محمد اسامہ حفیظ
رکن ختم نبوت فورم
91۔’’میں اس بات کا بھی اقراری ہوں کہ جب کہ بعض پادریوں اور عیسائی مشنریوں کی تحریر نہایت سخت ہوگئی اور حد اعتدال سے بڑھ گئی اور بالخصوص پرچہ ’’نور افشاں‘‘ میں، جو ایک عیسائی اخبار لدھیانہ سے نکلتا ہے۔ نہایت گندی تحریریں شائع ہوئیں اور ان مؤلفین نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت نعوذ باﷲ ایسے الفاظ استعمال کئے کہ یہ شخص ڈاکو تھا، چور تھا اور بایں ہمہ جھوٹا تھا اور لوٹ مار اور خون کرنا اس کا کام تھا تو مجھے ایسی کتابوں اور اخباروں کے پڑھنے سے یہ اندیشہ دل میں پیدا ہوا کہ مبادا مسلمانوں کے دلوں پر جو ایک جوش رکھنے والی قوم ہے۔ ان کلمات کا کوئی سخت اشتعال دینے والا اثر پیدا ہو، تب میں نے ان کے جوشوں کو ٹھنڈا کرنے کے لئے اپنی صحیح اور پاک نیت سے یہی مناسب سمجھا کہ اس عام جوش کے دبانے کے لئے حکمت عملی یہی ہے کہ ان تحریرات کا کسی قدر سختی سے جواب دیا جائے تاکہ سریع الغضب انسانوں کے جوش فرو ہو جائیں اور ملک میں کوئی بے امنی پیدا نہ ہو۔ (حاشیہ ان مباحثات کی کتابوں سے ایک یہ بھی مطلب تھا کہ برٹش انڈیا اور دوسرے ملکوں پر بھی اس بات کو واضح کیا جائے کہ ہماری گورنمنٹ نے ہر ایک قوم کو مباحثات کے لئے آزادی دے رکھی ہے۔ کوئی خصوصیت پادریوں کی نہیں) تب میں نے بالمقابل ایسی کتابوں کے، جن میں کمال سختی سے، بدزبانی کی گئی تھی۔ چند ایسی کتابیں لکھیں، جن میں کسی قدر بالمقابل سختی تھی۔ کیونکہ میرے کانشس (ضمیر ناقل) نے قطعی طور پر مجھے فتویٰ دیا کہ اسلام میں جو بہت سے وحشیانہ جوش والے آدمی موجود ہیں، ان کے غیظ وغضب کی آگ بجھانے کے لئے یہ طریق کافی ہوگا۔ کیونکہ عوض معاوضہ کے بعد کوئی گلہ باقی نہیں رہتا۔ سو مجھ سے پادریوں کے مقابل پر جو کچھ وقوع میں آیا، یہی ہے کہ حکمت عملی سے بعض وحشی مسلمانوں کو خوش کیاگیا۔‘‘(حضور گورنمنٹ عالیہ میں ایک عاجزانہ درخواست مندرجہ تریاق القلوب ص۳۰۸،۳۰۹، خزائن ج۱۵ ص۴۹۰،۴۹۱)
92۔’’اور بہتوں نے اپنی بدذاتی اور مادری بدگوئی سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بہتان لگائے۔ یہاں تک کہ کمال خباثت اور اس پلیدی سے جوان کے اصل میں تھی، اس سید المعصومین پر سراسر دروغ گوئی کی راہ سے زنا کی تہمت لگائی۔ اگر غیرمند مسلمانوں کو اپنی محسن گورنمنٹ کا پاس نہ ہوتا تو ایسے شریروں کو جن کے افتراء میں یہاں تک نوبت پہنچی، وہ جواب دیتے جو ان کی بداصلی کے مناسب حال ہوتا۔ مگر شریف انسانوں کو گورنمنٹ کی پاسداریاں ہروقت روکتی رہتی ہیں۔ وہ طمانچہ جو ایک گال کے بعد دوسری گال پر عیسائیوں کو کھانا چاہئے تھا۔ ہم لوگ گورنمنٹ کی اطلاع میں محو ہو کر پادریوں اور ان کے ہاتھ کے اکسائے ہوئے آریوں سے کھا رہے ہیں۔ یہ سب بردباریاں ہم اپنے محسن گورنمنٹ کے لحاط سے کرتے ہیں اور کریں گے۔‘‘(آریہ دھرم ص۵۸،۵۹، خزائن ج۱۰ ص۸۰،۸۱)
93۔’’میں اس بات کا بھی اقراری ہوں کہ جب کہ بعض پادریوں اور عیسائی مشنریوں کی تحریر نہایت سخت ہوگئی اور حد اعتدال سے بڑھ گئی اور بالخصوص پرچہ ’’نور افشاں‘‘ میں، جو ایک عیسائی اخبار لدھیانہ سے نکلتا ہے۔ نہایت گندی تحریریں شائع ہوئیں اور ان مؤلفین نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت نعوذ باﷲ ایسے الفاظ استعمال کئے کہ یہ شخص ڈاکو تھا، چور تھا اور بایں ہمہ جھوٹا تھا اور لوٹ مار اور خون کرنا اس کا کام تھا تو مجھے ایسی کتابوں اور اخباروں کے پڑھنے سے یہ اندیشہ دل میں پیدا ہوا کہ مبادا مسلمانوں کے دلوں پر جو ایک جوش رکھنے والی قوم ہے۔ ان کلمات کا کوئی سخت اشتعال دینے والا اثر پیدا ہو، تب میں نے ان کے جوشوں کو ٹھنڈا کرنے کے لئے اپنی صحیح اور پاک نیت سے یہی مناسب سمجھا کہ اس عام جوش کے دبانے کے لئے حکمت عملی یہی ہے کہ ان تحریرات کا کسی قدر سختی سے جواب دیا جائے تاکہ سریع الغضب انسانوں کے جوش فرو ہو جائیں اور ملک میں کوئی بے امنی پیدا نہ ہو۔ (حاشیہ ان مباحثات کی کتابوں سے ایک یہ بھی مطلب تھا کہ برٹش انڈیا اور دوسرے ملکوں پر بھی اس بات کو واضح کیا جائے کہ ہماری گورنمنٹ نے ہر ایک قوم کو مباحثات کے لئے آزادی دے رکھی ہے۔ کوئی خصوصیت پادریوں کی نہیں) تب میں نے بالمقابل ایسی کتابوں کے، جن میں کمال سختی سے، بدزبانی کی گئی تھی۔ چند ایسی کتابیں لکھیں، جن میں کسی قدر بالمقابل سختی تھی۔ کیونکہ میرے کانشس (ضمیر ناقل) نے قطعی طور پر مجھے فتویٰ دیا کہ اسلام میں جو بہت سے وحشیانہ جوش والے آدمی موجود ہیں، ان کے غیظ وغضب کی آگ بجھانے کے لئے یہ طریق کافی ہوگا۔ کیونکہ عوض معاوضہ کے بعد کوئی گلہ باقی نہیں رہتا۔ سو مجھ سے پادریوں کے مقابل پر جو کچھ وقوع میں آیا، یہی ہے کہ حکمت عملی سے بعض وحشی مسلمانوں کو خوش کیاگیا۔‘‘(حضور گورنمنٹ عالیہ میں ایک عاجزانہ درخواست مندرجہ تریاق القلوب ص۳۰۸،۳۰۹، خزائن ج۱۵ ص۴۸۹,۴۹۰,۴۹۱)
92۔’’اور بہتوں نے اپنی بدذاتی اور مادری بدگوئی سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بہتان لگائے۔ یہاں تک کہ کمال خباثت اور اس پلیدی سے جوان کے اصل میں تھی، اس سید المعصومین پر سراسر دروغ گوئی کی راہ سے زنا کی تہمت لگائی۔ اگر غیرمند مسلمانوں کو اپنی محسن گورنمنٹ کا پاس نہ ہوتا تو ایسے شریروں کو جن کے افتراء میں یہاں تک نوبت پہنچی، وہ جواب دیتے جو ان کی بداصلی کے مناسب حال ہوتا۔ مگر شریف انسانوں کو گورنمنٹ کی پاسداریاں ہروقت روکتی رہتی ہیں۔ وہ طمانچہ جو ایک گال کے بعد دوسری گال پر عیسائیوں کو کھانا چاہئے تھا۔ ہم لوگ گورنمنٹ کی اطلاع میں محو ہو کر پادریوں اور ان کے ہاتھ کے اکسائے ہوئے آریوں سے کھا رہے ہیں۔ یہ سب بردباریاں ہم اپنے محسن گورنمنٹ کے لحاط سے کرتے ہیں اور کریں گے۔‘‘(آریہ دھرم ص۵۸،۵۹، خزائن ج۱۰ ص۸۰،۸۱)
93۔’’میں اس بات کا بھی اقراری ہوں کہ جب کہ بعض پادریوں اور عیسائی مشنریوں کی تحریر نہایت سخت ہوگئی اور حد اعتدال سے بڑھ گئی اور بالخصوص پرچہ ’’نور افشاں‘‘ میں، جو ایک عیسائی اخبار لدھیانہ سے نکلتا ہے۔ نہایت گندی تحریریں شائع ہوئیں اور ان مؤلفین نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت نعوذ باﷲ ایسے الفاظ استعمال کئے کہ یہ شخص ڈاکو تھا، چور تھا اور بایں ہمہ جھوٹا تھا اور لوٹ مار اور خون کرنا اس کا کام تھا تو مجھے ایسی کتابوں اور اخباروں کے پڑھنے سے یہ اندیشہ دل میں پیدا ہوا کہ مبادا مسلمانوں کے دلوں پر جو ایک جوش رکھنے والی قوم ہے۔ ان کلمات کا کوئی سخت اشتعال دینے والا اثر پیدا ہو، تب میں نے ان کے جوشوں کو ٹھنڈا کرنے کے لئے اپنی صحیح اور پاک نیت سے یہی مناسب سمجھا کہ اس عام جوش کے دبانے کے لئے حکمت عملی یہی ہے کہ ان تحریرات کا کسی قدر سختی سے جواب دیا جائے تاکہ سریع الغضب انسانوں کے جوش فرو ہو جائیں اور ملک میں کوئی بے امنی پیدا نہ ہو۔ (حاشیہ ان مباحثات کی کتابوں سے ایک یہ بھی مطلب تھا کہ برٹش انڈیا اور دوسرے ملکوں پر بھی اس بات کو واضح کیا جائے کہ ہماری گورنمنٹ نے ہر ایک قوم کو مباحثات کے لئے آزادی دے رکھی ہے۔ کوئی خصوصیت پادریوں کی نہیں) تب میں نے بالمقابل ایسی کتابوں کے، جن میں کمال سختی سے، بدزبانی کی گئی تھی۔ چند ایسی کتابیں لکھیں، جن میں کسی قدر بالمقابل سختی تھی۔ کیونکہ میرے کانشس (ضمیر ناقل) نے قطعی طور پر مجھے فتویٰ دیا کہ اسلام میں جو بہت سے وحشیانہ جوش والے آدمی موجود ہیں، ان کے غیظ وغضب کی آگ بجھانے کے لئے یہ طریق کافی ہوگا۔ کیونکہ عوض معاوضہ کے بعد کوئی گلہ باقی نہیں رہتا۔ سو مجھ سے پادریوں کے مقابل پر جو کچھ وقوع میں آیا، یہی ہے کہ حکمت عملی سے بعض وحشی مسلمانوں کو خوش کیاگیا۔‘‘(حضور گورنمنٹ عالیہ میں ایک عاجزانہ درخواست مندرجہ تریاق القلوب ص۳۰۸،۳۰۹، خزائن ج۱۵ ص۴۸۹,۴۹۰,۴۹۱)