محمد اسامہ حفیظ
رکن ختم نبوت فورم
{ 841} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خوا جہ عبدالرحمن صاحب متوطن کشمیر نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام گھر میں جب رفع حاجت کے لئے پاخانہ میں جاتے تھے تو پانی کا لوٹا لازماً ساتھ لے جاتے تھے اور اندر طہارت کرنے کے علاوہ پاخانہ سے باہر آ کر بھی ہاتھ صاف کرتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کا طریق تھا کہ طہارت سے فارغ ہو کر ایک دفعہ سادہ پانی سے ہاتھ دھوتے تھے اور پھر مٹی مَل کر دوبارہ صاف کرتے تھے۔
{ 842} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ ایک شخص پچھتر سنگھ ریاست جموں کے تھے۔ وہ قادیان آ کر مسلمان ہو گئے۔ نام ان کا شیخ عبدالعزیز رکھا گیا۔ ان کو لوگ اکثر کہتے تھے کہ ختنہ کرالو۔ وہ بیچارے چونکہ بڑی عمر کے ہو گئے تھے اس لئے ہچکچاتے تھے اور تکلیف سے بھی ڈرتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ذکر کیا گیا کہ آیا ختنہ ضروری ہے۔ فرمایا بڑی عمر کے آدمی کے لئے سترِ عورت فرض ہے مگر ختنہ صرف سنت ہے۔ اس لئے ان کے لئے ضروری نہیں کہ ختنہ کروائیں۔
{ 843} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت صاحب کے خادم میاں حامد علی مرحوم کی روایت ہے کہ ایک سفر میں حضرت صاحب کو احتلام ہوا۔ جب مَیں نے یہ روایت سُنی تو بہت تعجب ہوا۔ کیونکہ میرا خیال تھا کہ انبیاء کو احتلام نہیں ہوتا۔ پھر بعد فکر کرنے کے اور طبّی طور پر اس مسئلہ پر غور کرنے کے مَیں اس نتیجہ پر پہنچا کہ احتلام تین قسم کا ہوتا ہے ایک فطرتی۔ دوسرا شیطانی خواہشات اور خیالات کا نتیجہ اور تیسرا مرض کی وجہ سے۔ انبیاء کو فطرتی اور بیماری والا احتلام ہو سکتا ہے۔ مگر شیطانی نہیں ہوتا۔ لوگوں نے سب قسم کے احتلام کو شیطانی سمجھ رکھا ہے جو غلط ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ میر صاحب مکرم کا یہ خیال درست ہے کہ انبیاء کو بھی بعض اقسام کا احتلام ہو سکتا ہے اور میرا ہمیشہ سے یہی خیال رہا ہے۔ چنانچہ مجھے یاد ہے کہ جب میں نے بچپن میں اس حدیث کو پڑھا تھا کہ انبیاء کو احتلام نہیں ہوتا۔ تو اس وقت بھی میں نے دل میں یہی کہا تھا کہ اس سے شیطانی نظارہ والا احتلام مراد ہے نہ کہ ہر قسم کا احتلام۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ میر صاحب نے جوفطرتی احتلام اور بیماری کے احتلام کی اصطلاح لکھی ہے یہ غالباً ایک ہی قسم ہے۔ جس میں صرف درجہ کا فرق ہے یعنی اصل اقسام دو ہی ہیں۔ ایک فطرتی احتلام جو کسی بھی طبعی تقاضے کا نتیجہ ہوتا ہے اور دوسرے شیطانی احتلام جو گندے خیالات کا نتیجہ ہوتا ہے۔ واللہ اعلم۔
{ 844} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پیشاب کرکے ہمیشہ پانی سے طہارت فرمایا کرتے تھے۔ مَیں نے کبھی ڈھیلہ کرتے نہیں دیکھا۔
{ 845} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام اندھیرے میں نہیں سویا کرتے تھے۔ بلکہ ہمیشہ رات کو اپنے کمرہ میں لالٹین روشن رکھا کرتے تھے اور تصنیف کے وقت تو دس پندرہ موم بتیاں اکٹھی جلا لیا کرتے تھے۔
{ 846} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ میرے گھر سے یعنی والدہ عزیز مظفر احمد نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کتاب ’’قادیان کے آریہ اور ہم‘‘ کی نظم لکھ رہے تھے۔ جس کے آخر میں دُعا یہی ہے۔ وفا یہی ہے۔ وغیرہ آتا ہے۔ تو مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کی بڑی بیوی مولویانی مرحومہ کسی کام کی غرض سے حضرت صاحب کے پاس آئیں۔ حضرت صاحب نے ان سے فرمایا کہ مَیں ایک نظم لکھ رہا ہوں۔ جس میں یہ یہ قافیہ ہے آپ بھی کوئی قافیہ بتائیں۔ مولویانی مرحومہ نے کہا۔ ہمیں کسی نے پڑھایا ہی نہیں۔ تو مَیں بتائوں کیا۔ حضرت صاحب نے ہنس کر فرمایا کہ آپ نے بتا تو دیا ہے اور پھر بھی آپ شکایت کرتی ہیں کہ کسی نے پڑھایا نہیں۔ مطلب حضرت صاحب کا یہ تھا کہ ’’پڑھایا نہیں‘‘ کے الفاظ میں جو ’’پڑھا‘‘ کا لفظ ہے۔ اسی میں قافیہ آ گیا ہے۔ چنانچہ آپ نے اسی وقت ایک شعر میں اس قافیہ کو استعمال کر لیا۔
{ 847} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میرے گھر سے یعنی والدہ عزیز مظفر احمد نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام عموماً گرم پانی سے طہارت فرمایا کرتے تھے اور ٹھنڈے پانی کو استعمال نہ کرتے تھے۔ ایک دن آپ نے کسی خادمہ سے فرمایا۔ کہ آپ کے لئے پاخانہ میں لوٹا رکھدے۔ اس نے غلطی سے تیز گرم پانی کا لوٹا رکھدیا۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام فارغ ہو کر باہر تشریف لائے۔ تو دریافت فرمایا کہ لوٹا کس نے رکھا تھا۔ جب بتایا گیا کہ فلاں خادمہ نے رکھا تھا۔ تو آپ نے اُسے بلوایا۔ اور اُسے اپنا ہاتھ آگے کرنے کو کہا۔ اور پھر اس کے ہاتھ پر آپ نے اس لوٹے کا بچا ہوا پانی بہا دیا تاکہ اُسے احساس ہو کہ یہ پانی اتنا گرم ہے کہ طہارت میں استعمال نہیں ہو سکتا۔ اس کے سوا آپ نے اُسے کچھ نہیں کہا۔
{ 848} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میرے گھر سے یعنی والدہ عزیز مظفر احمد نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ہم گھر کی چند لڑکیاں تربوز کھا رہی تھیں۔ اس کا ایک چھلکا مائی تابی کو جا لگا۔ جس پر مائی تابی بہت ناراض ہوئی۔ اور ناراضگی میں بد دُعائیں دینی شروع کر دیں۔ اور پھر خود ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس جا کر شکایت بھی کردی۔ اس پر حضرت صاحب نے ہمیں بلایا اور پوچھا کہ کیا بات ہوئی ہے۔ ہم نے سارا واقعہ سُنا دیا۔ جس پر آپ مائی تابی پر ناراض ہوئے کہ تم نے میری اولاد کے متعلق بد دعا کی ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مائی تابی قادیان کے قریب کی ایک بوڑھی عورت تھی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر میں رہتی تھی اور اچھا اخلاص رکھتی تھی۔ مگر ناراضگی میں عادتاً بد دعائیں دینے لگتی تھی۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ میرے گھر سے خان بہادر مولوی غلام حسن صاحب پشاوری کی لڑکی ہیں جو حضرت مسیح موعودؑ کے پرانے صحابی ہیں۔ مگر افسوس ہے کہ مولوی صاحب موصوف کو خلافتِ ثانیہ کے موقعہ پر ٹھوکر لگی اور وہ غیر مبایعین کے گروہ میں شامل ہو گئے لیکن الحمدللہ کہ میرے گھر سے بدستور جماعت میں شامل ہیں اور وابستگانِ خلافت میں سے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے والد ماجد کو بھی ہدایت نصیب فرمائے۔ آمین ۱ ؎
{ 849} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مائی امیر بی بی عرف مائی کاکو ہمشیرہ میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیشتر طور پر عورتوں کو یہ نصیحت فرمایا کرتے تھے کہ نماز باقاعدہ پڑھیں۔ قرآن شریف کا ترجمہ سیکھیں اور خاوندوں کے حقوق ادا کریں۔ جب کبھی کوئی عورت بیعت کرتی تو آپ عموماً یہ پوچھا کرتے تھے کہ تم قرآن شریف پڑھی ہوئی ہو یا نہیں۔ اگر وہ نہ پڑھی ہوئی ہوتی تو نصیحت فرماتے کہ قرآن شریف پڑھنا سیکھو۔ اور اگر صرف ناظرہ پڑھی ہوتی۔ تو فرماتے کہ ترجمہ بھی سیکھو۔ تاکہ قرآن شریف کے احکام سے اطلاع ہو اور ان پر عمل کرنے کی توفیق ملے۔
{ 850} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مائی کاکو نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میرے سامنے میاں عبدالعزیز صاحب پٹواری سیکھواں کی بیوی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے کچھ تازہ جلیبیاں لائی۔ حضرت صاحب نے ان میں سے ایک جلیبی اٹھا کر منہ میں ڈالی۔ اس وقت ایک راولپنڈی کی عورت پاس بیٹھی تھی۔ اس نے گھبرا کر حضرت صاحب سے کہا۔ حضرت یہ تو ہندو کی بنی ہوئی ہیں۔ حضرت صاحب نے کہا۔ تو پھر کیا ہے۔ ہم جو سبزی کھاتے ہیں۔ وہ گوبر اور پاخانہ کی کھاد سے تیار ہوتی ہے۔ اور اسی طرح بعض اور مثالیں دے کر اُسے سمجھایا۔
{ 851} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مائی کاکو نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میرے بھائی خیر دین کی بیوی نے مجھ سے کہا کہ شام کا وقت گھر میں بڑے کام کا وقت ہوتا ہے اور مغرب کی نماز عموماً قضا ہو جاتی ہے۔ تم حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دریافت کرو کہ ہم کیا کیا کریں۔ مَیں نے حضرت صاحب سے دریافت کیا کہ گھر میں کھانے وغیرہ کے انتظام میں مغرب کی نماز قضا ہو جاتی ہے۔ اس کے متعلق کیا حکم ہے۔ حضرت صاحب نے فرمایا۔ مَیں اس کی اجازت نہیں دے سکتا۔ اور فرمایا کہ صبح اور شام کا وقت خاص طور پر برکات کے نزول کا وقت ہوتا ہے۔ اوراس وقت فرشتوں کا پہرہ بدلتا ہے۔ ایسے وقت کی برکات سے اپنے آپ کو محروم نہیں کرنا چاہئے۔ ہاں کبھی مجبوری ہو تو عشاء کی نماز سے ملا کر مغرب کی نماز جمع کی جاسکتی ہے۔ مائی کاکو نے بیان کیا کہ اس وقت سے ہمارے گھر میں کسی نے مغرب کی نماز قضا نہیں کی اور ہمارے گھروں میں یہ طریق عام طور پر رائج ہو گیا ہے کہ شام کا کھانا مغرب سے پہلے ہی کھا لیتے ہیں تاکہ مغرب کی نماز کو صحیح وقت پر ادا کرسکیں۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مائی کاکو نے جو قضا کا لفظ استعمال کیا ہے یہ عرف عام میں غلط طور پر استعمال ہونے لگا ہے۔ ورنہ اس کے اصلی معنے پُورا کرنے اور ادا کرنے کے ہیں نہ کہ کھونے اور ضائع کرنے کے۔ مجھے اس کا اس لئے خیال آیا کہ مجھے یاد ہے کہ حضرت صاحب نے بھی ایک جگہ اس لفظ کے غلط استعمال کے متعلق ذکر کیا ہے۔
{ 852} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مائی کاکو نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ جب حضرت صاحب نے جماعت میں بکروں کی قربانی کا حکم دیا تھا۔ تو ہم نے بھی اس ارشاد کی تعمیل میں بکرے قربان (صدقہ) کروائے تھے۔ اس کے کچھ عرصہ بعد مَیں نے خواب دیکھا۔ کہ ایک بڑا بھاری جلوس آ رہا ہے اور اس جلوس کے آگے کوئی شخص رتھ میں سوار ہو کر چلا آ رہا ہے۔ جس کے ارد گرد پردے پڑے ہوئے ہیں او رلوگوں میں شور ہے کہ محمد ﷺ آ گئے۔ محمد ﷺ آ گئے۔ میں نے آگے بڑھکر رتھ کا پردہ اُٹھایا تو اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف رکھتے تھے۔ آپ نے مجھے دیکھ کر فرمایا۔ کیا تم نے صدقہ نہیں کیا؟ مَیں نے کہا۔ حضور ہم نے تو صدقہ کروا دیا ہے۔ آپ نے فرمایا اور کروا دو۔ چنانچہ مَیں نے اور صدقہ کروا دیا۔ اس زمانہ میں دو روپیہ میں بکرا مل جاتا تھا۔ اور ہم نے پانچ پیسے میں سیر گوشت خریدا ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ غالباً اس زمانہ کی بات ہے جب حضرت صاحب ۱۹۰۵ء والے زلزلہ کے بعد باغ میں جا کر ٹھہرے تھے۔
{ 853} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک شخص بمبئی کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام کی زیارت کو آیا۔ اس کی داڑھی اور مونچھیں سب سفید تھیں۔ حضور نے ملاقات کے بعد ان سے پوچھا۔ آپ کی کیا عمر ہو گی۔ وہ شخص کہنے لگا کہ حضرت میں نے تو اپنا کوئی بال سیاہ دیکھا ہی نہیں نکلتے ہی سفید ہیں۔ یاد نہیں کہ اس نے اپنی عمر کتنی بتائی۔ اس کی بات سے حضرت صاحب نے تعجب کیا۔ اور پھر گھر میں جا کر بھی بیان کیا کہ آج ایک ایسا شخص ملنے آیا تھا۔
{ 854} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم نے دوسری شادی کی تو کسی وجہ سے جلدی ہی اس بیوی کو طلاق دیدی۔ پھر بہت مدت شاید سال کے قریب گزر گیا۔ تو حضرت صاحب نے چاہا کہ وہ اس بی بی کو پھر آباد کریں۔ چنانچہ مسئلہ کی تفتیش ہوئی اور معلوم ہوا کہ طلاق بائن نہیں ہے بلکہ رجعی ہے۔ اس لئے آپ کی منشاء سے ان کا دوبارہ نکاح ہو گیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ پہلی بیوی سے حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کے اولاد نہیں ہوتی تھی اور حضرت صاحب کو آرزو تھی کہ ان کے اولاد ہو جائے۔ اسی لئے آپ نے تحریک کرکے شادی کروائی تھی۔
{ 855} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ ہر الٰہی سلسلہ کا پہلا اور آخری نبی قتل سے محفوظ رکھا جاتا ہے۔ مگر درمیانی نبی اگر ان کے ساتھ مخصوص طور پر حفاظت کا وعدہ نہ ہو اور وہ اپنی بعثت کی غرض کو پورا کر چکے ہوں تو وہ قتل ہو سکتے ہیں چنانچہ فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل سے محفوظ رکھا۔ اور محمدی سلسلے میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو قتل سے محفوظ رکھا۔ اور میرے ساتھ بھی اس کا حفاظت کا وعدہ ہے۔ مگر فرماتے تھے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام دشمنوں کے ہاتھ سے قتل ہوئے تھے۔
{ 856} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام فرمایا کرتے تھے کہ جس طرح حضرت مسیح ناصری سے پہلے حضرت یحییٰ علیہ السلام بطور ارہاص کے مبعوث کئے گئے تھے اسی طرح مجھ سے پہلے سیّد احمد صاحب بریلوی بطور ارہاص کے مبعوث کئے گئے کیونکہ وہ تیرہویں صدی کے مجدّد تھے اور حضرت صاحب فرماتے تھے کہ یہ ایک عجیب مشابہت ہے کہ جس طرح حضرت یحییٰ علیہ السلام قتل ہوئے اسی طرح سید احمد صاحب بریلوی بھی قتل ہوئے۔ اور اس طرح خدا نے دونوں سلسلوں کے مسیحوں میں ایک مزید مشابہت پیدا کردی۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ قرآن شریف سے یہ پتہ لگتا ہے کہ ہر چیز اپنے آگے اور پیچھے دونوں طرف کسی نہ کسی رنگ میں اثر پیدا کرتی ہے اور نبوت کا یہ اثر ہے کہ اس سے پہلے ارہاص کا سلسلہ ہوتا ہے اور بعد میں خلافت کا۔ گویا نبوت کا وجود اپنے کمال میں تین درجوں میں ظاہر ہوتا ہے۔ پہلا درجہ ارہاص کا ہے جسے گویا کہ یوں سمجھنا چاہئے کہ جیسے سورج کے نکلنے سے پہلے شفق میں روشنی پیدا ہوتی ہے۔ دوسرا درجہ نبوت کا ہے جو اصل نور اور ضیاء کا مقام ہے۔ اور اس کے بعد تیسرا درجہ خلافت کا ہے جو نبی کے گذر جانے کے بعد ظاہر ہوتا ہے۔
ارہاص کے اظہار کی صورت مختلف رنگوں میں ہو سکتی ہے یعنی بعض اوقات تو کسی بڑے نبی سے پہلے کسی چھوٹے نبی یا ولی یا مجدّد کو نبی کے لئے راستہ صاف کرنے کے واسطے بھیجا جاتا ہے جیسا کہ حضرت مسیح ناصری اور حضرت مسیح موعود ؑ کے وقت میں ہوا۔ اور بعض اوقات کوئی خاص فرد مبعوث نہیں ہوتا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ ایسی رَو چلا دیتا ہے جس سے بعض سعید فطرتیں متاثر ہوکر نورِ نبوت کی تیاری میں لگ جاتی ہیں۔ جیسا کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہوا۔ یعنی آپؐ کی بعثت سے پہلے عرب میں چند افراد ایسے پیدا ہو گئے۔ جو شرک سے متنفّر ہو کر خدائے واحد کی تلاش میں لگ گئے اور اپنے آپ کو ’’حنیفی‘‘ کہہ کر پکارتے تھے۔ اور بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ارہاص ہر دو رنگوں میں ظاہر ہوتا ہے۔ یعنی کسی فرد کی بعثت کی صورت میں بھی۔ اور ایک رَو کی صورت میں بھی۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ ارہاص کے لفظی معنے بنیاد رکھنے یا کسی چیز کو مضبوط کرنے کے ہیں۔ چونکہ اللہ تعالیٰ سلسلہ ارہاص کے ذریعہ نورِ نبوت کی ابتدائی داغ بیل قائم کرتا ہے۔ اس لئے اس سلسلہ کو یہ نام دیا گیا۔ اور خلافت کے لفظ کی حقیقت ظاہر ہی ہے کہ نبی کی وفات کے بعد جو سلسلہ خلفاء کا نبی کے کام کو جاری رکھنے اور تکمیل تک پہنچانے کے لئے قائم ہوتا ہے۔ وہ خلافت ہے۔ جس کے لفظی معنے کسی کے پیچھے آنے اور قائم مقام بننے کے ہیں۔ واللہ اعلم۔
{ 857} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی محمد اسمٰعیل صاحب سیالکوٹی نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی میرے ماموں زاد بھائی تھے اور میرے بہنوئی بھی تھے۔ اور عمر میں مجھ سے قریباً آٹھ سال بڑے تھے۔ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام کی بیعت مجھ سے پہلے کی تھی اور اس کے بعد وہ ہمیشہ تحریک کرتے رہتے تھے۔ کہ مَیں بھی بیعت کر لوں۔ غالباً ۱۸۹۳ء میں ایک خواب کی بناء پر مَیں بھی بیعت کے لئے تیار ہو گیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بیعت کی غرض سے حاضر ہوا۔ اس وقت اتفاق سے میرے سامنے ایک شخص حضرت صاحب کی بیعت کر رہا تھا۔ مَیں نے جب بیعت کے یہ الفاظ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان سے سُنے کہ ’’ مَیں دین کو دُنیا پر مقدم رکھوںگا ‘‘ تو میرا دل بہت ڈر گیا کہ یہ بہت بھاری ذمہ واری ہے جسے مَیں نہیں اٹھا سکوں گا۔ اور مَیں بغیر بیعت کئے واپس لوٹ گیا۔ اس کے بعد ایک دفعہ مولوی صاحب مرحوم نے میری ہمشیرہ سے کہا کہ محمد اسمٰعیل لوگوں کو تو تبلیغ کرتا رہتا تھا اور خود بیعت نہیں کرتا۔ یہ بات سمجھ نہیں آتی۔ میری ہمشیرہ نے مجھے جب یہ بات سُنائی۔ تو مَیں نے خود مولوی صاحب سے پوچھا کہ کیا آپ نے ایسا کہا ہے؟ مولوی صاحب نے فرمایا۔ ہاں۔ تو مَیں نے مولوی صاحب کو کہا کہ مَیں علیحٰدگی میں بیعت کرونگا۔ اور میرے دل میں یہ خیال تھا کہ مَیں حضرت صاحب سے عرض کرونگا کہ ہر بات میں دین کو دُنیا پر مقدم کرنے کا اقرار مجھ سے نہ لیں۔ یعنی اس عہدسے مجھے معاف کر دیں۔ مولوی صاحب نے فرمایا کہ ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا۔ پھر اس کے کچھ عرصہ بعد مَیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور دل میں ارادہ تھا کہ حضرت صاحب پر اپنا خیال ظاہر کر دُوں گا۔ لیکن جب حضرت صاحب مسجد میں تشریف لائے اور مغرب کی نماز کے بعد تشریف فرما ہوئے تو کسی شخص نے عرض کی کہ حضور کچھ آدمی بیعت کرنا چاہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا۔ ’’آجائیں‘‘ اس ’’آ جائیں‘‘ کے الفاظ نے میرے دل پر ایسا گہرا اثر کیا کہ مجھے وہ تمام خیالات بھُول گئے اور مَیں بلا چون و چرا آگے بڑھ گیا اور بیعت کر لی۔ بیعت کے بعد جب حضرت صاحب کو میرے ان خیالات کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا کہ ہماری بیعت کی تو غرض ہی یہی ہے کہ ہم دینداری پیدا کریں۔ اگر ہم دین کو مقدم کرنے کا اقرار نہ لیں تو کیا پھر یہ اقرار لیں کہ مَیں دُنیا کے کاموں کو مقدم کیا کروں گا۔ اس صورت میں بیعت کی غرض و غایت اور حقیقت ہی باطل ہو جاتی ہے۔
{ 858} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی محمد اسمٰعیل صاحب سیالکوٹی نے مجھ سے بیان کیا کہ ڈاکٹر سر محمد اقبال جو سیالکوٹ کے رہنے والے تھے ان کے والد کا نام شیخ نور محمد تھا۔ جن کو عام لوگ شیخ نتھو کہہ کر پکارتے تھے۔ شیخ نور محمد صاحب نے غالباً ۱۸۹۱ء یا۱۸۹۲ء میں مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم اور سید حامد شاہ صاحب مرحوم کی تحریک پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی تھی۔ ان دنوں سر محمد اقبال سکول میں پڑھتے تھے اور اپنے باپ کی بیعت کے بعد وہ بھی اپنے آپ کو احمدیت میں شمار کرتے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے معتقد تھے چونکہ سر اقبال کو بچپن سے ہی شعروشاعری کا شوق تھا۔ اس لئے ان دنوں میں انہوں نے سعد اللہ لدھیانوی کے خلاف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تائید میں ایک نظم بھی لکھی تھی۔ مگر اس کے چند سال بعد جب سر اقبال کالج میں پہنچے۔ تو انکے خیالات میں تبدیلی آ گئی۔ اور انہوں نے اپنے باپ کو بھی سمجھا بجھا کر احمدیت سے منحرف کر دیا۔ چنانچہ شیخ نور محمد صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں ایک خط لکھا۔ جس میں یہ تحریر کیا کہ سیالکوٹ کی جماعت چونکہ نوجوانوں کی جماعت ہے اور مَیں بوڑھا آدمی ان کے ساتھ چل نہیں سکتا۔ لہٰذا آپ میرا نام اس جماعت سے الگ رکھیں۔ اس پر حضرت صاحب کا جواب میر حامد شاہ صاحب مرحوم کے نام گیا۔ جس میں لکھا تھا۔ کہ شیخ نور محمد کو کہدیویں کہ وہ جماعت سے ہی الگ نہیں بلکہ اسلام سے بھی الگ ہیں۔ اس کے بعد شیخ نور محمد صاحب نے بعض اوقات چندہ وغیرہ دینے کی کوشش کی لیکن ہم نے قبول نہ کیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھ سے میاں مصباح الدین صاحب نے بیان کیا کہ ان سے کچھ عرصہ ہوا ڈاکٹر بشارت احمد صاحب نے بیان کیا تھا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۹۱ء یا ۱۸۹۲ء میں سیالکوٹ تشریف لے گئے تھے اور آپ نے وہاں ایک تقریر فرمائی تھی جس میں کثرت کے ساتھ لوگ شامل ہوئے تھے اور ارد گرد کے مکانوں کی چھتوں پر بھی ہجوم ہو گیا تھا۔ تو اس وقت ڈاکٹر سر محمد اقبال بھی وہاں موجود تھے اور کہہ رہے تھے کہ دیکھو شمع پر کس طرح پروانے گر رہے ہیں۔نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ ڈاکٹر سر محمد اقبال بعد میں سلسلہ سے نہ صرف منحرف ہو گئے تھے بلکہ اپنی زندگی کے آخری ایام میں شدید طور پر مخالف رہے ہیں اور ملک کے نو تعلیم یافتہ طبقہ میں احمدیت کے خلاف جو زہر پھیلا ہوا ہے اس کی بڑی وجہ ڈاکٹر سر محمد اقبال کا مخالفانہ پراپیگنڈا تھا مگر سر محمد اقبال کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد صاحب درمیان میں کچھ عرصہ علیٰحدہ رہنے کے بعد حال ہی میں پھر سلسلہ میں شامل ہو گئے ہیں اور ان کے صاحبزادے یعنی سر محمداقبال کے بھتیجے شیخ اعجاز احمدؐ صاحب سب جج تو سلسلہ کے نہایت مخلص نوجوانوں میں سے ہیں۔
{ 859} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکڑمیر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ دہلی میں ایک احمدی تھے۔وہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام کی زندگی میں قادیان آئے۔حضور ایک دن سیر کو نکلے تو احمدیہ چوک میں سَیر میں ہمراہ جانے والوں کے انتظار میں کھڑے ہوگئے۔ ان دہلی والے دوست کا بچہ بھی پاس کھڑا تھا۔فرمایا کہ یہ آ پ کا لڑکا ہے؟ انہوں نے عرض کیا ۔جی ہاں۔پھر پوچھا اس کا کیا نام ہے انہوں نے کہا ’’خورشید الاسلام ‘‘مسکرا کر فرمانے لگے خورشید تو فارسی لفظ ہے اور ترکیب نام کی عربی ہے۔یہ غلط ہے۔صحیح نام شمس الاسلام ہے۔اس کے بعد ان صاحب نے اس بچہ کا نام بدل کر شمس الاسلام رکھدیا۔
{ 860} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیا ن کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے تھے پنجابی مثل ہے کہ ’’کتا راتوں۔گھوڑاساتوں۔آدمی باتوں‘‘۔یعنی کُتّا تو ایک رات میں چراغوں کا تیل چاٹ کر موٹا ہوجاتا ہے(اگلے زمانہ میں لوگ مٹی کے کھلے چراغ جلایا کرتے تھے۔اور ان میں تل یا سرسوں کا تیل استعمال ہوتا تھا ۔جسے بعض اوقات کتّے چاٹ جایا کرتے تھے)اور گھوڑا سات دن کی خدمت سے بارونق اور فربہ ہو جاتا ہے۔مگر آدمی کا کیا ہے وہ اکثر ایک بات سے ہی اتنا خوش ہو جاتا ہے کہ اس کے سُنتے ہی اس کے چہرہ اور بدن پر رونق اور صحت اور سُرخی آجاتی ہے اور فوراً ذرا سی بات ہی ایک عظیم الشان تغیر اس کی حالت میں پیدا کر دیتی ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس موقع پر مجھے حضرت مسیح ناصری کا یہ قول یاد آگیا ’’آدمی روٹی سے نہیں جیتا‘‘اس میں شُبہ نہیں کہ انسانی خلقت میں خدانے ایسا مادہ رکھا ہے کہ اس پر جذبات بہت گہرا اثر کرتے ہیں اور کسی کی ذرا سی محبت بھری نظر اس کے اندر زندگی کی لہر پیدا کر دیتی ہے اور ذرا سی چشم نمائی اس کی امنگوں پر اوس ڈال ریتی ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کا طریق تھا کہ طہارت سے فارغ ہو کر ایک دفعہ سادہ پانی سے ہاتھ دھوتے تھے اور پھر مٹی مَل کر دوبارہ صاف کرتے تھے۔
{ 842} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ ایک شخص پچھتر سنگھ ریاست جموں کے تھے۔ وہ قادیان آ کر مسلمان ہو گئے۔ نام ان کا شیخ عبدالعزیز رکھا گیا۔ ان کو لوگ اکثر کہتے تھے کہ ختنہ کرالو۔ وہ بیچارے چونکہ بڑی عمر کے ہو گئے تھے اس لئے ہچکچاتے تھے اور تکلیف سے بھی ڈرتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ذکر کیا گیا کہ آیا ختنہ ضروری ہے۔ فرمایا بڑی عمر کے آدمی کے لئے سترِ عورت فرض ہے مگر ختنہ صرف سنت ہے۔ اس لئے ان کے لئے ضروری نہیں کہ ختنہ کروائیں۔
{ 843} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت صاحب کے خادم میاں حامد علی مرحوم کی روایت ہے کہ ایک سفر میں حضرت صاحب کو احتلام ہوا۔ جب مَیں نے یہ روایت سُنی تو بہت تعجب ہوا۔ کیونکہ میرا خیال تھا کہ انبیاء کو احتلام نہیں ہوتا۔ پھر بعد فکر کرنے کے اور طبّی طور پر اس مسئلہ پر غور کرنے کے مَیں اس نتیجہ پر پہنچا کہ احتلام تین قسم کا ہوتا ہے ایک فطرتی۔ دوسرا شیطانی خواہشات اور خیالات کا نتیجہ اور تیسرا مرض کی وجہ سے۔ انبیاء کو فطرتی اور بیماری والا احتلام ہو سکتا ہے۔ مگر شیطانی نہیں ہوتا۔ لوگوں نے سب قسم کے احتلام کو شیطانی سمجھ رکھا ہے جو غلط ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ میر صاحب مکرم کا یہ خیال درست ہے کہ انبیاء کو بھی بعض اقسام کا احتلام ہو سکتا ہے اور میرا ہمیشہ سے یہی خیال رہا ہے۔ چنانچہ مجھے یاد ہے کہ جب میں نے بچپن میں اس حدیث کو پڑھا تھا کہ انبیاء کو احتلام نہیں ہوتا۔ تو اس وقت بھی میں نے دل میں یہی کہا تھا کہ اس سے شیطانی نظارہ والا احتلام مراد ہے نہ کہ ہر قسم کا احتلام۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ میر صاحب نے جوفطرتی احتلام اور بیماری کے احتلام کی اصطلاح لکھی ہے یہ غالباً ایک ہی قسم ہے۔ جس میں صرف درجہ کا فرق ہے یعنی اصل اقسام دو ہی ہیں۔ ایک فطرتی احتلام جو کسی بھی طبعی تقاضے کا نتیجہ ہوتا ہے اور دوسرے شیطانی احتلام جو گندے خیالات کا نتیجہ ہوتا ہے۔ واللہ اعلم۔
{ 844} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پیشاب کرکے ہمیشہ پانی سے طہارت فرمایا کرتے تھے۔ مَیں نے کبھی ڈھیلہ کرتے نہیں دیکھا۔
{ 845} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام اندھیرے میں نہیں سویا کرتے تھے۔ بلکہ ہمیشہ رات کو اپنے کمرہ میں لالٹین روشن رکھا کرتے تھے اور تصنیف کے وقت تو دس پندرہ موم بتیاں اکٹھی جلا لیا کرتے تھے۔
{ 846} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ میرے گھر سے یعنی والدہ عزیز مظفر احمد نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کتاب ’’قادیان کے آریہ اور ہم‘‘ کی نظم لکھ رہے تھے۔ جس کے آخر میں دُعا یہی ہے۔ وفا یہی ہے۔ وغیرہ آتا ہے۔ تو مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کی بڑی بیوی مولویانی مرحومہ کسی کام کی غرض سے حضرت صاحب کے پاس آئیں۔ حضرت صاحب نے ان سے فرمایا کہ مَیں ایک نظم لکھ رہا ہوں۔ جس میں یہ یہ قافیہ ہے آپ بھی کوئی قافیہ بتائیں۔ مولویانی مرحومہ نے کہا۔ ہمیں کسی نے پڑھایا ہی نہیں۔ تو مَیں بتائوں کیا۔ حضرت صاحب نے ہنس کر فرمایا کہ آپ نے بتا تو دیا ہے اور پھر بھی آپ شکایت کرتی ہیں کہ کسی نے پڑھایا نہیں۔ مطلب حضرت صاحب کا یہ تھا کہ ’’پڑھایا نہیں‘‘ کے الفاظ میں جو ’’پڑھا‘‘ کا لفظ ہے۔ اسی میں قافیہ آ گیا ہے۔ چنانچہ آپ نے اسی وقت ایک شعر میں اس قافیہ کو استعمال کر لیا۔
{ 847} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میرے گھر سے یعنی والدہ عزیز مظفر احمد نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام عموماً گرم پانی سے طہارت فرمایا کرتے تھے اور ٹھنڈے پانی کو استعمال نہ کرتے تھے۔ ایک دن آپ نے کسی خادمہ سے فرمایا۔ کہ آپ کے لئے پاخانہ میں لوٹا رکھدے۔ اس نے غلطی سے تیز گرم پانی کا لوٹا رکھدیا۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام فارغ ہو کر باہر تشریف لائے۔ تو دریافت فرمایا کہ لوٹا کس نے رکھا تھا۔ جب بتایا گیا کہ فلاں خادمہ نے رکھا تھا۔ تو آپ نے اُسے بلوایا۔ اور اُسے اپنا ہاتھ آگے کرنے کو کہا۔ اور پھر اس کے ہاتھ پر آپ نے اس لوٹے کا بچا ہوا پانی بہا دیا تاکہ اُسے احساس ہو کہ یہ پانی اتنا گرم ہے کہ طہارت میں استعمال نہیں ہو سکتا۔ اس کے سوا آپ نے اُسے کچھ نہیں کہا۔
{ 848} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میرے گھر سے یعنی والدہ عزیز مظفر احمد نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ہم گھر کی چند لڑکیاں تربوز کھا رہی تھیں۔ اس کا ایک چھلکا مائی تابی کو جا لگا۔ جس پر مائی تابی بہت ناراض ہوئی۔ اور ناراضگی میں بد دُعائیں دینی شروع کر دیں۔ اور پھر خود ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس جا کر شکایت بھی کردی۔ اس پر حضرت صاحب نے ہمیں بلایا اور پوچھا کہ کیا بات ہوئی ہے۔ ہم نے سارا واقعہ سُنا دیا۔ جس پر آپ مائی تابی پر ناراض ہوئے کہ تم نے میری اولاد کے متعلق بد دعا کی ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مائی تابی قادیان کے قریب کی ایک بوڑھی عورت تھی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر میں رہتی تھی اور اچھا اخلاص رکھتی تھی۔ مگر ناراضگی میں عادتاً بد دعائیں دینے لگتی تھی۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ میرے گھر سے خان بہادر مولوی غلام حسن صاحب پشاوری کی لڑکی ہیں جو حضرت مسیح موعودؑ کے پرانے صحابی ہیں۔ مگر افسوس ہے کہ مولوی صاحب موصوف کو خلافتِ ثانیہ کے موقعہ پر ٹھوکر لگی اور وہ غیر مبایعین کے گروہ میں شامل ہو گئے لیکن الحمدللہ کہ میرے گھر سے بدستور جماعت میں شامل ہیں اور وابستگانِ خلافت میں سے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے والد ماجد کو بھی ہدایت نصیب فرمائے۔ آمین ۱ ؎
{ 849} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مائی امیر بی بی عرف مائی کاکو ہمشیرہ میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیشتر طور پر عورتوں کو یہ نصیحت فرمایا کرتے تھے کہ نماز باقاعدہ پڑھیں۔ قرآن شریف کا ترجمہ سیکھیں اور خاوندوں کے حقوق ادا کریں۔ جب کبھی کوئی عورت بیعت کرتی تو آپ عموماً یہ پوچھا کرتے تھے کہ تم قرآن شریف پڑھی ہوئی ہو یا نہیں۔ اگر وہ نہ پڑھی ہوئی ہوتی تو نصیحت فرماتے کہ قرآن شریف پڑھنا سیکھو۔ اور اگر صرف ناظرہ پڑھی ہوتی۔ تو فرماتے کہ ترجمہ بھی سیکھو۔ تاکہ قرآن شریف کے احکام سے اطلاع ہو اور ان پر عمل کرنے کی توفیق ملے۔
{ 850} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مائی کاکو نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میرے سامنے میاں عبدالعزیز صاحب پٹواری سیکھواں کی بیوی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے کچھ تازہ جلیبیاں لائی۔ حضرت صاحب نے ان میں سے ایک جلیبی اٹھا کر منہ میں ڈالی۔ اس وقت ایک راولپنڈی کی عورت پاس بیٹھی تھی۔ اس نے گھبرا کر حضرت صاحب سے کہا۔ حضرت یہ تو ہندو کی بنی ہوئی ہیں۔ حضرت صاحب نے کہا۔ تو پھر کیا ہے۔ ہم جو سبزی کھاتے ہیں۔ وہ گوبر اور پاخانہ کی کھاد سے تیار ہوتی ہے۔ اور اسی طرح بعض اور مثالیں دے کر اُسے سمجھایا۔
{ 851} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مائی کاکو نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میرے بھائی خیر دین کی بیوی نے مجھ سے کہا کہ شام کا وقت گھر میں بڑے کام کا وقت ہوتا ہے اور مغرب کی نماز عموماً قضا ہو جاتی ہے۔ تم حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دریافت کرو کہ ہم کیا کیا کریں۔ مَیں نے حضرت صاحب سے دریافت کیا کہ گھر میں کھانے وغیرہ کے انتظام میں مغرب کی نماز قضا ہو جاتی ہے۔ اس کے متعلق کیا حکم ہے۔ حضرت صاحب نے فرمایا۔ مَیں اس کی اجازت نہیں دے سکتا۔ اور فرمایا کہ صبح اور شام کا وقت خاص طور پر برکات کے نزول کا وقت ہوتا ہے۔ اوراس وقت فرشتوں کا پہرہ بدلتا ہے۔ ایسے وقت کی برکات سے اپنے آپ کو محروم نہیں کرنا چاہئے۔ ہاں کبھی مجبوری ہو تو عشاء کی نماز سے ملا کر مغرب کی نماز جمع کی جاسکتی ہے۔ مائی کاکو نے بیان کیا کہ اس وقت سے ہمارے گھر میں کسی نے مغرب کی نماز قضا نہیں کی اور ہمارے گھروں میں یہ طریق عام طور پر رائج ہو گیا ہے کہ شام کا کھانا مغرب سے پہلے ہی کھا لیتے ہیں تاکہ مغرب کی نماز کو صحیح وقت پر ادا کرسکیں۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مائی کاکو نے جو قضا کا لفظ استعمال کیا ہے یہ عرف عام میں غلط طور پر استعمال ہونے لگا ہے۔ ورنہ اس کے اصلی معنے پُورا کرنے اور ادا کرنے کے ہیں نہ کہ کھونے اور ضائع کرنے کے۔ مجھے اس کا اس لئے خیال آیا کہ مجھے یاد ہے کہ حضرت صاحب نے بھی ایک جگہ اس لفظ کے غلط استعمال کے متعلق ذکر کیا ہے۔
{ 852} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مائی کاکو نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ جب حضرت صاحب نے جماعت میں بکروں کی قربانی کا حکم دیا تھا۔ تو ہم نے بھی اس ارشاد کی تعمیل میں بکرے قربان (صدقہ) کروائے تھے۔ اس کے کچھ عرصہ بعد مَیں نے خواب دیکھا۔ کہ ایک بڑا بھاری جلوس آ رہا ہے اور اس جلوس کے آگے کوئی شخص رتھ میں سوار ہو کر چلا آ رہا ہے۔ جس کے ارد گرد پردے پڑے ہوئے ہیں او رلوگوں میں شور ہے کہ محمد ﷺ آ گئے۔ محمد ﷺ آ گئے۔ میں نے آگے بڑھکر رتھ کا پردہ اُٹھایا تو اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف رکھتے تھے۔ آپ نے مجھے دیکھ کر فرمایا۔ کیا تم نے صدقہ نہیں کیا؟ مَیں نے کہا۔ حضور ہم نے تو صدقہ کروا دیا ہے۔ آپ نے فرمایا اور کروا دو۔ چنانچہ مَیں نے اور صدقہ کروا دیا۔ اس زمانہ میں دو روپیہ میں بکرا مل جاتا تھا۔ اور ہم نے پانچ پیسے میں سیر گوشت خریدا ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ غالباً اس زمانہ کی بات ہے جب حضرت صاحب ۱۹۰۵ء والے زلزلہ کے بعد باغ میں جا کر ٹھہرے تھے۔
{ 853} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک شخص بمبئی کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام کی زیارت کو آیا۔ اس کی داڑھی اور مونچھیں سب سفید تھیں۔ حضور نے ملاقات کے بعد ان سے پوچھا۔ آپ کی کیا عمر ہو گی۔ وہ شخص کہنے لگا کہ حضرت میں نے تو اپنا کوئی بال سیاہ دیکھا ہی نہیں نکلتے ہی سفید ہیں۔ یاد نہیں کہ اس نے اپنی عمر کتنی بتائی۔ اس کی بات سے حضرت صاحب نے تعجب کیا۔ اور پھر گھر میں جا کر بھی بیان کیا کہ آج ایک ایسا شخص ملنے آیا تھا۔
{ 854} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم نے دوسری شادی کی تو کسی وجہ سے جلدی ہی اس بیوی کو طلاق دیدی۔ پھر بہت مدت شاید سال کے قریب گزر گیا۔ تو حضرت صاحب نے چاہا کہ وہ اس بی بی کو پھر آباد کریں۔ چنانچہ مسئلہ کی تفتیش ہوئی اور معلوم ہوا کہ طلاق بائن نہیں ہے بلکہ رجعی ہے۔ اس لئے آپ کی منشاء سے ان کا دوبارہ نکاح ہو گیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ پہلی بیوی سے حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کے اولاد نہیں ہوتی تھی اور حضرت صاحب کو آرزو تھی کہ ان کے اولاد ہو جائے۔ اسی لئے آپ نے تحریک کرکے شادی کروائی تھی۔
{ 855} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ ہر الٰہی سلسلہ کا پہلا اور آخری نبی قتل سے محفوظ رکھا جاتا ہے۔ مگر درمیانی نبی اگر ان کے ساتھ مخصوص طور پر حفاظت کا وعدہ نہ ہو اور وہ اپنی بعثت کی غرض کو پورا کر چکے ہوں تو وہ قتل ہو سکتے ہیں چنانچہ فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل سے محفوظ رکھا۔ اور محمدی سلسلے میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو قتل سے محفوظ رکھا۔ اور میرے ساتھ بھی اس کا حفاظت کا وعدہ ہے۔ مگر فرماتے تھے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام دشمنوں کے ہاتھ سے قتل ہوئے تھے۔
{ 856} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام فرمایا کرتے تھے کہ جس طرح حضرت مسیح ناصری سے پہلے حضرت یحییٰ علیہ السلام بطور ارہاص کے مبعوث کئے گئے تھے اسی طرح مجھ سے پہلے سیّد احمد صاحب بریلوی بطور ارہاص کے مبعوث کئے گئے کیونکہ وہ تیرہویں صدی کے مجدّد تھے اور حضرت صاحب فرماتے تھے کہ یہ ایک عجیب مشابہت ہے کہ جس طرح حضرت یحییٰ علیہ السلام قتل ہوئے اسی طرح سید احمد صاحب بریلوی بھی قتل ہوئے۔ اور اس طرح خدا نے دونوں سلسلوں کے مسیحوں میں ایک مزید مشابہت پیدا کردی۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ قرآن شریف سے یہ پتہ لگتا ہے کہ ہر چیز اپنے آگے اور پیچھے دونوں طرف کسی نہ کسی رنگ میں اثر پیدا کرتی ہے اور نبوت کا یہ اثر ہے کہ اس سے پہلے ارہاص کا سلسلہ ہوتا ہے اور بعد میں خلافت کا۔ گویا نبوت کا وجود اپنے کمال میں تین درجوں میں ظاہر ہوتا ہے۔ پہلا درجہ ارہاص کا ہے جسے گویا کہ یوں سمجھنا چاہئے کہ جیسے سورج کے نکلنے سے پہلے شفق میں روشنی پیدا ہوتی ہے۔ دوسرا درجہ نبوت کا ہے جو اصل نور اور ضیاء کا مقام ہے۔ اور اس کے بعد تیسرا درجہ خلافت کا ہے جو نبی کے گذر جانے کے بعد ظاہر ہوتا ہے۔
ارہاص کے اظہار کی صورت مختلف رنگوں میں ہو سکتی ہے یعنی بعض اوقات تو کسی بڑے نبی سے پہلے کسی چھوٹے نبی یا ولی یا مجدّد کو نبی کے لئے راستہ صاف کرنے کے واسطے بھیجا جاتا ہے جیسا کہ حضرت مسیح ناصری اور حضرت مسیح موعود ؑ کے وقت میں ہوا۔ اور بعض اوقات کوئی خاص فرد مبعوث نہیں ہوتا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ ایسی رَو چلا دیتا ہے جس سے بعض سعید فطرتیں متاثر ہوکر نورِ نبوت کی تیاری میں لگ جاتی ہیں۔ جیسا کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہوا۔ یعنی آپؐ کی بعثت سے پہلے عرب میں چند افراد ایسے پیدا ہو گئے۔ جو شرک سے متنفّر ہو کر خدائے واحد کی تلاش میں لگ گئے اور اپنے آپ کو ’’حنیفی‘‘ کہہ کر پکارتے تھے۔ اور بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ارہاص ہر دو رنگوں میں ظاہر ہوتا ہے۔ یعنی کسی فرد کی بعثت کی صورت میں بھی۔ اور ایک رَو کی صورت میں بھی۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ ارہاص کے لفظی معنے بنیاد رکھنے یا کسی چیز کو مضبوط کرنے کے ہیں۔ چونکہ اللہ تعالیٰ سلسلہ ارہاص کے ذریعہ نورِ نبوت کی ابتدائی داغ بیل قائم کرتا ہے۔ اس لئے اس سلسلہ کو یہ نام دیا گیا۔ اور خلافت کے لفظ کی حقیقت ظاہر ہی ہے کہ نبی کی وفات کے بعد جو سلسلہ خلفاء کا نبی کے کام کو جاری رکھنے اور تکمیل تک پہنچانے کے لئے قائم ہوتا ہے۔ وہ خلافت ہے۔ جس کے لفظی معنے کسی کے پیچھے آنے اور قائم مقام بننے کے ہیں۔ واللہ اعلم۔
{ 857} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی محمد اسمٰعیل صاحب سیالکوٹی نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی میرے ماموں زاد بھائی تھے اور میرے بہنوئی بھی تھے۔ اور عمر میں مجھ سے قریباً آٹھ سال بڑے تھے۔ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام کی بیعت مجھ سے پہلے کی تھی اور اس کے بعد وہ ہمیشہ تحریک کرتے رہتے تھے۔ کہ مَیں بھی بیعت کر لوں۔ غالباً ۱۸۹۳ء میں ایک خواب کی بناء پر مَیں بھی بیعت کے لئے تیار ہو گیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بیعت کی غرض سے حاضر ہوا۔ اس وقت اتفاق سے میرے سامنے ایک شخص حضرت صاحب کی بیعت کر رہا تھا۔ مَیں نے جب بیعت کے یہ الفاظ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان سے سُنے کہ ’’ مَیں دین کو دُنیا پر مقدم رکھوںگا ‘‘ تو میرا دل بہت ڈر گیا کہ یہ بہت بھاری ذمہ واری ہے جسے مَیں نہیں اٹھا سکوں گا۔ اور مَیں بغیر بیعت کئے واپس لوٹ گیا۔ اس کے بعد ایک دفعہ مولوی صاحب مرحوم نے میری ہمشیرہ سے کہا کہ محمد اسمٰعیل لوگوں کو تو تبلیغ کرتا رہتا تھا اور خود بیعت نہیں کرتا۔ یہ بات سمجھ نہیں آتی۔ میری ہمشیرہ نے مجھے جب یہ بات سُنائی۔ تو مَیں نے خود مولوی صاحب سے پوچھا کہ کیا آپ نے ایسا کہا ہے؟ مولوی صاحب نے فرمایا۔ ہاں۔ تو مَیں نے مولوی صاحب کو کہا کہ مَیں علیحٰدگی میں بیعت کرونگا۔ اور میرے دل میں یہ خیال تھا کہ مَیں حضرت صاحب سے عرض کرونگا کہ ہر بات میں دین کو دُنیا پر مقدم کرنے کا اقرار مجھ سے نہ لیں۔ یعنی اس عہدسے مجھے معاف کر دیں۔ مولوی صاحب نے فرمایا کہ ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا۔ پھر اس کے کچھ عرصہ بعد مَیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور دل میں ارادہ تھا کہ حضرت صاحب پر اپنا خیال ظاہر کر دُوں گا۔ لیکن جب حضرت صاحب مسجد میں تشریف لائے اور مغرب کی نماز کے بعد تشریف فرما ہوئے تو کسی شخص نے عرض کی کہ حضور کچھ آدمی بیعت کرنا چاہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا۔ ’’آجائیں‘‘ اس ’’آ جائیں‘‘ کے الفاظ نے میرے دل پر ایسا گہرا اثر کیا کہ مجھے وہ تمام خیالات بھُول گئے اور مَیں بلا چون و چرا آگے بڑھ گیا اور بیعت کر لی۔ بیعت کے بعد جب حضرت صاحب کو میرے ان خیالات کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا کہ ہماری بیعت کی تو غرض ہی یہی ہے کہ ہم دینداری پیدا کریں۔ اگر ہم دین کو مقدم کرنے کا اقرار نہ لیں تو کیا پھر یہ اقرار لیں کہ مَیں دُنیا کے کاموں کو مقدم کیا کروں گا۔ اس صورت میں بیعت کی غرض و غایت اور حقیقت ہی باطل ہو جاتی ہے۔
{ 858} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی محمد اسمٰعیل صاحب سیالکوٹی نے مجھ سے بیان کیا کہ ڈاکٹر سر محمد اقبال جو سیالکوٹ کے رہنے والے تھے ان کے والد کا نام شیخ نور محمد تھا۔ جن کو عام لوگ شیخ نتھو کہہ کر پکارتے تھے۔ شیخ نور محمد صاحب نے غالباً ۱۸۹۱ء یا۱۸۹۲ء میں مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم اور سید حامد شاہ صاحب مرحوم کی تحریک پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی تھی۔ ان دنوں سر محمد اقبال سکول میں پڑھتے تھے اور اپنے باپ کی بیعت کے بعد وہ بھی اپنے آپ کو احمدیت میں شمار کرتے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے معتقد تھے چونکہ سر اقبال کو بچپن سے ہی شعروشاعری کا شوق تھا۔ اس لئے ان دنوں میں انہوں نے سعد اللہ لدھیانوی کے خلاف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تائید میں ایک نظم بھی لکھی تھی۔ مگر اس کے چند سال بعد جب سر اقبال کالج میں پہنچے۔ تو انکے خیالات میں تبدیلی آ گئی۔ اور انہوں نے اپنے باپ کو بھی سمجھا بجھا کر احمدیت سے منحرف کر دیا۔ چنانچہ شیخ نور محمد صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں ایک خط لکھا۔ جس میں یہ تحریر کیا کہ سیالکوٹ کی جماعت چونکہ نوجوانوں کی جماعت ہے اور مَیں بوڑھا آدمی ان کے ساتھ چل نہیں سکتا۔ لہٰذا آپ میرا نام اس جماعت سے الگ رکھیں۔ اس پر حضرت صاحب کا جواب میر حامد شاہ صاحب مرحوم کے نام گیا۔ جس میں لکھا تھا۔ کہ شیخ نور محمد کو کہدیویں کہ وہ جماعت سے ہی الگ نہیں بلکہ اسلام سے بھی الگ ہیں۔ اس کے بعد شیخ نور محمد صاحب نے بعض اوقات چندہ وغیرہ دینے کی کوشش کی لیکن ہم نے قبول نہ کیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھ سے میاں مصباح الدین صاحب نے بیان کیا کہ ان سے کچھ عرصہ ہوا ڈاکٹر بشارت احمد صاحب نے بیان کیا تھا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۹۱ء یا ۱۸۹۲ء میں سیالکوٹ تشریف لے گئے تھے اور آپ نے وہاں ایک تقریر فرمائی تھی جس میں کثرت کے ساتھ لوگ شامل ہوئے تھے اور ارد گرد کے مکانوں کی چھتوں پر بھی ہجوم ہو گیا تھا۔ تو اس وقت ڈاکٹر سر محمد اقبال بھی وہاں موجود تھے اور کہہ رہے تھے کہ دیکھو شمع پر کس طرح پروانے گر رہے ہیں۔نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ ڈاکٹر سر محمد اقبال بعد میں سلسلہ سے نہ صرف منحرف ہو گئے تھے بلکہ اپنی زندگی کے آخری ایام میں شدید طور پر مخالف رہے ہیں اور ملک کے نو تعلیم یافتہ طبقہ میں احمدیت کے خلاف جو زہر پھیلا ہوا ہے اس کی بڑی وجہ ڈاکٹر سر محمد اقبال کا مخالفانہ پراپیگنڈا تھا مگر سر محمد اقبال کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد صاحب درمیان میں کچھ عرصہ علیٰحدہ رہنے کے بعد حال ہی میں پھر سلسلہ میں شامل ہو گئے ہیں اور ان کے صاحبزادے یعنی سر محمداقبال کے بھتیجے شیخ اعجاز احمدؐ صاحب سب جج تو سلسلہ کے نہایت مخلص نوجوانوں میں سے ہیں۔
{ 859} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکڑمیر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ دہلی میں ایک احمدی تھے۔وہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام کی زندگی میں قادیان آئے۔حضور ایک دن سیر کو نکلے تو احمدیہ چوک میں سَیر میں ہمراہ جانے والوں کے انتظار میں کھڑے ہوگئے۔ ان دہلی والے دوست کا بچہ بھی پاس کھڑا تھا۔فرمایا کہ یہ آ پ کا لڑکا ہے؟ انہوں نے عرض کیا ۔جی ہاں۔پھر پوچھا اس کا کیا نام ہے انہوں نے کہا ’’خورشید الاسلام ‘‘مسکرا کر فرمانے لگے خورشید تو فارسی لفظ ہے اور ترکیب نام کی عربی ہے۔یہ غلط ہے۔صحیح نام شمس الاسلام ہے۔اس کے بعد ان صاحب نے اس بچہ کا نام بدل کر شمس الاسلام رکھدیا۔
{ 860} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیا ن کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے تھے پنجابی مثل ہے کہ ’’کتا راتوں۔گھوڑاساتوں۔آدمی باتوں‘‘۔یعنی کُتّا تو ایک رات میں چراغوں کا تیل چاٹ کر موٹا ہوجاتا ہے(اگلے زمانہ میں لوگ مٹی کے کھلے چراغ جلایا کرتے تھے۔اور ان میں تل یا سرسوں کا تیل استعمال ہوتا تھا ۔جسے بعض اوقات کتّے چاٹ جایا کرتے تھے)اور گھوڑا سات دن کی خدمت سے بارونق اور فربہ ہو جاتا ہے۔مگر آدمی کا کیا ہے وہ اکثر ایک بات سے ہی اتنا خوش ہو جاتا ہے کہ اس کے سُنتے ہی اس کے چہرہ اور بدن پر رونق اور صحت اور سُرخی آجاتی ہے اور فوراً ذرا سی بات ہی ایک عظیم الشان تغیر اس کی حالت میں پیدا کر دیتی ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس موقع پر مجھے حضرت مسیح ناصری کا یہ قول یاد آگیا ’’آدمی روٹی سے نہیں جیتا‘‘اس میں شُبہ نہیں کہ انسانی خلقت میں خدانے ایسا مادہ رکھا ہے کہ اس پر جذبات بہت گہرا اثر کرتے ہیں اور کسی کی ذرا سی محبت بھری نظر اس کے اندر زندگی کی لہر پیدا کر دیتی ہے اور ذرا سی چشم نمائی اس کی امنگوں پر اوس ڈال ریتی ہے۔