ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
2855جناب ڈپٹی چیئرمین! ان تحریری بیانات کا جو انہوں نے داخل کئے ہیں اور اس مؤقف کا جو جرح میں ان سے حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ملاحظہ کرنے کے بعد ہمیں ایک صحیح نتیجہ پر پہنچنے کے لئے یہ نکات زیرغور لانے ہوں گے کہ گواہ کا Status (منصب) کیا ہے۔ آپ نے دیکھا ہے کہ وہ فارسی دان ہے۔ وہ عربی میں مولوی فاضل ہے۔ اس نے آکسفورڈ سے گریجوایشن کی اور وہیں سے ایم۔اے کی ڈگری حاصل کی۔ پاکستان اور ہندوستان میں ۱۹۴۰ء سے لے کر ۱۹۶۵ء تک ایک کالج کا پرنسپل رہا۔ جناب ڈپٹی چیئرمین! یہی نہیں بلکہ جس شخص کو یہ کہتے ہیں کہ وہ امتی یا تشریعی یا آخری نبی ہے۔ اس کا یہ پوتا ہے اور خلیفہ ثانی کا لڑکا ہے۔ یہ اس گواہ کا Status (منصب) ہے۔ اب ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ کیا اس گواہ نے اپنے Status (منصب) کے مطابق صحیح بیان دیا یا ہیرا پھیری کی ہے؟ اس نے جھوٹ بولا ہے یا اس نے حقائق پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے؟ اس نے سوالات سے کترانے کی کوشش کی ہے، اس کا رویہ اس ہاؤس میں Hostile (جارحانہ) رہا ہے یا نہیں؟ اس نے عدم تعاون کا ثبوت تو نہیں دیا یا حقائق کو چھپانے کی کوشش تو نہیں کی؟ کیا وہ اپنے کیس کو ثابت کرنے کے لئے اپنے مخالف دلائل کو رد کر سکا ہے؟ یا وہ اپنے کیس کو ثابت کرنے کے لئے دوسرے کے کیس کو جھوٹا ثابت کرنے میں کامیاب رہا ہے؟
جناب ڈپٹی چیئرمین! میں چند نکات لے کر بیانات کی روشنی میں ان نکات پر اس گواہ کے کردار اور اس کے کریکٹر اور اس کے عقیدے کا آپ کے سامنے تجزیہ کرنا چاہتا ہوں۔ سب سے پہلے میں یہ پوائنٹ لوں گا کہ اس نے اپنے خلیفہ ثالث منتخب ہونے کے متعلق اس ہاؤس میں کیا کہا؟ کیا یہ ایسے دلائل ہیں جن سے ہم تسلیم کر لیں کہ جس شخص کا (نبی کا) یہ تیسرا خلیفہ ہے وہ بھی برحق تھا یا اور یہ اس کا تیسرا خلیفہ بھی برحق ہے یا نہیں؟
جناب ڈپٹی چیئرمین! اگر ہم کسی غیرمسلم کو اسلام کی دعوت دیں تو اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کا اسوۂ حسنہ، آپ ﷺ کی تعلیمات اس کے سامنے بیان کریں اور ان کو سپورٹ 2856کرنے کے لئے آپ ﷺ کے خلفاء راشدین کے کردار کا، ان کی قربانیوں کا، ان کی راست بازی کا بھی ہم جائزہ لیں۔جس شخص کے خلیفہ کا کردار شک وشبہ سے بالا تر ہوگا یقینا اس کی نبوت بھی سچی اور واجب القبول ہوگی۔ اب ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ خلفاء راشدین کے کردار نے آنحضرت ﷺ کی سیرت کو، آپ کی نبوت کو اور آپ کے کردار کو اپنے عمل سے، اپنے قول وفعل سے کس حد تک برحق اور سچا ثابت کرنے کی کوشش کی، کس حد تک بلند رکھا، کس حد تک سپورٹ کیا۔ اسی طرح ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ اس تیسرے خلیفہ نے اپنے نبی کے کردار کو کس حد تک سپورٹ کیا ہے۔ کیا اس کا کردار ایسا ہے جس سے ثابت ہو کہ یہ واقعی ایک نبی کا تیسرا خلیفہ ہے۔ اگر اس کا کردار ایک خلیفہ کے کردار کی کسوٹی پر پورا نہیں اترتا تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ نبی بھی اس قابل نہیں ہے کہ ہم اس کو نبی تسلیم کریں؟
اپنے انتخاب کے متعلق اس نے کہا ہے کہ مجھے جماعت احمدیہ نے انتخاب کے ذریعے اپنا امام بنایا ہے۔ مجھے الیکٹورل کالج کے ذریعے منتخب کیاگیا۔ اس کالج کے ممبران کی تعداد تقریباً پانچ سو ہے۔ اس میں تبلیغی مشن کے کچھ لوگ جماعت کے اندرونی مبلغین، ذمہ دار وعہدیداران وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔ کچھ ممبروں کوضلع کی تنظیم نے نامزد کیا ہے اور جب ہم نے اس سے یہ پوچھا کہ کیا آپ کے الیکٹورل کالج کے ممبران کی کوئی آخری لسٹ آپ کے پاس ہے؟ تو اس نے کہا ہمارے پاس کوئی آخری لسٹ موجود نہیں ہے۔ اس نے کہا انتخاب بلا مقابلہ ہوتا ہے۔ اسے Contest نہیں کیا جاتا۔ کوئی دیگر شخص اپنا نام پیش نہیں کر سکتا۔ الیکشن کے قواعد ہمارے پاس نہیں ہیں۔ صرف روایات ہیں۔ خلیفہ کو سبکدوش کرنے کا کوئی طریقہ کار باقاعدہ نہیں ہے۔ اسے اﷲتعالیٰ کی تائید حاصل ہوتی ہے۔ الیکٹورل کالج کے ممبران کے ذہن پر اﷲتعالیٰ کا اثر ہے۔ (اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کبھی ان کا خلیفہ بھی چاہے تو وہ بھی نبوت کا دعویٰ کر سکتا 2857ہے) خلیفہ کو کوئی ذہنی یا جسمانی مرض لاحق نہیں ہوسکتا۔ یہ ہمارا عقیدہ ہے۔ اب آپ دیکھ لیں کہ یہ عقیدہ کس حد تک صحیح ہے۔ ’’کل نفس ذائقۃ الموت‘‘ یہ ہمارا ایمان ہے اور ان کا خلیفہ ایسا ہے کہ شاید موت کا ذائقہ بھی ان کے عقیدہ کے مطابق نہ چکھتا ہو، تاوقتیکہ وہ خود ہی مرنا نہ چاہے۔ خلیفہ کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے۔ ایسی کوئی باڈی نہیں جو خلیفہ کے فیصلے کو Over-rule (رد) کر سکے۔ خلیفہ مجلس شوریٰ کے فیصلے میں ردوبدل نہیں کرتا۔ خلافت اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے۔ اس سے استعفاء نہیں لیا جاسکتا۔ مرزاناصر احمد کے اس بیان میں تضاد ہے۔ ایک طرف وہ کہتا ہے کہ خلافت اﷲتعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے۔ دوسری طرف وہ کہتا ہے کہ الیکٹورل کالج خلیفہ کو منتخب کرتا ہے۔ جس کی کوئی حتمی فہرست یا کوئی ریکارڈ ان کے پاس نہیں ہے۔
جناب ڈپٹی چیئرمین! ان کے نبی کی یعنی مرزاغلام احمد صاحب کی فیملی کے متعلق جب اس سے پوچھتے ہیں کہ مرزاصاحب کی فیملی کن اصحاب پر مشتمل ہے تو دیکھئے کہ وہ سچ کہتا ہے یا جھوٹ۔ اس کا استدلال قدرتی ہے یا بناوٹی ہے یا اس میں کسی دجل سے کام لیا جارہا ہے؟ وہ کہتا ہے کہ مرزاصاحب کی فیملی سے مراد ان کے صرف تین بیٹے ہیں۔ ان کی دیگر اولاد فیملی میں شامل نہیں۔ جناب ڈپٹی چیئرمین! عام عقیدہ یہ ہے کہ ایک شخص کے نطفے سے جتنے بھی افراد ہوں گے وہ اس کے افراد کنبہ ہوں گے۔ ہمیں نہیں پتہ کہ کیا اس کی اولاد میں سے صرف تین ہی افراد ان کے نطفے سے تھے؟
اس کے بعد مرزاناصر احمد گواہ، امیر المؤمنین ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور امیرالمؤمنین کا جو وہ مطلب بیان کرتا ہے اب آپ یہ دیکھئے کہ کیا وہ ہمارا بھی امیر ہوسکتا ہے۔ کیا اس کی نظر میں کیا اس کے عقیدہ کے لحاظ سے ہم بھی مؤمنین کہلانے کے مستحق ہیں یا نہیں؟ وہ کہتا ہے کہ ان لوگوں کا امیر جو ہمارے نظرئیے سے متفق ہوں امیر المؤمنین کہلاتا ہے۔ اسکا یہ مطلب ہے کہ جو لوگ ان 2858کے نظرئیے سے متفق نہیں ہیں وہ مؤمنین نہیں ہیں۔ مؤمن صرف وہ لوگ ہیں جو ان کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ گواہ نے وضاحت کی کہ میں تمام مسلمانوں کا امیریا خلیفہ نہیں ہوں۔ اگر وہ اپنے آپ کو تمام مسلمانوں کا خلیفہ ثابت کرتا تویقینا ہم اس کو مان لیتے۔ بشرطیکہ اس کا ثبوت ناقابل تردید معیار کا ہوتا۔
اس نے مزید کہا ہے کہ ہماری جماعت کے اغراض ومقاصد حقیقی اسلام قائم کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ سیاسی مفادات حاصل کرنا، سیاست میں حصہ لینا، سیاست سے فائدہ اٹھانا ہمارا نقطۂ نظر نہیں ہے۔ سیاست ہمارے اغراض ومقاصد میں شامل ہی نہیں ہے۔ آگے چل کر جناب ڈپٹی چیئرمین! میں آپ کو یہ بتاؤں گا کہ جب یہ مسلمان اور غیرمسلمان کی تعریف کرتے ہیں وہاں بھی سیاسی مسلمان اور غیرسیاسی مسلمان کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ جب یہ کافر کی تعبیر کرتے ہیں تو اس میں بھی سیاسی کافر اور غیرسیاسی کافر کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔
جماعت احمدیہ کی نفری یا تعداد کے متعلق جب ان سے پوچھا گیا تو آپ دیکھئے کہ ان کا کیا سٹینڈ ہے اور انہوں نے اپنا مؤقف کیا اختیار کیا ہوا ہے؟ جواب میں مرزاناصر احمد نے کہا ہے کہ اس کا کوئی ریکارڈ ان کے پاس نہیں ہے کہ پاکستان میں گزشتہ بیس سال سے کتنے احمدی Convert (تبدیل) ہوئے ہیں یا جماعت میں کتنے لوگ شامل ہوئے ہیں؟ ہم کوئی ایسا ریکارڈ نہیں رکھتے۔ جب پوچھا گیا کہ بیعت کے رجسٹر کی گنتی کی جاتی ہے یا نہیں؟ تو اس کا جواب ہے کہ اس کا مجھے علم نہیں ہے۔ یہ گواہ امیرجماعت احمدیہ ہے۔ خلیفہ (ثالث) ہے اور امیرالمؤمنین ہے اور اس کو یہ معلوم نہیں ہے کہ اس کی جماعت کی کل نفری کتنی ہے۔ نہ اس نے ریکارڈ قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ نہ اس کو یہ معلوم ہے کہ اس کا ریکارڈ موجود ہے یا نہیں ہے؟ پھر آگے چل کر پلٹتا ہے اور کہتا ہے 2859کہ میرے اندازے کے مطابق پاکستان میں پینتیس، چالیس لاکھ احمدی ہیں۔ دنیا میں ایک کروڑ ہیں۔ مرزا غلام احمد صاحب کی وفات کے وقت چار لاکھ احمدی تھے۔ ۱۹۵۴ء کی مردم شماری میں اگر تعداد چند ہزار درج ہے تو وہ غلط ہے۔ مردم شماری کے اعدادوشمار کبھی درست نہیں ہوتے۔ مجھے علم نہیں کہ منیر کمیشن کے سامنے جماعت احمدیہ میں سے کس نے جماعت کی تعداد دو لاکھ بتائی تھی؟ یہ تعداد غلط ہے۔ ’’انسائیکلوپیڈیا آف اسلام‘‘ میں بھی ہماری تعداد غلط تحریر ہے۔ اگر آپ کہیں کہ احمدیوں کی تعداد دولاکھ ہے تو میں کسی دستاویز سے اس کی تردید نہیں کر سکتا۔ البتہ اگر آپ کسی ریکارڈ یا سرکاری دستاویز سے ثابت کر دیں تو میں تردید نہیں کروں گا۔ کوئی حتمی مردم شماری نہیں کی گئی۔ اس لئے تعداد اندازے سے بتائی گئی ہے۔ اب تعداد پینتیس، چالیس لاکھ ہے۔ بوقت تقسیم ملک چار لاکھ تھی۔ اس وقت تیس پینتیس ہزار ہندوستان میں رہ گئے تھے۔
اس کے بعد گواہ اسمبلی کے اختیارات کو چیلنج کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اسمبلی کو کسی کو کافر قرار دینے کا اختیار نہیں ہے۔ میں اس کے بیان سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کروں گا کہ اس نے یہ تسلیم کیا ہے کہ اس اسمبلی کو یہ تعین کرنے کا حق حاصل ہے کہ یہ اسمبلی جس نے اس ملک کا سرکاری مذہب اسلام قرار دیا ہے کسی فرقے کے متعلق یہ بھی فیصلہ دے سکتی ہے اور قانون اور دستور میں یہ ترمیم کر سکتی ہے کہ کون صحیح عقیدے کا مسلمان ہے اور کون نہیں ہے۔ اس نے اسمبلی کے اختیارات کو چیلنج کرتے ہوئے اپنی جرح میں کہا ہے کہ مذہبی آزادی ہر شخص کو ہونی چاہئے۔ میرا کہنا ہے کہ کوئی بے وقوف ہی اس کی تردید کرے گا۔ میں نے دستور کی دفعہ آٹھ اور بیس کے تحت اسمبلی کے اختیار کو چیلنج کیا ہے۔ یہ درست ہے کہ اسمبلی جو کہ سپریم باڈی ہے ان دفعات کی ترمیم کر سکتی ہے۔ میں نے اپنے تحریری بیان یعنی محضرنامے میں یہ بات کہی ہے کہ صرف مسٹر بھٹو، مفتی محمود اور مولانا مودودی کو ہی نہیں بلکہ دستور ہر پاکستانی کو مذہبی آزادی دیتا ہے۔ جب 2860کوئی اپنے مذہب کا اعلان یا اقرار کرے تو کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ اس میں اعتراض یا مخالفت کرے۔ اگر کوئی دنیاوی فائدے اور لالچ کے لئے مذہب کا اعلان کرے تو قرآن پاک کہتا ہے کہ اس میں مداخلت نہ کی جائے۔ البتہ اگر کوئی دھوکہ دہی کے لئے مذہب کی آڑ لے تو میں اس کی مذمت کرتا ہوں۔ یہ درست ہے کہ جو مسلمان نہیں، اسے مسلمان ہونے کا دعویٰ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اس لئے ہم یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ چونکہ یہ غیرمسلم ہیں اس لئے ان کو مسلمانی کا دعویٰ کرنے کا کوئی حق نہیں۔ جب ان سے یہ سوال کیاگیا کہ جب آپ ایک غیراحمدی کو کافر کہتے ہیں، اگر اسمبلی یہ قرارداد پاس کر دے کہ آپ دائرہ اسلام سے خارج ہیں تو آپ کو کیا اعتراض ہے؟ اس کا وہ جواب دیتے ہیں کہ پھر جملہ غیر احمدی فرقوں کو غیرمسلم قرار دے دیا جائے۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ اس اسمبلی کو یہ تو اختیار ہے کہ جملہ غیراحمدی فرقوں کو غیرمسلم قرار دے دے، مگر اس اسمبلی کو یہ اختیار نہیں کہ ایک احمدی فرقے کو غیرمسلم قرار دے سکے۔ آگے چل کر پھر اس سوال کے جواب میں کہ مسلمان کون ہیں۔ اس نے کہا کہ آنحضرت ﷺ نے جسے مسلمان کہا ہے وہ مسلمان ہے اور اس میں وہ چار حدیثوں کا حوالہ دیتا ہے جو اس نے اپنے محضرنامے میں بیان کی ہیں۔ اس پر مفتی محمود صاحب کافی روشنی ڈال چکے ہیں۔
اب ان کو اقلیت قرار دئیے جانے یا نہ دئیے جانے کے موضوع پر اس کے بیانات کا آپ کے سامنے جائزہ لیتا ہوں۔ گواہ مرزاناصر احمد نے کہا ہے کہ اپنے فرقے کو اقلیت قرار دینے سے ہم مرزاصاحب کو روحانی پیشوا تصور کرنے میں اس طور پر پابندی محسوس کریں گے کہ اس سے ان لوگوں کی عزت نفس پر ہاتھ ڈالا جائے گا جو ہماری جماعت میں شامل ہوں گے۔ اگر آپ یہ کہیں کہ اقلیت قرار دینے سے مداخلت نہیں بلکہ ہمارا تحفظ ہوگا تو ہمیں ایسے تحفظ کی ضرورت نہیں ہے۔
2861جناب ڈپٹی چیئرمین! ان کے خیالات ملاحظہ فرمائیں۔ کہا گیا ہے کہ اگر کوئی فرد ان کو غیرمسلم کہے تو ان کے حقوق میں مداخلت نہیں ہوتی۔ البتہ اگر حکومت ان کو غیرمسلم کہے تو مداخلت ہوتی ہے۔ گواہ کا مؤقف یہ ہے کہ ان تین احادیث کی رو سے جو محضرنامے میں درج ہیں کسی حکومت کو حق نہیں کہ کسی کو غیرمسلم قرار دے۔ اس نے کہا یہ درست ہے کہ جب میں یہ کہوں کہ مفتی محمود کو کوئی حق نہیں کہ ہمیں غیرمسلم کہے تو ہمیں بھی حق نہیں کہ ہم کہیں کہ مفتی محمود مسلمان نہیں ہیں۔
جناب ڈپٹی چیئرمین! امتی نبی کے متعلق مختصر سا جائزہ لیتے ہوئے اس گواہ کے خیالات اور بیانات کے میں آپ کے سامنے مختصر حوالے پیش کرتا ہوں۔ اپنے اس اعتقاد پر کہ مرزاصاحب امتی نبی ہیں۔ ان کی ربوہ والی جماعت کا اور نہ لاہوری جماعت کا موقف غیرمتزلزل نہیں ہے۔ ان کے قدم ڈگمگاتے ہیں۔ کبھی ایک پوزیشن اختیار کرتے ہیں کبھی دوسری اور کبھی تیسری پوزیشن اختیار کرتے ہیں۔ بیانات اور جرح کے دوران ان کا سارا استدلال یہ رہا کہ وہ مرزاغلام احمد کو نبی مانتے ہیں۔ اگر آپ اس پر اعتراض کرتے ہیں، چلئے ہم ان کو مسیح موعود مان لیتے ہیں۔ اگر آپ مسیح موعود بھی نہیں مانتے تو ہم ان کو مہدی موعود مان لیتے ہیں اور اگر آپ ان کو مہدی موعود بھی نہیں تسلیم کرتے تو چلئے ان کو آنحضرت ﷺ کا ظل، ان کا سایہ کہہ لیں اور اس طرح وہ امتی نبی ہیں، بروزی نبی ہیں۔ ان کا یہ مؤقف بھی ان کے اپنے بیان سے منتشر ہوجاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ امتی نبی وہ ہے جو نبی اکرم ﷺ کے عشق اور محبت میں اپنی زندگی گزارے اور تسلیم کیا کہ یہ درست ہے کہ دوسرے فرقوں کے لوگ مرزاصاحب کوامتی نبی نہیں سمجھتے۔ ایک جگہ جاکر وہ یہ بھی تسلیم کر گئے ہیں، درست ہے کہ ان کی کتاب ’’حقیقت النبوۃ‘‘ (ص۱۸۳) میں درج ہے کہ مرزاصاحب امتی نبی نہیں بلکہ حقیقی نبی ہیں۔
جناب ڈپٹی چیئرمین! آپ دیکھئے اگر وہ شخص آنحضرت ﷺ 2862کے بعد حقیقی نبی ہونے کا دعویٰ کرے اور اس کے خلیفہ اس بات کا پرچار کریں تو یہ یقینا اسلام کو نہ صرف مسخ کرنے والی بات ہے بلکہ وہ لوگ اس ملک کے اندر ایک نیا اسلام، ایک نیا نبی اور ایک نئی امت قائم کرنے کی سازش کر رہے ہیں۔
جناب ڈپٹی چیئرمین! سب سے بڑا پوائنٹ جو اس ہاؤس میں زیربحث آیا۔ جس پراٹارنی جنرل صاحب نے ان پر بہت زیادہ سوالات کئے۔ یہی ہے کہ کیا مرزاصاحب کو نبی نہ ماننے والا کافر ہے اور کیا غیراحمدی مسلمان ہے یا نہیں؟ اپنے بیانات میں مرزاناصر احمد گواہ نے جو باتیں کہی ہیں وہ یہ ہیں: ’’کفر کے لغوی معنی انکارکرنے والے کے ہیں۔ جو لوگ بانی سلسلہ احمدیہ کے منکر ہیں وہ کافر ہیں۔ لغوی معنوں میں اور اصلی معنوں میں کیا فرق ہے، وہ آپ یہاں دیکھیں کہ انہوں نے کیا حیرت انگیز فرق ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ منکر خداتعالیٰ کے سامنے قابل مواخذہ ہے۔ کفر کے دو معنی ہیں۔ ایک اﷲتعالیٰ کے نزدیک قابل مواخذہ ہے۔ دوسرے سیاسی کافر ہیں۔ ویسے یہ کہتے ہیں کہ ہماری جماعت کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ دیوبندی، اہل حدیث، بریلوی یہ سب کے سب اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں۔ مگر حقیقت میں یہ مسلمان نہیں، بلکہ سیاسی مسلمان ہیں۔ پھر ان سے سوال کیاگیا کافر کے معنی تمام لوگوں میں…‘‘
Madam Acting Chairman: May I request the honourable members to keep their tone low please. Thank you.
(قائمقام چیئرمین صاحبہ: میں معزز اراکین سے درخواست کرتی ہوں کہ وہ اپنی آواز کو مدہم رکھیں۔ شکریہ!)
چوہدری جہانگیر علی: جناب ڈپٹی چیئرمین! جب ان سے یہ سوال کیاگیا کہ کیا کافر کے معنی عام لوگوں کے نزدیک یہ نہیں کہ وہ غیرمسلم ہے تو آپ اندازہ لگائیں کہ وہ کس قسم کا کترانے والا اور کس قسم کا شرارتی جواب دیتے ہیں۔ جواب یہ ہے کہ یہ تو عام آدمی ہی بتاسکتا ہے کہ عام آدمی 2863کے نزدیک اس کے کیا معنی ہیں۔ میں اس کے متعلق کیا جواب دے سکتا ہوں۔ گواہ نے مزید کہا کہ جسے ہم کافر کہتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اﷲ کے سامنے قابل مواخذہ ہے۔ ایک Sense میں وہ مسلمان ہے ایک Sense میں وہ کافر ہے جو قرآن کے مطابق تمام نبیوں پر ایمان نہیں لاتا وہ مسلمان نہیں اور میرے نزدیک اس حد تک خارج از دائرہ اسلام ہے کہ آخرت میں قابل مواخذہ ہے جو مرزاصاحب کو نہیں مانتا وہ گنہگار اور کافر ہے۔ کلمہ طیبہ سے انکار ملت اسلامیہ سے خارج کر دیتا ہے۔ مرزاصاحب سے انکار ملت اسلامیہ سے خارج نہیں کرتا۔ دائرہ اسلام سے خارج کر دیتا ہے۔ جسٹس منیر نے ہماری اس بات کو تسلیم نہیں کیا۔ کیونکہ وہ ہمارا مؤقف تسلیم کرنے کے موڈ میں نہیں تھے۔ کسی عدالت یاکسی ٹربیونل کے فیصلے سے بچ نکلنے کا اور کتراجانے کا انہوں نے عجیب بہانہ تراشا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ فلاں اتھارٹی، فلاں جج، فلاں عدالت چونکہ ہمارا مؤقف تسلیم کرنے کے موڈ میں نہیں تھی۔ اس لئے اس نے ہمارے خلاف فیصلہ دیا ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ مرزابشیرصاحب نے کہا ہے جو موسیٰ علیہ السلام کو مانے اور عیسیٰ علیہ السلام کو نہ مانے یا جو عیسیٰ علیہ السلام کو مانے، نبی کریم ﷺ کو نہ مانے وہ کافر، پکا کافر ہے تو اس کا جواب دیا کہ وہ سیاسی طور پر ایمان سے خارج ہے۔ وہ شخص جو عدم علم کی بناء پر مرزاصاحب کو نبی تسلیم نہ کرے ملت اسلامیہ سے خارج نہیں، گو دائرہ اسلام سے خارج ہے اور اگر ان کے نبی ہونے کا علم رکھتا ہو اور پھر نہ مانے، وہ ملت اسلامیہ سے خارج ہے۔ گواہ نے کہا کہ ہم ان دونوں قسم کے لوگوں کو رشتہ نہیں دیتے۔ قرآن پاک میں دائرہ اسلام کا ذکر نہیں ہے۔ بلکہ ملت اسلامیہ کا ذکر ہے۔ ہر وہ شخص جو ملت اسلامیہ کا فرد ہے وہ دائرہ اسلامیہ میں بھی ہے جو دائرہ اسلام میں نہیں ہے وہ ملت اسلامیہ کا بھی فرد نہیں ہے اس نے مزید بیان کیا کہ میرے نزدیک مرتد وہ ہے جو کہے کہ اسلام سے میرا تعلق نہیں رہا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ اگر کوئی احمدی احمدیت ترک کر دے تو وہ لغوی معنوں میں مرتد ہوگیا۔ قرآنی معنوں میں نہیں۔
2864محترمہ قائمقام چیئرمین: آپ کتنا وقت لیں گے؟
چوہدری جہانگیر علی: جتنا وقت لے چکا ہوں اتنا اور لوں گا۔ میں ان کے بیانات کا جائزہ لے رہا ہوں اور یہ ایسی بات ہے جو اس سے پہلے اس ہاؤ س میں زیربحث نہیں آئی۔
اس نے یہ کہا کہ اگر کوئی مسلمان نیک نیتی سے غور کرے اور پھر مرزاصاحب کو نبی نہ مانے تو وہ گنہگار بمنزلہ کافر ہے۔ ’’جوشخص مرزاصاحب کے دعاوی کو اتمام حجت کے بعد بھی نبی نہیں مانتا آپ کے خیال میں وہ کس قسم کا کافر ہے؟‘‘ اٹارنی جنرل صاحب کے اس سوال کا اس نے جواب دیا کہ ایسا شخص بالکل کافر ہے اور جب اٹارنی جنرل صاحب نے یہ پوچھا کہ یہ تمام اسمبلی ان کے تمام دعاوی کو آپ کی تمام دلیلوں کے سننے سے باوجود اگر یہ کہے کہ وہ نبی نہیں ہے تو ان ممبران اسمبلی کے متعلق آپ کا کیا خیال ہوگا؟ تو اس کا جواب دینے سے وہ کترا گیا۔
غیراحمدیوں کو رشتہ نہ دینے کے متعلق آپ اس کے استدلال سنیں۔ اس نے کہا مسلمان ایک وہ ہیں جو ملت اسلامیہ سے خارج ہیں۔ دوسرے وہ ہیں جو دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ ہم دونوں قسم کے مسلمانوں کو اپنی لڑکیوں کا رشتہ نہیں دیتے۔ اب آپ نے دیکھ لیا کہ عقیدے اور دین میں اور اپنے دعاوی کو ثابت کرنے میں اور ہمارے دعاوی کی تردید کرنے میں اس نے چکر ڈالنے کی کوشش کی۔ کہیں ایک چکر ڈالا، کہیں دوسرا چکر ڈالا، کہیں سیاسی چکر ڈالا، کہیں مومن کاچکر ڈالا ہے۔ کہیں مذہبی چکر ڈالا ہے، کہیں کافر کا چکر ڈالا ہے۔ وہ کہتا ہے ہم دونوں قسم کے مسلمانوں کو اپنی لڑکیوں کا رشتہ نہیں دیتے۔ پھر اس کی وجہ جواز دیکھئے! ایک مذہبی پیشوا ہے اور اپنے آپ کو ایک نبی کا تیسرا خلیفہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور وضاحت کرتے ہوئے بیان کرتا ہے کہ یہ شرعی فتویٰ تو نہیں بلکہ وجہ یہ ہے کہ ہمیں توقع نہیں ہے کہ غیراحمدی مسلمان احمدی بیوی کے حقوق پورے کرے گا۔ احمدی سے اگر غیراحمدی لڑکی کی شادی ہو تو ہمیں امید ہے کہ احمدی نوجوان 2865ہماری توقع کے مطابق اپنی بیوی کے حقوق پورا کرے گا۔ یہ کتنی بودی دلیل ہے اور کتنا کمزور استدلال ہے۔ گواہ نے مزید کہا کہ مرزابشیرالدین صاحب نے مسلمانوں سے رشتے ناتے کرنے کو اسی لئے ناجائز اور حرام کیا ہے کہ جو چیز فساد پیدا کرتی ہو وہ ناجائز اور حرام ہے۔ اس لئے وہ جواز پیش کرتے ہیں کہ ہم غیراحمدیوں میں اپنی لڑکیوں کا رشتہ نہیں کرتے۔ یہاں بالکل جھوٹ اور غلط بیانی سے کام لینے کی کوشش کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ غیراحمدی کو کافر تصور کرتے ہیں۔ اس لئے اپنی لڑکیوں کے رشتے نہیں دیتے اور غیراحمدیوں کی لڑکیوں کے رشتے وہ اس لئے لے لیتے ہیں تاکہ اپنے عقیدہ کے مطابق انہیں اپنے فرقے میں شامل کر سکیں۔
غیراحمدیوں کی نماز جنازہ یہ لوگ کیوں نہیں پڑھتے؟ ان کی کتابوں میں جو کچھ تحریر ہے اس گواہ نے اس ہاؤس میں پیش ہوکر اس کا جواب پیش کرنے کی کوشس کی ہے اور ہم لوگوں کو قائل کرنے کی کوشش کی ہے۔ بلکہ تمام عالم اسلام کو اور ان بیانات کو اور اس شہادت کو پڑھنے والوں کوقائل کرنے کی کوشش کی ہے کہ ہم غیراحمدیوں کی نماز جنازہ کیوں نہیں پڑھتے۔ آپ دیکھئے اگر ایک عام فہم وفراست کا آدمی بھی اس بات کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں تو ان کا یہ دعویٰ بالکل غلط اور جھوٹا ہے۔ اس نے کہا کہ تمام غیراحمدی فرقوں نے ہم کو کافر کہا ہے۔ اس لئے ہم غیراحمدیوں کا جنازہ نہیں پڑھتے۔ ہم نے قائداعظم کا جنازہ نہیں پڑھا تھا۔ گو انہوں نے ہماری تکفیر نہیں کی تھی۔ مگر وہ شیعہ تھے اور شیعہ حضرات کے ہمارے خلاف کفر کے فتوے سن چکے تھے۔ مگر اپنی زندگی میں ان فتوؤں کو رد نہیں کیا تھا۔ ہم غیراحمدی بچوں کا جنازہ بھی اسی لئے نہیں پڑھتے کہ ان کے والدین نے ہمارے خلاف کفر کے فتوے دئیے یا سنے اور انہیں رد نہیں کیا۔ البتہ وہ بچہ جو جوان ہوکر اپنے والدین کے مذہب کو رد کر دے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مذہب سے منحرف ہوکر مرتد ہو جائے۔ پھر اس کا جنازہ پڑھ لیں گے۔ ویسے جنازہ نہ پڑھنا کوئی سزا نہیں ہے۔ یہ تو فرض کفایہ ہے۔ اگر 2866ملت میں سے بیس افراد یہ فرض ادا کردیں تو سب کی جانب سے یہ فرض ادا ہو جاتا ہے۔
جناب ڈپٹی چیئرمین! اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر غیراحمدی مسلمان مر جائے تو فرض کفایہ صرف غیراحمدی مسلمان ہی ادا کریں گے تو اگر کوئی احمدی مر جائے تو اس کا یہ فرض کفایہ احمدی ادا کریں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا مذہب الگ ہے ہمارا مذہب الگ ہے۔ ان کا دین اور ہے ہمارا دین اور ہے۔ گواہ نے مزید کہا کہ لاہوری احمدیوں کی ہم نماز جنازہ پڑھتے ہیں۔ کیونکہ انہوں نے ہمارے خلاف کفر کے فتوے نہیں دئیے تھے۔ جب ان سے یہ سوال کیاگیا کہ مرزابشیرالدین نے کیوں غیراحمدیوں کاجنازہ پڑھنے سے منع کیا ہے تو انہوں نے اس کا جواب دیا کہ میں مرزابشیرالدین کے فتوے کی نہ تصدیق کرتا ہوں نہ تائید کرتا ہوں۔ جب تک مجھے اصل عبارت نہ دکھائی جائے۔ یہ شخص اپنے مذہب کا سب سے بڑا سکالر ہے اور اپنی کتابیں اسے ازبریاد ہیں۔ آپ دیکھ لیں کہ وہ کس نیک نیتی سے جواب دے رہا ہے؟
کیا اس نے Evasive replies (ٹال مٹول پر مبنی جوابات) دئیے۔ کیا اس نے جان بوجھ کر ان سوالوں کا جواب دینے سے کترانے کی کوشش کی جو کہ اس کے کیس کے جڑوں میں بیٹھتے تھے، یا اس کے مؤقف کی بیخ کنی کرتے تھے۔ اس کے متعلق جو اس نے کہا ہے وہ ذرا ملاحظہ فرمائیے۔ اس نے کہا ہے کہ غیراحمدی بچے کے جنازے کے متعلق مرزابشیرالدین نے جو کہا ہے میں نہ اس کی تصدیق کرتا ہوں نہ اس کی تائید کرتا ہوں۔ دوسری جگہ اس نے کہا کہ مجھے علم نہیں کہ تمام دنیا میں احمدیوں نے کسی غیراحمدی کی نماز جنازہ یا غائبانہ نماز جنازہ پڑھی ہو۔
پھر کہتا ہے کہ اگر کوئی احمدی احمدیت ترک کر دے تو لغوی معنوں سے مرتد ہوگیا۔ قرآنی معنوں سے نہیں مرتد ہوا۔ پھر کہا کہ نہج المصلیٰ گو ہماری جماعت کی کتاب ہے۔ مگر ہمارے لئے اتھارٹی نہیں ہے۔ پھر کہا کہ جب ہم کہتے ہیں کہ ہمارا کلمہ اور ہے اور غیراحمدیوں کا کلمہ اور ہے تو 2867ہمارا لا الہ اور ہے اور غیراحمدیوں کا لا الہ اور۔ اسی طرح ہمارا محمد رسول اﷲ اور ہے دوسرے فرقوں کا محمد رسول اﷲ اور ہے اور یہ اختلاف معنوی لحاظ سے ہے۔ (جب ہمارے اور ان کے کلمے میں معنوی لحاظ سے بھی اختلاف ہوا تو پھر جناب ڈپٹی چیئرمین! وہ کیسے ہمارے اسلام کا جزو ہو سکتے ہیں؟ وہ کیسے ہمارا عقیدہ رکھ سکتے ہیں؟) پھر اس نے کہا کہ اسی طرح دیگر ارکان اسلام میں بھی معنوی فرق ہے۔ دیگر ارکان اسلام میں کلمہ بھی ہے، نماز بھی ہے، زکوٰۃ بھی ہے۔، حج بھی ہے اور روزہ بھی۔ جب ان کے روزے کے معنی اور ہیں اور ہمارے روزے کے اور، جب ان کی زکوٰۃ کے معنے اور ہیں اور ہماری زکوٰۃاور۔ جب ان کے حج کے معنے اور ہیں اور ہمارے حج کے اور، تو پھر یا وہ مسلمان نہیں ہیں، یا ہم نہیں، پھر دونوں فرقوں کا عقیدہ ایک نہیں ہوسکتا۔
مرزاغلام احمد نے کہا کہ: ’’میری وحی میں امر بھی ہے اور نہی بھی۔‘‘
جب گواہ سے اس کا مطلب پوچھا تو اس نے کہا کہ: ’’اس کا مطلب ہے کہ قرآن پاک کی امر ونہی کی اشاعت کی جائے، یعنی اس کی تجدید کی جائے۔‘‘
تجدید اس کی ہوتی ہے جو اپنی اصل حقیقت، اپنی اصل حیثیت اور اپنا اصل اثر زائل کر دے۔ اگر ہمارا اسلام پرانا ہوگیا ہے، اگر ہمارا قرآن بوسیدہ ہوگیا ہے، اگر ہماری نبوت ہی بے اثر ہوگئی ہے تو جبھی تو ان کو اس کی تجدید کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ اگر وہ ہمارے عقیدے کے مطابق ہمارے ایمان کو بھی برحق سمجھیں، ہمارے قرآن کو بھی برحق سمجھیں، ہمارے نبی کو بھی برحق سمجھیں تو جناب ڈپٹی چیئرمین! پھر اس ایمان کی یا اس قرآن کی یا اس اسلام کی تجدید کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔
اس کے بعد اور جگہ بھی اس نے ہیراپھیری سے کام لیا ہے۔ وہ سنئے! اکمل کی نظم ؎
’’غلام احمد کو دیکھئے قادیان میں‘‘
اس کے متعلق جب اس سے پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ ۱۹۳۴ء میں اس کی تردید آگئی تھی۔ ویسے اکمل ہمارے لئے اتھارٹی نہیں ہے اور جب یہ پوچھا گیا کہ کیا 2868تردید آئی تھی؟ تو اس کا جواب دیا کہ وضاحتاً تردید میں کہا گیا ہے کہ اگر مرزاغلام احمد رتبے میں بڑے ہیں تو پھر تو غلط ہے اور اگر یہ خیال لیا جائے کہ اشاعت اسلام مرزاغلام ا حمد کے زمانے میں زیادہ ہوئی تو پھر معنوی لحاظ سے یہ درست ہے کہ مرزاغلام احمد (نعوذ باﷲ، نعوذ باﷲ) نبی اکرم ﷺ سے بہت بڑے تھے۔ نزول مسیح میں تحریر ہے کہ: ’’اور جو میرے مخالف تھے ان کا نام بھی عیسائی، یہودی اور مشرک رکھا گیا۔‘‘
اس نے کہا کہ یہ بات تسلیم ہے ہم نے کہا کہ یہ ہمارا عقیدہ ہے کہ اس کا مطلب ہے کہ مرزاصاحب نے تو نام نہیں رکھا۔ بلکہ رکھنے والے نے نام رکھا۔ جو حوالہ ’’انواراللغات‘‘ ڈکشنری سے پڑھ کر اس کو سنایا گیا تو اس نے کہا کہ میں اسے تسلیم نہیں کرتا۔ یہ معیاری لغت نہیں ہے اور دوسری جگہ وہ کہتے ہیں کہ: ’’کل مسلمانوں نے مجھے تسلیم کر لیا ہے۔ مگر انہوں نے نہیں کیا جو کنجریوں کی اولاد ہیں۔‘‘
مرزاناصر احمد نے جواب دیا کہ مرزاصاحب نے کہا ہے کہ کل مسلمان مجھے تسلیم کر لیں گے۔ سوائے ان کے جو باغیوں، شرپسندوں کی اولاد ہیں۔ یہ فعل حال نہیں فعل مضارع ہے۔ اب اس نے اس چکر میں ڈالنے کی کوشش کی ہے کہ یہ حال کے معنی دے گا یا ماضی کے یا مستقبل کے معنی دے گا۔ مرزابشیراحمد کی تحریر کہ: ’’کہیں کہیں میری تحریروں میں مسلمان کا لفظ بھی آیا ہے۔مگر اس کا یہ مطلب نہیں۔‘‘
اس کو مرزاناصر احمد نے تسلیم کیا ہے اور کہا ہے کہ لفظی معنی تسلیم ہیں۔ مگر معنوی لحاظ سے اس کا یہ مطلب نہیں۔
’’
ولد الزنا
‘‘، ’’
ذریۃ البغایا
‘‘ کا ترجمہ اس نے کیا ہے کہ ولد الزنا نہیں بلکہ اس کا مطلب کچھ اور ہے۔ یعنی باغیوں کی اولاد ہے۔ الفضل مورخہ ۲۲؍اگست ۱۹۴۴ء میں جب اکمل کا قصیدہ دوبارہ چھپا جس کے متعلق انہوں نے کہا تھا کہ ۱۹۳۴ء میں اس کی تردید ہوگئی اور تفصیل ازقلم اکمل اور اس کی اصل نظم انصاری صاحب نے اس ہاؤس میں پڑھ کر سنائی تو مرزاناصر کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ جناب ڈپٹی چیئرمین! اگر گواہ سے یہ پوچھا جاتا کہ آپ کے ہاتھوں کے 2869طوطے واقعی اڑ گئے تو وہ کہتا کہ میرے ہاتھوں میں تو طوطے نہیں تھے اور اس ایوان کی چھت میں لے اڑ کر وہ کہیں جا ہی نہیں سکتے تھے۔ اس لئے ظاہر ہے کہ تو طوطے ہی نہیں تھے۔ یہ اس قسم کا استدلال ہے جو بالکل بودا اور بے معنی ہے۔
جب ہم نے یہ پوچھا کہ اگر آپ اپنا عقیدہ رکھنے کے باوجود بھی ملت اسلامیہ کے فردرہ سکتے ہیں تو پھر آپ نے علیحدگی علیحدگی کی رٹ کیوں لگا رکھی ہے تو اس نے کہا کہ گو نہج المصلیٰ میں کہاگیا ہے کہ غیراحمدیوں سے دینی امور میں الگ رہو۔ تاہم یہ کتاب ہماری جماعت کے لئے اتھارٹی نہیں ہے۔ جب ان سے سوال کیاگیا کہ جب آپ اپنے آپ کو علیحدہ قوم جتلاتے ہیں تو اس کا کیا مطلب ہے تو اس نے کہا کہ ہم علیحدہ قوم بھی ہیں۔ دوسروں میں رشتے ناتے نہیں کرتے۔ تاہم ہم دوسروں کا ذبیحہ کھاتے ہیں۔ وہ دوسروں کا ذبیحہ کھانے سے اگر ملت اسلامیہ میں اپنے آپ کو رکھ کر ہمارے مذہب میں بھی اپنی مداخلت جاری رکھنا چاہیں تو یہ بالکل غلط بات ہے۔ ہم اس کی اجازت نہیں دے سکتے۔ ہم اہل کتاب کا ذبیحہ کھا لیتے ہیں۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمارا ایمان بھی وہی ہے جو غیرمسلم اہل کتاب کا ایمان ہے۔
محترمہ قائمقام چیئرمین: چوہدری صاحب! پونہ گھنٹہ ہوگیا ہے۔
چوہدری جہانگیر علی: میں جلدی ختم کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ میں بعض حوالے چھوڑ دوں گا۔
جب یہ سوال کیاگیا کہ مرزابشیرالدین احمد نے کیوں کہا کہ جب مسیح ناصری نے اپنے پیرو کاروں کو الگ کر دیا تھا۔ سو اگر مرزاصاحب نے بھی کر دیا تو کیا ہرج ہے؟ جواب اس نے یہ دیا کہ اس سے مطلب یہ ہے کہ احمدیوں کو غیراحمدیوں کے اثر سے بچایا جائے اس لئے احمدیوں کو غیراحمدیوں کے اثر سے بچانے کا سب سے اچھا طریقہ یہی ہے کہ ان کو غیرمسلم اقلیتی فرقہ قرار دے دیا جائے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ یہ درست ہے کہ حقیقت النبوت میں مرزا صاحب کو امتی نبی 2870نہیں بلکہ حقیقی نبی کہاگیا ہے۔ اس کے بعد علمائے کرام اور انبیاء علیہم السلام کی انہوں نے جو تکفیر کی ہے اور مرزاصاحب نے اﷲتعالیٰ بننے کی کوشش کی ہے اور جو دشنام طرازی کی ہے اس کے اوپر کافی بحث ہوچکی ہے اور اس میں مزید جانے کی ضرورت نہیں۔