محمد اسامہ حفیظ
رکن ختم نبوت فورم
بھائی کا زندہ ہونا مرزا کے خاتم الاولاد کے خلاف نہیں ہے۔ تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا تشریف لانا بھی رحمت دو عالم ﷺ کی ختم نبوت کے منافی نہیں ہے۔
جواب ۳: خاتم النبیین کا معنی یہ کہ انبیاء کا شمار اب بند ہوگیا ہے ۔ اور کوئی ایسا نبی نہ ہوگا۔ جس کے آنے سے انبیاء کی تعداد میں اضافہ ہو آپ ﷺ آخری نبی ہیں۔ یعنی انبیاء کا شمار زیادہ ہوتا گیا۔ حتیٰ کہ آخری نمبر زمانہ کے لحاظ سے آنحضرت ﷺکا نمبر ٹھہرا۔ فرض کرو کہ آنحضرت ﷺ سے پہلے ایک لاکھ ایک کم چوبیس ہزار انبیاء ہوچکے تھے ۔ تو آپ ﷺ کے آنے سے پورے ایک لاکھ چوبیس ہزار کی گنتی پوری ہوگئی۔ اب آپ ﷺ نے آکر انبیاء کے شمار وتعداد کو بند کردیا۔اگرچہ آنحضرت ﷺ کی نبوت سب سے اول تھی لیکن زمانہ کے لحاظ سے ظہور آپ ﷺ کا سب سے آخیر میں ہوا۔ اب کسی شخص کو آنحضرت ﷺ کے بعد انبیاء سابقین کے علاوہ اگر منصب نبوت پر فائز کیا جائے تو پھر اس کے آنے سے یقینا انبیاء کے شمار میں اضافہ ہوگا۔ مثلاپھر ایک لاکھ چوبیس ہزار اور ایک نبی ہوجائیں گے۔ اور پہلے انبیاء کی جو گنتی بند ہوچکی تھی وہ بند نہ ہوگی اور اس تعداد پر زیادتی ہوجائے گی اور یہ ختم نبوت کے منافی ہوگا۔
اب اس معنی کے بعد عرض کروں گا کہ حضرت مسیح علیہ السلام اگر آنحضرت ﷺ کے بعد دوبارہ تشریف فرما ہوں تو اس سے ختم نبوت اور خاتم النبیین کے مفہوم میں کوئی کسی قسم کا خلل واقع نہ ہوگا۔ کیونکہ حضرت مسیح کا شمار تو پہلے ہوچکا ہے۔ اب وہ دوبارہ نہیں۔ اگر بالفرض سہ باربھی آجائیں یا چالیس سال نہیں بلکہ اس سے زیادہ سال بھی ان پر وحی ہوتی رہے بلکہ اس سے بڑھ کر بالفرض اگر تمام انبیاء کرام سابقین بھی دوبارہ آجائیں تو ا س سے ختم نبوت اور خاتم النبیین کے مفہوم میں کسی قسم کی خرابی نہ ہوگی۔ کیونکہ ان سب انبیاء کرام کا شمار پہلے ہوچکا ہے۔اب ان کے دوبارہ آنے سے سابقہ تعداد میں کوئی اضافہ نہ ہوگا اور آخری نبی اور خاتم النبیین بھی آنحضرت ﷺ ہی رہیں گے۔ کیونکہ ظہور کے لحاظ سے اور زمانہ کے لحاظ سے آخری نمبر پر آنحضرت ﷺ کوہی نبوت عطا ہوئی ہے۔ آپ ﷺ کے بعد کسی کو نبوت عطا نہ ہوگی اسی مفہوم کو ہمارے اہل اسلام علماء نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔ تفسیر روح المعانی ص ۳۲ ج ۲۲ پر ہے:
’’ انقطاع حدوث وصف النبوۃ فی احد من الثقلین بعد تحیتہ علیہ الصلوٰۃ والسلام بھا فی ھذہ النشاۃٔ۰ ‘‘{یعنی اس عالم ظہور میں آنحضرت ﷺ کے منصب نبوت سے ممتاز ہوچکنے کے بعد کسی کو وصف نبوت سے نہ نوازا جائے گا۔}
تفسیر خازن ص ۲۱۸ ج ۵ :’’ خاتم النبیین ختم بہ النبوۃ بعدہ۰ ‘‘یعنی آنحضرت ﷺ کے بعد اب کسی کو نبوت حاصل ہو‘ یہ نہ ہوگا۔ بلکہ نبوت ختم ہوچکی ہے نہ یہ کہ پہلے انبیاء کی نبوت بھی سلب ہوگئی ہے۔
تفسیر مدارک ص ۲۱۱ :’’ خاتم النبیین آخرھم یعنی لا ینئبا احد بعدہ۰ ‘‘ مطلب یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعداب کسی کو نئی نبوت نہ حاصل ہوگی کیونکہ آپ ﷺ آخری نبی ہیں۔ یعنی آ پ ﷺ کا نمبر زمانہ اور ظہور کے لحاظ سے سب سے آخری نمبر ہے۔
پس حاصل جواب یہ ہوا کہ آنحضرت ﷺ کے بعد حضرت مسیح علیہ السلام کے دوبارہ آنے سے انبیاء کرام کے شمار میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔ جو تعداد انبیاء کرام کی پہلے تھی وہی باقی رہے گی۔
لیکن مرزا قادیانی یا مسیلمہ کذاب یا ان جیسے مدعیان نبوت کی نبوت کو صحیح تسلیم کرنے سے خاتم النبیین اور ختم نبوت کا مفہوم بالکل بگڑجائے گا اور جو شمار انبیاء کرام کا پہلے ہوچکا ہے اس پر یقینا اضافہ کرنا ہوگا کیونکہ مرزا اور اس کے یاران طریقیت تمام مدعیان کا پہلے اعداد میں شمار نہیں ہوا۔ لہذا وہ پہلے نمبروںپر زائد ہوں گے۔ مثلا فرض کرو کہ اگر ایک لاکھ بیس ہزار انبیاء کا شمار تھا تو اب اس عدد پر ایک یا دو یا تیس چالیس کا اضافہ ہوجائے گا اور آخری نمبر پر پھر مرزا قادیانی کاہوگا وہی خاتم النبیین ٹھہرے گا۔(نعوذ باﷲ) اس اجمالی عرض داشت سے مرزا کے آنے سے ختم نبوت کے مفہوم کا بگڑجانا اور حضرت مسیح کے دوبارہ آنے سے مفہوم خاتم النبیین میں کوئی فرق نہ پڑنا بالکل روز روشن کی طرح واضح ہوچکا ہے۔ فالحمدﷲ علی ذالک ۰
ضمنی بات
جواب ۳: خاتم النبیین کا معنی یہ کہ انبیاء کا شمار اب بند ہوگیا ہے ۔ اور کوئی ایسا نبی نہ ہوگا۔ جس کے آنے سے انبیاء کی تعداد میں اضافہ ہو آپ ﷺ آخری نبی ہیں۔ یعنی انبیاء کا شمار زیادہ ہوتا گیا۔ حتیٰ کہ آخری نمبر زمانہ کے لحاظ سے آنحضرت ﷺکا نمبر ٹھہرا۔ فرض کرو کہ آنحضرت ﷺ سے پہلے ایک لاکھ ایک کم چوبیس ہزار انبیاء ہوچکے تھے ۔ تو آپ ﷺ کے آنے سے پورے ایک لاکھ چوبیس ہزار کی گنتی پوری ہوگئی۔ اب آپ ﷺ نے آکر انبیاء کے شمار وتعداد کو بند کردیا۔اگرچہ آنحضرت ﷺ کی نبوت سب سے اول تھی لیکن زمانہ کے لحاظ سے ظہور آپ ﷺ کا سب سے آخیر میں ہوا۔ اب کسی شخص کو آنحضرت ﷺ کے بعد انبیاء سابقین کے علاوہ اگر منصب نبوت پر فائز کیا جائے تو پھر اس کے آنے سے یقینا انبیاء کے شمار میں اضافہ ہوگا۔ مثلاپھر ایک لاکھ چوبیس ہزار اور ایک نبی ہوجائیں گے۔ اور پہلے انبیاء کی جو گنتی بند ہوچکی تھی وہ بند نہ ہوگی اور اس تعداد پر زیادتی ہوجائے گی اور یہ ختم نبوت کے منافی ہوگا۔
اب اس معنی کے بعد عرض کروں گا کہ حضرت مسیح علیہ السلام اگر آنحضرت ﷺ کے بعد دوبارہ تشریف فرما ہوں تو اس سے ختم نبوت اور خاتم النبیین کے مفہوم میں کوئی کسی قسم کا خلل واقع نہ ہوگا۔ کیونکہ حضرت مسیح کا شمار تو پہلے ہوچکا ہے۔ اب وہ دوبارہ نہیں۔ اگر بالفرض سہ باربھی آجائیں یا چالیس سال نہیں بلکہ اس سے زیادہ سال بھی ان پر وحی ہوتی رہے بلکہ اس سے بڑھ کر بالفرض اگر تمام انبیاء کرام سابقین بھی دوبارہ آجائیں تو ا س سے ختم نبوت اور خاتم النبیین کے مفہوم میں کسی قسم کی خرابی نہ ہوگی۔ کیونکہ ان سب انبیاء کرام کا شمار پہلے ہوچکا ہے۔اب ان کے دوبارہ آنے سے سابقہ تعداد میں کوئی اضافہ نہ ہوگا اور آخری نبی اور خاتم النبیین بھی آنحضرت ﷺ ہی رہیں گے۔ کیونکہ ظہور کے لحاظ سے اور زمانہ کے لحاظ سے آخری نمبر پر آنحضرت ﷺ کوہی نبوت عطا ہوئی ہے۔ آپ ﷺ کے بعد کسی کو نبوت عطا نہ ہوگی اسی مفہوم کو ہمارے اہل اسلام علماء نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔ تفسیر روح المعانی ص ۳۲ ج ۲۲ پر ہے:
’’ انقطاع حدوث وصف النبوۃ فی احد من الثقلین بعد تحیتہ علیہ الصلوٰۃ والسلام بھا فی ھذہ النشاۃٔ۰ ‘‘{یعنی اس عالم ظہور میں آنحضرت ﷺ کے منصب نبوت سے ممتاز ہوچکنے کے بعد کسی کو وصف نبوت سے نہ نوازا جائے گا۔}
تفسیر خازن ص ۲۱۸ ج ۵ :’’ خاتم النبیین ختم بہ النبوۃ بعدہ۰ ‘‘یعنی آنحضرت ﷺ کے بعد اب کسی کو نبوت حاصل ہو‘ یہ نہ ہوگا۔ بلکہ نبوت ختم ہوچکی ہے نہ یہ کہ پہلے انبیاء کی نبوت بھی سلب ہوگئی ہے۔
تفسیر مدارک ص ۲۱۱ :’’ خاتم النبیین آخرھم یعنی لا ینئبا احد بعدہ۰ ‘‘ مطلب یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعداب کسی کو نئی نبوت نہ حاصل ہوگی کیونکہ آپ ﷺ آخری نبی ہیں۔ یعنی آ پ ﷺ کا نمبر زمانہ اور ظہور کے لحاظ سے سب سے آخری نمبر ہے۔
پس حاصل جواب یہ ہوا کہ آنحضرت ﷺ کے بعد حضرت مسیح علیہ السلام کے دوبارہ آنے سے انبیاء کرام کے شمار میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔ جو تعداد انبیاء کرام کی پہلے تھی وہی باقی رہے گی۔
لیکن مرزا قادیانی یا مسیلمہ کذاب یا ان جیسے مدعیان نبوت کی نبوت کو صحیح تسلیم کرنے سے خاتم النبیین اور ختم نبوت کا مفہوم بالکل بگڑجائے گا اور جو شمار انبیاء کرام کا پہلے ہوچکا ہے اس پر یقینا اضافہ کرنا ہوگا کیونکہ مرزا اور اس کے یاران طریقیت تمام مدعیان کا پہلے اعداد میں شمار نہیں ہوا۔ لہذا وہ پہلے نمبروںپر زائد ہوں گے۔ مثلا فرض کرو کہ اگر ایک لاکھ بیس ہزار انبیاء کا شمار تھا تو اب اس عدد پر ایک یا دو یا تیس چالیس کا اضافہ ہوجائے گا اور آخری نمبر پر پھر مرزا قادیانی کاہوگا وہی خاتم النبیین ٹھہرے گا۔(نعوذ باﷲ) اس اجمالی عرض داشت سے مرزا کے آنے سے ختم نبوت کے مفہوم کا بگڑجانا اور حضرت مسیح کے دوبارہ آنے سے مفہوم خاتم النبیین میں کوئی فرق نہ پڑنا بالکل روز روشن کی طرح واضح ہوچکا ہے۔ فالحمدﷲ علی ذالک ۰
ضمنی بات