• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

ختم نبوت(قادیانی شبہات کا رد)

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
گیارہویں آیت میں قادیانی تحریف کا جواب

آیت
وَّ اَنَّہُمۡ ظَنُّوۡا کَمَا ظَنَنۡتُمۡ اَنۡ لَّنۡ یَّبۡعَثَ اللّٰہُ اَحَدًا ( الجن آیت 7)

اور یہ کہ : جیسا گمان تم لوگوں کا تھا ، انسانوں نے بھی یہی گمان کیا تھا کہ اللہ کسی کو بھی مرنے کے بعد دوسری زندگی نہیں دے گا ۔
قادیانی استدلال

قادیانی کہتے ہیں کہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے پہلے کفار انسان اور کفار جنات یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ نبوت بند ہے۔اب بھی جو یہ عقیدہ رکھے وہ کافر ہے۔
جواب

پہلی بات تو یہ ہے کہ اس آیت میں بعثت انبیاء کا ذکر نہیں بلکہ کفار کے بقول قیامت کے دن دوبارہ زندہ ہونے کا انکار ہے۔یعنی کفار کے بقول اللہ تعالی مرنے کے بعد دوبارہ کسی کو کھڑا نہ کرے گا۔اس آیت کی وضاحت دوسری جگہ موجود ہے ۔
زَعَمَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَنۡ لَّنۡ یُّبۡعَثُوۡا ؕ قُلۡ بَلٰی وَ رَبِّیۡ لَتُبۡعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلۡتُمۡ ؕ وَ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیۡرٌ(التغابن آیت 7)

جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے ، وہ یہ دعوی کرتے ہیں کہ انہیں کبھی دوبارہ زندہ نہیں کیا جائے گا ۔ کہہ دو : کیوں نہیں؟ میرے پروردگار کی قسم ! تمہیں ضرور زندہ کیا جائے گا ، پھر تمہیں بتایا جائے گا کہ تم نے کیا کچھ کیا تھا ، اور یہ اللہ کے لیے معمولی سی بات ہے ۔
ثابت ہوا کہ ان کا انکار بعثت بعد الموت سے تھا۔قادیانیوں کا یہ کہنا کہ ان کا عقیدہ یہ تھا کے اب کوئی رسول نہیں آئے گا صرف اور صرف تحریف قرآن ہے اور کچھ بھی نہیں۔دوسری بات اگر بالفرض محال اسے تسلیم کر بھی لیا جائے کہ ان کا یہ عقیدہ تھا کہ اب کوئی نبی نہیں آئے گا تب بھی قادیانیوں کا دعویٰ ثابت نہیں ہوتا کیونکہ یہ صرف کفار جنات اور کفار انسانوں کا ظن تھا ( جو کہ غلط تھا) اللہ کا فیصلہ نہیں تھا۔( اور اس کی تفصیلات میں نے "المؤمن آیت 34 اور قادیانی تحریف کا جواب" میں عرض کر دی تھی وہاں دیکھی جاسکتی ہیں)
اب اگر قادیانی کہیں کہ یہ عقیدہ رکھنے والا کافر ہے تو
(1)بعد خاتم النبین کسی رسول کا آنا جائز نہیں۔ ( روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 511)
19۔ے.jpg
(2)بعد ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کوئی رسول دنیا میں نہیں آئے گا۔ ( خزائن جلد 3 صفحہ 431)
19،ش.jpg
(3) اور ہاں جناب صلی اللہ علیہ وسلم کے اس امت کے لیے کوئی نبی نہیں آئے گا۔ ( روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 414)
19،م.jpg

قادیانیوں مرزا صاحب کو اس کفر سے بچا کر دکھا دو۔

آخری بات یہ ہے کہ جس وقت ان لوگوں نے کہا کہ اب کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا( بقول قادیانی مذہب) اس وقت نبوت جاری تھی اب نبوت ختم ہے۔ جب جارہی تھی تو اس کو بند کہنے والا کافر تھا اب جب بند ہے تو اس کو جاری کہنے والا کافر ہے۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
بارویں آیت میں قادیانی تحریف کا جواب

آیت
وَ لَقَدۡ ضَلَّ قَبۡلَہُمۡ اَکۡثَرُ الۡاَوَّلِیۡنَ

اور ان سے پہلے جو لوگ گذر چکے ہیں ، ان میں سے اکثر لوگ بھی گمراہ ہوئے ۔
وَ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا فِیۡہِمۡ مُّنۡذِرِیۡنَ

اور حقیقت یہ ہے کہ ہم نے ان کے درمیان خبردار کرنے والے ( پیغمبر ) بھیجے تھے ۔
(الصافات آیت 71،72)

قادیانی استدلال

قادیانی کہتے ہیں کہ ان آیات سے پتہ چلتا ہے کہ جب لوگوں کی اکثریت گمراہ ہو جاتی تھی تو اللہ نبی بھیجتا تھا۔اب بھی جب لوگوں کی اکثریت گمراہ ہو گی تو اللہ نبی بھیج دے گا۔
جواب

پہلے امتوں میں گمراہی کی پہلی وجہ یہ تھی کہ ان کے انبیاء کی تعلیمات محفوظ نہ رہیں۔اس میں ترمیم و اضافہ کر دیا گیا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات الحمدللہ محفوظ ہیں اور محفوظ ہی رہیں گی ان شاءاللہ۔جیسے کہ اللہ کا فرمان ہے
اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّکۡرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ (الحجر آیت 9)

حقیقت یہ ہے کہ یہ ذکر ( یعنی قرآن ) ہم نے ہی اتارا ہے ، اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔
اس لئے حضور صلی اللہ وسلم کی امت سابقہ امتوں کی طرح من حیث المجموع گمراہ نہیں ہوسکتی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
لَا تَجْتَمِعُ أُمَّتِي عَلَى الضَّلَالَةِ(عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری جلد 2 صفحہ 52 ،مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح جلد 1 صفحہ 224، تفسیر الرازی جلد 14 صفحہ 197)

یعنی میری امت گمراہی پر جمع نہیں ہوگی۔اور دوسری وجہ پہلی متوں کے گمراہ ہونے کی یہ تھی کہ پہلے شریعتیں وقتی خاص خاص موقعوں کے لئے تھیں۔اسی لئے حالات کے مطابق نبی آتے رہے اور احکام نازل ہوتے رہے۔مگر اسلام کامل اور مکمل ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے دین مکمل ہو گیا (اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا) اور قرآن میں اللہ نے تمام احکام کو بیان فرما دیا اور ان کی تفصیل احادیث میں مکمل طور پر آچکی اب کسی نئے حکم یا نبی کی کوئی ضرورت نہیں۔باقی رہا اصلاح اور تبلیغ کا کام تو وہ صالحین امت اور علمائے دین کے سپرد ہے ۔
وَلۡتَکُنۡ مِّنۡکُمۡ اُمَّۃٌ یَّدۡعُوۡنَ اِلَی الۡخَیۡرِ وَ یَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ(آل عمران آیت 104)

اور تمہارے درمیان ایک جماعت ایسی ہونی چاہئیے جس کے افراد ( لوگوں کو ) بھلائی کی طرف بلائیں ، نیکی کی تلقین کریں ، اور برائی سے روکیں ۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں ۔
پس ثابت ہوا کہ اس امت میں اب کوئی نبی پیدا نہیں ہوگا۔جھوٹے کو اس کے گھر تک پہنچانے کے لیے ان کے "نبی" اور "مسیح موعود" کا حوالہ بھی پیش کر دیتا ہوں۔مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ
اگر کوئی کہے کہ فساد اور بدعقیدگی اور بداعمالیوں میں یہ زمانہ بھی تو کم نہیں پھر اس میں کوئی نبی کیوں نہیں آیا تو جواب یہ ہے کہ وہ زمانہ (حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل) توحید اور راست روی سے بالکل خالی ہو گیا تھا اور اس زمانہ میں 40 کروڑ لا الہ الا اللہ کہنے والے موجود ہیں اور اس زمانہ کو بھی خدا تعالیٰ نے مجدد کے بھیجنے سے محروم نہیں رکھا (روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 339)

20.jpg
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
تیرہویں آیت میں قادیانی تحریف کا جواب

آیت
اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا (المائدہ آیت 3)

آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا ، تم پر اپنی نعمت پوری کردی ، اور تمہارے لیے اسلام کو دین کے طور پر ( ہمیشہ کے لیے ) پسند کرلیا ۔
قادیانی استدلال

قادیانی کہتے ہیں کہ دین جتنا کامل ہوتا ہے اللہ سے رابطہ اتنا زیادہ ہوتا ہے۔ ہمارا دین سب سے کامل ہے اس وجہ سے ہمارا رابطہ سب سے زیادہ ہے اور سب سے زیادہ رابطہ نبوت ہوتا ہے لہذا امت میں نبوت جاری ہے۔
جواب
آیت کا وہ مطلب نہیں جو قادیانی حضرات نے بتایا ہے اگر آیت کا وہ مطلب مان لیا جائے جو قادیانی بتا رہے ہیں تو امت کے ہر فرد کو نبی ماننا ہوگا (جو کہ قادیانی نہیں مانتے)۔ کیونکہ اس امت کے ہر فرد کا دین تو ایک ہی ہے اسلام اور وہ دین کامل ہے۔تو کیا ہر کوئی مرد، عورت،بچے وغیرہ نبی ہیں؟
جب کوئی چیز کامل اور تمام ہو جاتی ہے تو اس پر کسی جز کا اضافہ اور زیادتی ناممکن ہوجاتی ہے۔لہذا اگر کسی نبی کا آنا مانا جائے تو یہ دین کے کامل اور تمام ہونے کے خلاف ہے۔
مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ
تو سمجھو کہ شریعت کیا چیز ہے جس نے اپنی وحی کے ذریعے چند امر اور نہی بیان کیے اور اپنی امت کے لیے ایک قانون مقرر کیا وہی صاحب شریعت ہو گیا (اربعین نمبر4 خزائن جلد 17 صفحہ 435)
21۔1.jpg
اب ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ فضول گفتگو نہیں فرماتا اللہ اس سے پاک ہے۔اللہ جب بھی کسی کی طرف وحی فرمائے گا تو اس میں کچھ نہ کچھ امر اور نہی تو ضرور ہوگا جو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہونا اس آیت کے خلاف ہے۔
ہمارا اس آیت کا یہ معنی بیان کرنا اپنی طرف سے نہیں ہے بلکہ مجددین امت نے بھی اس کے یہی معنی کیے ہیں ۔
ھذا اکبر نعم اللہ تعالیٰ علیٰ ھذہ الامة حیث اکمل اللہ تعالیٰ دینہم فلا یحتاجون الی دین غیرہ ولا الی نبی غیر نبیہم صلوة اللہ و سلامہ علیہ و لھذا جعلہ اللہ تعالیٰ خاتم الانبیاء (تفسیر ابن کثیر جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 26)

21۔2.jpg
یہ خدا کی بڑی نعمت ہے کہ اس نے دین کامل کر دیا اور اب کسی نئے نبی اور جدید مذہب کی ضرورت نہیں رہی اور ہمارے رسول خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم بنا دئیے گئے۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ مرزا صاحب اس آیت کی تفسیر میں کیا لکھتے ہیں
قرآن شریف جیسے کہ آیت (اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ) اور (وَ لٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ) میں صریح نبوت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کر شکا ہے اور صریح الفاظ میں فرما چکا ہے کہ انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں۔ (تحفہ گولڑویہ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 174)
21،3.jpg
عجیب بات ہے کہ "امت" اس آیت سے اجراء نبوت ثابت کر رہی ہے اور "نبی" اسی آیت سے ختم نبوت ثابت کر رہا ہے۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
چودویں آیت میں قادیانی تحریف کا جواب

آیت
وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیۡقِیۡنَ وَ الشُّہَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیۡنَ ۚ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیۡقًا (النساء آیت 69)

اور جو لوگ اللہ اور رسول کی اطاعت کریں گے تو وہ ان کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے ، یعنی انبیاء ، صدیقین ، شہداء اور صالحین ۔ اور وہ کتنے اچھے ساتھی ہیں ۔
قادیانی استدلال

قادیانی کہتے ہیں کہ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ کی اطاعت کرنے سے بندہ نبی بن جاتا ہے۔
جواب نمبر 1

پہلی بات تو یہ ہے کہ دلیل ہی آپ کے دعوے کے مطابق نہیں ہے آپ حضرات نبوت کی تین اقسام مانتے ہیں ( انوار العلوم جلد 2 صفحہ 276,277)
1.jpg
ان میں سے ایک قسم کی نبوت کو حضور کے بعد جاری سمجھتے ہیں( کلمہ الفصل صفحہ 113 ،112)
2.jpg
جو کہ مرزا قادیانی صاحب پر آکر ختم ہوئی ہے۔ ( تشحیذالاذاہان نمبر3 صفحہ 31 :: انوار العلوم جلد 2 صفحہ 578)
3.jpg
22.jpg
تو دلیل وہ پیش کریں جو آپ کے دعوے کے مطابق ہو یعنی نبوت کی تین اقسام میں سے حضور صلی اللہ وسلم کے بعد ایک قسم کی نبوت جاری ہونے کا اور وہ مرزا صاحب پر بند ہونے کا ذکر ہو۔دوسری بات یہ ہے کوئی بھی ذی شعور اور صاحب عقل آدمی اس آیت کا صرف ترجمہ پڑھ لے تو اسے خود پتہ چل جائے گا کہ اس آیت سے نبوت کے جاری ہونے کا قطعاً کوئی ثبوت نہیں ملتا بلکہ اس آیت میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ وسلم کی اطاعت کرنے والوں کو یہ خوشخبری دی جا رہی ہے کہ یہ لوگ قیامت میں صدیق، شہید، صالحین اور انبیاء کے ساتھ ہوں گئے جیسے آیت کے آخری الفاظ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیۡقًا ( اور وہ کتنے اچھے ساتھی ہیں)بات کو روز روشن کی طرح واضح کر رہے ہیں۔ پس ثابت ہوا یہ آیت صرف قیامت کی معیت کے باری میں ہے۔
بات کو اور واضح کرنے کے لیے قادیانیوں کے تسلیم کردہ دسویں صدی کے مجدد امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے اس آیت کا شان نزول پیش کرتا ہوں۔
(1)امام صاحب فرماتے ہیں
بعض صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ جنت کے بلند و بالا مقامات پر ہوں گے اور ہم جنت کے نچلے درجات میں ہوں گے تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کیسے کریں گئے تو یہ آیت نازل ہوئی وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیۡقِیۡنَ وَ الشُّہَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیۡنَ ۚ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیۡقًا(تفسیر جلالین صفحہ 89)
23.jpg
یہاں رفاقت سے مراد جنت کی رفاقت ہے کہ انبیائے کرام اگرچہ جنت کے بالا خانوں میں ہوں گے لیکن پھر بھی صحابہ کرام اور دوسرے نیک لوگ انبیاء کرام کی زیارت سے فیض یاب ہوں گے۔ جیسا کہ شان نزول سے ظاہر ہے۔
(2)امام رازی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں

اذا ارادوا الزيارة والتلاقي قدروا عليه فهذا هو المراد من هذه المعية.( تفسیر الرازی جلد 10 صفحہ 133)

مطیعین جب نبیوں صدیقوں اور شہیدوں سے ملنا چاہیں گے تو مل سکیں گے "مع" سے یہی مراد ہے۔
24.jpg
اس آیت میں آخرت میں معیت کا ذکر ہے اس پر ایک حدیث شریف بھی پیش کرتا ہوں۔

حدیث
امی عائشہ فرماتی ہیں
میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ ہر نبی کو مرض وفات میں اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ دنیا میں رہنا چاہتا ہے یا عالم آخرت میں۔ جس مرض میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اس مرض میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے مَعَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ اس سے میں سمجھ گئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ( دنیا اور آخرت میں سے ایک کا) اختیار دیا جا رہا ہے۔ (مشکواۃ شریف::حدیث نمبر 5960)
25.jpg
کتب سیرت میں یہ روایت موجود ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وصال کے وقت یہ الفاظ ارشاد فرمائے

مع الرفيق الاعلي في الجنة مع الذين انعمت عليهم من النبيين والصديقين والشهداء والصالحين

(رفیق اعلی کے ساتھ جنت میں انعام یافتہ لوگوں یعنی انبیاء، صدیق، شہید، اور صالحین کے ساتھ)
(1)السیرۃ النبویة لا بن كثير جلد 4 صفحہ 477 (2)جمع الوسائل فی شرح الشمائل جلد 2 صفحہ 202 (3)البدایة و النهاية جلد 5 صفحہ 261 (4)الطبقات الکبری جلد 2 صفحہ 177(5)نهایة الارب في فنون الأدب جلد 18 صفحہ 382)
26م.jpg
ثابت ہوا کہ اس آیت میں نبی بننے کا ذکر نہیں ہیں کیونکہ حضور علیہ السلام نبی تو پہلے ہی بن چکے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمنا آخرت کی معیت کے متعلق تھی۔
کچھ اور احادیث ملاحظہ فرمائیں جن میں معیت کا ذکر ہے اور اس سے مراد جنت کی رفاقت ہے۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
حدیث نمبر 1

رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " مَنْ قَرَأَ أَلْفَ آيَةٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى كُتِبَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَعَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ، وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا، إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى ".

(مسند احمد حدیث نمبر 15611،المعجم الکبیر طبرانی حدیث نمبر 399،عمل الیوم واللیلة لابن السني حدیث نمبر 704،المقصد العلی فی زوائد ابی یعلی الموصلی حدیث نمبر 421،مسند ابی یعلی الموصلی حدیث نمبر 1489، الابانة الكبرى لابن بطة حدیث نمبر 518)
67066789_176727586670388_7667855377551065088_n.jpg
رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے فرمایا جو شخص ایک ہزار آیات روزانہ اللہ کی رضا کے لئے لیے تلاوت کرے وہ قیامت کے دن نبیوں، صدیقوں، شہیدوں اور صالحین کے ساتھ ہوگا اور انشاء اللہ ان کی رفاقت خوب رہے گی۔
حدیث نمبر 2

عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏التَّاجِرُ الصَّدُوقُ الْأَمِينُ مَعَ النَّبِيِّينَ، ‏‏‏‏‏‏وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ
(سنن دارمی حدیث نمبر 2581،سنن ترمذی حدیث نمبر 1209،المستدرک علی الصحیحین حدیث نمبر 2143)
1.jpg
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سچا امانت دار تاجر انبیاء صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہو گا۔
یہ روایت سنن دارقطنی میں بھی موجود ہے لیکن صرف دارقطنی میں میں آخر میں "یوم القیامة" کے الفاظ کا اضافہ ہے ( سنن دارقطنی حدیث نمبر 2813)

حدیث نمبر 3

‏‏‏‏‏‏وَمَنْ أَحَبَّنِي كَانَ مَعِي فِي الْجَنَّةِ(سنن ترمذی حدیث نمبر 2678،تعظیم قدر الصلاۃ حدیث نمبر 714،المعجم الاوسط حدیث نمبر 9439،ترغیب فی فضائلِ اعمال حدیث نمبر 527)
2.jpg
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے مجھ سے محبت کی وہ میرے ساتھ جنت میں ہوگا۔
اب قادیانی یہ بتائیں کہ کیا کوئی سچا تاجر یا ایک ہزار آیات روزانہ پڑھنے والا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والا نبی بن سکتا ہے ؟؟؟ یقیناً قادیانیوں کا جواب یہی ہو گا کہ سچا تاجر اور ایک ہزار آیات روزانہ پڑھنے والا قیامت کے دن نبیوں صدیقوں شہیدوں اور صالحین کے ساتھ ہوگا۔ہم کہتے ہیں کہ جس طرح سچا تاجر اور ایک ہزار آیات روزانہ پڑھنے والا نبی نہیں بن سکتا بلکہ قیامت کے دن انبیاء صدیقین شہداء اور صالحین کے ساتھ ہوگا اسی طرح اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے والا بھی نبی یا رسول نہیں بن سکتا بلکہ قیامت کے دن انبیاء صدیقین شہداء اور صالحین کے ساتھ ہوگا۔
ان تمام احادیث میں "مع" کا لفظ ہے جو معیت کے معنی میں استعمال ہوا ہے ان کو عینیت کے معنوں میں لینا ممکن ہی نہیں ہے۔

جواب نمبر 2

قادیانی اپنے باطل استدلال کی تائید کے لئے جھوٹ کا سہارا لیتے ہوئے ایک امام لغت راغب اصفہانی کا قول پیش کرتے ہیں۔قادیانی حضرات کا کہنا ہے کہ امام راغب کے ایک قول سے ان کے بیان کردہ معنیٰ کی تائید ہوتی ہے۔وہ کہتے ہیں امام راغب نے فرمایا ہے کے نبیوں وغیرہ میں سے جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا وہ منعم علیہم کے ساتھ ہوگا۔لہذا ضروری ہوا کہ اس امت میں بھی کچھ نبی ہونے چاہیے جو رسول کی اطاعت کرنے والے ہو۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ قادیانی حضرات (پاکٹ بُک تعلیمی صفحہ 112:: پاکٹ بُک تبلیغی صفحہ 255) نے عبارت نقل کرنے میں دجل سے کام لیا ہے یہ حوالہ علامہ اندلسی کی تفسیر البحر المحیط سے لیا گیا ہے مگر انہوں نے اس قول کو نقل کر کے اپنی رائے اس طرح بیان فرمائی ہے۔

وهذا وجه الذي هو عنده ظاهر فاسدمن جهةالمعنى ومن جهته النهر ( البحر المحیط جلد 3 صفحہ 699 )

3.jpg
علامہ اندلسی فرماتے ہیں معنی اور نحو کے لحاظ سے یہ بات فاسد ہے ( علامہ اندلیسی نے جو نتیجہ نکالا ہے وہ قادیانیوں نے نقل ہی نہیں کیا)لہذا معلوم ہوا کہ یہ بالکل مردود اور ساقط الاستدلال ہے ۔
امام راغب کا قول ہمارے لئے حجت نہیں۔ امام راغب کے حالات زندگی واضح نہیں ہیں۔ کب پیدا ہوئے اور کہاں پیدا ہوئے؟ کہاں اور کس سے تعلیم حاصل کی؟ کچھ معلوم نہیں( مفردات القرآن صفحہ نمبر 7 )
اگر اس قول کو مان بھی لیا جائے تو بھی ہمارے خلاف نہیں ہے کیوں کہ تمام انبیاء کرام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی اور متبع ہیں( روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 300)
4.jpg
شب معراج میں تمام انبیاء نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور اقتداء کی اور بیت المقدس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت میں نماز ادا کی اس کے علاوہ انبیاء سابقین اور بنی اسرائیل سلسلہ کے آخری نبی سیدنا عیسی علیہ السلام آیات قرآنی اور احادیث نبوی کی رو سے قیامت سے قبل اس امت میں تشریف لائیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کی اتباع اور اطاعت کریں گا۔ لہذا انبیاء میں سے ایک فرد کامل ایسا مل گیا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور اطاعت کرے گا واضح رہے کہ مرزا قادیانی براہین احمدیہ حصہ پنجم کے صفحہ 133 پر خود تسلیم کرتا ہے کہ
یوں تو قرآن شریف سے ثابت ہے کہ ہر نبی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں داخل ہے جیسا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے لتومنن به ولتنصرنه پس اس طرح تمام انبیاء حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہوئے۔( روحانی خزائن جلد 21 صفحہ نمبر 300)
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
جواب نمبر 3

قادیانی کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں دو آیات ہیں جن میں مع من یا فی کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ ایک ایک آیت پیش کر کے جواب دیتا ہوں۔
آیت نمبر 1

اِلَّا الَّذِیۡنَ تَابُوۡا وَ اَصۡلَحُوۡا وَ اعۡتَصَمُوۡا بِاللّٰہِ وَ اَخۡلَصُوۡا دِیۡنَہُمۡ لِلّٰہِ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ؕ وَ سَوۡفَ یُؤۡتِ اللّٰہُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَجۡرًا عَظِیۡمًا (سورۃ النساء آیت 146)

مگر وہ لوگ جنہوں نے توبہ کر لی وہ سنور گئے اورانہوں نے اللہ سے مضبوط تعلق جوڑ لیا اور انہوں نے اپنا دین اللہ کے لئے خالص کر لیا تو یہ مؤمنوں کی سنگت میں ہوں گے اور عنقریب اللہ مومنوں کو عظیم اجر عطا فرمائے گا۔
قادیانی کہتے ہیں کیا یہ توبہ کرنے والے خود مومن نہیں ہیں بلکہ مومنوں کے ساتھ ہیں؟ نہیں بلکہ وہ مومن ہیں پس ثابت ہوا مع معنی من کے معنی میں آتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مومنین پر الف لام عہد کا ہے اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو شروع سے خالص مومن ہیں ان سے کبھی نفاق سرزد نہیں ہوا ان کی معیت میں وہ لوگ جنت میں ہوں گے جو پہلے منافق تھے پھر توبہ کر کے مخلص مومن بن گئے۔ تو ثابت ہوا کہ مع اپنے اصل معنی مصاحبت کے لئے آیا ہے نہ کہ بمعنی من۔
آیت نمبر 2

رَبَّنَاۤ اِنَّنَا سَمِعۡنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیۡ لِلۡاِیۡمَانِ اَنۡ اٰمِنُوۡا بِرَبِّکُمۡ فَاٰمَنَّا ٭ۖ رَبَّنَا فَاغۡفِرۡ لَنَا ذُنُوۡبَنَا وَ کَفِّرۡ عَنَّا سَیِّاٰتِنَا وَ تَوَفَّنَا مَعَ الۡاَبۡرَارِ (سورة آل عمران ۱۹۳)

اے ہمارے رب! ( ہم تجھے بھولے ہوئے تھے ) سو ہم نے ایک ندا دینے والے کو سنا جو ایمان کی ندا دے رہا تھا کہ ( لوگو! ) اپنے رب پر ایمان لاؤ تو ہم ایمان لے آئے ۔ اے ہمارے رب! اب ہمارے گناہ بخش دے اور ہماری خطاؤں کو ہمارے ( نوشتۂ اعمال ) سے محو فرما دے اور ہمیں نیک لوگوں کی سنگت میں موت دے ۔
قادیانی کہتے ہیں کہ یہاں مع من کے معنوں میں آیا ہے اگر من کے معنوں میں نہ لیا جائے تو اس کا مطلب ہوگا کہ یا اللہ ہمیں اس وقت موت دے جب نیک لوگوں کی موت ہو۔
اس کا جواب امام رازی نے پہلے سے ہی دے رکھا ہے امام صاحب فرماتے ہیں
ابرار کے ساتھ وفات کے یہ معنی ہیں کہ ان کے عمل جیسے عمل پر موت آئے تاکہ روز قیامت ان کے سے درجات میں ہوں۔ مرد عالم آج بھی بولتا ہے کہ اس مسئلہ میں امام شافعی کے ساتھ ہوں اور اس سے مطلب یہ ہوتا ہے کہ میرا اور ان کا عقیدہ ایک ہے ( نا یہ کہ میں ان کے ساتھ پیدا ہوا یا بڑھتا رہا یا فوت ہوا ) { تفسیر رازی جلد 9 صفحہ 467}
5.jpg
اس لیے جملہ محققین مفسرین نےمع کو یہاں مصاحبت کے لئے ہی تحریر کیا ہے۔
اعتراض
تعلیمی پاکٹ بُک والے نے تو یہاں تک بس کر دی لیکن نہ جانے تبلیغی پاکٹ بک والے کو کیا سوجھا لکھتا ہے۔
ایک جگہ شیطان کے متعلق آیا ہے اِلَّاۤ اِبۡلِیۡسَ ؕ اَبٰۤی اَنۡ یَّکُوۡنَ مَعَ السّٰجِدِیۡنَ (الحجر آیت 31)کے وہ سجدہ کرنے والوں کے ساتھ نہ ہوا اور دوسرے جگہ لَمۡ یَکُنۡ مِّنَ السّٰجِدِیۡنَ (الأعراف آیت 11 )آتا ہے ( تبلیغی پاکٹ بُک صفحہ نمبر 252) یعنی دیکھو دونوں جگہ لفظ ساجد آیا ہے لیکن دوسری آیت میں بجائے مع کے من ہے ثابت ہوا کہ مع بمعنی من ہوتا ہے۔
جواب

اگر یہ استدلال درست ہے تو خطرہ ہے کہ کوئی مجنون یہ بھی نہ کہہ دے کہ سورة ص میں آتا ہے۔
قَالَ یٰۤاِبۡلِیۡسُ مَا مَنَعَکَ اَنۡ تَسۡجُدَ لِمَا خَلَقۡتُ بِیَدَیَّ ؕ اَسۡتَکۡبَرۡتَ اَمۡ کُنۡتَ مِنَ الۡعَالِیۡنَ (سورة ص آیت 75)

( اﷲ نے ) ارشاد فرمایا: اے ابلیس! تجھے کس نے اس ( ہستی ) کو سجدہ کرنے سے روکا ہے جسے میں نے خود اپنے دستِ ( کرم ) سے بنایا ہے ، کیا تو نے تکبّر کیا یا تو ( بزعمِ خویش ) بلند رتبہ ( بنا ہوا ) تھا ۔
کیوں کہ اس آیت میں بجائے ساجدین کے عالین ہے پس ثابت ہوا کے ساجدین بمعنی عالین بھی ہوتا ہے ( معاذاللہ)۔
قرآن مجید عربی زبان میں ہے اس کے متکلم کا اسلوب بیان عجیب اور دل نشین ہے ایک ہی واقعہ متعدد مقامات میں بیان ہوتا ہے لیکن طریقہ بیان مختلف ہوتا ہے جس میں متکلم کی ایک خاص غرض اور حکمت پوشیدہ ہوتی ہے ابلیس مردود نے ایک جرم میں تین گناہ کیے تھے۔ (1) اس نے تکبر کیا تھا اس کا ذکر سورۃ ص کی آیت کُنۡتَ مِنَ الۡعَالِیۡنَ (ص آیت 75)میں کیا گیا ہے۔
(2) اس نے اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کی تھی اس کا ذکر اعراف کی آیت 11 میں ہوا لَمۡ یَکُنۡ مِّنَ السّٰجِدِیۡنَ ۔(3) اس نے جماعت سے مفارقت کی تھی اس کا بیان الحجر آیت 31 میں مذکور ہے اَبٰۤی اَنۡ یَّکُوۡنَ مَعَ السّٰجِدِیۡنَ ۔
پس مع ہرگز من کے معنوں میں نہیں ہے بلکہ دونوں کے فائدے الگ الگ اور دونوں جدا گانہ امر کے بیان کے لیے ہیں۔
اب میں قرآن مجید کی وہ آیات آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ "مع" "من" کے معنوں میں استعمال نہیں ہوتا۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
آیت نمبر 1

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اسۡتَعِیۡنُوۡا بِالصَّبۡرِ وَ الصَّلٰوۃِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیۡنَ ( البقرہ آیت 153)

اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعے ( مجھ سے ) مدد چاہا کرو ، یقیناً اﷲ صبر کرنے والوں کے ساتھ ( ہوتا ) ہے ۔
آیت نمبر 2

ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ فِیۡ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ ؕ یَعۡلَمُ مَا یَلِجُ فِی الۡاَرۡضِ وَ مَا یَخۡرُجُ مِنۡہَا وَ مَا یَنۡزِلُ مِنَ السَّمَآءِ وَ مَا یَعۡرُجُ فِیۡہَا ؕ وَ ہُوَ مَعَکُمۡ اَیۡنَ مَا کُنۡتُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ ( الحدید آیت نمبر 4)

وہی ہے جِس نے آسمانوں اور زمین کو چھ اَدوار میں پیدا فرمایا پھر کائنات کی مسندِ اقتدار پر جلوہ افروز ہوا ( یعنی پوری کائنات کو اپنے امر کے ساتھ منظم فرمایا ) ، وہ جانتا ہے جو کچھ زمین میں داخل ہوتا ہے اور جو کچھ اس میں سے خارج ہوتا ہے اور جو کچھ آسمانی کرّوں سے اترتا ( یا نکلتا ) ہے یا جو کچھ ان میں چڑھتا ( یا داخل ہوتا ) ہے ۔ وہ تمہارے ساتھ ہوتا ہے تم جہاں کہیں بھی ہو ، اور اللہ جو کچھ تم کرتے ہو ( اسے ) خوب دیکھنے والا ہے۔
آیت نمبر 3

اِلَّا تَنۡصُرُوۡہُ فَقَدۡ نَصَرَہُ اللّٰہُ اِذۡ اَخۡرَجَہُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ثَانِیَ اثۡنَیۡنِ اِذۡ ہُمَا فِی الۡغَارِ اِذۡ یَقُوۡلُ لِصَاحِبِہٖ لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا ۚ فَاَنۡزَلَ اللّٰہُ سَکِیۡنَتَہٗ عَلَیۡہِ وَ اَیَّدَہٗ بِجُنُوۡدٍ لَّمۡ تَرَوۡہَا وَ جَعَلَ کَلِمَۃَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوا السُّفۡلٰی ؕ وَ کَلِمَۃُ اللّٰہِ ہِیَ الۡعُلۡیَا ؕ وَ اللّٰہُ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ (التوبہ آیت 40)

اگر تم ان کی ( یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلبۂ اسلام کی جد و جہد میں ) مدد نہ کرو گے ( تو کیا ہوا ) سو بیشک اللہ نے ان کو ( اس وقت بھی ) مدد سے نوازا تھا جب کافروں نے انہیں ( وطنِ مکہ سے ) نکال دیا تھا درآنحالیکہ وہ دو ( ہجرت کرنے والوں ) میں سے دوسرے تھے جبکہ دونوں ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) غارِ ( ثور ) میں تھے جب وہ اپنے ساتھی ( ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) سے فرما رہے تھے: غمزدہ نہ ہو بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے ، پس اللہ نے ان پر اپنی تسکین نازل فرما دی اور انہیں ( فرشتوں کے ) ایسے لشکروں کے ذریعہ قوت بخشی جنہیں تم نہ دیکھ سکے اور اس نے کافروں کی بات کو پست و فروتر کر دیا ، اور اللہ کا فرمان تو ( ہمیشہ ) بلند و بالا ہی ہے ، اور اللہ غالب ، حکمت والا ہے ۔
آیت نمبر 4

وَ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ لَا تَنَازَعُوۡا فَتَفۡشَلُوۡا وَ تَذۡہَبَ رِیۡحُکُمۡ وَ اصۡبِرُوۡا ؕ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیۡنَ (الانعام آیت 46)

اور اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑا مت کرو ورنہ ( متفرق اور کمزور ہو کر ) بزدل ہو جاؤ گے اور ( دشمنوں کے سامنے ) تمہاری ہوا ( یعنی قوت ) اکھڑ جائے گی اور صبر کرو ، بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔
آیت نمبر 5

اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا وَّ الَّذِیۡنَ ہُمۡ مُّحۡسِنُوۡنَ (النحل آیت نمبر 128)

بیشک اللہ اُن لوگوں کو اپنی معیتِ ( خاص ) سے نوازتا ہے جو صاحبانِ تقوٰی ہوں اور وہ لوگ جو صاحبانِ اِحسان ( بھی ) ہوں ۔
آیت نمبر 6

اَلشَّہۡرُ الۡحَرَامُ بِالشَّہۡرِ الۡحَرَامِ وَ الۡحُرُمٰتُ قِصَاصٌ ؕ فَمَنِ اعۡتَدٰی عَلَیۡکُمۡ فَاعۡتَدُوۡا عَلَیۡہِ بِمِثۡلِ مَا اعۡتَدٰی عَلَیۡکُمۡ ۪ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ مَعَ الۡمُتَّقِیۡنَ (البقرہ آیت 194)

حرمت والے مہینے کے بدلے حرمت والا مہینہ ہے اور ( دیگر ) حرمت والی چیزیں ایک دوسرے کا بدل ہیں ، پس اگر تم پر کوئی زیادتی کرے تم بھی اس پر زیادتی کرو مگر اسی قدر جتنی اس نے تم پر کی ، اور اﷲ سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ اﷲ ڈرنے والوں کے ساتھ ہے ۔
آیت نمبر 7

مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰہِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ تَرٰىہُمۡ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبۡتَغُوۡنَ فَضۡلًا مِّنَ اللّٰہِ وَ رِضۡوَانًا ۫ سِیۡمَاہُمۡ فِیۡ وُجُوۡہِہِمۡ مِّنۡ اَثَرِ السُّجُوۡدِ ؕ ذٰلِکَ مَثَلُہُمۡ فِی التَّوۡرٰىۃِ ۚ ۖ ۛ وَ مَثَلُہُمۡ فِی الۡاِنۡجِیۡلِ ۚ ۟ ۛ کَزَرۡعٍ اَخۡرَجَ شَطۡئَہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسۡتَغۡلَظَ فَاسۡتَوٰی عَلٰی سُوۡقِہٖ یُعۡجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیۡظَ بِہِمُ الۡکُفَّارَ ؕ وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنۡہُمۡ مَّغۡفِرَۃً وَّ اَجۡرًا عَظِیۡمًا

(الفتح آیت 29 )
محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اﷲ کے رسول ہیں ، اور جو لوگ آپ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی معیت اور سنگت میں ہیں ( وہ ) کافروں پر بہت سخت اور زور آور ہیں آپس میں بہت نرم دل اور شفیق ہیں ۔ آپ انہیں کثرت سے رکوع کرتے ہوئے ، سجود کرتے ہوئے دیکھتے ہیں وہ ( صرف ) اﷲ کے فضل اور اس کی رضا کے طلب گار ہیں ۔ اُن کی نشانی اُن کے چہروں پر سجدوں کا اثر ہے ( جو بصورتِ نور نمایاں ہے ) ۔ ان کے یہ اوصاف تورات میں ( بھی مذکور ) ہیں اور ان کے ( یہی ) اوصاف انجیل میں ( بھی مرقوم ) ہیں ۔ وہ ( صحابہ ہمارے محبوبِ مکرّم کی ) کھیتی کی طرح ہیں جس نے ( سب سے پہلے ) اپنی باریک سی کونپل نکالی ، پھر اسے طاقتور اور مضبوط کیا ، پھر وہ موٹی اور دبیز ہوگئی ، پھر اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہوگئی ( اور جب سرسبز و شاداب ہو کر لہلہائی تو ) کاشتکاروں کو کیا ہی اچھی لگنے لگی ( اﷲ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنھم کو اسی طرح ایمان کے تناور درخت بنایا ہے ) تاکہ اِن کے ذریعے وہ ( محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جلنے والے ) کافروں کے دل جلائے ، اﷲ نے ان لوگوں سے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے مغفرت اور اجرِ عظیم کا وعدہ فرمایا ہے۔
اور بھی بہت سی آیات ہیں لیکن اختصار سے یہ آیت درج کی ہیں۔ان تمام آیات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مع اپنے حقیقی اور اصل معنوں میں ہی استعمال ہوتا ہے من کے معنوں میں استعمال نہیں ہوتا۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
جواب نمبر 4

قادیانی کہتے ہیں کہ اگر اس آیت میں صرف رفاقت کا ذکر ہے تو آپ اس امت میں صدیق، شہید اور اور صالحین کیوں مانتے ہیں کیونکہ آیت میں تو صرف رفاقت کا ذکر ہے۔اس کا جواب یہ کہ
اس آیت میں اس بات کا قطعاً ذکر نہیں ہے کہ کوئی شخص اطاعت کر کے نبی ، صدیق یا شہید ہوگا یا نہیں ہو گا۔بلکہ یہاں مقصد صرف اطاعت کا نتیجہ بیان کرنا ہے کہ جو اطاعت کرے گا اس کو ان حضرات کے ساتھ رفاقت فی المکان حاصل ہوگی۔امت میں تین درجے جو ہم مانتے ہیں وہ اس آیت سے نہیں مانتے کیونکہ اس آیت میں درجات ملنے کا ذکر ہی نہیں وہ دوسری آیات سے مانتے ہیں جن میں درجات ملنے کا ذکر ہے اور جن آیات میں دنیا میں درجات ملنے کا ذکر ہے وہاں نبوت کا درجہ ملنے کا کوئی ذکر موجود نہیں۔اب آپ کی خدمت میں وہ آیات پیش کرتا ہوں جن سے امت میں ہم یہ تین درجے مانتے ہیں۔

وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖۤ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصِّدِّیۡقُوۡنَ ٭ۖ وَ الشُّہَدَآءُ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ؕ لَہُمۡ اَجۡرُہُمۡ وَ نُوۡرُہُمۡ ؕ وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَاۤ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ الۡجَحِیۡمِ ( الحدید آیت 19)

اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے وہی لوگ اپنے رب کے نزدیک صدیق اور شہید ہیں ، اُن کے لئے اُن کا اجر ( بھی ) ہے اور ان کا نور ( بھی ) ہے ، اور جنہوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا وہی لوگ دوزخی ہیں ۔
وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُدۡخِلَنَّہُمۡ فِی الصّٰلِحِیۡنَ (العنکبوت آیت 9 )

اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے تو ہم انہیں ضرور نیکو کاروں ( کے گروہ ) میں داخل فرما دیں گے ۔
ان آیات میں دنیا میں درجات ملنے کا ذکر ہے اور ان میں نبوت کا درجہ دنیا میں ملنے کا ذکر نہیں ہے۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
پندرہویں آیت میں قادیانی تحریف کا جواب

آیت
ہُوَ الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الۡاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ٭ وَ اِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ۙ﴿الجمعة آیت۲﴾وَّ اٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ ؕ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ﴿الجمعة آیت۳﴾

وہی ہے جس نے امی لوگوں میں انہی میں سے ایک رسول کو بھیجا جو ان کے سامنے اس کی آیتوں کی تلاوت کریں ، اور ان کو پاکیزہ بنائیں ، اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیں ، جبکہ وہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے ، اور ( یہ رسول جن کی طرف بھیجے گئے ہیں ) ان میں کچھ اور بھی ہیں جو ابھی ان کے ساتھ آکر نہیں ملے ۔ اور وہ بڑے اقتدار والا ، بڑی حکمت والا ہے ۔
قادیانی استدلال

قادیانی کہتے ہیں کہ ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو بعثتیں مقرر تھی (پاکٹ بک خادم گجراتی صفحہ 361)یعنی ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرب میں پیدا ہوئے اور ایک دفعہ اور رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے آنا تھا اور وہ مرزا قادیانی کی شکل میں آئے (معاذاللہ) مرزا قادیانی کے بیٹے مرزا بشیر نے اپنی کتاب کلمہ الفصل میں لکھا ہے کہقادیان میں اللہ نے پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اتارا تا اپنا وعدہ پورا کرے (کلمۃالفصل صفحہ 105)
6.jpg

جواب نمبر 1

پہلی بات تو یہ ہے کہ جو شخص یہ عقیدہ رکھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم قادیان میں دوبارہ پیدا ہوئے مرزا قادیانی کی شکل میں تو وہ شخص بغیر کسی شک کے گستاخ رسول ہے۔یہ عقیدہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم کی شان میں گستاخی ہے۔دوسری بات آیت کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ دنیا میں پیدا ہوں گے۔اس آیت کا مطلب مرزا قادیانی نے خود اپنی کتاب میں لکھا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ
خدا وہ ہے جس نے امیوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان پر اس کی آیات پڑتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھلاتا ہے اگرچہ پہلے وہ صریح گمراہ تھے اور ایسا ہی وہ رسول جوان کی تربیت کر رہا ہے ایک دوسرے کی بھی تربیت کرے گا جو انہی میں سے ہوں جاویں گے۔گویا تمام آیت معہ اپنے الفاظ مقدرہ کے یوں ہے ہُوَ الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الۡاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ٭ وَ اِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ۙ یعنی ہمارے خالص اور کامل بندے بجز صحابہ کرام کے اور بھی ہیں جن کا گروہ کثیر آخری زمانہ میں پیدا ہوگا اور جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کی تربیت فرمائی اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس گروہ کی بھی باطنی طور پر تربیت فرمائیں گے ۔
(آئینہ کمالات اسلام : روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 208, 209)
7م.jpg
مرزا قادیانی کی تحریر سے واضح ہے کہ اس آیت کا مطلب اس کے نزدیک یہ ہے کہ ایک گروہ آخری زمانہ میں پیدا ہوگا جس کی تربیت باطنی طور پر رسول اللہ صلی اللہ وسلم فرمائیں گے نا یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ دنیا میں پیدا ہوں گے ۔ویسے بھی مرزا قادیانی نے لکھا ہے کہ فوت شدہ نبی دوبارہ دنیا میں نہیں آسکتا۔
(1)ہر یک مسلمان کو یہ ماننا پڑے گا کے فوت شدہ نبی ہرگز دنیا میں دوبارہ نہیں آسکتا (ازالہ اوہام :روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 459)
8.jpg
(2)حضرت عیسی علیہ السلام تو کسی طرح دوبارہ نہیں آ سکتے کیونکہ وہ وفات پا گئے (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم : روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 406)
9.jpg
مرزا قادیانی کی ان دونوں تحریروں کے واضح ہوتا ہے کہ مرزا قادیانی کے نزدیک فوت شدہ نبی دوبارہ نہیں آسکتا تو قادیانیوں کا اس آیت کا یہ معنی کرنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے مرزا قادیانی کی تحریروں سے غلط ثابت ہوتا ہے۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
جواب نمبر 2

اس آیت کا اصل مطلب اور تفسیر یہ ہے کہ
وَآخَرِينَ مِنْهُمْ عطف على الْأُمِّيِّينَ، أو المنصوب في يُعَلِّمُهُمُ وهم الذين جاءوا بعد الصحابة إلى يوم الدين، فإن دعوته وتعليمه يعم الجميع (بیضاوی ج 5ص211﴾

111.jpeg
آخرین کا عطف امیین یا یعلمھم کی ضمیر پر ہے اور اس لفظ کا زیادہ کرنے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت عامہ کا ذکر کیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و دعوت صحابہ کرام اور ان کے بعد قیامت کی صبح تک کے لیے ہے۔
یعنی آیت کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث تو عرب کے لوگوں میں ہوئے لیکن نبی اور رسول اور برحق اور ہادی قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لیے ہیں جیسے قرآن شریف نے بھی بیان فرمایا قُلۡ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنِّیۡ رَسُوۡلُ اللّٰہِ اِلَیۡکُمۡ جَمِیۡعَۨا ۔ ( اے رسول ! ان سے ) کہو کہ : " اے لوگو ! میں تم سب کی طرف اس اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں۔
خلاصہ

ساری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ
آیت کا مطلب ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس دور میں اور جس علاقہ میں مبعوث ہوئے حضور علیہ الصلاۃ والسلام کی نبوت صرف اس دور یا اس علاقہ تک محدود نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیامت تک پیدا ہونے والے ہر فرد کے نبی ہیں۔
 
Top