ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
مِنۡ قَبۡلُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَ اَنۡزَلَ الۡفُرۡقَانَ ۬ؕ اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ لَہُمۡ عَذَابٌ شَدِیۡدٌ ؕ وَ اللّٰہُ عَزِیۡزٌ ذُو انۡتِقَامٍ ﴿۴﴾ یعنی جب وہ لوگوں کا معبود بھی ہے اور حی وقیوم بھی تو کس طرح ممکن ہے کہ وہ انھیں امتحان کے لیے دنیا میں بھیجے اور پھر حق و باطل کے معاملے میں ان کی رہنمائی نہ فرمائے۔ چنانچہ لوگوں کو اختلافات کی تاریکی سے نکالنے کے لیے اپنی کتابوں کی صورت میں یہ روشنی اس نے نازل کردی ہے۔
ہُوَ الَّذِیۡ یُصَوِّرُکُمۡ فِی الۡاَرۡحَامِ کَیۡفَ یَشَآءُ ؕ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۶﴾ یعنی وہ جب ان کی سرکشی کو دیکھ بھی رہا ہے ، ان کا معبود بھی وہی ہے ، ان سے انتقام کی قدرت بھی رکھتا ہے اور ایک حکیم کی حیثیت سے اس کی حکمت کا تقاضا بھی ہے کہ اس طرح کے مجرموں کو ان کے انجام تک پہنچا دے تو ضروری تھا کہ وہ بدلہ لینے والا ہو ۔ وہ اگر ایسا نہ کرے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ یا تو وہ انھیں دیکھ نہیں رہا یا تنہا وہی معبود نہیں ہے یا دنیا کے بعض معاملات اس نے دوسروں کے سپرد کردیے ہیں یا بےبس ہے کہ اس طرح کے مجرموں کو پکڑنے کی قدرت نہیں رکھتا یا کھلنڈرا ہے کہ خیر و شر کو ایک ہی جگہ رکھ کر ان کا تماشا دیکھ رہا ہے۔
ہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ عَلَیۡکَ الۡکِتٰبَ مِنۡہُ اٰیٰتٌ مُّحۡکَمٰتٌ ہُنَّ اُمُّ الۡکِتٰبِ وَ اُخَرُ مُتَشٰبِہٰتٌ ؕ فَاَمَّا الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ زَیۡغٌ فَیَتَّبِعُوۡنَ مَا تَشَابَہَ مِنۡہُ ابۡتِغَآءَ الۡفِتۡنَۃِ وَ ابۡتِغَآءَ تَاۡوِیۡلِہٖ ۚ وَ مَا یَعۡلَمُ تَاۡوِیۡلَہٗۤ اِلَّا اللّٰہُ ۘؔ وَ الرّٰسِخُوۡنَ فِی الۡعِلۡمِ یَقُوۡلُوۡنَ اٰمَنَّا بِہٖ ۙ کُلٌّ مِّنۡ عِنۡدِ رَبِّنَا ۚ وَ مَا یَذَّکَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ ﴿۷﴾ یعنی وہی عزیز و حکیم اور حی وقیوم جس کی ان صفات کا تقاضا تھا کہ وہ یہ کتاب اتارے اور اس کے ذریعے سے اتمام حجت کے بعد اس کے منکروں کو سزا دے۔ لفظ محکم یہاں متشابہ کے مقابل میں استعمال ہوا ہے۔ یعنی وہ آیتیں جن میں ایسے حقائق بیان کیے گئے جنھیں سمجھنا انسان کے لیے ممکن ہے، جو اس کے علم وعقل سے ماورا نہیں ہیں اور جن کی تہ تک پہنچنے کی صلاحیت اس کی فطرت میں ودیعت ہے۔ قرآن کی زیادہ تر آیتیں یہی ہیں اور انھی پر اس کی ہدایت کا مدار ہے۔ قرآن نے اسی بنا پر انھیں ام الکتاب، یعنی کتاب کی اصل بنیاد قرار دیا ہے۔ اِس سے مراد وہ آیتیں ہیں جن میں آخرت کی نعمتوں اور نقمتوں میں سے کسی نعمت یا نقمت کا بیان تمثیل اور تشبیہ کے انداز میں ہوا ہے یا اللہ تعالیٰ کے صفات و افعال اور ہمارے علم اور مشاہدے سے ماورا اس کے کسی عالم کی کوئی بات تمثیلی اسلوب میں بیان کی گئی ہے، مثلاً آدم میں اللہ تعالیٰ کا اپنی روح پھونکنا یا سیدنا مسیح (علیہ السلام) کا بن باپ کے پیدا کرنا یا جنت اور جہنم کے احوال و مقامات وغیرہ۔ وہ سب چیزیں جن کے لیے ابھی الفاظ وجود میں نہ آئے ہوں، انھیں تمثیل اور تشبیہ کے اسلوب ہی میں بیان کیا جاسکتا ہے۔ کسی نادیدہ عالم کے حقائق دنیا کی سب زبانوں کے ادب میں اسی طرح بیان کیے جاتے ہیں۔ آج سے دو صدی پہلے ہم میں سے کوئی شخص اگر مستقبل کا علم پا کر بجلی کے قمقموں کا ذکر کرتا تو غالباً اسی طرح کرتا کہ دنیا میں ایسے چراغ جلیں گے جن میں نہ تیل ڈالا جائے گا اور نہ انھیں آگ دکھانے کی ضرورت ہوگی۔ متشابہ آیات کی نوعیت بالکل یہی ہے۔ وہ نہ غیر متعین ہیں اور نہ ان کے مفہوم میں کوئی ابہام ہے۔ ان کے الفاظ عربی مبین ہی کے الفاظ ہیں اور ان کے معنی بھی ہم بغیر کسی تردد کے سمجھتے ہیں۔ ہاں ، یہ ضرور ہے کہ ان کی حقیقت ہم اس دنیا میں نہیں جان سکتے، لیکن اس جاننے یا نہ جاننے کا قرآن کے فہم سے چونکہ کوئی تعلق نہیں ہے، اس لیے کسی صاحب ایمان کو اس کے درپے بھی نہیں ہونا چاہیے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی اس کی وضاحت میں لکھتے ہیں : ”۔۔ یہ باتیں جس بنیادی حقیقت سے تعلق رکھنے والی ہوتی ہیں وہ بجائے خود واضح اور مبرہن ہوتی ہے، عقل اس کے اتنے حصے کو سمجھ سکتی ہے جتنا سمجھنا اس کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ البتہ چونکہ اس کا تعلق ایک نادیدہ عالم سے ہوتا ہے ، اس وجہ سے قرآن ان کو تمثیل و تشبیہ کے انداز میں پیش کرتا ہے تاکہ علم کے طالب بقدر استعداد ان سے فائدہ اٹھالیں اور ان کی اصل صورت و حقیقت کو علم الٰہی کے حوالہ کریں ۔ یہ باتیں خدا کی صفات و افعال یا آخرت کی نعمتوں اور اس کے آلام سے تعلق رکھنے والی ہوتی ہیں۔ ان کا جس حد تک ہمارے لیے سمجھنا ضروری ہے ، اتنا ہماری سمجھ میں آجاتا ہے اور اس سے ہمارے علم و یقین میں اضافہ ہوتا ہے ، لیکن اگر ہم اپنی حد سے آگے بڑھ کر ان کی اصل حقیقت اور صورت کو اپنی گرفت میں لینے کی کوشش کریں تو یہ چیز فتنہ بن جاتی ہے اور اس کا نتیجہ صرف یہ نکلتا ہے کہ انسان اپنے ذہن سے شک کا ایک کانٹا نکالنا چاہتا ہے اور اس کے نتیجے میں بیشمار کانٹے اس کے اندر چبھا لیتا ہے۔ یہاں تک کہ اس نا یافتہ کی طلب میں اپنی یافتہ دولت کو بھی ضائع کر بیٹھتا ہے اور نہایت واضح حقائق کی اس لیے تکذیب کردیتا ہے کہ ان کی شکل و صورت ابھی اس کے سامنے نمایاں نہیں ہوئی۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٢٥) اصل میں لفظ ’
زیْغٌ
‘ استعمال ہوا ہے۔ اس کے معنی جھکنے اور مائل ہونے کے ہیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں : ”۔۔ یہ لفظ بیک وقت دو مفہوموں کا حامل ہے : ایک کجی اور دوسرے سقوط۔ کوئی چیز جو کھڑی ہو جب جھک جاتی ہے تو گرنے سے قریب ہوجاتی ہے۔ یہ حالت اس رسوخ کے برعکس حالت ہے جو اس آیت میں ’
رَاسِخُوْنَ فِی الْعِلْم
‘ کی بیان ہوئی ہے۔ یہ زیغ یوں تو اہل ضلالت کی عام بیماری ہے ، لیکن اہل کتاب اس مرض میں سب سے زیادہ شدت کے ساتھ مبتلا رہے ہیں۔ یہود کی تاریخ گواہ ہے کہ وہ شروع ہی سے اس بیماری میں مبتلا رہے ، اور ان کے زیغ کا یہ پہلو خاص طور پر نہایت سنگین ہے کہ وہ اپنے پیغمبر کی موجودگی میں اس میں مبتلا رہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ وہ اس کے سبب سے خدا کے غضب میں مبتلا ہوئے۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٣٠) یہود و نصاریٰ کی گمراہی کی طرف اشارہ ہے۔ ان کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہود فتنہ پیدا کرنے سے زیادہ دل چسپی رکھتے تھے اور نصاریٰ متشابہ آیات کی حقیقت جاننے سے۔ استاذ امام کے الفاظ میں یہ گمراہیاں چونکہ دنیا کے تمام گمراہوں میں مشترک ہیں، اس وجہ سے قرآن نے اسلوب بیان عام ہی رکھا ہے تاکہ کلام میں وسعت پیدا ہو سکے، یہود و نصاریٰ کی تخصیص نہیں کی۔ لیکن قرآن کا ذوق رکھنے والے جانتے ہیں کہ اشارہ انھی کی طرف ہے۔ اِس آیت کے بارے میں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ متشابہات کے معنی اس کے سوا کوئی نہیں جانتا، بلکہ یہ فرمایا ہے کہ ان کی حقیقت اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اس کے لیے اصل میں ’
تَاْوِیْل
‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے اور بالکل اسی مفہوم میں استعمال ہوا ہے جس مفہوم میں یہ سورة یوسف (١٢) کی آیت ١٠٠ میں آیا ہے : ’
قَالَ : یٰٓاَبَتِ ، ہٰذَا تَاْوِیْلُ رُءْ یَایَ مِنْ قَبْلُ ، قَدْ جَعَلَہَا رَبِّیْ حَقًّا
‘ ( اس نے کہا : ابا جان، یہ ہے میرے اس خواب کی حقیقت جو میں نے اس سے پہلے دیکھا تھا، میرے پروردگار نے اسے سچ کر دکھایا ہے) ۔ یہ خواب جن لفظوں میں قرآن نے بیان کیا ہے، ان کے معنی ہر شخص پر واضح ہیں۔ عربی زبان کا ایک عام طالب علم بھی سورة یوسف کی اس آیت کا مفہوم ، جس میں یہ خواب بیان ہوا ہے، بغیر کسی دقت کے سمجھ لیتا ہے۔ لیکن سورج اور چاند اور ان گیارہ ستاروں کا مصداق کیا تھا جنھیں یوسف (علیہ السلام) نے اپنے آپ کو سجدہ کرتے دیکھا، اس سے پوری قطعیت کے ساتھ کوئی شخص اس وقت تک واقف نہیں ہوسکتا تھا، جب تک یہ مصداق اپنی اصل صورت میں لوگوں کے سامنے نہ آجاتا۔ متشابہ قرآن نے انھی چیزوں کو کہا ہے۔ اس کے معنی، جس طرح کہ لوگ بالعموم سمجھتے ہیں، مشتبہ اور مبہم کے نہیں ہیں کہ اس سے قرآن کی یہ حیثیت کہ وہ حق و باطل میں امتیاز کے لیے فرقان ہے، کسی حیثیت سے مجروح ہو۔ یعنی جن کے دلوں میں کوئی ٹیڑھ نہیں ہے، جو انسان کے حدود کو سمجھتے اور اسی کے مطابق اپنے علم کے حدود متعین کرتے ہیں۔ یعنی جو لوگ علم میں رسوخ کے حامل ہیں، وہ محکمات اور متشابہات، دونوں کو اپنے پروردگار کا عطیہ سمجھتے اور دونوں پر یکساں ایمان رکھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ عقل رکھتے ہیں اور اس عقل سے صحیح طور پر کام بھی لیتے ہیں۔
رَبَّنَاۤ اِنَّکَ جَامِعُ النَّاسِ لِیَوۡمٍ لَّا رَیۡبَ فِیۡہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُخۡلِفُ الۡمِیۡعَادَ ٪﴿۹﴾ درحقیقت یہی یقین ہے جو انھیں ہرزہ گردی سے بچا کر ہمیشہ جادہ مستقیم پر پابرجا رکھتا ہے اور اس کے نتیجے میں ان کے رسوخ فی العلم کا باعث بنتا ہے۔
اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَنۡ تُغۡنِیَ عَنۡہُمۡ اَمۡوَالُہُمۡ وَ لَاۤ اَوۡلَادُہُمۡ مِّنَ اللّٰہِ شَیۡئًا ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمۡ وَقُوۡدُ النَّارِ ﴿ۙ۱۰﴾ یہ ان منکروں کی اصلی بیماری کی طرف اشارہ کیا ہے کہ درحقیقت مال واولاد کی محبت ہی ہے جو انھیں قرآن کے پیش کردہ حقائق کے سامنے سرافگندہ ہونے سے روک رہی ہے، لیکن اس کو چھپانے کے لیے وہ متشابہات کے درپے ہوتے اور ان کے اندر سے کچھ اعتراضات ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ان کی یہ کمزوری بےنقاب نہ ہونے پائے۔
کَدَاۡبِ اٰلِ فِرۡعَوۡنَ ۙ وَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ؕ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا ۚ فَاَخَذَہُمُ اللّٰہُ بِذُنُوۡبِہِمۡ ؕ وَ اللّٰہُ شَدِیۡدُ الۡعِقَابِ ﴿۱۱﴾ اصل میں ’
کَدَاْبِ اٰلِ فِرْعَوْنَ
‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اس جملے کی تالیف ہمارے نزدیک یہ ہے : ’
دَاْبُہُمْ کَدَاْبِ آلِ فِرْعَوْنَ
‘۔ چنانچہ ہم نے ترجمہ اسی کے لحاظ سے کیا ہے۔ اصل میں ’
شَدِیْدُ الْعِقَابِ
‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں دو مفہوم موجود ہیں : ایک یہ کہ سزا عمل کا بدلہ ہے۔ دوسرا یہ کہ قانون طبیعی کی طرح اللہ تعالیٰ کے اخلاقی قانون کا نتیجہ بھی لازماً سامنے آتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس کے ظہور کا ایک دن مقرر ہے اور طبیعی قانون کے نتائج اسی دنیا میں اور بالعموم فوراً ظاہر ہوجاتے ہیں۔
قَدۡ کَانَ لَکُمۡ اٰیَۃٌ فِیۡ فِئَتَیۡنِ الۡتَقَتَا ؕ فِئَۃٌ تُقَاتِلُ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ اُخۡرٰی کَافِرَۃٌ یَّرَوۡنَہُمۡ مِّثۡلَیۡہِمۡ رَاۡیَ الۡعَیۡنِ ؕ وَ اللّٰہُ یُؤَیِّدُ بِنَصۡرِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَعِبۡرَۃً لِّاُولِی الۡاَبۡصَارِ ﴿۱۳﴾ یعنی اس بات کی نشانی کہ حق کو غلبہ حاصل ہوگا اور قرآن کے منکرین سر زمین عرب میں لازماً مغلوب ہوجائیں گے۔ بدر میں اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت جس شان کے ساتھ ظاہر ہوئی، اس سے یہ بات قرآن کے تمام مخاطبین پر واضح ہوگئی۔ اس لیے کہ یہود اپنے ہاں طالوت کی جنگ میں تائید الٰہی کا یہ منظر صدیوں پہلے دیکھ چکے تھے ، نصاریٰ یوحنا عارف کے مکاشفے میں رسول اللہ (
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
) سے متعلق پیشین گوئی میں اسے پڑھ چکے تھے اور قریش خود اس جنگ کو حق و باطل کا فیصلہ قرار دے کر میدان میں اترے تھے۔ اِس جملے میں مقابل کے الفاظ عربیت کے اسلوب پر حذف ہوگئے ہیں۔ اُنھیں کھول دیجیے تو پوری بات اس طرح ہے : ’
فِءَۃٌ مُؤْمِنَۃٌ تُقَاتِلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ، وَاُخْرٰی کَافِرَۃٌ تُقَاتِلُ فِیْ سَبِیْلِ الطَّاغُوْتِ
‘۔ جملے کے پہلے حصے میں لفظ ’
مومنۃ
‘ محذوف ہے جس کا پتا دوسرے میں ’
کَافِرَۃٌ
‘ کی صفت دے رہی ہے اور دوسرے میں ’
تقاتل فی سبیل الطاغوت
‘ جس پر ’
تُقَاتِلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ‘
کے الفاظ دلالت کرتے ہیں۔ چنانچہ یہی چیز قریش کی مرعوبیت اور اس کے نتیجے میں ان کی شکست کا باعث بن گئی۔ یہ واقعہ ظاہر ہے کہ اس وقت پیش آیا، جب جنگ شروع ہونے کے بعد فرشتوں کی کمک پہنچ گئی اور ان کی شرکت سے تین سو تیرہ کا لشکر دفعتاً حملہ آوروں کی تعداد سے دوگنا، یعنی کم وبیش دو ہزار نظر آنے لگا۔ قرآن نے اسی بنا پر اسے اللہ تعالیٰ کی ایک نشانی قرار دیا ہے اور خاص طور پر صراحت فرمائی ہے کہ کافروں نے اس نشانی کو اپنے سر کی آنکھوں سے بالکل اسی طرح دیکھا، جس طرح وہ میدان بدر کو دیکھ رہے تھے۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ سورة انفال میں جس واقعے کا ذکر ہوا ہے کہ دونوں لشکر ایک دوسرے کی نگاہ میں کم کرکے دکھائے گئے تھے، وہ جنگ شروع ہونے سے پہلے کا ہے اور اس کی مصلحت اللہ تعالیٰ نے وہاں بیان کردی ہے۔ لہٰذا قرآن کے ان دونوں بیانات میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ استاذ امام اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں : ”۔۔ ایک صاحب بصیرت اور ایک بلید میں سب سے بڑا فرق یہی ہے کہ ایک اپنی ناک سے آگے نہیں دیکھتا، لیکن دوسرے کے لیے ایک معمولی سی نشانی، ایک ادنیٰ سی تنبیہ اور ایک سرسری سا اشارہ حقائق کا ایک دفتر کھول دیتا ہے۔ ایک دروازہ اس کے لیے کھل جائے تو دوسرے دروازے کھولنے کے لیے کلید ہاتھ آجاتی ہے۔ ایسے لوگوں کو قرآن ’
اُولُوا الْاَبْصَارِ
‘ کہتا ہے، کیونکہ ان کی آنکھوں میں بصارت کے ساتھ بصیرت کا نور بھی ہوتا ہے جو جزو میں کل اور قطرے میں دجلہ کے مشاہدے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٤٠)
زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَ الۡبَنِیۡنَ وَ الۡقَنَاطِیۡرِ الۡمُقَنۡطَرَۃِ مِنَ الذَّہَبِ وَ الۡفِضَّۃِ وَ الۡخَیۡلِ الۡمُسَوَّمَۃِ وَ الۡاَنۡعَامِ وَ الۡحَرۡثِ ؕ ذٰلِکَ مَتَاعُ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ وَ اللّٰہُ عِنۡدَہٗ حُسۡنُ الۡمَاٰبِ ﴿۱۴﴾ اصل الفاظ ہیں : ’
الْقَنَاطِیرِ الْمُقَنْطَرَۃِ
‘۔ یہ اسی طرح کی ترکیب ہے ، جس طرح عربی زبان میں ’
الف مولفۃ
‘ اور ’
بدرۃ مبدرۃ
‘ وغیرہ کی تراکیب استعمال ہوتی ہیں۔ اِس سے مراد ہیں اصیل گھوڑے۔ یہ تعبیر اس لیے اختیار کی گئی ہے کہ عمدہ اور اصیل گھوڑوں پر بالعموم نشان لگایا جاتا ہے۔ اصل میں ’
زُیِّنَ لِلنَّاسِ
‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں مال و اولاد اور زن و فرزند کی محض رغبت پر کوئی تبصرہ نہیں ہے ، اس لیے کہ یہ رغبت تو انسان کی فطرت کا تقاضا ہے ، بلکہ ان کی تزیین کا ذکر ہے۔ استاذ امام اس کی وضاحت میں لکھتے ہیں : ”۔۔ ’ تزیین ‘ کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی چیز اس طرح آنکھوں میں کھب جائے کہ آدمی اس کے اثر سے ہر چیز اسی کے رنگ میں دیکھنے لگ جائے ، یہاں تک کہ اس سے الگ ہو کر اس کے لیے کسی چیز کو دیکھنا ممکن ہی نہ رہ جائے۔ وہ ہر چیز کو تولنے اور پرکھنے کے لیے اسی کو پیمانہ اور کسوٹی قرار دے لے۔ کسی چیز کی رغبت کا اس درجہ غلبہ ، ظاہر ہے، فاطر فطر ت کے منشا کے خلاف ہے۔ اسی سے زندگی میں وہ بےاعتدالیاں ظہور میں آتی ہیں جو انسان کو فطرت اور شریعت کے جادہ مستقیم سے ہٹا دیتی ہیں۔ یہ ایک بیماری کی حالت ہے جو بےبصیرتی اور حدود الٰہی کے عدم احترام یا بالفاظ دیگر عدم تقویٰ سے پیدا ہوتی ہے اور اس میں اصل دخل نفس اور شیطان کا ہوتا ہے۔ نفس اپنی چاہتوں میں فطری حدود سے آگے نکل جاتا ہے ، پھر شیطان ان چاہتوں پر ایسا دل فریب ملمع کردیتا ہے کہ آدمی کی نظر ان سے ہٹ کر کسی اور طرف کا رخ ہی نہیں کرتی۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٤٠) اِسی طرح مرغوبات نفس کے بیان میں یہاں جو ترتیب ملحوظ ہے ، اس کی وضاحت میں انھوں نے لکھا ہے : ”۔۔ پہلے اہل و عیال کا ذکر کیا ہے ، اس لیے کہ محبت کے لحاظ سے سب سے اونچا مقام انھی کا ہے، دوسری چیزوں کی محبت اصلاًاُن کے تابع ہے ، بلکہ زیادہ تر انھی کے لیے ہے۔ اس کے بعد مال کا ذکر ہے اور مال میں سونے کا ذکر اس کی گراں قیمتی کی وجہ سے دوسرے نقود پر مقدم ہے۔ سروسامان میں سب سے پہلے گھوڑوں کا ذکر ہے ، اس لیے کہ اہل عرب زینت، فخر اور دفاع، تینوں کے نقطہ نظر سے گھوڑے کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے تھے۔ اس کے بعد چوپایوں کا ذکر ہے ، اس لیے کہ تمدن کے ظہور سے پہلے بدویت کے دور میں معاش کا انحصار بیش تر انھی پر تھا۔ آخر میں کھیتی اور باغ کا ذکر ہے، اس لیے کہ ان کی اہمیت تمدن کے دور میں داخل ہونے کے بعد شروع ہوئی ہے جب انسان نے شہروں اور دیہاتوں کی رہایش اختیار کی ہے۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٤١) یعنی اس دنیا کی زندگی کا سروسامان ہے جو خود بھی ناپائدا رہے ، جس کی سب چیزیں بھی بالکل بےحقیقت ہیں اور قیامت کے بعد جو خدا کی ابدی بادشاہی قائم ہونے والی ہے ، اس کے مقابلے میں جس کی لذتوں پر ریجھنا بھی سراسر حماقت ہے۔ یہ تمام معانی ، اگر غور کیجیے تو اس چھوٹے سے فقرے میں بیان ہوگئے ہیں۔
قُلۡ اَؤُنَبِّئُکُمۡ بِخَیۡرٍ مِّنۡ ذٰلِکُمۡ ؕ لِلَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا عِنۡدَ رَبِّہِمۡ جَنّٰتٌ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا وَ اَزۡوَاجٌ مُّطَہَّرَۃٌ وَّ رِضۡوَانٌ مِّنَ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ بَصِیۡرٌۢ بِالۡعِبَادِ ﴿ۚ۱۵﴾ یہ مخاطبین کو زاویہ نظر بدلنے کی دعوت ہے کہ اس دنیا کی چند روزہ زندگی کو اصل زندگی سمجھ کر گزارنے کے بجائے وہ آخرت کی طرف دیکھیں، جہاں ایک ابدی اور لازوال زندگی اور اس کی نعمتیں ان کی منتظر ہیں۔ یہ جنت کی نعمتوں کے لیے ایک جامع تعبیر ہے۔ چنانچہ جب اس کا ذکر ہوگیا تو استاذ امام کے الفاظ میں گویا ہر نعمت کا ذکر ہوگیا ، اس کا بھی جس کے لیے تعبیر کا کوئی جامہ موجود ہے اور اس کا بھی جو خیال و گمان اور وہم و قیاس ، ہر چیز سے بالا تر ہے ۔ یہ جملہ تسلی کے محل میں ہے۔ یعنی دیکھ رہا ہے تو ان کے ایمان و عمل اور اس پر ان کی استقامت کا صلہ بھی انھیں لازماً دے گا ، ان کی کوئی قربانی بھی اللہ کے حضور میں ضائع نہیں ہوگی۔
اَلَّذِیۡنَ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَاۤ اِنَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاغۡفِرۡ لَنَا ذُنُوۡبَنَا وَ قِنَا عَذَابَ النَّارِ ﴿ۚ۱۶﴾ یہ پچھلی آیت میں ’
لِلَّذِیْنَ اتَّقَوْا
‘ سے بدل ہے۔ مدعا یہ ہے کہ خدا کے ان بندوں کو دیکھو اور تم بھی دنیا کے مرغوبات ہی کے پیچھے بھاگتے رہنے کے بجائے انھیں چھوڑ کر اس راہ پر آجاؤ۔