ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
اَلصّٰبِرِیۡنَ وَ الصّٰدِقِیۡنَ وَ الۡقٰنِتِیۡنَ وَ الۡمُنۡفِقِیۡنَ وَ الۡمُسۡتَغۡفِرِیۡنَ بِالۡاَسۡحَارِ ﴿۱۷﴾ یہ دوسرا بدل ہے جس سے قرآن نے ان اخلاقی اوصاف کو نمایاں کردیا ہے جواس کے حاملین میں ہونے چاہئیں۔ غربت ، بیماری ، جنگ اور اس نوعیت کے نرم وگرم حالات میں آدمی عزم و ہمت کے ساتھ اپنے اوپر آنے والی مصیبتوں کا مقابلہ کرے اور جس موقف کو وہ صحیح سمجھتا ہے ، بغیر کسی مایوسی، گھبراہٹ اور جزع فزع کے اس پر قائم رہے تو یہ صبر ہے۔ قرآن نے یہاں اپنے حاملین کی صفات میں سب سے پہلے اسی کو نمایاں کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جن لوگوں کو دعوت دی جارہی ہے ، ان کے لیے قبول حق کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی ہے کہ وہ اپنے آپ کو صبرکا خوگر نہیں بنا سکے۔
شَہِدَ اللّٰہُ اَنَّہٗ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۙ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ وَ اُولُوا الۡعِلۡمِ قَآئِمًۢا بِالۡقِسۡطِ ؕ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿ؕ۱۸﴾ یعنی اللہ کی وحدانیت اور اس کا قائم بالقسط ہونا ایک ایسی حقیقت ہے کہ اللہ جو اس عالم کے تمام حقائق کا علم رکھتا ہے، جس کے سامنے تمام موجودات بےحجاب ہیں ، جس کی نگاہوں سے زمین و آسمان کی کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں ہے ، وہ خود بھی اسی کی شہادت دیتا ہے ؛اُس کے فرشتے بھی جو اس کی سلطنت کو دیکھتے اور اس میں اس کے احکام کی تنفیذ کرتے ہیں، یہی کہتے ہیں؛ اور انسانوں میں سے وہ سب لوگ بھی اسی کی گواہی دیتے ہیں جنھیں حقائق کا علم دیا گیا اور انھوں نے اس علم کو اپنی خواہشات ، جذبات اور تعصبات کی آلایشوں سے پاک رکھنے کا اہتمام کیا ہے ۔ اصل میں ’
قَآءِمًا بِالْقِسْطِ
‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں ’
قَآءِمًا
‘، ہمارے نزدیک
لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ
‘ میں ’
ھُوَ
‘ سے حال موکدہ ہے اور اس میں عامل جملے کا مفہوم ہے۔ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے ساتھ یہ اس کے قائم بالقسط ہونے کی شہادت ، اسلام کے ایمانیات میں بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم جس طرح یہ مانتے ہیں کہ اللہ یکتا اور یگانہ ہے، اس کی ذات وصفات میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے اور تمام اختیار اور تصرف اصلاً اُسی کے ہاتھ میں ہے ، اسی طرح یہ بھی مانتے ہیں کہ اپنے اس اختیار و تصرف کو وہ ٹھیک ٹھیک انصاف کے ساتھ استعمال کررہا ہے اور ہمیشہ انصاف کے ساتھ ہی استعمال کرے گا ۔ یہ دنیا چونکہ امتحان کے لیے بنائی گئی ہے ، اس لیے اس کے تقاضے سے ظلم وعدوان اور عدم توازن کو اس میں بڑی حدتک گوارا کیا جاتا ہے۔ تاہم اس سے کسی کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے۔ یہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے طبعی قوانین جس طرح اٹل ہیں، اس کے اخلاقی قوانین بھی اسی طرح اٹل اور بےلاگ ہیں۔ اس حقیقت پر لوگوں کو متنبہ رکھنے کے لیے ، اللہ تعالیٰ اپنی دینونت اس دنیا میں وقتاً فوقتاً برپا کرتا رہتا ہے۔ پہلے یہ رسولوں کے ذریعے سے برپا ہوتی تھی، پھر ذریت ابراہیم کے ذریعے سے برپا ہوئی اور اب گزشتہ کئی صدیوں سے انھی کے ذریعے سے برپا ہے۔ اس کو دیکھ کر کوئی صاحب بصیرت اس بات میں شک نہیں کرسکتا کہ فرداً فرداً تمام انسانوں کے لیے بھی یہ ایک دن اسی طرح برپا ہوجائے گی ۔ لہٰذا وہ اپنی دینونت لازماً برپا کرے گا ۔ یہ اس کی عزت اور حکمت ، دونوں کا تقاضا ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کرے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ یا تو وہ بےبس ہے یا محض ایک کھلنڈرا ہے جس نے یہ دنیا کھیل تماشے کے لیے بنادی ہے۔
اِنَّ الدِّیۡنَ عِنۡدَ اللّٰہِ الۡاِسۡلَامُ ۟ وَ مَا اخۡتَلَفَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَہُمُ الۡعِلۡمُ بَغۡیًۢا بَیۡنَہُمۡ ؕ وَ مَنۡ یَّکۡفُرۡ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ فَاِنَّ اللّٰہَ سَرِیۡعُ الۡحِسَابِ ﴿۱۹ مطلب یہ ہے کہ یہود و نصاریٰ کا دین بھی یہی تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے تمام نبیوں اور رسولوں پر ابتدا سے یہی دین اتارا۔ اس سے الگ کوئی دین اس نے کسی کو نہیں دیا ۔ یہودیت اور نصرانیت کے نام سے جو دین اس وقت موجود ہیں، یہ ان کے ماننے والوں نے اصل دین میں محض ضدم ضدا کی وجہ سے بہت سے اختلاف پیدا کرکے کھڑے کرلیے ہیں۔
فَاِنۡ حَآجُّوۡکَ فَقُلۡ اَسۡلَمۡتُ وَجۡہِیَ لِلّٰہِ وَ مَنِ اتَّبَعَنِ ؕ وَ قُلۡ لِّلَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ وَ الۡاُمِّیّٖنَ ءَاَسۡلَمۡتُمۡ ؕ فَاِنۡ اَسۡلَمُوۡا فَقَدِ اہۡتَدَوۡا ۚ وَ اِنۡ تَوَلَّوۡا فَاِنَّمَا عَلَیۡکَ الۡبَلٰغُ ؕ وَ اللّٰہُ بَصِیۡرٌۢ بِالۡعِبَادِ ﴿٪۲۰﴾ اصل میں ’
اَسْلَمْتُ وَجْھِیَ لِلّٰہِ
‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں چہرہ حوالے کرنا، درحقیقت اپنی ذات کو اللہ کے حوالے کرنے کی تعبیر ہے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اس کی وضاحت اپنی تفسیر ” تدبر قرآن “ میں اس طرح فرمائی ہے : ”۔۔ چہرہ انسان کی ذات کا سب سے اعلیٰ و اشرف حصہ ہے۔ جب سب سے اعلیٰ و اشرف حصہ حوالے کردیا تو گویا سب کچھ حوالے کردیا۔ یہ اسی طرح کی تعبیر ہے، جس طرح ہم کسی کی اطاعت کی تعبیر کے لیے سرجھکا دینا بولتے ہیں۔ اس تعبیر میں غایت درجہ تذلل و نیازمندی اور سپردگی پائی جاتی ہے۔ موقع دلیل ہے کہ یہاں یہ اسلوب اصلاً تو اسلام لانے کے مفہوم کو ادا کرنے کے لیے استعمال ہوا ہے ، لیکن ساتھ ہی اس سے اسلام کی اصل روح بھی واضح ہوگئی ہے تاکہ دین داری کے ان مدعیوں کو ، جو اسلام کی مخالفت میں بحث وجدال کے لیے آستینیں چڑھائے ہوئے تھے ، تنبیہ ہو کہ وہ کس چیز کے خلاف یہ زور دکھا رہے ہیں۔ “ (٢/ ٥٣) امی اس شخص کو کہتے ہیں جو مدرسی اور کتابی تعلیم و تعلم سے ناواقف ہو ۔ یہ لفظ بنی اسماعیل کے لیے ان کے لقب کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں : ”۔۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ مدرسی اور رسمی تعلیم و کتابت سے ناآشنا اپنی بدویانہ سادگی پر قائم تھے اور اس طرح بنی اسرائیل کے بالمقابل، جو حامل کتاب تھے، امیت ان کے لیے ایک امتیازی علامت تھی۔ ہوسکتا ہے کہ عربوں کے لیے اس کے استعمال کا آغاز اہل کتاب سے ہی ہوا ہو ، اس لیے کہ حضرت اسماعیل اور ان کی ذریت کی بدویت وامیت کا ذکر توراۃ میں بھی ہے، لیکن یہ بات بالکل واضح ہے کہ اس لفظ کے استعمال میں عربوں کے لیے تحقیر کا کوئی پہلو نہیں تھا ۔ چنانچہ قرآن نے اس لفظ کو عربوں کے لیے ان کو اہل کتاب سے محض ممیز کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ اسی پہلو سے آنحضرت (
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
) کے لیے ’ نبی امی ‘ کا لقب استعمال ہوا ہے۔ اس میں توراۃ کی پیشین گوئیوں کی ایک تلمیح بھی ہے۔ عرب خود بھی اس لفظ کو اپنے لیے استعمال کرتے تھے ، جواِس بات کا نہایت واضح ثبوت ہے کہ وہ اس میں اپنے لیے تحقیر کا کوئی پہلو نہیں پاتے تھے۔ بعض حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت (
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
) نے بھی اپنی قوم کے لیے یہ لفظ استعمال فرمایا ہے۔ مثلاًوہ حدیث جس میں ارشاد ہوا ہے :’
نحن امۃ امیۃ
‘۔* بعض جگہ اگر یہ لفظ تحقیر کے طور پر استعمال ہوا ہے تو وہاں اس کا مفہوم محض لغوی ہے، اصطلاحی نہیں، مثلاً ’
مِنْھُمْ اُمِّیُّوْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ
‘۔ اس سے مراد یہود کے ان پڑھ عوام ہیں۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٥٣) یہ نبی (
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
) کے لیے تسلی ہے کہ اگر یہ لوگ تمہاری دعوت قبول نہیں کرتے اور اپنی حماقتوں ہی میں مبتلارہنا چاہتے ہیں تو انھیں ان کے حال پر چھوڑو اور مطمئن رہو کہ اِ ن کا فیصلہ اب اللہ کے ہاتھ میں ہے ، وہ ان کے ہر قول و فعل کو دیکھ رہا ہے ، اور ہر ایک کے ساتھ وہی معاملہ کرے گا جس کا وہ مستحق ہوگا۔ بخاری ، رقم ١٩١٣۔ مسلم ، رقم ١٠٨٥۔ البقرہ ٢: ٧٨۔
اِنَّ الَّذِیۡنَ یَکۡفُرُوۡنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَ یَقۡتُلُوۡنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیۡرِ حَقٍّ ۙ وَّ یَقۡتُلُوۡنَ الَّذِیۡنَ یَاۡمُرُوۡنَ بِالۡقِسۡطِ مِنَ النَّاسِ ۙ فَبَشِّرۡہُمۡ بِعَذَابٍ اَلِیۡمٍ ﴿۲۱﴾ اصل الفاظ ہیں : ’
فَبَشِّرْھُمْ بِعَذَابٍ اَلِیۡمٍ
‘۔ یہ ’
اِنَّ
‘ کی خبر ہے اور اس پر ’ ف ‘ اس لیے آگئی ہے کہ ’
اِنَّ
‘ کا اسم اس جملے میں جزا کے مفہوم پر متضمن ہے۔ اِس لفظ سے یہاں ایک تو یہود کے اس جرم کی سنگینی ظاہر ہوتی ہے ، اس لیے کہ قتل ناحق اور وہ بھی اگر کسی نبی کا ہو تو اس کی سنگینی کا تصور ہی کیا جاسکتا ہے۔ دوسرے حق کی عظمت کا اظہار ہوتا ہے کہ وہ ایسی چیز ہے کہ کوئی پیغمبر بھی اس سے بالاتر نہیں ہوسکتا۔
اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ حَبِطَتۡ اَعۡمَالُہُمۡ فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ ۫ وَ مَا لَہُمۡ مِّنۡ نّٰصِرِیۡنَ ﴿۲۲﴾ قرآن کی یہ پیشین گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی۔ چنانچہ تھوڑے ہی عرصے میں ان کی تمام تدبیریں اکارت ہوگئیں اور یہ ذلت ونامرادی کے ساتھ جزیرہ نماے عرب سے اس طرح نکال دیے گئے کہ کوئی ان کا حامی اور مددگار نہ تھا۔
اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ اُوۡتُوۡا نَصِیۡبًا مِّنَ الۡکِتٰبِ یُدۡعَوۡنَ اِلٰی کِتٰبِ اللّٰہِ لِیَحۡکُمَ بَیۡنَہُمۡ ثُمَّ یَتَوَلّٰی فَرِیۡقٌ مِّنۡہُمۡ وَ ہُمۡ مُّعۡرِضُوۡنَ ﴿۲۳﴾ یہ اظہار تعجب کا اسلوب ہے جو عربی زبان میں اس طرح کے موقعوں پر اختیار کیا جاتا ہے۔ اصل میں ’
نَصِیْبًا مِّنَ الْکِتٰبِ
‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں ’ مِنْ ‘ بیان کے لیے ہے، یعنی وہ لوگ جن کے حصے میں کتاب الٰہی آئی اور دنیا کی سب قوموں کو چھوڑ کر وہ اس سے نوازے گئے۔
اصل میں ’
ثُمَّ یَتَوَلّٰی فَرِیْقٌ مِّنْھُمْ
‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں اصلی زور ’
مِنْھُمْ
‘ کے لفظ پر ہے۔ یعنی تعجب اس بات پر ہے کہ یہ منہ پھیرنے والے لوگ اہل کتاب ہیں جو سزاوار تھے کہ سب سے پہلے کتاب الٰہی کو پہچانتے اور اس پر ایمان لاتے۔ استاذ امام لکھتے ہیں : ”۔۔ ان لوگوں کے لیے جو توراۃ و انجیل کو جانتے اور مانتے ہوں قرآن کا پہچاننا کچھ مشکل نہ تھا، بشرطیکہ انھوں نے اپنی آنکھوں پر تعصب اور ضد کی پٹیاں نہ باندھ رکھی ہوتیں۔ جس کتاب کے ابتدائی ابواب انھوں نے پڑھے ہوں، جس کے انداز، اسلوب اور مزاج سے آشناہوں ، جس کی ہدایات وتعلیمات کا ابتدائی عکس اور خاکہ انھوں نے دیکھا ہو، جس کی پیشین گوئیوں سے وہ باخبر اور ان کے مصداق کے وہ منتظر ہوں ، یہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ کتاب عزیز جب اپنے اصلی جمال و کمال کے روپ میں نمایاں ہو تو وہ اس کو نہ پہچان سکیں ۔ پھر کس قدر تعجب کی بات ہے کہ اہل کتاب نے اس سے منہ موڑا اور جان کر اس سے انجان بن گئے۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٦٠) یہ اہل کتاب کے لیے ملامت اور نبی (
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
) کے لیے تسلی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ان پتھروں میں جونک نہیں لگ سکتی ۔ حق سے اعراض ان کی فطرت ثانیہ بن چکا ہے ، اس لیے تمہاری دعوت اگر ان کے لیے موثر نہیں ہورہی تو اس میں تمھار ا کوئی قصور نہیں ہے ، یہ سراسر ان کے فساد طبیعت کا قصور ہے۔
ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ قَالُوۡا لَنۡ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّاۤ اَیَّامًا مَّعۡدُوۡدٰتٍ ۪ وَ غَرَّہُمۡ فِیۡ دِیۡنِہِمۡ مَّا کَانُوۡا یَفۡتَرُوۡنَ ﴿۲۴﴾ یعنی اس بات پر مطمئن کردیا ہے کہ ان کے اعمال خواہ کچھ بھی ہوں ، ان کے لیے ہمیشہ کی جہنم نہیں ہے۔ یہ اول تو اس میں ڈالے نہیں جائیں گے اور اگر ڈالے بھی گئے تو چند دن کے لیے گناہوں کی سزا پاکر لازماً چھوڑ دیے جائیں گے۔ یہ ظاہر ہے کہ ایک دھوکا ہے جس میں ان کی جھوٹی آرزوؤں نے انھیں مبتلا کردیا ہے۔
فَکَیۡفَ اِذَا جَمَعۡنٰہُمۡ لِیَوۡمٍ لَّا رَیۡبَ فِیۡہِ ۟ وَ وُفِّیَتۡ کُلُّ نَفۡسٍ مَّا کَسَبَتۡ وَ ہُمۡ لَا یُظۡلَمُوۡنَ ﴿۲۵﴾ اصل الفاظ ہیں : ’
فَکَیۡفَ اِذَا جَمَعْنٰھُمْ لِیۡوْمٍ لَّا رَیۡبَ فِیۡہِ
‘۔ ان میں حرف جر کے بعد ایک مضاف ہمارے نزدیک محذوف ہے۔ چنانچہ ہم نے ترجمہ اسی کے لحاظ سے کیا ہے۔
قُلِ اللّٰہُمَّ مٰلِکَ الۡمُلۡکِ تُؤۡتِی الۡمُلۡکَ مَنۡ تَشَآءُ وَ تَنۡزِعُ الۡمُلۡکَ مِمَّنۡ تَشَآءُ ۫ وَ تُعِزُّ مَنۡ تَشَآءُ وَ تُذِلُّ مَنۡ تَشَآءُ ؕ بِیَدِکَ الۡخَیۡرُ ؕ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿۲۶﴾ یہ بظاہر ایک دعا ہے، لیکن غور کیجیے تو اس میں بنی اسماعیل کے لیے ایک عظیم بشارت چھپی ہوئی ہے، اس لیے کہ یہ دعا صاف اشارہ کررہی ہے کہ تمام خیر کے مالک، پروردگار عالم نے فیصلہ کرلیا ہے کہ دنیا کی بادشاہی بنی اسماعیل کو دے دی جائے گی اور بنی اسرائیل کی کوئی مخالفت بھی اس فیصلے کو تبدیل نہ کرسکے گی۔ ان کے لیے ذلت ہی ذلت ہے۔ چنانچہ وہ اس دنیا میں اب اگر رہیں گے تو بنی اسماعیل کے محکوم ہو کر رہیں گے، اس کے سوا جینے کی کوئی دوسری صورت ان کے لیے باقی نہیں رہی۔ پھر یہی نہیں، اس بشارت کے ساتھ ایک عظیم نصیحت بھی اس میں پوشیدہ ہے کہ بنی اسماعیل اس بادشاہی کو اپنے استحقاق کا کرشمہ سمجھ کر فخرو غرور کے ساتھ قبول نہ کریں، بلکہ تواضع، فروتنی اور احساس عبدیت کے ساتھ قبول کریں، اس لیے کہ تمام خیر اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے، اور یہ محض اس کی عنایت ہے کہ اس نے دنیا کی سب قوموں میں اس کا سزاوارانھیں قرار دیا ہے۔