محمد اسامہ حفیظ
رکن ختم نبوت فورم
اقوال مرزا:۱
’’اس پر اتفاق ہوگیا ہے کہ مسیح کے نزول کے وقت اسلام دنیا پر کثرت سے پھیل جائے گا اور ملل باطلہ ہلاک ہو جائیں گے اور راست بازی ترقی کرے گی۔‘‘ (ایام الصلح ص۱۳۶، خزائن ج۱۴ ص۳۸۱)۲… ’’میرے آنے کے دو مقصد ہیں۔ مسلمانوں کے لئے یہ کہ اصل تقویٰ اور طہارت قائم ہو اور عیسائیوں کے لئے کسر صلیب اور ان کا مصنوعی خدا نظر نہ آئے۔ دنیا اس کو بھول جائے۔ خدائے واحد کی عبادت ہو۔‘‘
(الحکم مورخہ ۱۷؍جولائی ۱۹۰۵ء ج۹ ش۲۵ ص۱۰ کالم۴)
۳… ’’اور پھر اسی ضمن میں (رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے) مسیح موعود کے آنے کی خبر دی اور فرمایا کہ اس کے ہاتھ سے عیسائی دین کا خاتمہ ہوگا۔‘‘ (شہادت القرآن ص۱۲، خزائن ج۶ ص۳۰۷)
۴… ’’ وَنُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَجَمَعَنٰہُمْ جَمَعًا ‘‘ {خدا تعالیٰ کی طرف سے صور پھونکا جائے گا۔} کے تحت مرزاقادیانی نے لکھا ہے: ’’تب ہم تمام مذاہب کو ایک ہی مذہب پر جمع کر دیں گے۔‘‘
(شہادت القرآن ص۱۵، خزائن ج۶ ص۳۱۱)
۵… ’ ’وَنُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَجَمَعَنٰہُمْ جَمَعًا یعنی یاجوج ماجوج کے زمانہ میں بڑا تفرقہ اور پھوٹ لوگوں میں پڑ جائے گی اور ایک مذہب دوسرے مذہب پر اور ایک قوم دوسری قوم پر حملہ کرے گی۔ تب ان دنوں خداتعالیٰ اس پھوٹ کے دور کرنے کے لئے آسمان سے بغیر انسانی ہاتھوں کے اور محض آسمانی نشانوں سے اپنے کسی مرسل کے ذریعہ جو صور یعنی قرنا کا حکم رکھتا ہوگا۔ اپنی پرہیبت آواز لوگوں تک پہنچائے گا۔ جس میں ایک بڑی کشش ہوگی اور اس طرح پر خداتعالیٰ تمام متفرق لوگوں کو ایک مذہب پر جمع کر دے گا۔‘‘ (چشمہ معرفت ص۸۰، خزائن ج۲۳ ص۸۸)
۶… ’’خدا نے تکمیل اس فعل کی جو تمام قومیں ایک قوم کی طرح بن جائیں اور ایک ہی مذہب پر ہو جائیں زمانہ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے آخیری حصہ میں ڈال دی جو قریب قیامت کا زمانہ ہے۔‘‘
(چشمہ معرفت ص۸۲، ۸۳، خزائن ج۲۳ ص۹۰،۹۱)
۷… ’’خداتعالیٰ نے ہمارے نبی سیدنا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا میں بھیجا۔ تابذریعہ اس تعلیم قرآنی کے جو تمام عالم کی طبائع کے لئے مشترک ہے۔ دنیا کی تمام متفرق قوموں کو ایک قوم کی طرح بنادے اور جیسا کہ وہ وحدہ لاشریک ہے۔ ان میں بھی ایک وحدت پیدا کر لے اور تا وہ سب مل کر ایک وجود کی طرح اپنے خدا کو یاد کریں اور اس کی وحدانیت کی گواہی دیں اور تاپہلی وحدت قومی جو ابتدائے آفرینش میں ہوئی اور آخری وحدت اقوامی جس کی بنیاد آخری زمانہ میں ڈالی گئی… یہ دونوں قسم کی وحدتیں خدائے وحدہ لاشریک کے وجود اور اس کی وحدانیت پر دوہری شہادت ہو۔ کیونکہ وہ واحد ہے۔‘‘ (چشمہ معرفت ص۸۲، خزائن ج۲۳ ص۹۰)
۸… ’’وحدت اقوامی کی خدمت اسی نائب النبوۃ (مسیح موعود) کے عہد سے وابستہ کی گئی ہے اور اسی کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے اور وہ یہ ہے۔ ’’ ہُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیَظْہَرَہٗ عَلٰی الدِّیْنِ کُلِّہٖ ‘‘ یہ عالمگیر غلبہ مسیح موعود کے وقت میں ظہور میں آئے گا۔‘‘ (چشمہ معرفت ص۳۸، خزائن ج۲۳ ص۹۱)
ناظرین ہم نے احادیث نبوی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام اور اقوال مرزا سے ثابت کر دیا ہے کہ مسیح علیہ السلام کے وقت میں تمام مذاہب سوائے اسلام کے مٹ جائیں گے۔ اب اگر مرزائی وہی مرغی کی ایک ٹانگ کی رٹ ہی لگائے جائیں تو پھر مذکورہ بالا اقوال مرزا کو تو کم ازکم فضول اور لا یعنی کہنا پڑے گا۔ ایسا وہ کہہ نہیں سکتے کیونکہ مرزاقادیانی ان کے نزدیک حکم ہے اور ’’ جری اللّٰہ فی حلل الانبیاء ‘‘ ہے۔ پس ثابت ہوا کہ ان کا یہ اعتراض بالکل جہالت پر مبنی ہے۔
قادیانی اعتراض:۶
جب سب مومن ہو جائیں گے تو پھر غلبہ کن کافروں پر ہوگا؟جواب: ۱… کافروں پر غلبہ اسی وقت تک ہے جب تک کافر موجود ہوں۔ جب کافر ہی نہ رہیں گے سب مومن ہو جائیں گے۔ اس وقت سوال اٹھانا ہی دلیل جہالت ہے۔
قرآن میں بھی اور حدیث میں بھی سب کا مومن ہونا مرقوم ہے۔ پھر ایک حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ اس زمانہ میں ’’ لیس بین اثنین عداوۃ ‘‘ (مشکوٰۃ ص۴۸۱، باب لاتقوم الساعۃ)
پھر اس کے بعد جب کافر رہ جائیں گے اس وقت مومن ہی کوئی نہ ہوگا۔ لہٰذا وہاں بھی یہ اعتراض نہیں ہوسکتا کیونکہ غلبہ مومنوں کا تبھی تک موعود ہے جب تک مومن رہیں۔ غرض ’’الٰی یوم القیمۃ‘‘ سے مراد قرب قیامت ہے۔
۲… ایمان اور عداوت میں باہمی منافات نہیں ہے۔ دونوں باہم جمع ہوسکتے ہیں۔ سمجھ میں نہ آئے تو قادیانیوں اور لاہوریوں کو دیکھ لیجئے کہ دونوں احمدی کہلاتے ہیں اور ایمان کا بھی دعویٰ ہے۔ لیکن آپس میں کتنی منافرت اور عداوت ہے؟
اس حدیث نے صاف فیصلہ کر دیا کہ یہود ونصاریٰ کی عداوت، مومنوں کا کافروں پر غلبہ، جس کے لئے قرآن میں ’’ الٰی یوم القیامۃ ‘‘ وارد ہے۔ اس کا مطلب قرب قیامت ہی ہے۔
حیات مسیح علیہ السلام کی تیسری دلیل
’’ وَمَکَرُوْا وَمَکَرَ اللّٰہِ وَاللّٰہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْنَ (آل عمران:۵۴) ‘‘ {اور مکر کیا ان کافروں نے اور مکر کیا اﷲ نے اور اﷲ کا داؤ سب سے بہتر ہے۔}تفسیری شواہد
۱… علامہ عثمانی رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں: مکر کہتے ہیں لطیف وخفیہ تدبیر کو۔ اگر وہ اچھے مقصد کے لئے ہو، اچھا ہے اور برائی کے لئے ہو تو برا ہے۔ اسی لئے ’’ ولا یحیق المکر السیٔ ‘‘ میں مکر کے ساتھ ’’سیی‘‘ کی قید لگائی اور یہاں خدا کو ’’ خیرالماکرین ‘‘ کہا۔ مطلب یہ ہے کہ یہود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے خلاف طرح طرح کی سازشیں اور خفیہ تدبیریں شروع کر دیں۔ حتیٰ کہ بادشاہ کے کان بھردئیے کہ یہ شخص (معاذ اﷲ) ملحد ہے۔ تورات کو بدلنا چاہتا ہے۔ سب کو بددین بنا کر چھوڑے گا۔ اس نے مسیح علیہ السلام کی گرفتاری کاحکم دے دیا۔ ادھر یہ ہورہا تھا اور ادھر حق تعالیٰ کی لطیف وخفیہ تدبیر ان کے توڑ میں اپنا کام کر رہی تھی۔ بے شک خدا کی تدبیر سب سے بہتر اور مضبوط ہے جسے کوئی نہیں توڑ سکتا۔ (تفسیر عثمانی)۲… علامہ کاندھلوی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’ وَمَکَرُوْا وَمَکَرَ اللّٰہُ ‘‘ سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ توفی سے پورا پورا لینا اور آسمان پر اٹھایا جانا مراد ہو۔ کیونکہ باجماع مفسرین ’’ وَمَکَرُوْا ‘‘ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قتل اور صلب کی تدبیریں مراد ہیں اور ’’ مَکَرَ اللّٰہُ ‘‘ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حفاظت کی تدبیر مراد ہے اور ’’ مَکَرَ اللّٰ ہُ‘‘ کو ’’ مَکَرُوْا ‘‘ کے مقابلہ میں لانے سے اس طرف اشارہ ہے کہ یہود کا مکر اور ان کی تدبیر تو نیست اور ناکام ہوئی اور اﷲ سبحانہ کا ارادہ اور اس کی تدبیر غالب آئی۔ ’’ وَاللّٰہُ غَالِبٌ عَلٰی اَمْرِہٖ (یوسف:۲۱) ‘‘ جیسے ’’ اِنَّہُمْ یَکِیْدُوْنَ کَیْدًا وَّاَکِیْدُ کَیْدًا (الطارق:۱۵،۱۶) ‘‘ {وہ بھی تدبیر کر رہے ہیں اور میں بھی تدبیر کر رہا ہوں۔} اور دوسری جگہ ارشاد ہے: ’’ قَالُوْا تَقَاسَمُوْا بِاللّٰہِ لَنُبَیِّتَنَّہٗ وَاَہْلَہٗ ثُمَّ لَنَقُوْلَنَّ لِوَلِیِّہٖ مَا شَہِدْنَا مَہْلِکَ اَہْلِہٖ وَاِنَّا لَصٰدِقُوْنَP وَمَکَرُوْا مَکْرًا وَّمَکَرْنَا مَکْرًا وَّہُمْ لَا یَشْعُرُوْنَP فَانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ مَکْرِہِمْ اَنَّا دَمَّرْنٰہُمْ وَقَوْمَہُمْ اَجْمَعِیْنَ (النمل:۴۹تا۵۱) ‘‘ {قوم ثمود نے آپس میں کہا کہ قسمیں اٹھاؤ کہ ہم شب کے وقت صالح علیہ السلام اور ان کے متعلقین کو قتل کر ڈالیں اور بعد میں ان کے وارثوں سے کہہ دیں گے کہ ہم اس موقعہ پر حاضر نہ تھے اور ہم سچے ہیں۔}
اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں اس طرح انہوں نے صالح علیہ السلام کے قتل کے مشورے اور تدبیریں کیں اور اس نے بھی ان کے بچانے کی خفیہ تدبیر کی کہ ان کو خبر بھی نہ ہوئی وہ یہ کہ پہاڑ سے ایک بھاری پتھر لڑھک کر ان پر آگرا جس سے دب کر سب مر گئے۔ (کما فی الدرالمنثور)
دیکھ لیا کہ ان کے مکر کا کیا انجام ہوا؟ ہم نے اپنی تدبیر سے سب کو غارت کر ڈالا۔ اسی طرح اس آیت میں ’’مکروا‘‘ کے بعد ’’ومکر اللّٰہ‘‘ مذکور ہے۔ جس سے حق جل شانہ کو یہ بتلانا مقصود ہے کہ یہود نے جو قتل کی تدبیرکی وہ تو کارگر نہ ہوئی۔ مگر ہم نے جو ان کی حفاظت کی نرالی اور انوکھی تدبیر کی وہی غالب ہوکر رہی۔ پس اگر روح اور جسم کا پوراپورا لینا مراد نہ لیا جائے۔ بلکہ توفی سے موت مراد لی جائے تو یہ کوئی ایسی تدبیر نہیں جو یہود کی مغلوبی اور ناکامی کا سبب بن سکے۔ بلکہ موت کی تدبیر تو یہود کی عین تمنا اور آرزو کے مطابق ہے۔ کفار مکہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی تدبیریں کیں اور اﷲتعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کی تدبیر کی ’’ کَمَا قال تَعَالٰی وَیَمْکُرُوْنَ وَیَمْکُرُ اللّٰہُ وَاللّٰہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْنَ (الانفال:۳۰) ‘‘ کفار مکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی تدبیریں کر رہے ہیں اور اﷲتعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کی تدبیر کر رہا ہے اور اﷲ تعالیٰ بہترین تدبیر فرمانے والے ہیں۔ اﷲتعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار مکہ کے منصوبوں سے آگاہ کیا اور صحیح وسالم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرادی۔ اسی طرح حق تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق فرمایا تھا: ’’وَمَکَرُوْا وَمَکَرَ اللّٰہُ وَاللّٰہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْنَ‘‘ یعنی یہود نے آپ کے قتل کی تدبیریں کیں اور اﷲتعالیٰ نے آپ کی حفاظت کی تدبیر کی کہ دشمنوں کے ہاتھ سے صحیح وسالم نکال کر آسمان کی طرف ہجرت کرادی۔ اب اس ہجرت کے بعد نزول اور تشریف آوری زمین کے فتح کرنے کے لئے ہوگی۔ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کے کچھ عرصہ بعد مکہ فتح کرنے کے لئے تشریف لائے اور تمام اہل مکہ مشرف باسلام ہوئے۔ اسی طرح جب عیسیٰ علیہ السلام زمین کو فتح کرنے کے لئے نازل ہوں گے تو تمام اہل کتاب ایمان لے آئیں گے۔ ’’بر رفع الی السماء‘‘
(تفسیر معارف القرآن کاندھلوی رحمہ اللہ تعالیٰ )
۳… امام فخرالدین رازی رحمہ اللہ تعالیٰ قادیانیوں کے مجدد صدی ششم، اپنی (تفسیر کبیر ج۷ ص۶۹،۷۰) میں فرماتے ہیں: ’’ وَاَمَّا مَکْرُہُمْ بِعِیْسَی عَلَیْہِ السَّلَامُ فَہُوَ اَنَّہُمْ ہَمُّوْا بِقَتْلِہٖ وَاَمَّا مَکَرَ اللّٰہِ بِہِمْ وَفِیْہِ وُجُوْہُ… مَکَرَ اللّٰہِ تَعَالٰی بِہِمْ اَنَّہٗ رَفَعَ عِیْسَی عَلَیْہِ السَّلَامُ اِلٰی السَّمَاء وَذٰلِکَ اَنَّ یَہُوْدًا مَلِکَ الْیَہُوْدِ اَرَادَ قَتْلَ عِیْسَی وَکَانَ جِبْرَائِیْل عَلَیْہِ السَّلَامَ لَا یُفَارِقُہٗ سَاعَۃً وَہُوَ مَعْنٰی قَوْلُہٗ تَعَالٰی وَاَیَّدْنَاہٗ بِرُوْحِ الْقُدُسِ فَلَمَّا اَرَادُوْا ذَالِکَ۔ اَمْرَہٗ جِبْرَائِیْلُ اَنْ یَدْخُلَ بَیْتًا فِیْہَ رَوَزَنَۃٌ فَلَمَّا دَخَلُوْا الْبَیْتَ اَخْرَجَہٗ جِبْرَائِیْلُ مِنْ تِلْکَ الرَّوْزَنَۃِ وَکَاَن قَدْ اَلْقٰی شِبْہَہٗ عَلٰی غَیْرِہٖ فَاُخِذَ وَصُلِبَ وَفِی الْجُمْلَۃِ فَالْمُرَادُ مِنْ مَکْرِ اللّٰہِ تَعَالٰی بِہِمْ اَنَّ رَفَعَہٗ اِلٰی السَّماء وَمَا مَکَنّٰہُمْ مِنْ اِیْصَالِ الشَّرِّ اِلَیْ ہِ‘‘ اور یہود کا مکر حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے یہ تھا کہ انہوں نے ان کے قتل کا ارادہ کیا اور اﷲتعالیٰ کا مکر یہود سے۔ سو اس کی کئی صورتیں ہوئیں… ایک صورت یہ کہ اﷲتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھالیا اور یہ اس طرح ہوا کہ یہود کے ایک بادشاہ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کا ارادہ کیا اور جبرائیل علیہ السلام ایک گھڑی بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے جدا نہ ہوتا تھا اور یہی مطلب ہے۔ اﷲتعالیٰ کے اس قول کا ’’ وَاَیَّدْنَاہٗ بِرُوْحِ الْقُدُسِ ‘‘ یعنی ہم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جبرائیل سے مدد دی۔ پس جب یہود نے قتل کا ارادہ کیا تو جبرائیل علیہ السلام نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ایک مکان میں داخل ہو جانے کے لئے فرمایا۔ اس مکان میں کھڑکی تھی۔ پس جب یہود اس مکان میں داخل ہوئے تو جبرائیل علیہ السلام نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اس کھڑکی سے نکال لیا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شباہت ایک اور آدمی کے اوپر ڈال دی۔ پس وہی پکڑاگیا اور پھانسی پر لٹکایا گیا… غرضیکہ یہود کے ساتھ اﷲ کے مکر کے معنی یہ ہیں کہ اﷲتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا اور یہود کو حضرت مسیح علیہ السلام کے ساتھ شرارت کرنے سے روک لیا۔
۴… اب ہم امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ تعالیٰ کی تفسیر نقل کرتے ہیں۔ امام موصوف قادیانی عقیدہ کے مطابق نویں صدی ہجری میں مجدد مبعوث ہوکر آئے تھے اور ان کا مرتبہ ایسا بلند تھا کہ جب انہیں ضرورت پڑتی تھی۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بالمشافہ زیارت کر کے حدیث دریافت کرلیا کرتے تھے۔ (ازالہ اوہام ص۱۵۱،۱۵۲، خزائن ج۳ ص۱۷۷)
’’ فَلَمَّا اَحَسَّ (عَلَمِ) عِیْسٰی مِنْہُمْ الْکُفْرَ وَارَادُوْا قَتْلَہٗ وَمَکَرُوْا (اَیْ کُفَّارُ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ بِعِیْسٰی اِذَا وَکَّلُوْ بِہٖ مَنْ یَقْتُلُہٗ غِیْلَۃً) وَمَکَرَ اللّٰہُ (بِہِمْ بِاَنْ اَلْقٰی شِبْہَ عِیْسٰی عَلٰی مَنْ قَصَدَ قَتْلَہٗ فَقَتَلُوْہُ وَرُفِعَ عِیْسٰی) وَاللّٰہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْنَ (اَعْلَمُہُمْ بِہٖ) ‘‘ (جلالین ص۵۲)
’’پس جب عیسیٰ علیہ السلام نے یہود کا کفر معلوم کر لیا اور یہود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کا ارادہ کر لیا… اور یہود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ مکر کیا۔ جب انہوں نے مقرر کیا ایک آدمی کو کہ وہ قتل کرے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دھوکا سے اور اﷲتعالیٰ نے یہود کے ساتھ مکر کیا اس طرح کہ ڈال دی شبیہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اس شخص پر جس نے ارادہ کیا تھا ان کے قتل کا۔ پس یہود نے قتل کیا اس شبیہ کو اور اٹھا لئے گئے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور اﷲتعالیٰ تمام تدبیریں کرنے والوں میں سے بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔‘‘
۵… اب ہم اس بزرگ کی تفسیر بیان کرتے ہیں جن کو قادیانی ولاہوری مجدد صدی دو ازدہم مانتے ہیں اور مرزاقادیانی اپنی کتاب (کتاب البریہ ص۷۴، خزائن ج۱۳ ص۹۲) میں لکھتے ہیں کہ شاہ ولی اﷲ صاحب کامل ولی اور صاحب خوارق وکرامات بزرگ تھے۔
شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب تاویل الاحادیث میں فرماتے ہیں: ’ ’کَانَ عِیْسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ کَاَنَّہٗ مَلَکٌ یَمْشِیْ عَلٰی وَجْہِ الْاَرْضَ فَاتَّہَمَہُ الْیَہُوْدُ بِاِلزِّنْدَقَۃِ وَاَجْمَعُوْا عَلٰی قَتْلِہٖ فَمَکَرُوْا وَمَکَرَ اللّٰہُ وَاللّٰہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْنَ فَجَعَلَ لَہٗ ہَیْئَۃً مِثَالِیَۃً وَرَفَعَہٗ اِلَی السَّمَائِ وَاَلْقٰی شِبْہَہٗ عَلٰی رَجُلٍ مِنْ شِیْعَتِہٖ اَوْ عَدُوِّہٖ فَقَتَلَ عَلٰی اَنَّہٗ عِیْسٰی ثُمَّ نَصَرَ اللّٰہُ شِیْعَتَہٗ عَلٰی عَدُوِّہِمْ فَاَصْبَحُوْا ظَاہِرِیْنَ ‘‘
’’اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام تو گویا ایک فرشتہ تھے کہ زمین پر چلتے تھے۔ پھر یہودیوں نے ان پر زندیق ہونے کی تہمت لگائی اور قتل پر جمع ہوگئے۔ پس انہوں نے تدبیر کی اور خدا نے بھی تدبیر کی اور اﷲ بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔ اﷲ نے ان کے واسطے ایک صورت مثالیہ بنادی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھالیا اور ان کے گروہ میں سے یا ان کے دشمن کے ایک آدمی کو ان کی صورت کا بنادیا۔ پس وہ قتل کیاگیا اور یہودی اسی کو عیسیٰ علیہ السلام سمجھتے تھے۔‘‘
(تاویل الاحادیث ص۶۰)
۶… امام وقت شیخ الاسلام حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ تعالیٰ کی تفسیر۔
قادیانی اور لاہوری بیک زبان چھٹی صدی کے سر پر تجدید دین کے لئے ان کا مبعوث ہونا مانتے ہیں۔
(دیکھو عسل مصفّٰی حصہ اوّل ص۱۶۳تا۱۶۵)
’’ فَلَمَّا اَحَاطُوْا بِمَنْزِلَۃٍ وَظَنُّوْا اَنَّہُمْ ظَفَرُوْا بِہٖ نَجَاہُ اللّٰہُ تَعَالٰی مِنْ بَیْنِہِمْ وَرَفَعُہُ مِنْ رَوُزْنَۃِ ذَالِکَ الْبَیْتِ اِلَی السَّمَائِ وَاَلْقَی اللّٰہ شِبْہَہٗ عَلٰی رَجُلٍ مِمَّنْ کَانَ عِنْدَہٗ فِی الْمَنْزِلِ فَلَمَّا دَخَلُوْا اُوْلٰئِکَ اِعْتَقَدُوْہُ فِی ظُلْمَۃِ اللَّیْلِ عِیْسٰی فَاَخَذُوْہُ واہانوہ صَلَبُوْہُ وَوَضَعُوْا عَلٰی رَأْسِہٖ الشَّوْکَ وَکَانَ ہَذَا اَمْرُ اللّٰہِ بِہِمْ فَاِنَّہٗ نَجّٰی نَبِیِّہٗ وَرَفَعَہٗ مِنْ بَیْنِ اَظْہَرہِمْ وَتَرَکَہُمْ فِی ضَلَالِہِمْ یَعْمَہُوْنَ (ابن کثیر ج۱ ص۳۶۴) ‘‘ {جب یہود نے آپ کے مکان کو گھیر لیا اور گمان کیا کہ آپ پر غالب ہوگئے ہیں تو خداتعالیٰ نے ان کے درمیان سے آپ کو نکال لیا اور اس مکان کی کھڑکی سے آسمان پر اٹھا لیا اور آپ کی شباہت اس پر ڈال دی جو اس مکان میں آپ کے پاس تھا۔ سو جب وہ اندر گئے تو اس کو رات کے اندھیرے میں عیسیٰ خیال کیا۔ پس اسے پکڑا اور سولی دیا اور سر پر کانٹے رکھے اور ان کے ساتھ خدا کا یہی مکر تھا کہ اپنے نبی کو بچا لیا اور اسے ان کے درمیان سے اوپر اٹھالیا اور ان کو ان کی گمراہی میں حیران چھوڑ دیا۔}
۷… (تفسیر مظہری ج۲ ص۲۴۷) پر ہے: ’’کلبی نے بواسطہ ابوصالح حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم سے نقل کیا ہے کہ یہودیوں کی ایک جماعت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے سامنے آئی آپ کو دیکھ کر کہنے لگے جادوگر، جادوگرنی کا بیٹا آگیا۔ آپ پر بھی تہمت لگائی اور آپ کی والدہ پر بھی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ان پر لعنت کی اور ان کو بددعا دی۔ فوراً اﷲتعالیٰ نے ان کی شکلیں مسخ کر دیں۔ یہودیوں کا سردار یہودا تھا۔ اس نے جو یہ بات دیکھی تو گھبرا گیا اور آپ کی بددعا سے ڈر گیا۔ آخر تمام یہودی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مارڈالنے پر متفق الرائے ہوگئے اور قتل کرنے کے ارادے سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف بڑھے۔ لیکن اﷲتعالیٰ نے جبرائیل علیہ السلام کو بھیج دیا۔ جبرائیل علیہ السلام نے آپ کو چھت کے روشن دان سے نکالا پھر وہاں سے اﷲتعالیٰ نے آپ کو آسمان پر اٹھا لیا یہودا اندر گیا اس کی شکل عیسیٰ علیہ السلام جیسی بنادی۔ لوگوں نے (یہودا) کو عیسیٰ علیہ السلام سمجھ کر قتل کر دیا۔‘‘
۸… (معالم التنزیل ج۱ ص۱۶۲) پر تفسیر مظہری کی محولہ بالا روایت کو نقل کیاگیا ہے۔
۹… (تفسیر مواہب الرحمن ج۳ ص۱۹۹) پر ہے: ’’مکروا‘‘ بنی اسرائیل نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کے واسطے ایسے شخص کو مقرر کیا جو ان کو فریب میں دھوکے سے قتل کر ڈالے۔ ’’ومکراﷲ‘‘ اﷲتعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کی شباہت اس پر ڈال دی۔ جس نے عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کا قصد کیا تھا۔ پس کافروں نے اسی کو قتل کرڈالا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اﷲتعالیٰ نے آسمان پر اٹھالیا۔
۱۰… (تفسیر ابی السعود ج۲ ص۴۲) پر ہے: ’’یہودیوں نے آپ کو دھوکہ سے قتل کرنے کے لئے آدمی مقرر کیا اور اﷲتعالیٰ نے تجویز فرمائی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اٹھالیا۔ آگے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کی تفسیر مظہری ومعالم التنزیل والی روایت نقل کی ہے۔‘‘
۱۱… زمخشری نے (کشاف ج۱ ص۳۶۶) پر لکھا ہے کہ: ’’ مکر اللّٰہ ان رفع عیسٰی الی السماء والقٰی شبہ علی من اراد اغتیالہ حتی قتل اﷲتعالیٰ نے یہ تجویز فرمائی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا اور ان کی شباہت اس آدمی پر ڈال کر قتل کرا دیا جو آپ کو دھوکہ سے قتل کرنا چاہتا تھا۔‘‘
۱۲… تفسیر بغوی میں بھی یہی منقول ہے۔
۱۳… (تفسیر درمنثور ج۲ ص۳۶) پر ہے: ’’ وصعد بعیسٰی الی السماء عیسیٰ علیہ السلام کو آسمانوں پر اٹھالیا۔‘‘
۱۴… (تفسیر روح المعانی ج۳ ص۲۵۷) پر ہے: ’’قال ابن عباس لما اراد ملک بنی اسرائیل قتل عیسٰی علیہ السلام دخل غرفۃ وفیہا سکوۃ فرفعہ جبرائیل علیہ السلام من السکوۃ الی السماء‘‘ {ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم فرماتے ہیں جب یہودیوں کے بادشاہ نے عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تو عیسیٰ علیہ السلام ایک کمرہ میں داخل ہوئے جس میں روشن دان تھا۔ اس سے جبرائیل علیہ السلام آپ کو آسمانوں پر اٹھا کر لے گئے۔}
۱۵… (تفسیر ابن جریر طبری ج۳ ص۲۸۹) پر ہے: ’’وصعد بعیسٰی الی السماء‘‘ {عیسیٰ علیہ السلام کو آسمانوں پر اٹھا لیا گیا۔} ہم نے اختصار کے ساتھ ان قدیم تفاسیر کے حوالہ جات آپ کے سامنے رکھے۔