ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
ایک سوال تھا ’’الفضل‘‘۱۶؍جولائی ۱۹۴۹ئ: ’’یہ گھبراتے ہیں…‘‘ یہ ہے، اس طرح آگے چلتا ہے اور پھر آخر میں ہے: ’’ہم اس کے مذہب کو کھاجائیں گے۔‘‘
یہ سوال تھا کہ گویا کہ مسلمان فرقوں کو یہ کہا گیا ہے۔ ۱۶؍ جولائی ۱۹۴۹ء میں ایسا کوئی مضمون نہیں۔لیکن جیسا کہ میں نے وعدہ کیا تھا کہ آگے پیچھے دیکھیں گے، جہاں تک ممکن ہوا، ۲۵؍ جولائی ۱۹۴۹ء ۔ میں ایک مضمون ہے۔ ممکن ہے اس کی وجہ سے--- یعنی ’’۱۶‘‘ کی بجائے ۲۵؍ جولائی، ۱۹۴۹ئ۔ اگر اجازت ہو تو اس سوال کرنے پر میں شکریہ بھی ادا کردوں، کیونکہ بڑی اچھی چیز سامنے آئے گی، سب کے ۔ یہ اس کے اقتباس ہیں، ۲۵ جولائی والے کے:
’’اللہ کی طرف سے جب بھی دنیا میں کوئی آواز بلند کی جاتی ہے دنیا کے لوگ اس کی ضرور مخالفت کرتے ہیں۔ بغیر مخالفت کے خدائی تحریکیں دنیا میں کبھی جاری نہیں ہوئیں۔ خدائی تحریک جب بھی دنیا میں جاری کی جاتی ہے، اس کے متعلق بلاوجہ اور بلاسبب لوگوں میں بغض اور کینہ پیدا ہوجاتا ہے۔ اتنا بغض اور کینہ کہ اسے دیکھ کر حیرت آجاتی ہے ایک مسلمان کو…‘‘
اب وہ جو ہے سوال: ’’ایک مسلمان کو محمد رسول اللہﷺ سے جو محبت ہے اس کو الگ کرکے، اسے آپﷺ سے جو عقیدت ہے اسے بھلاکر، اگر صرف آپﷺ کی ذات بابرکات کو دیکھا جائے تو آپﷺ کی ذات انتہائی بے شر، انتہائی بے نقص اور دنیا کے لئے نہایت ایثار اور قربانی کرنے والی معلوم ہوتی ہے۔ آپﷺ اپنی 867ساری زندگی میںکسی ایک شخص کا بھی حق مارتے ہوئے نظر نہیں آتے۔ آپﷺ کسی جگہ دنگا اور فساد میںمشغول نظر نہیں آتے۔ لیکن قریباً پونے چودہ سو سال کا عرصہ ہوچکا، دشمن آپ کی مخالفت کرنے اور آپ کے متعلق بغض اور کینہ رکھنے سے باز نہیں آتا۔ جو شخص بھی اٹھتا ہے اور مذہب پر کچھ لکھنا چاہتاہے، وہ فوراً آپﷺ کی ذات پر حملہ کرنے کے لئے تیار ہوجاتا ہے۔ آخر اس کا سبب کیا ہے؟ ہر چیز کا کوئی نہ کوئی سبب ہوتا ہے۔ اس کا بھی یا تو کوئی جسمانی سبب ہوگا یا روحانی سبب ہوگا۔ رسول کریمﷺ کی مخالفت کا کوئی جسمانی سبب تو نظر نہیں آتا…‘‘
آگے جسمانی سبب کے اوپر کچھ نوٹ دیا ہوا ہے، اور وہ میں نے چھوڑدیا ہے۔ آگے لکھتے ہیں کہ: ’’اس کی کوئی روحانی وجہ ہونی چاہئے، اس کی کوئی روحانی وجہ ہے اور وہ صرف یہی ہے کہ رسول کریمﷺ کے مخالفین کے دل محسوس کرتے ہیں کہ اسلام ایک صداقت ہے، اگر اسے روکا نہ گیا تو یہ صداقت پھیل جائے گی اور انہیں مغلوب کرلے گی۔ یہی ایک چیز ہے۔ جس کی وجہ سے لوگوں کو محمد رسول اللہﷺ کی ذات سے سخت دشمنی ہے۔ اس مخالفت کے باقی جتنے بھی وجوہ بیان کئے جاتے ہیں وہ آپ سے زیادہ شان کے ساتھ دوسرے نبیوں میں موجود ہیں۔ اس لئے یہ بات یقینی ہے کہ اس دشمنی کی وجہ لڑائی اور جھگڑا نہیں بلکہ ایک روحانی چیز ہے جس کی وجہ سے یہ دشمنی پیدا ہوگئی ہے اور وہ یہی ہے کہ اسلام ایک حقیقت رکھنے والا مذہب ہے، اسلام غالب آجانے والا مذہب ہے، اسلام دوسرے مذاہب کو کھاجانے والامذہب ہے۔ اسے دیکھ کر مخالفین کے کان فوراً کھڑے ہوجاتے ہیں اور وہ مقابلہ کے لئے تیار ہوجاتے ہیں۔‘‘
868’’تو کھاجانے والا‘‘اپنا نہیں کہا، بلکہ اسلام کے متعلق ساری بات ہورہی ہے اور فرما یہ رہے ہیں کہ ’’اسلام دوسرے مذاہب کو کھاجانے والا مذہب ہے۔‘‘ اور سوال یہ پوچھا گیا کہ گویا کہ جماعت احمدیہ کی طرف سے یہ کہا ہے کہ ’’ہم تمہیں کھاجائیں گے۔‘‘ آگے اور ایک اقتباس جو اس کو Complete (مکمل) کرتاہے: ’’یہ لوگ چونکہ محمد رسول اللہﷺ کا شکار ہیں۔ یہ لوگ چونکہ محمد رسول اللہﷺ کا شکار ہیں، اس لئے وہ آپﷺ کے مخالف ہوگئے ہیں اور یہی ایک وجہ ہے جس کی وجہ سے لوگ آپﷺ کے دشمن ہیں اور اگر یہی وجہ ہے تو یہ بات ہمارے لئے غم کا موجب نہیں ہونی چاہئے، بلکہ خوشی کا موجب ہونی چاہئے۔ لوگ گھبراتے ہیں کہ مخالفت کیوں کی جاتی ہے۔ لوگ جھنجھلااٹھتے ہیں کہ ان کی عداوت کیوں کی جاتی ہے۔ لوگ چڑتے ہیں کہ انہیں دکھ کیوں دیا جاتا ہے۔ لیکن اگر گالیاں دینے اور دکھ دینے کی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ ہمارا (یعنی اسلام کا) شکار ہیں تو پھر ہمیں گھبرانانہیں چاہئے اور نہ کسی قسم کا فکر کرنا چاہئے، بلکہ ہمیں خوش ہونا چاہئے کہ دشمن یہ محسوس کرتا ہے (دشمن اسلام)کہ اگر ہمیں کوئی نئی حرکت پیدا ہوئی تو اس کے مذہب کو کھاجائیں گے۔‘‘
تو سارا یہ بیان جو ہے نبیﷺ کے متعلق ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: مرزا صاحب! ۱۹۴۹ء میں کیوں؟ کوئی عیسائی مشنریوں نے کوئی انکوائری شروع کی تھی، اسلام کے خلاف جب انہوں نے یہ بات کہی؟
مرزا ناصر احمد: ۱۹۴۹ء میں؟
جناب یحییٰ بختیار: ہاں جی۔
مرزا ناصر احمد: چودہ سو سال سے آج کے دن تک۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، نہیں…
869مرزا ناصر احمد: اس وقت تک وہ تو تحریک جاری ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: اس مضمون کا ، جو وہ کہہ رہے ہیں ’’دشمن‘‘ کہہ رہے ہیں، میں یہ آپ سے پوچھ رہا ہوں کہ ۱۹۴۹ء میں کون سا حادثہ تھا جو انہوں نے کہا؟ ’’دشمن‘‘ کون تھے؟
مرزا ناصر احمد: نبی اکرمﷺ کے دشمن۔ اتنی وضاحت سے یہ اس میں الفاظ آئے ہوئے ہیں۔ اس میں تو کوئی ابہام باقی نہیں رہا۔
جناب یحییٰ بختیار: وہ کچھ Confusion (ابہام ) ہے، کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ: ’’میں فنا فی الرسول ہوں۔ میں محمد ہوں۔‘‘
مرزا ناصر احمد: نہیں، نہیں، وہ تو بالکل…
جناب یحییٰ بختیار: ’’تو ہم دشمن سے یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ…‘‘اپنی طرف سے ’’محمد‘‘ کہہ رہے ہیں۔
مرزا ناصر احمد: میں یہ کہتا ہوں کہ اپنی طرف سے نہیں کہہ رہے اور نہ کہنے والے اپنی طرف سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ تو خلیفہ ثانی ہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: کون اسلام کے دشمن تھے؟ کون آنحضرتﷺ پر حملہ کررہے تھے، جن کی طرف یہ اشارہ ہے؟ آپ کچھ کہہ سکتے ہیں؟
مرزا ناصر احمد: عیسائی۔
جناب یحییٰ بختیار: عیسائی کہاں کررہے تھے؟
مرزا ناصر احمد: ہاں۔
جناب یحییٰ بختیار: کوئی Instance (مثال) بتادیجئے آپ کہ کسی عیسائی نے کوئی مضمون لکھا، کوئی تقریر کی، پاکستان میں، دنیا میں، جس کی طرف اشارہ ہو؟
مرزا ناصر احمد: آپ مجھے دو گھنٹہ پڑھنے کی اجازت دیں تو میں ساری گالیاں سنادوں گا ۔ جو عیسائیوں نے نبی اکرمﷺ کو دی ہیں۱؎۔
870جناب یحییٰ بختیار: میرا سوال ہے ناں، مرزا صاحب! کہ ۱۹۴۹ء میں مرزا صاحب نے یہ خطبہ دیا اور کہتا ہے کہ ’’دشمن گھبراتے ہیں۔ دشمن ہمارا شکار ہے۔‘‘ وہ ’’دشمن ‘‘ کون تھے؟ کیا ضرورت تھی اس کی کہ انہوں نے خطبے میں ذکر کیا؟ کیونکہ مرزا صاحب سوچ کر بات کرتے تھے۔ تو خاص پرابلم ہوگا، کوئی ایشو ہوگا۔ میں وہ پوچھنا چاہتا ہوں۔
مرزا ناصر احمد: حضرت خلیفہ ثانی نے عیسائیوں کے خلاف ساری دنیا میں ایک مہم جاری کی ہوئی تھی اور جس وقت حضرت خلیفہ ثانی یا کوئی اور خلیفہ جماعت احمدیہ کا --- ہم ویسے ہی امام جماعت احمدیہ کہہ دیتے ہیں، لیکن آپ کہتے ہیں ’’نہیں،آپ اپنا ہی وہ لیا کریں Designation (لقب)‘‘
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، نہیں، میں نے صرف ایک سوال پوچھا ہے آپ سے…
مرزا ناصر احمد: نہیں، نہیں، میں بتاتاہوں…
جناب یحییٰ بختیار: کہ کوئی خاص Incident (واقعہ) بتاسکتے ہیں، کوئی Statement (بیان) عیسائیوں کا، کوئی تقریر، کوئی تحریر، اس زمانے میں، جس کے جواب میں کہہ رہے ہیں کہ…
مرزا ناصر احمد: ہر وقت وہ ہے۔ یعنی یہ کہ یہ ۲۵؍ جولائی کو کوئی واقعہ ہوا؟
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، نہیں، دو مہینے پہلے، دو دن پہلے، دو ہفتے پہلے۔
مرزا ناصر احمد: ساری صدی میں ہوتا رہا۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، صدی کی بات نہیں
مرزا ناصر احمد: وہ جو پہلی صدی میں باتیں ہوئی ہیں، جواب نہیں دینا چاہئے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ۱؎ حد ہوگئی۔ کیا کہا؟ قادیانی توجہ فرمائیں؟ مرزا قادیانی یا کسی قادیانی کو کوئی گالی دے تو وہ گالی خوشی سے کوئی قادیانی نقل نہیں کرے گا، لیکن قادیانیوں کو دیکھیں کہ بلاتکلف ان کا سربراہ کہہ رہا ہے کہ ’’عیسائیوں نے جو آنحضرتﷺ کو گالیاں دیں وہ ساری گالیاں سنادوں گا۔‘‘ مرزا ناصر کو یہ سبق اپنے دادا ملعون قادیان مرزا قادیانی سے ملا ہے۔ مرزا قادیانی نے (کتاب البریہ ص۹۴تا۱۱۸، خزائن ج۱۳ص۱۲۰تا۱۴۶) ۲۶صفحات پرمسلسل آنحضرتﷺ کے بارہ میں صریح بیہودہ اور کمینہ گالیاں جو عیسائیوں نے دیں وہ مرزا نے جمع کردی ہیں۔ (معاذ اللہ ثم معاذ اللہ ) یہ ہے قادیانی کفر کی اندرونی کیفیت۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جناب یحییٰ بختیار: صدی کی بات نہیں ہے۔
Mr. Chairman: The question of Attorney- General is. (جناب چیئرمین: اٹارنی جنرل صاحب کا سوال ہے)
جناب یحییٰ بختیار: میں یہ کہتا ہوں کہ کوئی Incident (واقعہ) بتاسکتے ہیں؟
871Mr. Chairman: The questin of the Attorney- General is. (جناب چیئرمین: اٹارنی جنرل صاحب کا سوال ہے)
جناب یحییٰ بختیار: یہ جنرل وہ ہورہی ہے…
Mr. Chairman: Just a minute. The question of the Attorney- General is: the immediate cause for this, for delivery of this. The witness is requested to confine himself...
(جناب چیئر مین: صرف ایک منٹ۔اٹارنی جنرل کا سوال ہے کہ یہ خطبہ دینے کی فوری وجہ یا سبب کیا تھا۔ گواہ سے گزارش ہے کہ وہ اپنے (جواب کو) محدود رکھے…)
جناب یحییٰ بختیار: آپ کوئی Incident (واقعہ) بتاسکتے ہیں…
Mr. Chairman: .... to this question only.
(جناب چیئرمین: صرف اس سوال تک )
جناب یحییٰ بختیار: جس کی وجہ سے انہوں نے یہ کہا؟
Mr. Chairman: ہاںNot a general reply but regarding this specific question.
(جناب چیئرمین: جواب عام قسم کا نہ ہو، بلکہ خاص طور پر اس سوال کا جواب ہو)
مرزا ناصر احمد: وہ جو ہے ناں اس کا ، وہ اسی میں وہ بھی موجود ہے، لیکن قریباً پونے چودہ سو سال کا عرصہ ہوچکا دشمن آپa کی مخالفت کرنے اور آپ کے متعلق بغض اور کینہ رکھنے سے باز نہیں آتا، یہاں جو آپ کا سوال ہے، اس کا جواب یہ فقرہ ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: اس جگہ کوئی نہیں!
مرزا ناصر احمد: ہزاروں ہیں۔ لیکن میں اس وقت نہیں بتاسکتا۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، اس ، اس واقعہ کے؟
مرزا ناصر احمد: میں اس وقت نہیں بتاسکتا۱؎۔
جناب یحییٰ بختیار: ٹھیک ہے۔
مرزا ناصر احمد: میں کل صبح بتاؤں گا آپ کو، اگر یہی کرنا ہے۔ یعنی ایک مضمون بالکل صاف ہے…
872جناب یحییٰ بختیار: مرزا صاحب! مضمون بالکل صاف آپ کو معلوم ہورہا ہے۔ مگر میری یہ ڈیوٹی ہے کہ… مجھے صاف نہیں معلوم ہورہا ہے…
مرزا ناصر احمد: جی، ٹھیک ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: کیونکہ ابھی جو ہماری Arguments (دلائل ) ہورہی ہیں، یا جو سوالات پوچھ کے جواب پوچھ رہا ہوں، اس کے مطابق جو میرا Conception (تصور) ہے اسلام کا، وہ مختلف ہوگیا۔ جو میرا Conception (تصور) تھا نبی کا، وہ مختلف ہوگیا۔ تو اس لئے میں پوچھ رہا ہوں آپ ’’دشمن‘‘ کس کو سمجھتے ہیں؟…
مرزا ناصر احمد: اس Context (سیاق وسباق) میں…
جناب یحییٰ بختیار: آپ نے کہا ’’عیسائی‘‘ تو میں نے کہا ’’کوئی عیسائیوں…‘‘
مرزا ناصر احمد: غیر مسلم، اصل میں حملہ آور یہ تھا ہندو اور آریہ خصوصاً ان میں سے اور عیسائی اور اس وقت دہریہ بھی بیچ میں اس حملے میں شامل ہوگئے۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، وہ آپ درست فرمارہے ہیں، مرزا صاحب! ۱۹۴۹ء میں پاکستان بن چکا تھا، نہ کسی ہندو کی ہمت تھی، نہ کسی عیسائی کی کہ آنحضرتﷺ کی، پاکستان میں آپﷺ کی شان میں کسی قسم کی گستاخی کرتا…
مرزا ناصر احمد: یہ یہ پرابلم ہے آپ کا؟
جناب یحییٰ بختیار: تو اس واسطے میں…
مرزا ناصر احمد: ہاں، ہاں، ہاں، نہیں، اس کا جواب یہ ہے کہ پاکستان بن چکنے کے بعد بھی جو غیر مسلموں کے ساتھ ہمارا جہاد تھا، وہ اسی طرح جاری تھا جس طرح پاکستان بننے سے پہلے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ۱؎ چاروں شانے چت۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جناب یحییٰ بختیار: کہ دشمنوں کو کھاجائیں گے؟
مرزا ناصر احمد: اسلام کھاجائے گا۔
جناب یحییٰ بختیار: یعنی ہم ہندوؤں کو کھاجائیں گے؟
873مرزا ناصر احمد: اسلام… اسلام اپنی روحانی برتری سے کھاجائے گا۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ جو فقیروں کا ایک گروہ ہے۔ جو انسان کا گوشت کھاتا ہے، اس طرح کھاجائیں گے۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، نہیں، وہ میں نہیں کہہ رہا۔
مرزا ناصر احمد: جی۔
جناب یحییٰ بختیار: اچھا جی۔ اب اور کوئی جوابات ہیں؟
مرزا ناصر احمد: ہاں، ہاں، جوابات بہت ہیں۔ (Pause)
جناب یحییٰ بختیار: مرزا صاحب! یہ جو ۱۹۴۹ء کا خطبہ ہے اس کی ایک کاپی یہاں فائل کرادیں گے جی؟
مرزا ناصر احمد: میں دیکھتا ہوں، اگر Spare (فالتو) ہوگی تو ضرور۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، ہاں، بعد میں کرادیں جی۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، ہاں۔ ایک سوال تھا ۱۸۵۷ء کے غدر کے متعلق۔ تو وہ اس میں جو نوٹ ہم نے کہا ہے… اس میں یہ تو صرف لفظ نوٹ ہوسکتے ہیں: ’’چوروں اور قزاقوں کی طرح غدر کرنے والوں نے غدر کیا۔‘‘
تو اگر آپ پھر آپ … سوال ہو یہاں تو دہرادیں۔ میرے پاس جواب ویسے ہے۔ یہ میں پوچھ اس لئے رہا ہوں کہ جو حوالہ دیا گیا تھا اس میں ’’چوروں اور قزاقوں کی طرح‘‘ کے الفاظ نہیں ہیں۔ تو ویسے ، ویسے میںجواب دے دیتا ہوں۔ (اپنے وفد کے ایک رکن سے) مجھے دے دو۔
جناب یحییٰ بختیار: مرزا صاحب! آپ کے پاس کیا ہے؟
874مرزا ناصر احمد: یہاں انہوں نے جو لکھا ہے ’’چوروں اور قزاقوں…‘‘
جناب یحییٰ بختیار: ’’…اور حرامیوں…‘‘
مرزا ناصر احمد: ’’‘‘…قزاقوں کی طرح، حرامیوں کی طرح۔‘‘ (Pause)
غدر یا later on (بعد ازاں) تحریک آزادی کے نام سے ایک واقعہ ۱۸۵۸ء میں ہوا، ۱۸۵۷ء میں ہوا۔ یہ واقعہ اس سال سے کہیں پہلے کا ہے جس سال جماعت احمدیہ کی بنیاد رکھی گئی ، اس کے متعلق اس زمانہ کے لوگوں نے جو کچھ لکھا ہے، وہ ہمارے سامنے ہو تب ہم صحیح نیتجے پر پہنچ سکتے ہیں۔ چنانچہ سنئے: سید نذیر حسین صاحب محدث دہلوی فرماتے ہیں رسالہ ’’اشاعت السنۃ‘‘ جلد:۶،نمبر:۷، ۲۸۸ صفحے پر اہل حدیث عالم مولوی محمد حسین بٹالوی نے اپنے اس میں لکھا ہے--- کہ : ’’مولانا سید نذیر حسین صاحب محدث دہلوی نے اصل معنی جہاد کے لحاظ سے --- اصل معنی جہاد کے لحاظ سے بغاوتِ ۱۸۵۷ء کو شرعی جہاد نہیں سمجھا (بلکہ اس کو کیا، سمجھا)بلکہ اس کو بے ایمانی، عہد شکنی، فساد، عناد خیال کرکے اس میں شمولیت اور اس کی معاونت کو معصیت ---گناہ قرار دیا۔‘‘
یہ مولانا سید نذیر حسین محدث دہلوی۔
خواجہ حسن نظامی صاحب معروف ایک ہستی ہیں، وہ فرماتے ہیں: ’’یہ اقرار کرنا قرین انصاف ہے کہ ہندوستانی فوج والوں اور دیسی باشندوں نے بھی غدر کے شروع میں سفاکی اور بے رحمی کو حد سے بڑھا دیا تھا اور ان کے ستم ایسے ہولناک تھے کہ ہر قسم کی سزا ان کے لئے جائز کہی جاسکتی ہے۔ انہوں نے بے کس عورتوں کو قتل کیا۔ انہوں نے حاملہ عورتوں کو ذبح کرنے سے دریغ نہ کیا۔ انہوں نے دودھ پیتے بچوں کو اچھالا اور سنگینوں کی نوکوں پر روک کر بے زبان معصومو875ں کو چھید ڈالا۔ وہ حاملہ عورتوں کے پیٹ میں تلواریں گھونپ دیتے تھے۔ غرض کوئی ظلم وستم ایسا نہ تھا جو ان کے ہاتھ سے انگریزوں اور ان کے بیوی بچوں پر نہ ٹوٹا ہو۔ ان کے شرمناک افعال نے تمام ہندوستان کو ہمیشہ کے لئے رحم وانصاف کی نظروں میں ذلیل کردیا۔ میرا سر شرم وندامت سے (یہ حسن نظامی صاحب ہیں) میرا سر شرم وندامت سے اونچا نہیں ہوتا جب میں اپنی قوم کی اس دردناک سفاکی کا حال پڑھتا ہوں جو اس نے دہلی شہر کے اندر ۱۱؍مئی ۱۸۵۷ء اور اس کے بعد کے زمانہ میں رو ا رکھی۔‘‘ (دہلی کی جان کنی ص۲۳، از خواجہ حسن نظامی)
انہوں نے خود لکھا ہے یہ۔
بہادر شاہ ظفر۔ بہادر شاہ ظفر نے ۹؍مارچ ۱۸۵۸ء کو دیوان خاص قلعہ دہلی میں عدالت کے سامنے جو تحریری بیان دیا اس میں لکھا کہ: ’’میں نے دو پالکیاں روانہ کیں اور حکم دے دیا کہ توپیں بھی بھیج دی جائیں۔ اس کے بعد میں نے سنا پالکیاں پہنچنے بھی نہ پائی تھیں کہ مسٹر فیزئیر، قلعہ دار اور لیڈیاں سب کے سب قتل کردیئے گئے۔ (اس سے) زیادہ دیر نہیںہوئی تھی کہ باغی سپاہ دیوان خاص میں گُھس آئی، عبادت خانہ میں بھی ہر طرف پھیل گئی اور مجھے چاروں طرف سے گھیر کر پہرہ متعین کردیا۔ یہ نمک حرام- یہ نمک حرام- کئی انگریز مرد اور عورت کو گرفتار کرکے لائے۔ ان کو انہوں نے میگزین میں پکڑا تھا اور ان کے قتل کا قصد کرنے لگے۔ آخری وقت اگرچہ میں مفسد بلوائیوں کو حتی المقدور باز رکھنے کی کوشش کرتا رہا، مگر انہوں نے میری طرف مطلق التفات نہیں کیا اور ان بے چاروں کو قتل کرنے باہر لے گئے۔ احکام کی نسبت معاملہ کی اصل حالت یہ ہے کہ جس روز سپاہ آئی، انگریزی افسروں کو قتل کیا اور مجھے قید کرلیا، میں ان کے اختیار میں رہا، میرا اپنا کوئی اختیار نہیں تھا۔ ‘‘
876یہ لکھنے والے ہیں ’’بہادر شاہ کا مقدمہ‘‘ از خواجہ حسن نظامی اور اس کے اوپر خواجہ حسن نظامی صاحب فرماتے ہیں کہ بہادر شاہ بادشاہ کے اپنے دستخط ہیں۔
سرسید احمد خاں: ’’غور کرنا چاہئے کہ اس زمانہ میں جن لوگوں نے جہاد کا جھنڈا بلند کیا، ایسے خراب اور بَد رویہ اور بد اطوار آدمی تھے کہ بجز شراب خوری کے اور تماش بینی اور ناچ اور رنگ دیکھنے کے کچھ وظیفہ ان کا نہ تھا۔ بھلا یہ کیوں کر پیشوا اور مقتدا جہاد… کے گنے جاسکتے تھے؟ اس ہنگامے میں کوئی بات بھی مذہب کے مطابق نہیں ہوئی… سب جانتے ہیں کہ سرکاری خزانہ اور اسباب ، جو امانت تھا، اس میں خیانت کرنا، ملازمین کو نمک حرامی کرنامذہب کی رو سے درست نہ تھی۔ صریح ظاہر ہے کہ بے گناہوں کا قتل، علی الخصوص عورتوں اور بچوں اور بڈھوں کا، مذہب کے بموجب گناہ عظیم تھا۔ پھر کیوں کر یہ ہنگامہ غدر جہاد ہوسکتا تھا؟ ہاں، البتہ چند بدذاتوں نے دنیا کی طمع، اپنی منفعت اور اپنے خیالات کو پورا کرنے اور جاہلوں کے بہکانے کو ، اپنے ساتھ جمعیت کو جمع کرنے کو جہاد کا نام دے لیا۔ پھر یہ بات بھی مفسدوں کی حرام زدگیوں میں سے ایک حرام زدگی تھی، نہ واقعہ میں جہاد۔ مگر جب بریلی کی فوج دہلی پہنچی اور دوبارہ فتویٰ ہوا، جو مشہور ہوا اور جس میں جہاد کرنا واجب لکھا ہے، بلاشبہ اصلی نہیں۔ چھاپنے والے اس فتویٰ نے جو ایک مفسد اور نہایت قدیمی بدذات آدمی تھا…جاہلوں کے بہکانے اور ورغلانے کو لوگوں کے نام لکھ کر اور چھاپ کر اس کو رونق دی تھی، بلکہ ایک آدھ مہر ایسے شخص کی چھاپ دی تھی، جو قبل غدر مرچکا تھا۔‘‘ یہ ’’اسباب بغاوت ہند ‘‘ صفحہ ایک ہی ہے۔
877مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی لکھتے ہیں: ’’عہد وایمان والوں سے لڑنا ہرگز شرعی جہاد…ملکی ہو خواہ مذہبی… نہیں ہوسکتا… عہد وایمان والوں سے لڑنا ہرگز شرعی جہاد نہیں ہوسکتا، بلکہ عناد وفساد کہلاتا ہے۔ مفسدہ ۱۸۵۷ء میں جو مسلمان شریک ہوئے تھے وہ سخت گنہگار ور بحکم قرآن وحدیث وہ مفسد وباغی کردار تھے… بدرکردار تھے… اکثر ان میں عوام کالانعام تھے۔ بعض جو خواص وعلماء کہلاتے تھے… وہ بھی اصل علومِ دین قرآن وحدیث سے بے بہرہ تھے یا نافہم وبے سمجھ۔‘‘ (رسالہ اشاعت السنۃج۹،نمبر۱۰ص۳۰۹-۳۱۰،۱۸۸۶ئ)
پھر نواب صدیق حسن خاں صاحب جو فرماتے ہیں وہ بھی سنئے۔ نواب صدیق حسن خاں صاحب نے کتاب ’’ہدایت السائل‘‘ اور دوسری متعدد کتابوں میں یہ لکھا ہے: ’’ہندوستان کے بلاد دارالسلام ہیں، نہ دار الحرب۔ برٹش گورنمنٹ سے ہندوستان کے تمام رؤسائ، رعایا کا ہمیشہ کے لئے معاہدہ دوستی ہوچکا ہے۔ لہٰذا ہندوستان کے کسی شخص کا برٹش گورنمنٹ سے جہاد کرنا اور اس معاہدہ کو توڑنا جائز نہیں ہے۔ جو غدر ۱۸۵۷ء میں برٹش گورنمنٹ سے مفسدوں نے سلوک کیا وہ فساد تھا، نہ جہاد۔‘‘
پھر شمس العلماء مولانا ذکاء اللہ خان صاحب فرماتے ہیں: ’’جب تک دہلی میں بخت خان نہیں آیا جہاد کے فتویٰ کا چرچہ شہر میں بہت کم تھا۔ یہ کام لچے شہدے مسلمانوں کا تھا کہ وہ ’’جہاد جہاد ‘‘پکارتے پھرتے تھے۔ مگر جب بخت خان ، جس کا نام اہل شہر نے کم بخت878 خان رکھا… دہلی میں آیا تو اُس نے یہ فتویٰ لکھایا۔ اس نے جامعہ مسجد میں مولویوں کو جمع کرکے جہاد کے فتویٰ پر دستخط ومہریں ان کی کرالیں اور مفتی صدرالدین نے بھی ان کے جبر سے… اپنی جعلی مہر کردی۔ لیکن مولوی محبوب علی وخواجہ ضیاء الدین نے فتویٰ پر مہریں نہیں دیں اور بے باکانہ کہہ دیا کہ شرائط جہاد موافقت مذاہب اسلام موجود نہیں۔ جن مولویوں نے فتویٰ پر مہریں کی تھیں وہ کبھی پہاڑی پر انگریزوں سے لڑنے نہیں گئے۔ مولوی نذیر حسین، جو وہابیوں کے مقتدا اور پیشوا تھے، ان کے گھر میں تو ایک میم چھپی بیٹھی تھی۔‘‘
یہ ’’تاریخ عروجِ عہد سلطنت انگلشتہ در ہند‘‘ حصہ سوئم ۶۷۵ اور ۶۷۶۔ یہ مولانا خان بہادر شمس العلماء محمد ذکاء اللہ صاحب کی تحریر ہے۔ اس … پس … ہاں، ایک اور رہ گیا۔
شیخ عبدالقادر صاحب، بڑی معروف ہستی ہیں، شیخ عبدالقادر صاحب، بی۔اے بیرسٹر ایٹ لائ، سیکرٹری شرافت کمیٹی، سیالکوٹ،اپنے رسالہ ’’ترکوں کے اپنوں پر فرضی مظالم‘‘ میں تسلیم کرتے ہیں کہ: ’’۱۸۵۷ء میںہندوستان میں غدر مچا۔اس غدر کو فرو کرنے کے لئے انگریزوں کی افواج کو مصر سے گزر کر ہندوستان پہنچنے کی اجازت۔ حضور خلیفہ المسلمین سلطان المعظم نے ہی دی تھی۔ جنوبی افریقہ میں جنگ بوئرز ہوئی۔ ترکوں نے انگلستان کا ساتھ دیا۔ ہزارہا ترکوں نے انگریزی جھنڈے کے نیچے لڑنے مرنے کے لئے اپنی خدمات پیش کردیں۔ مساجد میں انگریزوں کی فتح اور نصرت کے لئے دعائیں کی گئیں۔‘‘
879اس پس منظر میں اس تحریر پر اعتراض کوئی وزن نہیں رکھتا، جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: ’’۱۸۵۷ء میں مسلمانوں کی حالت یہ ہوگئی تھی کہ بجز بدچلنی اور فسق وفجور اسلام کے رئیسوں کو اور کچھ یاد نہ تھا، جس کا اثر عوام پر بھی بہت پڑ گیا تھا۔ انہی ایام میں انہوںنے ایک ناجائز اور ناگوار طریقہ سے سرکار انگریزی سے باوجود نمک خوار اور رعیت ہونے کے مقابلہ کیا، حالانکہ ایسا مقابلہ اور ایسا جہاد ان کے لئے شرعاً جائز نہیں تھا۔‘‘
جو میں نے پہلے حوالے پڑھے ہیں، اس کے مقابلہ میں یہ بہت ہی نرم حوالہ ہے، اور کوئی اس کے اوپر اعتراض نہیں(اپنے وفد کے ایک رکن سے) اور بھی ہیں؟
جناب یحییٰ بختیار: آپ کے پاس اور ہیں ابھی؟
مرزا ناصر احمد: جی، جی۔
جناب یحییٰ بختیار: میں بعد میں سوال کروں گا آپ سے۔
مرزا ناصر احمد: جی، جی۔
جناب یحییٰ بختیار: آپ صرف وہ پڑھ لیجئے۔
مرزا ناصر احمد: جی۔
ایک یہ ایک سوال تھا ’’تبلیغ رسالت‘‘ جلد نہم۔ وہ ، وہ ’’جہنمیوں ‘‘ کے متعلق۔ وہ صرف ایک ہی سوال ہے، ایک ہی عبارت کے متعلق۔ وہ دوبارہ آگیا تھا۔ پہلے میں اس کا جواب دے چکا ہوں، اس کی ضرورت نہیں ہے۔
ایک سوال ہے’’سیرت الابدال‘‘ ایک کتاب ہے، اس کے صفحہ:۱۵۳ پر …۹۳ پر… Hundred and ninty three (۱۹۳) پر … اس صفحے پر کوئی عبارت کے متعلق ایک اعتراض ہے۔ تو اگر وہ عبارت … وہ نوٹ نہیں ہم کرسکے… وہ عبارت اگر پڑھ دی جائے، صفحہ:۱۹۳ کی، تو زیادہ اچھا ہے۔ ورنہ میں اس کے بغیر جواب دے دیتا ہوں۔
880جناب یحییٰ بختیار: یہ کونسی کتاب ہے؟
مرزا ناصر احمد: (سیرت الابدال ص۱۹۳) پر کوئی عبارت ہے، جس کے متعلق سوال کیا گیا تھا۔
جناب یحییٰ بختیار: آپ اگلے سوال کا جواب دے دیں۔
مرزا ناصر احمد: نہیں، میں اسی کا جواب دے دیتا ہوں۔ پھر اور کوئی ضرورت پڑے تو آپ سپلیمنٹری میں کردیں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ ’’سیرت الابدال‘‘ جو کتاب ہے اس کے صرف سولہ صفحے ہیں تو ان سولہ صفحوں میں سے وہ کون سا ص۱۹۳ تلاش کیا گیا ہے جس پر اعتراض کیا گیا ہے؟ کتاب کے سارے صفحے ہی سولہ ہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، وہ کسی دوسرے Volume (جلد)کا ہوگا۔
----------
[At this stage Mr. Chairman vacated the Chair which was occupied by Madam Deputy Speaker (Dr. Mrs. Ashraf Khatoon Abbasi)]
(اس موقع پر جناب چیئرمین نے کرسی صدارت چھوڑ دی جسے مسز اشرف خاتون عباسی نے سنبھال لیا)
----------
مرزا ناصر احمد: کسی Volume (جلد) میں بھی… ہم نے وہ چیک کیا۔ جو اکٹھے چھپی ہیں کئی کتابیں اکٹھی، اس Volume (جلد) میں بھی ۱۴۸ پر ختم ہوجاتی ہے، ایک سو چوالیس کے اوپر یہ ختم ہوجاتی ہے یہ کتاب۔
جناب یحییٰ بختیار: یہ حوالہ ہے ہی نہیں؟
مرزا ناصر احمد: یہ صفحہ ہی کوئی نہیں۔ میں اب آتاہوں، میں جواب دیتا ہوں اسے۔ ۱۹۳ صفحہ ہی موجود نہیںکسی ایڈیشن میں بھی۔ یعنی جہاں اکٹھی کتابیں چھپی ہیں، یہ ہے۔ اکٹھی جو چھپی ہیں۔ ہمارے ’’روحانی خزائن‘‘ کے نام سے، اس میں ۱۲۹ سے یہ شروع ہوئی ہے کتاب، اور یہ881 یہاں ختم ہوگئی ۱۴۴ پر ۔ یہ وہ میں نے … یہ جلد ۲۰ ، اس میں بھی نہیں ہے۔ اچھا! رہے وہ ۱۶ صفحے جو کتاب میں ہیں تو اس میں وہ حوالہ نہیں ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں ہے بالکل؟
مرزا ناصر احمد: نہیں ہے۱؎۔
جناب یحییٰ بختیار: ٹھیک ہے، ہم دیکھ لیں گے۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، وہ دیکھ لیں۔ (Pause)
ایک سوال تھا قاضی محمد اکمل صاحب کی ایک نظم کے ایک شعر پر…
جناب یحییٰ بختیار: یہ سوال ختم ہوگیا ہے۔
مرزا ناصر احمد: وہ پہلا جو ہے ’’دافع البلائ‘‘ والا، وہ ختم ہوگیا؟
جناب یحییٰ بختیار: کونسا؟ نہیں جی، یہ اس پر آپ نے کہا کہ ’’نہیں، یہ بات کہی تھی کہ وہ … ان کو جماعت سے نکال دیتے۔‘‘ پھر آپ کے سامنے پڑھ کر سنایا گیا، یہ تو ختم ہوگیا تھا، اس کے بعد تو کوئی سوال ہی نہیں تھا۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، اس میں کچھ حوالے اور ملے ہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: اچھا، آپ اس کو آگے Elaborate (واضح ) کرتے ہیں؟
مرزا ناصر احمد: ہاں، ہاں، ہاں نہیں، Elaborate (واضح)
جناب یحییٰ بختیار: ہاں ، کرلیجئے۔
مرزا ناصر احمد: Elaborate (واضح )یہ کررہے ہیں کہ جس وقت … یہ ایک تو جو نظم ہے، اس میں یہ شعر بھی موجود ہے:
’’غلام احمد مختار ہوکر
یہ رتبہ تو نے پایا ہے جہاں میں‘‘
882نبی اکرمﷺ کا غلام ہوکے ، جو بھی آپ کا مقام ہے وہ ہے۔
اسی نظم میں وہ ہے یہ شعر:
’’محمد پھر اتر آئے ہیں ہم میں
اور آگے سے ہیں بڑھ کر اپنی شان میں‘‘
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ۱؎ چونکہ پوری بحث میں مرزاناصر نے عبارت نہیں پڑھی کہ یہ پوچھے جانے والی عبارت اس کتاب میں نہیں۔ تو ہمیں بھی کیسے معلوم ہو کہ کون سا حوالہ تھا جسے مرزاناصر کتاب کے چکر میں چھپا رہے ہیں۔ حوالہ کی عبارت ہوتی تو ہم اس عبارت کو مرزا کی جس کتاب میں ہوتی نکال لاتے۔ مطلق حوالہ کا انکار نہیں کیا۔ اس کتاب کے صفحات میں وہ عبارت نہیں یہ کہہ کر گول کر گئے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
’’آگے سے بھی بڑھ کر‘‘ کا مفہوم غلط فہمی پیدا کرسکتا ہے۔ انہوں نے ۱۳؍اگست ’’الفضل‘‘میں یہ مضمون لکھا کہ: ’’میرا ہرگز مطلب نہیں تھا جو میری طرف منسوب کیا جارہا ہے۔ میں نے تو یہ کہا تھا کہ حدیث کی رو سے امت محمدیہ میں ہر صدی کے سر پر مجدد آتے ہیں اور ان مجددین کا اپنا کچھ نہیں ہوتا اور نبی اکرمﷺ کا ہی نور جو ہے وہ ان کے وجودوں میں چمکتا ہے اور آپﷺ ہی کا ظہور ہے۔ تو میرا مطلب یہ کہنے کا تھا کہ جو اس سے قبل مجددین میں نبی اکرمﷺ کا ظہور ہوا تھا، مسیح موعود میں اس سے زیادہ ظہور ہوا۔‘‘
یہ اُنہوں نے اپنا بیان دیا۔ میں آگے ابھی ان کا … جواب ابھی نہیں ختم ہوا… انہوں نے پھر یہ لکھا ہے کہ: ’’لیکن اس سے بعض لوگوں کو غلط فہمی پیدا ہوئی اور مجھے بڑی سخت تنبیہ ہوئی اور میں نے جب اپنا کلام کتاب کی شکل میں ۱۹۱۱ء میں شائع کیا تو اس وقت لوگوں کی اس … جو میرے پیچھے پڑے ہوئے تھے کہ تم نے کیا حرکت کی ہے…‘‘
یہ ہے ان کا دیوان ۱۹۱۱ء کا، پہلی دفعہ یعنی پانچ سال کے بعد چھپا ہے: ’’…اس میں یہ شعر میں نے لوگوں کے ، جو میرے پیچھے پڑے ہوئے تھے، اس کی وجہ سے نکال دیا۔ میں ان کو کہتارہا، میں قسمیں کھاتا رہا،(اسی میں ملحق ہے) کہ یہ میرا مطلب نہیں ہے۔ خدا کی قسمیں کھاکے کہتا ہوں کہ میرا مطلب یہ ہے کہ883 پہلے مجددین کے مقابلہ میں زیادہ بلند شان والا ظہور ہوا ہے۔ تم میری قسمیں … میں اوروں کو تو چھوڑتا ہوں، خود جماعت کے لوگ میری قسموں پر اعتبار نہیںکررہے اور میں قسمیں کھاکھاکے تھک گیا ہوں۔ ‘‘
اس کا تو جو شخص شاعر ہے، کہتا ہے کہ ’’میرا یہ مطلب ہے ۔‘‘ اس مطلب پر اعتراض نہیں ہوتا، کیونکہ وہ یہ کہتا ہے کہ پچھلے مجددین کی نسبت نبی اکرمﷺ کا اس صدی میں ظہور زیادہ شان والا ہے۔ مقابلہ مجددین سے ہے، آنحضرتﷺ سے نہیں۔ دوسرے یہ وہ کہتا ہے کہ مانتا ہے کہ بعض لوگوں کو یہ خیال پیدا ہوا کہ اس سے … وہی جو اس وقت سوال ہوا ہے… یہ غلط فہمی پیدا ہوجائے گی ، اور ’’انہوں نے مجھے شروع سے ہی تنگ کرنا شروع کردیا، اور ۱۹۱۱ء میں میں نے اپنی نظم سے یہ نکال دیا، اور ۱۹۰۶ء کے بعد کسی رسالے یا کسی اخبار یا کسی کتاب میں اپنے اس شعر کو میں نے شائع نہیں کروایا ۔‘‘ اور پھر ۳۸ سال کے بعد … سمجھے ناں… ۱۹۴۴ء میں ۱۳؍ اگست کے اخبار میں لکھتے ہیں کہ: ’’میں قسمیں کھاکھاکے تھک گیا ہوں اور تو نہیں، جماعت والے بھی میرے پر اعتبار نہیں کرتے۔ میرا یہ مطلب نہیں۔‘‘
تو یہ نئے حوالے جو آئے تھے، یہ اس میں Add (اضافہ ) ہوجاتے ہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: اس پر ایک دو سوال ہیں آپ سے…
مرزا ناصر احمد: جی۔
جناب یحییٰ بختیار: مرزا صاحب! ایک اصول یہ ہوتا ہے کہ جو کچھ آپ یہاں کہتے ہیں، یا جو میں کہتا ہوں، یا جو اسمبلی کہتی ہے، جو قانون یہ پاس کرتی ہے، پھر ان کو یہ اختیار نہیں ہوتا… بعد میں… کہ ’’میرا مطلب کیا تھا۔‘‘ یہ پھر عدالت کو یا پھر کوئی اور ہی ادارہ ہوتا ہے۔ اکمل صاحب کے الفاظ جو انہوں نے کہے ہیں، وہ خواہ لاکھ کہیں کہ ’’میرا مطلب یہ نہیں تھا، وہ نہیں تھا‘‘ وہ جو ہے ، وہ پھر پبلک جج کرتی ہے کہ884 مطلب کیا تھا۔ ایک اصولاً میں کہہ رہا ہوں کہ Interpretation (صراحت) کا جو Right (حق )ہوتا ہے، وہ Author (مصنف) کو نہیں ہوتا۔
Mirza Nasir Ahmad: That is a legal question....
(مرزاناصر احمد: وہ ایک قانونی سوال ہے)
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، میں وہی بتارہا ہوں۔
مرزا ناصر احمد: …ادب میں، شعروں میں نہیں-میری بات سن لیں پوری- شعر میں یہ نہیں چلتا۔ شعر میںہمارا محاورہ ہے: ’’صاحب البیت أدریٰ بما فیہ‘‘ جو کہنے والا ہے وہی مطلب بتائے گا۔
جناب یحییٰ بختیار: وہ ٹھیک ہے۔ میں دوسری بات یہ کررہا تھا کہ جب سوال آپ کے سامنے آیا تھا، اس وقت یہ تھا کہ ’’قصیدہ مرزا غلام احمد صاحب کی موجودگی میں پڑھا گیا؟‘‘ آپ نے کہا: ’’نہیں‘‘
مرزا ناصر احمد: میں، میں اب بھی کہتاہوں:’’نہیں‘‘
جناب یحییٰ بختیار: پھر اس کے بعد سوال یہ آیا کہ ’’ان کی موجودگی میں یہ ’’البدر‘‘ میں چھپا؟‘‘…
مرزا ناصر احمد: ہم نے کہا:’’ہاں‘‘
جناب یحییٰ بختیار: آپ نے… سبھی نے کہا:ایک نے نہیں کہا۔
مرزا ناصر احمد: اب میں کہتا ہوں’’ہاں‘‘
جناب یحییٰ بختیار: اب کہتے ہیں!
مرزا ناصر احمد: ۱۹۰۶ء میں چھپا، لیکن…
جناب یحییٰ بختیار: میں نے… آپ نے کہا کہ: ’’اگر ا885ن کو معلوم ہوتا اور ان کے سامنے ہوتا تو اس کو جماعت سے باہر نکال دیتے‘‘…
مرزا ناصر احمد: بالکل۔
جناب یحییٰ بختیار: چونکہ اگر… میرا سوال پورا ہونے دیں۔
مرزا ناصر احمد: ہاں ، ٹھیک ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: آپ کا بھی یہ Impression (تأثر) تھا کہ بڑی غلط بات کی ہے، آپ کے خیال کے مطابق، مرزا صاحب کا بھی یہ Impression (تاثر) تھا کہ بڑی غلط بات ہے، ان کو جماعت سے نکال دیتے۔ پھر اس نے خود کہا کہ ’’نہیں جی، انہوں نے تو ’’جزاک اللہ ‘‘کہا‘‘ اور یہ ثابت ہوا۔ ان کی موجودگی میں چھپا۔ اتنا ہی سوال تھا کہ وہ بڑے خوش ہوگئے اس قصیدے کو سن کے، کہ جس میں ان کو کہا کہ ان کی شان محمدa سے بھی زیادہ ہے۔ یہ ہم بتانا چاہتے ہیں۔
مرزا ناصر احمد: جی، بات یہ ہے، یہ باتیں جو آپ کررہے ہیں ناں اب، یہ ’’البدر‘‘ میں بالکل نہیں چھپیں۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، میں نہیں کہتا کہ یہ ’’البدر‘‘ میں چھپیں۔ میں نے اتنا ہی کہا کہ ’’البدر‘‘ میں یہ چھپا جب مرزا صاحب زندہ تھے، حیات تھے اور انہوں نے کوئی اس پر ایکشن نہیں لیا، کوئی ہمارے پاس ریکارڈ نہیں کہ انہوں نے اس کو Disapprove (ناپسند) کیا ہو۔ اس کے دوسری طرف ہمارے پاس یہ ریکارڈ پر موجود ہے۔ اکمل صاحب کا قول ہے… کہ انہوں نے اس کو سراہا ’’جزاک اللہ‘‘ کہا اور خوش ہوئے۔
مرزا ناصر احمد: اور نتیجتاً ۱۹۱۱ء میں اپنی نظم میں سے نکال دیا!
جناب یحییٰ بختیار: وہ ٹھیک ہے۔ مرزا صاحب کی حیات کے بعد انہوں نے کردیا، پبلک کوبڑا غصہ آیا اس پر۔ مگر یہ Fact (حقیقت) ہے کہ مرزا صاحب نے اس کو Approve (پسند) کیا اور خوش ہوئے۔
مرزا ناصر احمد: ہماری، ہماری تاریخ میں، ہماری تاریخ نے یہ ریکارڈ ہی نہیں کیا کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اس نظم کو پڑھا۔
886جناب یحییٰ بختیار: نہیں، میں یہ نہیں کہہ رہا۔
مرزا ناصر احمد: یہ جو ہے ناں مُسبحِ…
جناب یحییٰ بختیار: مرزا صاحب! ابھی میں اور کچھ نہیں پوچھنا چاہتا۔ ’’الفضل‘‘ آپ کا اخبار ہے۔ اس میں اکمل یہ کہتا ہے کہ ان کی موجودگی میں پڑھا اور انہوں نے اس کو پسند کیا۔ That is enough from my point of view. (میرے نقطۂ نظر سے یہ کافی ہے)
اگر ’’الفضل ‘‘میرا اخبار ہے یا جماعت اسلامی کا اخبار ہے، تب تو میں کہہ سکتا کہ ٹھیک ہے، غلط بات ہے۔
مرزا ناصر احمد: تو آپ کے اپنے اصول کے مطابق، جو آپ نے ابھی کہا ’’الفضل‘‘ میرا اخبار نہیں، ’’الفضل‘‘ خلیفہ… جماعت احمدیہ کے کسی خلیفہ کا اخبار نہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، ’’آپ ‘‘ سے مطلب ’’جماعت احمدیہ کا اخبار‘‘ہے ان کا۔
مرزا ناصر احمد: جماعت احمدیہ کا بھی اخبار نہیں، جماعت احمدیہ کی ایک تنظیم کا اخبار ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، ان کی آواز ہے یہ…
مرزا ناصر احمد: جی…
جناب یحییٰ بختیار: ان کی رائے دیتا ہے، ان کی طرف سے…
مرزا ناصر احمد: ان کی آواز بالکل نہیں ہے، یہ تو بالکل، بالکل نہیں ہے، جماعت کی آواز نہیں ہے ’’الفضل‘‘
جناب یحییٰ بختیار: یہ بڑا اچھا ہے! آپ اگر یہ کہہ دیں تو بڑی اچھی بات ہے! ہم تو سارے جھگڑے ’’الفضل‘‘ سے کررہے ہیں یہاں۔
مرزا ناصر احمد: بالکل نہیں جماعت کا۱؎۔
جناب یحییٰ بختیار: ٹھیک ہے۔
887مرزا ناصر احمد: یہ تو پھر سارے جھگڑے ختم ہوگئے ہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: کس جماعت کا ہے یہ ؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ۱؎ الفضل اخبار قادیانی جماعت کا اخبار نہیں، اتنا بڑا سچ قادیانی جماعت کو خلیفہ قادیانی مرزا ناصر کی طرف سے مبارک ہو؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مرزا ناصر احمد: ہیں؟
جناب یحییٰ بختیار: کس جماعت کا ہے یہ؟
مرزا ناصر احمد: کسی جماعت کا نہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: دیکھیں، مرزا صاحب…
مرزا ناصر احمد: نہیں، نہیں۱؎…
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، میں آپ کو ایک بات بتاتا ہوں۔
مرزا ناصر احمد: ہاں۔
جناب یحییٰ بختیار: ’’ڈان‘‘۱خبار تھا، ۱۹۴۱ء میں شروع ہوا دہلی میں ، ساری دنیا کہتی تھی کہ مسلم لیگ کی آواز ہے۔ وہ بھی آفیشل آرگن تو نہیں تھا کوئی مسلم لیگ کا۔ آج ’’مساوات‘‘ ہے۔ سب کہتے ہیں جی کہ پیپلز پارٹی کا ہے۔ پیپلز پارٹی کا آفیشل اخبار تو نہیں ہے۔
مرزا ناصر احمد: اور سارے کہتے ہیں کہ ’’ٹرسٹ‘‘ کے اخبار آج کی گورنمنٹ کے ہیں…
جناب یحییٰ بختیار: ہاں۔
مرزا ناصر احمد: اور ان پر اعتراض کرتے ہیں۔ آپ کے نزدیک حکومت پر وہ اعتراض درست ہے؟
جناب یحییٰ بختیار: میں، میں یہ پوچھ رہا ہوں کہ Officially (سرکاری ترجمان) جو ہے ناں ’’ٹرسٹ‘‘ اور بات ہے--- ’’مساوات‘‘ اخبار کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے، پیپلزپارٹی کا ہے۔ ’’جسارت‘‘ کہتے ہیں کہ جماعت اسلامی کا ہے، حالانکہ جماعت اسلامی کا کوئی نہیں ہے، ان سے ہمدردی رکھنے والوں کا ہوگا،ا ن کی آواز بلند کرتا ہوگا۔
888’’الفضل‘‘ جو ہے، اس کو آپ، فاننس آپ کرتے ہیں، آپ کی جماعت کرتی ہے۔ اس کو نکالتے ہی آپ ہیں۔ آپ کی رائے اور آپ کے خطبے سب اس میں آتے ہیں، سب اس میں آئے ہیں، اور آپ کہتے ہیں کہ ’’نہیں ہے، آپ کا اخبار بالکل نہیں‘‘تو بالکل ٹھیک بات ہے!
مرزا ناصر احمد: میرا نہیں ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: خلیفہ کا ذاتی میں نہیں کہہ رہا۔
مرزا ناصر احمد: نہ جماعت احمدیہ کا ہے۲؎۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ۱؎ دنیاوالو! دیکھو قادیانی سربراہ کیسے کیسے جھوٹ بول رہا ہے؟
۲؎ جھوٹ پہ جھوٹ، نبی جھوٹا، خلیفہ جھوٹا، خود جھوٹا، باپ جھوٹا، دادا جھوٹا، پہلے تین تھیں، اب چوتھی نسل جھوٹ پر چل ہی نہیں رہی، جھوٹ پر پل بھی رہی ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جناب یحییٰ بختیار: آپ کی آواز ہے، وہ آپ کی جماعت کی آواز۔
مرزا ناصر احمد: نہ میری آواز ہے، میری آواز کے کچھ کو اس کا نقل کردینا… وہ اخبار میری آواز نہیں بنتا۔
جناب یحییٰ بختیار: ٹھیک ہے، آپ کے حصے ہی نقل کررہا ہے وہ۔
مرزا ناصر احمد: میری آواز کے کچھ حصوں کو وہ نقل کرتا ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں۔
مرزا ناصر احمد: اور سارا کچھ جو وہ کہتا ہے، وہ میری طرف منسوب نہیں ہوسکتا۔
جناب یحییٰ بختیار: موڑ توڑ کر تو نہیں نقل کرتاوہ ، موڑتوڑ تو اخبار کرتا ہے۔
مرزا ناصر احمد: نہیں، نہیں،اتنی غلطیاں کاتب صاحب کرجاتے ہیں کہ آپ حیران ہوجائیں، اگر آپ کو دکھاؤں۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، نہیں،کاتب کی اور بات ہوتی ہے، موڑ توڑ کرنا اور بات ہوتی ہے۔
مرزا ناصر احمد: وہ موڑ توڑ معنوی موڑ توڑ بن جاتا ہے اس کے بعد۔
جناب یحییٰ بختیار: اچھا جی اب اور کوئی حوالہ ہے؟
مرزا ناصر احمد: ہاں، ہاں، سب حوالے ہیں۔ (Pause)
889یہ میں نے یہاں ریکارڈ کروایا کہ قاضی اکمل صاحب کا یہ کہنا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کو سنا اور ’’جزاک اللہ‘‘ کہا، ۳۸ سال کے بعد، ہماری تاریخ میں یہ واقعہ کہیں ریکارڈ نہیں۔ اس طرح میں اس کو بالکل غلط سمجھتا ہوں۔
جناب یحییٰ بختیار: جھوٹ کہا انہوں نے؟
مرزا ناصر احمد: جھوٹ کہا، جو آپ مرضی کہہ لیں۔
جناب یحییٰ بختیار: اکمل نے جھوٹ کہا، ’’الفضل‘‘ نے جھوٹ رپورٹ کیا، بس ٹھیک ہے۔
مرزا ناصر احمد: قاضی اکمل صاحب نے جھوٹ کہا، جھوٹ اس معنی میں کہ ہماری تاریخ نے اس واقعہ کو ریکارڈ ہی نہیں کیا کہیں بھی اور ۳۸ سال کے بعد ایک شخص ایک چیز۳۸ سال پہلے کی کہہ رہا ہے، اور حافظے کا یہ حال ہے کہ اپنے اس شعر کو ، جو آخری نہیں، اور لکھ رہا ہے کہ یہ آخری شعر ہے میرا۔ اپنی عمر کے اس حصے میں پہنچ کر جب اپنے ہی شعر یاد نہیں، ان کے ، جو انہوں نے کسی اور کے متعلق بات کی ہو، وہ کیسے قابل قبول ہوجائے گی؟
جناب یحییٰ بختیار: بس جی، ٹھیک ہے۔ مرزا صاحب! ایک شعر ایک آدمی کو یاد نہیں رہتا۔ اتنا بڑا واقعہ کہ مرزا صاحب وہاں موجود ہوں، وہ ان کی تعریف کرے، کوئی احمدی بھولتا نہیں۔
مرزا ناصر احمد: کسی احمدی نے کسی جگہ کسی تحریر میں، کسی لیکچر میں، کسی کتاب میں، کسی مضمون میں اس واقعہ کی طرف کبھی اشارہ نہیں کیا، میں تو یہ کہہ رہا ہوں۔ (Pause)
اور یہ اس کے برعکس یہ روایت ہے ہماری ریکارڈ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سامنے اپنے شعر شُور سناتا رہتا تھا اور آپ کہتے تھے کہ ’’میں اپنے کام میں مشغول تھا، سوچ میں لگا ہوا تھا، میں نے کوئی نہیں سنا۔‘‘ یہ روایت ریکارڈ ہے اور وہ روایت کہ ’’سنا اور یہ کیا‘‘ یہ ۳۸ سال تک کسی شخص نے اس کی طرف اشارہ ہی نہیں کیا۔ اس کو میں کیسے ownکرلوں؟
890جناب یحییٰ بختیار: ’’البدر‘‘ آپ کا اخبار تھا، جماعت کا، کہ نہیں تھا وہ بھی؟
مرزا ناصر احمد: نہیں، وہ بھی نہیں تھا، وہ بھی نہیں تھا۔ یہ، یہ بھی میں یہ ’’الحکم‘‘ ۷؍فروری ۱۹۲۳ء میں، جب کہ یہ کوئی جھگڑا قاضی اکمل صاحب وغیرہ کے شعر کا نہیں تھا، یہ ایک یہ، یہ چھپا ہے، حضور کے انہماک کے متعلق روایت: ’’حافظ معین الدین صاحب کی یہ شعر خوانی کا سلسلہ جاری تھا……‘‘
ایک منشی ظفر احمد صاحب، بڑے بزرگ ہمارے، صحابی ہیں، ان کی یہ روایت ہے: ’’منشی ظفر احمد صاحب بلوائے ہوئے قادیان میں موجود تھے اور حضرت صاحب کے قریب ہی رہتے تھے۔ چند روز تک تو یہ سلسلہ رہا۔ ایک دن منشی جی نے عرض کیا کہ ’’حضور کیا سنتے رہتے ہیں، حافظ صاحب سونے ہی نہیں دیتے، (حافظ صاحب شعر سنایاکرتے تھے)نہ یہ کوئی خوش آواز ہیں، سب کو تکلیف ہوتی ہے۔ آپ کس طرح سنتے رہتے ہیں‘‘ (یہ مفہوم منشی صاحب کے کلام کا تھا) آپ نے ہنس کر فرمایا:’’مجھے تو کچھ معلوم نہیں کہ یہ کیا سناتے ہیں اور نہ میں اس خیال سے سنتا ہوں کہ یہ کوئی خوش آواز ہیں۔ بلکہ اصل بات یہ ہے کہ میرے دماغ میں اسلام کی حالت اور عیسائیوں کے حملوں کو دیکھ کر جوش اٹھتا ہے، اور بعض وقت مجھے خطرہ ہوتا ہے کہ دماغ پھٹ جائے گا اس جوش میں… کیونکہ حافظ صاحب بڑے اخلاص سے کمردبانے کے لئے آجاتے ہیں، میں نے دینی توجہ کو دوسری طرف بدلنے کے لئے ان کو کہہ دیا کہ کوئی شعر یاد ہو تو سناؤ، اب یہ بے چارہ نہایت اخلاص سے سناتا ہے، اور میں ہر چند کوشش کرتا ہوں کہ میرا خیال ادھر متوجہ ہو اور ہجوم افکار جو دماغ میں موجودہ حالت کو دیکھ دیکھ کر ہوتا ہے، تھوڑی دیر کے لئے کم ہوجائے، مگر وہ کم ہونے میں نہیں آتا، اور مجھے پتہ بھی نہیں لگتا کہ کیا کہتے ہیں۔ اگر آپ کو ناپسند ہو تو ان کو منع کردیا جائے۔‘‘
891جس شخص کی یہ حالت تھی کہ اسلام کے غم اور فکر میں ہر وقت اپنی توجہ کو اس خاص مضمون کی طرف مرکوز رکھتا تھا، Concentrate his mind was concentrated on that one subject. (صرف ایک ہی موضوع پر توجہ مرکوز رکھتے)اس کے سامنے شعر سنانے والے شعر سناتے تھے، بچے اپنی کہانیاں سناتے تھے، وہ ان کی طرف مشغول ہوتا ہے؟ اس کی طرف ایک ایسی بات منسوب کرنا ،جو ۳۸ سال کے بعد منسوب کی گئی ہو، جس کا ذکر ۳۸ سال تک کسی ایک حوالے میں موجود نہ ہو، میرے نزدیک بڑا ظلم ہے۔ باقی جو دنیا مرضی کہے اور ’’جزاک اللہ‘‘ کے بعد گیارہ کو نکال دیا۔
اچھا، یہ ایک …