• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قادیانی شبہات کے جوابات (کامل )

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
’’قال المفسرون ھم الا عاجم یعنون بہ غیر العرب ای طائفہ کانت قالہ ابن عباس وجماعۃ وقال مقاتل یعنی التابعین من ھذہ الامۃ الذین یلحقون باوائلھم وفی الجملۃ معنی جمیع الا قوال فیہ کل من دخل فی الا سلام بعد النبی ﷺالی یوم القیامۃ فالمراد باالا میین العرب وباالآخرین سواھم من الامم۰ تفسیر کبیر ص ۴ جز۳ (مصر)‘‘ {حضرت ابن عباس ؓ اور ایک جماعت مفسرین کہتے ہیں کہ آخرین سے مراد عجمی ہیں۔ (یعنی آپ ﷺ عرب وعجم کے لئے معلم ومربی ہیں) اور مقاتل کہتے ہیں کہ تابعین مراد ہیں۔ سب اقوال کا حاصل یہ ہے کہ امیین سے عرب مراد ہیں۔ اور آخرین سے سوائے عرب کے سب قومیں جو حضور ﷺ کے بعد قیامت تک اسلام میں داخل ہوں گے وہ سب مراد ہیں۔}
’’ وھم الذین جاؤا بعد الصحابۃ الیٰ یوم الدین ۰تفسیر ابومسعود ‘‘ {آخرین سے مراد وہ لوگ ہیں جو صحابہ ؓ کے بعد قیامت تک آئیں گے۔ (ان سب کے لئے حضور ﷺ ہی نبی ہیں۔)}
’’ ھم الذین یأتون من بعدھم الیٰ یوم القیامۃ ۰ کشاف ص ۱۸۵ج۳‘‘
جواب۷:بخاری شریف ص ۷۲۷ج ۲ مسلم شریف ص ۳۱۲ ج۲ ترمذی شریف ص ۲۳۲ج ۲ مشکوٰۃ شریف ص۵۷۶ پر ہے:
’’عن ابی ھریرۃ ؓقال کنا جلو ساعندالنبی فانزلت علیہ سورۃ الجمعۃ وآخرین منھم لما یلحقوا بھم قال قلت من ھم یا رسول اﷲ فلم یراجعہ حتیٰ سال ثلثا وفینا سلمان الفارسی وضع رسول اﷲ ﷺ یدہ علی سلمان ثم قال لوکان الا یمان عندالثریا لنالہ رجال او رجل من ھو لائ‘‘ {حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں ہم نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر باش تھے کہ آپ ﷺ پر سورۃ جمعہ نازل ہوئی۔ وآخرین منھم لما یلحقوا بھم تو میں نے عرض کی یا رسول اﷲ ﷺ وہ کون ہیں ۔ آپ ﷺ نے خاموشی فرمائی۔ حتی کہ تیسری بار سوال عرض کرنے پر آپ ﷺ نے ہم میں بیٹھے ہوئے سلمان فارسی ؓپرہاتھ رکھ دیااور فرمایا اگر ایمان ثریا پر چلا گیا تو یہ لوگ (اہل فارس) اس کو پالیں گے۔ (رجال یارجل کے لفظ میں راوی کو شک ہے مگر اگلی روایت میں رجال کو متعین کردیا)}
یعنی عجم یا فارس کی ایک جماعت کثیرہ جو ایمان کو تقویت دے گی اور امور ایمانیہ میں اعلیٰ مرتبہ پر ہوگی۔ عجم وفارس میں بڑے بڑے محدثین ‘ علمائ‘ مشائخ‘ فقہائ‘ مفسرین مقتدائ‘ مجددین وصوفیا‘ اسلام کے لئے باعث تقویت بنے۔ آخرین منھم لما یلحقوا بھم سے وہ مراد ہیں ۔ابن عباس ؓ وابوہریرہ ؓ سے لے کر ابو حنیفہ ؒ تک سبھی اسی رسول ہاشمی ﷺ کے در اقدس کے دریوزہ گرہیں۔ حاضر وغائب‘ امیین وآخرین سب ہی کے لئے آپ ﷺ کا در اقدس ﷺ وا ہے آئے جس کا جی چاہے۔ اس حدیث نے متعین کردیا کہ آپ ﷺ کی نبوت عامہ وتامہ وکافہ ہے۔ موجود وغائب عرب وعجم سب ہی کے لئے آپ ﷺ معلم ومز کی ہیں۔ اب فرمائیے کہ آپ ﷺ کی بعثت عامہ کا ذکر مبارک ہے یا کسی اور نئے نبی کے آنے کی بشارت؟۔ ایسا خیال کرنا باطل وبے دلیل دعویٰ ہے۔

اعتراض نمبر۱۴: واذاخذاﷲ میثاق النبیین

قادیانی: کبھی کبھی آیت : ’’واذ اخذاﷲ میثاق النبیین لما آتیتکم من کتاب وحکمۃ ثم جاء کم رسول مصدق لما معکم لتؤمنن بہ ولتنصربہ ۰ آل عمران۸۰‘‘ اور آیت : ’’ واذ اخذنا من النبیین میثاقھم ومنک ومن نوح الآیہ۰احزاب۷‘‘ سے بھی استدلال کیا کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ سب انبیاء سے حتی کہ آنحضرت ﷺ سے بھی ایک رسول کے آنے کا واقعہ پیش کرکے اس کی تصدیق کرنے کا اور اس رسول کو ماننے کاوعدہ لیا جارہا ہے۔ وہ رسول کون ہوگا جو سب انبیاء اور آنحضرت ﷺ کے بعد آنے والا ہے۔ وہ مرزا غلام احمد قادیانی ہی ہے۔ نعوذباﷲ
جواب۱:ہر دو آیات میں جس چیز کا خدا تعالیٰ انبیاء سے وعدہ لے رہے ہیں وہ الگ الگ چیزیں ہیں۔ پہلی آیت لیں تو ایک بہت عظیم الشان نبی کی تصدیق کا وعدہ لیا جارہا ہے جو آیت بتلارہی ہے کہ وہ نبی اعلیٰ منصب رکھتا ہوگا۔ جس کے لئے اﷲ تعالیٰ انبیاء کرام سے تاکیدی طور پر اس پر ایمان لانے کا وعدہ لے رہے ہیں۔اور جس کی امداد کے لئے سخت تاکید فرمائی جارہی ہے ۔وہ تو آنحضرت ﷺ ہی ہوسکتے ہیں۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
’’قال المفسرون ھم الا عاجم یعنون بہ غیر العرب ای طائفہ کانت قالہ ابن عباس وجماعۃ وقال مقاتل یعنی التابعین من ھذہ الامۃ الذین یلحقون باوائلھم وفی الجملۃ معنی جمیع الا قوال فیہ کل من دخل فی الا سلام بعد النبی ﷺالی یوم القیامۃ فالمراد باالا میین العرب وباالآخرین سواھم من الامم۰ تفسیر کبیر ص ۴ جز۳ (مصر)‘‘ {حضرت ابن عباس ؓ اور ایک جماعت مفسرین کہتے ہیں کہ آخرین سے مراد عجمی ہیں۔ (یعنی آپ ﷺ عرب وعجم کے لئے معلم ومربی ہیں) اور مقاتل کہتے ہیں کہ تابعین مراد ہیں۔ سب اقوال کا حاصل یہ ہے کہ امیین سے عرب مراد ہیں۔ اور آخرین سے سوائے عرب کے سب قومیں جو حضور ﷺ کے بعد قیامت تک اسلام میں داخل ہوں گے وہ سب مراد ہیں۔}
’’ وھم الذین جاؤا بعد الصحابۃ الیٰ یوم الدین ۰تفسیر ابومسعود ‘‘ {آخرین سے مراد وہ لوگ ہیں جو صحابہ ؓ کے بعد قیامت تک آئیں گے۔ (ان سب کے لئے حضور ﷺ ہی نبی ہیں۔)}
’’ ھم الذین یأتون من بعدھم الیٰ یوم القیامۃ ۰ کشاف ص ۱۸۵ج۳‘‘
جواب۷:بخاری شریف ص ۷۲۷ج ۲ مسلم شریف ص ۳۱۲ ج۲ ترمذی شریف ص ۲۳۲ج ۲ مشکوٰۃ شریف ص۵۷۶ پر ہے:
’’عن ابی ھریرۃ ؓقال کنا جلو ساعندالنبی فانزلت علیہ سورۃ الجمعۃ وآخرین منھم لما یلحقوا بھم قال قلت من ھم یا رسول اﷲ فلم یراجعہ حتیٰ سال ثلثا وفینا سلمان الفارسی وضع رسول اﷲ ﷺ یدہ علی سلمان ثم قال لوکان الا یمان عندالثریا لنالہ رجال او رجل من ھو لائ‘‘ {حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں ہم نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر باش تھے کہ آپ ﷺ پر سورۃ جمعہ نازل ہوئی۔ وآخرین منھم لما یلحقوا بھم تو میں نے عرض کی یا رسول اﷲ ﷺ وہ کون ہیں ۔ آپ ﷺ نے خاموشی فرمائی۔ حتی کہ تیسری بار سوال عرض کرنے پر آپ ﷺ نے ہم میں بیٹھے ہوئے سلمان فارسی ؓپرہاتھ رکھ دیااور فرمایا اگر ایمان ثریا پر چلا گیا تو یہ لوگ (اہل فارس) اس کو پالیں گے۔ (رجال یارجل کے لفظ میں راوی کو شک ہے مگر اگلی روایت میں رجال کو متعین کردیا)}
یعنی عجم یا فارس کی ایک جماعت کثیرہ جو ایمان کو تقویت دے گی اور امور ایمانیہ میں اعلیٰ مرتبہ پر ہوگی۔ عجم وفارس میں بڑے بڑے محدثین ‘ علمائ‘ مشائخ‘ فقہائ‘ مفسرین مقتدائ‘ مجددین وصوفیا‘ اسلام کے لئے باعث تقویت بنے۔ آخرین منھم لما یلحقوا بھم سے وہ مراد ہیں ۔ابن عباس ؓ وابوہریرہ ؓ سے لے کر ابو حنیفہ ؒ تک سبھی اسی رسول ہاشمی ﷺ کے در اقدس کے دریوزہ گرہیں۔ حاضر وغائب‘ امیین وآخرین سب ہی کے لئے آپ ﷺ کا در اقدس ﷺ وا ہے آئے جس کا جی چاہے۔ اس حدیث نے متعین کردیا کہ آپ ﷺ کی نبوت عامہ وتامہ وکافہ ہے۔ موجود وغائب عرب وعجم سب ہی کے لئے آپ ﷺ معلم ومز کی ہیں۔ اب فرمائیے کہ آپ ﷺ کی بعثت عامہ کا ذکر مبارک ہے یا کسی اور نئے نبی کے آنے کی بشارت؟۔ ایسا خیال کرنا باطل وبے دلیل دعویٰ ہے۔

اعتراض نمبر۱۴: واذاخذاﷲ میثاق النبیین

قادیانی: کبھی کبھی آیت : ’’واذ اخذاﷲ میثاق النبیین لما آتیتکم من کتاب وحکمۃ ثم جاء کم رسول مصدق لما معکم لتؤمنن بہ ولتنصربہ ۰ آل عمران۸۰‘‘ اور آیت : ’’ واذ اخذنا من النبیین میثاقھم ومنک ومن نوح الآیہ۰احزاب۷‘‘ سے بھی استدلال کیا کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ سب انبیاء سے حتی کہ آنحضرت ﷺ سے بھی ایک رسول کے آنے کا واقعہ پیش کرکے اس کی تصدیق کرنے کا اور اس رسول کو ماننے کاوعدہ لیا جارہا ہے۔ وہ رسول کون ہوگا جو سب انبیاء اور آنحضرت ﷺ کے بعد آنے والا ہے۔ وہ مرزا غلام احمد قادیانی ہی ہے۔ نعوذباﷲ
جواب۱:ہر دو آیات میں جس چیز کا خدا تعالیٰ انبیاء سے وعدہ لے رہے ہیں وہ الگ الگ چیزیں ہیں۔ پہلی آیت لیں تو ایک بہت عظیم الشان نبی کی تصدیق کا وعدہ لیا جارہا ہے جو آیت بتلارہی ہے کہ وہ نبی اعلیٰ منصب رکھتا ہوگا۔ جس کے لئے اﷲ تعالیٰ انبیاء کرام سے تاکیدی طور پر اس پر ایمان لانے کا وعدہ لے رہے ہیں۔اور جس کی امداد کے لئے سخت تاکید فرمائی جارہی ہے ۔وہ تو آنحضرت ﷺ ہی ہوسکتے ہیں۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
مرزا قادیانی جیسے دجال کو اس میثاق ووعدہ کا مصداق ٹھہرانا جس قدر بعیداز عقل ونقل ہے اس قدر دنیا میں اور کوئی ظلم ہی نہیں ہوسکتا۔ پھر خود مرزا قادیانی بھی اس :’’ ثم جاء کم رسول‘‘ سے مراد آنحضرت ﷺ کو سمجھتا ہے۔ ملاحظہ ہو:
’’ اور یاد کر جب خدا نے تمام رسولوں سے عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب وحکمت دوں گا اور پھر تمہارے پا س آخری زمانہ میںمیرا رسول آئے گا۔ جو تمہاری کتابوں کی تصدیق کرے گا۔ تمہیں اس پر ایمان لانا ہوگا۔ اور اس کی مدد کرنی ہوگی۔۔۔۔۔ اب ظاہر ہے کہ انبیاء تو اپنے اپنے وقت پر فوت ہوچکے ہیں۔ یہ حکم ہر نبی کی امت کے لئے ہے۔ کہ جب وہ رسول ظاہر ہو تو اس پر ایمان لائو۔ (حقیقت الوحی ص ۱۳۰‘۱۳۱ خزائن ص ۱۳۳‘۱۳۴ ج ۲۲)
جب مرزا قادیانی نے اس کا مصداق رحمت دو عالم ﷺ کی ذات اقدس کو قرار دیا اور مرزئیوں کی لن ترانی کو مرزا نے درخور اعتنا نہیں سمجھا تو پھر ہم مرزائیوں کو کیوں گھاس ڈالیں؟۔
دوسری آیت میں تبلیغ واشاعت احکامات الہیہ پر وعدہ لئے جانے کا تذکرہ ہے۔
جواب۲: ’’ثم جاء کم ‘‘ کے الفاط غور طلب ہیں۔ ان میں نبی کریم ﷺ کا تمام انبیاء کرام کے بعد تشریف لانے کو لفظ ( ثم )کے ساتھ اداکیا گیا ہے۔ جو لغت عرب میں تراخی کے لئے آتا ہے۔جب کہا جاتا ہے کہ :’’ جاء نی القوم ثم عمر‘‘تو لغت عرب میں اس کا یہی مفہوم ومعنی سمجھا جاتا ہے کہ پہلے تمام قوم آگئی پھر کچھ تراخی (مہلت) کے بعد سب کے آخر میں عمر آیا۔ لہذا :’’ ثم جاء کم رسول ‘‘کے معنی یہ ہوں گے کہ تمام انبیاء کے آنے کے بعد سب سے آخر میں آنحضرت ﷺ تشریف لائے۔یہ تو ختم نبوت کی دلیل ہوئی اور قادیانیت کے لئے نشترجان۔
جواب۳: تمام مفسرین کرام اورامت نے : ’’ ثم جاء کم رسول‘‘ سے مراد رحمت دو عالم ﷺ کی تشریف آوری کو اس کا مصداق قرار دیا ہے۔ تفسیر ابن کثیر ص ۱۷۷ ‘ تفسیر جامع البیان ص ۵۵ سے سیدنا علی المرتضی ؓ اور سیدنا ابن عباس ؓ کے حوالہ سے اس کی تفسیر یہ منقول ہے:
’’مابعث اﷲ نبیا من الانبیاء الا اخذ علیہ المیثاق لئن بعث اﷲ محمدا وھوحیی لیؤمنن بہ ولینصرن وآصرہ ان یاخذالمیثاق علی امۃ لئن بعث محمد وھم احیاء لیومنن بہ ولینصرنہ ۰‘‘ {اﷲ رب العزت نے جس نبی کو بھی مبعوث فرمایا اس سے یہ عہد لیا کہ اگر تمہاری زندگی میں اﷲ نے نبی کریم ﷺ کو مبعوث کیا تو ان پر ضرور ایمان لائیں اور ان کی مدد کریں۔ اس طرح اﷲ تعالیٰ نے ہر اس نبی کو (جسے مبعوث کیا) حکم دیا کہ آپ اپنی امت سے پختہ عہدلیں کہ اگر اس امت کے ہوتے وہ نبی(آخرالزماں)تشریف لائیں تو وہ امت ضرور ان پر ایمان لائے اور اس کی نصرت کرے۔}
رسول کا لفظ نکرہ تھا مگر حضرت علی ؓ وابن عباس ؓ نے اس کی تخصیص کرکے اس سے انکار کی گنجائش باقی نہ چھوری۔
جواب۴:’’ ربنا وابعث فیھم رسولا۰ ھوالذی بعث فی الامیین رسولا۰ لقد جاء کم رسول من انفسکم۰ قد انزلنا الیکم ذکرا رسولا۰ ‘‘ان آیات میں بھی رسول نکرہ ہے۔ اگر ان کی تخصیص کرکے ان کا مصداق محمد عربی ﷺ کو لیا جاتا ہے تو :’’ جاء کم رسول ‘‘ میں کیوں نہیں لیا جاتا؟۔

اعتراض نمبر۱۵: وباالآخرۃ ھم یوقنون

قادیانی: اجرائے نبوت کی دلیل میں یہ آیت پیش کرتے ہیں کہ : ’’وباالآخرۃ ھم یوقنون۰ بقرہ ۴‘‘ یعنی وہ پچھلی وحی پر ایمان لاتے ہیں۔
جواب۱:اس جگہ آخرت سے مراد قیامت ہے۔ جیسا کہ دوسری جگہ صراحۃ فرمایا گیا : ’’ وان الدار الآخرۃ لھیی الحیوان۰‘‘ آخری زندگی ہی اصل زندگی ہے: ’’ خسرالدنیا والآخرۃ۰حج‘‘ دنیا وآخرت میں خائب وخاسر : ’’ الآخرۃ اکبر لوکانوا یعلمون۰‘‘ الحاصل قرآن مجید میں لفظ آخرۃ پچاس سے زائد مرتبہ استعمال ہوا ہے اور ہر جگہ مراد جزا اور سزا کا دن ہے۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
حضرت ابن عباس ؓ سے تفسیر ابن جریر ص ۸۱ ج اول ‘ درمنشور کی ج اول ص ۲۷ پر ہے : ’’ عن ابن عباس ؓ (وبالآخرۃ) ای باالبعث والقیامۃ والجنۃ والنار والحساب والمیزان۰‘‘
جواب۲:تفسیرمرزا قادیانی
’’ طالب نجات وہ ہے جو خاتم النبیین پیغمبر آخر الزماں پر جو کچھ اتار ا گیا ہے ایمان لائے۔۔۔۔ : ’’ وبالآخرۃ ھم یوقنون۰‘‘ اور طالب نجات وہ ہے جو پچھلی آنے والی گھڑی یعنی قیامت پر یقین رکھے اور جزا اور سزا مانتا ہو۔ ( الحکم نمبر۳۴‘۳۵‘ ج ۸ ‘ ۱۰ اکتوبر ۱۹۰۴ء ‘ دیکھو خزینۃ العرفان ص ۷۸ ج ۱ مصنفہ مرزا قادیانی)
اسی طرح دیکھو الحکم نمبر۲ ج۱۰‘ ۱۷ جنوری ۱۹۰۶ء ص ۵کالم نمبر۲‘۳
اس میں مرزا قادیانی نے : ’’ بالآ خرۃ ھم یوقنون۰‘‘ کا ترجمہ :’’ اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔‘‘ کیا ہے ۔ اور پھر لکھتا ہے :’’ قیامت پر یقین رکھتا ہوں۔‘‘
تفسیر از حکیم نورالدین خلیفہ قادیان
اور آخرت کی گھڑی پر یقین کرتے ہیں۔ (ضمیمہ بدر مورخہ ۴فروری ۱۹۰۹ئ)
لہذا مرزائیوں کا : ’’وبالآخرۃ ھم یوقنون۰‘‘ کا معنی آخری وحی کرنا تحریف وزندقہ ہے۔
جواب۳ :قادیانی علم ومعرفت سے معراء ہوتے ہیں۔ کیونکہ خود مرزا قادیانی بھی محض جاہل تھا۔ اسے بھی تذکیرو تانیث واحد وجمع کی کوئی تمیز نہ تھی۔ ایسے ہی یہاں بھی ہے۔کہ الآخرۃ تو صیغہ مونث ہے۔ جبکہ لفظ وحی مذکر ہے۔اس کی صفت مونث کیسے ہوگی؟ ۔ دیکھئے قرآن مجید میں ہے : ’’ ان الدار الآخرۃ لحیی الحیوان ۰‘‘ دیکھئے دار الاخرۃ مونث واقع ہوئی ہے۔ لھییکی مونث ضمیرآئی ہے۔ اور لفظ وحی کے لئے ‘وحی‘ یوحی مذکر کا صیغہ مستعمل ہے۔ تو پھر کوئی سر پھرا الآخرۃ کو آخری وحی قرار دے سکتا ہے؟۔ اسی طرح دوسرے کئی مقامات پر الآخرۃ کا لفظ قیامت کے لئے آیا ہے۔ دیکھئے یہاں صرف قیامت ہی کا تذکرہ ہے۔ جس کے لئے وہی ترکیب لائی گئی ہے۔ قادیانی عقل ودانش اور علم وتمیز سے باالکل معراء ہوتے ہیں۔ وہ اغراض فاسدہ کے حصول کے لئے اندھے بہرے ہوکر ہر قسم کی تحریف وتاویل اور جہالت وحماقت کا ارتکاب کرگزرتے ہیں۔

اعترض نمبر۱۶: وجعلنافی ذریتہ النبوۃ

قادیانی : وجعلنا فی ذریتہ النبوۃ والکتاب۰ عنکبوت ۱۷‘‘ یعنی ہم نے اس ابراھیم علیہ السلام کی اولاد میں نبوت اورکتاب رکھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ جب تک ابراھیم کی اولاد ہے اس وقت تک نبوت ہے۔
جواب۱ :اگر اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ نبوت جاری ہے تو کتاب کا نزول بھی جاری ہی معلوم ہوتا ہے۔ حالانکہ یہ بات قادیانیوں کے نزدیک باطل ہے جو دلیل کتاب کے جاری ہونے سے مانع ہے وہی اجرائے نبوت سے مانع ہے۔
جواب۲:قرآن مجید میں دوسرے مقام پر سیدنا نوح علیہ السلام اور سیدنا ابراھیم علیہ السلام دونوں کے متعلق ہے :’’ وجعلنا فی ذریتھما النبوۃ ۰‘‘تو کیا سیدنا نوح علیہ السلام کی اولاد میں اب بھی قادیانی نبوت کو جاری مانیں گے۔حالانکہ وہ اس کے قائل نہیں۔
جواب۳ :وجعلنا کا فاعل باری تعالیٰ ہیں۔ تو گویا نبوت وہبی ہوئی۔ حالانکہ قادیانی وہبی کی بجائے اب کسبی یعنی اطاعت والی کو جاری مانتے ہیں۔ تو گویا کئی لحاظ سے یہ قادیانی اعتراض خود قادیانی عقائد ومستدلات کے خلاف ہے۔

اعتراض نمبر۱۷: ظھرالفسادفی البروالبحر

قادیانی : ظھر الفساد فی البروالبحر بما کسبت ایدی الناس ۰ روم ۴۱‘‘ اس تحریف میں متعدد آیات پیش کرتے ہیں۔ خلاصہ جن کایہ ہے کہ جب دنیا میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے تو اﷲ تعالیٰ رسول بھیجتا ہے۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
جواب۱ :پہلی شریعتیں وقتی اور خاص خاص قوموں کے لئے تھیں۔ چنانچہ حالات کے موافق احکامات نازل ہوتے رہے۔ مگر اسلام کامل واکمل ہے۔ محمد ﷺ کی بعثت سے دین کمال کو پہنچ گیا۔ قرآن نے ہدایت ورشد کے تمام پہلوئوں کو کمال بسط اور تمام تفصیلات کے ساتھ دنیا میں روشن کردیا۔ اب کسی نئے نبی یا نئی شریعت کی ضرورت نہیں ہے۔ باقی رہا اصلاح وتبلیغ کا کام تو یہ کام صالحین امت اور علماء دین کے سپرد ہے : ’’ ولتکن منکم امۃ یدعون الی الخیر یأمرون باالمعروف وینھون عن المنکر ۰القرآن‘‘ اور العلماء ورثتہ الانبیاء ‘ الحدیث۔
جواب۲:خود مرزا نے بھی لکھا ہے کہ :
’’ اگر کوئی کہے کہ فساد اور بدعقیدگی اور بداعمالیوں میں یہ زمانہ بھی تو کم نہیں۔ پھر اس میں کوئی نبی کیوں نہیں آیاتو جواب یہ ہے کہ وہ زمانہ تو حید اور راست روی سے بالکل خالی ہوگیا تھا۔ اور اس زمانہ میں چالیس کروڑ لاالہ الااﷲ کہنے والے موجود ہیں۔ اور اس زمانہ کو بھی خدا تعالیٰ نے مجدد کے بھیجنے سے محروم نہیں رکھا۔‘‘ (نور الحق نمبر۱ ص ۱۰ روحانی خزائن ص ۳۳۹ج۹)
الحاصل مرزا قادیانی کے زیر نظر یہی آیت ہے مگر پھر بھی مرزاقادیانی اسی آیت کے ماتحت نبوت کی عدم ضرورت کو بیان کررہا ہے۔ اور ختم نبوت کا قائل ہے۔ مرزائیہ قادیانیہ طائفہ اس سے نفی ختم نبوت کرنا چاہتا ہے۔ مگر ان کا پیرومرشد ختم نبوت کو ثابت کررہا ہے۔ قادیانی بتائیں کہ سچا کون اور جھوٹا کون؟۔

اعتراض نمبر۱۸: وماکنامعذبین

قادیانی : ’’ وماکنا معذبین حتیٰ نبعث رسولا۰ بنی اسرائیل ۱۵‘‘ جب تک کوئی رسول نہ بھیجیں ہم عذاب نازل نہیں کرتے۔ یعنی بموجب قرآن‘ نزول آفات سماوی وارضی سے پہلے حجت پوری کرنے کے لئے رسول کا آنا ضروری ہے۔ موجودہ عذابات اس ضرورت پر گواہ ہیں۔
جواب۱ :آیت کا مفہوم تو صرف اس قدر ہے کہ اﷲ تعالیٰ کسی قوم کو بے خبری ولاعلمی میں ہلاک نہیں کرتے۔ اﷲ تعالیٰ کے رسول آکر حجت پوری کرتے ہیں تاکہ وہ گمراہی کو چھوڑ کر ہدایت کا راستہ اختیار کریں۔ مگر منکرین مخالفت کرتے ہیں جس کی وجہ سے عذاب نازل ہوتا ہے۔ چونکہ آنحضرت ﷺ تمام جہاں اور سب وقتوں اور سب امتوں کے لئے ایک ہی نبی ہیں۔ اس لئے یہ تمام عذابات اسی رسالت کاملہ کی مخالفت کا باعث ہے۔ نیز جو عذابات مرزا قادیانی کے دعویٰ نبوت کرنے سے پہلے دنیا میں آئے وہ کس نبی کے انکار کی وجہ سے آئے؟ اگر وہ آنحضرت ﷺ کی مخالفت کی وجہ سے آئے تو اس زمانہ کے عذابات کو کیوں نہ آپ ﷺ ہی کی مخالفت کا نتیجہ قرار دیا جائے؟۔ کیا اﷲ تعالیٰ نے کوئی حدمقرر کی ہے؟۔ کہ تیرہ سو سال تک تو جو عذاب آئے گا وہ رسول اﷲ ﷺ کے انکار کی وجہ سے آئے گا۔ پھر بعد میں کسی اور رسول کے انکار کی وجہ سے ہوگا۔ اور اگر موجودہ عذابات مرزا قادیانی کے انکار کی وجہ سے آرہے ہیں تو اس کی کوئی حد مقرر ہونی چاہئیے کہ ان کی وجہ سے کتنے عرصہ تک عذاب آئے گا۔ ثابت ہوا کہ عذابات آنحضرت ﷺ کی مخالفت کی وجہ سے ہیں۔ مذکورہ بالا آیت کسی نئے نبی کو نہیں چاہتی کیونکہ آنحضرت ﷺ کافۃ للناس کے لئے نبی ہیں۔ اور آپ ﷺ کے آنے سے حجت پوری ہوگئی ہے۔
جواب۲ :اسی آیت کو مرزا قادیانی اپنے زیر نظر رکھتے ہوئے ختم نبوت کا قائل ہورہا ہے۔ ’’ وہ کہتا ہے کہ اب صرف خلیفے آئیں گے۔‘‘(ملاحظہ ہو شہادۃ القرآن ص ۳۵۲ خزائن ص ۳۲ ج ۶)
جواب۳ :نیز عموما دنیا میں مصائب تو آتے ہی رہتے ہیں۔ تو کیا ہر وقت کو ئی نہ کوئی نبی ماننا ضروری ہوگا۔ اگر ہر عذاب کے موقعہ پر رسول کا موجود ہونا ضروری ہے تو بتایا جائے کہ :
(۱)…آنحضرت ﷺ کے بعد جس قدر عذاب آئے وہ کن رسولوں کی تکذیب کے باعث آئے؟۔
(۲)… حضرت فاروق اعظم ؓ کی خلافت میں مرض طاعون پڑی جس سے ہزاروں صحابہ کرام ؓ شہید ہوئے۔
(۳)… ۸۰ھ میں سخت زلزلہ آیا جس میں ہزاروں انسان مرگئے۔ اسکندریہ کے مینار گرگئے۔ (تاریخ الخلفاء ص ۱۵۸)
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
(۴)… ۲۴۵ھ میں تمام دنیا میں زلزلے آئے شہر اور اہل اور قلعے مسمار ہوئے انطاکیہ میں پہاڑ سمندر میں گر پڑا۔ لاکھوں انسان زلزلوںسے تباہ ہوئے ۔(تاریخ الخلفاء ص ۱۸۶)
(۵)… اندلس اور بغداد کی تباہی کے وقت کونسا رسول موجود تھا؟۔
(۶)… انگلستان کا خطرناک طاعون ۱۳۴۸ء میںکس رسول کے باعث تھا؟۔
(۷)… اب جو دنیا میں تباہیاں آرہی ہیں وہ کس رسول کے باعث آرہی ہیں؟۔
(۸)… چنگیزو ہلاکو کے زمانہ میں لاکھوں قتل ہوئے۔
(۹)… پہلی جنگ عظیم زلزلہ بہار اور دوسری جنگ عظیم زلزلہ کوئٹہ جاپان واٹلی کے زلزلہ کے وقت کونسا رسول تھا؟۔
جواب۴ (الف) اگر تیرہ سو سال تک جو عذاب آتے رہے وہ آنحضرت ﷺ کی تکذیب کے نیتجہ میں تھے تو آئندہ تیرہ ہزار سال تک جو عذاب آئیں گے وہ کیوں نہ آپ ﷺ کی تکذیب کے نتیجہ میں قرار دیئے جائیں؟۔
(ب) :یہ کہنا کہ اب کسی اور رسول کے باعث عذاب آتے ہیں یہ معنی رکھتا ہے کہ آنحضرتﷺ کا زمانہ ختم ہوگیا۔
(ج):جب تک اذانوں میں اشھد ان محمد رسول اﷲ کا اعلان ہوتا رہے گا۔ آپ ﷺ کی ہی نبوت کا زمانہ ہے اور آپ ﷺ کی ہی تکذیب کے باعث عذاب آتے رہیں گے۔مرزا قادیانی بھی تو پون صدی پیشتر فوت ہوچکے ہیں۔ اگر موجودہ عذاب فوت شدہ نبی کے باعث آسکتے ہیں تو کیوں نہ کہا جائے کہ آنحضرت ﷺ کی تکذیب کے باعث یہ عذاب آرہے ہیں۔ ورنہ ان عذابات کی علت میں بھی کسی نبی کا وجود ثابت کیجئے۔ جبکہ مرزاقادیانی نے خود بھی کہہ دیا ہے کہ :
’’ میری کامل اتباع سے یہ بھی نعمت (نبوت)مل سکتی ہے۔‘‘(اربعین نمبر۱ ص ۴ خزائن ص ۳۴۶ج ۱۷)
جواب۵ :پہلی اور دوسری جنگ عظیم ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ۔ متنبی ہندوستان میں اور عذاب یورپ یا جاپان میں؟ بہار ‘ کوئٹہ کا زلزلہ متنبی قادیان کی وفات کے بعد آیا۔
جواب۶ :مولانا محمد حسین بٹالوی ؒ ‘ مولانا ثناء اﷲ امرتسری ؒ ‘ ڈاکٹر عبدالحکیم خان بٹالوی ‘ پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی ؒ ‘مرزا سلطان محمد ؒ ساکن پٹی‘ (متنبی قادیان کا رقیب محترمہ محمدی بیگم کا خاوند) مولانا صوفی عبدالحق غزنوی امرتسری ؒ‘ جو متنبی قادیان کے اشدترین مخالف تھے۔ ان پر عذاب نہ آیا بلکہ یورپ کی اقوام جنہیں آنجہانی مرزا قادیانی کی خبر تک نہ تھی ان پر جنگ کا عذاب آیا: ’’ تلک اذا قسمۃ ضیزی۰‘‘
جواب۷ : ’’ وماکنا معذبین حتیٰ نعبث رسولا۰‘‘ سے اگر یہ ثابت کیا جائے کہ اور نبی آسکتا ہے تو : ’’ وان من قریۃ الا خلا فیھا نذیر۰‘‘ کا تقاضا اور سنت الٰہی یہی ہونی چاہئیے کہ ہر بستی میں رسول آئے۔ اگر قادیانی کہیں کہ آپ ﷺ کی نبوت کافۃ للناس ہے تو پھر کل عالم میں جہاں عذاب آئے گا وہ بھی آپ ﷺ کی تکذیب کے باعث آئے گا۔
جواب۸:عذاب کا باعث صرف نبوت کا انکار نہیں بلکہ اور بھی بے شمار وجوہات عذاب ہوسکتے ہیں۔ مثلا ظلم سے عذاب آتا ہے‘ زنا سے عذاب آتا ہے‘ جھوٹی قسم سے عذاب آتا ہے۔وغیرہ

اعتراض نمبر۱۹: ذالک بان لم یکن

قادیانی: ’’ ذالک بان لم یکن علی قوم حتی یغیروا مابانفسھم ۰ انفال ۵۳‘‘ یعنی اﷲ تعالیٰ جس قوم پر کوئی نعمت کرتا ہے تو اس سے وہ نعمت دور نہیں کرتا۔جب تک کہ وہ قوم اپنے حالات کو نہ بدلے۔ اگر اس امت پر خدا نے نبوت کی نعمت بند کردی ہے تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ یہ امت بدکار ہوگئی ہے۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
جواب :اس آیت میں نعمت نبوت کا ذکر نہیں ہے۔ بلکہ دیگر دنیوی نعمت کا ذکر ہے۔ جو آیت کے سیاق وسباق سے معلوم ہوسکتا ہے۔ اس آیت کے پہلے بھی اور بعد میں بھی فرعون وغیرہ کا ذکر ہے کہ خدا تعالیٰ نے ان کوکئی نعمتیں بخشی تھیں۔ لیکن انہوں نے نافرمانی کی تو خدا تعالیٰ نے ان پر تباہی ڈالی۔کہاں نبوت اور کہاں دنیا کی نعمتیں خوشحالی وحکومت وغیرہ۔

نبوت ایک نعمت​


قادیانی: نبوت بھی ایک نعمت ہے۔امت محمدیہ ﷺ اس سے کیوں محروم ہوگئی ہے؟۔
جواب۱:نبوت تشریعی اور نزول کتاب بھی اس سے بڑھ کر نعمت ہے۔ کیاآپ ﷺ کے بعد کوئی نئی کتاب یا نئی شریعت نازل ہوسکتی ہے؟۔ نہیں تو پھروہی اعترض لازم آیا کہ آنحضرت ﷺ کی تشریف آوری کے بعد دنیافیض شریعت سے محروم کردی گئی کیونکہ جس طرح انبیاء آتے رہے اس طرح شریعت بھی وقتا فوقتانازل ہوتی رہی۔ اور یہ بات یاد رکھنی چاہئیے کہ انعام شریعت بہ نسبت انعام نبوت کے بہت بڑا ہے۔
؎ الزام ان کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا
الغرض نزول کتاب‘ ونبوت تشریعی بھی ایک بڑی نعمت ہے۔ جب یہ نعمت بوجودبند ہونے کے امت میں نقص پیدا نہیں کرتی اس طرح اگر مطلق نبوت نعمت ہو تو اس کے ختم ہونے کی صورت میں بھی کوئی نقص لازم نہیں آئے گا۔ کیونکہ نعمت اپنے وقت میں نعمت ہوتی ہے۔ مگر غیر وقت میں نعمت نہیں ہوتی۔جیسے بارش اﷲ تعالیٰ کی نعمت ہے مگر یہی بارش دوسرے وقت زحمت وعذاب ہوجاتی ہے۔
جواب۲:ہم تو اس چیز کے قائل ہیں کہ وہ نعمت پورے کمال کے ساتھ انسانوں کے پاس پہنچادی گئی۔ ہم نعمت سے محروم نہیں ہیں بلکہ وہ اچھی صورت میں ہمارے پاس ہے۔ جس طرح سورج کے نکلنے سے کسی چراغ کی ضرورت نہیں رہتی اس طرح آنحضرت ﷺ کی تشریف آوری کے بعد کسی نبی کی ضرورت نہیں ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں شجرہ طیبہ (اسلام) کے متعلق ہے کہ : ’’ تؤتی اکلھا کل حین ۰‘‘ شجرہ اسلام قیامت تک ثمر بار اور فیضان رساں رہے گا۔ اس کافیضان قیامت تک منقطع نہیں ہوسکتا۔نیز اگر نبوت نعمت ہی ہے تو مرزا کے بعد بھی اس نعمت کے مظاہروجود پذیر ہونے چاہئیے ۔ وہ کیونکر بند ہوگئے؟۔

اعترض نمبر۲۰: واذابتلیٰ ابراھیم

قادیانی: ’’ واذابتلی ابراھیم ربہ بکلمات فائتمھن قال انی جاعلک للناس اماما قال ومن ذریتی قال لاینال عہدی الظالمین۰ بقرہ ۱۲۴‘‘ {اور جس وقت آزمایا ابراھیم علیہ السلام کو رب اس کے نے ‘ساتھ کئی باتوں کے۔ پس پورا کیا ان کو۔ کہا تحقیق میں کرنے والا ہوں تجھ کو واسطے لوگوں کے امام‘ کہا اور میری اولاد سے ‘کہا نہ پہنچے گا عہد میرا ظالموں کو۔}
اس سے دو باتیں معلوم ہوئیں۔ (۱)… اول یہ کہ عہد نبوت نسل ابراھیم علیہ السلام کے ساتھ ضرور پورا ہوگا۔ (۲)… دوم یہ کہ جب نسل ابراہیمی ظالم ہوجائے گی تو ان سے نبوت چھین لی جائے گی۔ کیونکہ امت محمدیہ میں نبوت جاری نہیں۔ لہذا یہ امت ظالم ہوگئی اور اگر ظالم نہیں تو امت محمدیہ میں نبوت جاری ہے۔
جواب۱ : آیت کامطلب صرف اس قدر ہے کہ جو ظالم ہو اس کو یہ نعمت نہ ملے مگر ہر غیر ظالم کے لئے نبوت ضروری نہیں۔ ہاں اگر نبوت آنحضرت ﷺ کے بعد جاری ہوتی تو پھر غیر ظالموں کومل سکتی تھی۔ مگر قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ کا فرمان موجود ہے:
’’ ماکان محمد ابااحدمن رجالکم الیٰ قولہ وخاتم النبیین ۰‘‘ مرزا قادیانی نے خود آیت ختم نبوت کا ترجمہ کیا ہے :
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
’’محمد تم میں سے کسی مرد کا باپ نہیں۔ مگر وہ رسول اﷲہے اور ختم کرنے والا نبیوں کا۔ یہ آیت بھی صاف دلالت کررہی ہے کہ بعد ہمارے نبیﷺ کے کوئی رسول دنیا میں نہیں آسکتا۔‘‘(ازالہ اوہام ص ۶۱۴ خزائن ص ۳۱ج۳)
جواب۲:حضرت ابراھیم علیہ السلام نے خدا سے دعا مانگی تھی جو قبول ہوگئی۔ مگر دکھائو کہ آنحضرت ﷺ نے بھی ایسی دعا مانگی ہے بلکہ آپ ﷺ نے صریح اور واضح الفاظ میں فرمایا : ’’ ان النبوۃ والرسالۃ قد انقطعت فلا رسول بعدی ولا نبی۰ترمذی شریف ص ۵۱ج ۲ باب ذھب النبوۃ‘‘ ثابت ہوا کہ نبوت جاری نہیں۔
جواب۳: حضرت ابراھیم علیہ السلام کی اولاد میں صاحب کتاب نبی بھی ہوئے ہیں۔ لہذا تمہارے قاعدہ کے مطابق کوئی نبی صاحب کتاب بھی ضرور آناچاہئیے۔ حالانکہ تم خود اس کے قائل نہیں۔ جس دلیل سے صاحب کتاب نبی آنے کی ممانعت ہے وہی دلیل مطلقا کسی نبی کے آنے سے مانع ہے۔
جواب۴: اگر کہو کہ وہ جسے نبوت نہ ملے ظالم ہوتا ہے تو صحابہ کرام ؓ اور تمام امت محمدیہ ﷺ اب تک ظالم ٹھہرتی ہے ۔ اور مرزا غلام احمد قادیانی کی وفات کے بعد تمام قادیانی امت بھی ظالم ٹھہرتی ہے۔
جواب۵: مذکورہ آیت تو یہ بتاتی ہے کہ جو لوگ آزمائشوں میں کامیاب ہوتے ہیں وہ دنیا میں امام بنائے جاتے ہیں۔ اور ابراھیم علیہ السلام اس امامت کے منصب سے پہلے بھی نبی بن چکے تھے۔ یہ امامت کس نوعیت کی تھی لکھا ہے کہ :’’ خدا نے ابراھیم علیہ السلام سے کہا تیری نسل اپنے دشمنوں کے دروازے پر قابض ہوگی اور تیری نسل سے دنیا کی ساری قومیں برکت پائیں گی۔‘‘(پیدائش آیت ۱۷‘۱۸ باب ۲۲)
پھر فرمایا:’’میں تجھ کو اور تیرے بعد تیری نسل کو کنعان کا تمام ملک جس میں تو پردیسی ہے دیتا ہوں۔ ‘‘(پیدائش آیت ۷‘۸باب۷)
تو الحاصل آیت کریمہ میں حضرت ابراھیم علیہ السلام اور آپ کی ذریۃ طیبہ کو دنیا میں سرفراز کرنے کا عہد تھا۔ جس کا اظہار سورۃ حدید کے آخر میںواضح کردیا کہ ہم نے آپ کی اولاد میں کتاب اور نبوت کو مرتکز کردیا۔ پھر اس کے بعد حضرت مسیح کا ذکر فرمایا جنہوں نے اس سلسلہ انبیاء کے آخری فرد کامل کا اعلان کردیا۔ اس فرد کامل نے تشریف لاکر سلسلہ نبوت کا کلی اختتام وانقطاع کا اعلان فرماکر حقیقت واضح کردی۔

اعتراض نمبر۲۱: لیستخلفنھم فی الارض

قادیانی: ’’وعداﷲ الذین آمنوا منکم وعملوا الصالحات لیستخلفنھم فی الارض کمااستخلف الذین من قبلھم ولیمکنن لھم دینھم الذی ارتضی لھم۰النور۵۵‘‘ اس سے ثابت ہوا کہ حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت دائود علیہ السلام کی طرح خلیفے یعنی غیر تشریعی نبی ہوں گے۔
جواب۱:اس کا مطلب یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ مسلمانوں کو سلطنت عنایت کرے گا نہ یہ کہ نبی خلیفہ ہوں گے ورنہ دوسری آیت کا کیا جواب ہے؟۔ کہ: ’’عسٰی ربکم ان یھلک عدوکم ویستخلفکم فی الارض۰ الاعراف ۱۲۹‘‘ {قریب ہے تمارا رب تمہارے دشمن کو ہلاک کردے اور تمہیں زمین کا بادشاہ بنادے۔}
اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ تم سب کو غیر تشریعی نبی بنادے گا۔اور جگہ آتا ہے : ’’ھوالذی جعلکم خلٰئف فی الارض ورفع بعضکم فوق بعض درجت لیبلوکم فیمااتاکم۰ انعام ۱۶۶‘‘ {وہ ذات پاک ہے جس نے تم کو دنیا میں جانشین بنایا اور بعض کے بعض پردرجات بلند کئے۔ تا کہ اس نے جو کچھ تمہیں دیا ہے اس میں آزمائش کرے۔}
اس کا بھی ہر گز یہ مطلب نہیں کہ اﷲ تعالیٰ انہیں غیر تشریعی نبی بنائے۔ تفسیر معالم التنزیل میں لیستخلفنھم کا معنی لکھتے ہیں: ’’ ای لیورثنہم ارض الکفار من العرب والعجم فجعلہم ملوکا سادتھا وسکانھا۰‘‘ یعنی مسلمانوں کو کافروں (عرب ہوں یا عجمی) کی زمین کا وارث بنائے گا۔ اور ان کو بادشاہ اور فرماں روا اور وہاں کا باشندہ بنادے گا۔ نہ یہ مطلب ہے کہ غیر تشریعی نبی بنادے گا۔ نیز یہی آیت تو ختم نبوت پر دال ہے۔ کہ حضور ﷺ کے بعد نبوت کا سلسلہ اب بند ہے۔ آگے خلفاء ہی ہوں گے۔ پھر یہ کہ وعدہ خلافت بھی ا س سے ہے جو مومن بھی ہو اور اعمال صالحہ کرنے والا بھی ہو۔ کیا صحابہ کرام ؓ ان دونوں
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
صفات سے موصوف نہ تھے؟۔اگر تھے تو نبوت تشریعی یا غیر تشریعی کا دعویٰ انہوں نے کیوں نہ کیا۔ اور اگر جواب نفی میں ہے تو یہ قرآن عظیم کے بھی خلاف ہے۔ کیونکہ قرآن شاہد ہے کہ صحابہ کرام ؓ کی جماعت ان دونوں صفات سے موصوف تھی اور بعض صحابہ کرام ؓ خلیفہ بھی بنے مگر پھر بھی نبوت غیر تشریعی کا دعویٰ ان سے ثابت نہیں ہے۔
جواب۲:مرزائیو ! اپنے پیر ومرشد کی خبر لو کہ وہ اس آیت میں خلفاء سے کیا مراد لیتا ہے؟۔ چنانچہ خود مرزا قادیانی اس آیت سے ایسے خلیفے مراد لیتا ہے جس کا مصداق خلفاء راشدین ہیں۔ چنانچہ مندرجہ بالا آیت کے تحت مرزا قادیانی لکھتا ہے کہ :
(۱)… ’’ نبی تو اس امت میں آنے سے رہے۔ اب اگر خلفاء بھی نہ آویں اور وقتا فوقتا روحانی زندگی کے کرشمے نہ دکھلاویں تو پھر اسلام کی روحانیت کا خاتمہ ہے۔‘‘(شہادۃ القرآن ص ۶۰ روحانی خزائن ص ۳۵۵ ج ۶)
(۲)… ’’ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اس نبی کریم کے خلیفے وقتا فوقتا بھیجتا رہوں گا اور خلیفہ کے لفظ کو اس اشارہ کے لئے اختیار کیا گیا ہے کہ وہ نبی کے جانشین ہوں گے۔‘‘ (شہادۃ القران ص ۴۳ خزائن ص ۳۳۹ج۶)
ان حوالہ جات میں واضح طور پر تسلیم کیا گیا ہے کہ امت محمدیہ ﷺ کی اصلاح وتربیت کے لئے کوئی نبی معبوث نہیں ہوگا بلکہ انبیاء کی بجائے مجدد اور روحانی خلیفے یعنی وارثان محمد ﷺ آتے رہیں گے۔
(۳)… ’’ قرآن نے اس امت میں خلیفوں کے پیدا ہونے کا وعدہ کیا ہے۔۔۔۔۔ ایک زمانہ گزرنے کے بعد جب پاک تعلیم پر خیالات فاسدہ کا ایک غبارپڑجاتا ہے۔ اور حق خالص کا چہرہ چھپ جاتا ہے ۔ تب اس خوبصورت چہرے کو دکھلانے کے لئے مجدد اور محدث اور روحانی خلیفے آتے ہیں۔۔۔۔۔ مجددوں اور روحانی خلیفوں کی اس امت میں ایسے ہی طور سے ضرورت ہے جیسا کہ قدیم سے انبیاء کی ضرورت پیش آتی رہی ہے۔‘‘(شہادۃ القرآن ص ۴۳‘۴۴ روحانی خزائن ص ۳۳۹‘۳۴۰ ج ۶)
مگر افسوس کہ مرزا صاحب نے بہت جلد قرآن کی اس تعلیم کو بھلا دیا اور خود نبوت کے مدعی بن بیٹھے۔
نوٹ:مرزا قادیانی کی ان تمام عبارتوں سے ثابت ہوا کہ جیسے حضرت ابوبکرصدیق ؓخلیفہ تھے اور وہ آنحضرت ﷺ کے جانشین تھے لیکن نبی نہ تھے۔ اسی طرح آنحضرت ﷺ کی امت میں خلفاء ہی آیا کریں گے نبی ہر گز نہیں آئیں گے۔
جواب۳(الف)… ’’ وعداﷲ الذین آمنوا منکم۰‘‘ سے صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین کی تخصیص ہے۔ موعود لھم صحابہؓ ہیں ورنہ منکم نہ فرمایا جاتا۔
(ب)… استخلاف فی الارض سے مراد زمین کی حکومت اور سلطنت ہے۔ جیسا کہ دوسری آیت شریف میں ہے: ’’ویستخلفنکم فی الارض۰ الاعراف ۱۲۹‘‘ مرزا حکمران تو کجا غلام ابن غلام تھا۔
(ج)… تمکین دین ہوگی۔ لعین قادیانی انگریزی عدالتوں کی خاک چھانتا رہا۔
(د)… خوف کے بعد امن ہوگا۔ غلام قادیانی بوجہ خوف اپنی حفاظت کے لئے حفاظتی کتارکھتا تھا۔
’’ ڈاکٹر محمد اسماعیل نے مجھ سے بیان کیا کہ مسیح موعود (مردود قادیانی) نے اپنے گھر کی حفاظت کے لئے ایک دفعہ گدی کتا بھی رکھا تھا۔ وہ دروازے پر بندھا رہتا تھا۔ اور اس کا نام شیرو تھا۔‘‘(سیرت المہدی ص ۲۹۸ج ۳)
(ھ)… :’’ لایشرکون بی شیاء ‘‘ جبکہ مرزا مشرک تھا۔
(الف)… ’’انت منی بمنزلۃ ولدی۰‘‘ (حقیقت الوحی ص ۷۶ خزائن ص ۸۹ ج ۲۲)
(ب)… حیات عیسیٰ علیہ السلام کے عقیدہ پر پچاس سال سے زائد عرصہ قائم رہا۔ پھر اس کو شرک قرار دیا۔ تو پچاس سال سے زائد عرصہ مشرک رہا۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
(ج)… مسلم شریف میں ہے : ’’من حلف بغیر اﷲ فقد اشرک‘‘ جبکہ مرزا قادیانی کہتا ہے:
تیرے منہ ہی کی قسم ہے میرے پیارے احمد
تیری خاطر سب بار اٹھا یا ہم نے​
(درثمین اردو ص ۱۴آئینہ کمالات اسلام ص۲۲۵)​
جواب۴:سرالخلافۃ ص ۱۶ خزائن ص ۳۳۶ ج ۸ پر مرزا نے یہ آیت اور دیگر چند آیات لکھ کر ان آیات کے متعلق لکھتا ہے: ’’فاالحاصل ان ھذہ الا آیات کلھا مخبر عن خلافۃ الصدیق ولیس لہ محمل آخر‘‘ یہ آیات صدیق اکبر ؓ کی خلافت پر دال ہیں۔ ان کا کوئی دوسرا محمل نہیں۔‘‘
حدیث:… ’’ عن ابی ھریرۃ ؓیحدث عن النبی ﷺ کانت بنواسرائیل تسوسھم الا نبیاء کلما ھلک نبی خلفہ نبی وانہ لانبی بعدی وستکون خلفاء فتکثر۰بخاری ص ۴۹۱ ج ۱‘ مسلم ص ۱۲۶ج ۲‘‘ {حضرت ابوہریرہ ؓ آنحضرت ﷺ سے نقل فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بنی اسرائیل کی سیاست خود ان کے انبیاء کیا کرتے تھے۔ جب کسی نبی کی وفات ہوتی تھی تو ان کے بعد دوسرا نبی آجاتا تھا۔ لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ البتہ خلفاء ہوں گے اور بہت ہوں گے۔}

اعتراض نمبر۲۲: الیوم اکملت لکم دینکم

قادیانی:کبھی کار خانہ افتراء سے یہ صدا آیا کرتی ہے کہ آیت : ’’الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی۰ مائدہ ۳‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد لوگ منصب نبوت پر فائز ہوا کریںگے۔ کیونکہ جب خدا تعالیٰ نے ہمیں نعمت تامہ دے دی ہے تو سب سے اعلیٰ نعمت تو نبوت کی ہے وہ ضرور ہمیں ملنی چاہئیے۔
جواب:اپنے گھر کی خبر لو تمہارے پیر ومرشد اس آیت کو ختم نبوت کے لئے پیش کررہے ہیں اور تم اس سے نفی ختم نبوت کو ثابت کرنا چاہتے ہو۔ معلوم نہیں الٹی سمجھ کس کی ہے؟۔
ملاحظہ ہو: ’’ الیوم اکملت لکم دینکم۰‘‘ اور آیت : ’’ ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین ۰‘‘ میں صریح نبوت کو آنحضرت ﷺ پر ختم کرچکا ہے۔ (تحفہ گولڑویہ ص ۵۲ خزائن ص ۱۷۴ ج ۱۷)

اعتراض نمبر۲۳: یتلوہ شاھد منہ

قادیانی: ’’ یتلوہ شاھدمنہ ۰ھود ۱۷‘‘ اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کی صداقت کو ثابت کرنے کے لئے ایک نبی شاہد کی ضرورت ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں : ’’ اس کی صداقت کو ثابت کرنے کے لئے جب اتنا عرصہ گزر جائے گا کہ پہلے دلائل قصوں کے رنگ میں رہ جائیں تو خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک نیا گواہ آجائے گا۔۔۔۔۔ اس جگہ خصوصیت کے ساتھ مسیح موعود (مرزا غلام احمد قادیانی )کا ذکر ہے۔‘‘(تفسیر کبیر ص ۱۶۶ ج ۳)
جواب۱: قادیانیوں کا یہ کہنا کہ :’’ ہر ایک نبی کی شہادت نبی ہی دیتا چلا آیا ہے ۔‘‘ یہ ایک گھر کا بنایا ہوا قاعدہ ہے جس پر کوئی نص قرآنی یا حدیث دلالت نہیں کرتی۔ اور اگر یہ صحیح ہے تو اس سے لازم آتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام جب آسمان سے نازل ہوں گے تو پھر ان کے بعد ان کی تصدیق کے لئے کوئی اور نبی آئے۔ کیونکہ کیا معلوم کہ وہ درحقیقت عیسیٰ ہے یا نہیں؟۔ پھر اس نبی کی تصدیق کے لئے کوئی اور نبی آنا چاہئیے۔ پس اس سے تسلسل لازم آئے گا۔ اور وہ باطل ہے۔
جواب۲:پھر سوچو کہ کیا مسلمان کا یہ عقیدہ ہوسکتا ہے کہ جب تک مرزا قادیانی نبی نہ مانا جائے اس وقت تک آنحضرت ﷺ کی نبوت مشکوک ومشتبہ ہے اور مرزا کی گواہی کی محتاج ہے۔ اور فرض کریں کہ مرزا نہ آتا اور گواہی نہ دیتا تو آنحضرت ﷺ کی نبوت ہی شکی اور فرضی رہتی۔ نعوذ باﷲ من ھذہ الخرافات ۔ یہ کس قدر بے ہودہ خیال ہے اور ہزار افسوس ہے ان قادیانیوں کے ایمان پر جن کے نزدیک ہمارے نبی ﷺ کی نبوت ثابت نہیں ہوئی۔ بلکہ جب مرزا غلام احمد قادیانی نے نبی بن کر گواہی دی تو ثابت ہوگئی۔
 
Top