ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
وَ لَا تَنۡکِحُوۡا مَا نَکَحَ اٰبَآؤُکُمۡ مِّنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا قَدۡ سَلَفَ ؕ اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً وَّ مَقۡتًا ؕ وَ سَآءَ سَبِیۡلًا ﴿٪۲۲﴾ مطلب یہ ہے کہ اس قانون کا اطلاق ماضی پر نہ ہوگا کہ اس کو بنیاد بنا کر تمام پچھلے تعلقات کی تحقیق کی جائے اور اس کی روشنی میں جائز اور ناجائز کے احکام صادر کیے جائیں۔ اِس برائی کا رواج عرب جاہلی کے بعض طبقوں ہی میں تھا، اس لیے کہ جو الفاظ اس کے لیے استعمال ہوئے ہیں، ان سے واضح ہے کہ اس کا کھلی ہوئی بےحیائی اور قابل نفرت ہونا عرب کے شرفا کو بھی معلوم تھا۔
حُرِّمَتۡ عَلَیۡکُمۡ اُمَّہٰتُکُمۡ وَ بَنٰتُکُمۡ وَ اَخَوٰتُکُمۡ وَ عَمّٰتُکُمۡ وَ خٰلٰتُکُمۡ وَ بَنٰتُ الۡاَخِ وَ بَنٰتُ الۡاُخۡتِ وَ اُمَّہٰتُکُمُ الّٰتِیۡۤ اَرۡضَعۡنَکُمۡ وَ اَخَوٰتُکُمۡ مِّنَ الرَّضَاعَۃِ وَ اُمَّہٰتُ نِسَآئِکُمۡ وَ رَبَآئِبُکُمُ الّٰتِیۡ فِیۡ حُجُوۡرِکُمۡ مِّنۡ نِّسَآئِکُمُ الّٰتِیۡ دَخَلۡتُمۡ بِہِنَّ ۫ فَاِنۡ لَّمۡ تَکُوۡنُوۡا دَخَلۡتُمۡ بِہِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیۡکُمۡ ۫ وَ حَلَآئِلُ اَبۡنَآئِکُمُ الَّذِیۡنَ مِنۡ اَصۡلَابِکُمۡ ۙ وَ اَنۡ تَجۡمَعُوۡا بَیۡنَ الۡاُخۡتَیۡنِ اِلَّا مَا قَدۡ سَلَفَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا ﴿ۙ۲۳﴾ یہ اور اس کے بعد جو حرمتیں بیان ہوئی ہیں، وہ استاذ امام کے الفاظ میں انسانی فطرت کے اس تقاضے پر مبنی ہیں کہ جہاں رحمی رشتے کی قربت قریبہ موجود ہو یا اس سے مشابہت پائی جاتی ہو، وہاں باہمی ارتباط کی بنیاد صرف رحم، محبت اور رأفت و شفقت کے اعلیٰ جذبات ہی پر ہونی چاہیے۔ اس میں نہ تو نفس کی شہوات و رغبات کی کوئی آمیزش ہونی چاہیے نہ رشک و رقابت کو اس میں خلل انداز ہونے کا موقع دینا چاہیے۔ اس لحاظ سے دیکھیے تو سب سے مقدم یہی نسبی رشتے ہیں اور ان کی قربت اپنے اندر فی الواقع اس نوعیت کا تقدس رکھتی ہے کہ اس میں جنسی رغبت کا شائبہ بھی ہو تو اسے فطرت صالحہ کسی طرح برداشت نہیں کرسکتی۔ اس میں شبہ نہیں کہ یہ تقدس ہی درحقیقت تمدن کی بنیاد، تہذیب کی روح اور خاندان کی تشکیل کے لیے رأفت و رحمت کے بےلوث جذبات کا منبع ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ ماں کے لیے بیٹے، بیٹی کے لیے باپ، بہن کے لیے بھائی، پھوپھی کے لیے بھتیجے، خالہ کے لیے بھانجے، بھانجی کے لیے ماموں اور بھتیجی کے لیے چچا کی نگاہ جنس و شہوت کی ہر آلایش سے پاک رہے اور عقل شہادت دیتی ہے کہ ان رشتوں میں اس نوعیت کا علاقہ شرف انسانی کا ہادم اور شرم و حیا کے اس پاکیزہ احساس کے بالکل منافی ہے جو انسانوں اور جانوروں میں وجہ امتیاز ہے۔ نسبی رشتوں کے بعد اب یہ رضاعی رشتوں کا بیان ہے۔ یہ رشتے اپنے اندر کیا تقدس رکھتے ہیں ؟ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اس کی وضاحت میں لکھا ہے :” رضاعت کے تعلق کو لوگ ہمارے ہاں اس گہرے معنی میں نہیں لیتے، جس معنی میں اس کو لوگ عرب میں لیتے تھے۔ اس کا سبب محض رواج کا فرق ہے۔ ورنہ حقیقت یہی ہے کہ اس کو مادرانہ رشتے سے بڑی گہری مناسبت ہے۔ جو بچہ جس ماں کی آغوش میں، اس کی چھاتیوں کے دودھ سے پلتا ہے، وہ اس کی پوری نہیں تو آدھی ماں تو ضرور بن جاتی ہے۔ پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ جس کا دودھ اس کے رگ و پے میں جاری وساری ہے، اس سے اس کے جذبات و احساسات متاثر نہ ہوں۔ اگر نہ متاثر ہوں تو یہ فطرت کا بناؤ نہیں، بلکہ بگاڑ ہے اور اسلام جو دین فطرت ہے، اس کے لیے ضروری تھا کہ اس بگاڑ کو درست کرے۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٢٧٥) یہ تعلق کس طرح دودھ پلانے سے قائم ہوتا ہے ؟ استاذ امام لکھتے ہیں :”۔۔ یہ تعلق مجرد کسی اتفاقی واقعے سے قائم نہیں ہوجاتا۔ قرآن نے یہاں جن لفظوں میں اس کو بیان کیا ہے، اس سے یہ بات صاف نکلتی ہے کہ یہ اتفاقی طور پر نہیں، بلکہ اہتمام کے ساتھ ایک مقصد کی حیثیت سے عمل میں آیا ہو، تب اس کا اعتبار ہے۔ اول تو فرمایا ہے : ” تمہاری وہ مائیں جنھوں نے تمہیں دودھ پلایا ہے۔ “ پھر اس کے لیے رضاعت کا لفظ استعمال کیا ہے : ’ وَاَخَوٰتُکُمْ مِّنَ الرَّضَاعَۃِ ‘ ۔ عربی زبان کا علم رکھنے والے جانتے ہیں کہ ’ ارضاع ‘ باب افعال سے ہے جس میں فی الجملہ مبالغہ کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ اسی طرح ’ رضاعت ‘ کا لفظ بھی اس بات سے ابا کرتا ہے کہ اگر کوئی عورت کسی روتے بچے کو بہلانے کے لیے اپنی چھاتی اس کے منہ سے لگا دے تو یہ رضاعت کہلائے۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٢٧٥) آیت کے الفاظ سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ رضاعت کے تعلق سے وہ سب رشتے حرام ہوں گے جو نسبی تعلق سے حرام ہوتے ہیں۔ قرآن کا مدعا یہی ہے، لیکن اس کے لیے عربیت کا جو اسلوب اختیار کیا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ الفاظ و قرائن کی دلالت اور حکم کے عقلی تقاضے جس مفہوم کو آپ سے آپ واضح کر رہے ہوں، اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاتا۔ چنانچہ اصل میں دیکھیے تو ’
وَاُمَّھٰتُکُمُ الّٰتِیْٓ اَرْضَعْنَکُمْ
‘ کے ساتھ ’
وَاَخَوٰتُکُمْ مِّنَ الرَّضَاعَۃِ
‘ کے الفاظ بھی آئے ہیں۔ بات اگر رضاعی ماں ہی پر ختم ہوجاتی تو اس میں، بیشک کسی اضافے کی گنجایش نہ تھی، لیکن رضاعت کا تعلق اگر ساتھ دودھ پینے والی کو بہن بنا دیتا ہے تو عقل تقاضا کرتی ہے کہ رضاعی ماں کے دوسرے رشتوں کو بھی یہ حرمت لازماً حاصل ہو۔ دودھ پینے میں شراکت کسی عورت کو بہن بنا سکتی ہے تو رضاعی ماں کی بہن کو خالہ، اس کے شوہر کو باپ، شوہر کی بہن کو پھوپھی اور اس کی پوتی اور نواسی کو بھتیجی اور بھانجی کیوں نہیں بنا سکتی ؟ لہٰذا یہ سب رشتے بھی یقیناًحرام ہیں۔ یہ قرآن کا منشا ہے اور ’
اَخَوٰتُکُمْ مِّنَ الرَّضَاعَۃِ
‘ کے الفاظ اس پر اس طرح دلالت کرتے ہیں کہ قرآن پر تدبر کرنے والے کسی صاحب علم سے اس کا یہ منشا کسی طرح مخفی نہیں رہ سکتا۔ نسب اور رضاعت کے بعد اب وہ حرمتیں بیان ہوئی ہیں جو مصاہرت پر مبنی ہیں۔ یہ رشتے چونکہ بیوی اور شوہر کی وساطت سے قائم ہوتے ہیں اور اس سے ایک نوعیت کا ضعف ان میں پیدا ہوجاتا ہے، اس لیے قرآن نے تین شرطیں ان پر عائد کردی ہیں : ایک یہ کہ بیٹی صرف اس بیوی کی حرام ہے جس سے خلوت ہوجائے۔ دوسری یہ کہ بہو کی حرمت کے لیے بیٹے کا صلبی ہونا ضروری ہے۔ تیسری یہ کہ بیوی کی بہن، بھانجی اور بھتیجی کی حرمت اس حالت کے ساتھ خاص ہے، جب میاں بیوی میں نکاح کا رشتہ قائم ہو۔ یہ الفاظ یہاں بیان شرط کے لیے نہیں، بلکہ حرمت کے حکم کو موثر بنانے کے لیے آئے ہیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں : ”۔۔ عربی زبان میں ہر صفت کو لازماً قید و شرط کی حیثیت حاصل نہیں ہوجاتی کہ ان میں سے کوئی نہ پائی جائے تو وہ حکم کالعدم ہوجائے، بلکہ اس کا انحصار قرینے پر ہوتا ہے۔ قرینہ بتاتا ہے کہ کون سی صفت قید اور شرط کا درجہ رکھتی ہے اور کون سی صفت محض تصویر حال کے لیے ہے۔ یہاں صرف قرینہ ہی نہیں، بلکہ تصریح ہے کہ ربیبہ کی ماں اگر تمہاری مدخولہ نہ بنی ہو تو اس ربیبہ سے نکاح میں کوئی قباحت نہیں۔ اس سے یہ بات صاف ہوگئی کہ ربیبہ کی حرمت میں اصل موثر چیز اس کی ماں کا مدخولہ ہونا ہے۔ اگر وہ مدخولہ ہے تو اس کی لڑکی سے نکاح ناجائز ہوگا، قطع نظر اس سے کہ وہ آغوش تربیت میں پلی ہے یا نہیں۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اعلیٰ عربی، بالخصوص قرآن حکیم میں اثبات کے بعد نفی کے اسلوب یا نفی کے بعد اثبات کے اسلوب میں جو باتیں بیان ہوتی ہیں، وہ محض سخن گسترانہ نہیں ہوتیں، بلکہ کسی خاص فائدے کے لیے ہوتی ہیں۔ ان سے مقصود اکثر صورتوں میں رفع ابہام ہوتا ہے۔ اس وجہ سے ان لوگوں کا خیال قرآن کے خلاف ہے جو ربیبہ کے ساتھ نکاح صرف اس صورت میں حرام سمجھتے ہیں، جب وہ نکاح کرنے والے کے آغوش تربیت میں پلی ہو۔ بصورت دیگر وہ اس کے ساتھ نکاح کو جائز سمجھتے ہیں۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٢٧٦) اِس میں صلبی ہونے کی شرط بالخصوص اس لیے عائد کی گئی ہے کہ اس زمانے کے عرب میں لوگ اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں سے نکاح کو ناجائز سمجھتے تھے۔ قرآن نے اس شرط سے واضح کردیا کہ کسی کو اپنا بیٹا کہہ دینے سے نہ وہ بیٹا بن جاتا ہے اور نہ اس سے کوئی حرمت قائم ہوتی ہے۔ اصل میں ’
وَاَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الْاُخْتَیْنِ
‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ یہاں بھی اگر غور کیجیے تو زبان کا وہی اسلوب ہے جس کا ذکر اوپر رضاعت کی بحث میں ہوا ہے۔ قرآن نے ’
بَیْنَ الْاُخْتَیْنِ ‘
ہی کہا ہے، لیکن صاف واضح ہے کہ زن و شو کے تعلق میں بہن کے ساتھ بہن کو جمع کرنا اگر اسے فحش بناتا اور دو بہنوں کو بہنیں ہوتے ہوئے بھی سوکنوں کے جلاپے اور رشک و رقابت کے جذبات میں مبتلا کردیتا ہے تو پھوپھی کے ساتھ بھتیجی اور خالہ کے ساتھ بھانجی کو جمع کرنا بھی گویا ماں کے ساتھ بیٹی ہی کو جمع کرنا ہے۔ لہٰذا قرآن کا مدعا،
لاریب
یہی ہے کہ ’
ان تجمعوا بین الاختین، وبین المرأۃ وعمتھا، و بین المرأۃ وخالتھا
‘۔ وہ یہی کہنا چاہتا ہے، لیکن ’
بَیْنَ الْاُخْتَیْنِ
‘ کے بعد یہ الفاظ اس نے اس لیے حذف کردیے ہیں کہ مذکور کی دلالت اپنے عقلی اقتضا کے ساتھ اس محذوف پر ایسی واضح ہے کہ قرآن کے اسلوب سے واقف اس کا کوئی طالب علم اس کے سمجھنے میں غلطی نہیں کرسکتا۔