ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
وَ مَثَلُ الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمُ ابۡتِغَآءَ مَرۡضَاتِ اللّٰہِ وَ تَثۡبِیۡتًا مِّنۡ اَنۡفُسِہِمۡ کَمَثَلِ جَنَّۃٍۭ بِرَبۡوَۃٍ اَصَابَہَا وَابِلٌ فَاٰتَتۡ اُکُلَہَا ضِعۡفَیۡنِ ۚ فَاِنۡ لَّمۡ یُصِبۡہَا وَابِلٌ فَطَلٌّ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ ﴿۲۶۵﴾ اصل میں ’
تَثْبِیْتًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ ‘
کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں ’ مِنْ ‘ گویا ’
تَثْبِیْتًا
‘ کے مفعول پر داخل ہے، یعنی اللہ کی خوشنودی کے ساتھ وہ اس لیے بھی خرچ کرتے ہیں کہ اس سے انھیں نفس کی خواہشات پر قابو پانے اور اسے حق پر جمائے رکھنے کی تربیت حاصل ہو۔ اصل میں لفظ ’
رَبْوَۃ
‘ استعمال ہوا ہے۔ اس کے معنی بلند اور مرتفع زمین کے ہیں۔ یہ لفظ یہاں جس مقصد سے آیا ہے ، استاذ امام نے اس کی وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں : ”۔۔ بلند اور ہموار زمین کے لیے آب و ہوا کی خوش گواری ایک مسلم شے ہے۔ اگر ایسی زمین پر باغ ہو تو اس کی بلندی ایک طرف تو اس کی خوش منظری کا باعث ہوتی ہے ، دوسری طرف اس کو سیلاب وغیرہ سے محفوظ کرتی ہے۔ نیز ہموار زمین پر ہونے کے سبب سے اس کے لیے اس طرح پھسل کر فنا ہوجانے کا اندیشہ بھی نہیں ہوتا جو ڈھلوان زمینوں کے باغوں اور فصلوں کے لیے ہوتا ہے۔ پھر آب و ہوا کی خوبی اس کی بار آوری کی ضامن ہوتی ہے۔ اگر موسم سازگار رہا تو پوچھنا ہی کیا ہے، اگر ساز گار نہ ہوا، جب بھی وہ پھل دے جاتا ہے۔ “ (تدبر قرآن ١/ ٦١٧)
اَیَوَدُّ اَحَدُکُمۡ اَنۡ تَکُوۡنَ لَہٗ جَنَّۃٌ مِّنۡ نَّخِیۡلٍ وَّ اَعۡنَابٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ۙ لَہٗ فِیۡہَا مِنۡ کُلِّ الثَّمَرٰتِ ۙ وَ اَصَابَہُ الۡکِبَرُ وَ لَہٗ ذُرِّیَّۃٌ ضُعَفَآءُ ۪ۖ فَاَصَابَہَاۤ اِعۡصَارٌ فِیۡہِ نَارٌ فَاحۡتَرَقَتۡ ؕ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمُ الۡاٰیٰتِ لَعَلَّکُمۡ تَتَفَکَّرُوۡنَ ﴿۲۶۶﴾٪ یہ عربوں کے تصور کے مطابق ایک اچھے باغ کی تصویر ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں :”۔۔ ان کے ہاں اچھے باغ کا تصور یہ ہے کہ اس کے کنارے کنارے کھجوروں کے درخت ہوں ، بیچ میں انگور کی بیلیں ہوں، مناسب مواقع سے مختلف فصلوں کی کاشت کے لیے قطعات ہوں ، باغ بلندی پر ہو، اس کے نیچے نہر بہ رہی ہو جس کی نالیاں باغ کے اندر دوڑادی گئی ہوں۔ “ (تدبر قرآن ١/ ٦١٨)
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡفِقُوۡا مِنۡ طَیِّبٰتِ مَا کَسَبۡتُمۡ وَ مِمَّاۤ اَخۡرَجۡنَا لَکُمۡ مِّنَ الۡاَرۡضِ ۪ وَ لَا تَیَمَّمُوا الۡخَبِیۡثَ مِنۡہُ تُنۡفِقُوۡنَ وَ لَسۡتُمۡ بِاٰخِذِیۡہِ اِلَّاۤ اَنۡ تُغۡمِضُوۡا فِیۡہِ ؕ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ حَمِیۡدٌ ﴿۲۶۷﴾ یعنی اپنے اس مال میں سے خرچ کرو جو اچھا ہو ، بےوقعت اور گھٹیا نہ ہو اور تم نے اسے کسی غلط اور مشتبہ طریقے سے نہیں ، بلکہ جائز طریقے سے کمایا ہو ۔ اِس سے واضح ہے کہ پہلے اس کمائی کا ذکر ہے جو تجارت وغیرہ کے طریقوں سے حاصل ہوتی ہے۔ زراعت اپنی نوعیت کے لحاظ سے ایک الگ قسم ہے۔ چنانچہ اس کے لیے زکوۃ کی شرح بھی اسی بنا پر الگ رکھی گئی ہے۔
اَلشَّیۡطٰنُ یَعِدُکُمُ الۡفَقۡرَ وَ یَاۡمُرُکُمۡ بِالۡفَحۡشَآءِ ۚ وَ اللّٰہُ یَعِدُکُمۡ مَّغۡفِرَۃً مِّنۡہُ وَ فَضۡلًا ؕ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۲۶۸﴾ۖۙ اصل میں ’
امر
‘ کا لفظ آیا ہے۔ یہ جس طرح حکم دینے کے معنی میں آتا ہے ، اسی طرح ترغیب دینے اور سجھانے کے معنی میں بھی آتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ شیطان ایک تو مستقبل کے موہوم خطرات سے ڈرا کر تمہیں اللہ کی راہ میں انفاق سے روکتا ہے اور دوسرے نفس کی راہ میں فضول خرچی اور عیاشی کی ترغیب دیتا ہے تاکہ کسی بڑے مقصد کے لیے خرچ کرنے کی گنجایش ہی باقی نہ رہ جائے۔
یُّؤۡتِی الۡحِکۡمَۃَ مَنۡ یَّشَآءُ ۚ وَ مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃَ فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا ؕ وَ مَا یَذَّکَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ ﴿۲۶۹﴾ چنانچہ وہ دنیا اور اس کی نقد لذتوں کو چھوڑ کر خدا کے فضل اور اس کی بخشش کی امید میں اور ایک نادیدہ عالم کی کامیابیوں کے لیے اپنی کمائی لٹانے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔
وَ مَاۤ اَنۡفَقۡتُمۡ مِّنۡ نَّفَقَۃٍ اَوۡ نَذَرۡتُمۡ مِّنۡ نَّذۡرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ یَعۡلَمُہٗ ؕ وَ مَا لِلظّٰلِمِیۡنَ مِنۡ اَنۡصَارٍ ﴿۲۷۰﴾ نذر منت کو کہتے ہیں۔ یعنی اللہ سے عہد کیا جائے کہ میری فلاں مراد پوری ہوگئی تو میں فلاں اور فلاں عبادت یا ریاضت کروں گا یا اتنا صدقہ دوں گا ۔ یہ اگرچہ کوئی پسندیدہ چیز نہیں ہے ، لیکن اس طرح کا عہد کرلیا جائے تو صاف واضح ہے کہ اسے ہر حال میں پورا ہونا چاہیے۔
اِنۡ تُبۡدُوا الصَّدَقٰتِ فَنِعِمَّا ہِیَ ۚ وَ اِنۡ تُخۡفُوۡہَا وَ تُؤۡتُوۡہَا الۡفُقَرَآءَ فَہُوَ خَیۡرٌ لَّکُمۡ ؕ وَ یُکَفِّرُ عَنۡکُمۡ مِّنۡ سَیِّاٰتِکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرٌ ﴿۲۷۱﴾ اس لیے کہ اس سے دوسروں کو انفاق کی ترغیب ہوتی ہے ۔ اِس لیے کہ اس سے حاجت مندوں کی عزت نفس بھی مجروح نہیں ہوتی اور خود دینے والا بھی ریا اور نمایش کے فتنے سے محفوظ رہتا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ چھپا کردو گے تو یہ اللہ سے چھپا نہیں رہے گا ۔ علانیہ اور پوشیدہ ، سب تمہارے لحاظ سے ہے۔ اللہ سے کوئی چیز بھی پوشیدہ نہیں رہتی ۔ تم جو کچھ بھی کرو گے اور جہاں بھی کرو گے ، وہ اس سے باخبر ہے۔
لَیۡسَ عَلَیۡکَ ہُدٰىہُمۡ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ مَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ خَیۡرٍ فَلِاَنۡفُسِکُمۡ ؕ وَ مَا تُنۡفِقُوۡنَ اِلَّا ابۡتِغَآءَ وَجۡہِ اللّٰہِ ؕ وَ مَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ خَیۡرٍ یُّوَفَّ اِلَیۡکُمۡ وَ اَنۡتُمۡ لَا تُظۡلَمُوۡنَ ﴿۲۷۲﴾ یہ نبی (
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
) کے لیے تسلی ہے کہ پیغمبر کی حیثیت سے آپ کی ذمہ داری اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ اپنے مخاطبین کو اتمام حجت کے درجے میں اللہ کی ہدایت سے آگاہ کردیں۔ اس کے بعد یہ ان کا کام ہے کہ اسے قبول کریں یا رد کردیں ۔ آپ کو اس کے لیے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ اگر اسے قبول نہیں کرتے تو اس کا خمیازہ بھی خود ہی بھگتیں گے۔
اصل میں ’
لِلْفُقَرَآءِ الَّذِیْنَ اُحْصِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ‘
کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں ’
لِلْفُقَرَآءِ
‘ سے پہلے مبتدا بربناے قرینہ حذف ہوگیا ہے۔ یہ ان مہاجرین کی طرف اشارہ ہے جو مدینہ آنے کے بعد کئی برس کے لیے اس طرح گھر گئے تھے کہ تجارت کے لیے باہر نکلنا بھی ان کے لیے ممکن نہ تھا ، اور انصار کے ساتھ مواخات کا معاملہ بھی ایک حد سے زیادہ نہیں ہوسکتا تھا۔ پھر ایک چھوٹے سے گاؤں میں معاش کے دوسرے ذرائع تلاش کرلینا بھی آسان نہ تھا۔ نبی (
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
) نے اسی بنا پر انھیں مسجد میں ٹھیرا لیا تھا۔ تاریخ میں یہ لوگ اصحاب صفہ کے نام سے مشہور ہیں۔ اِس سے مقصود ان کے مانگنے کی نفی ہے۔ ’ لپٹ کر ‘ کے الفاظ مانگنے والوں کی عام حالت کو ظاہر کرنے کے لیے آئے ہیں۔ کسی چیز کے گھنونے پن کو واضح کرنے کے لیے یہ اسلوب قرآن میں جگہ جگہ اختیار کیا گیا ہے۔ اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ مانگتے تو ہیں ، مگر لپٹ کر نہیں مانگتے۔
اَلَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمۡ بِالَّیۡلِ وَ النَّہَارِ سِرًّا وَّ عَلَانِیَۃً فَلَہُمۡ اَجۡرُہُمۡ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ۚ وَ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ ﴿۲۷۴﴾ؔ (اِس کے برخلاف) جو لوگ سود کھاتے ہیں ، ٧٢١ وہ قیامت میں اٹھیں گے تو بالکل اس شخص کی طرح اٹھیں گے جسے شیطان نے اپنی چھوت سے پاگل بنا دیاہو ۔ یہ اس لیے کہ انھوں نے کہا ہے کہ بیع بھی تو آخر سود ہی کی طرح ہے اور تعجب ہے کہ اللہ نے بیع کو حلال اور سود کو حرام ٹھیرایا ہے۔ (اِس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ نے اسے حرام ٹھیرا یا ہے) ، لہٰذاج سے اس کے پروردگار کی تنبیہ پہنچی اور وہ باز آگیا تو جو کچھ وہ لے چکا، سو لے چکا ، (اُس کے خلاف کوئی اقدام نہ ہوگا) اور اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے۔ اور جو (اِس تنبیہ کے بعد بھی) اس کا اعادہ کریں گے تو وہ دوزخ کے لوگ ہیں ، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔