• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قادیانی شبہات کے جوابات (کامل )

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
’’ اﷲ جل شانہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنی رسالت سے مشرف کرکے پھر بطور اکرام وانعام خلافت ظاہری اور باطنی کا ایک لمبا سلسلہ ان میں رکھ دیا۔۔۔۔۔۔ اس عرصہ میں صدہا باد شاہ اور صاحب وحی والہام شریعت موسوی میں پیدا ہوئے۔۔۔۔۔۔ ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور بہت سے رسل ان کے پیچھے آئے۔‘‘
جواب ۵:مرزا نے لکھا ہے:’’ حدیث لا نبی بعدی میں لا نفی عام ہے ۔ پس یہ کس قدر دلیری اور گستاخی ہے کہ خیالات رکیکہ کی پیروی کرکے نصوص صریحہ قرآن کو عمدا چھوڑ دیا جائے۔ اور خاتم الانبیاء کے بعد ایک نبی کا آنا مان لیا جائے۔‘‘(ایام الصلح ص ۱۴۶ خزائن ص ۳۹۳ ج ۱۴)

اعتراض نمبر۴۰:نیک خواب نبوت کاچھیالیسواں حصہ​

قادیانی:نیک خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے۔ جو امت محمدیہ میں باقی ہے۔ اسی جز کے اعتبار سے نبوت باقی ہے اور ایسے نبی آسکتے ہیں۔
جواب :اگر ایک اینٹ کو مکان ‘ نمک کو پلائو اور ایک تاگے کو کپڑا‘ ایک رسی کو چارپائی نہیں کہہ سکتے تو نبوت کے ۴۶/۱ جز کو بھی نبوت نہیں کہہ سکتے۔ اور یہ ایک بدیہی امر ہے۔

اعتراض نمبر۴۱: انا العاقب

قادیانی: حدیث ’’ انا العاقب والعاقب الذی لیس بعدہ نبی ۰ ‘‘میں نبوت کی نفی راوی کا اپنا خیال ہے۔
جواب : یہ غلط ہے جس کسی نے کہا ہے خود اس کا یہ خیال ہے ورنہ حدیث میں کوئی تفریق نہیں۔ عاقب کے یہ معنی خود رسول اﷲ ﷺ نے کئے ہیں۔ چنانچہ حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:
’’ وفی روایۃ سفیان بن عینیۃ عندالترمذی وغیرہ بلفظ الذی لیس بعدی نبی ۰فتح الباری ص ۳۱۳ ج ۱۴ ‘‘ {سفیان بن عینیۃ کی مرفوع حدیث میں امام ترمذی وغیرہ کے نزدیک یہ لفظ ہیں۔ میں عاقب ہوں‘ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔}
لہذا ثابت ہوا کہ عاقب کی تفسیر میں جو الفاظ وارد ہیں وہ کلمات مرفوع ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے خود ہی فرمائے ہیں۔
(حدیث عاقب کی تشریح از ملا علی قاری ملاحظہ ہو کتاب جمع الوسائل فی شرح الشمائل حصہ دوم ص ۱۸۳ باب ماجاء فی اسماء رسول اﷲ ﷺ)
’’ والعاقب الذی لیس بعدہ نبی قیل ھذا قول الزھری وقال العسقلانی ظاہرہ انہ مدرج لکنہ وقع فی روایۃ سفیان بن عینیۃ عندالترمذی ای فی الجامع بلفظ الذی لیس بعدی نبی۰ ‘‘ لہذا ثابت ہوا کہ عاقب کی تفسیر میں جو الفاظ الذی لیس بعدہ نبی وارد ہیں وہ کلمات مرفوع ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے خود ہی ارشاد فرمائے ہیں۔
مزید برآں شمائل کی شرح (جو جمع الوسائل شرح الشمائل مصری ملاعلی قاری کے حاشیہ پر چڑھی ہوئی ہے)کرتے ہوئے علامہ عبدالرئوف المناوی المصری نے متن میں ’’ بعدی ‘‘ کو نقل فرمایا ہے۔
اسی طرح چوتھی صدی کے مشہور محدث حافظ ابن عبدالبرؒ نے روایت مذکور پوری نقل فرمائی ہے:
’’ قال ۔۔۔۔۔ وانا الخاتم ختم اﷲ بی النبوۃ وانا العاقب فلیس بعدی نبی۰کتاب الا ستعیاب برحاشیہ اصابہ۰ مطبوعہ مصر ص ۳۷ ج ۱ ‘‘{آنحضرت ﷺ نے فرمایا میں خاتم ہوں اﷲ نے نبوت میرے ساتھ ختم کردی ہے اور میں عاقب ہوں ۔ پس میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔}
اسی طرح چھٹی صدی کے مشہور محدث قاضی عیاضؒ بھی لکھتے ہیں :’’ وفی الصحیح انا العاقب الذی لیس بعدی نبی ۰ کتاب الشفامطبوعہ استنبول ص ۱۹۱ ج ۱ ‘‘{یعنی آپ ﷺ نے فرمایا کہ میںعاقب ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں۔}
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
ایسا ہی تفسیر خازن (سورۃ صف )میں ہے :’’ انا عاقب الذی لیس بعدی نبی۰ ‘‘(ص ۷۱ ج ۷ طبع مصر ۱۳۴۹ھ) ان کتابوں (شفاء کتاب الاستیعاب ‘ خازن ‘ فتح الباری اور شرح الشمائل)میں لفظ بعدی موجود ہے۔ جس سے ثابت ہے کہ یہ تفسیر نبوی ہے۔
قادیانی اعتراض نمبر۱
صحاح ستہ جو حدیث کی معتبر کتابیں ہیں ۔ ان میں یوں نہیں آیا ۔ لہذا حجت نہ ہے۔
جواب : صحاح ستہ میں سے جامع ترمذی میں یوں ہی موجود ہے۔ چنانچہ ترمذی ابواب الاستیذان والا دب ‘ باب ماجاء فی اسماء النبی میں حدیث صحیح مرقوم ہے :’’ وانا عاقب الذی لیس بعدی نبی ۰ ‘‘ (دیکھو ترمذی مطبوعہ مصر ص ۱۳۷ ج ۲ طبع ۱۳۹۲ھ ومطبع مجتبائی دہلی ص ۱۰۷ ج ۲ طبع ۱۳۲۸ھ ومطبوعہ مجیدی پریس کانپور ص ۱۱۲ ج ۲)
اعلان: ترمذی مطبوعہ ہند کے بعض نسخوں میں (مطبوعہ احمدی وغیرہ) میں اس مقام پر بعدہ غلط طبع ہوگیا ہے۔ ناظرین سے التماس ہے کہ ترمذی کے اس مقام کو درست کرلیں۔ اور بجائے بعدہ کے بعدی بنالیں۔ محدثین شارحین نے بھی ترمذی کے حوالہ سے بعدی نقل کیا ہے۔(دیکھو فتح الباری پ ۱۴ ص۳۱۳ ۔ اسی طرح زرقانی نے شرح مؤطا میں حوالہ ترمذی بعدی نقل کیا ہے۔ ص ۲۷۲ ج ۴ مطبوعہ مصر)
تشریح لفظ عاقب از علامہ ابن قیم ؒ
’’ والعاقب الذی جاء عقب الا نبیاء فلیس بعدہ نبی فان العاقب ھوالا خر فھو بمنزلۃ الخاتم ولھذا سمی العاقب علی الا طلاق ای عقب الا نبیاء جاء عقبہم۰ زاد المعاد ج ۱ ص ۳۳ ‘‘
حدیث قصر نبوت پرقادیانی اعتراضات کے جوابات

اعتراض نمبر۴۲:حدیث قصر نبوت​

قادیانی: اول تو نبی ﷺ کو محل کی ایک اینٹ قرار دینا آپ ﷺ کی توہین ہے۔کیونکہ آپ ﷺ کا درجہ بہت بلند ہے۔ پھر اس کا مطلب یہ بتایا ہے کہ آپ ﷺ نے پہلی شرائع کو کامل کردیا ہے اور شریعت کے محل کو مکمل کردیا۔ حدیث میں پہلے انبیاء کا ذکر ہے بعد میں آنے والے کانہیں۔
جواب : محل کی تو ایک مثال ہے۔ شریعت وغیرہ کا اس حدیث میں کوئی ذکر نہیں۔ آنحضرت ﷺ کو اﷲ تعالیٰ نے خاتم النبیین فرمایا۔ اور ساتھ یہ جان کر کہ آئندہ کذاب ودجال پیدا ہونے والے ہیں جن میں سے کوئی تو عذر کرے گا کہ میرا نام ’’ لا ‘‘ ہے اور حدیث میں لانبی بعدی آیا ہے۔ اور کوئی یہ عذر کرے گا کہ مردوں میں نبوت ختم ہے۔ میں عورت ہوں اس لئے میرا دعویٰ خاتم النبیین کے منافی نہیں۔ اور کوئی یہ عذر کرے گا کہ دور محمدیہ میں نبوت ختم ہے نئی کتاب اور شریعت خاتم النبیین کے خلاف نہیں۔ (جیسا کہ بہائی مذہب والے کہتے ہیں) اور کوئی یہ عذر کرے گا کہ شریعت والی نبوت ختم ہے۔ بغیر شریعت کے نبی آسکتا ہے جیسا کہ مرزا قادیانی نے کہا اور کوئی یہ عذر کرے گا کہ حدیث میں پہلے نبیوں کا ذکر ہے بعد کا نہیں۔ ان تمام باتوں کو ملحوظ رکھ کر اﷲ تعالیٰ نے اپنے نبی کی زبان سے آیت کی وہ تفسیر کرائی جس سے تمام دجالوں کی تلاویلات :’’ ھباء منشورا۰ ‘‘ ہوجاویں۔
چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میرا خاتم النبیین ہونا ان معنوں سے ہے کہ جس طرح ایک محل بنایا جائے۔ جس کی تکمیل میں صرف ایک اینٹ کی کسر ہو۔ سو اسی طرح یہ سلسلہ انبیاء کا ہے جس میں کتاب والے بھی آئے اور بلاکتاب والے بھی۔ یہ روحانی انبیاء کا سلسلہ چلتا چلتا اس مقام پر پہنچا کہ صرف ایک ہی نبی باقی رہ گیا۔ سو وہ نبی میں ہوں۔ جس کے بعد اور کوئی نبی نہیں ہوگا۔ اس مثال سے جملہ دجال وکذاب اشخاص کی تاویلات واہیہ تباہ وبرباد ہوکر رہ جاتی ہیں۔ نہ تشریعی وغیرتشیریعی کا عذر نہ عورت ومرد کا امتیاز ۔ نہ پہلے اور پچھلوں کا فرق۔ محل نبوت تمام ہوگیا ۔ نبوت ختم ہوگئی اب بعد میں پیدا ہونے والے بموجب حدیث‘ سوائے دجال وکذاب کے اور کسی خطاب کے حق دار نہیں۔
قادیانی اعتراض نمبر۲
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
بعض روایات میں لفظ:’’ من قبلی ‘‘موجود ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سب انبیاء کی مثال نہیں بلکہ گذشتہ انبیاء کی مثال ہے۔ نیز اس روایت سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ جس قسم کے نبی پہلے آیا کرتے تھے۔ اس قسم کے نبی اب ہرگز نہیں آئیں گے۔ جیسا کہ :’’ من قبلی‘‘ ظاہر کرتا ہے۔
جواب :چونکہ سب انبیاء آپ ﷺ سے پہلے گزر چکے ہیں۔ اس لئے ’’ من قبلی ‘‘ بولا گیا ہے۔ نیز جملہ :’’ ختم بی البنیان وختم بی الرسل ‘‘ جریان نبوت کی فقط نفی کرتا ہے۔ دوسرے یہ کہ حدیث :’’ من قبلی ‘‘ کے الفاظ خصوصیت سے قابل غور ہیں۔ جن سے انبیاء کا عموم بتلایا گیا ہے۔ یعنی شرعی اور غیر شرعی اور جملہ:’’ ختم بی الرسل ‘‘ (ختم کئے گئے ساتھ میرے رسول) اور :’’ انا اللبنۃ وانا خاتم النبیین ‘‘( کہ نبوت کی آخری اینٹ میں ہوں اور میں ختم کرنے والا ہوں نبیوں کا) اور :’’ وفجٔت انا واتممت تلک اللبنۃ ‘‘ (کہ میرے آنے سے وہ کمی پوری ہوگئی جو ایک اینٹ کی جگہ باقی تھی) اس کی پوری تشریح کررہے ہیں۔ یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ پہلے صرف بلاواسطہ نبی ہوتے تھے۔ اب آنحضرت ﷺ کی وساطت سے ہوا کریں گے۔ تو خدا تعالیٰ کی سنت کی تبدیلی اور استثناء کس حرف سے معلوم ہوا ۔ مرزا نے کہا کہ آنحضرت ﷺ آخری نبی بھی ہیں اور جامع الکمالات بھی۔

؎ہست او خیرالرسل خیر الانام
ہر نبوت رابر وشد اختتام​
(درثمین فارسی ص ۱۱۴ ‘ سراج منیر ص ۹۳ خزائن ص ۹۵ج ۱۲)​
ہرنبوت ختم کا کیا معنی؟۔ اب مرزائی مرزا قادیانی پر کیا فتویٰ لگاتے ہیں؟۔دیدہ باید
قادیانی اعتراض نمبر۳
جب نبوت کے محل میں کسی نبی کی گنجائش نہیں رہی تو پھر آخر زمانہ میں عیسیٰ علیہ السلام کا تشریف لانا کس طرح ممکن ہوسکتا ہے؟۔
جواب :مثلا کہا جاتا ہے کہ خاتم اولاد (سب سے آخر میں پیدا ہونے والا) اس کایہ مطلب نہیں کہ پہلی اولاد کا صفایا ہوچکا ہے۔ اور سب مرگئے ہیں۔ اسی طرح خاتم النبیین سے کیسے سمجھ لیا گیا کہ تمام انبیاء سابقین پر موت طاری ہوچکی ہے؟۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ کے بعد کسی کو یہ عہدہ نبوت نہیں دیا جائے گا۔ اور ظاہر ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کو آپ ﷺ کے بعد عہدہ نبوت نہیں ملا۔ بلکہ آپ ﷺ سے پہلے مل چکا ہے۔ اور وہ اس وقت سے آخر عمرتک برابر اس وصف کے ساتھ متصف ہیں۔ پھر معلوم نہیں کہ آپ ﷺ کے خاتم النبیین ہونے اور نزول مسیح علیہ السلام کے عقیدہ میں کیا تعارض ہے؟۔
قادیانی اعتراض نمبر۴
نبی ﷺ کومحل کی ایک اینٹ قرار دینا آپ ﷺ کی توہین ہے۔
جواب : اگر کوئی شخص یہ کہے‘ فلاں شخص شیر ہے ۔ تو کیا یہ مطلب ہے کہ وہ جانور ہے۔ جنگلوں میں رہتا ہے۔ اس کی دم بھی ہے اور بڑے بڑے ناخنوں اور بالوں والاہے۔ کیا خوب یہ مبلغ علم وفہم؟۔ نبی ﷺ نے ایک مثال سمجھانے کے لئے دی ہے۔ اور اس میں توہین کہاں آگئی؟۔ اگر یہ توہین ہے تو پھر مرزا صاحب بھی اس توہین کے مرتکب ہوئے ہیں۔ یعنی یہی مثال مرزا نے دی ہے کہ :
’’ جو دیوار نبوت کی آخری اینٹ ہے وہ حضرت محمد ﷺ ہیں؟۔‘‘ (سرمہ چشم آریہ مصنفہ مرزا ص ۱۹۸ حاشیہ خزائن ص ۱۹۸ج۲)

اعتراض نمبر۴۳: ثلاثون کذابون

 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
والی روایات پر اعتراضات کے جوابات
قادیانی:تیس دجال کی تعیین بتاتی ہے کہ بعد میں کچھ سچے بھی آئیں گے۔
جواب : تیس کی تعیین اس لئے ہے کہ کذاب ودجال صرف تیس ہی ہوں گے۔ چنانچہ حدیث کے الفاظ :’’ لاتقوم الساعۃ یخرج ثلاثون دجالون کلھم یزعم انہ رسول اﷲ ۰ ابوداؤد ‘‘(قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ تیس دجال وکذاب پیدا نہ ہولیں) صاف دال ہے کہ قیامت تک تیس ہی ایسے ہونے والے ہیں ان سے زیادہ نہیں۔ خود مرزا صاحب بھی ماتنے ہیں کہ یہ قیامت تک کی شرط ہے۔
’’ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ دنیا کے آخیر تک تیس کے قریب دجال پیدا ہوں گے۔‘‘(ازالہ اوہام ص ۹۸ خزائن ص ۱۹۷ ج ۳)
باقی رہا یہ کہ کچھ سچے بھی ہوں گے سو اس کے جواب میں وہی الفاظ کافی ہیں جوآنحضرت ﷺ نے ان دجالوں کی تردید میں ساتھ ہی اس حدیث میں فرمائے ہیں:’’ لانبی بعدی ‘‘ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔
قادیانی: یہ دجال آج سے پہلے پورے ہوچکے ہیں۔ جیسا کہ اکمال الاکمال میں لکھا ہے۔
جواب : حدیث میں قیامت تک شرط ہے۔ اکمال الااکمال والے کا ذاتی خیال ہے۔ جو سند نہیں۔ بعض دفعہ انسان ایک چھوٹے دجال کو بڑا سمجھ لیتا ہے۔ اسی طرح انہوں نے اپنے خیال کے مطابق تعداد پوری سمجھ لی۔ حالانکہ مرزا صاحب کے دعویٰ نبوت نے وضاحت کردی کہ ابھی اس تعداد میں کسر باقی ہے۔
مزید برآں حافظ ابن حجر ؒنے فتح الباری شرح صحیح بخاری میں اس سوال کو حل کرتے ہوئے فرمایا :
’’ ولیس المراد بالحدیث من ادعی النبوۃ مطلقا فانھم لایحصون کثرۃ تکون غالبھم ینشالھم ذالک عن جنون وسوداء وانما المراد من قامت لہ الشوکۃ۰ فتح الباری ص ۲۵۵ ج ۶ ‘‘{اور ہر مدعی نبوت مطلقا اس حدیث سے مراد نہیں۔ اس لئے کہ آپ ﷺ کے بعدمدعی نبوت تو بے شمار ہوئے ہیں۔ کیونکہ یہ بے بنیاد دعویٰ عموما جنون یا سوداء سے پیدا ہوتا ہے۔ بلکہ اس حدیث میں جن تیس دجالوں کا ذکر ہے وہ وہی ہیں جن کی شوکت قائم ہوجائے اور جن کا مذہب مانا جائے اور جن کے متبع زیادہ ہوجائیں۔}

مزیدار بات
اور ملاحظہ ہو ایک طرف تو بحوالہ اکمال الاکمال آج سے چار سو برس تیس دجال کی تعداد ختم لکھی ہے۔ مگرآگے چل کر بحوالہ حجج الکرامہ مصنفہ مولانا نواب صدیق حسن خان ؒ لکھا ہے کہ :
’’ آنحضرت نے جو اس امت میں تیس دجالوں کی آمد کی خبر دی تھی وہ پوری ہوکر ستائیس کی تعداد مکمل ہوچکی ہے۔‘‘(ص ۵۴۰)
گویا اکمال الااکمال والے کا خیال غلط تھا۔ اس کے ساڑھے تیس سو برس بعد تک بھی صرف ستائیس دجال وکذاب ہوئے ہیں۔بہت خوب ۔ حدیث میں تیس کی خبر ہے ۔ جس میں بقول نواب صاحب ؒ مسلمہ شما ۲۷ ہوچکے ہیں۔ اب ان میں ایک متنبی مرزا صاحب کو ملائیں تو بھی ابھی دو کی کسرباقی ہے۔
یہاں تک تومرزائی وکیل نے اس حدیث کو رسول اﷲ کی مانتے ہوئے جواب دئیے۔ مگر چونکہ اس کا ضمیر گواہی دیتا ہے کہ جواب دفع الوقتی اور بددیانتی کی کھینچ تان ہے جسے کوئی دانا قبول نہیں کرسکتا۔ اس لئے آگے چل کر عجیب دجالانہ صفائی کی ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔ آہ ! صحاح ستہ خاص کر صحاح سے بھی سب کی سردار کتاب بخاری ومسلم کی حدیث اور ضعیف ؟ اور پھر جرات یہ کہ حجج الکرامۃ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ حافظ ابن حجر ؒ نے فتح الباری میں اس حدیث تیس دجال والی کو ضعیف لکھا ہے۔ حالانکہ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ حجج الکرامہ کی جو عبارت درج کی ہے اگرچہ ساری نہیں درج کی گئی تاہم اس سے ہی اصل حقیقت کھل رہی ہے۔ ملاحظہ ہو لکھا ہے :
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
’’ در حدیث ابن عمر سی کذاب در روایتی عبداﷲ بن عمر نزد طبرانی است برپانمیشود ساعت تاآنکہ بیرون آیند ہفتاد کذاب ونحوہ عندابی یعلی من حدیث انس حافظ ابن حجر گفۃ کہ سند ایں ہردو حدیث ضعیف است۰ ‘‘
ناظرین کرام ! حجج الکرامۃ کی عبارت میں تین روایتوں کا ذکر ہے۔ ابن عمر کی تیس دجال والی (یہ صحیح مسلم بخاری وترمذی وغیرہ کی ہے بادنیٰ تغیر) دوسری روایت عبداﷲ بن عمر کی جو طبرانی میں ہے۔ ۷۰ دجال والی ۔اور تیسری روایت انس والی جوابویعلی میں ہے ۔۷۰ دجال والی حافظ صاحب نے پچھلی دونوں روایتوں کو ضعیف کہا ہے۔ مگر مرزائی صحیح حدیث کو بھی اسی صف میں لاکر نہ صرف اپنے نامہ اعمال کو سیاہ کررہا ہے بلکہ حافظ ابن حجر ؒ اور نواب صدیق حسن خان ؒ پر افتراء کرکے اپنی مرزائیت کا ثبوت دے رہا ہے۔
اب آئیے ! میں آپ کے سامنے حافظ ابن حجر ؒ کی اصل کتاب جس کا حوالہ دیا گیا پیش کروں:’’ وفی روایۃ عبداﷲ بن عمر عندالطبرانی لاتقوم الساعۃ حتی یخرج سبعون کذابا وسند ھا ضعیف وعندابی یعلی من حدیث انس نحوہ وسندہ ضعیف ایضا ۰ فتح الباری شرح صحیح بخاری مطبوعہ دہلی ص ۵۶۴ جزء ۲۹ ‘‘
عبداﷲ بن عمر ؓ کی روایت میں امام طبرانی ؒکے نزدیک یہ وارد ہے کہ ستر کذاب نکلیں گے۔ اور اس کی سند ضعیف ہے اور ابویعلی کے نزدیک حضرت انس ؓ کی حدیث سے بھی اسی طرح ہے اور اس کی سند بھی ضعیف ہے۔
حاصل یہ کہ حافظ ابن حجر ؒ نے صرف ۷۰ دجال والی روایت کو جو دو طریق سے مروی ہے۔ ضعیف لکھا ہے۔ نہ کہ تیس دجال والی کو۔
نوٹ: اسی عبارت کو علامہ عینی حنفی نے اپنی شرح صحیح بخاری میں اسی طرح نقل کیا ہے اورمسئلے کو صاف کردیا ہے۔ کہ ستر کی تعداد والی ہر دو روایات جو طبرانی اور ابویعلی نے روایت کی ہیں۔ وہ دونوں ضعیف ہیں۔(عینی ص۳۹۸ ج ۱۱)

اعتراض نمبر۴۴:حدیث‘ بنیاسرائیل میں سیاست​

انبیاء کرتے تھے پر اعتراضات کے جوابات
قادیانی: بنی اسرائیل میں نبی سیاست کرتے رہے مگر میرے بعد خلفاء ہوں گے کا جواب یہ ہے کہ حدیث میں سیکون کا لفظ وارد ہے ۔ جس کے معنی ہیں عنقریب میرے بعد خلفاء ہوں گے۔
جواب : معلوم نہیں کہ اس سے معترض کا مطلب کیا ہے؟۔ ہاں خلافت آپﷺ کے معا بعد شروع ہونے کا ذکر ہے پھر لکھا ہے :
’’ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ امت میں خلافت اور نبوت جمع نہ ہوگی۔ مطلب یہ ہے کہ جو بادشاہ خلیفہ ہوگا وہ نبی نہ ہوگا اور جو نبی ہوگا وہ باد شاہ نہ ہوگا۔ کیا کہنے اس یہودیانہ تحریف کے؟۔
حدیث شریف کے الفاظ صاف ہیں کہ بنیاسرائیل کے بادشاہ نبی ہوتے تھے۔ جب ایک فوت ہوتا تو دوسرا اس کا قائم مقام بادشاہ ہوتا۔ اب اس تقریر سے خیال پیدا ہوتا تھا کہ پھر آنحضرت ﷺ کے بعد بھی بادشاہ نبی ہیں۔ لہذا آپ ﷺ کے بعد آپ ﷺ کا جانشین بھی نبی ہونا چاہئیے۔
حضور ﷺ نے اس خیال کو یوں حل کیا کہ چونکہ میرے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہونا اس لئے میرے بعد میرے جانشین صرف خلفاء ہوں گے۔ جو عنقریب عنان خلافت سنبھالیں گے۔ پھر بکثرت ہوں گے۔ اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ نبوت بنداور انتظام ملکی کے لئے خلافت جاری ۔
اس خلافت کے مسئلہ کو دوسری جگہ اس طرح بیان فرمایا کہ :
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
’’ تکون النبوۃ فیکم ماشاء اﷲ۔۔۔۔۔۔ ثم تکون۰ خلافۃ علی منھاج النبوۃ ماشاء اﷲ۔۔۔۔۔۔ ثم تکون۰ ملکا عاضا فیکون ماشاء اﷲ ۔۔۔۔۔۔ ثم تکون۰ خلافۃ علی منہاج النبوۃ۰ رواہ احمد والبیقی مشکوٰۃ کتاب الفتن۰ ‘‘
رہے گی میری نبوت تمہارے اندر جب تک خدا چاہے پھر ہوگی خلافت منہاج نبوت پر اس کے بعد بادشاہی ہوجائے گی۔ پھر خلافت منہاج نبوت پر ہوگی۔ یعنی امام مہدی کے زمانہ میں۔ یعنی جس طریق پر امور سیاسیہ کو آنحضرت ﷺ نے چلایا اسی طرح مطابق آپ ﷺ کی سنت کے آخری زمانہ میں امام مہدی چلائے گا۔
اور ایک روایت بیہقی میں ہے کہ اس کے بعد فساد پھیل جائے گا: ’’حتی یلقوا اﷲ ‘‘یہاں تک کہ قیامت آجائے گی۔(مشکوٰۃ کتاب الفتن)
حاصل یہ کہ آنحضرت ﷺ کے بعد اس امت کے لئے سوائے درجہ ولایت وخلافت وغیرہ کے نبوت کا اجرا نہیں ہوگا۔
بطرز دیگر ’’ سین ‘‘ تحقیق وقوع کے لئے ہے ۔ جیسے :’’ سیطوقون مابخلوا بہ یوم القیامۃ۰ آل عمران۱۸۱ ‘‘ یعنی جس چیز کا وہ بخل کرتے تھے وہ قیامت کے دن ضرور بالضر ور ان کے گلوں میں طوق بناکر ڈالی جائے گی۔ ثابت یہ ہوا کہ نبوت منقطع ہوچکی ہے اور اس انقطاع کے بعد ایک چیز یقینا باقی ہے اور وہ خلافت ہے۔
دیگر یہ کہ اسی حدیث میں آپ ﷺ کے بعد فورا خلافت کامنہاج نبوت پر ہونا مذکور ہے۔ اور اس سے مراد باالخصوص حضرت ابوبکر ؓ حضرت عمر ؓ حضرت عثمان ؓ حضرت علی ؓکی خلافت ہے۔ ان زمانوں میں آنحضرت ﷺ کی سنت کے مطابق عمل ہوتا رہا۔ اور یہ امر مسلم ہے کہ چاروں حضرات نبی نہ تھے۔ نہ ان میں سے کسی نے نبوت کا دعویٰ کیا ۔ پس یہ حدیث اجرائے نبوت کی دلیل نہیں ہوسکتی۔

اعتراض نمبر۴۵:اگرمیں نبی نہ ہوتاتو عمرؓہوتے‘​

کی روایت پر قادیانی استدلال کے جوابات
قادیانی:’’ لولم ابعث لبعثت یا عمر (مرقاۃ شرح مشکوٰۃ ص ۵۱۹ج ۵ وبرحاشیہ مشکوٰۃ مجتبائی باب مناقب عمر رضی اﷲ عنہ) ‘‘یعنی اگر میں مبعوث نہ ہوتا تو اے عمر تو مبعوث ہوتا۔ یا : ’’ لولم ابعث فیکم لبعث عمر فیکم۰کنوز الحقائق ص ۵۳ ‘‘ اگر میں مبعوث نہ ہوتا تو عمر ؓ تم میں مبعوث ہوجاتا۔ خلاصہ یہ ہے کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ؓ کا مطلب یہ ہے کہ اگر میں مبعوث نہ ہوتا تو تم میں عمر ؓ مبعوث ہوجاتا۔ کیونکہ حضور ﷺ مبعوث ہوئے لہذا حضرت عمر ؓ نبی نہ بن سکے۔
جواب :ملاعلی قاری نے مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں تحت حدیث : ’’ لوکان بعدی نبی لکان عمر ؓ۰ ‘‘لکھا ہے :’’ وفی بعض طرق ھذا الحدیث لولم ابعث لبعثت یا عمر۰ص ۵۲۹ج ۵ ‘‘لیکن ملا صاحب نے نہ راوی حدیث کا نام لیا ہے نہ مخرج کا پتہ دیا ہے نہ الفاظ مذکور حدیث کی کسی معتبر یا غیر معتبر کتاب میں ملتے ہیں۔ التبہ حافظ منادی نے کنوز الحقائق میں اس کے ہم معنی روایت دو طریق سے نقل کی ہے۔ ایک توا بن عدی کے حوالہ سے جس کے الفاظ یوں ہیں: ’’ لولم ابعث فیکم لبعث عمر فیکم ۰ ص ۱۵۱ ج ۲ ‘‘ دوسری فردوس دیلمی کے حوالہ سے جس کے الفاظ یوں ہیں :’’ لولم ابعث لبعث عمر ؓ۰ حوالہ مذکورہ ‘‘ ملاعلی قاری نے غالبا اسی روایت کو مرقاۃ میں باالمعنی نقل کردیا ہے۔ محدثین کے نزدیک ہر دو روایات باطل جھوٹی اور موضوع ہیں۔ ابن جوزی نے اپنی موضوعات میں ابن عدی والی روایت کو دو سندوں سے نقل کیا ہے اور چونکہ دونوں میں راوی وضاع ہیں اس لئے دونوں کو موضوع کہا ہے۔ چنانچہ سلسلہ اسناد ملاحظہ ہو۔
ابن عدی کہتے ہیں :
’’ حدثنا علی بن الحسین بن فدید حدثنا زکریا بن یحییٰ الوقاد حدثنا بشیر بن بکر عن ابی بکر بن عبداﷲ بن ابی مریم لغسالی عن ضمرۃ عن غضیف بن الحارث عن بلال بن ریاح قال قال النبی ﷺ لولم ابعث فیکم لبعث عمر ؓ۰(۲)حدثنا عمر بن الحسن بن نصر الحلبی حدثنا مصعب بن سعد ابوحیثمہ حدثنا عبداﷲ بن واقد الحرانی حدثنا حیوۃ بن شریح عن بکر بن عمرو بن مشرح بن ھاھالمن عن عقبۃ بن عامر قال قال ﷺ لولم ابعث فیکم لبعث عمر فیکم۰ ‘‘
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
ابن جوزی نے اس کے بعد فرمایا ہے :
’’ زکریا کذاب یضع وابن واقد الحرا متروک ۰ ‘‘
ذہبی نے میزان میں خود ابن عدی سے جس نے روایت مذکور اپنی کتاب کامل میں درج کی ہے نقل کیا ہے:’’ قال ابن عدی یضع الحدیث وقال صالح کان من الکذابین الکبار۰ ‘‘ یعنی پہلی سند کا روای زکریا وقار حدیثیں بناتا تھا۔ زکریا بہت بڑے جھوٹوں میں سے ہے ۔ دوسری سند کا روای ابن واقد حرافی متروک ہے ۔ جیسا کہ ابن جوزی اور جوزجانی نے کہا ہے۔ بلکہ میزان میں یعقوب بن اسماعیل کا قول ابن واقد حرافی کے بارہ میں یکذب بھی موجود ہے۔ یعنی یہ بھی جھوٹا ہے۔ چنانچہ اس نے ترمذی وغیرہ کی سند رجال اپنی جھوٹی روایت پر لگالی ہے۔
کنوز الحقائق کی دوسری حدیث بحوالہ فردوس دیلمی منقول ہے۔ اس کی سند یوں ہے :
’’ قال الدیلمی انبأنا ابی انبأ ناعبدالملک بن عبدالغفار انبأنا عبداﷲ بن عیسیٰ بن ہارون انبأ نا عیسیٰ بن مروان حدثنا الحسین بن عبدالرحمن بن حمران حدثنااسحق بن نجیع الملطی عن عطاء بن مسیرہ الخراسانی عن ابی ھریرہ ؓ عن النبی ﷺ انہ قال لولم ابعث فیکم ۔۔۔۔۔۔ الخ۰ ‘‘
یہ حدیث بھی موضوع اور باطل ہے ۔اس کی سندمیں بھی اسحق ملطی وضاع وکذاب ہے۔ ذہبی میزان میں لکھتے ہیں:’’ قال احمد ھو من اکذب الناس وقال یحییٰ معروف للکذب ووضع الحدیث۰ ‘‘یعنی اسحق بڑا جھوٹا ہے۔ جھوٹی حدیثوں کے بنانے میں مشہور ہے۔ دوسرا راوی عطاء خراسانی بھی ایسا ہی ہے۔ تہذیب میں سعید بن مسیب کا قول منقول ہے ۔ کذب عطا‘ امام بخاری نے بھی تاریخ صغیر میں سعید کا قول کذب نقل کیا ہے۔(ص ۱۵۷) یعنی عطاء جھوٹا ہے ۔ خود امام ترمذی فرماتے ہیں:’’ عامۃ احادیثہ ۰ مقلوبۃ ‘‘یعنی عطاء خراسانی کی حدیثیں الٹی پلٹی غلط ہوتی ہیں۔ امام بیہقی ؒنے اسے کثیر الغلط کہتے ہیں۔(وزیلعی) حاصل کلام یہ کہ کنوز الحقائق کی دونوں روایتیں باطل اور جھوٹی ہیں اور یہ کچھ ان دونوں روایتوں پر ہی موقوف نہیں ہے۔ بلکہ کامل ابن عدی اورفردوس دیلمی کی تمام روایات کا یہی حاصل ہے۔ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی عجالہ نافعہ میں طبقہ رابعہ کا بیان فرماتے ہوئے لکھتے ہیں :’’ آحادیثکہ نام ونشان آنہا کہ درقرون سابقہ معلوم نبود ایں احادیث ناقابل اعتماد اند۰ ‘‘پھر ان کے نقل کرنے والوں میں کتاب الکامل لابن عدی اور فردوس دیلمی کا نام بھی گنا ہے۔(ص ۸۷۷) اور بستان المحدثین میں دیلمی کی کتاب الفردوس کے تذکرہ میں لکھتے ہیں۔ در سقیم وصحیح احادیث تمیز نمیکند۔لہذا دریں کتاب وموضوعات واہیات ہم مدرج اند ۔ (ص ۶۲) یہی حال فردوس دیلمی کی اس روایت کا بھی ہے جسے مرزائیوں نے اپنی ڈائری کے ص ۵۱۸ میں کنوز الحقائق کے حوالہ سے نقل کیا ہے۔ کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:’’ ابوبکر افضل ھذہ الا مۃ الا ان یکون نبی۰ ‘‘اور اس سے امکان نبوت کی دلیل پکڑی ہے۔ حالانکہ یہ روایت باطل موضوع اور جھوٹی ہے۔ اور اس کے ثبوت کے لئے اس کے حوالہ میں فردوس ویلمی کا نام کافی ہے۔ حافظ منادی نے کنوز الحقائق میں فردوس ویلمی کے حوالہ سے ہی نقل کیا ہے :’’ ولعل فیہ کفایۃ۰ ‘‘

اعتراض نمبر۴۶: لوکان بعدی نبی لکان عمرؓ

پر اعتراضات کے جوابات
قادیانی:اگر میرے بعد نبی ہوتا تو عمر ؓ ہوتا کا جواب یہ ہے کہ یہ حدیث غریب ہے ۔ لہذا حجت نہیں۔
جواب :کیا غریب حدیث ضعیف یا غلط ہوتی ہے؟ ہرگز نہیں بلکہ صحیح ہوتی ہے۔ چنانچہ خود مرزا نے بھی اس کو ازالہ اوہام ص ۹۸ روحانی خزائن ص ۲۱۹ ج ۳ پر نقل کیا ہے۔ اگر حدیث غیر معتبر ہوتی تو مرزا صاحب اس کو ازالہ اوہام میں ہرگز درج نہ کرتے ۔ کیونکہ ان کا دعویٰ ہے کہ :
’’ لوگ آنحضرت ﷺ کی حدیثیں زید وعمر سے ڈھونڈتے ہیں اور میں بلا انتظار آپ ﷺ کے منہ سے سنتا ہوں۔‘‘(آئینہ کمالات اسلام ص ۲۵ خزائن ص ۲۵ ج ۵)
حدیث لانبی بعدی پر اعتراض کا جواب
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
قادیانی:حدیث لانبی بعدی میں لفظ بعدی بھی مغائرت اور مخالفت کے معنوں میں مستعمل ہوا ہے:’ ’ فبایی حدیث بعداﷲ وآیٰۃ یومنون۰ جاثیہ۶ ‘‘ اﷲ اور اس کی آیات کے بعد کون سی بات پر وہ ایمان لائیں گے۔ اﷲ کے بعد سے کیا مقصد ہے؟کیا اﷲ کے فوت ہوجانے کے بعد؟(معاذاﷲناقل) یااﷲ کی غیر حاضری میں؟ ظاہر ہے کہ دونوں معنی باطل ہیں۔ پس بعداﷲ کا مطلب ہوگا کہ اﷲ کے خلاف اﷲ کو چھوڑ کر ۔ پس یہی معنی لانبی بعدی کے۔ یعنی مجھ کو چھوڑ کر یا میرے خلاف رہ کر کوئی نبی نہیں ہوسکتا۔
حدیث میں ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا :’’ فاولتھا کذابین لیخرجان بعدی احدھما العنسی والآخرمسیلمہ۰بخاری کتاب المغازی وفدبنی حنفیہ۰ص۶۲۸ج۲ ‘‘یعنی آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ خواب میں ‘ میں نے سونے کے کنگن جو دیکھے اور ان کو پھونک مارکر اڑادیا تو اس کی تعبیر میں نے یہ کی کہ اس سے مراد دو کذاب ہیں جو میرے بعد نکلیں گے۔ پہلا اسود عنسی ہے او ر دوسرا مسیلمہ کذاب۔ یہاں بعد سے مراد غیر حاضری یا وفات نہیں بلکہ مخالفت ہے۔ کیونکہ مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی دونوں آنحضرت ﷺ کی زندگی ہی میں مدعی نبوت ہوکر آنحضرت ﷺ کے بالمقابل کھڑے ہوگئے تھے۔
جواب :بعد کا ترجمہ ’’ مخالفت ‘‘ خلاف عربیت ہے لغت عربی کی کسی کتاب میں بعد کے معنی مغائرت ومخالفت کے نہیں لکھے ہیں۔ نہ اہل زبان سے اس کی کوئی نظیر موجود ہے۔ حدیث لانبی بعدی کے معنی دوسری حدیثیں خود واضح کرتی ہیں۔ صحیح بخاری میں :’’ لم یبق من النبوۃ الا المبشرات۰ مشکوٰۃ ص ۳۸۶‘‘یہاں بعد کا لفظ موجود نہیں اور ہر قسم کی نبوت کی نفی ہے۔ کوئی نیا نبی نہ موافق آئے گا نہ مخالف۔ صحیح مسلم میں ہے :’’ انی آخر الانبیائ۰ ص ۴۴۶ ‘‘پس اگر کوئی نیا ہی نبی گوموافق سہی آجائے تو آ پ ﷺ کی آخریت باقی نہیں رہتی۔ ابودائود اور ترمذی میں ہے :’’ انا خاتم النبیین لانبی بعدی۰ مشکوٰۃ ص ۴۵۷ ‘‘ یہاں لانبی بعدی کے ساتھ وصف خاتم النبیین بھی مذکور ہے جو بعدہ کے معنی ’’ مخالفت ‘‘ کے لینے کی تردید کرتا ہے۔ کیونکہ نئے موافق نبی کا آنا ختم نبوت کے منافی ہے۔ مسند احمد اور ترمذی میں ہے :’’ ان الرسالۃ والنبوۃ انقطعت فلا رسول بعدی ولانبوۃ ۰ ابن کثیر ص ۸۹ ج ۸ ‘‘یہاں بعد کے معنی مخالفت کے لینے کی تردید انقطعت سے ہورہی ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ (موافق ومخالف) ہر قسم کی رسالت ونبوت بند ہوگئی ہے۔ پس میری رسالت ونبوت کے بعد نہ تو کوئی رسول ہی ہوگا اور نہ نبی۔
اب سورۃ جاثیہ کی آیت مذکور کی تحقیق سنئے۔ قرآن مجید عربی زبان میں ہے ۔ عربی زبان جاننے کے لئے بہت سے فنون جو قرآن کے خادم ہیں حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ منجملہ ان کے ایک فن کا علم معانی کا ہے۔ اس علم میں ایک باب ایجاز کا ہے۔ جس میں لفظ اصل مراد سے کم لیکن کافی ہوتا ہے۔ اس کی دوسری قسم ایجاز حذف ہے۔ جس میں کچھ محذوف ہوتا ہے۔ آیت مذکورہ اس قبیل سے ہے اور بعداﷲ میں بعد کا مضاف الیہ محذوف ہے۔ چنانچہ تفسیر معالم وخازن میں ہے :’’ ای بعد کتاب اﷲ ‘‘ اور تفسیر جلالین وبیضاوی وکشاف وسراج المنیر وابوالسعود وفتح الباری وابن جریر میں ہے :’’ ای بعد حدیث اﷲ وھو القرآن ۰ ‘‘اس کی تائید دوسری آیت سے بھی ہوتی ہے۔ سورۃ اعراف ومرسلات آیت نمبر۵۰ میں ہے :’’ فبای حدیث بعدہ یومنون۰ ‘‘ بعدہ کی ضمیر مجرد اور راجع ہے حدیث کی طرف۔ یعنی کس بات پر اس بات کے بعد ایمان لائیں گے؟۔ اسی طرح نبی ﷺ کی بعض دعائیں جو حدیثوں میں آئی ہیں ان میں بھی ایجاز حذف ہے۔ ایک دعا میں وارد ہے :’’ انت الآ خرفلیس بعدک شئی۰ (مسلم ص ۳۴۸ ج ۲) ای بعد اخریتک ۰(مرقاۃ ص ۱۰۸ ج ۳) فلا شی بعدہ ۰(مسلم ص ۲۵۰ ج ۲) ای امرہ بالفناء ۰ ‘‘اسی طرح حدیث :’’ لانبوۃ بعدی۰ مسلم ص ۲۷۵ ج ۲ ‘‘کے معنی میں لانبوۃ بعدنبوتی یعنی میری پیغمبری کے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہے۔
مرزائیوں کی دوسری دلیل (اسود عنسی اور مسیلمہ کذاب) کا جواب یہ ہے کہ یہاں بھی ایجاز محذوف ہے اور بعد کا مضاف الیہ محذوف ہے یعنی: ’’ یخرجان بعد نبوتی ۰ فتح الباری انصاری پ ۲۸ ص ۵۰۷ ‘‘ مطلب یہ ہے کہ اب جبکہ نبوت مجھے مل چکی ہے ۔ اس مل جانے کے بعد ان دونوں کا ظہور ہوگا۔ چنانچہ مسیلمہ اور اسودعنسی کا ظہور آپ ﷺ کے نبی بن چکنے کے بعد ہوا ہے نہ قبل۔ اس محذوف پر قرینہ صحیح بخاری کی دوسری حدیث ہے جس کے الفاظ یہ ہیں :’’ الکذابین الذین انا بینھما۰ بخاری ص ۶۲۸ ج ۲ ‘‘یعنی وہ دونوں جھوٹے مدعیان نبوت کہ ان دونوں کے درمیان میں موجود ہوں۔ اسی کو واضح کرنے کے لئے امام بخاری نے حدیث:’’یخرجان بعدی‘‘کے متصل ہی انا بینھما کی روایت ذکر کی ہے۔ دیکھو کتاب المغازی ‘ بخاری ص ۶۲۸ج۲
اصل بات یہ ہے کہ جب کوئی شخص اپنی بات بنانے پر تل جائے تو پھر کوئی پروا نہیں کرتا کہ بات بنتی ہے یا نہیں۔قرآن کی مخالفت ہویا حدیث کی مخالفت اور عربی زبان کی مخالفت‘ اسے کوئی حجاب نہیں ہوتا۔ مرزا صاحب اور ان کی ’’ امت ‘‘ کا یہی حال ہے۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
حاصل کلام یہ کہ کتاب وسنت ولغت عرب میں لفظ بعد بمعنی ’’مخالفت ‘‘ نہیں آیا۔ وھوالمراد
کیا حضرت علی ؓ آنحضرت ﷺ کے مخالف تھے۔ اگر نہیں اور یقینا نہیں تو پھر ان کو یہ جواب دینا کہ گو تم میرے ساتھ وہی نسبت رکھتے جو موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہارون علیہ السلام کو تھی۔ مگر میرے مخالف بن کر تم نبی نہیںہوسکتے کیا مطلب ہے؟ کیا حضرت علی ؓ نے نبوت کا عہدہ مانگا تھا جو یہ جواب دیا گیا ہے؟۔
ناظرین کرام ! غور فرمائیے حضور ﷺجنگ کو تشریف لے جارہے ہیں۔ حضرت علی ؓ کو اپنے پیچھے چھوڑتے ہیں۔ جناب علی ؓ کو اس بات کا ملال ہے کہ مجھے ساتھ کیوں نہیں لے جاتے۔ حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ اے علی ؓ میں تجھے کسی مغائرت کی خاطر نہیں چھوڑ کر جارہا بلکہ اپنے بعد اپنا جانشین کرکے جارہا ہوں۔ جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام ہارون علیہ السلام کو اپنا خلیفہ بنا گئے تھے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ہارون علیہ السلام نبی تھے تم نبی نہیں ۔ امر مقدر یوں ہی ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔
نیز صحیح مسلم غزوہ تبوک میں حضرت سعد بن ابی وقاص ؓکی وہ حدیث جس میں لانبی بعدی کے بجائے لانبوۃ بعدی کے الفاظ موجود ہیں ۔(باب فضائل علی ؓ) جس کے معنی یہ ہیں کہ میرے بعد نبوت نہیں۔ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ لانبی بعدی اور لانبوۃ بعدی کے ایک ہی معنی ہیں۔ یعنی آپ ﷺ کے بعد کسی کو نبوت نہ دی جائے گی۔

اعتراض نمبر۴۷: فیکم الخلافۃ وفیکم النبوۃ

قادیانی: حجج الکرامۃ ص ۱۹۷ پر ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت عباس ؓ کوفرمایا :’’ الخلافۃ فیکم والنبوۃ۰ ‘‘اس کے معنی یہ ہے کہ نبوت جاری ہے۔
جواب ۱:اصل یہ ایک روایت نہیں تین روایتیں ہیں جو مسند احمد ص ۲۸۳ ج ۱۲ پر موجود ہیں۔ ان کو سامنے رکھیں تو قادیانی دجل تار عنکبوت سے بھی کمزور نظر آئے گا۔ روایت نمبر ۱۶۷۳ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے حضرت عباس ؓ سے فرمایا :’’ الخلافۃ فیکم والنبوۃ۰ ‘‘ روایت نمبر ۱۶۷۴ حضرت ابوہریرہ ؓسے کہ آپ ﷺ نے حضرت عباس ؓ سے فرمایا :’’ فیکم النبوۃ والخلافۃ۰ ‘‘ روایت نمبر۱۶۷۸ حضرت ابن عباس ؓ سے کہ آپ ﷺ نے حضرت عباس ؓ سے فرمایا :’’ لی النبوۃ ولکم الخلافۃ۰ ‘‘ان تینوں روایتوں کو سامنے رکھیں تو مسئلہ حل ہوجاتا ہے۔ کہ آ پ ﷺ کے فرمان مبارک کا منشاء کیا تھا۔ نبوت وخلافت قریش میں ہے۔ میں نبی (قریشی) ہوں۔ تم (قریش) میں خلافت ہوگی۔
جواب ۲:جہاں تک حججالکرامۃ کی روایت ہے اس کے ساتھ ہیحججالکرامۃ میں ہی لکھا ہے :’ ’اخرجہ البزاز درسندش محمد عامری ضعیف است۰ ‘‘غرض یہ روایت سندا ضعیف ہے۔ قادیانی علم الکلام کا معیار دیکھئے کہ عقائد کے لئے ضعیف روایات کو سہارا بنایا جارہا ہے ۔ سچ ہے :’’ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا‘‘
جواب ۳:یہ روایت جہاں سندا ضعیف ہے وہاں درایتہ بھی غلط ہے۔اس لئے کہ آج تک بنوعباس ؓ میں کوئی نبی نہیں ہوا۔
جواب ۴:خیر سے یہ روایت صحیح بھی ہوتی تو بھی مرزا کے لئے مفید نہ تھی۔ اس لئے کہ آن دجال مرزا قادیانی تو مغل تھے۔(کتاب البریہ ص ۱۳۴ روحانی خزائن ص ۱۶۲ ج ۱۳)

اعتراض نمبر۴۸:حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور وحی​

قادیانی: یہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے تو آیا ان کو وحی ہوگی یا نہ۔ اگر وحی ہوگی تو ثابت ہوا کہ حضور ﷺ کے بعد وحی ہوسکتی ہے۔ پس مسلمانوں کا انقطاع وحی کا عقیدہ غلط ہوا۔
جواب۱ : انقطاع وحی سے مراد انقطاع وحی نبوت ہے۔ باقی رہا کشف والہام رویاء تو وہ امت میں جاری ہیں۔ اور خود قرآن گواہ ہے کہ وحی نبوت کے علاوہ اور بھی ہدایت کا راستہ دکھانے یا کسی مخفی امر پر مطلع کرنے کے لئے اور راستے ہیں۔ جیسے فرمایا گیا :’’ واوحینا الیٰ ام موسیٰ یا واو حیٰ ربک الی النحل۰ ‘‘شہد کی مکھی یا ام موسیٰ علیہ السلام کو جو رہنمائی
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
ہوئی قرآن نے اسے وحی سے تعبیر کیا۔ حالانکہ یہ وحی ہونے کے باوجودوحی نبوت نہیں ہے۔ پس عیسیٰ علیہ السلام کو جو وحی ہوگی وہ وحی نبوت نہ ہوگی ۔ لہذا ان کی طرف وحی کا ہونا امت کے عقیدہ انقطاع وحی نبوت کے منافی نہ ہوگا۔
جواب ۲: وحی شریعت گو لازم نبوت ہے۔ مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ ہر وقت اور ہر آن اس پر وحی شریعت نازل ہوتی ہے۔ اگر نازل نہ ہوتو وہ نبوت سے بھی علیحدہ ہوجائیں۔ ورنہ نبی پر جب وحی نازل ہو تو وہ نبی ہو اور جب وحی نہ ہو تو نبوت سے معزول ۔ گویا بحالی اور معزولی کا سلسلہ برابر قائم رہے گا۔ ایجاد بندہ سے تو حضور ﷺ بھی (معاذاﷲ) کبھی عہدہ نبوت پر بحال اور کبھی اس سے معزول ہوتے ہوں گے؟۔ کیونکہ کتنی مدت تک جیسے واقعہ افک میں ایک ماہ برابر اور ابتداء میں تین سال وحی کا آنا موقوف رہا۔ تو کیا حضور ﷺ بھی نبوت کے عہدہ سے معزول ہوجاتے ہوں گے؟۔(معاذ اﷲ) بے شک عیسیٰ علیہ السلام تشریف لائیں گے تو وحی نبوت نہ لائیں گے۔ کیونکہ بحکم خدا وندی :’’الیوم اکملت لکم دینکم۰‘‘ دین کامل ہے اور وحی نبوت کی حاجت نہیں۔بلا ضرورت کام کرنا شان خدا وندی کے خلاف ہے۔ اس لئے نبی ہونے کے باوجود ان کو وحی نبوت نہ ہوگی۔

اعتراض نمبر۴۹:عیسیٰ علیہ السلام کی آمد​

ختم نبوت کے منافی؟
قادیانی: عیسیٰ علیہ السلام جب دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے تو اس سے ختم نبوت کی مہر ٹوٹ جائے گی ۔ ان کی تشریف آوری ختم نبوت کے منافی ہے۔ حضور ﷺ نے مسلم شریف کی روایت کے مطابق تین دفعہ فرمایا کہ عیسیٰ نبی اﷲ تشریف لائیں گے۔ تو حضو ر ﷺ کی ختم نبوت کے بعد نبی اﷲ کا تشریف لانا یہ ختم نبوت کے منافی ہے۔
جواب ۱:عیسیٰ علیہ السلام کی دوبارہ تشریف آوری اور مرزا قادیانی کے دعویٰ نبوت میںزمین آسمان کا فرق ہے۔ اور ان دونوں باتوں کو باہمی خلط ملط کرنا انصاف کا خون کرنا ہے۔ خاتم النبیین کا تقاضا مفہوم ومعنی یہ ہے کہ رحمت دو عالم ﷺ کے بعد کوئی شخص نبی یا رسول نہیں بنایا جائے گا۔ نبوت ورسالت کسی کو نہیں ملے گی۔ بخلاف عیسیٰ علیہ السلام کے‘ کہ وہ حضور ﷺ سے پہلے کے نبی اور رسول ہیں۔ ان کو آپ ﷺ سے پہلے نبوت اور رسالت مل چکی ہے۔ اس لئے ان کی تشریف آوری ختم نبوت کے منافی نہیں۔ کشاف‘ تفسیرابی سعود ‘ روح المعانی ‘ مدارک شرح مواہب‘ لرزقانی میں ہے :’’ معنی کونہ آخر الانبیاء ای لاینباء احد بعدہ وعیسیٰ ممن نبی قبلہ۰ ‘‘یعنی آخر الانبیاء ہونے کے معنی یہ ہیں کہ حضور ﷺ کے بعد کوئی شخص نبی نہ بنایا جائے گا۔ جبکہ عیسیٰ علیہ السلام ان نبیوں میں سے ہیں جن کو منصب نبوت آنحضرت ﷺ سے پہلے عطا کیا جاچکا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کوئی شخص نئے سرے سے منصب نبوت پر فائز نہیں ہوسکتا۔
اب مرزا قادیانی کے کیس پر غور کریں کہ اس نے چودھویںصدی میں نبوت کا دعویٰ کیا تو اس کا دعویٰ نبوت رحمت دو عالم ﷺ کے خاتم النبیین ہونے کے بعد ہے۔ لہذا یہ نہ صرف غلط بلکہ ختم نبوت کے منافی ہے۔ مرزا قادیانی کا دعویٰ نبوت کرنا آنحضرت ﷺ کے ارشاد کے مطابق کہ جو شخص میرے بعد دعویٰ نبوت کرے گا دجال کذاب ہوگا۔(ترمذی ‘ ابودائود ‘ مشکوٰۃ ‘ کتاب الفتن) یہ دعویٰ دجل وکذب پر مبنی ہے یہ ہر دو علیحدہ علیحدہ امر ہیں ان کو باہمی خلط ملط نہیں کیا جاسکتا۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کسی کو نبی یا رسول متعین کرکے معبوث نہ کیا جائے گا۔ اور کوئی بھی فرد آکر حسب سابق یہ نہیں کہے گا کہ :’’ انی رسول من رب العالمین۰ ‘‘ یا خدااسے کہے :’’ انا ارسلنا۰ ‘‘چنانچہ جب مسیح آئیں گے تو آکر کوئی دعویٰ یا اعلان نہیں کریں گے۔ بلکہ جب آپ نازل ہوں گے تو آپ کو پہچان لیا جائے گا۔ نہ کوئی اعلان واظہار‘ نہ کوئی دعویٰ وبیان‘ نہ مباحثہ‘ نہ کوئی دلیل وحجت کچھ نہیں ہوگا۔ بخلاف قادیانی کے یہاں سب کچھ ہوا۔مرزا نے کہا مجھے وحی ہوئی مجھے اﷲ تعالیٰ نے کہا کہ :’’ انا ارسلنا احمد الی قومہ۰ تذکرہ ص۳۴۵ ‘‘ تو یہ سراسر دجل کذب اور ختم نبوت کے منافی ہے۔
جواب ۲:مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنے آپ کو والدین کے لئے خاتم الاولاد کہا ہے۔( تریاق القلوب ص ۱۵۷ خزائن ص ۴۷۹ ج ۱۵) مرزا نے جب اپنے آپ کو خاتم الاولاد کہا۔اس وقت مرزا قادیانی کا بڑا بھائی مرزا غلام قادر زندہ تھا۔ پہلے
 
Top