• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قومی اسمبلی میں ہونے والی اکیس دن کی مکمل کاروائی

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(جناب کرم بخش اعوان کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر خطاب)
جناب کرم بخش اعوان: نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم ! جناب والا! مرزاناصر احمد امام مرزائی امت ربوہ کی طرف سے دئیے گئے محضرنامہ کو میں نے غور سے پڑھا ہے اور انہوں نے دس دن کی جرح کے دوران جو لغوی معنے اور جوتاویلیں کی ہیں وہ بھی بڑے غور سے سنی ہیں۔ اسی طرح لاہوری پارٹی کا وضاحتی بیان بھی پڑھا اور ان کے بھی لغوی معنی اور تاویلیں اچھی طرح سے سنی ہیں۔ جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں ان کا مقصد یہ ہے کہ مرزائیوں کو مسلمانوں کا ایک فرقہ سمجھا جائے اور جس طرح وہ نوے(۹۰) سال سے مسلمان قوم کا شکار کر رہے ہیں اسی طرح اسلام کے نام پر اپیلیں کرتے رہیں اور قرآن وحدیث کا اسلحہ استعمال کر کے مسلمانوں کو تہ تیغ کرتے رہیں۔ یہ ایک سیاسی تنظیم ہے اور انگریزوں کی پیداوار ہے۔ انگریزوں کو یہ پودا لگانے کی کیوں ضرورت محسوس ہوئی؟ یہ ولیم ہنٹر کی کتاب ’’دی انڈین مسلمان‘‘ پڑھی جائے تو اس سے سمجھ پڑتی ہے کہ انگریز کو یہ پودا لگانے کی کیوں ضرورت پیش آئی اور اس وقت کیاتکلیف تھی۔ یہ کتاب ۱۸۷۱ء میں لکھی گئی تھی۔
حضرت سید احمد بریلویؒ نے جنہوں نے مغلیہ خاندان کے زوال کے بعد تحریک چلا رکھی تھی، وہ تحریک تو کمزور ہوگئی تھی۔ لیکن اب تک اس کے آثار باقی تھے۔ ان مجاہدین نے انگریزوں کے 2829ساتھ ۱۸۶۳ء میں اور ۱۸۶۸ء میں جنگیں لڑیں۔ جن میں ہزاروں انگریز مارے گئے اور ۱۸۵۷ء کے غدر کا بھی مسلمانوں کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ یہ کتاب دراصل ایک رپورٹ تھی جس میں مسلمانوں کے خلاف کی گئی بغاوت کے مقدمات اور مسلمانوں کے جہاد کی جنگوں کا تذکرہ اس میں درج ہے۔ ہنٹر کو یہ فکر تھی کہ گویہ تحریک دب گئی ہے۔ لیکن آزادی کے مجاہدین کسی وقت بھی جہاد کا نعرہ لگا کر پھر جنگ کر سکتے ہیں۔ کیونکہ انہوں نے ہندوستان کو دارالحرب سمجھا ہوا ہے۔ جب تک اس کا کوئی تدارک نہ کیا جائے کہ مسلمانوں کو جہاد سے ہٹا دیا جائے۔ تب تک ہمیں آرام نصیب نہیں ہوسکتا۔ مسلمان قوم کو قرآن یہ تعلیم دیتا ہے کہ وہ کسی کی غلام نہیں رہ سکتی۔ اس لئے کوئی ایسا تدارک ضرور ہو جائے کہ مسلمانوں کو جہاد سے ہٹا دیا جائے۔ انہیں ایام میں مرزاغلام احمد نے دو باتوں کا اعلان کر دیا۔
۱… جہاد کو منسوخ کر دو۔
۲… اولیٰ الامر کی اتباع کا اعلان کر دیا۔ (یعنی انگریزوں کی تابعداری کی جائے)
اس میں ’’ منکم ‘‘ کی شرط ہٹادی۔ لیکن قرآن کریم میں جو حکم ہے وہ ہے۔
’’ فاقتلوہم حتیٰ لا تکون فتنۃ ویکون الدین ﷲ فان نتہوا فلا عدوان الّٰا علی الظلمین (البقرۃ:۱۹۳)‘‘ {تم ان سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اﷲ کے لئے ہو جائے۔ پھر اگر وہ باز آجائیں تو سمجھ لو کہ ظالموں کے سوا اور کسی پر دست درازی روا نہیں۔}
دوسری آیت سورۂ توبہ میں اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں کہ: ’’ ان اﷲ شتریٰ من المؤمنین انفسہم واموالہم بان لہم الجنۃ یقاتلون فی سبیل اﷲ فیقتلون ویقتلون وعدا علیہ حقاً فی التوراۃ والانجیل والقرآن ومن اوفیٰ بعہدہ من اﷲ فاستبشروا ببعکم الذی بایعتم بہ وذلک ہوا الفوز العظیم (التوبہ)‘‘ 2830{اﷲتعالیٰ نے مؤمنین کے نفس اور مال خرید لئے ہیں۔ (یعنی سودا کر لیا ہے) بعوض جنت کے، وہ اﷲ کی راہ میں لڑتے ہیں، مارتے ہیں اور مرتے ہیں۔ یہ اﷲ کا عہد ایک پختہ عہد ہے۔ تورات میں، انجیل میں، قرآن میں اور کون ہے جو اﷲ سے بڑھ کر عہد کا پورا کرنے والا ہے۔ خوشیاں مناؤ اس سودے پر جو آپ نے اﷲ سے چکا لیا ہے۔ یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔}
یعنی قرآن کریم کی رو سے جس طرح ہم پر نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ فرض ہے اسی طرح جہاد بھی فرض ہے اور جہاد کے متعلق منسوخی کا حکم لگا کر انہوں نے گمراہی کا ارتکاب کیا ہے۔
’’ یایہا الذین اٰمنوا اطیعواﷲ واطیعوالرسول و اولیٰ الامرمنکم۰ فان تنازعتم فی شیٔ فردّوہ الی اﷲ والرسول ان کنتم تؤمنون باﷲ والیوم الاخر۰ ذالک خیرواحسن تاویلا ‘‘ {اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اطاعت کرو اﷲ کی اور رسول کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحب امر ہوں۔ پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ میں نزاع ہو جائے تو اسے اﷲ اور اﷲ کے رسول کی طرف لوٹا دو اگر تم اﷲ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہو۔ یہ صحیح طریق کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر۔}
’’منکم‘‘ کی شرط ہے۔ ان کا اتباع کرو جو تم میں سے ہیں۔ یعنی جو مسلمان ہیں ان کا اتباع کرو۔ یہ نہیں کہ کوئی سکھ ہو یا کوئی انگریز ہو یا کوئی یہودی ہو یا کوئی بھی ہو تو اس کا اتباع کرو۔ یہ اس میں حکم نہیں ہے۔ اس میں یہ ہے کہ ان کا اتباع کرو جو تم میں سے ہیں تو اس طرح قرآن کریم میں اور بھی کئی جگہ مرزاغلام احمد نے تنسیخ اور ترمیم کی ہے اور ترجمہ کرتے ہوئے تحریف کی گئی ہے جو یہاں جرح میں ان سے پوچھا گیا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(جھوٹا گواہ؟)
تو جناب والا! میں آپ کی توجہ صرف اس امر کی طرف دلاتا ہوں کہ چونکہ یہ ہم نے رپورٹ پیش کرنی ہے۔ ان گواہوں کا جو طریقہ اور جو طرز تھا وہ اراکین اسمبلی نے اچھی طرح سے ملاحظہ کیا ہے کہ وہ جھوٹے گواہ کی طرح کس طرح سے تاویلیں کیا کرتے تھے۔ لہٰذا میں نے پہلے بھی جو 2831بیان دیا ہے اس کے اوپر میرے دستخط ہیں۔ اس لئے میں اپنی تقریر کو زیادہ لمبا نہیں کرنا چاہتا۔ یہ دو تین حوالے اس کی سپورٹ میں میں نے پیش کر دئیے ہیں۔
۱… لہٰذا یہ گمراہ ہیں ان کو غیرمسلم اقلیت قرار دیاجائے۔
۲… کلیدی آسامیوں سے انہیں فوراً ہٹا دیا جائے ورنہ نقصان ہوگا، اور
۳… ربوہ کو کھلا شہر قرار دیا جائے۔ جیسے انہوں نے اپنی ریاستیں بنائی ہوئی ہیں۔ وہ حق ان کو استعمال نہ کرنے دیا جائے۔ شکریہ!
جناب چیئرمین: مولانا غلام غوث ہزاروی!
صاحبزادہ صفی اﷲ: جناب! میں نے بھی پانچ منٹ تقریر کرنی ہے۔
جناب چیئرمین: پروفیسر غفور صاحب آجائیں، میری ان سے بات ہوئی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے پانچ منٹ لینے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ میرے بعد میری پارٹی سے اور کوئی نہیں بولے گا۔ مولانا غلام غوث ہزاروی!
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(جناب مولانا غلام غوث ہزاروی کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پرخطاب)

مولانا غلام غوث ہزاروی: جناب صدر صاحب! مرزائیوں کے سلسلہ میں بہت سی تقاریر ہوگئی ہیں، کافی ہوگئی ہیں اور کوئی معزز ممبر ایسا معلوم نہیں ہوتا جس کی رائے مرزائیوں کے حق میں ہو۔ بہرشکل ہم نے ایک بل پیش کیا ہے۔ جس بل میں ہم نے تحریک کی ہے کہ ان کو غیرمسلم اقلیت قرار دیا جائے اور ربوہ کو کھلا شہر قرار دیا جائے اور ان کو کلیدی آسامیوں سے دور کیا جائے۔ اس بل کی اہمیت میں ہم نے ایک کتاب پیش کی ہے۔ اس کتاب کے پڑھنے سے مرزائیت کا کچا چٹھہ سب کو معلوم ہو جاتا ہے۔ اس کتاب میں یہ ہے کہ:
میرے نزدیک دنیا میں اتنا برا کوئی شخص بھی نہیں ہوسکتا جتنا کہ مرزاغلام احمد قادیانی ہے۔ جو ملکہ قیصرائے ہند کو خط لکھتا ہے اوراس نے التجا کی کہ آپ مجھے ایک لفظ شاہانہ لکھ دیں۔ دعویٰ نبوت، دعویٰ مسیح موعود، دعویٰ مجدد اور سارے دعوے، 2832میں کہتا ہوں کہ ایسا کوئی شخص نہیں جس کے آنے کی خبر کسی کتاب میں ہو اور مرزاغلام احمد قادیانی نے وہ شخص بننے کی کوشش نہ کی ہو۔ مہدی کے بارے میں روایات ہیں اور صحیح روایات متواترات ہیں۔ ہمارے عقائد کتابوں میں لکھے ہیں۔ اس نے کہا کہ وہ میں ہوں۔ عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں، میں نے قرآن کی نو آیات پیش کی ہیں۔ قرآن کی تفسیر قرآن سے کی ہے۔ حضور ﷺ اور صحابہؓ نے ان کی وہی تعبیر فرمائی ہے۔ بارہ سو سال کے مجددین نے ان کے وہی معنی فرمائے۔ وہ ان کا جواب دیں۔ میں ان کو چیلنج کرتا ہوں۔ کرشن کی خبر تھی۔ حارث پیدا ہوگا۔ اس نے کہا کہ میں ہوں۔ برہمن وہ بھی میں ہوں۔ جس شخص کا کسی کتاب میں ذکر تھا۔ اس نے کہا کہ وہ میں ہوں۔ لوگوں کی جہالت سے اس نے ناجائز فائدہ اٹھایا۔ بہرشکل اس نے انگریز کی خوشامد کی۔ ملکہ قیصرہ ہند کو جو خط لکھا اس کو کوئی خود دار شریف انسان نہیں لکھ سکتا۔ چہ جائیکہ ایک مسلمان ہو۔
ایک بادشاہ کا ذکر آتا ہے کہ ایک بہروپئے نے ایک بادشاہ کو دھوکہ دینے کی کوشش کی۔ لیکن کامیاب نہ ہوا۔ اس نے دو تین میل کے فاصلے پر فقیری شروع کر دی۔ اسکو مرید بھی مل گئے۔ لاہور میں ایک شخص نے خدائی کا دعویٰ کر دیا تھا۔ وہ ربِ لاہور بن گیا تھا۔ اس کی بیوی ربنی بن گئی تھی۔ لوگوںنے اسے مان لیا تھا۔ اس ملک میں کوئی بھی نبوت کا دعویٰ کرے اس کو کچھ نہ کچھ آدمی مان ہی لیتے ہیں۔ یہ صرف جہالت کا نتیجہ ہے۔ یہ صرف نادانی کا نتیجہ ہے۔ بہرشکل وہ شخص فقیر بن گیا۔ ہوتے ہوتے اسے شہرت مل گئی، بادشاہ کو خبر ہوئی۔ یہ بادشاہ لوگ دعاؤں کے بڑے پیاسے ہوتے ہیں کہ اقتدار قائم رہے۔ بادشاہ اس کے پاس گیا۔ اس نے اشرفیوں کی تھیلی پیش کی۔ فقیر نے انکار کردیا۔ بادشاہ واپس آگیا۔ وہ اپنا جامہ بدل کر بادشاہ کے پاس آگیا اور اسے کہا کہ دیکھ لو جس نے تمہیں دھوکہ دے دیا ہے۔ چنانچہ اس نے انعام مانگا۔ بادشاہ نے کہا کہ میں خود اشرفیوں کی تھیلی لے کر تمہارے پاس پہنچا تھا لیکن تم نے نہ لی۔ اب انعام کیا دوں گا۔ اس نے کہا کہ میں جس جامہ میں تھا اس بھیس میں یہ تھیلی سجتی نہیں تھی۔
2833اب یہ جھوٹا دعویٰ اس نے کیا ہے۔ اس کے سارے دعوے جھوٹے تھے۔ لیکن اس جھوٹے لباس کو بھی اس نے نہیں نبھایا۔
اس کے بعد جہاد کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے اور یہ سب تاویلیں جو ناصر احمد اور دوسروں نے کی ہیں وہ سب غلط ہیں۔ اس نے کہا کہ موسیٰ کے زمانے میں جہاد سخت تھا۔ حضور ﷺ کے زمانے میں جہاد میں سختی نہ رہی اور کچھ نرمی ہوگئی اور مسیح موعود کے زمانہ میں بالکل موقوف ہو گیا۔ دراصل وہ اپنے تک پہنچ کر اس کو ختم کرنا چاہتا تھا۔ یہ جو بہت خوشامدی تھا اس نے ملکہ قیصرہ ہند کو لکھا۔ اس سے بڑھ کر میں نے آج تک کوئی ٹوڈیانہ خط نہ دیکھا، نہ پڑھا۔ میں ایک پیغمبرانہ خط آپ کو پڑھ کر سناتا ہوں۔ حضرت سلیمان نے بلقیس کو ایک خط لکھا۔ اس میں لکھا۔ قرآن میں اس کو بیان کیاگیا ہے۔ ’’ الّٰا تعلوا علیّ واتونی مسلمین ‘‘
یہ پیغمبرانہ خط ہے۔ ’’میرے مقابلہ میں سرکشی نہ کرو اور طابع ہوکر آجاؤ۔‘‘
پہلے صرف یہ کہ: ’’ انہ من سلیمان وانہ بسم اﷲ الرحمن الرحیم ‘‘
اس کے بعد صرف اتنا لکھا کہ: ’’ الّٰا تعلوا علیّ واتونی مسلمین ‘‘
یہ (مرزاصاحب) ۲۶صفحوں کا خط لکھتے ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل، صاحب بہادر، دام اقبالہ، اسی ’’دام اقبالہ‘‘ نے اس کی نبوت کی لٹیا ڈبودی۔ کوئی بیس تیس دفعہ اس نے یہ لکھا ہے یہاں تک لکھا کہ: ’’آپ ایک دفعہ ایک شاہانہ لفظ میرے لئے لکھ دیں۔‘‘
استدعا کی ہے۔ یہ ایک صیہونی فرقہ ہے۔ مسلمانوں کے لئے زہریلا ہے۔ یہودیوں سے بڑھ کر ہے۔ یہ تو مارآستین ہے۔ یہودی تو صاف کافر ہیں۔ ہمارے دشمن ہیں۔ لیکن یہ چھپے ہوئے ہیں۔ سانپ ہیں۔ انگریزوں کے زمانے میں 2834انہوں نے عراق، بغداد جانے کے بعد چراغاں کیا۔ مسلمان ملکوں کے خلاف اظہار خیال کیا اور جب پاکستان بنا تو اس وقت بھی انہوں نے نقصان پہنچایا۔ کمیشن میں مرزاناصر احمد نے کہا کہ مسلم لیگ کی درخواست پر میں شریک ہوا۔ میں کہتا ہوں کہ مسلمانوں کے وقت میں سے تم (نے ان قادیانیوں) کو وقت کیوں دیا۔ اس میں خود ظفر اﷲ تھا۔ منیر کمیشن میں اس نے کہا کہ جب لیاقت علی دورہ پہ جاتا تھا تو وزارت عظمیٰ میرے پاس ہوتی تھی۔ میں دعویٰ سے کہتا ہوں۔ تو بہرحال یہ تو مدعی ہے اور چھوٹے چھوٹے کاموں تک پہنچتا تھا۔ مجھے علم ہے کہ ایک آدمی قتل ہوا مانسہرہ میں، میں اور ماسٹر تاج الدین صاحب گورنر سرحد شہاب الدین کے پاس پشاور گئے جو نظام الدین کا بھائی تھا۔ ہم نے اس قاتل کے بارے میں کچھ نرمی اختیار کرنے کی بات کی۔ مقتول اصل میں مرزائی تھے۔ اس نے ظفر اﷲ خان کی تعریفیں شروع کر دیں۔ ہمارے سامنے گورنر سرحد اور تعریفیں ظفر اﷲ خان کی۔ ظفر اﷲ خان چھایا ہوا تھا۔ اس کے خلاف کوئی بات نہیں ہوسکتی تھی۔ یہ ظفر اﷲ خان کی مہربانی ہے کہ باؤنڈری کمیشن میں یہ گئے تو جو کچھ کردار انہوں نے ادا کیا اس سے رسول اﷲ ﷺ کی تصدیق ہوتی ہے۔ حضور ﷺ نے جو فرمایا ہے کہ میرے بعد میری امت میں یہ جو امتی نبی کہتے ہیں وہ یہی حضور ﷺ نے پہلے فرمادیا میری امت میں سے ہوکر نبوت کا دعویٰ کریں گے۔ یہ امتی نبی کے بارے میں حضور ﷺ نے فرمایا کہ کذاب دجال ہوں گے۔ تو یہ وہاں گئے۔ انہوں نے جو بیان دیا وہ اس کی تصدیق ہے کہ حضور ﷺ نے کتنا سچ فرمایا اور کتنے صحیح صادق ومصدوق پیغمبر تھے۔ کذاب تو اس لئے ہوئے کہ انہوں نے کہا کہ یہ مسلمان کافر ہیں۔ ہم اور یہ بالکل، علیحدہ ہیں۔ یہ دعویٰ دیا گرداسپور ضلع میں کہ عام مسلمان ہم سے علیحدہ ہیں۔ ہم اور یہ ایک قوم نہیں، اس پر زور دیا اور دجل وفریب کیا۔ دجال ہونے کا مظاہرہ کیسے کیا اور آخر میں لکھ دیا۔ بہرحال ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ الحاق ہو۔ یہ آخر میں دجل کیلئے لکھا، فریب کے لئے لکھا۔ کمیشن کو یہ دے 2835دیا کہ ہم علیحدہ ہیں اور مسلمانوں کی تعداد اس ضلع میں کم ہے۔ یہ پاکستان بننے کے بعد انہوں نے ڈنگ دیا۔ پاکستان بناتے وقت انہوں نے یہ ڈنگ دیا اور یہ نتیجہ ہے کشمیر کی تمام جنگوں کا، بھارت سے مستقل مقابلہ کا یہی سبب تھا۔ حقیقتاً یہ ایجنٹ ہیں۔
میں ایک بات عرض کروں گا، شاید وہ بعضوں کو معلوم نہ ہو۔ ۳۱۳ درویش کے نام سے قادیان میں مرزائی جاتے ہیں۔ مرزے کی قبر کی حفاظت کے لئے، اور اس کے مقابلہ میں ۳۱۳ سکھ آتے ہیں گوردوارے کی حفاظت کے لئے جو ننکانہ صاحب ضلع شیخوپورہ میں ہے۔ ۳۱۳ مرزائی رہتے ہیں مرزے کی قبر کی حفاظت کے لئے۔ نہ مسلمان رہتے ہیں وہاں، نہ اجمیر کے لئے جاتے ہیں، نہ کسی اور مقدس مقام کے لئے جاتے ہیں تو مرزے کی قبر اور ہڈیوں کی حفاظت کے لئے جاتے ہیں۔ یہ کیا چیز ہے۔ ہمارے یہاں کہتے ہیں زیارت لگتی ہے۔ بعض اولیاء کے مزاروں پرلوگ جاتے ہیں اور ان کی حاجت پوری ہوتی رہتی ہے تو اس کو کہتے ہیں ان کی زیارت لگتی ہے تو ان مرزائیوں کی زیارت لگتی ہے۔ مرزا کی ہڈیوں کی حفاظت کے لئے۔ ۳۱۳سکھ یہاں آئیں اور ان کا تبادلہ ہوا کرتا ہے باقاعدہ۔ یہ بات اگر نہیں معلوم تو میں کہنا چاہتا ہوں اور اگر اب تک ہے تو اس کو ختم کرنا چاہئے۔ یہ تو ایجنٹ ہیں اور جو لوگ ۳۱۳ آئیں جائیں، آئیں جائیں تو آپ کے ملک کی کون سی بات خفیہ رہ سکتی ہے؟ یہ تو جاسوس ہیں سارے کے سارے۔ وہاں جانے والے روز تبدیل ہوتے ہیں۔ یہ جاسوس ہیں۔ وہاں کے آنے والے جاسوس ہیں۔ یہاں کے جانے والے جاسوس ہیں۔ تو انہوں نے کسی وقت بھی مسلمانوں کی بھلائی نہیں کی۔ یہ مسلمان کے نام سے مسلمانوں کے اندر ایک خطرناک فرقہ ہے۔ اس پر کوئی مسلمان بھروسہ کرے گا؟ اس پر کوئی قوم بھروسہ کرے گی؟ اس پر کوئی فرد بھروسہ کرے گا؟ حکومت بھروسہ کرے گی تو منہ کی کھائے گی۔ یہ میں دعویٰ سے کہتا ہوں اور سب کے سامنے کہنے کو تیار ہوں۔
2836اس وقت ہم ایک ایسے مرحلے پر پہنچے ہیں کہ دنیا کی نگاہیں ہماری طرف، مسلم ممالک کی نگاہیں ہماری طرف، تمام مسلمان حکومتیں، عرب حکومتیں ہم کو دیکھ رہی ہیں اور ہمارے فیصلے کی انتظار میں ہیں۔ میں یہ مانتا ہوں کہ ہماری قوم سمجھدار ہے۔ وہ اس طریقے سے کوئی بات نہیں کرے گی کہ جس سے ملک کو نقصان پہنچے۔ لیکن باوجود اس کے ساری کی ساری قوم یہ چاہتی ہے کہ اس آستین کے سانپ کا سر کچلا جائے اور کیسے نہ کچلا جائے۔ ہم یہ بات حکومت کے حوالے کرتے ہیں۔ لیکن یہ ساتھ کہتا ہوں کہ جب وہ ہم کو کافر کہتے ہیں اور ہم ان کو کافر کہتے ہیں اور یہ بات مرزاغلام احمد نے لکھی ہے کہ: ’’دنیا کی مسلمان بادشاہتوں میں سے، حکومتوں میں سے کوئی حکومت نہیں ہے جو ہم کو کافر نہ کہے۔‘‘
یہ مرزا نے لکھا اور یہ ۱۹۰۸ء سے پہلے کا لکھا ہوا ہے۔ مرزا نے یہ کہا ہے کہ: ’’تمام مسلمان حکومتیں ہمارے خون کی پیاسی ہیں۔ ہم کسی جگہ تبلیغ نہیں کر سکتے۔ اپنا عقیدہ پیش نہیں کر سکتے۔ وہ ہم کو کافر سمجھتے ہیں۔‘‘
یہ مرزا نے خود لکھا اور جو ناصر احمد نے اپنے خلاف باتیں پیش کیں کہ مسلمانوں نے ہم پر کیا کیا فتوے لگائے کفر کے۔ اس موقع پر میں مناسب سمجھتا ہوں کہ ان کا ایک ڈھونگ آپ کو بتادوں۔ انہوں نے ساری دنیا کے مسلمانوں کو کافر کہا اور پھر چھپایا اس طرح کہ انہوں نے پہلے کافر کہا تو جو مسلمان کو کافر کہے وہ کافر ہو جاتا ہے۔ عجیب ڈھونگ اپنا بنایا۔ آپ خدائی کا دعویٰ کریں۔ آپ کو ہر شخص کافر کہے گا۔ جب آپ کو کافر کہیں تو آپ کہیں جی ہم نے تو ان کو کافر نہیں کہا نہ، ہم کو کافر کہنے سے خود ہی کافر ہوگئے۔ یہ آپ نے عجیب ڈھونگ اور ڈھنگ نکالا ہے مسلمانوں کو کافر بنانے کا۔ آپ کافر اس لئے بنائیں کہ وہ آپ کی رسالت کو نہیں مانتے۔ آپ کی پیغمبری کو نہیں مانتے۔ آپ کو مسیح موعود نہیں مانتے۔ آپ کو کذاب ودجال سمجھتے ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ چونکہ مجھے کافر کہا اس لئے وہ خود کافر ہوگیا۔ تم خدائی کا دعویٰ کرو، پیغمبری کا دعویٰ کرو، ساری دنیا سے بہتر بنو، تم مسلمانوں کو دھوکہ دو، پھر لوگ تمہیں کافر نہ کہیں؟ اگر کوئی کہے تو کہو کہ انہوں نے مجھے کافر کہا ہے۔ اس لئے کافر ہوگیا۔ تو تمہیں کوئی کافر نہ کہے گا؟
2837میرا مقصد یہ ہے کہ انہوں نے جو باتیں یہاں پیش کی ہیں، جھوٹ بولنے کے حیلے پیش کئے، بات کو چھپایا۔ اب ساری دنیا کو معلوم ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی نے اپنے زمانے والوں کو قطعی کافر کہا تو جب کافر کہا اور یہ لکھا کہ میرا نہ ماننا قرآن وحدیث کا نہ ماننا ہے۔ میرا انکار قرآن وحدیث کا انکار ہے۔ میرا انکار خدا اور رسول ﷺ کا انکار ہے، تو اب میں ناصر احمد سے پوچھتا ہوں کہ جو خدا کا انکار کرے وہ کس کھاتے میں ہے؟ آپ کے اس چھوٹے کفر میں ہے یا بڑے کفر میں ہے؟ اب ناصر احمد نے تاویل کی ہے کہ ہم مسلمانوں کو توکافر کہتے ہیں۔ لیکن چھوٹا کافر کہتے ہیں۔ بڑا کافر نہیں کہتے اور دجل وفریب یہ کیا ہے۔ آج تک جو معنی سمجھتے تھے کہ فلاں شخص دائرہ اسلام سے خارج ہے اس کے معنی یہ تھے کہ اسلام ایک دائرہ ہے۔ اس کی حدود ہیں۔ جو ان حدود کو پھلانگے گا وہ اسلام سے خارج ہو جائے گا۔ بات صاف تھی۔ اس نے کہہ دیا کہ ایک چھوٹا حلقہ ہے۔ اس سے خارج ہوگیا۔ یہ اس نے تاویل کی اور نیا معنی گھڑا۔ نیا معنی گھڑنے میں ان کو کمال حاصل تھا۔ اس نے جو ’’اتمام حجت‘‘ کا معنی کیا ہے بالکل غلط کیا ہے۔ مرزاناصر احمد نے اتمام حجت کا جو معنی کیا ہے وہ یہ ہے کہ دلائل سے اپنی بات پیش کرو۔ دعوت دو۔ توحید رسالت کی یا حق کی دعوت دو اور دلائل دو۔ اس کا دل مان لے کہ تم حق پر ہو۔ تم کو سچا سمجھ کر پھر انکار کرے تو یہ ملت سے خارج ہے۔ یہ اتمام حجت تھا۔ حالانکہ قرآن مجید نے اتمام حجت کا یہ معنی نہیں کیا۔ قرآن مجید نے کہا ہم نے پیغمبر اس لئے بھیجے کہ یہ کوئی نہ کہہ سکے۔ ’’ ماجائنا من نذیر ‘‘
کہ ہمارے پاس ڈرانے والا نہیں آیا۔ ڈرانے والا کافی ہے اتمام حجت کے لئے۔ پیغمبر کا آنا اور دعوت دے دینا کافی ہے اتمام حجت کے لئے۔ دوسری جگہ ارشاد فرمایا۔ ’’ لئلّا یکون للناس علی اﷲ حجۃ بعد الرسل ‘‘
کہ ہم نے پیغمبر بھیجے۔ پیغمبروں کے نام پہلی آیت میں آئے ہیں۔ ڈرانے والا، ڈر سنانے والا، خوشخبری دینے والا، تاکہ اتمام حجت ہو جائے لوگوں پر۔ لوگوں پر خداکی حجت قائم ہو جائے۔ 2838اس لئے بھیجا۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ پیغمبر کو سچا سمجھ کر انکار کرے۔ ہاں ایسے لوگ ہوسکتے ہیں جو سچا بھی سمجھیں پھر بھی نہ مانیں، تعصب سے نہ مانیں، ہٹ دھرمی سے نہ مانیں، ضد سے نہ مانیں۔ ایسے لوگ ہوسکتے ہیں۔ لیکن اتمام حجت کے معنی میں یہ چیز داخل نہیں ہے۔ یہ ناصر احمد نے قوم کو دھوکہ دیا ہے۔
تو بہرشکل میں اسے مانتا ہوں کہ تم عربی پڑھے ہوئے ہو۔ اس کو مانتا ہوں کہ تم انگریزی پڑھے ہوئے ہو۔ لیکن تم دین کو چھپاتے ہو اور تم اپنے دادا کی بات کو نبھاتے ہو۔ اتنے کروڑوں روپے کمالئے۔ ربوہ کی زمین انجمن احمدیہ کے نام وقف ہے۔ وہ تم ذاتی طور پر استعمال کر رہے ہو اور اس کی رجسٹریاں نہیں کرتے اور لوگوں سے روپیہ لے کر وہ زمینیں ہی بیچتے ہو؟ بہشتی مقبرے بھی بنا لئے، پیغمبرانہ کاروبار شروع کر دیا اور تم کروڑ پتی بن گئے۔ میں کہتا ہوں کہ سودا تمہارے نفع کا نہیں ہے۔ تم نے اپنی ساری نسل کو قیامت تک تباہ وبرباد کر دیا ہے۔ چند کوڑیوں کے عوض تو بہرشکل میں کہنا یہ چاہتا تھا کہ میں اس کو مانتا ہوں کہ تم پڑھے لکھے ہو۔
یہ جو بیچارے لاہوری آئے، یہ تو بالکل کورے تھے۔ علم سے اس وقت انہوں نے اپنے اس بیان میں لکھا بھی شفا اور پڑھا بھی شفا زبر کے ساتھ۔ حالانکہ یہ لفظ ہے عربی میں شفا، جیسے قتال ہوتا ہے جیسے کبال ہوتا ہے، جیسے مواجبات الرجاء ہوتا ہے۔ جیسے مقابلہ اور ارتبال ہوتا ہے۔ اسی شفا اور مشافحہ کا لفظ ہے۔ انہوں نے شفا لکھا بھی اور شفا پڑھا بھی۔ اس ہاؤس کے سامنے میں نے ان کی توجہ دلائی کہ فلاں سطر میں آپ نے جو لکھا ہے یا فلاں صفحے میں جو آپ نے لکھا ہے تیرھویں میں، اس کو پھر پڑھیں۔ کیا یہ ٹھیک ہے۔ جگہ کا نام میں نے نہیں لیا اور نہ لفظ میں نے بتایا۔ اسی سطر کو انہوں نے نکالا، پھر پڑھا اور کہا کہ ٹھیک ہے۔ میں نے کہا کہ اچھی طرح پڑھیں تیرھویں صفحے میں فلاں سطر ہے۔ آیا یہ ٹھیک لکھی ہوئی ہے یا کوئی غلطی ہے۔ اس میں قطعاً غلطی تھی۔ (عربی)
2839کہ نبوت کا چالیسواں حصہ یعنی صرف نیک خواب ہیں۔ باقی نبوت کیا چیز ہے؟ نبوت بہت اونچا مقام ہے۔ خالق ومخلوق کا تعلق وہاں عیاں ہوتا ہے۔ تقدیر کا مسئلہ کھلتا ہے۔ وہاں معرفت تامہ حاصل ہوتی ہے۔ عرفان کے مدارج طے ہوتے ہیں۔ وہ نبوت عوام کو خدا کی طرف بلانے والی چیز ہوتی ہے۔ وہ مکالمہ کیاچیز ہے؟ وہ خدا سے باتیں کسی طرح ہوتی ہیں؟ وہ نبوت بہت اعلیٰ مقام ہے جو ہماری فہم وادراک سے بہت اونچا ہے تو اس کا چھیالیسواں حصہ رویائے صالحہ، خواب صالحہ ہوتے ہیں۔ اب جب حضور ﷺ سے پوچھا گیا کہ مبشرات کے کیا معنی ہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ ایک اچھا خواب جو مسلمان دیکھے یا اس کے لئے کوئی اور دیکھے یہ حضور ﷺ کا ترجمہ ہے جو ترجمہ ابوالعطاء نے کیا مبشرات کا مبشرین جو جنت کی خوشخبری سنائی تھی۔ یعنی ترجمہ وہ کیا جو رسول اﷲ ﷺ کے ترجمے کے خلاف ہے۔ یہ ابوالعطاء جو یہاں آیا کرتا تھا وفد کے ساتھ اور اس کی ایک کتاب انہوں نے ختم نبوت کے جواب میں ضمیمے کے طور پر پیش کی۔ اس میں بھی بہت سی باتیں غلط ہیں وہ سلطان الاغلاط ہے۔
بہرشکل میں عرض یہ کرنا چاہتا تھا کہ انہوں نے یہاں پر بارہا پڑھا۔ واﷲ ُ العظیم! یہ لاہوری پارٹی نے پڑھا۔ حالانکہ یہ لفظ واللّٰہِ العظیم! ہے۔ ’و‘ حرف جارہے، ہر قسم کے لئے آتا ہے یہ مفعول کو مجہول کر دیتا ہے۔ جیسے واﷲ، باﷲ، تاﷲ، زیر پڑھی جاتی ہے۔ اس نے واللّٰہُ العظیم پڑھا۔ آخر میں نے اٹھ کر جناب صدر سے عرض کیا کہ ہمارے سر میں درد ہوتا ہے۔ خواہ مخواہ یہ غلط پڑھتے ہیں۔ ان کو آپ صحیح پڑھنے کی ہدایت کریں کہ ظفر اﷲ کے زمانے میں ظفر اﷲ ہی کی حکومت تھی۔ اسی طرح بیرونی طاقتوں نے ان سے بات کی۔ اس وقت ہماری خارجہ سیاست یہ نہ تھی جو اس وقت ہے۔ ناظم الدین کے یہ الفاظ ہیں کہ اگر ظفر اﷲ کو نکال دوں تو امریکہ 2840پاکستانیوںکو گیہوں دینا بند کر دے گا۔ گویا گیہوں ظفر اﷲ کو ملتے تھے اور پاکستان کو نہیں۔ لہٰذا میں ظفر اﷲ کو کیسے برخواست کر دوں۔ لاہور اور چنیوٹ کے درمیان جو جنکشن ہے اس وقت مجھے اس کا نام یاد نہیں آرہا۔ وہاں چار مسلمان قتل ہوئے۔ ظفر اﷲ نے آخر مرزائیوں کو رہا کرایا۔ مسلمانوں کے قاتلوں کو رہائی دی۔ یہ اتنا بڑا ابلیس ہے لیکن ان کا قصور نہیں تھا، ان کا علم ہی اتنا تھا اور یہ بنے ہوئے تھے مبلغ۔ یہ تبلیغ کرتے ہیں یورپ میں، اسلام کی، اور ان کے منہ سے نکل گیا کہ ہم تبلیغ کرتے ہیں، ختم نبوت کا ذکر کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا۔ حضور ﷺ کی تعلیم کا دراصل معنی یہ ہے کہ کوئی نیا پرانا نبی نہیں آسکتا۔ یعنی عیسیٰ علیہ السلام مر گئے۔ ان کی جگہ آنے والا مرزاغلام احمد۔ یہ ہے ساری تبلیغ۔ یہ ساٹھ سال تک تبلیغ کرتے رہے، کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
جناب چیئرمین: مولانا! آپ ختم کرنے کی کوشش کریں، اس واسطے کہ ہم نے ۲۶۰صفحے کی کتاب بھی پہلے سن لی ہے۔
مولانا غلام غوث ہزاروی: میں مختصر کر دوں گا۔
جناب چیئرمین: جو کتابوں والے ہیں ان کو تھوڑا ٹائم دیا گیا ہے۔
مولانا غلام غوث ہزاروی: نہیں میری ایک کتاب باقی ہے جو لاہوری پارٹی کے جواب میں ہے۔ وہ پریس میں دی ہوئی ہے۔ آج شاید چھپ جائے۔ اس کے بارے میں میں نے آپ کے حکم کی تعمیل کر دی، ورنہ اس کتاب…
جناب چیئرمین: وہ اگلی اسمبلی کے لئے۔
مولانا غلام غوث ہزاروی: بہرحال میں مختصر کر دیتا ہوں۔ جیسے آپ فرمائیں تو میرا مطلب یہ ہے…
2841جناب چیئرمین: وہ کتاب چھ سو صفحے کی ہے؟
مولانا غلام غوث ہزاروی: نہیں، وہ مختصر ہے۔ (قہقہے) وہ میں پڑھ سکتا ہوں۔ وہ میرے خیال میں چھ، سات صفحے کی ہوگی۔ تھوڑی ہے۔ وہ اتنی ہے جتنی ان کی کم ہے۔ بہرحال میں اس میں بھی ذکر کروں گا۔
لاہوری مرزائیوں کا دعویٰ یہ ہے کہ ہم مرزے کو نبی نہیں مانتے۔مرزے نے اپنے کو نبی نہیں کہا۔ یہ میں مختصراً عرض کردیتا ہوں۔ یہ سب کے لئے ضروری چیز ہے کہ مرزے نے کہا کہ میں نبی ہوں۔ مرزے نے کہا میں رسول ہوں۔ مرزے نے کہا خدا نے قادیان میں پیغمبر بھیجا۔ خدا نے میرا یہ نام رکھا نبی۔ مرزے نے کہا مجھے خدا نے لقب دیا۔ مرزے نے کہا مجھے یہ منصب عطاء ہوا۔ مرزے نے کہا خدا نبی اور رسول کہہ کر مجھے ۲۳سال تک پکارتا رہا۔ مرزے نے کہا میرے پاس جبرائیل آیا۔
’’ جائنی آئیل ‘‘یہ حقیقت الوحی کی عبارت ہے۔ میرے پاس جبرائیل آیا۔ اس نے اشارہ کیا، اس نے بات کی۔ پھر مجھے منصب نبوت دیا گیا۔ مجھے لقب نبوت دیاگیا۔ مجھ خطاب نبوت دیا گیا۔ میرایہ نام نبی خدا نے رکھا۔ میں نبی ہوں۔ میں رسول ہوں۔ آپ فرمائیے کہ کسی بڑے پیغمبر کو ہم نبی اور رسول کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ وہ رسالت ونبوت کا دعویٰ کن الفاظ میں کرے گا؟ جو الفاظ مرزے نے ذکر کئے ہیں۔ سوائے ان کے اور کوئی لفظ نہیں ہے جن سے کوئی پیغمبر دعویٰ نبوت کا کرے، حقیقتاً نبوت کا دعویٰ کرے اور میں اس میں راز بتادیتا ہوں۔ یہ دونوں ایک ہیں۔ یہ دونوں مرزے کو مسیح موعود مانتے ہیں۔ عیسیٰ مر گئے۔ میں عیسیٰ، میں فرض کرتا ہوں ایک سیکنڈ کے لئے۔ پہلی ہم نے جو کتاب پیش کی ہے اس کو پڑھ لیجئے۔ میں چیلنج کرتا ہوں کہ مرزائیوں کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔ اس میں ۹آیتیں پیش کی ہیں اور تیرہ، چودہ حدیثیں پیش کی ہیں کہ حضور ﷺ 2842نے کیا معنی کئے۔ قرآن کی آیتوں کی کیا تفسیر کی۔ صحابہؓ نے کیا معنی کئے۔ بارہ صدیوں کے مجددین نے کیا معنی کئے۔ آج کل آپ عدالت کے فیصلے کو دلیل میں نہیں پیش کرتے۔ لیکن ہائیکورٹ کا فیصلہ باقاعدہ قانون بن جاتا ہے۔ لیکن تیرہ صدیوں کے مجددین، تیرھویں صدی، چودھویںصدی کا مجدد بنا ہے۔ مرزا تیرہ صدیوں کے مجدد جو ان کے مانے ہوئے مجدد ہیں جن کی فہرست انہوں نے اپنی کتاب میں لکھ کر دی۔ ہم نے کتاب میں سب کچھ لکھ دیا ہے۔ ان مجددین کا حوالہ دیا ہے۔ ہم نے کہا کہ انہوں نے کیا معنی کئے ان آیتوں کے تو ہائیکورٹ معنوں کے بعد قانون کی تشریح ختم ہو جاتی ہے۔ قانون کی کوئی اور تشریح نہیں ہوسکتی۔ لیکن میں ایک منٹ کے لئے مانتا ہوں کہ اگر عیسیٰ علیہ السلام مر گئے، نبوت فرض کیجئے کہ جاری ہے۔ ہرایرا غیرا، نتھو خیرا، گاما گھسیٹا، اٹھ کر کہے کہ میں پھر نبی ہوں۔ میں مسیح ہوں۔ بھلا آپ خیال تو کریں۔ جو ہم نے لکھا ہے مرزاجی کی صرف ٹوڈیانہ حرکات کو دیکھ لیجئے۔ ایک خط میں نے پڑھا حضرت سلیمان علیہ السلام کا۔ ایک خط میں آپ کو حضور اکرم ﷺ کا پڑھ کر سنا دوں جو بخاری میں ہے کیا ستم ہے۔ ہر قل شاہ روم کو آپ ﷺ نے لکھا (عربی) یہ عنوان ہے۔ آگے خط میں لکھاہے: ’’اسلم، تسلم‘‘
مسلمان ہو جاؤ، بچ جاؤ گے۔ ورنہ تم پر تمہارا بھی وبال ہوگا اور تمہارے پیچھے چلنے والوں کا بھی یہ ہے جلالی خط۔ یہ ہے پیغمبرانہ خط۔ شیطان کی آنت کے برابر دام اقبال، دام اقبال، دام اقبالہا، دام اقبالہا۔ خط لکھا۔ میرے ابا جان نے ۵۰گھوڑی دی ہے۔ میرے بھائی جان نے قتبہ، مفسدۂ سکھ کے زمانے میں بڑی امدادی ہے۔ میں فقیر تھا۔ میں غریب تھا۔ مجھ سے اورکوئی خدمت نہ ہوسکی۔ میں نے ۵۰الماریاں کتابوں کی لکھی اور تمام اسلامی ممالک میں بھیج دیں۔ انگریزوں سے لڑنا حرام ہے، جہاد حرام ہے۔ میں یہی خدمت کر سکا اور میں دعوے سے کہتا ہوں کہ مجھ سے بڑھ کر اور میرے خاندان سے بڑھ کر خیرخواہ اس گورنمنٹ کا نہیں۔ یہ ایک ہی سچی بات مرزے نے لکھی ہے کہ اس سے بڑھ کر انگریز کا وفادار کوئی نہیں ہوسکتا۔
2843تو میرا مطلب یہ ہے۔ یہ عیسیٰ علیہ السلام مانتے ہیں، مسیح موعود مانتے ہیں۔ لاہوری بھی اور قادیانی بھی اور پھر یہ جسمانی معراج کے منکر ہیں۔ لاہوری بھی جس طرح قادیانی منکر ہیں۔ جس طرح مرزامنکر ہے۔ مرزے نے لکھا ہے مسجد اقصیٰ یہ میری مسجد ہے قادیان کی۔ جو قرآن میں ہے۔ ’’ سبحان الذی اسریٰ بعبدہ لیلا من المسجد الحرام الیٰ المسجد الاقصیٰ ‘‘
مرزے نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ مسجد اقصیٰ میری ہے۔ یہ تبلیغ رسالت جلد نہم میں درج ہے۔ مرزے کایہ قول اور اس میں اس نے لکھا ہے کہ یہ مسجد اقصیٰ یہی میری مسجد ہے اور وہ جو منارہ ہے جس کے پاس عیسیٰ علیہ السلام، وہ یہی منارہ ہے۔ منارۃ المسیح ہے جومیں نے بنایا ہے۔
یہاں آپ مجھے ذرا اسی اجازت دیجئے۔ ایک افیمی تھا وہ استنجا کرنے جاتا تھا۔ بیت الخلاء میں تو وہ پانی کا لوٹا لے جاتا تھا۔ افیمی کو اکثر قبض رہتا ہے۔ لوٹے میں سوراخ تھا تو جب تک وہ فارغ ہوتا لوٹے سے پانی ٹپک ٹپک کر ختم ہو جاتا۔ افیمی کو بڑا غصہ آتا تو اس نے ایک دن لوٹا پانی کا بھرا، اندر گیا۔ پہلے استنجا کر کے اس کے بعد ہگنے لگا۔ کہا کہ سسرا کہیں کا اب ٹپک تو دیکھوں گا میں (قہقہے) تو پہلے استنجا کر گیا اور بیت الخلاء میں بعد میں انتظام کرنے لگا۔ یہ مرزاپہلے نازل ہوا چراغ بی بی سے یا قادیان میں…
جناب چیئرمین: میرے خیال میں کافی ہوگیا ہے، آپ بیت الخلاء تک تو پہنچ گئے ہیں۔
مولانا غلام غوث ہزاروی: تو منارہ بعد میں بنایا۔ منارے کے لفظ کا کوئی معنی نہیں۔ دمشق سے مراد قادیان ہے۔ منارے سے مراد منارۃ المسیح ہے۔ باب لد سے مراد لدھیانہ ہے اور عیسیٰ علیہ السلام سے مراد غلام احمد ہے مریم سے مراد…
جناب چیئرمین: اس میں لکھا ہوا ہے، اس کے اندر ہے۔
2844مولانا غلام غوث ہزاروی: ہاں! اس کے اندر لکھا ہوا ہے۔ میں اس بات کی تائید کرتا ہوں اور ختم کرتا ہوں اور تحریک پیش کرتا ہوں۔ اپنے بل کے حق میں کہ لاہوری مرزائیوں اور قادیانیوںدونوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دیا جائے۔ کوئی کمزور نتیجہ نہ آئے۔ میں آپ کو سچائی کے ساتھ کہتا ہوں کہ تمام عالم اسلام آپ کے اس فیصلے کا منتظر ہے۔ تمام رعایا آپ کے اس فیصلے کا انتظار کرتی ہے۔ تمام ممالک پر اس کا اثر پڑے گا۔ میں عرض کردوں، میں نے ایک بڑی شخصیت سے عرض کیا ہے کہ ان کا پروپیگنڈہ باہر اسلام کے نام سے ہے۔ آج اگر ان کو غیرمسلم اقلیت قرار دیا جائے تو ان کا پروپیگنڈہ دو فیصد بھی نہیں رہے گا۔ یہ سارا ختم ہو جائے گا۔ ان کا پروپیگنڈہ اسلام کے نام سے ہے۔ پھر مسلمان ممالک سمجھتے ہیں۔ بلکہ مسلمان ہی نہیں کہ آپ کے خلاف کیا پروپیگنڈہ ہوگا۔ روس اور امریکہ کی جو پالیسی ہوگی وہ ان کی پرانی پالیسی ہوگی۔ چین کی جو پالیسی ہوگی وہ ان کی پرانی پالیسی ہوگی۔ یہ آج اپنے آدمیوں کو تاریں دلواتے ہیں۔ ان کا دجل ہے۔ یہ تو آپ کو متاثر کرتے ہیں۔ آپ کو قوت کے ساتھ، بہادری کے ساتھ، نڈر ہوکر اسمبلی نے آپ کو یہی حکم دیا ہے کہ آپ خدا کے امین ہیں، آپ قوم کے امین ہیں۔ آپ کو باقاعدہ طور پر حکومت نے، بلکہ پرائم منسٹر نے یہ بات آپ کے حوالے کی کہ اسمبلی کیا فیصلہ کرتی ہے۔ آپ اسلام کی روشنی میں فیصلہ کریں۔ آپ کی قوم چاہتی ہے۔ جس قوم کے آپ نمائندے ہیں۔ یہ قوم چاہتی ہے، عالم اسلام چاہتا ہے، تمام دنیا دیکھتی ہے۔ آپ اس بارے میں کوئی نرمی نہ کریں۔ یہ نرمی آپ کو مہنگی پڑے گی۔ میں آخر میں اس بل کی حمایت وتائید کرتا ہوں۔ (عربی)
جناب چیئرمین: شکریہ! پروفیسر غفور احمد! بالکل، آپ ہی فرمائیں گے جنہوں نے اڑھائی سو صفحے کی کتابیں لکھی ہیں انہوں نے ایک ایک گھنٹہ تقریریں کی ہیں۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(جناب پروفیسر غفور احمد کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پرخطاب)

2845پروفیسر غفور احمد: جناب چیئرمین! اس اسمبلی کی تقریباً ۳۰ماہ کی مدت میں یہ دوسرا زبردست چیلنج ہے جو آج ہمیں درپیش ہے۔ اس معزز ایوان کے سامنے پہلا چیلنج ملک کے لئے ایک مستقل دستور کی تدوین تھا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ایک چوتھائی صدی گزرنے کے باوجود ہمارا ملک دستور سے محروم تھا۔ یہ کام اس اسمبلی کے سپرد ہوا کہ اس ملک کے لئے مستقل دستور بنایا جائے۔ آپ کو جناب چیئرمین! یاد ہوگا کہ اس زمانے میں حکمران جماعت اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان بعض بنیادی اصولوں پر شدید اختلافات تھے۔ لیکن ان اختلافات کے باوجود ہم اﷲ تبارک وتعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے اپنے فضل سے اس بات کی توفیق عطاء فرمائی کہ ہم اپنے اختلافات کو ختم کر کے ملک کے لئے ایک مستقل دستور مدون کرنے اور مکمل اتحاد کے ساتھ کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اس طریقے سے ہم نے اس چیلنج کو قبول کیا اور اس کے بعد اس کام پر پورے اترے۔ مجھے توقع ہے کہ انشاء اﷲ! یہ دستور جو ہم نے پاس کیا ہے۔ عملاً اپنی سپرٹ کے لحاظ سے ایک دن ضرور اس ملک میں نافذ ہوگا۔
جناب والا! دوسرا چیلنج آج ہمارے لئے ختم نبوت کا ہے۔ میں سمجھتا ہوں یہ کوئی نیا کام نہیں ہے۔ دراصل یہ دستور سازی کے کام ہی کی ایک اہم کڑی ہے جس کی تکمیل باقی ہے۔ دستور کے کام میں اور اس کام میں ایک خوش آئند فرق یہ ہے کہ آج ایوان کی پوری کمیٹی یک جان اور پوری یکجہتی کے ساتھ کام کر رہی ہے۔ آج یہاں جماعتیں نہیں، آج یہاں اپوزیشن اور حکمران جماعتیں نہیں بیٹھی ہیں۔ بلکہ ایک کمیٹی کے تمام ممبران مکمل اتحاد اور اتفاق کے ساتھ اس کام کو کر رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر یہ بات میں کہوں تو شاید لوگوں کے جذبات کی صحیح ترجمانی کروں گا کہ جہاں تک اس مسئلے کا تعلق ہے کسی ممبر کو اس مسئلے میں اختلاف نہیں ہے۔ بلکہ حکمران پارٹی کے لوگ کسی طرح بھی کسی دوسرے ممبر سے کم سرگرم عمل نہیں ہیں۔
2846اس تین مہینے کی پچھلی مدت میں اس مسئلے کے تمام پہلوؤں پر، خواہ وہ مذہبی ہوں، اقتصادی ہوں، معاشی ہوں، ان پر بھرپور روشنی ڈالی جاچکی ہے۔ ہم نے گواہان کے بھی بیانات سنے ہیں۔ ہم نے ان کے جوابات کو بھی دیکھا ہے۔ اس کے بعد جناب چیئرمین! میں سمجھتا ہوں کہ کمیٹی کو چار سوالات کے حل تلاش کرنا ہیں۔ اوّلاً! یہ کہ کیا ربوہ اور لاہوری جماعت میں عقیدے کے لحاظ سے کوئی فرق ہے۔ اگر ہے تو وہ کیا ہے۔ ثانیاً! یہ کہ دستور میں ایسی کیا ترامیم کی جائیں۔ جس سے یہ مسئلہ ہمیشہ کے لئے بہتر طریقے پر حل ہو جائے۔ ثالثاً! یہ کہ دستور میں ترمیم کی روشنی میں کیا کوئی قانون سازی ضروری ہے۔ اگر ہے تو وہ کیا ہے۔ رابعاً! یہ کہ معاملات کو درست نہج پر ڈالنے کے لئے ایسے کون سے انتظامی اقدامات ہیں جو ہمیں فوراً یا تدریج کے ساتھ کرنے چاہئیں۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(لاہوری، قادیانی کوئی فرق نہیں)
جہاں تک پہلے معاملے کا تعلق ہے۔ یعنی ربوہ اور لاہوری جماعت کا فرق۔ ان دونوں فریقوں کے فراہم کئے ہوئے لٹریچر سے، ان کے جوابات سے یہ بات بالکل ثابت ہوگئی ہے۔ بغیر کسی شک وشبہ کے کہ عقیدے کے معاملے میں ان دونوں میں کوئی فرق مطلقاً موجود نہیں ہے۔ دونوں مرزا کو مسیح موعود مانتے ہیں۔ دونوں مرزا کو نبی مانتے ہیں۔ خواہ کسی معنی میں مانتے ہوں۔ دونوں یہ بات کہتے ہیں کہ جو لوگ مرزاصاحب پر ایمان نہیں لاتے وہ کافر ہیں۔ خواہ کسی درجے کے کافر ہوں۔ دونوں اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ایسے کافر حقیقی مسلمان نہیں ہو سکتے۔ اس لئے میں یہ سمجھنے میں بالکل حق بجانب ہوں گا کہ معاملہ عقیدے کے اختلاف کا نہیں بلکہ معاملہ گدی کے حصول کا ہے۔ دنیاوی مفادات کو حاصل کرنا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی اور بات نظر نہیں آتی۔ لاہوری جماعت گو تعداد میں بہت تھوڑی ہے۔ لیکن جناب چیئرمین! میں سمجھتا ہوں کہ جس طریقے سے وہ زیادہ دھوکہ دیتے ہیں جس طریقے سے وہ مسلمان کے ساتھ زیادہ گھول میل رکھتے ہیں، وہ ربوہ کی جماعت کے مقابلے میں مسلمانوں کے لئے خطرناک تر ہیں۔ ظاہر میں وہ اپنے 2847عقیدے کو چھپا کر، شکر میں لپیٹ کر قوم کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لئے میرا خیال یہ ہے کہ کمیٹی بھی مجھ سے اتفاق کرے گی کہ عقیدے کا معاملہ دونوں کابالکل یکساں ہے۔ Promised Masiah (مسیح موعود) کا تصور دونوں جماعتیں پیش کرتی ہیں۔ اسلامی لٹریچر میں اس طرح کی کوئی چیز نہیں ملتی۔ یہ تصور بھی انہوں نے نصرانیت سے مستعار لیا ہے اور نصرانیت نے، جس نے اس پودے کو لگایا تھا۔ تناور درخت تک اس کی آبیاری کی ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(قادیانیوں کی تعداد کا مسئلہ)
دوسرا معاملہ جناب! پھر ترامیم کا آتا ہے۔ تقریباً تین ماہ اس کام کو کرنے کے بعد، ختم نبوت کی مضحکہ خیز تاویلات سننے کے بعد، اب اس ملک کا کوئی آدمی اس بات سے مطمئن نہیں ہو سکتا کہ دستور میں ختم نبوت کے عقیدے کو مزید توضیح کے ساتھ بیان کر دیا جائے۔ میرے خیال میں یہ بات ہرگز ہرگز کافی نہیں ہوسکتی۔ تین مہینے کی اس تمام انتھک جدوجہد کے بعد قوم کا یہ خیال ہے کہ یہ بات بالکل ناگزیر ہے کہ دستور میں ایک ترمیم کے ذریعہ صراحت کے ساتھ یہ درج کیا جائے کہ مرزا کو ماننے والے خواہ وہ اسے کسی صورت میں مانتے ہوں۔ یعنی چاہے اپنا مذہبی پیشوا مانتے ہوں، مسیح موعود مانتے ہوں، مجدد مانتے ہوں، محدث مانتے ہوں یا کچھ بھی مانتے ہوں۔ ایسے لوگ غیرمسلم ہیں اور وہ مسلمان نہیں۔ اس لئے کہ مرزا پر ایمان نہ لانے کے باعث وہ ہمیں خود کافر کہتے ہیں۔ اس بناء پر میرا خیال یہ ہے کہ نام لئے بغیر اگر محض تعریف کرنے کی کوشش کی گئی کہ ایسے ایسے لوگ مسلمان نہیں ہیں تو شاید معاملہ مزید پیچیدہ اور سنگین بن جائے گا اور نہ اس سے قوم مطمئن ہوگی۔ تیسرے یہ کہ ملک کے دستور میں ترمیم کے بعد ضروری قانون سازی کی جائے اور دیکھا جائے کہ کس کس قانون میں ترمیم کی ضرورت ہے۔ میں زیادہ تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ کیونکہ اسمبلی کی رہبر کمیٹی بھی اس معاملہ میں رہنمائی کرے گی۔ لیکن میں اتنا ضرور عرض کروں گا کہ اس کے بعد متعدد قوانین میں ترمیم کی ضرورت پیش آئے گی اور دستور میں ترمیم 2848کے بعد اس بات کا فوری بندوبست کرنا لازمی ہے کہ ان کی مردم شماری کی جائے اور بلاتاخیر کی جائے۔ کیونکہ لاہوری جماعت اور ربوہ والے دونوں نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ انہیں اپنے پیروکاروں کی تعداد کا صحیح علم نہیں۔ گویہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ایسی منظم جماعت کو معلوم نہیں ہے کہ ان کے پیروکار کتنے ہیں۔ گو ان کا کہنا ہے کہ ان کے اندازے کے مطابق ان کی تعداد پاکستان میں پینتیس یا چالیس لاکھ ہے اور پوری دنیا میں ایک کروڑ کے لگ بھگ۔ جناب والا! گروہ یہ بات کہتے ہیں کہ ہم پاکستان میں تیس چالیس لاکھ ہیں اور دنیا میں ایک کروڑ ہیں تو دنیا سے تو ہمیں کوئی واسطہ نہیں ہے۔ لیکن ہم یہ بات ضرور جاننا چاہیں گے کہ پاکستان میں ان کی صحیح تعداد کیا ہے؟ اس مقصد کے لئے ان کی مردم شماری کی جائے اور یہ بغیر کسی تاخیر کے کی جائے۔ یہ بنیادی چیز ہے جو بغیر کسی پس وپیش کے ہونی چاہئے۔
جناب والا! چوتھا مرحلہ انتظامی معاملات کا ہے جو حکومت کو حل کرنا ہوگا۔ میں یہ بات بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کرتا ہوں کہ ہمارا مقصد ہرگز ہرگز یہ نہیں ہے کہ ہم مرزا کے ماننے والوں کے جائز حقوق چھیننا چاہتے ہیں۔ جیسا کہ وہ آج پوری دنیا میں پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ بلین آف ڈالرز کی وہ جائیدادیں جو پاکستان میں انہوں نے کمائی ہیں۔ وہ پاکستان کے مسلمان ان سے چھین لینا چاہتے ہیں۔ ان کو غصب کرنا چاہتے ہیں۔ میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ پاکستان کا کوئی مسلمان یہ نہیں چاہتا کہ وہ ان کی املاک بغیر کسی حق کے چھینے۔ پاکستان کے دستور کا مطالعہ دنیا کا ہر انسان کر سکتا ہے اور میں یہ بات بلاخوف تردید کہتا ہوں کہ دستور پاکستان نے اقلیتوں کی حفاظت کے لئے ان کو قانون کے سامنے یکساں قرار دیا ہے۔ ان کے جان ومال اور آبرو کی حفاظت کے لئے ہم نے جو آرٹیکل اور جو پروویژن دستور میں رکھے ہیں اس میں دنیا کی متمدن ترین ملک کا دستور بھی ہمارے دستور کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور پھر جناب والا! میں دوسری بات یہ کہنا چاہتا ہوں 2849کہ دستور میں کسی چیز کے لکھنے ہی کا معاملہ نہیں ہے۔ جہاں تک عمل کا تعلق ہے تمام غیرمسلم اقلیتیں اس بات کی شہادت دینے پر مجبور ہوں گی کہ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ صرف منصفانہ ہی نہیں بلکہ فیاضانہ سلوک کیا جارہا ہے اور کیا جاتا رہے گا۔ اس لئے کہ ہمارا دین ہمیں یہی بات سکھاتا ہے کہ ہم اقلیتوں کی حفاظت کریں اور ان کے ساتھ فیاّضانہ سلوک کریں۔
اصل میں ہم جو بات کہنا چاہتے ہیں وہ صرف اور صرف یہ ہے کہ مرزا کے ماننے والوں نے ماضی میں اپنے حقوق سے بڑھ کر جو چیزیں حاصل کی ہیں اور جس طریقے سے انہوں نے مستحقین کے حقوق کو پامال کیا ہے اس کی پورے طریقے سے چھان بین کی جائے اور جو چیزیں ان کے پاس بغیر کسی حق کے موجود ہیں مکمل تحقیقات کرنے کے بعد حکومت ان سے ایسی چیزوں کو واپس لے لے۔ اس لئے کہ ان کا ان پر کوئی حق نہیں بنتا۔ اصل میں یہ گروہ یہ چاہتا تھا کہ وہ بادشاہ گر بن جائے اور ان کی خواہش یہ تھی کہ ان کے اوپر قانون لاگو نہ ہو۔
جناب والا! ہمیں یہ بات بتائی گئی ہے کہ زرعی اصلاحات کا قانون پاس ہونے کے بعد چونکہ انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کا ساتھ دیا تھا۔ لہٰذا پاکستان پیپلز پارٹی سے انہوں نے مطالبہ کیا کہ زرعی اصلاحات کا قانون ان کی زمینوں کے اوپر جاری نہ کیا جائے اور اسی طرح کا ایک اور مطالبہ کیا کہ تعلیمی اداروں کو جس طریقے سے قومیا یا گیا ہے اور ان میں اصلاحات کی گئی ہیں تو انہوں نے کہا کہ ان کے مدارس کو سکولوں کو، کالجوں کو اس سے مستثنیٰ قرار دیا جائے اور وہ یہ چاہتے تھے کہ ربوہ کے اندر ان کی ریاست درریاست موجود رہے۔ بلکہ پاکستان میں جس جگہ بھی مرزا کے ماننے والے موجود ہوں ان کو اچھی پوزیشن حاصل ہو اور ملک کے جو عام قوانین ہیں ان کے اوپر جاری نہ ہوں۔ جناب والا! اس لئے ہم یہ چاہتے ہیں کہ یہ جو ان کو استحقاقی پوزیشن حاصل ہے یہ غلط طریقے سے حاصل ہے۔ اس کو ختم کیاجائے۔ اس پوزیشن کو ختم کرنے کے لئے ہم یہ بات کہتے ہیں کہ ان کو کلیدی عہدوں سے ہٹایا جائے۔ ملازمتوں میں ان کو اتنا حصہ دیا جائے جتنی ان کی آبادی کا تناسب تقاضا کرتا ہے۔
2850آخر میں میں یہ عرض کرتا ہوں کہ اﷲتعالیٰ ہمین بصیرت دے اور اس بات کی ہمت دے کہ اس معاملے کو اس طریقے سے پورا کر سکیں کہ ہم اﷲتعالیٰ کے سامنے بھی سرخرو ہو سکیں اور قوم بھی مطمئن ہو جائے۔ شکریہ!
Mr. Chairman: Thank you very much.
(جناب چیئرمین: آپ کا بے حد شکریہ!)
ڈاکٹر محمد شفیع: مولانا! آپ کی باری بھی آجائے گی۔ آپ نے کتاب سے پڑھنا ہے اور یہ بغیر کتاب کے ہیں اور بغیر کتاب کے جو ہیں ان کو زیادہ ٹائم ملے گا۔ چوہدری جہانگیر علی صاحب! آپ بھی آج بولیں گے کارڈر کی بنیاد پر یا ویسے ہی؟
چوہدری جہانگیر علی: جناب! کارڈر کی بنیاد پر۔
Mr. Chairman: Thank you very much. Dr. Mohammad Shafi.
(جناب چیئرمین: آپ کا بے حد شکریہ! ڈاکٹر محمد شفیع)

Dr. Mohammad Shafi: Mr. Chairman, Sir, the issue started as "Khatm-i-Nabuwwat" but during our deliberations I think we have surveyed whole of the Mirzaiyat vis-a-vis Islam, and I being by nature inclined towards religion, have attended these meetings regularly and I have listened to them very attentively and I have drawn my own conclusions which may not be acceptable to other members. I do not know. In my opinion, they do not believe that Muhammad (Peace be upon him) is the last and the greatest Prophet. Both the groups believe Ghulam Ahmad as the last and the greatest prophet. This is my own reading. And, therefore, they do not take the life of Muhammad (Peace be upon him) as the model for them; they take the life of Ghulam Ahmad as the model for them. That means that they have got their own Sunnah which has nothing to do with our Sunnah. The story does not end there. They have got their own "Kalima", their own "Darood", their own Masjid-i-Aqsa and therefore their own "Qibla", and they have got their own site for Haj, and everything is different from us. They do not join us in the prayers; they do not join us even in "Janaza" prayers; they do not like to offer their daughters for marriage to us, although very cleverly they accept our daughters for their marriage. 2851Now what is the end result of that: That clearly means that they have themselves dissociated from the Muslims since the last 75years, and it is a reality which already exists and we only have to recognize it. And you know, Sir, we all are very fond of recognizing the realities and let us recognize this reality also.
Now, this is one aspect of the issue. The other is that they do not stop there. They have got a parallel Government running in Rabwa which in my opinion is virtually Vatican. They have got their own Ministries under the name of I think "Nazirs" or some such thing -Nazir-i-Umoor -i-Kharja and -Nazir-i-Umoor -i-Dakhila and such like things. They call themselve Nazirs. Now this thing is being helped by thier hidden employees which we do not know in most cases. They are helped by the Qadiyanis who serve in our Departments. All the statistics and all the data are provided by them to that Government.
----------
[At this stage Mr. Speaker vacated the Chair which was occupied by Madam Deputy Speaker (Dr. Mrs. Ashraf Khatoon Abbasi).]
----------
Dr. Mohammad Shafi: They have boasted that they are serving Islam in foreign countries. One example that they have given for that is that they saved the Muslims in Israel when the Israelis captured that territory. Well that may be so that they saved the Muslims there. But the question arises: who saved the Qadiyanis there? Well, somebody must have saved them. If the Jews have saved them, even they must have done so with certain motives, and those motives are to be judged by us.
Having drawn these conclusions, what is the solution for that? The solution is, in which the whole House is unanimous, that we recognize the reality which is already existing they have dissociated themselves from us, and we only have to declare it to be so. But, In this case, I would leave it to the Government to take the national and international factors into consideration and then take the appopriate steps. Thank you.
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(جناب ڈاکٹر محمد شفیع کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر خطاب)
(ترجمہ)
(ڈاکٹر محمد شفیع: جناب چیئرمین صاحب! مسئلہ ختم نبوت کے عنوان سے شروع ہوا تھا۔ تاہم بحث مباحثے کے دوران ہم نے پوری مرزائیت بمقابلہ اسلام کا مطالعہ کر لیا ہے اور میں نے طبعی طور پر مذہبی ہونے کی وجہ سے ان اجلاسات میں بڑی باقاعدگی سے شرکت کی ہے۔ بہت غور سے تمام بحث کو سنا ہے اور میں نے اپنے کچھ نتائج بھی مرتب کئے ہیں جو میں نہیں جانتا باقی ارکان کے لئے قابل قبول ہوں یا نہ ہوں۔ میرے رائے میں وہ (قادیانی) حضرت محمد ﷺ کو آخری اور عظیم ترین پیغمبر تسلیم نہیں کرتے۔ ان کے دونوں گروہ (قادیانی اور لاہوری) مرزاغلام احمد کو آخری اور عظیم ترین پیغمبر مانتے ہیں۔ یہ نتیجہ میں نے خود اخذ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ حضرت محمد ﷺ کی زندگی کو اپنے لئے بطور نمونہ نہیں لیتے۔ بلکہ مرزاغلام احمد کی زندگی میں اپنے لئے نمونہ تلاش کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کی اپنی ایک سنت ہے۔ جس کا ہماری سنت سے کوئی تعلق نہیں۔ کہانی یہیں ختم نہیں ہو جاتی۔ ان کا اپنا ایک الگ ’’کلمہ‘‘ ہے۔ ایک الگ ’’درود‘‘ ہے۔ ایک الگ ’’مسجد اقصیٰ‘‘ ہے اور اس طرح اپنا ایک ’’قبلہ‘‘ ہے۔ ان کی حج کی اپنی الگ جگہ ہے اور سچ تو یہ ہے کہ ان کی ہر شے ہم سے علیحدہ ہے۔ وہ ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھتے۔ ہمارے جنازوں میں شریک نہیں ہوتے۔ شادی بیاہ کے رشتوں میں وہ اپنی بیٹیاں ہمیں دینا پسند نہیں کرتے۔ اگرچہ بڑی چالاکی کے ساتھ ہماری بیٹیاں لے لیتے ہیں۔ اس ساری بات سے کیا نتیجہ نکلتا ہے؟ اس کا صاف صاف مطلب یہ ہے کہ گزشتہ ۷۵سالوں میں انہوں نے خود اپنے آپ کو مسلمانوں سے الگ کر لیا ہے اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو پہلے سے موجود ہے۔ ہمیں صرف اس کا اعتراف کرنا ہے۔ جناب والا! آپ جانتے ہیں کہ ہم حقائق کو تسلیم کرنے سے کبھی جی نہیں چراتے تو آئیے اس حقیقت کو بھی تسلیم کر لیں۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(ربوہ کی متوازی حکومت؟)
یہ معاملے کا صرف ایک رخ ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ وہ اسی پر بس نہیں کرتے۔ وہ ربوہ میں ایک متوازی حکومت چلا رہے ہیں جو میری رائے میں ویٹی کن کی مانند ہے۔ وہاں ان کی اپنی وزارتیں ہیں جنہیں وہ ’’ناظر‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ جیسے ’’ناظر امور خارجہ‘‘، ’’ناظر امور داخلہ‘‘ وغیرہ۔ وہ اپنے آپ کو ناظر کہتے ہیں۔ یہ معاملہ ان کے خفیہ اہلکاروں کی مدد سے چل رہا ہے اور ہم اس کے متعلق زیادہ نہیں جانتے۔ ہمارے محکموں میں کام کرنے والے قادیانی بھی ان کی مدد کرتے ہیں اور وہ اپنی حکومت کو تمام معلومات اور اعدادوشمار فراہم کرتے ہیں)
----------
(یہاں جناب اسپیکر نے اپنی کرسی کو چھوڑا۔ ان کی جگہ محترمہ ڈپٹی اسپیکر صاحبہ (ڈاکٹر بیگم اشرف خاتون عباسی) نے کرسی صدارت سنبھالی)
----------
(ڈاکٹر محمد شفیع: وہ (قادیانی) بڑے فخریہ انداز میں اس کا تذکرہ کرتے ہیں کہ وہ بیرونی ممالک میں اسلام کی خدمت کر رہے ہیں۔ اس کی ایک مثال وہ یہ دیتے ہیں کہ انہوں نے اسرائیل میں مسلمانوں کو اس وقت بچایا جب اسرائیل علاقے پر قبضہ کر رہا تھا۔ چلئے مان لیتے ہیں کہ انہوں نے وہاں مسلمانوں کو بچایا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہاں قادیانیوں کی حفاظت کس نے کی ہے؟ یقینا کسی نے وہاں ان کی حفاظت کی ہے۔ اگر یہودیوں نے ان کی حفاظت کی ہے تو ایسا کرنے میں ان کے کچھ محرکات ہوں گے اور ہمیں ان محرکات کا جائزہ لینا ہے۔
ان نتائج کو اخذ کرنے کے بعد سوال یہ ہے کہ اس مسئلے کا حل کیا ہے۔ حل یہ ہے اور اس پر پورا ایوان متفق ہے کہ ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہئے جو پہلے سے موجود ہے۔ وہ ہم سے پہلے ہی تعلق توڑ چکے ہیں۔ ہمیں اس امر کا صرف اعلان کرنا ہے۔ تاہم اس معاملے کو میں حکومت پر چھوڑتا ہوں کہ وہ قومی اور بین الاقوامی عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے مناسب اقدام کرے۔
آپ کا شکریہ!)
2852محترمہ قائمقام چیئرمین: چوہدری جہانگیر علی! آپ بولیں گے؟
چوہدری جہانگیر علی: جی ہاں! میں بولوں گا۔
محترمہ قائمقام چیئرمین: بولیں۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(جناب چوہدری جہانگیر علی کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پرخطاب)
چوہدری جہانگیر علی: جناب ڈپٹی چیئرمین صاحبہ! موجودہ مسئلہ جو اس خصوصی کمیٹی کے سامنے درپیش ہے۔ یہ مذہبی اہمیت کا بھی حامل ہے اور سیاسی نتائج بھی اس سے منسلک ہیں۔ اس مسئلے نے ۲۹؍مئی ۱۹۷۴ء کے بعد اس ملک میں جو صورتحال پیدا کی اس کے متعلق ۱۳؍جون ۱۹۷۴ء کو جناب ذوالفقار علی بھٹو صاحب وزیراعظم اپنے نقطۂ نظر کا اظہار فرماچکے ہیں اور انہوں نے ملک وقوم کے مفاد کے پیش نظر اس مسئلے کو اس ملک کے سب سے بڑے ادارے قومی اسمبلی کے سامنے پیش کیا اور قومی اسمبلی نے خود فیصلہ کرتے ہوئے اپنے آپ کو ایک سپیشل کمیٹی میں تبدیل کیا اور تقریباً دو ماہ ہوئے کہ اس مسئلہ کے اوپر اس ہاؤس کے اندر شہادتیں بھی پیش ہوئیں۔ بیان بھی ہوئے اور جرح بھی ہوئی۔ میں واضح کرنے کی کوشش کروں گا کہ جو شہادت ریکارڈ پر آئی ہے اس سے کیا ثابت ہوتا ہے۔ کیا فریقین اپنے اپنے کیس کو ثابت کرنے میں کامیاب رہے ہیں؟ کیا احمدی جماعت کے لیڈر اپنے کیس اس ایوان کے سامنے ثابت کر چکے ہیں؟ انہوں نے حزب اختلاف یعنی غیراحمدی مسلمانوں کا کیس ناکام کر دیا ہے؟ یا غیراحمدی مسلمانوں کے دعوے کو وہ رد نہیں کر سکے؟ اور اپنے دعوے کی بھی صحیح طرح پر تصدیق نہیں کر سکے؟
جناب ڈپٹی چیئرمین! مجھے ۱۹۷۰ء کا وہ ماحول یاد ہے جب جناب ذوالفقار علی شہرشہر اور قریہ قریہ اپنی پارٹی کا منشور بیان کرنے کے لئے، اور غریب عوام کو سیاست سے روشناس کرانے کے لئے، ان میں سیاسی تدبر پیدا کرنے کے لئے دورے کیا کرتے تھے۔ میں نے اکثر مقامات پر دیکھا کہ جناب بھٹو سے مذہب کے متعلق اکثر سوال کئے جاتے تھے اور ختم نبوت کے متعلق آپ 2853سے استفسار کیاجاتا تھا۔ خود میرے شہر سرگودھا میں لوگوں نے جناب بھٹو کے سر پر قرآن رکھ کر یہ پوچھا تھا کہ مسئلہ ختم نبوت کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے تو انہوں نے واشگاف الفاظ میں فرمایا تھا کہ جو آدمی ختم نبوت پر ایمان نہیں رکھتا میں اسے مسلمان نہیں سمجھتا اور میں خود ایسا مسلمان ہوں جس کا ختم نبوت کے اوپر اعتقاد ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(صدارت، وزارت عظمیٰ اور ختم نبوت)
جناب ڈپٹی چیئرمین! جناب ذوالفقار علی بھٹو صاحب کو معلوم تھا کہ اس ملک کے اندر آئینی بحران ہے اور سالہا سال سے ملک بغیر کسی آئین کے چل رہا ہے۔ جناب بھٹو نے عوام سے وعدہ کیا کہ وہ نہ صرف ان کو عوامی دستور دیں گے بلکہ ان کو اسلامی دستور دیں گے۔ ان کو یہ بھی یقین تھا کہ اسلامی دستور بنانے کے لئے زیادہ سے زیادہ ممبران قومی اسمبلی اگر مسلمان ہوں اور صحیح عقیدے کے مسلمان ہوں تو پھر ہم اتفاق رائے سے غیرمتنازعہ قسم کا اسلامی دستور اس ملک کو دے سکیں گے۔ جناب ڈپٹی چیئرمین! شاید یہی وجہ تھی کہ جناب ذوالفقار علی بھٹو نے قومی اسمبلی کے لئے اپنی پارٹی کا ٹکٹ کسی احمدی یا قادیانی کو نہیں دیا اور آج ہم یہ بڑے فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ اس ہاؤس کے سو فیصد ممبران کا عقیدہ ختم نبوت پر ہے اور وہ اس کے اوپر ایمان رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اتفاق رائے سے اس ملک کو ایک عوامی اور اسلامی دستور دے چکے ہیں اور اس اسلامی دستور میں ہم نے نظریہ ختم نبوت کو بھی تحفظ دیا ہے اور اگرمیں آپ کے سامنے دستور کے تھرڈ شیڈول کی عبارت پڑھ کر سناؤں تو معلوم ہو جائے گا کہ اس کے اندر واشگاف الفاظ میں ختم نبوت کو تحفظ دیا گیا ہے اور جو آدمی ختم نبوت کے اوپر ایمان کا اور اعتقاد کا حلف نہیں اٹھاتا وہ اپنے آپ کو نہ مسلمان کہلوا سکتا ہے نہ کرسی صدارت پر بیٹھ سکتا ہے اور نہ ہی وزارت عظمیٰ کی کرسی پر متمکن ہوسکتا ہے۔
جناب ڈپٹی چیئرمین! جہاں تک مذہبی عقیدے کا تعلق ہے اس پر بہت سارا لٹریچر اس کارروائی کے دوران مختلف اسلامی اور احمدی عقیدہ رکھنے والوں کی جانب سے ممبران قومی اسمبلی 2854کے پاس آیا اور ہم نے ان سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے علاوہ فاضل ممبران قومی اسمبلی مولانا مفتی محمود، مولانا غلام غوث ہزاروی صاحب اور مولانا عبدالحکیم صاحب نے جو اسلامی عقیدے کا بیان اس کمیٹی کے سامنے پڑھ کر سنایا ہے۔ عقیدے کے لحاظ سے میں ان دونوں کے بیانات سے سوفیصد متفق ہوں۔ لیکن اگر ہم نے صرف اپنے علمائے کرام کے بیانات پر اور ان کے وعظ ونصیحت پر ہی فیصلہ کرنا تھا تو پھر اسمبلی کے سامنے لاہوری جماعت اور ربوہ جماعت کو اپنا نقطۂ نظر پیش کرنے کی اجازت دینے کی قطعاً ضرورت نہ تھی۔ وعظ ونصیحت سن کر ہی ہم اسی وقت فیصلہ دے سکتے تھے کہ یہ لوگ مسلمان ہیں یا غیرمسلم ہیں؟ مگر چونکہ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ کسی دوسرے فریق کے خلاف فیصلہ دینے سے پہلے آپ اس کو ضرور سماعت کر لیں اور اس کے عذرات سن لیں۔ یہی نیچرل جسٹس اور Good Conscience (روشن ضمیری) کا تقاضا ہے۔ جناب ڈپٹی چیئرمین! یہی وجہ ہے کہ قادیانی لیڈروں کو اپنا نقطۂ نظر اس اسمبلی میں پیش کرنے کی اجازت دی گئی۔ بلکہ انہوں نے خود اس کا مطالبہ کیا تھا کہ فیصلہ دینے سے پہلے ہمیں اسمبلی کے سامنے پیش ہوکر اپنی پوزیشن اور اپنا عقیدہ واضح کرنے کی اجازت دی جائے۔ ان کے بیانات پر جرح کے دوران میں نے کوشش کی کہ میں زیادہ سے زیادہ عرصہ کارروائی کے دوران حاضر رہوں اور میں نے یہ کوشش بھی کی کہ اگر وہ کوئی اس قسم کے دلائل پیش کر سکیں یا ثبوت دے سکیں کہ ان کا عقیدہ سچا ہے اور وہ مجھے قائل کر سکیں تو شاید میں ان کے عقیدے پر ایمان لے آؤں۔ اسی نظریہ سے میں نے ان کے تمام دلائل سنے۔ وہ شہادت جو اس اسمبلی کے ریکارڈ پر آئی ہے اگر میں اس کا آپ کے سامنے اور فاضل ممبران اسمبلی کے سامنے جائزہ لوں تو ہم یہ دیکھ لیں گے کہ کیا ان کا نظریہ اس قابل ہے کہ میں اس پر ایمان لے آتا،یا ان کا نظریہ اس قسم کا ہے کہ میں اس کو پائے حقارت سے ٹھکرا دیتا؟
 
Top