محمد اسامہ حفیظ
رکن ختم نبوت فورم
’’قال المفسرون ھم الا عاجم یعنون بہ غیر العرب ای طائفہ کانت قالہ ابن عباس وجماعۃ وقال مقاتل یعنی التابعین من ھذہ الامۃ الذین یلحقون باوائلھم وفی الجملۃ معنی جمیع الا قوال فیہ کل من دخل فی الا سلام بعد النبی ﷺالی یوم القیامۃ فالمراد باالا میین العرب وباالآخرین سواھم من الامم۰ تفسیر کبیر ص ۴ جز۳ (مصر)‘‘
{حضرت ابن عباس ؓ اور ایک جماعت مفسرین کہتے ہیں کہ آخرین سے مراد عجمی ہیں۔ (یعنی آپ ﷺ عرب وعجم کے لئے معلم ومربی ہیں) اور مقاتل کہتے ہیں کہ تابعین مراد ہیں۔ سب اقوال کا حاصل یہ ہے کہ امیین سے عرب مراد ہیں۔ اور آخرین سے سوائے عرب کے سب قومیں جو حضور ﷺ کے بعد قیامت تک اسلام میں داخل ہوں گے وہ سب مراد ہیں۔}
’’ وھم الذین جاؤا بعد الصحابۃ الیٰ یوم الدین ۰تفسیر ابومسعود ‘‘ {آخرین سے مراد وہ لوگ ہیں جو صحابہ ؓ کے بعد قیامت تک آئیں گے۔ (ان سب کے لئے حضور ﷺ ہی نبی ہیں۔)}
’’ ھم الذین یأتون من بعدھم الیٰ یوم القیامۃ ۰ کشاف ص ۱۸۵ج۳‘‘
جواب۷:بخاری شریف ص ۷۲۷ج ۲ مسلم شریف ص ۳۱۲ ج۲ ترمذی شریف ص ۲۳۲ج ۲ مشکوٰۃ شریف ص۵۷۶ پر ہے:
’’عن ابی ھریرۃ ؓقال کنا جلو ساعندالنبی فانزلت علیہ سورۃ الجمعۃ وآخرین منھم لما یلحقوا بھم قال قلت من ھم یا رسول اﷲ فلم یراجعہ حتیٰ سال ثلثا وفینا سلمان الفارسی وضع رسول اﷲ ﷺ یدہ علی سلمان ثم قال لوکان الا یمان عندالثریا لنالہ رجال او رجل من ھو لائ‘‘ {حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں ہم نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر باش تھے کہ آپ ﷺ پر سورۃ جمعہ نازل ہوئی۔ وآخرین منھم لما یلحقوا بھم تو میں نے عرض کی یا رسول اﷲ ﷺ وہ کون ہیں ۔ آپ ﷺ نے خاموشی فرمائی۔ حتی کہ تیسری بار سوال عرض کرنے پر آپ ﷺ نے ہم میں بیٹھے ہوئے سلمان فارسی ؓپرہاتھ رکھ دیااور فرمایا اگر ایمان ثریا پر چلا گیا تو یہ لوگ (اہل فارس) اس کو پالیں گے۔ (رجال یارجل کے لفظ میں راوی کو شک ہے مگر اگلی روایت میں رجال کو متعین کردیا)}
یعنی عجم یا فارس کی ایک جماعت کثیرہ جو ایمان کو تقویت دے گی اور امور ایمانیہ میں اعلیٰ مرتبہ پر ہوگی۔ عجم وفارس میں بڑے بڑے محدثین ‘ علمائ‘ مشائخ‘ فقہائ‘ مفسرین مقتدائ‘ مجددین وصوفیا‘ اسلام کے لئے باعث تقویت بنے۔ آخرین منھم لما یلحقوا بھم سے وہ مراد ہیں ۔ابن عباس ؓ وابوہریرہ ؓ سے لے کر ابو حنیفہ ؒ تک سبھی اسی رسول ہاشمی ﷺ کے در اقدس کے دریوزہ گرہیں۔ حاضر وغائب‘ امیین وآخرین سب ہی کے لئے آپ ﷺ کا در اقدس ﷺ وا ہے آئے جس کا جی چاہے۔ اس حدیث نے متعین کردیا کہ آپ ﷺ کی نبوت عامہ وتامہ وکافہ ہے۔ موجود وغائب عرب وعجم سب ہی کے لئے آپ ﷺ معلم ومز کی ہیں۔ اب فرمائیے کہ آپ ﷺ کی بعثت عامہ کا ذکر مبارک ہے یا کسی اور نئے نبی کے آنے کی بشارت؟۔ ایسا خیال کرنا باطل وبے دلیل دعویٰ ہے۔
جواب۱:ہر دو آیات میں جس چیز کا خدا تعالیٰ انبیاء سے وعدہ لے رہے ہیں وہ الگ الگ چیزیں ہیں۔ پہلی آیت لیں تو ایک بہت عظیم الشان نبی کی تصدیق کا وعدہ لیا جارہا ہے جو آیت بتلارہی ہے کہ وہ نبی اعلیٰ منصب رکھتا ہوگا۔ جس کے لئے اﷲ تعالیٰ انبیاء کرام سے تاکیدی طور پر اس پر ایمان لانے کا وعدہ لے رہے ہیں۔اور جس کی امداد کے لئے سخت تاکید فرمائی جارہی ہے ۔وہ تو آنحضرت ﷺ ہی ہوسکتے ہیں۔
’’ وھم الذین جاؤا بعد الصحابۃ الیٰ یوم الدین ۰تفسیر ابومسعود ‘‘ {آخرین سے مراد وہ لوگ ہیں جو صحابہ ؓ کے بعد قیامت تک آئیں گے۔ (ان سب کے لئے حضور ﷺ ہی نبی ہیں۔)}
’’ ھم الذین یأتون من بعدھم الیٰ یوم القیامۃ ۰ کشاف ص ۱۸۵ج۳‘‘
جواب۷:بخاری شریف ص ۷۲۷ج ۲ مسلم شریف ص ۳۱۲ ج۲ ترمذی شریف ص ۲۳۲ج ۲ مشکوٰۃ شریف ص۵۷۶ پر ہے:
’’عن ابی ھریرۃ ؓقال کنا جلو ساعندالنبی فانزلت علیہ سورۃ الجمعۃ وآخرین منھم لما یلحقوا بھم قال قلت من ھم یا رسول اﷲ فلم یراجعہ حتیٰ سال ثلثا وفینا سلمان الفارسی وضع رسول اﷲ ﷺ یدہ علی سلمان ثم قال لوکان الا یمان عندالثریا لنالہ رجال او رجل من ھو لائ‘‘ {حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں ہم نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر باش تھے کہ آپ ﷺ پر سورۃ جمعہ نازل ہوئی۔ وآخرین منھم لما یلحقوا بھم تو میں نے عرض کی یا رسول اﷲ ﷺ وہ کون ہیں ۔ آپ ﷺ نے خاموشی فرمائی۔ حتی کہ تیسری بار سوال عرض کرنے پر آپ ﷺ نے ہم میں بیٹھے ہوئے سلمان فارسی ؓپرہاتھ رکھ دیااور فرمایا اگر ایمان ثریا پر چلا گیا تو یہ لوگ (اہل فارس) اس کو پالیں گے۔ (رجال یارجل کے لفظ میں راوی کو شک ہے مگر اگلی روایت میں رجال کو متعین کردیا)}
یعنی عجم یا فارس کی ایک جماعت کثیرہ جو ایمان کو تقویت دے گی اور امور ایمانیہ میں اعلیٰ مرتبہ پر ہوگی۔ عجم وفارس میں بڑے بڑے محدثین ‘ علمائ‘ مشائخ‘ فقہائ‘ مفسرین مقتدائ‘ مجددین وصوفیا‘ اسلام کے لئے باعث تقویت بنے۔ آخرین منھم لما یلحقوا بھم سے وہ مراد ہیں ۔ابن عباس ؓ وابوہریرہ ؓ سے لے کر ابو حنیفہ ؒ تک سبھی اسی رسول ہاشمی ﷺ کے در اقدس کے دریوزہ گرہیں۔ حاضر وغائب‘ امیین وآخرین سب ہی کے لئے آپ ﷺ کا در اقدس ﷺ وا ہے آئے جس کا جی چاہے۔ اس حدیث نے متعین کردیا کہ آپ ﷺ کی نبوت عامہ وتامہ وکافہ ہے۔ موجود وغائب عرب وعجم سب ہی کے لئے آپ ﷺ معلم ومز کی ہیں۔ اب فرمائیے کہ آپ ﷺ کی بعثت عامہ کا ذکر مبارک ہے یا کسی اور نئے نبی کے آنے کی بشارت؟۔ ایسا خیال کرنا باطل وبے دلیل دعویٰ ہے۔
اعتراض نمبر۱۴: واذاخذاﷲ میثاق النبیین
قادیانی: کبھی کبھی آیت : ’’واذ اخذاﷲ میثاق النبیین لما آتیتکم من کتاب وحکمۃ ثم جاء کم رسول مصدق لما معکم لتؤمنن بہ ولتنصربہ ۰ آل عمران۸۰‘‘ اور آیت : ’’ واذ اخذنا من النبیین میثاقھم ومنک ومن نوح الآیہ۰احزاب۷‘‘ سے بھی استدلال کیا کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ سب انبیاء سے حتی کہ آنحضرت ﷺ سے بھی ایک رسول کے آنے کا واقعہ پیش کرکے اس کی تصدیق کرنے کا اور اس رسول کو ماننے کاوعدہ لیا جارہا ہے۔ وہ رسول کون ہوگا جو سب انبیاء اور آنحضرت ﷺ کے بعد آنے والا ہے۔ وہ مرزا غلام احمد قادیانی ہی ہے۔ نعوذباﷲجواب۱:ہر دو آیات میں جس چیز کا خدا تعالیٰ انبیاء سے وعدہ لے رہے ہیں وہ الگ الگ چیزیں ہیں۔ پہلی آیت لیں تو ایک بہت عظیم الشان نبی کی تصدیق کا وعدہ لیا جارہا ہے جو آیت بتلارہی ہے کہ وہ نبی اعلیٰ منصب رکھتا ہوگا۔ جس کے لئے اﷲ تعالیٰ انبیاء کرام سے تاکیدی طور پر اس پر ایمان لانے کا وعدہ لے رہے ہیں۔اور جس کی امداد کے لئے سخت تاکید فرمائی جارہی ہے ۔وہ تو آنحضرت ﷺ ہی ہوسکتے ہیں۔