ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
جناب یحییٰ بختیار: آپ نے فرمایا کہ تکفیر کا سلسلہ پہلے شروع ہوگیا تھا۔ ۱۹۰۶ء یا ۱۹۰۸ء یا۔۔۔۔۔۔۔
جناب مسعود بیگ مرزا: جی نہیں، ۱۹۰۶ء اور ۱۹۰۸ء میں نہیں، بلکہ مرزا صاحب کی وفات کے بعد۔
جناب یحییٰ بختیار: ۱۹۰۸ء کے بعد۔
جناب مسعود بیگ مرزا: جی آ۔
جناب یحییٰ بختیار: اور کس نے شروع کیا تھا یہ؟
جناب مسعود بیگ مرزا: یہ اصل میں یہ ایک بڑی تاریخی سی بحث ہے کہ اس کا آغاز کرنے والا کون شخص تھا؟ بظاہر جو معلومات ہمارے سامنے ہیں وہ ایک شخص ظہیرالدین اروپی تھا۔ اس نے ۱۹۱۱ء میں کچھ اس قسم کے خیالات کا اِظہار کیا اور مرزا صاحب کی نبوّت کو پیش کیا۔ اس سے غالباً… یہ تو محض قیاس آرائی ہے… اس سے غالباً مرزا محمود احمد صاحب نے یہ آئیڈیا مستعار لیا اور پھر اپنے خیالات کو اس کے سانچے میں ڈھال کر پھر اس بات کو آگے پھیلانا شروع کیا۔
جناب یحییٰ بختیار: میں آپ کی توجہ کچھ مرزا صاحب کے Followers (پیروکاروں) کی طرف دِلاؤں گا۔ پیشتر اس کے، کچھ سوال ایسے نہیں کہ ان کا اگر جواب دے دیں تو پھر آسانی ہوجائے گی۔ ’’کفر‘‘ سے کیا مراد ہے؟ میں آپ سے Simple (آسان) پوچھا ہوں کہ ’’اِنکار کرنے والا‘‘؟
1538جناب عبدالمنان عمر: جی، میں عرض کرنے۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، میں سمجھتا ہوں، بے شک مطلب تو یہی ہے ناں؟
جناب عبدالمنان عمر: جی نہیں، میں عرض کرتا ہوں۔ ’’کفر‘‘ کے لفظ کو دو طرح اِستعمال کیا گیا ہے اِسلامی لٹریچر میں، اور یہی دو طرز کا اِستعمال مرزا صاحب کے ہاں بھی پایا جاتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ جو شخص اِرادۃً تارک الصلوٰۃ ہوجائے، وہ کافر ہوتا ہے۔ لیکن اس کو اِصطلاحی کفر نہیں کہتے۔ اِصطلاح میں جو اس کے لئے لفظ ہے، مجھے معاف کیجئے گا، وہ ہے ’’کفر دُون کفر‘‘ عربی کے الفاظ ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ رہتا تو اِنسان دائرۂ اسلام کے اندر ہے، لیکن حقیقی طور پر وہ مسلمان نہیں ہوتا۔ اس کی جو رُوح ہے اسلام کی، اس پر پوری طرح وہ شخص کاربند نہیں ہوتا۔ ان معنوں میں بھی ’’کفر‘‘ کا لفظ۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: گنہگار ہوگیا ایک قسم۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: ۔۔۔۔۔۔ لیکن ’’کفر‘‘ کا جو حقیقی اِستعمال ہے، اس کے جو حقیقی معنے ہیں، وہ یہ ہیں کہ کوئی شخص محمد مصطفیﷺ کی رسالت سے اور کلمہ طیبہ لا اِلٰہ اِلَّا اللہ سے منکر ہوجائے۔ اصل میں اِصطلاحاً کفر صرف اور صرف ان معنوں میں اِستعمال ہوسکتا ہے۔
(قرآن کریم میں مذکور انبیاء کا منکر کافر نہیں ہوگا؟)
جناب یحییٰ بختیار: اگر کوئی شخص ان انبیاء کا اِنکار کرے جن کا ذِکر قرآن شریف میں ہے تو وہ کافر نہیں ہوگا؟
جناب عبدالمنان عمر: بات یہ ہے کہ قرآن مجید کے شروع میں آیا ہے کہ: (عربی)
کہ مسلمان ہونے کے لئے ضروری ہے کہ وہ محمد رسول اللہﷺ کی وحی پر بھی اِیمان لائے اور اس وحی کو بھی تسلیم کرے اور اِیمان لائے جو کہ آپ سے پہلے ہوچکی ہے، یہ بالکل شروع کے الفاظ ہیں۔
1539جناب یحییٰ بختیار: میں کہتا ہوں کہ جو انبیاء ہیں اللہ کے، جن کا ذِکر قرآن شریف میں ہے، ان پر اِیمان لانا بھی ضروری ہے؟
جناب عبدالمنان عمر: جی ہاں۔
جناب یحییٰ بختیار: اگر ان پر اِیمان نہ لایا جائے تو اِنسان کافر ہوجاتا ہے۔ اب یہ مسیحِ موعود، جو مرزا صاحب نے دعویٰ کیا تھا، آپ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ مسیحِ موعود تھے؟
جناب عبدالمنان عمر: جی۔
جناب یحییٰ بختیار: مسیحِ موعود بھی نبی تھے۔ مسیح؟
جناب عبدالمنان عمر: جی۔
جناب یحییٰ بختیار: حضرت عیسیٰ علیہ السلام۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: جی۔
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔ نبی تھے اللہ کے۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: جی۔
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔ اور یہ ان کا دوبارہ آنا ہے؟
جناب عبدالمنان عمر: جی۔
جناب یحییٰ بختیار: وہ ان کی نبوّت تو نہیں ختم ہوگئی اس دوران میں؟
جناب عبدالمنان عمر: جی، میری گزارش اس سلسلے میں یہ ہے کہ میں اس جماعت کا نقطئہ نگاہ بڑی وضاحت سے آپ کے سامنے رکھ دُوں۔ وہ یہ ہے کہ ہمارا اِعتقاد یہ ہے، جس کو ہم قرآن مجید اور اَحادیثِ نبویہ اور بزرگانِ اُمت کے اقوال سے ثابت کرتے ہیں، کہ وہ مسیح جو بنی اِسرائیل کی طرف سے رسولاً اِلیٰ بنی اِسرائیل کے مطابق مبعوث ہوئے تھے، وہ اپنی طبعی موت کے ساتھ فوت ہوچکے ہوئے ہیں اور یہ جو اَحادیث میں آتا ہے کہ آخری زمانے میں مسیحِ موعود کے رنگ میں۔۔۔۔۔۔
1540جناب یحییٰ بختیار: مولانا۔۔۔۔۔۔!
جناب عبدالمنان عمر: ۔۔۔۔۔۔ مسیح ناصری کا۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔ میں ایک عرض کروں گا کیونکہ اس تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ خواہ وہ جسمانی طور سے آئیں یا کسی اور صورت میں، وہ تو آپ کا اِختلاف ہے، وہ اس کی بات نہیں ہے۔ مگر اس سے اِنکار نہیں وہ آئے کسی نہ کسی شکل میں؟
جناب عبدالمنان عمر: جی۔
جناب یحییٰ بختیار: تو جب جس شکل میں وہ آئیں، جسمانی طور پر آسمان سے اُترے یا کسی اور اِنسان کی شکل میں، جن میں وہ ساری خوبیاں ہوں، اس صورت میں وہ آئیں تو نبی تو ہوں گے کہ نہیں؟
جناب عبدالمنان عمر: میں عرض کر رہا ہوں۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: یہ میں پوچھ رہا ہوں۔
جناب عبدالمنان عمر: جی آ۔
جناب یحییٰ بختیار: کہ نبوّت ان کی ختم ہوجاتی ہے؟
جناب عبدالمنان عمر: جی ہاں، میں عرض کرتا ہوں، نبی اکرمﷺ نے مسیح کی آمدِثانی کا ذِکر کیا ہے اور صحیح مسلم کی حدیث کے الفاظ ہیں کہ: ’’وہ نبی اللہ ہوگا۔‘‘ لیکن اگر تو وہی مسیح آنا ہے، کیا اس نے حقیقی نبوّت کو لے کر آنا ہے؟ تو یہ محمد رسول اللہa کی ختمِ نبوّت کے منافی ہے۔ ہمارے رائے میں، ہمارے علم میں، ہمارے اِعتقاد کی رُو سے، جس شکل میں بھی اس مسیح نے آنا ہے، ہمارے نزدیک وہ بروزی رنگ ہے، کسی اور شخص کی شکل میں اُس نے آنا ہے۔ لیکن اگر کسی شخص کے ذہن میں یہ ہے کہ اُسی مسیح نے آنا، تو محمد رسول اللہﷺ کے بعد کوئی شخص نبوّت کو لے کر نہیں آسکتا۔ حقیقی نبوّت اگر اس کو حاصل ہے تو ہمارے 1541نزیک وہ ختمِ نبوّت کا منکر ہے وہ شخص اور ہمارے نزدیک مرزا صاحب ۔۔۔۔۔۔ نبی اکرمﷺ کے بعد نہ پُرانا نبی آسکتا ہے نہ نیا نبی آسکتا ہے، لیکن کیونکہ نبی اکرمﷺ نے اس کے لئے ’’نبی اللہ‘‘ کا لفظ اِستعمال کیا ہے، اس لئے ہم اس عزت کے لئے جو اس پاک وجود کی ہمارے دِلوں میں ہے، ہم سمجھتے ہیں، اس سے مراد غیرحقیقی رنگ میں اس رنگ کی نبوّت ہے جس کو بعض اولیاء نے ’’انبیاء الاولیائ‘‘ کا نام دیا ہے۔ ایسی شکل میں تو وہ نبوّت آسکتی ہے۔ لیکن اپنے حقیقی معنوں میں، ان معنوں میں کہ محمدﷺ کے بعد ایک مستقل وجود آگیا، یہ ہمارے نزدیک جائز نہیں ہے اور ہم ایسی۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، اب تو، اب تو مولانا! سوال اب یہ ہوجاتا ہے کہ مرزا صاحب نے مسیحِ موعود کا دعویٰ کیا۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: جی۔
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔ اور آپ کہتے ہیں کہ ہاں، وہ مسیحِ موعود تھے اور یہ بھی آپ فرماتے ہیں کہ کسی قسم کے نبی وہ بھی نہیں۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: جی نہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔ یعنی اس کا لفظی کہیں، بروزی کہیں۔۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: جی نہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔۔ ظِلّی کہیں۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: جی نہیں بالکل۔
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔ مجازی کہیں۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: میں، میں بڑی وضاحت سے عرض کروں گا، کسی قسم کی نبوّت کے ہم قائل نہیں۔ یہ جو ظِلّی اور بروزی ہیں، یہ نبوّت کی قسمیں نہیں ہیں، یہ غیرنبی کے لئے لفظ اِستعمال ہوئے ہوئے ہیں اور میں آپ کو۔۔۔۔۔۔
1542جناب یحییٰ بختیار: مرزا صاحب۔۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: جی ہاں۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، مرزا صاحب نے جو اپنے لئے ’’نبی‘‘ کا لفظ اِستعمال کیا ہے…
جناب عبدالمنان عمر: جی ہاں، ان معنوں میں کیا جن معنوں میں پہلے لوگوں نے ’’نبی‘‘ کا لفظ بمعنی ’’محدث‘‘ اِستعمال کیا، یہی معنی مرزا صاحب نے لئے ہیں اور مرزا صاحب کی تحریر میں آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، وہ تو تحریر میں آپ سے پوچھوں گا۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: جی۔
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔ تحریر آپ نے یہاں نقل کی ہوئی ہیں، وہ ہم آپ دیکھ چکے ہیں۔
جناب عبدالمنان عمر: جی۔ میں، میں گزارش آپ کے سوال کے سلسلے میں کر رہا تھا کہ وہ جو آنے والا ہے، اس کے بارے میں آپ لوگ کیا سمجھتے ہیں کہ وہ نبی ہوگا کہ نہیں ہوگا؟
جناب یحییٰ بختیار: فرمائیے۔
جناب عبدالمنان عمر: اس کے لئے گزارش یہ ہے کہ آنے والے مسیحِ موعود کا… یہ مرزا صاحب کی ایک کتاب ہے۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: کس تاریخ کی ہے؟
جناب عبدالمنان عمر: جی، یہ ’’انجامِ آتھم‘‘ ہے جی اس کا نام۔ اس میں فرماتے ہیں:
’’آنے والے مسیحِ موعود کا نام جو صحیح مسلم وغیرہ میں زبانِ مقدس حضرت نبوی سے نبی اللہ نکلا ہے، وہ ان ہی مجازی معنوں کی رُو سے ہے جو صوفیا کرام کی کتابوں میں مسلم اور ایک معمولی محاورہ مکالمات الٰہیہ کا ہے۔ ورنہ خاتم النّبیین، خاتم الانبیاء کے بعد نبی کیسا۔‘‘
1543یہ مرزا صاحب کی تحریر ہے جس سے واضح ہوگیا ہوگا کہ مرزا صاحب اور ہم ان کی اِقتدا میں آنے والے، مسیحِ موعود کے بارے میں ’’نبی اللہ‘‘ کا لفظ مجازی معنوں میں، غیرحقیقی معنوں میں، صرف ’’محدث‘‘ کے معنوں میں، صرف خدا کا ہم کلام ہونے والوں کے معنوں میں استعمال کرتے ہیں، نبوّت کے حقیقی معنوں کی رُو سے کبھی استعمال نہیں ہوا۔
جناب یحییٰ بختیار: اب آپ مولانا! ایک اور Definition بھی دے دیجئے۔ ’’کفر‘‘ کی ہوگئی۔ یہ خدا سے ہم کلام ہونے کے۔ ایک اِلہام ہوتا ہے، ایک وحی ہوتی ہے۔ اِلہام اور وحی میں کیا فرق ہے؟
جناب عبدالمنان عمر: جنابِ والا! نبی اکرمﷺ کی حدیث ہے کہ نبوّت ختم ہوچکی ہے لیکن مبشرات کا دروازہ کھلا ہے اور اِن ’’مبشرات‘‘ سے مراد اولیائے کرام نے جو مراد لی ہے، وہ ہے رُؤیائے صالحہ، وحی، اِلہام، کشف، ان چیزوں کے لئے یہ لفظ اِستعمال ہوا ہے اور ہمارے نزدیک جہاں آنحضرتﷺ کے بعد نبوّت کا دروازہ بند ہے، وہاں ہمارے نزدیک خداتعالیٰ کی یہ صفت کہ وہ ہم کلام ہوتا ہے اپنے بندوں سے، یہ معطل نہیں ہوئی اور ہم رُؤیائے صالحہ، اِلہام، وحی اور کشف کے ذریعے اس خداتعالیٰ کے مکالمہ، مخاطبہ اِلٰہیہ کے قائل ہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: اب میں آپ عرض کروں گا کہ آپ رُؤیا، کشف، اِلہام اور وحی میں کیا فرق ہے؟ یہ تشریح ذرا کردیں تاکہ بعد میں جو ہم سوال پوچھیں۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: میں گزارش کردُوں کہ ہمارے نزدیک ’’وحی‘‘ اور ’’اِلہام‘‘ کے لفظ گو الگ الگ ہیں، لیکن ہم نے ہمیشہ اس کو، اور مرزا صاحب نے اور پہلے اولیاء اور ربانی علماء نے ہم معنی بھی استعمال کیا ہے۔ لیکن بعض لوگ ’’وحی‘‘ اور ’’اِلہام‘‘ میں فرق کرتے ہیں۔ یہ ان کا ہے اِصطلاح، ہماری یہ اِصطلاح نہیں ہے۔ ہمارے نزدیک ’’وحی‘‘ 1544اور ’’اِلہام‘‘ مترادف الفاظ ہیں۔ وحی اور اِلہام کی کیفیت یوں ہے کہ رُؤیا میں اِنسان سویا ہوا ہوتا ہے، جس کو ہم عام زبان میں خواب دیکھنا کہتے ہیں۔ لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان بیدار ہوتا ہے اور دیواروں کے اور فاصلوں کے جو بُعد ہیں، ان کو دُور کرکے وہ شخص دیوار کے پیچھے بھی اور ایک لمبے فاصلے سے بھی اس چیز کو دیکھ لیتا ہے۔ اس میں ایک مثال عرض کروں تو شاید بات واضح ہوجائے گی۔ حضرت عمرؓ، مسجدِ نبوی میں خطبہ جمعہ دے رہے تھے کہ یکدم آپ کی زبان سے یہ نکلا: (عربی)
لوگ حیران ہوگئے کہ یہ کیا لفظ! خطبہ دے رہے ہیں اور ایک غیرمتعلق لفظ استعمال ہوگیا۔ تو خطبے کے بعد عبدالرحمن بن عوفؓ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اُنہوں نے عرض کی کہ: ’’جناب! یہ ساریہ والا قصہ کیا ہے؟‘‘ اُنہوں نے کہا کہ: ’’کچھ نہیں، میں خطبہ دے رہا تھا، دیتے دیتے یک دم مجھ پر کشف کی حالت طاری ہوگئی اور میں نے دیکھا کہ شام کی سرحد پر جو مسلمانوں کی فوجیں لڑ رہی ہیں، میدانِ جنگ میں، ایک موقع ایسا آگیا ہے کہ ساریہ کمانڈر جو ہے جو مسلمانوں کی فوج کو لڑارہا ہے رُومیوں کے خلاف، تو رُومیوں کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا فوج کا پیچھے کی طرف پہاڑی کی پشت سے ہوکر ان کے Rear پر، ان کے پچھلے حصے پر حملہ کرنا چاہتا ہے۔ تو میں برداشت نہ کرسکا اور فوراً ہی میری زبان سے نکلا کہ ساریہ پہاڑ کی طرف متوجہ ہوجاؤ۔ چنانچہ یہ کیفیت مجھ سے دُور ہوگئی اور میں نے خطبہ اپنا دینا شروع کردیا۔‘‘ اس کے بعد واقعہ یہ ہوا کہ جب وہ قافلہ وہاں جی جنگ کی خبریں لے کر مدینہ میں پہنچا تو ساریہ نے جو خط وہاں سے بھیجا وہ یہ تھا کہ یہ حالات ہوئے، یہ ہوا اور یہ ہوا اور ساتھ ہی بتایا کہ: ’’جمعہ کے دن، جمعہ کے وقت میں نے ایک آواز سنی جبکہ میں اپنی فوجوں کو لڑا رہا تھا، جس میں مجھے کہا گیا تھا کہ پہاڑ کی طرف متوجہ ہوجاؤ اور وہ جناب کی آواز تھی، یعنی حضرت عمرؓ کی آواز تھی۔ 1545چنانچہ میں نے جو اُس طرف دیکھا تو ایک چھوٹی سی ٹکڑی ہمارے Back پر حملہ کر رہی تھی۔ چنانچہ میں اپنی فوج کو لے کر اس پہاڑی پر چڑھ گیا اور اس طرح ہم اس شکست سے بچ گئے، اور ہمارے انہوں نے، اللہ تعالیٰ نے محفوظ رکھا۔‘‘ تو یہ دیکھئے، یہ وہ کشف کی کیفیت ہے کہ حضرت عمرؓ نے مدینہ میں رہ کر شام کی سرحدوں کا نظارہ دیکھ لیا ہے، اور یہی وہ کیفیت ہے کہ آواز حضرت عمرؓ نے مسجدِ نبوی میں یہ دی ہے اور وہ آواز سینکڑوں، ہزاروں میل کا فاصلہ طے کرکے حضرت ساریہ کے کان میں پہنچتی ہے اور وہ اس پر عمل پیرا ہوجاتے ہیں۔ یہ کشف کی کیفیت ہے۔
جس کو ’’وحی‘‘ اور ’’اِلہام‘‘ کہتے ہیں۔ اس بارے میں ہمارا تصوّر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ، جس طرح میں آپ سے بات کر رہا ہوں اور میری آواز آپ کے کانوں میں پہنچ رہی ہے اور خارج میں پہنچ رہی ہے، اندر کے خیالات نہیں ہیں یہ، بلکہ خارج سے ایک آواز آپ کے کانوں میں پہنچتی ہے، اس طرح جو موردِ وحی واِلہام ہوتا ہے وہ باہر سے آواز سنتا ہے خداتعالیٰ کی، اور وہ الفاظ ہوتے ہیں، ان الفاظ میں معانی ہوتے ہیں اور اس میں بہت سی خبریں بھی موجود ہوتی ہیں۔ اس کیفیت کے لئے جو واضح اور اچھا اور صاف لفظ ہے وہ ہے ’’مکالمہ مخاطبہ اِلٰہیہ‘‘ یعنی خداتعالیٰ اس بندے کے ساتھ مکالمہ کرتا ہے، اس کے ساتھ خطاب کرتا ہے، گفتگو کرتا ہے۔ یہی معانی ہمارے نزدیک ’’وحی‘‘ اور ’’اِلہام‘‘ کے ہیں۔ وحی واِلہام کی بہت سی قسمیں ہیں۔ خود قرآن مجید میں اس کی بہت سی کیفیتیں بیان کی گئی ہیں۔ کبھی اس کو ’’ورائے حجاب‘‘ کہا گیا ہے، کبھی اس کے لئے یہ کہا گیا ہے کہ فرشتہ آکر بولتا ہے۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، میں مولانا! پوچھتا ہوں ’’وحی‘‘ اور۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: ہمارے نزدیک۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں۔۔۔۔۔۔
1546جناب عبدالمنان عمر: ۔۔۔۔۔۔ مترادف الفاظ ہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: آپ کے نزدیک نہیں ہوگا، ویسے۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: جی، بعض لوگوں نے۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، ہاں۔
جناب عبدالمنان عمر: بعض لوگوں نے ’’وحی‘‘ اور ’’اِلہام‘‘ میں فرق کیا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ’’وحی‘‘ جو ہے یہ صرف انبیاء کے ساتھ ہوتی ہے، اور ’’اِلہام‘‘ جو ہے یہ عام لفظ ہے۔ لیکن یہ بعض لوگوں کا خیال ہے۔ ہم لوگ نہیں۔ اس کو سمجھتے، اور نہ مرزا صاحب نے اپنی اَسّی(۸۰) سے اُوپر کتابوں میں اس فرق کو ملحوظ فرق میں رکھا ہے۔ (Pause)
جناب یحییٰ بختیار: یہ آپ فرمائیے کہ ’’اِلہام‘‘ میں کوئی غلطی کا اِحتمال ہوتا ہے کوئی کہ نہیں ہوسکتا؟
جناب عبدالمنان عمر: جی نہیں، غلط۔ اِلہام میں خداتعالیٰ کا کلام ہے۔ اِلہام میں قطعاً غلطی نہیں ہوتی۔ لیکن چونکہ ان الفاظ کو سننے والا انسان ہوتا ہے، انسان میں غلطی ہوتی ہے…
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، یہ میں پوچھتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: ۔۔۔۔۔۔۔ اس لئے ’’اِجتہادی غلطی‘‘ جس کو اِصطلاح میں کہتے ہیں، یہ ہوسکتی ہے۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: اور یہی وحی۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: ۔۔۔۔۔۔۔ اِلہام میں غلطی نہیں ہوتی۔