ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، وہ تو جیسے آیات آتی رہیں، مگر نبوّت تو ان پر ایک دم آئی۔ یہ نہیں کہ ان کو کبھی شک تھا کہ ’’میں نبی ہوں یا نہیں۔‘‘
مرزا ناصر احمد: حضرت مسیح موعود کو، جس معنی میں آپ شک کہہ رہے ہیں، وہ شک نہیں تھا۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، کسی معنی میں آپ بتائیں کیا شک تھا؟
مرزا ناصر احمد: ہاں، بات یہ ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا ہے کہ: ’’علماء اُمتی کأنبیاء بنی اسرائیل‘‘ ہیں، تمثیلی زبان میں، میری اُمت کے انبیاء کو بھی، میری اُمت کے علماء کو بھی انبیاء کہا جاسکتا ہے، تمثیلی زبان میں۔ جب آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی کا لفظ آتا آپ کے لئے، تو اس وقت آپ یہ سمجھتے تھے کہ میں ۔۔۔۔۔۔ وہ نبوّت ہے میری، جو ’’علماء اُمتی کأنبیاء بنی اسرائیل‘‘ والی ہے۔ 1301لیکن یہاں جو اصل وہ ہے Confusion (’’اُلجھن‘‘) وہ نبوت اور رِسالت کے متعلق ہے۔ ’’نبی‘‘ کے معنی کسی کی طرف بھیجا جانا یا ہدایت کا بیڑا اُٹھانے والا، وہ نہیں ہے۔ ’’نبوت‘‘ کے معنی ہیں خداتعالیٰ سے اِطلاع پاکر آگے اِطلاع دینے والا۔ تو خدائے تعالیٰ اطلاعیں دیتا تھا، آپ سمجھتے تھے کہ اس میں جو لفظ ’’نبی‘‘ ہے، وہ آنحضرتﷺ نے بھی اپنی اُمت کے علماء کے لئے ’’نبی‘‘ کا لفظ اِستعمال کیا ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: مرزا صاحب! اللہ میاں نے اپنے آپ کو Clear نہیں کیا، کہ آپ بھی نبی ہیں؟ نہیں، میں، آپ گستاخی معاف کریں۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: نہیں، اس میں چونکہ تمسخر آجاتا ہے، ایک۱؎…
جناب یحییٰ بختیار: میرا وہ مطلب نہیں ہے۔
مرزا ناصر احمد: نہیں، نہیں، میں بتاتا ہوں، میں مجبور ہوجاتا ہوں۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، نہیں، میں، دیکھئے ۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: ۔۔۔۔۔۔ کہ نبی اکرمﷺ کی زندگی کی کوئی مثال نہ دُوں۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، میں، میں کہتا ہو کہ ۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: نہیں، یہ میری ہے یہ کہ میرے دل میں بڑا وہ پیار ہے، میں فدائی ہوں۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، میں کہتا ہوں، مرزا صاحب! چونکہ میرے سامنے ایک حوالہ تھا، میں نے کہا کہ گستاخی معاف، میرا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں ایسے مسئلے پر کوئی مذاق کی بات کروں۔ مرزا صاحب نے کسی جگہ فرمایا ہے۔۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، وہ سامنے آجائے تو میں بتادیتا ہوں۔
جناب یحییٰ بختیار: 1302’’میں پہلے یہ سمجھتا تھا کہ میں نبی نہیں ہوں۔ لیکن خداتعالیٰ کی وحی نے مجھے اس خیال پر رہنے نہ دیا۔‘‘
مرزا ناصر احمد: یہ اگر مجھے دیں تو اس کا پہلا حصہ میں پڑھ دیتا ہوں، اس سے واضح ہوجائے گا۔
جناب یحییٰ بختیار: میرے پاس اس کا سوال ہے جی، یہ رپورٹ ہوا ہے۔
مرزا ناصر احمد: اس کا جواب اسی کے پہلے دو صفحوں کے اندر ہے موجود۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، تو میں یہی کہتا ہوں ناں، پہلے ان کو Doubt تھا۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: نہیں۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: …پھر وحی کے…
مرزا ناصر احمد: جب ہمارے سامنے وہ ہے ہی نہیں کتاب، تو اپنی طرف سے میں Philosophies کیوں کروں؟
جناب یحییٰ بختیار: یعنی اس حوالے سے اِنکار ہے، پھر تو میں آگے نہیں چلتا۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ۱؎ مسخرہ تو مرزاقادیانی ہے: ’’پرمیشر (ہندوؤں کا خدا) ناف سے دس اُنگلی نیچے ہے‘‘ (چشمہ معرفت ص۱۰۶، خزائن ج۲۳ ص۱۱۴) مسخرے کے علاوہ مرزا جیومیٹری کا بھی عملی ماہر لگتا ہے!
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مرزا ناصر احمد: میں اس حوالے سے اس معنی سے اِنکار کرتا ہوں۔ جو اس حوالے کو پہنائے جارہے ہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، تو میں کہتا ہوں معنی آپ بتادیجئے۔
مرزا ناصر احمد: تو مجھے کتاب دیں، میں بتاتا ہوں۔
جناب یحییٰ بختیار: یہ ’’الفضل‘‘ سے ہے جی۔ اس میں۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، تو ’’الفضل‘‘ دیں۔
جناب یحییٰ بختیار: ’’الفضل‘‘ ۳؍جنوری ۱۹۴۰ئ۔
مرزا ناصر احمد: ہیںجی؟
1303جناب یحییٰ بختیار: ۳؍جنوری ۱۹۴۰ئ۔
مرزا ناصر احمد: جنوری ۱۹۴۰ئ۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاںجی، اس میں وہ آجاتا ہے ناں حوالہ کہ۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، ہاں، نہیں اس میں ہوگا، حوالہ کس کتاب کا ہے؟
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، اس میں ہوگا، یہاں نہیں ہے ناں میرے پاس۔
مرزا ناصر احمد: اچھا آپ کے پاس نہیں ہے؟
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، میرے پاس ہوتا تو میں معنی پہلے بتاتا، ’’الفضل‘‘ کا ذِکر نہ کرتا۔ اب دُوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مرزاصاحب نے یک لخت نبوّت کا دعویٰ نہیں کیا ۔۔۔۔۔۔وجہ جو بھی آپ نے بتائی۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: میں نے تو یہ بتایا ہے کہ میں اس کی وضاحت نہیں کرسکا، کیونکہ میرے سامنے کتاب نہیں ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، اس سے پہلے کی۔ اس سے پہلے جو بات ہے ناں میں نے جو کہا تدریجاً۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصرا حمد: نہیں، وہ تو میں نے ایک۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: … ’’تدریجاً‘‘ جو میں نے کہا ناں، اس پر تو آپ نے کہا کہ یہ ایک…
مرزا ناصر احمد: ’’تدریج‘‘ کا لفظ جو ہے ناں، ہمیں پہلے اس سے معنوں کی تعیّن کرنی پڑے گی۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، میں نے یہ کہا جی کہ۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: پھر میں نے آپ کو بتایا کہ قانونِ قدرت سارے عالمین، The Whole 1304Universe (کائنات) کے متعلق تدریج کا ہے، گندم کے دانے سے لے کے اور ہیرے کی پیدائش تک اور عالمین تک اور یہ سورج وغیرہ کا جو نظام ہے اور Galaxies (کہکشاں)۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: یا ایک اور وجہ یہاں کسی نے دی ہے مجھے، ’’براہین احمدیہ‘‘ کا حصہ پنجم صفحہ:۵۴ ہے، Fifty Four۔۔۔
مرزا ناصر احمد: یہ دیکھیں گے۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، تو اس میں یہ کہتے ہیں:’’اور یہ اِلہامات اگر میری طرف سے اس موقع پر ظاہر ہوتے جبکہ علماء مخالف ہوگئے تھے، وہ لوگ ہزارہا اِعتراض کرتے۔ لیکن وہ ایسے موقع پر شائع کئے گئے جبکہ یہ علماء میرے موافق تھے۔ یہی سبب ہے کہ باوجود اس قدر جوش کے ان اِلہامات پر انہوں نے اِعتراض نہیں کیا کیونکہ وہ ایک دفعہ اس کو قبول کرچکے تھے اور سوچنے پر ظاہر ہوگا کہ میرا دعویٰ مسیحِ موعود ہونے کی بنیاد انہی اِلہامات سے پڑی ہے اور انہیں میں میرا نام خدا نے عیسیٰ رکھا اور جو مسیحِ موعود کے حق میں آیتیں تھیں، وہ میرے حق میں بیان کردیں۔ اگر علماء کو خبر ہوتی کہ ان اِلہامات سے اس شخص کا مسیح ہونا ثابت ہوتا ہے تو وہ کبھی ان کو قبول نہ کرتے۔ یہ خدا کی قدرت ہے کہ انہوں نے قبول کرلیا اور اس پیچ میں پھنس گئے۔‘‘
(اربعین نمبر۲ ص۲۱، خزائن ج۱۷ ص۳۶۹)
یہ اس سے یہ مجھے جو Impression (تأثر) ملتا ہے ۔۔۔۔۔۔ آپ سمجھیں گے کہ پھر میں گستاخی کر رہا ہوں، کہ وہ ان پر آیتیں آگئیں، ان کو علم ہوگیا نبی ہیں، مگر چونکہ علماء کا پہلے ان کو خطرہ تھا کہ مخالفت کریں گے اس لئے کچھ مدّت خاموش رہے۔ ان کو جب Win Over (قائل) کیا تو اس کے بعد ان کو کہا کہ بھئی یہ ۔۔۔۔۔۔ یہ آپ دیکھ لیں کہ اس کا کیا مطلب ہوتا ہے۔
مرزا ناصر احمد: میں، مجھے، میں تو دیکھوں گا، مگر آپ کو سارا وہ بیک گراؤنڈ پتا نہیں تو آپ نتیجہ نہ نکالیں۔
1305جناب یحییٰ بختیار: نہیں، مرزا صاحب! میری تو ڈیوٹی ہے ناں کہ آپ کے۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: نہیں، نہیں، نتیجہ نہ نکالیں۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، کیونکہ Impression (تأثر) جو ہے میں آپ کو Convey (منتقل) نہ کروں۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: کریں ضرور کریں۔
Mr. Yahya Bakhtiar: تو۔۔۔۔۔۔ I will be failing in my duty. (جناب یحییٰ بختیار: میں اپنے فرض سے کوتاہی برتوں گا…)
مرزا ناصر احمد: ہاں، ضرور کریں، وہ تو سوال کا حصہ بن گیا۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، تو اس واسطے میں نے کہا یہ Impression (تأثر) ہے، تاکہ آپ پورے اس Impression (تأثر) کو دُور کریں۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، ٹھیک ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔۔ کہ یہ ان کو معلوم تھا، ان پر آیتیں آچکی ہیں، ان پر اِلہامات آچکے تھے۔۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: نہیں، ٹھیک ہے، یہ چیک کریں گے جی۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، مصلحتاً انہوں نے مناسب نہیں سمجھا کہ ان کا پہلے اِظہار کریں۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، ہاں، میں سمجھ گیا، اور کل کے لئے بنیاد پڑگئی۔
Mr. Yahya Bakhtiar: Sir, Should we have 5-10 minutes break.
(جناب یحییٰ بختیار: جنابِ والا! کیا دس پندرہ منٹ کا وقفہ ہوگا)
Mr. Chairman: Short break of 10 minutes. Then we meet at......
(جناب چیئرمین: مختصر دس منٹ کا وقفہ، اس کے بعد ہم دوبارہ ملیں گے۔۔۔۔۔۔)
Mirza Nasir Ahmad: Short break. Then?
(مرزا ناصر احمد: مختصر وقفہ؟)
Mr. Chairman: Ten......
(جناب چیئرمین: دس منٹ۔۔۔۔۔۔۔)
1306Mr. Yahya Bakhtiar: We will meet for a little while. But I would like to finish as soon as possible......
(جناب یحییٰ بختیار: ہم تھوڑی دیر میں ملیں گے، لیکن میں جتنی جلدی ممکن ہوا ختم کرنے کی کوشش کروں گا)
Mr. Chairman: Ten minutes; 10-15 minutes.
(جناب چیئرمین: دس پندرہ منٹ)
Mr. Yahya Bakhtiar: ....... That is my effort, because.......
مرزا ناصر احمد: ہاں، ہاں، یہ کتابیں مل جائیں گی، میں کوشش کرتا ہوں کہ ابھی کتابیںمل جائیں۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، مل جائیں، اگر ہوجائیں تو۔۔۔۔۔۔
Mr. Chairman: Yes, about fifteen minutes. Then about 9:05, yes.
(جناب چیئرمین: جی ہاں! تقریباً۱۵منٹ پھر تقریباً ۹ بج کر ۵منٹ پر)
----------
The House is adjourned for 15 minutes short break.
(ایوان کا اِجلاس پندرہ منٹ کے لئے ملتوی کیا جاتا ہے)
----------
(The Delegation left the chamber)
(وفد ہال سے باہر چلا گیا)
----------
The Special Committee adjourned to meet at 9:05 p.m.
(خصوصی کمیٹی کا اِجلاس رات نو بج کر پانچ منٹ تک کے لئے ملتوی ہوا)
----------
[The Special Committee re-assembled after break, Mr. Chairman (Sahibzada Farooq Ali) in the chair.]
(خصوصی کمیٹی کا اِجلاس وقفے کے بعد شروع ہوا، مسٹر چیئرمین (صاحبزادہ فاروق علی) کی صدارت میں)
----------
جناب چیئرمین: ہاں، بلالیں جی ان کو؟ بلالیں جی؟
Mr. Yahya Bakhtiar: Yes, Sir.
(جناب یحییٰ بختیار: جی ہاں! جنابِ والا)
جناب چیئرمین: جب تک آپ چلائیں گے۔ باقی سب چاہتے ہیں کہ جلدی ختم ہو۔ چار ہیں ممبر صاحبان، ان کو منالیں۔ ایک مولانا عطاء اللہ، ایک سیّد عباس حسین گردیزی صاحب…
ڈاکٹر محمد شفیع: ایک میں بھی ہوں جی ان میں سے۔ Important (اہم) کچھ Questions (سوالات) رہ گئے ہیں، ان کو پوچھ لیں، ورنہ یہ نامکمل سا کام رہ جائے گا۔ پبلک بھی ہم سے یہ پوچھتی ہے۔
1307جناب چیئرمین: اچھا، یہ پانچویں بھی! چھٹے صاحب بھی اگر کوئی کھڑا ہونا چاہتے ہیں تو ابھی بتادیں؟ پانچ میں نے Pin-Point (مقرر) کرلئے ہیں جی۔ابھی نہ بلائیں جی ان کو۔ جناب! ایک مولانا عباس حسین گردیزی صاحب، ایک میاں عطاء اللہ صاحب، ایک حاجی مولابخش سومرو صاحب، ایک مولانا ظفر احمد انصاری صاحب،ہاؤس کی رائے میں دس بجے لوں گا ۔۔۔ After their ۔۔۔ (ان کے بعد)
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: کیا خطا ہوئی ہے ہم لوگوں سے؟
جناب چیئرمین: کہ پانچ آدمی چاہتے ہیں ابھی یہ چلے۔ نہیں اب Minimize (کم) ہو رہا ہے۔ اب Definite …(یقینا) جی؟
مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی: بات صحیح ہے ویسے سر! جب ہم یہ اتنے روز یہاں بیٹھ گئے۔۔۔۔۔۔
جناب چیئرمین: ہاں۔
مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی: ۔۔۔۔۔۔ اور اتنے دن تک چلایا ہے تو اور اگر دو چار روز چل جائے تو کیا حرج ہے۔
جناب چیئرمین: نہیں، دوچار روز نہیں چلے گا، حتمی بات ہے۔
مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی: جی؟
جناب چیئرمین: آپ آج کا دن کریں، ایک Sitting (اجلاس) میں آپ Pinpoint (مقرر) کرلیں Questions (سوالات) جی، Definite Questions جو ہیں وہ Pinpoint (مقرر) کرلیں۔ یہ اب دو ہفتے ہوگئے ہیں، ہاں۔ کچھ موضوعات اگلی اسمبلی کے لئے بھی چھوڑ دیں ناںجی، جو آپ کے Successors (جانشین) ہیں، انہوں نے بھی کچھ فیصلے کرنے ہیں۔ یہ تو نہیں کہ آپ نے قیامت تک کے تمام فیصلے کردینے ہیں۔ ابھی کئی اسمبلیاں آتی رہیں گی، ہاں۔ تو ایک صدی کا ایک اسمبلی تو نہیں کرسکتی ناںجی۔
1308بلالیں جی ان کو دس بجے تک جی۔ دس، سوادس تک جی That's all دس، سوادس۔ نہیں اب نہیں۔
(The Delegation entered the Hall)
(وفد ہال میں داخل ہوا)
Mr. Chairman: Yes, Mr. Attorney-General?
(جناب چیئرمین: جی اٹارنی جنرل صاحب؟)
جناب یحییٰ بختیار: کچھ آپ۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: نہیں، یہ دس منٹ میں کیا کرسکتا تھا، یہاں کتاب نہیں تھی۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، تو پھر وہ دیکھ لیں گے۔ جی اس میں۔
جناب چیئرمین: وہ کل کے لئے رہنے دیں۔
مرزا ناصر احمد: ہاں۔
جناب یحییٰ بختیار: اس میں بھی وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ Page (صفحہ) بھی ان کا غلط ہے، پتا نہیں کیا۔ وہ بھی دیکھ لیں گے اس میں۔ یہاں نہیں ہے ان کے پاس ورنہ میں دے دیتا۔
مرزا ناصر احمد: Page (صفحہ) غلط ہے تو میں۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، یعنی وہ شاید وہ بتادیں گے۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، ہاں، ٹھیک ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: بعض دفعہ Page (صفحہ) ٹھیک ہوتا ہے، کتاب غلط ہوجاتی ہے، کچھ پتا نہیں ہوتا اس پر میرے لئے بڑی مشکل ہوجاتی ہے۔ کیونکہ آپ بھی Difficulty (مشکل) ہے اتنی کتابوں میں Trace Out (ڈھونڈنا) کرنا۔ بعض ایسے ہیں جو کہ علم میں ہوتی ہے بات تو پھر وہ آسان ہوجاتی ہے۔ اب مرزا صاحب! میں نے آپ کو Request (گزارش) کی تھی کہ لاہوری جماعت نے کچھ Extract (اِقتباسات) دئیے تھے۔ اس پر اگر آپ کچھ Comment (تبصرہ) کریں تو آپ کی مرضی ہے، ورنہ میں نہیں چاہتا کہ۔۔۔۔۔۔
1309مرزا ناصر احمد: ہاں، نہیں میں وہ کچھ Comment (تبصرہ) نہیں کرنا چاہتا۔
جناب یحییٰ بختیار: اس واسطے میں I don't want to embarrass you (میں آپ کو پریشان نہیں کرنا چاہتا)۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، ہاں۔
جناب یحییٰ بختیار: …تو اس واسطے میں نے کہا کہ اس میں کچھ حوالے دئیے ہیں…
مرزا ناصر احمد: جی، ہمارے، اس کے وہ حوالے ہمارے ’’محضرنامہ‘‘ میں بھی ہیں۔ ان دونوں کا مقابلہ کریں گے، اس کا جواب آچکا ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، تو یہی میں نے کہا کہ اگر آپ Comment (تبصرہ) کرنا چاہیں کہ اس لئے میں نے Request (گزارش) کی تھی۔ تو اس لئے اب میں ۔۔۔۔۔۔ I won't waste (میں وقت ضائع نہیں کرتا)۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: نہیں، اس کو واپس کردیں، یا رکھ سکتے ہیں؟
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، واپس کردیتے ہیں۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: (اپنے وفد کے ایک رُکن سے) ہاں، نکالوجی۔ ہاں یہی پوچھا ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔ کیونکہ یہ آفیشل ریکارڈ ہے۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، ہاں، ٹھیک ہے۔ میں نے صرف پوچھا ہے۔ ہاں، یہ وہاں رہ گیا۔ صبح اِنشاء اللہ! واپس کردیں گے۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں جی، ٹھیک ہے۔ (Pause)
جناب یحییٰ بختیار: ایک مرزا صاحب! سوال ہے: کیا مرزا صاحب نے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ گورداسپور کی عدالت میں یہ لکھ کر دیا تھا کہ وہ آئندہ اپنے مخالفین کے خلاف، ایسے اِلہامات شائع نہیں کریں گے جس میں ان کے مخالفین کی موت یا تباہی کا ذِکر ہو، یا ان کی کوئی بدکلامی سمجھی جائے۔
1310مرزا ناصر احمد: یہ کہاں ہے، حوالہ کہاں ہے؟
جناب یحییٰ بختیار: ہیںجی؟
مرزا ناصر احمد: کوئی حوالہ ہے یہاں؟
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، یہ انہوں نے ایسے ہی سوال پوچھا ہے کہ کوئی ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو کوئی کیس فائل ہوا تھا، کسی نے Defamation کا کیس فائل کیا تھا۔ This is what this report says. (یہ رپورٹ یہی کہتی ہے)
مرزا ناصر احمد: ہاں، وہ کیس میں پڑھ دُوں گا۔ یہاں۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، اگر آپ کے پاس ہو یہاں۔۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: نہیں، یہاں تو نہیں ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، نہیں، اگر آپ کے۔۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، ہاں، ٹھیک ہے۔ وہ ذرا لمبا جواب ہوگا، پندرہ بیس منٹ کا۔
جناب یحییٰ بختیار: آپ اگر مختصر کرسکیں تو You are quite capable it, I know. (میں جانتا ہوں آپ بہت ہی قابل ہیں)
Mirza Nasir Ahmad: No, I am not, very humble...... (مرزا ناصر احمد: نہیں میں ایسا نہیں ہوں…)
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، اس میں نہیں، میں سمجھتا ہوں کہ آپ کا بھی اپنا نقطئہ نظر ہے۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، ہاں۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، میں یہ کہتا ہوں۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: نہیں، وہ صاحب ۔۔۔۔۔۔ اصل ہم یہاں اس لئے بیٹھے ہیں کہ مسائل آپس میں تبادلہ خیال کرکے سمجھ لیں۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، میں جی بہت کوشش کر رہا ہوں کہ اس کو ختم کرسکوں، جتنی جلد ہوسکے، کیونکہ اتنا مسئلہ ہے کہ بولتے رہیں تو اس پر کوئی Time Limit (وقت کی قید)۔۔۔۔۔۔۔
1311Mirza Nasir Ahmad: ہاں، ہاں، No end to it.
(مرزا ناصر احمد: اس کا اِختتام ہی نہیں)
جناب یحییٰ بختیار: تو جو ایشو ہے ریزولیوشن میں، اس کے مطابق جو چیزیں آسکتی ہیں، بعض چیزیں ایسی ہیں کہ بعض ممبر صاحب ۔۔۔۔۔۔ ان کا آرڈر میں Carry Out (نبھا رہا ہوں) کر رہا ہوں، ورنہ ایسی بات نہ ہوتی کہ میں آپ کو۔۔۔۔۔۔
مرزا صاحب! میں نے اس دن آپ سے ایک مضمون پر بات کی۔ پھر میں نے اس لئے چھوڑ دیا کہ جہاد کا مسئلہ بیچ میں آتا تھا۔ وہ اس پر سوال نہیں تھے ہوئے۔ میں نے عرض کیا تھا کہ آزادی کے لئے اسلام جنگ کی اِجازت دیتا ہے کہ اپنے ملک میں آزادی پیدا کی جائے؟
مرزا ناصر احمد: وہ تو جواب میں نے دے دیا تھا، میرا خیال ہے اس کا جواب دے دیا ہے میں نے۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، آپ نے کہا تھا کہ لوگوں کو قتل کرتے ہیں، خون خرابہ کرتے ہیں۔ یعنی پھر بعد میں، شاید میں نے عرض کیا تھا کہ شاید بعد میں پھر اس سوال پر آؤں گا۔ تو اَب سوال یہ تھا کہ ۱۸۵۷ء میں ۔۔۔۔۔۔اس پر میں نے کچھ سوال آپ سے پوچھے اور آپ نے بڑی تفصیل سے جواب دئیے۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: غدر کے متعلق۔
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔ کیونکہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ بھی آزادی کی جنگ تھی۔ آپ نے یہ کہا کہ لوگوں کو مارا۔ لوٹا، بچوں کو مارا، لوٹا، کئی چیزیں ہوئیں اس میں، اس لئے کوئی اس کو Justify (جائز قرار) نہیں کرسکتا اور میں آپ سے پورا اِتفاق کرتا ہوں کہ ایسی چیزوں کو کوئی Justify (جائز قرار) نہیں کرتا۔ مگر سوال یہ ہے کہ جب برصغیر ہندوپاک میں آزادی کی تحریک چلی، پاکستان کے قیام کے لئے تحریک چلی، وہ بھی آزادی کی جنگ تھی، وہ بھی اسی انگریز کے خلاف تھی، تو اس دوران میں کیا ظلم نہیں ہوئے، کیا عصمتیں نہیں لوٹی گئیں، دونوں طرف سے کیا لوٹ مار نہیں ہوئی؟
1312مرزا ناصر احمد: آزادی کی جنگ کے دوران نہیں ہوتی، اس کا پھل توڑنے کے لئے لاتیں تڑوائی گئیں، جانیں دی گئیں، عصمتیں لٹائی گئیں۔
جناب یحییٰ بختیار: میں، یہ کہہ رہا ہوں کہ وہ ایسی حرکتیں ہوئیں۔ جن لوگوں نے یہ حرکتیں کیں، کس نے لوٹ مار کی، کس نے بدامنی پھیلائی، کس نے بُرے کام کئے، قتل کئے۔ اس کی وجہ سے آزادی کے جو رہنما تھے، لیڈر تھے، ان کو تو Condemn (مذمت) نہیں کرسکتے ہیں کہ چور ہیں، قزاق ہیں، یہ تو نہیں کیا جاسکتا۔ اگر ان کو نہیں کہا جاسکتا تو ۱۸۵۷ء کے بھی جو لیڈر تھے جو نیک نیتی سے ملک کی آزادی چاہتے تھے، ان کو بھی نہیں کہا جاسکے گا۔
مرزا ناصر احمد: جو اس وقت ۔۔۔۔۔۔ ہاں، میں بتاتا ہوں۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں میں یہ Parallel (موازنہ) کر رہا تھا۔
مرزا ناصر احمد: ۱۸۹۷ء کا آج کے ساتھ جب مقابلہ کریں گے۔ تو ۱۸۹۷ء میں اس وقت، ۱۸۵۷ئ، Eighteen Fifty-Seven میں۔ معلوم ہوتا ہے میں تھک گیا ہوں ۱۸۵۷ء میں کس نے ان کو Condemn (مذمت) کیا؟ یہاں آپ غلطی کرتے ہیں۔ ۱۸۵۷ء میں اس غدر میں حصہ لینے والوں کو ان لوگوں نے Condemn (مذمت) کیا جنہوں نے وہاں معاملات دیکھے اور بغیر دیکھے Condemn (مذمت) کرنا یا حق میں بات کرنا، یہ کوئی اس کی اہلیت نہیں ہے اور اس وقت جن لوگوں نے اس وقت ۱۹۴۷ء یا جو بھی یہ جنگ آزادی ہے یا۔ جنگ آزادی تو یہ نہیں، لیکن یہ جدوجہد ایک جہاد دُنیوی جہاد آزادی کے لئے ہے۔۔۔۔۔۔ اس میں ان لوگوں کو جو رہبر تھے، Condemn (مذمت) نہیں کیا ان لوگوں نے جنہوں نے وہ دیکھا۔ کچھ کیا بھی، بعضوں کو کیا بھی جو بیچ میں شامل ہوئے۔ مثلاً یہ ہندوؤں کی لیڈرشپ میں ایک حصہ تھا یہ پٹیل، اور یہ جن سنگھ ابھی تک ہے، تو اس کی ہندوؤں نے بھی Condemn (مذمت) کیا اور مسلمانوں نے بھی Condemn (مذمت) کیا۔
1313جناب یحییٰ بختیار: نہیں، مرزا صاحب! یہی تو میں عرض کر رہا ہوں کہ اس زمانے میں بھی بعض لوگ ۔۔۔۔۔۔ مسلمانوں کی حکومت تھی ہندوستان میں۔ وہ حکومت ختم ہوکے انگریز بیٹھ گیا۔ مسلمانوں نے۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: وہ ختم کیسے ہوگئی؟۔۔۔۔۔۔ نہیں، میں توجہ صرف پھیر رہا ہوں۔ میں یہ توجہ پھیر رہا ہوں کہ وہ ختم اس واسطے ہوگئی کہ خود مسلمانوں کے اندر غدار پیدا ہوگئے۱؎۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں جی، غلطیاں ہوں گی، سب کچھ ہوگا، میں ان وجوہات میں نہیں جارہا۔ مسلمانوں…
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ۱؎ توجہ پھیر رہے ہیں، یا ’’ہیراپھیری‘‘ کر رہے ہیں۔۔۔؟
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مرزا ناصر احمد: اصل بات یہ ہے کہ میں سوال ہی نہیں سمجھا ابھی تک۱؎۔
جناب یحییٰ بختیار: پھر عرض کرتا ہوں۔
مرزا ناصر احمد: جی۔
جناب یحییٰ بختیار: ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت تھی اور بہت عرصہ تک تھی۔ آخری حکمران بہادرشاہ ظفر تھے۔ ان کو ہٹایا گیا۔ انگریز ویسے تو بڑے عرصے سے پھیل رہا تھا، آخری طور پر اپنی Empire اس نے بنائی تو اس زمانے میں جب وہ بالکل ظفر کی حالت خراب تھی اور وہ ختم ہونے والا تھا، اور انگریز جم چکا تھا، صرف یہ کہ اعلان نہیں تھا ہوا ان کا وہ Empire (سلطنت) بن گئی ہے، ملکہ نے چارج لے لیا ہے۔
مرزا ناصر احمد: یعنی ایک وقت ایسٹ انڈیا کمپنی کے نام سے یہاں جو ہو رہا تھا اور پھر ایک وقت میں وہ Empire بنی۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، وہ تو مختلف علاقوں میں دو سوسال سے وہ چلتا رہا ہے۔
مرزا ناصر احمد: ہوں، ہوں۔
جناب یحییٰ بختیار: پلاسی کی جنگ کے بعد جب مصیبت ہماری آئی تو ۱۷۹۹ء میں جب ٹیپوسلطان کی شہادت ہوئی۔۔۔۔۔۔
1314مرزا ناصر احمد: ہاں، ٹیپوسلطان جیسے آدمی کو اپنوں نے ہی مروادیا۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، یہی تو میں کہتا ہوں کہ یہ چیزیں تو ہوتی ہیں۔ یہ ساری ہماری نظر میں آزادی کی جنگ تھی، مسلمانی حکومت کو برقرار رکھنے کی جنگ تھی۔ آخر میں جن مسلمانوں نے ۔۔۔ ان کے ساتھ اور لوگوں نے بھی تعاون کیا، ہندوؤں نے بھی کیا ہوگا۔ باقیوں نے بھی کیا۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ لڑی، اس میں یہ ضرور ہوا کہ بعض لوگوں نے ظلم کئے۔ جیسے کوئی بھی تحریک ہو، آپ جلوس نکالتے ہیں پُرامن کوئی بھی پارٹی ہو، تو بیچ میں کچھ لوگ فائدہ اُٹھانے کے لئے گڑبڑ کرنے کے لئے آجاتے ہیں، شرارت کرجاتے ہیں، لوٹ مار کرجاتے ہیں۔ تو اس پر وہ جلوس نکالنے کا جن کا اِرادہ ہوتا ہے کہ پُرامن ہو ان کو آدمی Condemn (مذمت) نہیں کرسکتا۔ اسی طرح اس جنگ آزادی میں جن لوگوں نے اس کی قیادت کی اور جنہوں نے کہا کہ یہ جہاد ہے، آپ نے ان سب کو Condemn (مذمت) کیا اور کہا کہ ’’چور، قزاق، حرامی‘‘
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ۱؎ سب سے بڑی ہیراپھیری۔۔۔!
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
پتانہیں کیاکیا باتیں کیں۔ اس واسطے میں کہہ رہا ہوں اگر ان کو آپ Condemn (مذمت) کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے نہیں، کسی اور نے لوٹ مار کی، کسی اور نے قتل کیا، تو پھر لوٹ مار۔۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: اس کا تفصیلی جواب میں دے چکا ہوں۔ بات یہ ہے کہ اس وقت بہادر شاہ ظفر سمیت سب نے Condemn (مذمت) کیا۔
جناب یحییٰ بختیار: میں ان کی بات نہیں کر رہا، مرزا صاحب! ایک بادشاہ کو۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: نہیں، میں اس وقت کی بات کر رہا ہوں۔
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔ ہتھکڑی لگاکے بادشاہ کو لے جائیں تو اس کے بعد وہ سب کچھ کرے گا۔
مرزا ناصر احمد: اور جن کو ہتھکڑی نہیں لگی تھی انہوں نے بھی Condemn (مذمت) کیا۔
جناب یحییٰ بختیار: عدالت میں کیا، انگریز کے سامنے پیش کیا تھا۔
1315مرزا ناصر احمد: نہیں، نہیں، آپ وہ دیکھیں۔
جناب یحییٰ بختیار: آپ مغل خاندان سے ہیں۔ وہ مغل شہنشاہ تھا، آپ جانتے ہیں کہ کس حالت میں ان کو پیش کیا۔
مرزا ناصر احمد: مجھے اس کی نظمیں بھی بہت ساری پتا ہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: تو خیر، اس میں اس پر آرہا ہوں۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: یہ سرسیّد احمد، بانی دارالعلوم، ان کا ہے، اس وقت کی جو ہے، نہیں، علی گڑھ، بانی علی گڑھ۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: وہ سب ہم نے دیکھے ہیں، آپ نے سنائے بڑی تفصیل سے۔ مرزا صاحب! یہ میں نہیں کہہ رہا۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: اس تفصیل کے بعد مجھے سوال نہیں سمجھ آرہا۔
جناب یحییٰ بختیار: میں نے کہا اس پر Condemn (مذمت) کیا، تو یہ آزادی کی جو تحریک تھی ہماری پاکستان کی، میں اسی پر کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: میں جو چیز سمجھا نہیں میں وہ ظاہر کردوں۔ شاید مجھے جلدی جواب مل جائے۔۔۔۔۔۔۔ یہ ہے کہ اس وقت یہ جس کو ’’جنگ آزادی‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔ ہم کہہ رہے ہیں غدر۔ ان کے وہ کون سے لیڈر تھے جنہوں نے ان واقعات کو سراہا اور Condemn (مذمت) نہیں کیا! مجھے ان آدمیوں کے نام نہیں پتا۔ میں ممنون ہوں گا جب آپ یہ نام بتائیں گے۔
جناب یحییٰ بختیار: میں تاریخ سے ۔۔۔۔۔۔۔ میں آپ سے گزارش کر رہا ہوں، ایک Parallel (موازنہ) میں Draw کروں گا، یہ Parallal (موازنہ) ممکن ہے غلط ہوگا۔ آپ ٹھیک فرماتے ہوں گے کہ اس زمانے میں آزادی کی جنگ ہوئی، جس کو آپ ’’غدر‘‘ کہتے ہیں۔ بعض لوگوں نے اس کو ’’جہاد‘‘ کہا۔
1316مرزا ناصر احمد: کس نے؟
جناب یحییٰ بختیار: کئی لوگوں نے کہا۔
مرزا ناصر احمد: اس زمانے میں کہا؟
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، اس زمانے میں کہا۔
مرزا ناصر احمد: اس زمانے میں؟
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، اس زمانے میں۔
مرزا ناصر احمد: یہی میں کہتا ہوں ناں کہ اس زمانے کے جو لیڈر تھے جنہوں نے Condemn (مذمت) نہیں کیا، میرے ذہن میں کوئی نام نہیں ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: اچھا!
مرزا ناصر احمد: میں تو اَدب سے درخواست کر رہا ہوں کہ اگر مجھے نام ملیں تو میری معلومات میں اِضافہ ہوجائے گا۔
جناب یحییٰ بختیار: ٹھیک ہے۔ میں نے بھی انڈیا آفس میں کچھ اسٹڈی کی تھی کہ کتنے لیڈر گئے مسلمانوں کے، ایک دُوسرے کے پاس کہ یہ جہاد ہے، آپ کوشش کریں۔ یہ چیزیں ہیں۔ میں تفصیل میں جانا نہیں چاہتا۔ میں نے اس لئے عرض کردیا کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ نہیں کہا تو ٹھیک ہے۔ میری نظر میں کافیوں نے کہا تھا کہ یہ جہاد ہے اور اس کے لئے کوشش کی اور جہاد سمجھ کے لڑے وہ۔بہرحال سوال یہ ہے کہ اس میں آپ کہتے ہیں کہ لوگوں نے لوٹ مار کی، قتل وغارت کیا، ظلم کئے۔ ایک طبقے نے کئے۔ اس پر میں کہتا ہوں کہ آپ لیڈرشپ کو Condemn (مذمت) کریں گے؟
Mirza Nasir Ahmad: If they were under the guidence and directives of the leadership, the leaders should be condemned.......
(مرزا ناصر احمد: یہ سب لیڈران کی ہدایت اور حکم کے تحت ہوا۔ تو لیڈرشپ کی مذمت ہونی چاہئے)
1317جناب یحییٰ بختیار: اچھاجی، ٹھیک ہے۔
مرزا ناصر احمد: ۔۔۔۔۔۔اگر وہ آزاد تھے۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: ٹھیک ہے۔
مرزا ناصر احمد: اور لیڈرز کا کہنا نہیں مانتے تھے اور اپنے لیڈروں کی حکم عدولی کے نتیجے میں یہ مظالم کئے، جس کو آپ مظالم کہتے ہیں، تو پھر لیڈر بالکل وہ ہیں معصوم، ان کو کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
جناب یحییٰ بختیار: بس، نہیں، بالکل ٹھیک ہے، یہی میرا پوچھنا یہ تھا کہ بھئی تحریک پاکستان کے سلسلے میں۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: تحریک پاکستان کے سلسلے کی بات ہی نہیں کر رہا۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، میں۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: ۔۔۔۔۔۔ میں تو ۱۸۵۷ء کی بات کر رہا ہوں۔
جناب یحییٰ بختیار: مرزا صاحب! میں دونوں کا Parallel (موازنہ) اس لئے کر رہا ہوں کہ وہ بھی آزادی کی جنگ سمجھتا ہوں، میں اس کو بھی۔
مرزا ناصر احمد: میرے نزدیک تو کوئی Parallel (موازنہ) ہے ہی نہیں، کوئی مشابہت نہیں ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، نہیں، تو اَب میں اس لئے Parallel (موازنہ) آپ کے لئے واضح کرنا چاہتا ہوں کہ تحریک پاکستان کے دوران بھی، ہماری آزادی کے دوران بھی بعض لوگوں نے ظلم کئے اور اس کو۔۔۔۔۔۔ ایسے ظلم تھے کہ ہمیں شرم آتی ہے اس پر۔ حالانکہ ہندو نے بہت زیادہ ظلم کیا، بہت ہی زیادہ۔۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: بہت۔
جناب یحییٰ بختیار: اس پر کوئی نہیں۔ سکھوں نے بہت زیادہ ظلم کیا۔ مگر یہاں بھی غلطیاں ہوئی ہیں۔ تو اس کی وجہ سے میں یہ پوچھ رہا تھا کہ آپ لیڈرشپ کو نہیں Condemn (مذمت) کریں گے 1318کہ تحریک غلط تھی، یہ تحریک بھی غلط تھی۔ یا بالفاظِ دیگر، اگر ہم خدانہ کردہ فیل ہوجاتے تو آپ اس کو بھی غدر کہتے؟
مرزا ناصرا حمد: نہیں، یہ تو کوئی مسئلہ زیر بحث ہے ہی نہیں اور ’’اگر‘‘ کے ساتھ ہمیں بات ہی نہیں کرنی چاہئے۔ ورنہ پھر ’’اگر،اگر‘‘ کے ساتھ تو کہیں کے کہیں پہنچ جائیں گے۔
جناب یحییٰ بختیار: مرزا صاحب! اگر کی بات تو ہے یہ۔ کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آزادی کے لئے جنگ کی اجازت ہے، آپ کا عقیدہ دیتا ہے۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: پاکستان بننے کے لئے کوئی جنگ نہیں لڑی گئی۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، میں پہلے یہ سوال پوچھتا ہوں کہ آزادی کے لئے۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: نہیں، پھر Parallel (موازنہ) کیا، کیسے ہوگیا غدر کے ساتھ، جب پاکستان بننے کے لئے کوئی جنگ لڑی ہی نہیں گئی؟
جناب یحییٰ بختیار: آپ کہتے ہیں، خود ہی کہتے ہیں کہ کتنے ہزار لوگ قربان ہوئے، قربانیاں دی گئیں، لاکھوں مارے گئے۔
مرزا ناصر احمد: میں نے یہ کہا کہ قربانیاں دیں، میں نے یہ نہیں کہا جنگ لڑی گئی۔
(کیا ملکی آزادی کے لئے اسلام جنگ کی اجازت دیتا ہے؟)
جناب یحییٰ بختیار: میں آپ سے یہ سوال پوچھتا ہوں: کیا ملک میں آزادی پیدا کرنے کے لئے اسلام لڑائی کی اجازت دیتا ہے، جنگ کی اجازت دیتا ہے یا نہیں؟
مرزا ناصر احمد: حالات پر منحصر ہے، ساری چیزیں سامنے ہوں تو اِسلام اپنا۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: دیکھیں جی، میں دین میں دخل کے بارے کی بات نہیں کرتا۔ دیکھیں ناں، وہ تو آپ جہاں۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: نہیں، نہیں، میرا مطلب یہ ہے کہ دُنیا میں بھی پہلا بنیادی اُصول انسانی عقل نے یہ بنایا کہ آنکھیں بند کرکے فیصلے نہ دیا کرو۔
1319جناب یحییٰ بختیار: نہیں، مرزا صاحب! میں تو بالکل Simple (آسان) بات پوچھ رہا ہوں کہ اسلام کن حالات میں لڑائی کی اجازت دیتا ہے؟ ایک آپ نے بڑے واضح طور پر کہا کہ۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: نہیں، میں نے آپ کو اپنا نہیں، ایک اور فتویٰ چار شرائط جہاد کے بتائے تھے کل۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، میں وہی کہہ رہا ہوں کہ آپ نے کہا جہاں تک دِین کے معاملے میں دخل دیں، آپ کو اِجازت ہے کہ تلوار اُٹھائیں۔
مرزا ناصر احمد: وہ دِین کی لڑائی ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، دِین کی۔ اسی طرح میں یہ پوچھتا ہوں کہ کیا اگر ملک میں آزادی پیدا کرنے کے لئے لڑائی لڑی جائے، تلوار اُٹھائی جائے، اس کی اجازت ہے کہ نہیں؟
مرزا ناصر احمد: اس وقت اس بحث کی میرے نزدیک ہماری دُنیا میں ضرورت کوئی نہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: ہیںجی؟
مرزا ناصر احمد: ہماری اس دُنیا میں۔۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاںجی۔
مرزا ناصر احمد: ۔۔۔۔۔۔۔ جس میں آج ہم زندہ ہیں، یہ محض فلسفہ اور تھیوری ہے۔ یہ کوئی پریکٹیکل پرابلم نہیں، جس کے Solve کرنے کے لئے ہمیں تبادلہ خیال کرنا چاہئے۔
جناب یحییٰ بختیار: مرزا صاحب! اگر آپ کے ملک پر حملہ آور ہوتا ہے دُشمن، آپ اس کو نہیں ماریں گے؟
مرزا ناصر احمد: میں نے کب کہا ہے نہیں ماریں گے؟
جناب یحییٰ بختیار: دیکھیں ناں۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: میں نے تو یہ کہا ہے کہ آج دُشمن حملہ آور نہیں ہے ہمارے ملک پر۔
جناب یحییٰ بختیار: آج نہیں تو کچھ عرصہ پہلے تھا۔
مرزا ناصر احمد: جب تھا تو لڑے ہم، شہید ہوئے ہم، ہم سب کے ساتھ مل کے احمدی بھی۔
1320جناب یحییٰ بختیار: انگریز جو بیٹھا تھا تو وہ بھی ہمارے ملک پر بیٹھا تھا۔ اس کو ہٹانے کے لئے۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: اس کے ساتھ جنگ ہوئی نہیں، اور پاکستان مل گیا۔
جناب یحییٰ بختیار: اِجازت تھی کہ نہیں تھی؟
مرزا ناصر احمد: ہیں؟
جناب یحییٰ بختیار: اِجازت تھی کہ نہیں تھی؟
مرزا ناصر احمد: سوال ہی نہیں۔ عملاً اس کو جنگ کی ضرورت نہیں پڑی۔ آج ستائیس سال کے بعد پوچھتے ہیں کہ ستائیس سال پہلے جنگ لڑی جانی چاہئے تھی یا نہیں!
جناب یحییٰ بختیار: مرزا صاحب! میں یہ کہتا ہوں کہ آپ کے ملک پر کوئی قابض ہوجائے، ملک کو آزاد کرانے کے لئے اِجازت ہے کہ نہیں؟
مرزا ناصر احمد: یہ ’’اگر‘‘ کے ساتھ تو میرے ساتھ بات نہ کریں، اس واسطے کہ ’’اگر‘‘ کے اُوپر تو قیامت تک یہ مسئلہ حل نہیں ہونا۔ جو واقع ہے یا جو تعلیم ہے یا جو تعریف ہے کسی اسلامی کسی مسئلے کے متعلق، اس کے متعلق ہمیں بات کرنی چاہئے۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: اسلامی تعلیم۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: ۔۔۔۔۔۔ اور بات آپ کر رہے ہیں پاکستان بننے کی جس کے لئے جنگ لڑی ہی نہیں گئی اور اس کے بعد جو جنگیں ہوئی ہیں، وہ جنگ تھیں اور لڑنا چاہئے تھا ہمیں۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، میں سمجھتا ہوں کہ اگر جنگ لڑنی پڑے، اگر جنگ کرنی پڑے؟ ایک دفعہ میں نے اِشارہ کیا ڈائریکٹ ایکشن کا۔ آپ نے کہا نہیں وہ تو ۔۔۔۔۔۔۔ میں نے کہا، ٹھیک ہے، اس کو چھوڑ دیتے ہیں ہم۔ اگر جنگ لڑنی پڑے۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: اگر جنگ کی شرائط پوری ہوں تو وہ مؤمن ہی نہیں جو جہاد میں شامل نہیں ہوتا۱؎۔
1321جناب یحییٰ بختیار: مرزا صاحب! جہاد کا میں دِین کے معاملے میں نہیں کہہ رہا، آزادی کے معاملے میں۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: اچھا، اب میں ذرا وضاحت کردوں۔
جناب یحییٰ بختیار: میرے تصوّر میں مسلمان غلام ہو ہی نہیں سکتا۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: نہیں، بات سنیں ناں۔
جناب یحییٰ بختیار: … اس لئے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ لڑے اپنے آزادی کے لئے Constitutional means if possible; sword, if necessary. (آئینی ذرائع سے اگر ممکن ہو اور تلوار سے اگر ضروری ہو) میں اب … بالکل غلط عقیدہ ہوگا…
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ۱؎ اور جو: ’’دِین کے لئے حرام ہے جنگ اور قتال‘‘ تحفہ گولڑویہ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مرزا ناصر احمد: نہیں، نہیں، یہ تو آپ کا بڑا ٹھیک عقیدہ ہے۔ لیکن جب آپ کا سوال ختم ہوجائے تو میں جواب دے دُوں گا۔
جناب یحییٰ بختیار: تو میں یہ عرض کر رہا تھا کہ آپ سے میں باربار کہہ رہا ہوں کہ ملک میں آپ آزادی پیدا کرنے کے لئے اسلام لڑائی کی اجازت دیتا ہے یا نہیں؟
مرزا ناصر احمد: ختم ہوگیا سوال؟
جناب یحییٰ بختیار: ہاںجی۔
مرزا ناصر احمد: تشریف رکھیں۔ ملک میں آزادی پیدا کرنے کے لئے ۔۔۔۔۔۔ وہ ملک کیا ہوا جس میں آزادی کوئی نہیں؟ پہلا سوال۔ ابھی میں نے ۔۔۔۔۔۔ جواب دے رہا ہوں۔ ہوں۔ اس شکل میں، اگر ملک میں آزادی نہیں، سوال یہ ہے کہ وہ حکومت اپنے ملک کی ہے یا باہر ملک سے لوگ آئے ہوئے ہیں؟ تو یہ کرنا پڑے گا ناں۔
جناب یحییٰ بختیار: باہر کے لوگ آئے ہیں، باہر کی بات کر رہا ہوں، ناںجی، ایوب خان کے مارشل لاء کی بات نہیں کر رہا ہوں۔
1322مرزا ناصر احمد: ہاں، یہ، یہی باتیں نہیں سمجھے، یہی، میں اس واسطے کہہ رہا تھا کہ بعض پہلو واضح نہیں ہیں۔ پاکستان میں پاکستان بننے کے بعد کوئی باہر سے آکے یہاں حکمران نہیں بنا۔ اس لئے یہ سوال ایسا ہے کہ جس کے جواب دینے کی مجھے ضرورت کوئی نہیں۔
(انگریز کے وقت اسلام جنگ کی اجازت دیتا تھا یا نہیں؟)
جناب یحییٰ بختیار: اس سے پہلے جب انگریز بیٹھا تھا، کیا اسلام جنگ کی اجازت دیتا تھا یا نہیں؟
مرزا ناصر احمد: Minority (اقلیت) کو، یا Majority (اکثریت) کو؟
جناب یحییٰ بختیار: جب ہم غلام تھے۔
مرزا ناصر احمد: جمہوریت کے زمانے میں یہ اجازت Minority (اقلیت) کو تھی، یا Majority (اکثریت) کو تھی؟
جناب یحییٰ بختیار: جس علاقے میں جو اکثریت تھی میں ان کی بات کر رہا ہوں۔ اگر ان کو لڑنا پڑتا، ہندو کے خلاف لڑنا پڑتا، یا انگریز کے خلاف لڑنا پڑتا، یا دونوں کے خلاف۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: ماضی کی بات۔ جو واقعہ ہوا ہی نہیں اس کے متعلق جب بات کریں گے تو اس کا فائدہ ہی کوئی نہیں۔ آئندہ کے متعلق جب آپ بات کریں تو پھر تو ہوسکتا ہے کہ سوچ لیں۔
جناب یحییٰ بختیار: مرزا صاحب! Majority (اکثریت) اور Minority (اقلیت) اگر دونوں مل جائیں تو۔۔۔۔۔۔
Mr. Chairman: The Attorney-General may go on to the next question. The witness is not prepared to answer this question.
(جناب چیئرمین: اٹارنی جنرل اگلا سوال کریں، گواہ اس سوال کا جواب دینے پر آمادہ نہیں)
Mr. Yahya Bakhtiar: Sir, I will repeat once again.
(جناب یحییٰ بختیار: جنابِ والا! میں ایک مرتبہ پھر سوال دُہراؤں گا)
Mr. Chairman: No, no, the witness is not prepared to answer this question.
(جناب چیئرمین: نہیں، نہیں، گواہ اس سوال کا جواب دینے پر آمادہ نہیں)
Mr. Yahya Bakhtiar: Sir, I will repeat once again.
(جناب یحییٰ بختیار: جنابِ والا! میں ایک مرتبہ پھر دُہراؤں گا)
Mr. Chairman: The witness has tried to go away from it in replying.......
(جناب چیئرمین: گواہ نے جواب دینے سے اِجتناب کیا ہے۔۔۔۔۔۔)
1323Mr. Yahya Bakhtiar: I am going to repeat it again. (جناب یحییٰ بختیار: میں پھر دُہراتا ہوں)
Mr. Chairman: It has gone on the record. Yes, another question.
(جناب چیئرمین: یہ بات ریکارڈ میں آچکی ہے، اگلا سوال کریں)
Mr. Yahya Bakhtiar: I am going to repeat this question in a different form.
(جناب یحییٰ بختیار: میں پھر دُہراتا ہوں ایک دُوسری شکل میں)
Mr. Chairman: This question was repeated twenty times, but the witness has not replied this question.
(جناب چیئرمین: یہ سوال بیس مرتبہ پوچھا گیا، مگر گواہ نے جواب نہیں دیا)
Mr. Yahya Bakhtiar: In a different form.
(جناب یحییٰ بختیار: یہ ایک دُوسری شکل میں ہے)
Mr. Chairman: No. Next question. It has gone on the record.
(جناب چیئرمین: نہیں، اگلا سوال کریں، یہ بات ریکارڈ پر آچکی ہے) (Pause)