• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قادیانی شبہات کے جوابات (کامل )

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

اقوال مرزا:۱​

’’اس پر اتفاق ہوگیا ہے کہ مسیح کے نزول کے وقت اسلام دنیا پر کثرت سے پھیل جائے گا اور ملل باطلہ ہلاک ہو جائیں گے اور راست بازی ترقی کرے گی۔‘‘ (ایام الصلح ص۱۳۶، خزائن ج۱۴ ص۳۸۱)
۲… ’’میرے آنے کے دو مقصد ہیں۔ مسلمانوں کے لئے یہ کہ اصل تقویٰ اور طہارت قائم ہو اور عیسائیوں کے لئے کسر صلیب اور ان کا مصنوعی خدا نظر نہ آئے۔ دنیا اس کو بھول جائے۔ خدائے واحد کی عبادت ہو۔‘‘
(الحکم مورخہ ۱۷؍جولائی ۱۹۰۵ء ج۹ ش۲۵ ص۱۰ کالم۴)
۳… ’’اور پھر اسی ضمن میں (رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے) مسیح موعود کے آنے کی خبر دی اور فرمایا کہ اس کے ہاتھ سے عیسائی دین کا خاتمہ ہوگا۔‘‘ (شہادت القرآن ص۱۲، خزائن ج۶ ص۳۰۷)
۴… ’’ وَنُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَجَمَعَنٰہُمْ جَمَعًا ‘‘ {خدا تعالیٰ کی طرف سے صور پھونکا جائے گا۔} کے تحت مرزاقادیانی نے لکھا ہے: ’’تب ہم تمام مذاہب کو ایک ہی مذہب پر جمع کر دیں گے۔‘‘
(شہادت القرآن ص۱۵، خزائن ج۶ ص۳۱۱)
۵… ’ ’وَنُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَجَمَعَنٰہُمْ جَمَعًا یعنی یاجوج ماجوج کے زمانہ میں بڑا تفرقہ اور پھوٹ لوگوں میں پڑ جائے گی اور ایک مذہب دوسرے مذہب پر اور ایک قوم دوسری قوم پر حملہ کرے گی۔ تب ان دنوں خداتعالیٰ اس پھوٹ کے دور کرنے کے لئے آسمان سے بغیر انسانی ہاتھوں کے اور محض آسمانی نشانوں سے اپنے کسی مرسل کے ذریعہ جو صور یعنی قرنا کا حکم رکھتا ہوگا۔ اپنی پرہیبت آواز لوگوں تک پہنچائے گا۔ جس میں ایک بڑی کشش ہوگی اور اس طرح پر خداتعالیٰ تمام متفرق لوگوں کو ایک مذہب پر جمع کر دے گا۔‘‘ (چشمہ معرفت ص۸۰، خزائن ج۲۳ ص۸۸)
۶… ’’خدا نے تکمیل اس فعل کی جو تمام قومیں ایک قوم کی طرح بن جائیں اور ایک ہی مذہب پر ہو جائیں زمانہ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے آخیری حصہ میں ڈال دی جو قریب قیامت کا زمانہ ہے۔‘‘
(چشمہ معرفت ص۸۲، ۸۳، خزائن ج۲۳ ص۹۰،۹۱)
۷… ’’خداتعالیٰ نے ہمارے نبی سیدنا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا میں بھیجا۔ تابذریعہ اس تعلیم قرآنی کے جو تمام عالم کی طبائع کے لئے مشترک ہے۔ دنیا کی تمام متفرق قوموں کو ایک قوم کی طرح بنادے اور جیسا کہ وہ وحدہ لاشریک ہے۔ ان میں بھی ایک وحدت پیدا کر لے اور تا وہ سب مل کر ایک وجود کی طرح اپنے خدا کو یاد کریں اور اس کی وحدانیت کی گواہی دیں اور تاپہلی وحدت قومی جو ابتدائے آفرینش میں ہوئی اور آخری وحدت اقوامی جس کی بنیاد آخری زمانہ میں ڈالی گئی… یہ دونوں قسم کی وحدتیں خدائے وحدہ لاشریک کے وجود اور اس کی وحدانیت پر دوہری شہادت ہو۔ کیونکہ وہ واحد ہے۔‘‘ (چشمہ معرفت ص۸۲، خزائن ج۲۳ ص۹۰)
۸… ’’وحدت اقوامی کی خدمت اسی نائب النبوۃ (مسیح موعود) کے عہد سے وابستہ کی گئی ہے اور اسی کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے اور وہ یہ ہے۔ ’’ ہُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیَظْہَرَہٗ عَلٰی الدِّیْنِ کُلِّہٖ ‘‘ یہ عالمگیر غلبہ مسیح موعود کے وقت میں ظہور میں آئے گا۔‘‘ (چشمہ معرفت ص۳۸، خزائن ج۲۳ ص۹۱)
ناظرین ہم نے احادیث نبوی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام اور اقوال مرزا سے ثابت کر دیا ہے کہ مسیح علیہ السلام کے وقت میں تمام مذاہب سوائے اسلام کے مٹ جائیں گے۔ اب اگر مرزائی وہی مرغی کی ایک ٹانگ کی رٹ ہی لگائے جائیں تو پھر مذکورہ بالا اقوال مرزا کو تو کم ازکم فضول اور لا یعنی کہنا پڑے گا۔ ایسا وہ کہہ نہیں سکتے کیونکہ مرزاقادیانی ان کے نزدیک حکم ہے اور ’’ جری اللّٰہ فی حلل الانبیاء ‘‘ ہے۔ پس ثابت ہوا کہ ان کا یہ اعتراض بالکل جہالت پر مبنی ہے۔

قادیانی اعتراض:۶​

جب سب مومن ہو جائیں گے تو پھر غلبہ کن کافروں پر ہوگا؟
جواب: ۱… کافروں پر غلبہ اسی وقت تک ہے جب تک کافر موجود ہوں۔ جب کافر ہی نہ رہیں گے سب مومن ہو جائیں گے۔ اس وقت سوال اٹھانا ہی دلیل جہالت ہے۔
قرآن میں بھی اور حدیث میں بھی سب کا مومن ہونا مرقوم ہے۔ پھر ایک حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ اس زمانہ میں ’’ لیس بین اثنین عداوۃ ‘‘ (مشکوٰۃ ص۴۸۱، باب لاتقوم الساعۃ)
پھر اس کے بعد جب کافر رہ جائیں گے اس وقت مومن ہی کوئی نہ ہوگا۔ لہٰذا وہاں بھی یہ اعتراض نہیں ہوسکتا کیونکہ غلبہ مومنوں کا تبھی تک موعود ہے جب تک مومن رہیں۔ غرض ’’الٰی یوم القیمۃ‘‘ سے مراد قرب قیامت ہے۔
۲… ایمان اور عداوت میں باہمی منافات نہیں ہے۔ دونوں باہم جمع ہوسکتے ہیں۔ سمجھ میں نہ آئے تو قادیانیوں اور لاہوریوں کو دیکھ لیجئے کہ دونوں احمدی کہلاتے ہیں اور ایمان کا بھی دعویٰ ہے۔ لیکن آپس میں کتنی منافرت اور عداوت ہے؟
اس حدیث نے صاف فیصلہ کر دیا کہ یہود ونصاریٰ کی عداوت، مومنوں کا کافروں پر غلبہ، جس کے لئے قرآن میں ’’ الٰی یوم القیامۃ ‘‘ وارد ہے۔ اس کا مطلب قرب قیامت ہی ہے۔

حیات مسیح علیہ السلام کی تیسری دلیل​

’’ وَمَکَرُوْا وَمَکَرَ اللّٰہِ وَاللّٰہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْنَ (آل عمران:۵۴) ‘‘ {اور مکر کیا ان کافروں نے اور مکر کیا اﷲ نے اور اﷲ کا داؤ سب سے بہتر ہے۔}

تفسیری شواہد​

۱… علامہ عثمانی رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں: مکر کہتے ہیں لطیف وخفیہ تدبیر کو۔ اگر وہ اچھے مقصد کے لئے ہو، اچھا ہے اور برائی کے لئے ہو تو برا ہے۔ اسی لئے ’’ ولا یحیق المکر السیٔ ‘‘ میں مکر کے ساتھ ’’سیی‘‘ کی قید لگائی اور یہاں خدا کو ’’ خیرالماکرین ‘‘ کہا۔ مطلب یہ ہے کہ یہود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے خلاف طرح طرح کی سازشیں اور خفیہ تدبیریں شروع کر دیں۔ حتیٰ کہ بادشاہ کے کان بھردئیے کہ یہ شخص (معاذ اﷲ) ملحد ہے۔ تورات کو بدلنا چاہتا ہے۔ سب کو بددین بنا کر چھوڑے گا۔ اس نے مسیح علیہ السلام کی گرفتاری کاحکم دے دیا۔ ادھر یہ ہورہا تھا اور ادھر حق تعالیٰ کی لطیف وخفیہ تدبیر ان کے توڑ میں اپنا کام کر رہی تھی۔ بے شک خدا کی تدبیر سب سے بہتر اور مضبوط ہے جسے کوئی نہیں توڑ سکتا۔ (تفسیر عثمانی)
۲… علامہ کاندھلوی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’ وَمَکَرُوْا وَمَکَرَ اللّٰہُ ‘‘ سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ توفی سے پورا پورا لینا اور آسمان پر اٹھایا جانا مراد ہو۔ کیونکہ باجماع مفسرین ’’ وَمَکَرُوْا ‘‘ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قتل اور صلب کی تدبیریں مراد ہیں اور ’’ مَکَرَ اللّٰہُ ‘‘ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حفاظت کی تدبیر مراد ہے اور ’’ مَکَرَ اللّٰ ہُ‘‘ کو ’’ مَکَرُوْا ‘‘ کے مقابلہ میں لانے سے اس طرف اشارہ ہے کہ یہود کا مکر اور ان کی تدبیر تو نیست اور ناکام ہوئی اور اﷲ سبحانہ کا ارادہ اور اس کی تدبیر غالب آئی۔ ’’ وَاللّٰہُ غَالِبٌ عَلٰی اَمْرِہٖ (یوسف:۲۱) ‘‘ جیسے ’’ اِنَّہُمْ یَکِیْدُوْنَ کَیْدًا وَّاَکِیْدُ کَیْدًا (الطارق:۱۵،۱۶) ‘‘ {وہ بھی تدبیر کر رہے ہیں اور میں بھی تدبیر کر رہا ہوں۔} اور دوسری جگہ ارشاد ہے: ’’ قَالُوْا تَقَاسَمُوْا بِاللّٰہِ لَنُبَیِّتَنَّہٗ وَاَہْلَہٗ ثُمَّ لَنَقُوْلَنَّ لِوَلِیِّہٖ مَا شَہِدْنَا مَہْلِکَ اَہْلِہٖ وَاِنَّا لَصٰدِقُوْنَP وَمَکَرُوْا مَکْرًا وَّمَکَرْنَا مَکْرًا وَّہُمْ لَا یَشْعُرُوْنَP فَانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ مَکْرِہِمْ اَنَّا دَمَّرْنٰہُمْ وَقَوْمَہُمْ اَجْمَعِیْنَ (النمل:۴۹تا۵۱) ‘‘ {قوم ثمود نے آپس میں کہا کہ قسمیں اٹھاؤ کہ ہم شب کے وقت صالح علیہ السلام اور ان کے متعلقین کو قتل کر ڈالیں اور بعد میں ان کے وارثوں سے کہہ دیں گے کہ ہم اس موقعہ پر حاضر نہ تھے اور ہم سچے ہیں۔}
اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں اس طرح انہوں نے صالح علیہ السلام کے قتل کے مشورے اور تدبیریں کیں اور اس نے بھی ان کے بچانے کی خفیہ تدبیر کی کہ ان کو خبر بھی نہ ہوئی وہ یہ کہ پہاڑ سے ایک بھاری پتھر لڑھک کر ان پر آگرا جس سے دب کر سب مر گئے۔ (کما فی الدرالمنثور)
دیکھ لیا کہ ان کے مکر کا کیا انجام ہوا؟ ہم نے اپنی تدبیر سے سب کو غارت کر ڈالا۔ اسی طرح اس آیت میں ’’مکروا‘‘ کے بعد ’’ومکر اللّٰہ‘‘ مذکور ہے۔ جس سے حق جل شانہ کو یہ بتلانا مقصود ہے کہ یہود نے جو قتل کی تدبیرکی وہ تو کارگر نہ ہوئی۔ مگر ہم نے جو ان کی حفاظت کی نرالی اور انوکھی تدبیر کی وہی غالب ہوکر رہی۔ پس اگر روح اور جسم کا پوراپورا لینا مراد نہ لیا جائے۔ بلکہ توفی سے موت مراد لی جائے تو یہ کوئی ایسی تدبیر نہیں جو یہود کی مغلوبی اور ناکامی کا سبب بن سکے۔ بلکہ موت کی تدبیر تو یہود کی عین تمنا اور آرزو کے مطابق ہے۔ کفار مکہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی تدبیریں کیں اور اﷲتعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کی تدبیر کی ’’ کَمَا قال تَعَالٰی وَیَمْکُرُوْنَ وَیَمْکُرُ اللّٰہُ وَاللّٰہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْنَ (الانفال:۳۰) ‘‘ کفار مکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی تدبیریں کر رہے ہیں اور اﷲتعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کی تدبیر کر رہا ہے اور اﷲ تعالیٰ بہترین تدبیر فرمانے والے ہیں۔ اﷲتعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار مکہ کے منصوبوں سے آگاہ کیا اور صحیح وسالم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرادی۔ اسی طرح حق تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق فرمایا تھا: ’’وَمَکَرُوْا وَمَکَرَ اللّٰہُ وَاللّٰہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْنَ‘‘ یعنی یہود نے آپ کے قتل کی تدبیریں کیں اور اﷲتعالیٰ نے آپ کی حفاظت کی تدبیر کی کہ دشمنوں کے ہاتھ سے صحیح وسالم نکال کر آسمان کی طرف ہجرت کرادی۔ اب اس ہجرت کے بعد نزول اور تشریف آوری زمین کے فتح کرنے کے لئے ہوگی۔ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کے کچھ عرصہ بعد مکہ فتح کرنے کے لئے تشریف لائے اور تمام اہل مکہ مشرف باسلام ہوئے۔ اسی طرح جب عیسیٰ علیہ السلام زمین کو فتح کرنے کے لئے نازل ہوں گے تو تمام اہل کتاب ایمان لے آئیں گے۔ ’’بر رفع الی السماء‘‘
(تفسیر معارف القرآن کاندھلوی رحمہ اللہ تعالیٰ )
۳… امام فخرالدین رازی رحمہ اللہ تعالیٰ قادیانیوں کے مجدد صدی ششم، اپنی (تفسیر کبیر ج۷ ص۶۹،۷۰) میں فرماتے ہیں: ’’ وَاَمَّا مَکْرُہُمْ بِعِیْسَی عَلَیْہِ السَّلَامُ فَہُوَ اَنَّہُمْ ہَمُّوْا بِقَتْلِہٖ وَاَمَّا مَکَرَ اللّٰہِ بِہِمْ وَفِیْہِ وُجُوْہُ… مَکَرَ اللّٰہِ تَعَالٰی بِہِمْ اَنَّہٗ رَفَعَ عِیْسَی عَلَیْہِ السَّلَامُ اِلٰی السَّمَاء وَذٰلِکَ اَنَّ یَہُوْدًا مَلِکَ الْیَہُوْدِ اَرَادَ قَتْلَ عِیْسَی وَکَانَ جِبْرَائِیْل عَلَیْہِ السَّلَامَ لَا یُفَارِقُہٗ سَاعَۃً وَہُوَ مَعْنٰی قَوْلُہٗ تَعَالٰی وَاَیَّدْنَاہٗ بِرُوْحِ الْقُدُسِ فَلَمَّا اَرَادُوْا ذَالِکَ۔ اَمْرَہٗ جِبْرَائِیْلُ اَنْ یَدْخُلَ بَیْتًا فِیْہَ رَوَزَنَۃٌ فَلَمَّا دَخَلُوْا الْبَیْتَ اَخْرَجَہٗ جِبْرَائِیْلُ مِنْ تِلْکَ الرَّوْزَنَۃِ وَکَاَن قَدْ اَلْقٰی شِبْہَہٗ عَلٰی غَیْرِہٖ فَاُخِذَ وَصُلِبَ وَفِی الْجُمْلَۃِ فَالْمُرَادُ مِنْ مَکْرِ اللّٰہِ تَعَالٰی بِہِمْ اَنَّ رَفَعَہٗ اِلٰی السَّماء وَمَا مَکَنّٰہُمْ مِنْ اِیْصَالِ الشَّرِّ اِلَیْ ہِ‘‘ اور یہود کا مکر حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے یہ تھا کہ انہوں نے ان کے قتل کا ارادہ کیا اور اﷲتعالیٰ کا مکر یہود سے۔ سو اس کی کئی صورتیں ہوئیں… ایک صورت یہ کہ اﷲتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھالیا اور یہ اس طرح ہوا کہ یہود کے ایک بادشاہ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کا ارادہ کیا اور جبرائیل علیہ السلام ایک گھڑی بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے جدا نہ ہوتا تھا اور یہی مطلب ہے۔ اﷲتعالیٰ کے اس قول کا ’’ وَاَیَّدْنَاہٗ بِرُوْحِ الْقُدُسِ ‘‘ یعنی ہم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جبرائیل سے مدد دی۔ پس جب یہود نے قتل کا ارادہ کیا تو جبرائیل علیہ السلام نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ایک مکان میں داخل ہو جانے کے لئے فرمایا۔ اس مکان میں کھڑکی تھی۔ پس جب یہود اس مکان میں داخل ہوئے تو جبرائیل علیہ السلام نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اس کھڑکی سے نکال لیا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شباہت ایک اور آدمی کے اوپر ڈال دی۔ پس وہی پکڑاگیا اور پھانسی پر لٹکایا گیا… غرضیکہ یہود کے ساتھ اﷲ کے مکر کے معنی یہ ہیں کہ اﷲتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا اور یہود کو حضرت مسیح علیہ السلام کے ساتھ شرارت کرنے سے روک لیا۔
۴… اب ہم امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ تعالیٰ کی تفسیر نقل کرتے ہیں۔ امام موصوف قادیانی عقیدہ کے مطابق نویں صدی ہجری میں مجدد مبعوث ہوکر آئے تھے اور ان کا مرتبہ ایسا بلند تھا کہ جب انہیں ضرورت پڑتی تھی۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بالمشافہ زیارت کر کے حدیث دریافت کرلیا کرتے تھے۔ (ازالہ اوہام ص۱۵۱،۱۵۲، خزائن ج۳ ص۱۷۷)
’’ فَلَمَّا اَحَسَّ (عَلَمِ) عِیْسٰی مِنْہُمْ الْکُفْرَ وَارَادُوْا قَتْلَہٗ وَمَکَرُوْا (اَیْ کُفَّارُ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ بِعِیْسٰی اِذَا وَکَّلُوْ بِہٖ مَنْ یَقْتُلُہٗ غِیْلَۃً) وَمَکَرَ اللّٰہُ (بِہِمْ بِاَنْ اَلْقٰی شِبْہَ عِیْسٰی عَلٰی مَنْ قَصَدَ قَتْلَہٗ فَقَتَلُوْہُ وَرُفِعَ عِیْسٰی) وَاللّٰہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْنَ (اَعْلَمُہُمْ بِہٖ) ‘‘ (جلالین ص۵۲)
’’پس جب عیسیٰ علیہ السلام نے یہود کا کفر معلوم کر لیا اور یہود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کا ارادہ کر لیا… اور یہود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ مکر کیا۔ جب انہوں نے مقرر کیا ایک آدمی کو کہ وہ قتل کرے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دھوکا سے اور اﷲتعالیٰ نے یہود کے ساتھ مکر کیا اس طرح کہ ڈال دی شبیہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اس شخص پر جس نے ارادہ کیا تھا ان کے قتل کا۔ پس یہود نے قتل کیا اس شبیہ کو اور اٹھا لئے گئے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور اﷲتعالیٰ تمام تدبیریں کرنے والوں میں سے بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔‘‘
۵… اب ہم اس بزرگ کی تفسیر بیان کرتے ہیں جن کو قادیانی ولاہوری مجدد صدی دو ازدہم مانتے ہیں اور مرزاقادیانی اپنی کتاب (کتاب البریہ ص۷۴، خزائن ج۱۳ ص۹۲) میں لکھتے ہیں کہ شاہ ولی اﷲ صاحب کامل ولی اور صاحب خوارق وکرامات بزرگ تھے۔
شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب تاویل الاحادیث میں فرماتے ہیں: ’ ’کَانَ عِیْسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ کَاَنَّہٗ مَلَکٌ یَمْشِیْ عَلٰی وَجْہِ الْاَرْضَ فَاتَّہَمَہُ الْیَہُوْدُ بِاِلزِّنْدَقَۃِ وَاَجْمَعُوْا عَلٰی قَتْلِہٖ فَمَکَرُوْا وَمَکَرَ اللّٰہُ وَاللّٰہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْنَ فَجَعَلَ لَہٗ ہَیْئَۃً مِثَالِیَۃً وَرَفَعَہٗ اِلَی السَّمَائِ وَاَلْقٰی شِبْہَہٗ عَلٰی رَجُلٍ مِنْ شِیْعَتِہٖ اَوْ عَدُوِّہٖ فَقَتَلَ عَلٰی اَنَّہٗ عِیْسٰی ثُمَّ نَصَرَ اللّٰہُ شِیْعَتَہٗ عَلٰی عَدُوِّہِمْ فَاَصْبَحُوْا ظَاہِرِیْنَ ‘‘
’’اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام تو گویا ایک فرشتہ تھے کہ زمین پر چلتے تھے۔ پھر یہودیوں نے ان پر زندیق ہونے کی تہمت لگائی اور قتل پر جمع ہوگئے۔ پس انہوں نے تدبیر کی اور خدا نے بھی تدبیر کی اور اﷲ بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔ اﷲ نے ان کے واسطے ایک صورت مثالیہ بنادی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھالیا اور ان کے گروہ میں سے یا ان کے دشمن کے ایک آدمی کو ان کی صورت کا بنادیا۔ پس وہ قتل کیاگیا اور یہودی اسی کو عیسیٰ علیہ السلام سمجھتے تھے۔‘‘
(تاویل الاحادیث ص۶۰)
۶… امام وقت شیخ الاسلام حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ تعالیٰ کی تفسیر۔
قادیانی اور لاہوری بیک زبان چھٹی صدی کے سر پر تجدید دین کے لئے ان کا مبعوث ہونا مانتے ہیں۔
(دیکھو عسل مصفّٰی حصہ اوّل ص۱۶۳تا۱۶۵)
’’ فَلَمَّا اَحَاطُوْا بِمَنْزِلَۃٍ وَظَنُّوْا اَنَّہُمْ ظَفَرُوْا بِہٖ نَجَاہُ اللّٰہُ تَعَالٰی مِنْ بَیْنِہِمْ وَرَفَعُہُ مِنْ رَوُزْنَۃِ ذَالِکَ الْبَیْتِ اِلَی السَّمَائِ وَاَلْقَی اللّٰہ شِبْہَہٗ عَلٰی رَجُلٍ مِمَّنْ کَانَ عِنْدَہٗ فِی الْمَنْزِلِ فَلَمَّا دَخَلُوْا اُوْلٰئِکَ اِعْتَقَدُوْہُ فِی ظُلْمَۃِ اللَّیْلِ عِیْسٰی فَاَخَذُوْہُ واہانوہ صَلَبُوْہُ وَوَضَعُوْا عَلٰی رَأْسِہٖ الشَّوْکَ وَکَانَ ہَذَا اَمْرُ اللّٰہِ بِہِمْ فَاِنَّہٗ نَجّٰی نَبِیِّہٗ وَرَفَعَہٗ مِنْ بَیْنِ اَظْہَرہِمْ وَتَرَکَہُمْ فِی ضَلَالِہِمْ یَعْمَہُوْنَ (ابن کثیر ج۱ ص۳۶۴) ‘‘ {جب یہود نے آپ کے مکان کو گھیر لیا اور گمان کیا کہ آپ پر غالب ہوگئے ہیں تو خداتعالیٰ نے ان کے درمیان سے آپ کو نکال لیا اور اس مکان کی کھڑکی سے آسمان پر اٹھا لیا اور آپ کی شباہت اس پر ڈال دی جو اس مکان میں آپ کے پاس تھا۔ سو جب وہ اندر گئے تو اس کو رات کے اندھیرے میں عیسیٰ خیال کیا۔ پس اسے پکڑا اور سولی دیا اور سر پر کانٹے رکھے اور ان کے ساتھ خدا کا یہی مکر تھا کہ اپنے نبی کو بچا لیا اور اسے ان کے درمیان سے اوپر اٹھالیا اور ان کو ان کی گمراہی میں حیران چھوڑ دیا۔}
۷… (تفسیر مظہری ج۲ ص۲۴۷) پر ہے: ’’کلبی نے بواسطہ ابوصالح حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم سے نقل کیا ہے کہ یہودیوں کی ایک جماعت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے سامنے آئی آپ کو دیکھ کر کہنے لگے جادوگر، جادوگرنی کا بیٹا آگیا۔ آپ پر بھی تہمت لگائی اور آپ کی والدہ پر بھی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ان پر لعنت کی اور ان کو بددعا دی۔ فوراً اﷲتعالیٰ نے ان کی شکلیں مسخ کر دیں۔ یہودیوں کا سردار یہودا تھا۔ اس نے جو یہ بات دیکھی تو گھبرا گیا اور آپ کی بددعا سے ڈر گیا۔ آخر تمام یہودی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مارڈالنے پر متفق الرائے ہوگئے اور قتل کرنے کے ارادے سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف بڑھے۔ لیکن اﷲتعالیٰ نے جبرائیل علیہ السلام کو بھیج دیا۔ جبرائیل علیہ السلام نے آپ کو چھت کے روشن دان سے نکالا پھر وہاں سے اﷲتعالیٰ نے آپ کو آسمان پر اٹھا لیا یہودا اندر گیا اس کی شکل عیسیٰ علیہ السلام جیسی بنادی۔ لوگوں نے (یہودا) کو عیسیٰ علیہ السلام سمجھ کر قتل کر دیا۔‘‘
۸… (معالم التنزیل ج۱ ص۱۶۲) پر تفسیر مظہری کی محولہ بالا روایت کو نقل کیاگیا ہے۔
۹… (تفسیر مواہب الرحمن ج۳ ص۱۹۹) پر ہے: ’’مکروا‘‘ بنی اسرائیل نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کے واسطے ایسے شخص کو مقرر کیا جو ان کو فریب میں دھوکے سے قتل کر ڈالے۔ ’’ومکراﷲ‘‘ اﷲتعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کی شباہت اس پر ڈال دی۔ جس نے عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کا قصد کیا تھا۔ پس کافروں نے اسی کو قتل کرڈالا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اﷲتعالیٰ نے آسمان پر اٹھالیا۔
۱۰… (تفسیر ابی السعود ج۲ ص۴۲) پر ہے: ’’یہودیوں نے آپ کو دھوکہ سے قتل کرنے کے لئے آدمی مقرر کیا اور اﷲتعالیٰ نے تجویز فرمائی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اٹھالیا۔ آگے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کی تفسیر مظہری ومعالم التنزیل والی روایت نقل کی ہے۔‘‘
۱۱… زمخشری نے (کشاف ج۱ ص۳۶۶) پر لکھا ہے کہ: ’’ مکر اللّٰہ ان رفع عیسٰی الی السماء والقٰی شبہ علی من اراد اغتیالہ حتی قتل اﷲتعالیٰ نے یہ تجویز فرمائی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا اور ان کی شباہت اس آدمی پر ڈال کر قتل کرا دیا جو آپ کو دھوکہ سے قتل کرنا چاہتا تھا۔‘‘
۱۲… تفسیر بغوی میں بھی یہی منقول ہے۔
۱۳… (تفسیر درمنثور ج۲ ص۳۶) پر ہے: ’’ وصعد بعیسٰی الی السماء عیسیٰ علیہ السلام کو آسمانوں پر اٹھالیا۔‘‘
۱۴… (تفسیر روح المعانی ج۳ ص۲۵۷) پر ہے: ’’قال ابن عباس لما اراد ملک بنی اسرائیل قتل عیسٰی علیہ السلام دخل غرفۃ وفیہا سکوۃ فرفعہ جبرائیل علیہ السلام من السکوۃ الی السماء‘‘ {ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم فرماتے ہیں جب یہودیوں کے بادشاہ نے عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تو عیسیٰ علیہ السلام ایک کمرہ میں داخل ہوئے جس میں روشن دان تھا۔ اس سے جبرائیل علیہ السلام آپ کو آسمانوں پر اٹھا کر لے گئے۔}
۱۵… (تفسیر ابن جریر طبری ج۳ ص۲۸۹) پر ہے: ’’وصعد بعیسٰی الی السماء‘‘ {عیسیٰ علیہ السلام کو آسمانوں پر اٹھا لیا گیا۔} ہم نے اختصار کے ساتھ ان قدیم تفاسیر کے حوالہ جات آپ کے سامنے رکھے۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

چیلنج​

ہمارا دعویٰ ہے کہ پوری امت کے تمام قدیم مفسرین نے اس آیت کے تحت میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے رفع الی السماء کو ثابت کیا ہے۔ ایک مفسر کا بھی اس میں اختلاف نہیں۔ قادیانی کرم فرما، کیا اس کے خلاف ثابت کر کے ہمارے چیلنج ودعویٰ کو غلط ثابت کر سکتے ہیں؟ نہیں ہرگز نہیں۔

قادیانی اعتراض:۱​

مفسرین نے مختلف اقوال پیش کئے کہ عیسیٰ علیہ السلام کی شباہت جس پر ڈالی گئی وہ عیسیٰ علیہ السلام کا مخلص مرید تھا یا دشمن کافر؟ تو اختلاف ثابت ہوگیا۔
جواب: عیسیٰ علیہ السلام کی جس پر شبیہ ڈالی گئی اس کا نام قرآن مجید نے ذکر نہیں کیا۔ نہ ہی قرآن مجید کا یہ موضوع ہے وہ کون تھا؟ یہ تاریخ کا موضوع ہے۔ اس کے نام کا تعین کرنے کے لئے لامحالہ مسیحی قدیم روایات کو دیکھنا ہوگا۔ چونکہ ان کی کتب میں اختلاف ہے۔ اس لئے مفسرین نے کمال دیانت کے ساتھ اس اختلاف کو بیان کردیا۔ جہاں تک نفس واقعہ کا تعلق ہے وہ اتنا ہے کہ یہود عیسیٰ علیہ السلام کے درپے قتل ہوئے۔ اﷲتعالیٰ نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے قریب بھی یہود کو نہ پھٹکنے دیا اور عیسیٰ علیہ السلام کو آسمانوں پر اٹھا لیا۔ پوری امت کے خیرالقرون کے زمانہ سے اس وقت تک تمام مستند وقابل ذکر وقابل فخر مفسرین نے یہی اس آیت سے سمجھا ہے۔ ہم نے ان مفسرین کے بھی حوالے نقل کر دئیے جنہیں قادیانی اپنے اپنے دور کا مجدد مانتے ہیں۔ ان سب کا اتفاق ہے۔ وہ سب اس آیت کے نفس واقعہ پر متفق ہیں۔ کسی ایک کو اختلاف نہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام کو آسمانوں پر اٹھایا گیا۔ یہی ’’مکر اﷲ‘‘ کی تفسیر ہے۔ ہم پھر اپنے چیلنج کو دہراتے ہیں کہ اس سے رفع روحانی، عیسیٰ علیہ السلام کو تازیانے مارنے، صلیب پر چڑھانے، کشمیر جانے کی قادیانی خود تراشیدہ تحریف کو کسی ایک مفسر نے ذکر نہیں کیا۔ یہ خالصتاً تحریف اور قادیانی دجل کا شاہکار ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں تمام قدیم مفسرین کا اجماع ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کو آسمانوں پر اﷲتعالیٰ نے اٹھالیا۔ کوئی قادیانی ماںکا لال ہمارے چیلنج کو قیامت کی صبح تک نہیں توڑ سکتا۔ ’’ وان لم تفعلوا ولن تفعلوا فاتقوا النار ‘‘

قادیانی اعتراض:۲​

یہود نے یہ مکر اور تدبیر قتل آپ کے حق میں کیوں کی؟
جواب: یہود نے آپ کے معجزات کو جادو قرار دے کر آپ کو جادوگر ٹھہرایا اور پھر قتل کا حکم لگایا اور اس کی صورت صلیب پر کھینچنا تجویز کی۔ چنانچہ اوپر کی آیت میں معجزات کو جادو قرار دینا صاف مذکور ہے اور آیت مندرجہ عنوان کے قبل بھی ذکر معجزات اس امر پر دلالت کر رہا ہے اور ’’ فلما احس عیسٰی منہم الکفر ‘‘ کے یہی معنی ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کفار یہود سے مکر، قتل کا احساس کیا۔ اس جگہ کفر بمعنی ’’ قتل من باب تسمیہ الشیٔ باسم سببہ ‘‘ ہے۔ یعنی کسی شئے کے وہ نام بولنا جو اس کے سبب کا نام ہے۔ چنانچہ مطول میں لکھا ہے: ’’ رعینا الغیث ای النبات الذی سببہ الغیث (مطول) چرائی ہم نے بارش یعنی نباتات جس کے اگنے کا سبب بارش ہے۔‘‘
اسی طرح آیت: ’’ وَمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآئِ مِنْ رِّزْقٍ (جاثیہ:۵) ‘‘ {میں رزق بمعنی مطر یعنی بارش سبب ہے رزق کے پیدا ہونے کا۔} اس طرح اس کے نظائر قرآن شریف میں بکثرت ہیں اور کتب بلاغت میں اس قاعدے کی تصریح موجود ہے۔ دیگر یہ کہ کفر کا احساس کے ساتھ ذکر کرنا بھی اس امر کا مؤید ہے کہ اس جگہ کفر سے مراد قتل ہے۔ کیونکہ احساس ایسے مواقع میں اس جگہ مستعمل ہوتا ہے۔ جہاں کوئی خوفناک امر ہو جیسے آیت: ’’ فَلَمَّا اَحَسُّوْا بَأسَنَا (انبیاء:۱۲) ‘‘ اور نیز آیت: ’’ اِذْ تَحُسُّوْنَہُمْ (آل عمران:۱۵۲) ای تقتلونہم ‘‘
اس بیان سے واضح ہو گیا کہ: ’’ فَلَمَّا اَحَسَّ عِیْسٰی مِنْہُمُ الْکُفْرَ ‘‘ میں کفر بمعنی قتل ہے۔ پس مکر یہود کی صورت ارادۂ قتل وصلب عیسیٰ علیہ السلام متعین ہوگئی۔

قادیانی اعتراض:۳​

کیا مفسرین کے اس قول کی تائید قرآن سے ہوسکتی ہے کہ مکر سے مراد قتل ہے؟
جواب: ۱… کیوں نہیں؟ بے شک مفسرین رحمہ اللہ تعالیٰ کے بیان کی تائید میں کئی آیات ہیں۔ ’’ منہا قولہ تعالٰی حَاکِیًا عن اخوۃ یوسف نِاقْتُلُوْا یُوْسُفَ اَوِاطْرَحُوْہُ اَرْضًا (یوسف:۹) ‘‘ {یوسف کو قتل کر ڈالو یا اسے کسی زمین میں پھینک دو۔}
اور اس تدبیر قتل کا نام مکر رکھا۔ چنانچہ اسی سورۂ یوسف:۱۰۲ ہی میں ’’وَہُمْ یَمْکُرُوْنَ‘‘ فرمایا اور نیز سورۂ نمل میں صالح علیہ السلام کے بیان میں فرمایا: ’’ وَکَانَ فِی الْمَدِیْنَۃِ تِسْعَۃُ رَہْطٍ یُّفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ وَلَا یُصْلِحُوْنَP قَالُوْا تَقَاسَمُوْا بِاللّٰہِ لَنُبَیِّتَنَّہٗ وَاَہْلَہٗ ثُمَّ لَنَقُوْلَنَّ لِوَلِیِّہٖ مَاشَہِدْنَا مَہْلِکَ اَہْلِہٖ وَاِنَّا لَصٰدِقُوْنَ (نمل:۴۸،۴۹) ‘‘ {اور اس شہر میں نو شخص تھے جو زمین میں فساد کرتے تھے اور اصلاح نہیں کرتے تھے۔ انہوں نے پس میں کہا کہ خدا کی قسم کھاؤ کہ اس (صالح) کو اور اس کے اہل کو راتوں رات قتل کر ڈالیں گے پھر اس کے ولی کو کہیں گے کہ ہم تو اس کے قتل کے موقع ووقت پر حاضر نہ تھے اور ہم ضرور سچے ہیں۔} یعنی نومفسدوں نے آپس میں یہ منصوبہ باندھا اور اس پر قسمیں کھانے کو کہا کہ صالح علیہ السلام کو اور آپ کے اہل کو راتوں رات قتل کر ڈالیں۔ ان کی اس تدبیر شر کی نسبت اﷲتعالیٰ نے اس سے آگے فرمایا: ’’ وَمَکَرُوْا مَکَرًا (نمل:۵۰) ‘‘ یعنی انہوں نے بڑا بھاری مکر کیا یعنی پوشیدہ طور پر نبی اﷲ صالح علیہ السلام کو قتل کرنے کی تدبیر کی اسی طرح حضرت سید المرسلین خاتم النّبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کفار نے جو مشورہ کیا اس کی نسبت فرمایا: ’’ وَاِذْ یَمْکُرُ بِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِیُثْبِتُوْکَ اَوْ یَقْتُلُوْکَ اَوْ یُخْرِجُوْکَ وَیَمْکُرُوْنَ وَیَمْکُرُ اللّٰہُ وَاللّٰہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْنَ (الانفال:۳۰) ‘‘ {اور جب کفار تدبیر کرتے تھے کہ تجھے قید کر لیں یا قتل کر ڈالیں یا جلاوطن کر دیں وہ بھی تدبیر کرتے تھے اور خدا بھی تدبیر کرتا تھا اور خدا بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔}
اور حضرت ابراہیم خلیل اﷲ علیہ السلام کی نسبت کفار نے جو مشورہ کیا اس کی نسبت فرمایا: ’’ فَمَا کَانَ جَوَابَ قَوْمِہٖ اِلَّا اَنْ قَالُوا اقْتُلُوْہُ اَوْحَرِّقُوْہُ (عنکبوت:۲۴) ‘‘ {اور اس کی قوم سے کوئی جواب بن نہ آیا سوائے اس کے کہ انہوں نے کہا اسے قتل کر ڈالو یا آگ میں جلادو۔}
اور ان کے منصوبہ کا نام کید رکھا۔ چنانچہ سورۂ انبیاء میں فرمایا: ’’ وَاَرَادُوْا بِہٖ کَیْدًا فَجَعَلْنٰہُمُ الْاَخْسَرِیْنَ (انبیاء:۷۰) ‘‘ {انہوں نے اس کی نسبت خفیہ تدبیر کی بس ہم نے انہی کو کر دیا نقصان اٹھانے والے۔}
اور مکر اور کید مترادف ہیں۔ چنانچہ مصباح میں ہے: ’ ’کَادَہٗ، مَکْرَبِہٖ ‘‘
۲… ان تمام آیات میں کفار کے مکر وکید کی کئی شکلیں بیان ہوئیں۔ جن میں مکر کی ایک شکل قتل کا بھی بیان ہے۔ جہاں عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ یہود کے مکر کا تعلق ہے تو وہ صرف قتل ہے۔ جیسا کہ ’’ انا قتلنا المسیح ‘‘ سے واضح ہے۔

قادیانی اعتراض:۴​

کفار ماکرین کے ساتھ سنت الٰہی کیا ہے اور ان کے مکر کا انجام کیا ہوا کرتا ہے؟
جواب: ماکرین کو ہلاک کرنا اور ان کے مکر کا وبال انہی پر نازل کرنا اور اپنے عباد مرسلین کو ان کے مکر سے بچا لینا۔
دلیل: اﷲتعالیٰ نے سورۂ فاطر وغیرہ میں فرمایا:
۱… ’’ وَالَّذِیْنَ یَمْکُرُوْنَ السَّیِّاٰتِ لَہُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ وَمَکْرُ اُولٰئِکَ ہُوَ یَبُوْرُ (فاطر:۱۰) ‘‘ یعنی جو لوگ بری تدبیریں اور منصوبے باندھتے ہیں ان کے لئے سخت عذاب ہوگا اور ان کا مکر وہی ہلاک ہوگا۔
۲… ’’ وَلَا یَحِیْقُ الْمَکْرُ السَّیِّیُٔ اِلَّا بِاَہْلِہٖ (فاطر:۴۳) ‘‘ اسی صورت میں کہ بری تدبیر کا وبال اس کے اہل ہی پر پڑا کرتا ہے۔
۳… ’’ وَہَمَّتْ کُلُّ اُمَّۃٍ بِرَسُوْلِہِمْ لِیَاْخُذُوْہُ وَجَادَلُوْا بِالْبَاطِلِ لِیُدْحِضُوْا بِہَ الْحَقَّ فَاَخَذْتُہُمْ فَکَیْفَ کَانَ عِقَابِ (المؤمن:۵) ‘‘ ہر امت نے اپنے رسول کو ماخوذ کرنے پر کمر باندھی اور لانے لگے جھوٹے جھگڑے تاکہ اس ناحق سے حق کو باطل کر دیں۔ پس میں نے انہی کو عذاب میں گرفتار کیا۔ پس میرا عذاب ان پر کیسا سخت ہوا۔
۴… ’’ وَاَرَادُوْا بِہٖ کَیْدًا فَجَعَلْنٰہُمُ الْاَخْسَرِیْنَ (الانبیاء:۷۰) ‘‘ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حق میں جو کہ مکر اور کید ان کی قوم نے کیا تھا اس کی بابت فرمایا کہ انہوں نے اس کے ساتھ ایک بھاری مکر کرنا چاہا۔ پس ہم نے انہیں کو سخت زیان کار اور سخت پست اور ذلیل کر دیا۔
۵… ’’ فَاَرَادُوْا بِہٖ کَیْدًا فَجَعَلنٰہُمُ الْاَسْفَلِیْنَ (الصّٰٓفّٰت:۹۸) ‘‘ پھر چاہنے لگے اس پر برا داؤ کرنا پھر ہم نے ڈالا انہیں کو نیچے۔
۶… ’’ قَدْ مَکَرَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ فَاَتَی اللّٰہُ بُنْیَانَہُمْ مِّنَ الْقَوَاعِدِ فَخَرَّ عَلَیْہِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِہِمْ وَاَتٰہُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَیْثُ لَا یَشْعُرُوْنَ (النحل:۲۶) ‘‘ کفار مکہ کے پیشتر بہت لوگوں نے مکر اور تدابیر کیں۔ پس اﷲتعالیٰ نے ان کی عمارات کو بنیادوں سے گرا دیا اور ان پر چھت ان کے اوپر سے گر پڑے اور ان کو ایسی جگہ سے عذاب آیا۔ جہاں سے ان کو شعور بھی نہ تھا۔
۷… ’’ وَقَدْ مَکَرُوْا مَکْرَہُمْ وَعِنْدَ اللّٰہِ مَکْرُہُمْ وَاِنْ کَانَ مَکْرُہُمْ لِتَزُوْلَ مِنْہُ الْجِبَالُP فَلَا تَحْسَبَنَّ اللّٰہَ مُخْلِفَ وَعْدِہٖ رُسُلَہٗ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ ذُوانْتِقَامٍ (ابراہیم:۴۶،۴۷) ‘‘ سورۂ ابراہیم میں بڑے زور اور تاکید سے فرمایا کہ کفار مکہ نے جہاں تک ان سے ہوسکا بہت سی تدبیریں کیں اور اﷲتعالیٰ کو ان کی سب تدبیریں معلوم ہیں۔ اگرچہ ان کی تدابیر اور مکر ایسے زبردست اور محکم ہوں کہ ان سے زوال جبال یعنی پہاڑوں کا گر جانا ممکن ہو سکے تو بھی ہرگز یہ خیال نہ کرنا کہ اﷲتعالیٰ کبھی بھی اپنے اس وعدے کو خلاف کرے گا۔ جو اس نے اپنے رسولوں سے کیا ہوا ہے کیونکہ اﷲتعالیٰ بڑا غالب ہے اور اعداء سے بدلہ لینے والا ہے۔
۸… ’’ وَلَقَدْ سَبَقَتْ کَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِیْنَP اِنَّہُمْ لَہُمُ الْمَنْصُوْرُوْنَ (الصّٰٓفّٰت:۱۷۱،۱۷۲) ‘‘ اور اس وعدے کی نسبت سورۂ صافات میں فرمایا کہ بے شک ہمارا اپنے عباد مرسلین سے پہلے ہی سے وعدہ ہو چکا ہے کہ وہ ضرور ضرور منصور ہوں گے۔
۹… ’’ کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ (مجادلہ:۲۱) ‘‘ سورۂ مجادلہ میں فرمایا کہ اﷲتعالیٰ نے یہ امر مقرر کر دیا ہے کہ میں اور میرے رسول ضرور ضرور غالب رہیں گے۔ کیونکہ اﷲتعالیٰ بڑی قوت والا اور بڑا غالب ہے۔
۱۰… ’’ وَکَانَ فِی الْمَدِیْنَۃِ تِسْعَۃُ رَہْطٍ یُّفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ وَلَا یُصْلِحُوْنَP قَالُوْا تَقَاسَمُوْا بِاللّٰہِ لَنُبَیِّتَنَّہٗ وَاَہْلَہٗ ثُمَّ لَنَقُوْلَنَّ لِوَلِیِّہٖ مَاشَہِدْنَا مَہْلِکَ اَہْلِہٖ وَاِنَّا لَصٰدِقُوْنَP وَمَکَرُوْا مَکْرًا وَّمَکَرْنَا مَکْرًا وَّہُمْ لَا یَشْعُرُوْنَP فَانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ مَکْرِہِمْ اَنَّا دَمَّرْنٰہُمْ وَقَوْمَہُمْ اَجْمَعِیْنَP فَتِلْکَ بُیُوْتُہُمْ خَاوِیَۃً بِمَا ظَلَمُوْا اِنَّ فِیْ ذٰالِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَP وَاَنْجَیْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَ (النمل:۴۸تا۵۳) ‘‘ اور سورۂ نمل میں حضرت صالح علیہ السلام کے ذکر میں فرمایا کہ اس شہر میں نو شخص مفسد اور غیرمصلح تھے۔ انہوں نے آپس میں کہا کہ صالح علیہ السلام اور آپ کے ولی یعنی حامی ووارث کو کہیں گے کہ ہم تو اس کے اہل بیت کے مرنے کے موقع اور وقت پر حاضر ہی نہ تھے اور ہم ضرور سچے ہیں۔ اس کے بعد اﷲتعالیٰ نے فرمایا کہ یہ انہوں نے بڑا بھاری مکر کیا تھا اور ہم نے بھی مکر (تدبیر محکم) کیا اور وہ ہماری تدبیر کا شعور نہ رکھتے تھے۔ پس دیکھ ان کے مکر کا انجام کیا ہوا کہ ہم نے ان نو مفسدوں اور ان کے باقی حامی کاروں سب کو بالکل ہلاک کر دیا۔ پس یہ ان کے گھر ان کے ظلم کے سبب اجڑے پڑے ہیں۔ بے شک اس معاملہ میں علم والے یعنی سمجھ والے لوگوں کے لئے (رسولوں کی نصرت اور ان کے دشمنوں کی ذلت کا) بڑا بھاری نشان ہے اور ہم نے مؤمنین اور متقین یعنی اتباع صالح علیہ السلام کو بچا لیا۔ انتہی! خلاصہ یہ کہ قرآن کریم میں جہاں کہیں رسل اﷲ کے برخلاف کفار کے مکر کا ذکر ہے۔ اس جگہ یہی مراد ہے کہ اﷲتعالیٰ پیغمبروں کو ان کے مکر اور شر سے محفوظ رکھتا ہے اور الٹا ماکرین ہی پر وبال وعذاب نازل کیا کرتا ہے سو اسی طرح حضرت مسیح علیہ السلام کے حق میں بھی اسی طرح کی آیت آئی ہے جیسے حضرت صالح علیہ السلام اور حضرت سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں وارد ہے۔ یہ کس قدر غلط اور لغو بات ہے کہ جو الفاظ دیگر رسولوں کے محفوظ رہنے پر دلالت کریں انہی الفاظ کے ہوتے ہوئے حضرت کلمتہ اﷲ وروح اﷲ علیہ السلام اس قدر ذلت اور خواری سے صلیب پر کھینچے جائیں کہ آپ کی مبارک رانوں پر میخیں لگائی جائیں اور آپ کے پاک ہاتھوں میں کیلیں ٹھونکی جائیں اور آپ کے مقدس سر پر کانٹوں کی ٹوپی پہنائی جائے اور آپ کے خزانہ حکمت کی پسلی میں تیر مارا جائے۔ معاذ اﷲ ثم معاذ اﷲ! کس قدر تعجب کا مقام ہے کہ جس امر کی تاکید کے لئے اﷲتعالیٰ اس قدر تاکید فرمادے اور بالالتزام بیان کرے۔ اسی امر کو برخلاف مراد الٰہی اپنا عقیدہ بنایا جائے؟

قادیانی اعتراض:۵​

یہود نے قتل کا ارادہ کیا اﷲتعالیٰ نے آسمانوں پر اٹھا لیا۔ تدبیر یہود کے مقابلہ میں اﷲتعالیٰ نے قدرت نمائی کی۔ یہ تدبیر نہ ہوئی۔
جواب: یہود نے اپنی طاقت کے مطابق تدبیر کی۔ اﷲتعالیٰ رب العزت نے اپنی قدرت وطاقت کے مطابق تدبیر کی۔ مخلوق اور خالق کی طاقت کا قدرت حق سے تقابل توہین باری تعالیٰ ہے۔

قادیانی اعتراض:۶​

سیدنا مسیح علیہ السلام کی شکل دوسرے شخص پر ڈال دی۔ دوسرے شخص کی شکل ہوبہو مسیح کی شکل ہوگئی یہ کیسے ممکن ہے؟
جواب: قرآن مجید میں صراحت سے مذکور ہے کہ اﷲتعالیٰ نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے عصاء (لکڑی) کو سانپ بنادیا۔ جس نے حرکت کی اور تمام جادوگروں کی اشیاء کو ہڑپ کرگیا جو خداوند کریم بے جان لکڑی کی شکل بدل کر جاندار جانور بنانے پر قادر ہیں۔ اس ذات نے ایک انسان کی شکل دوسرے پر ڈال دی تو اس میں اشکال کیا ہے؟

قادیانی اعتراض:۷​

اﷲتعالیٰ نے باقی انبیاء علیہم السلام حتیٰ کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زمین پر حفاظت کی، وہ عیسیٰ علیہ السلام کو آسمانوں پر کیوں لے گئے؟
جواب: ۱… ہر نبی کی اپنی خصوصیت تھی۔ حق تعالیٰ شانہ نے تمام انبیاء کو مختلف خصوصیات سے سرفراز فرمایا۔ کسی کو کوئی خصوصیت دی۔ کسی کو کوئی۔ خصوصیت کی تعریف ہی یہ ہے۔ ’’ خاصۃ الشیٔ یوجد فیہ ولا یوجد فی غیرہ ‘‘ تمام انبیاء کو زمین سے زمین پر ہجرت کرائی۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی خصوصیت ہے کہ ان کو آسمانوں پر ہجرت کرائی۔ باقی رہا کیوں؟ تو اس کا جواب اﷲتعالیٰ سے مانگنا چاہئے۔ لیکن جہاں تک نصوص کا تعلق ہے تو سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو پانی سے پار کیا۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام پر آگ ٹھنڈی کر دی۔ سیدنا آدم علیہ السلام کو آسمانوں سے زمین پر اتارا۔ (۱)بہتے دریا سے راستہ کا بن جانا۔ (۲)جلتی آگ کا نہ جلانا۔ خود جل رہی ہے مگر ابراہیم علیہ السلام اس میں محفوظ ہیں۔
(۳)آدم علیہ السلام کا آسمانوں سے زمین پر آنا۔ اگر صحیح اور ممکن ہے تو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا آسمانوں پر جانا کیوں غلط اور نہ ممکن ہے؟
۲… ’’ وانہ لعلم للساعۃ ‘‘ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام قیامت کی نشانی ہیں۔ ان کو قیامت تک ایسے ماحول میں رکھا جاسکتا ہے جو مرور زمانہ کے اثرات سے محفوظ ہو اور وہ آسمان ہی ہیں کہ مرور زمانہ کا اس ماحول کے باشندگان (ملٰئکۃ) پر کوئی اثر نہیں۔
۳… سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نفخۂ جبرائیل سے پیدا ہوئے تو ان کی ملکوتی صفات کے ظہور کے لئے آسمانوں پر جانا عین تقاضہ تھا جسے حق تعالیٰ نے پورا فرمایا۔ اس لئے جائے اعتراض نہیں جائے تسلیم ہے۔ (خذو کن من الشاکرین)

قادیانیوں سے سوال​

۱… مرزاقادیانی! آپ کی ساری تحریر کا مطلب تو یہ ہے کہ یہود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پھانسی دے کر لعنتی ثابت کرنا چاہتے تھے اور یہی ان کا مکر تھا۔ اس کے مقابلہ پر خدا نے پھانسی پر جان نہ نکلنے دی اور کسی کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ بچ جانے کا سوائے آپ کے پتہ بھی نہ لگ سکا اس بناء پر تو یہودی اپنی تدبیر میں خوب کامیاب ہو گئے۔ یعنی نہ صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ملعون ہی ثابت کر دیا بلکہ کروڑہا نصاریٰ سے عیسیٰ علیہ السلام کے ملعون ہونے کے عقیدہ کا اقرار بھی لے لیا۔ پس بتلائیے! کون اپنی تدبیر میں غالب رہا۔ یہود یا خدا احکم الحاکمین؟ آپ کے بیان کے مطابق تو یہود کا مکر ہی غالب رہا۔
۲… سبحان اﷲ! یہ بھی کوئی کمال ہے کہ یہودیوں نے جو کچھ چاہا حضرت مسیح علیہ السلام سے کر لیا۔ خدا منع نہ کر سکا۔ اگر کیا تو یہ کہ عزرائیل کو حکم دے دیا کہ دیکھنا اس کی روح مت نکالنا پھر ساتھ ہی دعویٰ کرتا ہے کہ میں تمام تدبیریں کرنے والوں سے بہتر تدبیر کرنے والا ہوں۔ کیا اس قادیانی تحریف کا قرآنی اسلوب متحمل ہے۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

حیات عیسیٰ علیہ السلام کی چوتھی دلیل​

’’ قَالَ اللّٰہُ عَزْوَجَلَّ اِذْ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیْسٰی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ وَمُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَاَحْکُمُ بَیْنَکُمْ فِیْمَا کُنْتُمْ فِیْہِ تَخْتَلِفُوْنَ (آل عمران:۵۵) ‘‘ {جس وقت کہا اﷲ نے اے عیسیٰ میں لے لوں گا تجھ کو اور اٹھالوں گا اپنی طرف اور پاک کردوں گا تجھ کو کافروں سے اور رکھوں گا ان کو جو تیرے تابع ہیں غالب ان لوگوں سے جو انکار کرتے ہیں قیامت کے دن تک پھر میری طرف ہے تم سب کو پھر آنا پھر فیصلہ کر دوں گا تم میں جس بات میں تم جھگڑتے ہو۔}

ترجمہ وتفسیر​

یہودیوں نے عیسیٰ علیہ السلام کے پکڑنے اور قتل کرنے کی خفیہ تدبیریں کیں اور اﷲتعالیٰ نے ان کی حفاظت اور عصمت کی ایسی تدبیر فرمائی جو ان کے وہم وگمان سے بھی بالا اور برتر تھی۔ وہ یہ کہ ایک شخص کو عیسیٰ علیہ السلام کا ہم شکل بنادیا اور عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا اور یہودی جب گھر میں داخل ہوئے تو اس ہم شکل کو پکڑ کر لے گئے اور عیسیٰ علیہ السلام سمجھ کر اس کو قتل کیا اور سولی پر چڑھایا اور اﷲتعالیٰ سب سے بہتر تدبیر فرمانے والے ہیں۔ کوئی تدبیر اﷲ کی تدبیر کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اس وقت اﷲتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پریشانی دور کرنے کے لئے یہ فرمایا کہ اے عیسیٰ تم گھبراؤ نہیں، تحقیق میں تم کو تمہارے ان دشمنوں سے بلکہ اس جہاں ہی سے پورا پورا لے لوں گا اور بجائے اس کے کہ یہ ناہنجار تجھ کو پکڑ کر لے جائیں اور صلیب پر چڑھائیں میں تجھ کو اپنی پناہ میں لے لوں گا اور آسمان پر اٹھاؤں گا کہ جہاں کوئی پکڑنے والا پہنچ ہی نہ سکے اور تجھ کو ان ناپاک اور گندوں سے نکال کر پاک اور صاف مطہر اور معطر جگہ میں پہنچا دوں گا کہ تجھ کو کفر اور عداوت کا رائحہ بھی محسوس نہ ہو اور یہ ناہنجار تجھ کو بے عزت کر کے تیرے اور تیرے دین کے اتباع سے لوگوں کو روکنا چاہتے ہیں اور میں اس کے بالمقابل تیرے پیروؤں کو تیرے کفر کرنے والوں پر قیامت تک غالب اور فائق رکھوں گا۔ تیرے خدام اور غلام ان پر حکمران ہوں گے اور یہ ان کے محکوم اور باج گزار ہوں گے۔ قیامت کے قریب تک یوں ہی سلسلہ رہے گا کہ نصاریٰ ہر جگہ یہود پر غالب اور حکمران رہیں گے اور اپنی ذلت ومسکنت کا اور حضرت مسیح بن مریم کے نام لیواؤں کی عزت ورفعت کا مشاہدہ کرتے رہیں گے اور اندر سے تلملاتے رہیں گے۔ یہاں تک کہ جب قیامت قریب آجائے گی اور دجال کو جیل خانہ سے چھوڑ دیا جائے گا تا کہ یہود بے بہبود اپنی عزت اور حکومت قائم کرنے کے لئے اس کے اردگرد جمع ہو جائیں تو یکایک عیسیٰ علیہ السلام بصد جاہ وجلال آسمان سے نازل ہوں گے اور دجال کو جو یہود کا بادشاہ بنا ہوا ہوگا اس کو تو خود اپنے دست مبارک سے قتل فرمائیں گے اور باقی یہود کا قتل وقتال اور اس جماعت کا بالکلیۃ استیصال امام مہدی اور مسلمانوں کے سپرد ہوگا۔ دجال کے متبعین کو چن چن کر قتل کیا جائے گا۔ نزول سے پہلے یہود اگرچہ حضرت مسیح علیہ السلام کے غلام اور محکوم تھے مگر زندہ رہنے کی تو اجازت تھی مگر حضرت مسیح علیہ السلام کے نزول کے بعد زندہ رہنے کی بھی اجازت نہ رہے گی۔ ایمان لے آؤ یا اپنے وجود سے بھی دستبردار ہو جاؤ اور نصاریٰ کو حکم ہوگا کہ میری الوہیت اور ابنیت کے عقیدہ سے تائب ہوجاؤ اور مسلمانوں کی طرح مجھ کو اﷲ کا بندہ اور رسول سمجھو اور صلیب کو توڑ دیں گے اور خنزیر کو قتل کریں گے اور جزیہ کو ختم کریں گے اور سوائے دین اسلام کے کوئی دین قبول نہ فرمائیں گے۔ الغرض نزول کے بعد اس طرح تمام اختلافات کا فیصلہ فرمائیں گے۔ جیسا کہ آئندہ آیت میں اس طرف اشارہ فرماتے ہیں۔ پھر تم سب کا میری طرف لوٹنا ہے۔ پس اس وقت میں تمہارے اختلافات کافیصلہ کروں گا۔ وہ فیصلہ یہ ہوگا کہ عیسیٰ علیہ السلام کے نزول سے یہود کا یہ زعم باطل ہو جائے گا کہ ہم نے حضرت مسیح علیہ السلام کو قتل کر دیا۔ ’ ’کَمَا قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَقَوْلِہِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحِ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ رُسُوْلَ اللّٰہِ ‘‘ اور نصاریٰ کا یہ زعم باطل ہوگا کہ وہ خدایا خدا کے بیٹے ہیں اور حیات مسیح علیہ السلام کے مسئلہ کا فیصلہ ہو جائے گا اور روز روشن کی طرح تمام عالم پر یہ واضح ہو جائے گا کہ عیسیٰ علیہ السلام اسی جسد عنصری کے ساتھ زندہ آسمان پر اٹھائے گئے تھے اور اسی جسم کے ساتھ آسمان سے اترے ہیں۔

لفظ توفی کی تحقیق​

قبل اس کے کہ ہم ان آیات کی مفصل تفسیر کریں لفظ توفی کی تحقیق ضروری سمجھتے ہیں۔
توفی وفا سے مشتق ہے جس کے معنی پورا کرنے کے ہیں یہ مادہ خواہ کی شکل اور کسی ہیئت میں ظاہر ہو مگر کمال اور تمام کے معنی کو ضرور لئے ہوئے ہوگا۔ ’’کما قال تعالٰی وَاَوْفُوْا بِعَہْدِیْ اُوْفِ بِعَہْدِکُمْ (بقرہ:۴۰)‘‘ تم میرے عہد کو پورا کرو میں تمہارے عہد کو پورا کروں گا۔ ’’ وَاَوْفُوا الْکَیْلَ اِذَا کِلْتُمْ (اسراء:۳۵) ‘‘ ماپ کو پورا کرو جب تم تولا کرو ’ ’یُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ (دہر:۷) ‘‘ اپنی نذروں کوپورا کرتے ہیں۔ ’’ وَاِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَکُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃ (آل عمران:۱۸۵) ‘‘ جز ایں نیست کہ تم پورا پورا اجر قیامت کے دن دئیے جاؤ گے۔ یعنی کچھ تھوڑا بہت اجرتو دنیا میں بھی مل جائے گا مگر پورا پورا اجر قیامت کے دن ہی ملے گا۔
اور لفظ توفی جو اسی مادہ یعنی وفا سے مشتق ہے اس کے اصلی اور حقیقی معنی ’’ اخذ الشیٔ وافیا ‘‘ کے ہیں۔ یعنی کسی چیزکو پورا پورا لے لینا کہ باقی کچھ نہ رہے۔ قرآن اور حدیث اور کلام عرب میں جس جگہ بھی یہ لفظ مستعمل ہوا ہے سب جگہ توفی سے استفیاء اور اکمال اور اتمام ہی کے معنی مراد لئے گئے ہیں۔ توفی سے اگر کسی جگہ موت کے معنی مراد لئے گئے ہیں تو وہ کنایتہ اور لزوماً مراد لئے گئے ہیں۔ اس لئے کہ استیفا عمر اور اتمام عمر کے لئے موت لازم ہے۔ توفی عین موت نہیں بلکہ موت تو توفی بمعنی اکمال عمر اور اتمام زندگی کا ایک ثمرہ اور نتیجہ ہے۔

توفی کا لغوی معنی​

(لسان العرب ج۱۵ ص۳۵۹) میں ہے: ’’ توفی المیت استیفاء مدۃ التی وفیت لہ وعدد ایامہ وشہورہ وعوامہ فی الدنیا ‘‘
یعنی میت کے توفی کے معنی یہ ہیں کہ اس کی مدت حیات کو پورا کرنا اور اس کی دنیاوی زندگی کے دنوں اورمہینوں اور سالوں کو پورا کر دینا۔ مثلاً کہا جاتا ہے، فلاں بزرگ کا وصال یا انتقال ہوگیا۔ وصال کے اصل معنی ملنے کے ہیں اور انتقال کے اصل معنی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو جانے کے ہیں۔ بزرگوں کی موت کو موت کے لفظ سے تعبیر کرنا عرف میں خلاف ادب سمجھا جاتا ہے اس لئے بجائے موت کے لفظ وصال اور انتقال مستعمل ہوتا ہے۔ یعنی اپنے رب سے جا ملے اور دارفانی سے دار جاودانی کی طرف انتقال فرمایا اور کبھی اس طرح کہتے ہیں کہ فلاں بزرگ رحلت فرمائے عالم آخرت ہوئے یا یہ کہتے ہیں کہ فلاں شخص اس عالم سے رخصت ہوا یا فلاں شخص گزر گیا تو کیا اس استعمال سے کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ وصال اور انتقال اور رحلت اور رخصت وغیرہ ان الفاظ کے حقیقی اور اصلی معنی موت کے ہیں؟ ہرگز نہیں بلکہ یہ سمجھتا ہے کہ اصلی اور حقیقی معنی تو اور ہیں۔ تشریف اور تکریم کی غرض کہ بزرگوں کی موت کو وصال اور انتقال کے لفظ سے تعبیر کر دیا گیا۔ اسی طرح توفی کے لفظ کو سمجھئے کہ اصلی اور حقیقی معنی تو استفیاء اور اکمال کے ہیں۔ مگر بعض مرتبہ بغرض تشریف وتکریم کسی کی موت کو توفی کے لفظ سے کنایتہ تعبیر کر دیا جاتا ہے جس سے قادیان اور چناب نگر کے احمق اور نادان یہ سمجھ گئے کہ توفی کے حقیقی معنی ہی موت کے ہیں۔
۲… (علامہ زمخشری اساس البلاغۃ ج۲ ص۳۰۴) میں تصریح فرماتے ہیں کہ توفی کے حقیقی اور اصلی معنی استیفاء اور استکمال کے ہیں اور موت کے معنی مجازی ہیں: ’’ وفی بالعہد واوفی بہ وہو وفا من قوم وہم اوفیاء واوفاہ واستوفاہ توفاہ استکملہ ومن المجاز توفی وتوفاہ اللّٰہ ادرکہ الوفاۃ ‘‘
۳… علامہ زبیدی تاج العروس (شرح قاموس ج۲۰ ص۳۰۱) مادہ وفی پر فرماتے ہیں: ’’ وفی الشئی وفیأ ای تم وکثرفہو وفی وواف بمعنی واحد وکل شی بلغ تمام الکمال فقد وفٰی وتم ومنہ اوفی فلانا حقہ اذا عطاہ وافیا واوفاہ فاستوفٰی وتوفاہ ای لم یدع منہ شیئا فہما مطا وعان لاوفاہ وافاہ ومن المجاز ادرکتہ الوفاۃ ای والموت والمنیۃ وتوفی فلان اذا مات وتوفاہ اللّٰہ عزوجل اذا قبض نفسہ ‘‘

توفی کا حقیقی معنی موت نہیں​

اب ہم چند آیتیں ہدیۂ ناظرین کرتے ہیں جس سے صاف طور پر یہ معلوم ہو جائے گا کہ توفی کی حقیقت موت نہیں بلکہ توفی موت کے علاوہ کوئی اور شئے ہے۔
آیت اوّل: ’’ اَللّٰہُ یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِہَا وَالَّتِیْ لم تَمُتْ فِیْ مَنَامِہَا فَیُمْسِکُ الَّتِیْ قَضٰی عَلَیْہَا الْمَوْتَ وَیُرْسِلُ الْاُخْرٰی اِلٰی اَجَلٍ مُّسَمَّی (الزمر:۴۲) ‘‘ یعنی اﷲتعالیٰ قبض کرتا ہے روحوں کو جب وقت ہو ان کے مرنے کا اور جو نہیں مرے ان کو قبض کرتا ہے وقت نیند کے۔ پس روک لیتا ہے ان کو جن پر موت مقدر کی ہے اور واپس بھیج دیتا ہے دوسروں کو وقت مقرر تک۔
اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ توفی بمعنی موت کا نام نہیں بلکہ توفی موت کے علاوہ کوئی اور شئے ہے کہ جو کبھی موت کے ساتھ جمع ہوتی ہے اور کبھی نیند کے ساتھ۔ یعنی تمہاری جانیں خدا کے قبضہ اور تصرف میں ہیں۔ ہر روز سوتے وقت تمہاری جانیں کھینچتا ہے اور پھر واپس کر دیتا ہے۔ مرنے تک ایسا ہی ہوتا رہتا ہے اور جب موت کا وقت ہوتا ہے تو پھر جان کھینچنے کے بعد واپس نہیں کی جاتی۔ خلاصہ یہ کہ آیت ہذا میں توفی کی موت اور نیند کی طرف تقسیم اس امر کی صریح دلیل ہے کہ توفی اور موت الگ الگ چیزیں ہیں اور ’’ حِیْنَ مَوْتِہَا ‘‘ کی قید سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ توفی موت کے وقت ہوتی ہے عین موت نہیں ورنہ خود شئے کا اپنے لئے ظرف ہونا لازم آتا ہے۔ لسان العرب سے ہم ابھی نقل کر چکے ہیں کہ توفی کے معنی استفیاء اور استکمال یعنی کسی شئے کو پورا پورا لینے کے ہیں۔
۴… (صاحب لسان ج۱۵ ص۳۵۹،۳۶۰، طبع بیروت) توفی کی حقیقت بیان کر دینے کے بعد آیت موصوفہ کی تفسیر فرماتے ہیں: ’ ’ومن ذلک قولہ عزوجل اللّٰہ یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِہَا ای ستوفی مددآجالہم فی الدنیا واما توفی النائم فہو استیفاء وقت عقلہ وتمیزہ الی ان نام ‘‘ یعنی مرنے کے وقت جان اور روح پوری پوری لے لی جاتی ہے اور نیند کے وقت عقل اور ادراک اورہوش اور تمیز کو پوراپورا لے لیا جاتا ہے۔‘‘
حاصل یہ کہ توفی کے معنی تو وہی استفیاء اور ’’ اخذ الشیٔ وافیا ‘‘ یعنی شئے کو پورا پورا لینے ہی کے رہے۔ توفی میں کوئی تغیر اور تبدل نہیں صرف توفی کے متعلق میں تبدیلی ہوئی۔ ایک جگہ توفی کا متعلق موت ہے اور دوسری جگہ نوم (نیند)
آیت دوم: ’’ وَہُوْ الَّذِی یَتَوَفّٰکُمْ بِاللَّیْل (انعام:۶۰) ‘‘ وہی ہے کہ جو تم کو رات میں پوراپور کھینچ لیتا ہے۔
اس مقام پر بھی توفی موت کے معنی میں مستعمل نہیں ہوا بلکہ نیند کے موقع پر توفی کا استعمال کیاگیا۔ حالانکہ نوم میں قبض روح پورا نہیں ہوتا۔
آیت سوم: ’’ حَتّٰی یَتَوَفّٰہُنَّ الْمَوْتُ (النساء:۱۵) ‘‘ حضرت شاہ ولی اﷲ صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ اس کا ترجمہ اس طرح کرتے ہیں۔ ’’تاآں کہ عمر ایشان را تمام کند مرگ‘‘ یعنی یہاں تک کہ موت ان کی عمر تمام کر دے۔
اس آیت میں توفی کے معنی اتمام عمر اور اکمال عمر کے لئے گئے ہیں۔ علاوہ ازیں قرآن کریم میں جابجا موت کے مقابلہ میں حیات کو ذکر فرمایا ہے۔ توفی کو حیات کے مقابل ذکر نہیں فرمایا۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ توفی کی حقیقت موت نہیں۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

موت وحیات کا تقابل​

ورنہ اگر توفی کی حقیقت موت ہوتی تو جس طرح جابجا موت کے مقابل حیات کا ذکر کیا جاتا ہے اسی طرح توفی کے مقابل بھی حیات کا ذکر کیا جاتا۔ چند آیات ہدیۂ ناظرین کرتے ہیں جن میں حق تعالیٰ نے حیات کو موت کے مقابل ذکر فرمایا ہے۔ توفی کے مقابل ذکر نہیں فرمایا۔ قال تعالیٰ:
۱… ’’یُحْیِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا (الروم:۱۹)‘‘
۲… ’’کِفَاتًا اَحْیَآئً وَاَمْوَاتًا (مرسلات:۲۶)‘‘
۳… ’’یُحْیِیْکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ (بقرہ:۲۸)‘‘
۴… ’’ہُوَ اَمَاتَ وَاَحْیٰی (النجم:۴۴)‘‘
۵… ’’یُخْرِجُ الْحَیَّی مِنَ الْمَیِّتِ وَیُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّی (یونس:۳۱)‘‘
۶… ’’اَمُوْاتُ غَیْرُ اَحْیَآئٍ (النحل:۲۱)‘‘
۷… ’’وَتَوَکَّلْ عَلَی الْحَیِّی الَّذِیْ لَا یَمُوْتُ (فرقان:۵۸)‘‘
۸… ’’لَایَمُوْتُ فِیْہَا وَلَا یَحْیٰی (طٰہٰ:۷۴)‘‘
۹… ’’کَذٰلِکَ یُحْیِّی اللّٰہُ الْمَوْتٰی (البقرہ:۷۳)‘‘
۱۰… ’’یُحْیِّی وَیُمِیْتُ وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیٍٔ قَدِیْرُ (التوبہ:۱۱۷)‘‘

ان آیات اور ائمہ لغت کی تصریحات سے یہ بات بخوبی منکشف ہوگئی کہ توفی کی حقیقت موت نہیں بلکہ توفی ایک جنس کا درجہ رکھتا ہے جس کے تحت میں کئی فرد مندرج ہیں۔ جیسے حیوان ایک جنس ہے اور انسان اور فرس اور بقر وغیرہ اس کے افراد ہیں۔ حیوانیت کبھی انسانیت میں ہوکر پائی جاتی ہے اور کبھی فرس کے ساتھ۔ وغیرذلک!
۵… چنانچہ حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’ لفظ التوفی فی لغۃ العرب معناہ الاستیفاء والقبض وذلک ثلاثۃ انواعٍ احدہا توفی النوم، والثانی توفی الموت والثالث توفی الروح والبدن جمیعًا (الجواب الصحیح ج۲ ص۲۸۳) ‘‘
’’لغت عرب میں توفی کے معنی استیفاء پورا پورا لینے کے ہیں اور توفی کی تین قسمیں ہیں۔ ایک توفی نوم یعنی نیند اور خواب کی توفی اور دوسری توفی موت کے وقت روح کو پورا پورا قبض کر لینا۔ تیسری توفی الروح والجسد۔ یعنی روح اور جسم کو پورا پورا لینا۔‘‘

توفی بمعنی موت کہاں؟​

جن ائمہ لغت نے توفی کے معنی قبض روح کے لکھے ہیں انہوں نے یہ کہیں نہیں لکھا کہ فقط قبض روح کو توفی کہتے ہیں اور اگر قبض روح مع البدن ہو تو اس کو توفی نہیں کہتے۔ بلکہ اگر قبض روح کے ساتھ قبض بدن بھی ہو تو بدرجہ اولیٰ توفی ہوگی۔ جب یہ ثابت ہوگیا کہ توفی ایک جنس ہے اور نوم (نیند) اور موت اور رفع جسمانی یہ اس کے انواع اور اقسام ہیں اور یہ مسلم ہے کہ نوع اور قسم معین کرنے کے لئے قرینہ کا ہونا ضروری اور لازمی ہے اس لئے جہاں لفظ توفی کے ساتھ موت اور اس کے لوازم کا ذکرہو گا اس جگہ توفی سے موت مراد لی جائے گی جیسے۔ ’’ قُلْ یَتَوَفّٰکُمْ مَلَکُ الْمَوْتِ الَّذِیْ وُکِّلَ بِکُمْ (سجدہ:۱۱) ‘‘ {اے ہمارے نبی! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیجئے کہ پورا پورا پکڑے گا تم کو وہ موت کا فرشتہ جو تم پر مسلط کیاگیا ہے۔}
اس مقام پر ملک الموت کے قرینہ سے توفی سے موت مراد لی جائے گی۔

توفی بمعنی نیند​

جس جگہ توفی کے ساتھ نوم یعنی خواب اور اس کے متعلقات کا ذکر ہوگا اس جگہ توفی سے نوم کے معنی مراد لئے جائیں گے۔ جیسے: ’’ وَہُوَ الَّذِیْ یَتَوَفّٰکُمْ بِاللَّیْلِ ‘‘ {وہی خدا تم کو رات میں پورا پورا لیتا ہے۔} لیل کے قرینہ سے معلوم ہوا کہ اس جگہ توفی سے نوم کے معنی مراد ہیں۔ ابونواس کہتا ہے ؎
’’ فلما توفاہ رسول الکریٰ ‘‘ یعنی نیند کے قاصد نے اس کو پورا پورا لے لیا یعنی سلا دیا۔ اس شعر میں بھی توفی سے نوم کے معنی مراد ہیں اور جس جگہ توفی کے ساتھ رفع کا ذکر ہو یا اور کوئی قرینہ ہو تو وہاں توفی سے رفع جسمانی مراد ہوگا اور مرزاقادیانی بھی، دعویٰ مسیحیت سے پہلے توفی کے معنی موت کے نہیں سمجھتے تھے جیسا کہ (براہین احمدیہ ص۵۲۰، خزائن ج۱ ص۶۲۰) پر لکھتے ہیں: ’’ اِنِّی مُتَوَفِّیْکَ ‘‘ یعنی میں تجھ کو پوری نعمت دوں گا اور اس کتاب کے (ص۴۹۹، خزائن ج۱ ص۵۹۳، ص۵۰۵، خزائن ج۱ ص۶۰۱) پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا زندہ رہنا اور نہایت عظمت اور جلال کے ساتھ دوبارہ دنیا میں آنا تسلیم کیا ہے۔ غرض یہ ثابت ہوگیا کہ توفی کے حقیقی معنی استیفاء اور ’’ اخذ الشیٔ وافیًا ‘‘ یعنی کسی شئے کو پورا پورا لینے کے ہیں اور یہ کسی کتاب میں نہیں کہ توفی کے حقیقی معنی موت کے ہیں۔ اگر کسی مرزائی سے ممکن ہے تو لغت کی کوئی کتاب لا دکھاوے جس میں یہ تصریح ہو کہ توفی کے حقیقی معنی موت کے ہیں۔ بلکہ ہم دعوے کے ساتھ کہتے ہیں کہ قرآن اور حدیث میں، جہاں کہیں بھی لفظ توفی آیا ہے۔ سب جگہ توفی کے اصلی اور حقیقی ہی معنی مراد ہیں یعنی استیفاء اور استکمال۔ مگر چونکہ عمر کے پورا ہو جانے کے بعد موت کا تحقق لازمی ہے اس لئے مجازاً یہ کہہ دیا گیا کہ یہاں موت کے معنی مراد ہیں۔

قادیانیوں سے سوال:۴​

ہم نے کتب متعددہ سے توفی کے مجازی معنی موت کی تصریح دکھائی۔ دنیا بھر کے قادیانی کسی کتاب لغت سے توفی کے حقیقی معنی موت دکھا سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔
خلاصہ کلام: یہ کہ توفی کے اصلی معنی پورا وصول کرنے اور ٹھیک لینے کے ہیں۔ قرآن کریم نے لفظ توفی کو نوم اور موت کے معنی میں اس لئے استعمال کیا کہ اہل عرب پر موت اور نوم کی حقیقت واضح ہو جائے۔ جاہلیت والے اس حقیقت سے بالکل بے خبر تھے کہ موت اور نوم میں حق تعالیٰ کوئی چیز بندہ سے لیتے ہیں۔ عرب کا عقیدہ یہ تھا کہ انسان مر کر نیست ونابود ہو جاتا ہے۔ موت کو فنا اور عدم کے مترادف سمجھتے تھے۔ اس لئے وہ بعث اور نشأۃ ثانیہ کے منکر تھے۔ اﷲتعالیٰ نے ان کے رد کے لئے ارشاد فرمایا: ’’ قُلْ یَتَوَفّٰکُمْ مَلَکُ الْمَوْتِ الَّذِیْ وُکِّلَ بِکُمْ ثُمَّ اِلٰی رَبِّکُمْ تُرْجَعُوْنَ (سجدہ:۱۱) ‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم منکرین بعث سے کہہ دیجئے کہ مرکر تم فنا نہیں ہوتے بلکہ موت کا فرشتہ تم سے اﷲ کا پورا پورا حق وصول کر لیتا ہے۔ یعنی وہ ارواح کہ جو اﷲ کی امانت ہیں وہ تم سے لے لی جاتی ہیں اور اﷲ کے یہاں محفوظ رہتی ہیں۔ قیامت کے دن پھر یہی ارواح تمہارے اجسام کے ساتھ متعلق کر کے حساب کے لئے پیشی ہوگی۔
حضرت شاہ عبدالقادر صاحب قدس اﷲ سرہ فرماتے ہیں: ’’تم اپنے آپ کو دھڑ سمجھتے ہو کہ خاک میں رل گئے تم جان لو وہ فرشتہ لے جاتا ہے فنا نہیں ہوتے۔‘‘
شاہ صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ان مختصر الفاظ میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا جس کی ہم نے وضاحت کی۔ اس آیت میں بھی توفی کے معنی موت کے نہیں بلکہ حق وصول کرنے کے ہیں۔ موت دینے والا تو صرف وہی محیی اور ممیت ہے۔ ملک الموت تو اﷲ کا حق وصول کرنے والا ہے۔

آیت توفی کی تفسیر:​

جب توفی کے معنی معلوم ہو گئے تو اب آیت توفی کی تفسیر سنئے۔ یہود بے بہبود نے جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کی تدبیریں شروع کیں تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بھی اس کو محسوس فرمالیا۔ ’’ کما قال تعالٰی فَلَمَّا اَحَسَّ عِیْسٰی مِنْہُمُ الْکُفْرَ ‘‘ تو اﷲ تعالیٰ نے اس وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تسلی فرمائی کہ اے عیسیٰ تم گھبراؤ مت۔ یہ تو تدبیریں کر ہی رہے ہیں ہم بھی تدبیریں کر رہے ہیں۔ عنقریب تم کو معلوم ہو جائے گا۔
اس آیت شریفہ میں حق تعالیٰ نے ان پانچ وعدوں کا ذکر فرمایا ہے جو اﷲتعالیٰ نے اس وقت عیسیٰ علیہ السلام سے فرمائے۔ ایک: توفی، دوم: رفع، اور سوم: تطہیر من الکفار یعنی کافروں سے پاک کرنا، اور چہارم: متبعین کا منکرین پر قیامت تک غالب اور فائق رہنا، اور پنجم: فیصلۂ اختلافات۔ اوّل کے تین وعدے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ذات بابرکات کے متعلق ہیں اور چوتھا خدام کے متعلق ہے اور پانچواں فیصلہ کے متعلق ہے جس کا تعلق سب سے ہے۔

چار وعدے​

۱… وعدۂ توفی:​

جمہور صحابہi اور تابعین رحمہ اللہ تعالیٰ اور عامہ سلف وخلف اس طرف گئے ہیں کہ آیت میں توفی سے موت کے معنی مراد نہیں بلکہ توفی کے اصلی اور حقیقی معنی مراد ہیں یعنی پورا پورا اور ٹھیک ٹھیک لے لینا۔ کیونکہ مقصود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تسلی اور تسکین ہے کہ اے عیسیٰ تم ان دشمنوں کے ہجوم اور نرغہ سے گھبراؤ نہیں میں تم کو پورا پورا روح اور جسم سمیت ان نابکاروں سے چھین لوں گا۔ یہ نابکار اور ناہنجار اس لائق نہیں کہ تیرے وجود مسعود کو ان میں رہنے دیا جائے۔ ان کی ناقدردانی اور ناسپاسی کی سزا یہ ہے کہ ان سے اپنی نعمت واپس لے لی جائے۔ حضرت مولانا الشاہ سید محمد انور نور اﷲ وجہہ یوم القیامۃ ونضر (آمین) فرماتے ہیں۔
وجوہ لم تکن اہلًا لخیرٍ فیاخذ منہم عیسٰی الیہ
’’یہ چہرے خیر کے قابل نہ تھے اس لئے اﷲتعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو ان سے لے کر اپنی طرف کھینچ لیا۔‘‘
ویرفعہ ولا یبقیہ فیہم کاخذ الشیٔ لم یشکر علیہ
’’اور اپنی طرف اٹھا لیا اور نہ چھوڑا۔ عیسیٰ علیہ السلام کو ان سے ایسا لے لیا۔ جیسا کہ اس شئے کو لے لیا جاتا ہے کہ جس کی ناقدری کی جائے۔‘‘
وحیز کما یحاز الشیٔ حفظًا واٰواہ الٰی ماویٰ لدیہ
’’اور ان سے چھین کر اپنے پاس محفوظ رکھا اور اپنے یہاں ان کو ٹھکانا دیا۔‘‘
اس مقام پر موت کے معنی مناسب نہیں۔ اس لئے کہ جب ہر طرف سے خون کے پیاسے اور جان کے لیوا کھڑے ہوئے ہوں تو اس وقت تسلی اور تسکین خاطر کے لئے موت کی خبر دینا یا موت کا ذکر کرنا مناسب نہیں۔ دشمنوں کا تو مقصود ہی جان لینا ہے اس وقت تو مناسب یہ ہے کہ یہ کہا جائے کہ تم گھبراؤ نہیں ہم تم کو تمہارے دشمنوں کے نرغہ سے صحیح سالم نکال لے جائیں گے۔ تمہارا بال بھی بیکا نہ ہوگا۔ ہم تم کو دشمنوں کے درمیان سے اس طرح اٹھالیں گے کہ تمہارے دشمنوں کو تمہارا سایہ بھی نہ ملے گا۔ آیت میں اگر توفی سے موت کے معنی مراد ہوں تو عیسیٰ علیہ السلام کی تو تسلی نہ ہوگی۔ البتہ یہود کی تسلی ہوگی اور معنی آیت کے یہ ہوں گے کہ اے یہود! تم بالکل نہ گھبراؤ اور نہ مسیح کے قتل کی فکر کرو۔ میں خود ہی ان کو موت دوں گا اور تمہاری تمنا اور آرزو پوری کروں گا۔ خود بخود تمہاری تمنا پوری ہو جائے گی۔ تمہیں کوئی مشقت بھی نہ ہوگی۔
۲… نیز یہ کہ توفی بمعنی الموت تو ایک عام شئے ہے جس میں تمام مؤمن اور کافر، انسان اور حیوان سب ہی شریک ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی کیا خصوصیت ہے جو خاص طور پر ان سے توفی کا وعدہ فرمایا گیا؟ قرآن کریم کے تتبع اور استقراء سے معلوم ہوتا ہے کہ توفی کا وعدہ حق تعالیٰ نے سوائے عیسیٰ علیہ السلام کے اور کسی سے نہیں فرمایا۔
رفع کا معنی: جب ’’ رَفَعَ یَرْفَعُ رَفُعًا فَہُوَ رَافِ عٌ‘‘ میں سے کوئی بولا جائے جہاں اﷲتعالیٰ فاعل ہو، اور مفعول ’’جوہر‘‘ ہو (’’عرض‘‘ نہ ہو) اور صلہ الیٰ مذکور ہو اور مجرور اس کا ضمیر ہو۔ اسم ظاہر نہ ہو اور وہ ضمیر فاعل کی طرف راجع ہو۔ وہاں سوائے آسمان پر اٹھانے کے دوسرے معنی ہی نہیں۔
وعدہ دوم: ’’ کَمَا قَالَ تَعَالٰی وَرَافِعُکَ اِلَیَّ ‘‘ یعنی اے عیسیٰ میں تم کو اپنی جانب اٹھاؤں گا۔ جہاں کسی انسان کی رسائی بھی نہیں ہوسکتی۔ جہاں میرے فرشتے رہتے ہیں وہاں تم کو رکھوں گا۔ اس آیت میں رفع سے رفع جسمانی مراد ہے۔ اس لئے کہ:
۱… ’’ رافعک ‘‘ میں خطاب جسم مع الروح کو ہے۔
۲… رفع درجات تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پہلے ہی سے حاصل تھا اور رفع روحانی بصورت موت، یہ مرزاقادیانی کے زعم کے مطابق خود ’’ متوفیک ‘‘ سے معلوم ہو چکا ہے۔ لہٰذا دوبارہ ذکر کرنا موجب تکرار ہے۔
۳… نیز رفع روحانی ہر مرد صالح اور نیک بخت کی موت کے لئے لازم ہے اس کو خاص طور پر بصورت وعدہ بیان کرنا بے معنی ہے۔
۴… نیز باتفاق محدثین ومفسرین اور مورخین یہ آیتیں نصاریٰ نجران کے مناظرہ اور ان کے عقائد کی اصلاح کے بارے میں اتری ہیں اور ان کا عقیدہ یہ تھا کہ عیسیٰ علیہ السلام صلیب پر چڑھائے گئے اور پھر دوبارہ زندہ ہوکر آسمان پر اٹھائے گئے۔ لہٰذا اگر رفع الی السماء کا عقیدہ غلط اور باطل تھا تو قرآن نے جس طرح عقیدۂ ابنیت اور عقیدۂ تثلیث اور عقیدۂ قتل اور صلیب کی صاف صاف لفظوں میں تردید کی تو اسی طرف رفع الی السماء کے عقیدہ کی بھی صاف صاف لفظوں میں تردید ضروری تھی اور جس طرح ’’وما قتلوہ‘‘ اور ’’ماصلبوہ‘‘ کہہ کر عقیدہ قتل وصلب کی تردید فرمائی۔ اسی طرح بجائے ’’بل رفعہ اللّٰہ‘‘ کے ’’مارفعہ اللّٰہ‘‘ فرماکر عقیدہ رفع الی السماء کی تردید ضروری تھی۔ سکوت اور مبہم الفاظ سے نصاریٰ کی تو کیا اصلاح ہوتی مسلمان بھی اشتباہ اور گمراہی میں پڑ گئے۔ (معاذ اﷲ)
نیز اگر توفی اور رفع سے موت اور رفع روحانی مرادہو تو وعدہ ’’ تطہیر من الکفار ‘‘ اور ’’وعدہ کف عن بنی اسرائیل‘‘ کی کوئی حقیقت اور اصلیب باقی نہیں رہتی۔ جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد ہے: ’’واذ کففت بنی اسرائیل عنک اذ جئتہم بالبینٰت‘‘ اس آیت میں حق جل شانہ کے ان انعامات اور احسانات کا ذکر ہے کہ جو قیامت کے دن حق جل شانہ بطور امتنان عیسیٰ علیہ السلام کو یاد دلائیں گے ان میں سے ایک احسان یہ ہے کہ تجھ کو بنی اسرائیل کی دست درازی سے محفوظ رکھا۔
وعدہ سوم: ’’ وَمُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ‘‘
حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے تیسرا وعدہ یہ فرمایا کہ تجھ کو اپنے اور تیرے دشمنوں یعنی کافروں سے پاک کروں گا اور ان کے ناپاک اور نجس پڑوس میں تجھ کو نہیں رہنے دوں گا بلکہ نہایت مطہر اور معطر جگہ میں تجھ کو بلالوں گا۔ لفظ مطہرک، کفر اور کافروں کی نجاست کی طرف اشارہ کرنے کے لئے استعمال فرمایا۔ ’’کما قال تعالٰی انما المشرکون نجس‘‘ یعنی یہ نجس اور گندے آپ کے جسم مطہر کے قریب بھی نہ آنے پائیں گے۔
وعدہ چہارم: غلبہ متبعین برمنکرین
’’ وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَ ۃ‘‘ {اور اے عیسیٰ علیہ السلام میں تیری پیروی کرنے والوں کو تیرے کفر کرنے والوں پر قیامت تک غالب رکھوں گا۔}
چنانچہ جس جگہ یہود اور نصاریٰ ہیں، وہاں نصاریٰ یہود پر غالب اور حکمران ہیں۔ آج تک یہود کو نصاریٰ کے مقابلہ میں کبھی حکمرانی نصیب نہیں ہوئی۔
وعدہ پنجم: فیصلہ اختلاف
’’ ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَاَحْکُمُ بَیْنَکُمْ فِیْمَا کُنْتُمْ فِیْہِ تَخْتَلِفُوْنَ ‘‘
یہ پانچواں وعدہ ہے جو اختلاف کے فیصلہ کے متعلق ہے۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

توفی کی دوسری نوع​

اور اگر اس آیت میں توفی کی دوسری نوع یعنی نوم (نیند) مراد لی جائے تب بھی مرزاقادیانی کے لئے مفید نہیں۔ کیونکہ اس صورت میں ’ ’مُتَوَفِّیْکُ ‘‘ معنی میں منیمک کے ہوگا اور آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ ’’اے عیسیٰ علیہ السلام میں تجھ کو سلاؤں گا۔‘‘ اور سونے کی حالت میں تجھ کو آسمان پر اٹھاؤں گا۔ جیسا کہ تفسیر ابن جریر اور معالم التنزیل میں ربیع بن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم سے منقول ہے۔
۱… ’’ قال الربیع بن انس المراد بالتو فی النوم وکان عیسٰی علیہ السلام قد نام فرفعہ اللّٰہ نائمًا الی السماء معناہ انی منیمک ورافعک الی کما قال تعالٰی وہو الذی یتوفٰکم باللیل ای ینیمکم باللیل واللّٰہ اعلم ‘‘
’’ربیع بن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کہتے ہیں کہ آیت میں توفی سے نوم یعنی نیند مراد ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سوگئے تھے۔ اﷲتعالیٰ نے ان کو اسی حالت میں آسمان پر اٹھایا اور آیت کے یہ معنی ہیں کہ اے عیسیٰ علیہ السلام میں تجھ کو سلاؤں گا اور اسی حالت میں تجھ کو اپنی طرف اٹھاؤں گا۔ جیسا کہ اﷲتعالیٰ کے اس ارشاد ’’ وَہُوَ الَّذِیْ یَتَوَفّٰکُمْ بِاللَّیْلِ ‘‘ {وہی ہے کہ جو تم کو رات میں سلاتا ہے۔} میں توفی سے نوم مراد ہے۔‘‘ لیکن توفی بمعنی نوم سے بھی مرزاقادیانی کی تمنا اور آرزو پوری نہیں ہوتی۔ کیونکہ نیند کی حالت میں آدمی زندہ رہتا ہے مرتا نہیں۔

توفی کی تیسری نوع​

یعنی موت: اور اگر اس آیت میں توفی سے اس کی تیسری نوع مراد لی جائے جیسا کہ علی بن طلحہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم سے ’’ متوفیک ‘‘ کی تفسیر ’’ ممیتک ‘‘ کے ساتھ روایت کرتے ہیں تب بھی مرزاقادیانی کا مدعا وفات قبل النزول حاصل نہیں ہوتا۔ اس لئے کہ امام بغوی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کے اس قول کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔
پہلا مطلب: ایک مطلب تو یہ کہ جو وہب بن منبہ اور محمد بن اسحق سے منقول ہے کہ اﷲتعالیٰ نے اوّلاً حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو وفات دی اور پھر کچھ دیر کے بعد ان کو زندہ کر کے آسمان پر اٹھایا۔ وہب یہ کہتے ہیں کہ دن کی تین ساعت مردہ رکھا اور پھر زندہ کر کے اٹھایا اور محمد بن اسحق یہ کہتے ہیں کہ دن کی سات ساعت مردہ رکھا اور پھر زندہ کر کے اٹھایا۔ غرض یہ کہ اگر توفی بمعنی موت تین ساعت یا سات ساعت کے لئے پیش بھی آئی تو اس کے بعد دوبارہ زندگی اور رفع الی السماء بھی واقع ہوا ہے اور مرزاقادیانی اس کے قائل نہیں۔
دوسرا مطلب: ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کے اس قول کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ خود ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کے شاگرد خاص یعنی ضحاک رحمہ اللہ تعالیٰ سے منقول ہے کہ آیت میں تقدیم وتاخیر ہے جیسا کہ شیخ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ تعالیٰ تفسیر درمنثور میں فرماتے ہیں:
۲… ’’ اخرج اسحٰق بن بشر وابن عساکر من طریق جوہر عن الضحاک عن ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم فی قولہ تعالٰی انی متوفیک ورافعک الیّ یعنی رافعک ثم متوفیک فی آخرالزمان (درمنثور ج۲ ص۳۶)‘‘ {ضحاک کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم ’’ متوفیک ورافعک ‘‘ کی تفسیر میں یہ فرماتے تھے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کا رفع مقدم ہے اور ان کی وفات اخیرزمانہ میں ہوگی۔}
پس اگر ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم سے ’’ متوفیک ‘‘ کی تفسیر ’’ ممتیک ‘‘ سے مروی ہے تو ان سے تقدیم وتاخیر بھی مروی ہے۔ لہٰذا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کے نصف قول کو جو اپنی ہوائے نفسانی اور غرض کے موافق ہو اسے لینا اور حجت قرار دینا اور دوسرے نصف کو جو ان کی غرض کے مخالف ہو اس سے گریز کرنا یہ ایسا ہی ہے جیسے تارک نماز کا ’’ لَاتَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ ‘‘ سے حجت پکڑنا اور ’’ انتم سکارٰی ‘‘ سے آنکھیں بند کر لینا۔ نصف قول ماننا اور نصف قول سے قطع نظر کر لینا یہ ’’نصف الاعمیٰ‘‘ اور ’’نصف البصیر‘‘ ہی کا کام ہے۔
علاوہ ازیں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم سے ’’متوفیک‘‘ کی تفسیر جو ’’ممیتک‘‘ مروی ہے اس کا راوی علی بن طلحہ ہے۔ محدثین کے نزدیک یہ راوی ضعیف اور منکر الحدیث ہے۔ علی بن طلحہ نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم سے نہ کچھ سنا ہے اورنہ ان کو دیکھا ہے۔ لہٰذا علی بن طلحہ کی روایت ضعیف بھی ہے اور منقطع بھی ہے جو حجت نہیں ہوسکتی بلکہ اس کے برعکس ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا صحیح وسالم زندہ آسمان پر اٹھایا جانا باسانید صحیحہ اور جیدہ منقول ہے۔ تعجب اور سخت تعجب ہے کہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کی وہ تفسیر جس کی سند ضعیف اور منکر اور غیرمعتبر ہو وہ تو مرزائیوں کے نزدیک معتبر ہو جائے اور ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کی وہ تفسیر جو اسانید صحیحہ اور جیدہ اور روایات معتبرہ سے منقول ہے وہ مرزاقادیانی کے نزدیک قابل قبول نہ ہو۔
جواب دیگر: اور اگر بالفرض یہ تسلیم کر لیا جائے کہ ’’متوفیک‘‘ کی تفسیر ’’ممیتک‘‘ کے ساتھ صحیح ہے تو یہ کہیں گے کہ مرزاقادیانی (ازالۃ الاوہام ص۹۴۲، خزائن ج۳ ص۶۲۰) پر لکھتے ہیں کہ: ’’اماتت کے حقیقی معنی صرف مارنا اور موت دینا نہیں بلکہ سلانا اور بیہوش کرنا بھی اس میں داخل ہے۔‘‘
مرزاقادیانی اس عبارت میں فقط اس امر کے مدعی نہیں کہ اماتت کے معنی کبھی سلانے کے بھی آجاتے ہیں بلکہ اس کے مدعی ہیں کہ جس طرح مارنا، موت دینا،ا ماتت کے حقیقی معنی ہیں اسی طرح سلانا اور بے ہوش کرنا بھی اماتت کے حقیقی معنی ہیں۔ لہٰذا جب مرزاقادیانی کے نزدیک اماتت کے حقیقی معنی سلانے کے بھی ہیں تو ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کی تفسیر ممیتک میں اگر اماتت سے سلانے کے معنی مراد لئے جائیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔ اس لئے کہ مرزاقادیانی کے نزدیک یہ معنی بھی حقیقی ہیں اور آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ نیند کی حالت میں آسمان پر اٹھائے گئے۔ جیسا کہ ربیع رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم سے منقول ہے اور حدیث میں بھی اماتت بمعنی انامت یعنی سلانے کے معنی میں آیا ہے: ’’ الحمد ﷲ الذی احیانا بعد ما اماتنا والیہ النشور ‘‘ (مسلم ج۲ ص۳۴۸، باب الدعاء عند النوم)
اقوال مفسرین: گزشتہ تفصیل کے بعد اب کسی مزید توضیح کی ضرورت نہیں۔ مگر چونکہ توفی کے استعمالات مختلف ہیں اس لئے حضرات مفسرین سے اس آیت کی جو توجیہات منقول ہیں ہم ان توجیہات کو نقل کر کے یہ بتلانا اور دکھانا چاہتے ہیں کہ تمام مفسرین سلف اور خلف اس پر متفق ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام بجسدہ العنصری زندہ آسمان پر اٹھائے گئے۔ آیت شریفہ کی توجیہات اور تفسیری تعبیرات میں اگرچہ بظاہر اختلاف ہے لیکن رفع الی السماء پر سب متفق ہیں۔ اس میں کسی کو اختلاف نہیں ہے۔
عباراتنا شتی وحسنک واحد
وکل الی ذاک الجمال یشیر​
’’ہماری تعبیرات مختلف ہیں اور تیرا حسن ایک ہے، سب کا اشارہ اسی ایک حسن کی طرف ہے۔‘‘
قول اوّل: توفی سے استیفاء اور استکمال کے معنی مراد ہیں اور استیفاء اور استکمال سے عمر کا اتمام مراد ہے اور مطلب آیت کا یہ ہے کہ اے عیسیٰ علیہ السلام تم دشمنوں سے گھبراؤ نہیں۔ یہ قتل اور صلب سے تمہاری عمر ختم کرنا چاہتے ہیں یہ سب ناکام رہیں گے۔ میں تمہاری عمر پوری کروں گا اور اس وقت میں تم کو آسمان پر اٹھاؤں گا چنانچہ امام رازی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
۳… ’’ الاوّل معنی قولہ انی متوفیک ای متم عمرک فحینئذٍ اتوفاک فلا اترکہم حتی یقتلوک بل انا رافعک الی سمائی ومقربک بملائکتی واصونک عن ان یتمکنوا من قتلک وہذا تاویل حسن ‘‘ (تفسیر کبیر ج۲ ص۴۸۱)
’’انی متوفیک کے معنی یہ ہیں کہ اے عیسیٰ علیہ السلام میں تیری عمر پوری کروں گا کوئی شخص تجھ کو قتل کر کے تیری عمر قطع نہیں کر سکتا۔ میں تجھ کو تیرے دشمنوں کے ہاتھ میں نہیں چھوڑوں گا کہ وہ تجھ کو قتل کر سکیں۔ بلکہ میں تجھ کو آسمان پر اٹھاؤں گا اور اپنے فرشتوں میں رکھوں گا۔ امام رازی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ معنی نہایت عمدہ ہیں۔‘‘
اور اسی معنی کو علامہ زمخشری نے ’’تفسیر کشاف‘‘ میں ذکر کیا ہے اور اس معنی کرنے سے کلام اپنے حال پر ہے۔ کلام میں کوئی تقدیم وتاخیر نہیں۔ توفی کے معنی اتمام عمر کے ہیں جو ابتدائے عمر سے لے کر اخیر عمر تک صادق ہیں۔ اسی درمیان میں رفع الی السماء ہوا اور اسی درمیان میں نزول ہوگا اور وقت پر وفات ہوگی۔ اسی طرح عمر شریف پوری ہوگی۔
۴… ’’ قال الزمخشری انی متوفیک ای مستوفی اجلک ومعناہ انی عاصمک من ان یقتلک الکفار وموخرک الی اجل کتبتہ لک وممیتک حتف انفک لا قتلًا بایدیہم ‘‘ (مشکلات القرآن ص۱۳۲)
قول دوم: توفی سے قبض من الارض کے معنی مراد ہیں۔ یعنی اے عیسیٰ علیہ السلام میں تم کو ان کافروں سے چھین کر پورا پورا اپنے قبضہ میں لے لوں گا۔ جیسا کہ امام رازی قدس اﷲ سرہ فرماتے ہیں:
۵… ’’ ان التوفی ہو القبض یقال وفانی فلان دراہمی واوفانی وتوفیتہا منہ کما یقال سلم فلان الی دراہمی وتسلمتہا منہ ‘‘ یعنی توفی کے معنی کسی شئے پر پوری طرح قبضہ کر لینے کے ہیں۔ جیساکہ کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص نے میرے پورے روپے دے دئیے اور میں نے اپنے پورے روپے اس سے وصول کر لئے۔
(تفسیر کبیر ج۲ ص۴۸۱)
آیت کے یہ معنی حسن بصری اور مطر ورّاق اور ابن جریج اور محمد جعفر بن زبیر رحمہم اﷲ سے منقول ہیں اور امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ تعالیٰ نے اسی معنی کو اختیار فرمایا ہے۔ اس معنی کے کرنے سے بھی آیت میں کوئی تقدیم وتاخیر نہیں۔ قول اوّل اور قول ثانی دونوں قولوں میں توفی کے معنی استیفاء اور استکمال ہی کے ہیں۔ فرق اتنا ہے کہ پہلے قول میں استیفاء سے اجل اور عمر کا اتمام اور اکمال مراد لیاگیا، اور دوسرے قول میں ایک شخص اور ایک ذات کا پورا پورا قبضہ میں لینا مراد لیاگیا ہے۔ ایک جگہ استیفاء اجل ہے اور ایک جگہ استیفاء شخص اور استیفاء قبضہ ہے۔
قول سوم: توفی کے معنی ’’ اخذ الشیٔ وافیا ‘‘ کے معنی کسی سے کسی چیز کو پورا پورا لے لینا، اور اس جگہ عیسیٰ علیہ السلام کو روح اور جسم دونوں کے ساتھ لینا مراد ہے۔ جیسا کہ امام رازی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
۶… ’’ ان التوفی اخذ الشیٔ وافیا ولما علم اللّٰہ تعالٰی ان من الناس من یخطر ببالہ ان الذی رفعہ اللّٰہ ہو روحہ لا جسدہ ذکر ہذا الکلام لیدل علی انہ علیہ الصلوٰۃ والسلام رفع بتمامہ الی السماء بروحہ وبجسدہ ویدل علٰی صحۃ ہذا التاویل قولہ تعالٰی وما یضرّونک من شیٔ ‘‘ توفی کے معنی کسی شئے کو پورا پورا اور بجمیع اجزائہٖ لے لینے کے ہیں۔ چونکہ حق تعالیٰ کو معلوم تھا کہ بعض لوگوں کے دل میں یہ وسوسہ گزرے گا کہ شاید اﷲتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی صرف روح کو اٹھایا اس لئے متوفیک کا لفظ فرمایا تاکہ معلوم ہو جائے کہ عیسیٰ علیہ السلام روح اور جسم سمیت آسمان پر اٹھائے گئے۔ جیسا کہ اﷲتعالیٰ نے دوسری جگہ فرمایا ہے: ’’ وما یضرونک من شیٔ ‘‘ تم کو ذرہ برابر ضرر نہیں پہنچا سکیں گے نہ روح کو نہ جسم کو۔ (تفسیر کبیر ج۲ ص۴۸۱)
قول چہارم: توفی سے نوم کے معنی مراد ہیں۔ یعنی سلا کر تم کو اپنی طرف اٹھاؤں گا کہ تم کو خبر بھی نہ ہو کہ کیا ہوا اور آسمان اور فرشتوں ہی میں جاکر آنکھ کھلے گی۔ یہ قول ربیع بن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم سے مروی ہے۔
۷… ’’ قال الربیع بن انس المراد بالتوفی النوم وکان عیسٰی علیہ السلام قدنام فرفعہ اللّٰہ نائمًا الی السماء معناہ منیمک ورافعک الیّ کما قال تعالٰی وہو الذی یتوفکم بالیل ‘‘
ربیع بن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کہتے ہیں کہ توفی سے نوم یعنی نیند کے معنی مراد ہیں۔ اﷲتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سونے کی حالت میں آسمان پر اٹھایا جیسا کہ ’’ وہو الذی یتوفٰکم باللیل ‘‘ اس آیت میں توفی سے نوم کے معنی مراد ہیں۔ (تفسیر درمنثور ج۲ ص۳۶، معالم التنزیل تفسیر کبیر وغیرہ وغیرہ)
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

فائدہ: متعلقہ بآیت مائدہ​

جب یہ ثابت ہو گیا کہ توفی کے حقیقی معنی ’’ استفیاء‘ ‘ اور ’’ استکمال ‘‘ اور ’’ اخذ الشیٔ وافیا ‘‘ (یعنی کسی شئے کو پورا پورا لینے کے ہیں) اور ’’ اِنِّی مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعْکَ اِلَیَّ ‘‘ میں توفی سے موت کے معنی مراد نہیں بلکہ توفی سے رفع آسمانی مراد ہے تو اسی طرح سورۂ مائدہ کی آیت توفی کو سمجھئے کہ وہاں بھی توفی سے رفع الی السماء ہی مراد ہے اور ’’ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ ‘‘ کے معنی ’’ فَلَمَّا رَفَعْتَنِی اِلَی السَّمَائِ ‘‘ کے ہیں۔ چنانچہ تمام معتبر تفاسیر میں ’’ تَوَفَّیْتَنِی ‘‘ کی تفسیر ’’ رفعتنی ‘‘ کے ساتھ مذکور ہے۔ چند تفاسیر کے حوالہ پر اکتفاء کرتے ہیں۔
۸… جیسا کہ تفسیر ابن جریر۔
۹… ابن کثیر۔
۱۰… درمنثور میں ہے۔
۱۱… امام رازی رحمہ اللہ تعالیٰ (تفسیر کبیر ج۳ ص۷۰۰) میں لکھتے ہیں: ’’ فلما توفیتنی المراد بہ وفاۃ الرفع الی السماء ‘‘
۱۲… (تفسیر ابی السعود ج۳ ص۷۰۱) ’’ ورافعک الیّ فان التوفی اخذ الشیٔ وافیًا ‘‘
۱۳… تفسیر بیضاوی۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم جن کے متعلق مرزاقادیانی کو بھی اقرار ہے وہ بہ برکت دعائے نبوت صلی اللہ علیہ وسلم قرآن سمجھنے میں اوّل نمبر پر تھے، کی روایت سے ’’تفسیر معالم‘‘ میں مرقوم ہے۔
۱۴… ’’ فَبَعَثَ اللّٰہُ جِبْرَائِیْلَ فَادْخَلَہٗ فِیْ خَوْخَۃٍ فِیْ سَقُفَہَا رَوْزَنَۃ فَرَفَعَہُ اِلَی السَّمَائٍ مِنْ تِلْک الرَّوَزَنَۃِ فَاَلْقٰی اللّٰہَ عَلَیْہِ شِبْہَ عِیْسٰی عَلَیْہِ السَّلَام فَقْتَلُوْہُ وَصَلَبُوْہُ ‘‘ (معالم التنزیل ج۱ ص۳۰۸)
’’وہ شخص جو مسیح علیہ السلام کو پکڑنے کے لئے گیا تھا مکان کے اندر پہنچا تو خدا نے جبرائیل کو بھیج کر مسیح علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا اور اسی بدبخت یہودی کو مسیح علیہ السلام کی شکل پر بنادیا پس یہود نے اسی کو قتل کیا اور صلیب پر چڑھا دیا۔‘‘
۱۵… تفسیر روح المعانی۔
۱۶… تفسیر خازن ج۱ ص۶۰۸ میں بھی ہیں۔
’’الغرض ان تمام تفاسیر میں صراحۃً اس کی تصریح ہے کہ توفی سے رفع الی السماء مراد ہے اور بالفرض اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ آیت مائدہ میں توفی سے کنایتہ موت مراد لی گئی ہے تب بھی مرزاقادیانی کا مدعا ثابت نہیں ہوسکتا۔ اس لئے کہ اس آیت میں اس وفات کا ذکر ہے جو بعد از نزول، قیامت سے پہلے ہو گی۔ کیونکہ آیت کا تمام سیاق وسباق اس بات پر شاہد ہے کہ یہ تمام واقعہ کوئی گزشتہ واقعہ نہیں بلکہ مستقبل یعنی قیامت کا واقعہ ہے اور قیامت سے پہلے ہم بھی وفات مسیح کے قائل ہیں۔ جیسا کہ ’ ’یَوْمَ یَجْمَعُ اللّٰہُ الرُّسُ لَ‘‘ اور ’ ’ہٰذَا یَوْمَ یَنْفَعُ الصّٰدِقِیْنَ صِدْقُہُمُ ‘‘ اور ’’ وَیَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَکُوْنُ عَلَیْہِمْ شَہِیْدًا ‘‘ سے صاف ظاہر ہے۔‘‘
۱۷… ’’ اخرج عبدالرزاق وابن ابی حاتم عن قتادۃ فی قولہ أنت قلت للناس اتخذونی وامی الٰہین من دون اللّٰہ متی یکون ذلک قال یوم القیامۃ الاتری انہ یقول یوم ینفع الصدقین ‘‘ عبدالرزاق اور ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ سے نقل کیا کہ قتادہ سے ’’ أَاَنْتَ قُلْتَ للِنَّاسِ اتَّخِذُوْنِیْ ‘‘ کے متعلق دریافت کیاگیا کہ یہ واقعہ کب ہو گا؟ تو یہ فرمایا کہ قیامت کے دن ہوگا جیسا کہ ’’ ہٰذَا یَوْمُ یَنْفَعُ الصّٰدِقِیْنَ ‘‘ سے صاف معلوم ہوتا ہے بلکہ بعض مرفوع احادیث میں بھی اس کی تصریح موجود ہے کہ یہ واقعہ قیامت کا ہے۔
۱۸… ’’ روی ابن عساکر عن ابی موسٰی الاشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم قال قال رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اذا کان یوم القیٰمۃ یدعٰی بالانبیاء واممہم ثم یدعٰی بعیسٰی فیذکرہ نعمتہ علیہ فیقربہا فیقول بعیسٰی اذکر نعمتی علیک وعلٰے والدتک الآیتہ ثم یقول أانت قلت للناس اتخذونی وامی الٰہین من دون اللّٰہ فینکر ان یکون قال ذلک (حدیث) ‘‘ (تفسیر ابن کثیر ج۳ ص۲۸۱)
’’ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن انبیاء اور ان کی امتوں کو بلایا جائے گا۔ پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بلایا جائے گا۔ حق تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اپنے قریب بلا کر یہ فرمائیں گے کہ تم ہی نے کہا تھا مجھ کو اور میری ماں کو خدا بناؤ۔ عیسیٰ علیہ السلام انکار فرمائیں گے کہ معاذ اﷲ میں نے ہرگز نہیں کہا۔‘‘
۱۹… ’’ واخرج ابن مردویہ عن جابر بن عبداللّٰہ انہ سمع النبی صلی اللہ علیہ وسلم یقول اذا کان یوم القیامۃ جمعت الامم ودعا کل ناس بامامہم قال ویدعٰی عیسٰی فیقول بعیسٰی یعیسٰی أانت قلت للناس اتخذونی وامی الٰہین من دون اللّٰہ فیقول سبحنک ما یکون لی ان اقول ما لیس لی بحق الٰی قولہ یوم ینفع الصدقین ‘‘ (درمنثور ج۲ ص۳۴۹)
اس حدیث شریف کا ترجمہ تقریباً وہی ہے جو کہ پہلی حدیث کا ہے۔ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کی حدیث کی طرح جابر بن عبداﷲ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کی اس روایت میں بھی اس امر کی تصریح موجود ہے کہ قیامت کے دن عیسیٰ علیہ السلام سے یہ دریافت کیا جائے گا۔
مرزاقادیانی جس موت کے مدعی ہیں وہ کسی لفظ سے بھی ثابت نہیں ہوتی۔ مرزاقادیانی کا دعویٰ تو یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام واقعۂ صلیب کے بعد کشمیر تشریف لے گئے اور ستاسی سال زندہ رہ کر شہر سری نگر کے محلہ خان یار میں مدفون ہوئے۔ یہ نہ کسی آیت سے ثابت ہے نہ کسی حدیث سے اور نہ کسی صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم اور تابعی رحمہ اللہ تعالیٰ بلکہ کسی معتبر عالم کے قول سے بھی ثابت نہیں۔ ممکن ہے کہ یہ بھی اسی کنہیا لال اور مراری لال وروشن لال سے منقول ہو جنہوں نے کریم بخش کے صادق ہونے کی گواہی دی ہے۔
مرزاقادیانی (ازالہ اوہام ص۷۰۸، خزائن ج۳ ص۴۸۲) میںلکھتے ہیں کہ: ’’کریم بخش روایت کرتے ہیں کہ گلاب شاہ مجذوب نے تیس برس پہلے مجھ کو کہا کہ اب عیسیٰ جوان ہوگیا ہے اور لدھیانہ میں آکر قادیانی غلطیاں نکالے گا۔ پھرکریم بخش کی تعدیل بہت سے گواہوں سے کی گئی جن میں خیراتی، بوٹا، کنہیا لال، مراری لال، روشن لال، گنیشا مل وغیرہ ہیں اور گواہی یہ ہے کہ کریم بخش کا جھوٹ کبھی ثابت نہیں ہوا۔‘‘
ائمۂ حدیث جب کسی راوی کی توثیق اور تعدیل نقل کرتے ہیں تو احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ اور یحییٰ بن معین رحمہ اللہ تعالیٰ کا نام مبارک پیش کر دیتے ہیں۔ مرزاقادیانی کو جب کریم بخش کی روایت کی تعدیل کی ضرورت پیش آئی تو کنہیا لال اور مراری لال کی تعدیل پیش کی۔ ناظرین کرام! تعجب نہ فرمائیں۔ نبی کاذب کے سلسلۂ روایت کے لئے کنہیا لال اور مراری لال جیسے راوی مناسب اور ضروری ہیں۔ مرزاقادیانی بھی معذور ہیں۔ اپنی مسیحیت کی گواہی میں آخر کس کو پیش کریں؟ حضرات محدثین کے نزدیک ’’مالک عن نافع عن ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم بسند سلسلۃ الذہب‘‘ کے نام سے موسوم ہے۔ یہ سلسلۃ الذہب تو حضرات محدثین کا ہے اور مرزاقادیانی کا سلسلۃ الذہب یہ ہے کہ جو حضرات ناظرین نے پڑھا یعنی کنہیا لال اور مراری لال اور روشن لال۔
اے مرزائیو! تمہیں کیا ہوا؟ مالک رحمہ اللہ تعالیٰ اور نافع رحمہ اللہ تعالیٰ اور ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کی روایت تو تمہاری نظر میں غیرمعتبر ہوگئی اور مرزاقادیانی اور مراری لال اور کنہیا لال اور روشن لال کی اور اس قسم کے پاگل داس لوگوں کی بکواس معتبر ہوگئی ؎
بریں عقل و دانش بباید گریست
۲۰… ’ ’فَاجْتَمَعَتِ الْیَہُوْدُ عَلٰی قَتْلِہٖ فَاَخْبَرَہُ اللّٰہُ بِاَنَّہٗ یَرْفَعُہٗ اِلَی السَّمَائِ وَیَطَہِّرُہٗ مِنْ صُحْبَۃِ الْیَہُوْدِ (نسائی وابن مردویہ ذکرہ فی السراج المنیر)‘‘ جب یہود مسیح کو قتل کرنے کے لئے اکٹھے ہوئے اس وقت اﷲتعالیٰ نے اسے خبر دی کہ میں تجھے آسمان پر اٹھاؤں گا اور کفار یہود کی صحبت سے پاک رکھوں گا۔
بیس تفسیری احادیث اور شواہدات پر اس آیت کی بحث کو ختم کرتے ہیں۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

حیات عیسیٰ علیہ السلام کی پانچویں دلیل​

’’ قَالَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ وَاِنْ ہُوَ اِلَّا عَبْدٌ اَنْعَمْنَا عَلَیْہِ وَجَعَلْنٰہٗ مَثَلًا لِّبَنِیْ اِسْرَائِیْلَ وَلَوْ نَشَآئُ لَجَعَلْنَا مِنْکُمْ مَلٰئِکَۃٍ فِی الْاَرْضِ یَخْلُفُوْنَ وَاِنَّہٗ لَعِلْمٌ للِّسَّاعَۃِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِہَا وَاتَّبِعُوْنِ ہٰذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِیْمً وَلَا یَصُدَّنَّکُمُ الشَّیْطٰنُ اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ (زخرف:۵۹تا۶۱) ‘‘ {وہ کیا ہے ایک بندہ ہے کہ ہم نے اس پر فضل کیا، اور کھڑا کر دیا اس کو بنی اسرائیل کے واسطے، اور اگر ہم چاہیں نکالیں تم میں سے فرشتے رہیں زمین میں تمہاری جگہ، اور وہ نشان ہے قیامت کا سو اس میں شک مت کرو اور میرا کہا مانو یہ ایک سیدھی راہ ہے، اور نہ روک دے تم کو شیطان وہ تو تمہارا دشمن ہے صریح۔}

تفسیری شواہد:​

۱… علامہ عثمانی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ یعنی عیسیٰ علیہ السلام میں آثار فرشتوں کے سے تھے (جیسا کہ سورۂ مائدہ، آل عمران اور کہف کے فوائد میں اشارہ کیا جاچکا ہے) اتنی بات سے کوئی شخص معبود نہیں بن جاتا۔ اگر ہم چاہیں تو تمہاری نسل سے ایسے لوگ پیدا کریں یا تمہاری جگہ آسمان سے فرشتوں ہی کو لاکر زمین پر آباد کر دیں۔ ہم کو سب قدرت حاصل ہے۔ یعنی حضرت مسیح علیہ السلام کا اوّل مرتبہ آنا تو خاص بنی اسرائیل کے لئے ایک نشان تھا کہ بدوں باپ کے پیدا ہوئے اور عجیب وغریب معجزات دکھلائے اور دوبارہ آنا قیامت کا نشان ہوگا۔ ان کے نزول سے لوگ معلوم کر لیں گے کہ قیامت بالکل نزدیک آلگی ہے۔ یعنی قیامت کے آنے میں شک نہ کرو اور جو سیدھی راہ ایمان وتوحید کی بتلا رہا ہوں اس پر چلے آؤ۔ مبادا تمہارا ازلی دشمن شیطان تم کو اس راستے سے روک دے۔
۲… حضرت امام فخرالدین رازی رحمہ اللہ تعالیٰ (محمد بن عمر رحمہ اللہ تعالیٰ المتوفی۶۰۶ھ) اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’ ’وانہ ای عیسٰی لعلم للساعۃ شرط من اشراطہا تعلم بہ فسمی الشیٔ الدال علی الشیٔ علما لحصول العلم بہ ‘‘ (تفسیر کبیر ج۲۷ ص۲۲۲)
’’اور بے شک وہ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام البتہ نشانی ہے قیامت کی یعنی قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے (اس لئے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد سے قیامت کا علم ہوگا) اس لحاظ سے علامت کو جو کسی شئے کے وجود پر دلالت کرتی ہے علم کہاگیا کیونکہ اس علامت کے ساتھ اس شئے کا علم حاصل ہوتا ہے۔‘‘
یعنی علامت کا اطلاق علم پر ہوا یہی وجہ ہے کہ اکثر مترجمین حضرات لعلم کا معنی بھی نشانی کے کرتے ہیں اور یہ ترجمہ دوسری قرأت کے عین موافق ہے ار دوسرے قرأت لعلم ہے۔ اس میں ابتداء میں لام اور اس کے بعد عین اور دوسری لام پر بھی فتحہ ہے۔ جس کا معنی نشانی اور علامت ہے اور یہ قرأت حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم ، حضرت ابومالک غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم ، حضرت زید بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم ، حضرت قتادہ رحمہ اللہ تعالیٰ ، حضرت مجاہد رحمہ اللہ تعالیٰ ، حضرت ضحاک رحمہ اللہ تعالیٰ ، حضرت مالک بن دینار رحمہ اللہ تعالیٰ ، حضرت الاعمش کلبی رحمہ اللہ تعالیٰ اور بقول علامہ ابن عطیہ رحمہ اللہ تعالیٰ حضرت ابو نصرۃ رحمہ اللہ تعالیٰ کی ہے۔ (تفسیر البحر المحیط ج۸ ص۲۶، روح المعانی ج۲۵ ص۹۵) اور دونوں قرأتوں کا مفہوم بالکل واضح ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نزول اور آمد سے قرب قیامت کا علم ہوگا اور وہ قیامت کی نشانی ہیں۔
۳… علامہ سید محمود آلوسی رحمہ اللہ تعالیٰ (المتوفی ۱۲۷۰ھ) لعلم اور لعلم دونوں قرأتوں کا تذکرہ کر کے آخر میں فرماتے ہیں کہ ’’ والمشہور نزولہ علیہ السلام بدمشق وان الناس فی صلوٰۃ الصبح فیتاخر الامام وہو المہدی فیقدمہ عیسٰی علیہ السلام ویصلی خلفہ ویقول انما اقیمت لک ‘‘
(روح المعانی ج۲۵ ص۹۶)
’’اور مشہور یہی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام دمشق میں نازل ہوں گے جبکہ لوگ صبح کی نماز میں مصروف ہوں گے اور امام مہدی علیہ الرضوان امام ہوں گے وہ پیچھے ہٹ جائیں گے تاکہ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام امامت کرائیں مگر حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام حضرت امام مہدی علیہ الرضوان کو آگے کر کے ان کی اقتداء میں نماز پڑھیں گے اور فرمائیں گے کہ نماز آپ کے لئے قائم کی گئی تھی۔‘‘
اور نیز علامہ آلوسی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ: ’’وفی بعض الروایات انہ علیہ السلام ینزل علی ثنیۃ یقال لہا افیق بفاء وقاف بوزن امیروہی ہنا مکان بالقدس الشریف‘‘ (روح المعانی ج۲۵ ص۹۶)
’’اور بعض روایات (مثلاً مسند احمد ج۴ ص۲۱۶، مستدرک ج۴ ص۴۷۸، مجمع الزوائد ج۷ ص۳۴۲ وغیرہ) میں ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام افیق فاء اور قاف کے ساتھ بروزن امیر کے ٹیلہ پر نازل ہوں گے اور یہ قدس شریف میں ایک جگہ ہے۔ (جو سوق حمیدیہ میں جامع اموی کے مشرقی کنارہ پر ہے جس پر سفید مینار بنا ہوا ہے جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام بوقت صبح نازل ہوں گے)‘‘
۴… مشہور مفسر الحافظ ابو الفداء اسماعیل رحمہ اللہ تعالیٰ بن کثیر القرشی الدمشقی (المتوفی۷۷۴ھ) فرماتے ہیں: ’’ وانہ لعلم للساعۃ ای امارۃ دلیل علی وقوع الساعۃ قال مجاہد رحمہ اللہ تعالیٰ وانہ لعلم للساعۃ ای آیۃ للساعۃ خروج عیسٰی بن مریم علیہ السلام قبل یوم القیمۃ وہکذا روی عن ابی ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم وابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم وابی العالیۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم وابی مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم وعکرمۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم والحسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم وقتادۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم والضحاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم وغیرہم وقد تواترت الاحادیث عن رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم انہ اخبر بنزول عیسٰی علیہ السلام قبل یوم القیمۃ اماما عادلاً وحکما مقسطا ‘‘ (تفسیر ابن کثیر ج۴ ص۱۳۲،۱۳۳)
’’اور بے شک وہ (عیسیٰ علیہ السلام) قیامت کی علامت ہیں۔ یعنی قیامت کی آمد اور اس کے وقوع کی نشانی اور دلیل ہیں۔ حضرت مجاہد رحمہ اللہ تعالیٰ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کاقیامت کا دن برپا ہونے سے پہلے آنا قیامت (کے قرب) کی علامت اور نشانی ہے اور اسی طرح اس کی یہ تفسیر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم ، حضرت ابوالعالیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم ، حضرت ابومالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم ، حضرت عکرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم ، حضرت حسن رحمہ اللہ تعالیٰ (بصری)، حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم اور حضرت ضحاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم (بن مزاحم) وغیرہم سے بھی مروی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے متواتر احادیث کے ساتھ ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے امام عادل اور منصف حاکم بن کر نازل ہونے کی خبر دی ہے۔‘‘
قرآن کریم کی ان آیات مبارکہ کے ہر ہر جملہ میں تاکیدی الفاظ کے ساتھ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نزول اور آمد کا بالکل واضح ثبوت ہے اور پھر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم اور حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم جیسے ترجمان قرآن اور جلیل القدر صحابہ کرامi اور معتبر ومستند تابعین رحمہ اللہ تعالیٰ کی تفسیر اس پر مستزاد ہے اور احادیث متواترہ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد اور نزول اپنی جگہ حق ہے۔
۵… امام ابن جریر الطبری رحمہ اللہ تعالیٰ (محمد بن جریر بن یزید رحمہ اللہ تعالیٰ المتوفی ۳۱۰ھ) ’’لعلم‘‘ اور ’’لعلم‘‘ دونوں قرأتوں کا حوالہ دے کر بعض حضرات صحابہ کرامi بعض تابعین رحمہ اللہ تعالیٰ اور تبع تابعین رحمہ اللہ تعالیٰ وغیرہم کی تفسیریں نقل کرتے ہیں اور بحوالہ حضرت عبداﷲ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم فرماتے ہیں کہ: ’’قال نزول عیسٰی بن مریم علیہما السلام‘‘ (تفسیر ابن جریر ج۲۵ ص۹۰)
’’انہوں نے فرمایا کہ اس سے حضرت عیسیٰ بن مریم علیہما الصلوٰۃ والسلام کا نزول مراد ہے۔‘‘ (کیونکہ وہ قیامت کی نشانی ہیں)
۶… ’’لسان العرب‘‘ جس کی تعریف میں مرزاقادیانی بھی رطب اللسان ہے۔ اس کی (ج۹ ص۳۷۲) پر ہے: ’’ وفی التنزیل فی صفۃ عیسٰی علیہ السلام وانہ لعلم للساعۃ وہی قرأۃ اکثر القراء وقرء بعضہم انہ لعلم للساعۃ المعنی ان ظہور عیسٰی ونزولہ الی الارض علامۃ تدل علی اقتراب الساعۃ ‘‘ قرآن شریف میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی صفت میں ’’وانہ لعلم للساعۃ‘‘ ہے۔ یہ اکثر قاریوں کی قرأت اور ان میں سے بعض نے ’’لعلم‘‘ بھی پڑھا جس کے معنی ہیں عیسیٰ علیہ السلام کا ظہور اور ان کا نازل ہونا زمین کی طرف، ایسا نشان ہے جو قیامت کے قرب پر دلالت کرے گا۔
لسان العرب کی مرزامحمود نے (حقیقت النبوۃ ص۱۱۵) پر توثیق وتعریف کی ہے۔
۷… حضرت شاہ ولی اﷲ رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس کا ترجمہ فرمایا ہے: ’’عیسیٰ نشان است قیامت را پس شبہ مکنید در قیامت۔‘‘

تفسیر نبوی:​

۱… احادیث کی تمام اہم کتب (مثلاً مسند احمد ج۶ ص۲۴ حاشیہ پر منتخب کنزالعمال، سنن ابوداؤد ج۲ ص۱۳۴) میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کی دس بڑی علامات میں سے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کو شمار فرمایا۔ اسی طرح واقعۂ معراج کے ضمن میں ایک روایت ہے۔
’’ عن ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: لقیت لیلۃ اسرٰی بی ابراہیم علیہ السلام وموسٰی علیہ السلام وعیسٰی علیہ السلام۔ قال: فتذاکرو امر الساعۃ فردوا امرہم الٰی ابراہیم علیہ السلام فقال لا علم لی بہا۔ فردوا الامر الٰی موسٰی علیہ السلام فقال لا علم لی بہا۔ فردوا الامر الٰی عیسٰی فقال اما وجبتہا فلا یعلمہا احد الا اللّٰہ ذلک وفیما عہد الیّ ربی عزوجل ان الدجال خارج قال ومعی قضیبان فاذا رأنی ذاب کما یذوب الرصاص قال فیہلک اللّٰ ہ‘‘
(مسند احمد ج۱ ص۳۷۵)
’’حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ معراج کی رات حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ علیہم السلام سے میری ملاقات ہوئی۔ فرمایا کہ قیامت کا تذکرہ ہوا تو سب نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے پوچھا آپ نے فرمایا کہ مجھے اس کا علم نہیں۔ پھر موسیٰ علیہ السلام سے پوچھا انہوں نے بھی فرمایا کہ مجھے اس کا علم نہیں۔ پھر عیسیٰ علیہ السلام سے پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ قیامت کا صحیح علم تو سوائے اﷲتعالیٰ کے کسی کو نہیں البتہ میرے ساتھ اﷲ رب العزت نے وعدہ فرمایا ہے کہ جب دجال نکلے گا تو میرے پاس دو ہتھیار ہوں گے۔ جب دجال مجھے دیکھے گا تو وہ دھات کی طرح پگھلے گا۔ فرمایا کہ اﷲتعالیٰ (میرے ہاتھ سے) اسے ہلاک کریں گے۔‘‘
نوٹ: یہ حدیث الفاظ کے معمولی تغیر کے ساتھ (ابن ماجہ ص۳۰۹ باب فتنہ الدجال وخروج عیسیٰ ابن مریم) میں عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم سے منقول ہے۔ ابن ماجہ طبع بیروت ج۴ ص۴۵۱، حدیث نمبر۴۰۸۱ پر اس کے حاشیہ میں ہے۔ ’’اسنادہ صحیح ورجالہ ثقات‘‘ یہ روایت بیہقی میں بھی ہے۔
اسی طرح بہت سی احادیث میں قیامت کے قریب مسیح کا نزول لکھا ہے جو آئندہ ’’باب ثبوت حیات مسیح از احادیث‘‘ میں نقل ہوں گی۔ ان شاء اﷲ تعالیٰ!
۲… آیت ’’ انہ لعلم للساعۃ ‘‘ کی تفسیر میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم سے جن کو بہ دعا نبوی صلی اللہ علیہ وسلم علم قرآن حاصل تھا (جو مرزاقادیانی کو بھی مسلم ہے) (مندرجہ مسند احمد ج۱ ص۳۱۷،۳۱۸) پر ان سے منقول ہے کہ: ’’انہ لعلم للساعۃ قال ہو خروج عیسٰی ابن مریم علیہ السلام قبل یوم القیامۃ‘‘ اسی طرح حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کی اس روایت کو (مستدرک حاکم ج۳ ص۲۴۱، حدیث:۳۷۲۷) پر نقل کر کے لکھا ہے۔ ہذا حدیث صحیح الاسناد روایت کے الفاظ یہ ہیں: ’’ عن عکرمۃ عن ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم فی قولہ عزوجل وانہ لعلم للساعۃ قال خروج عیسٰی ابن مریم ‘‘
۳… اسی طرح محدث عبد بن حمید نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم سے یہی روایت کی ہے۔
۴… نیز (درمنثور ج۶ ص۲۰) پر عبداﷲ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔ جس کے آخر میں ہے: ’’ وانہ لعلم للساعۃ قال ہو خروج عیسٰی ابن مریم قبل یوم القیامۃ ‘‘
۵… نیز (درمنثور ج۶ ص۲۰) پر حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم ، حضرت مجاہد رحمہ اللہ تعالیٰ ، حضرت حسن رحمہ اللہ تعالیٰ سے یہی تفسیر منقول ہے۔
۶… ابن جریر نے (تفسیر طبری ج۲۵ ص۹۰،۹۱) پر حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم سے چار سندوں کے ساتھ اس کو نقل کیا ہے۔
۷… نیز خود مرزاقادیانی نے اس آیت میں ’’انہ لعلم‘‘ کی ضمیر عیسیٰ علیہ السلام کی طرف پھیری ہے۔
’’قرآن شریف میں ہے: ’’ انہ لعلم للساعۃ ‘‘ یعنی اے یہودیو! عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تمہیں قیامت کا پتہ لگ جائے گا۔‘‘ (اعجاز احمدی ص۲۱، خزائن ج۱۹ ص۱۳۰)
صاف ظاہر ہے کہ ’’انہ‘‘ کی ضمیر بطرف مسیح تسلیم کی گئی ہے۔ نیز مرزاقادیانی نے لکھا:
۸… ’’ ان فرقۃ من الیہود لکانوا کافرین بوجود القیامۃ فاخبرہم اللّٰہ علٰی لسان بعض انبیائہ ان ابناً من قومہم یولد من غیر اب وہذا یکون اٰیۃ لہم علی وجود القیامۃ ‘‘
(حمامتہ البشریٰ ص۹۰، خزائن ج۷ ص۳۱۶)
’’یعنی ایک فرقہ یہود کا قیامت کے وجود سے منکر تھا۔ خدا نے بعض انبیاء کی زبانی ان کو خبر دی کہ تمہاری قوم میں ایک لڑکا بلا باپ پیدا ہوگا۔ یہ قیامت کے وجود پر ایک نشانی ہے۔‘‘
اس میں ہمارا استدلال صرف اتنا ہے کہ: ’’ وانہ لعلم للساعۃ ‘‘ میں ’’انہ‘‘ کی ضمیر کا مرجع مرزاقادیانی نے بھی عیسیٰ علیہ السلام کو قرار دیا ہے۔ ’’فہو المقصود‘‘ باقی مرزاقادیانی کا یہ کہنا کہ قیامت کی نشانی میں عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش مراد ہے۔ جب کہ اس کے مقابلہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم اور دوسرے صحابہi وتابعین رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام کا نزول قیامت کی نشانی ہے۔ اب مرزائی فیصلہ کریں کہ مرزاقادیانی کی تفسیر مانی جائے یا صحابہi وتابعین رحمہ اللہ تعالیٰ کی؟ ان واضح شہادتوں کے بعد بھی کوئی نہ مانے تو اسے اﷲتعالیٰ ہی سمجھ نصیب فرمائیں۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

اعتراض:۱… از مرزاغلام احمد قادیانی​

’’حق بات یہ ہے کہ ’’انہ‘‘ کی ضمیر قرآن شریف کی طرف پھرتی ہے اور آیت کے یہ معنی ہیں کہ قرآن شریف مردوں کے جی اٹھنے کے لئے نشان ہے۔ کیونکہ اس سے مردہ دل زندہ ہوتے ہیں۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۴۲۴، خزائن ج۳ ص۳۲۲)
مرزاقادیانی نے کوئی دلیل ’’انہ‘‘ کی ضمیر کو قرآن شریف کے لئے متعین کرنے کے حق میں بیان نہیں کی۔ سوائے اس کے کہ ’’ہ‘‘ کی ضمیر عیسیٰ علیہ السلام کے لئے ماننے سے مرزاقادیانی کی مسیحیت معرض ہلاکت میں آجاتی ہے۔ اگر ہم ثابت کر دیں کہ ’’انہ‘‘ کی ضمیر قرآن کریم کی طرف راجع نہیں بلکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف پھرتی ہے تو مرزاقادیانی کی یہ ’’حق بات ہے‘‘ کی حقیقت الم نشرح ہوکر رہ جائے گی۔ سنئے:
جواب: ۱… سیاق وسباق میں بحث صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ہستی کی ہے نہ قرآن کریم کی۔ پس جس کا ذکر ہی نہیں۔ اس کی طرف خواہ مخواہ ضمیر کو پھیرنا اگر سکھا شاہی نہیں تو اور کیا ہے۔
۲… ہم نے قادیانی مسلمات کی رو سے ثابت کر دیا ہے کہ ’’انہ‘‘ سے مراد حضرت مسیح علیہ السلام کا نزول ہے۔ اگر مرزاقادیانی اس کا انکار کریں گے تو حسب فتویٰ خود کافر وفاسق ہو جائیں گے۔
۳… حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم ’’انہ‘‘ کی ضمیر کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف پھیرتے ہیں جن کے متعلق مرزاقادیانی کا ارشاد (ازالہ اوہام ص۲۴۷، خزائن ج۳ ص۲۲۵) پر ہے: ’’ناظرین پر واضح ہو گا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم قرآن کریم کے سمجھنے میں اوّل نمبر والوں میں سے ہیں اور اس بارہ میں ان کے حق میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دعا بھی ہے۔‘‘
اب کس کا منہ ہے جو حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم جیسی عظیم الشان ہستی کا فیصلہ رد کرے؟
۴… مرزاقادیانی یا ان کی جماعت اپنی تائید میں اور ہماری مخالفت میں ۸۶گزشتہ مجددین، مسلمہ قادیانی، میں سے کسی ایک کو بھی پیش نہیں کرسکتے۔
۵… خود مرزاقادیانی کے مرید ’’انہ‘‘ کی ضمیر کے قرآن کی طرف پھرنے سے منکر ہیں۔ چنانچہ سید سرور شاہ قادیانی ’’ضمیمہ اخبار بدر قادیان مورخہ ۶؍اپریل ۱۹۱۱ء‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’ہمارے نزدیک تو اس کے آسان معنی یہ ہیں کہ وہ (مثیل مسیح) ساعت کا علم ہے۔‘‘
نوٹ: قادیانی سرور شاہ کا علم اسی بات سے اظہر من الشمس ہوا جاتا ہے کہ مسیح کے ساتھ مثیل کی دم اپنی طرف سے بڑھا دی ہے۔ اگر ایسا کرنا جائز قرار دیا جائے تو قرآن شریف کی تفسیر ہر ایک آدمی اپنے حسب منشاء کر سکتا ہے۔ مثلاً جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم مبارک ہے وہاں بھی کہہ دیا جائے کہ اس سے مثیل محمد صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہیں جو قادیانیوں کے نزدیک (نعوذ باﷲ) مرزاقادیانی ہیں۔
۶… مرزاقادیانی کے بڑے فرشتہ سید محمد احسن امروہی مرزاقادیانی کی تردید میں یوں فرماتے ہیں:
الف… ’’دوستو! یہ آیت: ’’وانہ لعلم للساعۃ‘‘ سورۂ زخرف میں ہے اور بالاتفاق تمام مفسرین کے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ آنے کے واسطے ہے۔ اس میں کسی کو اختلاف نہیں۔‘‘ (اخبار الحکم مورخہ ۲۸؍فروری ۱۹۰۹ء)
ب… ’’آیت دوم میں تسلیم کیا کہ ضمیر ’’انہ‘‘ کی طرف قرآن شریف یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے راجع نہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی کی طرف راجع ہے۔‘‘ (اعلام الناس حصہ دوم ص۵۶)

قادیانی اعتراض:۲​

از مرزاقادیانی ’’ظاہر کہ خداتعالیٰ اس آیت کو پیش کر کے قیامت کے منکرین کو ملزم کرنا چاہتا ہے کہ تم اس نشان کو دیکھ کر پھر مردوں کے جی اٹھنے سے کیوں شک میں پڑے ہو… اگر خداتعالیٰ کا اس آیت میں یہ مطلب ہے کہ جب حضرت مسیح علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے تب ان کا آسمان سے نازل ہونا مردوں کے جی اٹھنے کے لئے بطور دلیل یا علامت کے ہوگا تو پھر اس دلیل کے ظہور سے پہلے خداتعالیٰ لوگوں کو ملزم کیوں کر سکتا ہے کیا اس طرح اتمام حجت ہوسکتا ہے۔ دلیل تو ابھی ظاہر نہیں ہوئی اور کوئی نام ونشان اس کا پیدا نہیں ہوا اور پہلے ہی سے منکرین کو کہا جاتا ہے کہ اب بھی تم یقین نہیں کرتے کیا ان کی طرف سے یہ عذر صحیح طور پر نہیں ہوسکتا کہ یا الٰہی ابھی دلیل یا نشان قیامت کا کہاں ظہور میں آیا جس کی وجہ سے ’’فلا تمترن بہا‘‘ کی دھمکی ہمیں دی جاتی ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۴۲۲، خزائن ج۳ ص۳۲۱)
جواب: مرزاقادیانی کا یہ اعتراض ناشی از جہالت ہے۔ اپنی کم علمی سے ’’وانہ لعلم للساعۃ‘‘ کو ’’فلا تمترن بہا‘‘ کے لئے دلیل ٹھہرا لیا اور پھر اس دلیل کے غلط ہونے پر منطقی بحث شروع کر دی۔ اس آیت کا شان نزول جو مرزاقادیانی نے ظاہر کیا ہے وہ محض ایجاد مرزا ہے۔ ورنہ اصلی شان نزول ملاحظہ ہو اور کلام اﷲ کے اپنے الفاظ میں ملاحظہ ہو۔
’’ لما ضرب ابن مریم مثلًا اذا قومک منہ یصدون وقالوا ء اٰلہتنا خیر ام ہو ماضربوہ لک الاجدلا بل ہم قوم خصمون ان ہو الا عبد انعمنا علیہ وجعلناہ مثلًا لبنی اسرائیل ولو نشاء لجعلنا منکم ملٰئکۃ فی الارض یخلفون وانہ لعلم للساعۃ فلا تمترن بہا واتبعون ہذا صراط مستقیم ‘‘ اور جب عیسیٰ علیہ السلام ابن مریم کے متعلق (معترض کی طرف سے) ایک عجیب مضمون بیان کیاگیا تو یکایک آپ کی قوم کے لوگ (مارے خوشی کے) چلانے لگے اور کہنے لگے کہ ہمارے معبود زیادہ بہتر ہیں یا عیسیٰ علیہ السلام۔ ان لوگوں نے جو یہ مضمون بیان کیا ہے تو محض جھگڑنے کی غرض سے بلکہ یہ لوگ (اپنی عادت سے) ہیں ہی جھگڑالو۔ عیسیٰ علیہ السلام تو محض ایک ایسے بندے ہیں جن پر ہم نے (کمالات نبوت سے اپنا) فضل کیا تھا اور ان کو بنی اسرائیل کے لئے ہم نے (اپنی قدرت کا) ایک نمونہ بنایا تھا، اور اگر ہم چاہتے تو ہم تم میں سے فرشتوں کو پیدا کر دیتے کہ وہ زمین پر یکے بعد دیگرے رہا کرتے، اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام تو قیامت (کے قرب) کا نشان ہیں۔ پس تم لوگ اس میں شک مت کرو اور تم لوگ میرا اتباع کرو۔ یہی سیدھا راستہ ہے۔

معزز ناظرین! مرزاقادیانی کی چالاکی ملاحظہ ہو کہ بمطابق مثل ؎
چہ دلاور است دزدے کہ بکف چراغ دارد
خود شان نزول اس آیت کی کلام اﷲ کی انہیں آیات میں موجود ہے اور وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام، مشرکین کے بتوں کے متعلق ایک مثال ہے۔ باوجود اس کے مرزاقادیانی فرماتے ہیں کہ یہاں بحث قیامت سے ہے۔ قیامت کی بحث تو یہاں ہے ہی نہیں۔ وہ تکمیل کلام ومآل دنیا پر مذکور ہے۔ چنانچہ ہم مرزاقادیانی کے اپنے مانے ہوئے مجدد صدی نہم امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ تعالیٰ کی روایت سے مرزاقادیانی کے تسلیم کردہ حبر الامت امام المفسرین ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم سے بیان کردہ شان نزول پیش کرتے ہیں۔
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روزہ سورۂ انبیاء کی آیت: ’’ انکم وما تعبدون من دون اﷲ حصب جہنم ‘‘ کے موافق یہ فرمایا کہ مشرک جن چیزوں کو پوجتے ہیں وہ اور مشرک دونوں قیامت کے دن دوزخ میں جھونکے جائیں گے۔ اس پر عبداﷲ بن زبعری نامی ایک شخص نے کہا کہ نصاریٰ لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پوجتے ہیں اور تم عیسیٰ علیہ السلام کو نبی اور ہمارے بتوں سے اچھا سمجھتے ہو۔ اس لئے جو حال ہمارے بتوں کا ہوگا وہی حال حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ہوگا۔ عبداﷲ بن زبعری کے اس جواب کو مشرک لوگوں نے بڑا شافی جواب جانا اور سب خوش ہوئے۔ اس پر اﷲتعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں۔ (درمنثور ج۶ ص۲۰، زیر آیت: انہ لعلم للساعۃ) باوجود اس قدر تصریح کے اگر پھر بھی قادیانی اپنی اس نامعقول دلیل پر جمے رہیں تو ہمارا جواب بھی الزامی رنگ میں سن لیں اور کان کھول کر سنیں۔‘‘
۲… مرزاقادیانی اپنی کتاب (اعجاز احمدی ص۲۱، خزائن ج۱۹ ص۱۳۰) پر لکھتے ہیں: ’’قرآن شریف میں ہے: ’’ انہ لعلم للساعۃ ‘‘ یعنی اے یہودیو! عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تمہیں قیامت کا پتہ لگ جائے گا۔‘‘
۳… (سورۂ طہ:۱۶) میں اﷲتعالیٰ حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے رسول کو بھی بطور ہدایت فرماتا ہے۔ ’’ ان الساعۃ اتیۃ اکاد اخفیہا لتجزیٰ کل نفس بما تسعٰی فلا یصدنک عنہا من لا یؤمن بہا ‘‘ اے موسیٰ علیہ السلام! قیامت بے شک وشبہ آنے والی ہے۔ میں اسے مخفی رکھنا چاہتا ہوں تاکہ بدلہ ملے ہر شخص کو اپنی محنت کا۔ خبردار کوئی بے ایمان تجھے اس کے ماننے سے روک نہ دے۔
یہاں اگر قادیانی طرز کلام کا اتباع کیا جائے تو سوال پیدا ہوگا کہ موسیٰ علیہ السلام کے سامنے قیامت کے آنے کی دلیل یا نشانی تو بیان نہیں کی گئی۔ صرف اس کے آنے کا اعلان کیاگیا ہے۔ پھر یہ اعلان اگلے حصہ آیت کے لئے دلیل کیسے ہوسکتا ہے؟ قادیانی جو جواب اس سوال کا دیں گے وہی جواب ہمارا بھی سمجھ لیں۔
۴… مرزاقادیانی نے ۱۸۸۶ء میں پیش گوئی کی کہ محمدی بیگم دختر احمد بیگ ہوشیارپوری ضرور بضرور میرے نکاح میں آئے گی۔ پھر اس کے متعلق الہامات بھی شائع کئے۔ جن میں سے ایک یہ بھی تھا۔ ’’انا زوجناکہا‘‘ (انجام آتھم ، خزائن ج۱۱ ص۶۰) یعنی اے مرزا ہم نے تیرا نکاح محمدی بیگم سے کر دیا ہے۔
انتظار کرتے کرتے مرزاقادیانی تھک گئے۔ آخر ۱۸۹۱ء میں مرزاقادیانی سخت بیمار ہوئے۔ موت کے خیال پر جب محمدی بیگم والی پیش گوئی میں جھوٹا ہونے کا خیال گزرا تو الہام ہوا۔ ’’ا لحق من ربک فلا تکونن من الممترین ‘‘ یعنی یہ بات تیرے رب کی طرف سے سچ ہے تو کیوں شک کرتا ہے۔ (ازالہ اوہام ص۳۹۸، خزائن ج۳ ص۳۰۶)
دیکھئے! یہاں مرزاقادیانی کے خدا نے مرزاقادیانی کو یقین دلانے کو صرف اتنا ہی کہا۔ ’’الحق من ربک‘‘ حالانکہ ابھی نکاح نہیں ہوا۔ پہلے ہی سے اس کے ہونے کا اعلان کر کے محض اعلان ہی کو دلیل قرار دیا جارہا ہے۔ جس دلیل سے مرزاقادیانی کے لئے ایک پیش گوئی کا اعلان دلیل ہوگیا آئندہ حکم کے حق ہونے کا۔ اسی دلیل سے یہاں بھی ’’انہ لعلم للساعۃ‘‘ دلیل سمجھ لیں۔ ’’فلا تمترن بہا‘‘ کی (ذرا غور سے سمجھئے) مگر یہ سب بیان ہمارا الزامی رنگ میں ہے۔ ورنہ مرزاقادیانی کا یہ اعتراض مبنی ہے علوم عربیہ سے جہالت مطلقہ پر۔

مضحکہ خیز قادیانی تفسیر​

۱… ’’یہ کیسی بدبودار نادانی ہے جو اس جگہ لفظ ’’ساعۃ‘‘ سے مراد قیامت سمجھتے ہیں۔ اب مجھ سے سمجھو کہ ’’ساعۃ‘‘ سے مراد اس جگہ وہ عذاب ہے۔ جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد طیطوس رومی کے ہاتھ سے یہودیوں پر نازل ہوا تھا۔‘‘ (اعجاز احمدی ص۲۱، خزائن ج۱۹ ص۱۲۹)
۲… ’’حق بات یہ ہے کہ ’’انہ‘‘ کی ضمیر قرآن شریف کی طرف پھرتی ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ قرآن شریف مردوں کے جی اٹھنے کے لئے نشان ہے۔ کیونکہ اس سے مردہ دل زندہ ہوتے ہیں۔‘‘
(ازالہ ص۴۲۴، خزائن ج۳ ص۳۲۲)
۳… ’’ ان فرقۃ من الیہود اعنی لصدوقین کانوا کافرین بوجود القیامۃ فاخبرہم اللّٰہ علٰی لسان بعض انبیاء ہٖ ان ابنًا من قومہم یولد من غیر اب وہذا یکون آیۃ لہم علی وجود القیامۃ فالی ہذا اشار فی آیۃ وانہ لعلم للساعۃ ‘‘ یہود کا ایک فرقہ صدوقین نامی قیامت کے وجود سے منکر تھا۔ پس اﷲتعالیٰ نے بعض نبیوں کے واسطے سے انہیں خبردی کہ ان کی قوم میں سے ایک لڑکا بغیر باپ کے پیدا ہوگا اور وہ قیامت کے وجود پر دلیل ہوگا۔ پس اسی طرف اشارہ کیا ہے۔ اﷲتعالیٰ نے اس آیت ’’وانہ لعلم للساعۃ‘‘ میں۔
(حمامۃ البشریٰ ص۹۰، خزائن ج۷ ص۳۱۶)
۴… ’’ ان المراد من العلم تولدہ من غیر اب علی طریق المعجزۃ کما تقدم ذکرہ فی الصحف السابقۃ ‘‘ (الاستفتاء ضمیمہ حقیقت الوحی ص۴۹، خزائن ج۲۲ ص۶۷۲)
’’العلم‘‘ سے مراد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا بغیر باپ کے پیدا ہونا ہے بطور معجزہ کے جیسا کہ پہلی کتابوں میں اس کا ذکر ہوچکا ہے۔
نوٹ: مرزاقادیانی معلوم ہوتا ہے فن مناظرہ اور اس کے اصولوں سے جاہل مطلق تھے۔ دلیل تو وہ قابل قبول ہوتی ہے جو مخالف کے ہاں قابل قبول ہو۔ بلکہ جس کا رد کرنا مخالف سے آسان نہ ہو۔ ایسی دلیل کو پیش کرنا جس کو مخالف صحیح تسلیم نہیں کرتا۔ یہ مرزاقادیانی جیسے پنجابی نبی ہی کی شان ہی ہوسکتی ہے۔ ورنہ دلیل تو ایسی ہو کہ مخالف کے نزدیک بھی وہ قابل قبول اور حجت ہو سکے جیسا کہ ہم حیات عیسیٰ علیہ السلام کے ثبوت میں قادیانی مسلمات پیش کر کے قادیانی افراد سے قبول حق کی اپیل کر رہے ہیں۔
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ بقول مرزاقادیانی یہودی (صدوقین) قیامت کے وجود سے منکر تھے۔ ان کے سامنے بقول مرزاقادیانی قیامت کے وجود پر دلیل یہ پیش کی جاتی ہے۔ دیکھو ہم نے ایک لڑکا (حضرت عیسیٰ علیہ السلام) بغیر باپ کے پیدا کیا ہے۔ یہودی تو اس دلیل ہی کے صحیح اور حجت ہونے سے منکر تھے۔ وہ تو کہتے تھے اور عقیدہ رکھتے تھے اور اب بھی رکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام (نعوذ باﷲ نقل کفر کفر نباشد) ولد الزنا تھے جو دلیل خود محتاج دلیل ہو۔ وہ دلیل کیا ہوئی؟ پس مرزاقادیانی کی تفسیر بھی قرآن کریم کے ساتھ محض ایک مذاق ثابت ہوئی۔
۵… تفسیر سید سرور شاہ صحابی مرزا۔
مرزاقادیانی کا ایک بہت بڑا صحابی سرور شاہ قادیانی اپنے نبی مرزاقادیانی کی تردید عجیب طرز سے کرتا ہے۔ لکھتا ہے: ’’مسیح کے بے باپ ولادت دلیل کس طرح بن سکتی ہے۔ ہمارے نزدیک تو اس کے آسان معنی یہ ہیں کہ وہ مثیل مسیح ساعۃ (قیامت) کا علم ہے۔‘‘ (ضمیمہ اخبار بدر قادیان مورخہ ۶؍اپریل ۱۹۱۱ء)
۶… تفسیر از مولوی سید محمد احسن امروہی جو مرزاقادیانی کے اکابر صحابہ میں سے تھا اور مرزاقادیانی کا فرشتہ کہلاتا تھا۔ (اعلام الناس حصہ دوم ص۵۶) پر ’’انہ‘‘ کی ضمیر عیسیٰ علیہ السلام کی طرف راجع ہے۔
محترم ناظرین! ہم نے قادیانی جماعت کی چھ تفسیریں جن میں سے چار مرزاقادیانی کی اپنی ہیں۔ آپ کے سامنے پیش کی ہیں۔ ان کا باہمی تضاد اظہر من الشمس ہے۔ میں اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتا۔ کلام اﷲ سے دو آیتیں اور مرزاقادیانی اور ان کے حواری کے اقوال اور انجیل کی تصدیق پیش کر کے اس بحث کو ختم کرتا ہوں۔
۱… پہلی آیت ’’سورۂ حجر:۷۲‘‘ کی ہے: ’’ انہم لفی سکرتہم یعمہون ‘‘ وہ اپنی بیہوشی میں گم گشتہ راہ پھر رہے ہیں۔
۲… دوسری آیت سورۂ نساء:۸۲ میں ہے: ’’ولو کان من عند غیر اللّٰہ لوجد وافیہ اختلافًا کثیرًا‘‘ اگر یہ کلام اﷲ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت اختلاف پاتے۔
مرزاقادیانی اور ان کی جماعت اپنی خود غرضی کے لئے اسلامی تفسیر کو چھوڑ کر گمراہی میں سرگردان ہیں۔ کبھی کچھ کہتے ہیں اور کبھی کچھ۔ مرزاقادیانی کہتا ہے:
۱… ’’ظاہر ہے کہ ایک دل سے دو متناقض باتیں نہیں نکل سکتیں۔ کیونکہ ایسے طریق سے یا تو انسان پاگل کہلاتا ہے یا منافق۔‘‘ (ست بچن ص۳۱، خزائن ج۱۰ ص۱۴۳)
۲… ’’جھوٹے پر خدا کی لعنت… جھوٹے کے کلام میں تناقض ضرور ہوتا ہے۔‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۱۱۱، خزائن ج۲۱ ص۲۷۵)
۳… ’’اس شخص کی حالت ایک مخبوط الحواس کی حالت ہے کہ ایک کھلا کھلا تناقض اپنے کلام میں رکھتا ہے۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۱۸۴، خزائن ج۲۲ ص۱۹۱)
نوٹ: مرزاقادیانی نے اس آیت کی جس قدر تفسیریں کی ہیں ان میں سے ہم نے صرف چار پیش کی ہیں اور دو ان کے حواریوں کی درج کی ہیں۔ (۱)ساعۃ سے مراد وہ عذاب جو عیسیٰ علیہ السلام کے بعد طیطوس رومی کے ذریعہ یہود پر نازل ہوا۔ (۲)اس سے مراد قرآن مجید ہے۔ (۳)اس سے مراد عیسیٰ علیہ السلام کا بغیر باپ پیدا ہونا۔ (۴)اس سے مراد عیسیٰ علیہ السلام بغیر باپ بطور معجزہ پیدا ہونا۔ (۵)اس سے مراد مثیل مسیح۔ (۶)اس سے مراد عیسیٰ علیہ السلام۔ ان سب کی سب کا آپس میں تضاد وتناقض ظاہر ہے۔ پس مرزاقادیانی معہ اپنے صحابہ اپنے ہی فتویٰ کی رو سے۔ پاگل، منافق، جھوٹے پر خدا کی لعنت اور مخبوط الحواس ثابت ہوئے۔ مرزاقادیانی کے حواری مرزا خدا بخش مصنف (عسل مصطفٰی ج۱ ص۴۱۹) پر علماء اسلام کی تفسیر میں اختلاف مزعومہ کے بارہ میں لکھتے ہیں: ’’یہ چھ قسم کے معانی علماء متقدمین ومتاخرین نے کئے ہیں اور یہی معانی میری نظر سے گزرے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر علماء ومفسرین کو یقینی معنی معلوم ہوتے تو وہ کیوں اس قدر چکر کھاتے اور کیوں دور از قیاس رائے ظاہر کرتے۔ جب ہم ان معانی پر غور سے نظر کرتے ہیں تو سیاق کلام… کے خلاف پاتے ہیں۔‘‘
ناظرین! قادیانی تفسیر کے متعلق یہی عبارت پڑھ دیں صرف علماء متقدمین ومتاخرین کی بجائے مرزاقادیانی اور ان کے حواری سمجھ لیں۔

تصدیق از انجیل​

حضرات! یہ تو آپ بخوبی سمجھتے ہیںکہ کلام اﷲ، انجیل یا توریت کی نقل نہیں ہے بلکہ ایک بالکل الگ اور براہ راست سلسلہ وحی ہے۔ پس جہاں کہیں قرآن کریم اور انجیل کے مضمون میں مطابقت لفظی یا معنوی معرض ظہور میں آجائے وہاں وہی معنی قابل قبول ہوں گے جو متفق علیہ ہیں۔ خود مرزاقادیانی ہماری تصدیق میں لکھ گئے ہیں: ’’فَاسْئَلُوْا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ‘‘ یعنی اگر تمہیں ان بعض امور کا علم نہ ہو جو تم میں پیدا ہوں تو اہل کتاب کی طرف رجوع کرو اور ان کی کتابوں کے واقعات پر نظر ڈالو تا اصل حقیقت تم پر منکشف ہوجائے۔ (ازالہ اوہام ص۶۱۷، خزائن ج۳ ص۴۳۳)
سو ہم نے جب موافق اس حکم کے نصاریٰ کی کتابوں کی طرف رجوع کیا تو مندرجہ ذیل عبارت نظر پڑی۔ (انجیل متی باب:۲۴، آیت:۳تا۳۱) ’’جب وہ زیتون کے پہاڑ پر بیٹھا تھا تو اس کے شاگرد الگ اس کے پاس آ کر بولے۔ ہمیں بتا کہ یہ باتیں کب ہوں گی اور تیرے آنے اور دنیا کے آخر ہونے کا نشان کیا ہے۔ (’’انہ لعلم للساعۃ‘‘ قرآن کریم) یسوع نے جواب میں ان سے کہا خبردار کوئی تمہیں گمراہ نہ کر دے کیونکہ بہتیرے میرے نام سے آئیں گے اور کہیں گے کہ میں مسیح ہوں اور بہت سے لوگوں کو گمراہ کریں گے… اس وقت اگر تم سے کوئی کہے کہ دیکھو مسیح یہاں ہے یا وہاں ہے تو یقین نہ کرنا۔ کیونکہ جھوٹے مسیح اور جھوٹے نبی اٹھ کھڑے ہوں گے… میں نے پہلے ہی تم سے کہہ دیا ہے… پس اگر وہ تم سے کہیں کہ دیکھو وہ بیابان میں ہے تو باہر نہ جانا۔ دیکھو وہ کوٹھڑیوں میں ہے تو یقین نہ کرنا۔ کیونکہ جیسے بجلی پورب سے کوندھ کر پچھم تک دکھائی دیتی ہے ویسے ہی ابن مریم کا آنا ہوگا… ابن مریم کو بڑی قدرت اور جلال کے ساتھ آسمان کے بادلوں پر آتے دیکھیں گے۔ یہی مضمون (انجیل مرقس باب:۱۳) اور (انجیل لوقا باب:۲۱) میں مرقوم ہے۔ انجیل کے اس مضمون سے مندرجہ ذیل نتائج نکلتے ہیں۔
۱… حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام خود دوبارہ نازل ہوں گے۔ کیونکہ اپنے تمام نام نہاد مثیلوں سے بچنے کی ہدایت کر رہے ہیں۔
۲… حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دوبارہ آنا قیامت کی نشانی ہے۔
۳… جھوٹے مسیح اور جھوٹے نبی اٹھ کھڑے ہوں گے۔
۴… حضرت مسیح علیہ السلام آسمان سے اچانک نازل ہوں گے۔
۵… حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہونے کے بعد بڑی قدرت اور جلال کے ساتھ تشریف لائیں گے۔ یہی مضمون کلام اﷲ میں موجود ہے۔ جیسا کہ ہم تصریح کر چکے ہیں۔ پس قادیانی جماعت پر لازم ہے کہ مرزاقادیانی کے بیان کردہ معیار کے مطابق حق کو قبول کر کے مرزائیت سے اپنی بیزاری کا اعلان کر دیں۔
نتیجہ: مرزاقادیانی اپنی کتاب (ازالہ اوہام ص۲۶۹، خزائن ج۳ ص۲۳۶) میں لکھتے ہیں: ’’اس جگہ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ مسیح کا جسم کے ساتھ آسمان سے اترنا اس کے جسم کے ساتھ چڑھنے کی فرع ہے۔ لہٰذا یہ بحث بھی کہ مسیح اسی جسم کے ساتھ آسمان سے اترے گا جو دنیا میں اسے حاصل تھا۔ اس دوسری بحث کی فرع ہوگی جو مسیح جسم کے ساتھ آسمان پر اٹھایا گیا تھا۔‘‘
ہم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا جسم کے ساتھ آسمان سے اترنا ثابت کر دیا ہے۔ پس حسب قول مرزاقادیانی ثابت ہوگیا کہ حضرت مسیح علیہ السلام اسی جسم کے ساتھ آسمان پر اٹھائے گئے کیونکہ حضرت مسیح علیہ السلام کا دوبارہ نازل ہونا جبھی مانا جا سکتا ہے جب کہ ان کا آسمان پر اسی جسم کے ساتھ جانا تسلیم کر لیا جائے۔ فالحمد ﷲ علیٰ ذالک !
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

حیات مسیح علیہ السلام کی چھٹی دلیل​

’’ وَاِذْ کَفَفْتُ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ عَنْکَ اِذْ جِئْتَہُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْہُمْ اِنْ ہَذَا اِلَّا سِحْرٌ مُّبِیْن (مائدہ:۱۱۰) ‘‘ {اور جب روکا میں نے بنی اسرائیل کو تجھ سے جب تو لے کر آیا ان کے پاس نشانیاں تو کہنے لگے کافر تھے جو ان میں اور کچھ نہیں یہ تو جادو ہے صریح۔}
ف… معجزات اور فوق العادت تصرفات کو جادو کہنے لگے اور انجام کار حضرت مسیح علیہ السلام کے قتل کے درپے ہوئے۔ حق تعالیٰ نے اپنے لطف وکرم سے حضرت مسیح علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا۔ اس طرح یہود کو ان کے ناپاک مقاصد میںکامیاب ہونے سے روک دیا گیا۔ (تفسیر عثمانی)

استدلال:۱​

من جملہ ان نعمتوں کے جو حضرت مسیح علیہ السلام کو دی گئیں ایک یہ ہے کہ اے عیسیٰ علیہ السلام ’’ وَاِذْ کَفَفْتُ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ عَنْکَ ‘‘ اور اس وقت کو یاد کر کہ جب بنی اسرائیل کو تیرے پاس آنے سے بھی روک دیا۔ پس اگر خدانخواستہ قتل اور صلب میں کامیاب ہو گئے تو پھر اس تطہیر اور کف کے وعدہ اور انعام کی کوئی حقیقت باقی نہیں رہتی۔
’’ واذ کففت ‘‘ میں کف کا مفعول بنی اسرائیل کو بنایا ہے نہ کہ کاف ضمیر مخاطب کو۔ یعنی میں نے دور ہٹائے رکھا بنی اسرائیل (یہود) کو تجھ سے۔ یہ نہیں فرمایا: ’’ کَفَفْتُک عن بنی اسرائیل ‘‘ (ہٹا دیا تجھ کو بنی اسرائیل سے) کیونکہ ضرر پہنچانے کا ارادہ یہودیوں کا تھا پس انہی کو ہٹائے رکھنے کا ذکر مناسب ہے۔ (دوم) یہ کہ کف کا صلہ عن ذکر کیا ہے جو بعد کے لئے آتا ہے جس طرح حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں ارشاد ہے۔ ’’ لِنَصْرِفَ عَنْہُ السُّوْئِ وَالْفَحْشَائِ (یوسف:۲۴) ‘‘ ہم نے یوسف علیہ السلام سے برائی اور بے حیائی کو دور ہٹا دیا۔ یہ نہیں فرمایا: ’’نصرفک عن السوء والفحشاء‘‘ (یوسف علیہ السلام کو برائی سے ہٹا دیں) یہ اگر ہوتا تو شبہ ہوتا کہ یوسف علیہ السلام کے دل میں برائی (قصد زنا) آگئی تھی بلکہ اﷲ نے برائی اور بدی کے ارادہ کو ہی دور دور رکھا اور یوسف علیہ السلام تک پہنچنے ہی نہ دیا۔ اسی طرح اﷲ نے یہود کو حضرت مسیح علیہ السلام سے دور دور رکھا۔ جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد ہے: ’’ وَاِذْ اَنْجَیْنٰکُمْ مِنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ یَسُوْمُوْنَکُمْ سُوْئَ الْعَذَابِ (الاعراف:۱۴۱) ‘‘
{اے بنی اسرائیل اس وقت کو یاد کرو کہ جب ہم نے تم کو فرعونیوں کے عذاب سے بچایا اور نجات دی۔} اس لئے کہ اگر عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں یہ عنوان اختیار فرماتے تو یہ شبہ ہوتا کہ بنی اسرائیل کی طرح عیسیٰ علیہ السلام نے بھی دشمنوں سے ایذائیں اور تکلیفیں اٹھائیں۔ مگر اخیر میں اﷲ نے ان مصائب اور تکالیف سے نجات دی۔ عیسیٰ علیہ السلام کو کوئی ایذا تو کیا پہنچاتا وہ خود بھی ان تک نہ پہنچ سکا۔ اﷲ نے دشمنوں کو دور ہی رکھا اور کسی بدذات کو پاس بھی نہ بھٹکنے دیا اور جبرائیل علیہ السلام کو بھیج کر آسمان پر اٹھا لیا۔ تمام تفاسیر معتبرہ میں یہی تفسیر مذکور ہے۔
مرزاقادیانی کہتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام صلیب سے رہا ہوکر کشمیر پہنچے اور ستاسی سال کے بعد کشمیر میں وفات پائی۔ حالانکہ کشمیر اس وقت کفر اور شرک اور بت پرستی کا گھر تھا جو ملک شام سے کسی طرح بہتر نہ تھا۔ شام حضرات انبیاء کا مسکن اور وطن تھا اور اﷲتعالیٰ یہ فرماتے ہیں: ’’ وَمُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ‘‘ کہ میں تجھ کو کافروں سے پاک کرنے والا ہوں۔ نیز عیسیٰ علیہ السلام صرف بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہوئے تھے۔ ’’ کما قال تعالٰی وَرَسُوْلًا اِلٰی بَنِیْ اِسْرَائِیْ لَ‘‘ ان کی نبوت صرف بنی اسرائیل کے لئے تھی۔ لہٰذا بنی اسرائیل کو چھوڑ کر کشمیر جانے کے کیا معنی؟

استدلال:۲​

’’کف‘‘ کے لفظی معنی ہیں ’’باز گردانیدن‘‘ یعنی روکے رکھنا۔
قرآن مجید میں یہ لفظ کئی مقامات پر استعمال ہوا ہے۔ (۱)’’وَیَکُفُّوْا اَیْدِیَہُمْ (نساء:۹۱)‘‘ (۲)’’فَکَفَّ اَیْدِیَہُمْ عَنْکُمْ (مائدہ:۱۱)‘‘ (۳)’’کُفُّوْا اِیْدِیَکُمْ (نساء:۱۷)‘‘ (۴)’’وَکَفَّ اِیْدِیَ النَّاسِ عَنْکُمْ (الفتح:۲۰)‘‘ (۵)’’ہُوَ الَّذِیْ کَفَّ اِیْدِیَہُمْ عَنْکُمْ وَاِیْدِیَکُمْ عَنْہُمْ بِبَطْنِ مَکَّۃَ مِنْ بَعْدِ اَنْ اَظْفَرَکُمْ عَلَیْہِم (الفتح:۲۴)‘‘
آخری آیت میں خصوصاً کف کے مفعول کو عن کے مجرور سے بکلی روکا گیا ہے۔ ’’اور وہ (اﷲ) وہی ہے جس نے روک رکھے ان کے ہاتھ تم سے اور تمہارے ہاتھ ان سے مکہ کے قریب میں بعد اس کے کہ اﷲتعالیٰ نے قابو دیا تم کو ان پر۔‘‘ اس آیت میں صلح حدیبیہ کی طرف اشارہ ہے۔ قادیانی فریق کو بھی تسلیم ہے کہ حدیبیہ میں مطلقًا کوئی لڑائی نہیں ہوئی۔ جیسا کہ تمام مفسرین ومورخین کا اس پر اتفاق ہے۔ دوسری آیت ’’ فکف ایدیہم عنکم (مائدہ:۱۱) ‘‘ پوری آیت کا ترجمہ یہ ہے: ’’اے مسلمانو! تم اﷲتعالیٰ کی وہ نعمت یاد کرو جو اس نے تم پر کی جب کفار نے تم پر دست درازی کرنی چاہی تو ہم نے ان کے ہاتھ تم سے روکے رکھے۔‘‘
ناظرین! جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہود نے قتل کرنے کی کوشش کی اور قتل کا مکمل انتظام کر لیا بعینہٖ اسی طرح بنو نضیر کے یہود نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہلاک کرنے کا منصوبہ بنایا۔ لیکن اﷲتعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بال بال محفوظ رکھا۔ جیسا کہ تمام مفسرین نے ’’سورۃ مائدہ آیت:۱۱‘‘ کے تحت لکھا ہے۔ قادیانی اپنے مسلمہ مجدد ابن کثیر رحمہ اللہ تعالیٰ کی تفسیر کو اس آیت کے تحت میں ملاحظہ کریں جس طرح کف کا لفظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے استعمال ہوا۔ بعینہٖ وہی لفظ ’’ واذ کففت بنی اسرائیل عنک ‘‘ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے استعمال ہوا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہود کے شر سے محفوظ رکھنے پر اﷲتعالیٰ کا شکریہ ادا کرنے کا حکم ہوا۔ اس طرح عیسیٰ علیہ السلام کو یہود کے شر سے محفوظ رکھنے پر اﷲتعالیٰ شکریہ کا حکم فرمائیں گے اور اپنا انعام یاد کرائیں گے۔

عجیب نکتہ​

حدیبیہ میں دونوں گروہ مسلمان اور کفار آمنے سامنے ہوئے۔ لیکن ایک دوسرے سے لڑائی کا مرحلہ نہیں آیا۔ یعنی ایک دوسرے تک ہاتھ نہیں پہنچے ’’ فکف ایدیہم عنکم، کف ‘‘ کا مفعول ایدی اور ان کا مجرور ضمیریں ہیں۔ یعنی دونوں فریقوں کااجتماع تو ہوا لیکن لڑائی نہیں ہوئی۔ مگر آیت: ’’ واذکففت بنی اسرائیل عنک ‘‘ میں اﷲتعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ: ’’ اذ کففت ایدی بنی اسرائیل عنک ‘‘ کہ میں نے ان کے ہاتھ آپ سے روکے رکھے۔ بلکہ فرمایا کہ یہود کو عیسیٰ علیہ السلام سے روکے رکھا کہ وہ آپ کے قریب تک نہیں بھٹکے یعنی جب یہود عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کے درپے ہوئے تو اﷲتعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا۔ وہ آپ کے قریب تک نہیں آسکے۔ تمام تدبیروں کے باوجود عیسیٰ علیہ السلام کے قریب پہنچنے سے روک لیا وہ ان کی پہنچ سے باہر (آسمان پر) تھے۔

تفسیری شواہد:​

۱… (تفسیر ابن کثیر ج۱ ص۱۱۵) زیر آیت مذکور ہے: ’’ اذکر نعمتی علیک فی کفی ایاہم عنک اذ جئتہم بالبراہین والحجۃ القاطعۃ علی نبوتک ورسالتک من اللّٰہ الیہم فکذبوک واتہموک بانک ساحر وسعوا فی قتلک وصلبک فنجیتک منہم ورفعتک الی وطہرتک من دنسہم وکفیتک شرہم وہذا یدل علی الامتنان کان من اللّٰہ الیہ بعد رفعہ الی السماء الدنیا او یکون ہذا الامتنان واقعًا یوم القیامۃ وعبر عنہ بصیغۃ الماضی دلالۃ علی وقوعہ لا محالۃ وہذا من اسرار الغیوب التی اطلع اللّٰہ علیہا نبیہ محمدا صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ {(عیسیٰ علیہ السلام کو اﷲتعالیٰ فرمائیں گے) کہ میری نعمتوں کو یاد کریں کہ جب یہودیوں کو آپ سے میں نے روکے رکھا جب آپ ان کے پاس فیصلہ کن دلائل وبراہین اور رسالت، اﷲتعالیٰ سے لے کر آئے تو انہوں نے آپ کی تکذیب کی۔ جادوگری کا اتہام لگایا۔ آپ کے قتل وپھانسی کے در پے ہوئے۔ میں (اﷲتعالیٰ) نے ان سے آپ کو بچایا اور اپنی طرف اٹھا لیا اور ان کی بدی سے آپ کو پاک کیا اور ان کے شر سے محفوظ رکھا۔ اﷲتعالیٰ نے ان انعامات کا تذکرہ آپ کے آسمان دنیا پر اٹھائے جانے کے بعد کیا یا قیامت کے دن ان انعامات کا تذکرہ فرمائیں گے۔ (اگر قیامت کے دن فرمائیں گے تو پھر ’’اذ قال اللّٰہ‘‘ بصیغہ ماضی کیوں فرمایا؟) اس کی تعبیر ماضی سے اس لئے فرمائی کہ یہ یقینی امر ہے جو ہر حال میں ہوگا (گویا ہوچکا قیامت کے دن یہ کلام الٰہی عیسیٰ علیہ السلام سے ہوگا) یہ وہ غیب کے اسرار ہیں جن پر اﷲتعالیٰ نے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مطلع فرمادیا۔}
۲… (تفسیر خازن ج۲ ص۵۳۹) پر ہے: ’’ فقصد الیہود قتلہ فخلصہ اللّٰہ منہم ورفعہ الٰی السماء ‘‘ جب یہود نے عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کا ارادہ کیا تو اﷲتعالیٰ نے ان سے آپ کو بچایا اور آسمان پر اٹھا لیا۔
۳… (معارف القرآن ج۴ ص۱۵۳) حضرت کاندھلوی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’جب کہ میں (اﷲتعالیٰ) نے بنی اسرائیل یعنی یہودیوں کو تیرے پاس آنے سے روک دیا اور انہوں نے جو تیرے قتل کا ارادہ اور صلیب کا منصوبہ بنایا تھا اس کو میں نے ایک لخت ملیا میٹ کر دیا اور تجھ کو صحیح وسالم زندہ آسمان پر اٹھالیا اور وہ تجھے کوئی ضرر نہ پہنچا سکے۔‘‘
۴… (تفسیر کبیر ج۱۲ ص۱۲۷) زیر آیت بالا حضرت علامہ رازی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’ انہ علیہ الصلوٰۃ والسلام لما اظہر ہذہ المعجزات العجیبہ قصد الیہود قتلہ فخلصہ اللّٰہ تعالٰی منہم حیث رفعہ الی السماء ‘‘ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام سے جب ان معجزات کاظہور ہوا تو یہود نے قتل کا منصوبہ بنایا۔ اﷲتعالیٰ نے یہود سے عیسیٰ علیہ السلام کو بچا کر آسمان پر اٹھا لیا۔
۵… (معالم العرفان ج۵ ص۴۸۰) پر ہے: ’’عیسیٰ علیہ السلام گھبراؤ نہیں میں ان کے ناپاک ہاتھ تم تک نہیں پہنچنے دوں گا۔ چنانچہ اﷲتعالیٰ نے آپ کو بحفاظت آسمان پر اٹھا لیا۔‘‘
قارئین محترم! اﷲ رب العزت نے یہود کی دست وبرد سے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو ایسے طور پر محفوظ رکھا کہ وہ ان کی پہنچ سے باہر ہوگئے۔ یہود ان کے قریب نہ بھٹک سکے۔ ان تفسیری تصریحات کے باجود مرزاقادیانی کا کیا مؤقف ہے؟ وہ ملاحظہ کریں۔

مرزاقادیانی کا مؤقف​

۱… ’’اسی طرح اﷲتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو فرمایا تھا: ’’اذ کففت بنی اسرائیل عنک‘‘ یعنی یاد کر وہ زمانہ جب کہ بنی اسرائیل کو جو قتل کا ارادہ رکھتے تھے۔ میں نے تجھ سے روک دیا۔ حالانکہ تواتر قومی سے ثابت ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو یہودیوں نے گرفتار کر لیا تھا اور صلیب پر کھینچ دیا تھا۔ لیکن خدا نے آخر جان بجادی۔ پس یہی معنی ’’ اذ کففت ‘‘ کے ہیں۔‘‘ (ضمیمہ نزول المسیح ص۱۵۱، خزائن ج۱۸ ص۵۲۸)
۲… اسی مضمون کو مرزاقادیانی دوسری جگہ اس طرح لکھتے ہیں: ’’پھر بعد اس کے مسیح علیہ السلام ان کے حوالہ کیاگیا اور اس کو تازیانے لگائے گئے اور جس قدر گالیاں سننا اور فقیہوں اور مولویوں کے اشارہ سے طمانچے کھانا اور ہنسی اور ٹھٹھے اڑائے جانا اس کے حق میں مقدر تھا سب نے دیکھا۔ آخر صلیب دینے کے لئے تیار ہوئے… تب یہودیوں نے جلدی سے مسیح علیہ السلام کو دو چوروں کے ساتھ صلیب پر چڑھادیا۔ تاشام سے پہلے ہی لاشیں اتاری جائیں۔ مگر اتفاق سے اسی وقت ایک سخت آندھی آگئی… انہوں نے تینوں مصلوبوں کو صلیب پر سے اتار لیا… سو پہلے انہوں نے چوروں کی ہڈیاں توڑیں… جب چوروں کی ہڈیاں توڑ چکے اور مسیح علیہ السلام کی نوبت آئی تو ایک سپاہی نے یوں ہی ہاتھ رکھ کر کہہ دیا کہ یہ تو مر چکا ہے۔ کچھ ضرور نہیں کہ اس کی ہڈیاں توڑی جائیں اور ایک نے کہا میں ہی اس لاش کو دفن کروں گا… پس اس طور سے مسیح زندہ بچ گیا۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۳۸۰تا۳۸۲، خزائن ج۳ ص۲۹۶،۲۹۷)
۳… مرزاقادیانی نے مزید تشریح یوں کی ہے: ’’مسیح علیہ السلام پر جو مصیبت آئی کہ وہ صلیب پر چڑھایا اور کیلیں اس کے اعضاء میں ٹھونکی گئیں۔ جن سے وہ غشی کی حالت میں ہوگیا۔ یہ مصیبت درحقیقت موت سے کچھ کم نہ تھی۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۹۲، خزائن ج۳ ص۳۰۲)
۴… مرزاقادیانی لکھتے ہیں: ’’اب بھی خداتعالیٰ کا وہ غصہ نہیں اترا جو اس وقت بھڑکا تھا جب کہ اس ’’وجیہہ‘‘ نبی کو گرفتار کراکر مصلوب کرنے کے لئے کھوپری کے مقام پر لے گئے تھے اور جہاں تک بس چلا تھا ہر ایک قسم کی ذلت پہنچائی تھی۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ ص۱۰۷، خزائن ج۱۷ ص۲۰۰)
مرزاقادیانی علیہ ما علیہ کے ان چار حوالہ جات سے ذیل کے نتیجے اخذ ہوتے ہیں:
۱… عیسیٰ علیہ السلام کو گرفتار کیا گیا۔
۲… عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب پر کھینچا گیا۔
۳… عیسیٰ علیہ السلام یہود کے حوالہ ہوئے۔
۴… عیسیٰ علیہ السلام کو تازیانے (کوڑے) لگائے گئے۔
۵… عیسیٰ علیہ السلام نے گالیاں سنیں۔
۶… عیسیٰ علیہ السلام کو طمانچے مارے گئے۔
۷… عیسیٰ علیہ السلام سے ٹھٹھا وہنسی ہوئی۔
۸… عیسیٰ علیہ السلام چوروں کے ساتھ صلیب دئیے گئے۔
۹… عیسیٰ علیہ السلام پر مصیبت آئی۔
۱۰… عیسیٰ علیہ السلام کے اعضاء میں کیلیں ٹھونکی گئیں۔
۱۱… عیسیٰ علیہ السلام بیہوش ہوگئے۔
۱۲… عیسیٰ علیہ السلام کی یہ مصیبت موت سے کم نہ تھی۔
۱۳… عیسیٰ علیہ السلام وجیہ نبی کو گرفتار کیا گیا۔
۱۴… عیسیٰ علیہ السلام کو ہر قسم کی ذلت پہنچائی تھی۔
چودھویں صدی کے سباب وکذاب اعظم مرزاقادیانی کی عبارتوں سے یہ چودہ نتائج برآمد ہوئے۔ اس قادیانی تفسیر پر مزید حاشیہ آرائی کی ضرورت نہیں۔ تاہم بقول مرزاقادیانی کہ جب ہر ممکن ذلت وخواری میں مسیح علیہ السلام کو خدا نے مبتلا کرایا۔ یہاں تک کہ وہ ایسے بے ہوش ہوگئے کہ دیکھنے والے انہیں مردہ تصور کر کے چھوڑ گئے۔ کیا اس کے بعد بھی خدا کو یہ حق پہنچتا ہے کہ یوں کہے بالفاظ مرزا ’’یاد کر وہ زمانہ جب بنی اسرائیل کو جو قتل کا ارادہ رکھتے تھے میں نے تجھ سے روک لیا۔‘‘ (نزول المسیح ص۱۵۱، خزائن ج۱۸ ص۵۲۸)
اس آیت کی ابتداء میں باری تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو فرماتے ہیں: ’’ اذکر نعمتی ‘‘ یعنی یاد کر میری نعمتیں۔
انہی نعمتوں میں سے ایک نعمت بنی اسرائیل سے حضرت مسیح علیہ السلام کو بچانا بھی ہے۔ دنیا جہاں میں ایسے موقعوں پر سینکڑوں دفعہ ایک انسان دوسروں کے نرغہ سے بال بال بچ جاتا ہے۔ پس اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام بال بال بھی بچ گئے ہوتے جب بھی اس بچانے کو مخصوص طور پر بیان کرنا باری تعالیٰ کی شان عالی کے لائق نہ تھا۔ ایسا بچ جانا عام بات ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا معجزانہ رنگ اور عجیب طریقہ سے یہود کے درمیان سے بچ کر آسمان پر چلا جانا ایک خاص نعمت ہے۔ جس کو باری تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے سامنے بیان کر کے شکریہ کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔ ورنہ اگر مرزاقادیانی کا بیان اور تفسیر صحیح تسلیم کر لی جائے تو کیا اس نعمت کے شکریہ کے مطالبہ پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام یوں کہنے میں حق بجانب نہ ہوں گے؟ یا اﷲ یہ بھی آپ کا کوئی مجھ پر احسان تھا کہ تمام جہان کی ذلتیں اور مصائب مجھے پہنچائی گئیں۔ میرے جسم میں میخیں ٹھونکی گئیں۔ میں نے ’’ ایلی ایلی لما سبقتنی ‘‘ کی صدائیں دیں۔ یعنی اے میرے خدا اے میرے خدا تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا ہے۔ پھر بھی تیری غیرت جوش میں نہ آئی۔ اندھیری رات میں وہ مجھے مردہ سمجھ کر پھینک گئے۔ میرے حواریوں نے چوری چوری میری مرہم پٹی کی۔ میں یہود کے ڈر سے بھاگا بھاگا ایران اور افغانستان کے دشوارگزار پہاڑوں میں ہزار مشکلات کے بعد درۂ خیبر کے راستہ پنجاب، یو۔پی، نیپال پہنچا اور وہاں کی گرمی کی شدت برداشت نہ کر سکنے کے سبب کوہ ہمالیہ کے دشوار گزار دروں میں سے گرتا پڑتا سری نگر پہنچا۔ وہاں ۸۷برس گمنامی کی زندگی بسر کر کے مر گیا اور وہیں دفن کر دیا گیا۔ اس میں آپ نے کون سا کمال کیا کہ مجھے نعمت کے شکریہ کا حکم دیتے ہیں؟ کیا یہ کہ میری جان جسم سے نہ نکلنے دی اور اس حالت کا شکریہ مطلوب ہے؟ سبحان اﷲ! واہ رے آپ کی خدائی۔ ہاں! ایسی ذلت سے پہلے اگر میری جان نکال لیتا تو بھی میں آپ کا احسان سمجھتا۔ اب کون سا احسان ہے؟ اگر تو کہے کہ میں نے تیری جان بچا کر صلیب پر مرنے اور اس طرح ملعون ہونے سے بچا لیا تو اس کا جواب بھی سن لیں۔
۱… کیا تیرا معصوم نبی اگر صلیب پر مر جائے تو واقعی تیرا یہی قانون ہے کہ وہ لعنتی ہو جاتا ہے۔ اگر نہیں اور یقینا نہیں تو پھر جان بچانے کے کیا معنی؟
۲… باوجود اپنی اس تدبیر کے جس پر آپ مجھ سے شکریہ کا مطالبہ چاہتے ہیں۔ یہودی اور عیسائی مجھے ملعون ہی سمجھتے ہیں۔ آپ کی کس بات کا شکریہ ادا کروں؟
۳… اگر آپ کے ہاںنعوذ باﷲ ایسا ہی عجیب قانون ہے کہ ہر معصوم مظلوم پھانسی پر چڑھائے جانے اور پھر مر جانے پر ملعون ہو جاتا ہے اور آپ نے مجھے لعنتی موت سے بچانا چاہا تو معاف کریں اگر میں یوں کہوں کہ آپ کا اختیار کردہ طریق کار صحیح نہ تھا جیسا کہ نتائج نے ثابت کر دیا۔ جس کی تفصیل نمبر۲ میں میں عرض کر چکا ہوں۔ اگر مجھے اپنی مزعومہ لعنتی موت سے بچانا تھا تو کم ازکم یوں کرتے کہ ان کی گرفتاری سے پہلے مجھے موت دے دیتے تاکہ میری اپنی امت تو ایک طرف یقینا یہودی بھی میری لعنتی موت کے قائل نہ ہوسکتے۔ پس مجھے بتایا جائے کہ میں کس بات کا شکریہ ادا کروں؟
معاذ اﷲ! یہ ہے وہ قدرتی جواب جو قیامت کے دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ذہن میں آنا چاہئے۔ بشرطیکہ قادیانی اقوال واہیہ کو ٹھیک تسلیم کر لیا جائے۔ ہاں! اسلامی تفسیر کو صحیح تسلیم کرلیں تو وہ حالت یقینا قابل ہزار شکر ہے۔ ہزارہا یہود قتل کے لئے تیار ہو کر آتے ہیں۔ مکان کو گھیر لیتے ہیں۔ مکروفریب کے ذریعہ گرفتاری کا مکمل سامان کر چکے ہیں۔ موت حضرت مسیح علیہ السلام کو سامنے نظر آتی ہے۔ اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں: ’’انی متوفیک ورافعک الی‘‘ یعنی (اے عیسیٰ علیہ السلام) میں تجھ پر قبضہ کرنے والا ہوں اور آسمان پر اٹھانے والا ہوں۔
پھر اس وعدہ کو اﷲتعالیٰ پورا کرتے ہیں اور یوں اعلان کرتے ہیں: ’’وایدناہ بروح القدس‘‘ یعنی ہم نے مسیح علیہ السلام کو جبرائیل فرشتہ کے ساتھ مدد دی۔ (جو انہیں اٹھا کر دشمنوں کے نرغہ سے بچا کر آسمان پر لے گئے) دوسری جگہ اس وعدہ کا ایفا یوں مذکور ہے: ’’ ماقتلوہ یقینًا بل رفعہ اللّٰہ الی ہ‘‘ (یہود نے یقینی بات ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو قتل نہیں کیا بلکہ اٹھا لیا اﷲتعالیٰ نے ان کو آسمان پر) اسی ایفاء وعدہ اور معجزانہ حفاظت کو بیان کر کے شکریہ کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس آیت میں ’’واذ کففت بنی اسرائیل عنک‘‘ یعنی اے عیسیٰ علیہ السلام یاد کر ہماری نعمت کو جب ہم نے تم سے بنی اسرائیل کو روک لیا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر واجب ہے کہ گردن مارے احسان کے جھکا دیں اور یوں عرض کریں۔ ’’رب او زعنی ان اشکر نعمتک التی انعمت علی‘‘ یا رسول اﷲ! مجھے توفیق دے کہ میں واقعی تیری معجزانہ نعمتوں کا شکریہ ادا کروں۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

قادیانی اعتراض:۱… ازمرزاقادیانی​

’’دیکھو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی عصمت کا وعدہ کیاگیا تھا حالانکہ احد کی لڑائی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت زخم پہنچے تھے اور یہ حادثہ وعدۂ عصمت کے بعد ظہور میں آیا تھا۔ اسی طرح اﷲتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو فرمایا تھا: ’’ واذ کففت بنی اسرائیل عنک ‘‘ یعنی یاد کر وہ زمانہ کہ جب بنی اسرائیل کو جو قتل کا ارادہ رکھتے تھے۔ میں نے تجھ سے روک دیا۔ حضرت مسیح علیہ السلام کو یہودیوں نے گرفتار کر لیا تھا اور صلیب پر کھینچ دیا تھا۔ لیکن خدا نے آخر جان بچا دی۔ پس یہی معنی ’’ اذ کففت ‘‘ کے ہیں۔ جیسا کہ ’’ واللّٰہ یعصمک من الناس ‘‘ کے ہیں۔‘‘
(نزول المسیح ص۱۵۱، خزائن ج۱۸ ص۵۲۹ حاشیہ)
جواب: ۱… ’’ عصم ‘‘ کے معنی ہیں ’’بچا لینا‘‘ یعنی دشمن کا طرح طرح کے حملے کرنا اور ان حملوں کے باوجود جان کا محفوظ رکھنا۔ لیکن ’’کف‘‘ کے معنی ہیں روک لینا۔ یعنی ایک چیز کو دوسری تک پہنچنے کا موقعہ ہی نہ دینا۔ پس دونوں آپس میں ایک جیسے کس طرح ہو سکتے ہیں؟ ہم اس پر بھی مفصل بحث کر کے ثابت کر آئے ہیں کہ: ’’کف‘‘ کے استعمال کے موقعہ پر ضروری ہے کہ ایک فریق کو دوسرے سے مطلق کسی قسم کا گزند نہ پہنچے۔ جب ہم شواہد قرآنی سے ثابت کرچکے ہیں کہ تمام قرآن کریم میں جہاں جہاں ’’کف‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ مکمل حفاظت کے معنوں میں استعمال ہوا ہے تو ان معنوں کے خلاف اس آیت کے معنی کرنا کس طرح جائز ہوسکتا ہے؟ لیجئے! ہم خود مرزاقادیانی کا اپنا اصول ایسے موقعہ پر صحیح معنوں کی شناخت کا پیش کر کے قادیانی جماعت سے درخواست کرتے ہیں کہ اگر ایمان کی ضرورت ہے تو اسلامی تفسیر کے خلاف اپنی تفسیر بالرائے کو ترک کر دو۔
’’اگر قرآن شریف اوّل سے آخر تک اپنے کل مقامات مین ایک ہی معنوں کو استعمال کرتا ہے تو محل مبحوث میں بھی یہی قطعی فیصلہ ہوگا جو معنی… سارے قرآن شریف میں لئے گئے ہیں وہی معنی اس جگہ بھی مراد ہوں۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۳۰، خزائن ج۳ ص۲۶۷)
ہم چیلنج کرتے ہیں کہ تمام قرآن شریف میں جہاں جہاں ’’کف‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے انہیں مذکورہ بالا معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ پس محل نزاع میں اس کے خلاف معنی کرنا حسب قول مرزاالحاد اور فسق ہوگا۔
۲… ایک لمحہ کے لئے ہم مان لیتے ہیں۔ نہیں بلکہ قادیانی تحریف کی حقیقت الم نشرح کرنے کے لئے ہم فرض کر لیتے ہیں کہ ’’عصم‘‘ اور ’’کف‘‘ ہم معنی ہیں۔ پھر بھی قادیانی ہی جھوٹے ثابت ہوں گے۔ کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وعدہ ’’عصمت‘‘ جو خدا نے کیا۔ وہ مکمل حفاظت کے رنگ میں ظاہر کیا۔ یقینا قادیانی دجل وفریب کا ناطقہ بند کرنے کو ایسا کیاگیا۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ :’’واللّٰہ یعصمک من الناس‘‘ کی بشارت کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار کوئی جسمانی گزند بھی نہیں پہنچا سکے۔
قادیانی کا یہ کہناکہ جنگ احد میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زخمی ہونا اور دانت مبارک کا ٹوٹ جانا اس بشارت کے بعد ہوا ہے۔ یہ ’’دو جمع دو چار روٹیاں‘‘ والی مثال ہے اور قادیانی کے تاریخ اسلام اور علوم قرآنی سے کامل اور مرکب جہالت کا ثبوت ہے۔
جنگ احد شوال ۳ھ میں ہوئی تھی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو زخم اور دیگر جسمانی تکلیف بھی اسی ماہ میں لاحق ہوئی تھی جیسا کہ قادیانی خود تسلیم کر رہا ہے۔ مگر یہ آیت ’’واللّٰہ یعصمک من الناس‘‘ سورۂ مائدہ کی ہے جو نازل ہوئی تھی ۵ھ اور ۷ھ کے درمیان زمانہ میں۔ دیکھو خود مرزاقادیانی کا مرید محمد علی امیر جماعت لاہوری اپنی تفسیر بیان القرآن میں یوں رقمطراز ہے۔ ’’ان مضامین پر جن کا ذکر اس سورۂ (مائدہ) میں ہے۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے اور یہی رائے اکثر محققین کی بھی ہے کہ اس سورت کے اکثر حصہ کا نزول پانچویں اور ساتویں سال ہجری کے درمیان ہے۔‘‘ (بیان القرآن ص۵۸۸)
اب رہا سوال خاص اس آیت: ’’ وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاس ‘‘ کے نزول کا سو اس بارہ میں ہم قادیانی نبی اور اس کی امت کے مسلمہ مجدد صدی نہم علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ تعالیٰ کا قول پیش کرتے ہیں: ’’ وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاس فی صحیح ابن حبان عن ابی ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم انہا نزلت فی السفر واخرج ابن ابی حاتم وابن مَرْدَوَیْہ عن جابر انہا نزلت فی ذات الرقاع باعلٰی نخل فی غزوۃ بنی انمار ‘‘ (تفسیر اتقان جزو اوّل ص۱۹)
مطلب جس کا یہ ہے کہ غزوہ بنی انمار کے زمانہ میں یہ آیت سفر میں نازل ہوئی تھی۔ جب اس آیت کا وقت نزول غزوہ بنی انمار کا زمانہ ثابت ہوگیا تو اس کی تاریخ نزول کا قطعی فیصلہ ہو گیا کیونکہ یہ بات تاریخ اسلامی کے ادنیٰ طالب علم سے بھی معلوم ہوسکتی ہے کہ غزوہ بنی انمار ۵ھ میں واقع ہوا تھا۔ مفصل دیکھو کتب تاریخ اسلام ابن ہشام وغیرہ۔
لیجئے! ہم اپنی تصدیق میں مرزاقادیانی کا اپنا قول ہی پیش کرتے ہیں تاکہ مخالفین کے لئے کوئی جگہ بھاگنے کی نہ رہے۔ مرزاقادیانی لکھتے ہیں: ’’لکھا ہے کہ اوّل مرتبہ میں جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم چند صحابی کو برعایت ظاہر اپنی جان کی حفاظت کے لئے رکھا کرتے تھے۔ پھر جب یہ آیت: ’’ وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاس ‘‘ نازل ہوئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کو رخصت کر دیا اور فرمایا کہ اب مجھ کو تمہاری حفاظت کی ضرورت نہیں۔‘‘
(الحکم مورخہ ۲۴؍اگست ۱۸۹۹ء، بحوالہ خزینۃ العرفان ص۴۹۲)
اس حوالہ میں مرزاقادیانی نے تسلیم کر لیا کہ اس آیت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی گزند نہیں پہنچی۔

مرزاقادیانی کا سیاہ جھوٹ​

پس مرزاقادیانی کا یہ لکھنا: ’’کہ جنگ احد کا حادثہ وعدہ عصمت کے بعد ظہور میں آیا تھا۔‘‘ بہت ہی گندہ اور سیاہ جھوٹ ہے۔ اﷲتعالیٰ جھوٹوں کے متعلق فرماتے ہیں: ’’ لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکٰذِبِیْ ن‘‘ اور خود مرزاقادیانی جھوٹ بولنے والے کے بارہ میں لکھتے ہیں: ’’جھوٹ بولنا اور گوہ کھانا ایک برابر ہے۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۲۰۶، خزائن ج۲۲ ص۲۱۵)

قادیانی اعتراض:۲​

حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کفار نے آگ میں ڈال دیا اور اﷲتعالیٰ نے آپ کو اس آگ سے بچا لیا۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہود نے حضرت روح اﷲ کو صلیب پر چڑھا دیا مگر اﷲتعالیٰ نے آپ کو زندہ رکھا اور ان کے ہاتھ سے مرنے نہ دیا تو اس میں کیا حرج ہے؟
جواب: ۱… جناب! وقائع اور امور تاریخیہ میں قیاس کو بالکل دخل نہیں ہوتا بلکہ ان کا مدار صرف روایت وشہادت ہی پر ہوتا ہے۔ وقائع میں قیاسات کے مفید نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وقوع حوادث کی صورت واحد دون آخر نہیں ہوتی۔ پس حضرت روح اﷲ کے واقعہ کو قیاس محض سے واقعہ حضرت خلیل اﷲ علیہ السلام کا ہمرنگ بنانا جہالت وسفاہت ہے۔ کیونکہ صورت نجات اسی ایک طریق میں منحصر نہیںہے۔ ’ ’کَمَا لَا یَخْفٰی عَلٰی مَنْ لَہٗ اَدْنٰی تَاَمَّلٌ ‘‘ دیگر یہ۔
۲… کہ ہمارا دین سماعی ہے قیاسی نہیں یعنی جو امر جس طرح قرآن وحدیث میں وارد ہے۔ اسے اسی طرح تسلیم کرتے ہیں اور اپنے قیاسات سخیفہ اور خیالات ضعیفہ پر مدار نہیں رکھتے۔ چونکہ قرآن مجید میں حضرت خلیل اﷲ علیہ السلام کا آگ میں پڑنا اور پھر سلامت رہنا ذکر کیاگیا ہے۔ اس لئے اس واقع کو اسی طرح مانتے ہیں اور چونکہ حضرت روح اﷲ علیہ السلام کا صلیب پر نہ چڑھایا جانا اور یہود کا آپ کو مس تک بھی نہ کر سکنا مذکور ہے۔ اس لئے اسی طرح یقین رکھتے ہیں۔ اپنے خیال وقیاس سے کچھ نہیں کہتے۔
حضرت خلیل اﷲ علیہ السلام کے واقعۂ نار کی بابت سورۃ انبیاء میں فرمایا: ’’ قُلْنَا یَانَارُکُوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلَامًا عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ وَاَرَادُوْ بِہٖ کَیْدًا فَجَعَلْنٰہُمُ الْاَخْسَرِیْنَ (انبیاء:۶۹) ‘‘ {ہم نے کہا اے آگ تو ابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامتی والی ہو جا اور انہوں نے ابراہیم سے داؤ کرنا چاہا تھا۔ پس ہم نے انہی کو نہایت زیان کار کر دیا۔}
اور سورت صافات میں ’’اَلْاَسْفَلِیْنَ‘‘ (نہایت پست) فرمایا۔ سو ان آیات میں امر ’’ یَانَارُکُوْنِی بَرْدًا وَّسَلَامًا عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ ‘‘ میں اشارہ اس امر کا ہے کہ آپ آگ میں ڈالے گئے تھے۔ کیونکہ ’’امریَانَارُکُوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلَامًا‘‘ نہیں ہوسکتا جب تک آگ موجود نہ ہو (وجود خارجی بھی ہوتا ہے اور ذہنی بھی) خدا کے امر میں دونوں برابر ہیں۔ صورت اس کی یہ ہے کہ اگر خدا کے امر کے وقت مامور خارج میں موجود نہ ہو بلکہ خدا کے علم میں ہو تو خداتعالیٰ اس صورت علمیہ کو امر کرتا ہے تو لزوماً خارج میں اس کا وجود ہو جاتا ہے۔ چنانچہ فرمایا: ’’ اِنَّمَا اَمْرُہٗ اِذَا اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنَ (یٰسین:۸۲) ‘‘ اور ’’علٰی ابراہیم‘‘ صادق نہیں ہوسکتا۔ جب تک حضرت ابراہیم علیہ السلام اس میں واقع نہ ہوں۔ علاوہ اس کے یہ حدیث میں رفعاً وارد ہوا۔ ’’ عن ابی ہریرۃ قال قال رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم لما القی ابراہیم علیہ السلام فی النار قال اللہم انک واحد فی السماء وانا فی الارض واحد اعبدک ‘‘
(ابن کثیر ج۶ ص۲۸۵)
یعنی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام آگ میں ڈالے گئے تو آپ نے کہا اے خدا تو آسمان میں واحد (لاشریک) ہے اور (اس وقت) زمین میں صرف میں اکیلا تیری (خالص) عبادت کرتاہوں الخ! نیز (صحیح بخاری ج۲ ص۶۵۵، کتاب التفسیر سورۂ آل عمران) میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم سے موقوفًا وارد ہے۔ ’’ عن ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم قال کان اخر قول ابراہیم حین القی فی النار حَسْبِیَ اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ ‘‘ یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام جب آگ میں ڈالے گئے تو آخری بات جو آپ نے کی وہ یہ تھی: ’’حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ‘‘ یعنی ’’ہمیں صرف اﷲ کافی ہے اور وہی بہتر کارساز ہے۔‘‘ پس اس سے واقعۂ آگ صاف ثابت ہوگیا۔
۳… نیز یہ کہ کفار کو ’’ اَخْسَرِیْنَ ‘‘ اور ’’ اَسْفَلِیْنَ ‘‘ کر دینا فرمایا اور ’’ خَاسِرِیْنَ وَسَافِلِیْنَ ‘‘ نہ فرمایا۔ کیونکہ اسم تفصیل میں اسم فاعل پر ازروئے معنی زیادتی ہوتی ہے جیسا کہ اس کے نام ہی سے ظاہر ہے۔ پس کفار ’’اَلْاَخْسَرِیْنَ‘‘ یعنی سخت زیان کار اور ’’اَلْاَسْفَلِیْنَ‘‘ یعنی نہایت پست اور ذلیل تب ہی ہوسکتے ہیں۔ جب اپنا سارا زور بل لگا چکیں اور اپنے اسباب کو استعمال میں لا چکیں اور پھر اپنے ارادے میں ناکام رہیں۔ جیسا کہ سورۂ کہف ۱۰۲،۱۰۳ میں فرمایا۔ ’’قُ لْ ہَلْ نُنَبِّئُکُمْ بَالْاَخْسَرِیْنَ اَعْمَالاً اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعَیُہُمْ فِیْ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَہُمْ یَحْسِبُوْنَ اَنَّہُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا ‘‘ (اے پیغمبر ان سے) کہو کیا ہم تم کو بتائیں کہ اپنے اعمال میں کون نہایت زیان کار رہتے ہیں۔ ایسے وہ لوگ ہوتے ہیںجن کی سعی اسی زندگی میں اکارت جائے اور وہ گمان کرتے ہیں کہ ہم نیک کام کرتے ہیں۔
اس سے ظاہر ہے کہ ’’ اَخْسَرْ ‘‘ اس کو کہتے ہیں جس کی سعی اکارت جائے اور نیز یہی وجوہات مذکورہ اس امر کی مؤید ہیں کہ کفار کا کید حضرت خلیل اﷲ علیہ السلام کے خلاف صرف تدبیر تک ہی نہ رہا تھا بلکہ صورت فعلیہ میں سرزد ہوا تھا اور پھر وہ اس میں ناکام رہے۔ بخلاف حضرت مسیح علیہ السلام کے کہ کفار یہود کا مکر صورت فعلیہ میں صادر نہیں ہوا۔ جیسا کہ ’’ وَمُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ‘‘ اور ’’ وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ ‘‘ اور ’’ وَاِذْ کَفَفْتُ ‘‘ سے ظاہر ہے۔
 
Top