ترک مرزائیت
۱۹۳۱
کے وسط میں میں نےیکے بعد دیگرے متعدد خواب دیکھے جن میں مرزغلام احمد کی نہایت گھناؤنی شکل دکھائی دی ـ اور اسے بری حالت میں دیکھا ـ میں یہ خواب مرزائیوں سے بیان نہ کر سکتا تھا ، کیونکہ اگر انہیں خواب سنائے جاتے تو وہ مجھے کہتے کہ یہ شیطانی خواب ہیں نہ ہی کسی مسلمان کو یہ خواب سنا سکتا تھا کیونکہ اگر انہیں یہ خواب سنائے جاتے تو وہ کہتے کہ مرزا غلام احمد قادیانی اپنے تمام دعاویٰ میں جھوٹا ہے- مرزائیت سے توبہ کر لیجئے ، میری یہ حالت تھی
دو گونہ رنج و عذاب است جان مجنوں را
بلائے --فرقت لیلی ٰ--و صحبت لیلی ٰ
اگرچہ پہلے بھی مرزا احمد کے بعض الہامات اور چند پیشنگوئیاں مجھے میرے دل میں کانٹے کی طرح کھٹکتی تھیں ـ لیکن حسن عقیدت اور غلو محبت کی طاقتیں ان خیلات کو فورا دبا دیتی تھیں اور دل کو تسلی دے دیتا تھا کہ مرزا نبی تو نہیں کہ جس کے تمام ارشادات صحیح ہوں ـ ان خوابوں کی کثرت سے متاثر ہو کر میں نے غور و فکر کیا کہ ہمارے خوابوں پر دین کا مدار نہیں اور نہ ہی یہ حجت شرعی ہیں لیکن ان سے سداقت کی طرف رہنما ئی تو ہو سکتی ہےـ آخر میں نے فیصلہ کیا کہ مرزا غلام احمد قادیانی کی محبتو عداوت دونوں کو بالائے طاق رکھ کر ان سےصرفِ نظر کرتے ہوئے مرزائیت کے صدق و کذ ب کو تحقیقات کی کسوٹی پر پرکھنا چاہیے ـ خدائے واحد و قدوس کو حاضر ناظر سمجھتے ہوئے یہ اعلان کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ میں نے مرزا احمد کی محبت و عداوت کو چھوڑ کر اور خالی الذہن ہو کر مرزا کی اپنی مشہور تصنیفات اور قادیانی و لاہوری ہر دو فریق کی چیدہ چیدہ کتابوں کو جو مرزا کے دعاویٰ کی تائید میں لکھی گئی تھیں ـ چھ ماہ کے عرصہ میں عرصہ میں نظر غائر سے بطور محقق کے پڑھا اور علمائے اسلام کی تائید مرزائیت کے سلسلہ میں چند کتابیں مطالعہ کیں ـ
حقیقت یہ ہے کہ جتنا زیادہ میں نے مطالعہ کیا اتنا ہی مرزائیت کا کذب مجھ پر واضح ہوتا گیا ـ یہاں تک کہ مجھے یقین کامل ہو گیا کہ مرزا غلام احمد قادیانی اپنے دعویٰ الہام ، مجددیت، مسیحت ، نبوت وغیرہ میں مفتری تھا ـ میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ حضور رسالت مآب ﷺ آخری نبی ہیں ـ حضرت مسیح علیہ السلام آسمان پر زندہ ہیں وہ قیامت سے پہلے اس دنیا میں واہس تشریف لائیں گےـ
تیرے رندوں پر سارےکھل گئے اسرار دین ساقی
ہوا علم الیقین، عین الیقین، حق الیقین ساقی
اب میرے لئے ایک نہایت مشکل کا سامنا تھا ـ ایک طرف ملازمت تھی جماعت مرزائیہ کے ارکان اور افراد جماعت سے آٹھ سال کے دیرینہ اور خوشگوار تعلقات تھے ـ بحثیت کامیاب مبلغ و مناظر جماعت میں رسوخ حاصل تھا ـ لیکن جب دوسری طرف مرزا غلام احمد کے عقائد قران مجید احادیث صحیحہ کے بالکل الٹ دیکھتا تھا ـ ان کے الہامات اور پیشگوئیوں کی دھجیاں فضائے آسمانی میں اڑتی ہوئی نظر آتی تھیں - اور قیامت کے دن ان عقائد باطلہ کی باز پرس کا نقشہ آنکھو ں کے سامنے آ جاتا تو میں لرزہ براندام ہو جاتا تھا ـ ایک طرف حق تھا اور دوسری طرف باطل ـ ایک طرف تاریکی تھی دوسری طرف مشعل نور ـ ایک طرف معقول تنخواہ کی ملازمت اور آٹھ سال کے دوستانہ تعلقات تھے اور دوسری طرف دولت ایمان ـ لیکن ساتھ دنیوی مشکلات اور مصائب کا سامنا ـ آخر میں نے قطعی فیصلہ کر لیا کہ چاہے ہزار ہا تکالیف اٹھانی پڑیں ، انہیں بخوشی برداشت کروں گاـ کیونکہ حق کے اختیار کرنے والوں کو ہمیشہ تکالیف و مصائب کا مقابلہ کرنا پڑا ہےـ
صداقت کے لیے گر جان جاتی ہے تو جانے دو
مصیبت پر مصیبت سر پہ آتی ہے تو آنے دو
چناچہ میں اشکبار آنکھوں اورکفر و ارتداد سے پشیمان اور لرزتے ہوئے دل سے اپنے رحیم و کریم خدا وند قدوس کے حجور کفر و مرزئیت سے تائب ہو گیاـ توبہ کے بعد دل کی دنیا ہی بدل چکی تھی ـ
عصیاں ماد رحمت پروردگار ما
ایں رانہایتے است نہ آ رانہایتے
میرے غفور رحیم مالک
عصیاں سے کبھی ہم نے کنارہ نہ کیا
پر تو نے دل آزردہ ہمارا نہ کیا
ہم نے تو جہنم کی بہت کی تدبیر
لیکن تیری رحمت نے گوارا نہ کیا
الحمد للہ الذی ھدانا لھاذا وما کنا لنھتدی لو لا ان ھدانا اللہ
پ ۱۸ الاعراف۴۳
اللہ تعالیٰ کا انتہائی شکر و احسان ہے جس نے ہمیں یہاں تک پہنچایا ، اور اگر اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت نہ کرتا تو ہم ہر گز راہ راست پانے والے نہ تھے
ذالک الفضل یوتیہ من یشاء
یا رب تو کریمی و رسول توکریم
صد شکر کہ ہستیم میان دو کریم
میں نے یکم جنوری ۱۹۳۲ کو احمدیہ انجمن لاہور کی ملازمت سے استعفیٰ دے دیا جو ۲۴ جنوری کو منظور کر لیا گیاـ