محترم جناب عارف کریم صاحب۔۔۔۔۔۔اسلامی قوانین کو منافقت کی عینک سے دیکھنے اور خودساختہ تاویلات سے ان کا مذاق اڑانےسے بہتر ہے کہ آدمی اسلام کو ہی خیر آباد کہہ دے کیونکہ منافق سے گنہگار ہزار درجہ بہتر ہے۔۔۔۔ اس بحث میں داعش اور طالبان کے غیر اسلامی فعل کو امام ابو حنیفہ رح کے فتوی سے مماثلت دینا جاہلانہ سوچ کی عکاس ہے۔۔۔۔۔۔ حضرت عبیدہ رضی اللہ تعالی عنہ کو جب ایک شہر خالی کرنا پڑا تو انہوں نے اقلیتوں کو وہ رقم واپس کر دی جو انہوں نے ان کی حفاظت کیلئے ان مکینوں سے لی تھی۔ اسلام کے اس قانون کا عملی مظاہرہ دیکھنے کے بعد کثیر تعداد نے اسلام قبول کر لیا۔۔۔ یہ ہے اسلام میں اقلیتوں کا زبردست تحفظ۔۔۔۔۔۔لیکن خود کو مسلمان کہنے والے منافقین و مرتدین کیلئے اقلیتوں والا قانون لاگو نہیں ہوتا بلکہ ان شرپسندوں پر وہ قوانین لاگو ہوتے ہیں جس کی جھلک امام ابو حنیفہ رح کے فرمان سے ملتی ہے۔۔۔۔۔ مختلف اسلامی قوانین کو گڈمڈ کرنا اور پھر ان سے خودساختہ نتیجہ اخذ کرنا ایمانداری نہیں ہٹ دھرمی ہے۔۔۔۔۔ پینٹ بشرٹ میں بھی پہنتا ہوں، ایکسپورٹ کے بزنس سے منسلک ہوں، یورپ کے مختلف ملکوں میں آتا جاتا ہوں، انگریز گاہکوں سے ملاقات کرتا ہوں، اسلام پر گفتگو بھی کرتا ہوں لیکن اسلامی قوانین پر منافقانہ رویہ اختیار نہیں کرتا۔ اللہ کے قوانین کا مذاق نہیں اڑاتا بلکہ دلائل سے گوروں کو اسلامی نظام پر مطمئن کرتا ہوں۔ چودہ سو سال پہلے Barbarian Era میں اسلام کے زبردست مساویانہ قوانین کو تمام عقل رکھنے والے غیر مسلم سراہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ اب میں آپ کے ساتھ ڈسکشن ختم کرتا ہوں اور یہ میرا اس موضوع پر آخری جواب ہے۔