ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
دوسری بات یہ ہے کہ مرزائی صاحبان کو تو اپنے مذہب کے مطابق کسی بھی درجے میں یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ان بزرگوں کے اقوال سے استدلال کریں۔ کیونکہ کتنے ہی معاملات ایسے ہیں جن میں انہوں نے اجماع امت کو بھی درست قرار نہیں دیا۔ بلکہ اسے حجت شرعیہ ماننے سے ہی انکار کیا ہے۔ چنانچہ عقیدۂ نزول مسیح علیہ السلام کی تردید کرتے ہوئے مرزاغلام احمد صاحب لکھتے ہیں: ’’جب کہ پیش گوئیوں کے سمجھنے کے بارے میں خود انبیاء سے امکان غلطی ہے تو پھر امت کا کورانہ اتفاق یا اجماع کیا چیز ہے؟‘‘ (ازالہ اوہام ص۱۴۱، خزائن ج۳ ص۱۷۲)
اور آگے لکھتے ہیں: ’’میں پھر دوبارہ کہتا ہوں کہ اس بارے میں عام خیال مسلمانوں کا، گو ان میں اولیاء بھی داخل ہوں، اجماع کے نام سے معصوم نہیں ہوسکتا۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۱۴۳، خزائن ج۳ ص۱۷۲)
اور جب اجماع کا یہ حال ہے تو سلف کے انفرادی اقوال کی حیثیت تو خود بخود واضح ہو جاتی ہے۔ چنانچہ مرزاصاحب لکھتے ہیں: ’’اور اقوال سلف وخلف درحقیقت کوئی مستقل حجت نہیں اور ان کے اختلاف کی حالت میں وہ گروہ حق پر ہوگا۔ جن کی رائے قرآن کریم کے مطابق ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۵۳۸، خزائن ج۳ ص۳۸۹)
2010’’الصلوٰۃ والسلام‘‘ درکار است، نہ کلام محی الدین ابن عربی وصدر الدین قونیوی وعبدالرزاق کاشی۔ مارا بہ نص کاراست نہ بعض، فتوحات مدنیہ از فتوحات مکیہ مستغنی ساختہ است۔
’’یہ باتیں خواہ شیخ کبیر یمنی نے کہی ہوں، یا شیخ اکبر شامی نے، ہمیں محمد عربیa کا کلام چاہئے، نہ کہ محی الدین ابن عربیؒ، صدرالدین قونیوی اور عبدالرزاق کاشی کا کلام ہمیں ’’نص‘‘ (یعنی قرآن وحدیث ) سے غرض ہے نہ کہ فص سے (یہ ابن عربیؒ کی فصوص الحکم کی طرف اشارہ ہے) فتوحات مدنیہ نے ہمیں فتوحات مکیہ سے مستغنی کردیا ہے۔‘‘ (مکتوبات حصہ اوّل دفتر اوّل مکتوب نمبر۱۰۰)
ان تین بنیادی باتوں کے بعد عقائد کے اس بنیادی مسئلے میں جو قران وحدیث اور اجماع امت کی رو سے کفر واسلام کا مسئلہ ہے۔ صوفیائے کرام کی کتابوں سے استدلال قطعی طور پر خارج از بحث ہے اور اگر بالفرض بعض صوفیاء سے اس قسم کی ’’شطحیات‘‘ ثابت بھی ہوں تو ان سے عقیدۂ ختم نبوت کی قطعیت اور استحکام میں ذرہ برابر کمی نہیں آتی۔
البتہ یہ درست ہے کہ جن صوفیائے کرامؒ پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ وہ غیرتشریعی نبوت کے باقی رہنے کے قائل ہیں۔ ان پر یہ ایک ایسا اتہام ہے جو محض ان کی اصطلاحات اور اسلوب بیان سے ناواقفیت کی بناء پر عائد کیاگیا ہے۔ یہاں ہم ان کے کلام کی صحیح صحیح تشریح کریں تو اس کے لئے طویل مضمون درکار ہوگا اور چونکہ ہماری مذکورہ بالا معروضات کی روشنی میں یہ عقیدہ ختم نبوت کا نہیں، بلکہ ان بزرگوں کا دفاع ہے۔ اس لئے یہ ہمارے موضوع سے خارج بھی ہے۔ لیکن یہاں ان حضرات کی بعض صریح عبارتیں نقل کی جاتی ہیں جن سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ وہ پوری امت کی طرح ختم نبوت کے عقیدے پر مستحکم ایمان رکھتے ہیں۔
2011مجدد الف ثانیؒ کی عبارت میں مرزا کی صریح تحریف
اس سلسلے میں سب سے پہلے مرزاغلام احمد صاحب کی یہ ڈھٹائی اور دیدہ دلیری ملاحظہ فرمائیے کہ انہوں نے اپنی نبوت ثابت کرنے کے لئے مجدد الف ثانیؒ کی ایک عبارت نقل کی ہے اور اس میں ایک لفظ خود اپنی طرف سے بڑھا دیا ہے۔ لکھتے ہیں: ’’بات یہ ہے کہ جیسا مجدد صاحب سرہندیؒ نے اپنے مکتوبات میں لکھا ہے کہ اگرچہ اس امت کے بعض افراد مکالمہ ومخاطبہ الٰہیہ سے مخصوص ہیں اور قیامت تک مخصوص رہیں گے۔ لیکن جس شخص کو بکثرت اس مکالمہ ومخاطبہ سے مشرف کیا جائے اور بکثرت امور غیبی اس پر ظاہر کئے جائیں وہ نبی کہلاتا ہے۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۳۹۰، خزائن ج۲۲ ص۴۰۶)
حالانکہ حضرت مجدد صاحبؒ کی جس عبارت کا حوالہ مرزاصاحب نے دیا ہے وہ یہ ہے: ’’واذ اکثر ہذا القسم من الکلام مع واحد منہم یسمّٰی محدثاً‘‘ اور جب اﷲ کی طرف سے اس قسم کا کلام کسی کے ساتھ بکثرت ہونے لگے تو اسے محدث کہا جاتا ہے۔ (مکتوبات جلد دوم ص۱۹۹ نمبر۵۱)
ملاحظہ فرمائیے کہ حضرت مجدد صاحبؒ کی عبارت میں ’’محدث‘‘ کے لفظ کو مرزاصاحب نے کس طرح ’’نبی‘‘ کے لفظ سے بدل دیا۔ محمد علی لاہوری صاحب اس کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’جب ہم مجدد صاحب سرہندیؒ کے مکتوبات کو دیکھتے ہیں تو وہاں یہ نہیں پاتے کہ کثرت مکالمہ ومخاطبہ پانے والا نبی کہلاتا ہے۔ بلکہ وہاں لفظ محدث ہے۔‘‘ (النبوۃ فی الاسلام ص۲۴۸، لاہور طبع دوم)
پھر آگے اس صریح خیانت کی تاؤیل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ درحقیقت مرزاصاحب نے یہاںلفظ ’’نبی‘‘ کو محدث ہی کے معنی میں استعمال کیا ہے اور: 2012’’اگر اس توجیہ کو قبول نہ کیا جائے تو حضرت مسیح موعود پر یہ الزام عائد ہوگا کہ آپ نے نعوذ باﷲ اپنی مطلب براری کے لئے مجدد صاحب کی عبارت میں تحریف کی ہے۔‘‘ (النبوۃ فی الاسلام از محمد علی لاہوری ص۲۴۸)
حالانکہ مرزاصاحب خود لفظ نبی کو اپنے کلام میں محدث کے معنی میں استعمال کرتے تو ایک بات بھی تھی، حضرت مجدد صاحبؒ کی طرف زبردستی لفظ ’’نبی‘‘ منسوب کر کے اسے ’’محدث‘‘ کے معنی میں قرار دینا کون سی شریعت، کون سے دین اور کون سی عقل کی رو سے جائز ہے؟ حیرت ہے ان لوگوں کی عقلوں پر جو مرزاصاحب کے کلام میں ایسی ایسی صریح خیانتیں دیکھتے ہیں اور پھر بھی انہیں نبی، مسیح موعود اورمجدد قرار دینے پر مصر ہیں۔
دوسرے بزرگ جن کی طرف یہ بات منسوب کی جاتی ہے کہ وہ ختم نبوت کے خلاف نبوت کی کسی قسم کو جائز سمجھتے ہیں۔ ملا علی قاریؒ ہیں۔ لیکن ان کی درج ذیل عبارت ملاحظہ فرمائیے۔ ’’التحدی فرع دعوی النبوۃ ودعوٰی النبوۃ بعد نبیناﷺ کفر بالاجماع‘‘
’’اس قسم کا چیلنج دعویٰ نبوت کی ایک شاخ ہے اور ہمارے نبیﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کرنا بہ اجماع کفر ہے۔‘‘ (ملحقات شرح فقہ اکبر ص۲۰۲)
یہ عبارت ملا علی قاریؒ نے اس شخص کے بارے میں لکھی ہے جو محض معجزے میں دوسرے کے مقابلے پر غلبہ پانے کا دعویٰ کر رہا ہو۔ اس سے ظاہر ہے کہ یہاں گفتگو محض غیر تشریعی نبوت میں ہے اور اس کا دعویٰ بھی ملا علی قاریؒ نے کفر قرار دیاہے۔
شیخ محی الدین ابن عربیؒ کی طرف خاص طور سے یہ بات زورشور سے منسوب کی جاتی ہے کہ وہ غیر تشریعی نبوت کے قائل ہیں، مگر ان کی درج ذیل عبارت ملاحظہ ہو:
’’
فما بقی للاولیاء الیوم بعد ارتفاع النبوۃ الا التعریفات وانسدت ابواب الاوامر الالٰہیۃ والنہی فمن ادّعاہا بعد محمدﷺ فہو مدع شریعۃ اوحی بہا الیہ سواء وافق بہا شرعنا او خالف
‘‘
’’پس نبوت کے ختم ہو جانے کے بعد اولیاء اﷲ کے لئے صرف معارف باقی رہ گئے ہیں اور اﷲتعالیٰ کی طرف سے کسی امر (کسی چیز کا حکم) یا نہی (کسی چیز سے منع کرنا) کے دروازے بند ہوچکے۔ اب ہر وہ شخص جو اس کا دعویٰ کرے وہ درحقیقت شریعت کا مدعی ہے۔ خواہ اس کا الہام ہماری شریعت کے موافق ہو یا مخالف۔‘‘ (فتوحات مکیہ ج۳ ص۳۹)
اس عبارت نے واضح کر دیا کہ:
۱… شیخ اکبرؒ کے نزدیک مدعی شریعت صرف وہ نہیں ہے جو شریعت محمدیہؐ کے بعد نئے احکام لائے۔ بلکہ وہ مدعی نبوت بھی ان کے نزدیک مدعی شریعت ہے۔ جس کی وحی بالکل شریعت محمدیہ کے موافق ہی ہو۔
۲… آنحضرتﷺ کے بعد جس طرح نئی شریعت کا دعویٰ ختم نبوت کا انکار ہے۔ شریعت محمدیہ کی موافق وحی کا دعویٰ بھی ختم نبوت کا انکار ہے۔
۳… شیخ اکبرؒ کے نزدیک تشریعی نبوت سے مراد وہ نبوت ہے جسے شریعت نبوت کہے، خواہ وہ نبوت شریعت جدیدہ کی مدعی ہو اور خواہ شریعت محمدیہؐ کی موافقت کا دعویٰ کرے۔ پس غیرتشریعی نبوت سے مراد وہ کمالات نبوت اور کمالات ولایت ہوں گے جن پر شریعت 2014نبوت کا اطلاق نہیں کرتی اور وہ نبوت نہیں کہلاتی۔
عارف باﷲ امام شعرانیؒ نے ’’الیواقیت والجواہر‘‘ میں شیخ اکبرؒ کی مندرجہ بالا عبارت نقل کرتے ہوئے اس کے ساتھ یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں: ’’
فان کان مکلفا ضربنا عنقہ والاضربنا عنہ صفحاً
‘‘ (الیواقیت ج۲ ص۳۸)
’’اگر وہ شخص مکلف یعنی عاقل بالغ ہو تو ہم پر اس کا قتل واجب ہے۔ ورنہ اس سے اعراض کیا جائے گا۔‘‘
----------
ایک رکن: جناب والا! آج جمعہ ہے۔
جناب چیئرمین: ایک چیپٹر (باب) ’’مرزائیت کی اسلام دشمنی‘‘ پڑھ لیں، جو چھ صفحے کا ہے۔
ایک رکن: ساڑھے بارہ بج گئے ہیں۔
جناب چیئرمین: صرف دس منٹ لگیں گے۔
ایک رکن: شام کو کر لیں۔
جناب چیئرمین: شام کو آپ کہتے ہیں کہ صبح، اور صبح کو کہتے ہیں کہ شام کو کریں۔ کوئی وقت مجھے بھی دیں۔
مولوی مفتی محمود: جلد کر لیتے ہیں۔
جناب چیئرمین: ہاں! چھ صفحے ہیں۔ سات تاریخ کو پھر آپ باہر نکل جائیں گے۔
2015مولوی مفتی محمود:
ض… استعماری اور سامراجی کردار۔
ض… جہاد کی تنسیخ۔
ض… عالم اسلام سے غداری۔
ض… اکھنڈ بھارت۔
ض… سیاسی عزائم، منصوبے اور سرگرمیاں۔
2016ہم نے اپنی قرارداد میں کہا ہے کہ: ’’جہاد کو ختم کرنے کی اس کی کوششیں اسلام کے بڑے بڑے احکام کے خلاف غداری تھیں۔ نیز یہ کہ وہ سامراج کی پیداوار تھا اور اس کا واحد مشن مسلمانوں کے اتحاد کو تباہ کرنا اور اسلام کو جھٹلانا تھا۔ نیز ان کے پیروکار، چاہے انہیں کوئی بھی نام دیا جائے۔ مسلمانوں کے ساتھ گھل مل کر اور اسلام کا ایک فرقہ ہونے کا بہانہ کر کے اندرونی اور بیرونی طور پر تخریبی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔‘‘
(آئندہ پوسٹس میں اس کی تشریح پیش کی جارہی ہے…)
۳۰؍جون(۱۹۷۴ئ) کو قومی اسمبلی میں پیش کی گئی ہماری قرارداد میں مرزاغلام احمد کے جہاد کو ختم کرنے کی کوششوں کا بھی ذکر ہے اور یہ کہ وہ سامراج کی پیداوار تھا اور اس کا واحد مقصد مسلمانوں کے اتحاد کو تباہ کرنا تھا اور یہ کہ مرزائی خواہ انہیں کوئی بھی نام دیا جائے اسلام کے فرقہ ہونے کا بہانہ کر کے اندرونی اور بیرونی طور پر تخریبی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔
ہم ان حسب ذیل چارباتوں کا جائزہ مرزائی تحریرات اور ان کی سرگرمیوں اور عزائم کی روشنی میں لیتے ہیں۔
الف… مرزائیت سامراجی اور استعماری مقاصد اور ارادوں کی پیداوار ہے۔
ب… ان مقاصد کے حصول کے لئے جہاد کو نہ صرف ہندوستان بلکہ پورے عالم اسلام میں قطعی حرام ناجائز اور منسوخ کرانا۔
ج… ملت مسلمہ کے شیرازہ اتحاد اور وحدت ملت کو منتشر اور تباہ کرنا۔
د… پورے عالم اسلام اور پاکستان میں تخریبی اور جاسوسی سرگرمیاں۔
پہلی بات کہ مرزاصاحب اور اس کے پیروکار یورپی استعمار کے آلہ کار ہیں۔ ایک ایسی کھلی حقیقت ہے جس کا نہ صرف مرزاقادیانی کو اعتراف ہے بلکہ وہ فخر ومباہات کے ساتھ ببانگ دہل ان باتوں کا اپنی ہر تحریر اور تصنیف میں اعلان کرتے پھرتے ہیں۔ وہ بلا جھجھک اپنے کو انگریزوں کا خود کاشتہ پودا، اور خاندانی وفادار اور سلطنت انگلشیہ کو آقائے ولی نعمت اور رحمت 2018خداوندی اور انگریزوں کی اطاعت کو مقدس دینی فریضہ قرار دیتے ہیں۔ ادھر انگریزی حکام اور سامراج بھی دل کھول کر ان کی وفا شعاریوں کو سراہتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یورپ اور برطانیہ مرزا کو اپنے استعماری اور اسلام دشمن مقاصد کے لئے کن طریقوں سے استعمال کرتے رہے۔
اٹھارہویں صدی عیسوی کے نصف آخر ہی میں یورپی سامراج دنیاکے بیشتر حصوں پر اپنے نوآبادیاتی عزائم کے ساتھ حملہ آور ہوا۔ ان سامراجی طاقتوں میں برطانیہ پیش پیش تھا۔ اطالوی، فرانسیسی اور پرتگالی براعظم افریقہ کو اطالوی سومالی لینڈ، فرانسیسی سومالی لینڈ، پرتگالی مشرقی افریقہ، جرمی مشرقی افریقہ اور برطانوی مشرقی افریقہ میں منقسم کرنے کے بعد مشرق وسطیٰ کے بعض علاقوں میں سامراجی ریشہ دوانیوں میں مصروف تھے۔ اٹلی نے اریٹیریا، فرانس نے جزیرہ مڈگاسکر اور برطانیہ نے رہوڈیشیا اور یوگنڈا کو نوآبادیوں میں تقسیم کر دیا۔ نام نہاد خود مختار علاقوں میں یونین آف ساؤتھ افریقہ کے علاوہ مصر، حبشہ اور لائٹیریا کا شمار ہوتا تھا۔ یورپی سامراج نے اس زمانے میں ہندوستان، برما اور لنکا کو زیرنگین لانے کے لئے کشمکش کا آغاز کر دیا تھا اور بحرہند کو اپنی استعماری سرگرمیوں کی آماجگاہ بنالیا۔ مشرقی ساحل پر ملائی ریاستوں میں سنگاپور ایک اہم بحری اڈہ تھا جس کو بنیاد بنا کر بحرہند، بحرالکاہل، ڈچ ایسٹ انڈیز اور جنوبی آسٹریلیشیا کو جداجدا کیا جاسکتا تھا۔ استعماری طاقتوں کو اپنے مذموم ارادوں کی تکمیل میں اس وقت زیادہ آسانی ہوگئی۔ جب ۱۷۶۹ء میں نہرسویز کی تعمیرکا مرحلہ اختتام پذیر ہوا اس کی وجہ سے راس امید کا لمبا چکر لگانے کی بجائے بحیرہ قلزم اور بحیرہ احمر کا آسان راستہ اختیار کیا جانے لگا۔ ۱۸۷۸ء تک برطانیہ جبرالٹر اور مالٹا کو زیراثر لاکر قبرص پر تسلط جما چکا تھا۔ عدن ۱۸۳۹ء میں محکوم بنایا جاچکا تھا۔ اب پورے جنوب مغربی ایشیاء پر قبضہ کرنا باقی تھا۔
انگریز نے جب برصغیر اور عالم اسلام میں اپنا پنجہ استبداد جمانا شروع کیا تو اس کی راہ میں دو باتیں رکاوٹ بننے لگیں۔ ایک تومسلمانوں کی نظریاتی وحدت دینی معتقدات سے غیر متزلزل وابستگی اور مسلمانوں کا وہ تصور اخوت جس نے مغرب ومشرق کو جسد واحد بنا کے رکھ دیا تھا۔ دوسری بات مسلمانوں کا لافانی جذبہ جہاد جو بالخصوص عیسائی یورپ کے لئے صلیبی جنگوں کے بعد وبال جان بنا ہوا تھا اور آج ان کے سامراجی منصوبوں کے لئے قدم قدم پر سدراہ ثابت ہورہا تھا اور یہی جذبہ جہاد تھا جو مسلمانوں کی ملی بقاء اور سلامتی کے لئے گویا حصار اور قلعہ کا کام دے رہا تھا۔ انگریزی سامراج ان چیزوں سے بے خبر نہ تھی۔ اس لئے اپنی معروف ابلیسی سیاست لڑاؤ اور حکومت کرو (Divide and Rule) سے عالم اسلام کی جغرافیائی اور نظریاتی وحدت کو ٹکڑے کرنا چاہا۔ دوسری طرف عالم اسلام بالخصوص برصغیر میں نہایت عیاری سے مناظروں اور مباحثوں کا بازار گرم کر کے مسلمانوں میں فکری انتشار اور تذبذب پیدا کرنا چاہا اور اس کے ساتھ ہی انگریزوں پر سلطان ٹیپو شہیدؒ، سید احمد شاہ شہیدؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ اور ان کے بعد جماعت مجاہدین کی مجاہدانہ سرگرمیاں علماء حق کا ہندوستان کو دارالحرب قرار دے کر جہاد کا فتویٰ دینا اور بالآخر ۱۸۵۷ء کے جہاد آزادی نہ صرف ہندوستان بلکہ باہر عالم اسلام میں مغربی استعمار کے خلاف مجاہدانہ تحریکات سے یہ حقیقت اور بھی عیاں ہوکر سامنے آگئی کہ جب تک مسلمانوں کے اندرجذبہ جہاد قائم ہے، سامراج کبھی بھی اور کہیں بھی اپناقدم مضبوطی سے نہیں جما سکے گا۔ مسلمانوں کی یہ چیز نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا میں یورپ کے لئے وبال جان بنی ہوئی تھی۔
2020مرزاصاحب کے نشوونما کا دور اور عالم اسلام کی حالت
انیسویںصدی کا نصف آخر جو مرزاصاحب کے نشوونما کا دور ہے۔ اکثر ممالک اسلامیہ جہاد اسلامی اور جذبہ آزادی کی آماجگاہ بنے ہوئے تھے۔ برصغیر کے حالات تو مختصراً معلوم ہو چکے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ یہی زمانہ ہے جب برصغیر کے باہر پڑوسی ممالک افغانستان میں ۱۸۷۸، ۱۸۷۹ء میں برطانوی افواج کو افغانوں کے جذبہ جہاد وسرفروشی سے دوچار ہونا پڑتا ہے جو بالآخر انگریزوں کی شکست اور پسپائی پر ختم ہو جاتا ہے۔
ترکی میں ۱۸۷۶ء سے لے کر ۱۸۷۸ء تک انگریزوں کی خفیہ سازشوں اور درپردہ معاہدوں کو دیکھ کر جذبہ جہاد بھڑکتا ہے۔ طرابلس الغرب میں شیخ سنوسی، الجزائر میں امیر عبدلقادر (۱۸۸۰ئ) اور روس کے علاقہ داغستان میں شیخ محمد شامل (۱۸۷۰ئ) بڑی پامردی اور جانفشانی سے فرانسیسی اور روسی استعمار کو للکارتے ہیں۔ ۱۸۸۱ء میں مصر میں مصری مسلمان سربکف ہوکر انگریزوں کی مزاحمت کرتے ہیں۔
سوڈان میں انگریز قوم قدم جمانا چاہتی ہے تو ۱۸۸۱ء میں مہدی سوڈانی اور ان کے درویش جہاد کا پھریرا بلند کر کے بالآخر انگریز جنرل گارڈن اور اس کی فوج کا خاتمہ کرتے ہیں۔
اسی زمانہ میں خلیج عرب، بحرین، عدن وغیرہ میں برطانوی فوجیں مسلمانوں کے جہاد اور استخلاص وطن کے لئے جان فروشی اور جان نثاری کے جذبہ سے دوچار تھیں۔
مسلمانوں کی ان کامیابیوں کے اسباب کا ذکر کرتے ہوئے ایک انگریز مصنف لکھتا ہے کہ مسلمانوں میں دینی سرگرمی بھی کام کرتی تھی، کہتے تھے کہ فتح پائی تو غازی مرد کہلائے، حکومت حاصل کی، مر گئے تو شہید ہوگئے۔ اس لئے مرنا یا مارڈالنا بہتر ہے اور پیٹھ دکھانا بیکار۔ (تاریخ برطانوی ہند ص۳۰۲، مطبوعہ ۱۹۳۵ئ)