• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

احتساب قادانیت جلد نمبر 1 تعارف

بنت اسلام

رکن عملہ
ناظم
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
نگاہ اولین

مناظر اسلام مولانا لال حسین اختر کا وجود قادیانیت کے لیے تازیانہ خداوندی تھاـ آپ نے نصف صدی خدمت اسلام اور تحفظ ناموس رسالت کا مقدس فریضہ سر انجام دیاـاندرون اور بیرون ملک آپ کی خدمات جلیلہ کا ایک زمانہ معترف ہےـ ان گرانقدر خدمات میں حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی شیخ الاسلام مولاناسید انور شاہ کشمیری ، قطب الارشاد عبد القادر رائے پوری کی دعائیں ،سرپرستی اور حضرت امیر شریعت عطا اللہ شاہ بخاری کی رفاقت کا بہت بڑا دخل ہےـ ان خدمات کو اس سے بڑھ کر اور کیا خراج پیش کیا جا سکتا ہے کہ ایک دفعہ شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوری نے ایک مناظرہ میں مولانا لال حسین اختر کو نہ صرف اپنا نمائندہ بنایا بلکہ ان کی فتح و شکست کو اپنی فتح و شکست قرار دیاـ
مولانا لال حسین رحمۃ اللہ اور آپ کے گرامی قدر رفقاء مرحومین کا صدقہء جاریہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ہےـ جب تک اس جماعت کے خدام و رضاکار دنیا کے کسی بھی حصہ میں منکرین ختم نبوت کی سرکوبی کریں گے ، ان حضرات کی مقدس ارواح کو برابر ثواب و تسکین ہوتی رہے گیـ
مناظر اسلام مولانا لال حسین رحمۃ اللہ نے متعدد عنونات پر قلم اٹھایاـ تقریر کی طرح تحریر میں بھی غضب کی گرفت اور مناظرانہ استدلال سے دشمن کو لاجواب کر دینے کی شان نمایاں ہےـ
رد قادیانیت پر آپ کے" چودہ " رسائل و مضامین ہیں ـ جن میں سے بعض کو تو عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے لاکھوں کی تعداد میں اندرون اور بیرون ملک تقسیم کیا اور بعض ایسے رسائل ہیں جو ایک آدھی دفعہ وقتی ضرورت کے تحت شائع ہوئے اور آج وہ نایاب ہیں ـ اس لیے ضرورت تھی کہ ان تمام رسائل کو یکجا کتابی شکل میں شائع کر دیں تاکہ لائبریریوں میں محفوظ ہو جائیں ـ
 

بنت اسلام

رکن عملہ
ناظم
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
ترتیب و تعارف

مولانا ظفر علی مرحوم نے ایک بار جیل میں اپنے گرامی قدر ساتھی مولانا لال حسین اختر کو منظوم خراج عقیدت پیش کیاـ سب سے اول میں وہ قابل اشاعت ہےـ
۱
: ترک مرزائیت

اس کتاب میں مولانا مرحوم نے مرزائیت چھوڑنے کے اسباب بیان کیےـ اس کتاب کو قدرت نے اس قدر شرف قبولیت سے نوازا کہ مولانا انور شاہ کشمیری نے اپنی تصنیف "خاتم النبیین " میں اس کے حوالے نقل کیے ہیں ـ
۲
:ختم نبوت اور بزرگان امت

قادیانیوں نے امت محمدیہ کے جلیل القدر اکابرین پر اپنے دجل و تلبیس سے الزامات لگائےـ کہ وہ "اجرائے نبوت" کے قائل تھےـ قادیانیوں کے اس دجل و فریب کا مولانا نے اس رسالہ میں جواب دیا ہے اور ایسا کافی و شافی کہ اس کے بعد قادیانیوں کے منہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گئے
۳:
حضرت مسیح علیہ السلام مرزا قادیانی کی نظر میں

مرزا قادیانی کے گستاخ و بےباک قلم سے انبیا و کرام کی ذات تک محفوظ نہیں رہیـ حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی توہین و تنقیص میں تو اس نے یہودیوں کے بھی کان کتر لیےـ اور ظؒم یہ کہ قادیانی امت آج بھی ان غلیظ تحریروں کو پڑھ کر توبہ کرنے کی بجائے تاویل باطل کا انداز اپناتی ہےـ مولانا مرحوم نے مرزا قادیانی کے "اس کفر " کو واضح کیا ہےـ اور مرزائیوں کی تاویلوں کا دندان شکن جواب دیا ہےـ
اللہ رب العزت کے فضل و کرم سے عالمی مجالس تحفظ ختم نبوت نے اس کا انگریزی ایڈیشن شائع کرنے کی بھی سعادت حاصل کی ہے ـ
۴:
حضرت خواجہ غلام فرید ‌‮‮رحمۃاللہ اور مرزا احمد قادیانی

خواجہ غلام فرید ‌‮‮رحمۃاللہ مرحوم بہاولپور کے مشہور و معروف بزرگ اور صوفی تھےـ ریاست بہاولپور کے " والیان " کو ان سے بڑی عقیدت تھیـمشہور زمانہ "مقدمہ بہاولپور " میں مرزائیوں نے مشہور کر دیا کہ خواجہ غلام فرید مرزا قادیانی کے ہمنوا تھےـ ان کی یہ شرارت محض بہاولپور کی عوام کو دھوکہ دینے کی غرض سے تھیـ مولانا لال حسین نے اس رسالہ میں یہ ثابت کیا کہ مرزائیوں کا پروپیگنڈہ مرزا قادیانی کی نبوت کی طرح جھوٹا ہےـ حضرت خواجہ تمام مسلمانوں کی طرح مرزا قادیانی کو کافر سمجھتے تھےـ
۵
: مرکز اسلام مکہ مکرمہ میں قادیانیوں کی ریشہ دوانیاں

نام و عنوان سے مضمون واضح ہےـ

۶: سیرت مرزا
۷عجائبات مرزا
۸: حمل مرزا

ان تینوں مضامین میں مرزا کے کردار کو اس کے اوٹ پڑانگ حوالہ جات سے ثابت کیا ہے کہ نبوت تو بہت دور کی چیز ہے ، مرزا قادینی میں شرافت نام کی بھی کوئی چیز نہ تھیـ
۹:
آخری فیصلہ

اس رسالہ میں مرزا قادیانی کی مولانا ثناء اللہ مرحوم کے ساتھ دعا و مباہلہ کی کہانی لکھی گئی ہےـ
۱۰:
بکر و ثیب

بکر و ثیب مرزا کی پیشن گوئی تھیـ اس کا حشر بھی مرزا قادیانی کی جھوٹی نبوت کی طرح ہواـ اس کی تفصیل لکھی گئی ہےـ
۱۱:
وفاقی وزیر قانون کی خدمت میں عرضداشت

جناب محمود علی قصوری مرحوم، ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے زمانہ اقتدارمیں وفاقی وزیر قانون تھےـ مولانا لال حسین اختر ان دنوں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے امیر تھےـآپ نے قصوری صاحب سے ملاقات کی اور قادیانیوں کے متعلق قانون سازی کی ضرورت پر زور دیاـ انہوں نے گفتگو کے تمام نکات کو تحریری طور پر پیش کرنے کی خواہش کا اظہار کیاـ آپ نے ان ہی نکات کو رسالہ کی شکل میں لکھ کر ان کو بھجوا دیاـ
۱۲
: سقوط مشرقی پاکستان پر حمود الرحمان کمیشن میں تحریری بیان

سقوط مشرقی پاکستان پرتحقیقات کے لئے حمود الرحمان کی سربراہی میں ایک کمیشن قائم ہواـ مولانا لال حسین اختر نے تحریری طور پر اس کمیشن میں بیان داخل کرایا کہ سقوط مشرقی پاکستان میں رسوائے زمانہ ایم ـ ایم ـ احمد قادیانی اور دوسرے مرزائیوں کا بھی ہاتھ ہےـ
۱۳:
مسلمانوں کی نسبت قادیانیوں کا عقیدہ

نام سے مضمون واضح ہےـ بلا تبصرہ قادیانیوں کے حوالہ جات ہیںـ
۱۴:
انگلستان میں مجلس تحفظ ختم نبوت کی کامیابی

مولانا لال حسین مرحوم کی ان خدمات کی تھوڑی سی جھلک ہے جو ووکنگ کی "مسجد شاہجہاں"کو قادیانیوں سے واگزار کرانے کے سلسلے میں آپ نے سرانجام دی تھیـ یہ رپورٹ کسی اور بزرگ کی لکھی ہوئی ہےـ تاہم مضمون کی مناسبت سےاسے ہم مجموعہ میں شامل کر رہے ہیں ـ
اس طرح یہ کتاب چودہ مختلف رسائل و مضامین کا حسیں گلدستہ ہےـ جو ھلہائے رنگا رنگ سے مزین کر کے آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت ہم حاصل کر رہے ہیں ـ بےحد بے حساب حمد وثنا اس ذات باری تعالیٰ کی جس کی عنایت کردہ توفیق سے اس کتاب کو شائع کر رہے ہیں ـ کروڑوں درودو سلام اس ذات بابرکات ﷺ پر جن کے وصف خاص " ختم نبوت" کے پھریرے کو چار دانگ عالم میں لہرانے کا شرف عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کو حاصل ہےـ

خاکپائے مناظر اسلام
طالب دعا
عزیز الرحمٰن جالندھری
خادم عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت
ملتان ـ پاکستان
۱۹۸۸ـ۱ـ۲۹
 

بنت اسلام

رکن عملہ
ناظم
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
مناظر اسلام مولانا لال حسین اختر سے مناظرہ نہ کیا جائے، قادیانیوں کا سرکاری سطح پر اعلان

فقیر جن دنوں چناب نگر ریلوے سٹیشن پر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام قایم شدہ پہلی مسجد ، مسجدمحمدیہ کاخطبہ دیتا تھا ان دنوں کتابیں ، حوالہ جات، اخبارات ورسائل ہاتھ میں لے کر قادیانیوں کو خطبہ کرنے کا طریقہ اختیار کیا تھا، ان دنوں قادیانی اخبارات " الفضل" کے دو پرچے مناطر اسلام مولانا عبد الرحیم اشعر دامت برکاتہم نے عنایت کیےـ جن میں قادیانوں کا اعتراف شکست تھاـ قادیانی جماعت نے اپنے اخبار الفضل میں جماعتی طور پر باضابطہ اعلان کیا تھا کہ مناطر اسلام مولانا لال حسین اختر سے کوئی قادیانی مناظرہ نہ کرےـ ان کی مجلس میں نہ جائے بلکہ ان کی گفتگو نہ سنے ـ یہ دونوں حوالہ جات چناب نگر( ربوہ)ا سٹیشن جامع مسجد محمدیہ میں فقیر نے پڑھ کر سنائے، قادیانی سٹپٹائےـ اخبار پرانے تھے ، ان پر کور چڑھانے کےلیے ایک " مخلص" نے لے لئے، اور وہ نہ ملنے تھے نہ ملےـ فقیر کے لیے یہ اتنا بڑا سانحہ تھا کہ بس کچھ نہ پوچھیے جب یاد آتا ہے دل مسوس کر رہ جاتا ـ اخبارات سے زیادہ صدمہ اس بات کا تھا کہ ان کی تاریخ کہیں درج نہیں کی تھیـ ورنہ اخبار تو کہیں سے بھی حاصل کیا جا سکتا تھا ـ حضرت مولانا عبدالرحیم اشعر مد ظلہ کو اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت اس کی بہتر جزا دیں کہ ان کی نوٹ بکس میں کہیں وہ تاریخیں مل گئیںـ فقیر نے وہ ڈائری کے ٹائٹل پر وہ نقل کر لیں ـ آج مورخہ۵ جولائی ۱۹۹۹ کو فرصت نکال کر مجلس کے مرکزی دفتر کی لائبریری سے الفضل کی متعلقہ فائل نکالی تو بحمدہ تعالیٰ وہ پرچے مل گئےـ لیجیے اس خوشی میں فقیر آپ کو بھی شریک کرنا چاہتا ہےـ
مناظر اسلام مولانالال حسین اختر رحمۃ اللہ امت مسلمہ میں سے وہ فرد واحد ہیں ـ جن کے متعلق قادیانی جماعت کے ناظر دعوت و تبلیغ ( یعنی مناظروں کے انچارج اعلیٰ) زین العابدین ولی اللہ شاہ نے اخبار الفضل مورخہ یکم جولائی ۱۹۵۰ میں باضابطہ اعلان کیاـ یہ اعلان الفضل( الدجل) کے ڈیڑھ صفحہ پر محیط ہےـ " مبلغین سلسلہ و دیگر احباب محتاط رہیں" عنون قائم کر کے اس نے تحریر کیاـ
" مولوی لال حسین اختر اور اس قماش کے دوسرے مبلغین جگہ بہ جگہ ہمارے خلاف اکھاڑے قائم کر رہے ہیںـ جماعت احمدیہ اور اس کے مقدس امام ( مرزا قادیانی) کو بازاری قسم کی گالیاں دیتے ، اور ہمارے عقائد و اقوال کا مذاق اڑاتے ہیں ـ اپنی طرف سے من گھڑت باتیں اپنی طرف سے منسوب کر کے لوگوں کو مغالطہ میں ڈالتے ہیں اور مبلغین سلسلہ (قادیانیت ) کو چیلنج دیتے ہیں کہ ان کے ساتھ مناظرہ کر لیں ۔۔۔۔ چناچہ ساہیوال کے جلسہ میں لال حسین اختر نے مبلغین سلسلہ ( قادیانیوں) کو خطاب کرتے ہوئے بار بار کہا آؤ مناظرہ کرو ـ تم مذہبی جماعت نہیں بلکہ سیاسی جماعت ہوـ عنوان ہو کہ قادیانی کافر تھا،انگریز کا جاسوس تھا، دجال تھاـ کذاب تھا ، گونگا شیطان تھاـ اگر نہ آؤ تو لعنۃ علی الکٰذبین ـ فرشتوں کی لعنت، آسمان کی لعنت، زمین کے بسنے والوں کی لعنت،ـ میں اللہ پاک کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر مرزائی مقابلہ پر آئے تو د دن میں تارے نہ دکھائے تو لال حسین اختر میرا نام نہیں - کوئی مرزائی میرے سامنے بول نہیں سکتاـ میرے سامنے آیا تو ناطقہ بند ہو جائے گاـ ۔۔۔۔ اس لیے میں ( زین العابدین قادیانی ناظر دعوت و ارشاد) مبلغین سلسلہ ( قادیانیوں) کو کھلے الفاظ میں واضح کر دینا چاہتا ہوںـ کہ مناظروں کے لیے ان ک چیلنجز پر قطعاً توجہ نہ کی جائے بلکہ ان کے کسی ایسے جلسوں میں کسی احمدی کو شریک نہیں ہونا چاہیےـ "
یکم جولائی ۱۹۵۰ ص
۴

اس طرح ۵ جولائی ۱۹۵۰ کے اخبار میں لکھا ہے کہ
" ناظر دعوہ تبلیغ سلسلہ عالیہ احمدیہ ( قادیانیہ) ربوہ نے ایک مضمون مورخہ یکم جولائی ۱۹۵۰ الفضل میں شائع فرما کر مبلغین سلسلہ عالیہ احمدیہ ( قادیانیہ) اور احباب جماعت کو ہدایت فرمائی ہے کہ بد سے بد زبان مولوی لال حسین اختر سے کلام کرنے میں احتراز کریںـ"
اس لحاظ سے امت مسلمہ میں سے مولانا لال حسین اختر وہ مرد حق ہیں جن کے نام سے دنیائے قادیانیت کانپتی و ہانپتی تھیـ مولانا کی للکار و احرار قادیانی مبلغین و مناظرین کی بولتی بند کر دی تھی ـ ان پر عرصہ حیات تنگ کر دیا تھا ـ جو قادیانی ان کے سامنے آتا منہ کی کھاتا ، منہ کے بل گرتا اور سسکتا سسکتا رہ جاتاـ مولانا کے سامنے کسی قادیانی کا چراغ نہ جلتا تھا ، اس لئے قادیانی خود حسرت و یاس میں جل بھن کر اعلان کرنے پر مجبور ہوئے کہ ان سے مناظرہ نہ کیا جائے ـ کیوں جناب؟؟؟ یہ سب کچھ قادیانی جماعت اعلان کر رہی ہے یا قدرت حق مولانا لال حسین اختر کے اس قول کو سچا ثابت کر رہی ہے جو وہ اکثر مناظروں میں فرمایا کرتے تھے کہ
" ماں نے وہ بچہ نہیں جنا جو لال حسین اختر سے آ کر مناظرہ کرےـ قادیانی زہر کا پیالہ پی سکتے ہیں لیکن لال حسین کے سامنے مرزا غلام احمد (اپنے چیف گروولاٹ پادری ) کو شریف انسان سچا ثابت نہیں کر سکتےـ
باقی رہا قادیانیون کا یہ عذر کہ مولانا لال حسین اختر گالیاں دیتے ہیں یہ صرف مولانا کی گرفت سے بچنے کی قادیانی چال ہےـ یہ ان کا بد ترین الزام تھا، دھوکہ تھاـ مولانا لال حسین اختر مناظرہ،جلسہ تو درکنار کسی مجلس میں بھی آپ نے کوئی گالی نہیں دی ـ یہ مولانا سے محض جان چھڑانے کےلئے اپنی جہالت و عجز پر پردہ ڈالنے کےلئے ، قادیانی مناظر بہانہ بنایا کرتے تھے ـ ورنہ مولانا اگر گالیاں دیتے تھے تو اس لحاظ سے تو ہر روز قادیانیوں کو مولانا سے مناظری کرنا چاہیے تھا- قادیانی دلائل دیتے مولانا گالیاں دیتے تو لوگ قادیانیوں کے ساتھ ہو جاتے ، ان کو پتہ چل جاتا کہ سچا کون ہے اور جھوٹا کون ہےـ معلوم ہوا کہ مناظروں کے فرار کے لیے قادیان کی جھوٹ ساز مل ( فیکٹری) نے قادیانی کذابوں کےلیے دجل و فریب کا یہ نیا چولہ تیار کر کے دیا تھا کہ وہ ہوں بہانہ بنا کر مولانا لال حسین اختر کی مناظرانہ للکار سے کنارہ عافیت تلاش کر سکیں ـ قدرت حق مولانا لال حسین اختر پر اپنی رحمتوں کی بارش نازل فرمائےـ
حسن اتفاق: آج ۵ جولائی ۱۹۹۹ ہے جس اخبار الفضل کا حوالہ دیا ہے ان میں ایک اخبار ۵ جولائی ۱۹۵۰ کا ہے ـ ٹھیک انچاس سال بعد اسی تاریخ کو قادیانی دجل پارہ پارہ اور مولانا لال حسین اختر کی مناظرانہ جرات کو آشکارہ کرنے کا قدرت نے موقع عنایت فرمایا ہےـ

فقیر اللہ وسایا​
 
مدیر کی آخری تدوین :

بنت اسلام

رکن عملہ
ناظم
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
میں نے مرزائیت کیوں چھوڑی

مناظر اسلام مولانا لال حسین اختر نے قادیانیت چھوڑنے کے اسباب بیان کرنے کی غرض سے ایک کتاب " ترک مرزائیت" مرتب فرمائی تھیـ اس کو قدرت نے اس قدر قبولیت سے نوازا کہ شیخ الاسلام سید محمد انور شاہ کشمیری نے اپنی آخری تصنیف " خاتم النبیین" میں اس کے حوالہ جات درج فرمائےـ فللحمد للہ مولانا لال حسین اختر کے زمانہ حیات میں اس کے چار ایڈیشن شائع ہو گئےـ آپ نے کتاب میں قادیانیوں کو چیلنج کیا تھا کہ وہ اس کا جواب شائع کر کے انعام حاصل کریںـ قادیانیوں کو جواب دینے کی جرات نہیں ہو سکیـ اس کے پانچوین ایڈیشن کے لیے حضرت مولانا لال حسین اختر نے مقدمہ تحریر فرمایا تھا لیکن پانچواں ایڈیشن آپ کی زندگی میں شائع نہ ہو سکا ـ حضرت مرحوم کے تمام رسائل کا مجموعہ " احتساب قادیانیت " کے نام سے شائع کیا تو پانچویں ایڈیشن کا یہ مقدمہ ہمارے علم میں نہ تھا ـ بعد میں حضرت مرحوم کے غیر مطبوعہ مسودہ جات کو ترتیب دی تو یہ مسودہ مل گیا ـ اس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں حضرت مرحوم نے قادیانیت کے بانی مرزا غلام احمد قادیانی کے متعلق کچھ خواب دیکھے تھے ـ جو آپ کے قلم سے کسی کتاب یا رسالہ میں موجود نہیں ، روایت با المعنی کے طور پر آپ کے شاگرد مناظر اسلام عبد الرحیم اشعر مد ظلہ کی روایت سے "تذکرہ مجاہدین ختم نبوت" میں شائع کیے گئے اس مسودہ میں وہ خواب حضرت لال حسین اختر کے قلم سے لکھے ہوئے مل گئے ہیں ـ یہ مسودہ آج تک کہیں شائع نہیں ہوا ـ ہم آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں ـ اس تناطر میں آپ اس کا مطالعہ فرمائیں ـ ترک مرزائیت کے اسباب ـ خواب اور حضرت کی سوانح اپنے ہاتھ سے لکھی ہوئی اس میں موجود ہے- اللہ تعلیٰ حضرت مرحوم کے فیض کو قیامت تک جاری رکھیں- آمین ( ناظم نشر و اشاعت)

الحمد للہ وحدہ والصلوٰۃ و السلام علیٰ من لا نبی بعدہ
اما بعد اللہ رب العزت کا ارشاد ہے
ہل انبئکم علیٰ من تنزل الشیاطین تنزل علیٰ کل افاک اثیم
پ ۱۹ ،الشعراء ۲۶ ، ۲۲۱،۲۲۲
کیا میں آپ کو بتلاؤں کس پر شیاطین اترا کرتے ہیں ، ایسے شخص پر اترا کرتے ہیں جو جھوٹ بولنے والے بد کردار ہوں "

گرآن چیزے کہ مے بینم مریداں نیز دیدندے
زمرزا توبہ کروندے بچشم زار و خوں بارے
خدائے واحد قدوس کے فضل و کرم سے "ترک مرزائیت " کو وہ مقبولیت حاصل ہوئی جو میرے وہم و گمان میں نہ تھی ـ عامۃ المسلمین نے عموما اور علمائے کرام نے خصوصا اسے پسندیدگی کی نظر سے دیکھاـ حتیٰ کہ شیخ الاسلام سید محمد انور شاہ سابق صدر مدرس دارااعلوم دیو بند نے اپنی مشہور ومعروف لاجواب کتاب "خاتم النبیین" میں متعدد مقامات پر " ترک مرزائیت " سے حوالہ جات درج فرمائے ہیں ـ
ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء
طبع اول ،دوم ،سوم اور چہارم میں اعلان کیا گیا تھا کہ اگر کوئی لاہوری مرزائی " ترک مرزائیت " کا جواب لکھے گا تو اسے بعد فیصلہ منصف ایک ہزار روپے انعام دیا جائے گاـ چالیس سال کا طویل عرصہ گزر گیا کسی مرزائی کو ہمت نہیں ہوئی کہ " ترک مرزائیت" کا جواب لکھتا ـ ' مجھ سے جواب الجواب ' منصف کے تقرر اور انعام کا مطالبہ کرتا ـ مرزائی مناظرین و مبلغین کی ہمتیں پست ہو گئیں ،ان کے قلم ٹوٹ گئے، ان کے مناظرانہ دلائل غتربود ہو گئےـ
میرا چالیس سالہ تجربہ شاہد ہے کہ میری زندگی میں مرزائیوں کو جرات نہیں ہو گی کہ " ترک مرزائیت " کے جواب میں قلم اٹھا سکیںـ (ایسے ہی ہوا)

میدان کار زار میں اترے تو مرد ہے
اپنی جگہ ہے تو سب کو دعویٰ مردمی
انشاءاللہ تعالیٰ
نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے
یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں
اب مزید اضافہ کے ساتھ پانچواں ایڈیشن شائع کیا جا رہا ہے ـ اللہ تعالیٰ مزید شرف قبولیت عطا فرما کر گم کردہ راہ اشخاص کی ہدایت کا ذریعہ بنائے اور میرے لیے زاد آخرتـ آمین ( لال حسین اختر)
تیرے نام سے ابتدا کر رہا ہوں
میری انتہائے نگارش یہ ہی ہے
بے شمار حمد و ثنا خالق حقیقی کے لیے جس نے تمام جہانوں کو نیست سےہست کیا ، لاکھ لاکھ ستائش ذات باری تعالیٰ کے لیے ن جس نے جنس خاکی کو اشرف المخلوقات بنایا ، اسے احسن تقویم اور خلافت ارضی کے شرف سے نوازا گیا ـ ہزار بار اس مقدس وجود کے لیے جسے اللہ تعالیٰ نے سارے جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا اور ان کی ذات گرامی پر نبوت و رسالت ختم کر دی گئی ـ ان کی متبرک بعثت نے مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک کفر و شرک کے بھڑکتے ہوئے شعلوں کو توحید کی رم جھم سے ٹھنڈا کیا اور ساری دنیا میں نور کا عالم پیدا کر دیا ـ
تیرے نقش قدم کے نور سے دنیا ہوئی روشن
تیرے مہر کرم نے بخشی ہر ذرے کو تابانی
ان کی پاک و مقدس نظر نے جہالت و وحشت اور فسق فجور کی ان تمام آلائشوں کو جو عوارض کی صورت اختیار کیے ہوئے اشرف المخلوقات کو چمٹی ہوئی تھیں ـ نی صرف دورہ کیا بلکہ ہمیشہ کے لیے ان کا قلع قمع کر دیاـ یہ ہادیء کامل ، یہ رہبر حقیقی ،یہ ناصح اکبر ، یہ شافع محشر وہ ہستی ہے جن پر "بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر" کا قول اطلاق پذیر ہےـ ان کا اسم گرامی حضرت سیدنا مولانا محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ ﷺ ہےـ شتر بانوں اور گڈریوں کو جہانبانی کی راہ و رسم سکھانے والے ، گمراہان عالم کو راہ راست دکھانے والے ، گناہگار انسانوں کو پاک کر کے خدائے واحد و قدوس کی بارگاہ معلیٰ تک پہنچانے والے قانون الہی اور نبوت و رسالت کو ختم کرنے والے حضور اقدس ﷺ ہی ہیں ـ
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور حضرت خاتم الانبیاء ﷺ کے ارشادات عالیہ کےطفیل ایک راہ راست سے بھٹکا ہوا عاصی بندہ ، ایک گناہگار انسان جو آٹھ سال تک تاریکی کے گڑھےاور کفر و ضلالت کے اندھیرےغار میں حیران و سر گردان رہاـ اسلام کے پر نور عالم اور روشنی کی دنیا میں داخل ہوتا ہےـ
قل اننی ھدٰنی ربی الیٰ صراط مستقیم دینا قیما ملۃ ابراہیم حنیفا وما کان من المشرکین
پ ۸ الانعام ۶، ۱۶۱
کہو کہ مجھ کو میرے رب نے ایک سیدھا راستہ بتلا دیا ہے وہ دین ہے مستحکم جو طریقہ ہے ابراہیم علیہ السلام کا جس میں زرہ بھر کمی نہیں اور وہ شرک کرنے والوں میں سے نہ تھےـ
 
مدیر کی آخری تدوین :

بنت اسلام

رکن عملہ
ناظم
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
تبلیغی زندگی کا آغاز

میری تبلیغی زندگی تحریک خلافت کا مرن ہو منت ہے ـ ۱۹۱۴ میں برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کی جرمنی سے پہلی جنگ عظیم شروع ہوئیـ اس جنگ میں ترکی نے جرمنی کا ساتھ دیا ـ برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف اعلان جنگ کر دیاـ عراق عرب ، فلسطین ، شام اور مصر سلطنت ترکی کے زیر نگین تھےـ ان تمام ممالک میں اتحادیوں اور ترکوں میں خوفناک جنگ شروع ہوئیـ اس جنگ کے ابتدا ہی میں برطانوی حکومت نے اپنی اور اپنے اتحادیوں کی طرف سے اعلان کیا تھاـ اور مسلمانان عالم کو یقین دلایا تھا کہ جنگ میں ہمیں فتح ہوئی تو ہم مسلمانوں کے مقامات مقدسہ پر قبضہ نہیں کریں گے ـ جنگ کے ابتدا میں جرمنوں اور ترکوں کا پلہ بھاری تھاـ ہر محاظ پر انہیں عظیم فتوحات ضاصل ہو رہی تھیں ـ
برطانیہ اور اس کے ساتھیوں کو شکست فاش کا سامنا ہو رہا تھا ـ اپنی بگڑتی ہوئی حالت کے پیش نظر برطانیہ اور اس کے حلیفوں نے روس اور امریکہ سے مدد مانگی ـ ان دونوں ملکوں کی حکومتوں نے برطانوی عرضسداشت کو منظور کر کے جرمنی اور ترکی کے خلاف اعلان جنگ کر دیاـ نتیجہ یہ ہوا کہ ۱۹۱۸ میں جرمنی اور ترکی کو شکست ہو گئی ـ
انگریزوں نے عراق اور فلسطین کے مقدس مقامات پر قبضہ کر لیا تھا ـ ترکی حکومت کی طرف سے عرب کےگورنر شریف حسین نے ترکی سلطنت سے غداری کر کے اپنی خود مختار بادشاہت کا اعلان کر دیا ـ ہیاں تک بیت اللہ شریف میں سینکڑوں ترکوں کو شہید کر دیا گیاـ
ملت اسلامیہ کی خلافت کا اعزاز سلطنت ترکی کو حاصل تھا ـ خلیفۃ المسلمین مسلمانوں کی عظمت و وقار کے علمبردار تھے ـ سلطنت ترکی کی شکست اور مقامات مقدسہ پر انگریزون کے قبضہ سے مسلمانان عالم میں کہرام مچ گیاـ
 

بنت اسلام

رکن عملہ
ناظم
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
تحریک خلافت

ہندوستان میں شیخ الہند مولانا محمود الحسن ، حضرت مولانا ابو الکلام آزاد ، حضرت مولانا حسین احمد مدنی ،حضرت مولانامفتی کفایت اللہ ، حضرت مولانا محمد علی جوہر، حضرت حکیم محمد اجمل خان ، حضرت مولانا ظفر علی خان ، حجرت مولانا احمد علی لاہوری، حضرت مولانا سید سلیمان ندوی، حضرت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری، مولانا شوکت علی، مولانا مظہر علی اظہر، مولانا حسرت موہانی کی قیادت میں خلافت اسلامیہ کی بقا کےلیے تحریک خلافت شروع ہوئیـ
مارچ ۱۹۲۰ میں حضرت مولانا محمد علی جوہر حضرت مولانا سید سلیمان ندوی، اورسید حسن امام صاحب بیرسٹر پر مشتمل ایک وفد لندن گیاـ اور وزیراعظم برطانیہ مسٹر لائیڈ جارج سے ملاـ مقامات مقدسہ کے بارے میں برطانوی حکومت کا وعدہ یاد دلایا اور خلافت کے متعلق مسلمانان ہندوستان کے دینی احساسات سے آگاہ کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ اپنے وعدے کا ایفاء کیجیئےاور مقامات مقدسہ سے برطانوی قبضہ اٹھا لیجیے ـ برطانوی وزیراعظم نے وفد کے مطالبے کو مسترد کر دیا ـ وفد ناکام واپس آ گیا ـ مقامات مقدسہ کے سقوط اور انگریزوں کی وعدہ خلافی کے باعث مسلمانان ہندوستان بے حد مضطرب اور پریشان تھے ـ آل انڈیا خلافت کمیٹی نے عدم تشدد اور انگریزوں سے ترک موالات کی مقدس تحریک شروع کی ـ تحریک کا مقصد ترکی سلطنت اور خلافت کے وقار کا بحال کرنا اور مقامات مقدسہ اور ممالک اسلامیہ کا انگریزوں سے واگزار کرانا تھاـ پروگرام یہ تجویز ہوا تھا ـ
۱: انگریزی فوج اور پولیس کی نوکری چھوڑ دی جائےـ
۲: انگریزی حکومت کے دیے ہوئے خطابات واپس کیے جائیںـ
۳:انگریزی درس گاہوں سے طلباء اٹھا لیے جائیںـ
۴:ولائیتی مال کا بائیکاٹ کیا جائےـ
۵:ہاتھ کا بنا ہوا کھدر پہنا جائےـ
۶: انگریزی حکومت سے عدم تعاون کیا جائےـ اس کے خلاف نفرت پیدا کی جائےـ اور ہندوستان کی جیلیں بھر دی جائیںـ
 

بنت اسلام

رکن عملہ
ناظم
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
تحریک خلافت میں شمولیت

میں اور نٹیل کالج میں تعلیم حاصل کر رہا تھاـ تحریک خلافت شروع ہوئی علمائے کرام نے شریعت مطہرہ کے احکامات کے تحت حکومت کی دعسگاہوں کے بائیکاٹ کے فتویٰ کی تعمیل کرتے ہوئے کالج چھوڑ دیا ـ اپنے وطن مالوف دھرم کوٹ رندھاوا اور بارہ منگا ضلع گورداس پور چلا گیا ـ لیکن ایک خواہش تھی جو دل میں چٹکیاں لے رہی تھیـ ٰخ آرزو تھی جو نچلا نہ بیٹھنے دیتی تھی ـ ایک ارمان تھا جس نے معمورہ دل کو زیر و زبر کر رکھا تھا ـ حسرت تھی تو یہ ہی ، تمنا تھی تو یہ ہی ـ جس طرح ہو اپنے دین ، ہاں پیارے اسلام کی خدمت کروںـ
ہمیشہ کے لیےرہنا نہیں اس دار فانی میں
کچھ اچھے کام کر لو چار دن کی زندگانی میں
عقل نے لاکھ سمجھایا ، دوستوں اوررشتہ داروں نے قید و بند کا خوف دلایا تو میرے جذبہ ایمان نے کہا ،
یہ تو نے کیا کہا ناصح نہ جانا کوئے جاناں میں
مجھے تو راہروں کی ٹھوکریں کھانا ، مگر جانا
میں نے کسی ایک نہ مانی اور مشہور و معروف شعر
دل اب تو عشق کے دریا میں ڈالا
توکلت ۔ علی اللہ تعالیٰ۔۔۔۔
کا ورد کرتے ہوئے خلافت کمیٹی میں شمولیت کی ـآٹھ نو ماہ بعد ضلع گورداس پور میں خلافت کمیٹی بٹالہ کے زیر ہدایت آنریری تبلیغ و تنظیم کا فریضہ ادا کرتا رہا ـمولانا مظہر علی اظہر ایڈووکیٹ کی معیت میں مختلف مقامات کا دورہ کیا اور پورے زور سے خلافت کے اغراض و مقاصد کی تبلیغ کیـ میری سرگرمی اور جمہور کی بیداری نے حکام کی طبع انتقام گیر کو مشتعل کر دیا ـ آخر کار مجھ پر گورداس پور ننگل کنجروڈ ڈیرہ بابا نانک کی تین تقریروں کی بنا پر حکومت کے خلاف منافرت اور بغاوت پھیلانے کا الزام عائد کر کے گورداس پور میں مقدمہ قائم کر دیا گیاـ پولیس نے مجھے عید کے دن گرفتار کیا اور فرسٹ کلاس فرنگی مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کر دیا ، مجسٹریٹ نے مجھے کہا کہ آپ پر بغاوت کا مقدمہ ہے جس کی سزا چودہ سال قید سخت ہو سکتی ہے ـ میں نے کہا
یہ سب سوچ کر دل لگایا ہے ناصح
نئی بات کیا آپ فرما رہے ہیں
مجسٹریٹ نے کہا کہ اگر آپ اپنی تقریروں کے متعلق تحریری معذرت کر دیں تو مقدمہ واپس لے کر آپ کو رہا کر دیا جاتا ہے ـ میں نے جواب دیا
جلادو پھونک دو سولی چڑھا دو خوب سن رکھو
صداقت چھٹ نہیں سکتی جب تک جان باقی ہے
مجسٹریٹ نے پولیس کے چند ٹاؤٹ گواہوں کی سرسری شہادت کے بعد مجھے ایک سال قید سخت کا حکم سنایا ـ ایک سال کی طویل مدت گورداس پور کی جیل میں گزاری ـ رہائی سے کچھ عرصہ پہلے جیل ہی میں مجھے اخبارات سے معلوم ہوا کہ مشہور آریہ سماجی لیڈر سوامی شردھا نند اور آریہ سماج نے صوبہ یو ـپی میں مکانوں اورعلم دین سے بے بہرہ مسلمانوں کو مرتد کرنے کی تحریک زور و شور سے جاری کی ہے ـ اس تحریک سے مسلمانان ہندوستان میں اضطراب کی لہر دوڑ گئیـ چناچہ ارتداد روکنے کے لیے جمیعۃ العلماء ہند ،خلافت کمیٹی، مدرسہ عالیہ دیو بندی ـحنفی اہل حدیث اور شیعہ جملہ مکاتب فکر کے مسلمان علماء و زعما آریہ سماج کے مقابلہ میں میدان تبلیغ میں نکل آئےـ
 

بنت اسلام

رکن عملہ
ناظم
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
مرزائیت میں داخلہ

جیل سے رہا ہوتے ہی گرد و پیش کا جائزہ لینے کے بعد میں نے فیصلہ کر لیا کہ مجھے آریہ سماج ، شدھی و ارتداد کے مقابلہ پر حفاظت و اشاعت اسلام کا کام کرنا چاہیے ، آریوں نے پنجاب کے مناظروں کو اکھاڑہ بنا رکھا تھا ـ میں نے اریہ سماج کے متعلق لٹریچر مہیا کیا ، اس کا مطالعہ کرنے کے بعد ضلع گورداس پور کے مختلف مقامات پر صداقت اسلام اور آریہ سماج کی تردید پر متعدد تقاریر کیں ـ فروری ۱۹۲۴ میں تحصیل شکر گڑھ کے ایک جلسہ میں لاہوری مرزائیوں کے چند مبلغین سے میری ملاقات ہوئی - آریہ سماج کی تردید کے بارے میں انہوں نے مجھے کہا کہ اگر آپ احمدیہ انجمن لاہور میں تشریف لائیں تو ہم آپ کو اسلام پر آریہ سماج کے تمام اعتراضات کے جوابات سکھا دیں گے ـ انہوں نے اپنی جماعت کے تبلیغی کاموں کو نہایت ہی مبالغہ سے بیان کیا اور مرزا صاحب آنجہانی کی خدمات اسلامی کے بڑھ چڑھ کر افسانے سنائے، میں نے کہا کہ ہمارا اور آپ کا مذہب کا بنیادی اختلاف ہے -ہم حضور کریم ﷺ کو آخری نبی مانتے ہیں اور حضور کریم ﷺ کے بعد مرزا غلام احمد قادیانی نبوت کے مدعی ہیںـ انہوں نے کہا مرزا صاحب مدعی نبوت نہ تھے ، قادیانیوں نے مرزا صاحب کی طرف دعویٰ نبوت منسوب کر کے افتراء کیا ہے اور ان پر بہتان طرازی سےکا م لیاہےـ ـ اپنے اس بیان کو درست ثا بت کرنے کےلیے مرزا صاحب کی ابتدائی کتابوں سے چند حوالہ جات پڑھ کر سنائے ، جن میں سے حضور خاتم النبیین ﷺ کے بعد مدعی نبوت کو کافر دجال اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دیاـ اور لکھا کہ میں مدعی نبوت نہیں ہوں بلکہ مدعی نبوت پر لعنت بھیجتا ہوں ـ میرا مجددیت اور محدثیت کا دعویٰ ہے ـ ہمارے وہہی عقائد ہیں جو اہل سنت و الجماعت کے عقائد ہیں ـ میرا مرزائی مذہب کے متعلق معمولی مطالعہ تھا اس لیے میں تبلیغ اسلام کے نام پر ان کے دام تزویر میں پھنس گیا اور مسٹر محمد علی امیر جماعت مرزائیہ لاہوریہ کے ہاتھ پر بیعت کر کے مرزا غلام احمد قادیانی کی مجددیت اور مہددیت کا پھندا اپنے گلے میں ڈال لیا اور ان کے تبلیغی کالج میں داخل ہوا تین سال میں ایک اور مرزائی طالب علم اور میری تعلیم پر پچاس ہزار روپے سے زائد رقم خرچ ہوئیـ
قرآن مجید کی تفسیر ، حدیث ، بائبل ،عیسائیت ،سنسکرت ویدوں، آریہ سماج اور علم مناظرہ کی تعلیم حاصل کی ـ
مدت معینہ میں نصاب تعلیم ختم ہونے کے بعد مجھے مستقل مبلغ مقرر کر دیا گیاـ میں نہ صرف مبلغ اور مناظر اور محصل ہی کے فرائض ادا کرتا رہا بلکہ سیکرٹری احمدیہ ایسوسی ایشن ایڈیٹر اخبار پیغام صلح کے ذمہدارانوں عہدوں پر بھی فائز رہا اور پوری جانفشانی و سرگرمی کے ساتھ مرزائی عقائد کی تبلیغ و اشاعت اور آریوں ،دہریوں اور عیسائیوں سے کامیاب مناظرے کرتا رہاـ
 

بنت اسلام

رکن عملہ
ناظم
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
ترک مرزائیت

۱۹۳۱ کے وسط میں میں نےیکے بعد دیگرے متعدد خواب دیکھے جن میں مرزغلام احمد کی نہایت گھناؤنی شکل دکھائی دی ـ اور اسے بری حالت میں دیکھا ـ میں یہ خواب مرزائیوں سے بیان نہ کر سکتا تھا ، کیونکہ اگر انہیں خواب سنائے جاتے تو وہ مجھے کہتے کہ یہ شیطانی خواب ہیں نہ ہی کسی مسلمان کو یہ خواب سنا سکتا تھا کیونکہ اگر انہیں یہ خواب سنائے جاتے تو وہ کہتے کہ مرزا غلام احمد قادیانی اپنے تمام دعاویٰ میں جھوٹا ہے- مرزائیت سے توبہ کر لیجئے ، میری یہ حالت تھی
دو گونہ رنج و عذاب است جان مجنوں را
بلائے --فرقت لیلی ٰ--و صحبت لیلی ٰ
اگرچہ پہلے بھی مرزا احمد کے بعض الہامات اور چند پیشنگوئیاں مجھے میرے دل میں کانٹے کی طرح کھٹکتی تھیں ـ لیکن حسن عقیدت اور غلو محبت کی طاقتیں ان خیلات کو فورا دبا دیتی تھیں اور دل کو تسلی دے دیتا تھا کہ مرزا نبی تو نہیں کہ جس کے تمام ارشادات صحیح ہوں ـ ان خوابوں کی کثرت سے متاثر ہو کر میں نے غور و فکر کیا کہ ہمارے خوابوں پر دین کا مدار نہیں اور نہ ہی یہ حجت شرعی ہیں لیکن ان سے سداقت کی طرف رہنما ئی تو ہو سکتی ہےـ آخر میں نے فیصلہ کیا کہ مرزا غلام احمد قادیانی کی محبتو عداوت دونوں کو بالائے طاق رکھ کر ان سےصرفِ نظر کرتے ہوئے مرزائیت کے صدق و کذ ب کو تحقیقات کی کسوٹی پر پرکھنا چاہیے ـ خدائے واحد و قدوس کو حاضر ناظر سمجھتے ہوئے یہ اعلان کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ میں نے مرزا احمد کی محبت و عداوت کو چھوڑ کر اور خالی الذہن ہو کر مرزا کی اپنی مشہور تصنیفات اور قادیانی و لاہوری ہر دو فریق کی چیدہ چیدہ کتابوں کو جو مرزا کے دعاویٰ کی تائید میں لکھی گئی تھیں ـ چھ ماہ کے عرصہ میں عرصہ میں نظر غائر سے بطور محقق کے پڑھا اور علمائے اسلام کی تائید مرزائیت کے سلسلہ میں چند کتابیں مطالعہ کیں ـ
حقیقت یہ ہے کہ جتنا زیادہ میں نے مطالعہ کیا اتنا ہی مرزائیت کا کذب مجھ پر واضح ہوتا گیا ـ یہاں تک کہ مجھے یقین کامل ہو گیا کہ مرزا غلام احمد قادیانی اپنے دعویٰ الہام ، مجددیت، مسیحت ، نبوت وغیرہ میں مفتری تھا ـ میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ حضور رسالت مآب ﷺ آخری نبی ہیں ـ حضرت مسیح علیہ السلام آسمان پر زندہ ہیں وہ قیامت سے پہلے اس دنیا میں واہس تشریف لائیں گےـ

تیرے رندوں پر سارےکھل گئے اسرار دین ساقی
ہوا علم الیقین، عین الیقین، حق الیقین ساقی
اب میرے لئے ایک نہایت مشکل کا سامنا تھا ـ ایک طرف ملازمت تھی جماعت مرزائیہ کے ارکان اور افراد جماعت سے آٹھ سال کے دیرینہ اور خوشگوار تعلقات تھے ـ بحثیت کامیاب مبلغ و مناظر جماعت میں رسوخ حاصل تھا ـ لیکن جب دوسری طرف مرزا غلام احمد کے عقائد قران مجید احادیث صحیحہ کے بالکل الٹ دیکھتا تھا ـ ان کے الہامات اور پیشگوئیوں کی دھجیاں فضائے آسمانی میں اڑتی ہوئی نظر آتی تھیں - اور قیامت کے دن ان عقائد باطلہ کی باز پرس کا نقشہ آنکھو ں کے سامنے آ جاتا تو میں لرزہ براندام ہو جاتا تھا ـ ایک طرف حق تھا اور دوسری طرف باطل ـ ایک طرف تاریکی تھی دوسری طرف مشعل نور ـ ایک طرف معقول تنخواہ کی ملازمت اور آٹھ سال کے دوستانہ تعلقات تھے اور دوسری طرف دولت ایمان ـ لیکن ساتھ دنیوی مشکلات اور مصائب کا سامنا ـ آخر میں نے قطعی فیصلہ کر لیا کہ چاہے ہزار ہا تکالیف اٹھانی پڑیں ، انہیں بخوشی برداشت کروں گاـ کیونکہ حق کے اختیار کرنے والوں کو ہمیشہ تکالیف و مصائب کا مقابلہ کرنا پڑا ہےـ
صداقت کے لیے گر جان جاتی ہے تو جانے دو
مصیبت پر مصیبت سر پہ آتی ہے تو آنے دو
چناچہ میں اشکبار آنکھوں اورکفر و ارتداد سے پشیمان اور لرزتے ہوئے دل سے اپنے رحیم و کریم خدا وند قدوس کے حجور کفر و مرزئیت سے تائب ہو گیاـ توبہ کے بعد دل کی دنیا ہی بدل چکی تھی ـ
عصیاں ماد رحمت پروردگار ما
ایں رانہایتے است نہ آ رانہایتے
میرے غفور رحیم مالک
عصیاں سے کبھی ہم نے کنارہ نہ کیا
پر تو نے دل آزردہ ہمارا نہ کیا
ہم نے تو جہنم کی بہت کی تدبیر
لیکن تیری رحمت نے گوارا نہ کیا
الحمد للہ الذی ھدانا لھاذا وما کنا لنھتدی لو لا ان ھدانا اللہ
پ ۱۸ الاعراف۴۳
اللہ تعالیٰ کا انتہائی شکر و احسان ہے جس نے ہمیں یہاں تک پہنچایا ، اور اگر اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت نہ کرتا تو ہم ہر گز راہ راست پانے والے نہ تھے
ذالک الفضل یوتیہ من یشاء

یا رب تو کریمی و رسول توکریم
صد شکر کہ ہستیم میان دو کریم
میں نے یکم جنوری ۱۹۳۲ کو احمدیہ انجمن لاہور کی ملازمت سے استعفیٰ دے دیا جو ۲۴ جنوری کو منظور کر لیا گیاـ
 

بنت اسلام

رکن عملہ
ناظم
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
ترک مرزائیت کا اعلان

۱۹۳۲ ء کی ابتدا میں انگریز اور ڈوگرہ حکومت کے خلاف تحریک کشمیر انتہائی عروج پر پہنچ چکی تھی ـ مجلس احرار کے ایک درجن سے زائد اراکین شہید ہو چکے تھےـ مجلس کے تمام راہنما اور چالیس ہزار سر فروش رضا کار جیل خانوں میں محبوس تھے ـ برطانوی حکومت نے عام اجتماعات پر پابندی عائد کر رکھی تھیـ حالات کچھ ساز گار ہوئے ، پابندیاں ختم ہوئیں تو احباب کی طرف سے ایک جلسہ عام کا اہتمام کیا گیا ـ قد آدم اشتہار شائع کیے گئے کہ ۲۷ مئی ۱۹۳۲ بعد از نماز عشاء بیرو ن موچی دروازہ لاہور جلسہ عام منعقد ہو گاـ جس میں مولانا لال حسین اختر جن کی تعلیم پر مرزائیوں نے پچاس ہزار سے زیادہ روپیہ خرچ کیا تھا اور وہ جماعت مرزائیہ لاہوریہ کےمشہور مبلغ اور مناطر تھے ترک مرزائیت کا اعلان کریں گےـ اور ترک مرزائیت کے وجوہ اور ناقابل تردید دلائل بیان کریں گےـ ان کی تقریر کے بعد مرزائیوں کے نمائندہ کو سوال و جواب کے لیے وقت دیا جائے گاـ اندرون شہر اور بیرون شہر منادی کی گئی ـ بعد از نماز عشاء کم از کم تیس ہزار کے مجمع میں میں نے ترک مرزائیت کے موضوع پر تین گھنٹے تقریر کی ـ سٹیج کے بالمقابل مرزائی مبلغین و مناظرین کے لیے میز اور کرسیاں رکھی گئی تھیں ـ میری تقریر کے بعد صاحب صدر نے اعلان کیا کہ حسب وعدہ مرزائی صاحبان کو مولانا لال حسین اختر کی تقریر پر سوال و جواب کے لیے وقت دیا جاتا ہے تاکہ حاضرین مرزائیت کے صدق و کذب کا اندازہ لگا سکیں ـ لاہوری اور قادیانی مرزائیوں کے مبلغ اور مناظر موجود تھے لیکن کسی کو ہمت و جراءت نہ ہوئی کہ وہ میرے مقابلے میں آ سکیں ـ صاحب صدر کی دعا کے بعد اجلاس برخواست ہواـ
 
Top