• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

تفسیر البیان از جاوید احمد غامدی پارہ نمبر 2 یونیکوڈ

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 193


وَ قٰتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ لِلّٰہِ ؕ فَاِنِ انۡتَہَوۡا فَلَا عُدۡوَانَ اِلَّا عَلَی الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۱۹۳﴾
اس کے معنی یہ ہیں کہ جس قتال کا حکم یہاں دیا گیا ہے، اس کی غایت صرف یہ نہیں ہے کہ حج کی راہ میں قریش کی مزاحمت ختم کردی جائے ، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر یہ بھی ہے کہ فتنہ باقی نہ رہے اور سرزمین عرب میں دین صرف اللہ ہی کا ہوجائے۔ قرآن میں رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اور آپ کے صحابہ کو جنگ کا حکم انھی دو مقاصد کے لیے دیا گیا ہے۔ پہلے مقصد کے لیے فتنہ کا جو لفظ اصل میں آیا ہے ، اس کے معنی ہم نے اوپر بیان کردیے ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ دوسروں کو بالجبر ان کے مذہب سے برگشتہ کرنے یا اس پر عمل کی راہ روکنے کی روایت اب بڑی حد تک دنیا سے ختم ہوگئی ہے ، لیکن انسان جب تک انسان ہے ، نہیں کہا جاسکتا کہ یہ کب اور کس صورت میں پھر زندہ ہوجائے۔ اس لیے قرآن کا یہ حکم قیامت تک باقی ہے۔ اللہ کی زمین پر اس طرح کا کوئی فتنہ جب سر اٹھائے ، مسلمانوں کی حکومت اگر اتنی قوت رکھتی ہو کہ وہ اس کا استیصال کرسکے تو اس پر لازم ہے کہ مظلوموں کی مدد کے لیے اٹھے اور اللہ کی اس راہ میں جنگ کا اعلان کردے۔ مسلمانوں کے لیے قرآن کی یہ ہدایت ابدی ہے ، اسے دنیا کا کوئی قانون ختم نہیں کرسکتا۔ رہا دوسرا مقصد تو وہ دو ہی صورتوں میں حاصل ہوسکتا تھا : ایک یہ کہ سرزمین عرب میں دین حق کے سوا تمام ادیان کے ماننے والے قتل کردیے جائیں ۔ دوسرے یہ کہ انھیں ہر لحاظ سے زیردست بنا کر رکھا جائے۔ چنانچہ صلح و جنگ کے بہت سے مراحل سے گزر کر جب نبی ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے منکرین پوری طرح مغلوب ہوگئے تو بالآخر یہ دونوں ہی طریقے اختیار کیے گئے۔ مشرکین عرب اگر ایمان نہ لائیں تو انھیں ختم کردینے کا حکم دیا گیا اور یہودو نصاریٰ کے بارے میں ہدایت کی گئی کہ ان سے جزیہ لے کر اور انھیں پوری طرح محکوم اور زیر دست بنا کر ہی اس سرزمین پر رہنے کی اجازت دی جائے۔ ان میں سے، البتہ جو معاندین تھے ، انھیں جب ممکن ہوا قتل یا جلا وطن کردیا گیا۔ اِس دوسرے مقصد کے لیے قتال اب ہمیشہ کے لیے ختم ہوچکا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا تعلق شریعت سے نہیں ، بلکہ اللہ تعالیٰ کے قانون اتمام حجت سے ہے جو اس دنیا میں ہمیشہ اس کے براہ راست حکم اور انھی ہستیوں کے ذریعے سے روبہ عمل ہوتا ہے جنھیں وہ رسالت کے منصب پر فائز کرتا ہے۔ انسانی تاریخ میں یہ منصب آخری مرتبہ محمد رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو حاصل ہوا ہے۔ اس قانون کی رو سے اللہ کی حجت جب ان رسولوں کے ذریعے سے کسی قوم پر پوری ہوجاتی ہے تو ان کے منکرین پر اسی دنیا میں عذاب آجاتا ہے۔ یہ عذاب آسمان سے بھی آتا ہے اور بعض حالات میں اہل حق کی تلواروں کے ذریعے سے بھی ۔ پھر اس کے نتیجے میں منکرین لازماً مغلوب ہوجاتے ہیں اور ان کی سرزمین پر حق کا غلبہ پوری قوت کے ساتھ قائم ہوجاتا ہے۔ نبی ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی طرف سے اتمام حجت کے بعد یہی دوسری صورت پیش آئی۔ چنانچہ آپ اور آپ کے صحابہ کو جس طرح فتنہ کے خلاف قتال کا حکم دیا گیا ، اسی طرح اس مقصد کے لیے بھی تلوار اٹھانے کی ہدایت ہوئی ۔ یہ خدا کا کام تھا جو انسانوں کے ہاتھ سے انجام پایا ۔ اسے ایک سنت الٰہی کی حیثیت سے دیکھنا چاہیے۔ انسانی اخلاقیات سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ سورة توبہ (٩) کی آیت ١٤ کے الفاظ ’ یُعَذِّبْھُمُ اللّٰہُ بِاَیْدِیْکُمْ ‘ میں یہی حقیقت بیان ہوئی ہے۔ اصل میں لفظ ’ عُدْوَان ‘ استعمال ہوا ہے۔ اس کے معنی تو زیادتی اور تعدی کے ہیں ، لیکن یہاں یہ ٹھیک اس مفہوم میں آیا ہے جس مفہوم میں ہم ” اقدام “ کا لفظ بولتے ہیں۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے لکھا ہے : ”۔۔ عربی زبان میں کبھی کبھی بعض الفاظ محض مجانست و ہم آہنگی کے لیے استعمال ہوجاتے ہیں۔ ان کا مفہوم موقع و محل سے متعین ہوتا ہے۔ مثلاً کہتے ہیں : ’ دناھم کما دانوا ‘( ہم نے ان کو بدلہ دیا، جیسا کہ انھوں نے ہمارے ساتھ کیا) ۔ ظاہر ہے کہ یہاں ’ دانوا ‘ محض ’ دنا ‘ کی مشابہت کی وجہ سے لایا گیا ہے، ورنہ موقع ’ فعلوا ‘ یا اس کے ہم معنی کسی لفظ کا ہے۔ یا قرآن میں ہے : ’ جَزَآءُ سَیِّءَۃٍ سَیِّءَۃٌ مِّثْلُھَا ‘ (برائی کا بدلہ اسی کے مانند بدلہ ہے ) ۔ ہر شخص جانتا ہے کہ کسی برائی کا بدلہ کوئی برائی نہیں ہے، لیکن محض سابق لفظ کی ہم آہنگی کی وجہ سے جرم کے ساتھ اس کی سزا کو بھی ’ سَیِّءَۃ ‘ سے تعبیر کردیا۔ اسی طرح آگے والی آیت میں ہے : ’ فَمَنِ اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْہِ ‘ (جو تم پر زیادتی کرے تو تم بھی اس کی زیادتی کے برابر اس کے خلاف اقدام کرو) ۔ اس آیت میں کسی کی زیادتی کے جواب میں جو اقدام کیا جائے ، اس کو بھی ’ اِعْتِدَاء ‘ کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے ، حالانکہ یہ معنی میں محض اقدام کے ہے۔ صرف اپنے ماسبق کے ساتھ ہم آہنگی کی وجہ سے اس شکل میں استعمال ہوا ۔ عربی زبان کے اسی معروف اسلوب کے مطابق زیر بحث آیت میں بھی لفظ ’ عُدْوَان ‘ استعمال ہوا، لیکن مراد اس سے مجرد وہ اقدام ہے جو جوابی کارروائی کے طور پر کیا جائے۔ “ (تدبر قرآن ١ /٤٧٩) یعنی اگر یہ اپنی معاندت چھوڑ کر ایمان و اسلام کی راہ اختیار کرلیں تو ان کے پچھلے جرائم کی بنا پر ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہونی چاہیے۔ اس کے بعد اقدام صرف انھی لوگوں کے خلاف جائز ہوگا جو انکار پر قائم رہیں اور اپنے رویے کی اصلاح نہ کریں۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 194


اَلشَّہۡرُ الۡحَرَامُ بِالشَّہۡرِ الۡحَرَامِ وَ الۡحُرُمٰتُ قِصَاصٌ ؕ فَمَنِ اعۡتَدٰی عَلَیۡکُمۡ فَاعۡتَدُوۡا عَلَیۡہِ بِمِثۡلِ مَا اعۡتَدٰی عَلَیۡکُمۡ ۪ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ مَعَ الۡمُتَّقِیۡنَ ﴿۱۹۴﴾
یعنی ماہ حرام کی حرمت اگر یہ ملحوظ نہیں رکھتے تو اس کے بدلے میں تمہیں بھی حق ہے کہ اس کی پروا کیے بغیر ان کے خلاف جنگ کرو، اس لیے کہ اس طرح کی حرمتیں باہمی طور پر ہی قائم رہ سکتی ہیں ، انھیں کوئی ایک فریق اپنے طور پر قائم نہیں رکھ سکتا۔ یہ اوپر بیان کیے گئے احکام کی دلیل ارشاد ہوئی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں۔ ”۔۔ مطلب یہ ہے کہ اشہر حرم میں یا حدود حرم میں لڑائی بھڑائی ہے تو بہت بڑا گناہ ، لیکن جب کفار تمہارے لیے اس کی حرمت کا لحاظ نہیں کرتے تو تمہیں بھی یہ حق حاصل ہے کہ قصاص کے طور پر تم بھی ان کو ان کی حرمت سے محروم کردو ۔ ہر شخص کی جان شریعت میں محترم ہے ، لیکن جب ایک شخص دوسرے کی جان کا احترام نہیں کرتا ، اس کو قتل کردیتا ہے تو اس کے قصاص میں وہ بھی حرمت جان کے حق سے محروم کر کے قتل کردیا جاتا ہے۔ اسی طرح اشہر حرم اور حدود حرم کا احترام مسلم ہے ، بشرطیکہ کفار بھی ان کا احترام ملحوظ رکھیں اور ان میں دوسروں کو ظلم و ستم کا ہدف نہ بنائیں ۔ لیکن جب ان کی تلواریں ان مہینوں میں اور اس بلد امین میں بےنیام ہوتی ہیں تو وہ سزاوار ہیں کہ ان کے قصاص میں وہ بھی ان کے امن و احترام کے حقوق سے محروم کیے جائیں۔ مزید فرمایا کہ جس طرح اشہر حرم کا یہ قصاص ضروری ہے ، اسی طرح دوسری حرمتوں کا قصاص بھی ہے۔ یعنی جس محترم چیز کے حقوق حرمت سے وہ تمہیں محروم کریں ، تم بھی اس کے قصاص میں اس کے حق حرمت سے انھیں محروم کرنے کا حق رکھتے ہو۔ پس جس طرح کے اقدامات حرم اور اشہر حرم کی حرمتوں کو برباد کر کے وہ تمہارے خلاف کریں ، تم ان کے جواب ترکی بہ ترکی دو ۔ البتہ تقویٰ کے حدود کا لحاظ رہے۔ کسی حد کے توڑنے میں تمہاری طرف سے پیش قدمی نہ ہو اور نہ کوئی اقدام حد ضروری سے زائد ہو ۔ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت انھی لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو ہر طرح کے حالات میں اس سے ڈرتے رہتے ہیں۔ “ (تدبر قرآن ١/ ٤٧٩)
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 195


وَ اَنۡفِقُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ لَا تُلۡقُوۡا بِاَیۡدِیۡکُمۡ اِلَی التَّہۡلُکَۃِ ۚۖۛ وَ اَحۡسِنُوۡا ۚۛ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿۱۹۵﴾
اصل میں ’ وَلاَ تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں ’ التَّھْلُکَۃ ‘ مصدر ہے اور ’ بِاَیْدِیْکُمْ ‘ سے پہلے ’ انفسکم ‘ کا لفظ عربیت کے اسلوب پر حذف ہوگیا ہے۔ سورة توبہ (٩) کی آیت ٤٢ میں یہی بات ’ یُھْلِکُوْنَ اَنْفُسَھُمْ ‘ کے الفاظ میں ادا کی گئی ہے۔ استاذ امام کے الفاظ میں اس سے ایک ایسے شخص کی تصویر نگاہوں کے سامنے آتی ہے جو اوپر سے نیچے کی طرف اپنے دونوں ہاتھ پھیلائے ہوئے کسی دریا یا غار میں چھلانگ لگا رہا ہو۔ مطلب یہ ہے کہ جو لوگ اس طرح کے موقعوں پر جان و مال کی قربانی سے جی چراتے ہیں ، وہ درحقیقت اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہے ہوتے ہیں۔ اس لیے کہ زندگی اور مال کے حریص جس چیز کو کامیابی سمجھتے ہیں ، اللہ کی نگاہ میں وہی ہلاکت ہے۔ اصل میں لفظ ’ اَحْسِنُوْا ‘ آیا ہے۔ اس کا عطف ’ اَنْفِقُوْا ‘ پر ہے ، یعنی اللہ کی راہ میں اپنا پسندیدہ مال خرچ کرو اور اسے پورے جوش و جذبہ اور دل کی آمادگی کے ساتھ خرچ کرو ۔ انفاق کا یہی طریقہ اللہ کو پسند ہے۔ قرآن کے بعض دوسرے مقامات پر بھی اس کے بارے میں اسی بات کی تاکید کی گئی ہے۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 196


وَ اَتِمُّوا الۡحَجَّ وَ الۡعُمۡرَۃَ لِلّٰہِ ؕ فَاِنۡ اُحۡصِرۡتُمۡ فَمَا اسۡتَیۡسَرَ مِنَ الۡہَدۡیِ ۚ وَ لَا تَحۡلِقُوۡا رُءُوۡسَکُمۡ حَتّٰی یَبۡلُغَ الۡہَدۡیُ مَحِلَّہٗ ؕ فَمَنۡ کَانَ مِنۡکُمۡ مَّرِیۡضًا اَوۡ بِہٖۤ اَذًی مِّنۡ رَّاۡسِہٖ فَفِدۡیَۃٌ مِّنۡ صِیَامٍ اَوۡ صَدَقَۃٍ اَوۡ نُسُکٍ ۚ فَاِذَاۤ اَمِنۡتُمۡ ٝ فَمَنۡ تَمَتَّعَ بِالۡعُمۡرَۃِ اِلَی الۡحَجِّ فَمَا اسۡتَیۡسَرَ مِنَ الۡہَدۡیِ ۚ فَمَنۡ لَّمۡ یَجِدۡ فَصِیَامُ ثَلٰثَۃِ اَیَّامٍ فِی الۡحَجِّ وَ سَبۡعَۃٍ اِذَا رَجَعۡتُمۡ ؕ تِلۡکَ عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ ؕ ذٰلِکَ لِمَنۡ لَّمۡ یَکُنۡ اَہۡلُہٗ حَاضِرِی الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیۡدُ الۡعِقَابِ ﴿۱۹۶﴾٪
اِن عبادات کا ذکر یہاں جس طریقے سے ہوا ہے ، اس سے واضح ہے کہ اہل عرب کے لیے یہ کوئی اجنبی چیزیں نہ تھیں ۔ ان کی تاریخ سے بھی یہی بات معلوم ہوتی ہے کہ حج وعمرہ کے مناسک اور حدود و آداب سے وہ پوری طرح واقف تھے۔ اس میں شبہ نہیں کہ ان میں بعض بدعات انھوں نے داخل کردی تھیں، لیکن وہ جانتے تھے کہ یہ عبادات کیا ہیں۔ قرآن نے اسی بنا پر ان کی تفصیل نہیں کی ۔ اس کا بیان اس معاملے میں بدعات کی اصلاح اور ان کے مناسک سے متعلق بعض ضروری توضیحات تک محدود ہے۔اصل الفاظ ہیں : ’ وَ اَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ لِلّٰہِ ‘۔ یعنی اس صورت میں کوئی رعایت نہ ہوگی۔ تمام مناسک ، جس طرح کہ وہ ہیں ، اسی طرح پورے کیے جائیں گے۔ اس جملے میں زور لفظ ’ لِلّٰہِ ‘ پر ہے، یعنی حج وعمرہ کی یہ عبادات صرف اللہ وحدہ لا شریک کے لیے ہونی چاہئیں۔ اس تنبیہ کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ اہل عرب کے لیے یہ دونوں عبادت سے زیادہ تجارت کا ذریعہ بن گئی تھیں اور ان کا حج وعمرہ صرف اللہ پروردگار عالم ہی کے لیے نہیں ہوتا تھا، بلکہ ان کے وہ معبودان باطل بھی اس میں شریک تھے جن کے بت انھوں نے عین بیت الحرام میں بھی اور حج کے دوسرے مقامات پر بھی نصب کردیے تھے۔اِس سے آگے ’ فَاِذَآ اَمِنْتُمْ ‘ کے جو الفاظ آئے ہیں، ان سے واضح ہے کہ اس سے مراد یہاں دشمن کی طرف سے گھیر لیا جانا ہے ، لیکن یہی صورت بعض دوسرے موانع کی وجہ سے پیش آجائے تو اس کا حکم بھی ، ظاہر ہے کہ اس سے مختلف نہیں ہونا چاہیے۔ یعنی اس صورت میں قربانی پیش کرنا ضروری ہوگا اور مجبوری کی اس حالت میں یہ حج وعمرہ کے تمام مناسک کی قائم مقام ہوجائے گی۔ عام حالات میں قربانی کی جگہ اور وقت ، دونوں متعین ہیں ، لیکن جس صورت کا پیچھے ذکر ہے ، اس میں قربانی کے پہنچنے کی جگہ وہی ہے ، جہاں کوئی شخص گھر جائے۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر نبی ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے عمل سے بھی اسی بات کی تائید ہوتی ہے۔ اصل میں ’ فَفِدْیَۃٌ مِّنْ صِیَامٍ اَوْصَدَقَۃٍ اَوْنُسُکٍ ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان کا یہ اسلوب دلیل ہے کہ فدیے کی تعداد اور مقدار کا معاملہ لوگوں کی صواب دید پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ روایت ہے کہ نبی ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : تین روزے رکھ لیے جائیں یا ٦ مسکینوں کو کھانا کھلا دیا جائے یا ایک بکری ذبح کردی جائے تو کافی ہوجائے گا۔ اِس سے واضح ہے کہ آدمی کے لیے ممکن ہو تو بہتر یہی ہے کہ وہ عمرہ کے لیے الگ اور حج کے لیے الگ سفر کرے۔ ایک ہی سفر میں پہلے عمرہ اور اس کے بعد احرام کھول کر حج کی تاریخوں میں اس کے لیے نیا احرام باندھ کر حج کرنا حدود حرم کے باہر سے آئے ہوئے عازمین حج کے لیے محض ایک رخصت ہے جو اللہ تعالیٰ نے دو مرتبہ سفر کی زحمت کے پیش نظر انھیں مرحمت فرمائی ہے۔ اس پر فدیہ اسی لیے لازم کیا گیا ہے۔ چنانچہ اس رخصت سے فائدہ بھی ہر مسلمان کو اسے رخصت سمجھ کر ہی اٹھانا چاہیے۔ بخاری ، رقم ١٨١٤۔

 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 197


اَلۡحَجُّ اَشۡہُرٌ مَّعۡلُوۡمٰتٌ ۚ فَمَنۡ فَرَضَ فِیۡہِنَّ الۡحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَ لَا فُسُوۡقَ ۙ وَ لَا جِدَالَ فِی الۡحَجِّ ؕ وَ مَا تَفۡعَلُوۡا مِنۡ خَیۡرٍ یَّعۡلَمۡہُ اللّٰہُ ؕؔ وَ تَزَوَّدُوۡا فَاِنَّ خَیۡرَ الزَّادِ التَّقۡوٰی ۫ وَ اتَّقُوۡنِ یٰۤاُولِی الۡاَلۡبَابِ ﴿۱۹۷﴾
حج کا لفظ یہاں حج ہی کے لیے استعمال ہوا ہے، لیکن اس کے ساتھ اگر عمرہ کیا جائے گا تو علیٰ سبیل التغلیب وہ بھی اس میں شامل ہوگا۔ یعنی یہ کچھ ایسی لامحدود اور غیر متعین مدت نہیں ہے کہ اس کی پابندیوں سے لوگ ہراساں ہوں ۔ زیادہ سے زیادہ چند مہینوں کی بات ہے۔ بندہ مومن کو حوصلے کے ساتھ اور خدا سے ڈرتے ہوئے یہ مدت پوری احتیاط کے ساتھ گزارنی چاہیے ۔
اصل میں ’ فَمَنْ فَرَضَ فِیْھِنَّ الْحَجَّ ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں ’ فَرَضَ فِیْھِنَّ ‘ کا اسلوب دلیل ہے کہ اس سے مراد وہی وقت ہے ، جب آدمی احرام باندھ کر حج کا پختہ عزم کرلیتا ہے۔یہاں جن تین چیزوں سے منع کیا گیا ہے ، ان کی ممانعت کے وجوہ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اپنی تفسیر میں اس طرح واضح فرمائے ہیں۔ ” ایک وجہ تو یہ ہے کہ اسلام میں یہ عبادت انسان کو ترک دنیا اور زہد کی اس آخری حد سے آشنا کرنے والی ہے جس سے آشنا ہونا اسلام میں مطلوب و مرغوب ہے اور جو تربیت و تزکیہ کے لیے ضروری ہے۔ اس سے آگے رہبانیت کی حدیں شروع ہوجاتی ہیں جن میں داخل ہونے سے اسلام نے روکا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ احرام کی پابندیوں کی وجہ سے ان چیزوں کے لیے نفس کے اندر اکساہٹ بہت بڑھ جاتی ہے۔ انسان کے اندر یہ کمزوری ہے کہ جس چیز سے وہ روک دیا جائے ، اس کی خواہش اس کے اندر دوچند ہوجاتی ہے اور شیطان اس کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھاتا ہے ۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ سفر کی حالت ہونے کے سبب سے ان چیزوں کے مواقع بہت پیش آتے ہیں۔ آدمی اگر چوکنا نہ رہے تو ہر قدم پر فتنہ میں پڑ سکتا ہے۔ “ (تدبر قرآن ١/ ٤٨٥) اصل الفاظ ہیں : ’ تَزَوَّدُوْا، فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰی ‘۔ عربیت کے ادا شناس جانتے ہیں کہ ’ فانّ ‘ کا لفظ جب اس طرح آتا ہے تو اپنے ما قبل کی توجیہ و تعلیل کے لیے آتا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھیے تو ضروری ہے کہ ’ تَزَوَّدُوْا ‘ کے بعد ’ التَّقْوٰی ‘ کا لفظ اس جملے میں حذف مانا جائے۔ اس جملے کی کوئی دوسری تالیف کسی طرح موزوں نہیں ہے۔ ہم نے ترجمہ اسی کے لحاظ سے کیا ہے۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 198


لَیۡسَ عَلَیۡکُمۡ جُنَاحٌ اَنۡ تَبۡتَغُوۡا فَضۡلًا مِّنۡ رَّبِّکُمۡ ؕ فَاِذَاۤ اَفَضۡتُمۡ مِّنۡ عَرَفٰتٍ فَاذۡکُرُوا اللّٰہَ عِنۡدَ الۡمَشۡعَرِ الۡحَرَامِ ۪ وَ اذۡکُرُوۡہُ کَمَا ہَدٰىکُمۡ ۚ وَ اِنۡ کُنۡتُمۡ مِّنۡ قَبۡلِہٖ لَمِنَ الضَّآلِّیۡنَ ﴿۱۹۸﴾
اصل میں ’ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلاً مِّنْ رَّبِّکُمْ ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں ’ اَنْ ‘ سے پہلے ’ فی ‘ عربیت کے مطابق حذف ہوگیا ہے اور ’ فَضَلاً مِّنْ رَّبِّکُمْ ‘ سے مراد معاشی فوائد ہیں۔ یہ تعبیر قرآن میں بالعموم اسی مفہوم کے لیے آئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ حج کے سفر سے اصل مقصود تو حج ہی ہونا چاہیے ، لیکن اس میں کوئی مضایقہ نہیں کہ اس کے ساتھ کوئی شخص اس سفر سے اپنے لیے کچھ معاشی فوائد بھی حاصل کرلے۔ یعنی پیغمبر کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق شرک اور جاہلیت کی آمیزش سے پاک کرکے خالصتاً اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو۔ یہ اس لیے فرمایا ہے کہ جاہلیت میں لوگ مزدلفہ پہنچتے تو وہاں تسبیح و تہلیل اور ذکر و عبادت کے بجائے جگہ جگہ آگ جلاتے اور قصیدہ خوانی ، داستان گوئی اور مفاخرت کی مجلسیں منعقد کرتے تھے۔ مطلب یہ ہے کہ حج وعمرہ کے بارے میں اس رہنمائی کی قد رکرو جو قرآن کے ذریعے سے تمہیں دی جا رہی ہے۔ اس سے پہلے تو اللہ کے مقرر کردہ ان شعائر کو تم نے کھیل تماشے کی جگہ بنا رکھا تھا۔ یہ خدا کی عنایت ہے کہ علم و معرفت کی ان جلوہ گاہوں کی حقیقت اس نے تم پر واضح کردی ہے۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 199


ثُمَّ اَفِیۡضُوۡا مِنۡ حَیۡثُ اَفَاضَ النَّاسُ وَ اسۡتَغۡفِرُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۹۹﴾
اس ہدایت کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ زمانہ جاہلیت میں قریش نے یہ امتیاز قائم کرلیا تھا کہ عرفات کی حاضری وہ اپنے لیے ضروری نہیں سمجھتے تھے اور مزدلفہ تک جا کر ہی پلٹ آتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ بیت اللہ کے پروہت اور مجاور ہیں، اس وجہ سے ان کے لیے حدودحرم سے باہر نکلنا مناسب نہیں ہے۔


 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 200


فَاِذَا قَضَیۡتُمۡ مَّنَاسِکَکُمۡ فَاذۡکُرُوا اللّٰہَ کَذِکۡرِکُمۡ اٰبَآءَکُمۡ اَوۡ اَشَدَّ ذِکۡرًا ؕ فَمِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّقُوۡلُ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنۡیَا وَ مَا لَہٗ فِی الۡاٰخِرَۃِ مِنۡ خَلَاقٍ ﴿۲۰۰﴾
یعنی قیام منیٰ کے ایام میں اپنے باپ دادا کے لیے مفاخرت کی جو مجلسیں تم منعقد کرتے رہے ہو، ان کی جگہ اور ان سے زیادہ اہتمام اور جوش و خروش کے ساتھ تمہیں اب اپنے پروردگار کی یاد میں مشغول ہونا چاہیے۔ حج وعمرہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ عہد غلامی کی تجدید اور ابلیس کے خلاف انسان کی ابدی جنگ کا نہایت روح پرور علامتی اظہار ہیں ، لیکن انسان کی بدقسمتی ہے کہ وہ ایسی عظیم عبادات کو بھی بالعموم اپنے دنیوی مفادات کے حوالے ہی سے دیکھتا ہے۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 201


وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّقُوۡلُ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنۡیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الۡاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ ﴿۲۰۱﴾
اس سے معلوم ہوا کہ دعا کا یہی طریقہ اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں. ”۔۔ اس دعا سے یہ تعلیم ملتی ہے کہ بندے کو اپنے رب سے دنیا اور آخرت ، دونوں کی بھلائی طلب کرنی چاہیے اور اس بھلائی کا فیصلہ اور انتخاب اسی پر چھوڑنا چاہیے۔ وہی سب سے زیادہ بہتر طریقے پر جانتا ہے کہ ہمارے لیے حقیقی خیر کس چیز میں ہے۔ خاص طور پر دنیا کی چیزوں میں سے کسی چیز کا خیر ہونا تو منحصر ہے اس امر پر کہ وہ چیز ہمارے لیے آخرت کی کامیابی کا وسیلہ و ذریعہ بن سکے اور کسی چیز کے اس پہلو کو جاننا صرف اللہ تعالیٰ ہی کا کام ہے۔ اس وجہ سے بندے کے لیے یہی بہتر ہے کہ وہ اس معاملے کو اللہ تعالیٰ ہی پر چھوڑے ، اپنی طرف سے کوئی تجویز پیش نہ کرے۔ البتہ ، دوزخ کے عذاب سے برابر پناہ مانگتا رہے۔ یہ بڑی سخت چیز ہے۔ بندے کی سب سے بڑی کامیابی یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو دوزخ سے پناہ میں رکھے۔ “ (تدبر قرآن ١/ ٤٨٨)
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 202


اُولٰٓئِکَ لَہُمۡ نَصِیۡبٌ مِّمَّا کَسَبُوۡا ؕ وَ اللّٰہُ سَرِیۡعُ الۡحِسَابِ ﴿۲۰۲﴾
موقع کلام دلیل ہے کہ یہاں یہ جملہ تسلی کے سیاق میں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ مطمئن رہو، خدا کے وعدوں کے پورے ہونے میں دیر نہیں ہوگی ۔ تمہارا اجر تمہیں ملے گا تو یہی سمجھو گے کہ تمہاری مزدوری پسینہ خشک ہونے سے پہلے ہی تمہیں مل گئی ہے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اس کی وضاحت میں لکھا ہے. ”۔۔ یہاں یہ نکتہ بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ ان معاملات میں ساری اہمیت اس احساس کی ہے جو انسان کو جزاو سزا کے وقت ہوگا ۔ اگر جزا وسزا کے وقت کا احساس یہی ہوگا کہ عمل اور جزا کے درمیان کا فاصلہ اب بالکل غائب ہوگیا تو پھر یہ فاصلہ بالکل ناقابل لحاظ ہے۔ پھر تو صحیح یہی ہے کہ مجرم اپنی سزا کو سامنے رکھے اور مومن اپنی جزا کو ۔ نہ وہ مہلت سے مغرور ہو نہ یہ تاخیر سے بےصبر۔ اور اگر کوئی شخص اپنی نافہمی سے اس فاصلے کو اہمیت دے بھی تو اسے یہ حقیقت پیش نظر رکھنی چاہیے کہ ’ من مات فقد قامت قیامتہ ‘ کہ جو شخص مرا، اس کی قیامت کھڑی ہوگئی۔ “ (تدبر قرآن ١/ ٤٨٩)
 
Top