• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

"آیات ختم نبوت" ازمولانا سیفُ الرحمٰن صاحب حفظہُ اللہ تعالی

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
نماز سے ختم ِ نبوت کی دلیل

حدیث پاک میں اسلام کا دوسرا رکن نماز کو بتایا اور نمازمیں کہا جاتا ہے{ أَشْہَدُ أَن لَّااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ } یعنی حضرت محمد رسول اللہ ﷺ ہی کی نبوت کی گواہی دی جاتی ہے اور یہ بات عنقریب آجائیگی کہ بیت اللہ حضرت خاتم النبیینﷺ کا پسندیدہ قبلہ ہے نماز میں اس کی طرف رخ کرنا ختمِ نبوت کی دلیل ہے اگر کسی اور نبی کو آنا ہوتا تو اذان ، اقامت اور نماز کے ذریعے حضرت محمد ﷺ ہی کی رسالت کا اعلان نہ کرایاجاتا اور نہ ہی رخ کرنے کیلئے آپ ﷺ کے پسندیدہ قبلہ کا انتخاب کیا جاتا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
حج سے ختم ِ نبوت کی دلیل

حدیث پاک میں اسلام کا ایک رکن حج کو بتایا۔ سب جانتے ہیں کہ حج بیت اللہ کا کیا جاتاہے۔ حج کی نسبت خانہ کعبہ کی طرف ہے ارشاد فرمایا { وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا }(آل عمران آیت نمبر۹۷)
’’اور اللہ کے لئے لوگوں کے اوپر حج کرنا ہے اس گھر کا جو قدرت رکھتا ہو اس کی طرف راہ چلنے کی‘‘
نیز فرمایا{ إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِن شَعَآئِرِ اللّہِ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْْہِ أَن یَطَّوَّفَ بِہِمَا } (سورۃ البقرۃ آیت نمبر۱۵۸)
بے شک صفا مروہ اللہ کی نشانیوں سے ہیں سو جو کوئی بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے تو اس پر کچھ گناہ نہیں کہ ان کے چکر کاٹے‘‘
نیز حج و عمرہ میں احرام اورطواف کے ساتھ دو دو رکعت پڑھی جاتی ہیں اور قعدہ میں مذکورہ بالا کلمئہ شہادت { أَشْہَدُ أَن لَّااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ } پڑھا جاتاہے۔ معلوم ہوا کہ اسلام کا یہ رکن بھی ختم نبوت کی گواہی دیتا ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
زکوۃ اور روزے سے دلیلِ ختم ِ نبوت

زکوۃ اور روزہ سے ختم نبوت پر استدلال ایک تو یوں ہے کہ حضرت نانوتویؒ کے کہنے کے مطابق چار ارکانِ اسلام میں اـصل نماز اور حج ہے ، زکوۃ نماز کا مقدمہ اور روزہ حج کی تیاری ہے اور نماز اور حج ختم نبوت کی دلیل ہیں تو یہ زکوۃ اور روزہ عقیدئہ ختم نبوت کی فرع ہوئے۔
حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے کلام کاخلاصہ یوں ہے کہ کلمہ طیبہ کے بعد ارکان اسلام چار ہیں نماز، ر وزہ ، حج اور زکوۃ مگر دو ارکان (نماز اورحج)اصل ہیں اور دو (زکوۃ اور روزہ) ان کے تابع چنانچہ نماز اصل ہے او زکوۃ اس کے تابع کیونکہ نماز کا تعلق براہ راست حق تعالیٰ سے ہے اور وہ اس کے دربار کی حاضری اور اس کی تعظیم اور اس سے عرض معروض کا نام ہے اور زکوۃ کا تعلق بلا واسطہ محتاجوں اور فقراء سے ہے پس نماز کے مقابلہ میں زکوۃ ایسی ہے جیسے کوئی بادشاہ اہل دربار کو اپنے دربار میں پانچ وقت حاضری کا حکم دے اوریہ بھی حکم دے کہ ہماری طرف سے جو انعامات وصلات تم کو وقتاً فوقتاً ملے ہیں کچھ ہماری غریب رعایا کو بھی دو جو دربار کے راستہ میں خیرات کے موقع پر بیٹھ جاتے ہیںسوظاہر ہے کہ حاضریٔ دربار مقصود ہے اور صدقہ خیرات اس کے تابع، یہی وجہ ہے کہ حق تعالیٰ نے تقریبا ًہر جگہ قرآن میں زکوۃ کو نماز کے بعد بیان فرمایا ہے کسی جگہ فرمایا { یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ }اورکہیں فرمایا{ أَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَآتُوا الزَّکٰوۃَ }
اس طرح حج کا تعلق براہِ راست حق تعالیٰ سے ہے کیونکہ اس میں محبوب کے درِ دولت پر حاضر ہوکر اپنے عشق ومحبت کا اظہار ہے اور روزہ ان نفسانی خواہشات کو توڑتا ہے جو اس عشق ومحبت سے مانع ہیں اور اس سے پیدا ہونے والی خامیوں کو دور کرتا ہے اسی لئے روزے تیس یعنی پورے مہینے کے مقرر کئے گئے اور حج کا وقت رمضان کے بعد سے شروع کیا گیا کیونکہ ذو الحجہ سے رمضان تک دس مہینے ہوتے ہیںپس ہر مہینے کے لئے تین مسہل روزے تجویز کئے گئے اس ان سب کو ایک مہینہ میں (یعنی رمضان میں ) جمع کردیا گیا کہ تیس روزے فرض کر دیئے گئے تاکہ دس مہینوں میں جس قدر نفسِ امارہ کی وجہ سے عشق ومحبت کے جذبات میں خامی اور خلل آگیاہے ان روزوںسے اس کی تلافی ہوجائے اور وہ اس قابل ہوسکے کہ محبوب کے درِ دولت پر حاضر ہوکر صحیح طور پر اپنی محبت کا اظہار کرسکے اور جب رمضان کے روزوں سے وہ حاضری کے قابل ہوگیاتو اب یکم شوال سے اس کو اجازت ہوئی کہ اب آئو اور آکر اپنی محبت کا اظہار کرویعنی اس وقت سے حج کا وقت شروع ہوگیااور اس کی ایسی مثال سمجھو جیسے بادشاہ اپنے اہل دولت کو جشنِ شاہی کی شرکت کے لئے دعوت دے اور اس کے ساتھ یہ بھی حکم دے کہ سب لوگ خوب نہا دھو کر اور اعلیٰ خوشبوئیں لگا کر اور عمدہ پوشاکیں پہن کر غرض پوری طرح شرکت جشن کے قابل ہوکر شریک جشن ہوں سو ظاہر ہے کہ اصل چیز شرکت ِ جشن ہے اور باقی امور اس کے تابع، جب یہ بھی ذہن نشین ہو گیااور معلوم ہوگیا کہ نماز اور حج ارکان مقصودہ ہیں اور زکوۃ اور روزہ ان کے تابع الخ(ازارواح ثلاثہ ص۲۴۲،۲۴۳)
جب ارکانِ اسلام ختم نبوت کی دلیل ٹھہرے توجتنی آیات واحادیث ارکان اسلام (نماز روزہ زکوۃ اور حج) کیلئے ہوں گی ان کو ختم نبوت کے اثبات کے لئے پیش کرنا بالکل بجا ہوگا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
نماز اور زکوۃ عقیدئہ ختم نبوت کی فرع ہیں

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے
أَنَّ النَّبِیَّ ﷺ بَعَثَ مُعَاذً ا اِلَی الْیَمَنِ فَقَالَ ادْعُہُمْ اِلٰی شَہَادَۃِ أَن لَّااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَأَنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ فَاِنْ ھُمْ أَطَاعُوْا لِذٰلِکَ فَأَعْلِمْہُمْ أَنَّ اللّٰہَ افْتَرَضَ عَلَیْہِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِیْ کُلِّ یَوْمٍ وَلَیْلَۃٍ فَاِنْ ھُمْ أَطَاعُوْا لِذٰلِکَ فَأَعْلِمْہُمْ أَنَّ اللّٰہَ افْتَرَضَ عَلَیْہِمْ صَدَقَۃً فِیْ أَمْوَالِہِمْ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِیَائِہِمْ وَتُرَدُّ فِیْ فُقَرَائِہِمْ
(بخاری طبع کراچی ج۱ص۱۸۷)
دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں
اِنَّکَ تَأْتِیْ قَوْمًا أَھْلَ الْکِتَابِ فَادْعُہُمْ اِلٰی شَہَادَۃِ أَن لَّااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ فَاِنْ ھُمْ أَطَاعُوْا لِذٰلِکَ فَأَعْلِمْہُمْ أَنَّ اللّٰہَ قَدْ فَرَضَ عَلَیْہِمْ خَمْسَ صَلٰوَاتٍ فِی الْیَوْمِ وَاللَّیْلَۃِ فَاِنْ ھُمْ أَطَاعُوْا لِذٰلِکَ فَأَعْلِمْہُمْ أَنَّ اللّٰہَ قَدْ فَرَضَ عَلَیْہِمْ صَدَقَۃً تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِیَائِہِمْ فَتُرَدُّ عَلٰی فُقَرَائِہِمْ فَاِنْ ھُمْ أَطَاعُوْا لِذٰلِکَ فَاِیَّاکَ وَکَرَائِمَ أَمْوَالِہِمْ وَاتَّقِ دَعْوَۃَ الْمَظْلُوْمِ فَاِنَّہٗ لَیْسَ بَیْنَہَا وَبَیْنَ اللّٰہِ حِجَابٌ متفق علیہ
(مشکوۃ المصابیح ص۱۵۵)
ترجمہ:’’ رسول اللہ ﷺ نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف بھیجا تو آپ نے فرمایا تھا کہ تو اہل کتاب کی ایک قوم کی طرف جا رہا ہے ان کو دعوت دے کہ وہ لوگ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَأَنَّ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کی گواہی دیں اگروہ اس میں آپ کی اطاعت کرلیں( یعنی اللہ کی وحدانیت اور محمد ﷺکی رسالت کی گواہی دے دیں)تو ان کو بتا کہ اللہ نے ان پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں اگر وہ اس میں تیری بات مان لیں توان کو بتا کہ اللہ نے ان پر ایک صدقہ فرض کیا ہے جو ان کے مالداروں سے لیا جائے گا اور ان کے غریبوں پر لوٹا دیاجائے گا پھر اگر وہ تیری اس میں اطاعت کرلیں تو ان کے عمدہ مالوں سے بچ اور مظلوم کی بد دعا سے بچ اس لئے کہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہے‘‘۔
دیکھا آپ نے نماز اورزکوۃ کی فرضیت ہی تب ہوتی ہے جب حضرت محمد ﷺ کی نبوت ورسالت کا اقرار کیا جائے کسی اور نبی کا یہاں بھی کوئی ذکر نہیں ،معلوم ہوا کہ جو نبی ﷺ کے بعد کسی اور کی نبوت کاقائل ہے اس سے نہ زکوۃ لی جائے گی نہ اس کو زکوۃ دی جائے گی۔ پھر نماز سے پہلے ایک مرتبہ کلمئہ اسلام کافی ہے جس کو پڑھ کر انسان اسلام میں داخل ہوتا ہے جبکہ زکوۃ کی فرضیت کے لئے یہ کلمہ کم از کم دو مرتبہ ضروری ہے ایک اسلام میں داخل ہوتے وقت دوسرے جب انسان نماز میں اس کو پڑھتا ہے کہتا ہے أَشْھَدُ أَن لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ کیونکہ اس حدیث پاک میںزکوۃ کی فرضیت بتانے سے قبل ان کے نماز ی ہونے کاذکر ہے کہ جب وہ نماز پڑھنے میں اطاعت کرلیں تو ان کو زکوۃ کی فرضیت کابتانا۔پھر اس حدیث میںیہ توبتایا کہ جب وہ زکوۃ دینے لگیں تو اونٹ وغیرہ کی زکوۃ میں درمیانے درجہ کا جانور لینا اعلیٰ لے کر ظلم نہ کرنا۔ مگر اس حدیث میں یہ نہ بتایا کہ فلاں موقعہ پر کوئی اور نبی بھی آئے گا اس کی بھی اطاعت کرنا۔الغرض یہ حدیث کئی وجہ سے ختم نبوت کی دلیل ہے ۔ لہذا زکوۃ نہ مرزائی سے لی جائے نہ اسے دی جائے اگرچہ وہ کتنا ہی غریب ہو۔ اگر ان کی کوئی تنظیم زکوۃ کی وصولی یا تقسیم کا کام کرے تو اس سے مسلمانوں کو مکمل بائیکاٹ ضروری ہے۔ مرزائی نہ مسجد بنائیں نہ ان کا مسلمانوں کی مسجد میں کوئی حق ہے
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
روزے کاعقیدئہ ختم نبوت سے تعلق

روزے کے حکم سے ختمِ نبوت کا ارتباط ایک تو اس طرح ہے کہ روزہ اس ماہ کا فرض ہوا جس میں قرآن نازل ہوا اور قرآن کریم کی حفاظت ختمِ نبوت کی دلیل ہے اگر کسی اور نبی کو آنا ہوتا اور اس پر وحی بھی نازل ہوئی ہوتی تو روزے اس مہینے کے بھی دیئے جاتے نیز روزے کی فرضیت والی آیت میں فرمایا{ یَاأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ } (البقرۃ آیت نمبر۱۸۳)’’ اے لوگو جو ایمان لائے لکھا گیا تم پر روزہ جیسا کہ لکھا گیا تم سے پہلوں پر‘‘ ایک تو اس میں ایمان والوں کو روزے کا حکم دیا گیا اور ایمان ویسا ہی قابل قبول ہے جیسے صحابہ کا تھا ارشاد فرمایا{ فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَا اٰمَنْتُمْ بِہٖ فَقَدِ اھْتَدَوْا } (البقرۃآیت نمبر۱۳۷) ’’ اگر وہ ایمان لائیں جیسے تم ایمان لائے ہوتو وہ ہدایت پاگئے‘‘۔اور صحابہ کرام تو نبی ﷺ کو خاتم النبیین ہی مانتے تھے جیسا کہ عنقریب آرہا ہے معلوم ہوا کہ روزے کا حکم ختم نبوت کا عقیدہ رکھنے والوں کے لئے ہی ہے نیز اس آیت میں فرمایا گیا کہ روزے کا حکم ایسے جیسے پہلوں کو دیاگیا بعد والے کسی کو کوئی ذکر نہیں اگر بعد میںکسی نبی نے آنا ہوتاتو کہیں کسی انداز میں تو اس کا ذکر ہوتا ۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
منکرین ِ ختمِ نبوت کے اعمال بیکار ہیں

حاصل یہ کہ اسلام کی بنیاد جن پانچ چیزوں پر ہے وہ ساری کی ساری ختم نبوت کی محکم دلیل ہیں۔ مرزائی ان ارکان سے دستبردار ہوجائیں اور اگر ان سے دستبردار نہیں ہوتے تو بھی ان ارکان سے ان کو آخرت میں کچھ حاصل نہ ہوگا۔ وہ اس کا مصداق ہوں گے { اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُہُمْ فِی الْـحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَھُمْ یُحْسِبُوْنَ أَنَّہُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا } (الکہف آیت نمبر۱۰۴) (وہ لوگ جن کی کوشش دنیا کی زندگی میں ضائع ہوگئی اور وہ گمان کرتے ہیں کہ وہ اچھا کام کررہے ہیں) دوسری جگہ فرمایا{ کَذٰلِکَ یُرِیْہُمُ اللّٰہُ أَعْمَالَہُمْ حَسَرَاتٍ عَلَیْہِمْ وَمَا ھُمْ بِخَارِجِیْنَ مِنَ النَّارِ } (البقرۃآیت نمبر۱۶۷)(اسی طرح اللہ تعالیٰ ان کو ان کے اعمال حسرت بنا کر دکھائے گا اور وہ لوگ آگ سے نکلنے والے نہیں ہیں)
حضرت نانوتویؒ کے کلام سے استہشاد کے بعد ہم کہہ سکتے ہیں اب آئندہ جتنے دلائل آئیں گے یوں سمجھئے کہ وہ حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ تعالیٰ کے منشا کے مطابق ہیں اورحضرت رحمہ اللہ تعالیٰ کی تائید ان کو حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ دنیا آخرت میں ہمیں اپنے مقبول ومقرب بندوں کا ساتھ نصیب فرمائے آمین۔اس کے بعد اگلے صفحے سے حسب ِ وعدہ وہ تقریر دی جاتی ہے جس کا موضوع ہے سیرۃ النبی ﷺ سے ختم ِ نبوت کے دلائل۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تیسری فصل
ختم نبوت کے موضوع پراردو تقریر

’’ شَوَاہِدُ خَتْمِ النُّبُوَّۃِ مِنْ سِیْرَۃِ صَاحِبِ النُّبُوَّۃِ ﷺ ‘‘
یعنی
’’ عقیدئہ ختم نبوۃ سیرۃ النبی ﷺ کی روشنی میں‘‘
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَکَفیٰ ، وَسَلَامٌ عَلیٰ عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفیٰ! أَمَّّا بَعْدُ ، فَقَدْ قَالَ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالیٰ فِی الْکَلَامِ الْمَجِیْدِ وَالْفُرْقَانِ الْحَمِیْدِ أَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مَاکَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِِّیْنَ وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمًا (الاحزاب : ۴۰)’’محمد تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں اور لیکن اللہ کے رسول ہیں اور آخری نبی ہیں اور اللہ سب کچھ جانتے ہیں‘‘ وَقَالَ النَّبِیُّ ﷺ أَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ ( ابو داود ج۲ ص۲۴۲) میں آخری نبی ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں أَوْ کَمَا قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ ِ ﷺ ۔
صاحب صدر معزز مہمانان گرامی قدر معزز اساتذہ کرام
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ
آپ سب کا شکریہ کہ تم نے اس بابرکت پاکیزہ منفرد یکتا بلکہ برکت ورحمت سے بھری مجلس میں حاضر ہوکر ہمیں شرف بخشا ایسی محفل جو اپنے موضوع میں یکتا ہے ۔ یہ تقریر اس بات کے ارد گرد گھومتی ہے کہ ختم نبوت کا عقیدہ نبی کریم ﷺ کی سیرت کے ساتھ کس طرح جڑا ہوا ہے۔ کچھ دلائل اس کے علاوہ بھی دیئے جائیں گے یہ حقیقت یہ کہ مسلمانوں کا ختم نبوت پر اس وقت سے ایمان ہے جب سے کہ وہ اسلام میں داخل ہوئے۔ اس بارے میں کچھ دلائل پیش خدمت ہیں غور سے سماعت فرمائیںاور مناسب آواز کے ساتھ آپ بھی میرے ساتھ ساتھ درود شریف پڑھتے جانا۔
یَارَبِّ صَلِّ وَسَلِّمْ دَائِمًا أَبَدًا

عَلیٰ حَبِیْبِکَ خَیْرِ الْخَلْقِ کُلِّھِمٖ
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
پہلی دلیل: نبی آخر الزمان ﷺ کا انتظار اہل کتاب آخری نبیﷺ کے وسیلے سے دعا کرتے تھے

اُس زمانے میں اہل کتاب آخری نبی کے آنے کا انتظار کرتے تھے ارشاد باری تعالیٰ ہے :{ وَلَمَّا جَآئَ ھُمْ کِتٰبٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَھُمْ وَکَانُوْا مِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَی الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَلَمَّا جَآئَ ھُمْ مَّاعَرَفُوْا کَفَرُوْا بِہٖ فَلَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکٰـفِرِیْنَ }(البقرۃ :۸۹)اور جب ان کے پاس وہ کتاب آئی جو اس کی تصدیق کرتی تھی جو ان کے پاس ہے اور وہ اس سے پہلے فتح مانگا کرتے تھے کافروں پر تو جب آئی ان کے پاس وہ جس کو انہوں نے پہچانا تو اس کا انکا رکیا پس لعنت ہے کافروں پر۔
علماء تفسیر نے یہ بات ذکر کی کہ اللہ تعالیٰ کے قول{ یَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَی الَّذِیْنَ کَفَرُوْا }کا معنی یہ ہے کہ وہ کافروں پر فتح مانگا کرتے تھے کہا کرتے تھے{ اَللّٰھُمَّ انْصُرْنَا عَلَیْہِمْ بِالنَّبِیِّ الْمَبْعُوْثِ آخِرَ الزَّمَانِ }(اے اللہ ہماری ان پر مدد فرمایا اس نبی کی برکت سے جس کو آخری زمانہ میں بھیجا جائے گا)
(دیکھئے تفسیر جلالین ص۱۹)
مفتی اعظم مفتی محمد شفیع ؒ لکھتے ہیں یہودی حضرت خاتم الانبیاء ﷺ کا ساتھ دینے کی نیت سے شام سے مدینہ آئے تھے ان کو پتہ تھا کہ آپﷺ ہجرت کرکے مدینہ آئیں گے لیکن حسد کرگئے کہ آپ ﷺان کے خاندان سے نہیں
(معارف القرآن ج۷ ص۷۷۰ ،ج۸ص۳۵۸)
اور جب یہود کو اول دن سے پتہ تھا کہ آپﷺ خاتم النبیین ہیں تو لامحالہ نبی ﷺ کوبھی شروع نبوت سے اپنے خاتم النبیین ہونے کا علم تھااب ختم نبوت کا عقیدہ نبی ﷺ پر ایمان لانے سے کیسے جدا ہوسکتا ہے جبکہ یہ عقیدہ نبی ﷺ کی آمد سے قبل ہی معروف تھا۔نبی کریم ﷺ کے بعد امت کو اول تو تیس کذابین کا خطرہ رہا ان کے بعد جب دجال آئے گا تو عیسی علیہ السلام کا انتظارکریں گے کسی نئے نبی کا انتظار اس امت کو کبھی نہ ہوا۔
یَارَبِّ صَلِّ وَسَلِّمْ دَائِمًا أَبَدًا
عَلیٰ حَبِیْبِکَ خَیْرِ الْخَلْقِ کُلِّھِمٖ
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
دوسری دلیل : وضو ختم نبوت کی دلیل ہے ، وضو کے بعد کلہ شہادت سے جنت میں داخلہ

جنت کی چابی نماز ہے اور نماز کی چابی وضو۔اور جس دن پہلی وحی نازل ہوئی اسی دن نبی کریم ﷺ کو نماز او روضو کا طریقہ سکھایا گیا (مسند احمد ج۴ص۱۶۱ مشکوۃص۴۳) قرآن پاک کی سورۃ النساء اور سورۃ المائدۃ میں وضو کا حکم موجودہے۔اور وضوکے فضائل و مسائل پر تو اچھی خاصی احادیث پائی جاتی ہیں۔
اوروضو ختم نبوت کی بڑی مضبوط دلیل ہے وہ اس طرح کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایاجوشخص اچھی طرح وضوکرے اس کے بعدکہے { أَشْھَدُاَنْ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وأَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدََا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ } اس کے لئے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیئے جاتے ہیں جس سے چاہے داخل ہو(مسلم طبع ہندج۱ص۱۲۲،مسلم بتحقیق فواد عبد الباقی ج۱ص۲۱۰)اور وضو جیسے آپ ﷺ کے زمانے میں تھا آج بھی ہے اور وضو کے بعد اس کلمہ شہادت کو پڑھنے کی فضیلت جیسے اس زمانے میں تھی آج بھی ہے ۔اگر نبی ﷺ کے بعد کسی اور نبی کو آنا ہوتا تو پھر وضو کے بعدکوئی ایسا کلمہ دیا جاتا جس میں آنے والے نبی کا بھی ذکرہوتا۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ نبی تو نیا آجائے مگر جنت میں داخلہ اس کی نبوت کی شہادت کے بغیر ہوجائے جنت میں داخل ہونے کیلئے اس پرایمان لانا ضروری نہ ہو؟ہر مسلمان جانتاہے کہ کسی کو نبی اس لئے مانا جاتا ہے کہ اگر نبی نہ مانیں تو دوزخ میں جانا پڑے گا اور یہ بات سمجھ آگئی کہ جنت میں جانے کے لئے نبی کریم ﷺ کی نبوت کی شہادت کافی ہے۔قادیانی کو ماننے کی کوئی ضرورت نہیں۔
مرزائی کہہ دیتے ہیں کہ ہم قادیانی کو ظلی بروزی نبی مانتے ہیں مستقل نبی نہیں مانتے ارے یہ تو بتائو اس کو مان کر ملتاکیاہے ؟اگر جنت کیلئے ماننا ہے تو جنت تو اس کو مانے بغیر مل رہی ہے اور اگرکوئی اور مقصد ہے تو واضح کرو مگر اتنی بات یادرکھو کہ جنت کے کل آٹھ دروازے ہیں اور جنت کے آٹھوں دروازے تو باوضو ہوکرحضرت محمد ﷺ کی نبوت کی گواہی دینے والوں کے لئے کھلتے ہیں قادیانی کو ماننے والوں کے لئے جنت کا کوئی دروازہ نہیں بچا البتہ دوزخ کے ساتوں دروازے باقی ہیںجس کو چاہیںمنتخب کرلیں وَالْعِیَاذُ بِاللّٰہِ ۔

یَارَبِّ صَلِّ وَسَلِّمْ دَائِمًا أَبَدًا
عَلیٰ حَبِیْبِکَ خَیْرِ الْخَلْقِ کُلِّھِمٖ
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
تیسری دلیل : نماز سے ختم نبوت پر استدلال، نماز میں نبی ﷺ کی رسالت ہی کا ذکر ہے

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ جب پہلی وحی نازل ہوئی توحضرت جبرئیل علیہ السلام آپ ﷺ کے پاس آئے اور آپ کو وضو اور نماز کا طریقہ سکھایا (مسند احمد ج۴ص۱۶۱ مشکوۃص۴۳)
نماز سے ختم نبوت پر استدلال اس طرح ہے کہ نمازمیں درج ذیل کلمہ شہادت پڑھنے کا نبی ﷺ نے حکم دیا{ أَشْھَدُاَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ }(بخاری طبع کراچی ج۱ص۱۱۵،بخاری بتحقیق فؤادعبدالباقی ج۱ص۲۶۹،مسلم ج۱ص۱۷۳،۱۷۴طبع ہندمسلم بتحقیق فؤاد عبدالباقی ج۱ص۳۰۲،۳۰۴) اگر کسی اور نبی کو آنا ہوتا تو اللہ تعالیٰ وضو اور نماز کے ذریعے آپ کی نبوت کا اعلان نہ کرواتااور یا ایسے وضو اور نماز کو دنیا سے اٹھا دیتا جس میں آپ ﷺ کی نبوت کا اعلان ہے بعد میں آنے والے کا نہیں اور یا اللہ تعالیٰ ایسا کلمہ عطا فرماتے جس میں آنے والے کا بھی ذکر ہوتا۔ حاصل یہ کہ کلمہ اور درود شریف پر مشتمل نماز ختم نبوت کی روشن دلیل ہے۔قادیانی کہتے ہیںہم مسلمانوں کی طرح نماز پڑھتے ہیں ہم کا فر کیسے ؟ ظالمو! یہ نماز ہی تو تمہارا رد کررہی ہے ۔جس طرح فجر کی دو کی جگہ تین رکعتیں پڑھنے والا گمراہ ہے اسی طرح نماز میںأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ کہنے کے بعد مسیلمہ کذاب یا قادیانی کو نبی ماننے والا دائرہ اسلام سے خارج ہے۔

یَارَبِّ صَلِّ وَسَلِّمْ دَائِمًا أَبَدًا
عَلیٰ حَبِیْبِکَ خَیْرِ الْخَلْقِ کُلِّھِمٖ
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top