ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
مولانا عبدالحکیم: مسلمانوں کے معنی کے لحاظ سے لکھیں تو معنی ظاہر ہیں مگر مرزائی بتائیں کہ ’’
یوم القیامۃ یکون علیہم شہیدا
‘‘ کا کیا معنی ہے وہ کس بات کے گواہ ہوں گے؟ حق وناحق کو تو تمام کافر موت کے وقت پہچان لیں گے۔ تو وہ کس پر گواہی دیں گے اور کس بات کی دیں گے؟
کیا کسی ایک محدث، مفسر اور مجدد کا نام لیا جاسکتا ہے جس نے اس آیت کا وہ معنی کیا ہو جو مرزاجی نے کیا ہے۔ اگر یہ من گھڑت معنی ہے تو مرزاجی کے اس قول کو یاد رکھیں کہ ’’ایک نیامعنی اپنی طرف سے گھڑنا الحاد دو زندقہ ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۷۴۵، خزائن ج۳ ص۵۰۱)
قرآن سے حیاتِ عیسی علیہ السلام کا ثبوت (آیت نمبر ۶)
آیت نمبر۶: ’’
اذ قال اﷲ یا عیسی ابن مریم اذکر نعمتی علیک وعلیٰ والدتک اذ ایدّتک بروح القدس تکلم الناس فی المہد وکہلا واذ علمتک 2537الکتاب والحکمۃ والتوراۃ والانجیل واذ تخلق من الطین کہیئۃ الطیر باذنی فتنفخ فیہا فتکون طیراً باذنی واتبرئی الاکمہ والابرص باذنی واذ تخرج الموتیٰ باذنی واذ کففت بنی اسرائیل عنک اذ جئتہم بالبینات فقال الذین کفروا منہم ان ہذا الا سحر مبین
(مائدہ:۱۱۰)‘‘ {اور جب کہے گا اﷲ اے عیسیٰ بیٹے مریم کے میری مہربانی یاد کر جو تم پر اور تمہاری والدہ پر میں نے کی۔ جب میں نے تمہاری مدد روح القدس سے کی۔ تم گود میں اور بڑی عمر میں لوگوں سے باتیں کرتے تھے اور جب میں نے تمہیں کتاب وحکمت اور تورات وانجیل کی تعلیم دی اور جب تم گارے سے پرندے کی طرح شکل میرے حکم سے بنا کر اس میں پھونک دیتے تھے تو وہ پرندہ ہو جاتا میرے حکم سے اور جب میں نے بنی اسرائیل کو روکے رکھا تم سے۔ جب تم ان کے پاس کھلے دلائل لائے تو کافروں نے ان میں سے کہا یہ تو بس صاف صاف جادو ہے۔}
اس آیت کریمہ میں اﷲتعالیٰ نے قیامت کا ذکر فرمایا ہے کہ اس دن اﷲتعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر اپنے احسانات کا ذکر کرتے ہوئے علاوہ اور احسانات کے یہ بھی فرمائیں گے کہ میں نے ان کو تم سے روکے رکھا۔ یعنی دست درازی اور ہاتھوں کو روکنا تو درکنار ہم نے ان کو آپ تک پہنچنے بھی نہ دیا۔ اس میں کمال حفاظت کی نعمت کا ذکر ہے اور اسی صورت میں یہ اﷲتعالیٰ کی نعمت اور احسان ہے۔ ورنہ جس طرح مرزاقادیانی نے بیان کیا۔ وہ ایک مذاق ہی ہے۔
یہاں مرزائیوں نے اعتراض کیا ہے کہ وعدۂ عصمت کے بعد رسول اﷲ ﷺ کو جنگ احد میں تکلیف پہنچی۔ 2538پہلے تو اس کا جواب یہ ہے کہ عصمت اور بچانا اور چیز ہے اور کف بمعنی روکے رکھنا اور چیز ہے۔
پھر یہ آیت کریمہ سورۂ مائدہ کی ہے جو ۵ھ اور ۷ھ کے درمیان نازل ہوئی۔ مولوی محمد علی امیر جماعت احمدیہ لاہور نے اپنی تفسیر (بیان القرآن مطبوعہ ۱۳۴۰ھ ص۵۸۸) میں اس بات کااقرار کیا ہے اور خاص کر یہ آیت کریمہ ’’واﷲ یعصمک من الناس‘‘ دوران سفر ذات الرقاع غزوۂ انمار میں نازل ہوئی تھی۔ جو ۵ھ میں واقع ہوا۔ یہ بات مرزائیوں کے مسلمہ مجدد صدی نہم امام سیوطیؒ نے (تفسیر اتقان جزو اوّل ص۳۲) میں لکھی ہے۔ پس (نزول المسیح ص۱۵۱، خزائن ج۱۸ ص۵۲۹) میں مرزاقادیانی کا یہ لکھنا کہ ’’وعدہ عصمت کے بعد حضور کو جنگ احد میں تکلیف پہنچی تھی۔‘‘ بالکل جھوٹ ثابت ہو جاتا ہے۔ اب مجددین کی رائے ملاحظہ ہوں۔
اس میں اﷲتعالیٰ نے اپنے احسانات میں صفائی سے یہ بیان کیا کہ ہم نے بنی اسرائیل کو تم سے روکے رکھا۔ جب کہ مرزاجی کے ہاں تو خداتعالیٰ نے ان یہود کو اس طرح روکے رکھا کہ وہ پکڑ کر لے گئے۔ منہ پر تھوکا، طمانچے مارے۔ مذاق اڑایا۔ سولی پر چڑھایا اعضاء میں میخیں ٹھونکیں۔ وہ چیختا رہا کہ اے خدا تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا۔ پھر یہودیوں نے اس کو مردہ سمجھ کر اتار دیا۔ خفیہ علاج ہوا۔ مرہم رکھتے رہے آخر اچھا ہو کر وہ وہاں سے بھاگے اور پہاڑوں، دریاؤں، بیابانوں کو طے کرتے ہوئے سرحد پنجاب پہنچے۔ پھر کسی طرح کشمیر پہنچ گئے اور سری نگر میں (توبہ کر کے) خاموش زندگی گزادی اور وہیں مر گئے۔ مرزائیوں کے ہاں یہ اﷲتعالیٰ کی کامیاب تدبیر تھی اور اس طرح اﷲتعالیٰ نے یہود کو عیسیٰ علیہ السلام تک نہیں پہنچنے دیا۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون!
کف کا معنی عربی میں روکے رکھنے کے ہیں قرآن پاک میں ہے۔
2539
’’
یکفوا ایدیہم (نسائ:۹۱)‘‘
’’فکف ایدیہم عنکم (نسائ:۱۱)‘‘
’’کفوا ایدیہم (نسائ:۷۷)‘‘
’’وکف ایدی الناس عنکم (فتح:۲۰)‘‘
’’الذی کف ایدیہم عنکم وایدیکم عنہم (فتح:۲۴)
‘‘
ان تمام مقامات میں قرآن پاک نے اسی کف کو روکے رکھنے کے معنی میں استعمال کیا ہے۔
چونکہ ان جگہوں میں ایک دوسرے کا سامنا ہوا یا مقابلہ کی شکل بنی تو اﷲتعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے ایک کے ہاتھ دوسرے تک پہنچنے سے روکے رکھے۔ مگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قصہ میں یہود اور پولیس سے مقابلے اور آمنے سامنے ہونے کی نوبت ہی نہیں آئی۔ اس لئے ایدی نہیں فرمایا کہ ہم نے بنی اسرائیل کو آپ سے روکے رکھا۔ نہ تو وہ آپ تک پہنچنے پائے اور نہ ہی مقابلے کی صورت پیدا ہوئی۔ ایک صورت اعجاز کی یہ بھی ہے۔ اب آپ مجددین کی رائے ملاحظہ فرمائیں:
۱… مجدد صدی نہم امام جلال الدین سیوطیؒ تفسیر جلالین زیربحث آیت میں فرماتے ہیں۔
’’
وکھلاً یفید نزولہ قبل الساعۃ لانہ، رفع قبل الکہولۃ کما سبق فی
(آل عمران)‘‘ {وکہلاً سے ثابت ہوتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام قیامت سے پہلے نازل ہوں گے اس لئے کہ وہ کہولت سے پہلے ہی اٹھالئے گئے تھے۔}
۲… 2540مجدد صدی ششم امام فخرالدین رازیؒ (تفسیر کبیر ج۸ ج۴ ص۵۵) میں فرماتے ہیں: ’’
نقل ان عمر عیسیٰ علیہ السلام الیٰ ان رفع کان ثلاثاً وثلاثین سنۃ وستۃ اشہر وعلیٰ ہذا التقدیر فہو مابلغ الکھولۃ والجواب من وجہین… والثانی قول الحسین بن الفضل ان المراد بقولہ وکہلاً ان یکون کہلا بعد ان ینزل من السماء فی آخر الزمان ویکلم الناس ویقتل الدجال قال الحسین بن الفضل وفی ہذہ الایۃ نص علیٰ انہ علیہ السلام سینزل الی الارض
‘‘ {نقل ہے جب عیسیٰ علیہ السلام اٹھائے گئے ان کی عمر ساڑھے تینتیس برس تھی۔ (گویا انہوں نے ادھیڑ عمر میں لوگوں سے باتیں نہیں کیں) حضرت حسین بن الفضل فرماتے ہیں کہ مراد یہ ہے کہ نزول کے بعد کہولت کے زمانہ میں وہ باتیںکریں گے۔ ہزارہا سال کے بعد بوڑھا نہ ہونا پھر ادھیڑ ہوکر باتیں کرنا یہ وہ نعمت ہے جس کو قیامت کے دن اﷲتعالیٰ جتائیں گے۔ حضرت حسین بن فضل فرماتے ہیں کہ آیت میں تصریح ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام عنقریب زمین پر اتریں گے۔}
باقی دوسرا احسان حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا پنگھوڑے میں باتیں کرنا یہ کیا مشکل ہے۔ جب جبرائیل علیہ السلام کے پاؤں کے نیچے کی مٹی سے سامری کا بچھڑا جو دھات سے بنا تھا بول اٹھا، تو جو بزرگ پیدا ہی جبرائیل علیہ السلام کی پھونک سے ہوئے تھے۔ ان کا بچپن میں باتیں کرنا کیوں تعجب خیز ہے؟ مرزاغلام احمد قادیانی نے تو لکھا ہے کہ ’’میرے اس لڑکے نے دوبارہ ماں کے پیٹ میں باتیں کیں۔‘‘ خدا جانے کہاں کان رکھ کر یہ باتیں سنی گئیں؟ بہرحال یہ اس سے زیادہ مشکل ہے۔
قرآن سے حیاتِ عیسی علیہ السلام کا ثبوت (آیت نمبر ۷)
آیت نمبر۷: ’’
واذ قال اﷲ یا عیسی ابن مریم أانت قلت للناس اتخذونی وامی الٰہین من دون اﷲ قال سبحٰنک ما یکون لی ان اقول ما لیس لی بحق، ان کنت قلتہ فقد علمتہ تعلم ما فی نفسی ولا اعلم مافی نفسک انک انت علام الغیوب ما قلت لہم الا ما 2541امرتنی بہ ان اعبدو اﷲ ربی وربکم، وکنت علیہم شہیداً مادمت فیہم فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیہم وانت علیٰ کل شیٔ شہید ان تعذبہم فانہم عبادک وان تغفرلہم فانک انت العزیز الحکیم
(مائدہ:۱۱۵تا۱۱۸)‘‘ {اور جب کہیں گے اﷲتعالیٰ اے عیسیٰ بن میریم کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو خداتعالیٰ کے سوا معبود بنالو۔ وہ عرض کریں گے کہ اے اﷲ آپ برتر (اور شرک سے) پاک ہیں۔ یہ میرے لئے کیسے ممکن ہے کہ وہ بات کہوں جس کا کسی طرح مجھے حق نہیں۔ اگر میں نے کہا تھا تو آپ اس کو جانتے ہیں۔ آپ میرے دل کی بات جانتے ہیں۔ میں آپ کی بات نہیں جانتا۔ آپ بے شک غیب کی باتوں کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ میں نے ان کو وہی بات کہی ہے جس کا آپ نے حکم دیا کہ میرے اور اپنے مالک کی عبادت کرو اور میں ان کا نگہبان (یا گواہ) تھا جب تک ان میں رہا۔ پھر جب آپ نے مجھے اٹھا لیا۔ آپ خود ہی نگہبان (یا گواہ) تھے اور آپ ہر بات کے گواہ (اور واقف) ہیں اگر آپ ان کو عذاب دیں تو یہ آپ کے بندے ہیں۔ (آپ کو حق حاصل ہے) اور اگر آپ ان کو بخشش دیں تو آپ (پوری طرح) غالب اور حکمتوں والے ہیں (سب کچھ) کر سکتے ہیں۔}
یہاں اﷲتعالیٰ قیامت کے دن کا ذکر فرماتے ہیں۔ یہ اس لئے نہیں کہ اﷲتعالیٰ جانتے نہیں یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام نعوذ باﷲ ملزم ہیں۔ بلکہ اہل کتاب کو ذلیل ورسوا اور لاجواب کرنے کے لئے پوچھا جائے گا۔ کیونکہ عیسائی ان کو خدا اسی لئے بناتے تھے کہ 2542ان کا خیال تھا یا جان بوجھ کر جھوٹ گھڑ لیا تھا کہ یہ تعلیم حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دی ہے۔ اس سوال کے جواب میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام وہی کچھ کہیں گے جو ایک پیغمبر کی شایان شان ہے۔ آخر میں فرمائیں گے جب تک میں ان میں رہا ان کا نگران تھا۔ مگر جب آپ نے مجھے اٹھا لیا پھر آپ خود ہی نگران اور گواہ تھے۔ مرزاجی نے یہاں بھی ’’توفیتنی‘‘ کا معنی غلط کیا ہے کہ ’’جب آپ نے مجھے وفات دی۔‘‘ مگر صریحاً غلط ہے کیونکہ مرزاجی تو ستاسی سال واقعہ صلیب کے بعد سری نگر میں ان کو مارتے ہیں اور اس وقت تک بقول ان کے وہ زندہ تھے اور عیسائی ان سے پہلے ہی بگڑ چکے تھے۔
چنانچہ (چشمہ معرفت ص۲۵۴، خزائن ج۲۳ ص۲۶۶) پر لکھتے ہیں: ’’انجیل پر ابھی تیس برس بھی نہیں گزرے تھے کہ خدا کی جگہ عاجز انسان کی پرستش نے لے لی۔‘‘
اس طرح بقول مرزاجی کی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات سے اسی نوے سال پہلے عیسائی بگڑ چکے تھے تو وہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ مرنے سے پہلے میں گواہ تھا۔ وہ تو دروں، پہاڑوں، دریاؤں اور بیابانوں میں پریشان پھرتے پھراتے سری نگر پہنچے جب کہ اس زمانہ میں وہاں بغیر لشکر کے پہنچنا اور اپنی قوم کے حالات سے واقف ہونا مشکل تھا۔ نیز آیت کریمہ سے مرزائی ترجمہ کے مطابق معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی علیحدگی ان لوگوں سے موت کے ذریعے ہوئی تھی۔ حالانکہ بقول مرزاجی علیحدگی عرصہ دراز پہلے ہوئی اور موت بعدمیں۔
اب آپ آیت کریمہ کا اعجاز ملاحظہ کریں کہ ’’
مادمت فیہم
‘‘ فرمایا ہے۔ ’’مادمت حیا‘‘ نہیں فرمایا کہ جب تک میں زندہ رہا۔ بلکہ یہ فرمایا کہ جب تک میں ان میں رہا۔ مطلب صاف ہے کہ جب آپ آسمان کی طرف لے جائے گئے تو آپ کی ذمہ داری یا نگرانی کیسے باقی رہی؟
2543مرزاجی لوگوں کو احمق بنانے کے لئے کہتے ہیں کہ جب ان کو دوبارہ آنا ہے تو وہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ مجھے کوئی علم نہیں۔
۱… حالانکہ قرآن پاک میں ایسا نہیں ہے اور اگر یہی مطلب ہو تو سارے انبیاء علیہم السلام کے بارے میں مرزاجی کا کیا خیال ہے جب ان سے قیامت میں پوچھا جائے گا۔ ’’ماذا اجبتم قالوا لاعلم لنا‘‘ {تمہیں کیا جواب دیا گیا وہ عرض کریں گے ہمیں کوئی علم نہیں۔}
مرزاجی! جو جواب یہاں دیں وہی جواب ہمارا بھی سمجھ لیں۔
۲… دوسرے مرزاجی خود تسلیم کرتے ہیں کہ آسمان پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ان کی امت کی بے راہ روی کا علم ہوا تو انہوں نے زمین پر اپنا مثیل اور صفاتی رنگ میں اپنا بروز چاہا۔ جب مرزاجی کو بروزی مسیح بننے کی ضرورت ہوئی تو یہاں تک مان لیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان میں ان کی امت کی برائیوں کا علم ہوا اور جب مسلمانوں کو دھوکا دینا ہو تو یوں گویا ہوتے ہیں کہ لاعلمی ظاہر کریں گے؟ حالانکہ آنے سے پہلے ہی ان کو اﷲتعالیٰ نے سب باتوں کا علم دے دیا ہوتا ہے اور غیاب کے زمانہ کی کوئی ذمہ داری ان پر عائد نہیںہوتی نہ وہ نگران ہوتے ہیں۔ باقی انہوں نے علم سے انکار نہیںکیا ہے۔
’’
کنت انت الرقیب علیہم
‘‘ میں شہید کے مقابلہ میں رقیب استعمال کر کے صاف بتادیا کہ یہاں علم کا سوال ہی نہیں۔ بات صرف یہ ہے کہ میں نے ان غلط باتوں کا نہیں کہا اور جب تک میں ان میں رہا میں نگران تھا۔ میرے اٹھائے جانے کے بعد آپ خود ہی نگران تھے۔
قرآن سے حیاتِ عیسی علیہ السلام کا ثبوت (آیت نمبر ۸)
2544آیت نمبر۸: ’’
وانہ لعلم للساعۃ فلا تمترن بہا واتبعون ہذا صراط مستقیم
(الزخرف:۶۱)‘‘ {اور یقینا وہ (عیسیٰ علیہ السلام) یقینی نشانی ہیں قیامت کی، سو شک نہ کرو اس میں، اور میری تابعداری کرو۔ یہ سیدھی راہ ہے۔}
اس آیت میں صاف صاف بیان ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول اور دوبارہ تشریف لانا قیامت کی دلیل ہے۔ جس کا ذکر ہم عنقریب کریں گے۔ انشاء اﷲ تعالیٰ!
۱… قرآن پاک کی آیات کی تصریحات کے بعد اس میں کیا شک رہ سکتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام یا ان کا نزول قیامت کی نشانی ہے۔
۲… احادیث بھی آگے چل کر آپ پڑھیں گے۔ لیکن یہاں خاص مناسبت کی وجہ سے ایک اور روایت درج کرتے ہیں۔ حضرت عبداﷲ ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ ’’جس رات حضور ﷺ کو معراج ہوئی اس رات سرور عالم ﷺ کی ملاقات حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ہوئی۔ قیامت کا تذکرہ چلا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کے علم سے انکار کر دیا۔ اس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی انکار کر دیا۔ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نمبر آیا انہوں نے فرمایا کہ وقوع قیامت کا علم تو سوائے خدا کے کسی کو نہیں اور جو عہد میرے ساتھ ہے وہ اتنا ہے کہ قرب قیامت میں دجال خارج ہو گا۔ میں نازل ہو کر اس کو قتل کروں گا۔‘‘ (ابن ماجہ، مسند احمد، حاکم، ابن جریر اور بیہقی بحوالہ درمنثور)
۳… حضرت عبداﷲ ابن عباسؓ سے درمنثور میں روایت ہے کہ وہ علم للساعۃ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قیامت سے پہلے تشریف لانا مراد لیتے ہیں۔
۴… 2545امام حافظ (ابن کثیرؒ ج۷ ص۴۰۶) نے اپنی تفسیر میں اور امام فخرالدین رازیؒ مجدد صدی ششم نے (تفسیر کبیر جلد نمبر۱۴ جز۱۷ ص۲۲۲) میں اس آیت کریمہ کے تحت انہ کی ضمیر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف راجع کی اور ان کے نزول کو قرب قیامت کی نشانی قرار دیا۔
انجیل متی باب نمبر۲۴، انجیل مرقس باب نمبر۱۳ اور انجیل لوقا میں ہے کہ: ’’میرے نام سے بہتیرے آئیں گے یقین نہ کرنا۔ یسوع سے پوچھا گیا کہ دنیا کے آخر ہونے کا نشان کیا ہے اور یہ باتیں کب ہوں گی۔ جب کہ وہ زیتون کے پہاڑ پر بیٹھا تھا۔ اس نے کہا جھوٹے نبی اور جھوٹے مسیح تم کو گمراہ نہ کریں کسی کی بات نہ ماننا، جیسے بجلی کوند کر پورب سے پچھم کو جاتی ہے۔ اسی طرح ابن مریم آئے گا قدرت اور جلال کے ساتھ۔‘‘
اس سے یہ نتائج برآمد ہوئے۔
۱… وہ اپنے تمام مثیلوں سے بچنے کی ہدایت کر رہے ہیں۔
۲… حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آنا قیامت کی نشانی ہے۔
۳… حضرت مسیح علیہ السلام اچانک (آسمان) سے آئیں گے۔
۴… وہ بڑی قدرت اور جلال کے ساتھ آئیں گے۔
یہی مضمون قرآن وحدیث میں بھی موجود ہے… مرزائیوں کو چاہئے کہ اس پر ایمان لاکر مسلمان ہو جائیں۔
قرآن سے حیاتِ عیسی علیہ السلام کا ثبوت (آیت نمبر ۹)
آیت نمبر۹: ’’
ویکلم الناس فی المہد وکہلا
(آل عمران:۴۶)‘‘
یہ دراصل وہی پہلی آیت ہے جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کا ذکر ہے۔ یہاں اس طرف توجہ دلانی مقصود ہے کہ اﷲتعالیٰ خاص طور پر زمانہ ’’کہولت‘‘ (ادھیڑ عمر) میں باتیں کرنے کا ذکر فرماتے ہیں۔ پھر قیامت کے دن اپنے احسانات میں بھی زمانہ کہولت میں باتیں کرنے کا ارشاد ہوتا ہے۔
2546حالانکہ بڑی عمر میں باتیں کرنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ خاص نہیں ہے کہ ان پر احسان جتایا جائے۔ یہ تو سب انسانوں کو حاصل ہے۔ بات یہی ہے کہ چونکہ بڑی عمر میں باتیں کرنے کا موقع نہیں ملا۔ کیونکہ وہ آسمان پر اٹھا لئے گئے تھے۔ اس لئے جب دوبارہ آئیں گے تو وہ زمانہ کہولت میں لوگوں سے باتیں کریں گے۔ یہ خاص اور معجزانہ انداز کی باتیں ہوں گے۔
ایک حدیث میں آیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب دوبارہ آئیں گے تو چونکہ پہلے ان کی شادی نہ ہوئی تھی۔ اس لئے وہ شادی بھی کریں گے۔ اس ضمن میں مرزاجی لکھتے ہیں: ’’شادی تو ہر شخص کرتا ہے اور اولاد بھی ہوتی ہے۔ بلکہ تزوج سے مراد وہ خاص تزوج ہے جو بطور نشان ہوگا۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۵۳، خزائن ج۱۱ ص۳۳۷)
اس مقام پر مرزاجی نے محمدی بیگم کے ساتھ اپنے نکاح کے بارہ میں سرور عالم ﷺ کو بھی ملوث کرنے کی ناپاک کوشش کی ہے۔ اگر حضور ﷺ نے تیرہ سو برس پہلے فرمایا تھا کہ محمدی بیگم سے مرزاجی کی شادی ہوگی اور اس ارشاد کا معنی وفات شریف تک آپ ﷺ پر نہ کھلا تو آپ ﷺ پیغمبر کیسے ہوئے۔ العیاذ باﷲ!
اس طرح جو کہتے ہیں ادھیڑ عمر میں باتیں کرنا کون سا کمال ہے کہ پیدائش کے ذکر میں بھی اﷲتعالیٰ اس کا ذکر کرتے ہیں اور قیامت میں بھی احسان جتلائیں گے۔ معلوم ہوا کہ یہ کہولت معجزانہ کہولت ہے جو ہزارہا سال گزرنے کے بعد کی ہے۔