ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
’’قرآن تمہیں انجیل کی طرح یہ نہیں کہتا کہ صرف بدنظری اور شہوت کے خیال سے غیر محرم عورتوں کو مت دیکھو اور بجز اس کے دیکھنا حلال، بلکہ وہ کہتا ہے کہ ہر گز نہ دیکھ۔ نہ بد نظری سے اور نہ نیک نظری سے کہ یہ سب تمہارے لئے ٹھوکر کی جگہ ہے۔‘‘ (کشتی نوح ص۲۶، خزائن ج۱۹ ص۲۸،۲۹)
مرزاقادیانی کا فعل
کھانا دینے والی عورت
۱… ’’بیان کیا مجھ سے مولوی رحیم بخش صاحب نے کہ بیان کیا مجھ سے مرزاسلطان احمد نے کہ جو عورت والد صاحب کو کھانا دینے جاتی تھی وہ بعض اوقات واپس آکر کہتی تھی۔ میاں ان کو یعنی حضرت صاحب کو کیا ہوش ہے۔ یا کتابیں ہیں اور یا یہ ہیں۔‘‘ (سیرۃ المہدی حصہ اوّل ص۲۳۴، روایت نمبر۲۳۴)
پاخانہ میں لوٹا رکھنے والی غیرمحرم عورت
۲… ’’ایک دن آپ نے کسی خادمہ سے فرمایا کہ آپ کے لئے پاخانہ میں لوٹا رکھ دے۔ اس نے غلطی سے تیز گرم پانی کا لوٹا رکھ دیا۔ جب حضرت صاحب مسیح موعود فارغ ہوکر باہر تشریف لائے تو دریافت فرمایا کہ لوٹا کس نے رکھا تھا؟ جب بتایا گیا کہ فلاں خادمہ نے رکھا تھا تو آپ نے اسے بلوایا اور اپنے ہاتھ آگے کرنے کو کہا اور پھر اس کے ہاتھ پر آپ نے اس لوٹے کا بچا ہوا پانی بہا دیا۔‘‘ (سیرۃ المہدی حصہ سوم ص۲۴۳، روایت نمبر۸۴۷)
خاص خدمت گار غیر محرم عورت
۳… ’’ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ڈاکٹر نور محمد صاحب لاہوری کی بیوی ڈاکٹرنی کے نام سے مشہور تھی۔ وہ مدتوں قادیان آکر حضور کے مکان میں رہی اور حضور کی خدمت کرتی تھی۔ جب وہ فوت ہوگئی تو اس کا ایک دوپٹہ حضرت صاحب نے یاددہانی کے لئے بیت الدعا کی کھڑکی کی ایک آہنی سلاخ سے بندھوا دیا۔‘‘
(سیرۃ المہدی حصہ سوم ص۱۲۶، روایت نمبر۶۸۸)
غیر محرم عورت بھانو پاؤں دبایا کرتی تھی
۴… ’’ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت ام المؤمنین نے ایک دن سنایا کہ حضرت صاحب کے ساتھ ایک ملازمہ مسماۃ بھانو تھی۔ وہ ایک رات جب کہ خوب سردی پڑ رہی تھی۔ حضور کو دبانے بیٹھی۔ چونکہ وہ لحاف کے اوپر سے دبا رہی تھی۔ اس لئے اس کو پتہ نہ لگا کہ جس چیز کو میں دبا رہی ہوں وہ حضور کی ٹانگیں نہیں ہیں بلکہ پلنگ کی پٹی ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد حضرت صاحب نے فرمایا ۔ بھانو آج بڑی سردی ہے۔ بھانو کہنے لگی۔ جی ہاں جبھی تو آج آپ کی لاتیں لکڑی کی طرح سخت ہورہی ہیں۔‘‘ (سیرۃ المہدی حصہ سوم ص۲۱۰، روایت نمبر۷۸۰)
پہرہ دینے والی غیر محرم عورتیں
۵… ’’مائی رسول بی بی صاحبہ بیوہ حافظ حامد علی صاحب مرحوم نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ مولوی فاضل نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک زمانہ میں حضرت مسیح موعود کے وقت میں میں اور اہلیہ بابو شاہ دین رات کو پہرہ دیتی تھیں اور حضرت صاحب نے فرمایا ہوا تھا کہ اگر میں سوتے میں کوئی بات کیاکروں تو مجھے جگا دینا۔ ایک دن کا واقعہ ہے کہ میں نے آپ کی زبان پر کوئی الفاظ جاری ہوتے سنے اور آپ کو جگا دیا۔ اس وقت رات کے بارہ بجے تھے۔ ان ایام میں عام طور پر پہرہ پر مائی فجو منشیانی اہلیہ منشی محمد دین گوجرانوالہ اور اہلیہ بابو شاہ دین ہوتی تھیں۔‘‘
(سیرۃ المہدی حصہ سوم ص۲۱۳، روایت نمبر۷۸۶)
غیرمحرم عورت کو اپنا جوٹھا قہوہ پلایا
۶… ’’ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میری بڑی لڑکی زینب بیگم نے مجھ سے بیان کیا ایک دفعہ حضرت مسیح موعود قہوہ پی رہے تھے کہ حضور نے اپنا بچا ہوا قہوہ دیا اور فرمایا زینب یہ پی لو۔ میں نے عرض کی حضور یہ گرم ہے اور مجھ کو ہمیشہ اس سے تکلیف ہو جاتی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ یہ ہمارا بچا ہوا قہوہ ہے۔ تم پی لو کچھ نقصان نہیں ہوگا۔ میں نے پی لیا۔‘‘ (سیرۃ المہدی حصہ سوم ص۲۶۶، روایت نمبر۸۹۶)
غیرمحرم عورت سے نظم کا قافیہ پوچھا
۷… ’’مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کی بڑی بیوی مولویانی کسی کام کی غرض سے حضرت صاحب کے پاس آئیں۔ حضرت صاحب نے ان سے فرمایا کہ میں ایک نظم لکھ رہا ہوں۔ جس میں یہ یہ قافیہ ہے۔ آپ بھی کوئی قافیہ بتائیں۔ مولویانی مرحومہ نے کہا ہمیں کسی نے پڑھایا ہی نہیں۔ فرمایا کہ آپ نے بتا تو دیا ہے۔ (پڑھا) چنانچہ آپ نے اس وقت ایک شعر میں اس قافیہ کو استعمال کر لیا۔‘‘ (سیرۃ المہدی حصہ سوم ص۲۴۳، روایت نمبر۸۴۶)
غیرمحرم عورت کا مراق اپنی خدمت کراکر دور کر دیا
۸… ’’ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میری لڑکی زینب بیگم نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ جب حضور سیالکوٹ تشریف لے گئے تھے تو میں رعیہ سے ان کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ ان ایام میں مجھے مراق کا سخت دورہ تھا۔ میں شرم کے مارے آپ سے عرض نہیں کر سکتی تھی۔ میں حضور کی خدمت کر رہی تھی کہ حضور نے خود معلوم کر کے فرمایا کہ زینب تجھ کو مراق کی بیماری ہے۔ ہم دعا کریں گے۔ کچھ ورزش کیا کرو اور پیدل چلا کرو۔ میں اپنے مکان پر جانے کے لئے جو حضور کے مکان سے ایک میل دور تھا۔ ٹانگے کی تلاش کی۔ مگر نہ ملا۔ اس لئے مجبوراً مجھے پیدل جانا پڑا۔ مجھ کو یہ پیدل چلنا سخت مصیبت اور ہلاکت معلوم ہوتی تھی۔ مگر خدا کی قدرت جوں جوں میں پیدل چلتی تھی۔ آرام معلوم ہوتا تھا۔ حتیٰ کہ دوسرے روز میں پیدل چل کر حضور کی زیارت کو آئی تو دورہ مراق کا جاتا رہا اور بالکل آرام ہوگیا۔‘‘
(سیرۃ المہدی حصہ سوم ص۲۷۵،۲۷۶، روایت نمبر۹۱۷)
غیرمحرم عورت سے تین ماہ خدمت کرواکر اس کا دل خوشی اور سرور سے بھر دیا
۹… ’’ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ مجھ سے میری لڑکی زینب بیگم نے بیان کیا کہ میں تین ماہ کے قریب حضرت اقدس کی خدمت میں رہی ہوں۔ گرمیوں میں پنکھا وغیرہ اور اسی طرح کی خدمت کرتی تھی۔ بسا اوقات ایسا ہوتا تھا کہ نصف رات یا اس سے زیادہ خدمت کرتے گذر جاتی تھی۔ مجھ کو اس اثناء میں کسی قسم کی تھکان وتکلیف محسوس نہیں ہوتی تھی۔ بلکہ خوشی سے دل بھر جاتا تھا۔ ایک دو دفعہ ایسا موقعہ آیا کہ عشاء کی نماز سے صبح کی اذان تک مجھے ساری ساری رات خدمت کا موقعہ ملا۔ پھر بھی اس حالت میں مجھ کو نہ نیند نہ غنودگی اور نہ تھکان معلوم ہوتی تھی۔ بلکہ خوشی اور سرور پیدا ہوتا تھا۔‘‘ (سیرۃ المہدی حصہ سوم ص۲۷۲، ۲۷۳، روایت نمبر۹۱۰)
غیرمحرم لڑکیوں کو گھر میں رکھ کر ان کی شادی کا بندوبست کرتے تھے
۱۰… ’’بیان کیا مجھ سے میاں عبداﷲ سنوری نے کہ جب میاں ظفر احمد کپور تھلوی کی پہلی بیوی فوت ہوگئی اور ان کو دوسری بیوی کی تلاش ہوئی تو ایک دفعہ حضرت صاحب نے ان سے کہا کہ ہمارے گھر میں دو لڑکیاں رہتی ہیں۔ ان کو میں لاتا ہوں۔ آپ ان کو دیکھ لیں۔ پھر ان میں سے جو آپ کو پسند ہو اس سے آپ کی شادی کرادی جاوے۔ چنانچہ حضرت صاحب گئے اور ان دولڑکیوں کو بلا کر کمرہ کے باہر کھڑا کر دیا اور پھر اندر آکر کہا وہ باہر کھڑی ہیں۔ آپ چک کے اندر سے دیکھ لیں۔ چنانچہ میاں ظفر احمد صاحب نے ان کو دیکھ لیا اور پھر حضرت صاحب نے ان کو رخصت کر دیا اور اس کے بعد میاں ظفر احمد صاحب سے پوچھنے لگے کہ اب بتاؤ تمہیں کون سی لڑکی پسند ہے۔ وہ نام تو کسی کا جانتے نہیں تھے۔ اس لئے انہوں نے کہا کہ جس کا منہ لمبا ہے وہ اچھی ہے۔ اس کے بعد حضرت صاحب نے میری رائے لی۔ میں نے عرض کیا حضور میںنے تو نہیں دیکھا۔ پھر خود فرمانے لگے کہ ہمارے خیال میں تو دوسری لڑکی بہتر ہے۔ جس کا منہ گول ہے۔ پھر فرمایا کہ جس شخص کا چہرہ لمبا ہوتا ہے وہ بیماری وغیرہ کے بعد عموماً بدنما ہو جاتا ہے۔ لیکن گول چہرے کی خوبصورتی قائم رہتی ہے۔‘‘
(سیرۃ المہدی حصہ اوّل ص۲۵۹، روایت نمبر۲۶۸)
ننگی عورت
’’حضرت مسیح موعود کے اندرون خانہ ایک نیم دیوانی سی عورت بطور خادمہ کے رہا کرتی تھی۔ ایک دفعہ اس نے کیا حرکت کی کہ جس کمرے میں حضرت صاحب بیٹھ کر لکھنے پڑھنے کا کام کرتے تھے۔ وہاں ایک کونے میں کھرا تھا۔ جس کے پاس پانی کے گھڑے رکھے تھے۔ وہاں اپنے کپڑے اتار کر اور ننگی بیٹھ کر نہانے لگ گئی۔ حضرت صاحب اپنے کام تحریر میں مصروف رہے اور کچھ خیال نہ کیا کہ وہ کیا کرتی ہے۔ جب وہ نہا چکی تو ایک اور خادمہ اتفاقاً آ نکلی۔ اس نے اس نیم دیوانی کو ملامت کی کہ حضرت صاحب کے کمرے میں اور موجودگی کے وقت تو نے یہ کیا حرکت کی؟ تو اس نے ہنس کر جواب دیا۔ انہوں کجھ دیدا ہے۔ یعنی اسے کیا دکھائی دیتا ہے۔ مرزاقادیانی کی عادت غض بصر کی جو وہ ہر وقت مشاہدہ کرتی تھی۔ اس کا اثر اس دیوانی عورت پر بھی ایسا تھا کہ وہ خیال کرتی تھی کہ حضور کو کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ اس واسطے حضور سے کسی پردہ کی ضرورت ہی نہیں۔‘‘ (ذکر حبیب، مفتی صادق قادیانی ص۳۸)
غرارہ
’’آخری ایام میں حضور ہمیشہ ایسے پاجامے پہنا کرتے تھے جو نیچے سے تنگ اوپر سے کھلے۔ گاؤ دم طرز کے اور شرعی کہلاتے ہیں۔ لیکن شروع میں ۹۵۔۱۸۹۰ء میں میں نے حضور کو بعض دفعہ غرارہ پہنے ہوئے بھی دیکھا ہے۔‘‘
(ذکر حبیب، مفتی صادق قادیانی ص۳۹)
اﷲ مرد اور مرزاقادیانی عورت
’’حضرت مسیح موعود نے ایک موقع پر اپنی حالت یہ ظاہر فرمائی ہے کہ کشف کی حالت آپ پر اس طرح طاری ہوئی کہ گویا آپ عورت ہیں اور اﷲتعالیٰ نے رجولیت کی طاقت کا اظہار فرمایا تھا۔ سمجھنے والے کے لئے اشارہ کافی ہے۔‘‘
(اسلامی قربانی ٹریکٹ نمبر۳۴ ص۱۲، از قاضی یار محمد قادیانی مرید مرزاقادیانی)
’’مریم کی طرح عیسیٰ علیہ السلام کی روح مجھ میں نفخ کی گئی اور استعارہ کے رنگ میں مجھے حاملہ ٹھہرایا گیا اور آخرکئی مہینہ کے بعد جو دس مہینے سے زیادہ نہیں بذریعہ اس الہام کے جو سب سے آخر براہین احمدیہ کے حصہ چہارم ص۵۵۶ میں درج ہے۔ ’’مجھے مریم سے عیسیٰ بنایا گیا۔ پس اس طور سے میں ابن مریم ٹھہرا۔‘‘ (کشتی نوح ص۴۷، خزائن ج۱۹ ص۵۰)
مرزا کے صحابی کا مبارک عمل
نماز میں مرزا کے جسم کو ٹٹولنا
’’قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک زمانہ میں حضرت اقدس حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کے ساتھ اس کوٹھڑی میں نماز کے لئے کھڑے ہوا کرتے تھے۔ جو مسجد مبارک میں بجانب مغرب تھی۔ مگر ۱۹۰۷ء میں جب مسجد مبارک وسیع کی گئی تو وہ کوٹھڑی منہدم کر دی گئی۔ اس کوٹھڑی کے اندر حضرت صاحب کے کھڑے ہونے کی وجہ اغلباً یہ تھی کہ قاضی یار محمد حضرت اقدس کو نماز میں تکلیف دیتے تھے۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ قاضی یار محمد صاحب بہت مخلص آدمی تھے۔ مگر ان کے دماغ میں کچھ خلل تھا۔ جس کی وجہ سے ایک زمانہ میں ان کا یہ طریق ہوگیا تھا کہ حضرت صاحب کے جسم کو ٹٹولنے لگ جاتے تھے اور تکلیف اور پریشانی کا باعث ہوتے تھے۔‘‘
(سیرۃ المہدی حصہ سوم ص۲۶۵، روایت نمبر۸۹۳)
جسم پر نامناسب طور پر ہاتھ پھیرنا
’’ڈاکٹر میر محمد اسماعیل نے مجھ سے بیان کیا کہ قدیم مسجد مبارک میں حضور (مرزاقادیانی) نماز جماعت میں ہمیشہ پہلی صف کے دائیں طرف دیوار کے ساتھ کھڑے ہوا کرتے تھے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں سے آج کل موجودہ مسجد مبارک کی دوسری صف شروع ہوتی ہے۔ یعنی بیت الفکر کی کوٹھڑی کے ساتھ ہی مغربی طرف امام اگلے حجرہ میں کھڑا ہوتا تھا۔ پھر ایسا اتفاق ہوا کہ ایک شخص پر جنون کا غلبہ ہوا اور وہ حضرت صاحب کے پاس کھڑا ہونے لگا اور نماز میں آپ کو تکلیف دینے لگا اور اگر کبھی اس کو پچھلی صف میں جگہ ملتی تو ہر سجدہ میں وہ صفیں پھلانگ کر حضور کے پاس آتا اور تکلیف دیتا اور قبل اس کے کہ امام سجدہ سے سر اٹھائے وہ اپنی جگہ پر واپس چلا جاتا۔ اس تکلیف سے تنگ آکر حضور نے امام کے پاس حجرہ میں کھڑا ہونا شروع کر دیا۔ مگر وہ بھلا مانس حتی المقدور وہاں بھی پہنچ جایا کرتا اور ستایا کرتا تھا۔ مگر پھر بھی وہاں نسبتاً امن تھا۔ اس کے بعد آپ وہیں نماز پڑھتے رہے۔ یہاں تک کہ مسجد کی توسیع ہوگئی۔ یہاں بھی آپ دوسرے مقتدیوں سے آگے امام کے پاس ہی کھڑے ہوتے رہے۔ مسجد اقصیٰ میں جمعہ اور عیدین کے موقعہ پر آپ صف اوّل میں عین امام کے پیچھے کھڑے ہوا کرتے تھے۔ وہ معذور شخص جو ویسے مخلص تھا۔ اپنے خیال میں اظہار محبت کرتا اور جسم پرنامناسب طور پر ہاتھ پھیر کر تبرک حاصل کرتا تھا۔‘‘ (سیرۃ المہدی حصہ سوم ص۲۶۸، روایت نمبر۹۰۳)
باب سوم … مرزاغلام احمد قادیانی کے فرشتے
اﷲتعالیٰ کے چار فرشتے بہت زیادہ مشہور ہیں۔ حضرت عزرائیل علیہ السلام ، حضرت میکائیل علیہ السلام ، حضرت اسرافیل علیہ السلام اور حضرت جبرائیل علیہ السلام ۔ حضرت عزرائیل علیہ السلام کے ذمہ ہر جاندار کی روح قبض کرنا ہے۔ حضرت میکائیل علیہ السلام کے ذمہ ہواؤں اور بارشوں کا نظام سپرد ہے۔ حضرت اسرافیل علیہ السلام کے ذمہ روز قیامت صور پھونکنا ہے۔ جس سے پوری کائنات درہم برہم ہو جائے گی اور زمانۂ آخرت شروع ہو جائے گا۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام اﷲتعالیٰ کا پیغام (وحی نبوت ورسالت) لے کر تمام ابنیاء ورسل تک پہنچاتے رہے۔ حضور نبی کریمa اﷲتعالیٰ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ آپa پر سلسلۂ نبوت اور رسالت ختم ہوگیا اور وحی کا دروازہ بھی۔ لہٰذا حضرت جبرائیل علیہ السلام کی ڈیوٹی (اﷲ کے نبیوں پر وحی پہنچانا) بھی ختم ہوگئی۔ ان چاروں فرشتوں کے علاوہ بھی اﷲتعالیٰ کے بے شمار فرشتے ہیں۔ جو اپنے اپنے فرائض منصبی انجام دے رہے ہیں۔ جھوٹے مدعیان نبوت کا ہمیشہ یہ دعویٰ رہا ہے کہ ان پر بھی فرشتے نازل ہوتے ہیں۔ کہاوت مشہور ہے۔ جیسی روح، ویسے فرشتے۔ یہ ضرب المثل جھوٹے مدعی نبوت آنجہانی مرزاقادیانی پر پوری طرح صادق آتی ہے۔ جس طرح مرزاقادیانی ایک مخبوط الحواس اور مضحکہ خیز شخصیت کا مالک تھا۔ اس کے نام نہاد فرشتے بھی ایسی ہی خصلت رکھتے تھے۔ آئیے! ملتے ہیں مرزاقادیانی کے ’’خصوصی‘‘ فرشتوں سے:
ٹیچی ٹیچی
’’کوئی شخص ہے اس سے میں کہتا ہوں کہ تم حساب کر لو مگر وہ نہیں کرتا۔ اتنے میں ایک شخص آیا اور اس نے ایک مٹھی بھر کر روپے مجھے دیئے ہیں۔ اس کے بعد ایک اور شخص آیا جو الٰہی بخش کی طرح ہے۔ مگر انسان نہیں بلکہ فرشتہ معلوم ہوتا ہے۔ اس نے دونوں ہاتھ روپوں کے بھر کر میری جھولی میں ڈال دئیے ہیں تو وہ اس قدر ہوگئے ہیں کہ میں ان کو گن نہیں سکتا۔ پھر میں نے اس کا نام پوچھا تو اس نے کہا۔ میرا کوئی نام نہیں۔ دوبارہ دریافت کرنے پر کہا کہ میرا نام ہے ٹیچی۔‘‘
(تذکرہ مجموعہ وحی والہامات طبع دوم ص۵۲۶)
ٹیچی ٹیچی مرزاقادیانی کا عجیب فرشتہ تھا۔ مرزاقادیانی نے اس سے نام پوچھا تو پہلے اس نے جھوٹ بولتے ہوئے کہا، میرا کوئی نام نہیں۔ پھر دوبارہ دریافت کرنے پر بتایا کہ میرا نام ٹیچی ہے۔ قادیانیوں کا کہنا ہے کہ ٹیچی ٹیچی تیز رفتار فرشتہ ہے۔ جو ٹچ کر کے جاتا ہے اور ٹچ کر کے آتا ہے۔ لیکن یہ بھی عجیب بات ہے کہ جب قادیانیوں کو ٹیچی ٹیچی کہا جاتا ہے تو وہ اس کا برا محسوس کرتے ہیں۔ بلکہ بعض دفعہ تو وہ غصے میں آکر جھگڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ آزمائش شرط ہے۔
شیر علی
’’میں نے کشفی حالت میں دیکھا کہ ایک شخص جو مجھے فرشتہ معلوم ہوتا ہے۔ مگر خواب میں محسوس ہوا کہ اس کا نام شیر علی ہے۔ اس نے مجھے ایک جگہ لٹا کر میری آنکھیں نکالی ہیں اور صاف کی ہیں اور میل اور کدورت ان میں سے پھینک دی اور ہر ایک بیماری اور کوتاہ بینی کا مادہ نکال دیا ہے اور ایک مصفّٰی نور جو آنکھوں میں پہلے سے موجود تھا۔ مگر بعض مواد کے نیچے دبا ہوا تھا۔ اس کو ایک چمکتے ہوئے ستارہ کی طرح بنادیا ہے۔‘‘ (تذکرہ مجموعہ وحی والہامات ص۳۱، طبع سوم)
معلوم ہوتا ہے کہ اس فرشتے (آئی سپیشلسٹ) نے مرزاقادیانی کی آنکھیں صحیح طریقے سے صاف نہیں کیں۔ کیونکہ مرزاقادیانی آخر وقت تک آنکھوں کی بیماری ’’مائی اوپیا‘‘ میں مبتلا رہا۔ جس کی وجہ سے وہ چاند بھی نہ دیکھ سکتا تھا۔ (سیرت المہدی ج۳ ص۱۱۹، بروایت نمبر۶۷۳)
مرزاغلام قادر
’’میں نے کشفی حالت میں دیکھا کہ میرے بڑے بھائی مرزاغلام قادر مرحوم کی شکل پر ایک شخص آیا ہے۔ مگر مجھے فوراً معلوم کرایا گیا کہ یہ فرشتہ ہے۔‘‘ (تذکرہ مجموعہ وحی والہامات ص۱۸۸، طبع سوم)
خیراتی
’’عرصہ قریباً پچیس برس کا گزرا ہے کہ مجھے گورداسپور میں ایک رؤیا ہوا کہ میں ایک چارپائی پر بیٹھا ہوں اور اسی چارپائی پر بائیں طرف مولوی عبداﷲ صاحب غزنوی مرحوم بیٹھے ہیں۔ اتنے میں میرے دل میں تحریک پیدا ہوئی کہ میں مولوی صاحب موصوف کو چارپائی سے نیچے اتاردوں۔ چنانچہ میں نے ان کی طرف کھسکنا شروع کیا۔ یہاں تک کہ وہ چارپائی سے اتر کر زمین پر بیٹھ گئے۔ اتنے میں تین فرشتے آسمان کی طرف سے ظاہر ہوگئے۔ جن میں سے ایک کا نام خیراتی تھا۔‘‘ (تذکرہ مجموعہ وحی والہامات ص۲۹، طبع سوم)
مٹھن لال
’’فرمایا۔ نصف رات سے فجر تک مولوی عبدالکریم کے لئے دعا کی گئی۔ صبح کے بعد جب سویا تو یہ خواب آئی۔ میں نے دیکھا کہ عبداﷲ سنوری میرے پاس آیا ہے اور وہ ایک کاغذ پیش کر کے کہتا ہے کہ اس کاغذ پر میں نے حاکم سے دستخط کرانا ہے اور جلدی جانا ہے۔ میری عورت سخت بیمار ہے اور کوئی مجھے پوچھتا نہیں۔ دستخط نہیں ہوتے۔ اس وقت میں نے عبداﷲ کے چہرے کی طرف دیکھا تو زردرنگ اور سخت گھبراہٹ اس کے چہرہ پر ٹپک رہی ہے۔ میں نے اس کو کہا کہ یہ لوگ روکھے ہوتے ہیں۔ نہ کسی کی سپارش مانیں اور نہ کسی کی شفاعت، میں تیرا کاغذ لے جاتا ہوں۔ آگے جب کاغذ لے کر گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص مٹھن لال نام جو کسی زمانہ میں بٹالہ میں اکسٹرا اسسٹنٹ تھا۔ کرسی پر بیٹھا ہوا کچھ کام کر رہا ہے اور گرد اس کے عملہ کے لوگ ہیں۔ میں نے جاکر کاغذ اس کو دیا اور کہا کہ یہ ایک میرا دوست ہے اور پرانا دوست ہے اور واقف ہے۔ اس پر دستخط کر دو۔ اس نے بلا تأمل اسی وقت لے کر دستخط کر دئیے۔ پھر میں نے واپس آکر وہ کاغذ ایک شخص کو دیا اور کہا خبردار ہوش سے پکڑو، ابھی دستخط گیلے ہیں اور پوچھا کہ عبداﷲ کہاں ہے؟ انہوں نے کہا کہ کہیں باہر گیا ہے۔ بعد اس کے آنکھ کھل گئی اور ساتھ پھر غنودگی کی حالت ہوگئی۔ تب میں نے دیکھا کہ اس وقت میں کہتا ہوں، مقبول کو بلاؤ۔ اس کے کاغذ پر دستخط ہوگئے ہیں۔ فرمایا۔ یہ جو مٹھن لال دیکھا گیا ہے۔ ملائک طرح طرح کی تمثلات اختیار کر لیا کرتے ہیں۔ مٹھن لال سے مراد ایک فرشتہ تھا۔‘‘ (تذکرہ مجموعہ وحی والہامات ص۵۶۰، طبع سوم)
حفیظ
صوفی نبی بخش صاحب لاہوری نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود نے فرمایا: ’’بڑے مرزا صاحب پر ایک مقدمہ تھا۔ میں نے دعا کی تو ایک فرشتہ مجھے خواب میں ملا جو چھوٹے لڑکے کی شکل میں تھا۔ میں نے پوچھا تمہارا کیا نام ہے ۔وہ کہنے لگا میرا نام حفیظ ہے۔ پھر وہ مقدمہ رفع دفع ہوگیا۔‘‘ (تذکرہ مجموعہ وحی والہامات ص۷۵۷، طبع سوم)
درشنی
’’ایک فرشتہ کو میںنے ۲۰برس کے نوجوان کی شکل میں دیکھا۔ صورت اس کی مثل انگریزوں کے تھی اور میز کرسی لگائے ہوئے بیٹھا ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ آپ بہت ہی خوبصورت ہیں۔ اس نے کہا ہاں میں درشنی آدمی ہوں۔‘‘
(ملفوظات جلد چہارم ص۶۹)
باب چہارم … مرزاقادیانی کی عملی زندگی
مرزاقادیانی کی پیدائش سے اس کی جوانی تک سے متعلق جستہ جستہ قادیانی کتب سے حوالہ جات آپ نے ملاحظہ کئے۔ جس سے ایک شخص کی ذہنی ساخت، ذاتی کردار پر بڑی حد تک روشنی پڑتی ہے۔ ان حوالہ جات کے بعد ہر شخص دیانتدارانہ طور پر یہ سمجھنے پر مجبور ہے کہ مرزاقادیانی کے کفریہ عقائد تو وجہ نفرت ہیں ہی، ورنہ ذاتی طور پر بھی مرزاقادیانی اس قابل نہ تھا کہ اسے کسی شریف سوسائٹی میں کوئی آبرو مندانہ مقام مل سکتا۔ آئیے! اب ہم دیکھتے ہیں کہ مرزاقادیانی نے جب عملی زندگی میں قدم رکھا تو کیا کیا گل کھلائے۔
دادا کی پنشن کا ہڑپ کر جانا
’’بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے ایک دفعہ اپنی جوانی کے زمانہ میں حضرت مسیح موعود تمہارے دادا کی پنشن وصول کرنے گئے تو پیچھے پیچھے مرزا امام الدین بھی چلا گیا۔ جب آپ نے پنشن وصول کر لی تو آپ کو پھسلا کر اور دھوکہ دے کر بجائے قادیان لانے کے باہر لے گیا اور ادھر ادھر پھراتا رہا۔ پھر جب اس نے سارا روپیہ اڑا کر ختم کر دیا تو آپ کو چھوڑ کر کہیں اور چلا گیا۔ حضرت مسیح موعود اس شرم سے واپس گھر نہیں آئے اور چونکہ تمہارے دادا کا منشا رہتا تھا کہ آپ کہیں ملازم ہو جائیں۔ اس لئے آپ سیالکوٹ شہر میں ڈپٹی کمشنر کی کچہری میں قلیل تنخواہ پر ملازم ہوگئے اور کچھ عرصہ تک وہاں ملازمت پرر ہے۔ پھر جب تمہاری دادی بیمار ہوئیں تو تمہارے دادا نے آدمی بھیجا کہ ملازمت چھوڑ کر آجاؤ۔ جس پر حضرت صاحب فوراً روانہ ہوگئے۔‘‘ (سیرت المہدی ص۴۳، حصہ اوّل روایت نمبر۴۹)
ایک بار پھر اس قادیانی روایت کو پڑھیں۔ مرزاامام الدین جو مرزاقادیانی سے عمر میں بڑا تھا۔ مرزاقادیانی کا رشتہ میں چچازاد بھائی اور ہمجولی تھا۔ تبھی تو مرزاقادیانی کے ہمراہ ہمراز کے طور پر روانہ ہوا۔ یہ ایسا آدمی تھا کہ سیرۃ المہدی حصہ اوّل ص۴۴، روایت۴۹ کے مطابق ایک بار ڈاکہ میں پکڑا گیا تھا۔ نیز اس امام الدین نے مرزاقادیانی کو بعد میں قادیانی گروہ کے سربراہ کے طور پر دیکھا تو یہ چوہڑوں کا پیر بن گیا۔ (سیرۃ المہدی حصہ اوّل ص۳۲، روایت۳۹)
ایک بار پھر پنشن وصول کرنے کی روایت کو پڑھیں کہ جب آپ نے پنشن وصول کر لی تو:
۱… آپ کو پھسلا کر اور دھوکہ دے کر بجائے قادیان لانے کے باہر لے گیا۔
۲… اور ادھر ادھر پھراتا رہا۔
۳… پھر جب اس نے سارا روپیہ اڑا کر ختم کر دیا تو آپ کو چھوڑ کر کہیں اور چلا گیا۔
۴… اور حضرت مسیح موعود اس شرم سے واپس گھر نہیں آئے۔
مرزاقادیانی عاقل بالغ تھے۔ ایسے آدمی سے وہ کون سی مجبوری تھی کہ ان کو سارا روپیہ دے دیا۔ پھر ادھر ادھر پھراتا رہا۔ ادھر ادھر کا کیا معنی؟ وہ کون سی جگہ تھی جہاں یہ خطیر رقم صرف کی۔ وہ کون سے کارہائے ناکردنی اور باعث شرم تھے۔ جس کے باعث مرزاقادیانی امام دین کا لٹو بنارہا۔ ان عوامل پر قادیانی غور کریں تو مرزاقادیانی کی جوانی مستانی کی رنگین وسنگین باعث شرم پوری کہانی ان پر واضح ہو جائے۔ حوالہ جات گذر چکے کہ جو شخص دعویٰ نبوت کے بعد ہر وقت عورتوں کے جھرمٹ میں رہتا تھا تو پنشن کے خرچ کرنے کا مصرف صاف صاف نظر آجاتا ہے۔ (سیرۃ المہدی حصہ اوّل ص۱۳۱، روایت۱۳۲) کے مطابق پنشن سات سوروپے تھی۔ اس زمانہ میں (سیرۃ المہدی حصہ اوّل ص۱۸۲، روایت نمبر۱۶۷) کے مطابق ایک آنہ کا سیرخام گوشت ملتا تھا۔ اب ذرا حساب لگائیں تو سات سو روپیہ کے گیارہ ہزار دو سو آنے بنتے تھے۔ فی آنہ ایک سیر کا معنی گیارہ ہزار دو سو کلو گوشت۔ اس سات سو روپیہ میں مل سکتا تھا۔ آج کل گوشت چار صد روپیہ فی کلو ہے۔ گیارہ ہزار دو سو کلو گوشت کی قیمت فی کلو چار سو روپیہ کے حساب سے چوالیس لاکھ اسی ہزار روپیہ بنتی ہے۔ آج اس دور میں اتنی خطیر رقم مرزاقادیانی اور امام الدین اس کے ہمجولی نے ادھر ادھر کہاں کہاں خرچ کی؟ اے کاش! قادیانی اس پر غور کریں۔
اب مرزاقادیانی نے گھر آنے کی بجائے سیالکوٹ میں قلیل تنخواہ پر (پندرہ روپیہ ماہوار) پر ملازمت کر لی۔ دیکھئے (سیرۃ المہدی حصہ اوّل ص۴۳، روایت نمبر۴۹) اس ملازمت کے دوران مرزاقادیانی کے ہم عصر لوگوں کی روایات ’’چودھویں صدی کا مسیح‘‘ کے مصنف جو سیالکوٹ کے رہنے والے تھے۔ مرزاقادیانی کے زمانہ حیات میں اپنی مندرجہ بالا کتاب میں شائع کیں کہ اِدھر اُدھر کے عادی مرزاقادیانی نے ادھر ادھر سے خوب مال بنایا۔
مرزااحمد علی اثنا عشری امرتسری کتاب (دلیل العرفان) میں لکھتے ہیں کہ منشی غلام احمد امرتسری نے رسالہ ’’نکاح آسمانی کے راز ہائے پنہانی‘‘ میں مرزاغلام احمد کے حین حیات بڑے طمطراق سے لکھا۔ انہوں نے زمانہ محرری میں خوب رشوتیں لیں۔ یہ رسالہ ۱۹۰۰ء میں یعنی مرزاقادیانی کی وفات سے آٹھ سال پیشتر شائع ہوا تھا۔ لیکن مرزاقادیانی نے اس الزام کی کبھی تردید نہ کی اور نہ زمانہ محرری میں اپنی دیانت ثابت کر سکے۔ (دلیل العرفان مؤلفہ مرزا احمد علی امرتسری ص۱۱۳) اس طرح مولوی ابراہیم صاحب سیالکوٹی نے مناظرہ روپڑ میں جو ۲۱،۲۲؍مارچ ۱۹۳۲ء کو ہوا ہزارہا کے مجمع میں بیان کیا کہ مرزاقادیانی نے سیالکوٹ کی نوکری کے زمانہ میں رشوت ستانی سے خوب ہاتھ رنگے اور یہ سیالکوٹ ہی کی ناجائز کمائی تھی۔ جس سے مرزاقادیانی نے چار ہزار روپے کا زیور اپنی دوسری بیوی کو بنوا کر دیا۔
(روئیداد مناظرہ روپڑ مطبوعہ کشن سٹیم پریس جالندھر شہر ص۳۵)
سیالکوٹ ملازمت کے دوران مرزاقادیانی نے خیر سے چند انگریزی کتب کی تعلیم حاصل کی اور مختاری کا امتحان دیا۔
’’آپ مختاری کے امتحان میں فیل ہو گئے۔ اسی روایت میں ص۱۵۵ پر ہے کہ پادری بٹلر سے مرزاقادیانی کا مباحثہ ہوتا رہا۔ اس سے شناسائی کے مطابق وہ پادری ولایت جانے لگے تو مرزاقادیانی سے کچہری میں ملنے آئے۔ اس روایت کے الفاظ یہ ہیں۔ ’’چنانچہ جب پادری صاحب ولایت جانے لگے تو مرزاقادیانی کی ملاقات کے لئے کچہری تشریف لائے۔ ڈپٹی کمشنر صاحب نے پادری صاحب سے تشریف آوری کا سبب پوچھا تو پادری صاحب نے جواب دیا کہ میں مرزاصاحب سے ملاقات کرنے کو آیا تھا۔ چونکہ میں وطن جانے والا ہوں۔ اس واسطے ان سے آخری ملاقات کروں گا۔ چنانچہ جہاں مرزاقادیانی بیٹھے تھے وہیں چلے گئے اور فرش پر بیٹھے رہے اور ملاقات کر کے چلے گئے۔‘‘
(سیرۃ المہدی حصہ اوّل ص۱۵۶، روایت نمبر۱۵۰)
اس ملاقات کے کچھ عرصہ بعد مرزاقادیانی ملازمت ترک کر کے قادیان آگئے۔ مرزاقادیانی کے والد نے پوچھا کہ آپ ملازمت کیوں نہیں کرتے تو مرزاقادیانی نے جواب دیا کہ میں ملازم ہوگیا ہوں۔
ایک قادیانی روایت ملاحظہ ہو
’’بیان کیا مجھ سے جھنڈا سنگھ ساکن کا لہواں نے کہ میں بڑے مرزاقادیانی کے پاس آیا جایا کرتا تھا۔ ایک دفعہ مجھے بڑے مرزاقادیانی نے کہا کہ جاؤ غلام احمد کو بلا لاؤ۔ ایک انگریز حاکم میرا واقف ضلع میں آیا ہے۔ اس کا منشا ہو تو کسی اچھے عہدہ پر نوکر کرادوں۔ جھنڈا سنگھ کہتا تھا کہ میں مرزاصاحب کے پاس گیا تو دیکھا کہ چاروں طرف کتابوں کا ڈھیر لگا کر اس کے اندر بیٹھے ہوئے کچھ مطالعہ کر رہے ہیں۔ میں نے بڑے مرزاصاحب کا پیغام پہنچا دیا۔ مرزاصاحب آئے اور جواب دیا۔ میں تو نوکر ہوگیا ہوں۔ بڑے مرزاصاحب کہنے لگے کہ اچھا کیا واقعی نوکر ہوگئے ہو؟ مرزاصاحب نے کہا ہاں ہوگیا ہوں۔ اس پر بڑے مرزاصاحب نے کہا اچھا اگر نوکر ہوگئے ہو تو خیر ہے۔‘‘ (سیرۃ المہدی حصہ اوّل ص۴۸، روایت نمبر۵۲)
چنانچہ مرزاقادیانی نے آکر قادیان میں ڈیرہ لگایا۔ کتابوں کا مطالعہ شروع کیا۔ عیسائیوں اور ہندوؤں کو مباحثہ کے چیلنج دئیے۔ مذہبی منافرت کا بازار گرم کیا۔ ادھر سے مرزاقادیانی کو گمنام منی آرڈر ملنے شروع ہوگئے۔
گمنام منی آرڈروں کا ملنا
’’مرزادین محمد صاحب ساکن لنگر وال ضلع گورداسپور نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک مرتبہ حضرت مسیح موعودنے مجھے صبح کے قریب جگایا اور فرمایا کہ مجھے ایک خواب آیا ہے۔ میں نے پوچھا کیا خواب ہے۔ فرمایا میں نے دیکھا ہے کہ میرے تخت پوش کے چاروں طرف نمک چنا ہوا ہے۔ میں نے تعبیر پوچھی تو کتاب دیکھ کر فرمایا کہ کہیں سے بہت سا روپیہ آئے گا۔ اس کے بعد میں چار دن یہاں رہا۔ میرے سامنے ایک منی آرڈر آیا۔ جس میں ہزار سے زائد روپیہ تھا۔ مجھے اصل رقم یاد نہیں۔ جب مجھے خواب سنائی تو ملاوامل اور شرن پت کو بھی بلایا اور فرمایا بھائی یہ منی آرڈر آیا ہے۔ جاکر ڈاکخانہ سے لے آؤ۔ ہم نے دیکھا تو منی آرڈر بھیجنے والے کا پتہ اس پر درج نہیں تھا۔ حضرت صاحب کو بھی پتہ نہیں لگا کہ کس نے بھیجا ہے۔‘‘
کہیں سے بہت سا روپیہ آئے گا۔ ڈاکخانہ گئے تو ہزار روپیہ کا بغیر بھیجنے والے کے نام وپتہ کے منی آرڈر مل گیا؟
قارئین! اس دجل کو جانے دیجئے! توجہ اس طرف فرمائیے کہ اس زمانہ کا ہزار روپیہ آج کل کے حساب سے کتنی مالیت کا تھا۔ حوالہ پہلے گذر چکا ہے کہ اس زمانہ میں گوشت فی کلو ایک آنہ کا تھا۔ جو آج کل فی کلو چار صد روپیہ کا ہے۔ لیجئے! حساب کیجئے۔ ایک ہزار روپیہ کے سولہ ہزار آنے ہوئے۔ جو سولہ ہزار کلو گوشت کی اس زمانہ میں رقم تھی۔ اب سولہ ہزار آنے کو چار صد روپیہ (موجودہ گوشت فی کلو کی قیمت) سے ضرب دیں تو چونسٹھ لاکھ روپے بنتے ہیں۔ اتنی خطیر رقم کا مرزاقادیانی کو بغیر بھیجنے والے کے نام وپتہ کے منی آرڈر ملنا اور ملنے سے پہلے ’’بلی کو خواب چھیچھڑوں کے رقم کا نظر آنا‘‘ اور منی آرڈر مل جانا۔ اس کے ساتھ ہی ذہن میں رہے بٹلر پادری کی ملاقات کے بعد مرزاقادیانی کا ملازمت کو چھوڑنا اور پھر والد سے کہنا کہ میںملازم ہوگیا ہوں اور پھر خفیہ منی آرڈروں کا ملنا کیا یہ چغلی نہیں کھا رہا کہ مرزاقادیانی یہ کھیل سب انگریز حکومت کے کہنے پر کھیل رہا تھا؟
انگریز کی اطاعت خدا کی اطاعت کی طرح فرض
’’خداتعالیٰ نے ہم پر محسن گورنمنٹ کا شکر ایسا ہی فرض کیا ہے۔ جیسا کہ اس (خدا کا) شکر کرنا، سو اگر ہم اس محسن گورنمنٹ کا شکر ادا نہ کریں یا کوئی شر اپنے ارادے میں رکھیں تو ہم نے خدا تعالیٰ کا بھی شکر ادا نہیں کیا۔ کیونکہ خداتعالیٰ کا شکر اور کسی محسن گورنمنٹ کا شکر جس کو خداتعالیٰ اپنے بندوں کو بطور نعمت عطاء کرے۔ درحقیقت یہ دونوں ایک ہی چیز ہیں اور ایک دوسرے سے وابستہ ہیں۔‘‘ (شہادۃ القرآن ص۸۴، خزائن ج۶ ص۳۸۰)
جہاد قطعی حرام ہے
’’اور ہر ایک شخص جو میری بیعت کرتا ہے اورمجھ کو مسیح موعود مانتا ہے۔ اسی روز سے اس کو یہ عقیدہ رکھنا پڑتا ہے کہ اس زمانہ میں جہاد قطعاً حرام ہے۔ کیونکہ مسیح آچکا۔ خاص کر میری تعلیم کے لحاظ سے اس گورنمنٹ انگریزی کا سچا خیرخواہ اس کو بننا پڑتا ہے۔‘‘ (ضمیمہ رسالہ جہاد ص۶، خزائن ج۱۷ ص۲۸)
قارئین! یقین فرمائیے کہ مرزاقادیانی کی ہر بات میں اختلاف ہے۔ حتیٰ کہ قومیت کے متعلق بھی حوالے پڑھ چکے کہ اس نے اپنی تین قومیں بتائی ہیں۔ لیکن ایک بات ایسی ہے کہ مرزاقادیانی نے تاحیات اس مؤقف کے خلاف کچھ نہیں لکھا۔ وہ یہی ہے کہ انگریز کی اطاعت فرض اور انگریز کے خلاف جہاد کرنا قطعی حرام ہے۔ اس سے آپ سمجھ جائیں کہ بٹلر پادری سے ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں علیحدگی میں ملاقات، ملازمت سے استعفیٰ، گھر آنا، غیر مرئی ذرائع سے خطیررقم کا ملنا اور پھر مرزاقادیانی کا انگریز کی اطاعت کے نعرہ مستانہ کو بلند کرنا ان کڑیوں کو آپ ملائیں تو اس سے مرزاقادیانی کی جو تصویر نظر آتی ہے وہ قادیانیوں کے لئے قابل توجہ ہے۔
مرزاقادیانی قادیان میں
مرزاقادیانی کے سوانح نگاروں نے ۱۸۶۴ء سے ۱۸۶۸ء مرزاقادیانی کی چار سالہ سیالکوٹ کی ملازمت لکھی ہے۔ گویا ۱۸۶۹ء سے مرزاقادیانی مستقلاً قادیان میں آکر براجمان ہوگئے۔ مرزاقادیانی کے بیٹے مرزامحمود نے مرزاقادیانی کی سوانح مرتب ’’سیرۃ مسیح موعود‘‘ لکھی۔ اس میں لکھتے ہیں کہ سیالکوٹ سے واپسی پر اپنے والد کے کام اور زمین کے مقدمات کی پیروی کرتے رہے۔ لیکن زیادہ وقت ان کا مختلف مذاہب کی کتب بینی میں خرچ ہوتا رہا۔ مرزاقادیانی خود لکھتا ہے ؎
بہر مذہبے غور کردم بسے
شنیدم بدل حجت ہر کسے
بخواندم زہر ملّتے دفترے
بدیدم زہر قوم دانشورے
ہم از کود کی سوئے این تاختم
دریں شغل خود را بیند اختم
جوانی ہمہ اندریں باختم
دل از غیر ایں کار پردا ختم
(براہین احمدیہ حصہ دوم ص۹۵، خزائن ج۱ ص۸۵)
یہ عبارت پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ مرزاقادیانی نے مختلف مذاہب کی کتب کا خوب مطالعہ کیا۔ ہر مذہب کے دفتر کے دفتر پڑھ ڈالے۔ ہرقوم کے راہنما کی زندگی کا جائزہ لیا اور اس کام میں جوانی کھپا دی۔ چنانچہ مولانا ثناء اﷲ امرتسری علیہ السلام نے ’’مرزاقادیانی اور بہاء اﷲ‘‘ نام کا رسالہ تصنیف کیا اور اس میں ثابت کیا کہ مرزاقادیانی کے تمام دعوے مہدویت ومسیحیت سب بہاء اﷲ کی تعلیمات کی کاپی ہیں۔ خیر! دیکھئے کہ مرزاقادیانی کو ان دنوں کتب بینی کا کتنا شغف تھا کہ خود مرزاقادیانی کے والد کے حوالہ سے مذکور ہے کہ: ’’شدت اور مطالعہ وتوغل کتب میں مشغولیت اور محویت دیکھ کر (مرزاقادیانی کے والد نے) یہ سمجھ لیا تھا کہ آپ دنیا کے کسی کام کے لائق نہیں اور اکثر دوستوں کے آگے یہی بات پیش کیاکرتے کہ مجھے تو غلام احمد کا فکر ہے کہ یہ کہاں سے کھائے گا اور اس کی عمر کس طرح کٹے گی۔ بلکہ بعض دوستوں کو یہ بھی کہا کرتے تھے کہ آپ ہی اس کو سمجھاؤ کہ وہ اس استغراق کو چھوڑ کر کمانے کے دھندے میں لگے۔ اگر کبھی کوئی اتفاق سے ان سے کوئی دریافت کرتا کہ مرزا غلام احمد کہاں ہیں؟ تو وہ یہ جواب دیتے کہ مسجد میں جاکر سقاوہ کی ٹوٹی میں تلاش کرو۔ اگر وہاں نہ ملے تومایوس ہوکر واپس مت آنا۔ مسجد کے اند چلے جانا اور کسی گوشہ میں تلاش کرنا۔ اگر وہاں بھی نہ ملے تو پھر بھی نا امید ہوکر لوٹ مت آنا کسی صف میں دیکھنا کہ کوئی اس کو لپیٹ کر کھڑا کر گیا ہوگا۔ کیونکہ وہ تو زندگی میں مرا ہوا ہے اور اگر کوئی اسے صف میں لپیٹ دے تو وہ آگے سے حرکت بھی نہیں کرے گا۔‘‘ (مسیح موعود کے مختصر حالات ص۶۷، از معراج الدین قادیانی)
آگے چلنے سے پہلے اس عبارت پر توجہ کر لی جائے کہ مرزاقادیانی کے والد تو اسے نکما قرار دیتے ہیں۔ لیکن کتاب کا قادیانی مؤلف تاویل کرتا ہے کہ: ’’وہ (مرزاقادیانی) زندگی میں مرے ہوئے تھے۔‘‘ لیکن یہ نہ سوچا کہ کوئی کسی کو صف میں لپیٹ دے تو وہ لپٹا رہے۔ حرکت نہ کرے۔ یہ تو مرا ہوا کی طرح ہے۔ لیکن یہ کہ سقاوہ کی ٹوٹی میں دیکھنا اس کا کیا معنی ہے؟ مرا ہوا آدمی ٹوٹی میں کیسے چلا جاتا ہے؟ اس کی مرزائی مؤلف کو کوئی تاویل نہ سوجھی۔ مجھ سے پوچھو تو (۱)خود مرزاقادیانی کا اعتراف ہے کہ میں کرم خاکی ہوں۔ مٹی کا کیڑا ہوں تو مرزاقادیانی کا والد بھی مرزاقادیانی کو کیڑا سمجھتا ہوگا۔ تب ہی تو ٹوٹی میں گھسنے کا کہا۔ (۲)یہ کہ وہ مرزاقادیانی کو جن، بھوت، شیطان سمجھتا ہوگا۔ جو جنس بدل کر کیا سے کیا ہوجاتے ہیں۔ (۳)یا یہ اس نے مرزاقادیانی کو شیطان کی ٹوٹی کہا ہوگا کہ وہ صف میں لپٹا کھڑا ہوگا۔ شیطان کی ٹوٹی کو مرزائی مؤلف نے سقاوہ کی ٹوٹی سمجھ لیا۔ خیر قادیانی جانے ان کا کام، نیا نبی اور ان کا والد۔ قادیانی مرزاقادیانی کو ٹوٹی میں داخل کریں یا صف میں لپیٹیں۔ ہمارا اس سے کیا تعلق؟
مقدمہ بازی، مناظرہ بازی، کتب بینی، یہ مرزاقادیانی کے مشاغل تھے۔ مرزاقادیانی عیسائیوں، ہندوؤں، آریوں سے الجھاؤ بازی کے مشغلہ میں سرگرداں رہا۔ قادیانیوں نے مرزاقادیانی کے اشتہارات کو پہلے ’’تبلیغ رسالت‘‘ کے نام پر دس حصوں میں شائع کیا۔ پھر ان کو ’’مجموعہ اشتہارات‘‘ کے نام سے تین جلدوں میں شائع کیا۔ مجموعہ اشتہارات کی پہلی جلد میں پہلا اشتہار جو انہوں نے شائع کیا یہ آریوں کے خلاف ہے۔ اس پر ۲؍مارچ ۱۸۷۸ء کی تاریخ درج ہے۔ اس میں پانچ سو روپیہ کی شرط لگائی ہے۔ غرض مناظرہ بازی بحث ومباحثہ سے ماحول کو گدلا کرنے کے بعد جب مرزاقادیانی نے اشتہار بازی کی طرف عنان توجہ کا رخ موڑا۔ پھر مسلمانوں سے مضامین مانگ تانگ کر براہین احمدیہ لکھنا شروع کی۔ مرزاقادیانی کا بیٹا لکھتا ہے کہ: ’’یہ پہلا حصہ (براہین کا) ۱۸۸۰ء میں شائع ہوا۔ پھر اسی کتاب کا دوسرا حصہ ۱۸۸۱ء میں اور تیسرا حصہ ۱۸۸۲ء اور چوتھا ۱۸۸۴ء میں شائع ہوا۔‘‘ (سیرۃ مسیح موعود ص۲۷)
مرزاقادیانی کا پہلا تصنیفی کارنامہ
مرزاقادیانی کا اشتہار بازی، مقدمہ بازی، مناظرہ بازی کے بعد پہلا تصنیفی کام ’’براہین احمدیہ‘‘ کی تصنیف ہے۔ پہلا حصہ ۱۸۸۰ء میں شائع ہوا۔ اس کے اوّل میں خریداری کتاب کا اشتہار پھر ’’التماس از مؤلف‘‘ جس میں چندہ دہندگان کے اسماء بھی ہیں۔ ص۱۳ پر دیباچہ شروع ہوا۔ جو ص۲۴ پر ختم ہوگیا۔ اس کے بعد موٹے حروف کا اشتہار ہے۔ ایک صفحہ کی سات سطریں ہیں۔ یہ ص۵۲ پر ختم ہوگیا۔ لو پہلا حصہ مکمل ہوگیا۔ گویا براہین کی پہلی جلد کے ۵۲صفحات ہیں۔
اب دوسرا حصہ ۱۸۸۱ء میں شائع ہوا۔ اس میں پہلے بیس صفحات اشتہارات کے ہیں۔ جلد اوّل، دوم جو یکجا شائع ہوئے تو اس کے صفحات مسلسل ہیں۔ مسلسل صفحات میں سے ص۷۰ پر جاکر کتاب کا مقدمہ دوسری جلد میں شروع ہوا۔ ص۵۵ سے یہ حصہ شروع ہوکر ص۱۳۱ پر ختم ہو جاتا ہے۔ گویا دوسری جلد کے کل ۷۶صفحات ہیں۔ سال بھر میں دعویٰ مجددیت، مامور من اﷲ، ملہم کا دعویٰ لوگوں سے مضامین مانگے اور سال بھر میں ۷۶صفحات پر مشتمل جلد تیار کر پائے۔ اسے کہتے ہیں ’’سلطان القلم‘‘
تیسری جلد میں حسب سابق ابتداء میں دس صفحات کے اشتہارات پھر جاکر پہلی فصل شروع ہوئی۔ اس میں تمہید در تمہید مسلسل صفحات کے ص۱۴۳ سے یہ شروع ہوکر ص۳۱۰ پر پہنچے تو یہ جلد ختم کر دی۔ آخر پھر عذرو اطلاع کا دو صفحاتی اشتہار لگا دیا۔ لیکن اس میں ایک کمال کیا جو مرزاقادیانی کے سارے کمالات پر بھاری ہے! حسن وہ جس کا سوکن کو بھی اعتراف ہو۔
تصنیف کی دنیا میں ایک لازوال کمال
حصہ سوم کا ص۳۱۰ پر اختتام کیا۔ اس کا آخری جملہ ناتمام چھوڑ دیا۔ لفظ میں ’’خدا کے خواص کا ضروری ہونا‘‘ ان الفاظ پر یہ جلد ختم ہوگئی۔ اب مسلسل صفحات کے ص۳۱۳ سے جلد چہارم شروع ہوئی۔ ص۳۲۲ تک حسب عادت اشتہارات ص۳۲۲ پر ص۳۱۰ کے ناتمام جملہ کو مکمل کیا۔ ص۳۱۰ پر تھا کہ ’’خدا کے خواص کاضروری ہونا‘‘ ص۳۲۲ پر اس جملہ کا باقی حصہ ہے۔ ’’یعنی اس کی ذات اور صفات اور افعال کا شرکت غیر سے پاک ہونا اور‘‘ اس کے آگے بھی یہ شیطان کی آنت پھیلتی جارہی ہے۔ میرا قادیانیوں سے سوال ہے کہ آج تک دنیائے تصنیف میں کہیں ایسے ہوا کہ جملہ کا ایک حصہ ایک جلد میں ہو اور جملہ کا دوسرا حصہ دوسری جلد میں ہو اور مسلسل صفحات میں بارہ صفحات کا فرق ہو۔ ایک ناتمام جملہ ص۳۱۰ پر لکھا ایک جلد ختم۔ اگلی جلد کے بارہ صفحات بعد جاکر اس جملہ کو مکمل کیا۔ یہ ہے مرزاقادیانی، مجدد، مامور، ملہم اور سلطان القلم کی قابلیت وانفرادیت کی وہ زندۂ جاوید حماقت کا ریکارڈ جسے آج تک احمق سے احمق انسان نہیں توڑ سکا۔ نہ شاید اس احمقانہ کمال ریکارڈ کو کوئی توڑ سکے گا۔ سب احمقوں پر قادیانی پیغمبر سبقت لے گیا۔ مرداں چنیں کند، کاش ترا مادرنہ زادے۔
۱۸۸۰ء سے لے کر ۱۸۸۴ء تک چار جلدیں مرزاقادیانی نے براہین کی شائع کیں۔ ان چاروں جلدوں کے کل صفحات ۶۷۴ ہیں۔ گویا فی جلد کے ۱۶۸ صفحات ہوئے۔ غرض چار سالوں میں آپ کی یہ کاوش سامنے آئی۔ اس میں حیات مسیح علیہ السلام کے مسئلہ کو قرآن کے حوالہ سے لکھا کہ سیدنا مسیح علیہ السلام دوبارہ زمین پر تشریف لائیں گے۔ ختم نبوت کے مسئلہ کی بھی مخالفت نہیں کی۔ البتہ اپنے الہامات درج کئے جسے پڑھ کر علماء لدھیانہw اور مولانا غلام دستگیر قصوری رحمۃ اللہ علیہ جیسے حضرات نے مرزاقادیانی کے کفر کا فتویٰ جاری کیا۔
پچاس جلدوں کا وعدہ
مرزاقادیانی نے وعدہ کیا تھا۔ اشتہار دیا تھا کہ اس کتاب ’’براہین احمدیہ‘‘ کی پچاس جلدیں ہوں گی۔ پچاس جلدوں کے پیسے لئے۔ چار جلدیں بھیجنے کے بعد ’’براہین احمدیہ‘‘ کی تصنیف کو بند کر دیا اور بہانہ بنایا کہ اﷲتعالیٰ نے یہ کام اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ گویا اﷲتعالیٰ نے مرزاقادیانی کو وعدہ کی خلاف ورزی کا حکم کیا ہے۔
اب مرزاقادیانی نے ۱۹۰۵ء میں براہین کا پانچواں حصہ لکھنا شروع کیا۔ (۱۸۸۴ء کے بعد ۱۹۰۵ء) یہ کتاب مرزاقادیانی کے مرنے کے بعد شائع ہوئی۔ اب مرزاقادیانی کی اس مایۂ ناز کتاب کا تجزیہ کریں تو یہ ہے کہ پہلے حصص میں حیات مسیح علیہ السلام کا بیان ہے۔ آخری حصہ میں وفات مسیح علیہ السلام کا بیان ہے۔ پہلے حصص میں نبوت کے ختم ہونے کا بیان، آخری حصہ میں نبوت کے جاری ہونے کا بیان۔ گویا ان کی تصنیف لطیف کا اوّل وآخر حصہ آپس میں ایک دوسرے کی ضد اور نقیض ہیں اور یہی تضاد ہی مرزاقادیانی کی زندگی کا خلاصہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ ’’وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافاً کَثِیْرًا (نساء:۸۲)‘‘ اسی کو کہتے ہیں۔
مرزاقادیانی کے دجل کی انتہاء
مرزاقادیانی نے کمال ڈھٹائی اور کفر انتہائی کے ساتھ کئی جگہوں پر براہین احمدیہ کو خدائی تصنیف قرار دیا۔ ذیل کے دو حوالہ جات ملاحظہ ہوں۔ ’’آج سے چھبیس برس پہلے خداتعالیٰ نے ’’براہین احمدیہ‘‘ میں اس عقیدہ کو کھول دیا ہے۔ کیونکہ ایک طرف تو مجھ کو مسیح موعود قرار دیا ہے اور میرا نام عیسیٰ رکھا ہے۔ جیسا کہ ’’براہین احمدیہ‘‘ میں فرمایا یَا عِیْسٰی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ وَمُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا‘‘ (تتمہ حقیقت الوحی ص۶۷، خزائن ج۲۲ ص۵۰۱)
’’اور خداتعالیٰ نے آج سے چھبیس برس پہلے میرا نام ’’براہین احمدیہ‘‘ میں محمد اور احمد رکھا ہے اور آنحضرتa کا بروز مجھے قرار دیا ہے۔ اسی وجہ سے ’’براہین احمدیہ‘‘ میں لوگوں کو مخاطب کر کے فرمادیا ہے۔ ’’
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰ
ہُ‘‘ اور نیز فرمایا ہے۔ ’’کل برکۃ من محمدa فتبارک من علم وتعلم‘‘
(تتمہ حقیقت الوحی ص۶۸، خزائن ج۲۲ ص۵۰۲)
الف… ’’خداتعالیٰ نے ’’براہین احمدیہ‘‘ میں اس عقیدہ کو کھول دیا۔‘‘
ب… ’’براہین احمدیہ‘‘ میں فرمایا۔ ’’یَ
ا عِیْسٰی اِنِّی مُتَوَفِّیْکَ
‘‘
ج… ’’خداتعالیٰ نے آج سے چھبیس برس پہلے میرا نام ’’براہین احمدیہ‘‘ میں محمد اور احمد رکھا۔‘‘
د… ’’اسی وجہ سے براہین میں لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا۔ قل ان کنتم تحبون اﷲ۔
یہ چاروں ایک کتاب کے دو حوالوں کے ہیں۔ ان سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن مجید کی طرح مرزاقادیانی براہین احمدیہ کو بھی اﷲتعالیٰ کی کتاب قرار دیتا ہے۔‘‘
پانچ اور پچاس
’’پہلے پچاس حصے لکھنے کا ارادہ تھا۔ مگر پچاس سے پانچ پر اکتفا کیاگیا، کیونکہ پچاس اور پانچ کے عدد میں صرف ایک نقطہ کا فرق ہے۔ اس لئے پانچ حصوں سے وہ وعدہ پورا ہوگیا۔ دوسرا سبب التواء کا جو تیئس برس تک حصہ پنجم لکھا نہ گیا، یہ تھا کہ خداتعالیٰ کو منظور تھا کہ ان کے دلی خیالات ظاہر کرے۔ جن کے دل مرض بد گمانی میں مبتلا تھے اور ایسا ہی ظہور میں آیا۔ کیونکہ اس قدر دیر کے بعد خام طبع لوگ بدگمانی میں بڑھ گئے۔ یہاں تک کہ بعض ناپاک فطرت گالیوں پر اتر آئے اور چار حصے اس کتاب کے جو طبع ہوچکے تھے۔ کچھ تو مختلف قیمتوں پر فروخت کئے گئے تھے اور کچھ مفت تقسیم کئے گئے تھے۔ پس جن لوگوں نے قیمتیں دی تھیں۔ اکثر نے گالیاں بھی دیں اور اپنی قیمت بھی واپس لی۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ پنجم دیباچہ ص۷،۸، خزائن ج۲۱ ص۹)
اس حوالہ میں مرزاقادیانی تسلیم کرتے ہیں: (۱)پچاس جلدیں لکھنا تھیں۔ (۲)’’مجموعہ اشتہارات‘‘ میں تفصیل ہے کہ پچاس جلدوں کے پیسے وصول کئے۔ (۳)مگر پچاس کی بجائے پانچ جلدیں تحریر کیں۔
اس سے ثابت ہوا:
۱… پچاس کا وعدہ کر کے پانچ کتابیں لکھیں۔ وعدہ خلافی کی جو وعدہ خلافی کرے وہ نبی نہیں جو نبی ہے وہ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔
۲… مرزاقادیانی نے لکھا کہ: ’’پانچ اور پچاس میں صرف ایک نقطہ کا فرق ہے۔‘‘ بات پانچ اور پچاس لکھنے کی نہیں، عدد کی ہے۔ شمار کرنے میں پانچ اور پچاس میں پینتالیس کا فرق ہے۔ مرزاقادیانی نے دجل کیا، جھوٹ بولا جو دجل کرے۔ جھوٹ بولے وہ نبی نہیں۔ جو نبی ہو وہ دجل وکذب کا مرتکب نہیں ہوتا۔
۳… مرزاقادیانی نے قیمت پچاس کتابوں کی لی اور کتابیں پانچ دیں۔ پینتالیس کتابوں کے پیسے لئے، گویا حرام کھاگیا۔ جو حرام کھائے وہ نبی نہیں، جو نبی ہے وہ حرام نہیں کھاتا۔
مرزائیوں کے جواب کا تجزیہ
مرزائی اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ اﷲتعالیٰ نے معراج کی رات پہلے پچاس نمازیں فرض کیں۔ پھر ان کو پانچ کر دیا۔ اﷲتعالیٰ نے بھی پچاس کو پانچ کیا۔ مرزاقادیانی نے بھی پچاس کو پانچ کیا تو سنت اﷲ پر مرزاقادیانی نے عمل کیا۔
جواب نمبر:۱… قادیانیوں کا یہ جواب کذب ودجل کا شاہکار ہے۔ اس لئے کہ قیاس کرنے کے لئے مقیس اور مقیس علیہ میں مطابقت ضروری ہے۔ جہاں مطابقت نہ ہو وہاں قیاس مع الفارق ہوتا ہے جو حرام ہے۔ اﷲ رب العزت کے کاموں پر مخلوق کے کاموں کو قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے جو ناجائزو حرام ہے۔
جواب نمبر:۲… اﷲ رب العزت نے نمازیں امت محمدیہ کے ذمہ فرض کیں۔ امت نے یہ نمازیں پڑھنی تھیں۔ آسان لفظوں میں کہ اﷲتعالیٰ نے نمازیں لینی تھیں۔ امت نے نمازیں دینی تھیں۔ لینے والے کو حق حاصل ہے کہ وہ معاف کر دے۔ دینے والا تو مقروض کے درجہ پر ہے۔ اسے تومعاف کرنے کا حق ہی نہیں۔ جب کہ مرزاقادیانی نے لوگوں کے پیسے دینے تھے۔ لوگوں نے لینے تھے۔ لوگ تو معاف کر سکتے تھے۔ مگر معاف کرنے کی بجائے وہ تقاضۂ ادائیگی کر رہے ہیں۔ ادھر مرزاقادیانی ہیں جو مقروض ہیں۔ وہ پچاس کو پانچ کر رہے ہیں۔ جس کا ان کو حق بھی نہیں تو یہ قادیانی جواب دجل کا شاخسانہ ہے اور بس۔
جواب نمبر:۳… اﷲ رب العزت نے فرمایا کہ نمازیں پانچ پڑھو۔ ثواب پچاس کا دوں گا۔ اﷲتعالیٰ، پانچ لے کر پچاس دے رہے ہیں۔ مرزاقادیانی پچاس لے کر پانچ دے رہا ہے۔ تو یہ الٹی گنگا ہوئی۔ اس لئے بھی یہ قادیانی جواب لائق اعتناء نہیں۔
صداقت اسلام کے نعرہ سے اسلام کی بیخ کنی کا آغاز
قادیان پہنچ کر پہلے تو عام مسلمانوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرنے کے لئے مرزاغلام احمد قادیانی نے عیسائیوں، ہندوؤں اور آریوں سے کچھ نامکمل مناظرے کئے۔ اس کے بعد ۱۸۸۰ء سے (براہین احمدیہ) نامی کتاب لکھنی شروع کی۔ جس میں اکثر مضامین عام مسلمانوں کے عقائد کے مطابق تھے۔ لیکن ساتھ ہی اس میں مرزاقادیانی نے اپنے بعض الہامات داخل کر دئیے اور طرفہ تماشہ یہ کہ صداقت اسلام کے دعویٰ پر لکھی جانے والی اس کتاب میں انگریزوں کی مکمل اطاعت اور جہاد کی حرمت کا اعلان شدومد کے ساتھ کیا۔ مرزاغلام احمد قادیانی نے ۱۸۸۰ء سے ۱۸۸۴ء تک براہین احمدیہ کے ۴حصے لکھے۔ جب کہ پانچواں حصہ ۱۹۰۵ء میں لکھ کر شائع کیا۔
۱۸۸۰ء سے مرزاقادیانی نے مختلف دعاوی کا سلسلہ شروع کیا۔ اس کے چند اہم دعاوی یہ ہیں:
۱… ۱۸۸۰ء میں ملہم من اﷲ ہونے کا دعویٰ کیا۔
۲… ۱۸۸۲ء میں مجدد ہونے کا دعویٰ کیا۔
۳… ۱۸۹۱ء میں مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا۔
۴… ۱۸۹۹ء میں ظلی، بروزی نبوت کا دعویٰ کیا۔
۵… ۱۹۰۱ء میں مستقل صاحب شریعت نبی ہونے کا دعویٰ کیا۔
ان کے علاوہ بھی اس نے عجیب وغریب قسم کے دعوے کئے۔
بیت اﷲ ہونے کا دعویٰ
’’خدا نے اپنے الہام میں میرا نام بیت اﷲ بھی رکھا ہے۔‘‘ (اربعین نمبر۴ ص۱۵، حاشیہ، خزائن ج۱۷ ص۴۴۵)
۱۸۸۲ء مجدد ہونے کا دعویٰ
’’جب تیرھویں صدی کا اخیر ہوا اور چودھویں کا ظہور ہونے لگا تو خداتعالیٰ نے الہام کے ذریعہ سے مجھے خبر دی کہ تو اس صدی کا مجدد ہے۔‘‘ (کتاب البریہ ص۱۸۳، حاشیہ، خزائن ج۱۳ ص۲۰۱)
۱۸۸۲ء مامور ہونے کا دعویٰ
’’میں خداتعالیٰ کی طرف سے مامور ہوکر آیا ہوں۔‘‘
(نصرۃ الحق براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۵۲، خزائن ج۲۱ ص۶۶، کتاب البریہ ص۱۸۴، خزائن ج۱۳ ص۲۰۲)
۱۸۸۲ء نذیر ہونے کا دعویٰ
’’اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ، لِتُنْذِرَقَوْمًا مَا اُنْذِرَ اٰبَاؤُہُمْ‘‘ خدا نے تجھے قرآن سکھلایا تاکہ تو ان لوگوں کو ڈرائے۔ جن کے باپ دادے ڈرائے نہیں گئے۔‘‘
(تذکرہ ص۴۴، طبع سوم، ضرورۃ الامام ص۳۱، خزائن ج۱۳ ص۵۰۲، براہین احمدیہ حصہ ۵ ص۵۲، خزائن ج۲۱ ص۶۶)
۱۸۸۳ء آدم، مریم اور احمد ہونے کا دعویٰ
’’
یَا اٰدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّۃَ، یَا مَرْیَمُ اسْکُنْ اَنْتِ وَزَوْجُکِ الْجَنَّۃَ، یَا اَحْمَدُ اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّۃَ نَفَخْتُ فِیْکَ مِنْ لَدُنِّیْ رُوْحَ الصِّدْقِ
‘‘ اے آدم، اے مریم، اے احمد! تو اور جو شخص تیرا تابع اور رفیق ہے۔ جنت میں یعنی نجات حقیقی کے وسائل میں داخل ہو جاؤ میں نے اپنی طرف سے سچائی کی روح تجھ میں پھونک دی ہے۔ (تذکرہ ص۷۰، طبع سوم، براہین احمدیہ ص۴۹۷، خزائن ج۱ ص۵۹۰ حاشیہ)
تشریح
’’مریم سے مریم ام عیسیٰ مراد نہیں اور نہ آدم سے آدم ابوالبشر مراد ہے اور نہ احمد سے اس جگہ حضرت خاتم الانبیاءa مراد ہیں اور ایسا ہی ان الہامات کے تمام مقامات میں کہ جو موسیٰ اور عیسیٰ اور داؤد وغیرہ نام بیان کئے گئے ہیں۔ ان ناموں سے بھی وہ انبیاء مراد نہیں ہیں۔ بلکہ ہر ایک جگہ یہی عاجز مراد ہے۔‘‘
(مکتوبات احمدیہ ج۱ ص۸۲، مکتوب بنام میر عباس علی بحوالہ تذکرہ ص۷۰ حاشیہ طبع سوم)
۱۸۸۴ء رسالت کا دعویٰ
الہام: ’’
اِنِّیْ فَضَّلْتُکَ عَلَی الْعَالَمِیْنَ قُلْ اُرْسِلْتُ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا
‘‘ میں نے تجھ کو تمام جہانوں پر فضیلت دی کہ میں تم سب کی طرف بھیجا گیا ہوں۔‘‘
(تذکرہ ص۱۲۵ طبع سوم، مکتوب حضرت مسیح موعود مرزا مورخہ ۳۰؍دسمبر ۱۸۸۴ء، اربعین نمبر۲ ص۷، خزائن ج۱۷ ص۳۵۳)
۱۸۸۶ء توحید وتفرید کا دعویٰ
الہام: ’’تو مجھ سے ایسا ہے جیسی میری توحید اور تفرید۔‘‘ (تذکرہ ص۳۸۱ طبع دوم)
’’تو مجھ سے اور میں تجھ سے ہوں۔‘‘ (تذکرہ ص۴۳۶، طبع دوم)
۱۸۹۱ء مثیل مسیح ہونے کا دعویٰ
’’اﷲ جل شانہ کی وحی اور الہام سے میں نے مثیل مسیح ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور یہ بھی میرے پر ظاہر کیاگیا ہے کہ میرے بارے میں پہلے سے قرآن شریف اور احادیث نبویہ میں خبر دی گئی ہے اور وعدہ دیاگیا ہے۔‘‘
(تذکرہ ص۱۷۲، طبع سوم، تبلیغ رسالت ج۱ ص۱۵۹، مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۲۰۷)
۱۸۹۱ء مسیح ابن مریم ہونے کا دعویٰ
الہام: ’’
جَعَلْنَاکَ الْمَسِیْحَ بْنَ مَرْیَمَ
(ہم نے تجھ کو مسیح ابن مریم بنایا) ان کو کہہ دے کہ میں عیسیٰ کے قدم پر آیا ہوں۔‘‘ (تذکرہ ص۱۸۶، طبع سوم، ازالہ اوہام ص۴۳۴، خزائن ج۳ ص۴۴۲)
ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو
اس سے بہتر غلام احمد ہے
(دافع البلاء ص۲۰، خزائن ج۱۸ ص۲۴۰)
۱۸۹۲ء صاحب کن فیکون ہونے کا دعویٰ
الہام: ’’
اِنَّمَا اَمْرُکَ اِذَا اَرَدْتَّ شَیْئًا اَنْ تَقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنَ
یعنی تیری یہ بات ہے کہ جب تو کسی چیز کا ارادہ کرے تو اسے کہے کہ ہو جا تو وہ ہو جائے گی۔‘‘ (تذکرہ ص۲۰۳، طبع سوم، براہین احمدیہ حصہ۵ ص۹۵، خزائن ج۲۱ ص۱۲۴)
۱۸۹۸ء مسیح اور مہدی ہونے کا دعویٰ
’’
بشرنی وقال ان المسیح الموعود الذی یرقبونہ والمہدی المسعود الذی ینتظرونہ ھوانت
‘‘ خدا نے مجھے بشارت دی اور کہا کہ وہ مسیح موعود اور مہدی مسعود جس کا انتظار کرتے ہیں وہ تو ہے۔‘‘
(تذکرہ ص۲۵۷، طبع سوم، اتمام الحجۃ ص۳، خزائن ج۸ ص۲۷۵)
۱۸۹۸ء امام زماں ہونے کا دعویٰ
’’سو میں اس وقت بے دھڑک کہتا ہوں کہ خداتعالیٰ کے فضل اور عنایت سے وہ امام زماں میں ہوں۔‘‘
(ضرورۃ الامام ص۲۴، خزائن ج۱۳ ص۴۹۵)
۱۹۰۰ء تا ۱۹۰۸ء ظلی نبی ہونے کا دعویٰ
’’جب کہ میں بروزی طور پر آنحضرتa ہوں اور بروزی رنگ میں تمام کمالات محمدی مع نبوت محمدیہ کے میرے آئینہ ظلیت میں منعکس ہیں۔ تو پھر کون سا الگ انسان ہوا جس نے علیحدہ طور پر نبوت کا دعویٰ کیا۔‘‘
(ایک غلطی کا ازالہ ص۸، خزائن ج۱۸ ص۲۱۲)
نبوت ورسالت کا دعویٰ
۱… ’’
انا انزلناہ قریباً من القادیان
‘‘ ہم نے اس کو قادیان کے قریب اتارا ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ ص۴۹۹، خزائن ج۱ ص۵۹۳، الحکم ج۴، ش۳۰، مورخہ ۲۴؍اگست ۱۹۰۰ء، بحوالہ تذکرہ ص۳۶۷ طبع سوم)
۲… ’’سچا خدا وہی خدا ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا۔‘‘ (دافع البلاء ص۱۱، خزائن ج۱۸ ص۲۳۱)
۳… ’’میں رسول بھی ہوں اور نبی بھی ہوں۔ یعنی بھیجا گیا بھی اور خدا سے غیب کی خبریں پانے والا بھی۔‘‘
(ایک غلطی کا ازالہ ص۷، خزائن ج۱۸ ص۲۱۱)
۴… ’’خدا وہ خدا ہے جس نے اپنے رسول کو یعنی اس عاجز کو ہدایت اور دین حق اور تہذیب اخلاق کے ساتھ بھیجا۔‘‘
(اربعین نمبر۳ ص۳۶، خزائن ج۱۷ ص۴۲۶، ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۲۴، خزائن ج۱۷ ص۷۳)
۵… ’’وہ قادر خدا قادیان کو طاعون کی تباہی سے محفوظ رکھے گا۔ تاکہ تم سمجھو کہ قادیان اسی لئے محفوظ رکھی گئی کہ وہ خدا کا رسول اور فرستادہ قادیان میں تھا۔‘‘ (دافع البلاء ص۵، خزائن ج۱۸ ص۲۲۵،۲۲۶)
مستقل صاحب شریعت نبی اور رسول ہونے کا دعویٰ
۱… ’’
قُلْ یٰاَیُّہَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا اَیْ مُرْسَلٌ مِّنَ اللّٰہِ
‘‘ اور کہہ کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف خداتعالیٰ کا رسول ہوکر آیا ہوں۔‘‘
(اشتہار معیار الاخیار ص۳، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۷۰، منقول از تذکرہ ص۳۵۲، طبع سوم)
۲… ’’
اِنَّا اَرْسَلْنَا اِلَیْکُمْ رَسُوْلاً شَاہِدًا عَلَیْکُمْ کَمَا اَرْسَلْنَا اِلٰی فِرْعَوْنَ رَسُوْلاً‘
‘ ’’ہم نے تمہاری طرف ایک رسول بھیجا ہے۔ اسی رسول کی مانند جو فرعون کی طرف بھیجا گیا تھا۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۱۰۱، خزائن ج۲۲ ص۱۰۵)
۳… ’’اور اگر کہو کہ صاحب الشریعت افتراء کر کے ہلاک ہوتا ہے نہ ہر ایک مفتری، تو اوّل تو یہ دعویٰ بے دلیل ہے۔ خدا نے افتراء کے ساتھ شریعت کی کوئی قید نہیں لگائی۔ ماسوا اس کے یہ بھی تو سمجھو کہ شریعت کیا چیز ہے؟ جس نے اپنی وحی کے ذریعہ سے چند امر اور نہی بیان کئے اور اپنی امت کے لئے ایک قانون مقرر کیا۔ وہی صاحب شریعت ہوگیا۔ پس اس تعریف کے رو سے بھی ہمارے مخالف ملزم ہیں۔ کیونکہ میری وحی میں امر بھی ہیں اور نہی بھی۔ مثلاً یہ الہام: ’
’قُلْ لِّلْمَؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَہُمْ ذَالِکَ اَزْکٰی لَہُمْ
‘‘ یہ ’’براہین احمدیہ‘‘ میں درج ہے اور اس میں امر بھی ہے اور نہی بھی اور اس پر تیئس برس کی مدت بھی گزر گئی اور ایسا ہی اب تک میری وحی میں امر بھی ہوتے ہیں اور نہی بھی اور اگر کہو کہ شریعت سے وہ شریعت مراد ہے جس میں نئے احکام ہوں تو یہ باطل ہے۔ اﷲتعالیٰ فرماتا ہے: ’’
اِنَّ ہٰذَا لَفِیْ الصُّحُفِ الْاُوْلٰی صُحُفِ اِبْرَاہِیْمَ وَمُوْسٰی
‘‘ یعنی قرآنی تعلیم توریت میں بھی موجود ہے اور اگر یہ کہو کہ شریعت وہ ہے جس میں باستیفاء امر اور نہی کا ذکر ہو تو یہ بھی باطل ہے۔ کیونکہ اگر توریت یا قرآن شریف میں باستیفاء احکام شریعت کا ذکر ہوتا تو پھر اجتہادی گنجائش نہ رہتی۔‘‘ (اربعین نمبر۴ ص۶، خزائن ج۱۷ ص۴۳۵،۴۳۶)
۴… ’’
یٰسٓں اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ
‘‘ ’’اے سردار تو خدا کا مرسل ہے راہ راست پر۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۱۰۷، خزائن ج۲۲ ص۱۱۰)
۵… ’’
فکلمنی ونادانی وقال انی مرسلک الیٰ قوم مفسدین وانی جاعلک للناس اماما وانی مستخلفک اکراما کما جرت سنتی فی الاولین
‘‘ (انجام آتھم ص۷۹، خزائن ج۱۱ ص۷۹)
۶… ’’
ھُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ
‘‘
(اعجاز احمدی ص۷، خزائن ج۱۹ ص۱۱۳)
’’اب ظاہر ہے کہ ان الہامات میں میری نسبت باربار بیان کیاگیا ہے کہ یہ خدا کا فرستادہ، خدا کا مأمور، خدا کا امین، اور خدا کی طرف سے آیا ہے۔ جو کچھ کہتا ہے اس پر ایمان لاؤ اور اس کا دشمن جہنمی ہے۔‘‘
(انجام آتھم ص۶۲، خزائن ج۱۱ ص۶۲)
یہ ہیں مرزاغلام احمد قادیانی کے چند دعاوی۔
حضرت حق تعالیٰ جل شانہ کی شان اقدس میں مرزاکی ہرزہ سرائی
اﷲ تبارک وتعالیٰ اس جہان کے خالق ومالک، حاکم مطلق اور سبھی کچھ ہیں۔ ہر قسم کے نقص وعیب سے پاک، خاندان، کنبہ، برادری، عزیز واقارب، اولاد اور جملہ انسانی اوصاف وتعلقات سے مبّرا ہیں۔ ان کی شان حمید خود ان کی نازل کردہ آخری کتاب قرآن مجید میں یہ بیان ہوئی۔ ’’
لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْیٔٗ
‘‘
قرآن وحدیث کے علاوہ اکابر علمائے متقدمین ومتأخرین کی کتابیں حضرت حق کی عظمت وجلالت کے موضوعات سے پُر ہیں۔ لیکن اتنا کچھ کہنے سننے کے بعد بھی اس کی عظمت وکبریائی اور اس کی حقیقت کا ادراک انسانی فہم سے ماوراء ہے۔ حتیٰ کہ پیغمبر اعظمa فرماتے ہیں: ’’ہم تیری معرفت کا حق ادا نہیں کر سکے۔‘‘
لیکن متنبی قادیان نے جس دیدہ دلیری سے مسلّمہ عقائد کا مذاق اڑایا ہے اور گلی میں گلی ڈنڈا کھیلنے والے بچوں کے باہمی ذوق کے انداز میں اﷲتعالیٰ کا ذکر کیا ہے اور اپنی خودساختہ نبوت کے ثبوت کے لئے اﷲتعالیٰ کے متعلق خرافات کا پلندہ گھڑا ہے۔ وہ مرزاقادیانی کی نامرادی کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ دل پر ہاتھ رکھ کر ان خرافات کو پڑھیں۔
*… ’’وہ خدا جو ہمارا خدا ہے ایک کھا جانے والی آگ ہے۔‘‘ (سراج منیر ص۶۲، خزائن ج۱۲ ص۶۴)
*… ’’وہ خدا جس کے قبضہ میں ذرہ ذرہ ہے۔ اس سے انسان کہاں بھاگ سکتا ہے۔ وہ فرماتا ہے کہ میں چوروں کی طرح پوشیدہ آؤں گا۔‘‘ (تجلیات الٰہیہ ص۴، خزائن ج۲۰ ص۳۹۶)
*… ’’قیوم العالمین (اﷲتعالیٰ) ایک ایسا وجود اعظم ہے جس کے بے شمار ہاتھ، بے شمار پیر اور ہر ایک عضو اس کثرت سے ہے کہ تعداد سے خارج اور لاانتہاء عرض اور طول رکھتا ہے اور تیندوے کی طرح اس وجود اعظم کی تاریں بھی ہیں جو صفحہ ہستی کے تمام کناروں تک پھیل رہی ہیں۔‘‘ (توضیح المرام ص۷۵، خزائن ج۳ ص۹۰)
*… مرزاقادیانی نے کہا کہ نبوت اور وحی کا دروازہ بند مانا جائے تو پھر لازم آئے گا کہ: ’’کیا کوئی عقلمند اس بات کو قبول کر سکتا ہے کہ اس زمانہ میں خدا سنتا تو ہے مگر بولتا نہیں۔ (یعنی وحی نہیں بھیجتا) پھر اس کے بعد یہ سوال ہوگا کہ بولتا کیوں نہیں کیا زبان پر کوئی مرض لاحق ہوگئی ہے۔‘‘ (ضمیمہ براہین حصہ پنجم ص۱۴۴، خزائن ج۲۱ ص۳۱۲)
*… ’’آواہن خدا تیرے (مرزاقادیانی) اندر اتر آیا۔‘‘ (تذکرہ ص۳۱۱، طبع سوم، کتاب البریہ ص۸۴، خزائن ج۱۳ ص۱۰۲)
*… ’’میں (مرزاقادیانی) نے خواب میں دیکھا کہ میں خود خدا ہوں۔ میں نے یقین کر لیا کہ میں وہی ہوں۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام ص۵۶۴، خزائن ج۵ ص ایضاً، کتاب البریہ ص۸۵، خزائن ج۱۳ ص۱۰۳)
*… ’’
انت منی بمنزلۃ اولادی
‘‘’ ’اے مرزا تو مجھ سے میری اولاد جیسا ہے۔‘‘
(اربعین نمبر۴ ص۱۹ حاشیہ، خزائن ج۱۷ ص۴۵۲)
*… ’’خدا نے مجھے (مرزاقادیانی کو) الہام کیا کہ تیرے گھر میں ایک لڑکا پیدا ہو گا۔ ’’کأنّ اﷲ نزل من السماء‘‘ گویا خدا آسمانوں سے اتر آیا۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۹۵، خزائن ج۲۲ ص۹۹، تذکرہ ص۱۳۹، طبع سوم)
*… مرزاقادیانی کاایک مرید قاضی یار محمد اپنے ٹریکٹ نمبر۳۴ موسویہ اسلامی قربانی میں لکھتا ہے: ’’حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) نے ایک موقع پر اپنی حالت یہ ظاہر فرمائی کہ کشف کی حالت آپ پر طاری ہوئی۔ گویا کہ آپ عورت ہیں اور اﷲ تعالیٰ نے رجولیت کی طاقت کا اظہار فرمایا۔ (سمجھنے والے کے لئے اشارہ کافی ہے)‘‘ (اسلامی قربانی ص۱۲)
*… جس سے رجولیت کی طاقت کا اظہار ہو، ظاہر ہے کہ اسے حمل قرار پائے گا۔ تو اس کے متعلق مرزاقادیانی نے خود لکھا کہ: ’’میرا نام ابن مریم رکھاگیا اور عیسیٰ کی روح مجھ میں نفخ کی گئی اور استعارہ کے رنگ میں حاملہ ٹھہرایا گیا۔
آخر کئی مہینہ کے بعد جو (مدت حمل) دس مہینہ سے زیادہ نہیں مجھے مریم سے عیسیٰ بنایا گیا۔ پس اس طور سے میں ابن مریم ٹھہرا‘‘
(کشتی نوح ص۴۶،۴۷، خزائن ج۱۹ ص۵۰)
*… ’’خدا نکلنے کو ہے۔ ’’
انت منی بمنزلۃ بروزی
‘‘ تو (مرزاقادیانی) مجھ (خدا) سے ایسا ہے جیسا کہ میں (خدا) ہی ظاہر ہوگیا۔‘‘ (سرورق آخری ریویو ج۵ ش۳، مورخہ ۱۵؍مارچ ۱۹۰۶ء کا الہام، تذکرہ ص۶۰۴، طبع سوم)
*… ’’
خاطبنی اﷲ بقولہ اسمع یا ولدی
‘‘ ’’اﷲتعالیٰ نے مجھے یہ کہہ کر خطاب کیا کہ اے میرے بیٹے سن۔‘‘ (البشریٰ ج۱ ص۴۹)
*… ’’خدا قادیان میں نازل ہوگا۔‘‘ (البشریٰ ج۱ ص۵۶)
*… ’’مجھ سے میرے رب نے بیعت کی۔‘‘ (دافع البلاء ص۶، خزائن ج۱۸ ص۲۲۷)
*… ’’سچا خدا وہی خدا ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا۔‘‘ (دافع البلاء ص۱۱، خزائن ج۱۸ ص۲۳۱)
حضور نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم
حضرت محمد ﷺ اﷲتعالیٰ کے آخری نبی اور اس کی جملہ مخلوقات میں سب سے اعلیٰ، افضل اور رب العزت کے مقرب خاص ہیں۔
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
آپ ﷺ کے لئے کہاگیا اور سچ یہ ہے کہ اس سے بڑھ کر آپ ﷺ کے مقام رفیع کا بیان ممکن نہیں۔ اﷲتعالیٰ نے اپنے آخری کلام قرآن مجید میں مختلف حوالوں سے اپنے اس عبد کامل ﷺ اور رسول خاتم ﷺ کا ذکر کیا اور اتنے پیار اور محبت سے کہ
کرشمہ دامن دل می کشد کہ جا اینجا است
لیکن ایک مرزاغلام احمد ہے جس کے بے لگام اور گستاخ قلم سے اس انسان اعظم، رسول اکرم اور نبی مکرم ﷺ کے متعلق وہ وہ دلخراش عبارتیں نکلیں کہ: ’’الامان والحفیظ۔‘‘
ایسی جسارت تو ابلیس اعظم علیہ ما علیہ بھی نہ کر سکا۔ اس نے بھی محض اپنی بڑائی کے اظہار کے لئے ’’
اَنَا خَیْرٌ مِّنْ
ہٗ‘‘ کی بات کہی۔ لیکن تیرھویں صدی کے دم آخر انگریزی استبداد کے زیرسایہ نبوت کا ڈھونگ رچانے والے اس ابلیس مجسم نے اس امام الانبیاء ﷺ کا کس طرح ذکر کیا وہ بڑی ہی اَندُوہناک داستان ہے۔
افسوس کہ گوری اقلیت کے زیر سایہ یہ سب گند اچھالا جاتا رہا اور اب تک بعض بدقسمت اس مردودِ ازلی سے اپنی عقیدتوں کا رشتہ جوڑے بیٹھے ہیں۔
ہم اس کفر کو دل پر پتھر رکھ کر نقل کر رہے۔ آپ بھی ان ملعون تحریرات کو دیکھ کر مرزائی اور مرزائی نوازوں کو آئینہ دکھائیے۔
*… ’’مگر تم خوب توجہ کر کے سن لو کہ اب اسم محمد ﷺ کی تجلی ظاہر کرنے کا وقت نہیں یعنی اب جلالی رنگ کی کوئی خدمت باقی نہیں۔ کیونکہ مناسب حد تک وہ جلال ظاہر ہوچکا۔ سورج کی کرنوں کی اب برداشت نہیں۔ اب چاند کی ٹھنڈی روشنی کی ضرورت ہے اور وہ احمد کے رنگ میں ہوکر میں ہوں۔‘‘ (اربعین نمبر۴ ص۱۵، خزائن ج۱۷ ص۴۴۵)
*… یہ بات روز روشن کی طرح ثابت ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد نبوت کا دروازہ کھلا ہے۔
(حقیقت النبوۃ ص۲۲۸)
*… نبی پاک ﷺ اشاعت دین مکمل طور پر نہ کر سکے۔ ’’نبی ﷺ سے دین کی مکمل اشاعت نہ ہوسکی۔ میں نے پوری کی ہے۔‘‘ معاذ اﷲ تعالیٰ! (تحفہ گولڑویہ ص۱۰۱ حاشیہ، خزائن ج۱۷ ص۲۶۳)
*… ’’آنحضرت ﷺ کے تین ہزار معجزات ہیں۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ ص۴۰، خزائن ج۱۷ ص۱۵۳)
*… ’’میرے نشانات کی تعداد دس لاکھ ہے۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۵۶، خزائن ج۲۱ ص۷۲)
*… ’’نشان، معجزہ، کرامت اور خرق عادت ایک چیز ہے۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ پنجم، نصرۃ الحق ص۵۰، خزائن ج۲۱ ص۶۳)
*… ’’سوال نمبر۵: ایسے موقع پر مسلمان معراج پیش کر دیتے ہیں۔ حضرت اقدس (مرزاقادیانی) نے فرمایا کہ معراج جس وجود سے ہوا تھا وہ یہ ہگنے موتنے والا وجود تو نہ تھا۔‘‘ (ملفوظات احمدیہ ج۹ ص۴۵۹)
*… ’’آنحضرت ﷺ اور آپ کے اصحاب عیسائیوں کے ہاتھ کا پنیر کھا لیتے تھے۔ حالانکہ مشہور تھا کہ سؤر کی چربی اس میں پڑتی ہے۔‘‘ (مرزاقادیانی کا مکتوب مندرجہ الفضل قادیان مورخہ ۲۲؍فروری ۱۹۲۴ء)
*… ’’ہر ایک نبی کو اپنی استعداد اور کام کے مطابق کمالات عطا ہوتے تھے۔ کسی کو بہت، کسی کو کم، مگر مسیح موعود (مرزاقادیانی) کو تو تب نبوت ملی جب اس نے نبوت محمدیہ کے تمام کمالات کو حاصل کر لیا اور اس قابل ہوگیا کہ ظلی نبی کہلائے۔ پس ظلی نبوت نے مسیح موعود (مرزاقادیانی) کے قدم کو پیچھے نہیں ہٹایا۔ بلکہ آگے بڑھایا اور اس قدر آگے بڑھایا کہ نبی کریم ﷺ کے پہلو بہ پہلو لا کھڑا کیا۔‘‘ (کلمتہ الفصل ص۱۱۳)
*… ’’یہ بالکل صحیح بات ہے کہ ہر شخص ترقی کر سکتا ہے اور بڑے سے بڑا درجہ پاسکتا ہے۔ حتیٰ کہ محمد رسول اﷲ ﷺ سے بھی بڑھ سکتا ہے۔‘‘ (نعوذ باﷲ) (اخبار الفضل قادیان مورخہ ۱۷؍جولائی ۱۹۲۲ء)
*… محمد پھر اتر آئے ہیں ہم میں
اور آگے سے ہیں بڑھ کر اپنی شان میں
محمد دیکھنے ہوں جس نے اکمل
غلام احمد کو دیکھے قادیاں میں
(اخبار بدر قادیان مورخہ ۲۵؍اکتوبر ۱۹۰۶ء)
ہلال اور بدر کی نسبت
اور قادیانی ظہور کی افضلیت کو اس عنوان سے بھی بیان کیاگیا کہ مکی بعثت کے زمانہ میں اسلام ہلال کی مانند تھا۔ جس میں کوئی روشنی نہیں ہوتی اور قادیانی بعثت کے زمانہ میں اسلام بدر کامل کی طرح روشن اور منور ہوگیا۔ چنانچہ ملاحظہ ہو: ’’اور اسلام ہلال کی طرح شروع ہوا، اور مقدر تھا کہ انجام کار آخری زمانہ میں بدر (چودھویں کا چاند) ہو جائے خداتعالیٰ کے حکم سے۔ پس خداتعالیٰ کی حکمت نے چاہا کہ اسلام اس صدی میں بدر کی شکل اختیار کرے۔ جو شمار کے رو سے بدر کی طرح مشابہ ہو۔ (یعنی چودھویں صدی)‘‘ (خطبۂ الہامیہ ص۱۸۴، خزائن ج۱۶ ص۲۷۵)
*… ’’آنحضرت ﷺ کے بعثت اوّل میں آپ کے منکروں کو کافر اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دینا۔ لیکن ان کی بعثت ثانی میں آپ کے منکروں کو داخل اسلام سمجھنا یہ آنحضرت ﷺ کی ہتک اور آیت اﷲ سے استہزاء ہے۔ حالانکہ ’’خطبہ الہامیہ‘‘ میں حضرت مسیح موعود نے آنحضرت ﷺ کی بعثت اوّل وثانی کی باہمی نسبت کو ہلال اور بدر کی نسبت سے تعبیر فرمایا ہے۔‘‘ (اخبار الفضل قادیان ج۳ ش۱۰، مورخہ ۱۵؍جولائی ۱۹۱۵ء)
بڑی فتح مبین
اور اظہار افضلیت کے لئے ایک عنوان یہ اختیار کیاگیا کہ مرزاقادیانی کے زمانہ کی فتح مبین، آنحضرت ﷺ کی فتح مبین سے بڑھ کر ہے۔ چنانچہ ملاحظہ ہو: ’’اور ظاہر ہے کہ فتح مبین کا وقت ہمارے نبی کریم( ﷺ) کے زمانے میں گزر گیا اور دوسری فتح باقی رہی جو کہ پہلے غلبہ سے بہت بڑی اور زیادہ ظاہر ہے اور مقدر تھا کہ اس کا وقت مسیح موعود کا وقت ہو۔‘‘ (خطبہ الہامیہ ص۱۹۳،۱۹۴، خزائن ج۱۶ ص۲۸۸)
روحانی کمالات کی ابتداء اور انتہاء
یہ بھی کہا گیا کہ آنحضرت ﷺ کی مکی بعثت کا زمانہ روحانی ترقیات کا پہلا قدم تھا اور قادیانی ظہور کا زمانہ روحانی ترقیات کی آخری معراج ہے۔ چنانچہ ملاحظہ ہو: ’’ہمارے نبی کریم ﷺ کی روحانیت نے پانچویں ہزار میں (یعنی مکی بعثت میں) اجمالی صفات کے ساتھ ظہور فرمایا اور وہ زمانہ اس روحانیت کی ترقیات کا انتہاء نہ تھا۔ بلکہ اس کے کمالات کے معراج کے لئے پہلا قدم تھا۔ پھر اس روحانیت نے چھٹے ہزار کے آخر میں یعنی اس وقت پوری طرح سے تجلی فرمائی۔‘‘
(خطبہ الہامیہ ص۱۷۷، خزائن ج۱۶ ص۲۶۶)
ذہنی ارتقاء
یہ بھی کہاگیا کہ مرزاقادیانی کا ذہنی ارتقاء آنحضرت ﷺ سے بڑھ کر تھا۔ چنانچہ ملاحظہ ہو: ’’حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) کا ذہنی ارتقاء آنحضرت ﷺ سے زیادہ تھا… اور یہ جزوی فضیلت ہے جو حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) کو آنحضرت ﷺ پر حاصل ہے۔ نبی کریم ﷺ کی ذہنی استعدادوں کا پورا ظہور بوجہ تمدن کے نقص کے نہ ہوا، اور نہ قابلیت تھی۔ اب تمدن کی ترقی سے حضرت مسیح موعود کے ذریعہ ان کا پورا ظہور ہوا۔‘‘
(ریویو، مئی ۱۹۲۹ء، بحوالہ قادیانی مذہب ص۲۶۶، اشاعت نہم مطبوعہ لاہور)
*… مرزاغلام احمد قادیانی کا دعویٰ ہے کہ وہ (نعوذ باﷲ) ’’محمد رسول اﷲ‘‘ ہے۔ چنانچہ ملاحظہ ہو: ’’مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَہُمْ‘‘ اس وحی الٰہی میں میرا نام محمد رکھا گیا اور رسول بھی۔‘‘ (ایک غلطی کا ازالہ ص۳، خزائن ج۱۸ ص۲۰۷)
محمد رسول اﷲ کی دو بعثتیں
مرزاقادیانی کے محمد رسول اﷲ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ قادیانی عقیدے کے مطابق حضرت خاتم النّبیین محمد رسول اﷲ ﷺ کا دوبارہ دنیا میں آنا مقدر تھا۔ پہلی بار آپ مکہ مکرمہ میں محمد ﷺ کی شکل میں آئے اور دوسری بار قادیان میں مرزاغلام احمد قادیانی کی بروزی شکل میں آئے۔ یعنی مرزاقادیانی کی بروزی شکل میں محمد ﷺ کی روحانیت مع اپنے تمام کمالات نبوت کے دوبارہ جلوہ گر ہوئی ہے۔ چنانچہ ملاحظہ ہو: ’’اور جان کہ ہمارے نبی کریم ﷺ جیسا کہ پانچویں ہزار میں مبعوث ہوئے۔ (یعنی چھٹی صدی مسیحی میں) ایسا ہی مسیح موعود (مرزاغلام احمد قادیانی) کی بروزی صورت اختیار کر کے چھٹے ہزار (یعنی تیرھویں صدی ہجری) کے آخر میں مبعوث ہوئے۔‘‘ (خطبہ الہامیہ ص۱۸۰، خزائن ج۱۶ ص۲۷۰)
*… ’’آنحضرت ﷺ کے دو بعث ہیں۔ یا بہ تبدیل الفاظ یوں کہہ سکتے ہیں کہ ایک بروزی رنگ میں آنحضرت ﷺ کا دوبارہ آنا دنیا میں وعدہ دیاگیا تھا۔ جو مسیح موعود اور مہدی معہود (مرزاقادیانی) کے ظہور سے پورا ہوا۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۹۴ حاشیہ، خزائن ج۱۷ ص۲۴۹)
مرزاقادیانی بعینہ محمد رسول اﷲ
چونکہ قادیانی عقیدہ کے مطابق محمد رسول اﷲ ﷺ اپنے تمام کمالات کے ساتھ مرزاقادیانی کی بروزی شکل میں قادیان میں دوبارہ مبعوث ہوئے ہیں۔ اس لئے مرزاقادیانی کا وجود (نعوذ باﷲ) بعینہ محمد رسول اﷲ کا وجود ہے۔ چنانچہ ملاحظہ ہو: ’’اور خدا نے مجھ پر اس رسول کریم کا فیض نازل فرمایا اور اس کو کامل بنایا اور اس نبی کریم کے لطف اور جود کو میری طرف کھینچا۔ یہاں تک کہ میرا وجود اس کا وجود ہوگیا۔ پس وہ جو میری جماعت میں داخل ہوا۔ درحقیقت میرے سردار خیرالمرسلین ﷺ کے صحابہq میں داخل ہوا اور یہی معنی ’’اٰخَرِیْنَ مِنْہُمْ‘‘ کے لفظ کے بھی ہیں۔ جیسا کہ سوچنے والوں پر پوشیدہ نہیں اور جو شخص مجھ میں اور مصطفیٰ میں تفریق کرتا ہے۔ اس نے مجھ کو نہیں دیکھا ہے اور نہیں پہچانا ہے۔‘‘
(خطبہ الہامیہ ص۱۷۱، خزائن ج۱۶ ص۲۵۸،۲۵۹)
’’اور چونکہ مشابہت تامہ کی وجہ سے مسیح موعود (مرزاقادیانی) اور نبی کریم میں کوئی دوئی باقی نہیں رہی۔ حتیٰ کہ ان دونوں کے وجود بھی ایک وجود کا ہی حکم رکھتے ہیں۔ جیسا کہ خود مسیح موعود نے فرمایا ہے کہ ’’صارو جودی وجودہ‘‘ (یہاں تک کہ میرا وجود اس (محمد رسول اﷲ) کا وجود ہوگیا)‘‘ (خطبہ الہامیہ ص۱۷۱، خزائن ج۱۶ ص۲۵۸)
’’اور حدیث میں بھی آیا ہے کہ حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مسیح موعود میری قبر میں دفن کیا جاوے گا۔ جس سے یہی مراد ہے کہ وہ میں ہی ہوں۔ یعنی مسیح موعود نبی کریم ﷺ سے الگ کوئی چیز نہیں ہے۔ بلکہ وہی ہے جو بروزی رنگ میں دوبارہ دنیا میں آئے گا۔ تو اس صورت میں کیا اس بات میں کوئی شک رہ جاتا ہے کہ قادیان میں اﷲتعالیٰ نے پھر محمد ﷺ کو اتارا۔‘‘ (کلمتہ الفصل ص۱۰۴، ۱۰۵، مندرجہ ریویو آف ریلیجنز قادیان مارچ واپریل ۱۹۱۵ء)
*… صدی چودھویں کا ہوا سر مبارک
کہ جس پر وہ بدرالدجیٰ بن کے آیا
محمد پئے چارہ سازیٔ امت
ہے اب احمد مجتبیٰ بن کے آیا
حقیقت کھلی بعث ثانی کی ہم پر
کہ جب مصطفیٰ میرزا بن کے آیا
(اخبار الفضل قادیان مورخہ ۲۸؍مئی ۱۹۲۸ء)
*… اے مرے پیارے مری جان رسول قدنی
تیرے صدقے ترے قربان رسول قدنی
پہلی بعثت میں محمد ہے تو اب احمد ہے
تجھ پہ پھر اترا ہے قرآن رسول قدنی
(اخبار الفضل قادیان مورخہ ۱۶؍اکتوبر ۱۹۲۲ء)
جب یہ عقیدہ ٹھہرا کہ مرزاقادیانی کا وجود بعینہ محمد رسول اﷲ کا وجود ہے اور یہ کہ مرزاقادیانی کا روپ دھار کر خود محمد رسول اﷲہی دوبارہ قادیان میں آئے ہیں تو یہ عقیدہ بھی ضروری ہوا کہ محمد رسول اﷲ کے تمام کمالات وامتیازات بھی مرزاقادیانی کی طرف منتقل ہوگئے ہیں۔ چنانچہ ملاحظہ ہو: ’’جب کہ میں بروزی طور پر آنحضرت ﷺ ہوں اور بروزی رنگ میں تمام کمالات محمدی مع ثبوت محمدیہ کے میرے آئینہ ظلیت میں منعکس ہیں تو پھر کون سا الگ انسان ہوا جس نے علیحدہ طور پر نبوت کا دعویٰ کیا؟‘‘ (ایک غلطی کا ازالہ ص۸، خزائن ج۱۸ ص۲۱۲)
*… ’’خداتعالیٰ کے نزدیک حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) کا وجود آنحضرت ﷺ کا ہی وجود ہے۔ یعنی خدا کے دفتر میں حضرت مسیح موعود اور آنحضرت، آپس میں کوئی دوئی یا مغائرت نہیں رکھتے۔ بلکہ ایک ہی شان ایک ہی مرتبہ اور ایک ہی منصب اور ایک ہی نام رکھتے ہیں۔ گویا لفظوں میں باوجود دو ہونے کے ایک ہی ہیں۔‘‘
(اخبار الفضل قادیان ج۳، ش۳۷، مورخہ ۱۶؍ستمبر ۱۹۱۵ء، بحوالہ قادیانی مذہب ص۲۰۷)
*… ’’گذشتہ مضمون مندرجہ ’’الفضل‘‘ مورخہ ۱۶؍ستمبر میں میں نے بفضل الٰہی اس بات کو پایۂ ثبوت تک پہنچایا ہے کہ حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) باعتبار نام، کام، آمد، مقام، مرتبہ کے آنحضرت ﷺ کا ہی وجود ہیں۔ یا یوں کہو کہ آنحضرت ﷺ جیسا کہ (دنیا کے) پانچویں ہزار میں مبعوث ہوئے تھے۔ ایسا ہی اس وقت جمیع کمالات کے ساتھ مسیح موعود کی بروزی صورت میں مبعوث ہوئے ہیں۔‘‘ (الفضل مورخہ ۲۸؍اکتوبر ۱۹۱۵ء، بحوالہ قادیانی مذہب ص۲۰۹)
مرزاخاتم النّبیین
جب قادیانی عقیدہ کے مطابق محمد رسول اﷲ ﷺ کی قادیانی بعثت، جو مرزاقادیانی کی بروزی شکل میں ہوئی۔ بعینہ محمد رسول اﷲ ﷺ کی بعثت ہے تو مرزاقادیانی بروزی طور پر خاتم النّبیین بھی ہوا۔ چنانچہ ملاحظہ ہو: ’’میں بارہا بتلا چکا ہوں کہ میں موجب آیت ’’
وَاٰخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِہِمْ
‘‘ بروزی طور پر وہی نبی خاتم الانبیاء ﷺ ہوں اور خدا نے آج سے بیس برس پہلے ’’براہین احمدیہ‘‘ میں میرا نام محمد اور احمد رکھا ہے اور مجھے آنحضرت ﷺ کا ہی وجود قرار دیا ہے۔‘‘
(ایک غلطی کا ازالہ ص۸، خزائن ج۱۸ ص۲۱۲)
*… ’’مبارک ہیں وہ جس نے مجھے پہچانا، میں خدا کی سب راہوں میں سے آخری راہ ہوں اور میں اس کے سب نوروں میں سے آخری نور ہوں۔ بدقسمت ہے وہ جو مجھے چھوڑتا ہے۔ کیونکہ میرے بغیر سب تاریکی ہے۔‘‘
(کشتی نوح ص۵۶، خزائن ج۱۹ ص۶۱)
مرزاافضل الرسل
’’آسمان سے کئی تخت اترے۔ مگر سب سے اونچا تیرا تخت بچھایا گیا۔‘‘
(مرزاقادیانی کا الہام مندرجہ تذکرہ ص۳۳۹، طبع سوم)
*… ’’کمالات متفرقہ جو تمام دیگر انبیاء علیہم السلام میں پائے جاتے تھے۔ وہ سب حضرت رسول کریم ﷺ میں ان سے بڑھ کر موجود تھے اور وہ سارے کمالات حضرت رسول کریم ﷺ سے ظلی طور پر ہم کو عطاء کئے گئے اور اسی لئے ہمارا نام آدم، ابراہیم، موسیٰ، نوح، داؤد، یوسف، سلیمان، یحییٰ، عیسیٰ وغیرہ ہے… پہلے تمام انبیاء ظل تھے۔ نبی کریم کی خاص خاص صفات میں اور اب ہم ان تمام صفات میں نبی کریم ﷺ کے ظل ہیں۔‘‘ (ملفوظات ج۳ ص۲۷۰)
فخر اوّلین وآخرین
روزنامہ ’’الفضل قادیان‘‘ مسلمانوں کو للکارتے ہوئے کہتا ہے : ’’اے مسلمان کہلانے والو! اگر تم واقعی اسلام کا بول بالا چاہتے ہو اور باقی دنیا کو اپنی طرف بلاتے ہو تو پہلے خود سچے اسلام کی طرف آجاؤ۔ (یعنی مسلمانوں کا اسلام جھوٹا ہے۔ نعوذ باﷲ، ناقل) جو مسیح موعود (مرزاقادیانی) میں ہوکر ملتا ہے۔ اسی کے طفیل آج بروتقویٰ کی راہیں کھلتی ہیں۔ اسی کی پیروی سے انسان فلاح ونجات کی منزل مقصود پر پہنچ سکتا ہے۔ وہ وہی فخر اوّلین وآخرین ہے۔ جو آج سے تیرہ سو برس پہلے رحمۃ للعالمین بن کر آیا تھا۔‘‘ رضی اللہ عنہ (الفضل قادیان مورخہ ۲۶؍ستمبر ۱۹۱۷ء، بحوالہ قادیانی مذہبب ص۲۱۱،۲۱۲)
پہلے محمد رسول اﷲ ﷺ سے بڑھ کرعلیہم السلام
اسی پر اکتفاء نہیں بلکہ قادیانی عقیدہ میں محمد رسول اﷲ ﷺ کا قادیانی ظہور (جو مرزاقادیانی کے روپ میں ہوا ہے) مکی ظہور سے اعلیٰ وافضل ہے۔ ملاحظہ ہو: ’’اور جس نے اس بات سے انکار کیا ﷺ کہ نبی علیہ السلام کی بعثت چھٹے ہزار سے تعلق رکھتی ہے۔ جیسا کہ پانچویں ہزار سے تعلق رکھتی تھی۔ پس اس نے حق کا اور نص قرآن کا انکار کیا۔ بلکہ حق یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی روحانیت چھٹے ہزار کے آخر میں یعنی ان دنوں میں بہ نسبت ان سالوں کے اقویٰ اور اکمل اور اشد ہے۔ بلکہ چودھویں رات کی طرح ہے۔‘‘ (خطبہ الہامیہ ص۱۸۱، ۱۸۲، خزائن ج۱۶ ص۲۷۱،۲۷۲)
*… ’’اس (آنحضرت ﷺ) کے لئے چاند کا کسوف کا نشان ظاہر ہوا اور میرے لئے چاند وسورج دونوں کا۔‘‘
(اعجاز احمدی ص۷۱، خزائن ج۱۹ ص۱۸۳)
خیال زاغ کو بلبل سے برتری کا ہے
غلام زادے کو دعویٰ پیمبری کا ہے
حضرات انبیاء کرام علیہم السلام
اﷲتعالیٰ کے رنگا رنگ مخلوقات میں انسان سب سے اعلیٰ واشرف ہے۔ جسے اشرف المخلوقات ہونے کا شرف حاصل ہے۔ گروہ انسانیت میں وہ سعادت مند پھر بڑی عظمتوں کے حامل ہیں۔ جنہیں وحی ربانی کی تسلیم وطاعت کا شرف حاصل ہوا اور اس گروہ مسلمین میں سے لاتعداد عظمتوں کے امین وحامل وہ ہیں۔ جنہیں نبوت ورسالت کا تاج پہنایا گیا۔ جنہیں اﷲتعالیٰ نے اپنی سب سے بڑی امانت کا امین قرار دیا اور سب سے بڑی نعمت سے نوازا۔ یہ گروہ پاک باز انسان ہوکر بھی اتنا عظیم المرتبت ہے کہ معصومیت ان کے لوازم میں سے ہے۔ وہ معصوم اور اﷲتعالیٰ کی اس حفاظت میں ہوتے ہیں کہ گناہ ان کے گھر کا رخ نہیں کر سکتا۔ وہ اﷲتعالیٰ کی وحی کے حامل اور اس کے مبلغ ہوتے ہیں۔ اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر اس کی تبلیغ کرتے اور اف تک نہیں کرتے۔ چاہے اس راستہ میں ان کا جسم آرے سے چیرا جائے۔
لیکن قادیان کے اس شیطانِ مجسم نے اس گروہ پاک باز کو جس طرح یاد کیا۔ ان کی توہین کی اور اپنے ناپاک وجود کو ان سے برتر قرار دیا وہ اس دھرتی کا سب سے گھناؤنا کاروبار ہے۔ ان شیطنت آمیز تحریرات کی نقل ومطالعہ کسی شریف انسان کے بس کا روگ نہیں۔ لیکن ضرورت ومجبوری سے انہیں نقل کیا جارہا ہے۔
*… ’’یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں پر بباعث ان کے کسی پوشیدہ گناہ کے یہ ابتلاء آیا کہ جن راہوں سے وہ اپنے موعود نبیوں کا انتظار کرتے رہے۔ ان راہوں سے وہ نبی نہیں آئے۔ بلکہ چور کی طرح کسی اورراہ سے آگئے۔‘‘
(نزول المسیح ص۳۵ حاشیہ، خزائن ج۱۸ ص۴۱۳)
*… ’’میں خود اس بات کا قائل ہوں کہ دنیا میں کوئی ایسا نبی نہیں آیا جس نے کبھی اجتہادی غلطی نہیں کی۔‘‘
(تتمہ حقیقت الوحی ص۱۳۵، خزائن ج۲۲ ص۵۷۳)
*… زندہ شد ہر نبی بآمدنم
ہر رسول نہاں بہ پیراہنم
(نزول المسیح ص۱۰۰، خزائن ج۱۸ ص۴۷۸)
ترجمہ: ’’زندہ ہوا ہر نبی میری آمد سے تمام رسول میرے کرتہ میں چھپے ہوئے ہیں۔‘‘
*… ’’اس (آنحضرت ﷺ) کے شاگردوں میں علاوہ بہت سے محدثوں کے ایک (مرزاقادیانی) نے نبوت کا درجہ بھی پایا اور نہ صرف یہ کہ نبی بنا۔ بلکہ بعض اولوالعزم نبیوں سے بھی آگے نکل گیا۔‘‘ (حقیقت النبوۃ ص۲۵۷)
*… ’’حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) کو جو بلحاظ مدارج کئی نبیوں سے بھی افضل ہیں۔ ایسے مقام پر پہنچے کہ نبیوں کو اس مقام پر رشک ہے۔‘‘ (اخبار الفضل قادیان ج۲۰ ش۹۳، مورخہ ۵؍فروری ۱۹۳۳ء)
*… ’’آپ (مرزاقادیانی) کا درجہ رسول کریم ﷺ کے سوا باقی تمام انبیاء سے بلند ہے۔‘‘
(اخبار الفضل قادیان ج۲۰ ش۴۵، مورخہ ۶؍جون ۱۹۳۳ء)
*… ’’جس (مرزاقادیانی) کے وجود میں ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کی شان جلوہ گر تھی۔‘‘
(الفضل قادیان ج۲ نمبر۱۴۶، مورخہ ۳۰؍مئی ۱۹۱۵ء)
*… ’’آدم ثانی حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) جو آدم اوّل سے شان میں بڑھا ہوا تھا۔ اس کے لئے کیوں یہ نہ کہا جاتا کہ آگ تمہاری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے۔‘‘ (ملائکۃ اﷲ ص۶۵)
*… ’’اور خداتعالیٰ میرے لئے اس کثرت سے نشان دکھلارہا ہے کہ اگر نوح ( علیہ السلام ) کے زمانہ میں وہ نشان دکھلائے جاتے تو وہ لوگ غرق نہ ہوتے۔‘‘ (تتمہ حقیقت الوحی ص۱۳۷، خزائن ج۲۲ ص۵۷۵)
*… ’’پس اس امت کا یوسف یعنی یہ عاجز (مرزا لعین) اسرائیلی یوسف( علیہ السلام ) سے بڑھ کر ہے۔ کیونکہ یہ عاجز قید کی دعا کر کے بھی قید سے بچایا گیا۔ مگر یوسف بن یعقوب( علیہ السلام ) قید میں ڈالا گیا۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۷۶، خزائن ج۲۱ ص۹۹)
*… ’’حدیث میں تو ہے کہ اگر موسیٰ وعیسیٰ ( علیہ السلام ) زندہ ہوتے۔ (حدیث میں صرف موسیٰ علیہ السلام کا ذکر ہے) تو آنحضرت( ﷺ) کے اتباع کے بغیر ان کو چارہ نہ ہوتا۔ مگر میں کہتا ہوں کہ مسیح موعود (مرزالعین) کے وقت میں بھی موسیٰ وعیسیٰ ( علیہ السلام ) ہوتے تو مسیح موعود (مرزالعین) کی ضرور اتباع کرنی پڑتی۔‘‘
(اخبار الفضل قادیان ج۳ نمبر۹۸، مورخہ ۱۸؍مارچ ۱۹۱۶ء)
*… ’’حضرت مسیح موعود (مرزالعین) کی اتباع میں، میں بھی کہتا ہوں کہ مخالف لاکھ چِلاّئیں کہ فلاں بات سے حضرت عیسیٰ( علیہ السلام ) کی ہتک ہوتی ہے۔ اگر رسول اﷲ ﷺ کی عزت قائم کرنے کے لئے حضرت عیسیٰ( علیہ السلام ) یا کسی اور کی ہتک ہوتی ہے تو ہمیں اس کی پرواہ نہیں ہوگی۔‘‘
(تقریر مرزابشیر محمود لعین، درلائل پور مندرجہ الفضل قادیان ج۲۱، نمبر۱۳۸، مورخہ ۲۰؍مئی ۱۹۳۴ء)
*… انبیاء گرچہ بودہ اند بسے
من بعرفاں نہ کمترم زکسے
(نزول المسیح ص۹۹، خزائن ج۱۸ ص۴۷۷)
ترجمہ: ’’اگرچہ دنیا میں بہت سارے نبی ہوئے ہیں۔ لیکن علم وعرفان میں میں کسی سے کم نہیں ہوں۔‘‘
*… ’’خدا تعالیٰ نے مجھے تمام انبیاء علیہم السلام کا مظہر ٹھہرایا ہے اور تمام نبیوں کے نام میری طرف منسوب کئے گئے ہیں۔ میں آدم ہوں۔ میں شیث ہوں، میں نوح ہوں، میں ابراہیم ہوں، میں اسحاق ہوں، میں اسماعیل ہوں، میں یعقوب ہوں، میں یوسف ہوں، میں موسیٰ ہوں، میں داؤد ہوں، میں عیسیٰ ہوں اور آنحضرت ﷺ کے نام کا میں مظہر ہوں۔ یعنی ظلی طور پر محمد اور احمد ہوں۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۷۲ حاشیہ، خزائن ج۲۲ ص۷۶)
حضرات انبیاء کرام علیہم السلام میں سے سیدنا مسیح علیہ السلام اپنی بعض خصوصیات کے پیش نظر امتیازی مقام کے حامل ہیں۔ اﷲتعالیٰ کی قدرت کاملہ سے بن باپ پیدا ہونا، ایک خاص موقع پر زندہ آسمان پر اٹھایا جانا، اور قرب قیامت میں دوبارہ دنیا میں واپسی، ایسی امتیازی خصوصیات ہیں۔ جن میں ان کا کوئی دوسرا سہیم وشریک نہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی مغضوب ومردود قوم یہود نے سب سے بڑھ کر سیدنا مسیح علیہ السلام اور ان کی پاک دامن وعفت مآب والدہ محترمہ سیدتنا مریم صدیقہ طاہرہ ’’سلام اﷲ تعالیٰ علیہا ورضو انہا‘‘ پر طرح طرح کے الزامات لگائے۔ انہیں اذیت پہنچائی۔ سیدنا مسیح علیہ السلام کے قتل کے منصوبے بنائے اور تکلیف واذیت کے حوالہ سے جو ہو سکا انہوں نے کیا۔
صدیوں بعد اس روایت کو قادیانی دہقان مرزاغلام احمد قادیانی نے دہرایا اور اپنی گستاخ وبے لگام قلم سے سیدنا مسیح علیہ السلام اور ان کی عظیم المرتبت والدہ کے خلاف وہ وہ بہتان طرازیاں کیں کہ یہود کی روح بھی شاید شرما اٹھی ہو۔ یہ بدزبانی اور دوں نہادی جس کا رویہ ہو، اسے شریف انسان کہنا بھی مشکل ہے۔ آئیں دیکھیں اس حوالہ سے کہ اس بدزبان نے کیا لکھا؟
*… ’’وہ (مسیح ابن مریم) ہر طرح عاجز ہی عاجز تھا۔ مخرج معلوم کی راہ سے جو پلیدی اور ناپاکی کا مبرز ہے۔ تولد پاکر مدت تک بھوک اور پیاس اور درد اور بیماری کا دکھ اٹھاتا رہا۔‘‘ (براہین احمدیہ ص۳۶۹ حاشیہ، خزائن ج۱ ص۴۴۱،۴۴۲)
*… آپ (حضرت عیسیٰ علیہ السلام ) کا خاندان بھی نہایت پاک اور مطہر ہے۔ تین دادیاں اور نانیاں آپ کی زنا کار اور کسبی عورتیں تھیں۔ جن کے خون سے آپ کا وجود ظہور پذیر ہوا۔ (ضمیمہ انجام آتھم ص۷ حاشیہ، خزائن ج۱۱ ص۲۹۱)
*… ’’مسیح( علیہ السلام ) کا چال چلن کیا تھا؟ ایک کھاؤ، پیو، نہ زاہد، نہ عابد، نہ حق کا پرستار، متکبر، خود بین، خدائی کا دعویٰ کرنے والا۔‘‘ (مکتوبات احمدیہ ج۳ ص۲۳تا۲۴)
*… ’’یورپ کے لوگوں کو جس قدر شراب نے نقصان پہنچایا ہے۔ اس کا سبب تو یہ تھا کہ عیسیٰ علیہ السلام شراب پیا کرتے تھے۔ شاید کسی بیماری کی وجہ سے یا پرانی عادت کی وجہ سے۔‘‘ (کشتی نوح ص۶۶ حاشیہ، خزائن ج۱۹ ص۷۱)
*… ’’ایک دفعہ مجھے ایک دوست نے یہ صلاح دی کہ ذیابیطس کے لئے افیون مفید ہوتی ہے۔ پس علاج کے لئے مضائقہ نہیں کہ افیون شروع کر دی جائے۔ میں نے جواب دیا کہ یہ آپ نے بڑی مہربانی کی کہ ہمدردی فرمائی۔ لیکن اگر میں ذیابیطس کے لئے افیون کھانے کی عادت کر لوں تو میں ڈرتا ہوں کہ لوگ ٹھٹھا کر کے یہ نہ کہیں کہ پہلا مسیح تو شرابی تھا اور دوسرا افیونی۔‘‘ (نسیم دعوت ص۶۹، خزائن ج۱۹ ص۴۳۴،۴۳۵)
*… ’’یسوع اس لئے اپنے تئیں نیک نہیں کہہ سکا کہ لوگ جانتے تھے کہ یہ شخص شرابی، کبابی ہے اور یہ خراب چال چلن نہ خدائی کے بعد بلکہ ابتداء ہی سے ایسا معلوم ہوتا ہے۔ چنانچہ خدائی کا دعویٰ شراب خوری کا ایک بد نتیجہ ہے۔‘‘
(ست بچن ص۱۷۲ حاشیہ، خزائن ج۱۰ ص۲۹۶)
*… ’’آپ (یسوع مسیح) کا کنجریوں سے میلان اور صحبت بھی شاید اسی وجہ سے ہو کہ جدی مناسبت درمیان ہے۔ ورنہ کوئی پرہیزگار انسان ایک جوان کنجری کو یہ موقع نہیں دے سکتا کہ وہ اس کے سر پر اپنے ناپاک ہاتھ لگا دے اور زنا کاری کی کمائی کا پلید عطر اس کے سر پر ملے اور اپنے بالوں کو اس کے پیروں پر ملے۔ سمجھنے والے سمجھ لیں کہ ایسا انسان کس چلن کا آدمی ہوسکتا ہے۔‘‘ (ضمیمہ انجام آتھم ص۷ حاشیہ، خزائن ج۱۱ ص۲۹۱)
*… ’’لیکن مسیح کی راست بازی اپنے زمانے میں دوسرے راست بازوں سے بڑھ کر ثابت نہیں ہوتی۔ بلکہ یحییٰ نبی کو اس پر فضیلت ہے۔ کیونکہ وہ شراب نہیں پیتا تھا اور کبھی نہیں سنا گیا کہ کسی فاحشہ عورت نے آکر اپنی کمائی کے مال سے اس کے سر پر عطر ملایا ہاتھوں اور سر کے بالوں سے اس کے بدن کو چھواء تھا یا کوئی بے تعلق جوان عورت اس کی خدمت کرتی تھی۔ اسی وجہ سے خدا نے قرآن میں یحییٰ کا نام حصور رکھا۔ مگر مسیح کا یہ نام نہ رکھا۔ کیونکہ ایسے قصے اس نام کے رکھنے سے مانع تھے۔‘‘ (مقدمہ دافع البلاء ص۴، حاشیہ، خزائن ج۱۸ ص۲۲۰)
*… ’’میرے نزدیک مسیح شراب سے پرہیز رکھنے والا نہیں تھا۔‘‘ (ریویو ج۱ ص۱۲۴، ۱۹۰۲ء)
*… ’’یہ بھی یاد رہے کہ آپ (عیسیٰ علیہ السلام ) کو کسی قدر جھوٹ بولنے کی بھی عادت تھی۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۵، خزائن ج۱۱ ص۲۸۹)
*… ’’عیسائیوں نے بہت سے آپ کے معجزات لکھے ہیں۔ مگر حق بات یہ ہے کہ آپ سے کوئی معجزہ نہیں ہوا۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۶ حاشیہ، خزائن ج۱۱ ص۲۹۰)
*… ’’مسیح کے معجزات اور پیش گوئیوں پر جس قدر اعتراض اور شکوک پیدا ہوتے ہیں۔ میں نہیں سمجھ سکتا کہ کسی اور نبی کے خوارق یا پیش خبریوں میں کبھی ایسے شبہات پیدا ہوئے ہوں۔ کیا تالاب کا قصہ مسیحی معجزات کی رونق دور نہیں کرتا؟‘‘
(ازالہ اوہام ص۶،۷، خزائن ج۳ ص۱۰۶)
*… ’’ممکن ہے کہ آپ (یسوع مسیح) نے معمولی تدبیر کے ساتھ کسی شب کور وغیرہ کو اچھا کیا ہو یا کسی اور بیماری کا علاج کیا ہو۔ مگر آپ کی بدقسمتی سے اسی زمانہ میں ایک تالاب بھی موجود تھا۔ جس سے بڑے بڑے نشان ظاہر ہوتے تھے۔ خیال ہوسکتا ہے کہ اس تالاب کی مٹی آپ بھی استعمال کرتے ہوں گے۔ اسی تالاب سے آپ کے معجزات کی پوری پوری حقیقت کھلتی ہے اور اسی تالاب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ اگر آپ سے کوئی معجزہ ظاہر ہوا ہو تو وہ آپ کا نہیں بلکہ اس تالاب کامعجزہ ہے اور آپ کے ہاتھ میں سوا مکر اور فریب کے اور کچھ نہ تھا۔‘‘ (ضمیمہ انجام آتھم ص۷ حاشیہ، خزائن ج۱۱ ص۲۹۱)
*… ’’خدا نے اس امت میں سے مسیح موعود بھیجا جو اس پہلے مسیح سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے اور اس دوسرے مسیح کا نام غلام احمد رکھا۔‘‘ (دافع البلاء ص۱۳، خزائن ج۱۸ ص۲۳۳)
*… ’’خدا نے اس امت میں سے مسیح موعود بھیجا جو اس پہلے مسیح سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے۔ مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر مسیح ابن مریم میرے زمانہ میں ہوتا تو وہ کام جو میں کر سکتا ہوں وہ ہرگز نہ کر سکتا اور وہ نشان جو مجھ سے ظاہر ہورہے ہیں وہ ہرگز نہ دکھلا سکتا۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۱۴۸، خزائن ج۲۲ ص۱۵۲)
*… ’’پھر جب کہ خدا نے اور اس کے رسول نے اور تمام نبیوں نے آخری زمانے کے مسیح کو اس کے کارناموں کی وجہ سے افضل قرار دیا ہے تو پھر یہ شیطانی وسوسہ ہے کہ یہ کہا جائے کہ کیوں تم مسیح ابن مریم سے اپنے تئیں افضل قرار دیتے ہو۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۱۵۵، خزائن ج۲۲ ص۱۵۹)
*… ’’اور اسلام نہ عیسائی مذہب کی طرح یہ سکھاتا ہے کہ خدا نے انسان کی طرح ایک عورت کے پیٹ سے جنم لیا اور نہ صرف نو مہینہ تک خونِ حیض کھا کر ایک گنہگار جسم سے جو ’’بنت سبع‘‘ اور ’’تمر‘‘ اور ’’راحاب‘‘ جیسی حرام کار عورتوں کے خمیر سے اپنی فطرت میں ابنیت کا حصہ رکھتا تھا۔ خون اور ہڈی اور گوشت کو حاصل کیا۔ بلکہ (مسیح)بچپن کے زمانہ میں جو جو بیماریوں کی صعوبتیں ہیں۔ جیسے خسرہ، چیچک، دانتوں کی تکالیف وغیرہ تکلیفیں وہ سب اٹھائیں اور بہت سا حصہ عمر کا معمولی انسانوں کی طرح کھو کر آخر موت کے قریب پہنچ کر خدائی یاد آگئی… وجہ یہ ہے کہ وہ (خداتعالیٰ) پہلے ہی اپنے فعل اور قول میں ظاہر کر چکا ہے کہ وہ ازلی ابدی اور غیرفانی ہے اور موت اس پر جائز نہیں۔ ایسا ہی یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ وہ کسی عورت کے رحم میں داخل ہوتا اور خون حیض کھاتا اور قریباً نو ماہ پورے کر کے سیر ڈیڑھ سیر کے وزن پر عورتوں کے پیشاب گاہ سے روتا چلّاتا پیدا ہو جاتا ہے اور پھر روٹی کھاتا اور پاخانہ جاتا اور پیشاب کرتا اور تمام دکھ اس فانی زندگی کے اٹھاتا ہے اور آخر چند ساعت جان کندنی کا عذاب اٹھا کر اس جہان فانی سے رخصت ہو جاتا ہے۔‘‘
(ست بچن ص۱۷۳، ۱۷۴، خزائن ج۱۰ ص۲۹۷،۲۹۸)
*… ’’مردمی اور رجولیت انسان کی صفات محمودہ میں سے ہیں۔ ہیجڑا ہونا کوئی اچھی صفت نہیں۔ جیسے بہرہ اور گونگا ہونا کسی خوبی میں داخل نہیں۔ ہاں یہ اعتراض بہت بڑا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام مردانہ صفات کی اعلیٰ ترین صفت سے بے نصیب محض ہونے کے باعث ازواج سے سچی اور کامل حسن معاشرت کا کوئی عملی نمونہ نہ دے سکے۔‘‘
(نور القرآن حصہ دوم ص۱۷، خزائن ج۹ ص۳۹۲)
اسلام اور مرزا قادیانی
’’اسلام اﷲ تعالیٰ کا آخری، سچا اور سدا بہار دین ہے جس کی تکمیل واتمام کا اعلان خود اﷲ رب العزت نے اپنی آخری وحی میں ’’حجتہ الوداع‘‘ کے موقع پر فرمایا۔ ساتھ ہی قرآن عزیز میں خالق کائنات نے واضح کیا کہ اس اسلام سے روگردانی کے دوسرے طریقے اور دھرم کے رسیا لوگوں کے لئے ذلت ونقصان کے سوا کچھ نہیں۔‘‘
لیکن قادیان کی گنجی کلچڑی کو دیکھیں اور اس کے لگے بندھنوں کو دیکھیں کہ وہ کس دیدہ دلیری اور ڈھٹائی وبے حیائی سے اسلام کی نفی کرتا ہے۔ محض اس لئے کہ اصل اسلام میں ان کا حصہ نہیں اور دوسری طرف وہ اپنے لایعنی، لغو اور بے ہودہ طریق اور خرافات کو اسلام قرار دیتا ہے۔ اسلام کی سچی، صحیح اور سدا بہار تصویر کے علی الرغم مرزا قادیانی کی خرافات سے بھرپور تحریرات کا ایک عکس ملاحظہ ہو۔
اسلام وہی جو مرزا کہے، مسلمان وہی جو مرزا کو مانے
’’جس اسلام میں آپ (مرزا قادیانی) پر ایمان لانے کی شرط نہ ہو اور آپ (مرزا) کے مسئلہ کا ذکر نہیں۔ اسے آپ (مرزا) اسلام ہی نہیں سمجھتے تھے۔‘‘ (اخبار الفضل قادیان ج۲، نمبر۸۵ مورخہ ۳۱دسمبر۱۹۱۴ء)
*… ’’پس اسلام کی تبلیغ کرو جو مسیح موعود (مرزا ملعون) لایا۔‘‘ (منصب خلافت ص۲۰ مرزا محمود)
*… ’’تجویز آئی کہ ایسا رسالہ شائع کریں جس میں مرزا قادیانی کا نام نہ ہو۔ مگر حضرت اقدس (مرزا قادیانی) نے اس تجویز کو اس بناء پر رد کردیا کہ مجھ کو چھوڑ کر کیا مردہ اسلام کو پیش کروگے۔‘‘
(اخبار الفضل قادیان ج۱۶، شمارہ ۳۲ مورخہ ۱۹؍اکتوبر۱۹۲۸ء)
*… ’’پس جس طرح حضرت موسیٰ کے وقت میں موسیٰ( علیہ السلام ) کی آواز اسلام کی آواز تھی اور حضرت عیسیٰ( علیہ السلام ) کے وقت میں عیسیٰ کی اور سیدنا ومولانا حضرت محمد ﷺ کی آواز اسلام کا صور تھا۔ اسی طرح آج قادیان سے بلند ہونے والی آواز اسلام کی آواز ہے۔‘‘ (اخبار الفضل قادیان ج۷، شمارہ ۹ مورخہ ۲۷؍مئی ۱۹۲۰ء)
*… ’’(مسلمان) خدا کے نزدیک مسلمان نہیں ہیں۔ بلکہ ضرورت ہے کہ ان کو نئے سرے سے مسلمان کیا جائے۔‘‘
(کلمتہ الفصل ص۱۴۳، ازبشیرایم اے)
*… ’’حضرت صاحب (مرزا) نے علماء مشائخ ہند کو جو خط لکھا اس میں سلام مسنون، بسم اﷲ وغیرہ نہیں لکھی۔ کیونکہ وہ مسلمان نہ تھے اور آپ (مرزاقادیانی) ان کو مسلمان نہ سمجھتے تھے۔ بلکہ کافر قرار دیتے تھے۔‘‘ (غرضیکہ کافروں کو سلام مسنون کہنا جائز نہیںناقل!) (اخبار الفضل قادیان ج۸، شمارہ ۴،۲۲؍جولائی ۱۹۲۰ء)
*… ’’مسیح موعود (مرزا قادیانی) کے منکروں کو مسلمان کہنا خبیث عقیدہ ہے۔ جو ایسا عقیدہ رکھتے اس کے لئے رحمت الٰہی کا دروازہ بند ہے۔‘‘ (کلمتہ الفصل ص۱۲۵)
حضرات صحابہ کرام علیہم الرضوان
حضرات انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام جیسے پاک باز وپاک طینت گروہ کے بعد اس دھرتی پر انسانی آبادی میں جو طبقہ سب سے بڑھ کر اﷲتعالیٰ کی رحمتوں کا مورد بنا وہ حضرات صحابہ کرام علیہم الرضوان کا ہے۔ قرآن عزیز اس گروہ پاک باز کو ’’اﷲ کی جماعت‘‘ قرار دیتا ہے۔ ایسی جماعت کہ کامیابیاں اس کا مقدر ہے اور وہ ہرحال میں کامیاب ہوکر رہے گی۔ اﷲتعالیٰ نے اس جماعت راشدہ صادقہ کو اپنی رضا کے سرٹیفکیٹ سے نوازا اور حضور نبی مکرم، رسول رحمت، خاتم النّبیین ﷺ نے اس جماعت راشدہ کو آسمان ہدایت کے ستارے قرار دیا اور فرمایا: ’’خبردار ان کو اذیت پہنچانا مجھے اذیت پہنچانا ہے اور مجھے اذیت پہنچانا اﷲ رب العزت کے غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔‘‘
حضور نبی مکرم ﷺ نے اس گروہ صفا پر طعن وتشنیع کرنے والوں کو اﷲتعالیٰ، اس کے فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت کا مستحق قرار دیا۔ لیکن اس دنیا میں ایسے بدبختوں اور نامرادوں کی کمی نہیں جو درسگاہ نبوت کے ان تربیت یافتہ رجال کار کے خلاف اپنی گز بھر لمبی زبانیں کھولتے ہیں۔ ایسے ہی نامرادوں میں ایک غلام احمد قادیانی ہے۔ جس کی سوقیانہ زبان اور بدبختی کے چند نمونے پیش نظر ہیں۔
*… ’’جیسا کہرضی اللہ عنہ ور درایت اچھی نہیں رکھتا تھا۔‘‘ (اعجاز احمدی ص۱۸، خزائن ج۱۹ ص۱۵)
*… ’’بعض کم تدبر کرنے والے صحابی(رضی اللہ عنہ ) جن کی درایت اچھی نہ تھی۔ جیسے ابوہریرہ(رضی اللہ عنہ )‘‘
(حقیقت الوحی ص۳۴، خزائن ج۲۲ ص۳۶)
*… ’’اکثر باتوں میں ابوہریرہ(رضی اللہ عنہ ) بوجہ اپنی سادگی اور کمی درایت کے ایسے دھوکہ میں پڑ جایا کرتا تھا… ایسے الٹے معنی کرتا تھا جس سے سننے والے کو ہنسی آتی تھی۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۳۴، خزائن ج۲۲ ص۳۶)
*… ’’اس کو چاہئے کہ ابوہریرہ(رضی اللہ عنہ ) کے قول کو ایک ردی متاع کی طرح پھینک دے۔‘‘
(ضمیمہ براہین حصہ پنجم ص۲۳۵، خزائن ج۲۱ ص۴۱۰)
*… ’’بعض نادان صحابی (رضوان اﷲ علیہم اجمعین) جن کو درایت سے کچھ حصہ نہ تھا۔‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۱۲۰، خزائن ج۲۱ ص۲۸۵)
*… ’’پرانی خلافت کا جھگڑا چھوڑ دو۔ اب نئی خلافت لو۔ ایک زندہ علی(رضی اللہ عنہ ) تم میں موجود ہے۔ تم اس کو چھوڑتے ہو اور مردہ علی (رضی اللہ عنہ ) کی تلاش کرتے ہو۔‘‘ (ملفوظات احمدیہ ج۱ ص۱۳۱)
*… ’’میں وہی مہدی ہوں جس کی نسبت ابن سیرین سے سوال کیاگیا کہ کیا وہ حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کے درجہ پر ہے۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ ابوبکررضی اللہ عنہ کیا وہ تو بعض انبیاء سے بہتر ہے۔‘‘
(اشتہار معیار الاخیار مندرجہ تبلیغ رسالت ج۹ ص۳۰، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۷۸)
*… ’’ابوبکررضی اللہ عنہ وعمررضی اللہ عنہ کیا تھے۔ وہ تو حضرت غلام احمد (ملعون) کی جوتیوں کے تسمے کھولنے کے بھی لائق نہ تھے۔‘‘ (ماہنامہ المہدی بابت جنوری، فروری ۱۹۱۵ء، ص۵۷)
*… ’’جو میری جماعت میں داخل ہوا وہ دراصل صحابہ کرامe کی جماعت میں داخل ہوگیا۔‘‘
(خطبہ الہامیہ طبع اوّل ص۱۷۱، خزائن ج۱۶ ص۲۵۸،۲۵۹)
*… ’’اور انہوں نے کہا کہ اس شخص (مرزاقادیانی) نے امام حسن(رضی اللہ عنہ ) وامام حسین(رضی اللہ عنہ ) سے اپنے تئیں اچھا سمجھا۔ میں کہتا ہوں ہاں، سمجھا۔‘‘ (اعجاز احمدی ص۵۲، خزائن ج۱۹ ص۱۶۴)
*… ’’میں (مرزاقادیانی) خدا کا کشتہ ہوں اور تمہارا حسین(رضی اللہ عنہ ) دشمنوں کا کشتہ ہے۔‘‘
(اعجاز احمدی ص۸۱، خزائن ج۱۹ ص۱۹۳)
*… ’’اے قوم شیعہ! تو اس پر مت اصرار کر کہ حسین(رضی اللہ عنہ ) تمہارا منجی ہے۔ کیونکہ میں سچ کہتا ہوں کہ آج تم میں ایک (مرزاقادیانی) ہے جو اس حسین(رضی اللہ عنہ ) سے بڑھا ہوا ہے۔‘‘ (دافع البلاء ص۱۳، خزائن ج۱۸ ص۲۳۳)
*… کربلائیست سیر ہر آنم
صد حسین است درگریبانم
(نزول المسیح ص۹۹، خزائن ج۱۸ ص۴۷۷)
*… ’’تم نے خدا کے جلال ومجد کو بھلا دیا اور تمہارا ورد صرف حسین(رضی اللہ عنہ ) ہے۔ پس یہ اسلام پر ایک مصیبت ہے۔ کستوری کے پاس گوہ (ذکر حسینرضی اللہ عنہ ) کا ڈھیر ہے۔‘‘ (اعجاز احمدی ص۸۲، خزائن ج۱۹ ص۱۹۴)
*… ’’حضرت فاطمہt نے کشفی حالت میں اپنی ران پر میرا سر رکھا اور مجھے دکھایا کہ میں اس میں سے ہوں۔‘‘
(ایک غلطی کا ازالہ ص۹ حاشیہ، خزائن ج۱۸ ص۲۱۳)
*… میری اولاد سب تیری عطا ہے
ہر ایک تیری بشارت سے ہوا ہے
یہ پانچوں جو کہ نسل سیدہ ہیں
یہی ہیں پنج تن جن پر بنا ہے
(درثمین اردو ص۴۵)
*… ’’حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) نے فرمایا ؎
کربلائیست سیر ہر آنم
صد حسین است در گریبانم
کہ میرے گریبان میں سو حسین(رضی اللہ عنہ ) ہیں۔ لوگ اس کے معنی یہ سمجھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) نے فرمایا ہے کہ میں سو حسین(رضی اللہ عنہ ) کے برابر ہوں۔ لیکن میں (مرزابشیرالدین) کہتا ہوں۔ اس سے بڑھ کر اس کا مفہوم یہ ہے کہ سو حسین(رضی اللہ عنہ ) کی قربانی کے برابر میری ہر گھڑی کی قربانی ہے۔‘‘
(مندرجہ الفضل قادیان ج۱۳ ش۸۰، مورخہ ۲۶؍جنوری ۱۹۲۶ء)
*… ’’ہاں وہ محمد ﷺ کا اکلوتا بیٹا (مرزاقادیانی) جس کے زمانہ پر رسولوں نے ناز کیا۔‘‘ (کلمتہ الفصل ص۱۰۱)
*… ’’میری (مرزاقادیانی کی) اولاد شعائر اﷲ میں داخل ہے۔‘‘
(مندرجہ الفضل قادیان ج۱۱ نمبر۵۳، مورخہ ۸؍جنوری ۱۹۲۶ء)
*… ’’عزیز ’’امۃ الحفیظ‘‘ (مرزاقادیانی کی لڑکی) سارے انبیاء کی بیٹی ہے۔‘‘
(الفضل قادیان ج۲ نمبر۱۵۶، مورخہ ۱۷؍جون ۱۹۱۵ء)
*… ’’مرزاقادیانی ملعون کی گھروالی ’’ام المؤمنین‘‘ ہے۔‘‘ (سیرۃ المہدی حصہ سوم ص۱۳۱، روایت نمبر۶۹۶)
اﷲتعالیٰ نے انسانیت کی ہدایت کے لئے جہاں سلسلۂ نبوت قائم فرمایا اور اس کا اختتام حضرت محمد کریم ﷺ پر کر دیا۔ وہاں مختلف اوقات میں کتابیں بھی نازل فرمائیں۔ اس سلسلۂ کتب کی آخری کڑی قرآن مجید اور فرقان حمید ہے جو اﷲتعالیٰ کی طرف سے اس کے بندوں کے لئے رحمت، ہدایت اور شفاء ہے۔
جس کی حفاظت وصیانت کا وعدہ خود حضرت حق جل وعلیٰ مجدہ نے کیا۔ جس کی آیات کے سامنے بڑے بڑے زبان آور دم بخود رہ گئے اور اس کی ایک آیت کا مقابلہ کرنے کی تاب نہ لاسکے۔
یہ عظیم کتاب صدیوں سے اپنی عظمت کا لوہا منوارہی ہے۔ مرزاقادیانی کی سرپرست برطانوی سرکار نے اسے مٹانے کی عجیب احمقانہ تدابیر کیں۔ لیکن منہ کی کھائی۔ ’’عربی مبین‘‘ میں نازل ہونے والی اس کتاب کے بالمقابل قادیانی گنوار نے اپنی وحی والہام کا جس طرح ڈھونگ رچایا اور اسے قرآن سے برتر وبالا قرار دیا اور جابجا فخریہ اس کا اظہار کیا وہ ایسی ناروا جسارت ہے جس پر آسمان ٹوٹ پڑے اور زمین پھٹ جائے تو عجب نہیں۔
قرآن کے بالمقابل خرافاتی الہام کے لئے مرزاقادیانی کی تحریرات دیکھیں اور سوچیں کہ آیا یہ شخص صحیح الدماغ تھا یا اس کا ذہنی توازن خراب تھا؟
*… آنچہ من بشنوم زوحی خدا
بخدا پاک دامنش زخطا
ہمچو قرآن منزہ اش دانم
از خطاہا ہمینست ایمانم
بخدا ہست ایں کلام مجید
از دہاں خدائے پاک و وحید
ترجمہ: ’’جو کچھ میں اﷲ کی وحی سے سنتا ہوں۔ خدا کی قسم اسے ہر قسم کی خطا سے پاک سمجھتا ہوں… قرآن کی طرح میری وحی خطاؤں سے پاک ہے۔ یہ میرا ایمان ہے… خدا کی قسم یہ کلام مجید ہے خدائے پاک وحدہ کے منہ سے۔‘‘
(نزول المسیح ص۹۹، خزائن ج۱۸ ص۴۷۷)
*… مرزاقادیانی نے اپنا الہام لکھا کہ: ’’
ما انا الا کا لقراٰن
‘‘ (تذکرہ ص۶۷۴، طبع سوم)
’’قرآن خدا کی کتاب اور میرے (مرزاقادیانی کے) منہ کی باتیں ہیں۔‘‘ (تذکرہ ص۶۴۱، طبع سوم)
*… ’’میرے اس دعویٰ کی بنیاد حدیث نہیں بلکہ قرآن اور وہ وحی ہے جو میرے پر نازل ہوئی۔ ہاں تائیدی طور پر ہم وہ حدیثیں پیش کرتے ہیں جو قرآن شریف کے مطابق اور میری وحی کے معارض نہیں اور دوسری حدیثوں کو ہم ردی کی طرح پھینک دیتے ہیں۔‘‘ (اعجاز احمدی ص۳۵، خزائن ج۱۹ ص۱۴۰)
*… ’’پھر اقرار کرنا پڑے گا کہ قرآن شریف میں گندی گالیاں بھری ہیں اور قرآن عظیم سخت زبانی کے طریق کو استعمال کر رہا ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۲۸ حاشیہ، خزائن ج۳ ص۱۱۶)
*… ’’میں قرآن کی غلطیاں نکالنے آیا ہوں جو تفسیروں کی وجہ سے واقع ہو گئی ہیں۔‘‘ ایک مجذوب کا کشف۔
(ازالۃ الاوہام ص۷۰۸، خزائن ج۳ ص۴۸۲)
*… ’’قرآن زمین پر سے اٹھ گیا تھا میں قرآن کو آسمان پر سے لایا ہوں۔‘‘ بموجب حدیثوں کے۔
(ازالہ اوہام ص۷۳۱، خزائن ج۳ ص۴۹۳)
*… ’’میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں ان الہامات پر اسی طرح ایمان لاتا ہوں جیسا کہ قرآن شریف پر اور خدا کی دوسری کتابوں پر اور جس طرح میں قرآن شریف کو یقینی اور قطعی طور پر خدا کا کلام جانتا ہوں اسی طرح اس کلام کو بھی جو میرے پر نازل ہوتا ہے خدا کا کلام یقین کرتا ہوں۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۲۱۱، خزائن ج۲۲ ص۲۲۰)
*… ’’یہی وجہ ہے کہ مرزاقادیانی پر خودساختہ نازل ہونے والی وحی کے مجموعہ کلام کا نام ’’تذکرہ‘‘ رکھا۔ حالانکہ قرآن مجید کا ایک نام (تذکرہ) بھی ہے۔ ’’
کَلَّا اِنَّہَا تَذْکِرَۃ
‘‘
*… ’’یہ بھی مدت سے الہام ہوچکا ہے کہ: ’’
اِنَّا اَنْزَلْنَاہٗ قَرِیْبًا مِّنَ الْقَادِیَانِ
‘‘ میں نے دل میں کہا کہ واقعی طور پر قادیان کا نام قرآن شریف میں درج ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۷۷، خزائن ج۳ ص۱۴۰)
حرمین شریفین زادہما اﷲ شرفاً وتعظیماً
امت مسلمہ اس حقیقت کو بدل وجان تسلیم کرتی ہے کہ حرمین شریفین (مکہ مکرمہ اور مدینہ طیبہ) زادہما اﷲ شرفاً وتعظیماً کائنات ارضی کے سب سے محترم، مبارک اور مقدس قطعات ہیں۔ رب العزت کی تجلیات کا مرکز ارض حرم ہے تو اس کی رحمتوں کے نزول کی جگہ ارض مدینہ، جہاں کائنات کا سب سے عظیم انسان محو استراحت ہے۔
حج بیت اﷲ… اسلام کے ارکان خمسہ میں سے ایک ہے۔ جو عشق وجنون کا سفر ہے اور جس میں حضرت حق کے بندے اپنی نیاز مندی کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہیں۔ محمد عربی علیہ السلام کے سچے امتیوں کے لئے ارض مدینہ کی زیارت بھی گویا اس مبارک سفر کا ایک حصہ ہے۔
لیکن دیکھیں کہ مرزاقادیانی جیسے شاطر، فریبی اور دولت انگلشیہ کے ایجنٹ نے کس طرح ان پاک شہروں کی توہین کی۔ اپنی جنم بھومی قادیان کا ان سے کس طرح جوڑ جوڑا بلکہ اسے قرآن میں مندرج قراردے کر اسے مکہ ومدینہ سے بھی بہتر وافضل قرار دیا اور قادیان ہی کی زیارت کو حج سے تعبیر کر کے بیت اﷲ اور مناسک حج کی توہین کی۔
آسماں راحق بود گر خوں بادد بر زمیں
*… ’’حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) نے اس کے متعلق بڑا زور دیا ہے کہ جو باربار یہاں نہ آئے مجھے ان کے ایمان کا خطرہ ہے۔ پس جو قادیان سے تعلق نہیں رکھے گا وہ کاٹا جائے گا۔ تم ڈرو کہ تم سے نہ کوئی کاٹا جائے پھر یہ تازہ دودھ کب تک رہے گا۔ آخر ماؤں کا دودھ بھی سوکھ جایا کرتا ہے۔ کیا مکہ اور مدینہ کی چھاتیوں سے یہ دودھ سوکھ گیا کہ نہیں؟‘‘
(مندرجہ حقیقت رؤیا ص۴۶)
*… زمین قادیاں اب محترم ہے
ہجوم خلق سے ارض حرم ہے
(درثمین اردو کلام مرزا ص۵۲)
*… ’’مقام قادیان وہ مقام ہے جس کو خداتعالیٰ نے تمام دنیا کے لئے ناف کے طور پر فرمایا۔ (حالانکہ یہ مکہ مکرمہ بیت اﷲ شریف کے لئے ہے۔ ناقل) اور اس کو تمام جہانوں کے لئے ام قرار دیا ہے۔‘‘
(خطبہ بشیر محمود، الفضل قادیانی مورخہ ۳؍جنوری ۱۹۲۵ء)
*… ’’تین شہروں کا نام قرآن شریف میں اعزاز کے ساتھ لکھا ہوا ہے۔ مکہ، مدینہ اور قادیان۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۷۷ حاشیہ، خزائن ج۳ ص۱۴۰)
*… ’’ہم مدینہ کی عزت کر کے خانہ کعبہ کی ہتک کرنے والے نہیں ہو جاتے۔ اسی طرح قادیان کی عزت کر کے ’’مکہ معظمہ‘‘ یا ’’مدینہ منورہ‘‘ کی توہین کرنے والے نہیں ہوسکتے۔ خداتعالیٰ نے ان تینوں مقامات (مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، قادیان) کو مقدس کیا اور ان تینوں مقامات کو اپنی تجلیات کے لئے چن لیا۔‘‘ (الفضل قادیان مورخہ ۳؍ستمبر ۱۹۳۵ء)
*… ’’قادیان کیا ہے؟ خدا کے جلال اور اس کی قدرت کا چمکتا ہو انشان ہے… قادیان خدا کے مسیح (مرزاقادیانی کا مولد ومسکن اور مدفن ہے)‘‘ (الفضل قادیان مورخہ ۱۳؍دسمبر ۱۹۲۹ء)
*… ’’میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ اﷲتعالیٰ نے مجھے بتادیا ہے کہ قادیان کی زمین بابرکت ہے۔ یہاں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ والی برکات نازل ہوتی ہیں۔‘‘ (الفضل قادیان مورخہ ۱۱؍دسمبر ۱۹۳۲ء)
*… ’’حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) نے فرمایا کہ جو لوگ قادیان نہیں آتے۔ مجھے ان کے ایمان کا خطرہ رہتا ہے۔‘‘ (انوار خلافت ص۱۱۷)
*… عرب نازاں گر ارض حرم پر ہے
تو ارض قادیان فخر عجم ہے
(الفضل قادیان مورخہ ۲۵؍دسمبر ۱۹۳۲ء)
*… ’’والمسجد الاقصیٰ المسجد الذی بناہ المسیح الموعود فی القادیان‘‘ مسجد اقصیٰ وہ مسجد ہے جو مسیح موعود (مرزاقادیانی) نے قادیان میں بنائی۔ (ضمیمہ خطبہ الہامیہ ص۲۵، خزائن ج۱۶ ص ایضاً)
*… ’’ومن دخلہ کان اٰمنا‘‘ قادیان کی مسجد جائے امن ہے۔
(تبلیغ رسالت ص۱۵۳ ج۶، مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۴۵۲)
*… ’’سُبْحٰنَ الَّذِیْ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلٰی الْمَسْجِدِ الْاَقْصٰی‘‘ مسجد اقصیٰ سے مراد مسیح موعود (مرزاقادیانی) کی مسجد ہے جو قادیان میں واقع ہے۔ (خطبہ الہامیہ ص ۲۱، خزائن ج۱۶ ص۲۱)
*… ’’ہمار اجلسہ بھی حج کی طرح ہے، جیسا کہ حج میں رفث، فسوق اور جدال منع ہے۔‘‘ (خطبہ محمود مندرجہ برکات خلافت ص ۵)
*… ’’جیسے احمدیت کے بغیر یعنی مرزاقادیانی کو چھوڑ کر جو اسلام باقی رہ جاتا ہے۔ وہ خشک اسلام ہے۔ اسی طرح اس ظلی حج (جلسہ قادیان) کو چھوڑ کر مکہ والا حج بھی خشک رہ جاتا ہے۔‘‘ (پیغام صلح مورخہ ۱۹؍اپریل ۱۹۳۳ء)
*… ’’لوگ معمولی اور نفلی طور پر حج کرنے کو بھی جاتے ہیں۔ مگر اس جگہ (قادیان میں) ثواب زیادہ ہے اور غافل رہنے میں نقصان اور خطر۔ کیونکہ سلسلہ آسمانی ہے اور حکم ربانی ہے۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام ص۳۵۲، خزائن ج۵ ص ایضاً)
علماء واولیاء امت
حضرات علماء کرام اور اولیاء عظام اﷲتعالیٰ کی انسانی مخلوق کا نہایت بیش قیمت حصہ ہے۔ ایسا حصہ جسے اﷲ رب العزت نے خود اپنا دوست قرار دیا۔ انہیں ایمان وتقویٰ کا علمبردار بتلایا اور واضح فرمایا کہ دنیا وآخرت میں ہر قسم کی بشارتیں ان کے لئے ہیں۔ اہل علم کے لئے قرآن وسنت میں جابجا تعریف آمیز کلمات ہیں اور کیوں نہ ہو کہ علم نور ہے۔ اﷲتعالیٰ کی صفت ہے۔ اس سے کسی کو حصہ ملنا بڑی ہی سعادت ہے۔علماء کی توہین وتذلیل کو حضور نبی کریم ﷺ نے بدترین جرم قرار دیا اور ایسے لوگوں کے متعلق واضح کیا کہ ان لوگوں کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔
لیکن صدہزار حیف اس قادیانی مردود پر کہ اس نے قریب العہد اور قریب العصر نامور علماء اور صلحاء کا نام لے لے کر انہیں مغلظات سنائیں اور برا بھلا کہا۔ بھلا ایسا آدمی اس قابل ہے کہ اسے کوئی منہ لگائے۔
حیرت ہے ان لوگوں پر جو اس ذات شریف کو نبی بنا کر بیٹھے ہیں۔
کار شیطان می کند نامش نبی
گر نبی ایں است لعنت بر نبی
*… سیدنا پیر مہر علی شاہ گولڑوی کے متعلق لکھا: ’’مجھے (مرزاقادیانی) ایک کتاب کذاب کی طرف سے پہنچی ہے۔ وہ خبیث کتاب بچھو کی طرح نیش زن ہے۔ پس میں نے کہا کہ اے گولڑہ کی زمین تجھ پر لعنت ہو تو ملعون (پیر صاحب) کے سبب سے ملعون ہوگی۔ پس تو قیامت کو ہلاکت میں پڑے گی۔‘‘ (اعجاز احمدی ص۷۵، خزائن ج۱۹ ص۱۸۸)
*… ’’لومڑی کی طرح بھاگتا پھرتا ہے… جاہل بے حیا۔‘‘ (نزول المسیح ص۶۳، خزائن ج۱۸ ص۴۴۱)
*… اہل حدیث رہنما مولانا محمد حسین بٹالوی کے متعلق لکھا کہ: ’’کذاب، متکبر، سربراہ گمراہان، جاہل، شیخ احمقان، عقل کا دشمن، بدبخت، طالع، منحوس، لاف زن، شیطان، گمراہ شیخ مفتری۔‘‘ (انجام آتھم ص۲۴۱، ۲۴۳، خزائن ج۱۱ ص ایضاً)
*… مولانا نذیر حسین دہلوی کے متعلق لکھا کہ: ’’وہ گمراہ اور کذاب ہے۔‘‘ (انجام آتھم ص۲۵۱، خزائن ج۱۱ ص ایضاً)
*… ’’مولانا عبدالحق دہلوی کے متعلق لکھا کہ وہ لاف زنوں کا رئیس ہے۔ اسی طرح مولانا عبداﷲ ٹونکی، مولانا احمد علی محدث سہارنپوری کو بھی۔‘‘ (انجام آتھم ص۲۵۱، خزائن ج۱۱ ص ایضاً)
*… مولانا علی حائری شیعہ رہنما کے متعلق کہا کہ: ’’سب سے جاہل ہے۔‘‘ (اعجاز احمدی ص۷۴، خزائن ج۱۹ ص۱۸۶)
*… مولانا ثناء اﷲ امرتسری کو عورتوں کی عار کہا۔ (اعجاز احمدی ص۸۳، خزائن ج۱۹ص۱۹۶)
*… مولانا رشید احمد گنگوہی کے متعلق لکھا کہ: ’’اندھا شیطان، گمراہ، دیو، شقی، ملعون۔‘‘
(انجام آتھم ص۲۵۲، خزائن ج۱۱ ص ایضاً)
*… ’’ہمارے مخالف سخت شرمندہ اور لاجواب ہوکر آخر کو یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ ہمارے بزرگ ایسا ہی کہتے چلے آئے ہیں۔ نہیں سوچتے کہ وہ بزرگ معصوم نہ تھے۔ بلکہ جیسا کہ یہودیوں کے بزرگوں نے پیش گوئیوں کے سمجھنے میں ٹھوکر کھائی۔ ان بزرگوں نے بھی ٹھوکر کھائی۔‘‘ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۱۲۴، خزائن ج۲۱ ص۲۹۰)
*… ’’میں خاتم الاولیاء ہوں۔ میرے بعد کوئی ولی نہیں۔ مگر وہ جو مجھ سے ہوگا۔‘‘
(خطبہ الہامیہ ص۳۵، خزائن ج۱۶ ص۷۰)
*… ’’جس قدر مجھ سے پہلے اولیاء، ابدال اور اقطاب اس امت میں سے گزر چکے ہیں۔ میں ان سب سے افضل ہوں۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۳۹۱، خزائن ج۲۲ ص۴۰۶)
*… ’’حضرت مرزاصاحب جمیع اہل بیت طیبین، طاہرین کہ اس میں دیگر اولیاء اﷲ ومجددین امت بھی شامل ہیں۔ ان سب سے بڑھ گئے۔ جو کچھ ان میں متفرق تھا۔ وہ آپ میں مجموعی طور پر آگیا۔‘‘
(الفضل قادیان ج۳ ص۱۰۷، مورخہ ۱۸؍اپریل ۱۹۷۶ء)
*… ’’سو یہ عاجز (مرزاقادیانی) بیان کرتا ہے۔ نہ فخرکے طریق پر بلکہ واقعی طور پر ’’شکراً نعمۃ اﷲ‘‘ کہ اس عاجز کو خداتعالیٰ نے ان ہستیوں پہ فضیلت بخشی کہ جو حضرت مجدد صاحب (الف ثانیK) سے بھی بہتر ہیں۔‘‘
(حیات احمد ج۲ نمبر۲ ص۷۹)
جملہ مخالفین کے خلاف
انبیاء علیہم السلام دنیا میں اﷲتعالیٰ کے نمائندے ہوتے ہیں۔ وہ اپنے حلقۂ نبوت کی دنیا کو حق کی طرف بلاتے اور دعوت دیتے ہیں۔ کچھ ان کی مان کر حلقۂ اسلام میں آجاتے ہیں تو کچھ نامرادی کا طوق گلے میں باندھ لیتے ہیں۔
انبیاء کے اخلاق اتنے عظیم اور بلند ہوتے ہیں کہ اپنے بدترین مخالفین کے خلاف بھی کبھی بدزبانی نہیں کرتے۔ یہ بات نبوت کے مقام سے بہت فروتر ہے۔ لیکن غلام ہندوستان میں غیروں کی ضروریات کی تکمیل کے لئے نبوت کا ڈھونگ رچانے والے مرزاغلام احمد قادیانی نے اپنے مخالفین کے خلاف جو زبان استعمال کی وہ اس کا سب سے بڑا ثبوت ہے کہ مرزاقادیانی کا مقام انسانیت سے بھی کوئی تعلق نہیں۔
*… یہ الہام شائع کیا کہ: ’’جو شخص تیری پیروی نہیں کرے گا اور تیری بیعت میں داخل نہیں ہوگا۔ وہ خدا ورسول کی نافرمانی کرنے والا جہنمی ہے۔‘‘ (اشتہارمندرجہ تبلیغ رسالت ج۹ ص۲۷،مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۷۵)
*… اسی طرح مرزاغلام احمد قادیانی نے یہ اعلان بھی کیا کہ: ’’اب دیکھو خد انے میری وحی اور میری تعلیم اور میری بیعت کو نوح کی کشتی قرار دیا اور تمام انسانوں کے لئے اس کو مدار نجات ٹھہرایا۔‘‘ (اربعین نمبر۴ ص۶ حاشیہ، خزائن ج۱۷ ص۴۳۵)
تمام مسلمانوں کے لئے فتویٰ کفر
’’کل مسلمان جو حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) کی بیعت میں شامل نہیں ہوئے۔ خواہ انہوں نے حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) کا نام بھی نہیں سنا۔ وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔‘‘ (آئینہ صداقت ص۳۵)
*… ’’ایسا شخص جو موسیٰ( علیہ السلام ) کو مانتا ہے مگر عیسیٰ( علیہ السلام ) کو نہیں مانتا یا عیسیٰ( علیہ السلام ) کو مانتا ہے مگر محمد( ﷺ) کو نہیں مانتا یا محمد( ﷺ) کو مانتا ہے مگر مسیح موعود (مرزاقادیانی) کو نہیں مانتا وہ نہ صرف کافر بلکہ پکا کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔‘‘ (کلمتہ الفصل ص۱۱۰، مندرجہ ریویو ج۱۴، ماہ مارچ،اپریل ۱۹۱۵ء)
*… ’’جو میرے مخالف تھے۔ ان کا نام عیسائی، یہودی اور مشرک رکھاگیا۔‘‘
(نزول المسیح ص۴ حاشیہ، خزائن ج۱۸ ص۳۸۲)
*… ’’جو ہماری فتح کا قائل نہ ہوگا تو صاف سمجھا جائے گا کہ اس کو ولد الحرام بننے کا شوق ہے اور حلال زادہ نہیں۔‘‘
(انوارالاسلام ص۳۰، خزائن ج۹ ص۳۱)
*… ’’میرے مخالف جنگلوں کے سؤر ہوگئے اور ان کی عورتیں کتیوں سے بڑھ گئیں۔‘‘ (نجم الہدیٰ ص۵۳، خزائن ج۱۴ ص ایضاً)
*… ’’تحریک احمدیت اسلام کے ساتھ وہی رشتہ رکھتی ہے جو عیسائیت کا یہودیت کے ساتھ تھا۔‘‘
(محمد علی قادیانی منقول از مباحثہ راولپنڈی ص۲۴۰)
*… ’’کفر دو قسم پر ہے۔ ایک کفر یہ ہے کہ ایک شخص اسلام سے انکار کرتا ہے اور آنحضرت ﷺ کو خدا کا رسول نہیں مانتا۔ دوسرے یہ کفر کہ مثلاً وہ مسیح موعود (مرزاقادیانی) کو نہیں مانتا اور اس کو باوجود اتمام حجت کے جھوٹا جانتا ہے۔ جس کے ماننے اور سچا جاننے کے بارے میں خدا اور رسول نے تاکید کی ہے… اور پہلے نبیوں کی کتاب میں بھی تاکید پائی جاتی ہے۔ پس اس لئے کہ وہ خدا اور رسول کے فرمان کا منکر ہے۔ کافر ہے اور اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ دونوں قسم کے کفر ایک ہی قسم میں داخل ہیں۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۱۷۹، خزائن ج۲۲ ص۱۸۵)
*… ’’میری ان کتابوں کو ہر مسلمان محبت کی نظر سے دیکھتا ہے اور اس کے معارف سے فائدہ اٹھاتا ہے اور میری دعوت کی تصدیق کرتا ہے اور اسے قبول کرتا ہے۔ مگر رنڈیوں (بدکارعورتوں) کی اولاد نے میری تصدیق نہیں کی۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام ص۵۴۷، خزائن ج۵ ص ایضاً)
ل عبارت عربی میں ہے۔ اس کا ترجمہ ہم نے لکھا ہے۔ مرزاقادیانی کے الفاظ یہ ہیں۔ ’’
الا ذریۃ البغایا
‘‘ عربی کا لفظ ’’
البغایا
‘‘ جمع کا صیغہ ہے۔ واحد اس کا ’’
بغیہ
‘‘ہے۔ جس کا معنی بدکار، فاحشہ، زانیہ ہے۔ خود مرزاقادیانی نے (خطبہ الہامیہ ص۱۷، خزائن ج۱۶ ص۴۹) میں لفظ ’’
بغایا
‘‘ کا ترجمہ بازاری عورتیں کیا ہے اور ایسے ہی (انجام آتھم ص۲۸۲، خزائن ج۱۱ ص ایضاً، نور الحق حصہ اوّل ص۱۲۳، خزائن ج۸ ص۱۶۳) میں لفظ ’’
بغایا
‘‘ کا ترجمہ نسل بدکاران، زناکار، زن بدکار وغیرہ کیا ہے۔
*… ’’خداتعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا ہے کہ ہر ایک شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا وہ مسلمان نہیں ہے۔‘‘ (تذکرہ ص۶۰۷، طبع سوم)
مسلمانوں سے معاشرتی بائیکاٹ
مرزائیوں کا عجیب معاملہ ہے کہ وہ ایک طرف تو مسلمانوں سے یہ تقاضا کرتے ہیں کہ انہیں اپنا حصہ سمجھا جائے۔ انہیں برابر کے حقوق ملیں اور مسلمان معاشرتی زندگی میں ان سے مل جل کر رہیں۔ اس کو آپ حقیقت کا نام دیں گے یا منافقت کا کہ ان کی یہ جملہ خواہشیں اور جملہ تقاضے ان کے گرو اور ان کے پسماندگان کی تعلیمات کے خلاف ہیں۔
مرزائی دنیا کی تحریرات میں شادی بیاہ سے لے کر جنازہ اور تدفین تک جملہ معاملات میں بائیکاٹ اور انقطاع کی تعلیم ہے اور اس پر بھرپور زور دیا گیا ہے کہ مسلمانوں سے کسی قسم کا معاملہ نہ رکھیں۔ حتیٰ کہ ان کے معصوم بچوں کا جنازہ تک نہ پڑھیں۔
سوال یہ ہے کہ جب مرزاغلام احمد قادیانی اور اس کے خلفاء کی تعلیمات یہ ہیں تو پھر وہ مسلمانوں سے باہمی روابط کا کیوں مطالبہ اور تقاضا کرتے ہیں۔ ان دوغلے اور منافقانہ رول کا اندازہ کرنے کے لئے درج ذیل تحریرات سب سے بڑا ثبوت ہیں۔
*… ’’حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) نے اس احمدی پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ جو اپنی لڑکی غیراحمدی کو دے۔ آپ سے ایک شخص نے باربار پوچھا اور کئی قسم کی مجبوریوں کو پیش کیا۔ لیکن آپ نے یہی فرمایا کہ لڑکی کو بٹھائے رکھو۔ لیکن غیراحمدیوں میں نہ دو۔ آپ کی وفات کے بعد اس نے غیراحمدیوں کو لڑکی دے دی تو حضرت خلیفہ اوّل حکیم نورالدین نے اس کو احمدیوں کی امامت سے ہٹا دیا اور جماعت سے خارج کر دیا اور اپنی خلافت کے چھ سالوں میں اس کی توبہ قبول نہ کی۔ باوجود کہ وہ باربار توبہ کرتا رہا۔‘‘ (انوار خلافت ص۹۳،۹۴)
*… ’’حضرت مسیح موعود کا حکم اور زبردست حکم ہے کہ کوئی احمدی غیراحمدی کو اپنی لڑکی نہ دے۔ اس کی تعمیل کرنا بھی ہر احمدی کا فرض ہے۔‘‘ (برکات خلافت، مجموعہ تقاریر محمود ص۷۵)
*… ’’پانچویں بات جو کہ اس زمانہ میں ہماری جماعت کے لئے نہایت ضروری ہے۔ وہ غیراحمدی کو رشتہ دینا ہے۔ جو شخص غیراحمدی کو رشتہ دیتا ہے۔ وہ یقینا حضرت مسیح موعود کو نہیں سمجھتا اور نہ یہ جانتا ہے کہ احمدیت کیا چیز ہے؟ کیا کوئی غیراحمدیوں میں ایسا بے دین ہے جو کسی ہندو یا عیسائی کو اپنی لڑکی دے دے۔ ان لوگوں کو تم کافر سمجھتے ہو۔ مگر اس معاملہ میں وہ تم سے اچھے رہے کہ کافر ہوکر بھی کسی کافر کو لڑکی نہیں دیتے۔ مگر احمدی کہلا کر کافر کو دے دیتے ہو۔‘‘ (ملائکۃ اﷲ ص۴۶)
’’ہم تو دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) نے غیراحمدیوں کے ساتھ صرف وہی سلوک جائز رکھا ہے جو نبی کریم ﷺ نے عیسائیوں کے ساتھ کیا۔ غیراحمدیوں سے ہماری نمازیں الگ کی گئیں۔ ان کو لڑکیاں دینا حرام قرار دیا گیا۔ ان کے جنازے پڑھنے سے روکا گیا… دینی تعلقات کا سب سے بڑا ذریعہ عبادت کا اکٹھا ہونا ہے اور دنیوی تعلقات کا بھاری ذریعہ رشتہ ناطہ ہے۔ سو یہ دونوں ہمارے لئے حرام قرار دئیے گئے۔ اگر کہو کہ ہم کو ان کی لڑکیاں لینے کی اجازت ہے تو میں کہتا ہوں کہ نصاریٰ کی لڑکیاں لینے کی اجازت ہے۔‘‘ (کلمتہ الفصل ج۱۴ نمبر۴ ص۱۶۹)
*… ’’صبر کرو اور اپنی جماعت کے غیر کے پیچھے نماز مت پڑھو۔‘‘
(قول مرزاغلام احمد قادیانی مندرجہ اخبار الحکم قادیان مورخہ ۱۰؍اگست ۱۹۰۱ء)
*… ’’پس یاد رکھو جیسا کہ خدا نے مجھے اطلاع دی ہے۔ تمہارے پر حرام اور قطعی حرام ہے کہ کسی مکفّر اور مکذب یا متردد کے پیچھے نماز پڑھو۔ بلکہ چاہئے کہ تمہارا امام وہی ہو جو تم میں ہو۔‘‘ (اربعین نمبر۳ ص۲۸ حاشیہ، خزائن ج۱۷ ص۴۱۷)
*… ’’ہمارا یہ فرض ہے کہ غیراحمدیوں کو مسلمان نہ سمجھیں اور نہ ان کے پیچھے نماز پڑھیں۔ کیونکہ ہمارے نزدیک وہ خداتعالیٰ کے ایک نبی کے منکر ہیں۔‘‘ (انوار خلافت ص۹۰)
*… ’’غیراحمدی مسلمانوں کا جنازہ پڑھنا جائز نہیں۔ حتیٰ کہ غیراحمدی معصوم بچے کا بھی جائز نہیں۔‘‘
(انوار خلافت ص۹۳، الفضل قادیان مورخہ ۲۱؍اگست ۱۹۱۷ء، مورخہ ۳۰؍جولائی ۱۹۳۱ء)
*… نیز معلوم عام بات ہے کہ چوہدری ظفر اﷲ خان وزیر خارجہ پاکستان، قائداعظم محمد علی جناح کی نماز جنازہ میں شریک نہیں ہوا اور الگ بیٹھا رہا۔ جب اسلامی اخبارات اور مسلمان اس چیز کو منظر عام پر لائے تو جماعت احمدیہ کی طرف سے جواب دیا گیا کہ: ’’جناب چوہدری محمد ظفر اﷲ خان صاحب پر ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ آپ نے قائداعظم کا جنازہ نہیں پڑھا۔ تمام دنیا جانتی ہے کہ قائداعظم احمدی نہ تھے۔ لہٰذا جماعت احمدیہ کے کسی فرد کا ان کا جنازہ نہ پڑھنا کوئی قابل اعتراض بات نہیں۔‘‘
(ٹریکٹ نمبر۲۲ عنوان احراری علماء کی راست گوئی کا نمونہ، الناشر مہتمم نشرواشاعت نظارت دعوت وتبلیغ، صدر انجمن احمدیہ ربوہ ضلع جھنگ)
*… جب قادیانی امت پر مسلمانوں کی جانب سے اعتراض کیاگیا کہ قائداعظم مسلمانوں کے محسن تھے اور تمام ملت اسلامیہ نے ان کا جنازہ پڑھا ہے تو جماعت احمدیہ نے جواب دیا کہ: ’’کیا یہ حقیقت نہیں کہ ابوطالب بھی قائداعظم کی طرح مسلمانوں کے بہت بڑے محسن تھے۔ مگر نہ مسلمانوں نے آپ کا جنازہ پڑھا اور نہ رسول خدا نے۔‘‘
(الفضل قادیان موررخہ ۲۸؍اکتوبر ۱۹۵۲ء)
اوپر کے حوالہ جات سے ثابت ہوگیا کہ مرزائی دنیا بھر کے مسلمانوں کو کلمہ پڑھنے، قبلہ کی طرف منہ کر کے نمازیں ادا کرنے، زکوٰۃ اور حج کے فریضہ سے عہدہ برآہونے اور دیگر ضروریات دین پر عمل کرنے، قرآن مجید کو اﷲ کی کتاب یقین کرنے کے باوجود کافر سمجھتے ہیں۔ قائداعظم بھی سرظفر اﷲ خان کے نزدیک معاذ اﷲ کافر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ظفر اﷲ خان غیرمسلم سفیروں کے ساتھ جنازہ کے وقت گراؤنڈ کے ایک طرف بیٹھا رہا۔ لیکن جنازہ میں شریک نہ ہوا۔
بعد میں مولانا محمد اسحق مانسہروی رحمۃ اللہ علیہ نے دریافت کیا کہ چوہدری صاحب آپ نے جنازہ کے موقع پر موجود ہوتے ہوئے قائداعظم کے جنازہ میں کیوں شرکت نہیں کی تو ظفر اﷲ خان نے جواب دیا۔ ’’مولانا آپ مجھے مسلمان حکومت کا ایک کافر ملازم یا ایک کافر حکومت کا مسلمان ملازم خیال کر لیں۔‘‘
ابھی حال ہی میں لاہوری گروپ کے ایک پرچہ ’’آتش فشاں‘‘ اشاعت مئی ۱۹۸۱ء میں ظفر اﷲ خان کا ایک مفصل انٹرویو شائع ہوا ہے۔ اس میں ان سے سوال کیاگیا کہ آپ پر ایک اعتراض اکثر ہوتا ہے کہ آپ نے قائداعظم کا جنازہ موجود ہوتے ہوئے نہیں پڑھا؟ چوہدری صاحب نے جواب میں کہا کہ: ’’ہاں یہ ٹھیک بات ہے میں نے نہیں پڑھا یعنی قائداعظم کا جنازہ پڑھتا تو اعتراض کی بات تھی کہ یہ شخص منافق ہے۔ یہ غیراحمدی کا جنازہ نہیں پڑھتے اور اس نے تو پڑھ لیا۔ تب تو میرے کریکٹر کے متعلق کہا جاسکتا تھا کہ منافق ہے اس کا عقیدہ کچھ ہے۔ عمل کچھ کرتا ہے۔ اس نے ہر دلعزیزی حاصل کرنے کی خاطر قائداعظم کا تو پڑھ لیا تھا۔ میرے عقیدے کو وہ جانتے ہیں۔ میرے عقیدے کو انہوں نے ناٹ مسلم قرار دیا ہے۔ تو اگر میں آئینی اور قانونی اعتبار سے ناٹ مسلم ہوں تو ایک ناٹ مسلم پر کیسے واجب ہے کہ مسلمان کا جنازہ پڑھے؟ ان کی اپنی کرتوت تو سامنے ہونی چاہئے۔ نہ پڑھنے پر کیا اعتراض ہے؟ سارے جہاں کو معلوم ہے کہ ہم نہیں پڑھتے۔ غیراحمدی کا جنازہ۔‘‘ (رسالہ آتش فشاں مئی ۱۹۸۱ء ص۲۴)
مرزاغلام احمد قادیانی کے سلسلہ کے تمام لوازم اور مناسبات کو دیکھتے ہوئے اس امر کا فیصلہ کرنے میں کوئی دقت نہیں ہوگی کہ وہ اپنے پیروؤں کو تمام مسلمانوں سے ایک الگ امت بنانے میں کس درجہ ساعی وکوشاں ہیں۔ حسب ذیل تصریحات ملاحظہ فرمائیں۔
*… ’’حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ میرے کانوں میں گونج رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا ہے کہ یہ غلط ہے کہ دوسرے لوگوں سے ہمارا اختلاف صرف وفات مسیح اور چند مسائل میں ہے۔ آپ نے فرمایا۔ اﷲتعالیٰ کی ذات، رسول کریم ﷺ، قرآن، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ غرض یہ کہ آپ نے تفصیل سے بتایا کہ ایک ایک چیز میں ان سے اختلاف ہے۔‘‘ (خطبہ مرزا محمود، الفضل قادیان ج۱۹ نمبر۱۳)
*… ’’کیا مسیح ناصری نے اپنے پیروؤں کو یہودیوں سے الگ نہیں کیا؟ کیا وہ انبیاء جن کے سوانح کا علم ہم تک پہنچا ہے اور ہمیں ان کے ساتھ جماعتیں بھی نظر آتی ہیں۔ انہوں نے اپنی جماعتوں کو غیروں سے الگ نہیں کیا؟ ہر شخص کو ماننا پڑے گا کہ بے شک کیا ہے۔ پس اگر حضرت مرزاصاحب نے ہی جو کہ نبی اور رسول ہیں۔ اپنی جماعت کو منہاج نبوت کے مطابق غیروں سے علیحدہ کر دیا تو نئی اور انوکھی بات کون سی بات ہے۔‘‘ (الفضل ج۵ ش۶۹، نمبر۷۰)
*… ’’مگر جس دن سے کہ تم احمدی ہوئے۔ تمہاری قوم تو احمدیت ہوگئی۔ شناخت اور امتیاز کے لئے اگر کوئی پوچھے تو اپنی ذات یا قوم بتا سکتے ہو۔ ورنہ اب تو تمہاری گوت، تمہاری ذات احمدی ہی ہے۔ پھر احمدیوں کو چھوڑ کر غیراحمدیوں میں کیوں قوم تلاش کرتے ہو؟‘‘ (ملائکۃ اﷲ ص۴۶،۴۷)
*… ’’میں نے اپنے نمائندہ کی معرفت ایک بڑے ذمہ دار انگریز افسر کو کہلوا بھیجا کہ پارسیوں اور عیسائیوں کی طرح ہمارے حقوق بھی تسلیم کئے جائیں۔ جس پر اس افسر نے کہا کہ وہ تو اقلیت ہیں اور تم ایک مذہبی فرقہ ہو۔ اس پر میں نے کہا کہ پارسی اور عیسائی بھی تو مذہبی فرقہ ہیں۔ جس طرح ان کے حقوق علیحدہ تسلیم کئے گئے ہیں۔ اس طرح ہمارے بھی کئے جائیں۔ تم ایک پارسی پیش کردو۔ اس کے مقابلہ میں دو دو احمدی پیش کرتا جاؤں گا۔‘‘ (مندرجہ الفضل قادیان مورخہ ۱۳؍نومبر ۱۹۴۶ء)
مرزائیوں کے قبرستان میں مسلمانوں کا بچہ بھی دفن نہیں ہوسکتا
’’کیونکہ غیر احمدی جب بلااستثناء کافر ہیں تو ان کے چھ ماہ کے بچے بھی کافر ہوئے اور جب وہ کافر ہوئے تو احمدی قبرستان میں ان کو کیسے دفن کیا جاسکتا ہے۔‘‘ (اخبار پیغام صلح ج۲۴،۴۹، مورخہ ۳؍اگست ۱۹۳۶ء)
*… ’’کیا کوئی شیعہ راضی ہوسکتا ہے کہ اس کی پاک دامن ماں ایک زانیہ کنجری کے ساتھ دفن کر دی جائے اور کافر تو زنا کار سے بھی بدتر ہے۔ (مسلمان چونکہ مرزائیوں کے نزدیک کافر ہیں۔ اس لئے وہ مرزائیوں کے قبرستان میں دفن نہیں ہوسکتے۔ ناقل)‘‘ (نزول المسیح ص۴۷، خزائن ج۱۸ ص۴۲۵)
مرزا قادیانی کے انٹ شنٹ الہامات
مرزا قادیانی کا دعویٰ تھا کہ میری وحی والہامات یقینی اور قرآن پاک کی طرح ہیں۔ لیکن جب ہم مرزا قادیانی کے الہامات کو سرسری نظر سے دیکھتے ہیں تو ہمیں کثرت سے ایسے الہامات نظر آتے ہیں جنہیں خود مرزا قادیانی بھی نہ سمجھ سکے تھے۔ چنانچہ مرزا قادیانی تحریر فرماتے ہیں: ’’زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ بعض الہامات مجھے ان زبانوں میں بھی ہوتے ہیں جن سے مجھے کچھ بھی واقفیت نہیں۔ جیسے انگریزی یا سنسکرت یا عبرانی وغیرہ!‘‘
(نزول المسیح ص۵۷، خزائن ص۴۳۵ج۱۸)
قرآن حکیم میں اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا’’وماارسلنا من رسول الا بلسان قومہ لیبین لہم‘‘ اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اپنی قوم کی زبان میں ہی۔ تاکہ انہیں کھول کر بتادے۔ لیکن قرآن پاک کے اس صریح اصول کے خلاف مرزا قادیانی کو ان زبانوں میں بھی الہامات ہوئے ہیں جن کو وہ خود نہیں سمجھ سکے۔ دوسروں کو خاک سمجھانا تھا۔ ہم بطور نمونہ مرزا قادیانی کے چند الہامات درج ذیل کرتے ہیں:
۱… ’’ایلی ایلی لما سبقتنی۔ ایلی اوس‘‘ اے میرے خدا! اے میرے خدا! تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا۔ آخری فقرہ اس الہام کا یعنی ایلی اوس بباعث سرعت ورود مشتبہ رہا اور نہ اس کے کچھ معنے کھلے ہیں۔ واﷲاعلم بالصواب!‘‘
(البشریٰ ج اول ص۳۶، تذکرہ ص۹۱ طبع ۳)
۲… ’’ پھر بعد اس کے (خدا نے) فرمایا ’’ھوشعنا نعسا‘‘ یہ دونوں فقرے شاید عبرانی ہیں اور ان کے معنے ابھی تک اس عاجز پر نہیں کھلے۔‘‘ (براہین احمدیہ ص۵۵۶، خزائن ص۶۶۴ ج۱)
۳… ’’پریشن، عمر براطوس، یا پلاطوس۔ (نوٹ) آخری لفظ ’’پڑطوس‘‘ ہے یا ’’پلاطوس‘‘ ہے۔ بباعث سرعت الہام دریافت نہیں ہوا اور ’’عمر‘‘ عربی لفظ ہے۔ اس جگہ ’’براطوس‘‘ اور ’’پریشن‘‘ کے معنے دریافت کرنے ہیں کہ کیا ہیں اور کس زبان کے یہ لفظ ہیں۔‘‘ (ازمکتوبات احمدیہ ج۱ص۶۸، البشریٰ ج اول ص۵۱،تذکرہ ص۱۱۵طبع۳)
احمدی دوستو! مرزا قادیانی کو جس زبان میں الہام ہوتا ہے مرزا قادیانی اس زبان کو نہیں جانتے۔ بتائو کہ مرزا قادیانی پر یہ مثال صادق آتی ہے یانہیں؟
زبان یار من ترکی ومن ترکی نمے دانم
معلوم ہوتا ہے کہ مرزا قادیانی کے مندرجہ بالا اور ہمچو قسم کے الہامات اس خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں تھے جس نے حضرت محمد ﷺ پر قرآن مجید نازل فرمایا۔ کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے ’’
وَمَااَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہٖ (ابراہیم:۴)
‘‘ {کہ ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اپنی قوم کی زبان میں ہی۔} لیکن مرزا قادیانی کو ان زبانوں میں ’’الہامات‘‘ ہوئے جو مرزا قادیانی کی قومی زبان نہیں تھی۔ خود مرزا قادیانی تحریر فرماتے ہیں: ’’یہ بالکل غیر معقول اور بیہودہ امر ہے کہ انسان کی اصل زبان تو کوئی ہو اور الہام اس کو کسی اور زبان میں ہو جس کو وہ سمجھ بھی نہیں سکتا۔ کیونکہ اس میں تکلیف مالایطاق ہے اور ایسے الہام سے فائدہ کیا ہوا جو انسانی سمجھ سے بالاتر ہے۔‘‘
(چشمہ معرفت ص۲۰۹، خزائن ص۲۱۸ج۲۳)
یہاں تک ہی نہیں کہ مرزا قادیانی غیر زبانوں کے الہامات نہ سمجھ سکے ہوں۔ بلکہ بہت سے اردو اور عربی الہامات بھی مرزا قادیانی کی سمجھ سے بالاتر رہے اور ان کے متعلق انہیں معلوم نہ ہوا کہ وہ کس کے متعلق ہیں۔ مرزائی دوستوں کی خاطر نمونہ درج کئے دیتا ہوں:
۱… ’’پیٹ پھٹ گیا۔‘‘ دن کے وقت کا الہام ہے۔ معلوم نہیں کہ یہ کس کے متعلق ہے۔‘‘
(البشریٰ ج دوم ص۱۱۹، تذکرہ ص۶۷۲طبع۳)
۲… ’’خدا اس کو پنج بار ہلاکت سے بچائے گا۔‘‘ نامعلوم کس کے حق میں یہ الہام ہے۔
(البشریٰ ج دوم ص۱۱۹،تذکرہ ص۶۷۴طبع۳)
۳… ’’۲۴؍ستمبر۱۹۰۶ء مطابق ۵؍شعبان ۱۳۲۴ھ بروز پیر… ’’موت تیرہ ماہ حال کو۔‘‘ (نوٹ)قطعی طور پر معلوم نہیں کہ کس کے متعلق ہے۔ (البشریٰ ج دوم ص۱۱۹،۱۲۰،تذکرہ ص۶۷۵طبع۳)
۴… ’’بہتر ہوگا کہ اور شادی کرلیں۔‘‘ معلوم نہیں کہ کس کی نسبت یہ الہام ہے۔
(البشریٰ ج دوم ص۱۲۴،تذکرہ ص۶۹۷طبع۳)
۵… ’’بعد ۱۱؍ انشاء اﷲ اس کی تفہیم نہیں ہوئی کہ ۱۱سے کیا مراد ہے۔ گیارہ دن یا گیارہ ہفتے یا کیا یہی ہندسہ ۱۱کا دکھایا گیا ہے۔‘‘ (البشریٰ ج دوم ص۲۵،۲۶،تذکرہ ص۴۰۱طبع۳)
۶… ’’غثم، غثم، غثم۔‘‘ (البشریٰ ج دوم ص۵۰،تذکرہ ص۳۱۹طبع۳)
۷… ’’ایک دم میں دم رخصت ہوا۔‘‘ (نوٹ از حضرت مسیح موعود) فرمایا کہ آج رات مجھے ایک مندرجہ بالا الہام ہوا۔ اس کے پورے الفاظ یاد نہیں رہے اور جس قدر یاد رہا وہ یقینی ہے۔ مگر معلوم نہیں کہ کس کے حق میں ہے۔ لیکن خطرناک ہے۔ یہ الہام ایک موزوں عبارت میں ہے۔ مگر ایک لفظ درمیان میں سے بھول گیا۔‘‘
(البشریٰ ج دوم ص۱۱۷،تذکرہ ص۶۶۶طبع۳)
۸… ’’ایک عربی الہام تھا۔ الفاظ مجھے یاد نہیں رہے۔ حاصل مطلب یہ ہے کہ مکذبون کو نشان دکھایا جائے گا۔‘‘
(البشریٰ ج دوم ص۹۴)
۹… ’’ ایک دانہ کس کس نے کھانا۔‘‘ (البشریٰ ج دوم ص۱۰۷،تذکرہ ص۵۹۵طبع۳)
۱۰… ’’لاہور میں ایک بے شرم ہے۔‘‘ (البشریٰ ج دوم ص۱۲۶،تذکرہ ص۷۰۴طبع۳)
۱۱… ’’ربنا عاج‘‘ ہمارا رب عاجی ہے۔ عاجی کے معنٰے ابھی تک معلوم نہیں ہوئے۔‘‘
(البشریٰ ج اول ص۴۳،تذکرہ ص۱۰۲طبع۳)
۱۲… ’’آسمان ایک مٹھی بھر رہ گیا۔‘‘ (البشریٰ ج دوم ص۱۳۹،تذکرہ ص۷۵۱طبع۳)
باب ہفتم … مرزاقادیانی کی پیش گوئیاں
دلیل اوّل
’’
فَلَا تَحْسَبَنَّ اللّٰہَ مُخْلِفَ وَعْدِہٖ رُسُلَہٗ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ ذُوانْتِقَام (ابراہیم:۴۷)
‘‘ {ہرگز ہرگز گمان نہ کر کہ خدا اپنے رسولوں سے کئے ہوئے وعدہ کا خلاف کرے گا۔ لاریب خدا غالب ومنتقم ہے۔}
کسی انسان کو ذاتی طور پر علم غیب حاصل نہیں۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ خداتعالیٰ کسی بشر کو کسی پوشیدہ بات پر مطلع کر دے۔ پس جو شخص کسی آئندہ بات کی قبل از وقوع خبر دے۔ اس کے متعلق دو ہی خیال ہوسکتے ہیں۔
۱… یہ کہ اس نے رفتار حالات کو ملحوظ رکھ کر نیچر کے استمراری واقعات کی بناء پر قیاس آرائی کی ہے۔
۲… یہ کہ اسے براہ راست یا بالواسطہ کسی مخبر صادق نے اطلاع دی ہے۔
یہ ہوسکتا ہے کہ کسی انسان کی قیاس وغیرہ سے دی ہوئی خبر ٹھیک نکل آئے۔ جیسا کہ بعض منجموں، رمّالوں کی پیش گوئیاں صحیح ثابت ہوجاتی ہیں۔ مگر یہ نہیں ہوسکتا کہ خدائے عالم الغیب کی بتلائی ہوئی بات غلط ہو جائے۔ ہمارے مخاطبین یعنی مرزائیوں کے پیغمبر اعظم مرزاقادیانی بھی مانتے ہیں کہ: ’’ممکن نہیں کہ خدا کی پیش گوئی میں کچھ تخلف ہو۔‘‘
(چشمہ معرفت ص۸۳، خزائن ج۲۳ ص۹۱)
لہٰذا ہم بلکہ ہر دانا انسان یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ جس شخص مدعی الہام کی کوئی بھی پیش گوئی غلط ثابت ہو جائے۔ وہ خدا کا ملہم اور مخاطب نہیں۔ بلکہ مفتری علی اﷲ ہے۔ کیونکہ: ’’ممکن نہیں کہ نبیوں کی پیش گوئیاں ٹل جائیں۔‘‘
(رسالہ کشتی نوح ص۵، خزائن ج۱۹ ص ایضاً)
پس ہم سب سے پہلے مرزاقادیانی کی پیش گوئیاں دیکھتے ہیں۔ اگر ان میں بعض سچی ہیں تو یہ ہوسکتا ہے کہ وہ قیاس وغیرہ سے کی گئی ہوں۔ لیکن اگر ان میں ایک بھی جھوٹی ہے تو یقینا وہ مرزاقادیانی کے مفتری علی اﷲ ہونے کی قطعی ویقینی دلیل ہے۔ چنانچہ مرزاقادیانی راقم ہیں: ’’کسی انسان خاص کر (مدعی الہام) کا اپنی پیش گوئی میں جھوٹا نکلنا خود تمام رسوائیوں سے بڑھ کر رسوائی ہے۔‘‘ (تریاق القلوب ص۱۰۷، خزائن ج۱۵ ص۳۸۲)
قطع نظر منقولہ بالا معقول طریق کے الزامی طور پر بھی ہم اس دلیل کے قائم کرنے میں حق بجانب ہیں۔ کیونکہ مرزاقادیانی نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور یہ بھی انہی کا فرمان ہے کہ: ’’تورات اور قرآن نے بڑا ثبوت نبوت کا صرف پیش گوئیوں کو قرار دیا ہے۔‘‘ (استفتاء ص۳، خزائن ج۱۲ ص۱۱۱)
نبوت کے دعویٰ کو الگ کر کے دیکھا جائے تو یہ دلیل پھر بھی مکمل ہے۔ کیونکہ مرزاقادیانی کا عام اعلان ہے کہ: ’’ہمارا صدق یا کذب جانچنے کو ہماری پیش گوئی سے بڑھ کر اور کوئی محک امتحان نہیں۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۱۵۹، اشتہار مورخہ۱۰؍جولائی ۱۸۸۸ء، مندرجہ آئینہ کمالات اسلام ص۲۸۸، خزائن ج۵ ص ایضاً)
حاصل یہ کہ مرزاقادیانی کا کذب وصدق معلوم کرنے کے لئے پہلا اور سب سے بڑا معیار ان کی پیش گوئیاں ہیں۔ مرزاقادیانی کی زبانی پیش گوئیوں کی نسبت معیار صداقت ہونا ملاحظہ ہو: ’’اگر ثابت ہوجائے کہ میری سو پیش گوئیوں میں سے ایک بھی جھوٹی نکلی تو میں اقرار کروں گا کہ میں کاذب ہوں۔‘‘ (اربعین نمبر۴ ص۲۵ حاشیہ، خزائن ج۱۷ ص۴۶۱)
’’ممکن نہیں کہ نبیوں کی پیش گوئیاں ٹل جائیں۔‘‘ (کشتی نوح ص۵، خزائن ج۱۹ ص ایضاً)
پہلی پیش گوئی … مرزاقادیانی کی اپنی موت سے متعلق
مرزاقادیانی نے اپنی موت سے متعلق یہ پیش گوئی کی کہ: ’’ہم مکہ میں مریں گے یا مدینہ میں۔‘‘
(تذکرہ ص۵۹۱ طبع سوم)
ہمارا دعویٰ ہے کہ مکہ، مدینہ میں مرنا تو درکنار مرزاقادیانی کو مکہ اور مدینہ دیکھنے کی سعادت بھی نصیب نہ ہوئی اور خود اپنی پیش گوئی کے بموجب ذلیل ورسوا ہوا اور جھوٹا قرار پایا۔ مرزاقادیانی کی پیش گوئی ملاحظہ فرمائیں: ’’ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حج نہیں کیا اور اعتکاف نہیں کیا اور زکوٰۃ نہیں دی۔ تسبیح نہیں رکھی۔ میرے سامنے ضَبّ یعنی گوہ کھانے سے انکار کیا۔‘‘ (سیرۃ المہدی حصہ سوم ص۱۱۹، روایت نمبر۶۷۲)
اسی طرح (سیرۃ المہدی حصہ اوّل ص۱۱) میں لکھا ہے کہ مرزاقادیانی کی موت لاہور میں قے اور اسہال کی حالت میں دستوں والی جگہ ہوئی… لہٰذا مکہ یا مدینہ میں مرنے کی بابت مرزاقادیانی کی پیش گوئی سراسر جھوٹی ثابت ہوئی۔ اس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے۔
دوسری پیش گوئی … زلزلہ اور پیر منظور محمد کے لڑکے کی پیش گوئی
پیر منظور محمد، مرزاقادیانی کا بڑا خاص مرید تھا۔ مرزاقادیانی کو معلوم ہوا کہ اس کی بیوی حاملہ ہے تو مرزاقادیانی نے ایک پیش گوئی کر دی کہ اس کے ہاں لڑکا پیدا ہوگا۔ اس کی پیش گوئی کے الفاظ یہ ہیں: ’’پہلے یہ وحی الٰہی ہوئی تھی کہ وہ زلزلہ جو نمونہ قیامت ہوگا۔ بہت جلد آنے والا ہے اور اس کے لئے نشان دیاگیا تھا کہ پیر منظور محمد لدھیانوی کی بیوی محمدی بیگم کو لڑ کا پیداہوگا اور وہ لڑکا اس زلزلہ کے لئے ایک نشان ہوگا۔ اس لئے اس کا نام بشیرالدولہ ہوگا۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۱۰۰ حاشیہ، خزائن ج۲۲ ص۱۰۳)
مگر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ بجائے لڑکے کے لڑکی پیدا ہوئی تو مرزاقادیانی نے یہ کہا کہ اس سے یہ تھوڑی مراد ہے۔ کہ اسی حمل سے لڑکا پیدا ہوگا۔ آئندہ کبھی لڑکا پیدا ہوسکتا ہے۔ لیکن اتفاق سے وہ عورت ہی مرگئی اور دوسری پیش گوئیوں کی طرح یہ پیش گوئی بھی صاف جھوٹی نکلی۔ نہ اس عورت کے لڑکا پیدا ہوا اور نہ وہ زلزلہ آیا اور مرزاذلیل ورسوا ہوا۔
تیسری پیش گوئی … ریل گاڑی کا تین سال میں چلنا
امام مہدی اور مسیح موعود کی علامات اور نشانیاں بیان کرتے ہوئے مرزاقادیانی نے ایک نشانی یہ بیان کی ہے کہ: ’’مکہ مکرمہ‘‘ اور ’’مدینہ منورہ‘‘ میں تین سال کے اندر ریل گاڑی(Tr ﷺin) چل جائے گی۔ عبارت ملاحظہ فرمائیں: ’’یہ پیش گوئی اب خاص طور پر مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کی ریل تیار ہونے سے پوری ہو جائے گی۔ کیونکہ وہ ریل جو دمشق سے شروع ہوکر مدینہ آئے گی۔ وہی مکہ معظمہ میں آئے گی اور امید ہے کہ بہت جلد اور صرف چند سالوں تک یہ کام تمام ہو جائے گا۔ تب وہ اونٹ جو تیرہ سو برس سے حاجیوں کو لے کر مکہ سے مدینہ کی طرف جاتے ہیں۔ یک دفعہ بے کار ہو جائیں گے اور ایک عظیم انقلاب عرب اور بلاد شام کے سفروں میں آجائے گا۔ چنانچہ یہ کام بڑی سرعت سے ہورہا ہے اور تعجب نہیں کہ تین سال کے اندر اندر یہ ٹکڑا مکہ مکرمہ اور مدینہ کی راہ کا تیار ہو جائے اور حاجی لوگ بجائے بدوؤں کے پتھر کھانے کے طرح طرح کے میوے کھاتے ہوئے مدینہ منورہ میں پہنچا کریں۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ ص۴۶، خزائن ج۱۷ ص۱۹۵)
اب قادیانی بتائیں کہ کیا ریل گاڑی (Tr ﷺin) مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان چل گئی ہے؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں تو کیا یہ پیش گوئی جھوٹی ہوکر مرزاغلام احمد قادیانی کی ذلت ورسوائی کا باعث ہوئی یا نہیں؟ یاد رہے کہ یہ کتاب ۱۹۰۲ء کی تصنیف ہے۔ مرزاقادیانی کی پیش گوئی کے مطابق ۱۹۰۵ء میں یہ ریل گاڑی چل جانی چاہئے تھی۔ اس تحریر کا سن ۲۰۱۱ء ہے۔ گویا ایک سو چھ سال اوپر گذر گئے ہیں۔ مگر وہ ریل گاڑی ابھی تک نہ چل سکی۔ بلکہ جو گاڑی شام سے مدینہ منورہ تک چلتی تھی وہ بھی اس جھوٹے مسیح کی نحوست کی وجہ سے بند ہوگئی۔
چوتھی پیش گوئی … غلام حلیم کی بشارت
مرزاقادیانی نے اپنے چوتھے لڑکے مبارک احمد کی بشارت کومصلح موعود، عمر پانے والا، ’’کَأَنَّ اللّٰہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَآئِ‘‘ (گویا خدا آسمان سے اتر آیا) وغیرہ الہامات کا مصداق بتایا تھا اور وہ نابالغی کی حالت میں ہی مرگیا۔ اس کی وفات کے بعد ہر چہار طرف سے مرزاقادیانی پر ملامتوں کی بوچھاڑ اور اعتراضات کی بارش ہوئی تو انہوں نے پھر سے الہامات گھڑنے شروع کئے تاکہ مریدوں کے جلے بھنے کلیجوں کو ٹھنڈک پہنچے۔ مورخہ ۱۶؍ستمبر ۱۹۰۷ء کو الہام سنایا۔ ’’
اِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلَامٍ حَلِیْمٍ
‘‘ (البشریٰ ج۲ ص۱۳۴)
اس کے ایک ماہ بعد پھر الہام سنایا: ’’آپ کے لڑکا پیدا ہوا ہے۔ یعنی آئندہ کے وقت پیدا ہوگا۔ ’’
اِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلَامٍ حَلِیْمٍ
‘‘ ہم تجھے ایک حلیم لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں۔ ’’ینزل منزل المبارک‘‘ وہ مبارک احمد کی شبیہ ہوگا۔‘‘
(البشریٰ ج۲ ص۱۳۶)
چند دن کے بعد پھر الہام سنایا: ’’ساھب لک غلاماً زکیا۰ رب ہب لی ذریۃ طیبۃ انا نبشرک بغلام اسمہ یحییٰ‘‘ میں ایک پاک اور پاکیزہ لڑکے کی خوشخبری دیتا ہوں۔ میرے خدا پاک اولاد مجھے بخش۔ تجھے ایک لڑکے کی خوشخبری دیتا ہوں۔ جس کا نام یحییٰ ہے۔‘‘ (البشریٰ ج۲ ص۱۳۶)
ان الہامات میں ایک پاکیزہ لڑکے مسمّٰی یحییٰ جو مبارک احمد کا شبیہ اور قائم مقام ہونا تھا کی پیش گوئی مرقوم ہے۔ اس کے بعد مرزاقادیانی کے گھر کوئی لڑکا پیدا ہی نہ ہوا۔ اس لئے یہ سب کے سب الہامات افتراء علی اﷲ ثابت ہوگئے۔ جب کہ انبیاء علیہم السلام کو اﷲتعالیٰ معجزات کا شرف نصیب فرماتے ہیں۔ جن سے وہ مخالفین کو چیلنج کرتے ہیں۔ معجزہ خرق عادت ہوتا ہے۔ مگر جھوٹے مدعی نبوت کے ہاتھ پر کوئی خرق عادت کام نہیں ہوتا۔ تاکہ حق وباطل میں تلبیس نہ ہو۔ اس لئے بطور خرق عادت مرزاقادیانی کی کوئی بات یا پیش گوئی پوری نہیں ہوئی۔
پانچویں پیش گوئی … ’’محمدی بیگم‘‘ سے متعلق
’’محمدی بیگم‘‘ مرزا قادیانی کے ماموں زاد بھائی مرزا احمد بیگ کی نوعمر لڑکی تھی۔ مرزا قادیانی نے اس کو زبردستی اپنے نکاح میں لانے کا ارادہ کیا۔ اتفاق ایسا ہوا کہ ایک زمین کے ہبہ نامہ کے سلسلہ میں مرزا احمد بیگ کو مرزا قادیانی کے دستخط کی ضرورت پڑی۔ چنانچہ وہ مرزا قادیانی کے پاس گیا اور اس سے کاغذات پر دستخط کرنے کی درخواست کی۔ مرزا قادیانی نے اپنی مطلب برآری کے لئے اس موقع کو غنیمت سمجھا اور احمد بیگ سے کہا کہ استخارہ کرنے کے بعد دستخط کروں گا۔ جب کچھ دن بعد دوبارہ احمد بیگ نے دستخط کرنے کی بات کی تو مرزا قادیانی نے جواب دیا کہ دستخط اسی شرط پر ہوں گے کہ اپنی لڑکی ’’محمدی بیگم‘‘ کا نکاح میرے ساتھ کردو۔ خیریت اسی میں ہے۔ اس کی دھمکی کے الفاظ یہ ہیں: ’’اﷲ تعالیٰ نے مجھ پر وحی نازل کی کہ اس شخص یعنی احمد بیگ کی بڑی لڑکی کے نکاح کے لئے پیغام دے اور اس سے کہہ دے کہ پہلے وہ تمہیں دامادی میں قبول کرلے اور تمہارے نور سے روشنی حاصل کرے اور کہہ دے کہ مجھے اس زمین کے ہبہ کرنے کا حکم مل گیا ہے جس کے تم خواہش مند ہو۔ بلکہ اس کے ساتھ اور زمین بھی دی جائے گی اور دیگر مزید احسانات تم پر کئے جائیں گے۔ بشرطیکہ تم اپنی لڑکی کا مجھ سے نکاح کردو۔ میرے اور تمہارے درمیان یہی عہد ہے تم مان لوگے تو میں بھی تسلیم کرلوں گا۔ اگر تم قبول نہ کروگے تو خبردار ہو مجھے خدا نے یہ بتلایا ہے کہ اگر کسی اور شخص سے اس لڑکی کا نکاح ہوگا تو نہ اس لڑکی کے لئے یہ نکاح مبارک ہوگا اور نہ تمہارے لئے۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام درخزائن ج۵ص۵۷۲،۵۷۳)
ان دھمکیوں وغیرہ کا منفی اثر یہ ہوا کہ مرزا احمد بیگ اور اس کے خاندان والوں نے ’’محمدی بیگم‘‘ کا نکاح مرزا قادیانی کے ساتھ کرنے سے صاف انکار کردیا۔ مرزا قادیانی نے خطوط لکھ کر اشتہار شائع کرواکر اور پیش گوئیاں کرکے حتیٰ کہ منت سماجت کے ذریعہ ایڑی چوٹی کا زور لگادیا کہ کسی طرح اس کی آرزو پوری ہوجائے۔ لیکن ’’محمدی بیگم‘‘ کا نکاح ایک دوسرے شخص مرزا سلطان محمد سے ہوگیا اور مرزا قادیانی کے مرتے دم تک بھی محمدی بیگم اس کے نکاح میں نہ آئی۔
اس سلسلہ میں مرزا قادیانی نے جو جھوٹی پیش گوئی کی تھی۔ اس کے الفاظ حسب ذیل ہیں: ’’خدا تعالیٰ نے اس عاجز کے مخالف اور منکر رشتہ داروں کے حق میں نشان کے طور پر یہ پیشین گوئی ظاہر کی ہے کہ ان میں سے جو ایک شخص احمد بیگ نام کا ہے اگر وہ اپنی بڑی لڑکی (محمدی بیگم) اس عاجز کو نہیں دے گا تو تین برس کے عرصہ تک بلکہ اس سے قریب فوت ہوجائے گا اور وہ جو نکاح کرے گا وہ روز نکاح سے اڑھائی برس کے عرصہ میں فوت ہوگا اور آخر وہ عورت اس عاجز کی بیویوں میں داخل ہوگی۔‘‘ (اشتہار ۲۰؍فروری ۱۸۸۶ء تبلیغ رسالت ج۱ص۶۱ حاشیہ مندرجہ مجموعہ اشتہارات ج۱ص۱۰۲حاشیہ)
اس پیشین گوئی کی مزید تشریح کرتے ہوئے مرزا قادیانی نے کہا: ’’میری اس پیشین گوئی میں نہ ایک بلکہ چھ دعوے ہیں۔ اول نکاح کے وقت تک میرا زندہ رہنا۔ دوم نکاح کے وقت تک اس لڑکی کے باپ کا یقینا زندہ رہنا۔ سوم پھر نکاح کے بعد اس لڑکی کے باپ کا جلدی سے مرنا جو تین برس تک نہیں پہنچے گا۔ چہارم اس کے خاوند کا اڑھائی سال کے عرصہ تک مرجانا۔ پنجم اس وقت تک کہ میں اس سے نکاح کروں اس لڑکی کا زندہ رہنا۔ ششم پھر آخر یہ بیوہ ہونے کی تمام رسموں کو توڑ کر باوجود سخت مخالفت اس کے اقارب کے میرے نکاح میں آجانا۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام در خزائن ج۵ص۳۲۵)
اس بارے میں عربی الہام اس طرح ہے: ’’
کذبوا بایتنا وکانوا بہا یستہزؤن فسیکفیکھم اﷲ ویردھا الیک لاتبدیل لکلمت اﷲ ان ربک فعال لمایرید۰ انت معی وانا معک عسیٰ ان یبعثک ربک مقاماً محمودا
‘‘ (آئینہ کمالات اسلام در خزائن ج۵ص۲۸۶،۲۸۷)
علاوہ ازیں (انجام آتھم ص۳۱) پر اور ’’تذکرہ‘‘ میں متعدد جگہ یہ پیش گوئی مختلف الفاظ میں مذکور ہے اور اﷲ کی قدرت کہ ہر اعتبار سے مرزا قادیانی کی یہ پیش گوئی جھوٹی نکلی۔ کوئی ایک بھی دعویٰ سچا نہیں ہوا۔ محمدی بیگم کا خاوند اڑھائی سال میں تو کیا مرتا مرزا قادیانی کے مرنے کے چالیس سال بعد تک زندہ رہا اور ۱۹۴۸ء میں وفات پائی اور خود محمدی بیگم بھی ۱۹۶۶ء تک زندہ رہ کر مرزا قادیانی کے کذاب اور دجال ہونے کا اعلان کرتی رہی اور ۱۹؍نومبر۱۹۶۶ء کو لاہور میں بحالت اسلام اس کی موت واقع ہوئی۔
خلاصہ یہ ہے کہ اس پیشین گوئی کے ذریعہ اﷲ تعالیٰ نے مرزا قادیانی کے ذلیل ورسوا اور خائب وخاسر ہونے کا بہترین انتظام فرمادیا۔ آج کوئی بھی صاحب عقل محمدی بیگم کے واقعہ کو دیکھ کر مرزا قادیانی کے جھوٹے اور اوباش ہونے کا بآسانی یقین کرسکتا ہے۔ فالحمدﷲ!
مرزا قادیانی کے مریدوں کا موقف
جب مرزا قادیانی ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء کو لاہور میں بمرض ہیضہ آنجہانی ہوگیا (حیات ناصرص۱۴) اور ’’محمدی بیگم‘‘ سے نکاح نہ ہونا تھا نہ ہوا تو قادیانیوں نے جواب گھڑا کہ نکاح جنت میں ہوگا۔ اس پر کہا گیا کہ محمدی بیگم مرزا قادیانی پر ایمان نہ لائی تھی تو مرزا قادیانی کا کہنا تھا کہ میرے منکر جہنم میں جائیں گے تو کیا مرزا قادیانی جہنم میں برأت لے کر جائے گا۔ تو اس پرمرزائیوں نے جواب تیار کیا کہ یہ پیش گوئی متشابہات میں سے ہے۔ غالباً قادیانیوں کو یہی معلوم نہیں کہ پیش گوئی رب کا وہ وعدہ ہوتا ہے۔ جس کا نبی تحدی سے اعلان کرتا ہے۔ جو ضرور پورا ہوتا ہے۔ مگر (معاذاﷲ) مرزا قادیانی کا خدا بھی مرزا قادیانی سے جھوٹے وعدے کرتا تھا۔
اور محمدی بیگم اپنے خاوند ’’مرزا سلطان محمد‘‘ کے گھر تقریباً چالیس سال بخیر وخوبی آباد رہی اور اب لاہور میں اپنے جواں سال ہونہار مسلمان بیٹوں کے ہاں ۱۹؍نومبر۱۹۶۶ء کو انتقال فرماگئیں۔ (ہفتہ وار الاعتصام لاہور اشاعت ۲۵؍نومبر۱۹۶۶ء)
چھٹی پیش گوئی … عبداﷲ آتھم عیسائی
مرزا قادیانی نے عبداﷲ آتھم پادری سے امرتسر میں پندرہ دن تحریری مناظرہ کیا۔ جب مباحثہ بے نتیجہ رہا تو مرزا قادیانی نے اپنی شیخی جمانے کے لئے ۵؍جون ۱۸۹۳ء کو ایک عدد پیش گوئی دھر گھسیٹی جس کا خلاصہ حسب ذیل ہے: ’’مباحثہ کے ہر دن کے لحاظ سے ایک ماہ مراد ہوگا۔ یعنی پندرہ ماہ میں فریق مخالف ہاویہ میں بسزائے موت نہ پڑے تو میں ہر ایک سزا کے اٹھانے کے لئے تیار ہوں۔ مجھ کو ذلیل کیا جائے، روسیاہ کیا جاوے، میرے گلے میں رسہ ڈال دیا جاوے۔ مجھ کو پھانسی دیا جاوے۔ ہر ایک بات کے لئے تیار ہوں۔‘‘ (جنگ مقدس ص۲۱۱، خزائن ج۶ ص۲۹۳)
غرض مرزاقادیانی کی پیش گوئی کے مطابق عبداﷲ آتھم کی موت کا آخری دن مورخہ ۵؍ستمبر ۱۸۹۴ء بنتا تھا۔ اس دن کی کیفیت مرزاقادیانی کے فرزند مرزامحمود احمد خلیفہ قادیان کی زبانی ملاحظہ ہو۔ لکھتے ہیں کہ:
قادیان میں محرم کا ماتم
’’آتھم کے متعلق پیش گوئی کے وقت جماعت کی جو حالت تھی وہ ہم سے مخفی نہیں۔ میں اس وقت چھوٹا بچہ تھا اور میری عمر کوئی پانچ ساڑھے پانچ سال کی تھی۔ مگر وہ نظارہ مجھے خوب یاد ہے کہ جب آتھم کی پیش گوئی کا آخری دن آیا تو کتنے کرب واضطراب سے دعائیں کی گئیں۔ میں نے تو محرم کا ماتم بھی اتنا سخت کبھی نہیں دیکھا۔ حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) ایک طرف دعا میں مشغول تھے اور دوسری طرف بعض نوجوان (جن کی اس حرکت پر بعد میں برا منایا گیا) جہاں حضرت خلیفہ اوّل مطب کیا کرتے تھے اور آج کل مولوی قطب الدین صاحب بیٹھتے ہیں۔ وہاں اکٹھے ہوگئے اور جس طرح عورتیں بین ڈالتی ہیں اس طرح انہوں نے بین ڈالنے شروع کر دئیے۔ ان کی چیخیں سوسوگز تک سنی جاتی تھیں اور ان میں سے ہر ایک کی زبان پر یہ دعا جاری تھی کہ یا اﷲ آتھم مر جائے۔ یا اﷲ آتھم مر جائے۔ یا اﷲ آتھم مر جائے۔ مگر اس کہرام اور آہ وزاری کے نتیجے میں آتھم تو نہ مرا۔‘‘ (خطبہ مرزامحمود احمد مندرجہ الفضل قادیان مورخہ ۲۰؍جولائی ۱۹۴۰ء)
اور اس قادیانی اضطراب پر مزید روشنی مرزاقادیانی کے منجھلے بیٹے بشیر ایم۔اے کی روایت سے پڑتی ہے کہ ابا جان نے آتھم کی موت کے لئے کیا کیا تدابیر اختیار کیں اور کون کون سے ٹوٹکے استعمال کئے۔ چنانچہ تحریر کرتے ہیں کہ: ’’بسم اﷲ الرحمن الرحیم! بیان کیا مجھ سے میاں عبداﷲ سنوری نے کہ جب آتھم کی میعاد میں صرف ایک دن باقی رہ گیا تو حضرت مسیح موعود نے مجھ سے اور میاں حامد علی سے فرمایا کہ اتنے چنے (مجھے تعداد یاد نہیں رہی کہ کتنے چنے آپ نے بتائے تھے) لے لو اور ان پر فلاں سورۃ کا وظیفہ اتنی تعداد میں پڑھو۔ (مجھے وظیفہ کی تعداد یاد نہیں رہی) میاں عبداﷲ صاحب بیان کرتے ہیں کہ مجھے وہ سورۃ یا د نہیں رہی مگر اتنا یاد ہے کہ وہ کوئی چھوٹی سی سورۃ تھی۔ جیسے ’’اَلَمْ تَرَ کَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْحَابِ الْفِیْلِ‘‘ اور ہم نے یہ وظیفہ قریب ساری رات صرف کر کے ختم کیا تھا۔ وظیفہ ختم کرنے پر ہم وہ دانے حضرت صاحب (مرزاقادیانی) کے پاس لے گئے۔ کیونکہ آپ نے ارشاد فرمایا تھا کہ وظیفہ ختم ہونے پر یہ دانے میرے پاس لے آنا۔ اس کے بعد حضرت صاحب ہم دونوں کو قادیان سے باہر غالباً شمال کی طرف لے گئے اور فرمایا دانے کسی غیرآباد کنویں میں ڈالے جائیں گے اور فرمایا کہ جب میں دانے کنویں میں پھینک دوں تو ہم سب کو سرعت کے ساتھ منہ پھیر کر واپس لوٹ آنا چاہئے اور مڑ کر نہیں دیکھنا چاہئے۔ چنانچہ حضرت صاحب نے ایک غیرآباد کنویں میں ان دانوں کو پھینک دیا اور پھر جلدی سے منہ پھیر کر پیچھے کی طرف نہیں دیکھا۔‘‘ (سیرت المہدی ج۱ ص۱۷۸، روایت نمبر۱۶۰)
ناظرین کرام! آپ نے ملاحظہ فرمالیا کہ مرزاقادیانی نے خدا کی طرف سے موت کی دھمکی دی اور جب دیکھا کہ پیش گوئی جھوٹی نکلی ہے تو شعبدہ بازوں کا ٹوٹکا استعمال کیا۔ مگر دشمن ایسا سخت جان نکلا کہ بجائے ۵؍ستمبر کے ۶؍ستمبر کا سورج بھی غروب ہوگیا۔ مگر وہ نہ مرا اور یہ پیش گوئی بھی جھوٹی نکلی۔ باوجود یہ کہ مرزاقادیانی نے حیلے بازی اور شعبدہ بازی سے کام لیا اور کتوں سے بھی بدتر مرشد ومرید کا پارٹ ادا کیا۔ مگر جھوٹا تھا خدا تعالیٰ نے ناکام کیا۔
ساتویں پیش گوئی … ڈاکٹر عبدالحکیم خان صاحب کے متعلق
ڈاکٹر عبدالحکیم خان صاحب اسسٹنٹ سرجن پٹیالہ بیس سال تک مرزاقادیانی کے ارادت مند مرید رہے۔ بعدہ، مرزاقادیانی کی بطالت ان پر واضح ہوگئی تو انہوں نے مرزائیت سے توبہ کر کے مرزاقادیانی کی تردید میں چند رسالے لکھے۔ مرزاقادیانی بھی ان کے سخت خلاف ہوگئے۔ بالآخر دونوں نے ایک دوسرے کے خلاف موت کی الہامی پیش گوئیاں شائع کیں۔ اس کے متعلق مرزاقادیانی کے اشتہار کا اقتباس نقل کیاجاتا ہے۔ لکھتے ہیں:
’’خدا سچے کا حامی ہو میاں عبدالحکیم خان صاحب اسسٹنٹ سرجن پٹیالہ نے میری نسبت یہ پیش گوئی کی ہے… اس کے الفاظ یہ ہیں۔ مرزاقادیانی کے خلاف ۱۲؍جولائی ۱۹۰۶ء کو یہ الہامات ہوئے ہیں۔مرزامسرف، کذاب، اور عیار ہے۔ صادق کے سامنے شریر فنا ہو جائے گا اور اس کی میعاد تین سال بتائی گئی ہے۔‘‘
’’اس کے مقابل پر وہ پیش گوئی ہے جو خداتعالیٰ کی طرف سے میاں عبدالحکیم خان صاحب اسسٹنٹ پٹیالہ کی نسبت مجھے معلوم ہوئی۔ جس کے الفاظ یہ ہیں۔ خدا کے مقبولوں میں قبولیت کے نمونے اور علامتیں ہوتی ہیں اور وہ سلامتی کے شہزادے (۲۳) کہلاتے ہیں۔ ان پر کوئی غالب نہیں آسکتا۔‘‘
فرشتوں کی کھینچی ہوئی تلوار تیرے آگے ہے پر تو نے وقت کو نہ پہچانا۔ نہ دیکھا، نہ جانا۔ (۲۵) ’’رب (۲۶) فرق بین صادق وکاذب انت تریٰ کل مصلح وصادق‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۵۵۹،۵۶۰)
اس کے بعد ڈاکٹر عبدالحکیم خان صاحب نے ایک اور الہام شائع کیا کہ جولائی ۱۹۰۷ء سے ۱۴؍ماہ تک مرزاقادیانی مر جائے گا۔ اس کے جواب میں مرزاقادیانی نے ایک اشتہار بعنوان تبصرہ مورخہ ۵؍نومبر ۱۹۰۷ء کو شائع کیا۔ اس کی پیشانی پر یہ عبارت درج کی۔
’’ہماری جماعت کو لازم ہے کہ اس پیش گوئی کو خوب شائع کریں اور اپنی طرف سے چھاپ کر مشتہر کریں اور یادداشت کے لئے اشتہار کے طور پر اپنے گھر کی نظر گاہ میں چسپاں کریں۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۵۸۵)
یہ اشتہار جو سراسر لاف وگزاف سے پر تھا۔ اس کو اپنے تمام اخباروں میں شائع کرایا۔ مختلف شہروں میں مرزائیوں نے علیحدہ چھپوا کر بھی بکثرت شائع کیا۔ اس کے چند فقرات حسب ذیل ہیں: ’’اپنے دشمن کو کہہ دے کہ خدا تجھ سے مواخذہ لے گا… میں تیری عمر کو بڑھا دوں گا۔ یعنی دشمن جو کہتا ہے کہ جولائی ۱۹۰۷ء سے چودہ مہینے تک تیری عمر کے دن رہ گئے ہیں یا ایسا ہی جو دوسرے دشمن پیش گوئی کرتے ہیں۔ ان سب کو میں جھوٹا کر دوں گا اور تیری عمر کو میں بڑھا دوں گا۔ تاکہ معلوم ہو کہ میں خدا ہوں اور ہر ایک امر میرے اختیار میں ہے۔
یہ عظیم الشان پیش گوئی ہے جس میں میری فتح اور دشمن کی شکست اور میری عزت اور دشمن کی ذلت اور میرا اقبال اور دشمن کا ادبار بیان فرمایا ہے اور دشمن پر غضب اور عقوبت کا وعدہ کیاہے۔ مگر میری نسبت لکھا ہے کہ دنیا میں تیرا نام بلند کیا جائے گا اور نصرت اور فتح تیرے شامل حال ہوگی اور دشمن جو میری موت چاہتا ہے وہ خود میری آنکھوں کے روبرو اصحاب الفیل کی طرح نابود اور تباہ ہوگا۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۵۹۱)
اس کے بعد ڈاکٹر عبدالحکیم خان صاحب نے اپنا ایک اور الہام شائع کیا کہ مرزاقادیانی مورخہ ۴؍اگست ۱۹۰۸ء تک مر جائے گا۔ (چشمہ معرفت ص۳۲۱،۳۲۲، خزائن ج۲۳ ص۳۳۷) نتیجہ یہ ہوا کہ ڈاکٹر صاحب کی پیش گوئیوں کے مطابق مرزاقادیانی نے ۲۶؍مئی۱۹۰۸ء کو اگلے جہاں کی طرف کوچ کر دیا اور ان کے الہام کنندہ کے سب وعدے فتح ونصرت کے غلط نکلے۔
آٹھویں پیش گوئی … مولانا ثناء اﷲ صاحب کے متعلق
مرزاقادیانی آنجہانی نے مولانا ثناء اﷲ صاحب امرتسری کے متعلق مورخہ ۱۵؍اپریل ۱۹۰۷ء کو ایک اشتہار ان الفاظ میں شائع کیا۔
مولوی ثناء اﷲ صاحب امرتسری کے ساتھ آخری فیصلہ
’’بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۰ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہٖ الْکَرِیْمِ۰ یَسْتَنْبِؤْنَکَ اَحَقٌ ھُوَ قُلْ اِیْ وَرَبِّی اِنَّہٗ لَحَقٌ‘‘
بخدمت مولوی ثناء اﷲ صاحب ’’السلام علیٰ من اتبع الہدیٰ‘‘ مدت سے آپ کے پرچہ اہل حدیث میں میری تکذیب وتفسیق کا سلسلہ جاری ہے۔ ہمیشہ مجھے آپ اپنے پرچہ میں مردود، کذاب، دجال، مفسد کے نام سے منسوب کرتے ہیں اور دنیا میں میری نسبت شہرت دیتے ہیں کہ یہ شخص مفتری وکذاب اور دجال ہے اور اس شخص کا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا سراسر افتراء ہے۔ میں نے آپ سے بہت دکھ اٹھایا اور صبر کرتا رہا۔ مگر چونکہ میں دیکھتا ہوں کہ میں حق کے پھیلانے کے لئے مامور ہوں اور آپ بہت سے افتراء میرے پر کر کے دنیا کو میری طرف آنے سے روکتے ہیں اور مجھے ان گالیوں اور ان تہمتوں اور ان الفاظ سے یاد کرتے ہیں کہ جن سے بڑھ کر کوئی لفظ سخت نہیں ہوسکتا۔ اگر میں ایسا ہی کذاب اور مفتری ہوں۔ جیسا کہ اکثر اوقات آپ اپنے ہر ایک پرچہ میں مجھے یاد کرتے ہیں تو میں آپ کی زندگی میں ہی ہلاک ہو جاؤں گا۔ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ مفسد اور کذاب کی بہت عمر نہیں ہوتی اور آخر وہ ذلت اور حسرت کے ساتھ اپنے اشد دشمنوں کی زندگی میں ہی ناکام ہلاک ہو جاتا ہے اور اس کاہلاک ہونا ہی بہتر ہوتا ہے۔ تاکہ خدا کے بندوں کو تباہ نہ کرے اور اگر میں کذاب اور مفتری نہیں ہوں اور خدا کے مکالمہ اور مخاطبہ سے مشرف ہوں اور مسیح موعود ہوں تو میں خدا کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ آپ سنت اﷲ کے موافق آپ مکذبین کی سزا سے نہیں بچیں گے۔ پس اگر وہ سزا جو انسان کے ہاتھوں سے نہیں بلکہ محض خدا کے ہاتھوں سے ہے۔ جیسے طاعون، ہیضہ وغیرہ مہلک بیماریاں آپ پر میری زندگی میں ہی وارد نہ ہوئیں تو میں خداتعالیٰ کی طرف سے نہیں۔ یہ کسی الہام یا وحی کی بناء پر پیش گوئی نہیں۔ بلکہ محض دعا کے طور پر میں نے خدا سے فیصلہ چاہا ہے اور میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ اے میرے مالک بصیر وقدیر جو علیم وخبیر ہے جو میرے دل کے حالات سے واقف ہے۔ اگر یہ دعویٰ مسیح موعود ہونے کا محض میرے نفس کا افتراء ہے اور میں تیری نظر میں مفسد اور کذاب ہوں اور دن رات افتراء کرنا میرا کام ہے تو اے میرے پیارے مالک میں عاجزی سے تیری جناب میں دعا کرتا ہوں کہ مولوی ثناء اﷲ صاحب کی زندگی میں مجھے ہلاک کر اور میری موت سے ان کو اور ان کی جماعت کو خوش کر دے۔ آمین! مگر اے میرے کامل اور صادق خدا اگر مولوی ثناء اﷲ ان تہمتوں میں جو مجھ پر لگاتا ہے۔ حق پر نہیں تو میں عاجزی سے تیری جناب میں دعا کرتا ہوں کہ میری زندگی میں ہی ان کو نابود کر۔ مگر نہ انسانی ہاتھوں سے بلکہ طاعون وہیضہ وغیرہ امراض مہلکہ سے۔ بجز اس صورت کے کہ وہ کھلے کھلے طور پر میرے روبرو اور میری جماعت کے سامنے ان تمام گالیوں اور بدزبانیوں سے توبہ کرے۔ جن کو وہ فرض منصبی سمجھ کر ہمیشہ مجھے دکھ دیتا ہے۔ آمین یا رب العالمین!
میں ان کے ہاتھ سے بہت ستایا گیا اور صبر کرتا رہا۔ مگر اب میں دیکھتا ہوں کہ ان کی بدزبانی حد سے گزر گئی۔ مجھے ان چوروں اور ڈاکوؤں سے بھی بدتر جانتے ہیں۔ جن کا وجود دنیا کے لئے سخت نقصان رساں ہوتا ہے اور انہوں نے ان تہمتوں اور بدزبانیوں میں آیت ’’ولَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ‘‘ پر بھی عمل نہیں کیا اور تمام دنیا سے مجھے بدتر سمجھ لیا اور دور دور ملکوں تک میری نسبت یہ پھیلا دیا کہ یہ شخص درحقیقت مفسد اور ٹھگ اور دکاندار اور کذاب اور مفتری اور نہایت درجہ کا بدآدمی ہے۔ سو ایسے کلمات حق کے طالبوں پر بداثر نہ ڈالتے تو میں ان تہمتوں پر صبر کرتا۔ مگر میں دیکھتا ہوں کہ مولوی ثناء اﷲ انہی تہمتوں کے ذریعہ سے میرے سلسلہ کو نابود کرنا چاہتا ہے اور اس عمارت کو منہدم کرنا چاہتا ہے۔ جو تو نے اے میرے آقا اور میرے بھیجنے والے اپنے ہاتھ سے بنائی ہے۔ اس لئے اب میں تیرے ہی تقدس اور رحمت کا دامن پکڑ کر تیری جناب میں ملتجی ہوں کہ مجھ میں اور ثناء اﷲ میں سچا فیصلہ فرما اور وہ جو تیری نگاہ میں درحقیقت مفسد اور کذاب ہے۔ اس کو صادق کی زندگی میں ہی دنیا سے اٹھا لے یا کسی اور نہایت سخت آفت میں جو موت کے برابر ہو مبتلا کر۔ اے میرے پیارے مالک تو ایسا ہی کر۔ آمین ثم آمین۰
رَبَّنَا اِفْتَحْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَاَنْتَ خَیْرُ الْفَاتِحِیْن۰ آمین
! بالآخر مولوی صاحب سے التماس ہے کہ میرے اس مضمون کو اپنے پرچہ میں چھاپ دیں اور جو چاہیں اس کے نیچے لکھ دیں۔ اب فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۵۷۸،۵۷۹)
اس اشتہار کو پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مرزاقادیانی نے یہ پیش گوئی بطریق دعا شائع کی۔ بلکہ اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ اس دعا کو اﷲتعالیٰ نے قبول فرمالیا ہے۔ مرزاقادیانی کے الفاظ ہیں: ’’دنیا کے عجائبات ہیں رات کو ہم سوتے ہیں تو کوئی خیال نہیں ہوتا کہ اچانک ایک الہام ہوتا ہے اور پھر وہ اپنے وقت پر پورا ہوتا ہے۔ کوئی ہفتہ، عشرہ، نشان سے خالی نہیں جاتا۔ ثناء اﷲ کے متعلق جو کچھ لکھا گیا ہے۔ یہ دراصل ہماری طرف سے نہیں بلکہ خدا ہی کی طرف سے اس کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ ایک دفعہ ہماری توجہ اس کی طرف ہوئی اور رات کو توجہ اس کی طرف تھی اور رات کو الہام ہوا۔ ’’اجیب دعوۃ الداع‘‘ صوفیاء کے نزدیک بڑی کرامت استجابت دعا ہے۔ باقی سب اس کی شاخیں۔‘‘ (اخبار بدر قادیان مورخہ ۲۵؍اپریل ۱۹۰۷ء، ملفوظات ج۹ ص۲۶۸)
مرزاقادیانی نے اپنے اشتہار میں محض دعا کے ذریعہ سے فیصلہ چاہا ہے۔ چنانچہ آپ کے الفاظ ہیں: ’’محض دعا کے طور پر خدا سے فیصلہ چاہا ہے۔‘‘
اخیر اشتہار میں آپ تحریر فرماتے ہیں: ’’اب فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے۔‘‘
پس مرزاقادیانی نے اپنی اس دعا اور پیش گوئی کے مطابق مورخہ ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء کو بمرض ہیضہ ہلاک ہوکر حسب اقرار خود اپنا مفسد، کذاب اور مفتری ہونا دنیا پر ثابت کر دیا۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے ؎
لکھا تھا کاذب مرے گا پیشتر
کذب میں پکا تھا پہلے مر گیا
نویں پیش گوئی … عالم کباب کے متعلق
مرزاقادیانی نے اپنا الہام بیان کیا ہے:
۱… بشیرالدولہ۔
۲… عالم کباب۔
۳… شادی خان۔
۴… کلمۃ اﷲ خاں۔
(نوٹ از مرزاقادیانی) بذریعہ الہام الٰہی معلوم ہوا کہ میاں منظور محمد صاحب کے گھر میں یعنی محمدی بیگم کا ایک لڑکا پیدا ہوگا۔ جس کے یہ نام ہوں گے۔ یہ نام بذریعہ الہام الٰہی معلوم ہوئے۔‘‘ (البشریٰ ج۲ ص۱۱۶)
نیز مرزاقادیانی نے کہا کہ: ’’میاں منظور محمد صاحب کے اس بیٹے کا نام جو بطور نشان ہوگا۔ بذریعہ الہام الٰہی مفصلہ ذیل معلوم ہوئے۔
۱… کلمۃ العزیز۔
۲… کلمۃ اﷲ خاں۔
۳… وارڈ۔
۴… بشیرالدین۔
۵… شادی خان۔
۶… عالم کباب۔
۷… ناصر الدین۔
۸… فاتح الدین۔
۹… ہذا یوم مبارک۔‘‘ (تذکرہ ص۶۲۶،۶۲۷، طبع سوم)
مرزاقادیانی کی اس پیش گوئی کے شائع ہو جانے کے بعد میاں منظور محمد کی بیوی محمدی بیگم فوت ہوگئی۔ حالانکہ مرزاقادیانی نے کہا تھا۔ ’’ضرور ہے کہ خدا اس لڑکے کی والدہ کو زندہ رکھے۔ جب تک یہ پیش گوئی پوری نہ ہو۔‘‘
(تذکرہ ص۶۲۲، طبع سوم)
عالم کباب صاحب دنیا میں تشریف فرمانہ ہوئے۔ لہٰذا مرزاقادیانی کی یہ الہامی پیش گوئی سرے سے غلطاور جھوٹ ثابت ہوئی۔
مرزائیو! کہہ دو کہ محمدی بیگم کے ظلی، بروزی اور روحانی بیٹا پیدا ہوگیا تھا۔ اصلی بیٹا قیامت کے دن تشریف لائے گا۔ اس لئے ہمارے مجدد اور ظلی، بروزی نبی کی بیان کردہ پیش گوئی سچی نکلی۔
دسویں پیش گوئی … مرزاغلام احمد کی طاعون کی پیش گوئی
جس سے اس کا اپنا گھر بھی محفوظ نہ رہا
انیسویں صدی کے شروع میں ہندوستان کے مختلف علاقوں میں طاعون کی وبا پھیل گئی۔ جس سے لوگوں میں خوف وہراس کا پایا جانا ایک فطری امر تھا۔ اس وباء میں بہت سے لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ جب مرزاغلام احمد قادیانی کو ان حالات کا علم ہوا کہ ملک کے مختلف حصے طاعون کی گرفت میں آئے ہوئے ہیں تو اس نے دعویٰ کیا کہ میں نے طاعون کے آنے کی پہلے سے خبر دے رکھی تھی۔ سو یہ طاعون خود بخود نہیں آیا۔ بلکہ میں نے اس کے آنے کی دعا کی تھی۔ جو آسمانوں میں سنی گئی اور مبارک خدا نے پورے ملک میں طاعون پھیلا دیا۔ اب اس طاعون سے سارے لوگ تباہ ہو جائیں گے۔ سوائے ان کے جو میری نبوت کو مانیں گے۔ یہ خدا کا فیصلہ ہے کہ قادیان کے سوا کوئی جگہ محفوظ نہ ہوگی اور جب تک میری رسالت کو تسلیم نہ کر لیں ان سے طاعون کا عذاب ختم نہیں کیا جائے گا۔ مرزاغلام احمد قادیانی نے لکھا کہ: ’’براہین احمدیہ کے آخری اوراق کو دیکھا تو ان میں یہ الہام درج تھا۔ دنیا میں ایک نذیر آیا اور دنیا نے اس کو قبول نہ کیا۔ پر خدا اس کو قبول کرے گا اور زور دار حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کرے گا۔ اس پر مجھے خیال آیا کہ اس الہام میں ایک پیش گوئی تھی جو اس وقت طاعون پر صادق آرہی ہے اور زوردار حملوں سے طاعون مراد ہے۔‘‘ (ملفوظات احمدیہ ج۷ ص۵۲۲)
یعنی مرزاغلام احمد قادیانی نے جب نبوت کا دعویٰ کیا تو اس وقت اسے کسی نے نہ مانا اس پر خدا کی غیرت کو جوش آیا اور اس نے کئی سالوں پہلے والے الہام کو حقیقت بنادیا۔ مرزابشیراحمد کا کہنا ہے کہ: ’’خدا کا قاعدہ ہے کہ بعض اوقات اس قسم کی بیماریوں کو بھی اپنے مرسلین کی صداقت کا نشان قرار دیتا ہے اور (بیماریوں) کے ذریعہ سے اپنی قائم کردہ سلسلوں کو ترقی دیتا ہے۔‘‘ (سلسلہ احمدیہ ص۱۲۰)
مرزاغلام احمد قادیانی کا کہنا ہے کہ یہ طاعون خودبخود نہیں آیا۔ بلکہ درحقیقت اس نے خود طاعون پھیلنے کی دعا کی تھی۔ مرزاقادیانی نے لکھا ۔ سو وہ دعا قبول ہوکر ملک میں طاعون پھیل گئی۔ (حقیقت الوحی ص۲۲۴، خزائن ج۲۲ ص۲۳۵)
مرزاغلام احمد قادیانی نے یہ دعا کیوں کی تھی۔ اس کا جواب درج ذیل تحریر میں موجود ہے۔ ’’طاعون ہماری جماعت کو بڑھاتی جاتی ہے اور ہمارے مخالفوں کو نابود کرتی جاتی ہے۔ ہر مہینہ میں کم ازکم پانچ آدمی اور کبھی ہزار دو ہزار آدمی بذریعہ طاعون ہماری جماعت میں داخل ہوتا ہے۔ اگر دس پندرہ سال تک ملک میں ایسی ہی طاعون رہی تو میں یقین رکھتا ہوں کہ تمام ملک جماعت سے بھر جائے گا۔ پس مبارک خدا ہے جس نے دنیا میں طاعون کو بھیجا۔ تاکہ اس کے ذریعہ سے ہم بڑھیں اور پھولیں اور ہمارے دشمن نیست ونابود ہوں۔‘‘ (تتمہ حقیقت الوحی ص۱۳۳ حاشیہ، خزائن ج۲۲ ص۵۷۰)
پھر مرزاقادیانی کا یہ اعلان بھی تھا کہ جب تک مرزاقادیانی کو خدا کا رسول نہیں مانا جائے گا۔ یہ طاعون دور نہیں ہوگا۔ مرزاقادیانی نے لکھا: ’’جب تک وہ خدا کے مامور اور رسول کو مان نہ لیں تب تک طاعون دور نہیں ہوگی۔‘‘
(دافع البلاء ص۵، خزائن ج۱۸ ص۲۲۵)
’’یہ طاعون اس حالت میں فرو ہوگی۔ جب لوگ خدا کے فرستادہ کو قبول کر لیں گے۔‘‘
(دافع البلاء ص۸، خزائن ج۱۸ ص۲۲۸)
یعنی طاعون کے آنے پر مسلمان خوف کے مارے قادیانی ہو جائیں گے اور اپنا گھر بار چھوڑ کر سیدھے قادیان چلے آئیں گے۔ کیونکہ قادیان کے طاعون سے محفوظ رہنے کی پیش گوئی تھی اور خدا نے کہا تھا کہ وہ قادیان کو طاعون سے محفوظ رکھے گا۔ مرزاقادیانی نے لکھا کہ: ’’وہ قادر خدا قادیان کو طاعون کی تباہی سے محفوظ رکھے گا۔ تاکہ تم سمجھو قادیان اسی لئے محفوظ رکھی گئی کہ وہ خدا کا رسول اور فرستادہ قادیان میں تھا۔‘‘ (دافع البلاء ص۵، خزائن ج۱۸ ص۲۲۶)
مرزاقادیانی کا دعویٰ تھا کہ قادیان کبھی بھی طاعون کی لپیٹ میں نہیں آئے گا؟ اس نے لکھا: ’’بہرحال جب تک کہ طاعون دنیا میں رہے گو ستر برس تک رہے۔ قادیان کو اس کی خوفناک تباہی سے محفوظ رکھے گا۔ کیونکہ یہ اس کے رسول کا تخت گاہ ہے۔‘‘ (دافع البلاء ص۱۰، خزائن ج۱۸ ص۲۳۰)
مرزاغلام احمد قادیانی نے اعلان کیا کہ یہ بات اسے خدا نے بتائی ہے اور اس پر خداتعالیٰ کی وحی اتری ہے اور یہ خدا کا وعدہ ہے اور خدا اپنے وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرتا اور یہ گاؤں اب خدا کی حفاظت کے پہرے میں ہے۔ اس نے لکھا: ’’خدا نے اس گاؤں کو اپنی پناہ میں لے لیا ہے۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۴۰۳)
مرزاقادیانی کا کہنا ہے کہ اسے خدا نے یہ وحی بھیجی ہے۔ ’’مَاکَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَہُمْ وَاَنْتَ فِیْہِمْ انہ اوی القریۃ لو لا الاکرام لہلک المقام‘‘ خدا ایسا نہیں ہے کہ قادیان کے لوگوں کو عذاب دے۔ حالانکہ تو ان میں رہتا ہے اور وہ اس گاؤں کو طاعون کی دستبرداور اس کی تباہی سے بچا لے گا۔ اگر تیرا پاس مجھے نہ ہوتا اور تیرا اکرام مدنظر نہ ہوتا تو میں اس گاؤں (قادیان) کو ہلاک کر دیتا۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۴۰۳)
مرزاغلام احمد قادیانی نے یہ بھی اعلان کر دیا کہ جو مرزائی مرزاقادیانی کی چاردیواری میں آئیں گے وہ طاعون سے بچ جائیں گے۔ مرزاقادیانی نے اس کے لئے خدا کی یہ وحی سنائی۔
’’وہ خدا زمین وآسمان کا خدا ہے۔ جس کے علم اور تصرف سے کوئی چیز باہر نہیں۔ اس نے مجھ پر وحی نازل کی کہ میں ہر ایک ایسے شخص کو طاعون کی موت سے بچاؤں گا جو اس گھر کی چاردیواری میں داخل ہوگا۔‘‘
(کشتی نوح ص۲، خزائن ج۱۹ ص۲)
پھر مرزاغلام احمد قادیانی نے اس طاعون کو مخالفین کے لئے عذاب اور خود اپنے لئے رحمت قرار دیا۔ اس نے لکھا کہ: ’’ہمارے لئے طاعون رحمت ہے اور ہمارے مخالفین کے لئے زحمت اور عذاب ہے۔‘‘
(تتمہ حقیقت الوحی ص۱۳۱، خزائن ج۲۲ ص۵۶۹ حاشیہ)
مرزاغلام احمد قادیانی کے مذکورہ بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ طاعون مرزاقادیانی کے کہنے پر آیا تھا اور اس نے اس لئے طاعون منگوایا کہ دنیا نے ایک نذیر (یعنی مرزاقادیانی) کو قبول نہ کیا تھا۔ سو اب یہ طاعون جہاں جہاں جائے گا۔ مرزاقادیانی کے لئے رحمت ہوگا اور ان کے مخالفین کے لئے زحمت بنے گا۔ اب سب کی خیراسی میں ہے کہ وہ قادیان چلے آئیں اور مرزاقادیانی کے اپنے گھر میں پناہ لے لیں۔ ورنہ عمریں گذر جائیں گی۔ طاعون جانے کا نام نہیں لے گا اور سب کی جان لے کر چھوڑے گا۔
مرزاغلام احمد قادیانی کی پیش گوئی تھی کہ قادیان اور اس کا گھر طاعون سے بچا رہے گا۔ آئیے دیکھیں کہ اس کی اس پیش گوئی کا کیا حشر ہوا اور وہ کس طرح جھوٹی نکلی۔ مرزاغلام احمد قادیانی نے گویہ پیش گوئی کر دی۔ لیکن اسے پھر خوف ہوا کہ کہیں یہ رحمت ہمارے گھر پر زور دار حملہ نہ کر دے۔ چنانچہ اس نے دوائیاں لے کر روزانہ گھر کی صفائی شروع کر دی۔ قادیانی ڈاکٹر محمد اسماعیل کہتے ہیں۔
’’حضرت مسیح موعود کو… خصوصاً طاعون کے ایام میں صفائی کا اتنا خیال رہتا تھا کہ فینائل لوٹے میں حل کر کے خود اپنے ہاتھ سے گھر کے پاخانوں اور نالیوں میں جاکر ڈالتے تھے۔‘‘ (سیرۃ المہدی حصہ دوم ص۵۹، روایت نمبر۳۷۹)
مرزاقادیانی کا بیٹا بشیر احمد کہتا ہے: ’’بعض اوقات حضرت گھر میں ایندھن کا بڑا ڈھیر لگوا کر آگ بھی جلوایا کرتے تھے تاکہ ضرر رساں جراثیم مر جائیں اور آپ نے ایک بڑی آہنی انگیٹھی منگوائی ہوئی تھی۔ جسے کوئلہ ڈال کر اور گندھک وغیرہ رکھ کر کمروں کے اندر جلایا جاتا تھا اور اس وقت دروازے بند کر دئیے جاتے تھے۔‘‘
(سیرۃ المہدی ج۲ ص۵۹، بروایت نمبر۳۷۹)
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ طاعون مرزاقادیانی کے حق میں رحمت تھا اور خود انہوں نے خدا سے مانگ رکھا تھا۔ تو پھر اس رحمت کو فینائل لے کر ختم کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ پھر جب کہ خدا نے بتا بھی دیا تھا کہ اس طاعون سے قادیان اور مرزاقادیانی کا گھر پوری طرح بچا رہے گا۔ پھر دوائیں ڈالنا اور ایندھن جلوانا اور گندھک رکھنا یہ سب کن باتوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ ممکن ہے کہ مرزاقادیانی کو اپنے خدا پر ہی یقین نہ ہو کہ کہیں وہ ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی اس کی پیش گوئی پوری نہ کرے اور خدا کی یہ رحمت سیدھی اس کے گھر چلی آئے۔ یا پھر مرزاقادیانی کو اپنی باتوں پر خود بھی اعتبار نہ تھا اور وہ جانتے تھے کہ یہ سب باتیں بناوٹی ہیں۔ مرزاغلام احمد قادیانی کو اس رحمت بی بی (طاعون) کا اتنا خوف پیدا ہوا کہ انہوں نے گھر میں گوشت کھانا تک چھوڑ دیا۔
صاحبزادہ بشیر احمد کہتے ہیں۔ ’’جب طاعون کا سلسلہ شروع ہوا تو آپ نے اس (بٹیر) کا گوشت کھانا چھوڑ دیا۔ کیونکہ آپ فرماتے تھے کہ اس میں طاعونی مادہ زیادہ ہے۔‘‘ (سیرۃ المہدی ج۱ ص۵۰، بروایت نمبر۵۶)
آپ ہی سوچیں کہ جب خدا نے مرزاقادیانی کو بشارت سنادی تھی اور مرزاقادیانی خود اسے اپنے حق میں رحمت قرار دے چکے تھے تو اب موصوف پر اس رحمت کا اتنا خوف کیوں مسلط ہورہا تھا؟ کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ اس کے اپنے دل میں چور تھا اور انہیں ہر وقت فکر رہتی تھی کہ کہیں یہ رحمت بی بی انہیں اپنی بانہوں میں نہ لے لے۔ مرزاقادیانی کے خوف کا یہ عالم تھا کہ: ’’اگر کسی کارڈ کو بھی جو وباء والے شہر سے آتا چھوتے تو ہاتھ ضرور دھو لیتے۔‘‘
(الفضل قادیان مورخہ ۲۸؍مئی ۱۹۳۷ء)
مرزاقادیانی نے خدا سے طاعون منگوالیا تو لیکن اب وہ خود ان کے قابو میں نہیں آرہا تھا اور آہستہ آہستہ یہ طاعون قادیان کے قریب ہو گیا۔ مرزاغلام احمد قادیانی نے اپنے حکیم دوستوں کی مدد سے طاعون سے بچاؤ کی دوا تیار کرنی شروع کر دی۔ قادیان کے مفتی محمد صادق نے اپنی ایک تقریر میں اس کا ذکر کیا۔ جو الفضل قادیان میں شائع ہوئی۔ اس کا یہ حصہ دیکھئے۔
’’جب ہندوستان میں پیش گوئی کے مطابق طاعون کا مرض پھیلا اور اس کے کیس ہونے لگے تو حضرت مسیح موعود نے اس کے لئے ایک دوا تیار کی۔ جس میں کونین، جدوار، کافور، کستوری، مروارید اور بہت سی قیمتی ادویہ ڈالی گئیں اور کھرل کر کے چھوٹی چھوٹی گولیاں بنالی گئیں۔ میں نے دیکھا کہ بعض مخالف ہندو بھی آکر مانگتے تو آپ مٹھی بھر ان کو خندہ پیشانی کے ساتھ عطا کر دیتے۔‘‘ (الفضل قادیان مورخہ ۱۴؍اپریل ۱۹۴۶ء)
مرزاقادیانی نے طاعون مخالفین کی ہلاکت کے لئے منگوایا تھا۔ ان کو تو خوش ہونا چاہئے تھا کہ ان کی پیش گوئی پوری ہورہی ہے۔ مگر یہاں معاملہ اس کے برعکس ہورہا تھا۔ خود مرزاقادیانی کو اپنی فکر پڑی تھی اور مخالفین کو بھی بچانے کی فکر میں مبتلا ہوگئے تھے۔ سوال یہ ہے کہ وہ تعلّی اور دعوے کہاں گئے؟ کیا یہ خدا پر افتراء نہیں تھا؟ یہ بات خدا کی نہیں تھی۔ اس لئے قادیان میں رحمت بی بی (یعنی طاعون) نے قدم رکھ لیا۔ مرزابشیر احمد اعتراف کرتا ہے کہ قادیان میں سخت طاعون آیا تھا اور مرزاغلام احمد قادیانی کے پڑوسیوں کی موتیں بھی ہوئیں تھیں۔ اس نے لکھا: ’’قادیان میں طاعون آئی اور بعض اوقات کافی سخت حملے بھی ہوئے۔ مگر اپنے وعدہ کے مطابق خدا نے اسے اس تباہ کن ویرانی سے بچایا جو اس زمانہ میں دوسرے دیہات میں نظر آرہی تھی۔ پھر خدا نے حضرت مسیح موعود کے مکان کے اردگرد بھی طاعون کی تباہی دکھائی اور آپ کے پڑوسیوں میں کئی موتیں ہوئیں۔‘‘ (سلسلہ احمدیہ ص۱۲۲، مطبوعہ قادیان ۱۹۳۹ء)
قادیانی اخبار الحکم نے مورخہ ۱۰؍اپریل ۱۹۰۴ء کی اشاعت میں لکھا: ’’’اﷲتعالیٰ کے امر ومنشاء کے ماتحت قادیان میں طاعون مارچ کی اخیر تاریخوں میں پھوٹ پڑا۔ ۴اور۶ کے درمیان روزانہ موتوں کی اوسط ہے۔
ان دنوں اخبار اہل حدیث امرتسر نے ۲۲؍اپریل ۱۹۰۴ء کی اشاعت میں بھی یہ خبر دی تھی کہ: ’’قادیان میں آج کل سخت طاعون ہے۔ مرزاقادیانی اور مولوی نوردین کے تمام مرید قادیان سے بھاگ گئے ہیں۔ مولوی نوردین کا خیمہ قادیان سے باہر ہے۔‘‘
یہ نہ سمجھئے کہ یہ اخبار مخالفین کے ہیں۔ خود مرزاقادیانی کے اپنے اخبار بدر قادیان کے ایڈیٹر نے لکھا: ’’قادیان میں جو طاعون کی چند وارداتیں ہوئی ہیں۔ ہم افسوس سے بیان کرتے ہیں کہ بجائے اس کے کہ اس نشان سے ہمارے منکر اور مکذب کوئی فائدہ اٹھاتے اور خدا کے کلام کی قدر اور عظمت اور جلال ان پر کھلتی۔ انہوں نے پھر سخت ٹھوکر کھائی۔‘‘
(اخبار بدر قادیان مورخہ ۲۴؍اپریل ۱۹۰۳ء)
اس سے پتہ چلتا ہے کہ قادیان میں طاعون داخل ہوچکا تھا اور مرزاقادیانی کی رحمت بی بی بہت سے قادیانیوں کا شکار کر چکی تھی۔ بجائے اس کے کہ قادیانی اس سے عبرت حاصل کرتے اور مرزاقادیانی پر دو بول پڑھتے الٹا مخالفوں پر برسنے لگے کہ انہیں عبرت حاصل کرنی چاہئے تھی۔ ان بھلے مانسوں سے کوئی پوچھے کہ قادیان میں طاعون کے نہ آنے کی پیش گوئی مرزاقادیانی کی تھی یا ان کے مخالفین کی؟ کچھ دنوں بعد جب طاعون کی شدت میں کمی آئی تو مرزاقادیانی نے لکھا: ’’آج کل ہر جگہ مرض طاعون زوروں پر ہے۔ اس لئے اگرچہ قادیان میں نسبتاً آرام ہے۔‘‘
(اخبار بدر قادیان مورخہ ۱۹؍دسمبر ۱۹۰۲ء)
مرزاقادیانی کے اس اعتراف سے معلوم ہوتا ہے کہ مرزاقادیانی کے خدا کی یہ بات غلط ہوئی کہ قادیان طاعون سے محفوظ رہے گا۔ اگریہ بات اﷲتعالیٰ کی طرف سے ہوتی تو قادیان کبھی طاعون کا شکار نہ ہوتا۔ اﷲ کی بات سچی ہوتی ہے اور وہ اپنے مقبولوں کو کبھی بے عزت نہیں کیا کرتا۔
مرزاقادیانی نے باربار لکھا کہ انہیں خدا نے بذریعہ وحی بتایا ہے کہ قادیان چونکہ اس کے نبی کی تخت گاہ ہے۔ اس لئے وہ محفوظ رہے گا۔ مگر مرزاقادیانی کا یہ نادان مرید کس طرح دجل وفریب دیتا ہے۔ اسے ملاحظہ کیجئے اس نے لکھا: ’’قادیان میں طاعون حضرت مسیح کے الہام کے ماتحت برابر کام کر رہی ہے۔‘‘ (اخبار بدر قادیان مورخہ ۱۶؍مئی ۱۹۰۳ء)
حالانکہ لکھنا یہ چاہئے تھا کہ مرزاقادیانی کی پیش گوئی کے مطابق قادیان میں طاعون کا نام ونشان نہیں ہے۔ مگر لکھا یہ جارہا ہے کہ قادیان میں طاعون اس لئے اپنا کام کر رہا ہے کہ مرزاقادیانی نے قادیان میں طاعون کے آنے کی پیش گوئی کی تھی۔ کیا یہ کھلا جھوٹ نہیں؟ افسوس کہ مرزاقادیانی اس پر کچھ نہ بولے اور اپنے مرید کی اس غلط بیانی اور دجل کی داد دیتے رہے۔ کیونکہ اس میں ان کا اپنا ہی بھلا تھا۔
پھر مرزاغلام احمد قادیانی نے کہا تھا کہ جو قادیان میں آئے گا وہ طاعون سے بچا رہے گا اور اب نوبت یہاں تک آگئی کہ خود مرزاقادیانی قادیان چھوڑ کر بھاگ آئے اور اس نے ایک کھلے باغ میں پناہ لے لی۔ یہاں سے اس نے ایک سیٹھ کے نام خط لکھا کہ: ’’میں اس وقت تک مع اپنی جماعت کے باغ میں ہوں۔ اگرچہ اب قادیان میں طاعون نہیں ہے۔ لیکن اس خیال سے کہ جو زلزلہ کی نسبت مجھے اطلاع دی گئی ہے۔ اس کی نسبت میں توجہ کر رہا ہوں۔ اگر معلوم ہوا کہ وہ واقعہ جلد اترنے والا ہے تو اس واقعہ کے ظہور کے بعد قادیان واپس چلے جائیں گے۔ بہرحال دس یا پندرہ جون تک میں اسی باغ میں ہوں۔‘‘ (مکتوبات احمدیہ ج۵ ص۳۹)
اس سے پتہ چلتا ہے کہ قادیان سے طاعون کے ختم ہونے کے باوجود مرزاقادیانی قادیان واپس جانے سے ڈرتے تھے کہ کہیں کسی کونے میں ’’رحمت بی بی‘‘ بیٹھی نہ ہو اور وہ ہلکا پھلکا حملہ ہی نہ کر دے۔ مرزاغلام احمد قادیانی کے کئی مریدوں نے محسوس کیا کہ مرزاقادیانی طاعون کے خوف سے قادیان سے بھاگ گئے ہیں۔ جب مرزابشیرالدین محمود کو پتہ چلا تو اس نے کہا کہ اس قسم کی باتیں کرنے والے بے وقوف ہیں۔ مرزابشیرالدین کہتا ہے کہ: ’’کئی بے وقوف کہہ دیا کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود طاعون سے ڈر کر باغ میں چلے گئے اور تعجب ہے کہ بعض احمدیوں کے منہ سے بھی یہ بات سنی ہے۔ حالانکہ طاعون کے ڈر سے حضرت نے کبھی اپنا گھر نہیں چھوڑا۔ اس وقت چونکہ زلازل سے متعلق آپ کو کثرت سے الہامات ہورہے تھے۔ اس لئے… الخ!‘‘ (الفضل قادیان مورخہ ۱۱؍مئی ۱۹۳۳ء)
مرزاقادیانی نے خدا سے طاعون کا یہ عذاب اس لئے مانگا تھا کہ مرزاقادیانی کی جماعت ترقی کرے اور ان کے مخالفین نیست ونابود ہو جائیں۔ مگر حالت یہ ہوگئی کہ مرزاقادیانی کے معتقدین یکے بعد دیگرے نیست ونابود ہورہے تھے۔ لاہور کے پیر بخش پنشنر پوسٹ ماسٹر نے مرزاقادیانی کے ان خصوصی مریدوں کے نام لکھے ہیں جو طاعون سے مرے تھے۔ لکھتے ہیں:
’’بڑے بڑے مرزائی طاعون سے ہلاک ہوئے۔ مثلاً مولوی برہان الدین جہلمی، محمد افضل ایڈیٹر البدر، اور اس کا لڑکا، مولوی عبدالکریم سیالکوٹی، مولوی محمد یوسف سنوری، عبداﷲ سنوری کا بیٹا، ڈاکٹر بوڑے خان، قاضی ضیاء الدین، ملاں جمال الدین سیدوالہ، حکیم فضل الٰہی، مرزافضل بیگ وکیل، مولوی محمد علی ساکن زیرہ، مولوی نوراحمد ساکن لودھی ننگل، ڈنگہ کا حافظ… (تردید نبوت قادیانی ص۹۶، مطبوعہ جنوری ۱۹۲۵ء)
مرزاقادیانی اپنے مریدوں کی موت سے بہت پریشان تھا۔ چنانچہ اس خوف سے کہ کہیں اس کی جماعت کی ترقی معکوس میں نہ ہو۔ یہ فتویٰ جاری کر دیا کہ قادیانی میت کو نہ غسل دیا جائے، نہ کفن پہنایا جائے۔ چار آدمی اس کا جنازہ لے کر چلیں اور سوگز کے فاصلے سے اس کی نماز جنازہ ادا کر کے اسے دفن کر دیا جائے۔ فتویٰ ملاحظہ کیجئے۔
’’جو خدانخواستہ اس بیماری میں مر جائے… ضرورت غسل کی نہیں اور نہ نیا کپڑا پہنانے کی ضرورت ہے… چونکہ مرنے کے بعد میت کے جسم میں زہر کا اثر زیادہ ترقی پکڑتا ہے۔ اس واسطے سب اس کے گرد جمع نہ ہوں۔ حسب ضرورت دو تین آدمی اس کی چارپائی کو اٹھائیں اور باقی سب دور کھڑے ہو کر مثلاً ایک سوگز کے فاصلہ پر جنازہ پڑھیں۔‘‘
(مندرجہ الفضل قادیان مورخہ ۲۱؍مارچ ۱۹۱۵ء)