• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

سیرت المہدی

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{ 841} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خوا جہ عبدالرحمن صاحب متوطن کشمیر نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام گھر میں جب رفع حاجت کے لئے پاخانہ میں جاتے تھے تو پانی کا لوٹا لازماً ساتھ لے جاتے تھے اور اندر طہارت کرنے کے علاوہ پاخانہ سے باہر آ کر بھی ہاتھ صاف کرتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کا طریق تھا کہ طہارت سے فارغ ہو کر ایک دفعہ سادہ پانی سے ہاتھ دھوتے تھے اور پھر مٹی مَل کر دوبارہ صاف کرتے تھے۔
{ 842} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ ایک شخص پچھتر سنگھ ریاست جموں کے تھے۔ وہ قادیان آ کر مسلمان ہو گئے۔ نام ان کا شیخ عبدالعزیز رکھا گیا۔ ان کو لوگ اکثر کہتے تھے کہ ختنہ کرالو۔ وہ بیچارے چونکہ بڑی عمر کے ہو گئے تھے اس لئے ہچکچاتے تھے اور تکلیف سے بھی ڈرتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ذکر کیا گیا کہ آیا ختنہ ضروری ہے۔ فرمایا بڑی عمر کے آدمی کے لئے سترِ عورت فرض ہے مگر ختنہ صرف سنت ہے۔ اس لئے ان کے لئے ضروری نہیں کہ ختنہ کروائیں۔
{ 843} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت صاحب کے خادم میاں حامد علی مرحوم کی روایت ہے کہ ایک سفر میں حضرت صاحب کو احتلام ہوا۔ جب مَیں نے یہ روایت سُنی تو بہت تعجب ہوا۔ کیونکہ میرا خیال تھا کہ انبیاء کو احتلام نہیں ہوتا۔ پھر بعد فکر کرنے کے اور طبّی طور پر اس مسئلہ پر غور کرنے کے مَیں اس نتیجہ پر پہنچا کہ احتلام تین قسم کا ہوتا ہے ایک فطرتی۔ دوسرا شیطانی خواہشات اور خیالات کا نتیجہ اور تیسرا مرض کی وجہ سے۔ انبیاء کو فطرتی اور بیماری والا احتلام ہو سکتا ہے۔ مگر شیطانی نہیں ہوتا۔ لوگوں نے سب قسم کے احتلام کو شیطانی سمجھ رکھا ہے جو غلط ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ میر صاحب مکرم کا یہ خیال درست ہے کہ انبیاء کو بھی بعض اقسام کا احتلام ہو سکتا ہے اور میرا ہمیشہ سے یہی خیال رہا ہے۔ چنانچہ مجھے یاد ہے کہ جب میں نے بچپن میں اس حدیث کو پڑھا تھا کہ انبیاء کو احتلام نہیں ہوتا۔ تو اس وقت بھی میں نے دل میں یہی کہا تھا کہ اس سے شیطانی نظارہ والا احتلام مراد ہے نہ کہ ہر قسم کا احتلام۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ میر صاحب نے جوفطرتی احتلام اور بیماری کے احتلام کی اصطلاح لکھی ہے یہ غالباً ایک ہی قسم ہے۔ جس میں صرف درجہ کا فرق ہے یعنی اصل اقسام دو ہی ہیں۔ ایک فطرتی احتلام جو کسی بھی طبعی تقاضے کا نتیجہ ہوتا ہے اور دوسرے شیطانی احتلام جو گندے خیالات کا نتیجہ ہوتا ہے۔ واللہ اعلم۔
{ 844} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پیشاب کرکے ہمیشہ پانی سے طہارت فرمایا کرتے تھے۔ مَیں نے کبھی ڈھیلہ کرتے نہیں دیکھا۔
{ 845} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام اندھیرے میں نہیں سویا کرتے تھے۔ بلکہ ہمیشہ رات کو اپنے کمرہ میں لالٹین روشن رکھا کرتے تھے اور تصنیف کے وقت تو دس پندرہ موم بتیاں اکٹھی جلا لیا کرتے تھے۔
{ 846} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ میرے گھر سے یعنی والدہ عزیز مظفر احمد نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کتاب ’’قادیان کے آریہ اور ہم‘‘ کی نظم لکھ رہے تھے۔ جس کے آخر میں دُعا یہی ہے۔ وفا یہی ہے۔ وغیرہ آتا ہے۔ تو مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کی بڑی بیوی مولویانی مرحومہ کسی کام کی غرض سے حضرت صاحب کے پاس آئیں۔ حضرت صاحب نے ان سے فرمایا کہ مَیں ایک نظم لکھ رہا ہوں۔ جس میں یہ یہ قافیہ ہے آپ بھی کوئی قافیہ بتائیں۔ مولویانی مرحومہ نے کہا۔ ہمیں کسی نے پڑھایا ہی نہیں۔ تو مَیں بتائوں کیا۔ حضرت صاحب نے ہنس کر فرمایا کہ آپ نے بتا تو دیا ہے اور پھر بھی آپ شکایت کرتی ہیں کہ کسی نے پڑھایا نہیں۔ مطلب حضرت صاحب کا یہ تھا کہ ’’پڑھایا نہیں‘‘ کے الفاظ میں جو ’’پڑھا‘‘ کا لفظ ہے۔ اسی میں قافیہ آ گیا ہے۔ چنانچہ آپ نے اسی وقت ایک شعر میں اس قافیہ کو استعمال کر لیا۔
{ 847} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میرے گھر سے یعنی والدہ عزیز مظفر احمد نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام عموماً گرم پانی سے طہارت فرمایا کرتے تھے اور ٹھنڈے پانی کو استعمال نہ کرتے تھے۔ ایک دن آپ نے کسی خادمہ سے فرمایا۔ کہ آپ کے لئے پاخانہ میں لوٹا رکھدے۔ اس نے غلطی سے تیز گرم پانی کا لوٹا رکھدیا۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام فارغ ہو کر باہر تشریف لائے۔ تو دریافت فرمایا کہ لوٹا کس نے رکھا تھا۔ جب بتایا گیا کہ فلاں خادمہ نے رکھا تھا۔ تو آپ نے اُسے بلوایا۔ اور اُسے اپنا ہاتھ آگے کرنے کو کہا۔ اور پھر اس کے ہاتھ پر آپ نے اس لوٹے کا بچا ہوا پانی بہا دیا تاکہ اُسے احساس ہو کہ یہ پانی اتنا گرم ہے کہ طہارت میں استعمال نہیں ہو سکتا۔ اس کے سوا آپ نے اُسے کچھ نہیں کہا۔
{ 848} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میرے گھر سے یعنی والدہ عزیز مظفر احمد نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ہم گھر کی چند لڑکیاں تربوز کھا رہی تھیں۔ اس کا ایک چھلکا مائی تابی کو جا لگا۔ جس پر مائی تابی بہت ناراض ہوئی۔ اور ناراضگی میں بد دُعائیں دینی شروع کر دیں۔ اور پھر خود ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس جا کر شکایت بھی کردی۔ اس پر حضرت صاحب نے ہمیں بلایا اور پوچھا کہ کیا بات ہوئی ہے۔ ہم نے سارا واقعہ سُنا دیا۔ جس پر آپ مائی تابی پر ناراض ہوئے کہ تم نے میری اولاد کے متعلق بد دعا کی ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مائی تابی قادیان کے قریب کی ایک بوڑھی عورت تھی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر میں رہتی تھی اور اچھا اخلاص رکھتی تھی۔ مگر ناراضگی میں عادتاً بد دعائیں دینے لگتی تھی۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ میرے گھر سے خان بہادر مولوی غلام حسن صاحب پشاوری کی لڑکی ہیں جو حضرت مسیح موعودؑ کے پرانے صحابی ہیں۔ مگر افسوس ہے کہ مولوی صاحب موصوف کو خلافتِ ثانیہ کے موقعہ پر ٹھوکر لگی اور وہ غیر مبایعین کے گروہ میں شامل ہو گئے لیکن الحمدللہ کہ میرے گھر سے بدستور جماعت میں شامل ہیں اور وابستگانِ خلافت میں سے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے والد ماجد کو بھی ہدایت نصیب فرمائے۔ آمین ۱ ؎
{ 849} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مائی امیر بی بی عرف مائی کاکو ہمشیرہ میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیشتر طور پر عورتوں کو یہ نصیحت فرمایا کرتے تھے کہ نماز باقاعدہ پڑھیں۔ قرآن شریف کا ترجمہ سیکھیں اور خاوندوں کے حقوق ادا کریں۔ جب کبھی کوئی عورت بیعت کرتی تو آپ عموماً یہ پوچھا کرتے تھے کہ تم قرآن شریف پڑھی ہوئی ہو یا نہیں۔ اگر وہ نہ پڑھی ہوئی ہوتی تو نصیحت فرماتے کہ قرآن شریف پڑھنا سیکھو۔ اور اگر صرف ناظرہ پڑھی ہوتی۔ تو فرماتے کہ ترجمہ بھی سیکھو۔ تاکہ قرآن شریف کے احکام سے اطلاع ہو اور ان پر عمل کرنے کی توفیق ملے۔
{ 850} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مائی کاکو نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میرے سامنے میاں عبدالعزیز صاحب پٹواری سیکھواں کی بیوی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے کچھ تازہ جلیبیاں لائی۔ حضرت صاحب نے ان میں سے ایک جلیبی اٹھا کر منہ میں ڈالی۔ اس وقت ایک راولپنڈی کی عورت پاس بیٹھی تھی۔ اس نے گھبرا کر حضرت صاحب سے کہا۔ حضرت یہ تو ہندو کی بنی ہوئی ہیں۔ حضرت صاحب نے کہا۔ تو پھر کیا ہے۔ ہم جو سبزی کھاتے ہیں۔ وہ گوبر اور پاخانہ کی کھاد سے تیار ہوتی ہے۔ اور اسی طرح بعض اور مثالیں دے کر اُسے سمجھایا۔
{ 851} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مائی کاکو نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میرے بھائی خیر دین کی بیوی نے مجھ سے کہا کہ شام کا وقت گھر میں بڑے کام کا وقت ہوتا ہے اور مغرب کی نماز عموماً قضا ہو جاتی ہے۔ تم حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دریافت کرو کہ ہم کیا کیا کریں۔ مَیں نے حضرت صاحب سے دریافت کیا کہ گھر میں کھانے وغیرہ کے انتظام میں مغرب کی نماز قضا ہو جاتی ہے۔ اس کے متعلق کیا حکم ہے۔ حضرت صاحب نے فرمایا۔ مَیں اس کی اجازت نہیں دے سکتا۔ اور فرمایا کہ صبح اور شام کا وقت خاص طور پر برکات کے نزول کا وقت ہوتا ہے۔ اوراس وقت فرشتوں کا پہرہ بدلتا ہے۔ ایسے وقت کی برکات سے اپنے آپ کو محروم نہیں کرنا چاہئے۔ ہاں کبھی مجبوری ہو تو عشاء کی نماز سے ملا کر مغرب کی نماز جمع کی جاسکتی ہے۔ مائی کاکو نے بیان کیا کہ اس وقت سے ہمارے گھر میں کسی نے مغرب کی نماز قضا نہیں کی اور ہمارے گھروں میں یہ طریق عام طور پر رائج ہو گیا ہے کہ شام کا کھانا مغرب سے پہلے ہی کھا لیتے ہیں تاکہ مغرب کی نماز کو صحیح وقت پر ادا کرسکیں۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مائی کاکو نے جو قضا کا لفظ استعمال کیا ہے یہ عرف عام میں غلط طور پر استعمال ہونے لگا ہے۔ ورنہ اس کے اصلی معنے پُورا کرنے اور ادا کرنے کے ہیں نہ کہ کھونے اور ضائع کرنے کے۔ مجھے اس کا اس لئے خیال آیا کہ مجھے یاد ہے کہ حضرت صاحب نے بھی ایک جگہ اس لفظ کے غلط استعمال کے متعلق ذکر کیا ہے۔
{ 852} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مائی کاکو نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ جب حضرت صاحب نے جماعت میں بکروں کی قربانی کا حکم دیا تھا۔ تو ہم نے بھی اس ارشاد کی تعمیل میں بکرے قربان (صدقہ) کروائے تھے۔ اس کے کچھ عرصہ بعد مَیں نے خواب دیکھا۔ کہ ایک بڑا بھاری جلوس آ رہا ہے اور اس جلوس کے آگے کوئی شخص رتھ میں سوار ہو کر چلا آ رہا ہے۔ جس کے ارد گرد پردے پڑے ہوئے ہیں او رلوگوں میں شور ہے کہ محمد ﷺ آ گئے۔ محمد ﷺ آ گئے۔ میں نے آگے بڑھکر رتھ کا پردہ اُٹھایا تو اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف رکھتے تھے۔ آپ نے مجھے دیکھ کر فرمایا۔ کیا تم نے صدقہ نہیں کیا؟ مَیں نے کہا۔ حضور ہم نے تو صدقہ کروا دیا ہے۔ آپ نے فرمایا اور کروا دو۔ چنانچہ مَیں نے اور صدقہ کروا دیا۔ اس زمانہ میں دو روپیہ میں بکرا مل جاتا تھا۔ اور ہم نے پانچ پیسے میں سیر گوشت خریدا ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ غالباً اس زمانہ کی بات ہے جب حضرت صاحب ۱۹۰۵ء والے زلزلہ کے بعد باغ میں جا کر ٹھہرے تھے۔
{ 853} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک شخص بمبئی کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام کی زیارت کو آیا۔ اس کی داڑھی اور مونچھیں سب سفید تھیں۔ حضور نے ملاقات کے بعد ان سے پوچھا۔ آپ کی کیا عمر ہو گی۔ وہ شخص کہنے لگا کہ حضرت میں نے تو اپنا کوئی بال سیاہ دیکھا ہی نہیں نکلتے ہی سفید ہیں۔ یاد نہیں کہ اس نے اپنی عمر کتنی بتائی۔ اس کی بات سے حضرت صاحب نے تعجب کیا۔ اور پھر گھر میں جا کر بھی بیان کیا کہ آج ایک ایسا شخص ملنے آیا تھا۔
{ 854} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم نے دوسری شادی کی تو کسی وجہ سے جلدی ہی اس بیوی کو طلاق دیدی۔ پھر بہت مدت شاید سال کے قریب گزر گیا۔ تو حضرت صاحب نے چاہا کہ وہ اس بی بی کو پھر آباد کریں۔ چنانچہ مسئلہ کی تفتیش ہوئی اور معلوم ہوا کہ طلاق بائن نہیں ہے بلکہ رجعی ہے۔ اس لئے آپ کی منشاء سے ان کا دوبارہ نکاح ہو گیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ پہلی بیوی سے حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کے اولاد نہیں ہوتی تھی اور حضرت صاحب کو آرزو تھی کہ ان کے اولاد ہو جائے۔ اسی لئے آپ نے تحریک کرکے شادی کروائی تھی۔
{ 855} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ ہر الٰہی سلسلہ کا پہلا اور آخری نبی قتل سے محفوظ رکھا جاتا ہے۔ مگر درمیانی نبی اگر ان کے ساتھ مخصوص طور پر حفاظت کا وعدہ نہ ہو اور وہ اپنی بعثت کی غرض کو پورا کر چکے ہوں تو وہ قتل ہو سکتے ہیں چنانچہ فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل سے محفوظ رکھا۔ اور محمدی سلسلے میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو قتل سے محفوظ رکھا۔ اور میرے ساتھ بھی اس کا حفاظت کا وعدہ ہے۔ مگر فرماتے تھے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام دشمنوں کے ہاتھ سے قتل ہوئے تھے۔
{ 856} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام فرمایا کرتے تھے کہ جس طرح حضرت مسیح ناصری سے پہلے حضرت یحییٰ علیہ السلام بطور ارہاص کے مبعوث کئے گئے تھے اسی طرح مجھ سے پہلے سیّد احمد صاحب بریلوی بطور ارہاص کے مبعوث کئے گئے کیونکہ وہ تیرہویں صدی کے مجدّد تھے اور حضرت صاحب فرماتے تھے کہ یہ ایک عجیب مشابہت ہے کہ جس طرح حضرت یحییٰ علیہ السلام قتل ہوئے اسی طرح سید احمد صاحب بریلوی بھی قتل ہوئے۔ اور اس طرح خدا نے دونوں سلسلوں کے مسیحوں میں ایک مزید مشابہت پیدا کردی۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ قرآن شریف سے یہ پتہ لگتا ہے کہ ہر چیز اپنے آگے اور پیچھے دونوں طرف کسی نہ کسی رنگ میں اثر پیدا کرتی ہے اور نبوت کا یہ اثر ہے کہ اس سے پہلے ارہاص کا سلسلہ ہوتا ہے اور بعد میں خلافت کا۔ گویا نبوت کا وجود اپنے کمال میں تین درجوں میں ظاہر ہوتا ہے۔ پہلا درجہ ارہاص کا ہے جسے گویا کہ یوں سمجھنا چاہئے کہ جیسے سورج کے نکلنے سے پہلے شفق میں روشنی پیدا ہوتی ہے۔ دوسرا درجہ نبوت کا ہے جو اصل نور اور ضیاء کا مقام ہے۔ اور اس کے بعد تیسرا درجہ خلافت کا ہے جو نبی کے گذر جانے کے بعد ظاہر ہوتا ہے۔
ارہاص کے اظہار کی صورت مختلف رنگوں میں ہو سکتی ہے یعنی بعض اوقات تو کسی بڑے نبی سے پہلے کسی چھوٹے نبی یا ولی یا مجدّد کو نبی کے لئے راستہ صاف کرنے کے واسطے بھیجا جاتا ہے جیسا کہ حضرت مسیح ناصری اور حضرت مسیح موعود ؑ کے وقت میں ہوا۔ اور بعض اوقات کوئی خاص فرد مبعوث نہیں ہوتا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ ایسی رَو چلا دیتا ہے جس سے بعض سعید فطرتیں متاثر ہوکر نورِ نبوت کی تیاری میں لگ جاتی ہیں۔ جیسا کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہوا۔ یعنی آپؐ کی بعثت سے پہلے عرب میں چند افراد ایسے پیدا ہو گئے۔ جو شرک سے متنفّر ہو کر خدائے واحد کی تلاش میں لگ گئے اور اپنے آپ کو ’’حنیفی‘‘ کہہ کر پکارتے تھے۔ اور بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ارہاص ہر دو رنگوں میں ظاہر ہوتا ہے۔ یعنی کسی فرد کی بعثت کی صورت میں بھی۔ اور ایک رَو کی صورت میں بھی۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ ارہاص کے لفظی معنے بنیاد رکھنے یا کسی چیز کو مضبوط کرنے کے ہیں۔ چونکہ اللہ تعالیٰ سلسلہ ارہاص کے ذریعہ نورِ نبوت کی ابتدائی داغ بیل قائم کرتا ہے۔ اس لئے اس سلسلہ کو یہ نام دیا گیا۔ اور خلافت کے لفظ کی حقیقت ظاہر ہی ہے کہ نبی کی وفات کے بعد جو سلسلہ خلفاء کا نبی کے کام کو جاری رکھنے اور تکمیل تک پہنچانے کے لئے قائم ہوتا ہے۔ وہ خلافت ہے۔ جس کے لفظی معنے کسی کے پیچھے آنے اور قائم مقام بننے کے ہیں۔ واللہ اعلم۔
{ 857} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی محمد اسمٰعیل صاحب سیالکوٹی نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی میرے ماموں زاد بھائی تھے اور میرے بہنوئی بھی تھے۔ اور عمر میں مجھ سے قریباً آٹھ سال بڑے تھے۔ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام کی بیعت مجھ سے پہلے کی تھی اور اس کے بعد وہ ہمیشہ تحریک کرتے رہتے تھے۔ کہ مَیں بھی بیعت کر لوں۔ غالباً ۱۸۹۳ء میں ایک خواب کی بناء پر مَیں بھی بیعت کے لئے تیار ہو گیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بیعت کی غرض سے حاضر ہوا۔ اس وقت اتفاق سے میرے سامنے ایک شخص حضرت صاحب کی بیعت کر رہا تھا۔ مَیں نے جب بیعت کے یہ الفاظ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان سے سُنے کہ ’’ مَیں دین کو دُنیا پر مقدم رکھوںگا ‘‘ تو میرا دل بہت ڈر گیا کہ یہ بہت بھاری ذمہ واری ہے جسے مَیں نہیں اٹھا سکوں گا۔ اور مَیں بغیر بیعت کئے واپس لوٹ گیا۔ اس کے بعد ایک دفعہ مولوی صاحب مرحوم نے میری ہمشیرہ سے کہا کہ محمد اسمٰعیل لوگوں کو تو تبلیغ کرتا رہتا تھا اور خود بیعت نہیں کرتا۔ یہ بات سمجھ نہیں آتی۔ میری ہمشیرہ نے مجھے جب یہ بات سُنائی۔ تو مَیں نے خود مولوی صاحب سے پوچھا کہ کیا آپ نے ایسا کہا ہے؟ مولوی صاحب نے فرمایا۔ ہاں۔ تو مَیں نے مولوی صاحب کو کہا کہ مَیں علیحٰدگی میں بیعت کرونگا۔ اور میرے دل میں یہ خیال تھا کہ مَیں حضرت صاحب سے عرض کرونگا کہ ہر بات میں دین کو دُنیا پر مقدم کرنے کا اقرار مجھ سے نہ لیں۔ یعنی اس عہدسے مجھے معاف کر دیں۔ مولوی صاحب نے فرمایا کہ ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا۔ پھر اس کے کچھ عرصہ بعد مَیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور دل میں ارادہ تھا کہ حضرت صاحب پر اپنا خیال ظاہر کر دُوں گا۔ لیکن جب حضرت صاحب مسجد میں تشریف لائے اور مغرب کی نماز کے بعد تشریف فرما ہوئے تو کسی شخص نے عرض کی کہ حضور کچھ آدمی بیعت کرنا چاہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا۔ ’’آجائیں‘‘ اس ’’آ جائیں‘‘ کے الفاظ نے میرے دل پر ایسا گہرا اثر کیا کہ مجھے وہ تمام خیالات بھُول گئے اور مَیں بلا چون و چرا آگے بڑھ گیا اور بیعت کر لی۔ بیعت کے بعد جب حضرت صاحب کو میرے ان خیالات کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا کہ ہماری بیعت کی تو غرض ہی یہی ہے کہ ہم دینداری پیدا کریں۔ اگر ہم دین کو مقدم کرنے کا اقرار نہ لیں تو کیا پھر یہ اقرار لیں کہ مَیں دُنیا کے کاموں کو مقدم کیا کروں گا۔ اس صورت میں بیعت کی غرض و غایت اور حقیقت ہی باطل ہو جاتی ہے۔
{ 858} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی محمد اسمٰعیل صاحب سیالکوٹی نے مجھ سے بیان کیا کہ ڈاکٹر سر محمد اقبال جو سیالکوٹ کے رہنے والے تھے ان کے والد کا نام شیخ نور محمد تھا۔ جن کو عام لوگ شیخ نتھو کہہ کر پکارتے تھے۔ شیخ نور محمد صاحب نے غالباً ۱۸۹۱ء یا۱۸۹۲ء میں مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم اور سید حامد شاہ صاحب مرحوم کی تحریک پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی تھی۔ ان دنوں سر محمد اقبال سکول میں پڑھتے تھے اور اپنے باپ کی بیعت کے بعد وہ بھی اپنے آپ کو احمدیت میں شمار کرتے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے معتقد تھے چونکہ سر اقبال کو بچپن سے ہی شعروشاعری کا شوق تھا۔ اس لئے ان دنوں میں انہوں نے سعد اللہ لدھیانوی کے خلاف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تائید میں ایک نظم بھی لکھی تھی۔ مگر اس کے چند سال بعد جب سر اقبال کالج میں پہنچے۔ تو انکے خیالات میں تبدیلی آ گئی۔ اور انہوں نے اپنے باپ کو بھی سمجھا بجھا کر احمدیت سے منحرف کر دیا۔ چنانچہ شیخ نور محمد صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں ایک خط لکھا۔ جس میں یہ تحریر کیا کہ سیالکوٹ کی جماعت چونکہ نوجوانوں کی جماعت ہے اور مَیں بوڑھا آدمی ان کے ساتھ چل نہیں سکتا۔ لہٰذا آپ میرا نام اس جماعت سے الگ رکھیں۔ اس پر حضرت صاحب کا جواب میر حامد شاہ صاحب مرحوم کے نام گیا۔ جس میں لکھا تھا۔ کہ شیخ نور محمد کو کہدیویں کہ وہ جماعت سے ہی الگ نہیں بلکہ اسلام سے بھی الگ ہیں۔ اس کے بعد شیخ نور محمد صاحب نے بعض اوقات چندہ وغیرہ دینے کی کوشش کی لیکن ہم نے قبول نہ کیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھ سے میاں مصباح الدین صاحب نے بیان کیا کہ ان سے کچھ عرصہ ہوا ڈاکٹر بشارت احمد صاحب نے بیان کیا تھا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۹۱ء یا ۱۸۹۲ء میں سیالکوٹ تشریف لے گئے تھے اور آپ نے وہاں ایک تقریر فرمائی تھی جس میں کثرت کے ساتھ لوگ شامل ہوئے تھے اور ارد گرد کے مکانوں کی چھتوں پر بھی ہجوم ہو گیا تھا۔ تو اس وقت ڈاکٹر سر محمد اقبال بھی وہاں موجود تھے اور کہہ رہے تھے کہ دیکھو شمع پر کس طرح پروانے گر رہے ہیں۔نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ ڈاکٹر سر محمد اقبال بعد میں سلسلہ سے نہ صرف منحرف ہو گئے تھے بلکہ اپنی زندگی کے آخری ایام میں شدید طور پر مخالف رہے ہیں اور ملک کے نو تعلیم یافتہ طبقہ میں احمدیت کے خلاف جو زہر پھیلا ہوا ہے اس کی بڑی وجہ ڈاکٹر سر محمد اقبال کا مخالفانہ پراپیگنڈا تھا مگر سر محمد اقبال کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد صاحب درمیان میں کچھ عرصہ علیٰحدہ رہنے کے بعد حال ہی میں پھر سلسلہ میں شامل ہو گئے ہیں اور ان کے صاحبزادے یعنی سر محمداقبال کے بھتیجے شیخ اعجاز احمدؐ صاحب سب جج تو سلسلہ کے نہایت مخلص نوجوانوں میں سے ہیں۔
{ 859} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکڑمیر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ دہلی میں ایک احمدی تھے۔وہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام کی زندگی میں قادیان آئے۔حضور ایک دن سیر کو نکلے تو احمدیہ چوک میں سَیر میں ہمراہ جانے والوں کے انتظار میں کھڑے ہوگئے۔ ان دہلی والے دوست کا بچہ بھی پاس کھڑا تھا۔فرمایا کہ یہ آ پ کا لڑکا ہے؟ انہوں نے عرض کیا ۔جی ہاں۔پھر پوچھا اس کا کیا نام ہے انہوں نے کہا ’’خورشید الاسلام ‘‘مسکرا کر فرمانے لگے خورشید تو فارسی لفظ ہے اور ترکیب نام کی عربی ہے۔یہ غلط ہے۔صحیح نام شمس الاسلام ہے۔اس کے بعد ان صاحب نے اس بچہ کا نام بدل کر شمس الاسلام رکھدیا۔
{ 860} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیا ن کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے تھے پنجابی مثل ہے کہ ’’کتا راتوں۔گھوڑاساتوں۔آدمی باتوں‘‘۔یعنی کُتّا تو ایک رات میں چراغوں کا تیل چاٹ کر موٹا ہوجاتا ہے(اگلے زمانہ میں لوگ مٹی کے کھلے چراغ جلایا کرتے تھے۔اور ان میں تل یا سرسوں کا تیل استعمال ہوتا تھا ۔جسے بعض اوقات کتّے چاٹ جایا کرتے تھے)اور گھوڑا سات دن کی خدمت سے بارونق اور فربہ ہو جاتا ہے۔مگر آدمی کا کیا ہے وہ اکثر ایک بات سے ہی اتنا خوش ہو جاتا ہے کہ اس کے سُنتے ہی اس کے چہرہ اور بدن پر رونق اور صحت اور سُرخی آجاتی ہے اور فوراً ذرا سی بات ہی ایک عظیم الشان تغیر اس کی حالت میں پیدا کر دیتی ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس موقع پر مجھے حضرت مسیح ناصری کا یہ قول یاد آگیا ’’آدمی روٹی سے نہیں جیتا‘‘اس میں شُبہ نہیں کہ انسانی خلقت میں خدانے ایسا مادہ رکھا ہے کہ اس پر جذبات بہت گہرا اثر کرتے ہیں اور کسی کی ذرا سی محبت بھری نظر اس کے اندر زندگی کی لہر پیدا کر دیتی ہے اور ذرا سی چشم نمائی اس کی امنگوں پر اوس ڈال ریتی ہے۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{ 861} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک مرتبہ ایک لیکچر میں فرمایا کہ یہ پردہ جو گھروں میں بند ہو کر بیٹھنے والا ہے جس کے لئے وَقَرْنٌ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ کے الفاظ آئے ہیں۔یہ امہات المو منین سے خاص تھا۔ دوسری مومنات کے لئے ایسا پردہ نہیں ہے۔بلکہ ان کے لئے صرف اخفاء زینت والا پردہ ہے۔
{ 862} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو عمدہ کاغذ پر صحیح اور خوشخط کتابیں چھپوانے کا خاص خیال تھا۔سب سے پہلے تو محمد حسین صاحب مراد آبادی کا تب تھے جو نہایت مخلص بزرگ تھے۔انہوں نے کچھ حصّہ ابتدائی کتابوں کا لکھا ۔اس کے بعد امرتسر کے میاں غلام محمد کاتب سالہا سال تک کتابت کرتے رہے چونکہ حضرت صاحب کو ان کی صحیح نویسی اور خط پسند تھا۔اس لئے ہمیشہ ان کو ہی بُلالیا کرتے تھے۔پہلے وہ پندرہ ،بیس روپیہ ماہوار خشک پر آئے تھے۔پھر کہنے لگے۔حضور کھانا پکانے میں بڑا وقت ضائع ہوتا ہے۔اس لئے لنگر سے کھانا لگادیں۔آپ نے منظور کرلیااور تنخواہ بھی جاری رکھی پھر ایک مدّت بعد کہا کہ حضور یہ کھانا میرے مزاج کے موافق نہیں۔مَیں بیمار ہوجائوں گا۔حضور روٹی کی جگہ پانچ روپیہ نقد بڑھا دیں۔اورمَیں خود پکانے کا بندوبست کروں گا۔آپ نے یہ بھی منظور فرمالیا۔اور اس طرح تنخواہ میں پانچ کا اضافہ ہوگیا۔ پھر ایک مدت بعد پہلے کی طرح وقت نہ ملنے کی شکایت کی۔اور کہا مَیں حضور کا کام وقت پر نہیں دے سکتا۔سارا دن روٹی اور چولہے کے جھگڑے میں گذر جاتا ہے۔حضور اپنے ہاں سے روٹی لگا دیں ۔آپ نے لگا دی اور رقم بھی قائم رہی۔پھر ایک عرصہ بعد روٹی کی شکایت کرنے لگے۔اس کی جگہ پانچ روپے مزید بڑھا لئے۔غرض وہ ہمیشہ ایسا ہی کرتے رہے۔یہانتک کہ آخر تنخواہ چالیس روپیہ اور روٹی پر آگئی۔اس کے بعد خدا کا فضل ہوا کہ پیر منظور محمد صاحب نے حضور کو اس فکر سے بالکل مستغنی کردیا۔اور جیسی خوشخط صاف صاف صحیح کتابت آپ چاہتے تھے وہ پیر صاحب کے واسطے سے حاصل ہوگئی۔اور سالہاسال پِیرجی حضور کی کتابیں لکھتے رہے۔آخر پھر آخری ایام میں جب پیر جی اپنی بیماری کی وجہ سے لاچار ہوگئے۔توپھر میاں غلام محمدکو بلوایا گیااور اس نے بعض آخری کتب لکھیں۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ پیر منظور صاحب نے صرف خدمت کی خاطر اور حضرت صاحب کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کتابت سیکھی تھی اور خط میں ایک نیا طریق ایجاد کیا تھا۔جو بہت صاف اور خوبصورت اور کھلا کھلا تھا۔ مگر افسوس ہے کہ وہ کچھ عرصہ کے بعد جوڑوں کی تکلیف کی وجہ سے معذور ہوگئے۔پِیر صاحب حضرت منشی احمد جان صاحب لدھیانوی کے صاحبزادے ہیںاور نہایت صوفی مزاج بزرگ ہیں۔قاعدہ یسّرناالقرآن انہی کا ایجاد کردہ ہے۔جس کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اپنی ایک نظم میں تعریف فرمائی ہے۔
{ 863} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب اپنا باغ ٹھیکہ پر دیتے تھے تو پھل کی کچھ جنس ضرور اپنے لئے مقرر فرمالیتے تھے۔ بیدانہ شہتوت کے موسم میں دو تین دفعہ سب حاضر الوقت احباب کو لے کر ضرور باغ کی طرف سیرکے لئے جاتے تھے اور تازہ بیدانہ تڑوا کر سب کے ہمراہ نوش فرمایا کرتے تھے۔وہ چادر جس میں ٹھیکیدار بیدانے گرایا کرتا تھا۔اسی طرح لاکر سب کے سامنے رکھدی جاتی تھی۔اور سب احباب اس چادر کے گرد حلقہ باند ھکر بیٹھ جاتے اور شریک دعوت ہوتے۔اور آپ بھی سب کے ساتھ ملکر بالکل بے تکلّفی کے رنگ میں نوش فرماتے۔
{ 864} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔والدہ صا حبہ عزیز مرزا رشید احمد صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مَیں نے اپنی پھوپھی صاحبہ سے سُنا ہوا ہے کہ اگر کبھی کوئی عورت بچپن میں حضرت صاحب کے متعلق سندھی کا لفظ استعمال کرتی تھی تو دادا صاحب بہت ناراض ہوتے تھے۔کہ میرے بیٹے کا نام بگاڑدیا ہے۔اس طرح نہ کہا کرو ۔بلکہ اصل نام لے کر پکارا کرو۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حصّہ اول طبع دوم کی روایت نمبر51میں لفظ سندھی کے متعلق ایک مفصّل نوٹ گذر چکا ہے جو قابلِ ملاحظہ ہے۔جہاں یہ بتایا گیا ہے کہ ہندی میں سندھی کے معنے جوڑا پیدا ہونے والے کے ہیں اور چونکہ حضرت مسیح موعودؑ تو ام پیدا ہوئے تھے اس لئے بعض عورتیں آپ کو بچپن میں کبھی کبھی اس نام سے پکارلیتی تھیں ۔مگر چونکہ اس طرح اصل نام کے بگڑنے کا احتمال تھا اس لئے دادا صاحب منع فرماتے تھے نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ والدہ صاحبہ مرزا رشید احمد سے ہمارے بھائی خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کی بیوہ مراد ہیں۔جو حضرت مسیح موعود ؑ کے چچا زاد بھائی مرزا امام دین کی لڑکی ہیں اور ان کی پھوپھی صاحبہ سے ہماری تائی صاحبہ مراد ہیں جو حضرت صاحب کی بھاوجہ تھیں اور مرزا امام الدین کی سگی ہمشیرہ تھیں اور دادا صاحب سے ہمارے اپنے دادا یعنی حضرت مسیح موعود ؑ علیہ السلام کے والد مراد ہیں۔
{ 865} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کئی دفعہ یہ شعر پڑھتے سُنا ہے۔اور فرمایا کرتے تھے کہ زبان کے لحاظ سے یہ بڑا فصیح و بلیغ شعر ہے ؎
یاتو ہم پھرتے تھے ان میں یا ہوا یہ انقلاب

پھرتے ہیں آنکھوں کے آگے کوچہ ہائے لکھنؤ
خاکسار عرض کرتا ہے کہ شعر واقعی بہت لطیف ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ حضرت صاحب نے اسے صرف اس کی عام خوبی کی وجہ سے ہی پسند نہیں کیا ہوگا بلکہ غالباً آپ اپنے ذہن میں اس کے معانی کو خود اپنے پیش آمد ہ حالات پر بھی چسپاں فرماتے ہوں گے۔
{ 866} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ مجھے کئی بار حضرت احمد علیہ السلام کی مٹھیاں بھرنے اور پائوں دبانے کا موقعہ ملا ہے آپ کے جسم کا گوشت بہت سخت اور خوب کمایا ہوا تھا۔ایک دفعہ کسی بدبخت نے بجائے پائوں دبانے کے آپ کے پائوں پر چونڈھیاں بھرنی شروع کر دیں۔مگر آپ خاموشی سے برداشت کرتے رہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مٹھیاں بھرنا اور چونڈھیاں لینا پنجابی الفاظ ہیں۔ ان سے ہاتھ کی ہتھیلی سے جسم کو دبانا اورچٹکیاں لینا مراد ہے۔
{ 867} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت احمد علیہ السلام جب مقدمہ گورد اسپور کے ایام میں عدالت کے انتظار میں لب سٹرک گورداسپور میں گھنٹوں تشریف فرمارہتے تو بسا اوقات لوگ خیال کرتے کہ آپ ان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔مگر آپ اکثر کسی اورخیال میں مستغر ق ہوتے تھے۔اور بعض اوقات مجلس میں بیٹھے ہوئے بھی مجلس سے جُدا ہوتے تھے۔
{ 868} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔سیٹھی غلام نبی صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ۱۸۹۱ء یا ۱۸۹۲ء کی بات ہے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعویٰ کیااور ازالۂ اوہام وغیرہ تصنیف فرمایا۔تو اس وقت میں نہیں جانتا تھا کہ مرزا صاحب کون ہیں۔ایک دفعہ میں بخار کے عارضہ سے بیمار تھا کہ چوہدری محمد بخش صاحب چچا مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم راولپنڈی تشریف لائے اور میرے پاس ذکر کیا کہ تم کو نئی بات سُنائیں کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے دعویٰ کیا ہے کہ میں مسیح موعود اور مہدی ہوں۔مَیں نے دریافت کیا کہ مولوی نورالدین صاحب اور مولوی عبد الکریم صاحب کا کیا حال ہے۔انہوں نے جواب دیا ۔ کہ وہ تو دونوں مان گئے ہیں۔مَیں نے کہا کارڈ لائو۔چنانچہ مَیں نے بلا تو قف بیعت کا خط لکھدیا۔ جب بیماری سے اُٹھا اور دارالامان آیا تو یکیّ والے نے ایک مکان پر اتار دیا۔دیکھا تو مرزا امام دین تخت پوش پر بیٹھے ہوئے بوہڑ کے نیچے حقہ پی رہے تھے۔ان سے دریافت کیا کہ مرزا صاحب کہاں ہیں۔تو انہوں نے پوچھا کہ تم کہاں سے آئے ہو۔مَیں نے بتایا کہ راولپنڈی سے آیا ہوں۔جس پر انہوں نے بتایا کہ مرزا صاحب اس ساتھ والے مکان میں ہیں ۔مَیں دروازہ پر آیا تو شیخ حامد علی صاحب مرحوم باہرآئے اورمجھے اندربالا خانہ پر لے گئے۔اوپر جاکر دیکھا کہ ایک چارپائی بان سے بُنی ہوئی تھی۔اور ایک پُرانا میز تھا۔جس پر چند ایک پُرانی کتابیں پڑی ہوئی تھیںاور فرش پر ایک چٹائی بچھی ہوئی تھی۔پاس ہی ایک گھڑا پانی کا تھا۔ایک پرانا صندوق جس کا رنگ غالباً سبز تھا وہ بھی پڑا تھا۔حضرت صاحب کھڑے تھے۔ مَیں نے جاکر السلام علیکم عرض کیا۔حضرت صاحب نے سلام کا جواب دیااور مصافحہ کرکے فرمایا کہ بیٹھ جائو۔مَیں نے ادب کی خاطر عرض کیا کہ حضور آپ تو کھڑے ہیں اور مَیں چارپائی پر بیٹھ جائوں۔ اتنے میں ایک مستری صاحب آگئے انہوں نے کہا کہ حکم مانو اور جس طرح حضرت صاحب فرماتے ہیں اسی طرح کرو۔اس پرمَیں چارپائی پر بیٹھ گیا۔حضرت جی نے صندوق کھولا اور مصری نکال کرگلاس میں ڈالی اور پانی ڈال کر قلم سے ہلاکر آپ نے دست مبارک سے یہ شربت کا گلاس مجھے دیااور فرمایا کہ آپ گرمی میں آئے ہیں یہ شربت پی لیں۔لیکن مَیں حیران تھا کہ یا الٰہی ہم نے تو بہت پیر دیکھے ہیں ۔یہ تو بالکل سادہ انسان ہے۔ کوئی پیروں والا چلن نہیں۔پھرحکم دیا کہ اب گرمی سخت ہے اس لئے آپ آرام کریں ۔حافظ صاحب نے مجھے گول کمرہ میں چارپائی بچھا دی۔وہاں پر مَیں سویا رہا۔پھر ظہرکے وقت مسجد میں حضرت جی کی اقتداء میں نماز پڑھی۔اور اس وقت غالباً ہم تینوں ہی تھے (یعنی مَیں۔حافظ حامد علی اور حضرت جی)مَیں چند یوم یہاں ٹھہرا۔اور پھر حضرت جی سے براہین احمدیہ مانگی۔آپ نے فرمایا کہ ختم ہوچکی ہے۔مگرایک جلد ہے جس پر مَیں تصحیح کرتا ہوں۔اس میں بھی پہلا حصہ نہیں ہے۔مگر پہلا حصہ تو فقط اشتہار ہے آپ یہی تین حصے لے جائیں ۔وہ کتاب لے کر میں واپس آگیا۔ان دنوں دارالامان بالکل اجاڑ تھا۔پھر تھوڑی مدّت کے بعد سُنا کہ حضرت صاحب نے فرمایا ہے کہ مجھے الہام ہوا ہے کہ ’’بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈینگے‘‘ مَیں نے عرض کی کہ حضور وہ بادشاہ تو آئیں گے جب آئیں گے۔آپ مجھ کو تو ایک کپڑا عنایت فرمائیں۔حضرت صاحب نے اپنا کُرتہ مرحمت فرمایا۔جو اب تک میرے پاس موجود ہے۔ان ایام میں مَیں جب کبھی قادیان آتا تو دیکھتا تھا کہ حضرت صاحب مہمانوں سے مل کر کھانا کھاتے تھے اور روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے منہ میں ڈالتے جاتے تھے اور اچھی چیزیں ہم لوگوں کے لئے پکوا کر لاتے اور چائے وغیرہ جو چیز پکتی ،عنایت فرماتے اور بڑی محبت اور اخلاق سے پیش آتے۔جتنی دفعہ باہر تشریف لاتے۔اس عاجز سے محبت سے گفتگو فرماتے اورفرماتے کہ مَیں نے آپ کے لئے دُعا لازم کر دی ہے۔ایک دفعہ مَیں بمعہ اہل وعیال قادیان آیااورحضرت مولوی نورالدین صاحب کے مکان میں رہتا تھا۔قریباً بارہ بجے رات کا وقت ہوگا کہ کسی نے دستک دی۔میں جب باہر آیا تو دیکھا کہ حضور ایک ہاتھ میں لوٹا اور گلاس اور ایک ہاتھ میں لیمپ لئے کھڑے ہیں۔فرمانے لگے کہ کہیں سے دودھ آگیا تھا۔مَیں نے خیال کیا کہ بھائی صاحب کو بھی دے آئوں۔سبحان اللہ کیا اخلاق تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ ’’ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈینگے‘‘ والا الہام بہت پُرانا ہے مگر ممکن ہے کہ اس زمانہ میں پھر دوبارہ ہوا ہو۔یا سیٹھی صاحب نے اسے اس وقت سُنا ہو۔
{ 869} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ایک دفعہ دودھ کی برف کی مشین جس میں قُلفا یا صندوقچی کی برف بنائی جاتی ہے ،خرید کر منگائی اور اس میں گاہے بگاہے برف بنائی جاتی تھی۔ایک دن ایک برف بنانے والے کی بے احتیاطی اور زیادہ آگ دینے کی وجہ سے وہ پھٹ گئی اور تمام گھر میں ایمونیا کے بخارات ابر کی طرح پھیل گئے۔اور اس کی تیزی سے لوگوں کی ناکوں اور آنکھوں سے پانی جاری ہوگیامگرکوئی زیادہ نقصان نہیں ہوا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ پُرانی طرز کی مشین تھی جسے ایک طرف پانی میں رکھتے تھے اور دوسری طرف سے آگ دیتے تھے اور تقریباً دو تین گھنٹے میں برف جم جاتی تھی۔
{ 870} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹرمیر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے قادیان کی وہ حالت دیکھی ہے جبکہ یہاں کے عام لوگ اردو سمجھ نہیں سکتے تھے۔بڑی بڑی عمر کے مرد لنگوٹی باند ھتے تھے اور قریباً بر ہنہ رہتے تھے ۔ رات کو عورت مرد کپڑے اتار کر سرہانے رکھ دیتے تھے اور ننگے لحاف میں گھس جاتے تھے۔ بچے بڑی عمر تک ننگے پھرتے تھے۔سروں میں بیچ میں سے بال منڈے ہوئے ہوتے تھے۔ خدا رسول کا نام تک نہیں جانتے تھے۔ پڑھا لکھا کوئی کوئی ہوتا تھا۔ دال یا گڑیا لسّی یا آم کا اچار بس یہی نعماء تھیں۔سواری کے لئے بیل گاڑی یا یکّہ ہوتا تھا۔بیمارہوں تو کوئی علاج کا انتظام نہ تھا۔ مکانات تنگ اور کچے اور گندے تھے۔یا اب حضور کی برکت سے یہاں کے ادنیٰ لوگ بھی علم والے۔ اچھی پوشش اور ستردار کپڑا پہننے والے۔متمول۔جائز نعمتیں کھانے والے۔پڑھے لکھے۔دین کا علم رکھنے والے ہوگئے ہیں۔قادیان میں پختہ اور عمدہ مکانات بکثرت بن گئے،مدرسے قائم ہوگئے۔کمیٹی بن گئی۔ہسپتال ہوگیا۔موٹر ہوگئے۔طرح طرح کا تجارتی مال آگیا۔تار آگیااور اب تو ریل۔ٹیلیفون اور بجلی بھی آگئی ہے۔غرض دین کے ساتھ دنیاوی عروج بھی آگیا ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مَیں ان ترقی اورآرام کے سامانوں کو دیکھ کر کبھی کبھی خیال کرتا ہوں کہ خدا کی طرف سے قربانی کا مطالبہ بھی عجیب رنگ رکھتا ہے۔کہ ایک طرف قربانی کا مطالبہ فرماتا ہے اور پھر دوسری طرف قربانی کے خفیف سے اظہار پر خود ہی سب کچھ دینا شروع کر دیتا ہے۔یا شاید ہماری کمزوری کو دیکھ کر ہم سے خاص طور پر نرمی کا سلوک کیا گیا ہے۔مگر میں خیال کرتا ہوں کہ ابھی بعض بڑی قربانیوں کا زمانہ آگے آنے والا ہے۔واللہ اعلم
{ 871} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مَیں نے دو دفعہ دیکھا کہ مہمان خانہ میں بعض لوگوں نے روزوں پر زور دیا تو ان میں جنون کے آثارپیدا ہوگئے اور بہت دودھ پلا کر اور علاج کرکے ان کی خشکی دور ہوئی۔اور کئی دن میں اچھے ہوئے۔یہ دونوں واقعے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کے ہیں۔اور دونوں سرحد کی طرف کے لوگوں کے متعلق ہیں۔حضور فرماتے تھے کہ جب تک خداکی طرف سے اشارہ نہ ہو۔اپنی طاقت سے زیادہ روزے رکھنے اورپھر غذا نہ کھانا آخر مصیبت لاتا ہے۔اور فرماتے تھے کہ ہم نے تو ایمائے الہٰی سے روزوں کا مجاہدہ کیا تھا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس فلسفہ کو حضرت صاحب نے کتاب البریہ میں بیان کیا ہے۔
{ 872} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس سفر دہلی میں جو آپ نے اوائل دعویٰ میں۱۸۹۱ء میں کیا تھا مَیں اور والدہ صاحبہ حضرت صاحب کے ساتھ تھے۔میر صاحب یعنی والد صاحب کی تبدیلی پٹیالہ ہوئی تھی۔وہ وہاں نئے کام کا چارج لینے گئے تھے۔اس لئے ہم کو حضرت صاحب کے ساتھ چھوڑ گئے تھے۔حضرت صاحب نواب لوہارو کی کوٹھی کے اُوپر جو مکان تھا اس میں اُتر ے تھے۔یہیں ایک طرف مردانہ اور دوسری طرف زنانہ تھا۔اکثراوقات زنانہ سیڑھی کے دروازوں کو بند رکھا جاتا تھا۔کیونکہ لوگ گالیاں دیتے ہوئے اُوپر چڑھ آتے تھے اور نیچے ہر وقت شوروغوغا رہتا تھااور گالیاں پڑتی رہتی تھیں۔بدمعاش لوگ اینٹیں اور پتھرپھینکتے تھے۔میری والدہ صاحبہ نے ایک روز مجھے سُنایا کہ جو بُڑھیا روٹی پکانے پر رکھی ہوئی تھی۔وہ ایک دن کہنے لگی کہ’’ بیوی یہاں آجکل دہلی میں کوئی آدمی پنجاب سے آیا ہوا ہے اور وہ کہتا ہے کہ مَیں حضرت عیسٰے ہوں اور امام مہدی ہوں ۔ اس نے شہر میں بڑا فساد مچا رکھا ہے اور کفر کی باتیں کر رہا ہے۔کل میرا بیٹا بھی چھری لیکر اس کو مارنے گیا تھا۔کئی ہلّے کئے۔مگر دروازہ اندر سے بند تھا کھل نہ سکا۔مولویوں نے کہہ رکھا ہے کہ اس کو قتل کر دو۔مگر میرے لڑکے کو موقعہ نہ ملا‘‘۔اس بیچاری کو اتنی خبر نہ تھی کہ جن کے گھر میں بیٹھی وہ یہ باتیں کر رہی ہے یہ انہی کا ذکر ہے اور اسی گھر پر حملہ کرکے اس کا بیٹا آیا تھا۔اور بیٹے صاحب کو بھی پتہ نہیں لگاکہ میری ماں اسی گھر میں کام کرتی ہے۔
{ 873} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میر حامد شاہ صاحب سیالکوٹی تو ابتداء دعوے مسیحیّت سے ہی بیعت میں داخل ہو گئے تھے۔مگر ان کے والد حکیم حسام الدین صاحب جو بڑے طنطنہ کے آدمی تھے وہ اعتقاد تو عمدہ رکھتے تھے مگر بیعت میں داخل نہیں ہوتے تھے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے وہ بڑے تھے اور سیالکو ٹ کے زمانہ کے دوست بھی تھے۔میر حامد شاہ صاحب ہمیشہ ان کو بیعت کے لئے کہتے رہتے تھے مگر وہ ٹال دیتے تھے۔ان کو اپنی بڑائی کا بہت خیال تھا۔ایک دفعہ شاہ صاحب ان کو قادیان لے آئے اور سب دوستوںنے ان پر زور دیا کہ جب آپ سب کچھ مانتے ہیں تو پھر بیعت بھی کیجئے۔خیر انہوں نے مان لیا مگر یہ کہا کہ مَیںاپنی وضع کا آدمی ہوں ۔لوگوں کے سامنے بیعت نہ کرونگا ۔مجھ سے خفیہ بیعت لے لیں ۔میر حامد شاہ صاحب نے اسے ہی غنیمت سمجھا۔حضرت صاحب سے ذکر کیا تو آپ نے منظور فرمالیا اور علیحدگی میں حکیم صاحب مرحوم کی بیعت لے لی۔
{ 874} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میرمحمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ پلیگ کے ایام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دوا جس کا نام’’درونجِ عقربی ‘‘ہے اور اس کی شکل بچھوکی طرح ہوتی ہے تاگے میں باندھکر گھر میں کئی جگہ لٹکا دی تھی۔اور فرماتے تھے کہ حکماء نے اس کی بابت لکھا ہے کہ یہ ہوا کو صاف کرتی ہے۔
{ 875} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حافظ نور محمد صاحب ساکن فیض اللہ چک ضلع گورداسپور نے مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا صاحبزادہ بشیر اوّل فوت ہوگیا اور خاکسار بطور تعزیت حضرت صاحب کے پاس گیا اور عرض کی کہ حضور مخالفین اس واقعہ پر بہت تمسخر کرتے ہیں تو آپ نے جوا ب میں یہ آیات پڑھکر سُنادیں۔ مَانَنْسَخْ مِنْ اٰ یَۃٍ اَوْنُنْسِھَا نَأتِ بِخَیْرٍمِّنْھَا اَوْ مِثْلِھَا(البقرۃ:۱۰۷) اور حَتّٰی اِذَا اسْتَایْئَسَ الرُّسُلُ وُظَنُّوْ اَنَّھُمْ قَدْ کُذِّبُوْاجَائَ ھُمْ نَصْرُنَا (یوسف:۱۱۱)
خاکسارعرض کرتا ہے کہ ان آیات قرآنی کے معنے یہ ہیں کہ ہم جب کسی آیت کو منسُوخ کرتے ہیںیا فراموش کرادیتے ہیں تو پھر اس سے بہتر آیت لاتے ہیںیا اسی کی مثل لے آتے ہیںاور جب خدا کے رسول یہ دیکھتے ہیں کہ بظاہر مایوسی کی حالت پیدا ہوگئی ہے اور خیال کرتے ہیں کہ ہم سے جو وعدہ ہوا تھا شاید اس کے کچھ اور معنے تھے تو ایسے وقت میں ہمارے فرشتے ان کی نصرت کے لئے پہنچ جاتے ہیں اور وہ بات جو بظاہر بگڑ ی ہوئی نظر آتی تھی پھر سنبھل جاتی ہے۔
{ 876} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حافظ نور محمد صاحب ساکن فیض ا للہ چک نے مجھ سے بیان کیا کہ ہمارے دوستوں میں سے ایک شخص چراغ علی نامی تِھہ غلام نبی کے رہنے والے تھے اور وہ حافظ حامد علی صاحب کے چچا تھے،ان کو شادی کی ضرورت تھی۔ہم نے متفق ہو کران کی شادی موضع کھارہ میں کروادی۔مگر وہ اس شادی کے چند روز بعد ہی فوت ہوگئے۔ہم نے شادی کے موقعہ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مشورہ نہ کیا تھا۔جب حضور کو معلوم ہوا کہ اس کی شادی ہوچکی ہے تو آپ نے فرمایا کہ میاں حامد علی تم نے ہم کو کیوں نہ بتایا کہ اس کی شادی کرنے لگے ہیں۔اس کی شادی نہیں کرنی چاہئیے تھی کیونکہ اس کو ضعف جگر کا مرض تھااور موجودہ حالت میں وہ شادی کے قابل نہیں تھا۔چنانچہ وہ شادی کے چند روز بعد فوت ہوگئے۔
{ 877} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے احباب کو جب خط لکھتے تو یا تو ’’حِبّی فی اللہ‘‘ یا مکرمی اخویم‘‘ لکھ کر مخاطب کرتے تھے۔ کئی دفعہ مجھے ڈاک میں ڈالنے کو لفافے دیتے تو میں پتے دیکھتا کہ کس کے نام کے خط ہیں سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراسی اور زین الدین ابراہیم صاحب انجینئر بمبئی اور میاں غلام نبی صاحب سیٹھی راولپنڈی کے پتے مجھے اب تک یاد ہیں۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ تینوں اصحاب اس وقت جو جنوری ۱۹۳۹ء ہے فوت ہوچکے ہیں۔کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ وَّیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلَالِ وَالْاِکْرَام ـ (الرحمن:۲۷،۲۸)
{ 878} بسم اللہ الر حمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اگر تیمم کرنا ہوتاتو بسا اوقات تکیہ یا لحاف پر ہی ہاتھ مار کر تیمم کر لیا کرتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ تکیہ یا لحاف میں سے جو گرد نکلتی ہے وہ تیمم کی غرض سے کافی ہوتی ہے۔لیکن اگر کوئی تکیہ یا لحاف بالکل نیا ہو اور اس میں کوئی گرد نہ ہو تو پھر اس سے تیمم جائز نہ ہوگا۔
{ 879} بسم اللہ الر حمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد میں آپ کی لڑکی عصمت ہی صرف ایسی تھی جو قادیان سے باہر پیدا ہوئی اور باہر ہی فوت ہوئی۔اس کی پیدائش انبالہ چھائونی کی تھی اور فوت لدھیانہ میں ہوئی۔اُسے ہیضہ ہوا تھا۔اس لڑکی کو شربت پینے کی عادت پڑ گئی تھی۔یعنی وہ شربت کو پسند کرتی تھی۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کے لئے شربت کی بوتل ہمیشہ اپنے پاس رکھا کرتے تھے۔رات کو وہ اٹھا کرتی تو کہتی ابّا شربت پینا۔آپ فوراً اُٹھکر شربت بنا کر اسے پلادیا کرتے تھے۔ایک روزلدھیانہ میں اس نے اسی طرح رات کو اُٹھکر شربت مانگا۔حضرت صاحب نے اُسے شربت کی جگہ غلطی سے چنبیلی کا تیل پلا دیا۔جس کی بوتل اتفاقاً شربت کی بوتل کے پاس ہی پڑی تھی۔لڑکی بھی وہ’’شربت‘‘پی کر سو رہی ۔صبح جب تیل کم اور گلاس چکنا دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ غلطی ہوگئی ہے مگر خدا کے فضل سے نقصان نہیں ہوا۔نیزمیر صاحب نے بیان کیا کہ لڑکی کے فوت ہونے کے بعد حضرت صاحب بمعہ ام المؤ منین وغیرھا لدھیانہ سے ایک ہفتہ کے لئے امرتسر تشریف لے گئے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ عصمت ہماری والدہ کی اولاد میں سب سے بڑی تھی اور وہ ۱۸۸۶ء میں پیدا ہوئی تھی اور ۱۸۹۱ء میں فوت ہوئی۔
{ 880} بسم اللہ الر حمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایکدفعہ اس جگہ جہاں اب نواب صاحب کے شہر والے مکان کا دروازہ ہے اور فخرالدین ملتانی کی دُکان ہوتی تھی۔کچھ زمین خالی پڑی تھی۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہاں ایک کچّا مکان تعمیر کرنا چاہا۔جب راج مزدور لگے تو مرزا امام الدین مع اپنے رفیقوں کے آگیااور گالی گلوچ اور فساد پر آمادہ ہوگیا۔حضرت صاحب کو اطلاع ملی تو آپ نے فرمایا کہ تعمیر بند کردو اور فساد نہ کرو۔چنانچہ وہ زمین یونہی پڑی رہی۔کچھ مدّت بعد جب مرزا امام الدین ومرزا نظام الدین ایک مقدمہ پر بٹالہ یا گورداسپور گئے ہوئے تھے تو تمام مہمانوں ، ملازموںاور مدرسہ کے لڑکوںنے مل کر مزدوروں کی طرح سامانِ عمارت لاکراور گارا وغیرہ تیار کر کے اس مکان کو دن بھر میں تیار کردیا۔جب عمالیق واپس آئے۔تو سرپکڑ کر رہ گئے مگر پھر کیا کر سکتے تھے کیونکہ جگہ تو حضرت صاحب کی ہی تھی اور وہ صرف شرارت کر رہے تھے۔یہ وہ مکان تھا جس میں مولوی شیر علی صاحب سالہا سال تک رہتے رہے ہیں اور اب اس میں نواب صاحب کا مکان ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے یاد ہے کہ اسی رنگ میں ایک دفعہ موجودہ مدرسہ احمدیہ کی عمارت کا ایک کمرہ بھی راتوں رات تیار ہوا تھا۔دراصل مرزا امام الدین اور مرزا نظام الدین صاحبان محض سینہ زوری سے حضرت صاحب کے بعض مملکات سے حضور کو محروم کرنا چاہتے تھے اور حضرت صاحب فساد سے بچتے ہوئے رُک جاتے تھے لیکن جب ان لوگوں کی قادیان سے غیر حاضری کی وجہ سے موقعہ ملتا تھا تو جلدی جلدی عمارت کھڑی کر دی جاتی تھی۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{ 881} بسم اللہ الر حمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ قادیان کے سادات میں ایک صاحب سید محمد علی شاہ صاحب تھے۔وہ مقامی غیر احمدیوں میں اور حکّام میں بھی کچھ اثر ورسوخ رکھتے تھے اور قادیان کے رہنے والے مسلمانوں میں معزز بھی تھے۔ انہوں نے کئی دفعہ بیعت کا ارادہ ظاہر کیامگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیعت نہ لی۔فرمایا جب آپ نے ہمیں مان لیا اور بیعت کا ارادہ کر لیا تو آپ مریدہی ہیں مگر بیعت ہم اس وجہ سے نہیں لیتے کہ آپ موجودہ حالات میں جماعت سے باہر رہ کر بہتر طور پر خدمت بجا لا سکتے ہیں۔جو جماعت کے آدمی سر انجام نہیں دے سکتے چنانچہ وہ ایسا ہی کرتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ انہوں نے بالآخر بیعت کر لی تھی اور تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں حضرت عباسؓ کو بھی اسی قسم کے حالات میں کچھ عرصہ اپنے اسلام کو مخفی رکھنا پڑا تھا ۔یعنی وہ آپ کے منشاء کے ماتحت ظاہر طور پر ایمان لانے سے رُکے رہے تھے۔
{ 882} بسم اللہ الر حمن الرحیم۔ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک مرتبہ میرے گھر سے یعنی والدہ ولی اللہ شاہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور مرد تو آپ کی تقریر بھی سُنتے ہیںاور درس بھی سنتے ہیں۔لیکن ہم مستورات اس فیض سے محروم ہیں۔ہم پر کچھ مرحمت ہونی چاہئے۔کیونکہ ہم اسی غرض سے آئے ہیں کہ کچھ فیض حاصل کریں۔حضور بہت خوش ہوئے اور فرمانے لگے کہ جو سچے طلب گار ہیں ان کی خدمت کے لئے ہم ہمیشہ ہی تیار ہیں۔ہمارا یہی کام ہے کہ ہم ان کی خدمت کریں ۔اس سے پہلے حضورنے کبھی عورتوں میں تقریر یادرس نہیں فرمایا تھا مگر ان کی التجا اور شوق کو پوراکرنے کے لئے عورتوں کو جمع کرکے روزانہ تقریر شروع فرمادی جو بطور درس تھی ۔پھر چند روز بعد حکم فرمایا کہ مولوی عبدالکریم صاحب اور مولوی نورالدین صاحب اور دیگر بزرگ بھی عورتوں میں درس دیا کریں۔ چنانچہ مولوی عبدالکریم صاحب درس کے لئے بیٹھے اور سب عورتیںجمع ہوئیں ۔چونکہ ان کی طبیعت بڑی آزاد اور بے دھڑک تھی ۔ تقریر کے شروع میں فرمانے لگے۔کہ اے مستورات! افسوس ہے کہ تم میں سے کوئی ایسی سعیدروح والی عورت نہ تھی جوحضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو تقریر یا درس کے لئے توجہ دلاتی اور تحریک کرتی۔تمہیں شرم کرنی چاہئے۔اب شاہ صاحب کی صالحہ بیوی ایسی آئی ہیںجس نے اس کار خیر کے لئے حضور کو توجہ دلائی اور تقریر کرنے پر آمادہ کیا ۔تمہیں ان کا نمونہ اختیار کرنا چاہئے۔نیز حضرت خلیفہ اولؓ بھی اپنی باری سے تقریر اور درس فرمانے لگے۔اس وقت سے مستورات میں مستقل طور پر تقریر اور درس کا سلسلہ جاری ہوگیا۔
{ 883} بسم اللہ الر حمن الرحیم۔حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کے حرم یعنی اماں جی نے مجھ سے بیان کیا کہ جب۱۹۰۸ء میں حضرت مسیح موعود ؑ آخری دفعہ لاہور تشریف لے جانے لگے اور اسی سفر میں آپ کی وفات ہوئی تو مَیں دیکھتی تھی کہ آپ اس موقعہ پر قادیان سے باہر جاتے ہوئے بہت متأمّل تھے اور فرماتے بھی تھے کہ میرا اس سفر پر جاتے ہوئے دل رُکتا ہے۔مگر چونکہ حضرت ام المومنین اور بچوں کی خواہش تھی اس لئے آپ تیار ہوگئے۔پھر جب آپ روانہ ہونے لگے تو آپ نے اپنے کمرہ کو جو حجرہ کہلاتا تھا خود اپنے ہاتھ سے بند کیا اور جب آپ اس کے دروازہ کو قفل لگا رہے تھے۔تو مَیں نے سُنا کہ آپ بغیر کسی کو مخاطب کرنے کے یہ الفاظ فرما رہے تھے کہ اب ہم اس کمرہ کو نہیں کھولیں گے۔جس میں گویا یہ اشارہ تھا کہ اسی سفر کی حالت میں آپ کی وفات ہوجائیگی۔
خاکسارعرض کرتا ہے کہ اور بھی کئی قرائن سے پتہ لگتا ہے کہ حضرت صاحب خدائی الہامات کی بنا پر یقین رکھتے تھے کہ آپ کی وفات کا وقت آپہنچا ہے۔اور یہ کہ اسی سفر لاہور میں آپ کو سفر آخرت پیش آجائے گا۔مگر باوجود اس کے جس تسلی اور اطمینان کے ساتھ آپ نے آخروقت تک اپنے کام کو جاری رکھاوہ آپ ہی کا حصہ ہے۔ اور یقینا وہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کو اپنے منجانب اللہ ہونے پر کامل یقین تھا اور آپ کے لئے آخرت کی زندگی ایسی ہی یقینی تھی جیسی کہ یہ زندگی ہے۔ورنہ کوئی دوسرا ہوتا تو اس موقعہ پر ہاتھ پائوں ڈھیلے ہوجاتے۔
{ 884} بسم اللہ الر حمن الرحیم۔ڈاکٹر سیّد عبد الستار شاہ صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ مجھے تین مہینے کی رخصت لے کر معہ اہل واطفال قادیان میں ٹھہرنے کا اتفاق ہوا۔ان دنوں میں ایسا اتفاق ہوا کہ والدہ ولی اللہ شاہ کے دانت میں سخت شدت کا درد ہوگیا۔جس سے اُن کو نہ رات کو نیند آتی تھی اور نہ دن کو۔ڈاکٹری علاج بھی کیامگر کوئی فائدہ نہ ہوا۔حضرت خلیفہ اولؓ نے بھی دوا کی مگر آرام نہ آیا۔حضرت ام المومنین نے حضور کی خدمت میں عرض کی کہ ڈاکٹر عبد الستار شاہ صاحب کی بیوی کے دانت میں سخت درد ہے اور آرام نہیں آتا۔حضرت نے فرمایاکہ ان کو یہاں بُلائیں کہ وہ مجھے آکر بتائیںکہ انہیں کہاں تکلیف ہے ۔چنانچہ انہوں نے حاضر ہو کر عرض کی کہ مجھے اس دانت میں سخت تکلیف ہے۔ڈاکٹری اور مولوی صاحب کی بہت دوائیں استعمال کی ہیں مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا۔آپ نے فرمایاکہ آپ ذرا ٹھہریں ۔چنانچہ حضور نے وضو کیا اور فرمانے لگے کہ مَیں آپ کے لئے دُعا کرتا ہوں۔آپ کو اللہ تعالیٰ آرام دے گا۔گھبرائیں نہیں۔حضور نے دو نفل پڑھے اور وہ خاموش بیٹھی رہیں۔ اتنے میں انہیں محسوس ہوا کہ جس دانت میں درد ہے اس دانت کے نیچے سے ایک شعلہ قدرے دھوئیں والادانت کی جڑھ سے نکل کر آسمان کی طرف جا رہا ہے اور ساتھ ہی درد کم ہوتا جاتا ہے۔چنانچہ جب وہ شعلہ آسمان تک جاکر نظر سے غائب ہوگیا تو تھوڑی دیر بعد حضور نے سلام پھیرا اور وہ درد فوراً رفع ہو گیا۔ حضور نے فرمایا۔کیوں جی !اب آپ کا کیا حال ہے ؟انہوں نے عرض کی۔حضور کی دُعا سے آرام ہوگیا ہے۔اور ان کو بڑی خوشی ہوئی کہ خُدا نے ان کو اس عذاب سے بچالیا۔
{ 885} بسم اللہ الر حمن الرحیم۔ڈاکٹر سیّد عبدالستار شاہ صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ڈاکٹر عبداللہ صاحب نے مجھ سے ذکر کیا کہ مَیں نے ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دریافت کیا کہ کبھی حضور نے فرشتے بھی دیکھے ہیں؟ اس وقت حضور بعد نماز مغرب مسجد مبارک کی چھت پر شہ نشین کی بائیں طرف کے مینار کے قریب بیٹھے تھے۔فرمایا کہ اس مینار کے سامنے دو فرشتے میرے سامنے آئے۔جن کے پاس دو شیریں روٹیاں تھیں اور وہ روٹیاں انہوں نے مجھے دیں اور کہا کہ ایک تمہارے لئے ہے اور دوسری تمہارے مریدوں کے لئے ہے۔
خاکسار عر ض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کا یہ رئو یا چھپ چکا ہے۔مگر الفاظ میں کچھ اختلاف ہے۔نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ مکرم ڈاکٹر عبدالستار شاہ صاحب اس وقت جو جنوری ۱۹۳۹ء ہے وفات پاچکے ہیں اور جن ڈاکٹر عبداللہ صاحب کا اس روایت میں ذکر ہے اس سے شیخ محمد عبداللہ نو مسلم مراد ہیں۔جو افسوس ہے کہ کچھ عرصہ سے بیعت خلافت سے منحرف ہیں۔
{ 886} بسم اللہ الر حمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمداسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام عورتوں اور لڑکیوں کے لئے کسی قدر زیور اور رنگین کپڑے اور ہاتھوں میں مہندی پسند فرماتے تھے اور آجکل جو عورتوں کا مردانہ فیشن دنیا میں مروّج ہوتا جا رہا ہے وہ ان دنوں میں بہت کم تھا۔ اور حضور کو پسند نہ تھا۔
{ 887} بسم اللہ الر حمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک دفعہ سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراسی نے ایک پارسل نمک لگی ہوئی یعنی محفوظ کی ہوئی مچھلی کا بھیجا۔وہ مچھلی اس علاقہ میں نہایت اعلیٰ سمجھی جاتی تھی۔حضرت صاحب نے بہت شوق سے وہ پارسل کھلوایا۔مچھلی کا کھلنا تھاکہ تمام مکان بدبو سے بھر گیا۔(دراصل مچھلی سڑی ہوئی نہ تھی۔بلکہ اس میں ایسی ہی بساندھ ہوتی ہے۔وہاں کے لوگ اُسے بھون کر کھاتے ہیں اور واقعی نہایت لذیذہوتی ہے۔مگر بساندھ اور بدبو برابر رہتی ہے۔)حضرت صاحب نے فرمایا۔کہ اسے لے جائو اور گائوں سے دور لے جا کر ڈھاب کے کنارے دفن کردو۔اس میں سخت بدبو ہے۔خاکسار عرض کرتاہے کہ حضرت صاحب کو بدبو سے بہت نفرت تھی۔
{ 888} بسم اللہ الر حمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں جب لوگ حضور سے ملنے قادیان آتے یا جلسہ اور عیدین وغیرہ کے موقعوں پر آتے تو بہت دیر تک ٹھہرا کرتے تھے۔ آج کل لوگ ان موقعوں پر بہت کم آتے ہیں اور آتے ہیں تو بہت کم ٹھہرتے ہیں۔ ان ایام میں بعض لوگ پیدل بھی اپنے وطن سے آتے تھے۔ ایک شخص وریام نامی تھا جو جہلم سے پیدل آتا تھا۔ اور ایک مولوی جمال الدین صاحب سید والہ ضلع شیخوپورہ کے تھے جو بمعہ ایک قافلہ کے پیدل کوچ کرتے ہوئے قادیان آیا کرتے تھے۔ حضور علیہ السلام کا بھی قاعدہ تھا کہ کثرت سے ملتے رہتے اور قادیان میں بار بار آنے کی تاکید فرماتے رہتے تھے۔
{ 889} بسم اللہ الر حمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میاں الہ دین فلاسفر اور پھر اس کے بعد مولوی یار محمد صاحب کو ایک زمانہ میں قبروں کے کپڑے اتار لینے کی دھت ہو گئی تھی۔ یہاں تک کہ فلاسفر نے ان کو بیچ کر کچھ روپیہ بھی جمع کر لیا۔ ان لوگوں کاخیال تھا کہ اس طرح ہم بدعت اور شرک کو مٹاتے ہیں۔ حضرت صاحب نے جب سنا تو اس کام کو ناجائز فرمایا۔ تب یہ لوگ باز آئے اور وہ روپیہ اشاعت اسلام میں دے دیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اسلام نے نہ صرف ناجائز کاموں سے روکا ہے بلکہ جائز کاموں کے لئے ناجائز وسائل کے اختیار کرنے سے بھی روکا ہے۔
{ 890} بسم اللہ الر حمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میاں الٰہ دین عرف فلاسفرکو بعض لوگوں نے کسی بات پر مارا۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو علم ہواتو آپ بہت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ اگر وہ عدالت میں جائے اور تم وہاں اپنے قصور کا اقرار کرلو تو عدالت تم کو سزا دیگی اور اگر جھوٹ بولو اور انکار کردو۔تو پھر تمہارا میرے پاس ٹھکانا نہیں۔غرض آپ کی ناراضگی سے ڈر کر اُن لوگوں نے اسی وقت فلاسفر سے معافی مانگی اور اس کو دودھ پلایا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس واقعہ کا ذکر روایت نمبر۴۳۴ میں بھی ہو چکا ہے اور مارنے کی وجہ یہ تھی کہ فلاسفر صاحب منہ پھٹ تھے۔اور جو دل میں آتا تھا وہ کہہ دیتے تھے اور مذہبی بزرگوں کے احترام کا خیال نہیں رکھتے تھے۔چنانچہ کسی ایسی ہی حرکت پر بعض لوگ انہیں ماربیٹھے تھے مگر حضرت مسیح موعود نے اسے پسند نہیں فرمایا۔آجکل فلاسفر صاحب اسی قسم کی حرکات کی وجہ سے جماعت سے خارج ہوچکے ہیں۔
{ 891} بسم اللہ الر حمن الرحیم۔قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ مَیں نے پہلی مرتبہ دسمبر۱۹۰۲ء میں بموقعہ جلسہ سالانہ حضرت احمد علیہ السلام کو دیکھا۔حضرت سیّد عبداللطیف صاحب شہید کابل بھی ان ایام میں قادیان میں مقیم تھے۔حضرت اقدس ان سے فارسی زبان میں گفتگو فرمایا کرتے تھے۔
{ 892} بسم اللہ الر حمن الرحیم۔قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب میں پہلی مرتبہ قادیان آیاتوحضرت اقدس ان ایام میں حضرت مولانا عبدالکریم صاحب کی اقتدا میں نماز پڑھا کرتے تھے اورمسجد مبارک میں جو گھر کی طرف کو ایک کھڑکی کی طرز کا دروازہ ہے اس کے قریب دیوار کے ساتھ کھڑے ہوا کرتے تھے۔ بحالت نماز ہاتھ سینہ پر باندھتے تھے اور اکثر اوقات نماز مغرب سے عشاء تک مسجد کے اندر احباب میں جلوہ افروز ہو کر مختلف مسائل پر گفتگو فرماتے تھے۔
{ 893} بسم اللہ الر حمن الرحیم۔قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک زمانہ میں حضرت اقدس ؑ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کے ساتھ اس کوٹھڑی میں نماز کے لئے کھڑے ہوا کرتے تھے جو مسجد مبارک میں بجانب مغرب تھی۔مگر ۱۹۰۷ء میں جب مسجد مبارک وسیع کی گئی۔تو وہ کوٹھڑی منہدم کردی گئی۔اس کوٹھری کے اندر حضرت صاحب کے کھڑے ہونے کی وجہ اغلباً یہ تھی کہ قاضی یار محمد صاحب حضرت اقدس کو نماز میں تکلیف دیتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ قاضی یار محمد صاحب بہت مخلص آدمی تھے۔مگر ان کے دماغ میں کچھ خلل تھا۔جس کی وجہ سے ایک زمانہ میں ان کا یہ طریق ہوگیا تھا کہ حضرت صاحب کے جسم کو ٹٹولنے لگ جاتے تھے اور تکلیف اور پریشانی کا باعث ہوتے تھے۔
{ 894} بسم اللہ الر حمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضور مسیح موعود علیہ السلام نکاح کے معاملہ میں قوم اور کفو کو ترجیح دیتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے۔کہ لوگوں نے بات کو بڑھالیا ہے مگر اس میں شبہ نہیں کہ عام حالات میں اپنی قوم کے اندر اپنے کفو میں شادی کرنا کئی لحاظ سے اچھا ہوتا ہے۔مگر یہ خیال کرنا کہ کسی حالت میں بھی قوم سے باہر رشتہ نہیں ہونا چاہئے غلطی ہے۔اور کفو سے مراد اپنے تمدّن اور حیثیت کے مناسب حال لوگ ہیں۔خواہ وہ اپنی قوم میں سے ہوں یا غیر قوم سے۔
{ 895} بسم اللہ الر حمن الرحیم۔ڈاکٹر سیّد عبد الستار شاہ صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ اول اول جب میں نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی۔تو آپ نے فرمایا کہ آپ کو ہمارے پاس بار بار آنا چاہئے تاکہ ہمارا فیضان قلبی اور صحبت کے اثر کا پَر تَو آپ پر پڑ کر آپ کی روحانی ترقیات ہوں ۔مَیں نے عرض کی کہ حضور ملازمت میں رخصت بار بار نہیں ملتی۔ فرمایا۔ایسے حالات میں آپ بذریعہ خطوط بار بار یاددہانی کراتے رہا کریں۔تاکہ دُعائوں کے ذریعہ توجہ جاری رہے۔کیونکہ فیضانِ الٰہی کا اجرا قلب پر صحبت صالحین کے تکرار یا بذریعہ خطوط دُعا کی یاد دہانی پر منحصر ہے۔
{ 896} بسم اللہ الر حمن الرحیم۔ڈاکٹر سیّد عبدالستار شاہ صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیاکہ میری بڑی لڑکی زینب بیگم نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام قہوہ پی رہے تھے کہ حضور نے مجھ کو اپنا بچا ہوا قہوہ دیا۔اور فرمایا۔زینب یہ پی لو۔مَیں نے عرض کی۔حضور یہ گرم ہے باور مجھ کو ہمیشہ اس سے تکلیف ہوجاتی ہے۔آپ نے فرمایا کہ یہ ہمارا بچا ہوا قہوہ ہے ،تم پی لو۔کچھ نقصان نہیں ہوگا۔مَیں نے پی لیا۔اور اس کے بعد پھر کبھی مجھے قہوہ سے تکلیف نہیں ہوئی۔
{ 897} بسم اللہ الر حمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ عربی کی دو لغت کی کتابیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیش نظر سب سے زیادہ رہتی تھیں۔ چھوٹی لغتوں میں سے صراح تھی اور بڑی لغات میں سے لسان العرب۔ آپ یہی دو لغتیں زیادہ دیکھتے تھے۔گوکبھی کبھی قاموس بھی دیکھ لیا کرتے تھے۔اور آپ لسان العرب کی بہت تعریف فرمایا کرتے تھے۔
{ 898} بسم اللہ الر حمن الرحیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم فرماتے تھے کہ ایک دن حضرت مسیح موعودؑ کے مکان کی مہترانی ایک حصّہ مکان میں صفائی کرکے آئی۔حضرت صاحب اس وقت دوسرے حصّہ میں تھے۔آپ نے اس سے فرمایا کہ تو نے صفائی تو کی مگر اس صحن میں جو نجاست پڑی تھی وہ نہیں اُٹھائی۔اس مہترانی نے کہا کہ جی مَیں تو سب کچھ صاف کر آئی ہوں۔وہاں کوئی نجاست نہیں ہے۔آپ اُٹھکر اس کے ساتھ اس حصّہ مکان میں آئے۔اور دکھا کر کہا کہ یہ کیا پڑا ہے؟اورحضرت صاحب نے مولوی صاحب سے فرمایا کہ مجھے کشفی طور پر معلوم ہوا تھا کہ اس عورت نے اس مکان میں جھاڑو تو دیامگر نجاست نہیں اُٹھائی اور یونہی چلی آئی ہے۔ورنہ مجھے بھی خبر نہ تھی کہ وہاں نجاست پڑی ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یہ سنّت ہے کہ بعض اوقات چھوٹی چھوٹی باتیں ظاہر فرمادیتا ہے۔جس سے تعلقات کی بے تکلفی اور اپنا ہٹ کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔
{ 899} بسم اللہ الر حمن الرحیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ مسجد مبارک میں نمار ظہر یا عصر شروع ہوچکی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام درمیان میں سے نمازتوڑ کر کھڑکی کے راستہ گھر میں تشریف لے گئے اور پھر وضو کرکے نماز میں آملے۔اورجو حصہ نماز کا رہ گیا تھاوہ امام کے سلام پھیرنے کے بعد پورا کیا۔یہ معلوم نہیں ۔کہ حضور بھول کر بے وضوآگئے تھے یا رفع حاجت کے لئے گئے تھے۔
{ 900} بسم اللہ الر حمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے سُنا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ ہماری جماعت کی ترقی تدریجی رنگ میں آہستہ آہستہ مقدر ہے جیسا کہ قرآن شریف میں بھی آتا ہے کہ کَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْأَہٗ (الفتح :۳۰) مگرفرماتے تھے کہ ہماری جماعت کی ترقی دائمی ہوگی ۔اور اس کے بعد قیامت سے قبل والے فساد کے سوا کوئی عالمگیر فساد نہیں ہوگا۔یہ بھی فرماتے تھے کہ خدا ہماری جماعت کو اتنی ترقی دے گاکہ دوسرے لوگ ذلیل اچھوت لوگوں کی طرح رہ جائینگے۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{ 901} بسم اللہ الر حمن الرحیم۔سیٹھی غلام نبی صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ مَیں اور ڈاکٹر بشارت احمد صاحب ایک یکّہ میں بٹالہ سے دارالامان آئے۔راستہ میں مَیں نے ذکر کیا کہ ڈاکٹر صاحب! عام طور پر مشہور ہے کہ جس کو خواب میں رسول اللہ ﷺ کی رویت نصیب ہوجاوے ۔اس پر دوزخ کی آگ حرام ہوجاتی ہے ۔مَیں نہیں جانتا کہ یہ بات کہاںتک درست ہے۔لیکن ہم لوگ جو خدا کے رسول کوہاتھ لگاتے اور بوسہ دیتے اور مٹھیاں بھرتے ہیں حتیّٰ کہ مَیں تو اس قدر بے ادب ہوں کہ جب نماز میں حضرت صاحب کے ساتھ کھڑا ہوتا ہوں تو اس کی پروا نہیں کرتا کہ نماز ٹوٹتی ہے یا نہیں۔مونڈھا کُہنی جو بھی آپ کے ساتھ لگ سکے لگاتاہوں۔کیا دوزخ کی آگ ہم کو بھی چھوئے گی۔ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا کہ بھائی صاحب بات تو ٹھیک ہے لیکن تابعداری شرط ہے۔اللہ! اللہ۔ یہ اس وقت کی حالت ہے۔اور اب ڈاکٹر صاحب کی یہ حالت ہے کہ حضرت صاحب کے جگر گوشہ اور خلیفہ ٔ وقت سے منحرف ہورہے ہیں۔
{ 902} بسم اللہ الر حمن الرحیم۔ قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جولائی ۱۹۰۴ء کا واقعہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام گورداسپور کی کچہری سے باہر تشریف لائے اور خاکسار سے کہا کہ انتظام کرو کہ نماز پڑھ لیں ۔خاکسار نے ایک دری نہایت شوق سے اپنی چادر پر بغرض جانماز ڈال دی۔اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اقتداء میں نماز ظہر و عصر ادا کی۔اس وقت غالباً ہم بیس احمدی مقتدی تھے۔نماز سے فارغ ہونے پر معلوم ہوا کہ وہ دری حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی تھی۔اور انہوں نے وہ لے لی۔
{ 903} بسم اللہ الر حمن الرحیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ قدیم مسجد مبارک میں حضور علیہ السلام نماز جماعت میں ہمیشہ پہلی صف کے دائیں طرف دیوار کے ساتھ کھڑے ہوا کرتے تھے۔یہ وہ جگہ ہے جہاں سے آجکل موجودہ مسجد مبارک کی دوسری صف شروع ہوتی ہے۔یعنی بیت الفکر کی کوٹھری کے ساتھ ہی مغربی طرف۔امام اگلے حجرہ میں کھڑا ہوتاتھا۔پھر ایسا اتفاق ہوا کہ ایک شخص پر جنون کا غلبہ ہوا۔اور وہ حضرت صاحب کے پاس کھڑا ہونے لگااور نماز میں آپ کو تکلیف دینے لگا۔اور اگر کبھی اس کو پچھلی صف میں جگہ ملتی تو ہر سجدہ میں وہ صفیں پھلانگ کر حضور کے پاس آتا اور تکلیف دیتا اور قبل اس کے کہ امام سجدہ سے سر اٹھائے وہ اپنی جگہ پر واپس چلا جاتا۔اس تکلیف سے تنگ آکر حضور نے امام کے پاس حجرہ میں کھڑا ہونا شروع کر دیامگر وہ بھلا مانس حتی المقدور وہاں بھی پہنچ جایا کرتا اور ستایا کرتا تھا۔مگر پھر بھی وہاں نسبتاً امن تھا۔اس کے بعد آپ وہیں نماز پڑھتے رہے یہاں تک کہ مسجد کی توسیع ہوگئی۔یہاں بھی آپ دوسرے مقتدیوں سے آگے امام کے پاس ہی کھڑے ہوتے رہے۔مسجد اقصیٰ میںجمعہ اور عیدین کے موقعہ پر آپ صف اول میں عین امام کے پیچھے کھڑے ہوا کرتے تھے۔وہ معذور شخص جو ویسے مخلص تھا، اپنے خیال میں اظہار محبت کرتا اور جسم پر نامناسب طور پر ہاتھ پھیرکر تبرک حاصل کرتا تھا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس کا ذکر روایت۸۹۳ میں بھی ہوچکا ہے۔
{ 904} بسم اللہ الر حمن الرحیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ قدیم مسجد مبارک کا نقشہ یہ ہے۔


اس کے تین حصّے تھے۔ایک چھوٹا مغربی حجرہ امام کے لئے تھا۔جس میں دو کھٹرکیاں تھیں۔درمیانی حصّہ جس میں دو صفیں اور فی صف چھ آدمی ہوتے تھے۔اسی میں بیت الفکر کی کھڑکیاںکھلتی تھی اور اس کے مقابل پر جنوبی دیوار میں ایک کھڑکی روشنی کے لئے کھلتی تھی۔تیسرا باہر کا مشرقی حصّہ اس میں عموماً دو اور بعض اوقا ت تین صفیں اور فی صف پانچ آدمی ہوا کرتے تھے۔اسی میں نیچے سیڑھیاں آتی ہیں۔اور ایک دروازہ اس کا غسلخانہ میں تھا۔جو اب چھوٹے کمرہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔اسی تیسرے حصّہ میں ایک دروازہ شمالی دیوار میں حضرت صاحب کے گھر میں کُھلتا تھا۔غرضیکہ اس زمانہ میں مسجد مبارک میں امام سمیت تئیس آدمیوں کی بافراغت گنجائش تھی۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ جو کمرہ بطور غسلخانہ دکھایا گیا ہے اس میں حضرت صاحب کے کُرتہ پر سُرخی کے چھینٹے پڑنے کا نشان ظاہر ہوا تھا۔
{ 905} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ خاکسار نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہ قلمی تحریر دیکھی ہے۔جس میں حضور نے اس زمانہ کی جماعت کپورتھلہ کی بابت لکھا تھا کہ وہ انشاء اللہ جنت میں میرے ساتھ ہوں گے۔اس زمانہ کی جماعت کپورتھلہ میں منشی محمد خاں صاحب مرحوم۔منشی اروڑے خاں صاحب مرحوم اور منشی ظفر احمد صاحب نمایاں خصوصیت رکھتے تھے۔باقیوں کا علم اللہ تعالیٰ کوہے۔
{ 906} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ علاج کے معاملہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا طریق تھا کہ کبھی ایک قسم کا علاج نہ کرتے تھے۔بلکہ ایک ہی بیماری میں انگریزی دوا بھی دیتے رہتے تھے اور ساتھ ساتھ یونانی بھی دیتے جاتے تھے۔پھر جو کوئی شخص مفید بات کہدے اس پر بھی عمل کرتے تھے۔اور اگر کسی کو خواب میں کچھ معلوم ہوا تو اس پر بھی عمل فرماتے تھے۔پھر ساتھ ساتھ دُعا بھی کرتے تھے۔اور ایک ہی وقت میں ڈاکٹروں اور حکیموں سے مشورہ بھی لیتے تھے اور طب کی کتاب دیکھ کر بھی علاج میںمدد لیتے تھے۔غرض علاج کو ایک عجیب رنگ کا مرکب بنا دیتے تھے اور اصل بھروسہ آپ کا خدا پر ہوتا تھا۔
{ 907} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ موسم گرما میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد مبارک کے بالائی حصّہ میں بعد نماز مغرب تشریف رکھتے تو عموماً مغربی



شاہ نشین کے نشان (X) پر بیٹھا کرتے تھے۔مولوی عبدالکریم صاحب عام طور پر نشان (ا) پر اور مولوی نورالدین صاحب نشان (ب) کی جگہ پر ہوتے تھے۔اور حضرت مسیح موعود کی بائیں طرف دوسرے خاص احباب بیٹھتے تھے۔ باقی سب نیچے یا جنوبی شہ نشین پر بیٹھتے تھے۔اس نقشہ کے چاروں کونوں پر چار چھوٹے مناروں کے نشان ہیںجن میں ایک تو توسیع کے وقت اُڑ گیا تھا اور دو ساتھ کی دیوار میں جذب ہوگئے ہیں اور ایک جو جنوب مشرقی کونے میں ہے ابھی تک اسی طرح قائم ہے۔
{ 908} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ حاجی محمد اسمٰعیل صاحب ریٹائرڈ اسٹیشن ماسٹر حال محلہ دارالبرکات قادیان نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ۱۵؍ ستمبر۱۹۳۸ء کو شام کے وقت مَیں حضرت میاں محمد یوسف صاحب مردان کے ہمراہ کھانا کھا رہا تھا۔چونکہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے صحابہ میں سے ہیں۔مَیں نے دریافت کیا کہ آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہمراہ کھانا کھانے کا کتنی دفعہ شرف حاصل ہوا۔فرمایا۔دو دفعہ مختلف موقعوں پر موقعہ ملا۔پہلی دفعہ تو گول کمرہ میں اور دوسری بار بٹالہ کے باغ میں جو کچہریوں کے متصل ہے۔جہاں حضرت صاحب کسی گواہی کے لئے تشریف لے گئے تھے۔اس موقعہ پر چالیس پچاس دوست حضور کے ہمرکاب تھے۔کھانا دارالامان سے پک کر آگیا تھا۔فرش بچھا کر دو قطاروں میں دوست بیٹھ گئے۔ مَیں دوسری قطارمیں بالکل حضرت صاحب کے سامنے بیٹھا تھا۔اتنے میں ایک ہندو وکیل صاحب آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ کے الہامات میں جو ’’دافع البلائ‘‘ میں شائع ہوئے ہیں ایک الہام میں شرک کا رنگ ہے اور وہ الہام ’’ اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ وَلَدِیْ‘‘ ہے ۔ حضرت صاحب نے اس کے جواب میں ابھی کوئی کلمہ اپنی زبان مبارک سے نہ فرمایا تھا کہ مَیں نے فوراً کہا کہ وہاں ایک تشریحی نوٹ بھی تو ہے۔وکیل نے انکار کیا کہ وہاں کوئی نوٹ نہیں۔ مَیں نے کہا کہ کتاب لائو مَیں دکھا دیتا ہوں۔اس نے جواب دیا کہ میرے پاس کتاب کہاں ہے۔ حسنِ اتفاق سے اس وقت میرے پاس حضرت صاحب کی سب کتب موجود تھیں۔جن کی مَیں نے خوبصورت جلدیں بندھوائی ہوئی تھیں اور وہ کتب مَیں مشہورمباحثہ مُد کے سلسلہ میں اپنے ہمراہ لے گیا تھا۔کیونکہ مباحثہ ہماری تحریک پر ہی ہوا تھا۔مَیں نے فوراً ہاتھ صاف کرتے ہوئے کتاب دافع البلاء کی جلد نکالی ۔قدرت خداوندی تھی کہ جو نہی میں نے کتاب کھولی تو پہلے وہی صفحہ نکلا جس میں یہ الہام اور تشریحی نوٹ درج تھا۔مَیں نے وہ کتاب وکیل صاحب کو پڑھنے کے لئے دی۔یہ نوٹ پڑھکر وکیل صاحب کو تو بہت ندامت ہوئی۔لیکن مجھے اب تک اپنی اس جسارت پر تعجب آتا ہے کہ مَیںحضور کی موجودگی میں اس طرح بول پڑا ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس سارے عرصہ میں خاموش رہے۔یہ واقعہ کھانے کے درمیان میںہوا تھا۔اس وقت حضرت صاحب کے چہرہ پر خوشی نمایاں تھی۔حضور نے اپنے سامنے والی قیمہ کی رکا بی مجھے عنایت کرکے فرمایا کہ آپ اس کو کھالیں۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس الہام میں ’’ بمنزلۃ ولد‘‘کہا گیا ہے نہ کہ’’ ولد‘‘ جس کے یہ معنے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ سے اسی طرح محبت کرتا ہے اور اسی طرح آپ کی حفاظت فرماتا ہے جس طرح ایک باپ اپنے بچے کے ساتھ کرتا ہے۔
{ 909} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ میر عنایت علی شاہ صاحب لدھیانوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ خاکسار لدھیانہ محلہ اقبال گنج میں حضرت اقدس علیہ السلام کے پاس بیٹھ کر اپنے محلہ صوفیاں میں واپس گھر آیا۔ اور پھر کسی کام کے لئے جو بازار گیاتو حضور علیہ السلام چوڑا بازار میں صرف اکیلے ہی بڑی سادگی سے پھر رہے تھے۔اور اس وقت صرف واسکٹ پہنی ہوئی تھی ۔کوٹ نہ تھا۔ واللہ اعلم کس خیا ل میںپھر رہے تھے۔ورنہ حضور کو اکیلے پھرتے لدھیانہ میں نہ دیکھا تھا۔اور خاکسار بھی اسی خیال سے سامنے نہ ہوا کہ شاید کوئی بھید ہوگا۔پھر اسی لدھیانہ میں خاکسار نے اپنی آنکھ سے دیکھا کہ جب حضرت اقدس علیہ السلام دہلی سے واپس لدھیانہ تشریف لائے تو حضور کی زیارت کے لئے اس قدر اسٹیشن پر ہجوم ہوگیا تھا کہ بڑے بڑے معزز لوگ آدمیوں کی کثرت اور دھکا پیل سے زمین پر گر گئے تھے اور پولیس والے بھی عاجز آگئے تھے ۔گردوغبار آسمان کو جارہا تھااور حضور اقدس علیہ السلام نے بھی بڑی محبت سے لوگوں کو فرمایا :۔کہ ہم تو یہاں چوبیس گھنٹے ٹھہریں گے، ملنے والے وہاں قیامگاہ پر آجائیں۔ایک وقت اکیلے یہاں پھرتے دیکھا اور پھر یہ بھی دیکھا کہ اس قدر ہجوم آپ کی زیارت کے لئے جمع ہوگیا تھا۔
اس مؤخر الذکر سفر میں حضور علیہ السلام نے لدھیانہ میں ایک لیکچر دیا۔جس میں ہندو،عیسائی، مسلمان اور بڑے بڑے معزز لوگ موجود تھے۔تین گھنٹے حضور اقدس نے تقریر فرمائی۔حالانکہ بوجہ سفر دہلی کچھ طبیعت بھی درست نہ تھی۔رمضان کا مہینہ تھا۔اس لئے حضور اقدس نے بوجہ سفر روزہ نہ رکھا تھا۔اب حضور اقدس نے تین گھنٹہ تقریر جو فرمائی تو طبیعت پر ضعف سا طاری ہوا۔ مولوی محمد احسن صاحب نے اپنے ہاتھ سے دودھ پلایا۔جس پر ناواقف مسلمانوں نے اعتراضاً کہا کہ مرزا رمضان میں دودھ پیتا ہے اور شور کرنا چاہا۔لیکن چونکہ پولیس کا انتظام اچھا تھا۔فوراً یہ شور کرنے والے مسلمان وہاں سے نکال دئیے گئے۔اس موقعہ پر یہاں پر تین تقاریر ہوئیں۔اوّل مولوی سیّدمحمداحسن صاحب کی ۔ دوسرے حضرت مولوی نورالدین صاحب کی۔تیسرے حضور اقدس علیہ السلام کی۔ پھر یہاں سے حضور امرتسر تشریف لے گئے۔وہاں سُنا ہے کہ مخالفوں کی طرف سے سنگباری بھی ہوئی۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ بازار میں اکیلے پھرنے کی بات تو خیر ہوئی مگر مجھے یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ حضور بازار کے اند رصرف صدری میں پھر رہے تھے۔ اور جسم پر کوٹ نہیں تھا کیونکہ حضرت صاحب کا طریق تھا کہ گھر سے باہر ہمیشہ کوٹ پہن کر نکلتے تھے ۔ پس اگر میر صاحب کو کوئی غلطی نہیں لگی تو اس وقت کوئی خاص بات ہوگی یا جلدی میں کسی کام کی وجہ سے نکل آئے ہوں گے یا کوٹ کا خیال نہیں آیا ہوگا۔
{ 910} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ ڈاکٹر سید عبد الستا ر شاہ صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ مجھ سے میری لڑکی ز ینب بیگم نے بیان کیا۔کہ مَیں تین ماہ کے قریب حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میںرہی ہوں۔گرمیوں میں پنکھا وغیرہ اور اسی طرح کی خدمت کرتی تھی۔بسااوقات ایسا ہوتاکہ نصف رات یا اس سے زیادہ مجھ کو پنکھا ہلاتے گذر جاتی تھی۔مجھ کواس اثنا میں کسی قسم کی تھکان و تکلیف محسوس نہیں ہوتی تھی۔بلکہ خوشی سے دل بھر جاتا تھا۔دو دفعہ ایسا موقعہ آیا کہ عشاء کی نماز سے لے کر صبح کی اذان تک مجھے ساری رات خدمت کرنے کا موقع ملا۔پھر بھی اس حالت میں مجھ کو نہ نیند، نہ غنودگی اور نہ تھکان معلوم ہوئی بلکہ خوشی اور سرورپیدا ہوتا تھا۔اسی طرح جب مبارک احمد صاحب بیمار ہوئے تو مجھ کو ان کی خدمت کے لئے بھی اسی طرح کئی راتیں گذارنی پڑیں۔تو حضور نے فرمایا کہ ز ینب اس قدر خدمت کرتی ہے کہ ہمیں اس سے شرمندہ ہونا پڑتا ہے۔اور آپ کئی دفعہ اپنا تبرک مجھے دیا کرتے تھے۔
{ 911} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت خلیفہ اولؓ کے درس میں جب آیت وَمَااُبَرِّیُٔ نَفْسِیْ اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَۃٌ بِالسُّوْئِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیْ۔اِنَّ رَبِّیْ غَفُوْرٌرَّحِیْمٌ (یوسف:۵۴) آیا کرتی تو آپ کہا کرتے تھے کہ یہ عزیز مصر کی بیوی کا قول ہے ۔ایک دفعہ حضرت صاحب کے سامنے بھی یہ بات کسی دوست نے پیش کر دی۔کہ مولوی صاحب اسے اِمْرَأَۃُ الْعَزِیْز کا قول کہتے ہیں۔حضرت صاحب فرمانے لگے۔کیا کسی کا فریا بد کار عورت کے منہ سے بھی ایسی معرفت کی بات نکل سکتی ہے۔اس فقرہ کا تو لفظ لفظ کمال معرفت پر دلالت کرتا ہے۔یہ توسوائے نبی کے کسی کا کلام نہیں ہوسکتا۔یہ عجز اور اعتراف کمزوری کا اور اللہ تعا لیٰ پر توکل اور اس کی صفات کا ذکریہ انبیاء ہی کی شان ہے۔آیت کا مضمون ہی بتا رہا ہے۔کہ یوسف کے سوا اور کوئی اسے نہیں کہہ سکتا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس واقعہ کا ذکر روایت نمبر۲۰۴ میں بھی آچکا ہے۔
{ 912} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دفعہ کسی تکلیف کے علاج کے لئے اس عاجز کو یہ حکم دیا۔کہ ڈاکٹر محمد حسین صاحب لاہوری ساکن بھاٹی دروازہ سے (جومدّت ہوئے فوت ہوچکے ہیں)نسخہ لکھوا کر لاؤ۔اور اپناحال بھی لکھدیا۔اور بتابھی دیا۔چنانچہ مَیں ڈاکٹر صاحب موصوف کی خدمت میں حاضر ہؤا۔اوران سے نسخہ لاکر حضرت صاحب کو دیا۔ڈاکٹر صاحب سے معلوم ہؤاکہ حضرت صاحب ان سے پہلے بھی علاج کرایا کرتے تھے اور مشورہ بھی لیا کرتے تھے۔
{ 913} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ ڈاکٹرمیر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب پنجاب میں طاعون کا دور دورہ ہوا اور معلوم ہوا کہ چوہوں سے یہ بیماری انسانوں میں پہنچتی ہے ۔تو حضرت صاحب نے بلیوں کا خیال رکھنا شروع کر دیا بلکہ بعض اوقات اپنے ہاتھ سے دودھ کا پیالہ بلیوں کے سامنے رکھدیا کرتے تھے۔تاکہ وہ گھر میں ہل جائیں۔چنانچہ اس زمانہ سے اب تک دارمسیح موعود میں بہت سی بلیاںرہتی ہیں۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ ایک زمانہ میں تو ہمارے گھر میں بلیوں کی اس قدر کثرت ہوگئی تھی کہ وہ تکلیف کا باعث ہونے لگی تھیں۔جس پربعض بلوں کو پنجروں میں بند کروا کے دوسری جگہ بھجوانا پڑا تھا۔نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس روایت سے پتہ لگتا ہے کہ باوجود خدائی وعدہ کے کہ آپ کی چاردیواری میں کوئی شخص طاعون سے نہیں مرے گا۔آپ کو خدا کے پیدا کئے ہوئے اسباب کا کتنا خیال رہتا تھا۔
{ 914} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک شخص نے ایک دفعہ حضور سے عرض کیا کہ مجھے کھانا کھاتے ہی بیت الخلاء جانے کی حاجت ہونے لگتی ہے۔حضورفرمانے لگے۔ ایسے معدہ کو حکیموں نے بخیل معدہ کہا ہے۔یعنی جب تک اس کے اندر کچھ نہ پڑے تب تک وہ پہلی غذا نکالنے کو تیار نہیں ہوتا۔
{ 915} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضور علیہ السلام ایک دفعہ فرماتے تھے کہ ہم نے ایک اہم امر کے لئے دیوان حافظ سے بھی فال لی تھی۔لیکن اب یہ مجھے یاد نہیں رہا کہ کس امر کے لئے فال لی تھی۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ فال بھی ایک قسم کی قرعہ اندازی ہے اور اگر اس کے ساتھ دعا شامل ہو تو وہ ایک رنگ کا استخارہ بھی ہو جاتی ہے۔مگر مَیں نے سُنا ہے کہ حضرت صاحب قرآن شریف سے فال لینے کو ناپسند فرماتے تھے۔
{ 916} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دن حضر ت مسیح موعود علیہ السلام باغ میں ایک چارپائی پر تشریف رکھتے تھے۔اوردوسری دو چارپائیوں پر مفتی محمد صادق صاحب اور شیخ رحمت اللہ صاحب مرحوم وغیرہ بیٹھے ہوئے تھے ۔اور ایک بوری نیچے پڑی ہوئی تھی۔اس پر مَیں دو چار آدمیوں سمیت بیٹھا ہوا تھا۔میرے پاس مولوی عبدالستارخان صاحب بزرگ بھی تھے۔حضرت صاحب کھڑے تقریر فرما رہے تھے کہ اچانک حضور کی نظر مجھ پر پڑی تو فرمایا۔کہ ڈاکٹر صاحب آپ میرے پاس چارپائی پر آکر بیٹھ جائیں۔مجھے شرم محسوس ہوئی۔کہ مَیں حضور کے ساتھ برابر ہوکر بیٹھوں۔حضور نے دوبارہ فرمایا کہ شاہ صاحب آپ میرے پاس چارپائی پر آجائیں۔مَیں نے عرض کی کہ حضور مَیں یہیں اچھا ہوں۔تیسری بار حضورنے خاص طور پر فرمایا کہ آپ میری چارپارئی پر آکر بیٹھ جائیں۔کیونکہ آپ سیّد ہیں۔اور آپ کا احترام ہم کو منظور ہے۔حضور کے اس ارشاد سے مجھے بہت فرحت ہوئی۔اور میں اپنے سیّد ہونے کے متعلق حق ا لیقین تک پہنچنے کے لئے جو آسمانی شہادت چاہتا تھاوہ مجھے مل گئی۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو تو اپنے سیّد ہونے کا ثبوت ملنے پر فرحت ہوئی اور مجھے اس بات سے فرحت ہوئی ہے کہ چودہ سو سال گذر جانے پر بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آنحضرت ﷺ کی اولاد کا کس قدر پاس تھا۔اور یہ پاس عام توہمانہ رنگ میں نہیں تھا۔بلکہ بصیرت اور محبت پر مبنی تھا۔
{ 917} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ ڈاکٹر سیّد عبدالستار شاہ صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میری لڑکی ز ینب بیگم نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ جب حضور علیہ السلام سیالکو ٹ تشریف لے گئے تھے تو مَیں رعیہ سے ان کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ان ایام میں مجھے مراق کا سخت دورہ تھا۔مَیں شرم کے مارے آپ سے عرض نہ کر سکتی تھی ۔مگر میرا دل چاہتا تھا کہ میری بیماری سے کسی طرح حضور کو علم ہوجائے تاکہ میرے لئے حضور دُعا فرمائیں۔مَیں حضور کی خدمت کر رہی تھی۔کہ حضور نے اپنے انکشاف اور صفائی قلب سے خود معلوم کرکے فرمایا۔زینب تم کو مراق کی بیماری ہے۔ہم دُعا کرینگے۔تم کچھ ورزش کیا کرو اور پیدل چلا کرو۔مگر مَیں ایک قدم بھی پیدل نہ چل سکتی تھی ۔اگر دو چار قدم چلتی بھی تو دورہ مراق وخفقان بہت تیز ہوجاتا تھا۔مَیں نے اپنے مکان پر جانے کے لئے جو حضور کے مکان سے قریباً ایک میل دور تھا۔ٹانگے کی تلاش کی مگر نہ ملا۔اس لئے مجبوراًمجھ کو پیدل جانا پڑا۔مجھ کو یہ پیدل چلنا سخت مصیبت اور ہلاکت معلوم ہوتی تھی مگر خدا کی قدرت ،جوں جوں مَیں پیدل چلتی تھی آرام معلوم ہوتا تھا۔حتیّٰ کہ دوسرے روز پھر مَیں پیدل حضور کی زیارت کو آئی تو دورہ مراق جاتا رہا اور بالکل آرام آگیا۔
{ 918} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ میر شفیع احمد صاحب محقق دہلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ عرصہ کی بات ہے کہ مَیں لاہور میں خوا جہ کمال الدین صاحب کے مکان میں صبح کے وقت بیٹھا قرآن مجید کی تلاوت کر رہا تھا اور ایک چارپائی پر فخر الدین ملتانی بھی بیٹھا ہوا تلاوت کر رہا تھا۔اتنے میں مجھے فخر الدین ملتانی نے کہا کہ دیکھو میر صاحب!مولوی محمد حسین بٹالوی جا رہا ہے۔مَیں نے پوچھا کہاں ؟تب اس نے اشارہ کیا کہ وہ دیکھو۔مَیں ننگے پائوں اور ننگے سر جس طرح بیٹھا ہوا تھا اسی طرح اُن کے پیچھے بھاگا۔دیکھا تو ایک وزنی بیگ اُٹھائے مولوی صاحب اسٹیشن کی طرف جا رہے ہیں۔مَیں نے جاکر السلام علیکم کہا اور ان کا بیگ لے لیا۔کہ مَیں آپ کے ساتھ لئے چلتا ہوں۔پہلے انہوں نے انکار کیا مگر میرے اس اصرار پر مجھے دیدیا کہ آپ ضعیف ہیں اور اتنا بوجھ نہیں اُٹھا سکتے۔اس پر انہوں نے جزاک اللہ کہا اور مَیں ساتھ ہولیا۔راستہ میں کہا کہ مَیں نے ٹمٹم کا انتظار کیامگرنہ ملی۔اگر ٹمٹم کا انتظار کرتا تو شاید گاڑی نکل جاتی۔مجھے ضروری مقدمے میں جانا ہے۔آپ نے بڑی تکلیف کی۔مَیں نے کہا کہ نہیں مجھے بڑی راحت ہے کہ آپ ایک معمولی سے معمولی آدمی کی طرح اتنا بوجھ اٹھائے چلے جارہے ہیںاور اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ کی ایک نئے رنگ میں تصدیق کر رہے ہیں۔یہ فقرہ سُن کر مولوی صاحب بہت ناراض ہوئے اور مردود میر زائی کہہ کر وہ بیگ مجھ سے چھین لیا اور پھر چل پڑے مگر میں کچھ دُور اُن کے ساتھ گیا اور منت خوشامد سے بیگ پھر اٹھا لیا۔اس پر کہنے لگے کہ مرزا نے تم لوگوں پر جادو کر دیا ہے۔تم تو دیوانہ ہوگئے ہو۔اس میں کیا دھرا ہوا ہے۔ہم تو انہیں بچپن سے جانتے ہیں۔ان کے کچے چٹھے ہمیں معلوم ہیں۔مَیں نے کہا آج تک تو کسی نے ان کا کچا چٹھا شائع نہیںکیا۔کہنے لگے کوئی سُنتا بھی ہو۔بُری بات لوگ فوراً قبول کر لیتے ہیںاور نیک بات کی طرف کان بھی نہیں دھرتے۔میں نے کہا آپ سچ فرما رہے ہیں۔ہرنبی کے ساتھ اس کی قوم نے ایسا ہی برتائو کیا۔کیونکہ بوجھ بہت تھااس لئے مولوی صاحب نے میرے لئے بھی پلیٹ فارم کا ٹکٹ خرید لیا اور چونکہ ریل بالکل تیار تھی۔سوارہوکر چلے گئے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ جب شروع میں حضرت صاحب نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا تو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے سخت مخالفت کی اور کفر کا فتویٰ لگایا اور کہا کہ میں نے ہی اسے اٹھایا تھااور میں ہی اسے گراؤنگا۔اس وقت مولوی صاحب کی ملک میں بہت عزّت تھی۔اور وہ بازار میں سے گزرتے تھے تو لوگ دورسے دیکھ کر ادب کے طور پر کھڑے ہوجاتے تھے۔اور اہل حدیث فرقہ کے تو وہ گویا امام تھے۔اس وقت حضرت صاحب کو خدا تعالیٰ نے مولوی صاحب کے متعلق الہاماً بتایا کہ اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ۔یعنی جو شخص تجھے گرانے اور ذلیل کرنے کے درپے ہے۔ہم خود اسے ذلیل ورسوا کردینگے۔ چنانچہ اس کے بعد آہستہ آہستہ مولوی محمد حسین صاحب پر وہ وقت آیاجس کا نقشہ اس روایت میں بیان ہوا ہے کہ کوئی پوچھتا نہیں تھا۔اور بازاروں میں اپنا سامان اٹھائے پھرتے تھے اور اپنے ہم خیال لوگوں کی نظر سے بھی بالکل گر گئے تھے۔
{ 919} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیاکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرز تحریر میں ایک یہ بات بھی دیکھنے میں آئی کہ حضور جب کسی لفظ یا سطر کو کاٹتے تو اس طرح کاٹتے تھے کہ پھر کوئی اسے پڑھ نہ سکے۔یہ نہیں کہ صرف ایک لکیر پھیر دی۔بلکہ اس قدر لہرداراور پاس پاس کرکے قلم سے لکیریں پھیرتے کہ کٹے ہوئے ایک حرف کا پڑھنا بھی ممکن نہ ہوتا تھا۔
{ 920} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب میںبہت چھوٹا تھا یعنی چار پانچ سال کا ہونگا۔تو مجھے یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام انبالہ چھائونی میں مجھے انگریزی مٹھائی کی گولیاں دیا کرتے تھے اور مَیں ان کو چڑیا کے انڈے کہا کرتا تھا۔یہ حضرت صاحب کی بڑی لڑکی عصمت کی پیدائش سے پہلے کی بات ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ عصمت ۱۸۸۶ء میں پیدا ہوئی تھی۔اور خود میر صاحب کی پیدائش غالباً۱۸۸۱ء کی ہے۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{ 921} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہندوئوں کے ہاں کا کھانا کھا پی لیتے تھے اور اہلِ ہنود کا تحفہ از قسم شیرینی وغیرہ بھی قبول فرما لیتے تھے اور کھاتے بھی تھے۔ اسی طرح بازار سے ہندو حلوائی کی دُکان سے بھی اشیاء خوردنی منگواتے تھے۔ایسی اشیاء اکثر نقد کی بجائے ٹونبوؔ کے ذریعہ سے آتی تھیں۔یعنی ایسے رقعہ کے ذریعہ جس پر چیزکا نام اور وزن اور تاریخ اور دستخط ہوتے تھے۔مہینہ بعد دُکاندا ر وہ ٹونبو بھیج دیتا اور حساب کا پرچہ ساتھ بھیجتا۔اس کو چیک کرکے آپ حساب ادا کر دیا کرتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ ہندوئوںکے ہاتھ کی پکی ہوئی چیز جائز سمجھتے تھے اور اس کے کھانے میں پر ہیز نہیں تھا۔آجکل جو عموماً پرہیز کیا جاتا ہے۔اس کی وجہ مذہبی نہیں بلکہ اقتصادی ہے۔
{ 922} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ۱۸۹۳ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلا م چند روز کے لئے ہمارے ہاں بمعہ اہل وعیال فیروز پور چھائونی تشریف لائے۔ایک دن وہاں ایک شیخ صاحب کی کوٹھی پر گئے جو انگریزی اشیاء کے تاجر تھے۔شیخ محمد جان صاحب وزیر آبادی چونکہ ان کے واقف تھے اس لئے وہ حضور کو یہ دُکان دکھانے لے گئے۔ وہاں مالک دُکان نے ایک کھلونا دکھایا جس میں ایک بلی اور ایک چوہا تھا۔اس کو کنجی دی جاتی تو چوہا آگے بھاگتا تھا اور بلی اس کے پیچھے دوڑتی تھی۔اسے دیکھ کر کچھ دیر تو مسیح ناصری کے پرندوں کا ذکر ہوتا رہا۔پھر آپ چلے آئے۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعا لیٰ بنصرہ العزیز بھی جن کی عمر اس وقت چار سال کے قریب تھی ہمراہ تھے۔اور کسی دوست یا ملازم کی گود میں تھے۔جب کچھ راستہ چلے آئے تو میاں صاحب نے اس شخص کی گود میں اینٹھنا شروع کیا۔ پھر کچھ بگڑ کر لاتیں مارنے لگے اور آخر رونا شروع کر دیا۔بہت پوچھا مگر کچھ نہ بتایا۔آخر باربار پوچھنے پر ہاتھ سے واپس چلنے کا اشارہ کیا۔اس پر کسی نے کہا شاید اس دوکان پر بلی اور چوہا پھر دیکھنا چاہتے ہیں۔یہ کہنا تھا کہ میاں صاحب روتے روتے چیخ کر کہنے لگے کہ مَیں نے بلی چوہا لینا ہے۔اس پر حضرت صاحب نے کہا کہ میاں گھرچل کر منگا دیں گے مگر وہ نہ مانے۔آخر حضرت صاحب سب جماعت کے ہمراہ واپس آئے اور تاجر کی کوٹھی پر پہنچ کر دروازہ پر ٹھہر گئے۔شیخ محمد جان صاحب اندر جاکر وہ کھلونا لے آئے۔حضرت صاحب نے کہا اس کی قیمت کیا ہے ؟مَیں دیتا ہوں مگر شیخ محمد جان صاحب نے کہا کہ اس کوٹھی کے مالک ہمارے دوست اور ملنے والے ہیں اور یہ ایک حقیر چیز ہے۔وہ حضور سے ہر گز قیمت نہیںلیں گے۔اس پر آپ نے وہ کھلونا میاں صاحب کو دیدیا۔اور سب لوگ گھر واپس آئے۔
{ 923} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مختلف زمانوں میں حضور علیہ السلام کے زیر نظر مختلف مضامین رہا کرتے تھے۔میں نے دیکھا کہ آپ بعض دنوں میں کسی خاص مضمون پر ہر مجلس میں ذکر کرتے۔تقریریں کرتے اور مختلف پہلوئوں سے اس پر روشنی ڈالتے یہاں تک کہ کچھ دنوں میں اس مضمون کے سب پہلو واضح اور مدلّل ہو جاتے ۔اس کے بعد مَیں دیکھتا کہ پھر وہی مضمون آپ کی کسی کتاب میں آجاتا اور شائع ہوجاتا۔
{ 924} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تصنیف کے بارے میں یہ طریق نہیں تھا کہ جو عبارت ایک دفعہ لکھی گئی اسی کو قائم رکھتے تھے بلکہ بار بار کی نظر ثانی سے اس میں اصلاح فرماتے رہتے تھے اور بسا اوقات پہلی عبارت کو کاٹ کر اس کی جگہ نئی عبارت لکھ دیتے تھے۔اصلاح کا یہ سلسلہ کتابت اور طباعت کے مراحل میں بھی جاری رہتا تھا۔مَیں نے حضرت صاحب کے مسودات اور پر وفوں میں کثرت کے ساتھ ایسی اصلاح دیکھی ہے۔
{ 925} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ میر عنایت علی شاہ صاحب لدھیانوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ اوائل زمانہ میں قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنا ایک رئویا میر عباس علی صاحب سے بیان کیا تھاجو یہ تھا کہ ہم کسی شہر میں گئے ہیںاور وہاں کے لوگ ہم سے برگشتہ ہیں۔اور انہوں نے کچھ اپنے شکوک دریافت کئے۔جن کا جواب دیا گیا۔لیکن وہ ہمارے خلاف ہی رہے۔نماز کے لئے کہاکہ آئو تم کو نماز پڑھائیں تو جواب دیا کہ ہم نے پڑھی ہوئی ہے اور خواب میں یہ واقعہ ایک ایسی جگہ پیش آیا تھا جہاں ہماری دعوت تھی۔اس وقت ہم کو ایک کھلے کمرہ میں بٹھا یا گیا۔لیکن اس میں کھانا نہ کھلایاگیا۔پھر بعد میں ایک تنگ کمرہ میں بٹھلایا گیا۔اور اس میں بڑی دقت سے کھانا کھایا گیا۔آپ نے یہ رئویا بیان کرکے فرمایا کہ شاید وہ تمہارا لدھیانہ ہی نہ ہو۔پھر یہ رؤیا لدھیانہ میں ہی منشی رحیم بخش صاحب کے مکان پر پورا ہوا۔حضرت صاحب لدھیانہ تشریف لے گئے اور منشی رحیم بخش صاحب کے مکان پر دعوت ہوئی۔جہاں پہلے ایک کھلے کمرہ میں بٹھا کر پھر ایک تنگ کمرہ میں کھانا کھلایا گیا۔پھروہاں ایک شخص مولوی عبدالعزیز صاحب کی طرف سے منشی احمد جان صاحب کے پاس آیا اور آکر کہا کہ مولوی صاحب کہتے ہیں کہ قادیان والے مرزا صاحب ہمارے ساتھ آکر بحث کر لیںیا کوتوالی چلیں۔اس پر منشی صاحب نے کہا کہ ہم نے کونسا قصور کیا ہے کہ کوتوالی چلیں۔اگر کسی نے اپنے شکوک رفع کروانے ہیں تو محلہ صوفیاں میں آجائے۔جہاں حضرت صاحب ٹھہرے ہوئے ہیں۔اس رئویا کے پورا ہونے پر لالہ ملاوامل نے شہادت دی کہ واقعی وہ رویا پورا ہوگیا۔اور خاکسار بھی حضرت صاحب کے ساتھ اس دعوت میں شریک تھا جہاں رئویا پورا ہوا۔
{ 926} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب مَیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کرکے واپس ملازمت پر گیا۔تو کچھ روز اپنی بیعت کو خفیہ رکھا کیونکہ مخالفت کا زور تھا۔اور لوگ میرے معتقد بہت تھے۔اس وجہ سے کچھ کمزوری سی دکھائی یہاں تک کہ مَیں نے اپنے گھر کے لوگوں سے بھی ذکر نہ کیا۔لیکن رفتہ رفتہ یہ بات ظاہر ہوگئی اور بعض آدمی مخالفت کرنے لگے لیکن وہ کچھ نقصان نہ کر سکے۔گھر کے لوگوں نے ذکر کیاکہ بیعت تو آپ نے کر لی ہے لیکن آپ کا پہلا پیر ہے اور وہ زندہ موجود ہے، وہ ناراض ہوکربددعا کرے گا۔ ان کی آمدورفت اکثر ہمارے پاس رہتی تھی۔مَیں نے کہا کہ میں نے اللہ تعا لیٰ کی رضا کے لئے بیعت کی ہے۔اور جن کے ہاتھ پر بیعت کی ہے وہ مسیح اور مہدی کا درجہ رکھتے ہیں۔ باقی کوئی خواہ کیسا ہی نیک یا ولی کیوں نہ ہو۔وہ اس درجہ کو نہیں پہنچ سکتا۔اور ان کی بددعا کوئی بد اثر نہیں کرے گی۔کیونکہ اَلْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ۔مَیںنے اپنے خدا تعالیٰ کو خوش کرنے کے لئے یہ کام کیا ہے۔اپنی نفسانی غرض کے لئے نہیں کیا۔الغرض وہ میرے مرشد کچھ عرصہ بعد بدستور سابق میر ے پاس آئے اور انہوں نے میری بیعت کا معلوم کرکے مجھ کو کہاکہ آپ نے اچھا نہیں کیا۔جب مرشد آپ کا موجود ہے تو اس کو چھوڑ کر آپ نے یہ کام کیوں کیا؟آپ نے ان میں کیا کرامت دیکھی؟مَیں نے کہا۔کہ میں نے ان کی یہ کرامت دیکھی ہے کہ ان کی بیعت کے بعد میری رُوحانی بیماریاں بفضلِ خدا دور ہوگئی ہیں اورمیرے دل کو تسلی حاصل ہوگئی ہے۔انہوں نے کہا کہ مَیں بھی ان کی کرامت دیکھنا چاہتا ہوں۔کہ اگر تمہارا لڑکا ولی اللہ ان کی دُعا سے اچھا ہوجائے تو میں سمجھ لونگا کہ آپ نے مرشد کامل کی بیعت کی ہے۔اور اس کا دعویٰ سچّاہے۔اس وقت میرے لڑکے ولی اللہ کی ٹانگ بسبب ضرب کے خشک ہوکر چلنے کے قابل نہیں رہی تھی۔ایک لاٹھی بغل میں رکھتا تھا۔اور اس کے سہارے چلتا تھااور اکثر دفعہ گر پڑتا تھا۔اس بات پر تھوڑا عرصہ گذرا تھا کہ باوجود اسکے کہ پہلے کئی ڈاکٹروں اور سول سرجنوں کے علاج کئے تھے لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا تھا۔اتفاقاً ایک نیا سول سرجن سیالکوٹ میں آگیا جس کا نام میجر ہیوگو تھا۔وہ رعیہ میں شفا خانہ کا معائنہ کرنے کے لئے بھی آیا ۔تو مَیں نے اُسے ولی اللہ شاہ کو دکھایا۔اس نے کہا کہ علاج سے اچھا ہوسکتا ہے۔مگرتین دفعہ آپریشن کرنا پڑے گا۔چنانچہ اس نے ایک دفعہ سیالکوٹ میں آپریشن کیا۔اور دو دفعہ شفاخانہ رعیہ میں جہاں میں متعین تھاآپریشن کیا۔ادھر مَیں نے حضرت صاحب کی خدمت میں دعا کے لئے بھی تحریر کیا۔خدا کے فضل سے وہ بالکل صحت یاب ہوگیا اور لاٹھی کی ضرورت نہ رہی۔تب مَیں نے اس بزرگ کو کہا کہ دیکھئے خدا کے فضل سے حضرت صاحب کی دعا کیسی قبول ہوئی۔اس نے کہا کہ یہ تو علاج سے ہوا ہے۔مَیں نے کہا کہ علاج تو پہلے بھی تھا۔لیکن اس علاج میں شفا صرف دعا کے ذریعہ سے حاصل ہوئی ہے۔
{ 927} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ڈاکٹر سیّد عبدالستارشاہ صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب مَیں نے حضرت صاحب کی بیعت کی تو ولی اللہ شاہ کی والدہ کو خیال رہتا تھاکہ سابقہ مرشد کی ناراضگی اچھی نہیں۔ان کو بھی کسی قدر خوش کرنا چاہئے تاکہ بددعا نہ کریں۔ان کو ہم لوگ پیشوا کہا کرتے تھے۔ولی اللہ ، شاہ کی والدہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی اچھا جانتی تھیں اور آپ کی نسبت حسن ظن تھا۔صرف لوگوں کے طعن وتشنیع اور پیشوا کی ناراضگی کا خیال کرتی تھیںاور بیعت سے رُکی ہوئی تھیں۔اس اثناء میں وہ خود بہت بیمار ہوگئیںاور تپ محرقہ سے حالت خراب ہوگئی۔ ان کی صحت یابی کی کچھ امید نہ تھی۔مَیں نے ان سے کہا کہ آپ اپنے برادر زادہ شیر شاہ کو جو وہاں پڑھتا تھا۔قادیان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں دعا کے لئے اور مولوی نورالدین صاحب کی خدمت میں کسی نسخہ کے حاصل کرنے کے لئے روانہ کر دو۔امید ہے کہ خدا وندکریم صحت دیگا۔چنانچہ اس کو روانہ کر دیا گیااور وہ دوسرے دن قادیان پہنچ گیا اور حضرت صاحب کی خدمت میں درخواست دُعا پیش کی۔ حضور نے اسی وقت توجہ سے دُعا کی اور فرمایا کہ مَیں نے بہت دُعا کی اللہ تعالیٰ ان پر فضل کرے گا۔ڈاکٹر صاحب سے آپ جا کر کہیں کہ گھبرائیں نہیں ۔ خداتعالیٰ صحت دے گااور حضرت خلیفہ اوّلؓ کو فرمایا کہ آپ نسخہ تجویز فرمائیں۔انہوں نے نسخہ تجویز کرکے تحریر فرما دیا۔جس روز شام کو حضور نے قادیا ن میں دعا فرمائی۔اس سے دوسرے روز شیر شاہ نے واپس آنا تھا۔وہ رات ولی اللہ شاہ کی والدہ پر اس قدر سخت گذری کہ معلوم ہوتا تھا کہ صبح تک وہ نہ بچیں گی۔اور ان کو بھی یقین ہوگیا کہ مَیں نہیں بچوں گی۔اسی روزانہوں نے خواب میں دیکھا کہ شفا خانہ رعیہ میں جہاں مَیں ملازم تھا اس کے احاطہ کے بیرونی طرف سٹرک کے کنارہ ایک بڑا سا خیمہ لگا ہوا ہے۔لوگ کہتے ہیں کہ یہ خیمہ مرزا صاحب قادیانی کا ہے۔کچھ مرد ایک طرف بیٹھے ہوئے ہیں اور کچھ عورتیں ایک طرف بیٹھی ہوئی ہیں۔مرد اندر جاتے ہیں اور واپس آتے ہیں۔ پھر عورتوں کی باری آئی وہ بھی ایک ایک کرکے باری باری جاتی ہیں۔جب خود ان کی باری آئی۔تو یہ بہت ہی نحیف اور کمزور شکل میں پردہ کئے ہوئے حضور کی خدمت میں جاکر بیٹھ گئیں۔آپ نے فرمایا۔آپ کو کیا تکلیف ہے۔ انہوں نے انگلی کے اشارہ سے سینہ کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ مجھ کو بخار ہے۔دل کی کمزوری اور سینہ میں درد ہے۔آپ نے اسی وقت ایک خادمہ کو کہا کہ ایک پیالہ میں پانی لائو۔جب پانی آیا۔توآپ نے اس پر دم کیا اور اپنے ہاتھ سے ان کو وہ دیا اور فرمایا۔اس کو پی لیں۔اللہ تعالیٰ شفا دیگا ۔پھر سب لوگوں نے اور آپ نے دعا کی اور وہ پانی انہوں نے پی لیا۔پھر والدہ ولی اللہ شاہ نے پوچھا کہ آپ کون ہیں۔اور اسم شریف کیا ہے۔فرمایا کہ مَیں مسیح موعود اور مہدی معہود ہوں اور میرا نام غلام احمد ہے اور قادیان میں میری سکونت ہے۔خدا کے فضل سے پانی پیتے ہی ان کو صحت ہوگئی۔اس وقت انہوں نے نذر مانی کہ حضورکی خدمت میں بیعت کے لئے جلد حاضر ہوںگی۔فرمایا بہت اچھا۔بعد اس کے وہ بیدار ہوگئیں۔جب انہوں نے یہ خواب دیکھی۔تو ابھی شیر شاہ قادیان سے واپس نہ پہنچا تھا۔بلکہ دوسرے دن صبح کو پہنچا۔اس رات کو بہت مایوسی تھی اور میرا خیال تھا کہ صبح جنازہ ہوگا لیکن صبح بیدار ہونے کے بعد انہوں نے آواز دی کہ مجھ کو بھوک لگی ہے۔مجھے کچھ کھانے کو دو اورمجھے بٹھائو۔اسی وقت ان کو اٹھایا اور دودھ پینے کے لئے دیا۔اور سخت حیرت ہوئی کہ یہ مردہ زندہ ہوگئیں۔عجیب بات تھی کہ اس وقت ان میں طاقت بھی اچھی پیدا ہوگئی اور اچھی طرح گفتگو بھی کرنے لگیں۔میرے پوچھنے پر انہوں نے یہ سارا خواب بیان کیا اور کہا کہ یہ سب اس پانی کی برکت ہے جو حضرت صاحب نے دم کرکے دیا تھا اور دعا کی تھی۔صبح کو وہ خودبخودبیٹھ بھی گئیں۔اور کہا کہ مجھ کو فوراً حضرت صاحب کی خدمت میں پہنچا دو۔کیونکہ مَیں عہد کر چکی ہوں کہ مَیں آپ کی بیعت کے لئے حاضرہونگی۔مَیں نے کہا ابھی آپ کی طبیعت کمزور ہے اور سفر کے قابل نہیں۔جس وقت آپ کی حالت اچھی ہوجائے گی۔آپ کو پہنچا دیا جائے گا۔لیکن وہ برابر اصرار کرتی رہیں کہ مجھ کو بے قراری ہے جب تک بیعت نہ کرلوں مجھے تسلی نہ ہوگی۔اور شیرشاہ بھی اس روز قادیان سے دوائی لے کر آگیا۔اور سب ماجرا بیان کیا کہ حضرت صاحب نے بڑی توجہ اور دردِدل سے دعا کی ہے اور فرمایا ہے کہ وہ اچھے ہوجائیں گے۔جب مَیں نے تاریخ کا مقابلہ کیا تو جس روز حضرت صاحب نے قادیان میں دُعا کی تھی۔اسی روز خواب میں ان کو زیارت ہوئی تھی اور یہ واقعہ پیش آیا تھا۔اس پر ان کا اعتقاد کامل ہوگیااور جانے کے لئے اصرار کرنے لگیں۔چنانچہ ان کو صحت یاب ہونے پر قادیان ان کے بھائی سید حسین شاہ اور شیر شاہ ان کے بھتیجے کے ساتھ روانہ کر دیا۔حضرت صاحب نے ان کی بڑی خاطر تواضع کی اور فرمایا کچھ دن اور ٹھہریں۔وہ تو چاہتی تھیں کہ کچھ دن اور ٹھہریں۔ مگر ان کا بھتیجا مدرسہ میں پڑھتا تھا اور بھائی ملازم تھا اس لئے وہ نہ ٹھہر سکیں اور واپس رعیہ آگئیں۔ایک دن کہنے لگیں کہ میں نے خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔آپ نے دو انگلیاں کھڑی کر کے فرمایا۔مَیں اور مسیح دونوں ایک ہیں۔وہ انگلیاں وُسطیٰ اور سبابہ تھیں۔ چونکہ ولی اللہ شاہ کی والدہ بیعت سے پہلے بھی صاحب حال تھیں۔پیغمبروں اور اولیاء اور فرشتوں کی زیارت کر چکی تھیں۔ان کو خواب کے دیکھنے سے حضرت صاحب پر بہت ایما ن پیدا ہوگیا تھا اور مجھ سے فرمانے لگیں کہ آپ کو تین ماہ کی رخصت لے کر قادیان جانا چاہئے اور سخت بے قراری ظاہر کی کہ ایسے مقبول کی صحبت سے جلدی فائدہ اٹھا نا چاہئے۔زندگی کا اعتبار نہیں۔ان کے اصرار پر مَیں تین ماہ کی رخصت لے کر قادیان پہنچا۔سب اہل وعیال ساتھ تھے۔حضرت صاحب کو کمال خوشی ہوئی اور اپنے قریب کے مکان میں جگہ دی۔اور بہت ہی عزت کرتے تھے اور خاص محبت وشفقت اور خاطر تواضع سے پیش آتے تھے۔
{ 928} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ لنگر کا انتظام حضور علیہ السلام کے ابتدائی ایام میں گھر میں ہی تھا۔گھر میں دال سالن پکتااور لوہے کے ایک بڑے توے پرجسے’’لوہ‘‘کہتے ہیں روٹی پکائی جاتی۔پھر باہر مہمانوں کو بھیج دی جاتی۔اس لوہ پر ایک وقت میں دو،تین نوکرانیاں بیٹھ کر روٹیاں یکدم پکا لیا کرتی تھیں۔اس کے بعد جب باہر انتظام ہوا تو پہلے اس مکان میں لنگر خانہ منتقل ہواجہاں اب نواب صاحب کا شہر والا مکان کھڑا ہے۔پھر باہر مہما ن خا نہ میں چلا گیا۔
{ 929} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مفصلہ ذیل ادویات حضرت مسیح موعود علیٰہ السلام ہمیشہ اپنے صندوق میں رکھتے تھے۔اور انہی کو زیادہ استعمال کرتے تھے۔انگریزی ادویہ سے کونینؔ،ایسٹنؔسیرپ، فولادؔ، ارگٹؔ،وائینمؔاپی کاک،کولاؔاور کولاؔکے مرکبات،سپرٹ ایمونیاؔ۔بیدؔمشک،سٹرنس وائن ؔآف کاڈلِور آئل۔کلوروڈین کاکل ؔپل،سلفیورکؔایسڈ ایرومیٹک،سکاٹس ایملشن رکھا کرتے تھے۔اور یونانی میں سے ۔مُشکؔ،عنبرؔ،کافورؔ،ہینگؔ،جدوارؔ۔اورایک مرکب جو خودتیار کیاتھایعنی تریاقؔالٰہی رکھا کرتے تھے۔اور فرمایا کرتے تھے کہ ہینگ غرباء کی مُشک ہے۔اور فرماتے تھے کہ افیون میں عجیب وغریب فوائد ہیں۔اسی لئے اسے حکماء نے تریاقؔکا نام دیا ہے۔ان میں سے بعض دوائیں اپنے لئے ہوتی تھیںاور بعض دوسرے لوگوں کے لئے کیونکہ اور لوگ بھی حضور کے پاس دوا لینے آیا کرتے تھے۔
{ 930} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک روز حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد مبارک میں نماز صبح کے وقت کچھ پہلے تشریف لے آئے۔ ابھی کوئی روشنی نہ ہوئی تھی۔اس وقت آپ مسجدکے اندر اندھیرے میں ہی بیٹھے رہے۔پھر جب ایک شخص نے آکر روشنی کی تو فرمانے لگے کہ دیکھو روشنی کے آگے ظلمت کس طرح بھاگتی ہے۔
{ 931} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک روز پیر سراج الحق صاحب سر ساوی اپنے علاقہ کے آموں کی تعریف کر رہے تھے کہ ہمارے علاقہ میں آم بہت میٹھے ہوتے ہیں۔جو لوگ ان کو کھاتے ہیں۔تو گٹھلیوں کا ڈھیر لگا دیتے ہیں۔گویا لوگ کثرت سے آم چوستے ہیں۔اس وقت حضرت اقدس بھی مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے۔فرمایا۔پیر صاحب جو آم میٹھے ہوتے ہیں وہ عموماً ثقیل ہوتے ہیں اور جو آم کسی قدرترش ہوتے ہیں وہ سریع الہضم ہوتے ہیں۔پس میٹھے اور ترش دونوں چوسنے چاہئیں۔کیونکہ قدرت نے ان کو ایسا ہی بنایا ہے۔
{ 932} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اکثر فرمایا کرتے تھے کہ آنحضرت ﷺ کا زمانہ تکمیل ہدایت کا زمانہ تھا۔اور مسیح موعود کا زمانہ تکمیل اشاعت کا زمانہ ہے۔
{ 933} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت میں حافظ معین الدین عرف مانا مؤذن مقرر تھا۔اور کچھ وقت احمد نو ر کابلی بھی مؤذن رہے ہیں ۔اور مَیں بھی کچھ عرصہ اذان دیتا رہا ہوں۔اور دوسرے دوست بھی بعض وقت اذان دیدیتے تھے۔گویا اس وقت مؤذن کافی تھے۔بعض اوقات ایسا بھی ہوتا تھا کہ دو مؤذن ایک ہی وقت اذان دینے کے لئے کھڑے ہوجاتے تھے۔ایک روز ایک شخص نے اذان دینی شروع کی تو حافظ معین الدین نے بھی شروع کردی۔پھر حافظ صاحب ہی اذان دیتے رہے اور دوسرا شخص خاموش ہوگیا۔مَیں نے ایک روز صبح کے وقت اذان دی تو حضرت اقدس اندر سے تشریف لے آئے اور فرمانے لگے کہ مَیں نے کھانانہیں کھایا۔کیونکہ رمضان شریف کامہینہ تھا۔اس وقت شوق کی وجہ سے مؤذنوںمیں بھی جھگڑا ہوتا رہتا تھا۔ایک کہتا تھا کہ میں نے اذان دینی ہے اور دوسرا کہتا تھا مَیں نے دینی ہے۔بعض وقت مولوی عبدالکریم صاحب بھی اذان دیدیا کرتے تھے۔
{ 934} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بیان کیا کہ بہت ابتدائی زمانہ کا ذکر ہے کہ مولوی غلام علی صاحب ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ بندوبست ضلع گورداسپور مرزا نظام الدین صاحب کے مکان میں آکر ٹھہرے ہوئے تھے۔ان کو شکار دیکھنے کا شوق تھا۔وہ مرزا نظام الدین صاحب کے مکان سے باہر نکلے اور ان کے ساتھ چند کس سانسی بھی جنہوں نے کتّے پکڑ ے ہوئے تھے نکلے۔ مولوی غلام علی صاحب نے شاید حضرت صاحب کو پہلے سے اطلاع دی ہوئی تھی یا حضرت صاحب خودان کی دلداری کے لئے باہر آگئے۔بہر حال اس وقت حضرت صاحب بھی باہر تشریف لے آئے۔اور آپ آگے آگے چل پڑے اور ہم پیچھے پیچھے جا رہے تھے۔اس وقت حضرت صاحب کے پائوں میں جو جوتا تھا۔وہ شاید ڈھیلا ہونے کی وجہ سے ٹھپک ٹھپک کرتا جاتا تھا۔مگر وہ بھی حضرت صاحب کو اچھا معلوم ہوتا۔چلتے چلتے پہاڑی دروازہ پر چلے گئے۔وہاں ایک مکان سے سانسیوں نے ایک بلّے کو چھیڑکر نکالا۔یہ بلّا شاید جنگلی تھا جووہاں چھپا ہوا تھا۔جب وہ بلّا مکان سے باہر بھاگا تو تمام کتّے اس کو پکڑنے کے لئے دوڑے۔یہاں تک کہ اس بلّے کو انہوں نے چیر پھاڑ کر رکھدیا۔یہ حالت دیکھ کر حضرت صاحب چپ چاپ واپس اپنے مکان کو چلے آئے اور کسی کو خبر نہ کی ۔معلوم ہوتا ہے کہ یہ صدمہ دیکھ کر آپ نے برداشت نہ کیا اور واپس آگئے۔
{ 935} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ۹۸۔۱۸۹۷ء کا واقعہ ہے کہ جلسہ کے موقعہ پر قادیان کے نزدیک ایک گائوں کے احمدی جلسہ پر آئے۔یہ گائوں فیض اللہ چک یا تھہ غلام نبی یا سیکھواں تھا۔جو قادیان سے قریب ہی واقع تھا۔وہاں کے لوگوں نے برسبیل تذکرہ ذکر کیا کہ ہمارے گائوں کے اکثر لوگ بہت مخالف ہیں اور حضرت صاحب اور آپ کے مریدوں کوبرا بھلا کہتے ہیں اور اگر ان کو دلائل سُنائیں تو سُنتے نہیں۔اس پر ایک مرحوم دوست حافظ محمد حسین صاحب نابینا جو ڈنگہ ضلع گجرات کے رہنے والے تھے کہنے لگے کہ مَیں تمہارے گائوں میں آئونگا اورغیر احمدیوں کی مسجد میں ٹھہرونگا اور غیر احمدی بن کر تم سے مباحثہ کرونگا۔پھر جب شکست کھاجائونگا تو مخالفین پر اچھا اثر پڑے گا۔نیز وہ اس بہانے سے تمہارے دلائل سُن لیں گے۔غرض یہ سمجھوتہ ہوگیا۔جلسہ کے بعد وہ لوگ اپنے گائوں چلے گئے اور حافظ صاحب مر حوم ایک دو روز بعد اس گائوں میں پہنچے اور غیر احمدیوں کی مسجد میں ٹھہرے۔اور وہاں للکار کر کہا کہ یہاں کوئی میرزائی ہے؟ میرے سامنے کوئی نہیں ٹھہر سکتا۔لائو مَیں ان کو توبہ کرائوں۔غیر احمدیوں نے کہا۔ہاں یہاں فلاںشخص ہیں۔حافظ صاحب نے کہا کہ ان کو بلائو تو مَیں ان کو قائل کروں اور بحث میں شکست دوں ۔وہ لوگ بہت خوش ہوئے اور مجمع ہوگیا۔احمدی بلائے گئے۔سوال وجواب شروع ہوئے اور حیات وفات مسیح پر بحث ہونے لگی۔پہلے تو حافظ صاحب نے مشہور مشہور دلیلیں غیر احمدیوں والی پیش کیں۔پھر ہوتے ہوتے احمدیوں نے ان کو دبانا شروع کیا۔آخر وہ بالکل خاموش ہوگئے اور یہ کہہ دیا کہ مَیں آگے نہیں چل سکتا۔واقعی ان دلائل کا مقابلہ نہیں ہوسکتا۔غیر احمدیوں کو شُبہ پڑگیا کہ یہ شخص سکھایا ہوا آیا ہے۔ورنہ اگر یہ شخص غیر احمدی ہوتا۔تو فوراً اس طرح قائل نہ ہوتا۔اس پر انہوں نے حافظ صاحب کو بُرا بھلا کہا بلکہ غالباً جسمانی تکلیف بھی دی۔اور آخر حافظ صاحب نے احمدیوں کے گھر میں آکر پناہ لی۔حضرت صاحب کو جب یہ قصّہ معلوم ہوا تو آپ کو بہت ناگوار گذرا۔اور آپ نے فرمایا کہ یہ بہت نامناسب حرکت کی گئی ہے۔ہمارے دوستوں کو ایسا طریق اختیار نہیں کرنا چاہئے۔
{ 936} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلا م فرمایا کرتے تھے کہ شرعی طور پر زنا کے الزام کا گواہ جب تک سلائی اور سرمہ دانی والی حالت کی چشم دید گواہی نہ دے تب تک اس کی گواہی قبول نہیں ہوتی۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کے یہ الفاظ ایک حدیث کا ترجمہ ہیں۔جس کے یہ الفاظ ہیں کہ کَالْمِیْلِ فِی الْمِکْحَلَۃِ ـ
{ 937} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے یہ بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جمعہ کی پہلی سنتوں کے متعلق ایک دفعہ فرمایا کہ یہ تَحِیَّۃُ الْمَسْجِد ہیں۔ اس لئے آپ دو رکعت پڑھا کرتے تھے۔
{ 938} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود ؑ سرکے دَورہ میں پیرَ بہت جھسواتے تھے اور بدن زور سے دبواتے تھے۔اس سے آپ کو آرام محسوس ہوتا تھا۔
{ 939} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود ؑ کے زمانہ میں جب تک مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم زندہ رہے وہ ہر فرض نماز میں قنوت پڑھتے تھے۔اور صبح اور مغرب اور عشاء میں جہر کے ساتھ قنوت ہوتا تھا۔قنوت میں پہلے قرآنی دُعائیں پھر بعض حدیث کی دُعائیںمعمول ہوا کرتی تھیں۔آخر میں درود پڑھ کر سجدہ میں چلے جاتے تھے۔جودُعائیں اکثر پڑھی جاتیں تھیں۔ان کو بیان کر دیتا ہوں۔
رَبَّنَا اٰ تِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّار ـ (البقرۃ:۲۰۲)
رَبَّنَا وَاٰ تِنَا مَاوَعَدْ تَّنَا عَلٰی رُسُلِکَ…… (ال عمران :۱۹۵)
رَبَّنَا ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ ـ (الاعراف:۲۴)
رَبَّنَا ھَبْ لَنَامِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیَّاتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا ـ (الفرقان:۷۵)
رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا اِنْ نَّسِیْنَا اَوْ اَخْطَأْ نَا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(البقرۃ:۲۸۷)
رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَھَنَّمَ اِنَّ عَذَابَھَا کَانَ غَرَامًا ـ (الفرقان:۶۶)
رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَاَنْتَ خَیْرُ الْفَاتِحِیْنَ ـ (الاعراف:۹۰)
رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَۃً لِّلْقَوْمِ الظَّالِمِیْنَ ـ (یونس:۸۶)
رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا …… (ال عمران:۹)
رَبَّنَا اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیْ لِلْاِیْمَانِ اَنْ اٰمِنُوْا بِرَبِّکُمْ فَآمَنَّا …(ال عمران:۱۹۴)
اَللّٰھُمَّ اَیِّدِ الْاِسْلَامَ وَالْمُسْلِمِیْنَ بِالْاِمَامِ الْحَکَمِ الْعَادِلِ ـ
اَللّٰھُمَّ انْصُرْمَنْ نَصَرَ دِیْنَ مُحَمَّدٍ وَاجْعَلْنَا مِنْھُمْ وَاُخْذُلْ مَنْ خَذَلَ دِیْنَ مُحَمَّدٍ
وَلَا تَجْعَلْنَا مِنْھُمْ ـ

خاکسار عرض کرتا ہے کہ آخری سے پہلی دعا میں دراصل مسیح موعود کی بعثت کی دعا ہے مگر بعثت کے بعد اس کے یہ معنے سمجھے جائیں گے ،کہ اب مسلمانوں کو آپ پر ایمان لانے کی توفیق عطا کر۔
{ 940} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔میاں معراج الدین صاحب عمر نے بواسطہ مولوی عبدالرحمٰن صاحب مبشر بیان کیا کہ جب کبھی کوئی ایسا اعتراض یا مسئلہ حضرت مسیح موعود علیٰہ السلام کی خدمت میں پیش ہوتا یا کسی کی تحریر کے ذریعہ حضور کو پہنچتاکہ جس کا جواب دینا ضروری ہوتا ۔تو عام طور پر حضرت صاحب اس اعتراض یا مسئلہ کے متعلق مجلس میں اپنے دوستوں کے سامنے پیش کر کے فرماتے کہ اس معترض کے اعتراض میں فلاں فلاں پہلوں فروگذاشت کئے گئے ہیں۔ یا اس کی طبیعت کو وہاں تک رسائی نہیں ہوئی ، یا یہ اعتراض کسی سے سُن کر اپنی عادت یا فطرت کے خبث کا ثبوت دیا ہے۔ پھر حضور اس اعتراض کو مکمل کرتے اور فرمایا کرتے کہ اگر اعتراض ناقص ہے ۔تو اس کا جواب بھی ناقص رہتا ہے۔اس لئے ہماری یہی عادت ہے کہ جب کبھی کسی مخالف کی طرف سے کوئی اعتراض اسلام کے کسی مسئلہ پرپیش آتا ہے۔تو ہم پہلے اس اعتراض پر غور کرکے اس کی خامی اور کمی کو خود پورا کر کے اس کو مضبوط کرتے ہیں اور پھر جواب کی طرف توجہ کرتے ہیں۔اور یہی طریق حق کو غالب کرنے کا ہے۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{ 941} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔میاں معراج الدین صاحب عمر نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بیان کیاکہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام ایک مقدمہ فوجداری کی جوابدہی کے لئے جہلم کو جارہے تھے۔یہ مقدمہ کرم دین نے حضور اور حکیم فضل الدین صاحب اور شیخ یعقوب علی صاحب کے خلاف توہین کے متعلق کیا ہوا تھا۔اس سفر کی مکمل کیفیت تو بہت طول چاہتی ہے۔مَیں صرف ایک چھوٹی سی لطیف بات عرض کرتا ہوںجس کو بہت کم دوستوں نے دیکھا ہوگا۔
جب حضور لاہو ر ریلوے سٹیشن پر گاڑی میں پہنچے تو آپ کی زیارت کے لئے اس کثرت سے لوگ جمع تھے جس کا اندازہ محال ہے کیونکہ نہ صر ف پلیٹ فارم بلکہ باہر کامیدان بھی بھرا پڑا تھا اور لوگ نہایت منتوں سے دوسروں کی خدمت میں عرض کرتے تھے کہ ہمیں ذرا چہرہ کی زیارت اور درشن تو کر لینے دو۔اس اثناء میں ایک شخص جن کا نام منشی احمد الدین صاحب ہے(جو گورنمنٹ کے پنشنر ہیں اور اب تک بفضلہ زندہ موجود ہیں اور انکی عمر اس وقت دو تین سال کم ایک سو برس کی ہے لیکن قویٰ اب تک اچھے ہیں اور احمدی ہیں)آگے آئے جس کھڑکی میں حضور بیٹھے ہوئے تھے وہاں گورہ پولیس کا پہرہ تھا اور ایک سپرنٹنڈنٹ کی حیثیت کا افسر اس کھڑکی کے عین سامنے کھڑا نگرانی کر رہا تھا۔کہ اتنے میں جرأت سے بڑھ کر منشی احمد الدین صاحب نے حضور سے مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا۔یہ دیکھ کر فوراً اس پولیس افسر نے اپنی تلوار کو الٹے رُخ پر اس کی کلائی پر رکھ کر کہا کہ پیچھے ہٹ جائو۔اس نے کہا کہ مَیں ان کا مرید ہوںاور مصافحہ کرنا چاہتا ہوں ۔اس افسر نے جواب دیا کہ اس وقت ہم ان کی حفاظت کے ذمہ وار ہیں۔ ہم اس لئے ساتھ ہیں کہ بٹالہ سے جہلم اور جہلم سے بٹالہ تک بحفاظت تمام ان کو واپس پہنچا دیں۔ہمیں کیا معلوم ہے کہ تم دوست ہو یا دشمن۔ممکن ہے کہ تم اس بھیس میں کوئی حملہ کردو۔اور نقصان پہنچائو۔پس یہاں سے فوراً چلے جائو۔یہ واقعہ حضرت صاحب کی نظر سے ذرا ہٹ کر ہوا تھا کیونکہ آپ اور طرف مصروف تھے۔ اس کے بعد راستہ میں آپ کی خدمت میں یہ واقعہ بیان کیا گیا۔مَیں بھی سفر میں آنحضو رکے قدموں میں تھا۔حضور ہنس کر فرمانے لگے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا اپنا انتظام ہے جو اپنے وعدوں کوپورا کر رہا ہے۔
{ 942} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بیان کیا کہ جس وقت لدھیانہ میں حضرت صاحب کا مباحثہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی سے ہوا۔تو یہ مباحثہ دیکھ کر میاں نظام الدین لدھیانہ والا احمدی ہوکر قادیان میں آیا۔وہ بیان کیا کرتا تھا کہ مَیں کس طرح احمدی ہوا۔کہتا تھا کہ مولوی محمد حسین نے مجھ کو کہا کہ مرزا صاحب سے دریافت کروکہ کیا حضرت مسیح علیہ السلام زندہ آسمان پر نہیں ہیں؟ میں نے جاکر حضرت صاحب سے دریافت کیا ۔تو آپؑ نے فرمایا کہ اگر آپ کے پاس حیات مسیح کا کوئی ثبوت ہوتو ایک دو آیات قرآن شریف سے لاکر پیش کریں۔مَیں نے کہا۔ایک دو کیا ہم تو ایک سوآیت قرآن شریف سے پیش کردینگے۔ آپ نے فرمایا جائو جائو لائو۔جب میں مولوی محمد حسین صاحب کے پاس آیاتو میں نے کہا کہ مرزا صاحب سے مَیں یہ اقرار لے کر آیا ہوں کہ ایک دو آیت کیا ہم قرآن شریف سے ایک سو آیت پیش کردیں گے۔جس پر مرزا صاحب مان لیں گے ۔مولوی صاحب نے کہا’’جا۔ وے تیری بیڑی ڈُب جائے یہ اقرار تُوں کیوں کر آیا؟‘‘ مولوی نظام الدین کہتے تھے کہ مَیں نے جب یہ الفاظ مولوی صاحب کے مُنہ سے سُنے تو مَیں سمجھا کہ مولوی صاحب کے پاس کوئی ثبوت نہیں ۔اس پر مَیں نے آکر بیعت کر لی۔حضرت صاحب اس وقت عموماًمسجد مبارک میں بیٹھ جایا کرتے تھے۔ جب کبھی میاں نظام الدین صاحب یہ واقعہ سنایا کرتے تھے تو حضرت صاحب سن کر بہت ہنسا کرتے تھے ۔ میاں نظام الدین صاحب اس واقعہ کو اکثر دوستوں کے پاس بیان کیا کرتے تھے۔کیونکہ وہ پھر قادیان میں ہی رہے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مَیں نے یہ واقعہ یوں سُنا ہوا ہے کہ جب مولوی نظام الدین صاحب نے یہ اقرار لے لیا کہ اگر حیات مسیح کے متعلق آپ کو ایک آیت بھی دکھادی جائے تو آپ فوراً مان لیں گے تو وہ بہت خوشی خوشی مولوی محمد حسین صاحب کے پاس گئے اور کہا کہ مَیں مرزا صاحب سے یہ اقرا ر لے آیا ہوں اب جلدی سے مجھے چند آیات نکال دیں۔مولوی محمد حسین نے ناراض ہو کر کہا۔اوبے وقوف ! ہم مرزا صاحب کو حدیث کی طرف کھینچ رہے تھے تو انہیں پھر قرآن کی طرف لے گیا۔مولوی نظام الدین نے کہا ۔مولوی صاحب! اگر قرآن آپ کے ساتھ نہیں تو پھر مَیں تو اس کے ساتھ ہوںجس کے ساتھ قرآن ہے ۔مولوی صاحب نے کہا تو بیو قو ف اور جاہل ہے۔ تجھے کچھ پتہ نہیںاور لوگوں سے کہا کہ اس کی روٹی بند کر دو۔
{ 943} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔میا ں امام الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بیان کیا کہ بھائی جمال الدین مرحوم نے ایک دن بیان کیا کہ ایک دفعہ مَیں لاہور اس ارادہ سے گیا کہ کچھ حدیث پڑھ آئوں ۔ان دنوں میں مولوی محمد حسین صاحب چینیانوالی مسجد میں رہتے تھے۔ مَیں نے دیکھا کہ وہ صبح تہجد کے وقت اپنے شاگردوں کو حدیث پڑھایا کرتے تھے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویاحدیث کے حافظ ہیں اورمجھے معلوم ہوا کہ مولوی صاحب بڑے عالم ہیں۔جب میں واپس آیا اور حضر ت صاحب کے پاس ایک روز ذکر کیا کہ مولوی محمد حسین صاحب اپنے شاگردوں کو زبانی حدیث پڑھاتے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا کہ وہ زبر دست عالم ہیں۔اس پر حضرت صاحب نے فرمایا۔وہ ہمارے مقابل پر جواب لکھے۔خدا اس کا سارا علم سلب کر لے گا۔سو ایسا ہی ظہور میں آیا کہ وہ کوئی جواب نہیں لکھ سکا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس میں شُبہ نہیں کہ ظاہری علم کے لحاظ سے مولوی محمدحسین بٹالوی بہت بڑے عالم تھے اور کسی زمانہ میں ہندوستان کے علم دوست طبقہ میں ان کی بڑی قدر تھی۔مگر خدا کے مسیح کے مقابلہ پر کھڑے ہو کر انہوں نے سب کچھ کھو دیا۔
{ 944} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بیان کیا کہ مصنّف ’’عصائے موسیٰ ‘‘ کو جب لاہور میں طاعون ہوا۔تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس یہ بات پیش ہوئی کہ حضور نے ’’اعجاز احمدی‘‘ میں لکھا ہے کہ مولوی محمد حسین اور مصنف ’’ عصائے موسیٰ ‘‘رجوع کرلیں گے۔اس پر آپ نے فرمایا کہ ان کو مرنے دو۔خدائی کلام کی تاویل بھی ہوسکتی ہے۔آخر وہ طاعون سے ہی مرگیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مصنّف عصائے موسیٰ سے بابو الٰہی بخش اکا ئونٹنٹ مراد ہے جو شروع میں معتقد ہوتا تھا۔مگر آخر سخت مخالف ہوگیا۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نعوذباللہ فرعون قرار دیکران کے مقابل پر اپنے آپ کو موسیٰ کے طورپر پیش کیا مگر بالآخر حضرت صاحب کے سامنے طاعون سے ہلاک ہوکر خاک میں مل گیا۔
{ 945} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بیان کیا کہ مَیں ایک روز بٹالہ میں جمعہ پڑھنے کے لئے گیا۔اس وقت مَیں جب بٹالہ جاتا تھا تو مولوی محمد حسین صاحب کے پیچھے جمعہ پڑھا کر تا تھا۔انہوں نے بٹالہ میں خلیفیاں والی مسجد میں جمعہ پڑھانا تھا۔ جب انہوں نے خطبہ شروع کیا تو کہنے لگے کہ دیکھو مرزا حضرت مسیح ناصری کو ساہنسیوں اور گنڈیلوں سے تشبیہ دیتا ہے اور کیسی ہتک کرتا ہے۔ مجھے یہ الفاظ سُن کر نہایت جوش پیدا ہوا۔اور مَیں نے اسی وقت اُٹھ کر مولوی صاحب کو ٹوکا کہ جو نقشہ مسیح کا آپ پیش کرتے ہیں اس کے ہوتے ہوئے اور کس سے تشبیہ دی جائے؟مگر مولوی صاحب نے میری بات کا کوئی جواب نہ دیا۔اور نہ ہی یہ کہا کہ خطبہ میں بولنا منع ہے۔بلکہ خاموشی سے بات کو پی گئے۔اس وقت ابھی مخالف کے پیچھے نماز پڑھنے کی ممانعت نہ ہوئی تھی۔
{ 946} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اکثر ذکر فرمایا کرتے تھے کہ بقول ہمارے مخالفین کے جب مسیح آئے گا اور لوگ اس کو ملنے کے لئے اس کے گھر پر جائیں گے تو گھر والے کہیں گے کہ مسیح صاحب باہر جنگل میں سؤر مارنے کے لئے گئے ہوئے ہیں۔پھر وہ لوگ حیران ہوکر کہیں گے کہ یہ کیسا مسیح ہے کہ لوگوں کی ہدایت کے لئے آیا ہے اور باہر سؤروں کا شکا ر کھیلتا پھرتا ہے۔پھر فرماتے تھے کہ ایسے شخص کی آمد سے تو ساہنسیوں اور گنڈیلوں کو خوشی ہوسکتی ہے۔ جو اس قسم کا کام کرتے ہیں۔مسلمانوں کو کیسے خوشی ہوسکتی ہے۔یہ الفاظ بیان کر کے آپ ہنستے تھے۔یہاں تک کہ اکثر اوقات آپ کی آنکھوں میں پانی آجا تا تھا۔
{ 947} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو عربی کے رواج دینے کی طرف توجہ تھی تو ان دنوں میں حضرت صاحب مجھے بھی عربی فقرات لکھواتے تھے اور ان میں نصیحت کے لئے بھی کبھی کبھی مناسب فقرے لکھوا دیتے تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ کا سبق شعروں میں بنا کر دیا تھا۔پھر مَیں نے دیکھا کہ دو تین سال بعد تھوڑے تغیر کے ساتھ وہی اشعار آپ نے انجام آتھم میں درج کر دئے اور وہ شعر جو اس وقت یاد کرائے تھے یہ ہیں:۔
۱۔ اَطِع ربّک الجبّار اہل الاوامر
وخف قھرہٗ واترک طریق التجاسر
اپنے جبار اور صاحب حکم رب کی اطاعت کر اور اس کے قہر سے ڈر اور دلیری کا طریقہ چھوڑ دے
۲۔ وکیف علی نار النھابر تصبر
وانت تَأَ ذّٰی عند حر الھواجر
اور تو دوزخ کی آگ پر کس طرح صبر کرے گا حالانکہ تجھے تو دوپہر کی گرمی سے بھی تکلیف ہوتی ہے۔
۳۔ وواللّٰہ ان الفسق صِلّ مد مر
کَمَلْمَسِ اَفْعٰی ناعم فی النواظر

اور خدا کی قسم بدکاری ایک ہلاک کرنیوالا سانپ ہے جو سانپ کی کھال کی طرح دیکھنے میں اچھی معلوم ہوتی ہے۔
۴۔ فلا تختروا الطغوٰی فاِنّ الٰھنا
غیورٌ علیٰ حرما تہٖ غیر قاصر

پس سرکشی نہ اختیار کرو کیونکہ ہمارا خدا بڑا غیر تمند ہے اور اپنی حرام کی ہوئی چیزوں کے کرنے والے کو سزا کے بغیر نہیں چھوڑے گا۔
۵۔ ولا تقعدن یا بنَ الکِرَام بمفسدٍ
فترجع من حب الشریر کخاسر

اور اے بزرگوں کے بیٹے تو شریروں کے پاس نہ بیٹھا کر کیونکہ تو شریروں سے محبت کرکے نقصان ہی اٹھائے گا۔
۶۔ ولا تحسبن ذنبًا صغیرًا کھیّن
فانّ وداد الذنب احدی الکبائر

اور چھوٹے گناہ کو ہلکا نہ سمجھ کیونکہ چھوٹے گنا ہوںکر پسند رکھنا خود ایک کبیرہ گناہ ہے۔
۷۔ واٰخرنُصحی توبۃٌ ثمّ توبۃ
وموت الفتٰی خیرٌ لہ من مناکرٖ

اور میری آخری نصیحت یہ ہے کہ توبہ کر پھر توبہ کراور ایک جوان کا مر جانا اس کے گناہ کرنے سے اچھا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے شعر نمبر ۳ اور ۶ میں انجام آتھم میں درج کرتے وقت کچھ تبدیلی کی ہے۔ نمبر ۳ کا مصرعہ اس طرح کر دیا ہے۔ ’’وحُبّ الھوٰی وَاللّٰہِ صلّ مدمرٌ‘‘ اور نمبر۶ کے مصرعہ میں۔ الذّنب کی جگہ اللمم کا لفظ رکھ دیا ہے۔
{ 948} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جہاں تک مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طرز عمل سے نتیجہ نکا لا ہے وہ یہی ہے کہ حضور لڑکیوں کے پیدا ہونے کی نسبت لڑکوں کی پیدائش کو زیادہ پسند کرتے تھے اور زیادہ خوش ہوتے تھے اور اس معاملہ میں ان لوگوں کی رائے نہ رکھتے تھے جو کہا کرتے ہیں کہ لڑکی لڑکا چونکہ خدا کی دین ہیں۔اس لئے ہماری نظر میں دونوں برابر ہیں۔
خاکسار عر ض کرتا ہے کہ اس میں کیا شُبہ ہے کہ اگر اور حالات برابر ہوں تو کئی لحاظ سے لڑکا ،لڑکی سے افضل ہوتا ہے جیسا کہ حدیث میں بھی اس طرف اشارہ پایا جاتا ہے اور فرق تو ظاہر ہی ہے کہ عام حالات میں لڑکا دین کی زیادہ خدمت کرسکتا ہے۔
{ 949} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک قصّہ بیان فرمایا کہ ایک بادشاہ تھا اس کی لڑکی پر کوئی فقیر عاشق ہوگیا اور کوئی صورت وصل کی نہ تھی۔کہاں وہ فقیر اور کہاں وہ بادشاہ زادی ! آخر وہ فقیر اس غم میں مرگیا۔جب غسل دیکر اور کفن پہنا کر اسے دفن کرنے کے لئے تیار کیا گیا تو لوگوں نے دیکھا کہ اس کے ہونٹ ابھی ہل رہے ہیں۔کان لگا کر غور سے سُنا۔تو یہ شعر سُنائی دئیے۔
جانانِ مرا بمن بیارید
وِیں مردہ تنم بدو سپارید
گر بوسہ دہد بریں لبانم
ور زندہ شوم عجب مدارید
بادشاہ نے سُن کر کہا اچھا اس کی آزمائش کر لو۔چنانچہ شہزادی کو کہا کہ اس مُردہ کو بوسہ دو۔اس کے بوسہ دینے کی دیر تھی کہ وہ شخص اُٹھ بیٹھا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ ہے تو یہ ایک قصّہ مگر اس سے حضرت صاحب کا یہ مطلب تھا کہ گوہر مقصود کا مل جانا ایک ایسی چیز ہے کہ گویا مُردہ کوبھی زندہ کر دیتی ہے۔
{ 950} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دن فرمایا کہ ایک شاعر غنیمت نامی تھا اس نے ایک دن یہ مصرعہ کہا:۔
صَبا شرمندہ می گرددبُروئے گُل نگہ کردن
پھر بہت غور اور فکر کیا کہ اس کے ساتھ کا دوسر امصرعہ بنے۔مگر نہ بنا۔اور وہ مدتوں اسی فکر میں غلطاں پیچاں رہا۔اتفاقیہ ایک دن وہ تھوڑا سا کپڑا خر یدنے بزاز کے ہاں گیا۔جہاں بزاز نے بیسیوں تھان اس کے سامنے کھول ڈالے۔مگر اُسے کوئی کپڑا پسند نہ آیا۔جب دُکان سے چلنے لگاتو بزاز کو وہ تمام تھان نئے سرے سے تہہ کرنے پڑے اور اسے بڑی دقت ہوئی ۔اس حالت کو دیکھ کر غنیمت بہت شرمندہ ہوا اور پھر بجلی کی طرح اس کے دل میں دوسرا مصرعہ آگیا اور وہ شعر پورا ہوگیا۔چنانچہ شعر یہ ہے ؎
صَباَ شرمندہ می گرددبُروئے گُل نگہ کردن
کہ رختِ غنچہ را وا کرد و نتوانست تہ کردن
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس شعر کا مطلب یہ ہے کہ نسیمِ صبا شر م کی وجہ سے پھول کی طرف نظر نہیںاُٹھا سکتی کہ اس نے کلی کا منہ کھول تو دیا مگر پھر اس کے بند کرنے کی طاقت نہ پائی۔
{ 951} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔میاں اما م الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک مرتبہ حضرت اقدس نے ہم تینوں بھائیوں سے فرمایا کہ بٹالہ میں جائو۔سُنا ہے کہ ایک مولوی آرہ سے آرہا ہے اس نے بڑی مسجد مولوی صوفی شاہ والی میں جمعہ پڑھا نا ہے۔دیکھ سُن آئو کہ ہمارے متعلق کیا بیان کرتا ہے۔ہم تینوں برادربٹالہ میں گئے ۔پہلے ہم مولوی محمد حسین کی مسجد میں گئے۔مولوی صاحب وہاں موجود تھے اور ان کے علاوہ دو تین اور آدمی بھی وہاں بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم بھی وہاں جاکر بیٹھ گئے۔اس اثناء میں ایک شخص آیا اور اس نے آکر مولوی صاحب سے کہا کہ مجھے کچھ روپیہ زکوٰۃ سے دلوادیں۔وہاں مولوی صاحب کے برادروں میں سے محمد عمر نامی بیٹھا ہوا تھا۔مولوی صاحب نے اس کو کہا کہ اس شخص کو شیخ عبد الکریم کے پاس لے جائو اور زکوٰۃ سے کچھ دلوا دو۔شیخ محمد عمر نے جانے سے انکار کر دیا۔بھائی جمال الدین مرحوم نے کہا۔مولوی صاحب اگر حضرت مرزا صاحب ایک آدمی کو کہیں تو سو آدمی اُٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ اس پر مولوی صاحب نے جوش میں آکر کہا کہ یہ کوئی حق کی دلیل ہے۔جواب میں کہا گیا کہ پھر حق کس کو کہتے ہیں اس پر مولوی صاحب اُٹھ کر گھر چل پڑے۔بھائی جما ل الدین مرحوم نے اس وقت کہا۔مولوی صاحب آپ کو حضرت مرزا صاحب نے اپنی عربی کتابوں میں جواب کے لئے مخاطب کیا ہے۔ان کا جواب کیوں نہیں دیتے ۔اس پر وہ کہنے لگے۔ ہاں اس کا جواب ایک طالب علم لکھ رہا ہے۔بھائی جمال الدین نے کہا کہ مخاطب تو آپ ہیں۔ طالب علم کو کیا حق ہے کہ وہ اس کا جواب دے۔مگر مولوی صاحب نے اس کا کوئی جواب نہ دیا اور گھر کو چلے گئے۔راستہ میں ایک گدھا ایندھن کا لدا ہوا کھڑا تھا۔اس کے پاس کھڑے ہو کر اس کے مالک سے سودا کرتے رہے۔ہم پھر سب قادیان آگئے۔کیونکہ وہ آرہ والا مولوی بٹالہ میں نہیں آیا تھا۔
{ 952} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بیان کیا کہ جس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا آتھم سے مباحثہ مقرر ہوا تو حضور امرتسرجانے کی تیاری کرنے لگے اور ہم تینوں بھائی بھی ساتھ تھے اور دیگر دوست بھی ہمراہ تھے۔جب امرتسر پہنچے تو مباحثہ کی جگہ کے لئے ایک کوٹھی جو عیسائیوں کی تھی مقرر ہوئی۔یہ مباحثہ تحریری تھا۔ہر ایک فریق کے ساتھ دو دو کاتب تھے۔اس طرف حضرت صاحب اپنا مضمون لکھواتے اور دوسری طرف آتھم اپنا مضمون لکھوا رہا تھا۔بعد میں دونوں فریق کے مضمون سنائے جاتے۔وہ کتاب جس میں یہ مباحثہ درج ہے ’’جنگ مقدس ‘‘کے نام سے شائع ہوچکی ہے۔جب حضرت صاحب مباحثہ سے فارغ ہوکر شہر میں آئے اور ہال بازار میں آپ جارہے تھے اور تمام جماعت پیچھے پیچھے جا رہی تھی تو اس وقت حضرت صاحب نے سفید کپڑے کا چوغہ پہنا ہوا تھا۔وہ چوغہ نیچے سے کچھ پھٹا ہوا تھا۔میاں چٹو لا ہوری بھی پیچھے پیچھے جا رہا تھا۔وہ اس پھٹی ہوئی جگہ کوہر ایک کو دکھاتا تھاکہ آپ کو کوئی خبر نہیں کہ میرا چوغہ پھٹا ہوا ہے۔ اس کی اس سے غرض یہ تھی کہ اگر کوئی دُنیا دار ہوتا توایسے کپڑے پہننے اپنی ہتک سمجھتا۔ہم تین دن ٹھہرکر چلے آئے تھے۔ باقی مباحثہ ہمارے بعد ہوا تھا۔
{ 953} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ابتدا میں قادیان کے سب مقیم احمدی لنگر سے کھانا کھاتے تھے۔حضرت خلیفہ اوّل بھی گول کمرہ میں مہمانوں کے دستر خوان پر کھانا کھانے کے لئے آیا کرتے تھے۔اس دستر خوان پر حضرت صاحب شریک نہیں ہوتے تھے۔ ان دنوںمیں کھانا کھلانے کا انتظام محمد سعید کے سپرد تھا۔ وہ حضرت مولوی صاحب سے کسی بات پر ناراض ہوا اور ارادتاً ان کے آگے خراب دال اور خراب روٹیاں رکھتا اور دیگر مہمانوں کے آگے سالن یا تازہ کھانااور اچھی روٹی رکھتا تھا مگر حضرت مولوی صاحب بکمال بے نفسی ومسکینی مدتوں اسی کھانے کو کھاتے رہے اور کوئی اشارہ تک اس کی اس حرکت کے متعلق نہ کیا۔پھر اس کے بعد وہ زمانہ آیا کہ لوگ اپنے گھروں میں انتظام کھانے کا کرنے لگے تو ان دنوں میں چند دفعہ ایسا ہوا کہ حضرت مولوی صاحب اگر کبھی بیمار ہوتے اور حضرت صاحب کو معلوم ہوتا کہ مولوی صاحب کے کھانے کا انتظام ٹھیک نہیں ہے آپ اپنے ہاں سے ان کے لئے کھانا بھجوانا شروع کردیتے تھے جو مدّت تک باقاعدہ ان کے لئے جاتا رہتا تھا۔
{ 954} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مولوی محمد علی صاحب ایم ۔اے لاہور کی پہلی شادی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے گورداسپور میں کرائی تھی۔جب رشتہ ہونے لگاتو لڑکی کو دیکھنے کے لئے حضور نے ایک عورت کو گورداسپور بھیجا تا کہ وہ آکر رپورٹ کرے کہ لڑکی صورت وشکل وغیرہ میں کیسی ہے اور مولوی صاحب کے لئے موزوں بھی ہے یا نہیں۔چنانچہ وہ عورت گئی۔جاتے ہوئے اسے ایک یاداشت لکھ کر دی گئی۔یہ کاغذ مَیں نے لکھا تھا اور حضرت صاحب نے بمشورہ حضرت ام المؤ منین لکھوایا تھا۔اس میں مختلف باتیں نوٹ کرائی تھیں ۔مثلاً یہ کہ لڑکی کا رنگ کیسا ہے۔قد کتنا ہے۔اس کی آنکھوں میں کوئی نقص تو نہیں ،ناک، ہونٹ، گردن، دانت، چال ڈھال وغیرہ کیسے ہیں۔غرض بہت ساری باتیں ظاہری شکل وصورت کے متعلق لکھوادی تھیں کہ ان کی بابت خیال رکھے اور دیکھ کر واپس آکر بیان کرے۔جب وہ عورت واپس آئی اور اس نے ان سب باتوں کی بابت اچھا یقین دلایاتو رشتہ ہوگیا۔اسی طرح جب خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے اپنی بڑی لڑکی حضرت میاں صاحب (یعنی خلیفۃ المسیح الثانی) کے لئے پیش کی۔تو ان دنوں میں یہ خاکسارڈاکٹر صاحب موصوف کے پاس چکراتہ پہاڑ پر جہاں وہ متعین تھے بطور تبدیل آب وہوا کے گیا ہوا تھا۔واپسی پر مجھ سے لڑکی کا حُلیہ وغیرہ تفصیل سے پوچھا گیا۔پھر حضرت میاں صاحب سے بھی شادی سے پہلے کئی لڑکیوں کا نام لے لے کر حضور نے ان کی والدہ کی معرفت دریافت کیا کہ ان کی کہاں مرضی ہے۔ چنانچہ حضرت میاں صاحب نے بھی والدہ ناصر احمد کو انتخاب فرمایا اور اس کے بعد شادی ہوگئی۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ بھی تاکید فرمایا کرتے تھے کہ شادی سے پہلے لڑ کی کو دیکھ کر تسلی کر لینی چاہئے کہ کوئی نقص نہ ہو۔چنانچہ ایک دفعہ ایک مہا جر صحابی کو جو ایک انصاری لڑکی سے شادی کرنے لگا تھا فرمایا کہ لڑکی کو دیکھ لینا،کیونکہ انصار کی لڑکیوں کی آنکھ میں عموماً نقص ہوتا ہے۔اور حضرت صاحب نے جو مولوی محمد علی صاحب کی شادی کے وقت شکل وصورت کی تفصیل کے متعلق سوالات کئے تو یہ غالباً مولوی صاحب کے منشاء کے تحت کیا ہوگا۔
{ 955} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ مولوی کرم الدین جہلمی کا مقدمہ گورداسپور میں تھا۔تو مجسٹریٹ نے پانچ صد روپیہ حضرت صاحب کو اور دو صد حکیم فضل دین صاحب کو اور پچاس روپیہ مولوی کرم الدین کو جرمانہ کیا تھا۔حضرت صاحب کی طرف سے اپیل ہوئی اور کل جرمانہ سات صد روپیہ واپس مل گیامگر مولوی کرم الدین کا جرمانہ قائم رہا۔اس فیصلہ کے بعد موضع اٹھوال ضلع گورداسپور میں جماعت احمدیہ نے جلسہ کیااور بعض علماء قادیان سے بھی وہاں گئے۔کچھ تقاریر ہوئیں۔بعد میں بارش شروع ہو گئی۔اور بہت سے احمدی وغیر احمدی دوست ایک بڑے مکان میں جمع ہوکر بیٹھ گئے۔اس وقت علی محمد درزی ساکن سوہل نے تقریر شروع کر دی کہ مولوی کرم دین کو فتح ہوئی ہے کیونکہ مرزا صاحب پر جرمانہ ہوا ہے۔مَیں نے جب یہ آواز سُنی تو میں نے اُسے کہا میر ے سامنے آکر بیان کرو۔اس نے آکر تقریر شروع کر دی۔میں نے کہا سنو!اِس مقدمے میں حضرت مرزا صاحب کی فتح ہوئی ہے۔اس نے کہا کہ مرزا صاحب نے کہا تھا کہ میری فتح ہوگی مگر گورداسپور میں جرمانہ ہوا۔مَیں نے کہا کہ اگر اپیل سے جرمانہ واپس آجائے تو کیا پھر بھی سزا قائم رہتی ہے؟کہنے لگا ہاں سزا قائم رہتی ہے۔مَیں نے تمام حاضرین کو مخاطب کرکے کہا کہ کیا آپ لوگ شہادت دے سکتے ہیں کہ جو شخص اپیل میں بَری ہو جائے اس پر پہلا جرم قائم رہتا ہے یا کہ وہ بَری ہو جاتا ہے۔تمام دوستوں نے کہا کہ وہ بَری ہوجاتا ہے۔اور کوئی جرم باقی نہیں رہتا۔ پھر بھی وہ انکار ہی کرتا رہا۔ مَیں نے کہا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو جو قید ہوئی تھی کیا وہ مجرم ہیں یا کہ ان کو بَری سمجھا جاتاہے۔جب مَیں نے یہ واقعہ پیش کیا۔تو وہ ایسا خاموش ہوا کہ کوئی جواب اس سے بَن نہ پڑا ۔لوگوں نے بھی اس کا بُرا حال کیا۔اس پر وہ بہت ہی نادم اور شرمندہ ہوا۔پھر مَیں نے اس کو اس طور پر سمجھایا کہ حضرت صاحب نے اس مقدمہ سے پہلے شائع کیا ہوا تھا کہ ایک تو مجھے یہ الہام ہوا ہے کہ ان اللہ مع الذین اتقوا والذین ھم محسنون۔ یعنی خدا تعالیٰ اس فریق کے ساتھ ہے جو متقی ہے اور دوسرا الہام یہ تھا کہ ’’عدالت عالیہ سے بری کیا جائے گا‘‘۔اب دونوں کو ملا کر دیکھو کہ یہ کیسی عظیم الشان صداقت ہے جو پوری ہوئی۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{ 956} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب ایک دفعہ کسی شخص کا ذکر سُنا نے لگے کہ وہ عورت پر سخت عاشق ہوگیا۔اور باوجود ہزار کوشش کے وہ اس عشق کو دل سے نہ نکال سکا۔آخر حضرت صاحب کے پاس آیا۔اور طالبِ دُعا ہوا۔حضرت صاحب نے مولوی صاحب سے فرمایا کہ مجھے خدا کی طرف سے معلوم ہوا ہے کہ یہ شخص اس عورت سے ضرور بدکاری کرے گا۔مگر مَیں بھی پورے زور سے اس کے لئے دُعا کرونگا چنانچہ وہ شخص قادیان ٹھہرا رہا۔اور حضور دُعا کرتے رہے۔یہاں تک کہ اس نے ایک روز مولوی صاحب سے کہا کہ آج رات خواب میں مَیں نے اس عورت کو دیکھا اور خواب میں ہی اس سے مباشرت کی اور مَیں نے اس دوران میں اس کی شرمگاہ کو جہنم کے گڑھے کی طرح دیکھا۔جس سے مجھے اس سے اس قدر خوف اور نفرت پیدا ہوئی کہ یکدم وہ آتشِ عشق ٹھنڈی ہوگئی اور وہ محبت کی بے قراری سب دل سے نکل گئی۔بلکہ دل میں دوری پیدا ہوگئی اور خدا کے فضل اور حضور کی دعا کی برکت سے مَیں بدکاری سے بھی محفوظ رہا اور وہ جنون بھی جاتا رہا۔اور حضور نے جوبات میری بابت کہی تھی وہ ظاہر رنگ سے بدل کر خدا نے خواب میں پوری کرا دی۔یعنی مَیں نے اس سے تعلق بھی کر لیا اور ساتھ ہی مجھے گنا ہ سے بھی بچالیا ۔غالباً یہ شخص سیالکوٹ کا رہنے والا تھا اور متمّول آدمی تھا اور اُس نے حضرت صاحب کی بیعت بھی کی تھی۔مگر تعلق کو آخر تک نہیں نبھایا۔
{ 957} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے گھر کی حفاظت کے لئے ایک دفعہ ایک گدّی کُتّا بھی رکھا تھا۔وہ دروازے پر بندھا رہتا تھا اور اس کا نام شیرو تھا۔اس کی نگرانی بچے کرتے تھے۔یا میاں قدرت اللہ خانصاحب مرحوم کرتے تھے جو گھر کے دربان تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس کتے کی ضرورت ان دنوں میں پیش آئی تھی جب حضرت صاحب باغ میں جاکر ٹھہرے تھے اور وہاں حفاظت کی صورت نہیں تھی۔مگر اس کے بعد کتّا شہر والے مکان میں بھی آگیا۔
{ 958} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ملتان کے سفر میں جاتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک رات لاہور ٹھہرے تھے۔وہاں ایک احمدی نے جو بیچارہ علم نہ رکھتا تھا حضرت صاحب سے کہا کہ حضور میرے ہاں دعوت قبول فرمائیے۔ حضور نے کچھ عذر کیا۔وہ کہنے لگا۔اگر حضور قبول نہیں کرینگے تو وعید نازل ہوگی۔حضرت صاحب اس کی اس جہالت کی بات پر ہنس پڑے اور دعوت قبول فرمالی ۔ ان دنوں میں لیکھرام اور آتھم کی پیشگوئیوں کے تذکرہ کی وجہ سے وعدۂ الہٰی اور وعید الہٰی کا لفظ کثرت سے لوگوں کی ز بانوں پر تھا۔اس نے بھی اپنی جہالت میں یہ لفظ حضرت صاحب کی شان میں کہہ دیا۔
{ 959} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔حافظ نور محمد صاحب ساکن فیض اللہ چک نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کہ ایک مرتبہ میرا ایک لڑکا مسمی عنایت اللہ بیمار ہوگیا۔مَیں اُسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس برائے علاج لے گیا۔آپ نے بعد نماز عشاء فرمایا کہ اس لڑکے کو باہر ہوا میں لے جائیں۔کیونکہ اس کو تپ محرقہ ہے اور ہمارے مکان چونکہ گرم ہیں اس لئے یہاں مناسب نہیں ۔اورایک بادکش بھی ہم کو دی اور آدھ سیر مصری دے کر فرمایا۔کہ گائو زبان کے پتے بھگوکر اسکو دیتے رہو۔
ہم اسے اسی وقت باہر لے گئے۔وہاں دو تین روز رہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے علاج کرواتے رہے۔مگر وہ زیادہ بیمار ہوگیا۔لہذا ہم اسے موضع کھارہ سے گھر واپس لے گئے۔گھر آکر اس کو آرام ہوگیا۔مگر کلّی صحت نہ ہوئی تھی۔اس لئے دوبارہ پھر حضرت صاحب سے اس کا حال بیان کیا کہ حضور اس کو پیٹ میں درد ہے۔آپ نے حکم دیا کہ اس کے پیٹ میں سُدا ہوگیاہے۔رومی مصطگی اور گلقند کھلائو۔چونکہ ہر روز قادیان جانا پڑتا تھا۔اور اس کو صحت نہ ہوتی تھی۔ تو حضور نے فرمایا کہ اس کو پھر قادیان لے آئو۔پھر یہاں ہی علاج ہوتا رہا۔ اور خدا کے فضل سے ا س کو صحت ہوگئی۔اور جب میں قادیان میں ہی تھا تو مجھے پیغام ملاکہ میرے گھر ایک اور لڑکا پیدا ہوا ہے اور پہلے لڑکے کو بھی اللہ تعالیٰ نے کامل شفا عنایت کر دی ہے۔میں نے حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کی۔کہ لڑکا خدا کے فضل سے اور حضور کی دعائوں کی برکت سے صحت یاب ہوگیا ہے ۔اور اس کا ایک بھائی بھی پیدا ہوا ہے۔ حضور اس کا نام تجویز فرمادیں آپ نے فرمایا کہ اس کا نام رحمت اللہ رکھو۔کیونکہ یہ نام رسول کریم ﷺ کا ہے جیسے فرمایا: وماارسلنٰک الاّ رحمۃً للعالمین۔
{ 960} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔حافظ نور محمد صاحب ساکن فیض اللہ چک نے بذریعہ تحر یر مجھ سے بیان کیا کہ ایک مرتبہ مَیں حسب معمول قادیان گیا۔وہاں دیکھا تو ہمارے ایک دوست برکت علی گول کمرہ میں بیمار پڑے ہیں اور تپ محرقہ سے زبان بند ہو چکی تھی۔حضرت علیہ السلام نے فرمایا کر عرق گائو زبان اورشربت بنفشہ اس کے مُنہ میں ڈالو۔مَیں شام تک اسی طرح کرتا رہا۔اسی روز امرتسر سے ایک کاتب آیا۔جس کو حضور علیہ السلام نے بلایا تھا۔چونکہ ازلہ اوہام کی کاپی شروع ہونی تھی۔آپ نے فرمایا کہ آج تو ہمارے ایک دوست بیمار ہیں۔کل کام شروع کرایا جائیگا۔میاں برکت علی صاحب حافظ حامد علی صاحب کے بہنوئی اور مولوی عبدالرحمٰن صاحب جٹ کے والد ماجد تھے۔صبح ہوتے ہی حضور نے فرمایا کہ میاں حامد علی ان کو گھر لے جائو۔اس پر اُن کو فیض اللہ چک لایا گیااور فیض اللہ چک آتے ہی فوت ہوگئے۔اناللہ وانا الیہ راجعون۔
{ 961} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔حافظ نور محمد صاحب ساکن فیض اللہ چک نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جس وقت آتھم کے متعلق یہ مشہور ہوا کہ وہ معیاد کے اندر فوت نہیں ہوا۔تو حضور علیہ السلام نے حکم دیا کہ دیہات میں روٹیاں پکوا کر تقسیم کرواور کہو کہ یہ روٹیاںفتح اسلام کی روٹیاں ہیں۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس سے حضرت صاحب کی مراد یہ تھی کہ پیشگوئی اپنی شرائط کے مطابق پوری ہوگئی ہے اور آتھم کا معیاد کے اندر نہ مرنا بھی پیشگوئی کی صداقت کی علامت تھا کیونکہ اس نے خائف ہو کر رجوع کیا تھا۔پس آپ چاہتے تھے کہ اس خوشی کا دیہات میں چرچا کیا جاوے۔
{ 962} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔حافظ نور محمد صاحب ساکن فیض اللہ چک نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ جب ہمارے والد صاحب مرحوم مرض الموت سے بیمار تھے توہم کو بوقت دوپہر الہام ہوا۔ والسماء والطارق۔ ہم نے خیال کیا کہ شاید والد صاحب کا آج ہی شام کے بعد انتقال ہوگا۔اور ہمارے دل میں فکر پیدا ہوا کہ ہمارے لئے کوئی اور کام یا روزگار کی صورت نہیں۔صرف آپ کی پنشن اور تعلقہ داری پر ہی گذارہ ہوتا تھا۔اوراس پر معاً الہام ہوا۔ ’’الیس اللہ بکافٍ عبدہٗ ‘‘۔ یعنی کیا خدا اپنے بندے کے لئے کافی نہیں۔ سبحان اللہ! خدا نے اپنی کفالت کا کیا ثبوت دیاکہ ہزارہا مہمان اور ہزاروں کام سلسلہ کے کس طرح اس الہام الہٰی کے تحت انجام پذیر ہو رہے ہیں۔اور آپ نے اس الہام کو اپنی مُہر میں کھدوالیا تھا۔
{ 963} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قادیان بٹالہ کے سفر میں یکّہ ۔پالکی اور بہلی میں سوار ہوتے دیکھا ہے مگر گھوڑے پر نہیں دیکھا۔لیکن سُنا ہے کہ جوانی میں گھوڑے کی سواری بہت فرمائی ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ پالکی سے مراد وہ سواری ہے جسے کہار لوگ کندھوں پر اٹھاتے ہیں اور وہ کندھوں کے برابر ہی اونچی رہتی ہے۔
{ 964} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیر کے لئے زیادہ تر بسراواں یا بُٹّر کی طرف تشریف لے جاتے تھے۔کبھی کبھی ننگل یا بٹالہ کی سڑک پر بھی جاتے تھے۔اور شاذونادر کسی اور طرف بھی۔اورعام طور پر ڈیڑھ سے دو میل تک باہر نکل جاتے تھے۔اور جب حضرت صاحب سیر کو جاتے یا گھر میں ٹہلتے تو تیز قدم چلا کرتے تھے۔آپ کی چال مستعدجوانوں کی سی تھی۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ بسراواں قادیان سے مشرق کی طرف ہے اور بُٹّر شمال کی طرف ہے اور ننگل جنوب کی طرف ہے اور بٹالہ مغرب کی طرف ہے۔
{ 965} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ میاں معراج الدین صاحب عمر نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تاریخ پیدائش کے متعلق الفضل مورخہ ۳؍اگست ۱۹۳۷ء میں ایک مضمون شائع کرایا تھا۔اس میں وہ لکھتے ہیں کہ:۔
’’جن لوگوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت کا شرف حاصل ہے۔ان میں سے ایسے بہت اصحاب موجود ہیں ۔جنہوں نے آپ کی زبان مبارک سے بار ہا سُنا کہ آپ اپنی عمر کے متعلق فرمایا کرتے تھے کہ جب ہم پیدا ہوئے تو پھاگن کا مہینہ تھا(یادرکھنا چاہئے کہ ہمارے ملک میں ہندی بکرمی سنہ مروج ہے اور اس پھاگن سے مراد وہی مر وجہ بکرمی سن ہے۔)اور جمعہ کا روز تھا۔پچھلی رات کا وقت تھا ۔اورقمری حساب سے چاند کی چودھویں رات تھی۔یہی بات اخی مکرمی حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب نے اپنی کتاب’’ذکرحبیب‘‘کے صفحہ نمبر۲۳۹ پر لکھی تھی۔جس کو ناظرین دیکھ سکتے ہیں۔
اگرچہ یہ بات مجھے یاد بھی تھی۔لیکن حال میں ’’ذکرحبیب‘‘ کے مطالعہ سے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وہ بیان مستحضر ہوگیا ہے۔اور مَیں نے تحقیق کرنا شروع کردی۔کیونکہ میرے دل میں تحقیق کرنے کی زور سے تحریک پیدا ہوئی۔خوش قسمتی سے میری مرتبہ کتاب تقویم عمری جو ایک سو پچیس برس کی جنتری کے نام سے بھی موسوم ہے۔میرے سامنے آگئی اور مَیں نے غور سے اس کا مطالعہ کیا یہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی ولادت کے سال اور وقت کے متعلق فرمایا ہے۔اس کی تلاش سے یہ نتیجہ حاصل ہوا کہ آپ کی ولادت جس جمعہ کو ہوئی تھی وہ ۱۴؍ماہ رمضان المبارک۱۲۴۷ ہجری کا دن تھا۔اور بحساب سمت بکرمی یکم پھاگن سمہ ۱۸۸۸ کے مطابق تاریخ تھی جو عیسوی سن کے حساب سے ۱۷ ؍فروری ۱۸۳۲ء کے مطابق ہوتی ہے۔پس اس طریق سے حضور موصوف کی عمر ہر حساب سے حسب ذیل ثابت ہوتی ہے۔
(الف)بحساب سمت ہندی بکرمی آپ یکم پھاگن سمہ ۱۸۸۸ بکرمی کو پیدا ہوئے اور جیٹھ سمہ ۱۹۶۵ بکرمی کو آپ کا رفع ہوا۔گویا ہندی بکرمی سالوں کی رو سے آپ کی عمر ۷۶ سال چار ماہ ہوئی ۔
(ب)عیسوی سال ۱۷؍ فروری ۱۸۳۲ء کو آپ کی ولادت ہوئی اور ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء کو آپ اپنے خالق حقیقی رفیق اعلیٰ سے جاملے۔پس اس حساب سے آپ نے ۷۶ سال دو ماہ اور ۹ دن عمر پائی۔
(ج) سن ہجری مقدس کے مطابق آپ ۱۴؍ رمضان المبارک۱۲۴۷ھ کو پیدا ہوئے۔اور۹؍ربیع الاول۱۳۲۶ھ کو خدا سے جاملے۔اس حساب سے آپ کی عمر ۷۸ سال ۵ ماہ اور ۲۵ دن ہوئی۔یعنی ساڑھے اٹھہتر سال ہوئی۔
اس سے اب صاف طور پر واضح ہوجاتا ہے کہ آنحضرت کی عمر الٰہی الہام کے مطابق ۸۰ سال کے قریب ہوئی۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مَیں اپنی تحقیق روایت نمبر ۶۱۳ میں درج کر چکا ہوں۔میاں معراج الدین صاحب عمر کی تحقیق اس سے مختلف ہے لیکن چونکہ دوستوں کے سامنے ہر قسم کی رائے آجانی چاہئے اس لئے مَیں نے اسے درج کردینا ضروری سمجھا ہے۔ویسے میری رائے میں جس نتیجہ پر مَیں پہنچاہوں وہ زیادہ صحیح اور درست ہے۔ واللّٰہ اعلم۔
{ 966} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔سیٹھی غلام نبی صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں شکایت کی کہ مجھے آجکل غم وہم نے بہت تنگ کر رکھا ہے۔تو حضور نے فرمایا کہ ہم نے ایک عرق تیار کیا ہے۔وہ روز پی لیا کرو۔شراب تو حرام ہے لیکن ہم نے یہ عرق خود حلال تیار کیا ہے۔سو حضور متواتر ایک ماہ تک مجھے یہ عرق روزانہ ایک چھٹانک صبح ایک چھٹانک شام کو عنایت فرماتے رہے۔پھر مَیں نے نسخہ دریافت کیا تو فرمایاکہ اس میں جدوارؔ۔عرق کیوڑاؔ۔بیدؔمشک اور مشک یعنی کستوری پڑتی ہے۔مگر ساتھ ہی فرمایا کہ یہ تم سے تیار نہیںہو سکے گا۔۔یہاں سے ہی لے جائو۔جب ختم ہوجائے تو لکھ دینا۔ہم اور بھیج دینگے ۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ نے سمجھ لیا ہوگا کہ سیٹھی صاحب کا غم وہم کسی جسمانی عارضہ کی وجہ سے ہے۔اس لئے آپ نے طبّی نسخہ تجویز فرمایا۔ویسے بھی بعض ظاہری علاج دل میں فرحت اور امنگ پیدا کر دیتے ہیں۔
{ 967} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔سیٹھی غلام نبی صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے رخصت لے کر واپس چلا تو حضور علیہ السلام و داع کرنے کے لئے باہر باغ کی طرف تشریف لے آئے۔جب رخصت ہو کر مَیں یکّہ میں بیٹھنے لگاتو حضور فرمانے لگے کہ واپس چلو۔مَیں نے عرض کی کہ حضور یکّہ والا ناراض ہوگا۔فرمایا کہ چار آنے کے پیسے ہم اس کو دیدینگے۔چنانچہ حضور مجھے واپس لے آئے۔افسوس میری بدبختی تھی کہ مَیں حضور کی منشاء کو نہ سمجھا اور پھر تیسرے چوتھے دن رخصت لے کر واپس چلا گیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ غالباً اس وقت حضرت صاحب کو کوئی اشارہ ہوا ہوگا یا کسی وجہ سے حضور نے یہ سمجھا ہوگا کہ اس وقت سیٹھی صاحب کا سفر کرنا مناسب نہیں۔ اس لئے روک لیا ہوگا۔
{ 968} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔سیٹھی غلام نبی صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے ایک رجسٹری خط بھیجا۔میں نے کھول کر دیکھا تو اس میں یہ لکھا ہوا تھا کہ مقدمہ سخت ہے اور حاکم اعلیٰ نے بھی ایماء کر دیا ہے کہ سزا ضرور دو۔اس صورت میں مبشر الہامات شاید محکمہ اپیل میں پورے ہوں ۔سو ایسا ہی ہوا کہ حاکم نے پانچ صد روپیہ جرمانہ کیا۔جو اپیل میںواپس آگیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ مولوی کرم دین والے مقدمہ کا واقعہ ہے۔
{ 969} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔سیٹھی غلام نبی صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دن کا ذکر ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے فرمایاکہ حضور غلام نبی کو مراق ہے۔تو حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ایک رنگ میں سب نبیوں کو مراق ہوتا ہے۔اور مجھ کو بھی ہے۔یہ طبیعتوں کی مناسبت ہے ۔جس قدر ایسے آدمی ہیں کھچے چلے آوینگے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ جیسا کہ روایت نمبر ۱۹،۳۶۰،۱/۳۶۹میں تشریح کی جاچکی ہے اس سے طبّی اصطلاح والا مراق مراد نہیں۔بلکہ حس کی غیر معمولی تیزی اور طبیعت کی ذکاوت مراد ہے۔جس کے اندر یہ احساس بھی شامل ہے کہ جب ایک کام کا خیال پیدا ہو تو جب تک وہ کام ہو نہ جاوے۔چین نہ لیا جاوے اور اس کی وجہ سے طبیعت میں گھبراہٹ رہے۔
{ 970} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔سیٹھی غلام نبی صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دن بڑی مسجد میں بیٹھے تھے۔مسجد کے ساتھ جو گھر ہندوئوں کے ہیں۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایاکہ یہ جگہ اگر مسجدمیں شامل ہوجائے تو مسجد فراخ ہوجاوے۔ حضور کے چلے جانے کے بعد حضرت خلیفہ اوّلؓ نے فرمایا کہ آج مرزا نے یہ سارے مکان لے لئے ۔سو اب آکر حضور علیہ السلام کا وہ ارشاد پورا ہوا کہ یہ مکانات مسجد میں مل گئے۔ہمارا تو اس وقت بھی ایمان تھا کہ حضرت صاحب کی سرسری باتیں بھی پوری ہوکر رہیں گی۔کیونکہ حضور بِن بلائے بولتے نہ تھے۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{ 971} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کوئی شاذونادر ہی مجلس ایسی ہوتی ہوگی۔جس میں ہِر پھر کر وفات مسیح ناصری علیہ السلام کا ذکر نہ آجاتا ہو۔آ پ کی مجلس کی گفتگو کا خلا صہ میرے نزدیک دو لفظوں میں آجاتا ہے ایک وفات مسیح اور دوسرے تقویٰ۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ وفات مسیح عقائد کی اصلاح اور دوسرے مذاہب کو مغلوب کرنیکے کام کا خلاصہ تھااور تقویٰ اصلاح نفس کا خلاصہ ہے ۔مگر آج کل وفات مسیح سے بحث کا میدان بدل کر دوسری طرف منتقل ہوگیا ہے۔
{972} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میاں بشیر احمد صاحب (یعنی خاکسار مؤلف) جب چھوٹے تھے تو ان کو ایک زمانہ میں شکر کھانے کی بہت عادت ہوگئی تھی۔ ہمیشہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس پہنچتے اور ہاتھ پھیلا کر کہتے’’ابا چٹی‘‘ حضرت صاحب تصنیف میں بھی مصروف ہوتے تو کام چھوڑ کر فوراً اٹھتے۔کوٹھڑی میں جاتے۔شکر نکال کر ان کو دیتے۔اور پھر تصنیف میں مصروف ہوجاتے ۔تھوڑی دیر میں میاں صاحب موصوف پھر دستِ سوال دراز کرتے ہوئے پہنچ جاتے۔اور کہتے’’اباّ چٹی‘‘(چٹی شکر کو کہتے تھے کیونکہ بولنا پورا نہ آتا تھا۔اور مراد یہ تھی کہ چٹّے رنگ کی شکر لینی ہے)حضرت صاحب پھر اُٹھ کر ان کا سوال پورا کر دیتے۔غرض اس طرح ان دنوں میں روازانہ کئی کئی دفعہ یہ ہیرا پھیری ہوتی رہتی تھی۔مگر حضرت صاحب باوجود تصنیف میں سخت مصروف ہونے کے کچھ نہ فرماتے۔بلکہ ہر دفعہ ان کے کام کے لئے اٹھتے تھے۔یہ ۱۸۹۵ء یا اس کے قریب کا ذکر ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ میری پیدائش اپریل ۱۸۹۳ء کی ہے۔
{ 973} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ اصل میں عربی زبان کی ستائیس لاکھ لُغت ہے جس میں سے قرآن مجید میں صرف چار ہزارکے قریب استعمال ہوئی ہے۔عربی میں ہزار نام تو صرف اُونٹ کا ہے اور چار سو نام شہد کا۔
{ 974} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت خلیفۃ المسیح اوّلؓ فرمایا کرتے تھے کہ ہر نبی کا ایک کلمہ ہوتا ہے۔مرزا کا کلمہ یہ ہے کہ
’’ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا۔‘‘
{ 975} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے اخلاق میں کامل تھے۔یعنی:۔
آپ نہایت رئوف رحیم تھے۔سخی تھے۔مہمان نواز تھے۔ اشجع الناس تھے۔ ابتلائوں کے وقت جب لوگوں کے دل بیٹھے جاتے تھے آپ شیر نر کی طرح آگے بڑھتے تھے۔عفو،چشم پوشی،فیاضی، دیانت، خاکساری، صبر،شکر،استغنائ،حیا،غض بصر،عفّت،محنت،قناعت،وفاداری،بے تکلفی،سادگی، شفقت، ادب الہٰی،ادب رسول وبزرگانِ دین، حلم،میانہ روی، ادائیگی حقوق،ایفائے وعدہ۔ چُستی، ہمدردی، اشاعت دین،تربیت ،حسن معاشرت،مال کی نگہداشت،وقار،طہارت،زندہ دلی اور مزاح، رازداری، غیرت، احسان، حفظ مراتب ،حسن ظنّی،ہمت اور اولوالعزمی ،خودداری،خوش روئی اور کشادہ پیشانی کظم غیظ، کف یدوکف لسان،ایثار،معمورالاوقات ہونا،انتظام،اشاعت علم ومعرفت،خدا اور اس کے رسول کا عشق،کامل اتباع رسول،یہ مختصراً آپ کے اخلاق وعادات تھے۔
آپ میں ایک مقناطیسی جذب تھا۔ایک عجیب کشش تھی،رُعب تھا، برکت تھی،موانست تھی،بات میں اثر تھا،دُعامیں قبولیت تھی،خدام پروانہ وار حلقہ باندھ کر آپ کے پاس بیٹھتے تھے۔اور دلوں سے زنگ خود بخود دُھلتا جاتا تھا۔
بے صبری۔ کینہ۔ حسد۔ ظلم۔ عداوت۔ گندگی۔ حرص دنیا۔ بدخواہی۔ پردہ دری۔ غیبت۔ کذب۔ بے حیائی۔ ناشکری۔ تکبّر۔ کم ہمتی۔ بخل۔ تُرش رُوئی و کج خُلقی۔ بُزدلی۔ چالاکی۔ فحشائ۔ بغاوت۔ عجز۔ کسل۔ ناامیدی۔ ریا۔ تفاخر ناجائز۔ دل دکھانا۔ استہزائ۔ تمسخر۔ بدظنی۔ بے غیرتی۔ تہمت لگانا۔ دھوکا۔ اسراف و تبذیر۔ بے احتیاطی۔ چُغلی۔ لگائی بجھائی۔ بے استقلالی۔ لجاجت۔ بے وفائی۔ لغو حرکات یا فضولیات میں انہماک، نا جائز بحث و مباحثہ۔ پُرخوری۔ کن رسی۔ افشائے عیب۔ گالی۔ ایذاء رسانی۔ سفلہ پن۔ ناجائز طرفداری۔ خودبینی۔ کسی کے دُکھ میں خوشی محسوس کرنا۔ وقت کو ضائع کرنا۔ ان باتوں سے آپ کوسوں دُور تھے۔
آپ فصیح وبلیغ تھے۔نہایت عقلمندتھے۔دوراندیش تھے۔سچے تارک الدنیا تھے۔ سلطان القلم تھے اورحسب ذیل باتوں میں آپ کو خاص خصوصیت تھی۔خدا اور اس کے رسول کا عشق،شجاعت ، محنت،توحید و توکل علی اللہ،مہمان نوازی ،خاکساری،اور نمایاں پہلو آپ کے اخلاق کا یہ تھا کہ کسی کی دل آزاری کو نہایت ہی ناپسند فرماتے تھے۔ اگر کسی کو بھی ایسا کرتے دیکھ پاتے تو منع کرتے۔
آپ نمازباجماعت کی پابندی کرنے والے ،تہجد گزار،دُعاپر بے حد یقین رکھنے والے،سوائے مرض یا سفر کے ہمیشہ روزہ رکھنے والے،سادہ عادات والے،سخت مشقّت برداشت کرنے والے اور ساری عمر جہاد میں گذارنے والے تھے۔
آپ نے انتقام بھی لیا ہے۔آپ نے سزا بھی دی ہے۔آپ نے جائز سختی بھی کی ہے۔ تادیب بھی فرمائی ہے یہاں تک کہ تادیباً بعض دفعہ بچہ کو مارا بھی ہے۔ملازموں کو یا بعض غلط کار لوگوں کو نکال بھی دیا ہے۔ تقریروتحریر میں سختی بھی کی ہے۔عزیزوں سے قطع تعلق بھی کیاہے۔ بعض خاص صورتوں میں توریہ کی اجازت بھی دی ہے۔بعض وقت سلسلہ کے دشمن کی پردہ دری بھی کی ہے۔(مثلاً مولوی محمد حسین بٹالوی کے مہدی کے انکار کا خفیہ پمفلٹ)بددعا بھی کی ہے۔مگر اس قسم کی ہر ایک بات ضرورتاً اور صرف رضائے الہٰی اور دین کے مفاد کے لئے کی ہے نہ کہ ذاتی غرض سے۔ آپ نے جھوٹے کو جھوٹا کہا۔جنہیں لئیم یا زنیم لکھاوہ واقعی لئیم اور زنیم تھے۔جن مسلمانوں کو غیر مسلم لکھا وہ واقعی غیر مسلم بلکہ اسلام کے حق میں غیر مسلموں سے بڑھ کر تھے۔
مگر یہ یاد رکھنا چاہئے کہ آپ کے رحم اور عفو اور نرمی اور حلم والی صفات کا پہلو بہت غالب تھا۔ یہاں تک کہ اس کے غلبہ کی وجہ سے دوسرا پہلو عام حالات میں نظر بھی نہیں آتا تھا۔
آپ کو کسی نشہ کی عادت نہ تھی۔کوئی لغو حرکت نہ کرتے تھے،کوئی لغو بات نہ کیا کرتے تھے،خدا کی عزّت اور دین کی غیرت کے آگے کسی کی پرواہ نہیں کرتے تھے۔آپ نے ایک دفعہ علانیہ ذبّ تہمت بھی کیا۔ایک مرتبہ دشمن پر مقدمہ میں خرچہ پڑا۔توآپ نے اس کی درخواست پر اُسے معاف کر دیا۔ایک فریق نے آپ کو قتل کا الزام لگا کر پھانسی دلانا چاہامگر حاکم پر حق ظاہر ہوگیا۔اور اس نے آپ کو کہا ۔کہ آپ ان پر قانوناً دعویٰ کرکے سزا دلاسکتے ہیںمگر آپ نے درگذر کیا۔آپ کے وکیل نے عدالت میں آپ کے دشمن پر اس کے نسب کے متعلق جرح کرنی چاہی۔مگر آپ نے اُسے روک دیا۔
غرض یہ کہ آپ نے اخلاق کا وہ پہلو دُنیا کے سامنے پیش کیا۔جو معجزانہ تھا۔سراپا حسن تھے۔سراسر احسان تھے۔اور اگر کسی شخص کا مثیل آپ کو کہا جاسکتا ہے تو وہ صرف محمد رسُول اللہ ہے۔صلے اللہ علیہ وسلم اور بس۔
آپ کے اخلاق کے اس بیان کے وقت قریباً ہر خلق کے متعلق مَیں نے دیکھا کہ مَیں اسکی مثال بیان کر سکتا ہوں۔یہ نہیں کہ مَیں نے یونہی کہدیا ہے۔ مَیں نے آپ کو اس وقت دیکھا۔جب مَیںدو برس کا بچہ تھا۔پھر آپ میری ان آنکھوں سے اس وقت غائب ہوئے جب میں ستائیس سال کا جوان تھا۔مگر مَیں خدا کی قسم کھا کر بیان کرتا ہوں۔کہ مَیں نے آپ سے بہتر، آپ سے زیادہ خلیق، آپ سے زیادہ نیک ،آپ سے زیادہ بزرگ ،آپ سے زیادہ اللہ اور رسول کی محبت میں غرق کوئی شخص نہیں دیکھا۔آپ ایک نور تھے جو انسانوں کے لئے دُنیا پر ظاہر ہوا اور ایک رحمت کی بارش تھے جو ایمان کی لمبی خشک سالی کے بعد اس زمین پر برسی اور اسے شاداب کرگئی ۔اگر حضرت عائشہؓ نے آنحضرت ﷺ کی نسبت یہ بات سچی کہی تھی۔کہ ’’کان خلقُہُ القرآن‘‘ تو ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نسبت اسی طرح یہ کہہ سکتے ہیں کہ’’ کان خلقُہُ حُبَّ محمدٍ واتباعہ‘ علیہ الصّلٰوۃ والسلام
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مکرم ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے اپنی اس روایت میں ایک وسیع دریاکو کوزے میں بند کرنا چاہا ہے۔ان کا نوٹ بہت خوب ہے اور ایک لمبے اور ذاتی تجربہ پر مبنی ہے اور ہر لفظ دل کی گہرائیوں سے نکلا ہوا ہے۔مگر ایک دریا کو کوزے میں بند کرناانسانی طاقت کا کام نہیں ۔ہاں خدا کو یہ طاقت ضرور حاصل ہے اور مَیں اس جگہ اس کوزے کا خاکہ درج کرتا ہوں جس میں خدا نے دریا کو بند کیا ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
’’ جری اللّٰہ فی حلل الانبیاء ‘‘
یعنی خدا کا رسُول جو تمام نبیوں کے لباس میں ظاہر ہوا ہے۔
اس فقرہ سے بڑھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کوئی جامع تعریف نہیں ہوسکتی۔آپ ہر نبی کے ظل اور بروز تھے اور ہر نبی کی اعلیٰ صفات اور اعلیٰ اخلاقی طاقتیں آپ میں جلوہ فگن تھیں۔کسی نے آنحضرت ﷺ کے متعلق کہا ہے اور کیا خوب کہا ہے:۔
حسنِ یوسف ،دمِ عیسیٰ ،یدِ بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری

یہی ورثہ آپ کے ظل کامل نے بھی پایا مگر لوگ صرف تین نبیوں کو گن کر رہ گئے۔خدا نے اپنے کوزے میں سب کچھ بھر دیا۔اللھم صل علیہ وعلٰی مطاعہ محمد وبارک وسلّم واحشرنی ربّ تحت قدمیھما ذلک ظنی بک ارجو منک خیرًا ـآمین ثم آمین
اس جگہ سیرۃ المہدی کا حصّہ سوم ختم ہوا۔
( واٰخردعوانا ان الحمد للّٰہ ربّ العٰلمین )
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
سیرت المہدی ۔ سیرت مسیح موعود علیہ السلام ۔ جلد 4 ۔ یونی کوڈ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
{976} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ہمارے ماموں ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب مرحوم نے مجھ سے بیان کیا کہ جس روز پنڈت لیکھرام کے قتل کے معاملہ میں حضرت مسیح موعود کے مکان کی تلاشی ہوئی۔تو اچانک پولیس کپتان بمعہ ایک گروہ سپاہیوں کے قادیان آگیااور آتے ہی سب ناکے روک لئے ۔ باہر کے لوگ اندر اور اندر کے باہر نہ جاسکتے تھے۔ میر صاحب قبلہ یعنی حضرت والد صاحب جو مکان کے اندر تھے فوراً حضور کے پاس پہنچے اور عرض کیا کہ ایک انگریز بمعہ سپاہیوں کے تلاشی لینے آیا ہے ۔ فرمایا بہت اچھا آجائیں ۔ میرصاحب واپس چلے تو آپ نے اُن کو پھر بلایا ۔ اور ایک کتاب یا کاپی میں سے اپنا الہام دکھا یا جو یہ تھا کہ مَاھٰذَا اِلَّا تَہْدِیْدُ الْحُکَّامِ یعنی یہ حکام کی طرف سے صرف ایک ڈراوا ہے ۔ اس کے بعد جب انگریز کپتان بمعہ پولیس کے اندر داخل ہوا تو آپ اُسے ملے ۔ اُ س نے کہا کہ مرز اصاحب! مجھے آپ کی تلاشی کا حکم ہو اہے ۔ حضور نے فرمایا !بیشک تلاشی لیں میں اس میں آپ کو مدد دوں گا۔ یہ کہہ کر اپنا کمرہ اور صندوق ، بستے اور پھرتمام گھر اور چوبارہ سب کچھ دکھایا۔ انہوں نے تمام خط وکتابت میں سے صرف دو خط لئے جن میں سے ایک ہندی کا پرچہ تھا۔ جو دراصل آٹاوغیرہ خریدنے اور پسوانے کی رسید یعنی ٹومبو تھا۔ دوسرا خط حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چچا زاد بھائی مرزا امام الدین یعنی محمدی بیگم کے ماموں کا تھا ۔ پھر وہ چند گھنٹے بعد چلے گئے ۔ چاشت کے وقت وہ لوگ قادیان آئے تھے ۔ اس کے بعد دوبارہ دوہفتہ کے بعد اس خط کی بابت دریافت کرنے کے لئے ایک انسپکٹر پولیس بھی آیا تھا ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ۱۸۹۷ء کا واقعہ ہے اور اس کے متعلق مزید تفصیل دوسری روایتوں میں مثلاً روایت نمبر۴۶۰میں گذر چکی ہے ۔ یہ روایت ہمارے ماموں حضرت ڈاکٹر سید میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے خود بیان کی تھی مگر افسوس ہے کہ اس کتاب کی اشاعت کے وقت حضرت میر صاحب وفات پاچکے ہیں۔
نوٹ:۔ حضرت میر محمد اسماعیل صاحب جولائی۱۹۴۷ء میں قادیان میں فوت ہوئے تھے اور میں اس تالیف کی نظر ثانی اکتوبر۱۹۴۹ء میں لاہور میں کررہاہوں ۔
{ 977} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ تمام انبیاء کے نام چونکہ خدا کی طرف سے رکھے جاتے ہیں اس لئے ہر ایک کے نام میں اس کی کسی بڑی صفت کی پیشگوئی موجود ہوتی ہے ۔ مثلاً آدم ، گندم گوں اقوام کا باپ ۔ ابراہیم ، قوموں کا باپ۔ اسماعیل ، خدا نے دعا کو سن لیا۔ یعنی اولاً اولاد کے متعلق ابراہیم کی دعا کو سن لیا اور پھر مکہ کی وادی غیرذی زرع میں اسماعیل کی پکار سن لی اور پانی مل گیا اور آبادی کی صورت پید اہوگئی۔ اسحق ، اصل میں اضحاک ہے چنانچہ قرآن شریف فرماتا ہے فَضَحِکَتْ فَبَشَّرْنٰـھَا بِاِسْحٰق(ھود:۷۲)۔ نوح کا اتنی لمبی عمر نوحہ کرنا مشہور ہے ۔مسیح ، سفر کرنے والا ، خدا کاممسوح۔ سلیمان جس کے متعلق قرآن فرماتا ہے ۔ اِنِّیْ اَسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْمٰنَ لِرَبِّ الْعَالَمِیْن(النحل:۴۵) ۔ ایسا بادشاہ جو نہ صرف خود مسلم تھا بلکہ جس کے طفیل ایک شہزادی بمعہ اپنے اہل ملک کے اسلام لائی۔ مریم بتول یعنی کنواری ۔ چنانچہ فرماتا ہے اِنِّیْ نَذَرْتُ لَکَ مَافِیْ بَطْنِیْ مُحَرَّرًا(اٰل عمران:۳۶)۔یعقوب ۔ پیچھے آنے والا ۔ وَمِنْ وَّرَآئِ اِسْحَاقَ یَعْقُوْبَ(ھود:۷۲) یوسف۔ یَااَسَفٰی عَلٰی یُوسُفَ (یوسف:۸۵)۔ محمد ﷺ، تمام کمالات کا جامع جس کی ہر جہت سے تعریف کی جائے یعنی کامل محمود ومحبوب اور معشوق ۔ احمد ،نہایت حمد کرنے والا یعنی عاشق صادق وغیرہ وغیرہ ۔
{ 978} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ خواب میں چور کی تعبیر داماد بھی ہوتی ہے کیونکہ وہ بھی ایک قسم کا چور ہوتا ہے ۔ اسی طرح جوتی کی تعبیر عورت ہوتی ہے اور عورت کی تعبیر دنیا۔ ہاتھوں کی تعبیر بھائی ہوتی ہے اور دانت ٹوٹ جائے تو تعبیر یہ ہے کہ کوئی عزیز مر جائے گا ۔ اوپر کا دانت ہو تو مرد نیچے کا ہوتو عورت ۔
{ 979} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فیاض علی صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ کپورتھلہ کی جماعت میں ہم پانچ آدمی جماعت کے نام سے نامزد تھے۔ (۱)خاکسار فیاض علی (۲)منشی اروڑا صاحب تحصیل دار مرحوم (۳)منشی محمد خان صاحب مرحوم(۴)منشی عبد الرحمن صاحب (۵)منشی ظفر احمد صاحب کاتب جنگ مقدس۔ ان سب کو حضرت مسیح موعود نے۳۱۳میں شمار کیاہے اور مجموعی طور پرا ور فرداً فرداً حضرت اقدس نے ان کو جو دعائیں دی ہیں وہ ازالہ اوہام اور آئینہ کمالات اسلام میں درج ہیں۔ ان دعاؤں کی قبولیت سے ہماری جماعت کے ہر فرد نے اپنی زندگی میںبہشت کا نمونہ دیکھ لیا ہے ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ میاں فیاض علی صاحب پرانے صحابی تھے ۔افسوس ہے کہ اس وقت(۱۹۴۹ء )میں وہ اور منشی عبدالرحمن صاحب اور منشی ظفر احمد صاحب سب فوت ہوچکے ہیں ۔
{ 980} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فیاض علی صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خاکسار کو دعا دی تھی ’’اے خد اتو اس کے اندر ہو کر ظاہر ہو۔‘‘(ملاحظہ ہو ازالہ اوہام) اس سے پیشتر میں قطعی بے اولاد تھا ۔ شادی کو چودہ سال گذر چکے تھے ۔ دوسری شادی کی۔ وہ بیوی بھی بغیر اولاد نرینہ کے فوت ہوگئی۔ تیسری شادی کی ۔ اُس سے پے در پے خدا نے چار لڑکے اور دو لڑکیاں عطا کیں۔ ایک لڑکا چھوٹی عمر میں فوت ہوگیا۔ تین لڑکے اور لڑکیاں اس وقت زندہ موجود ہیں۔ اُن میں سے ہر ایک خدا کے فضل سے خوش حال وخوش وخرم ہے ۔ لڑکیاں صاحب اقبال گھر بیاہی گئیں۔ ان میں سے ہر ایک احمدیت کا دلدادہ ہے۔ بڑ ا لڑکا مختار احمد ایم اے ۔بی ۔ٹی سر رشتہ تعلیم دہلی میں سپرنٹنڈنٹ ہے ۔ دوسرا لڑکا نثاراحمد بی اے ، ایل ایل بی ضلع شاہجہان پور میں وکالت کرتا ہے ۔ تیسرا لڑکا رشید احمد بی۔ ایس۔ سی پاس ہے اور قانون کا پرائیویٹ امتحان پاس کرچکا ہے ۔ اور اس وقت ایم۔ ایس۔ سی کے فائنل کے امتحان میں ہے ۔
{ 981} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فیاض علی صاحب کپور تھلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میرے ایک لڑکے کو مرگی کا عارضہ ہوگیا تھا ۔ بہت کچھ علاج کرایا مگر ہر ایک جگہ سے مایوسی ہوئی۔ قادیان میں مولانا حکیم نورا لدین صاحب خلیفہ اولؓ کی خدمت میں بھی مع اس کی والدہ کے لڑکے کو بھیجا گیا مگر فائدہ نہ ہوا۔ اور اس کی والدہ مایوس ہو کر گھر واپس آنے لگی ۔ اس وقت حضرت ام المومنین کے مکان میں اُن کا قیام تھا ۔ حضرت ام المومنین نے لڑکے کی والدہ سے فرمایا ۔ ٹھہرو ہم دعا کریں گے ۔ چنانچہ حضور دام اقبالھا قریباً دو گھنٹہ بچہ کی صحت کے واسطے سربسجود رہیں ۔ آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ رات کو لڑکے نے خواب میں دیکھا۔ کہ چاندنی رات ہے اور میں دورہ مرگی میں مبتلا ہوں ۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام بیت الدعا کی کھڑکی سے تشریف لائے اور مجھ کودیکھ کر دریافت کیا کہ تیرا کیا حال ہے۔ میں نے عرض کیا کہ حضور
ملاحظہ فرمالیں۔ مسیح موعود علیہ السلام نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا کہ گھبراؤنہیں ، آرام ہوجائے گا۔ اس کے بعد اس کی والدہ لڑکے کو لے کر گھر واپس چلی آئی ۔ پھر میں ہر مشہور ڈاکٹر اور طبیب سے لڑکے کا علاج کرواتا رہا۔ آخر قصبہ ہاپڑ ضلع میرٹھ میں ایک طبیب کے پاس گیا۔ اس نے نسخہ تجویز کیا اور رات کو اپنے سامنے کھلایا ۔ اس وقت لڑکے کو نہایت سختی کے ساتھ دورہ ہوگیا ۔ طبیب اپنے گھر کے اندر جاکر سوگیا۔ اور ہم دونوں باہر مردانہ میں سوگئے۔ صبح ہوئی نماز پڑھی ۔ طبیب بھی گھر سے باہر آیا۔ طبیب نے کہا کہ رات کو میںنے ایک خواب دیکھا ہے ۔ میں نے دیکھا کہ میرے ہاتھ میں ایک کتاب دی گئی۔ جب میں نے اس کو کھولا تو اس کے شروع میں لکھا ہوا تھا۔ اس مرض کا علاج املی ہے ۔ چھ سات سطر کے اندر یہی لکھا ہوا تھا کہ اس مرض کا علاج سوائے املی کے دنیا میں اور کوئی نہیں۔ طبیب نے کہا کہ نہ تو میں مرض کو سمجھااور نہ علاج کو ۔ میں نے تمہیں اپنا خواب سنا دیا ہے ۔ میں نے طبیب کے اس خواب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بشارت کے مطابق خد اکی طرف سے الہام سمجھااور لڑکے کو لے کر گھر چلا آیا۔ املی کااستعمال شروع کردیا۔ رات کو چار تولہ بھگو دیتا تھا ۔ صبح کو چھان کر دو تو لہ مصری ملا کر لڑکے کو پلا دیتا تھا۔ دو ہفتہ کے اندر اُس مرض سے لڑکے نے نجات پالی۔ اور اس وقت خداکے فضل سے گریجویٹ ہے اور ایک اچھے عہدہ پر ممتاز ہے ۔
{ 982} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فیاض علی صاحب کپور تھلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ریاست کپور تھلہ میں ڈاکٹر صادق علی صاحب مشہور آدمی تھے اور را جہ صاحب کے مصاحبین میں سے تھے۔ انہوںنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بیعت کی درخواست کی ۔ حضرت اقدس نے فرمایا کہ ان کو بیعت کی کیا ضرورت ہے ۔ دوبارہ اصرار کیا ۔ فرمایا آپ تو بیعت میں ہی ہیں۔ مگر باوجود اصرار کے بیعت میں داخل نہ فرمایا ۔ نہ معلوم کہ اس میں کیا مصلحت تھی ۔
{ 983} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فیاض علی صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیا ن کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کپور تھلہ تشریف لائے تو ایک شخص مولوی محمد دین آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور بیعت کی درخواست کی۔ حضور نے جواب دیا۔ آپ سوچ لیں۔ دوسرے دن اس نے عرض کی تو پھر وہی جواب ملا ۔ تیسرے دن پھر عرض کی ۔ فرمایا آپ استخارہ کرلیں۔ غرض اس طرح ان مولوی صاحب کی بیعت قبول نہ ہوئی ۔
{ 984} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فیاض علی صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ کپور تھلہ میں حکیم جعفر علی ڈاکٹر صادق علی کے بھائی تھے۔ جماعت کپور تھلہ جلسہ پر قادیان جارہی تھی۔ جعفر علی نے کہا کہ لنگر خانہ میں پانچ روپیہ میری طرف سے حضرت اقدس کی خدمت میں پیش کئے جائیں۔ وہ روپے منشی ظفر احمد صاحب کاتب جنگ مقدس نے حضورکی خدمت میںپیش کئے۔ مگر حضور نے قبول نہ فرمائے ۔ دوسرے دن دوبارہ پیش کئے۔ فرمایا۔ یہ روپے لینے مناسب نہیں ہیں۔ تیسرے دن منشی ظفر احمد صاحب نے پھر عرض کی کہ بہت عقیدت سے روپے دئیے گئے ہیں ۔ اس پر فرمایا: تمہارے اصرار کی وجہ سے رکھ لیتے ہیں ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ منشی ظفر احمد صاحب مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاص محبّوں میں سے تھے اور مجھے ان کی محبت اور اخلاص کو دیکھ کر ہمیشہ ہی رشک آیا۔
{ 985} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فیاض علی صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ کپور تھلہ میں ایک شخص شرابی ، فاسق وفاجر تھا۔ ایک رات وہ کسی جگہ سے شب باش ہوکر آیا۔ راستہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک مکان میں وعظ فرما رہے تھے ۔ یہ شخص بھی وعظ کا سن کر وہاں آگیا۔ وعظ میں حضور علیہ السلام افعالِ شنیعہ کی بُرائی بیان فرما رہے تھے۔ اس شخص نے مجھ سے کہا ۔ حضرت صاحب کے وعظ کا میرے دل پر گہرا اثر ہوا ہے ۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا آپ لوگوں کو مخاطب کر کے مجھے سمجھا رہے ہیں ۔ اُس دن سے اُس نے توبہ کی ۔ شراب وغیرہ چھوڑ دی اور پابند صوم وصلوٰۃ ہوگیا۔
{ 986} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فیاض علی صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ مسجد کپورتھلہ حاجی ولی اللہ غیر احمدی لاولد نے بنائی تھی ۔ اس کے دو برادر زادے تھے۔ انہوںنے حبیب الرحمن صاحب کو مسجد کا متولی قرار دیا اور رجسٹری کرادی ۔ متولی مسجد احمدی ہوگیا۔ جب جماعت احمدیہ کو علیحدہ نماز پڑھنے کا حکم ہوا۔ تو احمدیوںاور غیر احمدیوں میں اختلاف پیدا ہوگیا۔ غیر احمدیوں نے حکام بالا اور رؤسائے شہر کے ایماء سے مسجد پر جبراً قبضہ کر لیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہم کو حکم دیا کہ اپنے حقوق کو چھوڑنا گناہ ہے۔ عدالت میں چارہ جوئی کرو۔ اس حکم کے ماتحت ہم نے عدالت میں دعویٰ دائر کردیا۔ یہ مقدمہ سات برس تک چلتا رہا۔ ان ایام میںجماعت احمدیہ اپنے گھرو ں میں نماز پڑھ لیا کرتی تھی۔ خاکسار ہمیشہ حضور کی خدمت میں دعا کے لئے عرض کرتا رہتا تھا ۔ ایک دفعہ حضور دہلی سے قادیان واپس آرہے تھے کہ لدھیانہ میں حضور کالیکچر ہوا۔ لیکچر سننے کے لئے خاکساراور منشی عبد الرحمن صاحب مرحوم لدھیانہ گئے ۔ لیکچر ختم ہونے پر خاکسار نے مسجد کپور تھلہ کے واسطے دعا کی درخواست کی ۔ حضرت اقدس نے ارشاد فرمایا کہ ’’اگر یہ سلسلہ خد اکی طرف سے ہے تو مسجد تمہارے پاس واپس آجائے گی‘‘ اس وقت چہرہ مبارک پر ایک جلال رونما تھا ۔ اس پیشگوئی کو سن کر بہت خوشی ہوئی ۔ جس کا اظہاراخباروں میں بھی ہوگیا۔ میں نے تحریر وتقریر میں ہر ایک مدعا علیہ سے اس پیشگوئی کا اظہار کردیا۔اور میں نے تحدّی کے ساتھ مدعا علیھم پر حجت تمام کر دی کہ اپنی ہر ممکن کوشش کرلو۔ اگرچہ حکام بھی غیر احمدی ہیں جن پر تم سب کو بھروسہ ہے مگر مسجد ضرور ہمارے پاس واپس آئے گی۔ میرے اس اصرار پر ڈاکٹر شفاعت احمدکپور تھلہ نے وعدہ کیا کہ اگر مسجد تمہارے پاس واپس چلی گئی تو میں مسیح موعود ؑ پر ایمان لے آؤں گا۔ میں ایک مرتبہ ضرور تاً لاہور گیا اورجمعہ اد اکرنے کے لئے احمدیہ مسجد میں چلا گیا۔ خواجہ کمال الدین صاحب سے اس پیشگوئی کا ذکر آگیا۔ انہوںنے کہا کہ منبر پر چڑھ کر سب کو سنا دو۔ میںنے مفصل حال اور یہ پیشگوئی احباب کو سنا دی تاکہ پیشگوئی پورا ہونے پر جماعت کی تقویت ایمان کا باعث ہو۔ پہلی اور دوسری دو عدالتوں میں باوجود مدعا علیھم کی کوشش وسعی کے مقدمہ احمدیوں کے حق میں ہوا۔ ڈاکٹر صادق علی ان ہر دوحکام کا معالج خاص تھا۔ اور اس نے بڑی کوشش کی ۔ آخر اس کی اپیل آخری عدالت میں دائر ہوئی۔ یہ حاکم غیر احمدی تھا۔ مقدمہ پیش ہونے پر اُس نے حکم دیا ’’ کہ یہ مسجد غیر احمدی کی بنائی ہوئی ہے ۔ اس مسجد میں احمدیوں کا کوئی حق نہیں ہے کیونکہ احمدی جماعت نے جدید نبی کے دعویٰ کو قبول کر لیا ہے ۔ اس لئے وہ اپنی مسجد علیحدہ بنائیں ۔ پرسوں میں حکم لکھ کر فیصلہ سناؤں گا۔‘‘ ڈاکٹر شفاعت احمد صاحب نے مجھ سے کہا۔ کہو صاحب! مرزا صاحب کی پیشگوئی کہاں گئی؟ مسجد کا فیصلہ تو تم نے سن لیا ۔ میں نے اس کو جواب دیا ۔ کہ شفاعت احمد! ابھی دو تین روز درمیان میں ہیں۔ اور ہمارے اور تمہارے درمیان احکم الحاکمین کی ہستی ہے ۔ اس بات کا انتظار کرو کہ وہ کیا فیصلہ کرتا ہے۔ یاد رکھو۔ زمین وآسمان ٹل جائیں گے مگر خدا کی جو باتیں مسیح موعود علیہ السلام کی زبان سے نکل چکی ہیں وہ نہیں ٹلیں گی۔ میری اس تحدّی سے وہ حیرت زدہ ہوگیا۔ رات کو حبیب الرحمن متولی مسجد نے خواب میں دیکھا اور جماعت کو وہ خواب بھی سنا یا کہ یہ حاکم ہماری مسجد کا فیصلہ نہیں کر ے گا۔ اس کا فیصلہ کرنے والا اور حاکم ہے ۔ یہ خواب بھی مدعا علیھم کو سنا دی گئی ۔ مدعا علیھم ہماری ان باتوں سے حیرت زدہ ہوجاتے تھے۔ کیونکہ فیصلہ میں دو روز باقی تھے اور حاکم اپنا فیصلہ ظاہر کر چکا تھا۔ ایک احمدی کہتا ہے ۔ زمین آسمان ٹل جائیں گے مگر مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی پوری ہوکر رہے گی ۔ دوسرا کہتا ہے کہ یہ حاکم فیصلہ نہیں کرے گا وہ اور ہے جو فیصلہ کرے گا۔ مقررہ دن آگیا مگر حاکم فیصلہ نہیں لکھ سکا۔ دوسری تاریخ ڈال دی او ر ہر پیشی پر خدا ایسے اسباب پیدا کرد یتا رہا کہ وہ حاکم فیصلہ نہ لکھ سکا۔ اس سے مخالفوں میں مایوسی پیدا ہونے لگی کہ کہیں پیشگوئی پوری نہ ہوجائے۔ اسی اثناء میں عبد السمیع احمد ی نے ایک رؤیا دیکھا جو اس وقت قادیان میں موجود ہے کہ میں بازار میں جارہا ہوں راستہ میں ایک شخص مجھے ملا اور اس نے کہا کہ تمہاری مسجد کا فیصلہ کرنے والا حاکم فوت ہوگیا ہے ۔ یہ خواب بھی مخالفوں کو سنا دی گئی۔ ایک ہفتہ کے بعد عبد السمیع مذکور بازار میں جارہا تھا کہ اسی موقعہ پر وہ شخص جس نے خواب میں کہا تھا کہ تمہاری مسجد کا فیصلہ کرنے والا حاکم فوت ہوگیا ہے ۔اُن کوملا اور اُس نے حاکم کی موت کی خبردی۔ حاکم کی موت کا واقعہ یوں ہوا۔ کہ وہ حاکم کھانا کھا کر کچہری جانے کے واسطے تیاری کررہا تھا، سواری آگئی تھی۔ خدمت گار کسی کام کے لئے باورچی خانہ میں گیا ہی تھا کہ دفعتاً حرکت قلب بند ہوئی اور وہ حاکم وہیں فوت ہوگیا۔ اس کے ماتم پر لوگ عام گفتگو کرتے تھے کہ اب ہمارے پاس مسجد کے رہنے کی کوئی صورت نہیں ہے۔ اس کی جگہ ایک آریہ حاکم فیصلہ کرنے کے لئے مقرر ہوا۔ یہ بھی احمدیوں کا سخت دشمن تھا۔ اوروہ بھی مخالفوں کی طرف ہی مائل تھا۔ آخر وکلاء کی بحث کے بعد یہ بات قرار پائی کہ کسی انگریزی علاقہ کے بیرسٹر سے فیصلہ کی رائے لی جائے۔ پچاس روپیہ فریقین سے فیس کے لئے گئے۔ اور اُس حاکم نے اپنے قریبی رشتہ دار آریہ بیرسٹر کے پاس مشورہ کے واسطے وہ مسل بھیج دی ۔ اس جگہ بھی غیر احمدیوں نے بے حدکوششیں کیں۔ اور یہ بات قابل غور ہے کہ مقدمہ میں کس طرح پیچ در پیچ پڑتے چلے جارہے تھے۔ ہاں عدالت ابتدائی کے دوران میں ایک احمدی نے خواب دیکھا تھا کہ ایک مکان بنایا جارہا ہے ۔ اس کی چاروں طرف کی دیواریں غیر احمدی کے واسطے تعمیر کی گئی ہیں ۔ مگر چھت صرف احمدیوں کے واسطے ڈالی گئی ہے جس کے سایہ میں وہ رہیں گے۔ جس سے یہ مراد تھی کہ گو مسل کا فیصلہ غیر احمدیوں کے حق میں لکھا جارہا ہے لیکن جب حکم سنانے کا موقعہ آئے گا تو مسجد احمدیوں کو دی جائے گی اور جس طرح کوئی بالاطاقت قلم کو روک دیتی ہے اور بے اختیار حاکم کے قلم سے احمدیوں کے حق میں فیصلہ لکھا دیتی ہے اور ہر ایک عدالت میں یہی بات ہوئی۔
میں نے بھی خواب میں دیکھا کہ آسمان پر ہماری مسل پیش ہوئی اور ہمارے حق میں فیصلہ ہوا۔ میں نے اپنا یہ خواب وکیل کو بتادیا۔ وہ مسل دیکھنے کے لئے عدالت گیا۔ اُس نے آکر کہا کہ تمہارا خواب بڑا عجیب ہے کہ فیصلہ ہوگیا ہے ،حالانکہ بیرسٹر کے پاس ابھی مسل بھیجی بھی نہیں گئی ۔ میں نے اُس سے کہا کہ ایک سب سے بڑا حاکم ہے اس کی عدالت سے فیصلہ آگیا ہے ۔ یہ دنیا کی عدالتیں اس کے خلاف نہیں جاسکیں گی۔ آخر اس آریہ بیرسٹر نے احمدیوں کے حق میں فیصلہ کی رائے دی اور مسل واپس آگئی اور حکم سنا دیا گیا۔ ہمارے وکیل نے کہا کہ ظاہری صورت میں ہم حیران تھے کہ کس طرح مسجد تم کو مل سکتی ہے ۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ تمہارے ساتھ خد اکی امدا د ہے تبھی مسجد مل گئی۔
لیکن افسوس ہے کہ اس پیشگوئی کے پورا ہونے پر بھی شفاعت احمد ایمان نہ لایا ۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مسجد احمدیہ کپور تھلہ کا واقعہ روایت نمبر۷۹میں بھی درج ہوچکا ہے اور شاید کسی اور روایت میں بھی جو مجھے اس وقت یاد نہیں ۔
{ 987} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میر عنایت علی شاہ صاحب لدھیانوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ خاکسار پہلی مرتبہ میر عباس علی صاحب کے ہمراہ قادیان آیا تھا ۔ میر صاحب نے آتے ہی گول کمرہ میں بیٹھ کر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو بذریعہ حافظ حامد علی صاحب اپنے آنے کی اطلاع دی کہ میرصاحب لدھیانہ سے آئے ہیں۔ ہم اطلاع دیتے ہی بڑی مسجد میں نما زعصر پڑھنے کے لئے چلے گئے۔ اس وقت اس مسجد میں کوئی نمازی نہ تھا۔ جب ہم نماز پڑھ کر فارغ ہوئے اور واپس گول کمرہ میں آئے تو حافظ صاحب نے کہا کہ میر صاحب! آپ کو حضرت صاحب اوپر بلاتے ہیں ۔ اس پر میر صاحب پاؤں برہنہ ہی گئے۔ حضور علیہ السلام نے مجھے دیکھ کر میر صاحب سے پوچھا۔ یہی میر عنایت علی ہیں؟انہوںنے جواب دیا ’’جی ہاں‘‘ غرض اس طرح پہلی مرتبہ میری حضور سے ملاقات ہوئی ۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس وقت میر عنایت علی صاحب فوت ہوچکے ہیں ۔ بہت سادہ مزاج بزرگ تھے۔ اور میر عباس علی صاحب ان کے چچا تھے یہ میر عبا س علی وہی ہیں جو بعد میں مرتد ہوگئے تھے۔
{ 988} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ محمد خان صاحب ساکن گل منج تحصیل وضلع گورداسپور نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بڑے جوش سے تقریر فرمائی ۔ اُس تقریر میں آپ نے یہ بھی فرمایا کہ جو لوگ اللہ کے نام پر اپنے لڑکے دیں گے وہ بہت ہی خوش نصیب ہوں گے۔ اُس زمانہ میں احمدیہ سکول کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ میں نے بھی اس وقت خدا سے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ تُو ہمیں بھی لڑکے عطا فرما تاکہ ہم حضرت صاحب کی حکم کی تعمیل میں اُن کو احمدیہ سکول میں داخل کراویں ۔ خدا تعالیٰ نے دعا کو سنا۔ اور پانچ بچے دئیے جن میں سے تین فوت ہوگئے اور دو چھوٹے بچے رہ گئے ۔ پھر میں نے بموجب ارشاد حضرت صاحب بڑے لڑکے کو احمدیہ سکول میں اور چھوٹے کو ہائی سکول میں داخل کرادیا۔ اور اپنی وصیت کی بہشتی مقبرہ کی سند بھی حاصل کر لی ۔
{ 989} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ میاں فیاض علی صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا ہے کہ جب ہنری مارٹن کلارک پادری نے ایک بڑے منصوبے کے بعد حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام پر قتل کا مقدمہ دائر کیا تو شفاعت احمد نے جن کا میں ایک روایت میں ذکر کر آیا ہوں ۔ مجھ سے کہا کہ مسجد تو ہمارے حاکم کے فوت ہوجانے کی وجہ سے ہمارے ہاتھ سے نکل گئی۔ مگر اس مقدمہ قتل سے اگر مرزا صاحب بچ گئے تو میں ضرور احمدی ہوجاؤں گا۔ میں نے اس کو جواب دیا کہ مسیح موعود نے فرمادیا ہے کہ مغرب کی طرف سے ایک آگ کاشعلہ آیا اور ہمارے مکان کے دروازہ پر آکر گرا ہے ۔ مگر وہ گرتے ہی ایک خوشنما پھول بن گیا ہے ۔ پس انجام اس مقدمہ کا یہی ہوگا جو میں لکھ رہاہوں ۔ آخر وہ مقدمہ حضرت صاحب کے حق میں فیصلہ ہوا اور پادریوں کو شرمندگی اُٹھانا پڑی ۔ خاکسار اس فیصلہ کے موقعہ پر عدالت میں حاضر تھا۔ میں نے شفاعت احمد کو یاددلایا کہ پیش گوئی تو پوری ہوگئی ۔ اب تم اپنے احمدی ہونے کا وعدہ پورا کرو۔ شفاعت احمد نے صاف انکار کردیا کہ میں نے تو کوئی وعدہ نہ کیا تھا بلکہ غصہ میں آکر کہنے لگا کہ اگر میں جھوٹ بولتا ہوں تو مجھ پر عذاب آئے اور میرا فرزند مر جائے ۔ میری بیوی مر جائے ۔ میں نے اُس سے کہا کہ شفاعت احمد! اب تُو نے مسیح موعود علیہ السلام سے یکطرفہ مباہلہ کر لیا ہے ۔ اب تُو اس کے نتیجہ کا انتظار کر اور میں بھی کرتا ہوں۔ اس کے بعد شفاعت احمد ایک سال کے عرصہ میں اس قدر بیمار ہوا کہ جان کے لالے پڑ گئے ۔ حتی کہ اس نے گھبرا کر احمدی جماعت سے دعا کی درخواست کی ۔ اس پر وہ مرنے سے تو بچ گیا مگر کانوں کی شنوائی جاتی رہی اور اس وقت وہ امرتسر میں ہے اس کا ایک اکلوتا بیٹا تھا وہ بھی مر گیا۔
{ 990} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فیاض علی صاحب کپور تھلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ مسجد کپور تھلہ کے مقدمہ میں ایک شخص ناظر عبد الاحد بھی مدعا علیہ تھا۔ اس کے دو بیٹے تھے ۔ ایک سب انسپکٹر تھا اور دوسرا ایف اے پاس تھا۔ دونوں ہی فوت ہوگئے ۔ اس کی بیوی کو بیٹوں کی موت کا بہت صدمہ ہوا اور وہ اپنے خاوند کو سمجھاتی رہی کہ دیکھ ۔ تُو نے اپنے دو فرزند مسیح موعود ؑ کی مخالفت میں زمین میں سُلا دئیے ۔ اور اب تو اور کیا کرناچاہتا ہے؟غرض کہ مسجد احمدیہ کپور تھلہ کے مقدمہ میں جو بھی مدعا علیہ تھے ۔ اُن سب کا برا انجام ہواور مسجد ہمارے قبضہ میں آئی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی واضح طور پر پوری ہوئی ۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{991} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فیاض علی صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا ہے کہ ہوشیار پور میں ایک شخص شیح مہر علی رئیس تھے۔ حضرت اقدس اس شخص کے گھر ٹھہرا کرتے تھے ۔ اور اس کو بھی حضور سے عقیدت تھی۔ ایک مرتبہ حضرت اقدس نے خواب میں دیکھا کہ شیخ مہر علی کے بستر کو آگ لگ گئی ہے ۔ حضور نے اس رؤیاء کے متعلق اس کو خط لکھا اور اس میں ہدایت کی کہ آپ ہوشیار پور کی رہائش چھوڑ دیں ۔ وہ خط اس کے بیٹے کو مل گیا اور اس نے تکیہ کے نیچے رکھ دیا کہ جب بیدار ہوںگے پڑھ لیں گے مگر چونکہ خدائی امر تھا اور بستر کو آگ لگ چکی تھی وہ خط شیخ مہر علی صاحب کو نہ پہنچا اور ان کے بیٹے کو بھی اس کا ذکر کرنا یاد نہ رہا ۔ تھوڑے عرصہ بعد محرم آگیا اور اور ہوشیار پورمیں ہندومسلم فساد ہوگیا۔ شیخ مہر علی صاحب اس کے سرغنہ قرار پائے اور ان کے خلا ف عدالت میں بغاوت کا مقدمہ قائم ہوگیا۔ عدالت سے ضبطی جائیداد اور پھانسی کا حکم ہوا۔ اس حکم کے خلا ف لاہور میں اپیل ہوا ۔شیخ صاحب نے دعا کے واسطے حضرت صاحب سے استدعا کی ۔ حضور نے دعا فرمائی اور کہہ دیا کہ اللہ تعالیٰ فضل کرے گا۔ چنانچہ ہائی کورٹ میں اپیل منظور ہوگیا اور شیخ مہر علی بھی باعزت طور پر بری کئے گئے ۔ خواجہ کمال الدین صاحب کا اُن دنوں جالندھر میں لیکچر تھا۔ جماعت کپور تھلہ اور ڈاکٹر صادق بھی لیکچر سننے گئے ۔ اور ڈاکٹر صاحب نے ہم سے کہا کہ شیخ مہر علی کے عزیز واقارب یہ کہتے ہیں کہ یہ جو مشہور کیا جاتا ہے کہ شیخ صاحب مسیح موعود کی قبولیت دعا سے بری ہوئے ہیں ،یہ غلط ہے۔ بہت سے لوگوں نے اُن کی بریت کے لئے دعا کی تھی۔ مرزا صاحب کی دعا میں کیا خصوصیت ہے ۔ خدا جانے کس کی دعا قبول ہوئی۔ یہ واقعہ حضرت صاحب کو جماعت کپور تھلہ نے لکھ بھیجا۔ اس تحریر پر حضرت صاحب نے ایک اشتہاراس مضمون کا شائع کیا کہ میرا دعویٰ ہے کہ محض میری دعا سے شیخ مہر علی بری ہوئے ہیں ۔ یا تو شیخ صاحب اس کو منظور کر کے اخبار میں شائع کرادیں ورنہ ان کے خلاف آسمان پر مقدمہ دوبارہ دائر ہوجائے گا اور اس مقدمہ میں قید کی سزا ضرور ہوگی۔ ایک اشتہار رجسٹری کراکر کے شیخ مہر علی کے پاس بھیجا گیا۔ وہ بہت خوف زدہ ہوگیا۔ اور قبولیت دعا مسیح موعود علیہ السلام کا اقرار ی ہو۱ اور اخبار میں شائع بھی کرادیا۔ اور یہ بھی لکھا کہ جیل خانہ سے واپس آکر مجھ کو حضور کا خط ملا جس میں مجھ کو ہوشیار پور چھوڑنے کے واسطے ہدایت ہوئی تھی۔ اگر اس وقت مجھ کو خط مل جاتا تو میں ضرور ہوشیار پو ر چھوڑ جاتا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس واقعہ کا ذکر روایت نمبر۳۴۶میں بھی آچکا ہے۔
{ 992} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فیاض علی صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ قصبہ سراوہ ضلع میرٹھ میں ،جہاں کا میںرہنے والا ہوں ۔ ایک شخص مولوی حمید اللہ اہل حدیث رہتا تھا۔ اُ ن سے میرا مباحثہ ہوتا رہتا تھا۔ وہ بہت سی باتوں میں عاجز آجاتے تھے۔ آخر ایک دفعہ انہوںنے مجھ سے کہا کہ میں مرزا صاحب کے پاس چلوں گا۔ اس کے بعد میں اپنی نوکری پر کپور تھلہ چلا آیا۔ میں یہ سمجھا کہ مولوی صاحب اب بیعت کر لیں گے۔ کیونکہ میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ میں قادیان جارہا ہوں ۔ راستہ میں ایک دریا موجزن ہے ۔ مگر اس کے اوپر میں بے تکلف بھاگا جارہا ہوں ۔ میرے ساتھ ایک اور شخص ہے مگر وہ گلے تک پانی میں غرق ہے ۔ مگر ہاتھ پیر مارتا ہوا وہ بھی دریا سے پار ہوگیا۔ میں نے سمجھا کہ یہ حمید اللہ مولوی ہے ۔ تھوڑے عرصہ کے بعد مولوی صاحب کاقادیان جانے کے لئے ایک خط کپور تھلہ میں میرے پاس آیا ۔ میں بہت خوش ہوا۔ مولوی صاحب کا اصل خط اور ایک عریضہ اپنی طرف سے حضرت اقدس کی خدمت میں بھیج دیااور عرض کی کہ غالباً یہ مولوی حضور کی بیعت کرنے کے واسطے آرہا ہے ۔ حضور نے جواب میں خط لکھا کہ اس کے خط میں سے تو نفاق کی بوآتی ہے ۔ یہ وہ شخص نہیں ہے جس کو تم نے خواب میں دیکھا ہے۔ وہ کوئی اور شخص ہوگا جو تمہاری تبلیغ سے سلسلہ بیعت میں داخل ہوگا ۔ چنانچہ مولوی حمید اللہ سراوہ سے چل کر کپور تھلہ پہنچے اور قادیان چلنے کاارادہ کیا۔ مولوی غلام محمد اہل حدیث جس کو حضور نے اپنی بیعت میں قبول نہ فرمایا تھا۔ انہوںنے مولوی حمید اللہ سے کہا کہ اگر تم قادیان گئے تو تم اپنے عقیدہ پر قائم نہ رہو گے۔ اس کے کہنے پر مولوی حمید اللہ رک گئے اور سراوہ واپس چلے گئے ۔ مولوی غلام محمد نے ہماری بہت مخالفت کی ۔ جماعت کو ہر ممکن تکلیف دی گئی۔ فتویٰ کفر پر دستخط کئے گئے ۔ مخالفت میں حکیم جعفر علی اور مولوی حمید اللہ نے رسالہ شائع کر کے خوب جوش دکھلایا۔ اور مولوی صاحب بیعت سے محروم رہے اور حسب پیشگوئی مسیح موعود میری تبلیغ کے ذریعہ مولوی دین محمد صاحب بیعت میں داخل ہوئے اور وہ خدا کے فضل سے جوشیلے احمدی ہیں ۔
{ 993} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حافظ نور محمد صاحب ساکن فیض اللہ چک نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ سیر کو جاتے ہوئے بسراواں کے راستہ میں شعر وشاعری کا تذکرہ شروع ہوا تو میں نے حضرت مسیح موعود کی خدمت میں عرض کی کہ قرآن مجید میں جو وارد ہے کہ وَالشُّعَرَآئُ یَتَّبِعُھُمُ الغَاوٗنَ ـ اَلَمْ تَرَاَنَّھُمْ فِیْ کُلِّ وَادٍ یَّھِیْمُوْنَ وَاَنَّھُمْ یَقُوْلُوْنَ مَالَا یَفْعَلُوْنَ (الشّعرائ:۲۲۵) اس سے شعرگوئی کی برائی ثابت ہوتی ہے ۔ حضور نے فرمایا! کہ آپ ذرا اس کے آگے بھی تو پڑھیں۔ تو مولوی غلام محمد صاحب نے اگلی آیت فوراً پڑھ دی کہ اِلَّاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَذَکَرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا (الشعرائ:۲۲۸) اس پر میرا مطلب حل ہوگیا۔
{ 994} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ حافظ نور محمد صاحب ساکن فیض اللہ چک نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ہمارے گاؤں میں ایک کشمیری مولوی جو حافظ قرآن بھی تھے تشریف لائے اور کئی رو ز تک وہ اپنے وعظ میں غیر مقلدین یعنی اہل حدیث کے خلاف تقریریں کرتے رہے۔ ہم بھی غیر مقلد تھے ۔ مولوی صاحب اعلانیہ کہا کرتے کہ اپنے فوت شدہ بزرگوں سے مدد طلب کرنا جائز ہے اور جس قدر نمازیں تم نے غیر مقلدوں کے پیچھے پڑھی ہیں ۔ سب کی سب دوبارہ پڑھنی چاہئیں اور ثبوت میں قرآنی آیات یَااَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُواللّٰہَ وَابْتَغُوْا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ (المائدۃ:۳۶) پیش کرتے تھے ۔ میں نے اُن مولوی صاحب سے پوچھا کہ اس وسیلہ سے آپ کون سا وسیلہ مراد لیتے ہیں ؟ انہوںنے جواب دیا کہ نیک عملوں اور فوت شدہ بزرگوں کا وسیلہ ۔ میں نے کہا کہ آپ لوگوں کو مشرکانہ تعلیم نہ دیں ۔ اس بات پر اس نے میرے ساتھ سخت کلامی کی اور گاؤں کے لوگوں کو برانگیختہ کیا۔ جس پر گاؤں کے لوگ ہم سے الگ نماز پڑھنے لگے۔ صرف میں اور میرے والد ہی اکٹھی نماز پڑھتے تھے۔ میرے والد صاحب نے قادیان جا کرحضرت صاحب سے کہا کہ جناب میں نے تو اپنا لڑکا مسلمان بنانے کے لئے آپ کی خدمت میں چھوڑا تھا لیکن اب تو لوگ اس کو کافر کہتے ہیں ۔ آپ نے اس وقت ایک سرخ کاغذ پر فتوی لکھوا کر میرے والد صاحب کو دیا کہ جو لوگ آمین بالجہر، الحمد للہ ، رفع یَدَین اور فاتحہ خلف الامام کے پڑھنے پر کسی کو کافر کہے وہ امام ابو حنیفہ کے نزدیک خود کافر ہے ۔ مگر چند روز کے بعد عام لوگ خود بخود ہی میرے پیچھے نماز پڑھنے لگ گئے ۔ اس کے بعد جب میں حضور کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ میاں نور محمد! تم کو لوگ وہابی کہتے ہیں ۔ تم جواب دیا کروکہ میں حضرت پیرانِ پیر کا مرید ہوں اور ان کی کتاب غنیۃ الطالبین پڑھ کر اُن کو سنایا کرواور حضرت صاحب ہمیشہ جناب پیران پیر ؒاور امام غزالی کی تعریف فرمایا کرتے تھے ۔
{ 995} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حافظ نور محمد صاحب ساکن فیض اللہ چک نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا۔ کہ ایک دفعہ خواب میں میری زبان پر لفظ ’’مجدّد‘‘ جاری ہوا۔ مگر اس وقت مجھے اس لفظ کی کوئی تشریح معلوم نہ ہوئی ۔ اور ایک لغت کی کتاب دیکھنے سے معلوم ہوا کہ اس کے معنے یہ ہیں کہ ’’نیا کام کرنے والا‘‘۔ اس خواب کے چند روز بعد ایک بڑا لمبا چھوڑا اشتہار دیکھا جو کہ میرعبا س علی صاحب لدھیانوی کی طرف سے شائع ہوا تھا کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب چودھویں صدی کے مجدد ہیں۔ اور جن ایام میں مسجد مبارک تیار ہوتی تھی تو حضرت صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ہم نے اس مسجد میں ایک مولوی رکھنا ہے جو عورتوں میں وعظ کیا کرے گا۔ لیکن اب اللہ کے فضل وکرم سے بجائے ایک کے سینکڑوں مولوی مسجد مبارک میں موجو درہتے ہیں ۔ اُس زبان مبارک سے نکلی ہوئی باتیں اب ہم پوری ہوتی دیکھ رہے ہیں ۔
{ 996} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیا ن کیا۔ کہ بعض دفعہ احباب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے یہ مسئلہ پوچھتے تھے کہ جب آدمی ایک دفعہ بیعت کر لے تو کیا یہ جائز ہے کہ اگر پھر کبھی بیعت ہورہی ہو تو وہ اس میں بھی شریک ہوجائے۔ حضور فرماتے تھے کہ کیا حرج ہے؟خاکسار عرض کرتا ہے کہ اکثر دوست دوبارہ سہ بارہ بلکہ کئی بار بیعت میں شریک ہوتے رہتے اور بیعت چونکہ توبہ اور اعمال صالحہ کے عہد کا نام ہے اس لئے بہر حال اس کی تکرار میں فائدہ ہی فائدہ ہے ۔
{ 997} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام یوں تو ہر امر میں قرآن مجید کی طرف رجوع کرتے تھے مگر بعض بعض آیات آپ خصوصیت کے ساتھ زیادہ پڑھا کرتے تھے ۔ علاوہ وفات مسیح کی آیات کے حسب ذیل آیات آپ کے منہ سے زیادہ سنی ہیں ۔
سورۃ فاتحہ ۔
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا(الشمس:۱۰)
اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہَ اَ تْقٰـکُمْ (الحجر:۱۴)
رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْ ئٍ (الاعراف:۱۵۷)
ھُوَالَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ (التوبۃ:۳۳)
مَنْ کَانَ فِیْ ہٰذِہٖ اَعْمٰی فَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ اَعْمٰی ( الاسرائ:۷۳)
اِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَۃٌ بِالسُّوْئِ (النسائ:۵۹)
یَااَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ ارْجِعِیْ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَۃً فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ (الفجر:۲۹)
وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّث (الضحیٰ:۱۲)
قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰی اَنْفُسِھِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِن رَّحْمَۃِ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُالذُّنُوْبَ جَمِیْعًا (الزمر:۵۴)
وَبَشِّرِ الصَّابِرِیْنَ الَّذِیْنَ اِذَا اَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْااِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ اُولٰٓئِکَ عَلَیْھِمْ صَلَوٰۃٌ مِّن رَّبِھِمْ وَرَحْمَۃٌ (البقرۃ:۱۵۶)
مَایَفْعَلُ اللّٰہُ بِعَذَابِکُمْ اِنْ شَکَرْ تُمْ وَاٰمَنْتُمْ (النسائ:۱۴۸)
وَقُوْلَا لَہٗ قَوْلًا لَّیِّنـًا (طٰہٰ:۴۵)
اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْھِمْ سُلْطَانٌ (الحجر:۴۳)
وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ(المائدۃ:۶۸)
وَآخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ (الجمعۃ:۴)
لَایُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّاوُسْعَھَا (البقرۃ:۲۸۷)
لَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ (البقرۃ:۱۹۶)
اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْا اَنْ یَّقُوْلُوْا اٰمَنَّا وَھُمْ لَایُفْتَنُوْنَ (العنکبوت:۳)
مَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی اِنْ ھُوَ اِلَّاوَحْیٌ یُّوْحٰی (النجم:۴)
ثُمَّ دَنٰی فَتَدَلّٰی فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰی (النجم:۹)
لَا تَقْفُ مَالَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ (الاسرائ:۳۷)
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ (اٰل عمران:۳۲)
لَااِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ (البقرۃ:۲۵۷)
قُلْ مَایَعْبَأُ بِکُمْ رَبِّیْ لَوْلَا دُعَائُ کُمْ (الفرقان:۷۸)

خاکسار عرض کرتا ہے کہ کیا خوب انتخاب ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی انگوٹھیوںکی تقسیم بذریعہ قرعہ اندازی


خاکسار مرز ابشیر احمد عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اپنے پیچھے تین انگوٹھیاں چھوڑی تھیں جن کی حضور کی وفات کے بعد بذریعہ قرعہ اندازی تقسیم کی گئی۔ قرعہ کی پرچیوں کا چربہ اوپر درج ہے ۔ ان پرچیوں میں الہام کی عبارت حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہے اور ہم تین بھائیوں کے نام حضرت اماں جان کے ہاتھ کے لکھے ہوئے ہیں ۔ میں نے مناسب سمجھا کہ ہر دو تحریروں کا چربہ محفوظ ہوجائے ۔
{ 998} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مولوی رحمت اللہ صاحب باغانوالہ بنگہ ضلع جالندھر نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیا ن کیا کہ خاکسار چند دن ہوئے لدھیانہ گیا تھا۔ وہاں میاں رکن الدین صاحب احمدی سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے مندرجہ ذیل ایک حلفیہ تحریری بیان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق دیا ۔
بیان حلفیہ میاں رکن الدین احمدی ولد حسن الدین قوم ارائیں سکنہ لدھیانہ چھاؤنی
’’ میں خدا کو حاضر و ناظر جان کر کہتاہوں کہ جس وقت حضرت مرزا صاحب (مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام )لدھیانہ تشریف لائے تھے اُس وقت میری عمر قریباً پندرہ سال کی تھی۔ اور اس وقت قریباً۷۴؍۷۳سال کی عمر ہے ۔ میں اس وقت تانگہ مین، تانگہ ڈرائیور تھا۔ تانگہ میرا ا پنا تھا ۔ ایک روز منشی احمد جان صاحب نے ایک آدمی کو میاں کرم الٰہی صاحب مرحوم ، پیر بخش صاحب ، جناب قاضی خواجہ علی صاحب ، جناب شہزادہ عبد المجید صاحب کے پاس بھیجا کہ فلاں گاڑی پر جناب حضرت مرزا صاحب تشریف لارہے ہیں آپ لوگ بھی اسٹیشن پر پہنچیں۔ تو وہ فورًا اکٹھے ہوکر چل پڑے اور میں بھی اُن کے ساتھ چل پڑا ۔جب اسٹیشن کے قریب سو دوسو کرم کے فاصلہ پر پہنچے تو حضرت صاحب بمعہ چند ایک احباب کے پیدل آرہے تھے ۔ اور ایک آدمی قلی کو بستر وغیرہ اٹھوائے آرہا تھا۔ جناب کو سیدھے فیل گنج کو لے گئے۔ وہ مکان چونکہ اچھا نہ تھا اس لئے حضور کو شہزادہ عبد المجید صاحب اپنے مکان پر لے گئے ۔ میں روزانہ ایک پھیرا تانگہ کا لگا کر اُن کی خدمت میں حاضر ہوتا اور سودا سلف بازار سے مجھ سے منگواتے ۔ پھر مجھے فرمایا کہ ’’روٹی یہاں ہی کھایا کرو ‘‘ تو میں وہاں ہی حضور کے حکم سے کھانے لگ پڑا۔ مجھے ایک روز فرمایا کہ ’’لڑکے نماز پڑھا کرو اور ہمارے پاس ہی پڑھا کرو‘‘ میں نے کہا کہ مجھے سوائے بسم اللہ کے اور کچھ نہیں آتا ۔ فرمایا ۔ ’’ وضو کر کے ہمارے ساتھ کھڑے ہوجایا کرو‘‘ ۔ میں اسی طرح کرنے لگااور مجھے نماز آگئی ۔ الحمد للہ ۔ غرض میں حتی المقدور خدمت کرتا رہا۔ ملاں کرم الٰہی مرحوم میرا حقیقی بھائی مجھ سے بڑا تھا۔ وہ پولیس میں لائن آفسر تھے۔ ایک روز فارغ ہوکر میرے ساتھ ہی حضرت صاحب کی خدمت میں پہنچے ۔ تو آپ نے ملاں کرم الٰہی کو فرمایا کہ ’’ آپ لوگوں کے طعن وغیرہ سے نہ ڈریں ۔ خدا سے ڈریں ۔ اس سے دنیا اور آخرت بہتر ہوگی‘‘ (غالباً مفہوم یہی تھا) منشی احمد جان صاحب نے فرمایا کہ آپ بیعت میرے مکان پر لیںجو دارالبیعت کے نام سے مشہور ہے تو پہلے روز قریباً شام کے قریب سات آدمی بیعت کے لئے تیار ہوئے جن میں سے پانچ نے بیعت کر لی ۱؎ ۔ ان میں ایک میاں کریم بخش صاحب بھی تھے۔ باقی دو نے کہا کہ ہم کل کریں گے بس پھر سلسلہ بیعت ہر روز جاری رہا ۔ میں ہر روز عرض کرتا کہ حضور میری بیعت لیں ۔ فرماتے تمہاری بیعت تو ہوگئی۔ جب تم روزانہ ہماری خدمت کرتے ہو۔بس پھر میں حاضر خدمت رہتا۔ بیعت کے لئے کہتا تو فرماتے کہ تمہاری بیعت ہوگئی ہے ۔ پھر حضور قریباً مہینہ بھر کے بعد تشریف لے گئے ۔ میں نے قریباً دو سال بعد قادیان پہنچ کر عرض کیا کہ حضور آپ اور لوگوں کی بیعت لیتے ہیں ، میری بیعت نہیں لیتے۔ فرمایا !میاں تمہاری بیعت ہوچکی ہے ۔اچھا جمعہ کے بعد پھر کر لینا۔ میری عمر قریباً۱۸سال کی شروع ہوگئی تھی۔ تب دستی بیعت کی۔ میرے جیسے جاہل او جڈ پر یہ فضل الٰہی تھا ۔ الحمد للہ ۔ یہ بیان میں نے میاں رحمت اللہ باغانوالہ احمدی بنگہ کے پاس اپنی یادداشت کے طور پر لکھا یا ہے ۔ ذکر لمبا ہے مختصر لکھ دیا ہے ۔
میا ں رحمت اللہ مذکور ہمارے رشتہ دار ہیں۔ میرے بھائی ملاں کرم الٰہی کی نواسی کی شادی ان کے عزیز بیٹے ہدایت اللہ احمدی سے ہوئی ہے ۔ العبد
نشان انگوٹھا میاں رکن الدین
۳۸-۹۰-۲۳ ارائیں لدھیانہ چھاؤنی محلہ
الراقم خاکسار طالب دعا رحمت اللہ باغانوالہ احمدی بنگہ حال لدھیانہ بقلم خود۳۸-۹-۲۳
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس روایت میں یہ ذکر ہے کہ ’’پہلے روز قریباً شام کے قریب سات آدمی بیعت کے لئے تیار ہوئے جن میں سے پانچ نے بیعت کر لی ۔ اُن میں سے ایک میاں کریم بخش صاحب تھے ‘‘ میں نے میاں کریم بخش صاحب مذکور کے متعلق تحقیقات کی ہے اس کے متعلق میر عنایت علی صاحب لدھیانوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ کوئی کریم بخش شخص نامی ایسا نہیں جس نے ابتدائی دس بیعت کنندگان میں بیعت کی ہو۔ سوائے سائیں گلاب شاہ مجذوب والے کریم بخش کے ۔ وہ فوت ہوچکے ہیں ،
۱؎ یہاں روایت میں سہو معلوم ہوتا ہے ۔حضرت منشی احمد جان صاحب کی وفات ۱۸۸۳ء میں ہوئی اور پہلی بیعت ۱۸۸۹ء میں ہوئی تھی(سیدعبدالحی)
ان کا ذکر ازالہ اوہام میں بھی ہے ۔ یہی ذکر میاں رکن الدین ساکن چھاؤنی لدھیانہ نے میاں رحمت اللہ صاحب باغانوالہ کے پاس بیان کیا ہے ۔ لیکن میاں رحمت اللہ صاحب باغانوالے نے سمجھا نہیں اور کوئی اور کریم بخش سمجھتے ہوئے انہوںنے آپ کو لکھ دیا ہے ۔ جو میاں رحمت اللہ صاحب کی غلط فہمی ہے ۔
{ 999} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فیاض علی صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میرا افسر سکھ مذہب کا تھا۔ مسلمانوں سے بہت تعصّب رکھتا تھا اور مجھ کو بھی تکلیف دیتا تھا آخر اس نے رپورٹ کر دی کہ فیاض علی کو موقوف کردیا جائے ۔میں اس کے کام کا ذمہ دار نہیں ہوں۔میں نے دعا کے واسطے مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عریضہ بھیجا اور اس کی سختی کا ذکر کیا۔ حضور نے جواب تحریر فرمایا کہ ’’انسان سے خوف کرنا خد اکے ساتھ شرک ہے اور نماز فرضوں کے بعد۳۳مرتبہ لاحول ولاقوۃ پڑھا کریں اور اگر زیادہ پڑھ لیں تو اور بھی اچھا ہے‘‘ ۔ خط کے آتے ہی میرے دل سے خوف قطعی طور پر جاتا رہا۔ ایک ہفتہ کے اندر خواب کا سلسلہ شروع ہوگیا کہ افسر علیحدہ کیا جائے گا۔ اور میں اپنی جگہ پر بدستور رہوں گا۔ میں رخصت لے کر علیحد ہ ہوگیا ۔اور راجہ صاحب کے حکم کا منتظر رہا۔ قبل از حکم ایک احمدی بھائی نے خواب میں دیکھا کہ راجہ صاحب کے سامنے تمہارے افسر کی رپورٹ پیش ہوئی ہے ۔ اس پر را جہ صاحب نے حکم لکھا یا ہے کہ افسر کو کہہ دو کہ فیاض علی کو حکماً رکھنا ہوگا۔ اس دوران میں مجھے بھی ایک خواب آئی کہ میں ایک برآمدہ میں ہوں اور مجھ سے کچھ فاصلہ پر ایک اور شخص ہے۔ ایک سیاہ سانپ اس کے بدن سے لپٹ رہا ہے اور اس سے کھیل رہا ہے ۔ میں نے اپنے دل میںکہا کہ اس سانپ میںزہر ہی نہیں ۔ جب اُس سانپ کی نظر مجھ پر پڑی تو وہ اُس کو چھوڑ کر میری طرف دوڑااور اس نے بہت کوشش کی کہ میرے پاؤں کو کاٹے۔ قدرت خدا سے میں ہوا میں معلق ہوگیا اور جھولے میں جھولنے لگا۔ وہ سانپ برآمدے سے باہر چلا گیا اور میں اُسی جگہ آگیا۔ مالک سانپ آیا اور اس نے دریافت کیا کہ سانپ کہاں گیاوہ تو بہت زہریلا تھا۔ میں نے جواب دیا کہ وہ باہر چلا گیا ہے ۔
اسی طرح ایک اور خواب مجھے آیا کہ ایک نیم مردہ سانپ سردی کی وجہ سے راستہ میں سویا پڑا ہے اور آسمان سے چیل اور کوے اس پر جھپٹا مار رہے ہیں ۔ ایک چیل آئی تو اس کو اٹھا کر لے گئی۔ اب مجھ کو کامل یقین ہوگیا کہ انشاء اللہ افسر نہیں رہے گا اور یہی وہ سانپ ہے جس کی پہلے وہ حالت تھی کہ دیکھنے سے خوف معلوم ہوتا تھا اور اب اس نوبت کو پہنچ گیا ہے ۔ بالاخر افسر کی درخواست را جہ صاحب کے سامنے پیش ہوئی۔ را جہ صاحب نے وہی حکم لکھایا جو ایک احمدی بھائی نے خواب میں دیکھا تھا کہ افسر کو لکھ دو کہ فیاض علی کو حکماً رکھنا ہوگا ۔ مجھ کو حکماً بلایا گیا اور حاکم کے سپرد کیا گیا۔ حضرت مسیح موعود ؑ کی دعا کا یہ اثر دیکھنے کے قابل ہے کہ وہ افسر را جہ صاحب کا ہم نشین تھا۔ اور را جہ صاحب کو یہ بھی علم نہ تھا کہ فیاض علی ہمارا ملازم ہے یا کہ نہیں ۔ تھوڑے ہی عرصہ کے بعد افسر اپنے عہدہ سے علیحد ہ کردیا گیا اور میں اسی جگہ قائم رہا۔
{ 1000} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیا ن کیا کہ حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اول ؓ میں یہ ایک خاص بات تھی کہ معترض اور مخالف کو ایک یا دو جملوں میں بالکل ساکت کر دیتے تھے اور اکثر اوقات الزامی جواب دیتے تھے۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ طریق تھا کہ جب کوئی اعتراض کرتاتو آپ ہمیشہ تفصیلی اور تحقیقی جواب دیا کرتے تھے اور کئی کئی پہلوؤں سے اس مسئلہ کو صاف کیا کرتے تھے ۔ یہ مطلب نہ ہوتا تھا کہ معترض ساکت ہوجائے بلکہ یہ کہ کسی طرح حق اس کے ذہن نشین ہوجائے ۔
 
Top