• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قادیانی شبہات کے جوابات (کامل )

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
جواب۳: حضور ﷺ کے بعد جو شخص نبوت کا دعویٰ کرے گا وہ :’’ ان اتبع الا مااوحی الی ‘‘کے ماتحت اپنی وحی کا اتباع کا پابند ہوگا۔ وہ حضور ﷺ کی اتباع سے محروم ہوکر سب سے بڑی رحمت خداوندی سے محروم ہوجائے گا۔ اس محروم القسمت بدبخت کے لئے جو حضور ﷺ کی اتباع سے منہ موڑتا ہے تم تحریف کرکے اس کی نبوت کے لئے دلائل تلاش کرتے ہو؟ :’’ تلک اذا قسمۃ ضیضی ‘‘
جواب۴: پھر جناب ! اگر نبوت رحمت ہے تو سب سے بڑی نعمت تو نبوت تشریعہ ہے تو تم کیوں اس کو بند مانتے ہو؟۔
جواب۵: اس آیت : ’’ ان رحمت اﷲ قریب من المحسنین ‘‘ کے ساتھ ملحقہ اگلی آیت :’’ ھوالذی یرسل الریح بشرا بین یدی رحمۃ ‘‘ میں بارش کو رحمت کہا گیا ہے۔ بارش رحمت ہے یہ نص قرآنی ہے ۔مگر سبھی امت کا نہیں بلکہ پورے عالم کا اتفاق ہے کہ بارش والی رحمت ضرورت سے بڑھ جائے تو بجائے رحمت کے زحمت یعنی عذاب بن جاتی ہے۔ لیجئے جناب ! اس آیت شریفہ سے قادیانی لغویات کا ابطال نکل آیا۔ بارش رحمت ہے مگر جو ضرورت سے زیادہ بارش مانگے وہ عذاب خداوندی کو دعوت دیتا ہے۔ اس طرح حضور ﷺ کی نبوت کی رحمت کے ہوتے ہوئے اگر اور نبوت کی رحمت کو تلاش کرتا ہے تو بھی عذاب خدا وندی کو دعوت دیتا ہے۔

اعتراض نمبر۳۱: ولقدضل اکثرالاولین

قادیانی:’’ ولقد ضل اکثرالاولین ولقد ارسلنا فیھم منذرین۰صفٰت۷۳ ‘‘قادیانی استدلال یہ ہے کہ ان سے پہلے بھی بہت سے لوگوں میں گمراہ ہوئے اور یقینا ہم نے ان کے اندر ڈرانے والے بھیجے ۔ جیسے پہلی گمراہیوں کے وقت نبی آتے رہے ویسے ہی اب بھی گمراہی کے وقت غلام احمد قادیانی نبی معبوث ہوا۔ معاذاﷲ
جواب۱: پہلے لوگوں میں گمراہی اس لئے پھیلی کہ ان کے انبیاء کی تعلیمات محفوظ نہ رہیں۔ ترمیم واضافہ کردیا گیا۔ ہمارے نبی ﷺ کی تعلیمات محفوظ ہیں:’’ انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحفظون۰ ‘‘ اس لئے حضور ﷺ کی امت سابقہ امم کی طرح من حیث المجموع گمراہ نہیں ہوسکتی۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے :’’ لاتجتمع امتی علی الضلالۃ۰مشکوٰۃ ‘‘ اور پھر علماء امت محمدیہ ﷺ تبلیغ واشاعت اسلام کے لئے وہی کام سرانجام دیں گے جو انبیاء بنی اسرائیل دیتے تھے۔ چنانچہ حدیث شریف ہے جسے مرزا لعین قادیانی نے بھی (شہادت القرآن ص ۲۳ خزائن ص ۳۲۳ ج ۶) پر تسلیم کیا ہے :’’علماء امتی کا انبیاء بنی اسرائیل ‘‘اصلاح وتبلیغ کا کام یہ صالحین امت وعلماء دین کریں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ ولتکن منکم امۃ یدعون الخیرو یأمرون باالمعروف وینھون عن المنکر۰‘‘
جواب۲: اب خود مرزا کے مسلمات پر غور کیجئے:
(الف)… ’’ خدا تعالیٰ نے اس بارہ میں بھی پیشگوئی کرکے فرمادیا یعنی شرک اور مخلوق پرستی نہ کوئی اپنی نئی شاخ نکلے گی نہ پہلی حالت پر عود کرے گی۔‘‘(براہین احمدیہ ص ۱۱۱ خزائن ص ۱۰۲ ج ۱)
(ب)… ’’ اگر کوئی کہے کہ فساد اور بد عقیدگی اور بداعمالیوں میں یہ زمانہ بھی تو کم نہیں پھر اس میں کوئی نبی کیوں نہیں آیا تو جواب یہ ہے کہ وہ زمانہ (یعنی حضور ﷺ سے قبل کا )تو حید اور راست روی سے بالکل خالی ہوگیا تھا۔ اور اس زمانہ میں چالیس کروڑ لاالہ الااﷲ کہنے والے موجود ہیں۔ اور اس زمانہ کو بھی خدا تعالیٰ نے مجدد کے بھیجنے سے محروم نہیں رکھا۔(نورالقرآن ص ۷ حاشیہ خزائن ص ۳۳۹ ج ۹)

اعتراض نمبر۳۲: مبشرا برسول یاتٔی

قادیانی:’’ مبشرا برسول یاتٔی من بعدی اسمہ احمد ‘‘ کبھی کہہ دیتے ہیں کہ اس سے مراد مرزا غلام احمد قادیانی ہے۔
جواب۱(الف)… چودہ سو سال سے آپ ﷺ کی امت محمدیہ ﷺ کا اس پر اجماع ہے کہ اس سے مراد رحمت دو عالم ﷺ کی ذات اقدس ہے۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
(ب)… پھر یہ بشارت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے من بعدی کے ساتھ دی تھی تو ظاہر ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد رحمت عالم ﷺ تشریف لائے تو اس کا آپ ﷺ مصداق ہوئے۔
(ج)… آپ ﷺ کا اسم گرامی محمدﷺ اور احمد ﷺ تھا۔ جیسا کہ مشہور احادیث صحیحہ ومتواترہ میں وارد ہے ۔ تفصیلات کے لئے کنز العمال مدارج النبوۃ وغیرہ ملاحظہ ہوں۔
(د)… آ پ ﷺ خود ارشاد فرماتے ہیں :’’ انا بشارۃ عیسیٰ ‘‘
جواب۲: مرزا غلام احمد قادیانی کا اصل نام جو ماں باپ نے رکھا تو وہ غلام احمد تھا۔ مرزا بھی ساری زندگی یہی لکھتا رہا‘ بکتا رہا۔ اس کا نام احمد نہیں تھا۔ تو غلام احمد‘ اسمہ احمد کامصداق کیسے ہوگیا؟۔
ایک دفعہ ایک قادیانی نے حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری ؒ کے سامنے یہ بات کہہ دی۔ آپ نے فی البدیہ فرمایا غلام احمدسے مراد‘ احمد ہے تو عطاء اﷲ سے مراد صرف اﷲ ہوسکتا ہے۔ غلام احمد کو احمد مانتے ہو تو پھر عطاء اﷲ کو اﷲ ماننا پڑے گا۔ اگر اﷲ مانو! گے تو میرا پہلا حکم یہ ہے کہ غلام احمد جھوٹا ہے۔ اسے میں نے نہیں بنایا۔ پس شاہ جی ؒ کی حاضر جوابی سے قادیانی یہ جا وہ جا!
جواب۳:اگر احمد سے مراد مرزا قادیانی ہے۔ تو پھر یہ مسیح موعودیا مہدی کیسے ہوا۔ اس لئے کہ مسیح موعود اور مہدی میں سے کسی کا نام احمد نہیں۔

احادیث پر قادیانی اعتراضات کے جوابات​


اعتراض نمبر۳۳: لوعاش ابراھیم

قادیانی:’’ ولو عاش (ابراھیم) لکان صدیقا نبیائ ‘‘ اس سے قادیانی استدلال کرتے ہیں کہ اگر حضور ﷺ کے بیٹے حضرت ابراھیم زندہ رہتے تو نبی بنتے۔ بوجہ وفات کے حضرت ابراھیم نبی نہیں بن سکے ورنہ نبی بننے کا امکان تو تھا۔
جواب۱: یہ روایت جس کو قادیانی اپنے استدلال میںپیش کرتے ہیں سنن ابن ماجہ ‘ باب ماجاء فی الصلوٰۃ علیٰ ابن رسول اﷲ ﷺ وذکروفاتہ‘ میں ہے۔ روایت کے الفاظ یہ ہیں:
’’ عن ابن عباس ؓ لمامات ابراھیم بن رسول اﷲ ﷺ صل رسول اﷲ ﷺ وقال ان لہ مرضعا فی الجنتہ ولوعاش لکان صدیقا نبیا ولوعاش لعتقت اخوالہ القبط ومااسترق قبطی۰ابن ماجہ ص ۱۰۸ ‘‘{حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ جب آپ ﷺ کے صاحبزادے ابراھیم کا انتقال ہوا تو آپ ﷺ نے نماز جنازہ پڑھائی اور فرمایا اس کے لئے دودھ پلانے والی جنت میں (مقرر کردی گئی) ہے۔ اور اگر ابراھیم زندہ رہتے تو سچے نبی ہوتے اور اگر وہ زندہ رہتے تو اس کے قبطی خالہ زاد آزاد کردیتا۔}
(۱)… اس روایت کی صحت پر شاہ عبدالغنی مجددی ؒ نے انجاح الحاجہ علی ابن ماجہ ‘ میں کلام کیا ہے:
’’ وقد تکلم بعض الناس فی صحۃ ھذا الحدیث کما ذکر السید جمال الدین المحدث فی روضۃ الا حباب ۰ انجاح ص ۱۰۸ ‘‘{ اس حدیث کی صحت میں بعض (محدثین) نے کلام کیا ہے۔ جیسا کہ روضہ احباب میں سیدجمال الدین محدث نے ذکر کیا ہے۔}
(۲)…’’ قال ابن عبدالبر ؒ لاادری مامعنی ھذا القول لان اولاد نوح ماکانوا انبیاء ۰انجاح ص ۱۰۸ ‘‘{شیخ ابن عبدالبر ؒ کہتے ہیں۔ نہیں معلوم کہ اس قول کا کیا معنی ہے کہ حضرت ابراھیم زندہ ہوتے تونبی بنتے یہ بات اصولا غلط ہے ۔ کیونکہ یہ کہاں ہے کہ ہر نبی کا بیٹا نبی ہو؟۔ اس لئے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے نبی نہیں تھے۔}
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
(۳)… ’’ وقال الشیخ الد ھلوی ؒ وھذی جراۃٔ عظیمیۃ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔لم یصح۰ انجاح ص ۱۰۸ ‘‘ {شیخ عبدالحق دہلوی ؒفرماتے ہیں کہ یہ بہت بڑی زیادتی ہے۔۔۔۔ جو صحیح نہیں۔}
(۴)… ’’ روی ابن ماجہ بسند فیہ ابوشیبہ ابراھیم بن عثمان العبسی قاضی واسط وھومتروک الحدیث ۰ انجاح ص ۱۰۸ ‘‘{اس روایت میں ابوشیبہ ابراھیم بن عثمان العبسی راوی متروک الحدیث ہے۔(یعنی اس کی روایت غیر صحیح ہے۔)}
(۵)… تقریب التھذیب ص ۲۵ علامہ ابن حجر ؒ نے فرمایا ہے کہ :’’ ابوشیبہ ابراھیم بن عثمان العبسی ھومتروک الحدیث۰ ‘‘
(۶)… ہدایہ اور فتاویٰ عالمگیری کے مترجم علامہ امیر علی نے تقصیب التقریب میں ترمذی جلد۱ صفحہ ۱۹۹‘ کتاب الجنائر کے حوالہ سے ابوشیبہ ابراھیم کے بارہ میں تحریر کیا ہے کہ وہ منکرالحدیث ہے۔(تقریب ص ۲۵)
(۷)… تذکرۃ الموضوعات ص ۲۳۳پر ابوشیبہ ابراہیم بن عثمان کو متروک کہا ہے اور لکھا ہے کہ شعبہ نے اس کی تکذیب کی ہے۔
(۸)… موضوعات کبیر کے ص ۵۸ پر ہے :’’ قال النووی فی تھذیبہ ھذا الحدیث باطل وجسارۃ علی الکلام المغیبات وفجازفۃ وھجوم علی عظیم۰ ‘‘{امام نووی ؒنے تہذیب الاسماء میں فرمایا ہے کہ یہ حدیث باطل ہے۔ غیب کی باتوں پر جسارت ہے۔ بڑی بے تکی بات ہے۔}
(۹)…مدارج النبوۃ ص ۲۶۷ ج ۲ شیخ عبدالحق دہلوی ؒ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحت کو نہیں پہنچتی۔ اس کا کوئی اعتبار نہیں۔ اس کی سند میں ابوشیبہ ابراھیم بن عثمان ہے جو ضعیف ہے۔
(۱۰)… ابوشیبہ ابراھیم بن عثمان کے بارہ میں محدثین کی آراء یہ ہیں۔ ثقہ نہیں ہے۔ حضرت امام احمد بن حنبل ؒ ‘ حضرت امام یحییٰ ‘ حضرت امام دائود ؒ۔
منکر حدیث ہے حضرت امام ترمذی ؒ
متروک الحدیث ہے حضرت امام نسائی ؒ
اس کا اعتبار نہیں حضرت امام جوزجانی ؒ
ضعیف الحدیث ہے حضرت امام ابوحاتم ؒ
ضعیف ہے اس کی حدیث نہ لکھی جائے ۔ اس نے حکم سے منکر حدیثیں روایت کی ہیں۔ تہذیب التہذیب ص ۱۴۵‘۱۴۴ ج۱ ‘ (یاد رہے کہ زیر بحث روایت بھی ابوشیبہ نے حکم سے روایت کی ہے۔)
ایسا راوی جن کے متعلق آپ اکابر امت کی آراء ملاحظہ فرماچکے ہیں۔ اس کی ایسی ضعیف روایت کو لے کر قادیانی اپنا باطل عقیدہ ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ ان کو معلوم ہونا چاہئیے کہ عقیدہ کے اثبات کے لئے خبرواحد (اگرچہ صحیح کیوں نہ ہو بھی) معتبر نہیں ہوتی ۔ چہ جائیکہ کہ عقائد میں ایک ضعیف روایت کا سہارالیا جائے۔ یہاں تو بالکل ’’ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا‘‘ والی بات ہوگی۔
جواب۲:اور پھر قادیانی دیانت کے دیوالیہ پن کا اندازہ فرمائیں کہ اسی متذکرہ روایت سے قبل حضرت ابن اوفی ؓ کی ایک روایت ابن ماجہ نے نقل کی ہے جو صحیح ہے ۔ اس لئے کہ امام بخاری ؒ نے بھی اپنی صحیح بخاری میں اسے نقل فرمایا ہے جو قادیانی عقیدہ اجراء نبوت کو بیخ وبن سے اکھیڑ دیتی ہے۔
اے کاش ! قادیانی اس ضعیف روایت سے قبل والی صحیح روایت کو پڑھ لیتے جو یہ ہے :
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
’’ قال قلت لعبداﷲ ابن ابی اوفی ؓ رائیت ابراھیم بن رسول اﷲ ﷺ قال مات وھو صغیر ولوقضی ان یکون بعد محمد ﷺ نبی لعاش ابنہ ابراھیم ولکن لانبی بعدہ ۰ ابن ماجہ باب ماجاء فی الصلوٰۃ علی ابن رسول اﷲ ﷺ ۰ وذکر فاتہ ص ۱۰۸ ‘‘{اسماعیل راوی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداﷲ ابن اوفی ؓ سے پوچھا کہ کیا رسول اﷲ ﷺ کے بیٹے ابراھیم کو آپ نے دیکھا تھا؟۔ عبداﷲ ابن اوفی ؓ نے فرمایا کہ وہ (ابراھیم) چھوٹی عمر میں انتقال فرماگئے اور اگر حضور ﷺ کے بعد کسی کو نبی بننا ہوتا۔ تو آپ ﷺ کے بیٹے ابراھیم زندہ رہتے۔ لیکن آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔}
یہ وہ روایت ہے جسے اس باب میں ابن ماجہ سب سے پہلے لائے ہیں۔ یہ صحیح ہے اس لئے کہ حضرت امام بخاری ؒ نے اپنی صحیح کے باب ’’ من سمی باسماء الانبیائ ‘‘ میں اسے مکمل نقل فرمایا ہے۔ دیکھئے (بخاری ج ۲ ص ۹۱۴)
اب آپ ملاحظہ فرمائیں کہ یہ صحیح روایت جسے ابن ماجہ متذکرہ باب میں سب پہلے لائے اور جس کو امام بخاری ؒنے اپنی صحیح بخاری میں روایت کیا ہے اور مرزا قادیانی نے اپنی کتاب شہادت القرآن ص ۴۱ روحانی خزائن ص ۳۳۷ ج ۶ پر ’’ بخاری شریف کو اصح الکتب بعدکتاب اﷲ ‘‘ تسلیم کیا ہے۔اگر مرزائیوںمیں دیانت نام کی کوئی چیز ہوتی تو اس صحیح بخاری کی روایت کے مقابلہ میں ایک ضعیف اور منکر الحدیث کی روایت کو نہ لیتے۔ مگر مرزائی اور دیانت یہ دو متضاد چیزیں ہیں۔
اب ملاحظہ فرمائیے کہ حضرت عبداﷲ ابن اوفی ؓ یہ کیوں فرماتے ہیں کہ اگر حضور ﷺ کے بعد کسی کو نبی بننا ہوتا ۔تو آپ ﷺ کے بیٹے ابراھیم زندہ رہتے۔ گویا حضرت ﷺ کے صاحبزادہ کا انتقال ہی اس لئے ہوا کہ آپ ﷺ کے بعد کسی کو نبی نہیں بننا تھا۔ یہ اس لئے فرمایا کہ رحمت دو عالم ﷺ کے بعد اگر آپ ﷺ کے بیٹے ابراھیم زندہ رہتے اور جوانی کی عمر کو پہنچتے تو دو صورتیں تھیں۔ نمبر۱: یہ کہ وہ نبی بنتے یا نمبر۲: نبی نہ بنتے۔ اگر نبی بنتے تو یہ آپ ﷺ کی ختم نبوت کے منافی تھا۔ اگر نبی نہ بنتے تو سوال پیدا ہوسکتا تھا کہ حضرت ابراھیم علیہ السلام کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام نبی ‘ حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام نبی‘ تو آپ ﷺ کا بیٹا کیوں نبی نہیں؟۔گویا آپ ﷺ کے بیٹے نبی بنتے تو ختم نبوت پر حرف آتا۔ نبی نہ بنتے تو رحمت دو عالم ﷺ پر اعتراض آتا۔ اﷲ رب العزت کی حکمت بالغہ نے آپ ﷺ کے صاحبزادوں کا بچپن میں اس لئے انتقال کردیا کہ نہ آپ ﷺ کی ختم نبوت پر حرف آئے اور نہ آپ ﷺ کی ذات پر۔ گویا ابراھیم کا انتقال ہی ختم نبوت کی وجہ سے تھا۔ آپ ﷺ کے بعد کسی شخص کو نبی نہیں بننا تھا۔
لیجئے ایک اور روایت انہیں حضرت عبداﷲ بن اوفی ؓ سے مسند احمد ج ۴ ص ۳۵۳ کی ملاحظہ فرمائیے:
’’ حدثنا ابن ابی خالد قال سمعت ابن ابی اوفی ؓ یقول لوکان بعدالنبی ﷺ نبی مامات ابنہ ابراھیم۰ ‘‘{ابن ابی خالد فرماتے ہیں کہ میں نے ابن ابی اوفی ؓ سے سنا فرماتے تھے کہ حضرت رحمت دو عالم ﷺ کے بعد کوئی نبی ہوتا تو آپ ﷺ کے بیٹے ابراھیم فوت نہ ہوتے۔}
حضرت انس ؓ سے سدی ؒ نے دریافت کیا کہ حضرت ابراھیم کی عمر بوقت وفات کیا تھی؟۔ آپ نے فرمایا کہ :’’ ماملاء معہدہ ولو بقی لکان نبیا لکن لم یبق لئن نبیکم آخر الانبیائ۰ ‘‘{ وہ تو گہوارہ کو بھی پورانہ بھر سکے (یعنی بچپن میں ہی انتقال ہوگیا اور )اگر وہ باقی رہتے تو نبی ہوتے لیکن اس لئے باقی نہ رہے کہ تمہارے نبی آخری نبی ہیں۔(تلخیص التاریخ الکبیر لابن عساکر ص ۲۹۴ ج ۱)}
’’ قال ابن عباس ؓ یرید لولم اختم بہ النبیین لجعلت لہ ابنا یکون بعدہ نبیا وروی عن عطاء عن ابن عباس ؓان اﷲ تعالیٰ لما حکم ان لانبی بعدہ لم یعطہ ولداذکرا یصیر رجلا ۰ کذافی المعالم التنزیل ص ۱۷۸ ج ۳ ‘‘{حضرت عبداﷲ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کی مراد یہ ہے کہ اگر نبیوں کا سلسلہ ختم نہ کرتا تو آپ ﷺ کے لئے صاحبزادہ ہوتا۔ جو آپ ﷺ کے بعد نبی ہوتا۔ عطاء سے ہے کہ جب اﷲ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے بعد نبوت کو بند کرنے کا فیصلہ فرمادیا تو آپ کو بیٹا نہیں دیا جوجوانی کو پہنچے۔}
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
اس روایت نے واضح کردیا کہ ابراھیم کی وفات ہی اس لئے ہوئی کہ آپ ﷺ کے بعد کسی کو نبی نہ بننا تھا۔ اب ان صحیح روایات جو بخاری ‘ مسند احمد اور ابن ماجہ میں موجود ہیں ان کے ہوتے ہوئے ایک ضعیف روایت کو جس کا جھوٹا اور مردود ہونا یوں بھی ظاہر ہے کہ یہ قرآن کے نصوص صریحہ اور صدہا احادیث نبویہ کے خلاف ہے۔ اسے صرف وہی لوگ اپنے عقیدے کے لئے پیش کرسکتے ہیں جن کے متعلق حکم خدا وندی ہے :’’ ختم اﷲعلیٰ قلوبھم وعلیٰ سمعھم وعلیٰ ابصارھم غشاوۃ۰ ‘‘
قادیانی اعتراض: اس روایت کی شہاب علی البیضاوی اور موضوعات میں ملاعلی قاری نے تصحیح کی ہے۔
جواب۲: شہاب علی البیضاوی یا حضرت ملاعلی قاریؒ کی تصحیح آئمہ حدیث ابن حجر عسقلانی ؒ ‘ حافظ ابن عبدالبر ؒ اور امام نووی ؒ کے مقابلہ میں کوئی تقدیم نہیں رکھتی۔یہ تمام آئمہ حدیث اس روایت کو ضعیف اور باطل قرار دیتے ہیں۔ اور پھر موضوعات میں حضرت ملا علی قاری ؒ نے بھی ان آئمہ کی اس حدیث کے بارے میں جرح کو نقل کیا ہے۔ اس لئے شہاب علی البیضاوی ہوں یا حضرت علی القاری ؒ ان کی تصحیح وتعدیل پر جرح مقدم ہوگی اور پھر جبکہ جرح بھی آئمہ حدیث نے کی ہو جن کی ثقاہت پر حضرت ملاعلی قاری ؒ بھی سردھنتے ہوں۔
الحاوی للفتاوی ص ۹۹ ج ۲ پر حضرت عبداﷲ بن اوفی ؓ سے روایت کے الفاظ یہ ہیں:
’’ توفی وھو صغیر ولوقضی ان یکون بعد محمد ﷺ نبی لعاش ولکنہ لانبی بعدہ۰ ‘‘{(حضرت ابراھیم)بچپن میں فوت ہوگئے اگر آنحضرت ﷺ کے بعد کسی شخص کا نبی بننا مقدر (جائز) ہوتا تو وہ زندہ رہتے۔ لیکن (زندہ اس لئے نہیں رہے کہ)آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں(بننا تھا)}
اور الحاوی للفتاوی ص ۹۹ ج ۲ پر ایک اور روایت حضرت انس بن مالک ؓ سے مروی ہے کہ :
’’ ولوبقی لکان نبیا ولکن لم یبقی لان نبیکم آخر الانبیائ۰ ‘‘{اگر وہ زندہ رہتے تو نبی ہوتے لیکن وہ زندہ اس لئے نہیں رہے کہ آنحضرت ﷺ آخرالا نبیاء ہیں۔}
الحاوی کے مصنف علامہ جلال الدین سیوطی ؒ ہیں۔ جن کو قادیانی نویں صدی کا مجدد مانتے ہیں اور جن کے متعلق مرزا نے لکھا ہے کہ:’’ انہوں نے حالت بیداری میں ۷۵ مرتبہ رحمت دو عالم ﷺ سے حدیثوں کی صحت کرائی تھی۔‘‘(ازالہ اوہام ص ۱۵۱‘روحانی خزائن ص ۱۷۷ ج ۳)
غرض حضرت علامہ جلال الدین سیوطی ؒ نے ان تمام روایات کو جمع کرنے کے بعد ان کا جو جواب تحریر کیا ہے ۔ اے کاش ! قادیانیوں کے لئے ہدایت کا باعث بن جائے۔جو یہ ہے:
’’ حافظ ابن حجر اصابہ میں فرماتے ہیں کہ یہ روایت میں نہیں جانتا۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ ہر چند کہ یہ تین صحابہ سے مروی ہے (لیکن غلط ہے) اس لئے کہ صحابہ کرام ؓ کے متعلق یہ خیال نہیں کیا جاسکتا کہ انہوں نے ایسی بات کہی ہو۔ علامہ جلال الدین فرماتے ہیں (اگر یہ صحیح ہوتی تو)قضیہ شرطیہ ہے اس کا وقوع لازم نہیں۔‘‘(الحاوی الفتاوی ج ۲ ص ۱۰۰)
جواب۳:اگر یہ روایت کہیں سند صحیح سے مذکور بھی ہوتی ‘تو بھی واحد ہونے کی وجہ سے احادیث صحیحہ متواترہ کے خلاف ہونے کے باعث قابل توجیہ یا قابل رد تھی۔ جیسا کہ مدارج النبوۃ میںحضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ یہی کہا جائے گا کہ اگر رحمت دو عالم ﷺ کے بعد نبوت جاری ہوتی اور ابراھیم زندہ رہتے تو ان میں نبی بننے کی صلاحیت تھی۔‘‘ (ص۷۷۹ طبع دہلی)
مگر چونکہ آپ ﷺ کے بعد نبوت کا دروازہ بند ہے صلاحیت ہونے کے باوجود نبی نہیں بن سکتے۔ جیسا کہ حضرت عمر ؓ کے متعلق معروف روایت ہے :’’ لوکان بعدی نبی لکان عمر ؓ۰‘‘حضرت عمر ؓمیں باالقوۃ نبی بننے کی صلاحیت موجود تھی۔ مگر آپ ﷺ کے خاتم النبیین ہونے کے باعث باالفعل نبی نہیں بن سکے۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
جواب۴: اس میں حرف لو قابل توجہ ہے ۔ اس لئے کہ جیسے :’’ لوکان فیھما الھۃ الا اﷲ لفسدتا۰ ‘‘لو عربی میں محال کے لئے آتا ہے۔ اس روایت میں بھی تعلیق باالمحال ہے۔ لوعاش ابراھیم بعد تقدیر موت کے حیات محال ہے اورتعلیق علی المحال ‘ محال ہوتا ہے۔ پس بعد تقدیر موت کے حیات ابراھیم محال ہے۔ لہذا ان کا نبی ہونا بھی محال ہوا اور اس پر جو بھی معلق کیا جائے خواہ فی نفسہ ممکن بھی ہوتا تو بھی محال ہوتا۔ کیونکہ معلق علی المحال بھی محال ہے۔ پس اگر اس کی سند صحیح بھی ہوتو بھی یہ ممتنع الوقوع ہے۔

اعتراض نمبر۳۴:ولاتقولو الانبی بعدہ​

قادیانی:حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں: ’’ قولوا خاتم النبیین ولا تقولوا لانبی بعدہ۰مجمع البحار ص ۸۵ درمنشور ص ۲۰۴ ج ۵ ‘‘اس سے ثابت ہوا کہ ان کے نزدیک نبوت جاری تھی۔
جواب۱: حضرت عائشہ صدیقہ ؓکی طرف اس قول کی نسبت صریحا بے اصل وبے سند ہے۔ دنیا کی کسی کتاب میں اس کی سندمذکور نہیں۔ ایک بے سند قول سے نصوص قطعیہ اور احادیث متواترہ کے خلاف استدلال کرنا سراپا دجل وفریب ہے۔
جواب۲: رحمت دو عالم ﷺ فرماتے ہیں :’’ انا خاتم النبیین لانبی بعدی۰ ‘‘اور حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا قول:’’ ولا تقولوا لانبی بعدہ۰ ‘‘ یہ صریحا اس فرمان نبوی ﷺ کے مخالف ہے۔ قول صحابہ ؓ وقول نبوی ﷺ میں تعارض ہوجائے تو حدیث وفرمان نبوی کو ترجیح ہوگی۔ پھر لانبی بعدی حدیث شریف متعدد صحیح اسناد سے مذکور ہے۔ اور قول عائشہ صدیقہ ؓ ایک موضوع اور بے سند قول ہے۔ صحیح حدیث کے مقابلہ میں یہ کیسے قابل حجت ہوسکتا ہے؟۔
جواب۳: خود حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے کنزالعمال ص ۳۳ ج ۸ میں روایت ہے:’’ لم یبق من النبوۃ بعدہ شیٔ الا مبشرات۰ ‘‘اس واضح فرمان کے بعد اس بے سند قول کو حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی طرف منسوب کرنے کا کوئی جواز باقی رہ جاتا ہے؟۔
جواب۴: قادیانی دجل ملاحظہ ہو کہ وہ اس قول کو جو مجمع البحار میں بغیر سند کے نقل کیا گیا ہے استدلال کرتے وقت بھی آدھ قول نقل کرتے ہیں۔ اس میں ہے :’’ ھذا ناظر الی نزول عیسیٰ علیہ السلام تکملہ۰ مجمع البحارص ۸۵ ‘‘اگر ان کا یا مغیرہ ؓ کا جوقول :’’ اذا قلت خاتم الانبیاء حسبک ‘‘وغیرہ جیسے آتے ہیں۔ ان سب کا مقصد یہی ہے کہ ان کے ذہن میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کا مسئلہ تھا۔ یہ نہ کہو کہ آپ ﷺ کے بعد نبی کوئی نہیں۔(آئے گا) اس لئے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہوگا۔ یہ کہو کہ آپ ﷺ خاتم النبیین یعنی آپ ﷺ کے بعد کوئی شخص نبی بنایا نہیں جائے گا۔ اس لئے عیسیٰ علیہ السلام ممن نبی قبلہ وہ آپ ﷺ سے پہلے نبی بنائے جا چکے ہیں۔
جواب۵:اس قول میں بعدہ خبر کے مقام پرآیا ہے۔ اور خبر افعال عامہ یا افعال خاصہ سے مخدوف ہے۔ اس لئے اس کا پہلا معنی یہ ہوگا :’’ لانبی مبعوث بعدہ۰ ‘‘ حضور ﷺ کے بعد کسی کو نبوت نہیں ملے گی۔ مرقات حاشیہ مشکوٰۃ شریف پر یہی ترجمہ مراد لیا گیا ہے جو صحیح ہے۔
دوسرا معنی :’’ لانبی خارج بعدہ۰ ‘‘حضور ﷺ کے بعد کسی نبی کا ظہور نہیں ہوگا۔ یہ غلط ہے اس لئے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نزول فرمائیں گے۔ حضرت مغیرہ ؓ نے ان معنوں سے :’’ لاتقولوا لا نبی بعدہ۰ ‘‘کی ممانعت فرمائی ہے۔ جو سوفیصد ہمارے عقیدہ کے مطابق ہے۔
تیسرا معنی :’’ لانبی حیی بعدہ۰ ‘‘حضور ﷺ کے بعد کوئی نبی زندہ نہیں۔ ان معنوںکوسامنے رکھ کرحضرت عائشہ ؓنے: ’’ لاتقولوا لانبی بعدہ۰ ‘‘فرمایا۔ اس لئے کہ خود ان سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کی روایات منقول ہیں۔
جواب۶:مرزا قادیانی نے اپنی کتاب آریہ دھرم ص ۵۴ روحانی خزائن ص ۶۰ ج ۱۰ کے حاشیہ پر لکھا ہے :
’’ دوسری کتب حدیث (بخاری ومسلم کے علاوہ)صرف اس صورت میں قبول کے لائق ہوں گے کہ قرآن اور بخاری اور مسلم کی متفق علیہ حدیث سے مخالف نہ ہوں۔‘‘
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
جب صحیحین کے مخالف مرزا کے نزدیک کوئی حدیث کی کتاب قابل قبول نہیں تو حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی طرف منسوب بے سند قول صحیحین کے مخالف قابل قبول ہوگا؟نیز مرزا نے اپنی تصنیف کتاب البریہ ص ۱۹۹ ‘ روحانی خزائن ص ۲۱۷ ج ۱۳ پر تحریر کیا ہے:’’ حدیث لانبی بعدی ایسی مشہور تھی کہ کسی کو اس کی صحت میں کلام نہ تھا۔‘‘
کیا یہ ممکن ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے ایسی مشہور وصحیح حدیث کے مخالف یہ قول ارشاد فرمایا ہو؟۔
جواب۷: حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا یہ قول اگر صحیح ہوتا توبھی مرزائیت کے منہ پر جوتا تھا۔ اس لئے کہ بخاری شریف کتاب العلم ص ۲۴ ج ۱ میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے ہی روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ قوم تازہ تازہ ایمان لائی ہے ورنہ میں بیت اﷲ شریف کو توڑ کر اس کے دو دروازے کردیتا۔ ایک سے لوگ داخل ہوتے دوسرے سے نکل جاتے۔ اس حدیث شریف کو لانے کے لئے امام بخاری نے باب باندھا ہے :’’ باب من ترک بعض الا ختیار مخافۃ ان یقصرفہم بعض الناس فیقعو افی اشدمنہ۰ ‘‘ کہ جب اس بات کا اندیشہ ہو کہ قاصر الفہم خرابی میں مبتلا ہوجائیں گے تو امر مختار کے اظہار کو ترک کردے۔ یہ روایت حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے بخاری شریف میں موجود ہے۔ کوئی شخص لانبی بعدی کی روایت سے قادیانی دجالوں کی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد کا انکار نہ کردے۔ اس لئے امر مختار لانبی بعدی کو آپ نے ترک کرنے کا حکم دیا۔ اس کی شاہدحضرت مغیرہ ؓ کی طرف منسوب وہ روایت ہے جو درمنشور ص ۲۰۴ ج ۵ پر ہے کہ کسی نے حضرت مغیرہ ؓ بن شعبہ کے سامنے خاتم الانبیاء لانبی بعدی کہا۔ تو حضرت مغیرہ ؓ نے فرمایا :’’ حسبک اذا قلت خاتم الانبیاء فانا کنا نحدث ان عیسیٰ خارج فان ھو خرج فقد کان قبلہ وبعدہ۰ ‘‘
جواب۸: اب قول عائشہ صدیقہ ؓ اور قول حضرت مغیرہ ؓ کی دونوں مکمل عبارتیں بمع ترجمہ وتشریح ملاحظہ ہوں:
’’ وفے حدیث عیسیٰ انہ تقتل الخنزیر ویکسر الصلیب ویزید فے الحلال اے یزید فی حلال نفسہ بان یتزوج ویولد لہ وکان لم یتزوج قبل رفعہ الی السماء فزاد بعد الہبوط فی الحلال فہینذ یومن کل احد من اھل الکتب یتیقن بانہ بشروعن عائشہ قولوا انہ خاتم الانبیاء ولا تقولو الانبی بعدہ وھذا ناظر الی نزول عیسیٰ وھذا ایضالا ینافی حدیث لانبی بعدہ لانہ اراد لانبی ینسخ شرعہ ۰ تکلمہ مجمع البحار ص ۸۵ ‘‘{حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قصہ میں ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نزول کے بعد خنزیر کو قتل کریں گے۔ اور صلیب کو توڑیں گے اور اپنے نفس کی حلال چیزوں میں اضافہ کریں گے یعنی نکاح کریں گے اور آپ کی اولاد ہوگی ۔ کیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے آسمان پر اٹھائے جانے سے پہلے نکاح نہیںفرمایا تھا۔ آسمان سے اترنے کے بعد نکاح فرمائیں گے۔ (جو لوازم بشریت سے ہے) پس اس حال کو دیکھ کر ہر شخص اہل کتاب میں سے ان کی نبوت پر ایمان لے آئے گا اور اس بات کا یقین کرے گا کہ عیسیٰ علیہ السلام بلاشبہ ایک بشر ہیں۔ خدا نہیں جیسا کہ نصاریٰ اب تک سمجھتے رہے۔ اور عائشہ صدیقہ ؓ سے جو یہ منقول ہے کہ وہ فرماتی تھیں کہ آپ ﷺ کو خاتم النبیین کہو اور یہ نہ کہو کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں۔ ان کا یہ ارشاد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کو پیش نظر رکھ کر تھا۔ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دوبارہ دنیا میں آنا حدیث لانبی بعدی کے منافی نہیں کیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نزول کے بعد حضور ﷺ ہی کی شریعت کے متبع ہوں گے۔ اور لانبی بعدی کی مراد یہ ہے کہ کوئی ایسا نبی نہ آئے گا جو آپ کی شریعت کا ناسخ ہو۔}
اور اسی قسم کا قول حضرت مغیرہ ابن شعبہ ؓسے منقول ہے:
’’ عن الشعبی قال قال رجل عند المغیرۃ بن شعبۃ صلی اﷲ علی محمد خاتم الانبیاء لانبی بعدہ فقال المغیرہ بن شعبۃ حسبک اذا قلت خاتم الانبیاء فانا کنا نحدث ان عیسیٰ علیہ السلام خارج ھو خرج فقد کان قبلہ وبعدہ۰تفسیر درمنشور ص ۲۰۴ج ۵ ‘‘{ شعبی ؒ سے منقول ہے کہ ایک شخص نے حضرت مغیرہ ؓ کے سامنے یہ کہا کہ اﷲ تعالیٰ رحمت نازل کرے محمد ﷺ پر جو خاتم الانبیاء ہیں اور ان کے بعد کوئی نبی نہیں۔ حضرت مغیرہ ؓ نے فرمایا خاتم الانبیاء کہہ دنیا کافی ہے۔ یعنی لانبی بعدہ کہنے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ ہم کو یہ حدیث پہنچی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام پھر تشریف لائیں گے۔ پس جب وہ آئیں گے تو ایک ان کا آنا محمد ﷺ سے پہلے ہوا اور ایک آنامحمد ﷺ کے بعد ہوگا۔}
پس جس طرح مغیرہ ؓ ختم نبوت کے قائل ہیں مگر محض عقیدہ نزول عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کی حفاظت کے لئے لانبی بعدی کہنے سے منع فرمایا اسی طرح حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے ختم نبوت کے عقیدہ کو تو خاتم النبیین کے لفظ
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
سے ظاہر فرمایا اور اس موہم لفظ کے استعمال سے منع فرمایا کہ جس لفظ سے عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے خلاف کا ابہام ہوتا تھا۔ ورنہ حاشایہ مطلب ہر گز نہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ حضور ﷺ کے بعد کسی قسم کی نبوت کو جائز کہتی ہیں۔
عجیب بات ہے کہ مرزائی صاحبان کے نزدیک ایک مجہول الاسناد اثر تو معتبر ہوجائے اور صحیح اور صریح روائیوں کا دفتر معتبر نہ ہو۔ اصل بات یہ ہے کہ جو لفظ ان کی خواہش کے مطابق کہیں سے مل جائیں ۔ وہ تو قبول ہے اور جو آیت اور حدیث خواہ کتنی صریح اور صاف کیوں نہ ہو وہ نہ مقبول :’’ افکلما جاء کم رسول بھالاتھوی انفسکم استکبرتم۰ ‘‘اور یہ پھر حضرت عائشہ صدیقہ ؓ وحضرت مغیرہؓ دونوں کے اقوال سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے مسئلہ کے پیش نظر ہیں۔ ان کے مطمع نظر کو قادیانی نظر انداز کردیتے ہیں۔ قرآن مجید نے اس یہودیانہ قادیانی تحریف کے مدنظر کیا سچ فرمایا:’’ افتؤمنون ببعض الکتاب وتکفرون ببعض۰ بقرہ ۸۵ ‘‘
مرزائی مفسر کی شہادت
محمد علی لاہوری بیان القرآن میں لکھتے ہیں:
’’ اور ایک قول حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا پیش کیا جاتا ہے جس کی سند کوئی نہیں:’’ قولوا خاتم النبیین ولاتقولوا لانبی بعدہ۰ ‘‘ خاتم النبیین کہو اور یہ نہ کہو کہ آ پ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں اور اس کایہ مطلب لیا جاتا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓکے نزدیک خاتم النبیین کے معنے کچھ اور تھے اور کاش وہ معنی بھی کہیں مذکور ہوتے۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے اپنے قول میں ہوتے۔ کسی صحابی ؓ کے قول میں ہوتے۔ نبی کریم ﷺ کی حدیث میں ہوتے مگر وہ معنی دربطن قائل ہیں اور اس قدر حدیثوں کی شہادت جن میں خاتم النبیین کے معنی لانبی بعدی کئے گئے ہیں ایک بے سند قول پر پس پشت پھینکی جاتی ہیں۔ یہ غرض پرستی ہے خدا پرستی نہیں کہ رسول اﷲ ﷺ کی تیس حدیثوں کی شہادت ایک بے سند قول کے سامنے رد کی جاتی ہے۔ اگر اس قول کوصحیح مانا جائے تو کیوں اس کے معنی یہ نہ کئے جائیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا مطلب یہ تھا کہ دونوں باتیں اکٹھی کہنے کی ضرورت نہیں خاتم النبیین کافی ہے۔ جیسا کہ حضرت مغیرہ بن شعبہؓ کا قول ہے کہ ایک شخص نے آپ کے سامنے کہا :’’ خاتم النبیین ولا نبی بعدہ۰ ‘‘تو آپ نے فرمایا کہ خاتم الانبیاء تجھے کہنا بس ہے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ آ پ کا مطلب ہو کہ جب اصل الفاظ خاتم النبیین واضح ہیں تو وہی استعمال کرو یعنی الفاظ قرآنی کو الفاظ حدیث پر ترجیح دو۔ اس سے یہ کہاں نکلا کہ آپ الفاظ حدیث کو صحیح نہ سمجھتی تھیں؟۔ اور اتنی حدیثوں کا مقابل اگر ایک حدیث ہوتی تو وہ بھی قابل قبول نہ ہوتی۔ چہ جائیکہ صحابی ؓ کا قول جو شرعا حجت نہیں۔‘‘(بیان القرآن ص ۱۱۰۳‘۱۱۰۴ ج ۲)
قادیانی سوال
اگر اس قول عائشہ صدیقہ ؓ کی سند نہیں تو کیا ہوا تعلیقات بخاری کی بھی سند نہیں۔
جواب :یہ بھی قادیانی دجل ہے ورنہ فتح الباری کے مصنف علامہ ابن حجر ؒ نے الگ ایک مستقل کتاب تصنیف کی ہے۔ جس کا نام تعلیق التعلیق ہے۔ اس میں تعلیقات صحیح بخاری کو موصول کیا ہے۔

اعتراض نمبر۳۵: مسجدی آخر المساجد

قادیانی:حضورﷺنے فرمایا:’’ مسجدی آخرالمساجد ۰ ‘‘ ظاہر ہے کہ حضور ﷺ کی مسجد کے بعد دنیا میں ہر روز مسجدیں بن رہی ہیں۔تو نبی بھی بن سکتے ہیں۔
جواب :یہ اشکال بھی قادیانی دجل کا شاہکار ہے۔اس لئے جہاں ’’ مسجدی آخر المساجد۰ ‘‘ کے الفاظ احادیث میں آئے ہیں وہاں روایات میں آخر مساجد الانبیاء کے الفاظ بھی آتے ہیں۔ تمام انبیاء علیہم السلام کی سنت مبارک یہ تھی کہ وہ اﷲ رب العزت کا گھر (مسجد) بناتے تھے۔تو انبیاء کرام کی مساجد میں سے آخری مسجد ‘ مسجد نبوی ہے۔ یہ ختم نبوت کی دلیل ہوئی نہ کہ اجرائے نبوت کی ۔ ترغیب والترہیب میں آخر المساجد الانبیاء کے الفاظ صراحت سے موجود ہیں۔ نیز کنز العمال ص ۲۵۶ ج ۶ باب فضل الحرمین میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے منقول ہے :’’ عن عائشہ ؓ قالت قال رسول اﷲ ﷺ انا خاتم الانبیاء ومسجدی خاتم المساجد الانبیائ۰ ‘‘
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

اعتراض نمبر۳۶: انک خاتم المہاجرین

قادیانی: حضور ﷺ نے اپنے چچا حضرت عباس ؓ سے فرمایا :’’ اطمئن یا عم (عباسؓ) انک خاتم المہاجرین فی الہجرۃ کما انا خاتم النبیین فی النبوۃ ۰ کنز العمال ص ۱۷۸ ج ۶ ‘‘اگر حضرت عباس ؓ کے بعد ہجرت جاری ہے تو حضور ﷺ کے بعد نبوت بھی جاری ہے۔
جواب :قادیانی اس روایت میں بھی دجل سے کام لیتے ہیں۔ اصل واقعہ یہ ہے کہ حضرت عباس ؓ مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ کے سفر پر روانہ ہوگئے تھے ۔ مکہ مکرمہ سے چند کوس باہر تشریف لے گئے تو راستہ میں مدینہ طیبہ سے آنحضرت ﷺ دس ہزار قدسیوں کا لشکر لے کر مکہ مکرمہ فتح کرنے کے لئے تشریف لے آئے۔ راستہ میں ملاقات ہوئی تو حضرت عباس ؓ کو افسوس ہوا کہ میں ہجرت کی سعادت سے محروم رہا۔ حضور ﷺ نے حضرت عباس ؓ کو تسلی وحصول ثواب کی بشارت دیتے ہوئے یہ فرمایا ۔ اس لئے واقعتہ مکہ مکرمہ سے ہجرت کرنے والے آخری مہاجر حضرت عباس ؓ تھے۔ اس لئے کہ ہجرت دار الکفر سے دار الاسلام کی طرف کی جاتی ہے۔ مکہ مکرمہ رحمت دو عالم ﷺ کے ہاتھوں ایسے فتح ہوا جو قیامت کی صبح تک دار الاسلام رہے گا۔ تو مکہ مکرمہ سے آخری مہاجر واقعی حضرت عباس ؓ ہوئے۔ آپ ﷺ کا فرمانا:’’ اے چچا تم ختم المہاجرین ہو۔‘‘ تمہارے بعد جو بھی مکہ مکرمہ چھوڑ کر آئے گا اسے مہاجر کا لقب نہیں ملے گا۔ اس لئے امام بخاری ؒ فرماتے ہیں :’’ لا ھجرۃ بعد الفتح ۰ بخاری ص ۴۳۳ج۱ ‘‘ حضرت حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ اصابہ ص ۲۷۱ج ۲ طبع بیروت میں فرماتے ہیں:
’’ ھاجر قبل الفتح بقلیل وشہدا الفتح۰ ‘‘{ حضرت عباس ؓ نے فتح مکہ سے قدرے پیشتر ہجرت کی اور آپ فتح مکہ میں حاضر تھے۔}

اعتراض نمبر۳۷: ابوبکرخیرالناس

قادیانی:’’ ابوبکر خیر الناس الا ان یکون نبیا۰ ‘‘ابوبکر تمام لوگوں سے افضل ہیں۔ مگر یہ کہ کوئی نبی ہو اس سے معلوم ہوا کہ نبوت جاری ہے۔
جواب ۱: ابوبکر خیر الناس سے مرادعام لوگ ہیں۔ الناس سے مرادنبی نہیں۔ اگر الناس سے مراد نبی ہوں تو پھر آ پ کو خیر الناس کا لقب نہیں ملے گا۔ اس کی تائید واقعات عالم کے علاوہ وہ روایتیں بھی کرتی ہیں جو آپ کی فضلیت میں وارد ہوئی ہیں۔ گویا آسان لفظوں میں اس کا مفہوم یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے علاوہ باقی تمام لوگوں سے حضرت ابوبکرصدیق ؓ افضل ہیں۔
جواب ۲:یہ روایت کنزالعمال ص ۱۶۱ ج ۱۲ (طبع ۲دکن) کی ہے۔ اس کے آگے ہی لکھا ہے کہ :’’ ھذا الحدیث احد ماانکر۰ ‘‘یہ روایت ان میں سے ایک ہے جس پر انکار کیا گیا ہے۔ ایسی منکر روایت سے عقیدہ کے لئے استدلال قادیانی دجل کا شاہکار ہے۔
جواب ۳:کنز العمال ص ۱۵۹ ج ۱۲ روایت ۸۰۴ حضرت ابن مسعود ؓ سے مروی ہے:’’ ماصحب النبیین والمرسلین اجمعین ولا صاحب یٰسین۰افضل من ابی بکر ‘‘{رحمت دو عالم ﷺ سمیت تمام انبیاء ورسل کے صحابہ سے ابوبکرصدیق ؓافضل ہیں۔}
حاکم میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے کنز العمال میں ص ۱۸۰ ج ۱۲ پر روایت ہے کے الفاظ ہیں:
’’ ابوبکر وعمر خیر الاولین والا خرین وخیر اھل السمٰوات وخیر اھل الا رضین الا النبیین والمرسلین۰ ‘‘ {زمینوں وآسمانوں کے تمام اولین وآخرین سوائے انبیاء ومرسلین کے باقی سب سے ابوبکر ؓوعمرؓ افضل ہیں۔}
ان روایات کو سامنے رکھیں تو مطلب واضح ہے کہ انبیاء کے علاوہ ابوبکر ؓباقی سب سے افضل ہیں۔ لیجئے اب ان تمام روایات کے سامنے آتے ہی قادیانی دجل پارہ پارہ ہوگیا۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

اعتراض نمبر۳۸: انا مقفی

قادیانی:حضور ﷺ فرماتے ہیں:’’ انا مقفی ‘‘آپ ﷺ کے بعد جو نبی آئیں گے‘ وہ مقفی ‘آپ ان کے مقفی‘ ان کے آپ مطاع ہوں گے مقفی ہوں گے۔
جواب :’’ قفینا من بعدہ باالرسل ‘‘آیت کریمہ دال ہے کہ یہاں الذی قفی بہ سب کے آخر میں تشریف لانے والے کو معنی دیتا ہے۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری سے روایت ہے :’’ انا محمد واحمد والمقفی قال النووی المقفی العاقب۰ ‘‘ آخری

اعتراض نمبر۳۹: اذا ھلک کسری

قادیانی: لانبی بعدی میں لا نفی کمال کے لئے ہے۔ یعنی کامل نبی تشریعی آپ ﷺ کے بعد نہ ہوں گے بلکہ غیر تشریعی ہوں گے۔ جیسے:
’’ اذا ھلک کسری فلا کسری بعدہ واذا ھلک قیصر فلا قیصر بعدہ۰ ‘‘
جواب ۱:’’ لانبی بعدی میں لا نفی جنس کا ہے ۔ جیسے:’’ ذالک الکتاب لاریب فیہ۰ لاالہ الا اﷲ ‘‘میں جیسا کہ خود مرزا قادیانی نے بھی ایام الصلح ص ۱۴۶ خزائن ص ۳۹۴ ج ۱۴ پر لکھا ہے کہ حدیث لانبی بعدی میں لانفی عام ہے۔
جہاں تک:’’ اذا ھلک کسری فلا کسری بعدہ ‘‘کا تعلق ہے۔ جب قریش مسلمان ہوگئے تو انہیں اندیشہ ہوا کہ ہمارا شام وعراق میں داخلہ بن ہوجائے گا۔ جبکہ ان کی تجارت کا تمام تر تعلق ان علاقوں سے تھا۔ کیونکہ قریش سردی میں یمن ‘ عراق اور گرمی میں شا م کا سفر کرتے تھے۔جیسا کہ آیت کریمہ رحلۃ الشتاء والصیف کی تفسیر میں مذکور ہے۔ کسری وقیصر کسی خاص آدمی کے نام نہیں بلکہ جاہلیت میں فارس وروم کے بادشاہوں کے لقب کسری وقیصر تھے۔ تو حضور ﷺ نے مومنین کی تسلی کے لئے فرمایا کہ تمہاری تجارت گاہیں ان کے وجود ہی سے پاک کردی جائیں گی۔ اگر مملکت فارس قبضہ اسلام میں آجائے تو کسری کا لقب جاتا رہے گا۔ اور مملکت روم کے آجانے سے لقب قیصر بھی جاتا رہے گا۔ چنانچہ ایسا ہوا کہ کسری وکسر ویت کا تو باالکل خاتمہ ہوگیا۔ اور قیصر نے ملک شام چھوڑ کر اور وہان سے بھاگ کر اور جگہ پناہ لی۔
علامہ نووی نے ص ۳۹۶ ج ۲ میں لکھا ہے:
’’ قال الشافعی وسائر العلماء معناہ لایکون کسری باالعراق وقیصر باالشام کما کان فی زمنہ ﷺ فاعلمنا بانقطاع ملکھما فی ھذین الا قیلمین۰ ‘‘{امام شافعی اور تمام علماء نے فرمایا ہے کہ اس حدیث کا معنی یہ ہیں کسری عراق میں اور قیصر شام میں باقی نہ رہے گا۔ جیسا کہ حضور ﷺ کے زمانہ میں تھے۔(پس حضور ﷺ نے ان کے انقطاع سلطنت کی خبر دی) کہ دونوں اقلیموں میں ان کی سلطنت باقی نہ رہے گی۔}
چنانچہ ایسے ہوا۔ لہذا یہ حدیث شریف اپنے ظاہری معنی پر ہی مستعمل ہے۔ اس میں مرزائی وسوسہ کاشائبہ ہی نہیں۔
جواب ۲: حضور ﷺ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا :’’ اماتری انت منی بمنزلۃ ہارون من موسیٰ الا انہ لانبی بعدی۰ ‘‘کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ اے علی ؓ تو میرے جیسا کامل نبی نہیں ہوگا۔ مگر گھٹیا نبی ہوگا۔ (معاذاﷲ)
جواب ۳: آنحضرت ﷺ سے پہلے صاحب کتاب اور بغیر کتاب نبی آتے رہے۔ (اخبار بدر۵ مارچ ۱۹۰۸ئ) آپ ﷺ کو خاتم النبیین کہا گیا۔ یعنی دونوں قسم کے انبیاء کے آپ ﷺ خاتم ہوئے۔ اب اگر آپ ﷺ کے بعد کوئی بغیر کتاب کے نبی آجائے تو خاتم الانبیاء کیسے ہوئے۔ اور فضلیت کیا ہوئی؟۔
جواب ۴:اگر لانبی میں لا نفی کمال کے لئے ہے یعنی آپ ﷺ جیسا کوئی نبی نہیں آئے گا تو اس لحاظ سے تو موسیٰ علیہ السلام بھی خاتم النبیین ہوئے۔اس لئے کہ ان کے بعد جتنے خلفاء آئے کوئی ان جیسا نہ تھا۔ جیسا کہ مرزا نے اپنی کتاب شہادت القرآن ص ۲۶‘۲۷ خزائن ص ۳۲۲ ج ۶ پر لکھا ہے:
 
Top