• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

تفسیر البیان از جاوید احمد غامدی پارہ نمبر 2 یونیکوڈ

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 215


یَسۡـَٔلُوۡنَکَ مَا ذَا یُنۡفِقُوۡنَ ۬ؕ قُلۡ مَاۤ اَنۡفَقۡتُمۡ مِّنۡ خَیۡرٍ فَلِلۡوَالِدَیۡنِ وَ الۡاَقۡرَبِیۡنَ وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ ابۡنِ‌السَّبِیۡلِ ؕ وَ مَا تَفۡعَلُوۡا مِنۡ خَیۡرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیۡمٌ ﴿۲۱۵﴾
یہ انھی لوگوں کے سوالات ہیں جن کا ذکر اوپر ہوا ہے اور انھی مسائل سے متعلق ہیں جو جہاد و انفاق کا حکم دینے کے بعد اس طرح کے منافقین اور کمزور مسلمانوں کے ذہن میں پیدا ہو رہے تھے۔ تجدید شریعت کا مضمون اس فصل میں اب انھی سوالوں کے جوابات سے بتدریج آگے بڑھتے ہوئے اپنے اختتام کو پہنچ جائے گا۔ مطلب یہ ہے کہ خدا سے کیا پوچھتے ہو ؟ تمہارے لوگ ہیں اور ان کی ضرورتیں بھی تمہارے سامنے ہیں، اس لیے جتنی ہمت اور جتنا حوصلہ ہے، اس کے مطابق زیادہ سے زیادہ خرچ کرو۔ تم جو کچھ بھی کرو گے، خدا اسے جانتا ہے اور وہ کسی چیز کو فراموش کرنے والا نہیں ہے۔ لہٰذا قیامت میں وہ اس کا پورا صلہ تمہیں عطا کردے گا۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 216


کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الۡقِتَالُ وَ ہُوَ کُرۡہٌ لَّکُمۡ ۚ وَ عَسٰۤی اَنۡ تَکۡرَہُوۡا شَیۡئًا وَّ ہُوَ خَیۡرٌ لَّکُمۡ ۚ وَ عَسٰۤی اَنۡ تُحِبُّوۡا شَیۡئًا وَّ ہُوَ شَرٌّ لَّکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ وَ اَنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۲۱۶﴾٪
یہ ایک بدیہی حقیقت کا بیان ہے۔ انسان کو جو چیزیں اخلاقی لحاظ سے اوپر اٹھانے والی ہیں، وہ بالعموم انھیں ناپسند کرتا ہے اور جو اس لحاظ سے پست کردینے والی ہیں ، ان کے لیے وہ اپنے اندر بڑی رغبت پاتا اور بےاختیار ان کی طرف لپکتا ہے

 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 217


یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الشَّہۡرِ الۡحَرَامِ قِتَالٍ فِیۡہِ ؕ قُلۡ قِتَالٌ فِیۡہِ کَبِیۡرٌ ؕ وَ صَدٌّ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ کُفۡرٌۢ بِہٖ وَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ ٭ وَ اِخۡرَاجُ اَہۡلِہٖ مِنۡہُ اَکۡبَرُ عِنۡدَ اللّٰہِ ۚ وَ الۡفِتۡنَۃُ اَکۡبَرُ مِنَ الۡقَتۡلِ ؕ وَ لَا یَزَالُوۡنَ یُقَاتِلُوۡنَکُمۡ حَتّٰی یَرُدُّوۡکُمۡ عَنۡ دِیۡنِکُمۡ اِنِ اسۡتَطَاعُوۡا ؕ وَ مَنۡ یَّرۡتَدِدۡ مِنۡکُمۡ عَنۡ دِیۡنِہٖ فَیَمُتۡ وَ ہُوَ کَافِرٌ فَاُولٰٓئِکَ حَبِطَتۡ اَعۡمَالُہُمۡ فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ ۚ وَ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ ﴿۲۱۷﴾
اشہر حرم میں جنگ سے متعلق قرآن نے اپنا موقف اگرچہ اوپر آیات ١٩٠۔ ١٩٥ میں بیان کردیا تھا، لیکن ان لوگوں نے اس کے باوجود محض اس خیال سے کہ شاید اسی طرح جنگ کی ذمہ داری سے بچنے کی کوئی راہ نکل آئے ، یہ سوال کردیا تو اللہ تعالیٰ نے نہ صرف یہ کہ پوری تفصیل کے ساتھ اس کا جواب دیا ، بلکہ اس طرح کے حالات میں ان کے اندر ارتداد کے میلانات کو سامنے رکھ کر بات کو اس کے آخری نتائج تک بالکل واضح کردیا ہے ۔ دنیا اور آخرت ، دونوں میں اعمال کے ضائع ہوجانے کا ذکر اس لیے کیا ہے کہ رسولوں کی بعثت کے نتیجے میں جو دینونت برپا ہوتی ہے ، اس میں کفر و ایمان کے نتائج اسی دنیا میں سامنے آجاتے ہیں۔

 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 218


اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ الَّذِیۡنَ ہَاجَرُوۡا وَ جٰہَدُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ۙ اُولٰٓئِکَ یَرۡجُوۡنَ رَحۡمَتَ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۲۱۸﴾
اصل میں فعل ’ اٰمَنُوْا ‘ آیا ہے۔ موقع کلام دلیل ہے کہ یہ اپنے کامل معنی میں استعمال ہوا ہے۔ چنانچہ ہم نے ترجمہ اسی کے لحاظ سے کیا ہے۔ اللہ کی راہ میں ہجرت اور جہاد جیسے اعمال کی توفیق پانے کے بعد بھی بندہ مومن اپنے پروردگار کی رحمت کا امیدوار ہی ہوسکتا ہے ، اس لیے کہ نجات تو بہرحال خدا کی رحمت اور اس کی مہربانی سے ہوگی ۔ چنانچہ آگے فرمادیا ہے کہ اللہ غفور و رحیم ہے۔

 
آخری تدوین :

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 219


یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الۡخَمۡرِ وَ الۡمَیۡسِرِؕ قُلۡ فِیۡہِمَاۤ اِثۡمٌ کَبِیۡرٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ ۫ وَ اِثۡمُہُمَاۤ اَکۡبَرُ مِنۡ نَّفۡعِہِمَا ؕ وَ یَسۡـَٔلُوۡنَکَ مَا ذَا یُنۡفِقُوۡنَ ۬ؕ قُلِ الۡعَفۡوَؕ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمُ الۡاٰیٰتِ لَعَلَّکُمۡ تَتَفَکَّرُوۡنَ ﴿۲۱۹﴾ۙ
عرب جاہلی کی روایات میں اس کی جو صورت بیان ہوئی ہے ، وہ یہ تھی کہ جب سرما کا موسم آتا، شمال کی ٹھنڈی ہوائیں چلتیں اور ملک میں قحط کی سی حالت پیدا ہوجاتی تو لوگ مختلف جگہوں پر اکٹھے ہوتے ، شراب کے جام لنڈھاتے اور سرورومستی کے عالم میں کسی کا اونٹ یا اونٹنی پکڑتے اور اسے ذبح کردیتے۔ پھر اس کا مالک جو کچھ اس کی قیمت مانگتا، اسے دے دیتے اور اس کے گوشت پر جوا کھیلتے۔ اس طرح کے موقعوں پر غربا و فقرا پہلے سے جمع ہوجاتے تھے اور ان جوا کھیلنے والوں میں سے ہر شخص جتنا گوشت جیتتا جاتا ، ان میں لٹاتا جاتا۔ عرب جاہلی میں یہ بڑی عزت کی چیز تھی اور جو لوگ اس قسم کی تقریبات منعقد کرتے یا ان میں شامل ہوتے ، وہ بڑے فیاض سمجھے جاتے تھے اور شاعر ان کے جودوکرم کی داستانیں اپنے قصیدوں میں بیان کرتے تھے۔ اس کے برعکس جو لوگ ان تقریبات سے الگ رہتے ، انھیں برم کہا جاتا جس کے معنی عربی زبان میں بخیل کے ہیں۔ جوے اور شراب کی یہی منفعت تھی جس کی بناپر یہ سوال پیدا ہوا ہے ۔ اصل الفاظ ہیں : ’ اِثْمُھُمَآ اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِھِمَا ‘۔ قرآن کے اس جواب سے واضح ہے کہ دین میں حرمتوں کی بنیاد اخلاقی مضرت ہے۔ اسے اشیا یا اعمال کے دوسرے فوائد اور نقصانات سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس آیت میں ’ نَفْع ‘ کے بالمقابل ’ اِثْم ‘ کا لفظ استعمال کر کے قرآن نے یہی بتایا ہے۔ مادی یا طبی فوائد اور نقصانات کا تقابل پیش نظر ہوتا تو اس کے بجائے ’ ضرر ‘ کا لفظ استعمال کیا جاتا۔ یعنی بار بار پوچھتے ہو تو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ حال اور مستقبل کی ذاتی اور کاروباری ضرورتوں کے علاوہ جو کچھ تمہارے پاس موجود ہے ، وہ معاشرے کا حق ہے۔ اللہ کی راہ میں انفاق کے تمام مطالبات اسی سے متعلق ہیں۔ دین و شریعت کی رو سے انفاق کی جو ذمہ داری ایک مسلمان پر عائد ہوتی ہے ، یہ اس کی آخری حد ہے۔ اس سے آگے کوئی مطالبہ اللہ تعالیٰ نے اس سے نہیں کیا ہے ۔ یہ کسی بات کو مجمل چھوڑ کر بعد میں لوگوں کے پوچھنے پر اس کی وضاحت کا فائدہ بتایا ہے کہ اس سے لوگوں کو دنیا اور آخرت کے معاملات میں غور و فکر کی تربیت حاصل ہوتی ہے۔ استاذ امام اس کی وضاحت میں لکھتے ہیں : ”۔۔ اوپر کے سارے سوالات پر غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ یہ سوالات جو پیدا ہوئے تو محض اس وجہ سے پیدا ہوئے کہ لوگوں کی نگاہوں میں عام طور پر وہ توازن نہیں ہوتا جو دین اور دنیا ، دونوں کے فوائد و مصالح کو صحیح صحیح تول سکے۔ اس عدم توازن کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اگر دین داری کی طرف میلان ہوا تو لوگ دین کو نری رہبانیت بنا کے رکھ دیتے ہیں ، یہاں تک کہ جنگ و جہاد ، خواہ کسی حالت میں بھی ہو ، ان کے ہاں خلاف تقویٰ قرار پا جاتا ہے۔ اور اگر دنیا داری کی طرف میلان ہوگا تو جوے اور شراب جیسی چیزوں کو بھی محض اس خیال کی بنا پر نیکی قرار دینے کی کوشش کریں گے کہ آخر ان میں بھی تو کچھ پہلو فائدے کے ہیں۔ قرآن نے فکر انسانی کی تربیت کی جو راہ اختیار کی ہے ، وہ اس عدم توازن کو دور کر کے اس کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ دنیا اور آخرت ، دونوں کا حق صحیح صحیح پہچان سکے۔ “ (تدبر قرآن ١/ ٥١٧)
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 220


فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ ؕ وَ یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الۡیَتٰمٰی ؕ قُلۡ اِصۡلَاحٌ لَّہُمۡ خَیۡرٌ ؕ وَ اِنۡ تُخَالِطُوۡہُمۡ فَاِخۡوَانُکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ الۡمُفۡسِدَ مِنَ الۡمُصۡلِحِ ؕ وَ لَوۡ شَآءَ اللّٰہُ لَاَعۡنَتَکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ ﴿۲۲۰﴾
یعنی اس معاملے میں اصل مقصود یتیموں کی بہبود ہے ، اسے ہر حال میں پیش نظر رہنا چاہیے۔ یہ مقصد اگر ان کے معاملات کو الگ رکھ کر حاصل ہوتا ہے تو یہی کرو اور اگر اپنے ساتھ شامل کر کے زیادہ بہتر طریقے پر اسے حاصل کرسکتے ہو تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ۔ جس چیز میں ان کی بہتری ہو، وہی بہتر ہے۔ یہ تنبیہ کا جملہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تم میں سے ہر شخص کو معلوم ہونا چاہیے کہ لوگوں کی نیت اور ارادے اللہ تعالیٰ سے مخفی نہیں رہ سکتے۔ وہ جانتا ہے کہ اس اقدام سے کس کے پیش نظر یتیم کی بہبود ہے اور کون اس پردے میں کوئی دوسرا مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ لہٰذا کوئی اس اجازت سے غلط فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کرے ۔ یعنی اگر یتیموں کو ساتھ شامل کیے بغیر ان کی اور ان کے معاملات کی دیکھ بھال کا مطالبہ کیا جاتا تو تم ایک بڑی مشقت میں پڑجاتے ، لیکن اللہ تعالیٰ حکیم ہے ، اس نے بڑا کرم فرمایا کہ تمہارے لیے سہولت کے ساتھ نیکی اور خدمت کی ایک راہ کھول دی ۔ اس پر تمہیں اپنے پروردگار کا شکرگزار ہونا چاہیے۔ اس سے کوئی غلط فائدہ اٹھانے کی کوشش کرو گے تو یاد رکھو کہ وہ عزیز بھی ہے۔ اس کی پکڑ سے کوئی تمہیں بچا نہ سکے گا۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 221


وَ لَا تَنۡکِحُوا الۡمُشۡرِکٰتِ حَتّٰی یُؤۡمِنَّ ؕ وَ لَاَمَۃٌ مُّؤۡمِنَۃٌ خَیۡرٌ مِّنۡ مُّشۡرِکَۃٍ وَّ لَوۡ اَعۡجَبَتۡکُمۡ ۚ وَ لَا تُنۡکِحُوا الۡمُشۡرِکِیۡنَ حَتّٰی یُؤۡمِنُوۡا ؕ وَ لَعَبۡدٌ مُّؤۡمِنٌ خَیۡرٌ مِّنۡ مُّشۡرِکٍ وَّ لَوۡ اَعۡجَبَکُمۡ ؕ اُولٰٓئِکَ یَدۡعُوۡنَ اِلَی النَّارِ ۚۖ وَ اللّٰہُ یَدۡعُوۡۤا اِلَی الۡجَنَّۃِ وَ الۡمَغۡفِرَۃِ بِاِذۡنِہٖ ۚ وَ یُبَیِّنُ اٰیٰتِہٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمۡ یَتَذَکَّرُوۡنَ ﴿۲۲۱﴾٪
اس سے مراد مشرکین عرب ہیں۔ قرآن میں یہ لفظ خاص انھی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ دنیا کی کوئی دوسری قوم اگر ان کی طرح شرک کو بحیثیت دین اختیار کیے ہوئے ہو تو اس کو بھی اسی کے تحت سمجھنا چاہیے۔ یہودو نصاریٰ بھی علم و عمل، دونوں میں شرک جیسی نجاست سے آلودہ ہیں ، لیکن وہ چونکہ اصلاً توحید کے ماننے والے ہیں اور شرک سے برأت کا اظہار کرتے ہیں ، اس لیے اتنی رعایت اللہ تعالیٰ نے کی ہے کہ آگے سورة مائدہ (٥) آیت ٥ میں ان کی پاک دامن عورتوں سے مسلمانوں کو نکاح کی اجازت دے دی ہے۔ یہ وضاحت اس لیے فرمائی ہے کہ ایمان لانے کے بعد آدمی کی پسند اور ناپسند کے معیارات میں جو تبدیلی لازماً ہونی چاہیے ، وہ لوگوں پر واضح ہوجائے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اس کی تفسیر میں لکھا ہے۔ ”۔۔ اسلام میں پسند اور ناپسند کے لیے معیار نہ ظاہری شکل و صورت ہے ، نہ نسل و نسب اور نہ آزادی اور غلامی ، بلکہ ایمان اور عمل صالح ہے۔ اس وجہ سے اب تمہارے رشتے ناتے ذاتوں اور برادریوں کے پابند نہیں رہ گئے ، بلکہ عقیدے اور عمل کے تابع ہوگئے ہیں۔ قریش کی ایک مہ جبین شہزادی تمہارے لیے دو کوڑی کی ہے ، اگر وہ ایمان کے زیور سے آراستہ نہیں ہے اور سواحل افریقہ کی ایک کالی کلوٹی لونڈی تمہارے لیے حور جنت ہے ، اگر اس کا دل جمال ایمان و اسلام سے نورانی ہے۔ “ (تدبر قرآن ١/ ٥١٩) یہ اس ممانعت کی حکمت بتائی ہے کہ مشرکوں کے ساتھ اس طرح کا تعلق پیدا کرو گے تو گویا اپنے گھر کو جہنم کی دعوت کا مخاطب بناؤ گے ، اس لیے کہ شرک پر اصرار کرنے والوں کے لیے نہ خدا کی مغفرت میں کوئی حصہ ہے اور نہ ان کے لیے اس کی جنت کے دروازے کبھی کھل سکتے ہیں۔ یہ اپنا گھر جلانے کے لیے آگ خریدنا ہے۔ اس طرح کی حماقت کوئی شخص ہوش و حواس کے ساتھ نہیں کرسکتا۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 222


وَ یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الۡمَحِیۡضِ ؕ قُلۡ ہُوَ اَذًی ۙ فَاعۡتَزِلُوا النِّسَآءَ فِی الۡمَحِیۡضِ ۙ وَ لَا تَقۡرَبُوۡہُنَّ حَتّٰی یَطۡہُرۡنَ ۚ فَاِذَا تَطَہَّرۡنَ فَاۡتُوۡہُنَّ مِنۡ حَیۡثُ اَمَرَکُمُ اللّٰہُ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیۡنَ وَ یُحِبُّ الۡمُتَطَہِّرِیۡنَ ﴿۲۲۲﴾
دین کا مقصد ہی چونکہ تزکیہ ہے ، اس لیے حیض و نفاس کے دنوں میں عورتوں سے جنسی تعلق کو تمام الہامی مذاہب نے ممنوع ٹھیرایا ہے۔ دین ابراہیمی کے زیر اثر عرب جاہلیت بھی اسے ناجائز ہی سمجھتے تھے۔ ان کی شاعری میں اس کا ذکر کئی پہلوؤں سے ہوا ہے۔ اس معاملے میں کوئی اختلاف نہ تھا، لیکن عورت ان ایام سے گزر رہی ہو تو اس سے اجتناب کے حدود کیا ہیں ، اس میں، البتہ بہت کچھ افراط وتفریط پائی جاتی تھی۔ قرآن کے جواب سے واضح ہے کہ یہ سوال انھی حدود کے بارے میں تھا۔ مدعا یہ ہے کہ اس زمانے میں عورت سے علیحدگی کا تقاضا صرف زن و شو کے خاص تعلق ہی کے حد تک ہے۔ یہ نہیں کہ عورت کو بالکل اچھوت بنا کر رکھ دیا جائے ، جیسا کہ یہودو ہنود اور بعض دوسری قوموں کا طریقہ ہے۔ نبی ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے اپنے عمل سے بھی یہی بات واضح فرمائی ہے کہ ان ایام میں صرف مباشرت سے پرہیز کرنا چاہیے ، باقی تمام تعلقات بغیر کسی تردد کے قائم رکھے جاسکتے ہیں۔ عورت ایام سے فارغ ہوجائے تو اس کے بعد قربت کب جائز ہوگی ؟ اس کے لیے ’ طُہْر ‘ اور ’ تَطَھُّر ‘ دو لفظ استعمال ہوئے ہیں۔ ان سے حکم کی جو صورت متعین ہوتی ہے ، وہ استاذ امام کے الفاظ میں یہ ہے : ”۔۔ طہر کے معنی تو یہ ہیں کہ عورت کی ناپاکی کی حالت ختم ہوجائے اور خون کا آنا بند ہوجائے اور تطہر کے معنی یہ ہیں کہ عورت نہا دھو کر پاکیزگی کی حالت میں آجائے۔ آیت میں عورت سے قربت کے لیے طہر کو شرط قرار دیا ہے اور ساتھ ہی فرما دیا ہے کہ جب وہ پاکیزگی حاصل کرلیں ، تب ان کے پاس آؤ جس سے یہ بات نکلتی ہے کہ چونکہ قربت کی ممانعت کی اصلی علت خون ہے، اس وجہ سے اس کے انقطاع کے بعد یہ پابندی تو اٹھ جاتی ہے ، لیکن صحیح طریقہ یہ ہے کہ جب عورت نہا دھو کر پاکیزگی حاصل کرلے ، تب اس سے ملاقات کرو۔ “ (تدبر قرآن ١/ ٥٢٦) یعنی نہا دھو کر پاکیزگی حاصل کرلینے کے بعد عورت سے ملاقات لاز ماً اسی راستے سے ہونی چاہیے جو اللہ نے اس کے لیے مقرر کر رکھا ہے۔ یہ چیز بدیہیات فطرت میں سے ہے اور اس پہلو سے لاریب خدا ہی کا حکم ہے۔ اگر کوئی شخص اس کی خلاف ورزی کرتا ہے تو وہ درحقیقت خدا کے ایک واضح ، بلکہ واضح تر حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے ، اور اس پر یقیناً اُس کے ہاں سزا کا مستحق ہوگا ۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان ہدایات کی کیا اہمیت ہے، یہ اسے بیان فرمایا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں :”۔۔ توبہ اور تطہر کی حقیقت پر غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ توبہ اپنے باطن کو گناہوں سے پاک کرنے کا نام ہے اور تطہر اپنے ظاہر کو نجاستوں اور گندگیوں سے پاک کرنا ہے۔ اس اعتبار سے ان دونوں کی حقیقت ایک ہوئی اور مومن کی یہ دونوں خصلتیں اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہیں۔ اس کے برعکس جو لوگ ان سے محروم ہیں ، وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مبغوض ہیں۔ یہاں جس سباق میں یہ بات آئی ہے ، اس سے یہ تعلیم ملتی ہے کہ جو لوگ عورت کی ناپاکی کے زمانے میں قربت سے اجتناب نہیں کرتے یا قضاے شہوت کے معاملے میں فطرت کے حدود سے تجاوز کرتے ہیں ، وہ اللہ کے نزدیک نہایت مبغوض ہیں۔ “ ( تدبر قرآن ١/ ٥٢٦)
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 223


نِسَآؤُکُمۡ حَرۡثٌ لَّکُمۡ ۪ فَاۡتُوۡا حَرۡثَکُمۡ اَنّٰی شِئۡتُمۡ ۫ وَ قَدِّمُوۡا لِاَنۡفُسِکُمۡ ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّکُمۡ مُّلٰقُوۡہُ ؕ وَ بَشِّرِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۲۲۳﴾
اس سے اوپر جو باتیں بیان ہوئی ہیں ، یہ اب ان کو کھیتی کے استعارے سے واضح فرمایا ہے۔ استاذ امام نے اس کی وضاحت اس طرح کی ہے :” عورتوں کے لیے کھیتی کے استعارے میں ایک سیدھا سادہ پہلو تو یہ ہے کہ جس طرح کھیتی کے لیے قدرت کا بنایا ہوا یہ ضابطہ ہے کہ تخم ریزی ٹھیک موسم میں اور مناسب وقت پر کی جاتی ہے ، نیز بیج کھیت ہی میں ڈالے جاتے ہیں ، کھیت سے باہر نہیں پھینکے جاتے۔ کوئی کسان اس ضابطے کی خلاف ورزی نہیں کرتا ، اسی طرح عورت کے لیے فطرت کا یہ ضابطہ ہے کہ ایام ماہواری کے زمانے میں یا کسی غیر محل میں اس سے قضاے شہوت نہ کی جائے ، اس لیے کہ حیض کا زمانہ عورت کے جمام اور غیرآمادگی کا زمانہ ہوتا ہے ، اور غیر محل میں مباشرت باعث اذیت و اضاعت ہے۔ اس وجہ سے کسی سلیم الفطرت انسان کے لیے اس کا ارتکاب جائز نہیں ۔ “ (تدبر قرآن ١/ ٥٢٧) اِس ہدایت سے کیا مقصود ہے ؟ استاذ امام نے لکھا ہے : ”۔۔۔(اِس) میں بہ یک وقت دو باتوں کی طرف اشارہ ہے : ایک تو اس آزادی ، بےتکلفی ، خودمختاری کی طرف جو ایک باغ یا کھیتی کے مالک کو اپنے باغ یا کھیتی کے معاملے میں حاصل ہوتی ہے ، اور دوسری اس پابندی ، ذمہ داری اور احتیاط کی طرف جو ایک باغ یا کھیتی والا اپنے باغ یا کھیتی کے معاملے میں ملحوظ رکھتا ہے۔ اس دوسری چیز کی طرف ’ حَرْثٌ ‘ کا لفظ اشارہ کر رہا ہے اور پہلی چیز کی طرف ’ اَنّٰی شِءْتُمْ ‘ کے الفاظ ۔ وہ آزادی اور یہ پابندی ، یہ دونوں چیزیں مل کر اس رویے کو متعین کرتی ہیں جو ایک شوہر کو بیوی کے معاملہ میں اختیار کرنا چاہیے ۔ہر شخص جانتا ہے کہ ازدواجی زندگی کا سارا سکون و سرور فریقین کے اس اطمینان میں ہے کہ ان کی خلوت کی آزادیوں پر فطرت کے چند موٹے موٹے قیود کے سوا کوئی قید ، کوئی پابندی اور کوئی نگرانی نہیں ہے۔ آزادی کے اس احساس میں بڑا کیف اور بڑا نشہ ہے۔ انسان جب اپنے عیش و سرور کے اس باغ میں داخل ہوتا ہے تو قدرت چاہتی ہے کہ وہ اپنے اس نشہ سے سرشار ہو ، لیکن ساتھ ہی یہ حقیقت بھی اس کے سامنے قدرت نے رکھ دی ہے کہ یہ کوئی جنگل نہیں ، بلکہ اس کا اپنا باغ ہے اور یہ کوئی ویرانہ نہیں ، بلکہ اس کی اپنی کھیتی ہے۔ اس وجہ سے وہ اس میں آنے کو تو سو بار آئے اور جس شان ، جس آن ، جس سمت اور جس پہلو سے چاہے آئے ، لیکن اس باغ کا باغ ہونا اور کھیتی کا کھیتی ہونایاد رکھے۔ اس کے کسی آنے میں بھی اس حقیقت سے غفلت نہ ہو ۔ “ (تدبر قرآن ١/ ٥٢٧) یعنی ایسی اولاد پیدا کرو جو دنیا اور آخرت ، دونوں میں تمہارے لیے سرمایہ بنے۔ اس ہدایت کی ضرورت اس لیے ہوئی کہ لوگ بچوں کی پیدایش کے معاملے میں اپنے اقدام کی ذمہ داری سمجھیں اور جو کچھ کریں ، اس ذمہ داری کو پوری طرح سمجھ کر کریں ۔ مطلب یہ ہے کہ اس وقت تو اللہ تعالیٰ نے تمہیں مہلت دے رکھی ہے ، اس لیے خلوت و جلوت میں جو چاہے ، کرسکتے ہو ، لیکن یاد رکھو کہ ایک دن خدا کے حضور میں پیشی کے لیے کھڑا ہونا ہے۔ لہٰذا جو کچھ کرنا ہے ، یہ سوچ کر کرو کہ اس کی پکڑ سے اس دن کوئی تمہیں بچا نہ سکے گا۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 224


وَ لَا تَجۡعَلُوا اللّٰہَ عُرۡضَۃً لِّاَیۡمَانِکُمۡ اَنۡ تَبَرُّوۡا وَ تَتَّقُوۡا وَ تُصۡلِحُوۡا بَیۡنَ النَّاسِ ؕ وَ اللّٰہُ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۲۲۴﴾
عورتوں سے نہ ملنے کی قسم کھا لینے کا جو حکم آگے بیان ہوا ہے ، یہ اس کی تمہید ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کی قسم کھانا چونکہ اسے گواہ ٹھیرانا ہے ، لہٰذا اول تو کوئی ایسی قسم کھانی نہیں چاہیے جس سے اللہ یا اس کے بندوں کے حقوق تلف ہوتے ہوں، لیکن اس طرح کی قسم اگر اتفاق سے کوئی شخص کھا بیٹھے تو اسے توڑ دینا چاہیے۔ قسم کے حیلے سے دوسروں کی حق تلفی اور نیکی اور تقویٰ اور نصح و خیر خواہی کے کاموں سے گریز کسی شخص کے لیے جائز نہیں ہے۔ اس مضمون کے لیے ’ اَنْ تَبَرُّوْا وَ تَتَّقُوْا وَتُصْلِحُوْا بَیْنَ النَّاسِ ‘ کے جو الفاظ اصل میں آئے ہیں ، ان کی وضاحت استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اپنی تفسیر میں اس طرح کی ہے :” بر ، تقویٰ اور اصلاح کے تینوں لفظوں نے یہاں خیر اور نیکی کے تمام اقسام کو جمع کرلیا ہے۔ ’ بر ‘ ان تمام نیکیوں پر حاوی ہے جن کا تعلق والدین ، رشتہ داروں ، مسکینوں ، یتیموں اور دوسرے حقوق العباد سے ہے۔ ’ تَقْوٰی ‘ اُن نیکیوں پر حاوی ہے جو حقوق اللہ سے متعلق ہیں اور ’ اِصْلاَح ‘ سے مراد وہ نیکیاں ہیں جو معاشرے سے تعلق رکھنے والی ہیں۔ “ (تدبر قرآن ١/ ٥٢٩)
 
Top