ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
مولوی مفتی محمود:
انبیاء علیہم السلام کے بارے میں یہ بات طے شدہ ہے کہ وہ دشنام طرازی کبھی نہیں کرتے، انہوں نے کبھی گالیوں کے جواب میں بھی گالیاں نہیں دیں۔ اس معیار کے مطابق مرزاصاحب، کی مندرجہ ذیل عبارتیں ملاحظہ فرمائیں:
(اگلی پوسٹ میں)
۱… ’’اے بدذات فرقہ مولویاں! تم کب تک حق کو چھپاؤ گے۔ کب وہ وقت آئے گا کہ تم یہودیانہ خصلت کو چھوڑو گے، اے ظالم مولویو! تم پر افسوس کہ تم نے جس بے ایمانی کا پیالہ پیا، وہی عوام کالانعام کو بھی پلوا دیا۔‘‘ (انجام آتھم ص۲۱ حاشیہ، خزائن ج۱۱ ص۲۱)
۲… ’’بعض جاہل سجادہ نشین اور فقیری اور مولویت کے شتر مرغ۔‘‘ (ضمیمہ انجام آتھم ص۱۸، خزائن ج۱۱ ص۳۰۲ حاشیہ)
1966۳… ’’مگر کیا یہ لوگ قسم کھا لیں گے؟ ہر گز نہیں۔ کیونکہ یہ جھوٹے ہیں اور کتوں کی طرح جھوٹ کامردار کھا رہے ہیں۔‘‘ (ضمیمہ انجام آتھم ص۲۵ حاشیہ، خزائن ج۱۱ ص۳۰۹)
۴… ’’ہمارے دعویٰ پر آسمان نے گواہی دی۔ مگر اس زمانہ کے ظالم مولوی اس سے بھی منکر ہیں، خاص کر رئیس الدجالین عبدالحق غزنوی اور اس کے تمام گروہ، علیہم نعال لعن اﷲ الف الف۱؎ مرۃ‘‘ (ضمیمہ انجام آتھم ص۴۶، خزائن ج۱۱ ص۳۳۰)
۵… ’’اے بدذات، خبیث… نابکار۔‘‘ (ضمیمہ انجام آتھم ص۵۰، خزائن ج۱۱ ص۳۳۴)
۶… ’’اس جگہ فرعون سے مراد شیخ محمد حسین بطالوی اور ہامان سے مراد نو مسلم سعد اﷲ ہے۔‘‘ (ضمیمہ انجام آتھم ص۵۶، خزائن ج۱۱ ص۳۴۰)
۷… ’’نامعلوم کہ یہ جاہل اور وحشی فرقہ اب تک کیوں شرم اور حیا سے کام نہیں لیتا۔ مخالف مولویوں کا منہ کالا کیا۔‘‘ (ضمیمہ انجام آتھم ص۵۸، خزائن ج۱۱ ص۳۴۲)
۸… ’’
تلک کتب ینظر الیہا کل مسلم بعین المحبۃ والمودۃ وینتفع من معارفہا ویقبلنی ویصدق دعوتی الاذریۃ البغایا الذین ختم اﷲ علیٰ قلوبہم فہم لا یقبلون
‘‘ (آئینہ کمالات ص۵۴۷،۵۴۸، خزائن ج۵ ص ایضاً)
ترجمہ: ’’ان میری کتابوں کو ہر مسلمان محبت کی آنکھ سے دیکھتا ہے اور ان کے معارف سے فائدہ اٹھاتا ہے اور مجھے قبول کرتا ہے مگر رنڈیوں (زناکاروں) کی اولاد جن کے دلوں پر خدا نے مہر کر دی ہے وہ مجھے قبول نہیں کرتے۔‘‘
۹… ’’
ان العدٰی صارو اخنازیر الفلا ونسائہم من دونہن الا کلب
‘‘ (نجم الہدیٰ ص۱۰، خزائن ج۱۴ ص۵۳)
1967ترجمہ: ’’میرے دشمن جنگلوں کے سؤر ہوگئے ہیں اور ان کی عورتیں کتیوں سے بڑھ گئی ہیں۔‘‘
۱۰… ’’جو شخص… اپنی شرارت سے باربار کہے گا (کہ پادری آتھم کے زندہ رہنے سے مرزاصاحب کی پیش گوئی غلط اور عیسائیوں کی فتح ہوئی) اور کچھ شرم وحیا کو کام نہیں لائے گا اور بغیر اس کے جو ہمارے اس فیصلہ کا انصاف کی رو سے جواب دے سکے، انکار اور زبان درازی سے باز نہیں آئے گا اور ہماری فتح کا قائل نہیں ہوگا تو صاف سمجھا جائے گا کہ اس کو ولد الحرام بننے کا شوق ہے اور حلال زادہ نہیں۔‘‘ (انوارالاسلام ص۳۰، خزائن ج۹ ص۳۱)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ۱؎ یعنی ان پر ہزار ہزار بار لعنت کے جوتے پڑیں۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ شیریں زبانی ملاحظہ فرمائیے اور مرزائیوں سے پوچھئے:
محمدؐ بھی تیرا، جبریل بھی، قرآن بھی تیرا
مگر یہ حرف شیریں ترجماں تیرا ہے یا میرا
---------- لن تجتمع امتی علی الضلالۃ
ترجمہ: ’’میری امت گمراہی پر ہرگز جمع نہیں ہوگی۔‘‘ (ابن ماجہ ص۲۴۱، ابواب الفتن)
گزشتہ صفحات میں جو ناقابل انکار دلائل پیش کئے گئے ہیں۔ ان کی وجہ سے اس بات پر پوری امت اسلامیہ کا اجماع ہوچکا ہے کہ مرزائی مذہب کے متبعین کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ ہم اپنی اس یادداشت کے ساتھ علماء کرام کے ان فتاویٰ اور عدالتی مقدمات کے فیصلوں کی مطبوعہ نقول بطور ضمیمہ منسلک کر رہے ہیں۔ جو عالم اسلام کے مختلف مکاتب فکر، مختلف حلقوں اور اداروں نے شائع کئے ہیں۔ لیکن ان کا خلاصہ ذیل میں پیش خدمت ہے۔
مرزائیوں کے کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہونے پر عالم اسلام میں جو فتوے دئیے گئے۔ ان کا شمار بھی مشکل ہے۔ تاہم چند اہم مطبوعہ فتاویٰ کا حوالہ درج ذیل ہے:
۱… رجب ۱۳۳۶ھ میں ایک استفتاء برصغیر کے تمام مکاتب فکر کے علماء سے کیاگیا تھا، جو ’’فتویٰ تکفیر قادیان‘‘ کے نام سے شائع ہوا تھا۔ اس میں دیوبند، سہارنپور، تھانہ بھون، راے پور، دہلی، کلکتہ، بنارس، لکھنؤ، آگرہ، مراد آباد، لاہور، امرتسر، لدھیانہ، پشاور، راولپنڈی، ملتان، ہوشیارپور، گورداسپور، جہلم، سیالکوٹ، گوجرانوالہ، گجرات، حیدرآباد دکن، بھوپال اور رام پور کے تمام مکاتب فکر اور تمام دینی مراکز کے علماء نے باتفاق مرزائیوں کو کافر اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو فتویٰ تکفیر قادیان شائع کردہ کتب خانہ اعزازیہ دیوبند ضلع سہارنپور)
۲… اسی قسم کا ایک فتویٰ ۱۹۶۵ء میں دفتر اہل حدیث امرتسر کی طرف سے ’’فسخ نکاح مرزائیاں‘‘ کے نام سے شائع ہوچکا ہے اور اس میں برصغیر کے مکاتب فکر کے علماء کے دستخط موجود ہیں۔
۳… مقدمہ بہاولپور میں جو فتاویٰ پیش ہوئے، ان میں برصغیر کے علاوہ بلاد عربیہ کے فتاویٰ بھی شامل تھے۔ (دیکھئے فتاویٰ مندرجہ ’’حجت شرعیہ‘‘ شائع کردہ مجلس تحفظ ختم نبوت لاہور، ملتان)
1970۴… ایک فتویٰ ’’
مؤسسۃ مکۃ للطباعۃ والاعلام
‘‘ کی طرف سے سعودی عرب میں شائع ہوا جس میں حرمین شریفین، بلاد حجاز وشام کے مختلف مکاتب فکر کے علماء کا فیصلہ درج ہے۔ اس کے چند جملے یہ ہیں: ’’
لا شک ان اذنابہ من القادیانیۃ والاھوریۃ کلہا کافرون
‘‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ مرزاغلام احمد کے تمام متبعین خواہ قادیانی ہوں یا لاہوری سب کافر ہیں۔ (القادیانیہ فی نظر علماء الامتہ الاسلامیہ ص۱۱، طبع مکہ مکرمہ)
۱۹۵۳ء میں پاکستان کے دستور پر غور کرنے کے لئے تمام مکاتب فکر کے مسلمہ نمائندہ علماء کا جو مشہور اجتماع ہوا اس میں ایک ترمیم یہ بھی تھی کہ قادیانیوں کو مسلمانوں سے الگ ایک اقلیت قرار دے کر پنجاب اسمبلی میں ان کے لئے ایک نشست مخصوص کر دی جائے اور دوسرے علاقوں کے قادیانیوں کو بھی اس نشست کے لئے کھڑے ہونے اور ووٹ دینے کا حق دے دیا جائے۔ اس ترمیم کو علماء نے ان الفاظ کے ساتھ پیش کیا ہے: ’’یہ ایک نہایت ضروری ترمیم ہے۔ جسے ہم پورے اصرار کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ ملک کے دستور سازوں کے لئے یہ بات کسی طرح موزوں نہیں ہے کہ وہ اپنے ملک کے حالات اور مخصوص اجتماعی مسائل سے بے پرواہ ہوکر محض اپنے ذاتی نظریات کی بناء پر دستور بنانے لگیں۔ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ملک کے جن علاقوںمیں قادیانیوں کی بڑی تعداد مسلمانوں کے ساتھ ملی جلی ہے وہاں اس قادیانی مسئلے نے کس قدر نازک صورتحال پیدا کر دی ہے۔ ان کو پچھلے دور کے بیرونی حکمرانوں کی طرح نہ ہونا چاہئے جنہوں نے ہندو مسلم مسئلہ کی نزاکت کو 1971اس وقت تک محسوس کر کے ہی نہ دیا جب تک متحدہ ہندوستان کا گوشہ گوشہ دونوں قوموں کے فسادات سے خون آلودہ نہ ہوگیا۔ جو دستور ساز حضرات خود اس ملک کے رہنے والے ہیں ان کی یہ غلطی بڑی افسوسناک ہوگی کہ وہ جب تک پاکستان میں قادیانی مسلم تصادم کو آگ کی طرح بھڑکتے ہوئے نہ دیکھ لیں اس وقت تک انہیں اس بات کا یقین نہ آئے کہ یہاں ایک قادیانی مسلم مسئلہ موجود ہے، جسے حل کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ اس مسئلہ کو جس چیز نے نزاکت کی آخری حد تک پہنچا دیا ہے وہ یہ ہے کہ قادیانی ایک طرف مسلمان بن کر مسلمانوں میں گھستے بھی ہیں اور دوسری طرف عقائد، عبادات اور اجتماعی شیرازہ بندی میں مسلمانوں سے نہ صرف الگ بلکہ ان کے خلاف صف آراء بھی ہیں اور مذہبی طور پر تمام مسلمانوں کو علانیہ کافر قرار دیتے ہیں۔ اس خرابی کا علاج آج بھی یہی ہے اور پہلے بھی یہی تھا۔ (جیسا کہ علامہ اقبال مرحوم نے اب سے بیس برس پہلے فرمایا تھا) کہ قادیانیوں کو مسلمانوں سے الگ ایک اقلیت قرار دے دیا جائے۔‘‘
مکہ مکرمہ کے مقدس شہر میں جو مرکز اسلام کی حیثیت رکھتا ہے۔ ربیع الاوّل ۱۳۹۴ھ مطابق اپریل ۱۹۷۴ء میں پورے عالم اسلام کی دینی تنظیموں کا ایک عظیم الشان اجتماع منعقد ہوا جس میں اسلامی ممالک بلکہ مسلم آبادیوں کی ۱۴۴ تنظیموں کے نمائندے شامل تھے۔ یہ مراکش سے لے کر انڈونیشیا تک کے مسلمانوں کا ایک نمائندہ اجتماع تھا۔ اس میں مرزائیت کے بارے میں جو قرارداد منظور ہوئی، وہ مرزائیت کے کفر ہونے پر تازہ ترین اجماع امت کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس قرارداد کا متن حسب ذیل ہے: 1972القادیانیۃ نحلۃ ہدامۃ تتخذ من اسم الاسلام شعاراً لسترا غراضہا الخبیثۃ وابرز مخالفتہا للاسلام ادعاء زعمیہا النبوۃ وتحریف النصوص القرآنیۃ وابطالہم للجہاد القادیانیۃ ربیبۃ استعمار البریطانی ولا تظہر الافی ظل حمایۃ تخون القادیانیۃ قضایا الامۃ الاسلامیۃ وتقف موالیۃ للاستعمار والصہیونیۃ تتعاون مع القوی الناہضۃ للاسلام وتتخذ ہذہ القوی واجہت لتحطیم لاعقیدۃ الاسلامیۃ وتحریفہا وذلک بمایأتی
الف… انشاء معابدتمولہا القوی المعادیۃ ویتم فیہا التضلیل بالکفر القادیانی المنحرف۔
ب… فتح مدارس ومعاہدو ملاجی، للایتام وفیہا جمیعا تمارس القادیانیۃ نشاطہا التخریبی لحساب القوی المعاریۃ للاسلام وتقوم القادیانیۃ بنشرترجمات محرفۃ لمعانی القرآن الکریم بمختلف اللغات العالمیۃ ولمقاومۃ خطرہا قرر المؤتمر:
۱… تقوم کل ہیئۃ اسلامیۃ بحصر النشاط القادیانی فی معابدہم ومدارسہم وملاجئہم وکل الامکنۃ التی یمارسون فیہا نشاطہم الہدام۰ فی منطقتہا وکشف القادیانیین والتعریف بہم للعالم الاسلامی تفادیا للوقوع فی حبائلہم۔
۲… اعلان کفر ہذہ الطائفۃ وخروجہا علی الاسلام۔
۳… عدم التعامل مع القادیانیین اوالاحمدیین ومقاطعتہم اقتصادیًا واجتماعیًا وثقافیًا وعدم التزوج منہم وعدم دفنہم فی مقابر المسلمین ومعاملتہم باعتبارہم کفارًا۔
1973۴… مطالبۃ الحکومات الاسلامیۃ بمنع کل نشاط لاتباع میرزا غلام احمد مدعی النبوۃ واعتبارہم اقلیت مسلمۃ ویمنعون من تولی الوظائف الحساسۃ للدولۃ۔
۵… نشر مصورات لکل التحریفات القادیانیۃ فی القرآن الکریم مع حصر الترجمات القادیانیۃ لمعانی القرآن والتغبیۃ علیہا ومنع تداول ہذہ الترجمات۔
ترجمہ قرارداد
قادیانیت ایک باطل فرقہ ہے جو اپنی اغراض خبیثہ کی تکمیل کے لئے اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اسلام کی بنیادوں کو ڈھانا چاہتا ہے۔ اسلام کے قطعی اصولوں سے اس کی مخالفت ان باتوں سے واضح ہے۔ الف… اس کے بانی کا دعویٰ نبوت کرنا۔
ب… قرآنی آیات میں تحریف۔
ج… جہاد کے باطل ہونے کا فتویٰ دینا۔
قادیانیت کی داغ بیل برطانوی سامراج نے رکھی اور اسی نے اسے پروان چڑھایا۔ وہ سامراج کی سرپرستی میں سرگرم عمل ہے۔ قادیانی اسلام دشمن قوتوں کا ساتھ دے کر مسلمانوں کے مفادات سے غداری کرتے ہیں اور ان طاقتوں کی مدد سے اسلام کے بنیادی عقائد میں تحریف وتبدیل اور بیخ کنی کے لئے کئی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً:
الف… دنیا میں مساجد کے نام پر اسلام دشمن طاقتوں کی کفالت سے ارتداد کے اڈے قائم کرنا۔
ب… 1974مدارس، سکولوں، یتیم خانوں اور امدادی کیمپوں کے نام پر غیرمسلم قوتوں کی مدد سے ان ہی کے مقاصد کی تکمیل۔
ج… دنیا کی مختلف زبانوں میں قرآن کریم کے تحریف شدہ نسخوں کی اشاعت وغیرہ ان خطرات کے پیش نظر کانفرنس میں طے کیاگیا کہ:
دنیا بھر کی ہر اسلامی تنظیم اور جماعتوں کا فریضہ ہے کہ وہ قادیانیت اور اس کی ہر قسم اسلام دشمن سرگرمیوں کی ان کے معابد، مراکز، یتیم خانوں وغیرہ میں کڑی نگرانی کریں اور ان کے تمام درپردہ سیاسی سرگرمیوں کا محاسبہ کریں اور اس کے بعد ان کے پھیلائے ہوئے جال، منصوبوں، سازشوں سے بچنے کے لئے عالم اسلام کے سامنے انہیں پوری طرح بے نقاب کیا جائے۔ نیز:
الف… اس گروہ کے کافر اور خارج از اسلام ہونے کا اعلان کیا جائے اور یہ کہ اس وجہ سے انہیں مقامات مقدسہ حرمین وغیرہ میں داخلہ کی اجازت نہیں دی جاسکے گی۔ مسلمان احمدیوں سے کسی قسم کا معاملہ نہیں کریں گے اور اقتصادی، معاشرتی، اجتماعی، عائلی وغیرہ ہر میدان میں ان کا بائیکاٹ کیا جائے گا۔
د… کانفرنس تمام اسلامی ملکوں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ قادیانیوں کی ہر قسم کی سرگرمیوں پر پابندی لگائیں۔ ان کے تمام وسائل اور ذرائع کو ضبط کیا جائے اور کسی قادیانی کو کسی اسلامی ملک میں کسی قسم کا بھی ذمہ دارانہ عہدہ نہ دیا جائے۔
ہ… قرآن مجید میں قادیانیوں کی تحریفات سے لوگوں کو خبردار کیا جائے، اور ان کے تمام تراجم قرآن کا شمار کر کے لوگوں کو ان سے متنبہ کیا جائے اور ان تراجم کی ترویج کا انسداد کیا جائے۔
----------
جناب چیئرمین: مولانا صاحب! دس پندرہ منٹ کے لئے رسٹ کر لیں۔
1975The House is adjourned for 15 minutes. We will start at 11: 15 am.
(ہاؤس کو پندرہ منٹ کے لئے ملتوی کر دیا گیا۔ ہم سواگیارہ بجے دوبارہ اجلاس شروع کریں گے)
----------
The Special Committee adjourned for tea break to re-assemble at 11: 15 am.
(خصوصی کمیٹی کا اجلاس چائے کے وقفہ کے لئے ملتوی کر دیا گیا۔ دوبارہ اجلاس سواگیارہ بجے شروع ہوگا)
----------
[The Special Committee re-assembled after tea break, Mr. Chairman (Sahibzada Farooq Ali) in the Chair.]
(خصوصی کمیٹی کا اجلاس چائے کے وقفہ کے بعد دوبارہ شروع ہوا۔ جناب چیئرمین صاحبزادہ فاروق علی اجلاس کی صدارت کر رہے ہیں)
----------
جناب چیئرمین: مفتی صاحب کو بلائیں جی۔ (مفتی صاحب اندر داخل ہوئے)
جناب چیئرمین: دومنٹ انتظار کر لیں۔ (وقفہ) مولانا مفتی محمود!
مولوی مفتی محمود:
عدالتوں کے فیصلے
اب ان عدالتی فیصلوں کا خلاصہ پیش خدمت ہے جن میں مرزائیوں کو کافر اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا گیا ہے۔
باجلاس جناب منشی محمد اکبر خاں صاحب، بی۔اے، ایل۔ایل۔بی ڈسٹرکٹ جج ضلع بہاول پور بمقدمہ مسماۃ غلام عائشہ بنت مولوی الٰہی بخش سکنہ احمد پور شرقیہ، ریاست بہاول پور، بنام عبدالرزاق ولد مولوی جان محمد سکنہ موضع مہند تحصیل احمد پور شرقیہ ریاست بہاول پور۔ دعویٰ دلاپانے ڈگری استقراریہ مشعر تنسیخ نکاح فریقین بوجہ ارتداد شوہر مدعا علیہ تاریخ فیصلہ ۷؍فروری ۱۹۳۵ئ۔
1976Sheikh Muhammad Rashid: (Minister for Health and Social Welfare) I may only point out that all important parts of the judgments of different courts should be read out.
(شیخ محمد رشید: (صحت وسماجی بہبود کے وفاقی وزیر) میں اس بات کی نشاندہی کرنا چاہتا ہوںکہ مختلف عدالتوں کے فیصلہ جات کے اہم حصے پڑھے جانے چاہئیں)
Mr. Chairman: The judgments of the courts run into hundred of pages and their operative parts are many. The details are given in the judgments.
He is giving operative portions to support thier claim.
(جناب چیئرمین: عدالتوں کے فیصلے سو صفحات پر محیط ہیں اور ان میں بہت سارے اہم حصے ہیں۔ فیصلوں میں تفصیلات دی گئی ہیں۔ یہ صاحب اپنے دعویٰ کے ثبوت میں صرف عملی حصے پیش کر رہے ہیں)
مولوی مفتی محمود: عدالت مذکورہ نے مقدمہ کی تفصیلات بیان کرنے کے بعد آخر میں اپنا فیصلہ مندرجہ ذیل الفاظ میں تحریر کیا اور سنایا۔
اوپر کی تمام بحث سے یہ ثابت کیا جاچکا ہے کہ مسئلہ ختم نبوت اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ہے اور کہ رسول اﷲﷺ کو خاتم النّبیین بایں معنی نہ ماننے سے کہ آپ آخری نبی ہیں ارتداد واقع ہو جاتا ہے اور کہ عقائد اسلامی کی رو سے ایک شخص کلمہ کفر کہہ کر بھی دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔
مدعا علیہ، مرزاغلام احمد صاحب کو عقائد قادیانی کی رو سے نبی مانتا ہے اور ان کی تعلیم کے مطابق یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ امت محمدیہ میں قیامت تک سلسلہ نبوت جاری ہے۔ یعنی کہ وہ رسول اﷲﷺ کو خاتم النّبیین یعنی آخری نبی تسلیم نہیں کرتا۔ آنحضرتa کے بعد کسی دوسرے شخص کو نیا نبی تسلیم کرنے سے جو قباحتیں لازم آتی ہیں۔ ان کی تفصیل اوپر بیان کی جاچکی ہے۔ اس لئے مدعا علیہ اس اجماعی عقیدۂ امت سے منحرف ہونے کی وجہ سے مرتد سمجھا جاوے گا اور اگر ارتداد کے معنی کسی مذہب کے اصولوں سے بکلی انحراف کے لئے جاویں تو بھی مدعا علیہ مرزاصاحب کو نبی ماننے سے ایک نئے مذہب کا پیرو سمجھاجائے گا۔ کیونکہ اس صورت میں اس کے لئے قرآن کی تفسیر اور معمول بہ مرزاصاحب کی وحی ہوگی۔ نہ کہ احادیث واقوال فقہا جن پر کہ اس وقت تک مذہب اسلام قائم چلا آیا ہے اور جن میں سے بعض کے مستند ہونے کو خود مرزاصاحب نے بھی تسلیم کیا ہے۔
1977علاوہ ازیں احمدی مذہب میں بعض احکام ایسے ہیں کہ شرع محمدی پر مستزاد ہیں اور بعض اس کے خلاف ہیں۔ مثلاً چندہ ماہواری کا دینا جیسا کہ اوپر دکھایا گیا ہے۔ زکوٰۃ پر ایک زائد حکم ہے۔ اسی طرح غیراحمدی کا جنازہ نہ پڑھنا۔ کسی احمدی کی لڑکی غیراحمدی کو نکاح میں نہ دینا۔ کسی غیراحمدی کے پیچھے نماز نہ پڑھنا شرع محمدی کے خلاف اعمال ہیں۔
مدعا علیہ کی طرف سے ان امور کی توجیہیں بیان کی گئی ہیں کہ وہ کیوں غیراحمدی کا جنازہ نہیں پڑھتے، کیوں ان کو نکاح میں لڑکی نہیں دیتے۔ لیکن یہ توجیہیں اس لئے کارآمد نہیں کہ یہ امور ان کے پیشواؤں کے احکام میں مذکور ہیں۔ اس لئے وہ ان کے نقطۂ نگاہ سے شریعت کا جزو سمجھے جائیں گے جو کسی صورت میں بھی شرع محمدی کے موافق تصور نہیں ہو سکتے۔ اس کے ساتھ جب یہ دیکھا جاوے کہ وہ تمام غیراحمدی کو کافر سمجھتے ہیں تو ان کے مذہب کو مذہب اسلام سے ایک جدا مذہب قرار دینے میں کوئی شک نہیں رہتا۔ علاوہ ازیں مدعا علیہ کے گواہ مولوی جلال الدین شمس نے اپنے بیان میں مسیلمہ وغیرہ کاذب مدعیان نبوت کے سلسلہ میں جو کچھ کہا ہے اس سے یہ پایا جاتا ہے کہ گواہ مذکور کے نزدیک دعویٰ نبوت کاذبہ ارتداد ہے اور کاذب مدعی نبوت کو جو مان لے وہ مرتد سمجھا جاتا ہے۔
مدعیہ کی طرف سے یہ ثابت کیاگیا ہے کہ مرزاصاحب کاذب مدعی نبوت ہیں۔ اس لئے مدعا علیہ بھی مرزاصاحب کو نبی تسلیم کرنے سے مرتد قرار دیا جائے گا۔ لہٰذا ابتدائی تنقیحات جو ۴؍نومبر ۱۹۲۶ء کو عدالت منصفی احمد پور شرقیہ سے وضع کی گئی تھیں۔ بحق مدعیہ ثابت قرار دے جا کر یہ قرار دیا جاتا ہے کہ مدعا علیہ قادیانی عقائد اختیار کرنے کی وجہ سے مرتد ہوچکا ہے۔ لہٰذا اس کے ساتھ مدعیہ کا نکاح تاریخ ارتداد مدعا علیہ سے فسخ ہوچکا ہے اور اگر مدعا علیہ کے عقائد کو بحث مذکورہ بالا کی روشنی میں دیکھا جاوے تو بھی مدعا علیہ کے ادّعا کے مطابق مدعیہ یہ ثابت کرنے میں کامیاب رہی ہے کہ رسول اﷲﷺ کے بعد کوئی امتی نبی نہیں ہوسکتا اور یہ کہ اس کے علاوہ جو دیگر عقائد مدعا علیہ نے اپنی 1978طرف منسوب کئے ہیں۔ وہ گو عام اسلامی عقائد کے مطابق ہیں۔ لیکن ان عقائد پر وہ انہی معنوں میں عمل پیرا سمجھا جاوے گا۔ جو معنی کہ مرزاصاحب نے بیان کئے ہیں اور یہ معنی چونکہ ان معنوں کے مغائر ہیں جو جمہور امت آج تک لیتی آئی اس لئے بھی وہ مسلمان نہیں سمجھا جاسکتا ہے اور ہر دو صورتوں میں وہ مرتد ہی ہے اور مرتد کا نکاح جو ارتداد سے فسخ ہو جاتا ہے۔ لہٰذا ڈگری بدیں مضمون بحق مدعیہ صادر کی جاتی ہے کہ وہ تاریخ ارتداد مدعا علیہ سے اس کی زوجہ نہیں رہی۔ مدعیہ خرچہ مقدمہ بھی ازاں مدعا علیہ لینے کی حقدار ہوگی۔
اس ضمن میں مدعا علیہ کی طرف سے ایک سوال یہ پیدا کیاگیا ہے کہ ہر دو فریق چونکہ قرآن مجید کو کتاب اﷲ سمجھتے ہیں اور اہل کتاب کا نکاح جائز ہے۔ اس لئے بھی مدعیہ کا نکاح فسخ قرار نہیں دینا چاہئے۔ اس کے متعلق مدعیہ کی طرف سے یہ کہاگیا ہے کہ جب دونوں فریق ایک دوسرے کو مرتد کہتے ہیں تو ان کے اپنے اپنے عقائد کی رو سے بھی ان کا باہمی نکاح قائم نہیں رہتا۔ علاوہ ازیں اہل کتاب عورتوں سے نکاح کرنا جائز ہے نہ کہ مردوں سے بھی۔ مدعیہ کے دعویٰ کی رو سے چونکہ مدعا علیہ مرتد ہوچکا ہے۔ اس لئے اہل کتاب ہونے کی حیثیت سے بھی اس کے ساتھ مدعیہ کا نکاح قائم نہیں رہ سکتا۔ مدعیہ کی یہ حجت وزن دار پائی جاتی ہے۔ لہٰذا اس بناء پر بھی وہ ڈگری پانے کی مستحق ہے۔
مرزائیوں کی طرف سے مدراس ہائیکورٹ کے فیصلے کا حوالہ بڑے زور وشور سے دیا جاتا ہے۔ فاضل جج نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے:
’’مدعا علیہ کی طرف سے اپنے حق میں چند نظائر قانونی کا بھی حوالہ دیاگیا تھا۔ ان میں سے پٹنہ اور پنجاب ہائیکورٹ کے فیصلہ جات کو عدالت عالیہ چیف کورٹ نے پہلے واقعات مقدمہ ہذا پر حاوی نہیں سمجھا اور مدراس ہائیکورٹ کے فیصلے کو عدالت معلّٰے اجلاس خاص نے قابل پیروی 1979قرار نہیں دیا۔ باقی رہا عدالت عالیہ چیف کورٹ بہاول پور کا فیصلہ بمقدمہ مسمات جندوڈی بنام کریم بخش اس کی کیفیت یہ ہے کہ یہ فیصلہ جناب مہتہ اودھو داس صاحب جج چیف کورٹ کے اجلاس سے صادر ہوا تھا اور اس مقدمے کا صاحب موصوف نے مدراس ہائیکورٹ کے فیصلہ پر ہی انحصار رکھتے ہوئے فیصلہ فرمایا تھا اور خود ان اختلافی مسائل پر جو فیصلہ مذکور میں درج تھے کوئی محاکمہ نہیں فرمایا تھا۔ مقدمہ چونکہ بہت عرصہ سے دائر تھا اس لئے صاحب موصوف نے اسے زیادہ عرصہ معرض تعویق میں رکھنا پسند نہ فرما کر باتباع فیصلہ مذکور اسے طے فرمادیا۔ دربار معلّٰے نے چونکہ اس فیصلہ کو قابل پابندی قرار نہیں دیا۔ جس فیصلہ کی بناء پر کہ وہ فیصلہ صادر ہوا، اس لئے فیصلہ زیربحث بھی قابل پابندی نہیں رہتا۔‘‘
فریقین میں سے مختار مدعیہ حاضر ہے اسے حکم سنایا گیا۔ مدعا علیہ کارروائی مقدمہ ہذا ختم ہونے کے بعد جب کہ مقدمہ زیرغور تھا فوت ہوگیا ہے۔ اس کے خلاف یہ حکم زیر آرڈر ۲۲رول ۶ ضابطہ دیوانی تصور ہوگا۔ پرچہ ڈگری مرتب کیا جاوے اور مثل داخل دفتر ہو۔ مورخہ ۷؍فروری ۱۹۳۵ء بمطابق ۳؍ذیقعدہ ۱۳۵۳ھ
بمقام بہاول پور دستخط: محمد اکبر ڈسٹرکٹ جج ضلع بہاول نگر
ریاست بہاول پور (بحروف انگریزی)
----------
باجلاس جناب شیخ محمد اکبر ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج راولپنڈی سول اپیل ۱۹۵۵ء
امتہ الکریم بنت کرم الٰہی راجپوت جنجوعہ، مکان نمبر۵۰۰/B، محلہ ٹرنک بازار راولپنڈی (مرزائی)
بنام
لیفٹیننٹ نذیر الدین ملک خلف ماسٹر محمد دین اعوان، محلہ کرشن پورہ راولپنڈی (مسلمان)
تاریخ فیصلہ ۳؍جون ۱۹۵۵ء
عدالت مذکورہ نے مقدمہ کی تفصیلات پر بحث کرنے کے بعد آخر میں اپنا فیصلہ مندرجہ ذیل الفاظ میں تحریر کیا اور فیصلہ سنایا۔
مندرجہ بالا صورت میں، میں حسب ذیل نتائج پر پہنچا ہوں۔
۱… مسلمانوں میں اس پر اجماع ہے کہ پیغمبر اسلام خدا کے آخری نبی تھے اور ان کے بعد کسی اور نبی کو نہیں آنا ہے۔
۲… مسلمانوں میں اس پر اجماع ہے کہ جسے ہمارے نبی کے آخری ہونے پر ایمان نہ ہو وہ مسلمان نہیں ہے۔
۳… مسلمانوں میں اس پر اجماع ہے کہ قادیانی غیرمسلم ہیں۔
۴… مرزاغلام احمد نے خود اپنے اعلانات کے مطابق یہ دعویٰ کیا کہ ان پر ایسی وحی آتی ہے جو وحی نبوت کے برابر ہے۔
۵… خود مرزاغلام احمد نے اپنی پہلی کتابوں میں معیار رکھے ہیں وہ خود ان کے دعویٰ نبوت کی تکذیب کرتے ہیں۔
1981۶… انہوں نے اپنے مکمل پیغمبر ہونے کا دعویٰ کیا۔ ظل اور بروز کا سارا قصہ محض ڈھونگ ہے۔
۷… نبی کریمﷺ کے بعد کسی پر وحی نبوت نہیں آسکتی اور جو ایسا دعویٰ کرتا ہے اسلام کے دائرہ سے خارج ہے۔
مندرجہ بالا استدلال اور نتائج کی بناء پر میں سمجھتا ہوں کہ ابتدائی سماعت کرنے والی عدالت کا فیصلہ صحیح ہے اور میں سارے فیصلے کی توثیق کرتا ہوں۔ مسمات امت الکریم کی اپیل میں کوئی وزن نہیں اور میں اپیل خارج کرتا ہوں۔
جہاں تک لیفٹیننٹ نذیر الدین کی اپیل کا تعلق ہے، اس کے متعلق مسٹر ظفر محمود ایڈووکیٹ نے مجھے بہت کم باتیں بتائیں۔ امت الکریم کے جہیز کا سامان ان کے قبضے میں پایا گیا۔ اس کی قیمت لگائی جاچکی ہے۔ ان کی اپیل میں بھی کوئی وزن نہیں ہے۔ اس لئے اسے بھی خارج کرتا ہوں۔ چونکہ دونوں فریقوں کی اپیل خارج ہوگئی۔ اس لئے میں خرچہ کے متعلق کوئی حکم نہیں دیتا۔
دستخط: شیخ محمد اکبر (سیشن جج بمقام راولپنڈی)
۳؍جون ۱۹۵۵ء
----------
[At this stage Mr. Chairman vacated the Chair which was occupied by (Dr. Mrs Ashraf Khatoon Abbasi)]
(اس موقع پر مسٹر چیئرمین نے کرسی صدارت چھوڑ دی جسے ڈاکٹر مسز اشرف خاتون عباسی نے سنبھال لیا)
----------
1982مولوی مفتی محمود:
مقدمہ جیمس آباد کا فیصلہ
فیملی سوٹ نمبر۹/۱۹۶۹ء مسماۃ امتہ الہادی دختر سردار خان مدعیہ
بنام
حکیم نذیر احمد برق مدعا علیہ
مندرجہ بالا بحث کا نتیجہ یہ نکلا کہ مدعیہ جو ایک مسلمان عورت ہے کی شادی مدعا علیہ کے ساتھ جس نے شادی کے وقت خود اپنا قادیانی ہونا تسلیم کیا ہے اور اس طرح خود غیرمسلم قرار پایا، غیرمؤثر ہے اور اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ مدعیہ اسلامی تعلیمات کے مطابق مدعا علیہ کی بیوی نہیں۔
تنسیخ نکاح کے بارے میں مدعیہ کی درخواست کا فیصلہ اس کے حق میں کیاجاتا ہے اور مدعا علیہ کو ممانعت کی جاتی ہے کہ وہ مدعیہ کو اپنی بیوی قرار نہ دے، مدعیہ اس مقدمے کے اخراجات بھی وصول کرنے کی حقدار ہے۔
یہ فیصلہ ۱۳؍جولائی کو شیخ محمد رفیق گوریجہ کے جانشین جناب قیصر احمد حمیدی نے جوان کی جگہ جیمس آباد کے سول اور فیملی کورٹ جج مقرر ہوئے ہیں کھلی عدالت میں پڑھ کر سنایا۔