موعود علیہ السلام۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{ 471} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ جب سیرۃ المہدی کا حصہ اوّل شائع ہواتو اس پر ایک طویل تنقیدی مضمون ڈاکٹر بشارت احمد صاحب کی طرف سے پیغام صلح لاہور میں شائع ہواتھا۔جس میں بعض اصولی اعتراض سیرۃالمہدی حصہ اوّل کے متعلق کئے گئے تھے اور بعض روایات پر تفصیلی جرح بھی کی گئی تھی۔اس مضمون کا جواب میری طرف سے گذشتہ سال الفضل میں شائع ہوا۔جس میں ڈاکٹر صاحب موصوف کے جملہ اصولی اعتراضات کا جواب دیا گیا تھا۔اور بعض تفصیلی اعتراضات کا جواب بھی لکھا گیا تھا۔لیکن پیشتر اس کے کہ میں ڈاکٹر صاحب کے سارے اعتراضات کا جواب ختم کرتا ۔مجھے اس سلسلہ مضمون کو بعض ناگزیر وجوہات سے درمیان میں چھوڑنا پڑا ۔اب بعض دوستوں کی تحریک پر میں اس جگہ ڈاکٹر صاحب کے اصولی ا عتراضات کا جواب درج کرتا ہوں اور تفصیلی اعتراضات کے متعلق صرف یہ عرض کرتا ہوں کہ ان کا جواب کچھ تو الفضل میں شائع ہو چکا ہے ۔کچھ سیرۃ المہدی کے موجودہ حصہ یعنی حصہ دوئم میںمتفرق طور پر آگیا ہے اورکچھ اگر ضرورت ہوئی تو انشاء اللہ پھر کسی موقعہ پربیان کر دیا جاوے گا۔
کچھ عرصہ ہوا میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حالات میں ایک کتاب سیرۃ المہدی حصہ اوّل شائع کی تھی۔اس کتاب کی تصنیف کے وقت میرے دل میں جو نیت تھی اُسے صرف میں ہی جانتا ہوں یا مجھ سے بڑھ کر میرا خدا جانتا ہے ۔جس سے کوئی بات بھی پوشیدہ نہیں اور مجھے اس وقت یہ وہم وگمان تک نہ تھا کہ کوئی احمدی کہلانے والا شخص اس کتاب کو اس معاندانہ نظر سے دیکھے گا ۔جس سے کہ بعض غیرمبائعین نے اسے دیکھا ہے ۔مگر اس سلسلہ مضامین نے جو ڈاکٹر بشارت احمد صاحب کی طرف سے گذشتہ ایام میں پیغام صلح لاہور میں شائع ہوتا رہا ہے ۔میری امیدوں کو ایک سخت نا گوار صدمہ پہنچایا ہے۔ جرح وتنقید کا ہر شخص کو حق پہنچتا ہے اور کوئی حق پسند اور منصف مزاج آدمی دوسرے کی ہمدردانہ اور معقول تنقید کو نا پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھ سکتا۔بلکہ دراصل یہ ایک خوشی کا مقام ہوتا ہے ۔کیونکہ اس قسم کی بحثیں جو نیک نیتی کے ساتھ معقول طور پر کی جائیں ۔طرفین کے علاوہ عام لوگوں کی بھی تنویر کا موجب ہوتی ہیں۔کیونکہ اس طرح بہت سے مفید معلومات دنیا کے سامنے آجاتے ہیں ۔اور چونکہ طرفین کی نیتیں صاف ہوتی ہیںاور سوائے منصفانہ علمی تنقید کے اور کوئی غرض نہیں ہوتی ۔ اس لئے ایسے مضامین سے وہ بد نتائج بھی پیدا نہیں ہوتے ۔جو بصورت دیگر پیدا ہونے یقینی ہوتے ہیں مگر مجھے بڑے افسوس اور رنج کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ ڈاکٹر بشارت احمد صاحب کامضمون اس شریفانہ مقام تنقید سے بہت گرا ہوا ہے میں اب بھی ڈاکٹر صاحب کی نیت پر حملہ نہیں کرنا چاہتا لیکن اس افسوس ناک حقیقت کو بھی چھپایا نہیں جا سکتاکہ ڈاکٹر صاحب کے طویل مضمون میں شروع سے لیکر آخر تک بغض و عداوت کے شرارے اُڑتے نظر آتے ہیں ۔اور ان کے مضمون کا لب و لہجہ نہ صرف سخت دل آزار ہے بلکہ ثقاہت اور متانت سے بھی گرا ہوا ہے ۔ جابجا تمسخر آمیز طریق پر ہنسی اُڑائی گئی ہے ۔اور عامی لوگوں کی طرح شوخ اور چست اشعار کے استعمال سے مضمون کے تقدس کوبری طرح صدمہ پہنچایا گیا ہے ۔مجھے اس سے قبل ڈاکٹر صاحب کی کسی تحریر کے دیکھنے کا اتفاق نہیں ہواتھا اور حق یہ ہے کہ باوجود عقیدہ کے اختلاف کے میں آج تک ڈاکٹر صاحب کے متعلق اچھی رائے رکھتا تھا۔مگر اب مجھے بڑے افسوس کے ساتھ اس رائے میں ترمیم کرنی پڑی ہے۔مجھے یاد نہیں کہ میری ذات کی طرف سے ڈاکٹر صاحب کو آج تک کبھی کوئی وجہ شکایت کی پیدا ہوئی ہو ۔پس میں ڈاکٹر صاحب کے اس رویہ کو اصولِ انتقام کے ماتحت لا کر بھی قابل معافی نہیں سمجھ سکتا۔میں انسان ہوں۔ اور انسانوں میں سے بھی ایک کمزور انسان ۔اور مجھے ہرگز یہ دعویٰ نہیں کہ میری رائے یا تحقیق غلطی سے پا ک ہوتی ہے اور نہ ایسا دعوٰی کسی عقل مند کے منہ سے نکل سکتا ہے ۔میں نے اس بات کی ضرورت سمجھ کر کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات جلد ضبط تحریر میں آجانے چاہئیں ۔محض نیک نیتی کے طور پر سیرت المہدی کی تصنیف کا سلسلہ شروع کیا تھا۔اگر اس میں مَیں نے غلطی کی ہے یا کوئی دھوکہ کھایا ہے تو ہر شخص کا حق ہے کہ وہ مجھے میری غلطی پر متنبہ کرے تاکہ اگر یہ اصلاح درست ہوتو نہ صرف میں خود آئندہ اس غلطی کے ارتکاب سے محفوظ ہو جاؤں ۔بلکہ دوسرے لوگ بھی ایک غلط بات پر قائم ہونے سے بچ جائیں ۔لیکن یہ کسی کو حق نہیں پہنچتاکہ وہ بلا وجہ کسی کی نیت پر حملہ کرے ۔اور ایک نہایت درجہ دل آزار اور تمسخر آمیز طریق کو اختیار کر کے بجائے اصلاح کرنے کے بغض و عداوت کا تخم بوئے۔ اس قسم کے طریق سے سوائے اس کے کہ دلوںمیں کدورت پیدا ہو اور کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا۔مجھے افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنے زور قلم کا بہت نامناسب استعمال کیا ہے جسے کسی مذہب و ملّت کا شرافت پسند انسان بھی نظر استحسان سے نہیں دیکھ سکتا۔
میں ڈاکٹر صاحب کے مضمون سے مختلف عبارتیں نقل کر کے ان کے اس افسوس نا ک رویہ کو ثابت کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ لیکن بعد میں مجھے خیال آیاکہ جو ہونا تھا وہ تو ہو چکا اب ان عبارتوں کو نقل کر کے مزید بد مزگی پیدا کرنے سے کیا حاصل ہے۔پس میری صرف خدا سے ہی دعا ہے کہ وہ ڈاکٹر صاحب کو یہ توفیق عطا فرمائے کہ وہ میرے ان الفاظ کو نیک نیتی پر محمول سمجھ کے اپنے طرزتحریر میں آئندہ کے لئے اصلاح کی طرف مائل ہوں اور ساتھ ہی میری خدا سے یہ بھی دعا ہے کہ وہ میرے نفس کی کمزوریوں کو بھی عام اس سے کہ وہ میرے علم میں ہوں یا مجھ سے مخفی ہوں دور فر ما کر مجھے اپنی رضا مندی کے رستوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین ۔اللّھم آمین۔
اصل مضمون شروع کرنے سے قبل مجھے ایک اور بات بھی کہنی ہے اور وہ یہ کہ علاوہ دل آزار طریق اختیار کرنے کے ڈاکٹر صاحب نے اپنے مضمون میں غیر جانبدارانہ انصاف سے بھی کا م نہیں لیا۔ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ تنقید کرنے والے کا یہ فرض ہے کہ وہ جس کتاب پر ریویو کرنے لگا ہے ۔اس کے تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالے ۔یعنی اچھی اور بری دونوں باتوں کو اپنی تنقید میں شامل کر کے کتاب کے حسن و قبح کا ایک اجمالی ریویولوگوں کے سامنے پیش کرے ۔تاکہ دوسرے لوگ اس کتاب کے ہر پہلو سے آگاہی حاصل کرسکیں۔ یہ اصول دنیا بھر میں مسلم ہیں ۔ اور اسلام نے تو خصوصیت کے ساتھ اس پر زور دیا ہے چنانچہ یہود و نصارٰی کے باہمی تنازع کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے وَقَالَتِ الْیَھُوْدُ لَیْسَتِ النَّصَارٰ ی عَلٰی شَیْئٍ وَقَالَتِ النَّصَارٰی لَیْسَتِ الْیَھُوْدُ عَلٰی شَیْ ئٍ وَّھُمْ یَتْلُوْنَ الْکِتٰب۔(سورۃ البقرۃ:۱۱۴)یعنی یہود و نصارٰے ایک دوسرے کے خلاف عداوت میں اس قدر ترقی کر گئے ہیں کہ ایک دوسرے کے محاسن ان کو نظر ہی نہیں آتے اور یہود یہی کہتے چلے جاتے ہیں کہ نصارٰی میں کوئی خوبی نہیں ہے اور نصارٰے یہ کہتے ہیں کہ یہود تمام خوبیوں سے معرّا ہیں ۔ حالانکہ دونوں کو کم از کم اتنا تو سوچنا چاہیے کہ تورات اور نبیوں پر ایمان لانے میں وہ دونوں ایک دوسرے کے شریک حال ہیں ۔پھر فرماتا ہے ۔ لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰی اَنْ لاَّ تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی (المائدۃ:۹) یعنے کسی قوم کی عداوت کا یہ نتیجہ نہیں ہونا چاہیے کہ انسان انصاف کو ہاتھ سے دے دے کیونکہ بے انصافی تقوٰی سے بعید ہے اورپھر عملاً بھی قرآن شریف نے اسی اصول کو اختیار کیا ہے ۔چنانچہ شراب وجوئے کے متعلق اجمالی ریویو کرتے ہوئے فرماتا ہے۔ فِیْھِمَا اِثْمٌ کَبِیْرٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَاِثْمُھُمَا اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِھِمَا (البقرۃ:۲۲۰) یعنی شراب اور جوئے میں لوگوں کے لئے بہت ضرر اور نقصان ہے۔مگر ان کے اندر بعض فوائد بھی ہیںلیکن ان کے نقصانات ان کے فوائد سے زیادہ ہیں ۔کیسی منصفانہ تعلیم ہے۔جو اسلام ہمارے سامنے پیش کرتا ہے۔مگر افسوس کہ ڈاکٹر صاحب نے اس زرّیں اصول کو نظر انداز کر کے اپنا فرض محض یہی قرار دیا ہے کہ صرف ان باتوں کو لوگوں کے سامنے لایا جائے جو ان کی نظر میں قابل اعتراض تھیں۔میں ڈاکٹر صاحب سے امانت و دیانت کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا میری کتاب میں ان کو کوئی بھی ایسی خوبی نظر نہیںآئی جسے وہ اپنے اس طویل مضمون میں بیان کرنے کے قابل سمجھتے؟ کیا میری تصنیف بلا استثناء محض فضول اور غلط اور قابل اعتراض باتوں کا مجموعہ ہے؟کیا سیرۃ المہدی میں کوئی ایسی نئی اور مفید معلومات نہیں ہیں ۔جنھیں اس پر تنقید کرتے ہوئے قابل ذکر سمجھا جاسکتاہے؟اگر ڈاکٹر صاحب کی دیانتداری کے ساتھ یہی رائے ہے کہ سیرۃ المہدی حصہ اول میں کوئی بھی ایسی خوبی نہیں جو بوقت ریویو قابل ذکر خیال کی جائے ۔تو میں خاموش ہو جائوں گا لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو میں یہ کہنے کا حق رکھتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کی تنقید انصاف اور دیانت داری پر مبنی نہیں ہے اسلام کے اشد ترین دشمن جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ نفسی ) کی عداوت میں عموماً کسی چیز کی بھی پروا نہیں کر تے ۔آپ کی ذات والا صفات پر ریویو کرتے ہوئے اس بات کی احتیاط کر لیتے ہیں کہ کم از کم دکھاوے کیلئے ہی آپ کی بعض خوبیاں بھی ذکر کر دی جائیں تاکہ عامۃ الناس کو یہ خیال پیدا نہ ہو کہ یہ ریویو محض عداوت پر مبنی ہے ۔اور لوگ ان کی تنقید کو ایک غیر جانبدارانہ اور منصفانہ تنقید خیال کر کے دھوکہ میں آجائیں ۔لیکن نہ معلوم میں نے ڈاکٹر صاحب کا کونسا ایسا سنگین جر م کیا ہے جس کی وجہ سے وہ میرے خلاف ایسے غضبناک ہو گئے ہیں کہ اور نہیں تو کم از کم اپنے مضمون کو مقبول بنا نے کیلئے ہی ان کے ذہن میں یہ خیال نہیں آتا کہ جہاں اتنے عیوب بیان کئے ہیں وہاں دو ایک معمولی سی خوبیاں بھی بیان کر دی جائیں ۔
مضمون تو اس عنوان سے شروع ہوتا ہے کہ ’’ سیرۃ المہدی پر ایک نظر‘‘مگر شروع سے لے کر آخر تک پڑھ جائو۔سوائے عیب گیری اور نقائص اور عیوب ظاہر کرنے کے اور کچھ نظر نہیں آتا ۔’’گویا یہ نظر‘‘ عدل و انصاف کی نظر نہیں ہے۔جسے حسن و قبح سب کچھ نظر آنا چاہیے ۔بلکہ عداوت اور دشمنی کی نظر ہے ۔جو سوائے عیب اور نقص کے اور کچھ نہیں دیکھ سکتی ۔مکرم ڈاکٹر صاحب ! کچھ وسعت حوصلہ پیدا کیجئے او ر اپنے دل و دماغ کوا س بات کا عادی بنایئے کہ وہ اس شخص کے محاسن کا بھی اعتراف کر سکیں ۔جسے آپ اپنا دشمن تصّور فرماتے ہوں ۔میں نے یہ الفاظ نیک نیتی سے عرض کئے ہیں اور خدا شاہد ہے کہ میں تو آپ کا دشمن بھی نہیں ہوں ۔گو آپ کے بعض معتقدات سے مجھے شدید اختلاف ہے ۔
اس کے بعد میں اصل مضمون کی طرف متوجہ ہو تا ہوں ۔ڈاکٹر صاحب موصوف نے اپنے مضمون کے شروع میں چند اصولی باتیں لکھی ہیں جو ان کی اس رائے کا خلاصہ ہیں ۔جو انہوں نے بحیثیت مجموعی سیرۃ المہدی حصہ اول کے متعلق قائم کی ہے سب سے پہلی بات جو ڈاکٹر صاحب نے بیان کی ہے ۔وہ یہ ہے کہ کتاب کا نام سیرۃ المہدی رکھنا غلطی ہے کیونکہ وہ سیرۃ المہدی کہلانے کی حقدارہی نہیں ۔زیادہ تر یہ ایک مجموعہ روایات ہے جن میں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ایسی روایات کی بھی کمی نہیں جن کا سیرۃ سے کوئی تعلق نہیں ۔اس اعتراض کے جواب میں مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ تا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے ایک تنقید کر نے والے کے فرض کو پورا نہیں کیا ۔ناقد کا یہ فرض اولین ہے کہ وہ جس کتاب یا مضمون کے متعلق تنقید کرنے لگے پہلے اس کتاب یا مضمون کا کماحقہ مطالعہ کر لے ۔تا کہ جو جرح وہ کرنا چاہتا ہے اگر اس کا جواب خود اسی کتاب یا مضمون کے کسی حصہ میں آگیا ہو تو پھر وہ اس بے فائدہ تنقید کی زحمت سے بچ جاوے اور پڑھنے والوں کا بھی وقت ضائع نہ ہو ۔مگر افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے تنقید کے شوق میں اپنے اس فرض کو بالکل نظرا نداز کر دیا ہے۔اگروہ ذرا تکلیف اُٹھا کر اس ’’ عرض حال‘‘ کو پڑھ لیتے جو سیرۃ المہدی کے شروع میں درج ہے تو ان کو معلوم ہو جاتا کہ ان کا اعتراض پہلے سے ہی میرے مدنظر ہے اور میں اصولی طور پر اس اعتراض کا جواب دے چکا ہوں ۔چنانچہ سیرۃ المہدی کے عرض حال میں میرے یہ الفاظ درج ہیں ’’بعض باتیں اس مجموعہ میں ایسی نظر آئیں گی جن کو بظاہر حضرت مسیح موعود کی سیرۃ یا سوانح سے کو ئی تعلق نہیں لیکن جس وقت استنباط و استدلال کا وقت آئے گا (خواہ میرے لئے یا کسی اور کیلئے ) اس وقت غالباً وہ اپنی ضرورت خود منوا لیں گی ۔‘‘ میرے ان الفاظ سے ظاہر ہے کہ میں نے خود اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ اس کتاب میں بعض ایسی روایتیں درج ہیں جن کا بادی النظر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت سے تعلق نہیں ہے لیکن استدلال و استنباط کے وقت ان کا تعلق ظاہر کیا جا سکتا ہے ۔پس میری طرف سے اس خیال کے ظاہر ہو جانے کے باوجود ڈاکٹر صاحب کا اس اعتراض کو پیش کرنا سوائے اس کے اور کیا معنے رکھتاہے کہ ڈاکٹر صاحب کو صرف بہت سے اعتراض جمع کر دینے کا شوق ہے۔ میں جب خود مانتا ہوں کہ سیرۃ المہدی میں بعض بظاہر لا تعلق روایات درج ہیں ۔اور اپنی طرف سے اس خیال کو ضبط تحریر میں بھی لے آیاہوں ۔تو پھر اس کو ایک نیا اعتراض بنا کر اپنی طرف سے پیش کرنا انصاف سے بعید ہے ۔او رپھر زیادہ قابل افسوس بات یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے میرے ان الفاظ کا اپنے ریویو میں ذکر تک نہیں کیا ۔ورنہ انصاف کا یہ تقاضا تھا کہ جب انہوں نے یہ اعتراض کیا تھا تو ساتھ ہی میرے وہ الفاظ بھی درج کردیتے جن میں میں نے خود اس اعتراض کو پیدا کر کے اس کا اجمالی جواب دیا ہے ۔اور پھر جو کچھ جی میں آتا فرماتے۔مگر ڈاکٹر صاحب نے میرے الفاظ کا ذکر تک نہیں کیا ۔اور صرف اپنی طرف سے یہ اعتراض پیش کر دیا ہے تاکہ یہ ظاہر ہو کہ یہ تنقید صرف ان کی حدت نظر اور دماغ سوزی کا نتیجہ ہے ۔اور اعتراضات کے نمبرکا اضافہ مزید برآں رہے۔افسوس ! اور پھر یہ شرافت سے بھی بعید ہے کہ جب میں نے یہ صاف لکھ دیا تھا کہ استدلال و استنباط کے وقت ان روایات کا تعلق ظاہر کیا جائے گا ۔تو ایسی جلد بازی سے کام لے کر شور پیدا کر دیا جاوے ۔اگر بہت ہی بے صبری تھی تو حق یہ تھا کہ پہلے مجھے تحریر فرماتے کہ تمہاری فلاں فلاں روایت سیر ۃ سے بالکل بے تعلق ہے اور کسی طرح بھی اس سے حضرت مسیح موعودؑ کی سیرۃ پر روشنی نہیں پڑتی ۔اور پھر اگر میں کوئی تعلق ظاہر نہ کر سکتا تو بے شک میرے خلاف یہ فتویٰ شائع فرمادیتے کہ اس کی کتاب سیرۃ کہلانے کی حقدار نہیں کیونکہ اس میں ایسی روایات آگئی ہیں جن کا کسی صورت میں بھی سیرت کے ساتھ کو ئی واسطہ نہیں ہے ۔
دوسرا جواب اس اعتراض کا میں یہ دینا چاہتا ہوں کہ اگر بالفرض سیرۃ المہدی میں بعض ایسی روایات آگئی ہیں جن کا واقعی سیرت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے تو پھر بھی کتاب کا نام سیرۃ رکھنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ ڈاکٹر صاحب کم از کم اس بات کو ضرور تسلیم کریں گے کہ سیرۃ المہدی میں زیادہ تر روایات وہی ہیں جن کا سیرت کے ساتھ تعلق ہے ۔پس اگر ان کثیر التعداد روایات کی بنا پر کتا ب کا نام سیرۃ رکھ دیا جاوے تو قابل اعتراض نہیں ہونا چاہیے ۔اور کم از کم یہ کہ یہ کوئی ایسی بات نہیں تھی جسے ڈاکٹر صاحب جائے اعتراض گردان کر اسے اپنی تنقید میں جگہ دیتے ۔حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا وجود باجود ہر مخلص احمدی کیلئے ایسا ہے کہ خواہ نخواہ طبیعت میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ آپ کے متعلق جو کچھ بھی ہمارے علم میں آجاوے وہی کم ہے اور جذبہ محبت کسی بات کو بھی جو آپ کے ساتھ تعلق رکھتی ہو۔ لاتعلق کہہ کر نظر انداز نہیں کر نے دیتا۔ پس اگر میرا شوق مجھے کہیں کہیں لاتعلق باتوں میں لے گیا ہے توا س خیال سے کہ یہ باتیں بہر حال ہیں تو ہمارے آقا ہماری جان کی راحت اور ہماری آنکھوں کے سرور حضرت مسیح موعود ؑ ہی کے متعلق ۔میر ایہ علمی جرم اہل ذوق اور اہل اخلاص کے نزدیک قابل معافی ہونا چاہیے ۔ مگر ڈاکٹر صاحب ! اگر آپ محبت کے میدان میں بھی خشک فلسفہ اور تدوین علم کی باریکیوں کو راہ دینا چاہتے ہیں تو آپ کو اختیار ہے ۔مگر تاریخ عالم اور صحیفہ فطرت کے مطالعہ سے تو یہی پتہ چلتا ہے کہ جذبۂ محبت ایک حد تک ان سخت قیود سے آزاد سمجھا جانا چاہیے ۔آپ اشعار کا شوق رکھتے ہیں ۔یہ شعر تو آپ نے ضرور سنا ہوگا۔ ؎
خلق میگوید کہ خسرو بت پرستی میکند
آرے آرے میکنم باخلق و عالم کا ر نیست
بس یہی میرا جواب ہے ۔حضرت مسیح موعود ؑ بھی فرماتے ہیں ۔ ؎
تانہ دیوانہ شدم ہوش نیا مد بسرم
اے جنوں گرد تو گردم کہ چہ احساں کر دی
پس جوش محبت میں ہمارا تھوڑا سا دیوانہ پن کسی احمدی کہلانے والے پر گراں نہیں گذرنا چاہیے ۔
تیسرا جواب اس اعتراض کا میری طرف سے یہ ہے کہ میں نے خود اس کتاب کے آغاز میں اپنی اس کتاب کی غرض و غایت لکھتے ہوئے یہ لکھ دیا تھا کہ اس مجموعہ میں ہر ایک قسم کی وہ روایت درج کی جاوے گی جس کا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے ساتھ کسی نہ کسی قسم کا تعلق ہے ۔چنانچہ کتاب کے شروع میں میری طرف سے یہ الفاظ درج ہیں ’’ میرا ارادہ ہے ۔واللہ الموفق، کہ جمع کر دوں اس کتاب میں تمام و ہ ضروری باتیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے متعلق تحریر فر مائی ہیں اور جو دوسرے لوگوں نے لکھی ہیں ۔نیز جمع کروں تما م وہ زبانی روایات جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق مجھے پہنچی ہیں یا جو آئندہ پہنچیں ۔اور نیز وہ باتیں جو میرا ذاتی علم اور مشاہدہ ہیں ‘‘ میں امید کرتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب اس بات کو تسلیم کریں گے کہ ان الفاظ کے ماتحت مجھے اپنے دائرہ عمل میں ایک حد تک وسعت حاصل ہے ۔اور دراصل منشاء بھی میرا یہی تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق جو بھی قابل ذکر بات مجھے پہنچے میں اسے درج کر دوں تاکہ لوگوں کے استمتاع کا دائرہ وسیع ہو جاوے ۔اور کوئی بات بھی جو آپ کے متعلق قابل بیان ہو ذکر سے نہ رہ جائے کیونکہ اگر اسوقت کوئی بات ضبط تحریر میں آنے سے رہ گئی تو بعد میں وہ ہمارے ہاتھ نہیں آئے گی ۔اور نہ بعد میں ہمارے پاس اسکی تحقیق اور جانچ پڑتال کا کوئی پختہ ذریعہ ہوگا ۔مگر افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے میرے ان الفاظ کو جو میںنے اسی غرض کو مدنظر رکھ کر لکھے تھے بالکل نظر انداز کر کے خواہ نخواہ اعتراضات کی تعداد بڑھانے کیلئے میرے خلاف ایک الزام دھر دیا ہے ۔
چوتھا اور حقیقی جواب اس اعتراض کا یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے لفظ سیرۃ کے مفہوم پر غور نہیں کیا اور اسکے مفہوم کو ایک بہت ہی محدود دائرہ میں مقید سمجھ کر مجھے اپنے اعتراض کا نشانہ بنا لیا ہے ۔اگر ڈاکٹر صاحب سیرۃ کی مختلف کتب کا مطالعہ فرما ویں ۔خصوصاً جو کتب متقدمین نے سیرۃ میں لکھی ہیں ۔انہیں دیکھیں تو ڈاکٹر صاحب کو معلوم ہو جائے گا کہ سیرۃ کالفظ نہایت وسیع معنوں میں لیا جاتا ہے ۔دراصل سیرۃ کی کتب میں تمام وہ روایات درج کر دی جاتی ہیں جو کسی نہ کسی طرح اس شخص سے تعلق رکھتی ہوں ۔جس کی سیرت لکھنی مقصود ہو تی ہے ۔مثلاً سیرۃ ابن ہشام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات میں ایک نہایت ہی مشہور اور متد ا ول کتاب ہے ۔اور میں امید کرتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب نے اس کاضرور مطالعہ کیا ہوگا۔لیکن اسے کھول کر اوّل سے آخر تک پڑھ جاویں ۔ اس میں سینکڑوں ایسی باتیں درج ملیں گی جن کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ براہ راست بلا واسطہ کوئی تعلق نہیں ہے لیکن چونکہ بالواسطہ طورپر وہ آپ کے حالات زندگی پر اور آپ کی سیرت و سوانح پر اثر ڈالتی ہیں ۔ اس لئے قابل مصنف نے انہیں درج کردیا ہے ۔بعض جگہ صحابہ کے حالات میں ایسی ایسی باتیں درج ہیں جن کا آنحضرت ﷺ کی سیرت سے بظاہر کوئی بھی تعلق نہیں اور ایک عامی آدمی حیرت میں پڑجاتا ہے کہ نہ معلوم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات میں یہ روایات کیوں درج کی گئی ہیں ۔لیکن اہل نظر و فکر ان سے بھی آپ کی سیرت و سوانح کے متعلق نہایت لطیف استدلالات کرتے ہیں ۔مثلاً صحابہ کے حالات ہمیںاس بات کے متعلق رائے قائم کر نے میں بہت مدد دیتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کی صحبت اور آپ کی تعلیم و تربیت نے آپ کے متبعین کی زندگیوں پر کیا اثر پیدا کیا ۔یعنی ان کو آپ نے کس حالت میں پایا ۔اور کس حالت میں چھوڑا ۔اوریہ ایک ایسی بات ہے کہ جسے کوئی عقل مند انسان آپ کی سیرۃ و سوانح کے لحاظ سے لا تعلق نہیں کہہ سکتا ۔اسی طرح مثلاً آپ کی سیرۃ کی کتب میں آپ کے آباء واجداد کے حالات اور آپ کی بعثت کے وقت آپ کے ملک و قوم کی حالت کا مفصل بیان درج ہوتا ہے جو بادی النظر میں ایک بلا تعلق بات سمجھی جاسکتی ہے ۔لیکن درحقیقت آپ کی سیرۃ و سوانح کو پوری طرح سمجھنے کیلئے ان باتو ں کا علم نہایت ضروری ہے ۔الغرض سیرۃ کا مفہوم ایسا وسیع ہے کہ اس میں ایک حد مناسب تک ہر وہ بات درج کی جاسکتی ہے جو اس شخص کے ساتھ کوئی نہ کوئی تعلق رکھتی ہو جس کی سیرۃ لکھی جارہی ہے بعض اوقات کسی شخص کی سیرت لکھتے ہوئے اس کے معروف اقوال اور تقریروں کے خلاصے درج کئے جاتے ہیں جن کو ایک جلد باز انسان سیرۃ کے لحاظ سے زائد و لاتعلق باتیں سمجھ سکتا ہے ۔حالانکہ کسی شخص کے اقوال وغیرہ کا علم اس کی سیرۃ کے متعلق کامل بصیرت حاصل کرنے کیلئے ضروری ہوتا ہے ۔پھر بعض وہ علمی نکتے اور نئی علمی تحقیقاتیں اور اصولی صداقتیں جو ایک شخص کے قلم یا منہ سے نکلی ہوں وہ بھی اس کی سیرۃ میں بیان کی جاتی ہیں تاکہ یہ اندازہ ہو سکے کہ وہ کس دل و دماغ کا انسان ہے ۔ اور اسکی وجہ سے دنیا کے علوم میں کیا اضافہ ہوا ہے ۔
خلاصہ کلام یہ کہ ڈاکٹر صاحب نے سیرۃ کا مفہوم سمجھنے میں غلطی کھائی ہے اور اس کو اسکے تنگ اور محدود دائرہ میں لے کر اعتراض کی طرف قد م بڑھادیا ہے ۔ورنہ اگر وہ ٹھنڈے دل سے سوچتے اور سیرۃ کے اس مفہوم پر غور کرتے جو اہل سیر کے نزدیک رائج و متعارف ہے تو ان کو یہ غلطی نہ لگتی ۔اور اسی وسیع مفہوم کو مد نظررکھ کر میں نے سیرۃ المہدی میں ہر قسم کی روایات درج کر دی ہیں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ایک صاحب بصیرت شخص ان میں سے کسی روایت کو زائد اور بے فائدہ قرار نہیں دے سکتا ۔
میں نے اس خیال سے بھی اپنے انتخاب میں وسعت سے کام لیا ہے کہ ممکن ہے اس وقت ہمیں ایک بات لا تعلق نظر آوے لیکن بعد میں آنے والے لوگ اپنے زمانہ کے حالات کے ماتحت اس با ت سے حضرت مسیح موعودؑ کی سیرۃ و سوانح کے متعلق مفید استدلالات کر سکیں ۔جیسا کہ مثلاً ابتدائی اسلامی مورخین نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ہر قسم کی روایات جمع کر دیں ۔اور گو اس وقت ان میں سے بہت سی روایتوں سے ان متقدمین نے کوئی استدلال نہیں کیا ۔لیکن اب بعد میں آنے والوں نے اپنے زمانہ کے حالات و ضروریات کے ماتحت ان روایات سے بہت علمی فائدہ اُٹھایاہے ۔اور مخالفین کے بہت سے اعتراضات کا جواب دینے کیلئے ان سے مدد حاصل کی ہے ۔اگر وہ لوگ ان روایات کو اپنے حالات کے ماتحت لاتعلق سمجھ کر چھوڑ دیتے تو ایک بڑا مفید خزانہ اسلام کا ضائع ہو جاتا ۔پس ہمیں بھی بعد میں آنے والوں کا خیال رکھ کر روایات کے درج کرنے میں فراخ دلی سے کام لینا چاہیے اور حتی الوسع کسی روایت کو محض لاتعلق سمجھے جانے کی بنا پر ردّ نہیں کردینا چاہیے ۔ہاں بے شک یہ احتیاط ضروری ہے کہ کمزور اور غلط روایات درج نہ ہوں ۔مگر جو روایت اصولِ روایت ودرایت کی رو سے صحیح قرار پائے ۔اور وہ ہوبھی حضرت مسیح موعود ؑ کے متعلق تو خواہ وہ آپ کی سیرۃ کے لحاظ سے بظاہر لا تعلق یا غیر ضروری ہی نظر آوے اسے ضرور درج کردینا چاہیے ۔
بہر حال میں نے روایات کے انتخاب میں وسعت سے کا م لیا ہے کیونکہ میرے نزدیک سیرۃ کا میدان ایسا وسیع ہے کہ بہت ہی کم ایسی روایات ہو سکتی ہیں جو من کل الوجوہ غیر متعلق قراد دی جاسکیں ۔اس جگہ تفصیلات کی بحث نہیں کیونکہ ڈاکٹر صاحب نے صرف اصولی اعتراض اُٹھایا ہے اور مثالیں نہیں دیں۔ورنہ میں مثالیں دے کر بتا تا کہ سیرۃ المہدی کی وہ روایات جو بظاہر غیر متعلق نظر آتی ہیں ۔دراصل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے گہرا تعلق رکھتی ہیں لیکن اگر اب بھی ڈاکٹر صاحب کی تسلی نہ ہو تو میں ایک سہل علاج ڈاکٹر صاحب کیلئے پیش کر تا ہوں اور وہ یہ کہ میں سیرت ابن ہشام اور اسی قسم کی دیگر معروف کتب سیرسے چند باتیں ایسی نکال کر پیش کرونگا جن کا بظاہر آنحضرت ﷺ کی سیرۃ سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا اور پھر جو تعلق ڈاکٹر صاحب موصوف ان باتوں کا آنحضرت ﷺ کی سیرۃ سے ثابت کریں گے۔ میں انشاء اللہ اتناہی بلکہ اس سے بڑھ کر تعلق سیرۃ المہدی کی ان روایات کا حضر ت مسیح موعود ؑ کی سیرت سے ثابت کردونگا جن کو ڈاکٹر صاحب غیر متعلق قرار دیں گے ۔خلاصہ کلام یہ کہ کیا بلحاظ اس کے کہ سیرت کے مفہوم کو بہت وسعت حاصل ہے ۔اور مورخین اسکو عملاً بہت وسیع معنوں میں لیتے رہے ہیں اور کیا بلحاظ اس کے کہ ہمارے دل کی یہ آرزوہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ کی کوئی بات ضبط تحریر میں آنے سے نہ رہ جائے اور کیا بلحاظ اس کے کہ ممکن ہے کہ آج ہمیں ایک بات لاتعلق نظر آوے مگر بعد میں آنیوالے لوگ اس سے فائدہ اُٹھا سکیں ۔اور کیا بلحاظ اس کے میں نے اپنی کتاب کے شروع میں یہ بات لکھ دی تھی کہ میں حضرت مسیح موعود ؑ کے متعلق ہر قسم کی روایات اس مجموعہ میں درج کرنیکا ارادہ رکھتا ہوں اور کیا بلحاظ اس کے کہ میں نے خود اپنی کتاب کے دیباچہ میں یہ بھی لکھ دیا تھا کہ اس کتاب میں بعض روایات لاتعلق نظر آئیں گی لیکن استدلال و استنباط کے وقت ان کا تعلق ثابت کیا جا سکے گا ۔میں یہ سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب موصوف کو اس اعتراض کا حق حاصل نہیں تھا اور مجھے افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے سراسر تعدی کے ساتھ مجھے غیر منصفانہ اعتراض کا نشانہ بنا یا ہے ۔
دوسرا اصولی اعتراض جو ڈاکٹر بشارت احمد صاحب نے سیرۃ المہدی کے متعلق کیا ہے وہ یہ ہے کہ گو کتاب کے دیباچہ میں یہ لکھا گیا ہے کہ فی الحال روایات کو صرف جمع کر دیا گیا ہے اور ترتیب اور استنباط و استدلال بعد میں ہوتا رہے گا۔لیکن عملاً خوب دل کھول کر بحثیں کی گئی ہیں ۔اور جگہ بجگہ استدلال و استنباط سے کام لیا گیا ہے ۔ چنانچہ ڈاکٹر صاحب موصوف فرماتے ہیں ۔
’’ مصنف صاحب کا دعویٰ ہے کہ میں نے صرف اس میں روایات جمع کی ہیں اور ترتیب اور استنباط کا کام بعد میں ہوتا رہے گا ‘‘ مگر اسی کتاب میں صفحوں کے صفحے مختلف کتابوں مثلاً براہین احمدیہ ،سیرۃ مسیح موعود ؑ مصنفہ مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم ۔پنجاب چیفس اور مختلف اخبارات سے نقل کئے ہیں اور مختلف مسائل پر خوب ’’استنباط ‘‘ و ’’استدلال‘‘ سے کام لیا ہے ۔الخ۔
اس اعتراض کے جواب میں سب سے پہلی بات جو میں کہنا چاہتا ہوں۔وہ یہ ہے کہ میں نے بہت سوچا ہے مگر میں یہ نہیں سمجھ سکا کہ ڈاکٹر صاحب کا اس اعتراض سے منشاء کیا ہے ۔یعنی وہ کون سا علمی نکتہ ہے جو اس اعتراض کے پیش کرنے سے ڈاکٹر صاحب موصوف پبلک کے سامنے لانا چاہتے ہیں ۔اگر میں نے یہ لکھا کہ ترتیب و استدلال کا کام بعد میں ہوتا رہے گا اور بفرض محال یہ بھی سمجھ لیا جائے کہ اس سے میری مراد وہی تھی جو ڈاکٹر صاحب نے قرار دی ہے ۔اور پھریہ بھی فرض کر لیا جائے۔کہ میں نے اپنے اس بیان کے خلاف سیرۃ المہدی میں استدلال و استنباط سے کام لیا ہے ۔پھر بھی میں سمجھتا ہوںکہ ڈاکٹر صاحب کو چیں بجبیں ہونے کی کوئی وجہ نہیںتھی۔اور یہ ایسی بات ہرگز نہیں تھی جسے ڈاکٹر صاحب اپنے اصولی اعتراضات میں شامل کرتے ۔میں اب بھی یہی کہوں گاکہ میں ڈاکٹر صاحب کی نیت کے خلاف کچھ نہیں کہنا چاہتالیکن اس قسم کی باتیں خواہ نخواہ طبیعت کو بد ظنی کی طرف مائل کر دیتی ہیں ۔ناظرین غور فرمائیں ۔کہ ایک طرف تو ڈاکٹر صاحب کو سیرۃ المہدی پر تنقید کرتے ہوئے اسکے اندر ایک خوبی بھی ایسی نظر نہیں آتی جسے وہ اپنے مضمون میں درج کرنے کے قابل سمجھ سکیں ۔اور دوسری طرف اعتراضات کے مجموعہ کودیکھا جائے تو ایسی ایسی باتیں بھی درج ہیں جن کو علمی تنقید سے کوئی بھی واسطہ نہیں اور غالباً صرف اعتراضات کی تعداد بڑھانے کے لئے ان کو داخل کر لیا گیا ہے۔کیا یہ طریق عمل انصاف و دیانت پر مبنی سمجھا جا سکتا ہے ؟اگر میں نے یہ بات لکھی کہ اس کتاب میں صرف روایات جمع کر دی گئی ہیں ۔ اور استدلال بعد میں کیا جائے گا اور پھر دوران تحریر میں مَیں نے کہیں کہیں استدلال سے کام لے لیا تو میں پوچھتا ہوں کہ حرج کونسا ہو گیا ؟اور وہ کونسا خطرناک جرم ہے جس کا میں مرتکب ہوا ہوں اور جسے ڈاکٹر صاحب قابل معافی نہیں سمجھ سکتے ۔اس تبدیلی کا اگر کوئی نتیجہ ہے تو صرف یہی ہے کہ ایک زائد بات جس کا میں نے ناظرین کو وعدہ نہیں دلایا تھاایک حد تک نا ظرین کو حاصل ہوگئی ۔میں نے روایات کے جمع کرنے کا وعدہ کیا تھااو وہ وعدہ میں نے پورا کیا ۔ استدلال و استنباط کی امید میں نے نہیں دلائی تھی بلکہ اسے کسی آئندہ وقت پر ملتوی کیا تھا لیکن بایں ہمہ کہیں کہیں ضرورت کو دیکھ کر یہ کام بھی ساتھ ساتھ کرتا گیاہوں ۔گویا میرا جرم یہ ہے کہ جس قدر بوجھ اُٹھانے کی ذمہ داری میں نے لی تھی اس سے کچھ زیادہ بوجھ اُٹھایا ہے اور میرے اس جرم پر ڈاکٹر صاحب غضبناک ہو رہے ہیں ۔فرماتے ہیں ’’ایک طرف یہ سب بحثیں دیکھو اور دوسری طرف اس کتاب کے متعلق اس بیان کو دیکھو کہ استدلال کا وقت بعد میں آئے گا ۔تو حیرت ہو جاتی ہے ۔‘‘مکرم ڈاکٹر صاحب !بے شک آپ کو حیرت ہوتی ہوگی کیونکہ آپ کے مضمون سے ظاہر ہے کہ آپ کے سینہ میں قدر شناس دل نہیں ہے ورنہ اگر کوئی قدر دان ہوتا تو بجائے اعتراض کرنے کے شاکر ہوتا ۔
یہ تو میں نے صرف اصولی جواب دیا ہے ورنہ حقیقی جواب اس اعتراض کا یہ ہے کہ استدلال و استنباط کے متعلق میں نے جو کچھ سیرۃ المہدی میں لکھا ہے اس کا وہ مطلب ہرگز نہیں ہے جو ڈاکٹر صاحب سمجھے ہیں اور میں حیران ہوں کہ ڈاکٹرصاحب نے کس طرح میری عبارت سے یہ مطلب نکال لیا ہے۔ حالانکہ اس کا سیاق و سباق صریح طور پر اس کے خلاف ہے ۔اگر ڈاکٹر صاحب جلد بازی سے کام نہ لیتے اور میری جو عبارت ان کی آنکھوں میں کھٹکی ہے اس سے کچھ آگے بھی نظر ڈال لیتے تو میں یقین کرتا ہوں کہ ان کی تسلی ہو جاتی مگر غضب تو یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے دل میں اعتراض کرنے کا شوق ایسا غلبہ پائے ہوئے ہے کہ جو نہی ان کو کوئی بات قابل گرفت نظر آتی ہے وہ اسے لے دوڑتے ہیں اور اس بات کی تکلیف گوارا نہیں کرتے کہ اس کے آگے پیچھے بھی نظر ڈال لیں ۔ میں ڈاکٹرصاحب کے اپنے الفاظ میں یہ تو نہیں کہنا چاہتا کہ اس طرح وہ ’’مفت میں اپنا مذاق اُڑواتے ہیں‘‘مگر یہ ضرور کہوں گا کہ یہ طریق انصاف سے بہت بعید ہے۔ میری جس عبارت کو لے کر ڈاکٹر صاحب نے اعتراض کیا ہے وہ یہ ہے ’’میرے نزدیک اس وقت سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام کے متعلق جتنی بھی روائتیں جمع ہو سکیں ان کو ایک جگہ جمع کر کے محفوظ کر لیا جائے۔ ترتیب و استنباط واستدلال کا کام بعد میں ہوتا رہے گا۔ کیونکہ وہ ہر وقت ہو سکتا ہے مگر جمع روایات کا کام اگر اب نہ ہواتو پھر نہ ہو سکے گا‘‘اس عبارت کو لے کر ڈاکٹرصاحب یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اس میں ترتیب و استدلالات کے کام کو بعد کے لئے چھوڑا جانا بیان کیا گیا ہے حالانکہ خود کتاب کے اندر جابجا استدلالات موجود ہیں۔ پس استدلالات کے متعلق جو کچھ میں نے لکھا ہے وہ ایک غلط بیانی ہے اور گویا ناظرین کے ساتھ ایک دھوکہ کیا گیا ہے ۔اس کے جواب میں مَیں یہ عرض کر چکا ہوں کہ اگر بالفرض اس عبارت کے وہی معنی ہوں جو ڈاکٹر صاحب نے کئے ہیں تو پھر بھی یہ کوئی غلط بیانی یا دھوکہ بازی نہیں ہے جو قابل ملامت ہو بلکہ میرا یہ فعل قابل شکریہ سمجھا جانا چاہیے ۔لیکن حق یہ ہے کہ اس عبارت کہ وہ معنی ہی نہیں ہیںجو ڈاکٹر صاحب نے قرار دئے ہیں بلکہ اس میں صرف اس استدلال کا ذکر ہے جس کی ضرورت ترتیب کے نتیجہ میں پیش آتی ہے یعنی مراد یہ ہے کہ اس مجموعہ میں ترتیب ملحوظ نہیں رکھی گئی اور نہ وہ استدلالات کئے گئے ہیں جو مختلف روایات کے ملانے اور ترتیب دینے کے نتیجہ میں ضروری ہو جاتے ہیں ۔چنانچہ میرے الفاظ یہ ہیں ۔ ’’ترتیب واستنباط و استدلال کا کام بعد میں ہوتا رہے گا۔‘‘جس سے صاف ظاہر ہے کہ یہاں وہ استدلال مراد ہے جو ترتیب کے ساتھ تعلق رکھتا ہے نہ کہ وہ عام تشریحات جو انفرادی طور پر روایات کے ضمن میں دی جاتی ہیں چنانچہ میرے اس دعوٰی کی دلیل وہ الفاظ ہیں جو اس عبارت سے تھوڑی دورآگے چل کر میں نے لکھے ہیں اور جن کو ڈاکٹر صاحب نے بالکل نظرانداز کر دیاہے ۔وہ الفاظ یہ ہیں ۔
’’میں نے بعض جگہ روایات کے اختتام پر اپنی طرف سے مختصر نوٹ دئے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ اس مجموعہ کے جمع کرنے میں میرے سب کاموں سے یہ کام زیادہ مشکل تھا ۔بعض روایات یقیناً ایسی ہیں کہ اگر ان کو بغیر نوٹ کے چھوڑا جاتا تو ان کے اصل مفہوم کے متعلق غلط فہمی پیدا ہونے کا احتمال تھا مگر ایسے نوٹوں کی ذمہ داری کلیۃً خاکسار پر ہے ‘‘ (دیکھو عرض حال سیرۃ المہدی)
ان الفاظ کے ہوتے ہو ئے کوئی انصاف پسند شخص ’’استنباط و استدلال ‘‘سے وہ عام تشریحی نوٹ مراد نہیں لے سکتا جو انفرادی روایات کے متعلق بطور تشریح کے دئے جاتے ہیں بلکہ اس سے وہی استدلالات مقصود سمجھے جائیں گے ۔ جن کی مختلف روایات کو ملانے اور ترتیب دینے کے نتیجہ میں ضرورت پیش آتی ہے ناظرین غور فرمائیں کہ ایک طرف تو میری طرف سے یہ نوٹ درج ہے کہ ترتیب اور استنباط و استدلال کا کام بعد میں ہوتا رہے گا اور دوسری طرف اسی جگہ میری یہ تحریر موجود ہے کہ میں نے مختلف روایات کے متعلق تشریحی نوٹ دیئے ہیں اب ان دونوں تحریروں کے ہوتے ہوئے جو میرے ہی ہاتھ کی لکھی ہوئی ایک ہی کتاب کے عرض حال میں ایک ہی جگہ موجود ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب کا صرف ایک عبارت کو لے کر اعتراض کے لئے اُٹھ کھڑا ہونااور دوسری عبارت کا ذکر تک نہ کرنا کہاں تک عدل و انصاف پر مبنی سمجھا جا سکتا ہے؟میں نے اگر ایک جگہ یہ لکھا ہے کہ میں نے اس کتاب میں استدلال نہیںکئے تو دوسری جگہ یہ عبارت بھی تو میرے ہی قلم سے نکلی ہوئی ہے کہ میں نے جابجا تشریحی نوٹ دیئے ہیں ۔ اس صورت میں اگر ڈاکٹر صاحب ذرا وسعت حوصلہ سے کام لیتے اور میرے ان ’’استدلالات‘‘ کو جو ان کی طبیعت پر گراں گذرے ہیںوہ تشریحی نوٹ سمجھ لیتے جن کا میں نے اپنے عرض حال میں ذکر کیا ہے تو بعید از انصاف نہ تھا مگر افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے میرے ساتھ معاملہ کرنے میں عدل و انصاف سے کام نہیں لیا ۔ خلاصہ کلام یہ کہ جہاں میں نے یہ لکھا ہے اس کتاب میں ترتیب و استنباط و استدلال سے کام نہیں لیا گیا وہاں جیسا کہ میرے الفاظ سے ظاہر ہے وہ استدلالات مراد ہیں جو مختلف روایات کے ترتیب دینے کے نتیجہ میں ضروری ہوتے ہیں ۔ اور وہ تشریحی نوٹ مراد نہیں ہیں ۔جو انفرادی طور پر روایات کے ساتھ دیئے جاتے ہیں ۔کیونکہ دوسری جگہ میں نے خود صاف لکھ دیا ہے کہ میں نے جا بجا تشریحی نوٹ دیئے ہیں ۔امید ہے یہ تشریح ڈاکٹر صاحب کی تسلی کے لئے کافی ہوگی۔
علاوہ ازیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جہاں میں نے استدلال و استنباط کا ذکر کیا ہے وہاں وہ استدلالات بھی مراد ہیں جو واقعات سے سیرۃ و اخلاق کے متعلق کئے جاتے ہیں۔ یعنے منشاء یہ ہے کہ جو روایات بیان کی گئی ہیںاور جو واقعات زندگی ضبط تحریر میں لائے گئے ہیں ان سے بالعموم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرۃ و اخلاق کے متعلق استدلالات نہیں کئے گئے بلکہ ان کو صرف ایک مجموعہ کی صورت میں جمع کر لیا گیا ہے اور استدلال واستنباط کو کسی آئندہ وقت پر ملتوی کر دیا گیاہے ۔لیکن ظاہر ہے کہ اس قسم کے استدلالات بھی ان تشریحی نوٹوں سے بالکل الگ حیثیت رکھتے ہیں ۔جو کہ روایات کے مفہوم کو واضح کرنے کے لئے ساتھ ساتھ دیئے جاتے ہیں ۔ خلاصہ کلام یہ کہ جہاں میں نے یہ لکھا ہے کہ استدلال و استنباط کا کام بعد میں ہوتا رہیگا وہاں دو قسم کے استدلالات مراد ہیں ۔ اوّل۔وہ استدلالات جن کی مختلف روایات کے ملانے اور ترتیب دینے سے ضرورت پیش آتی ہے ۔ اور دوسرے وہ استد لالات جو روایات اور واقعات سے صاحب سیرۃ کے اخلاق و عادات کے متعلق کئے جاتے ہیں اوران دونوںقسم کے استدلالات کو میں نے کسی آئندہ وقت پر چھوڑ دیا ہے ۔والشا ذ کالمعدوم ـ باقی رہے وہ تشریحی نوٹ جو مختلف روایتوں کے متعلق درج کئے جانے ضروری تھے ،سو ان کو میں نے ملتوی نہیں کیا ۔ اور نہ ہی ان کا ملتوی کر نا درست تھا۔ کیونکہ انہیں چھوڑ دینے سے غلط فہمی کا احتمال تھا جس کا بعد میں ازالہ مشکل ہو جاتا اور اسی لئے میں نے عرض حال میں یہ تصریح کر دی تھی کہ گو میں نے استدلالات نہیں کئے ۔اور صرف روایات کو جمع کر دیا ۔ لیکن جہاں جہاں کسی روایت کے متعلق تشریح کی ضرورت محسوس کی ہے وہاں ساتھ ساتھ تشریحی نوٹ درج کر دیئے ہیں ۔ مگر افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے استدلال و استنباط اور تشریحات میں فرق نہ کرنے کی وجہ سے مجھے اپنے اعتراض کا نشانہ بنا لیا ہے ۔ہاں بے شک میں نے ایک دو جگہ بعض بحثیں بھی کسی قدر طول کے ساتھ کی ہیں ۔ لیکن ان بحثوں کو استدلالات اور تشریحات ہر دو کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں ہے کیونکہ نہ تو وہ استدلال کہلا سکتی ہیں اور نہ ہی تشریح کا مفہوم ان پر عائد ہوتا ہے۔بلکہ وہ ایک الگ مستقل چیز ہیں جن کی ضرورت کو محسوس کر کے میں نے انہیں درج کر دیا ہے ۔اور میں سمجھتا ہوں کہ ان بحثوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرۃ و سوانح کے ساتھ ایک گہرا تعلق ہے ۔اور آپ کے مقام کو کما حقہ سمجھنے کے لئے ان کا جاننا ضروریات سے ہے ۔مثلاً یہ سوال کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تعلیم و تربیت کے ماتحت کیسی جماعت تیار کی ہے۔ایک نہایت ہی ضروری سوال ہے جسے کوئی دانشمند مورخ آپ کی سیرۃ سے خارج کرنے کا خیال دل میں نہیں لاسکتا۔بے شک ڈاکٹر صاحب موصوف یا کوئی اور صاحب یہ کہہ سکتے ہیں کہ جو خیال ظاہر کیا گیا ہے وہ درست نہیں اور حضرت مسیح موعود ؑ کی تعلیم و تربیت کا اثر کوئی خاص طور پر اچھا نہیں ہے ۔ لیکن اس بات کو بہر حال تسلیم کر نا پڑیگا کہ یہ بحث آپ کی سیرۃ سے ایک گہرا تعلق رکھتی ہے ۔جسے کسی صورت میں بھی نظر انداز نہیں کیا سکتا ۔
اس بحث کو ختم کر نے سے قبل میں ڈاکٹر صاحب کے اس اعتراض کے ایک اور حصہ کی طرف بھی ناظرین کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں ۔ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں :
’’ مصنف کا دعویٰ ہے کہ میں نے صرف اس میں روایات جمع کی ہیں اور ترتیب اور استنباط و استدلال کا کام بعد میں ہوتا رہیگا ۔مگر اسی کتاب میں صفحوں کے صفحے مختلف کتابوں مثلا ً براہین احمدیہ ،سیرۃ مسیح موعود مصنفہ مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم۔ پنجاب چیفس اور مختلف اخبارات سے نقل کئے ہیں ۔…الخ‘‘
گویا کتابوں اور اخباروں کی عبارتیں نقل کرنے کو ڈاکٹر صاحب استدلال و استنباط قراد دیتے ہیں مگر میں حیران ہوں کہ کسی کتاب یا اخبار سے کوئی عبارت نقل کرنا استدلال و استنباط کے حکم میں کیسے آسکتا ہے ۔اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی زندگی کے حالات اپنی کسی کتاب میں درج فرمائے اور میں نے وہ حصہ سیرۃ المہد ی میں درج کر دیا یا پنجاب چیفس میں جو حالات آپ کے خاندان کے درج ہیں وہ میں نے اپنی کتاب میں درج کردیئے یا کسی اخبار میں کوئی ایسی بات مجھے ملی جو آپ کی سیرت سے تعلق رکھتی تھی اور اسے میں نے لے لیا۔تو میرا یہ فعل استدلال و استنباط کیسے بن گیا ؟ میں واقعی حیرت میں ہوں کہ اس قسم کی عبارتوں کے نقل کرنے کا نام ڈاکٹر صاحب نے کس اصول کی بنا پراستدلال و استنباط رکھا ہے ۔اور دنیا کی وہ کونسی لغت ہے جو اقتباس درج کرنے کو استدلال و استنباط کے نا م سے یاد کر تی ہے ۔میں سمجھتاہوں کہ ڈاکٹر صاحب کے قلم سے یہ الفاظ جلدی میں نکل گئے ہیں اور اگر وہ اپنے مضمون کی نظر ثانی فرمائیں ۔تو وہ یقینا ان الفاظ کو خارج کر دینے کا فیصلہ فرمائیں گے ۔پھر ڈاکٹر صاحب نے یہ بھی نہیں غور کیا کہ میرے جس فعل پر ان کو اعتراض ہے وہ ایسا فعل ہے کہ جسے میں نے اپنی کتاب کے شروع میں اپنے فرائض میں سے ایک فرض اور اپنے اغراض میں سے ایک غرض قرار دیا ہے ۔چنانچہ میرے الفاظ یہ ہیں ’’ میرا ارادہ ہے واللہ الموفق ۔کہ جمع کرو ں اس کتاب میں تما م و ہ ضروری باتیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے متعلق خود تحریر فرمائی ہیں ۔اور وہ جو دوسروں نے لکھی ہیں ۔نیز جمع کروں تمام وہ زبانی روایات ۔۔۔۔الخ‘‘
اس عبارت سے پتہ لگتا ہے کہ میں نے اپنے سامنے صرف زبانی روایات کے جمع کرنے کا کام نہیں رکھا بلکہ تمام متعلقہ تحریرات کے تلاش کر نے اور ایک جگہ جمع کر دینے کو بھی اپنی اغراض میں سے ایک غرض قرار دیا ہے ۔اندر یں حالات میں نہیں سمجھ سکا کہ ڈاکٹر صاحب نے میرے عبارتوں کے نقل کرنے کے فعل کو کس اصول کے ماتحت جرم قرار دیا ہے ۔مکرم ڈاکٹر صاحب ! مجھے آپ معاف فرمائیں مگر میں پھر یہی کہوں گا کہ گو میں آپ کی نیت پر حملہ نہیں کرتا ۔لیکن آپ کی تنقید کسی طرح بھی عدل و انصاف پر مبنی نہیں سمجھی جاسکتی ۔
تیسرا اصولی اعتراض جو ڈاکٹر صاحب موصوف نے سیرۃ المہدی حصہ اوّل پر کیا ہے وہ ان کے اپنے الفاظ میں یہ ہے کہ ۔
’’ روایات کے جمع کرنے میں احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نقل اتاری ہے ۔یہاں تک کہ اردو تحریر میں اردو کے صرف ونحو کو نظر انداز کرکے عربی صرف و نحو کے مطابق طرز بیان اختیار کیا ہے ۔۔۔۔مگر جہاں راوی خود مصنف صاحب ہوتے ہیں وہاں عربی چولا اُتر جاتا ہے ۔یہ اعتراض بھی گذشتہ اعتراض کی طرح ایک ایسا اعتراض ہے جسے مضمون کی علمی تنقید سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اگر ڈاکٹر صاحب پسند فرماتے تو اپنے علمی مضمون کی شان کو کم کرنے کے بغیر اس اعتراض کو چھوڑ سکتے تھے ۔دراصل منقدین کا یہ قاعدہ ہے کہ اگر وہ اپنی تنقید میں اس قسم کی باتوں کا ذکر لانا بھی چاہیں تو ایک مشورہ کے طور پر ذکر کرتے ہیں جس میں سوائے اصلاح کے خیال کے اور کسی غرض و غایت کا شائبہ نہیں ہوتا ۔مگر افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے دل کو ایسی وسعت حاصل نہیں ہے کہ وہ بزعم خود کوئی قابل گرفت بات دیکھ کر پھر بغیر اعتراض جمائے صبر کر سکیں ۔اور زیادہ قابل افسوس یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب اعتراض بھی ایسے لب و لہجہ میں کرتے ہیں۔ جس میں بجائے ہمدردی اور اصلاح کے تحقیر و تمسخر کا رنگ نظر آتا ہے ۔ بہر حال اب جب کہ ڈاکٹر صاحب نے یہ اعتراض اپنے اصولی اعتراضات میں شامل کر کے پبلک کے سامنے پیش کیا ہے مجھے سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں ۔کہ اس کے جواب میں حقیقت حال عرض کروں۔
بات یہ ہے کہ جیسا کہ سیرۃ المہدی کے آغاز میں مذکور ہے ۔میں نے سیرۃ المہدی کی ابتدائی چند سطور تبرک و تیمن کے خیال سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بیت الدعا میں جاکر دعا کرنے کے بعد وہیں بیٹھے ہوئے تحریر کی تھیں ۔اور میں خدا تعالیٰ کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں ۔کہ بغیر کسی تصنع یا نقل کے خیال کے یہ چند ابتدائی سطور مجھ سے اس طرح لکھی گئیں۔جس طرح کہ عربی عبارت کا دستور ہے۔بلکہ چونکہ اس وقت میرے جذبات قلبی ایک خاص حالت میں تھے ۔ میں نے یہ محسوس بھی نہیں کیاکہ میں عام محاورہ اردو کے خلاف لکھ رہا ہوں ۔پھر جب بعد میں بیت الدعا سے باہرآکر میں نے ان سطور کو پڑھا تو میں نے محسوس کیا کہ میرے بعض فقرے عربی کے محاورہ کے مطابق لکھے گئے ہیں اورپھر اس کے بعد میرے بعض دوستوں نے جب سیرۃ کا مسودہ دیکھا تو انہوں نے بھی مجھے اس امر کی طرف توجہ دلائی ۔لیکن خواہ ڈاکٹر صاحب موصوف اسے میر ی کمزوری سمجھیں یا وہم پرستی قرار دیں یا حُسن ظنی سے کام لینا چاہیں تو تقاضائے محبت و احترام پر محمول خیال فرمالیں ۔مگر بہر حال حقیقت یہ ہے کہ میں نے ان سطور کو جو میں نے دعا کے بعد بیت الدعا میں بیٹھ کر لکھی تھیں بدلنا نہیں چاہا۔چنانچہ وہ اسی طرح شائع ہو گئیں ۔ اس سے زیادہ میں اس اعتراض کے جواب میں کچھ نہیں کہنا چاہتا ۔ ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ تم نے حدیث کی نقل میں ایساکیا ہے اور گو میرے نزدیک اچھی اور اعلیٰ چیزیں اس قابل ہوتی ہیں کہ ان کی اتباع اختیار کی جائے ۔اور اگر نیت بخیر ہو تو ایسی اتباع اور نقل خواہ وہ ظاہری ہو یا معنوی اہل ذوق کے نزدیک موجب برکت سمجھی جانی چاہیے نہ کہ جائے اعتراض ۔لیکن حقیقت امر یہ ہے کہ میں نے نقل کے خیال سے ایسا نہیں کیا ۔
واللہ علٰی مااقول شھید
ڈاکٹر صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ
’’ جہاں راوی خود مصنف صاحب ہوتے ہیں وہاں عربی چولا اُتر جاتا ہے وہاں روایت یوں شروع ہوتی ہے کہ ’’ خاکسار عرض کرتا ہے ‘‘ ہونا تو یوں چاہیے تھا کہ ’’ عرض کرتا ہے خاکسار ‘‘
اس استہزاء کے جواب میں سلام عرض کرتا ہوں۔ایک طرف مضمون کے تقدس کو دیکھئے اور دوسری طرف اس تمسخر کو ! مکرم ڈاکٹر صاحب !حیرت کا مقام یہ ہے نہ کہ وہ جس پر آپ محو حیرت ہونے لگتے ہیں ۔افسوس !
چوتھا اصولی اعتراض جو جناب ڈاکٹر صاحب نے اپنے مضمون کے شروع میں بیان کیا ہے یہ ہے کہ سیرۃ المہدی حصہ اول میں راویوں کے ’’ صادق و کاذب ‘‘ عادل وثقہ ہونے کے متعلق کو ئی احتیاط نہیں برتی گئی اور نہ راویوں کے حالات لکھے ہیں۔کہ ان کی اہلیت کا پتہ چل سکے اور دوسری یہ کہ بعض روایتوں میں کوئی راوی چھٹا ہوا معلوم ہوتا ہے گویا کتاب کے اندر مرسل روایتیں درج ہیں جو پایہ اعتبار سے گری ہوئی ہیں اور پھر اس کے بعد یہ مذاق اُڑا یا ہے کہ احا دیث کی ظاہری نقل تو کی گئی ہے لیکن محدثین کی ’’ تنقید اور باریک بینیوں ‘‘ کا نام و نشان نہیںاور روایات کے جمع کرنے میں ’’ بھونڈا پن اختیار کیا گیا ہے ‘‘ الغرض ڈاکٹر صاحب کے نزدیک سیرۃ المہدی ’’ ایک گڑبڑ مجموعہ ہے ‘‘ اور مصنف یعنی خاکسار نے ’’ مفت میں اپنا مذاق اُڑوایاہے ‘‘چونکہ ڈاکٹر صاحب نے اس جگہ مثالیں نہیں دیں اس لئے میں حیران ہوں کہ کیا جواب دوں ۔ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ راویوں کے صادق و کاذب ہو نے کا کوئی پتہ نہیں ۔میں عرض کرتا ہوں کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کو کھول کر ملاحظہ فرمائیے ان میں بھی راویوں کے صادق و کاذب ہونے کا کوئی پتہ نہیں چلتا ۔کم از کم مجھے بخاری اور مسلم کے اندر بلکہ کسی تاریخ و سیرت کی کتاب کے اندر یہ بات نظر نہیں آتی کہ راویوں کے صادق و کاذب ،ثقہ و عدم ثقہ ہونے کے متعلق بیان درج ہو بلکہ اس قسم کی بحثوں کے لئے الگ کتابیں ہوتی ہیں جو اسماء الرجال کی کتابیں کہلاتی ہیں اور جن میں مختلف راویوں کے حالات درج ہوتے ہیں ۔جن سے ان کے صادق و کاذب ،عادل و غیر عادل ، حافظ و غیر حافظ ہونے کا پتہ چلتا ہے ۔اور انہیں کتب کی بنا پر لوگ روایت کے لحاظ سے احادیث کے صحیح یا غیرصحیح ،مضبوط یا مشتبہ ہونے کے متعلق بحثیں کرتے ہیں ۔ مگر میرے خلاف ڈاکٹر صاحب کو نہ معلوم کیا ناراضگی ہے کہ وہ اس بات میںبھی مجھے مجرم قرار دے رہے ہیں ۔کہ میں نے کیوں سیرۃالمہدی کے اندر ہی اس کے راویوں کے حالات درج نہیں کئے۔ حق یہ تھا کہ اگر ان کو سیرۃ المہدی کا کوئی راوی مشتبہ یا قابل اعتراض نظر آتا تھا تو وہ اس کا نام لے کر بیان فرماتے اور پھر میرا فرض تھا کہ یا تو میں اس راوی کا ثقہ و عادل ہونا ثابت کرتا اور یا اس بات کا اعتراف کرتا کہ ڈاکٹر صاحب کا اعتراض درست ہے۔اور وہ راوی واقعی اس بات کا اہل نہیں کہ اس کی روایت قبول کی جاوے مگر یونہی ایک مجمل اعتراض کا میں کیا جواب دے سکتا ہوں۔سوائے اس کے کہ میں یہ کہوں کہ میں نے جن راویوں کو ان کی روایت کا اہل پایا ہے صرف انہی کی روایت کو لیا ہے اور بس ۔روایت کے لحاظ سے عموماً یہ دیکھا جاتا ہے کہ آیا
(۱) راوی جھوٹ بولنے سے متہّم تو نہیں ؟
(۲ ) اس کے حافظہ میں تو کوئی قابل اعتراض نقص نہیں ؟
( ۳) وہ سمجھ کا ایسا ناقص تو نہیں کہ بات کا مطلب ہی نہ سمجھ سکے ۔گویہ ضروری نہیں کہ وہ زیادہ فقیہہ ہو ۔
(۴) وہ مبالغہ کرنے یا خلاصہ نکال کر روایت کرنے یا بات کے مفہوم کو لیکر اپنے الفاظ میں آزادی کے ساتھ بیان کر دینے کا عادی تو نہیں ؟
( ۵) اس خاص روایت میں جس کا وہ راوی ہے اسے کوئی خاص غرض تو نہیں ؟
(۶) وہ ایسا مجہول الحال تو نہیں کہ ہمیں اس کے صادق و کاذب ،حافظ و غیر حافظ ہونے کا کوئی پتہ ہی نہ ہو ۔ وغیر ذالکاور جہاں تک میرا علم اور طاقت ہے میں نے ان تمام باتوں کو اپنے راویوں کی چھان بین میںعلیٰ قدر مراتب ملحوظ رکھا ہے۔ واللہ اعلم ۔اس سے زیادہ میں کچھ نہیں کہہ سکتاکیونکہ میرے سامنے کوئی مثال نہیں ہے ۔
اس جگہ میں یہ بھی بیان کردینا چاہتا ہوں کہ بعض صورتوں میں ایسا بھی ممکن ہے کہ ایک راوی حافظ و عادل نہ ہو لیکن جو روایت وہ بیان کرتا ہو وہ درست ہو ۔ایسی حالت میں بھی اگر دوسرے قرائن سے روایت کی صحت کا یقین ہو تو روایت کے لے لینے میں چنداں حرج نہیں ۔اور گو یہ مقام اندیشہ ناک ہے لیکن علم کی تلاش میں بعض اوقات اندیشہ ناک جگہوں میں ہاتھ ڈالنا پڑتا ہے ۔دوسرا حصہ اس اعترا ض کا یہ ہے کہ سیرۃ المہدی میں بعض ایسی روایات آگئی ہیں جن میں کوئی راوی ایسی باتیں بیان کرتا ہے جس کا علم اس کے لئے براہ راست ممکن نہیں تھا ۔پس ضرور اس نے کسی اور سے سن کر یا کسی جگہ سے پڑھ کر یہ روایت بیان کی ہو گی اور چونکہ اس درمیانی راوی کا علم نہیں دیا گیا اس لئے روایت قابل وثوق نہیں سمجھی جاتی ہیں ۔ میں اس اعتراض کی معقولیت کو اصولاً تسلیم کرتا ہوں اس قسم کی روایات اگر کوئی ہیں تو وہ واقعی روایت کے اعلیٰ پایہ سے گری ہوئی ہیں ۔لیکن ساتھ ہی میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ اس کمزوری کی وجہ سے ایسی روایات کو کلیۃً متروک بھی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ بسا اوقات اس قسم کی روایات سے نہایت مفید اور صحیح معلومات میسر آجاتے ہیں ۔دراصل اصول روایت کے لحاظ سے کسی روایت کے کمزور ہونے کے یہ معنے نہیں ہیں کہ وہ روایت فی الواقع غلط بھی ہے ۔بلکہ بالکل ممکن ہے کہ ایسی روایت بالکل صحیح اور قابل اعتماد ہو ۔مثلاً فرض کر و کہ میں نے ایک بات سنی اور کسی معتبر آدمی سے سنی لیکن کچھ عرصہ کے بعد مجھے وہ بات تو یاد رہی لیکن راوی کا نام ذہن سے بالکل نکل گیا ۔اب جو میں وہ روایت بیان کروں گا تو بغیر اس راوی کا نام بتانے کے کروں گا۔ اور اصول روایت کی رو سے میری یہ روایت واقعی کمزور سمجھی جائے گی۔لیکن در اصل اگر میرے حافظہ اور فہم نے غلطی نہیں کی ۔ تووہ بالکل صحیح اور درست ہوگی ۔بلکہ بعید نہیں کہ اپنی صحت میں وہ کئی ان دوسری روایتوں سے بھی بڑھ کر ہو ۔جو اصول روایت کے لحاظ سے صحیح قراردی جاتی ہیں۔مگر بایں ہمہ اصول روایت کے ترازو میںوہ ہلکی ہی اترے گی۔ اس طرح عملاًبہت سی باتوں میں فرق پڑ جاتا ہے ۔پس باوجود ڈاکٹر صاحب کے ساتھ اصولاً متفق ہونے کے کہ ایسی روایت اگر کوئی ہو تو کمزور سمجھی جانی چاہیے ۔میں نہایت یقین کے ساتھ اس بات پر قائم ہوں کہ اس وجہ سے ہم ایسی روایات کو بالکل ترک بھی نہیں کر سکتے ۔کیونکہ اس طرح کئی مفید معلومات ہاتھ سے دینے پڑتے ہیں ۔عمدہ طریق یہی ہے کہ اصول درایت سے تسلی کرنے کے بعد ایسی روایات کو درج کر دیا جائے اور چونکہ ان کا مرسل ہونا بد یہی ہوگا ۔ اس لئے ان کی کمزوری بھی لوگوں کے سامنے رہے گی اور مناسب جرح وتعدیل کے ماتحت اہل علم ان روایات سے فائدہ اُٹھا سکیں گے۔احادیث کو ہی دیکھ لیجئے ۔ان میں ہزاروں ایسی روایات درج ہیں جو اصول روایت کے لحاظ سے قابل اعتراض ہیں لیکن ان سے بہت سے علمی فوائد بھی حاصل ہوتے رہتے ہیں ۔اور چونکہ ان کی روایتی کمزوری اہل علم سے مخفی نہیں ہوتی اس لئے ان کی وجہ سے کوئی فتنہ بھی پیدا نہیں ہوسکتا اور اگر کبھی پیدا ہوتا بھی ہے تو اس کا سد باب کیا جا سکتا ہے ۔بہر حال مناسب حدود کے اندر اندر مرسل روایات کا درج کیا جانا بشرطیکہ وہ اصول درایت کے لحاظ سے رد کئے جانے کے قابل نہ ہوں ۔اوران سے کوئی نئے اور مفید معلومات حاصل ہوتے ہوں بحیثیت مجموعی ایسا نقصان دہ نہیں جیسا کہ مفید ہے یعنی نَفْعُھُمَا اَکْبَرُ مِنْ اِثْمِھَا والامعاملہ ہے ۔واللّٰہ اعلم ۔ یہ تو اصولی جواب ہے اور حقیقی جواب یہ ہے کہ جہاں تک مجھے معلوم ہے میں نے ایسی روایتوں کے لینے میں بڑی احتیاط سے کام لیا ہے اور جہاں کہیں بھی مجھے یہ شبہ گذرا ہے کہ راوی اپنی روایت کے متعلق بلا واسطہ اطلاع نہیں رکھتا وہاں یا تو میں نے اس کی روایت لی ہی نہیں اور یا روایت کے اختتام پر روایت کی اس کمزوری کا ذکر کر دیا ہے ۔ اس وقت مجھے ایک مثال یاد ہے وہ درج کرتا ہوں ۔مگر میں سمجھتا ہوں کہ تلاش سے اور مثالیں بھی مل سکیں گی ۔سیرۃ المہدی کے صفحہ نمبر۱۳۲ روایت ۱۴۳ پر میں نے مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب کی ایک روایت منشی احمد جان صاحب مرحوم مغفور لدھیانوی کے متعلق درج کی ہے اور اس کے آخر میں میری طرف سے یہ نوٹ درج ہے ۔
’’ خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب منشی صاحب مرحوم سے خود نہیں ملے لہٰذا انہوں نے کسی اور سے یہ واقعہ سنا ہو گا ۔‘‘ میرے ان الفاظ سے صاف ظاہر ہے کہ میں نے اس بات کو مدنظر رکھا ہے کہ اگر راوی اپنی روایت کے متعلق بلاواسطہ علم نہیں رکھتا تو اسے ظاہر کر دیا جائے تاکہ جہاں ایک طرف روایت سے مناسب احتیاط کے ساتھ فائدہ اُٹھایا جاسکے وہاں دوسری طرف اس کی کمزوری بھی سامنے رہے۔ڈاکٹر صاحب نے چونکہ اس جگہ کوئی مثال نہیں دی اس لئے میں نہیں سمجھ سکتا کہ کونسی روایت ان کے مدنظر ہے ۔لیکن اگر کوئی روایت پیش کی جائے جس میں اس قسم کی کمزوری ہے اور میں نے اسے ظاہر نہیں کیا تو گو محدثین کے اصول کے لحاظ سے میں پھر بھی زیر الزام نہیں ہوں ۔کیونکہ محدثین اپنی کتابوں میں اس قسم کی کمزوریوں کو عموماً خود بیان نہیں کیا کرتے بلکہ یہ کام تحقیق و تنقید کرنے والوں پر چھوڑ دیتے ہیں۔ لیکن پھر بھی میں اپنی غلطی کو تسلیم کر لوں گا اور آئندہ مزید احتیاط سے کام لوں گا ۔ہاں ایک غیر واضح سی مثال روایت نمبر ۷۵کی ڈاکٹر صاحب نے بیان فرمائی ہے جس میں حضرت خلیفۃ المسیح ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ کی روایت سے کسی ہندو کا واقعہ درج ہے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر مخالفانہ توجہ ڈالنی چاہی تھی۔ لیکن خود مرعوب ہو کر بد حواس ہو گیا ۔ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ اس روایت میں یہ درج نہیں ہے کہ حضرت خلیفہ ثانی نے یہ واقعہ خود دیکھا تھا یا کسی کی زبانی سنا تھا ۔اور اگر کسی کی زبانی سنا تھا تو وہ کون تھا ؟ اس کے جواب میں مَیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جب ایک واقعہ کوئی شخص بیان کرتا ہے اور روایت کے اندر کوئی ذکر اس بات کا موجود نہیں ہوتا کہ اس واقعہ کے وقت وہ خود بھی موجود نہیں تھا اور نہ وہ واقعہ ایسے زمانہ یا جگہ سے تعلق رکھنا بیان کیا جاتا ہے کہ جس میں اس راوی کا موجود ہونا محال یا ممتنع ہو ( مثلا ً وہ ایسے زمانہ کا واقعہ ہو کہ جس میں وہ راوی ابھی پیدا ہی نہ ہو ا ہو یا وہ ایسی جگہ سے تعلق رکھتا ہو کہ جہاں وہ راوی گیا ہی نہ ہو) تولا محالہ یہی سمجھا جائے گا کہ راوی خود اپنا چشم دید واقعہ بیان کر رہاہے اور اس لئے یہ ضرورت نہیں ہو گی کہ راوی سے اس بات کی تصریح کرائی جاوے کہ آیا وہ واقعہ اس کا چشم دید ہے یا کہ اس نے کسی اور سے سنا ہے ۔ بہر حال میں نے ایسے موقعوں پر یہی سمجھا ہے کہ راوی خوداپنی دیکھی ہوئی بات بیان کر رہا ہے۔اسی لئے میں نے اس سے سوال کر کے مزید تصریح کی ضرورت نہیں سمجھی ۔ہاں البتہ جہاں مجھے اس بات کا شک پیدا ہواہے کہ راوی کی روایت کسی بلاواسطہ علم پر مبنی نہیں ہے وہاں میں نے خود سوال کر کے تصریح کرا لی ہے ۔چنانچہ جو مثال مولوی سید سرور شاہ صاحب کی روایت کی میں نے اوپر بیان کی ہے اس میں یہی صورت پیش آئی تھی ۔ مولوی صاحب موصوف نے منشی احمد جان صاحب کے متعلق ایک بات بیان کی کہ ان کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ یوں یوں گفتگو ہوئی تھی ۔ اب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی تحریرات کی بنا پر میں یہ جانتا تھا کہ منشی صاحب مرحوم حضرت مسیح موعود کے دعویٰ مسیحیت سے پہلے ہی انتقال کر گئے تھے ۔ اور یہ بھی مجھے معلوم ہے کہ مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب کی ملاقات حضرت صاحب کے ساتھ بعد دعویٰ مسیحیت ہوئی ہے ۔ پس لا محالہ مجھے یہ شک پید اہوا کہ مولوی صاحب کو اس بات کا علم کیسے ہوا ۔چنانچہ میں نے مولوی صاحب سے سوال کیا او ر انہوں نے مجھ سے بیان فرمایا کہ میں نے خود منشی صاحب مرحوم کو نہیں دیکھا چنانچہ میں نے یہ بات روایت کے اختتام پر نوٹ کر دی۔الغرض میں نے اپنی طرف سے تو حتی الوسع بڑی احتیاط سے کام لیا ہے ۔لیکن اگر میں نے کسی جگہ غلطی کھائی ہے یا کوئی کمزوری دکھائی ہے تو میں جانتا ہوں کہ میں ایک کمزور انسان ہو ں ۔اور غلطی کا اعتراف کر لینا میرے مذہب میں ہرگز موجب ذلت نہیں بلکہ موجب عزت ہے ۔پس اگر اب بھی ڈاکٹر صاحب یا کسی اور صاحب کی طرف سے کوئی ایسی بات ثابت کی جائے جس میں میں نے کو ئی غلط یا قابل اعتراض یا غیر محتاط طریق اختیار کیا ہے ۔ تو میںنہ صرف اپنی غلطی کو تسلیم کر کے اپنی اصلاح کی کوشش کروں گا بلکہ ایسے صاحب کا ممنون احسان ہو نگا ۔افسوس صرف یہ ہے کہ محض اعتراض کر نے کے خیال سے اعتراض کر دیا جاتا ہے اور دوسرے کی کوشش کو بلاوجہ حقیر اور بے فائدہ ثابت کر نے کا طریق اختیار کیا جاتا ہے ۔ورنہ ہمدردی کے ساتھ علمی تبادلہ خیالات ہو تو معترض بھی فائدہ اُٹھائے ۔ مصنف کی بھی تنویر ہو اور لوگوں کے معلومات میں بھی مفید اضافہ کی راہ نکلے ۔اب میری کتاب ان مسائل کے متعلق تو ہے نہیں ۔جو مبایعین اور غیر مبایعین کے درمیان اختلاف کا موجب ہیں بلکہ ایک ایسے مضمون کے متعلق ہے جو تما م احمدی کہلانے والوں کے مشترکہ مفاد سے تعلق رکھتا ہے اور پھر اس مضمون کی اہمیت اور ضرورت سے بھی کسی احمدی کو انکار نہیں ہو سکتا ۔ اندریں حالات اس قسم کی تصنیفات کے متعلق صرف اس خیال سے کہ ان کا مصنف مخالف جماعت سے تعلق رکھتا ہے ۔خواہ نخواہ مخالفانہ اور غیر ہمدردانہ اور دل آزار طریق اختیار کرنا دلوں کی کدورت کو زیادہ کر نے کے سوا اور کیا نتیجہ پیدا کر سکتا ہے ۔
پھر ڈاکٹر صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ سیرۃ المہدی میں محدثین کی ظاہری نقل تو کی گئی ہے لیکن ان کی ’’تنقید اور باریک بینیوں‘‘ کا نشان تک نہیں ہے ۔محدثین کا مقدس گروہ میرے لئے ہر طرح جائے عزت و احترام ہے اور گو جائز طورپر دوسروں سے آگے بڑھنے کی خواہش ہر صحیح الدماغ شخص کے دل و سینہ میں موجود ہو تی ہے یا کم از کم ہو نی چاہیے ۔ لیکن میرے دل کا یہ حال ہے وَاللّٰہُ عَلٰی مَا اَقُوْلُ شَھِیْدٌ کہ ائمہ حدیث کا خوشہ چین ہو نے کو بھی اپنے لئے بڑی عزتوں میں سے ایک عزت خیال کرتا ہوں ۔اور ان کے مد مقابل کھڑا ہونا یا ان کے سامنے اپنی کسی ناچیز کوشش کا نام لینا بھی ان کی ارفع اور اعلیٰ شان کے منافی سمجھتا ہوں ۔میں یہ عرض کر چکا ہوں کہ کتاب کے شروع میں جو چند فقرات عربی طریق کے مطابق لکھے گئے ہیں وہ نقل کی نیت سے ہر گز نہیں لکھے گئے لیکن اگر نقل کی نیت ہو بھی تو میرے نزدیک اس میں ہر گز کوئی حرج نہیں ہے۔ مکرم ڈاکٹر صاحب ! اگر ہم اپنے بزرگوں کے نقش پا پر نہ چلیں گے تو اور کس کے چلیںگے ۔ حضرت مسیح موعود ؑ کی تو یہاں تک خواہش رہتی تھی کہ ممکن ہو تو احمدیوں کی زبان ہی عربی ہو جائے ۔پس اگر میری قلم سے چند فقرے عربی صرف و نحو کے مطابق لکھے گئے اور میں خدا کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں کہ وہ میں نے نقل اور تصنع کے طور پر نہیں لکھے ۔تو آپ اس کے متعلق اس طرح دل آزار طریق پر اعتراض کر تے ہوئے بھلے نہیں لگتے ۔باقی رہی محدثین کی تنقید اور باریک بینی ۔سو وہ تو مسلم ہے اور میری خدا سے دعا ہے کہ وہ مجھے ان کا سا دل و دماغ اور علم وعمل عطا فرمائے ۔پس آپ اور کیا چاہتے ہیں میں نے جہاں تک مجھ سے ہو سکا چھان بین اور تحقیق و تدقیق سے کام لیا ہے ۔اور جہاں آپ نے آگے چل کر میری غلطیوں کی مثالیں پیش فرمائی ہیں۔وہاں انشاء اللہ میں یہ ثابت کر سکوں گا کہ میں نے روایات کے درج کرنے میں اندھا دھند طریق سے کام نہیں لیا ۔آپ کا یہ تحریر فرمانا کہ سیرۃ المہدی ’’ ایک گڑ بڑ مجموعہ ہے ‘‘ نیز یہ کہ میں نے ’’ مفت میں اپنا مذاق اُڑوایا ہے ‘‘ آپ کو مبارک ہو اس قسم کی باتوں کا میں کیا جواب دوں ۔اگر سیرۃ المہدی ایک گڑ بڑ مجموعہ ہے تو بہر حال ہے تو وہ ہمارے آقا علیہ السلام کے حالات میں ہی اور نہ ہونے سے تو اچھا ہے ۔میں نے تو خود لکھ دیا تھا کہ میں نے روایات کو بلا کسی ترتیب کے درج کیا ہے ۔پھر نہ معلوم آپ نے اسے ایک گڑ بڑ مجموعہ قرار دینے میں کونسی نئی علمی تحقیق کا اظہار فرمایا ہے ۔آج اگر وہ بے ترتیب ہے تو کل کوئی ہمت والا شخص اسے ترتیب بھی دے لے گا۔بہر حال اس کام کی تکمیل کی طرف ایک قدم تو اُٹھایا گیا ۔اور اگر آپ ذوق شناس دل رکھتے تو آپ کو اس گڑ بڑ مجموعہ میں بھی بہت سی اچھی باتیں نظر آجاتیں۔اور مذاق اُڑوانے کی بھی آپ نے خوب کہی ۔مکرم ڈاکٹر صاحب ! آپ خود ہی مذاق اُڑانے والے ہیں ۔سنجیدہ ہوجائیے ۔بس نہ میرا مذاق اڑے گا اور نہ آپ کی متانت اور سنجیدگی پر کسی کو حرف گیری کا موقعہ ملے گا ۔ آپ پریشان کیوں ہوتے ہیں ۔یہ تو سب اپنے اختیار کی بات ہے ۔
پانچواں اصولی اعتراض جو ڈاکٹر صاحب موصوف نے اپنے مضمون کے شرو ع میں بیان کیا ہے ۔وہ یہ ہے کہ سیرۃ المہدی میں :
’’ احادیث رسول اللہ ﷺ سے ایک سیڑھی آگے چڑھنے کی کوشش کی گئی ہے ۔یعنی ہر ایک روایت کو بسم اللہ الرحمن الرحیم سے شروع کیا ہے ۔پڑھنے والے کو سمجھ نہیں آتا کہ یہ موجود ہ زمانے کی راویوں کی کوئی روایت شروع ہو رہی ہے۔۔۔۔۔۔یا قرآن کی سورۃ شروع ہو رہی ہے ۔خاصہ پارہ عَمَّ نظر آتا ہے ۔گو یا جا بجا سورتیں شروع ہو رہی ہیں۔حدیث کی نقل ہوتے ہوتے قرآن کی نقل بھی ہونے لگی ۔اسی کا نام بچوں کا کھیل ہے۔‘‘
میں اس اعتراض کے لب و لہجہ کے متعلق کچھ نہیں کہوں گا کیونکہ جو کچھ کہنا تھا اصولی طور پر کہہ چکا ہوں ۔ اب کہاں تک اسے دہراتا جاؤں۔مگر افسوس یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی آنکھوں میں بسم اللّٰہ بھی کھٹکنے سے نہیں رہی ۔ تعصب بھی بُری بلا ہے میں تبرک و تیمن کے خیال سے ہر روایت کے شروع میں بسم اللّٰہ لکھتا ہوں ۔اور ڈاکٹر صاحب آتش غضب میں جلے جاتے ہیں ۔مگر مکرم ڈاکٹر صاحب اس معاملہ میں گو مجھے آپ کی اس تکلیف میں آپ سے ہمدردی ضرور ہے ۔لیکن بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم کا لکھنا تو میں کسی صورت میں نہیں چھوڑ سکتا۔ آپ کے اعتراض کا اصل مطلب یہ معلوم ہوتا ہے۔کہ جو کچھ قرآن شریف نے کیا ہے۔اس کے خلاف کرو تاکہ نقل کرنے کے الزام نیچے نہ آجاؤ۔میںکہتا ہوں کہ خواہ دنیا ہمارا نام نقال رکھے یا اس سے بھی بڑھ کر کوئی خطاب دے لیکن قرآن شریف کے نمونہ پر چلنا کوئی مسلمان نہیں چھوڑ سکتا اگر قرآن شریف کو باوجود اس کے کہ وہ خدا کا کلام اور مجسم برکت و رحمت ہے اپنی ہر سورت کے شروع میں خدا کا نام لینے کی ضرورت ہے تو ہم کمزور انسانوں کے لئے جنہیں اپنے ہر قدم پر لغزش کا اندیشہ رہتا ہے یہ ضرورت بدرجہ اولیٰ سمجھی جانی چاہیے۔آنحضرت ﷺ (فداہ نفسی ) فرماتے ہیں کل امر ذی بال لا یُبْدَأُ ببسم اللّٰہ فھوابتر۔ یعنی ہر کام جو ذرا سی بھی اہمیت رکھتا ہو وہ اگر بسم اللّٰہ سے شروع نہ کیا جائے تو وہ برکات سے محروم ہو جاتا ہے لیکن ڈاکٹر صاحب ہیں کہ میرے بسم اللّٰہ لکھنے کو بچوں کا کھیل قرار دے رہے ہیں اور اگر ڈاکٹر صاحب کا یہ منشاء ہو کہ بس صرف کتاب کے شروع میں ایک دفعہ بسم اللہ لکھ دینی کافی تھی اور ہر روایت کے آغاز میں اس کا دہرانا مناسب نہیں تھا۔تو میں کہتا ہوں کہ قرآن شریف نے کیوں ہر سورت کے شروع میں اسے دہرایا ہے ؟کیا یہ کافی نہ تھا کہ قرآن شریف کے شروع میں صرف ایک دفعہ بسم اللّٰہ درج کر دی جاتی اور پھر ہر سورت کے شروع میں اسے نہ لایا جاتا ۔ جو جواب ڈاکٹر صاحب قرآن شریف کے متعلق دیں گے وہی میری طرف سے تصور فرمالیں ۔دراصل بات یہ ہے جسے ڈاکٹر صاحب نے اپنے غصہ میں نظر انداز کر رکھا ہے کہ ہر کام جو ذرا بھی مستقل حیثیت رکھتا ہوخداکے نام سے شروع ہو جانا چاہیے اور یہی آنحضرت ﷺ کے اس ارشادکا منشاء ہے جو اوپر درج کیا گیاہے ۔اسلام نے تواس مسئلہ پر یہاں تک زور دیا ہے کہ انسان کی کوئی حرکت و سکون بھی ایسا نہیں چھوڑا جس کے ساتھ خدا کے ذکر کو کسی نہ کسی طرح وابستہ نہ کر دیا ہو ۔ اُٹھنا بیٹھنا ،کھانا پینا ،سونا جاگنا، بیوی کے پاس جانا،گھر سے نکلنا،گھر میں داخل ہونا ،شہر سے نکلنا ، شہر میں داخل ہونا،کسی سے ملنا ،کسی سے رخصت ہونا،رفع حاجت کے لئے پاخانہ میں جانا،کپڑے بدلنا،کسی کام کو شروع کرنا،کسی کام کو ختم کرنا،غرض زندگی کی ہر حرکت و سکون میں خدا کے ذکر کو داخل کر دیا ہے۔اور میرے نزدیک اسلام کا یہ مسئلہ اس کی صداقت کے زبر دست دلائل میں سے ایک دلیل ہے ۔مگر نہ معلوم ڈاکٹر صاحب میرے بسم اللّٰہ لکھنے پر کیوں چیں بجبیں ہو رہے ہیں میں نے کوئی ڈاکہ مارا ہوتا یا کسی بے گناہ کو قتل کر دیا ہوتا یا کسی غریب بے بس کے حقوق کو دبا کر بیٹھ گیا ہوتا یا کسی الحاد وکفر کا ارتکاب کرتا تو ڈاکٹر صاحب کی طرف سے یہ شور غوغا کچھ اچھا بھی لگتا۔لیکن ایک طرف اس چیخ و پکار کو دیکھئے۔اور دوسری طرف میرے اس جرم کو دیکھئے کہ میں نے خدا کے نام کا استعمال اس حد سے کچھ زیادہ دفعہ کیا ہے۔جو ڈاکٹر صاحب کے خیال میںمناسب تھی۔تو حیرت ہوتی ہے ۔خیر جو بات میںکہناچاہتاتھا وہ یہ ہے کہ اسلام کی یہ تعلیم ہے کہ ہر کام جو ذرا بھی مستقل حیثیت رکھتا ہو۔بلکہ زندگی کی ہر حرکت و سکون کو خدا تعالیٰ کے اسم مبارک سے شروع کیا جائے تاکہ ایک تو کام کرنے والے کی نیت صاف رہے اور دوسرے خدا کا نام لینے کی وجہ سے کام میں برکت ہو۔چنانچہ قرآن شریف نے جو اپنی ہر سورت کو بسم اللہ سے شروع فرمایا ہے۔تو اس میں بھی ہمارے لئے یہی عملی سبق مقصود ہے۔ اب ناظرین کو یہ معلوم ہے اور ڈاکٹر صاحب موصوف سے بھی یہ امر مخفی نہیں کہ سیرۃ المہدی کوئی مرتب کتاب نہیںہے بلکہ اس میں مختلف روایات بلا کسی ترتیب کے اپنی مستقل حیثیت میں الگ الگ درج ہیں۔ اس لئے ضروری تھاکہ میں اس کی ہر روایت کو بسم اللہ سے شروع کرتا۔ اگر سیرۃ المہدی کی روایات ایک ترتیب کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہوتی ہو ئی ایک متحدہ صورت میں جمع ہوتیں ۔تو پھر یہ ساری روایات ایک واحد کام کے حکم میں سمجھی جاتیں اور اس صورت میں صرف کتاب کے شروع میں بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم کا لکھ دینا کافی ہوتا۔لیکن موجودہ صورت میں اس کی ہر روایت ایک مستقل منفرد حیثیت رکھتی ہے اس لئے میں نے ہر روایت کو بسم اللہ سے شروع کیا ہے ۔جیسا کہ قرآن کریم نے اپنی ہر سورت کے شروع میں بسم اللّٰہ کو رکھا ہے ۔بہر حال اگر قرآن شریف اپنی ہر سورت کے آغاز میں بسم اللّٰہ کا درج کرنا ضروری قرار دیتا ہے ۔باوجود اس کے کہ اس کی تمام سورتیں ایک واحد لڑی میں ترتیب کے ساتھ پروئی ہوئی ہیں ۔تو سیرۃ المہدی کی روایات جو بالکل کسی ترتیب میں بھی واقع نہیں ہوئیں بلکہ فی الحال ان میں سے ہر ایک الگ الگ مستقل حیثیت رکھتی ہے حتیّٰ کہ اسی وجہ سے ڈاکٹر صاحب نے سیرۃ المہدی کو ’’ایک گڑ بڑ مجموعہ‘‘ قرار دیا ہے بدرجہ اولیٰ بسم اللّٰہ سے شروع کی جانی چاہئیں اور اسی خیال سے میں نے کسی روایت کو بغیر بسم اللّٰہ کے شروع نہیں کیا۔
در اصل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات جمع کرنے کا کام ایک بڑی ذمہ داری کا کام ہے اور سوائے خدا کی خاص نصرت و فضل کے اس کام کو بخیر و خوبی سر انجام دینا ایک نہایت مشکل امر ہے اور خواہ مجھے کمزور کہا جائے یا میرا نام وہم پرست رکھا جائے حقیقت یہ ہے کہ میں ہر قدم پر لغزش سے ڈرتا رہا ہوں اور اسی خیال کے ماتحت میں نے ہر روایت کو دعا کے بعد خدا کے نام سے شروع کیا ہے ۔یہ اگر’’ایک بچوں کا کھیل ہے‘‘تو بخدا مجھے یہ کھیل ہزار ہا سنجیدگیوں سے بڑھ کر پسند ہے ۔اور جناب ڈاکٹر صا حب موصوف سے میری یہ بصد منت درخواست ہے کہ میرے اس کھیل میں روڑا نہ اٹکائیں۔مگر خدا جانتا ہے کہ یہ کوئی کھیل نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت کا اظہار ہے اور اگر میں نے تصنع کے طور پر لوگوں کے دکھانے کے لئے یہ کام کیا ہے تو مجھ سے بڑھ کر شقی کون ہو سکتا ہے کہ خدائے قدوس کے نام کے ساتھ کھیل کرتا ہوںاس صورت میں وہ مجھ سے خود سمجھے گا۔اور اگر یہ کھیل نہیں اور خدا گواہ ہے کہ یہ کھیل نہیں تو ڈاکٹر صاحب بھی اس دلیری کے ساتھ اعتراض کی طرف قدم اُٹھاتے ہوئے خدا سے ڈریں ۔ بس اس سے زیادہ میں کچھ نہیں کہوں گا۔
چھٹا اصولی اعتراض جوڈاکٹر صاحب موصوف نے اپنے مضمون کے شروع میں سیرۃ المہدی پر کیا ہے ۔ وہ یہ ہے کہ:۔
’’در اصل یہ کتاب صرف محمودی صاحبان کے پڑھنے کے لئے بنائی گئی ہے ۔یعنی صرف خوش عقیدہ لوگ پڑھیں۔جن کی آنکھوں پر خوش عقیدگی کی پٹی بندھی ہوئی ہے ۔نہ غیروں کے پڑھنے کے لائق ہے نہ لاہوری احمدیوں کے ،نہ کسی محقق کے ۔بعض روایتوں میں حضرت مسیح موعود ؑ پر صاف زد پڑتی ہے ۔مگر چونکہ ان سے لاہوری احمدیوںپر بھی زد پڑنے میں مدد ملتی ہے اس لئے بڑے اہتمام سے ایسی لغو سے لغو روایتیں مضبوط کر کے دل میں نہایت خوش ہوتے معلوم ہوتے ہیں ۔‘‘الخ۔
اس اعتراض کے لب و لہجہ کے معاملہ کو حوالہ بخدا کرتے ہوئے اس کے جواب میںصرف یہ عرض کرنا ہے۔کہ اگر یہ اعتراض واقعی درست ہو تو میری کتاب صرف اس قابل ہے کہ اسے آگ کے حوالہ کر دیا جائے ۔اور اس کا مصنف اس بڑی سے بڑی سزا کا حق دار ہے جو ایک ایسے شخص کو دی جا سکتی ہے جو اپنی ذاتی اغراض کے ماتحت صداقت کی پرواہ نہیں کرتا۔اور جو اپنے کسی مطلب کو حاصل کرنے کے لئے خدائے ذوالجلال کے ایک مقرب و ذیشان فرستادہ کو اعتراض کا نشانہ بناتا ہے ۔اور اگر یہ درست نہیں اور میرا خدا شاہد ہے کہ یہ درست نہیں۔تو ڈاکٹر صاحب خدا سے ڈریں اور دوسرے کے دل کی نیت پر اس دلیری کے ساتھ حملہ کر دینے کوکوئی معمولی بات نہ جانیں ۔یہ درست ہے کہ ان کے اس قسم کے حملوں کے جواب کی طاقت مجھ میں نہیں ہے لیکن خدا کو ہر طاقت حاصل ہے اور مظلوم کی امداد کرنا اس کی سنت میں داخل ہے ۔مگر میں اب بھی ڈاکٹر صاحب کے لئے خدا سے دعا ہی کرتا ہوں ۔کہ وہ ان کی آنکھیں کھولے اور حق و صداقت کے رستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ان کی غلطیاں ان کو معاف ہوں اور میری لغزشیں مجھے معاف ۔یہ نیت کا معاملہ ہے میں حیران ہوں کہ کیا کہوں اور کیا نہ کہوں ۔ہاں اس وقت ایک حدیث مجھے یاد آگئی ہے ۔ وہ عر ض کرتا ہوں۔ایک جنگ میں اسامہ بن زیدؓ اور ایک کافر کا سامنا ہوا ۔ کافر اچھا شمشیر زن تھا خوب لڑتا رہا لیکن آخر اسامہ ؓکو بھی ایک موقعہ خدا نے عطا فرمایا اور انہوں نے تلوار تول کر کافر پر حملہ کیا کافر نے اپنے آپ کو خطرے میں پا کر جھٹ سامنے سے یہ کہہ دیاکہ مسلمان ہوتا ہوں مگر اسامہ ؓ نے پرواہ نہ کی اور اسے تلوار کے گھاٹ اُتار دیا۔بعد میں کسی نے اس واقعہ کی خبر آنحضرت ﷺکو کر دی ۔ آپ حضرت اسامہؓ پر سخت ناراض ہوئے اور غصہ سے آپ کاچہرہ سرخ ہو گیا آپؐ نے فرمایا اے اسامہ ! کیا تم نے اسے اس کے اظہار اسلام کے بعد مار دیا ؟اور آپ ؐ نے تین مرتبہ یہی الفاظ دہرائے ۔اسامہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! وہ شخص دکھاوے کے طور پر ایسا کہتا تھاتاکہ بچ جاوے ۔آپ ؐ نے جوش سے فرمایا اَفَلا شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِہٖ حَتّٰی تَعْلَمَ اَقَالَھَااَمْ لَا یعنی تو نے پھر اس کا دل چیر کر کیوں نہ دیکھ لیا۔ کہ وہ ٹھیک کہتا تھا کہ نہیں ۔ اسامہ کہتے ہیں آنحضرت ﷺ نے یہ الفاظ ایسی ناراضگی میں فرمائے کہ تَمَنَّیْتُ اَنِّیْ لَمْ اَکُنْ اَسْلَمْتُ قَبْلَ ذَالِکَ الْیَوْمِ میرے دل میں یہ خواہش پید اہوئی کہ کاش ! میں اس سے قبل مسلمان ہی نہ ہو ا ہوتا اور صرف آج اسلام قبول کر تا ۔تاکہ آنحضرت ﷺ کی یہ ناراضگی میرے حصہ میں نہ آتی ۔میں بھی جو رسول پاک کی خاک پا ہونا اپنے لئے سب فخروں سے بڑھ کر فخر سمجھتا ہوں۔آپکی اتباع میں ڈاکٹر صاحب سے یہی عرض کرتا ہوں کہ میرے خلاف یہ خطرنا ک الزام لگانے سے قبل آپ نے میرا دل تو چیر کر دیکھ لیا ہوتاکہ اس کے اندر کیا ہے ۔بس اس سے زیادہ کیا جواب دوں ۔ڈاکٹر صاحب کوئی مثال پیش فرماتے تو اس کے متعلق کچھ عرض کرتا ۔لیکن جو بات بغیر مثال دینے کے یونہی کہہ دی گئی ہو اس کا کیا جواب دیا جائے؟ میرا خدا گواہ ہے کہ میں نے سیرۃ المہدی کی کوئی روایت کسی ذاتی غرض کے ماتحت نہیں لکھی اور نہ کوئی روایت اس نیت سے تلاش کر کے درج کی ہے کہ اس سے غیر مبایعین پر زد پڑے بلکہ جو کچھ بھی مجھ تک پہنچا ہے اسے بعد مناسب تحقیق کے درج کر دیا ہے ۔ وَلَعْنَتُ اللّٰہِ عَلٰی مَنْ کَذَبَ بایں ہمہ اگر میری یہ کتا ب ڈاکٹر صاحب اور ان کے ہم رتبہ محققین کے اوقات گرامی کے شایان شان نہیں تو مجھے اس کا افسوس ہے ۔
ساتواں اور آخری اصولی اعتراض جو ڈاکٹر صاحب نے بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ سیرۃ المہدی کی بہت سی روایات درایت کے اصول کے لحاظ سے غلط ثابت ہوتی ہیں ۔اور جو بات درایتًا غلط ہو وہ خود روایت کی رُو سے کیسی ہی مضبوط نظر آئے اسے تسلیم نہیں کیا جاسکتا مثلاً ڈاکٹر صاحب کا بیان ہے کہ سیرۃ المہدی میں بعض ایسی روایتیں آگئی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کی تحریرات کے صریح خلاف ہیں بلکہ بعض حالتوں میں آپکے مزیل شان بھی ہیں او ر ایسی حالت میں کوئی شخص جو آپ کو راست باز یقین کرتا ہو ان روایات کو قبول نہیں کر سکتا ۔راوی کے بیان کو غلط قرار دیا جا سکتا ہے مگر حضرت مسیح موعودؑپر حرف آنے کو ہمارا ایمان ،ہما را مشاہدہ ، ہمارا ضمیر قطعاً قبول نہیں کرسکتا ۔خلاصہ کلام یہ کہ ایسی روایتیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طریق عمل اور آپ ؑ کی تحریرات کے صریح خلاف ہوں قابل قبول نہیں ہیں ۔مگر سیرۃ المہدی میں اس قسم کی روایات کی بھی کوئی کمی نہیں وغیرہ وغیرہ۔
اس اعتراض کے جواب میں مَیں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میںاصولاً اس بات سے متفق ہوں کہ جو روایات واقعی اور حقیقتاً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طریق عمل اور آپ کی تعلیم اور آپ کی تحریرات کے خلاف ہیں وہ کسی صور ت میں بھی قابل قبول نہیں ہو سکتیں اور ان کے متعلق بہر حال یہ قرار دینا ہو گا کہ اگر راوی صادق القول ہے تو یا تو اس کے حافظہ نے غلطی کھائی ہے اور یا وہ بات کو اچھی طرح سمجھ نہیں سکا ۔اس لئے روایت کرنے میں ٹھوکر کھا گیا ہے ۔اور یا کوئی اور اس قسم کی غلطی واقع ہو گئی ہے ۔جس کی وجہ سے حقیقت امر پر پردہ پڑگیا ہے ۔ واقعی زبانی روایات سے سوائے اس کے کہ وہ تواتر کی حد کو پہنچ جائیں صرف علم غالب حاصل ہوتا ہے اور یقین کامل اور قطعیت تامہ کا مرتبہ ان کو کسی صورت میں نہیں دیا جاسکتا۔پس لامحالہ اگر کوئی زبانی روایت حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃالسلام کے ثابت شدہ طریق عمل اور آپکی مسلم تعلیم اور آپ کی غیر مشکوک تحریرات کے خلاف ہے تو کوئی عقل مند اسے قبول کرنے کا خیال دل میں نہیں لا سکتا اور اس حد تک میرا ڈاکٹر صاحب کے ساتھ اتفاق ہے لیکن بایں ہمہ میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ عملاً یہ معاملہ ایسا آسان نہیں ہے جیسا کہ ڈاکٹر صاحب موصوف نے سمجھ رکھا ہے ۔ درایت کا معاملہ ایک نہایت نازک اور پیچیدہ معاملہ ہے اور اس میں جرأ ت کے ساتھ قدم رکھنا سخت ضرر رساں نتائج پید اکر سکتا ہے ۔دراصل جہاں بھی استدلال و استنباط اور قیاس و استخراج کا سوال آتا ہے وہاں خطر ناک احتمالات و اختلافا ت کا دروازہ بھی ساتھ ہی کھل جاتا ہے ۔ایک مشہور مقولہ ہے کہ جتنے منہ اتنی باتیں۔ اور دنیا کے تجربہ نے اس مقولہ کی صداقت پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے ۔جہاں تک مشاہدہ اور واقعہ کا تعلق ہے وہاں تک تو سب متفق رہتے ہیں اور کوئی اختلاف پید ا نہیں ہوتا ۔والشاذکالمعدوم ۔لیکن جونہی کہ کسی مشاہدہ یا واقعہ سے استدلال و استنباط کرنے اور اس کا ایک مفہوم قرار دے کر اس سے استخراج نتائج کرنے کا سوال پید ا ہوتا ہے پھر ہر شخص اپنے اپنے راستہ پر چل نکلتا ہے اور حق وباطل میں تمیز کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے ۔پس یہ بات منہ سے کہہ دینا تو بہت آسان ہے کہ جو روایت حضرت مسیح موعود ؑ کے طریق عمل کے خلاف ہو اسے رد کر دو یا جو بات حضرت کی تحریرات کے خلاف نظر آئے تو اسے قبول نہ کرو اور کوئی عقل مند اصولاً اس کا منکر نہیں ہو سکتا ۔لیکن اگرذرا غور سے کام لے کر اس کے عملی پہلو پر نگا ہ کی جائے تب پتہ لگتا ہے کہ یہ جرح و تعدیل کوئی آسان کام نہیں ہے اور ہر شخص اس کی اہلیت نہیں رکھتا کہ روایات کو اس طرح اپنے استدلال و استنباط کے سامنے کاٹ کاٹ کر گراتا چلا جائے ۔بیشک حضر ت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طریق عمل کے خلاف کوئی روایت قابل شنوائی نہیں ہو سکتی ۔ مگر طریق عمل کا فیصلہ کرنا کا رے دارد۔ اور میں اس شیر دل انسان کو دیکھنا چاہتا ہوں جو یہ دعویٰ کر ے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا طریق عمل قرار دینے میں اس کی رائے غلطی کے امکان سے بالا ہے ۔اسی طرح بے شک جو روایت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تحریرات کے خلاف ہو اسے کوئی احمدی قبول نہیں کرسکتا ۔مگر تحریرات کا مفہوم معین کرنا بعض حالتوں میں اپنے اندر ایسی مشکلات رکھتا ہے جن کا حل نہایت دشوار ہو جاتا ہے اور مجھے ایسے شخص کی جرأت پر حیرت ہوگی جو یہ دعویٰ کرے کہ حضرت کی تحریرات کا مفہوم معین کر نے میں اس کا فیصلہ ہر صور ت میں یقینی اور قطعی ہوتا ہے پس جب درایت کا پہلو اپنے ساتھ غلطی کے احتمالات رکھتا ہے تو اس پر ایسا اندھا دھند اعتماد کرنا کہ جو بھی روایت اپنی درایت کے خلاف نظر آئے اسے غلط قرار دے کر ردّ کر دیا جائے ۔ایک عامیانہ فعل ہو گا جو کسی صور ت میں بھی سلامت روی اور حق پسندی پر مبنی نہیں سمجھا جاسکتا ۔مثال کے طورپر میں ڈاکٹر صاحب کے سامنے مسئلہ نبوت پیش کر تا ہوں ۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تحریرات ہر دو فریق کے سامنے ہیں لیکن مبائعین کی جماعت ان تحریرات سے یہ نتیجہ نکالتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور غیر مبائعین یہ استدلال کر تے ہیں کہ آپ نے نبوت کا دعویٰ نہیں کیا ۔ اور فریقین کے استدلال کی بنیاد حضرت مسیح موعود ؑ کی تحریرات پر ہے ۔اب اگر درایت کے پہلو کو آنکھیں بند کر کے ایسا مرتبہ دیدیا جائے کہ جس کے سامنے روایت کسی صور ت میں بھی قابل قبول نہ ہو تو اس کا نتیجہ سوائے اس کے اور کیا ہو سکتا ہے کہ جو روایت غیر مبائعین کو ایسی ملے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نبوت ثابت ہو تی ہو تو وہ اسے ردّ کر دیں۔کیونکہ وہ بقول ان کے آپ کی تحریرات کے خلاف ہے اور اگر کوئی روایت مبائعین کے سامنے ایسی آئے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو نبوت کا دعویٰ نہیں تھا تو وہ اسے قبول نہ کریں کیونکہ بقول ان کے یہ روایت حضرت صاحب کی تحریرات کے خلاف ہے ۔اسی طرح مبائعین کا یہ دعویٰ ہے کہ غیر احمدیوں کا جنازہ پڑھنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طریق عمل کے خلاف تھا اور غیر مبائعین یہ کہتے ہیں کہ جو غیر احمدی مخالف نہیں ہیں ان کا جنازہ پڑھ لینا حضرت مسیح موعو د ؑ کے طریق عمل کے خلاف نہیں ۔ اب اس حالت میں ڈاکٹر صاحب کے پیش کردہ اصول پر اندھا دھند عمل کرنے کا نتیجہ سوائے اسکے اور کیا ہو سکتا ہے کہ اگر کسی مبائع کو کوئی ایسی روایت پہنچے کہ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بعض حالتوں میں غیروں کا جنازہ پڑھ لیتے تھے ۔یا پڑھنا پسند فرماتے تھے تو وہ اسے ردّ کر دیتے کیونکہ بقول اس کے یہ بات حضرت کے طریق عمل کے خلاف ہے ۔اور جب کو ئی روایت کسی غیر مبائع کو ایسی ملے جس سے یہ ثابت ہو تا ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام غیروں کا جناز ہ نہیں پڑھتے تھے یا پڑھنا پسند نہیں فرماتے تھے تو خواہ یہ روایت اصول روایت کے لحاظ سے کیسی ہی پختہ اور مضبوط ہو ۔وہ اسے ردی کی ٹوکری میں ڈال دے کیونکہ بقول اس کے یہ روایت حضرت صاحب کے طریق عمل کے خلاف ہے ۔ناظرین خود غور فرمائیں کہ اس قسم کی کارروائی کا سوائے اس کے اور کیا نتیجہ ہو سکتا ہے کہ علم کی ترقی کا دروازہ بند ہو جائے اور ہر شخص اپنے دماغ کی چاردیواری میں ایسی طرح محصور ہو کر بیٹھ جائے کہ باہر کی ہوا اسے کسی طرح بھی نہ پہنچ سکے ۔اور اس کا معیار صداقت صرف یہ ہو کہ جو خیالات وہ اپنے دل میں قائم کر چکا ہے ان کے خلاف ہر اک بات خواہ وہ کیسی ہی پختہ اور قابل اعتماد ذرائع سے پایہ ثبوت کو پہنچی ہو ئی ہو ردّ کئے جانے کے قابل ہے کیونکہ وہ اس کی درایت کے خلاف ہے ۔ مکرم ڈاکٹر صاحب ! مجھے آپ کے بیان سے اصولی طور پر اتفاق ہے مگر میں افسوس کر تا ہوں کہ آپ نے اس مسئلہ کے عملی پہلو پر کما حقہ‘ غور نہیں فرمایا ۔ورنہ آپ درایت کے ایسے دلدادہ نہ ہو جاتے کہ اس کے مقابلہ میں ہر قسم کی روایت کو ردّ کئے جانے کے قابل قرار دیتے ۔
میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر آپ ٹھنڈے دل سے غور فرمائیں تو آپ کو معلوم ہو کہ اصل چیز جس پر بنیاد رکھی جانی چاہیے وہ روایت ہی ہے ۔اور علم تاریخ کا سارا دارومدار اسی اصل پر قائم ہے اور درایت کے اصول صرف بطور زوائد کے روایت کو مضبوط کر نے کیلئے وضع کئے گئے ہیں اور آج تک کسی مستند اسلامی مؤرخ نے ان پر ایسا اعتماد نہیں کیا کہ ان کی وجہ سے صحیح اور ثابت شدہ روایات کر ترک کر دیا ہو ۔متقدمین کی تصنیفات تو قریباً قریباً کلیۃً صرف اصول روایت پر ہی مبنی ہیں اور درایت کے اصول کی طرف انہوں نے بہت کم توجہ کی ہے البتہ بعد کے مؤرخین میں سے بعض نے درایت پر زور دیا ہے لیکن انہوں نے بھی اصل بنیاد روایت پر ہی رکھی ہے ۔اور درایت کو ایک حد مناسب تک پر کھنے اور جانچ پڑتال کرنے کا آلہ قرار دیا ہے اور یہی سلامت روی کی راہ ہے ۔واقعی اگر ایک بات کسی ایسے آدمی کے ذریعہ ہم تک پہنچی ہے جو صادق القول ہے اور جس کے حافظہ میں بھی کوئی نقص نہیں اور جو فہم و فراست میں بھی اچھا ہے ۔اور روایت کے دوسرے پہلوئوں کے لحاظ سے بھی وہ قابل اعتراض نہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اس کی روایت کو صرف اس بنا پر ردّ کر دیں کہ وہ ہماری سمجھ میں نہیں آتی ۔یا یہ کہ ہمارے خیال میں وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طریق عمل یا تحریروں کے مخالف ہے۔کیونکہ اس کا یہ مطلب ہو گا کہ ہم واقعات کو اپنے محدود استدلال بلکہ بعض حالتوں میں خود غرضانہ استدلال کے ماتحت لانا چاہتے ہیں ۔خوب سوچ لو کہ جو بات عملاً وقوع میں آگئی ہے یعنی اصول روایت کی روسے اس کے متعلق یہ قطعی طور پر ثابت ہے کہ وہ واقع ہو چکی تو پھر خواہ ہماری سمجھ میں آئے یا نہ آئے یا ہمارے کسی استدلال کے موافق ہو یا مخالف ہمارا فرض ہے کہ ہم اسے قبول کر یں ۔سوائے اسکے کہ وہ کسی ایسی نص صریح کے مخالف ہو ۔جس کے مفہوم کے متعلق اُمت میں اجماع ہو چکا ہو ۔ مثلاً یہ بات کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا تھا ۔ہر احمدی کہلانے والے کے نزدیک مسلّم ہے اور کوئی احمدی خواہ وہ کسی جماعت یا گروہ سے تعلق رکھتا ہو۔اس کا منکر نہیں ۔پس ایسی صورت میں اگر کوئی ایسی روایت ہم تک پہنچے جس میں یہ مذکور ہو کہ آپ نے کبھی بھی مسیح موعود ہونے کا دعویٰ نہیں کیا تو خواہ بظاہر وہ روایت میں مضبوط ہی نظر آئے ۔ہم اسے قبول نہیں کریں گے اور یہ سمجھ لیں گے کہ راوی کو (اگر وہ سچا بھی ہے)کوئی ایسی غلطی لگ گئی ہے جس کا پتہ لگانا ہمارے لئے مشکل ہے کیونکہ وہ حضرت مسیح موعود ؑ کی صریح تحریرات (یعنی ایسی تحریرات جن کے مفہوم کے متعلق کوئی اختلاف نہیں ہے)کے مخالف ہے لیکن اگر کوئی روایت ہمیں مسئلہ نبوت یا کفر و اسلام یا خلافت یا جنازہ غیر احمدیان وغیرہ کے متعلق ملے اور وہ اصول روایت کے لحاظ سے قابل اعتراض نہ ہو تو خواہ وہ ہمارے عقیدہ کے کیسی ہی مخالف ہو ۔ہمارا فرض ہے کہ اسے دیانتداری کے ساتھ درج کردیں۔اور اس سے استدلال و استنباط کرنے کے سوال کو ناظرین پر چھوڑ دیں تاکہ ہر شخص اپنی سمجھ کے مطابق اس سے فائدہ اٹھا سکے اور علمی تحقیق کا دروازہ بند نہ ہونے پائے ۔ اور اگر ہم اس روایت کو اپنے خیال اور اپنی درائت کے مخالف ہونے کی وجہ سے ترک کر دینگے تو ہمارا یہ فعل کبھی بھی دیانتداری پر مبنی نہیں سمجھا جاسکتا۔
پھر مجھے یہ بھی تعجب ہے کہ ڈاکٹر صاحب ایک طرف تو مجھ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ میری کتاب صرف ’’محمودی‘‘خیال کے لوگوں کے مطلب کی ہے اور لاہوری محققین کے مطالعہ کے قابل نہیںاور دوسری طرف یہ اعتراض ہے کہ کتاب درایت کے پہلو سے خالی ہے۔حالانکہ ڈاکٹر صاحب کو اپنے اصول کے مطابق میرے خلاف اس اعتراض کا حق نہیں تھا۔کیونکہ اگر میں نے بفرض محال صرف ان روایات کو لیا ہے جو ہمارے عقیدہ کی مؤیّد ہیں۔تو میں نے کوئی برا کام نہیں بلکہ بقول ڈاکٹر صاحب عین اصول درایت کے مطابق کیا ہے ۔کیونکہ جو باتیں میرے نزدیک حضرت کے طریق عمل اور تحریروں کے خلاف تھیں ۔ان کو میں نے رد ّکر دیاہے ۔اور صرف انہیں کو لیا ہے جو میرے خیال میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طریق عمل اور آپ کی تحریرات کے مطابق تھیں اور یہ ہو بھی کیسے سکتا تھا کہ میں ان کے خلاف کسی روایت کو قبول کروں ۔کیونکہ ڈاکٹر صاحب کے اپنے الفاظ ہیں ۔
’’صریح حضرت مسیح موعود کی تحریروں اور طرز عمل کے خلاف اگر ایک روایت ہو تو حضرت مسیح موعود کو راست باز ماننے والاتو قطعاً اسکو قبول نہیں کر سکتا۔۔۔۔۔۔۔۔ہم راوی پر حرف آنے کو قبول کر سکتے ہیں مگر مسیح موعود ؑ پر حرف آنے کو ہمارا یمان ،ہماری ضمیر ،ہمارا مشاہدہ ۔ہمارا تجربہ قطعاًقبول کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔‘‘
پس اس اصول کے ماتحت اگر میں نے ان روایتوں کو جو میرے نزدیک حضرت کی تحریرات اور طرز عمل کے صریح خلاف تھیں ۔ردّ کر دیا اور درج نہیں کیا ۔اور اس طرح میری کتاب ’’محمودی ‘‘عقائد کی کتاب بن گئی تو میں نے کچھ برا نہ کیا ۔بلکہ بڑا ثواب کمایا اور ڈاکٹر صاحب کے عین دلی منشاء کو پورا کرنے کا موجب بنااور ایسی حالت میں میرا یہ فعل قابل شکریہ سمجھا جانا چاہیے ۔نہ کہ قابل ملامت اور اگر ڈاکٹر صاحب کا یہ منشاء ہے کہ روایت کے اصول کی رو سے تو میں اپنے فہم کے مطابق پڑتال کیا کروں مگر درایت کے مطابق پرکھنے کے لئے ڈاکٹر صاحب اور ان کے ہم مشربوں کی فہم و فراست کی عینک لگا کر روایات کا امتحان کیا کروں ۔تو گو ایسا ممکن ہو ۔لیکن ڈر صرف یہ ہے کہ کیا اس طرح میری کتاب ’’پیغامی ‘‘ عقائد کی کتاب تو نہ بن جائے گی ۔اور کیا ڈاکٹر صاحب کی اس ساری تجویز کا یہی مطلب تو نہیں کہ محنت تو کروں میں اور کتاب ان کے مطلب کی تیار ہو جائے ۔مکرم ڈاکٹر صاحب !افسوس! آپ نے اعتراض کر نے میں انصاف سے کام نہیں لیا بلکہ یہ بھی نہیں سوچا کہ آپ کے بعض اعتراضات ایک دوسرے کے مخالف پڑے ہوئے ہیں ۔ایک طرف تو آپ یہ فرماتے ہیں کہ میری کتاب ’’ محمودی ‘‘ عقائد کی کتاب ہے اور دوسری طرف میرے خلاف یہ ناراضگی ہے کہ میں نے درایت سے کام نہیں لیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طریق عمل اور تحریرات کے خلاف روایتیں درج کر دی ہیں ۔اب آپ خود فرمائیں کہ اس حالت میں مَیں کروں تو کیا کروں ؟ اپنی درایت سے کام لوں تو میری کتاب محمودی عقائد کی کتاب بنتی ہے اور اگر درایت سے کام نہ لوں تو یہ الزام آتاہے کہ درایت کا پہلو کمزور ہے ۔ایسی حالت میں میرے لئے آپ کے خوش کرنے کا سوائے اس کے اور کونسا رستہ کھلا ہے کہ میں درایت سے کام تو لوں ۔مگر اپنی درایت سے نہیں بلکہ آپ کی درایت سے اور ہر بات جو آپ کے عقیدہ کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طریق عمل اور تحریرات کے خلاف ہو۔اسے ردّ کر تا جائوں جس کا نتیجہ یہ ہو کہ جب کتاب شائع ہو تو آپ خوش ہو جائیں کہ اب یہ کتاب روایت و درایت ہر دو پہلو سے اچھی ہے ۔کیونکہ اس میں کوئی بات لاہوری احباب کے عقائد کے خلاف نہیں ۔اگر جرح و تعدیل کا یہی طریق ہے تو خدا ہی حافظ ہے ۔
یہ سب کچھ میں نے ڈاکٹر صاحب کے اصول کو مدنظر رکھ کر عرض کیا ہے ورنہ حق یہ ہے کہ میں نے جہاں تک میری طاقت ہے روایت و درایت دونوں پہلوئوں کو دیانت داری کے ساتھ علیٰ قدر مراتب ملحوظ رکھا ہے اور یہ نہیں دیکھا کہ چونکہ فلاں بات ہمارے عقیدہ کے مطابق ہے اس لئے اسے ضرور لے لیا جائے یا چونکہ فلاںبات لاہوری احباب کے عقیدہ کے مطابق ہے ۔اس لئے اسے ضرور چھوڑ دیا جائے ۔بلکہ جو بات بھی روایت کے رو سے میںنے قابل قبول پائی ہے اور درایت کے رو سے بھی اسے حضرت مسیح موعود ؑ کی صریح اور اصولی اور غیر اختلافی اور محکم تحریرات کے خلاف نہیں پایا ۔اور آپ کے مسلم اور غیر مشکوک اور واضح اور روشن طریق عمل کے لحاظ سے اسے قابل ردّ نہیں سمجھا۔اسے میں نے لے لیا ہے مگر بایں ہمہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ گو شاید احتیاط اسی میں ہو جو میں نے کیا ہے ۔لیکن بحیثیت مجموعی روایات کے جمع کرنے والے کیلئے مناسب یہی ہے کہ وہ صرف اصول روایت تک اپنی نظر کو محدود رکھے ۔اور جو روایت بھی روایت کے اصول کے مطابق قابل قبول ہو اسے درج کرلے اور درایت کے میدان میں زیادہ قدم زن نہ ہو بلکہ اس کام کو ان لوگوں کیلئے چھوڑ دے جو عند الضرورت استدلال و استنباط کے طریق پر انفرادی روایات کو زیر بحث لاتے ہیں ۔و اِلاّ نتیجہ یہ ہوگا کہ شخصی اور انفرادی عقیدے یا ذاتی مذاق کے خلاف ہو نے کی وجہ سے بہت سی سچی اور مفید روایات چھوٹ جائیں گی اور دنیا ایک مفید ذخیرہ علم سے محروم ر ہ جائے گی ۔یہ میری دیانتداری کی رائے ہے اور میں ابھی تک اپنی اس رائے پر اپنے خیال کے مطابق علیٰ وجہ البصیرت قائم ہوں۔ واللّٰہ اعلم ولا علم لنا الا ماعلّمتنا-
خاکسار مرزا بشیر احمد قادیان ۱۴؍نومبر ۱۹۲۷ء
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
سیرت المہدی ۔ سیرت مسیح موعود علیہ السلام ۔ جلد 3 ۔ یونی کوڈ



بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہٖ الْکَرِیْم وَعَلٰی عَبْدِہِ الْمَسِیْحِ الْمَوعُود
عرض حال
خاکسار اللہ تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر بجا لاتا ہے کہ ایک لمبے عرصہ کے بعد مجھے سیرت المہدی کے حصہ سوم کے شائع کرنے کی سعادت حاصل ہو رہی ہے۔ وَذَالِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ وَاللّٰہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ ـ
سیرۃ المہدی کا حصہ اوّل ۱۹۲۳ء میں شائع ہوا تھا اور پھر اس کے بعد حصہ دوم ۱۹۲۷ء میں شائع ہوا اور اب ۱۹۳۹ء میں حصہ سوم شائع ہو رہا ہے اس عرصہ میں سیرۃ المہدی حصہ اول کا دوسرا ایڈیشن بھی ۱۹۳۵ء میں نکل چکا ہے جس میں پہلے ایڈیشن کی بعض غلطیوں کی اصلاح کی جا چکی ہے اور بعض قابلِ تشریح باتوں کی تشریح بھی درج ہو چکی ہے۔ اور اب حصہ اول کا یہی ایڈیشن مستند سمجھا جاناچاہئیے۔
سیرۃ المہدی حصہ دوم کی اشاعت کے بعد بعض ایسے حالات پیش آئے جن کی وجہ سے میں سمجھا کہ شاید آئندہ میں اس کام کو جاری نہیں رکھ سکوں گا مگر بالآخر خدا نے اس حالت کو بدل دیا اور مجھے توفیق دی کہ میں اس کتاب کے تیسرے حصہ کو مرتب کر سکوں ۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذَالِکَ۔ نِعْمَ الْمَوْلٰی وَنِعْمَ الْوَکِیْل۔
حصہ سوم جو اس وقت دوستوں کے ہاتھ میں جا رہا ہے۔ اس میں مَیں نے اپنی حاشیہ آرائی کو بہت کم کر دیا ہے۔ یعنی وہ لمبے لمبے تشریحی نوٹ جو مَیں پہلے دو حصوں میں لکھتا رہا ہوں۔ تیسرے حصہ میں ان کا رنگ بدل کر انہیں مختصر کر دیا گیا ہے تاکہ روایات کا قدرتی حُسن مصنوعی تزئین کے سامنے مغلوب نہ ہونے پائے ،تاہم کہیں کہیں جہاں ضروری تھا وہاں تشریح درج کی گئی ہے۔ یہ تشریح دو قسم کے موقعوں پر درج ہوئی ہے۔ اول ایسے موقعوں پر کہ جہاں تشریح کے بغیر روایت کا صحیح مطلب سمجھنے میں غلط فہمی کا امکان نظر آیا ہے۔ دوسرے جہاں کسی اضافہ سے روایت کی حقیقی غرض کو مزید جِلا ملنے کی امید ہوئی ہے۔ ان کے سوا مَیں نے کوئی تشریحی نوٹ نہیں دیا۔
اس حصہ کی تیاری میں مجھے مولوی شریف احمد صاحب مولوی فاضل نے بہت امداد دی ہے جنہیں میں نے اسی غرض کے لئے اپنے ساتھ لگا لیا تھا یعنی روایات کی نقل اور انتخاب کا کام زیادہ تر انہوں نے کیا ہے فَجَزَاہُ اللّٰہُُ خَیْرًا مگر آخری نظر خود مَیں نے ڈالی ہے اور ایک ایک لفظ میری نظر سے گزرا ہے اور مَیں نے متعدد جگہ درستی کی ہے اور تشریحی نوٹ سب کے سب میرے اپنے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام کے حالات اور آپؑ کے الفاظ اپنے اندر وہ عظیم الشان روحانی اثر اور زندگی بخش جوہر رکھتے ہیں کہ بعض صورتوں میں ایک روایت انسان کی کایا پلٹ دینے کے لئے کافی ہو سکتی ہے مگر یہ اثر زیادہ تر مطالعہ کرنے والے کی اپنی قلبی کیفیت اور پھر خدا کے فضل پر منحصر ہے ۔پس میری یہ دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس مجموعہ کو اس کے پڑھنے والوں کے لئے بابرکت کرے۔ اس کی خوبیوں سے وہ متمتع ہوں اور اس کے نقصوں کی مضرت سے محفوظ رہیں اور اس سے وہ نیک غرض حاصل ہو جو میرے دل میں ہے بلکہ اس سے بھی بہتر اور اس سے بھی بڑھ کر۔ اور خداتعالیٰ اپنے فضل سے میری اس ناچیز خدمت کو میرے لئے فلاح دارین کا ذریعہ بناوے۔ آمین اللّٰھم آمین۔
اس نوٹ کے ختم کرنے سے پہلے مجھے صرف اس قدر مزید عرض کرنا ہے کہ خدا کے فضل سے اس وقت میرے پاس سیرۃ المہدی کے حصہ چہارم کے لئے بھی کافی مواد موجود ہے۔ اس حصہ میں انشاء اللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض قدیم صحابہ کی روایات ہوں گی جن میں سے مکرم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں جن کی بعض روایات نہایت ایمان پرور ہیں۔ مگر ابھی تک اس حصہ کی تکمیل باقی ہے اور تشریحی نوٹ اور نظر ثانی کا کام بھی رہتا ہے۔ دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے حصہ چہارم کی اشاعت کی بھی جلد توفیق عطا کرے کیونکہ زندگی تھوڑی ہے اور کام بہت۔ اور کام کی توفیق بھی خدا کے فضل پر موقوف ہے اور ہمارے ہر کام میں وہی سہارا ہے۔
خاکسار راقم آثم
مرزا بشیر احمدؑ
قادیان
مورخہ ۳ ؍ فروری ۱۹۳۹ء

بِسْمِ اللّٰہ ِالرّٰحْمٰنِ الرّٰحیْـمْ
نَحمَدُہٗ وَنُصَلِّی عَلیٰ رَسُوْلِہٖ الکَرِیْم
وعلیٰ عبدہ المسیح الموعود مع التسلیم
عن عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ قال سمعتُ النبیَّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم یَقُوْلُ اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ وَاِنَّمَالِکُلِّ امْرِیٍٔ مَانَوٰی (رواہ البخاری)
{472} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ سیرۃ المہدی حصہ اول میں جو غلطیاں رہ گئی تھیں یا جہاں جہاں غلط فہمی پیدا ہونے کا امکان تھا ان کی اصلاح حصہ دوم میںنیز حصہ اول کے طبع دوم میں کر دی گئی تھی۔ لیکن اس کے بعد بعض مزید ایسی باتیں معلوم ہوئی ہیں جو قابل اصلاح یا قابل تشریح ہیں۔ علاوہ ازیں حصہ دوم میں بھی بعض غلطیاں رہ گئی تھیں۔ سو اس جگہ حصہ اول و حصہ دوم دونوں کی باقی ماندہ غلطیوں کی اصلاح یا قابل تشریح باتوں کی تشریح درج کی جاتی ہے۔ اس کے بعد اگر کوئی مزید غلطی معلوم ہوئی تو اس کی آئندہ اصلاح کر دی جائے گی:۔
(۱) روایت نمبر۱۹ کی بناء پر جو اعتراض حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام کے متعلق ہسڑیا یا مراق کے بارے میں مخالفین کی طرف سے کیا گیا تھا۔ اس کا اصولی جواب طبع دوم کی اسی روایت یعنی روایت نمبر۱۹ میں دیا جا چکا ہے مزید بصیرت کے لئے روایات نمبر ۸۱، ۲۹۳، ۳۶۵، ۳۶۹، اور ۴۵۹ بھی ملاحظہ کی جائیں جن سے اس سوال پر مزید روشنی پڑتی ہے۔
(۲) روایت نمبر ۲۲ میں حضرت مسیح موعود السلام کے الہامات کی نوٹ بُک کے متعلق جو یہ الفاظ آتے ہیں۔ کہ ’’ اب وہ نوٹ بُک کہاں ہے؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا تمہارے بھائی کے پاس ہے‘‘۔ اس میں بھائی سے مراد حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہٖ ہیں۔
(۳) روایت نمبر ۳۷، ۴۶، ۱۲۷ حصہ اول طبع دوم میں یہ بیان کیا گیا ہے۔ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام کی حقیقی ہمشیرہ مراد بی بی صاحبہ مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری کے بڑے بھائی مرزا محمد بیگ کے ساتھی بیاہی گئی تھیں۔ مگر یہ کہ وہ جلد فوت ہو گیا۔ اس بارہ میں والدہ صاحبہ عزیزم مرزا رشید احمد صاحب نے جو ہماری بھاوجہ ہیں مجھ سے بیان کیا۔ کہ ہماری پھوپھی مراد بی بی کی شادی مرزا محمد بیگ کے ساتھ نہیں ہوئی تھی۔ بلکہ مرزا احمد بیگ کے بڑے بھائی مرزا غلام غوث کے ساتھ ہوئی تھی۔ مرزا محمد بیگ مرزا احمد بیگ سے چھوٹا تھا۔ اور بچپن ہی میں فوت ہو گیا تھا۔
(۴) روایت نمبر ۵۱ کی بناء پر جو بعض کمینہ مزاج مخالفین نے حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام کے نام کے متعلق استہزاء کا طریق اختیار کیا تھا۔ اس کا مفصل جواب حصہ اول طبع دوم کی اسی روایت یعنی روایت نمبر۵۱ میں درج کیا جا چکا ہے۔اسی ضمن میں روایات نمبر۲۵، ۴۴، ۹۸، ۱۲۹، ۱۳۴، ۴۱۲ اور نمبر۴۳۸ بھی قابل ملاحظہ ہیں جن سے اس بحث پر مزید روشنی پڑتی ہے۔
(۵) روایت نمبر ۵۵ میں حضرت والدہ صاحبہ کے یہ الفاظ درج ہیں کہ ’’چنانچہ مَیں نے آپؑ کی وفات کے بعد آپؑ کی طرف سے حج کروا دیا‘‘۔ اس کے متعلق یہ بات قابلِ نوٹ ہے۔ کہ حضرت والدہ صاحبہ نے حافظ احمد اللہ صاحب مرحوم کو بھیج کر حضرت صاحب کی طرف سے حجِ بدل کروایا تھا۔ اور حافظ صاحب کے سارے اخراجات والدہ صاحبہ نے خود برداشت کئے تھے۔ حافظ صاحب پرانے صحابی تھے اور اب عرصہ ہوا فوت ہو چکے ہیں۔
(۶) روایت نمبر۹۸ حصہ اول طبع دوم میں میاں عبداللہ صاحب سنوری نے ذکر کیا ہے۔ کہ انہوں نے میاں محمد حسین صاحب مرادآبادی خوشنویس کے بعد چوتھے نمبر پر بیعت کی تھی۔ مگر جو ابتدائی رجسٹر بیعت کنندگان مجھے حال ہی میں ملا ہے اس کے اندراج کے لحاظ سے ان کا نام نمبر۱۱ پر درج ہے۔
(۷) اسی روایت نمبر ۹۸ میں میاں عبداللہ صاحب سنوری نے پہلے دن کی بیعت کی تاریخ ۲۰؍رجب ۱۳۰۶ء مطابق ۲۳ ؍مارچ ۱۸۸۹ء بیان کی ہے۔ مگر رجسٹر بیعت کنندگان سے پہلے دن کی بیعت ۱۹؍ رجب اور ۲۱ ؍مارچ ظاہر ہوتی ہے یعنی نہ صرف تاریخ مختلف ہے بلکہ قمری اور شمسی تاریخوں کا مقابلہ بھی غلط ہو جاتا ہے اس اختلاف کی وجہ سے مَیں نے گزشتہ جنتری کو دیکھا تو وہاں سے مطابق زبانی روایت ۲۰؍رجب کو ۲۳؍ مارچ ثابت ہوئی ہے۔ پس یا تو رجسٹر کا اندراج چند دن بعد میں ہونے کی وجہ سے غلط ہو گیا ہے اور یا اس ماہ میں چاند کی رویت جنتری کے اندراج سے مختلف ہوئی ہوگی۔ واللّٰہ اَعلم۔
(۸) روایت نمبر ۳۰۶ میں خارق عادت طور پر بخاری کا حوالہ مل جانے کا واقعہ مذکور ہے اور اس کے متعلق یہ الفاظ درج ہیں کہ:۔ ’’مفتی محمد صادق صاحب نے بیان کیا کہ یہ واقعہ لدھیانہ کا ہے اور اس وقت حضرت صاحب کو غالباً نون ثقیلہ یا خفیفہ کی بحث میں حوالہ کی ضرورت پیش آئی تھی۔ سو اوّل تو بخاری ہی نہ ملتی تھی۔ اور جب ملی تو حوالہ کی تلاش مشکل تھی الخ‘‘-
اس واقعہ کے متعلق پیر سراج الحق صاحب نعمانی نے بذریعہ تحریر خاکسار سے بیان کیا۔ کہ’’ یہ واقعہ میرے سامنے پیش آیا تھا۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی سے مباحثہ تھا اور مَیں اس میں کاتب تھا۔ یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام کے پرچوں کی نقل کرتا تھا۔ مفتی محمد صادق صاحب نے جو یہ بیان کیا ہے کہ غالباً حضرت صاحب کو نون ثقیلہ یا خفیفہ کی بحث میں حوالہ کی ضرورت پیش آئی تھی۔ اس میں جناب مفتی صاحب کو غلطی لگی ہے۔ کیونکہ مفتی صاحب وہا ںنہیں تھے۔ نون خفیفہ و ثقیلہ کی بحث تو دہلی میں مولوی محمد بشیر سہسوانی ثم بھوپالوی کے ساتھ تھی۔ اور تلاش حوالہ بخاری کا واقعہ لدھیانہ کا ہے۔ بات یہ تھی کہ لدھیانہ کے مباحثہ میں مولوی محمد حسین بٹالوی نے بخاری کا ایک حوالہ طلب کیا تھا۔ بخاری موجود تھی۔ لیکن اس وقت اس میں یہ حوالہ نہیں ملتا تھا۔ آخر کہیں سے تو ضیح تلویح منگا کر حوالہ نکال کر دیا گیا۔ صاحبِ توضیح نے لکھا ہے۔ کہ یہ حدیث بخاری میں ہے‘‘۔
اور اسی واقعہ کے متعلق شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے بذریعہ تحریر خاکسار سے بیان کیا کہ:۔ ’’روایت نمبر ۳۰۶ میں حضرت حکیم الامت خلیفۃ المسیح اوّلؓ کی روایت سے ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے اور حضرت مکرمی مفتی محمد صادق صاحب کی روایت سے اس کی مزید تصریح کی گئی ہے۔ مگر مفتی صاحب نے اُسے لدھیانہ کے متعلق بیان فرمایا ہے اور نونِ ثقیلہ والی بحث کے تعلق میں ذکر کیا ہے۔ جو درست نہیں ہے۔ مفتی صاحب کو اس میں غلطی لگی ہے۔ لدھیانہ میں نہ تو نونِ ثقیلہ یا خفیفہ کی بحث ہوئی اور نہ اس قسم کے حوالہ جات پیش کرنے پڑے۔ نونِ ثقیلہ کی بحث دہلی میں مولوی محمد بشیر بھوپالوی والے مباحثہ کے دوران میں پیش آئی تھی۔ اور وہ نون ثقیلہ کی بحث میں اُلجھ کر رہ گئے تھے۔ اور جہاں تک میری یاد مساعدت کرتی ہے اس مقصد کے لئے بھی بخاری کا کوئی حوالہ پیش نہیں ہوا۔ الحق دہلی سے اس کی تصدیق ہو سکتی ہے۔ دراصل یہ واقعہ لاہور میں ہوا تھا۔ مولوی عبدالحکیم صاحب کلانوری سے حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام کی ’’محدثیّت اور نبو ّت‘‘ پر بحث ہوئی تھی۔ یہ مباحثہ محبوب رائیوں کے مکان متصل لنگے منڈی میں ہوا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام نے محدثیّت کی حقیقت بیان کرتے ہوئے بخاری کی اس حدیث کا حوالہ دیا۔ جس میں حضرت عمرؓ کی محدثیّت پر استدلال تھا۔ مولوی عبدالحکیم صاحب کے مددگاروں میں سے مولوی احمد علی صاحب نے حوالہ کا مطالبہ کیا۔ اور بخاری خود بھیج دی۔ مولوی محمد احسن صاحب نے حوالہ نکالنے کی کوشش کی مگر نہ نکلا۔ آخر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود نکال کر پیش کیا۔ اور یہ حدیث صحیح بخاری پارہ ۱۴ حصہ اوّل باب مناقب عمرؓ میں ہے اور اس کے الفاظ یہ ہیں عن ابی ھریرۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ۔ قال النَّبِیُّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم قد کان فِیْمَن قبلکم من بنی اسرائیل رجال یُکَلَّمُونَ من غیران یکونوا انبیائَ فَاِنْ یَکُ مِنْ اُمَّتِی مِنْھُمْ اَحَدٌ فَعُمَر۔جب حضرت صاحب نے یہ حدیث نکال کر دکھا دی۔ تو فریق مخالف پر گویا ایک موت وارد ہو گئی اور مولوی عبدالحکیم صاحب نے اسی پر مباحثہ ختم کر دیا‘‘۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مندرجہ بالا روایتوں میں جو اختلاف ہے اس کے متعلق خاکسار ذاتی طور پر کچھ عرض نہیں کر سکتا۔ کہ اصل حقیقت کیا ہے۔ ہاں اس قدر درست ہے کہ نونِ ثقیلہ والی بحث دہلی میں مولوی محمد بشیر والے مباحثہ میں پیش آئی تھی۔ اور بظاہر اس سے بخاری والے حوالہ کا جوڑ نہیں ہے۔ پس اس حد تک تو درست معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ دہلی والے مباحثہ کا نہیں ہے۔ آگے رہا لاہور اور لدھیانہ کا اختلاف، سو اس کے متعلق مَیں کچھ عرض نہیں کر سکتا۔ نیز خاکسار افسوس کے ساتھ عرض کرتا ہے کہ اس وقت جبکہ سیرۃ المہدی کا حصہ سوم زیرِ تصنیف ہے۔ پیر سراج الحق صاحب نعمانی فوت ہو چکے ہیں۔ پیر صاحب موصوف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق روایات کا ایک عمدہ خزانہ تھے۔
(۹) روایت نمبر ۳۰۷ کی تشریح میں جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق یہ بیان کیا گیا ہے کہ آپؑ ایک چوزہ ذبح کرتے ہوئے زخمی ہو گئے۔پیر سراج الحق صاحب نعمانی نے بذریعہ تحریر خاکسار سے بیان کیا۔ کہ :۔ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام عصر کی نماز کے وقت مسجد مبارک میں تشریف لائے۔بائیں ہاتھ کی انگلی پر پٹی پانی میں بھیگی ہوئی باندھی ہوئی تھی۔ اس وقت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی نے حضرت اقدس سے پوچھا۔ کہ حضور نے یہ پٹی کیسے باندھی ہے؟ تب حضرت اقدس علیہ السَّلام نے ہنس کر فرمایا کہ ایک چوزہ ذبح کرنا تھا۔ ہماری اُنگلی پر چُھری پھر گئی۔ مولوی صاحب مرحوم بھی ہنسے اور عرض کیا کہ آپ نے ایسا کام کیوں کیا۔ حضرت نے فرمایا۔ کہ اس وقت اور کوئی نہ تھا۔
(۱۰)روایت نمبر ۳۰۹ کی تشریح میں جس میں لدھیانہ کی پہلے دن کی بیعت کا ذکر ہے۔مکرم شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے بذریعہ تحریر خاکسار سے بیان کیا۔ کہ روایت نمبر۳۰۹ میں مخدومی مکرمی صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحب نے پہلے دن کی بیعت میں مولوی عبداللہ صاحب کے ذکر میں فرمایا ہے کہ وہ خوست کے رہنے والے تھے۔ یہ درست نہیں۔ دراصل مولوی عبداللہ صاحب کو بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ وہ خوست کے رہنے والے نہ تھے۔اس میں صاحبزادہ صاحب کو سہو ہوا ہے۔ مولوی عبداللہ صاحب اس سلسلہ کے سب سے پہلے شخص ہیں جن کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی طرف سے بیعت لینے کی اجازت دی تھی۔ آپ تنگئی علاقہ چارسدہ ضلع پشاور کے رہنے والے تھے۔ مَیں نے حضرت مولوی عبداللہ صاحب کے نام حضرت اقدس کا مکتوب اور اجازت نامہ الحکم کے ایک خاص نمبر میں شائع کر دیا تھا۔
(۱۱) روایت نمبر۳۳۴ کی تشریح میں جس میں یہ ذکر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں ایک شعر پڑھ کر چشم پُرآب ہو گئے۔ پیر سراج الحق صاحب نعمانی نے بذریعہ تحریر خاکسار سے بیان کیا۔ کہ:۔ یہ شعر کُنْتَ السَّوَادَلِنَاظِرِیْ الخ مسجد مبارک میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے میرے سامنے پڑھا تھا۔ اور مجھے سُنا کر فرمایا۔ کہ کاش! حسّان کا یہ شعر میرا ہوتا اور میرے تمام شعر حسّان کے ہوتے۔ پھر آپ چشم پُرآب ہو گئے۔ اس وقت حضرت اقدس نے یہ شعر کئی بار پڑھا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حسّان بن ثابتؓ کے شعر کے متعلق پیرسراج الحق صاحب سے جو الفاظ فرمائے وہ ایک خاص قسم کی قلبی کیفیت کے مظہر ہیں۔ جو اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل پر طاری ہو گی۔ ورنہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اپنے کلام میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی وہ محبت جھلکتی ہے۔ جس کی مثال کسی دوسری جگہ نظر نہیں آتی۔ اور کسی دوسرے کے کلام میں عشق کا وہ بلند معیار نظر نہیں آتا۔ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام میں آنحضرت ﷺ کے متعلق نظر آتا ہے۔
(۱۲) حضرت مولوی شیر علی صاحب کی روایت نمبر ۴۱۰ جس میں یہ ذکر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے تھے۔ کہ جو شخص ہماری کتب کا مطالعہ نہیں کرتا۔ اس کے ایمان کے متعلق مجھے شُبہ ہے۔ اس کے متعلق حضرت مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا ہے کہ یہ روایت غلط درج ہو گئی ہے۔ اصل روایت یوں ہے یعنی دراصل حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام نے یہ فرمایا تھا۔ کہ ’’جو شخص ہماری کتابوں کو کم از کم تین دفعہ نہیں پڑھتا۔ اس میں ایک قسم کا کبر پایا جاتا ہے‘‘۔
{473} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسارعرض کرتا ہے کہ سیرۃ المہدی حصہ دوم کی روایات کے نمبروں میں بعض غلطیاں ہو گئی ہیں۔ ان کی اصلاح درج ذیل کی جاتی ہے:۔
(الف) روایت نمبر ۳۱۴ کے بعد کی روایت کا نمبر بھی ۳۱۴ درج ہو گیا ہے اس کا نمبر ۱/۳۱۴ اور صحیح نمبر ۳۱۵ چاہئے۔
(ب) روایت نمبر ۳۴۱ کے بعد کی روایت کا نمبر بھی ۳۴۱ درج ہو گیا ہے۔ اس کا نمبر ۱/۳۴۱ اور صحیح نمبر ۴۳ ۳چاہئے۔
(ج) روایت نمبر ۳۶۹ کے بعد کی روایت کا نمبر بھی ۳۶۹ درج ہو گیا ہے اس کا نمبر ۱/۳۶۹ اور صحیح نمبر ۳۷۲ چاہئے۔ اس طرح تین روایتوں کی زیادتی کی وجہ سے سیرۃ المہدی حصہ دوم روایت نمبر ۴۶۸ کی بجائے دراصل ۴۷۱ نمبر پر ختم ہوتی ہے۔ چنانچہ اسی کو ملحوظ رکھتے ہوئے حصہ سوم کی پہلی روایت کو ۴۷۲ نمبر دیا گیا ہے۔ ۱ ؎
علاوہ ازیں حصہ دوم میں بعض لفظی غلطیاں بھی رہ گئی ہیں مثلاً:۔
(الف) روایت نمبر ۳۰۵ میں ’’ لَاَخَذْنَاہُ بِالْیَمِیْنِ‘‘ کی بجائے ’’ لَاَخَذْنَا مِنْہُ بِالْیَمِیْنِ ‘‘ چاہئے۔
(ب) روایت نمبر ۳۵۲ میں ’’ نقطہ ‘‘ کی بجائے ’’ نکتہ ‘‘ چاہئے۔
(ج) روایت نمبر ۴۰۶ میں ’’ ثیقل ‘‘ کی بجائے ’’ صیقل ‘‘ چاہئے۔
(د) روایت نمبر ۴۱۱ میں ’’ لَایَنْطِقُ لِسَانِی ‘‘ کی بجائے ’’ لَایَنْطَلِقُ لِسَانِیْ ‘‘ چاہئے۔
(ھ) روایت نمبر ۴۶۸ میں ’’ علمی نقطے ‘‘ کی بجائے ’’ علمی نکتے ‘‘ چاہئے۔ ۱ ؎
{474} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے مکرمی میر محمد اسحٰق صاحب سے جو میرے ماموں ہیںوہ ابتدائی رجسٹر بیعت ملا ہے۔ جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام سلسلہ بیعت شروع ہونے پر بیعت کرنے والوں کے اسماء درج فرمایا کرتے تھے۔ یہ رجسٹر میر صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کاغذات میں سے ملا تھا۔ لیکن افسوس ہے۔ کہ اس قیمتی دستاویز میں سے پہلا ورق ضائع ہو چکا ہے۔ جس کی وجہ سے ابتدائی آٹھ ناموں کا پتہ نہیں چل سکتا۔ کہ وہ کن اصحاب کے تھے البتہ نمبر ۹ سے لے کر نمبر ۴۷۵ تک کے اسماء محفوظ ہیں۔ ان میں سے ابتدائی ۶۲ اسماء درج ذیل کئے جاتے ہیں۔ اس رجسٹر میں کئی اندراجات خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قلم سے ہیں۔ جن کے خط کو مَیں پہچانتا ہوں اور بعض دوسروں کے درج کردہ ہیں۔ جن میں بعض جگہ حضرت خلیفہ اوّلؓ کا خط بھی نظر آتا ہے۔ ابتدائی آٹھ ناموں کی ترتیب کے متعلق چونکہ دوسری روایات سے (دیکھو نمبر ۹۸، ۳۰۹، ۳۱۵) کسی حد تک پتہ مل سکتا ہے۔ اس لئے اس حصہ میں رجسٹر کی کمی زبانی روایات کی روشنی میں قیاساً پوری کر دی گئی ہے۔ بہرحال اس رجسٹر کے ابتدائی اندراجات حسب ذیل ہیں۔
۱
۱۹ رجب ۱۳۰۶ھ
۲۱ مارچ ۱۸۸۹ء
حکیم مولوی نورالدین صاحب
بھیرہ ضلع شاہ پور
ملازم شاہی جموں
یہ حصہ یعنی نمبر ۱
سے نمبر ۸ تک
۲
؍؍
؍؍
میر عباس علی صاحب
لدھیانہ

زبانی روایات
۳
؍؍
؍؍
منشی ہاشم علی صاحب
سنور ریاست پٹیالہ
پٹواری
کی بناء پر یا
۴
؍؍
؍؍
محمد حسین صاحب
مراد آباد
خوشنویسی
قیاسی طور پر
۵
؍؍
؍؍
مولوی عبداللہ صاحب
خوست یا چار سدہ
۔
درج کیا گیاہے۔
۶
؍؍
؍؍
منشی الہ بخش صاحب
لدھیانہ
۔
واللّٰہ اعلم
۷
؍؍
؍؍
یہ نام ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا

خاکسار
۸
؍؍
؍؍
قاضی خواجہ علی صاحب
لدھیانہ
۔
(مؤلف)
۹
؍؍
؍؍
حافظ حامد علی ولد فتح محمد
تھہ غلام نبی ضلع گورداسپور
کاشت قادیان ضلع گورداسپور
۱۰
؍؍
؍؍
منشی رستم علی
ولد شہاب خاں
موضع مدار ضلع جالندھر
تحصیل جالندھر
کانگڑہ
ملازمت پولیس علاقہ قیصری ڈی انسپکٹر پولیس کانگڑہ
۱۱
؍؍
؍؍
عبداللہ ولد کریم بخش
سنور محلہ تنبواں ریاست پٹیالہ
غوث گڑھ تھانہ گہمانوں تحصیل سرہند ریاست پٹیالہ
ملازمت پٹواری ریاست پٹیالہ
بعد محمد حسین صاحب
نمبر۴
۱۲
۱۹ رجب ۱۳۰۶ھ
۲۱ مارچ ۱۸۸۹ء
میر عنایت علی ولد
میر ولایت علی
لدھیانہ محلہ صوفیاں
ملازمت
۱۳
؍؍
؍؍
شہاب دین ولد متاب دین
تھہ غلام نبی ضلع گورداسپور
جموں
ملازمت
۱۴
؍؍
؍؍
شیخ نورالدین
ولد شیخ جان محمد
قصبہ نبت ضلع مظفر نگر
مالیر کوٹلہ
ملازمت ریاست کوٹلہ
۱۵
؍؍
؍؍
صالح محمد خاں
ولد عمر بخش خاں
مالیر کوٹلہ
ملازمت ریاست مالیر کوٹلہ
۱۶
؍؍
؍؍
عبدالحق خلف عبدالسمیع
لدھیانہ محلہ رنگریزاں
پیشہ نوکری
۱۷
؍؍
؍؍
محمد یوسف ولد کریم بخش
سنور محلہ تنبواں ریاست پٹیالہ
ملازمت مدرسی ریاست پٹیالہ

۱۸
؍؍
؍؍
محمد بخش ولد عبداللہ
لدھیانہ محلہ ہیڑیاں
کتب فروشی
۱۹
؍؍
؍؍
چانن شاہ ولد گلاب شاہ
اکبر پور ضلع مالیر کوٹلہ
کاشت
۲۰
؍؍
؍؍
میراں بخش ولد بہادر خاں
کہیرو ریاست پٹیالہ
تحصیل امر گڑھ
نمبردار
۲۱
؍؍
؍؍
علی محمد ولد احمد شاہ
؍؍
قضاء
۲۲
؍؍
؍؍
رام سنگھ ولد نندا
کوٹلہ مالیر
مختار کاری
۲۳
؍؍
؍؍
نبی بخش ولد رانجھہ
کبیرو ریاست پٹیالہ
تحصیل امرگڑھ
کاشت
۲۴
۱۹ رجب ۱۳۰۶ھ
۲۱ مارچ ۱۸۸۹ء
علی محمد ولد گلاب خاں
؍؍
کاشت
۲۵
؍؍
؍؍
مولوی فتح علی
ولد فضل الدین
موضع دہانانوالی
تحصیل سیالکوٹ
موضع خیری ریاست جموں جاگیر راجہ امرسنگھ
متوکل
۲۶
؍؍
؍؍
(منشی) روڑا ولد جیون
کپور تھلہ محلہ قصاباں
نقشہ نویسی جوڈیشنل عدالت مجسٹریٹ کپورتھلہ
۲۷
؍؍
؍؍
رحیم بخش ولد کریم بخش
سنور محلہ خوشابیاں ریاست پٹیالہ
ملازمت
۲۸
؍؍
؍؍
حشمت اللہ ولد فیض بخش
سنور۔ ریاست پٹیالہ محلہ ملانہ
ملازمت مدرس ریاست پٹیالہ
۲۹
؍؍
؍؍
محمد بخش ولد عبدالرحیم
سیالکوٹ خاص
دکانداری بزازی وغیرہ
۳۰
؍؍
؍؍
علی محمد ولد اللہ بخش
سنور محلہ مجاوراں
ریاست پٹیالہ
ملازمت زنبورچی ریاست پٹیالہ
۳۱
؍؍
؍؍
ابراہیم ولد منشی اللہ بخش
سنور ریاست پٹیالہ
محلہ تنبواں
ملازمت مدرس ریاست پٹیالہ
۳۲
؍؍
؍؍
محمد ابراہیم
ولد منشی کریم بخش
سنور۔ محلہ تنبواں
ریاست پٹیالہ
ملازمت پٹواری ریاست پٹیالہ
۳۳
۱۹ رجب ۱۳۰۶ھ
۲۱ مارچ ۱۸۸۹ء
ولی محمد ولد عبداللہ
پٹیالہ محلہ ڈیک بازار
متوکل مستعفی
۳۴
؍؍
؍؍
احمد حسن خلف محمد اکبر
ایضاً محلہ بارہ دری خورد
ملازمت ریاست پٹیالہ محرر کوٹھ کنچ
۳۵
؍؍
؍؍
خلیفہ محمد عیسیٰ
ولد میانجی فضل علی
سنور۔ ریاست پٹیالہ محلہ ملانہ
ایضاً محرر پلٹن۔ ریاست پٹیالہ
۳۶
؍؍
؍؍
جان محمد ولد رولدو
پٹیالہ محلہ بارہ دری خورد
ملازم ہذیل سپاہی پلٹن
۳۷
؍؍
؍؍
خدا بخش ولد درگاہی
پٹیالہ قریب دروازہ شیرانوالہ
باغبان
۳۸
؍؍
؍؍
مرزا سعادت بیگ
ولد مرزا رستم بیگ
سامانہ علاقہ پٹیالہ محلہ اندرکوٹ عرف امام گڑھ

۳۹
؍؍
؍؍
مرزا محمد یوسف بیگ
ولد مرزا رستم بیگ
؍؍
تجارت
۴۰
؍؍
؍؍
میرزا ابراہیم بیگ
ولد مرزا یوسف بیگ
؍؍
؍؍
۴۱
؍؍
؍؍
محمد حفیظ بیگ ولد منور بیگ
؍؍
؍؍
۴۲
۱۹ رجب ۱۳۰۶ھ
۲۱ مارچ ۱۸۸۹ء
اللہ دین ولد کریم بخش
بھیرہ ضلع شاہ پور
چھائونی شاہ پور
عرضی نویس
صدر شاہ پور
۴۳
؍؍
؍؍
عبدالکریم ولد محمد سلطان
سیالکوٹ
۔
مدرس بورڈ اسکول
۴۴
؍؍
؍؍
سید عبدالرزاق ولد علی محمد
کریام تھانہ راہوں ضلع جالندھر
کڑیانہ تھانہ پھلور ضلع جالندھر
متوکل
نمبر ۴۳ کا اندراج حضرت خلیفہ اوّل کے ہاتھ کا معلوم
ہوتا ہے۔
خاکسار ۔ مؤلف
۴۵
؍؍
؍؍
مسماۃ منان زوجہ علی بخش
جھنپٹ ضلع لدھیانہ
جھنپٹ
زمینداری
۴۶
؍؍
؍؍
فرزند حسین ولد علی نواز
ماچھی داڑ ضلع لدھیانہ
لدھیانہ
ملازمت
بوجہ کاغذ دریدہ ہونیکے تحریر مشتبہ ہے
۴۷
۲۰ رجب ۱۳۰۶ھ
۲۲ مارچ ۱۸۸۹ء
اللہ دین ولد جیوے خان
لدھیانہ محلہ رنگریزاں
لدھیانہ
ملازمت
۴۸
؍؍
؍؍
ماہیا ولد پیر بخش
غوث گڑھ ریاست پٹیالہ تعلقہ گہمانوں
غوث گڑھ
زمینداری
۴۹
؍؍
؍؍
قادر بخش ولدنبّا
رتن گڑھ تھانہ سانیوال
رتن گڑھ
زمینداری
۵۰
؍؍
؍؍
بیگا ولد سادو
گھڑیس پور تحصیل روپڑ ضلع انبالہ
گھڑیس پور
زمینداری
۵۱
؍؍
؍؍
امیرالدین ولد فضل الدین
جسووال ماچھیواڑہ
جسووال
خیاطی و زمینداری
۵۲
؍؍
؍؍
حافظ نور احمد ولد قادر بخش
لدھیانہ محلہ موچھ پورہ
لدھیانہ
تجارت
۵۳
۲۰ رجب ۱۳۰۶ھ
۲۲ مارچ ۱۸۸۹ء
ضیاء الدین
ولد قاضی غلام احمد
کوٹ قاضی محمد خاں تحصیل وزیر آباد ضلع گوجرانوالہ
کوٹ قاضی محمد خاں
معلم و امام مسجد
۵۴
؍؍
؍؍
محمد تقی ولد محمد یوسف
سنور۔ ریاست پٹیالہ
سنور۔ محلہ تنبواں
عمر۔ ۱۰ سال
۵۵
؍؍
؍؍
محمد مصطفی ولد محمد ابراہیم
؍؍
؍؍
۱۲ سالہ
۵۶
روز شنبہ
۲۱ رجب
۲۳ مارچ ۸۹ء
محمد خلیل ولد محمد سلطان
لدھیانہ محلہ اقبال گنج
برج لٹاں تحصیل لدھیانہ
پٹوار گری و میر محلہ اقبال گنج
۵۷
؍؍
؍؍
ظفر احمد ولد محمد ابراہیم
بوڈہانہ ضلع مظفرنگر
کپورتھلہ
اپیل نویسی محکمہ مجسٹریٹی کپورتھلہ
۵۸
؍؍
؍؍
محمد خاں ولد دلاور خاں
ریاست رامپور حال کپورتھلہ محلہ شیر گڑھ
کپورتھلہ
اہلمد فوجداری محکمہ اسسٹنٹ مجسٹریٹ کپورتھلہ
۵۹
؍؍
؍؍
عبدالرحمن ولد حبیب اللہ
سرادہ تحصیل ہاپوڑ ضلع میرٹھ
کپورتھلہ
اہلمد محلہ جرنیلی ریاست کپورتھلہ
۶۰
؍؍
؍؍
حاجی ابراہیم
چھائونی انبالہ صدر
تجارت قطع تعلقہ و ولی مدبراً
۶۱
روز ہفتہ
۲۳ مارچ ۸۹ء
اسمٰعیل ولد صدرالدین
موضع چمارو تھانہ راجپورہ
زمینداری
۶۲
؍؍
؍؍
عبدالکریم ولد امیر علی
ایضاً
ایضاً
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ جیسا کہ روایت نمبر ۹۸ میں بیان کیا جا چکا ہے پہلی بیعت بمقام لدھیانہ ہوئی تھی۔ جس میں مطابق روایات چالیس اشخاص نے یکے بعد دیگرے بیعت کی تھی۔ پہلے آٹھ نام جو اس رجسٹر سے ضائع ہو چکے ہیں۔ ان میں حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اوّلؓ کا نام مسلمہ طور پر اول نمبر پر تھا اور دوسرے نمبر پر میر عباس علی صاحب کا نام تھا۔ باقی ناموں کے متعلق قطعی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ مگر قاضی خوا جہ علی صاحب کے نمبر کے متعلق میر عنایت علی صاحب اور شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے خاکسار سے متفقہ طور پر بیان کیا ہے۔ کہ قاضی خوا جہ علی صاحب موصوف کا نمبر آٹھ تھا۔ اور نمبر چار پر محمد حسین صاحب خوشنویس کا نام تھا۔ جیسا کہ مندرجہ بالا فہرست کے اندراج نمبر۱۱ میں مذکور ہے۔ اور باقی ناموں کی ترتیب قیاساً درج کی گئی ہے۔ واللہ اعلم۔
نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس فہرست میں جو ایک ہندوکا نام درج ہے۔ اس سے تعجب نہیں کرنا چاہئے۔ کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام کا یہ قاعدہ تھا کہ اگر کوئی شخص عقیدت اور اخلاص سے بیعت کی استدعا کرتا تھا اور ساتھ ہی اپنے بعض عقائد کی نسبت مجبوری بھی ظاہر کرتا تھا کہ وہ انہیں فی الحال نہیں چھوڑ سکتا تو آپ اس کی بیعت قبول کر لیتے تھے جو گویا ایک گونہ محدود اور مشروط قسم کی بیعت ہوتی تھی۔ مگر بسااوقات ایسا شخص بعد میں جلدی ہی پوری طرح صاف ہو جایا کرتا تھا۔ پس یہ جو اس فہرست میں ہندو کا نام درج ہے۔ یہ اگر کوئی مخفی نو مسلم نہیں ہے تو ممکن ہے کہ کوئی ایسی ہی صورت ہو۔ چنانچہ نواب محمد علی خان صاحب نے بھی ابتدا میں اس عہد کے ساتھ بیعت کی تھی کہ وہ بدستور شیعہ عقیدہ پر قائم رہیں گے۔ مگر بیعت کے بعد جلد ہی شیعیت کا داغ دُھل گیا۔ اور سُنا ہے کہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے بھی جب بیعت کی تو اس کے کچھ عرصہ بعد تک نیچریّت کے دلدادہ رہے۔ مگر آخر مسیحی نور کے سامنے یہ تاریکی قائم نہ رہ سکی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان کے متعلق خود فرماتے ہیں۔ ؎
مدّتے درآتشِ نیچر فرو افتادہ بود
ایں کرامت بیں کہ از آتش بروں آمد سلیم
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس نوٹ کے لکھنے کے بعد مجھے مکرم میر عنایت علی صاحب سے معلوم ہوا ہے کہ یہ شخص مسمیٰ رام سنگھ جو پہلی بیعت میں شامل تھا وہ نو مسلم تھا اور اس کا اسلامی نام شیخ عبدالعزیز تھا۔ اس وقت وہ فوت ہو چکا ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ غالباً بیعت کے وقت وہ نیا نیا مسلمان ہوا ہو گا۔ اس لئے شناخت کے لئے سابقہ نام ہی لکھ دیا گیا۔ وَاللّٰہُ اَعْلَم۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ بیعت کنندگان کے رجسٹر سے جو مجھے مکرم میر محمد اسحاق صاحب کے ذریعہ دستیاب ہوا ہے یہ ظاہر نہیں ہوتا۔ کہ آیا بیعت کے وقت ہی اس رجسٹر میں فوراً اندراج کر لیا جاتا تھا۔ یا کہ بیعت کے بعد چند اسماء اکٹھے درج کر لئے جاتے تھے۔ مؤخر الذکر صورت میں اس بات کا امکان ہے کہ بوقت اندراج اصل ترتیب سے کسی قدر اختلاف ہو جاتا ہو۔ بلکہ بعض اندراجات سے شُبہ ہوتا ہے کہ بعض اوقات ایسا ہو جاتا تھا۔ کیونکہ بعض صورتوں میں زبانی روایات اور رجسٹر کے اندراج میں کافی اختلاف ہے۔ اور مولوی عبداللہ صاحب سنوری کے سامنے کا نوٹ بھی یہی ظاہر کرتا ہے۔ وَاللّٰہُ اَعْلم۔
{ 475} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار کے حقیقی ماموں ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ بعض لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بیعت کرنے کے بعد سوال کیا کرتے تھے۔ کہ حضور کسی وظیفہ وغیرہ کا ارشاد فرما ویں۔ اس کا جواب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اکثر یوں فرمایا کرتے تھے۔ کہ نماز سنوار کر پڑھا کریں۔ اور نماز میں اپنی زبان میں دعا کیا کریں۔ اور قرآن شریف بہت پڑھا کریں۔
نیز آپ وظائف کے متعلق اکثر فرمایا کرتے تھے۔ کہ استغفار کیا کریں۔ سورۃ فاتحہ پڑھا کریں۔ درود شریف پر مداومت کریں۔ اسی طرح لاحول اور سبحان اللہ پر مواظبت کریں۔ اور فرماتے تھے۔ کہ بس ہمارے وظائف تو یہی ہیں۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام منتر جنتر کی طرح وظائف کے قائل نہ تھے۔ بلکہ صرف دُعا اور ذکرِ الٰہی کے طریق پر بعض فقرات کی تلقین فرماتے تھے۔
 
Top