ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
مذہب اور سیاست کے اس دو طرفہ ناٹک میں اصل حقیقت نگاہوں سے مستور ہو جاتی ہے اور حقائق سے بے خبر دنیا سمجھتی ہے کہ واقعی پاکستان کے ’’مذہبی جنونی‘‘ ایک بے ضرر چھوٹی سی 2081اقلیت کو کچلنا چاہتے ہیں۔ لیکن واقعات اور حقائق کیا ہیں اس کا اندازہ حسب ذیل چند حوالوں اور پاکستانی سیاست میں اس جماعت کے عملی کردار سے لگانا چاہئے۔ مرزامحمود احمد صاحب نے ۱۹۲۲ء میں خطبہ جمعہ کے دوران کہا تھا۔
’’نہیں معلوم ہمیں کب خدا کی طرف سے دنیا کا چارج سپرد کیا جاتا ہے۔ ہمیں اپنی طرف سے تیار رہنا چاہئے کہ دنیا کو سنبھال سکیں۔‘‘ (الفضل مورخہ ۲۷؍فروری، ۲۹؍مارچ ۱۹۲۲ئ)
اس سے پہلے ۱۴؍فروری ۱۹۲۲ء کو الفضل میں خلیفہ محمود احمد کی یہ تقریر شائع ہوئی۔
’’ہم احمدی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
۱۹۳۵ء میں کہا: ’’کہ اس وقت تک کہ تمہاری بادشاہت قائم نہ ہو جائے تمہارے راستے سے یہ کانٹے ہر گز دور نہیں ہوسکتے۔‘‘ (الفضل مورخہ ۸؍جولائی ۱۹۳۵ئ)
۱۹۴۵ء میں انہوں نے اپنے سیاسی عزائم کا اظہار اس طرح کیا کہ: ’’جب تک جماعت احمدیہ نظام حکومت سنبھالنے کے قابل نہیں ہوتی اس وقت تک ضروری ہے کہ اس دیوار (انگریزی حکومت) کو قائم رکھا جائے۔‘‘ (الفضل قادیان مورخہ ۳؍جنوری ۱۹۴۵ئ)
۱۹۴۵ء کے بعد حصول اقتدار کے یہ ارادے تحریروں میں عام طور پر پائے جانے لگے۔ جسٹس منیر نے بھی اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ: ’’۱۹۴۵ء سے لے کر ۱۹۴۷ء کے آغاز تک ان کی بعض تحریروں سے یہ منکشف ہوتا ہے کہ انہیں پہلے انگریزوں کا جانشین بننے کی توقع تھی۔‘‘ (رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب ص۲۰۹)
ان سیاسی عزائم سے مزید پردہ ۱۹۶۵ء میں لندن میں منعقد ہونے والی جماعت احمدیہ کے پہلے یورپی کنونشن سے اٹھ جاتا ہے جس کا افتتاح سرظفر اﷲ نے کیا۔ روزنامہ جنگ راولپنڈی 2082 ۴؍اگست ۱۹۶۵ء جلد۷ ص۳۰۹ فرسٹ ایڈیشن میں خبر دی گئی ہے کہ: ’’لندن ۳؍اگست (نمائندہ جنگ) جماعت احمدیہ کا پہلا یورپی کنونشن جماعت کے لندن مرکز میں منعقد ہورہا ہے۔ جن میں تمام یورپی ممالک کے احمدیہ مشن شرکت کر رہے ہیں۔ کنونشن کا افتتاح گزشتہ روز ہیگ کی بین الاقوامی عدالت کے جج سرظفر اﷲ خان نے کیا یہ کنونشن ۷؍اگست تک جاری رہے گا۔ جماعت نے مختلف ۷۵ممالک میں اپنے مشن قائم کر لئے ہیں۔ برطانیہ میں جماعت کے ۱۸مراکز قائم ہو چکے ہیں۔ کنونشن میں شریک مندوبین نے اس بات پر زور دیا کہ اگر احمدی جماعت برسراقتدار آجائے تو امیروں پر ٹیکس لگائے جائیں اور دولت کو ازسرنو تقسیم کیا جائے۔ ساہو کاری اور سود پر پابندی لگادی جائے اور شراب نوشی ممنوع قرار دی جائے۔‘‘
اس خبر کے خط کشیدہ الفاظ میں احمدی جماعت کے برسراقتدار آنے کی صورت میں مجوزہ اصلاحات کا ذکر ہے کیا کوئی غیرسیاسی جماعت اس قسم کے امکانات اور اصلاحات پر غور کر سکتی ہے؟
مرزامحمود نے ۱۹۵۲ء کے شروع میں یہ اعلان کرادیا تھا کہ: ’’اگر ہم ہمت کریں اور تنظیم کے ساتھ محنت سے کام کریں تو ۱۹۵۲ء میں انقلاب برپا کر سکتے ہیں۔ (آگے چل کر کہا) ۱۹۵۲ء کو گزرنے نہ دیجئے۔ جب احمدیت کا رعب دشمن اس رنگ میں محسوس نہ کرے کہ اب احمدیت مٹائی نہیں جاسکتی اور وہ مجبور ہوکر احمدیت کی آغوش میں آگرے۔‘‘ (الفضل مورخہ ۱۶؍جنوری ۱۹۵۲ئ)
واضح رہے کہ یہ اعلان ربوہ میں قادیانی فرقہ کے سیاسی فوجی اور کلیدی ملازمتوں پر فائز 2083اہم عہدہ داروں کے اہم اجتماع اور مشورہ کے بعد کرایا گیا تھا اور ابھی پندرہ مہینے گزرنے نہ پائے تھے کہ اس اعلان انقلاب کی ایک صورت فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء کی شکل میں ظاہر ہوگئی۔
اس سلسلہ میں موجودہ مرزاناصر احمد کے اعلانات دس ہزار گھوڑوں کی تیاری اور اس طرح کے کئی منصوبے اس کثرت سے ان کے اخبارات میں آتے رہے ہیں کہ سب پر عیاں ہیں۔
سیاسی عزائم کی یہ ایک معمولی سی جھلک تھی اور قیام پاکستان کے فوراً بعد مرزائیوں کے حصول اقتدار کا رجحان ابھر کر بڑی شدت سے حسب ذیل صورتوں میں سامنے آنے لگا۔
۱… کسی نہ کسی طرح پورے ملک میں سیاسی اقتدار حاصل کیا جائے۔
۲… بصورت دیگر کم ازکم ایک صوبہ یا علاقہ کو قادیانی سٹیٹ کی حیثیت دی جائے۔
۳… ملک کی داخلی اور بیرونی تمام اہم شعبوں، وسائل اور ذرائع کو اپنے عزائم کے حصول کا ذریعہ بنایا جائے۔
۴… تمام کلیدی مناصب پر قبضہ کیا جائے۔
اس پروگرام اور سیاسی عزائم کے حصول کا آغاز چوہدری ظفر اﷲ خاں نے اپنے دور وزارت میں بڑے زور وشور سے کیا۔ چوہدری صاحب بڑے فخر سے کہا کرتے کہ وہ چین جائیں یا امریکہ ہر جگہ مرزائیت کی تبلیغ کریں گے۔ وہ اپنی جماعت کے امیر کو مطاع مطلق سمجھتے تھے وہ نہ صرف احمدیت کو خدا کا لگایا ہوا پودا سمجھتے تھے۔ بلکہ یہ بھی کہ مرزاغلام احمد کے وجود کو نکال دیا جائے تو اسلام کا زندہ مذہب ہونا ثابت نہیں ہوسکتا ایسے خیالات کا اظہار وہ نہ صرف نجی مجالس بلکہ سرکاری ملازم ہوتے ہوئے احمدیت کے تبلیغی اجتماعات میں بھی برملا کرتے تھے۔ (ملاحظہ ہو الفضل ۳۱؍مئی ۱۹۵۲ء کراچی کے احمدی اجتماع کی تقریر)
پاکستان بننے کے بعد ایسے شخص کو جب وزارت خارجہ جیسا اہم عہدہ دیا گیا جس کی نگرانی میں تمام دنیا میں سفارتخانوں کا قیام اور پاکستان سے روابط قائم کرانے کا کام بھی تھا تو 2084شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی مرحوم نے اس وقت کے وزیراعظم کو لکھا کہ اگر کلیدی مناصب پر ایسے لوگوں کو فائز کرنے کا یہ تلخ گھونٹ آج گلے سے اتار لیا گیا تو آئندہ زہر کا پیالہ پینے کو تیار رہنا چاہئے۔
مگر یہ نصیحت بوجوہ کارگر نہ ہوسکی اور ہمیں زہر کا ایک پیالہ نہیں کئی کئی پیالے پینے پڑے۔
چوہدری صاحب موصوف تقسیم سے پہلے بھی اپنی سرکاری پوزیشن سے سراسر ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے قادیانی مفادات کے لئے کام کرتے رہے۔ مگر تقسیم کے بعد اس میں بڑھ چڑھ کر اضافہ کردیا۔ وزارت خارجہ کے سہارے سے انہوں نے غیرممالک میں قادیانی تحریک کو تقویت پہنچائی اور اس وقت سے لے کر اب تک یہ لوگ پاکستان کے سفارتی ذرائع سے اپنی باطل تبلیغ کے نام پر عالم اسلام کے خلاف سیاسی، جاسوسی اور سامراجی مفادات حاصل کر رہے ہیں۔ ایسے قادیانی حاشیہ برداروں نے ملکی زرمبادلہ اتنی بے دردی سے ضائع کیا کہ جب بھی اس طرح کی خبریں آئیں مسلمانوں میں تشویش اور اضطراب کی لہر دوڑی اور قومی اسمبلی تک میں اس بارہ میں آوازیں اٹھائی گئیں۔
۱۹۵۳ء کے فسادات پنجاب کی افسوسناک صورت ایسے مطالبات ہی کے نتیجہ میں پیدا ہوئی جس میں سواد اعظم نے دیگر مطالبوں کے علاوہ سرظفر اﷲ اور دیگر مرزائیوں کا کلیدی مناصب سے علیحدگی پر زور دیا گیا تھا۔ مگر ہم ان کے بیرونی آقاؤں مغربی سامراج کے ہاتھوں اتنے بے بس ہوچکے تھے کہ سینکڑوں مسلمانوں کی شہادت کے بعد بھی ’’اس وقت کے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین نے سرظفر اﷲ کی علیحدگی کے بارہ میں یہ قطعی رائے ظاہر کی کہ وہ اس اہم معاملہ میں کوئی کارروائی نہیں کر سکتے۔‘‘ (منیر انکوائری ص۳۱۹)
وزارت خارجہ جیسے اہم منصب پر فائز یہی شخص تھا جس کے افسوسناک کردار کا ایک رخ حال ہی میں لندن میں ان کے پریس کانفرنس مورخہ ۵؍جون ۱۹۷۴ء کی شکل میں سامنے آیا۔ یہ 2085پریس کانفرنس پاکستانی اخبارات میں آچکی ہے۔ مغربی پریس، بی بی سی اور آکاش وانی بھارت نے اس پریس کانفرنس کے عنوان سے اسی پروپیگنڈہ کی مہم چلائی۔ جس قسم کی مہم المیہ مشرقی پاکستان سے پہلے چلائی گئی تھی۔
بہرحال یہ ایک مثال تھی اس بات کی کہ کلیدی مناصب پر فائز ہونے کی شکل میں ان لوگوں کے ہاتھوں ملک وملت کے مفادات کو کتنا نقصان پہنچ سکتا ہے۔
تمام محکموں اور کلیدی مناصب پر قبضہ کرنے کا منصوبہ
مرزائیوں کے ذہن میں کلیدی مناصب کی یہی مہم اور نازک پوزیشن پہلے سے موجود ہے اور ان کی تحریرات، اعلانات اور سرکاری محکموں پر منظم قبضہ کرنے کے پروگرام کا واضح ثبوت مل جاتا ہے۔
مرزامحمود نے اپنی جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’’جب تک سارے محکموں میں ہمارے آدمی موجود نہ ہوں ان سے پوری طرح کام نہیں لے سکتے۔ مثلاً موٹے موٹے محکموں سے فوج ہے، پولیس ہے، ایڈمنسٹریشن ہے، ریلوے ہے، فائننس ہے، کسٹمز ہے، انجینئرنگ ہے۔ یہ آٹھ دس موٹے موٹے صیغے ہیں جن کے ذریعے سے جماعت اپنے حقوق محفوظ کراسکتی ہے۔ ہماری جماعت کے نوجوان فوج میں بے تحاشا جاتے ہیں۔ اس کے نتیجہ میں ہماری نسبت فوج میں دوسرے محکموں کی نسبت سے بہت زیادہ ہے اور ہم اس سے اپنے حقوق کی حفاظت کا فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔باقی محکمے خالی پڑے ہیں۔ بے شک آپ لوگ اپنے لڑکوں کو نوکری کرائیں۔ لیکن وہ نوکری اس طرح کیوں نہ کرائی جائے جس سے جماعت فائدہ اٹھا سکے۔ پیسے بھی اس طرح کمائے جائیں کہ ہر صیغے میں ہمارے آدمی موجود ہوں اور ہر جگہ ہماری آواز پہنچ سکے۔‘‘ (خطبہ مرزا محمود احمد مندرجہ الفضل ۱۱؍جنوری ۱۹۵۲ئ)
2086کلیدی مناصب کی اہمیت اور مطالبہ علیحدگی کے دلائل
اس واضح پروگرام اور منصوبوں کو دیکھ کر اور سرکاری محکموں میں مرزائیوں کا اپنی آبادی سے بدرجہا بڑھ کر قبضہ کرنے پر مسلمان بجا طور پر بے چین ہیں۔ ان کی سابقہ روش کو دیکھ کر اگر وہ یہ مطالبہ کرتے کہ آئندہ دس سال میں ملک کے ہر محکمے میں کسی بھی مرزائی کی بھرتی بند کر دی جائے۔ تب بھی یہ مطالبہ عین قرین انصاف تھا۔ مگر مسلمان اس سے کم تر مطالبہ یعنی قادیانیوں کو کلیدی مناصب سے ہٹانے پر اکتفا کئے ہوئے ہیں جس کی معقولیت کی بنیاد صرف یہ مذہبی نظریہ نہیں کہ کسی اسلامی سٹیٹ میں قرآن وسنت کی واضح ہدایات کی بناء پر کسی بھی غیرمسلم کو کلیدی مناصب پر مامور نہیں کیا جاسکتا۔ بلکہ اس کے علاوہ یہ مطالبہ اس لئے بھی کیا جا رہا ہے کہ:
۱… یہ لوگ پچھلے انگریزی دور میں مسلمانوں کی غفلت اور انگریزوں کی غیرمعمولی عنایات سے ناجائز فائدہ اٹھا کر مسلمانوں کے نام پر مسلمانوں کی ملازمتوں کے کوٹہ کا استحصال کرتے آئے ہیں۔
۲… قیام پاکستان کے بعد حکمرانوں کی غفلت یا بے حسی سے فائدہ اٹھا کر اس معمولی اقلیت نے شرح آبادی کے تناسب سے بدرجہا زیادہ ملازمتوں پر قبضہ کر لیا ہے۔
۳… اس گروہ سے تعلق رکھنے والے اہم مناصب پر فائز افراد نے اپنے ہم مذہبوں کو بھرتی کر کے اور اپنے ماتحت اکثریتی طبقہ مسلمانوں کے حقوق پامال کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھائی۔
۴… اس کے نتیجے میں ملک کے تمام اہم شعبوں فوجی، صنعتی، معاشی، اقتصادی، انتظامیہ، مالیات، منصوبہ بندی، ذرائع ابلاغ وغیرہ پر انہیں اجارہ داری حاصل ہوگئی اور ملک کی قسمت کا فیصلہ ایک مٹھی بھر غیر مسلم جماعت کے ہاتھوں میں چلا گیا۔
۵… اس گروہ کے سرکردہ افراد نے اپنے دائرہ اثر میں اپنے عہدہ اور منصب کو قادیانیت کی 2087تبلیغ واشاعت کے لئے استعمال کیا اور انہی ہدایات پر عمل کیا جو ان کے امام اور خلیفہ نے ۱۹۵۲ء میں انہیں دی تھیں اور کہا تھا کہ ’’مرزائی ملازمین اپنے محکموں میں منظم صورت میں مرزائیت کی تبلیغ کریں۔‘‘ (الفضل مورخہ ۱۱؍جنوری ۱۹۵۲ئ)
۶… کلیدی مناصب پر فائز مرزائیوں کے ذمہ دار افراد ملک وملت کے مفادات سے غداری کے مرتکب ہوتے رہے۔ اس سلسلہ میں ائیرمارشل ظفر چوہدری اور کئی دوسرے جرنلوں کا کردار قوم اور حکومت کے سامنے آچکا ہے۔ بنگلہ دیش اور پاک بھارت جنگ کے سلسلہ میں ان لوگوں کا کردار موضوع عام وخاص ہے۔
ان چند وجوہات کی بناء پر مرزائیوں کا کلیدی مناصب پر برقرار رہنا صرف مذہبی نقطہ نظر سے نہیں بلکہ ملک کی اکثریت کے معاشی، سماجی، سیاسی، معاشرتی مفادات کے تحفظ اور ملک وملت کی سالمیت کا بھی تقاضا ہے۔
پاکستان بننے کے بعد احمدی جماعت کی سیاسی تنظیم نے حکومت پاکستان کے مقابلے میں ایک متوازی نظام حکومت قائم کر لیا ہے۔ ربوہ کے مقام پر خالص احمدیوں کی بستی آباد کر کے اس نظام حکومت کا مرکز بنا لیا گیا۔ جماعت کا لیڈر ’’امیرالمؤمنین‘‘ کہلاتا ہے۔ جو مسلمانوں کے فرمانروا کا معیّن شدہ لقب ہے۔ اس امیرالمؤمنین کے ماتحت ربوہ میں مرزائی سٹیٹ کی نظارتیں باقاعدہ قائم ہیں۔ نظارت امور داخلہ ہے، نظارت نشر واشاعت ہے، نظارت امور عامہ ہے، نظارت امور مذہبی ہے۔ یہ نظارتیں کسی ریاست یا سلطنت کے نظام کے شعبوں کی طرح کام کر رہی ہیں۔ اس نظام حکومت نے خدام الاحمدیہ کے نام سے ایک فوجی نظام بھی بنارکھا ہے۔ خدام الاحمدیہ میں ’’فرقان بٹالین‘‘ کے سابق سپاہی اور افسر شامل ہیں۔
2088احمدی لیڈروں کو یقین ہے کہ اب ان کے لئے پاکستان کا حکمران بن جانا کوئی مشکل بات نہیں ہے۔ سابقہ خلیفہ ربوہ مرزابشیرالدین محمود نے اپنے سالانہ جلسہ میں اعلان کیا تھا ہم فتح یاب ہوں گے اور تم مجرموں کے طور پر ہمارے سامنے پیش ہووگے۔ اس وقت تمہارا حشر بھی وہی ہو گا جو فتح مکہ کے دن ابوجہل اور اس کی پارٹی کا ہوا تھا۔
ابھی قیام پاکستان کو اک برس بھی نہ گزرنے پایا تھا کہ ۲۳؍جولائی ۱۹۴۸ء کو قادیانی خلیفہ نے کوئٹہ میں ایک خطبہ دیا جو ۱۳؍اگست کے الفضل میں ان الفاظ میں شائع ہوا۔
’’برٹش بلوچستان جواب پاکی بلوچستان ہے کی کل آبادی پانچ یا چھ لاکھ ہے۔ یہ آبادی اگرچہ دوسرے صوبوں کی آبادی سے کم ہے۔ مگر بوجہ ایک یونٹ ہونے کے اسے بہت بڑی اہمیت حاصل ہے۔ دنیا میں جیسے افراد کی قیمت ہوتی ہے یونٹ کی بھی قیمت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ کی کانسٹیٹیوشن ہے۔ وہاں اسٹیٹس سینٹ کے لئے اپنے ممبر منتخب کرتے ہیں۔ یہ نہیں دیکھا جاسکتا کہ کسی اسٹیٹ کی آبادی دس کروڑ ہے یا ایک کروڑ ہے۔ سب اسٹیٹس کی طرف سے برابر ممبر لئے جاتے ہیں۔ غرض پاکی بلوچستان کی آبادی ۵،۶ لاکھ ہے اوراگر ریاستی بلوچستان کو ملالیا جائے تو اس کی آبادی ۱۱لاکھ ہے۔ لیکن چونکہ یہ ایک یونٹ ہے۔ اس لئے اسے بہت بڑی اہمیت حاصل ہے۔ زیادہ آبادی کو تو احمدی بنانا مشکل ہے۔ لیکن تھوڑے آدمیوں کو احمدی بنانا کوئی مشکل نہیں۔ پس جماعت اس طرف اگر پوری توجہ دے تو اس صوبے کو بہت جلدی احمدی بنایا جاسکتا ہے۔ یاد رکھو تبلیغ اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک ہماری Base مضبوط نہ ہو۔ پہلے Base مضبوط ہو تو پھر تبلیغ پھیلتی ہے۔ بس پہلے اپنی Base مضبوط کر لو کسی نہ 2089کسی جگہ اپنی Base بنالو کسی ملک میں ہی بنالو۔ اگر ہم سارے صوبے کو احمدی بنا لیں تو کم ازکم ایک صوبہ تو ایسا ہو جائے گا جس کو ہم اپنا صوبہ کہہ سکیں گے اور یہ بڑی آسانی کے ساتھ ہوسکتا ہے۔‘‘
مرزائی حضرات جس قادیانی ریاست کا خواب دیکھتے ہیں اس کی تعبیر کے لئے انہوں نے ابتداء ہی سے کشمیر کو بھی مناسب حال سمجھا۔ اس دلچسپی کی بعض وجوہات کو تاریخ احمدیت کے مؤلف دوست محمد شاہد نے کتاب کی جلدششم ص۳۴۵تا۴۷۹ میں ذکر بھی کیا ہے۔
الف… قادیان ریاست جموں وکشمیر کا ہم آغوش ہے جو ان کے ’’پیغمبر‘‘ کا مولد دارالامان اور مکہ ومدینہ کا ہم پلہ بلکہ ان سے بھی افضل قرار دیتے ہیں۔ (الفضل مورخہ ۱۱دسمبر ۱۹۳۲ئ، تقریر مرزامحمود صاحب وحقیقت الرؤیا ص۴۶، از مرزامحمود)
اور قادیان کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ مرزاغلام احمد کی پیشین گوئی کے مطابق قادیان قادیانیوں کو ضرور ملے گا وہ اپنے چھوٹے بچوں کو ابتدائی نصاب میں یہی بات راسخ کرتے رہتے ہیں کہ: ’’(قادیان سے ہجرت) کی حالت عارضی ہوگی آخر ایک وقت آئے گا کہ قادیان جماعت احمدیہ کو واپس مل جائے گا۔‘‘ (راہ ایمان ص۹۸، بچوں کی ابتدائی دینی معلومات کا مجموعہ)
قادیان اور جموں وکشمیر کے جغرافیائی اتصال کو برقرار رکھنے کی کوششوں سے باؤنڈری کمیشن کو احمدی میمورنڈم کی وجہ سے ضلع گورداسپور کو پاکستان سے کاٹنے اور بھارت کو کشمیر ہڑپ کر لینے کی راہ مل گئی۔
ب… 2090قادیانیوں کا زعم ہے کہ کشمیر میں قادیانی اثرات پہلے سے زیادہ ہیں۔ مرزامحمودکے بقول وہاں تقریباً اسی ہزار احمدی ہیں۔
ج… کشمیر ان کے مسیح موعود کے بقول مسیح اوّل (حضرت عیسیٰ) کا مدفن ہے اور مسیح ثانی کے پیروکاروں کی بڑی تعداد وہاں آباد ہے اور جس ملک میں دو مسیحوں کا دخل ہو وہاں کی حکمرانی کا حق صرف قادیانیوں کو مل سکتا ہے۔
د… مہاراجہ رنجیت سنگھ نے نواب امام الدین کو کشمیر بطور گورنر بھیجا تو مرزاغلام احمد کے والد بھی ان کے ساتھ تھے۔
ہ… مرزاغلام احمد کے خلیفہ اوّل حکیم نورالدین جو خلیفہ ثانی مرزامحمود کے استاد اور خسر تھے۔ مدتوں ہی کشمیر میں رہے۔ بہرحال جس طرح بلوچستان پر ان کی نظر افرادی آبادی کی قلت کی وجہ سے پڑی تو کشمیر پر ہر دور میں ان کی نظر کسی عام انسانی ہمدردی اورمسلمانوں کی خیرخواہی کی وجہ سے نہیں۔ بلکہ سابقہ شخص اور عصبیتی مفادات کی وجہ سے پڑتی رہی ہے۔ اس سلسلہ میں کشمیر کو قادیانی سٹیٹ بنانے کی پہلی سازش ۱۹۳۰ء میں برطانوی آقاؤں کے اشارے پر کی گئی۔ مرزابشیرالدین کی کشمیر کمیٹی سے دلچسپی انہی سیاسی عزائم کی پیداوار تھی جسے ڈاکٹر اقبال مسلمان زعماء اور عام مسلمانوں کی مشترکہ کوششوں نے ناکام بنادیا اور علامہ اقبال نے یہیں سے ان کے سیاسی عزائم بھانپ کر اس تحریک کا سختی سے مقابلہ شروع کیا۔
قیام پاکستان کے تیسرے مہینے اکتوبر ۱۹۴۷ء میں پاکستان نے مقبوضہ کشمیر کا مطالبہ کیا اور ۱۹۴۸ء میں جنگ چھڑی تو قادیانی امت نے فرقان بٹالین کے نام سے ایک پلاٹون تیار کی جو جموں کے محاذ پر متعین کی گئی۔ اس سے پہلے اپنی طویل تاریخ میں مرزائیوں کو مسلمانوں کے کسی ابتلاء اور مصیبت میں حصہ لینے کی توفیق نہیں ہوئی تھی۔ مگر آج وہ آزادیٔ کشمیر کے لئے فرقان بٹالین کے نام 2091سے جانیں پیش کرنے لگے۔ اس وقت پاکستان کے کمانڈر انچیف جنرل سرڈگلس گریسی تھے جو نہ تو کشمیر کی لڑائی کے حق میں تھے نہ پاکستانی فوج کو کشمیر میں استعمال کرنا چاہتے تھے۔ بلکہ یہاں تک ان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ بعض جنگی معلومات بھارت کے کمانڈر انچیف جنرل سرآکسن لیگ تک پہنچاتے رہے۔ لیکن دوسری طرف وہی انگریز کمانڈر انچیف، پبلک سے تعلق رکھنے والی ایک آزاد فورس کو اس جنگ میں کھلی اجازت دیتا ہے۔ انہی جنرل گریسی نے بطور کمانڈر انچیف فرقان بٹالین کو داد وتحسین کا پیغام بھی بھیجا جو تاریخ احمدیت مؤلفہ دوست محمد شاہد قادیانی ص۶۷۴ اور نظارت دعوۃ وتبلیغ ربوہ کی شائع کردہ ٹریکٹ میں بھی ہے۔ فرقان فورس نے کشمیر کی اس جنگ کے دوران کیا خدمات انجام دیں۔ یہاں اس کے تفصیلات کی گنجائش نہیں۔ لیکن جب اس جہاد کے بعد اس تنظیم کے کارنامے خلوتوں اور جلوتوں میں زیربحث آنے لگے اور اخبارات میں کشمیری رہنماؤں اﷲ رکھا ساغر اور آفتاب احمد سیکرٹری جموں وکشمیر مسلم کانفرنس کے بیانات آئے۔ اس سے اس وقت کے فوجی سربراہوں اور حکومت میں کھلبلی مچ گئی۔ سردار آفتاب احمد کا اصل بیان یہ تھا: ’’اس فرقان بٹالین نے جو کچھ کیا اور ہندوستان کی جو خدمات سرانجام دیں مسلم مجاہدین کی جوانیوں کا جس طرح سودا چکایا اگر اس پر خون کے آنسو بھی بہائے جائیں تو کم ہیں جو سکیم بنتی ہندوستان پہنچ جاتی جہاں مجاہدین مورچہ بناتے دشمن کو پتہ چل جاتا جہاں مجاہدین ٹھکانا کرتے ہندوستان کے ہوائی جہاز پہنچ جاتے۔‘‘ (ٹریکٹ نظارت دعوت وتبلیغ انجمن احمدیہ ربوہ بحوالہ ٹریکٹ کشمیر اور مرزائیت) الفضل ۲؍جنوری ۱۹۵۰ء ص۴ کالم۴ کے مطابق مرزابشیرالدین محمود نے ان بیانات اور تقریروں پر واویلا مچایا کہ اگر ہم غدار تھے تو حکومت نے ہمیں وہاں کیوں بٹھائے رکھا اور اس طرح اس وقت کی حکومت اور جنرل گریسی کی غداری کو بھی طشت ازبام کرانے کا سگنل مرزابشیرالدین نے دے دیا۔ چنانچہ اس وقت جنرل گریسی نے ایک تو فرقان فورس کو پراسرار اور فوری طور پر توڑ دیا اور دوسری طرف خود جنرل گریسی نے آفتاب احمد خان کے الزام کی تردید کی ضرورت محسوس کی۔ مگر 2092مرزابشیرالدین کے کہنے کے مطابق حکومت کے دباؤ سے الزام لانے والوں نے گول مول الفاظ میں تردید کر دی۔ مگر ایک ماہ ہوا کہ پھر وہی اعتراض شائع کر دیا۔ (ملاحظہ ہو الفضل ۲؍جنوری ۱۹۵۰ء ص۴، مرزابشیرالدین کی تقریر)
سوال یہ ہے کہ ایسے الزامات اگر غلط تھے تو اتنی جلدی میں فرقان فورس کو توڑ دینے کی ضرورت کیا تھی؟ اور یہ الزامات اگر غلط تھے تو الزام لگانے والے مدتوں برسرعام اس کو دہراتے چلے گئے۔ مگر اس وقت کی حکومت اور کمانڈر انچیف نے اس کی عدالتی انکوائری کی ضرورت کیوں محسوس نہیں کی۔ پاکستانی افواج کے ہوتے ہوئے متوازی فوج کیسے اور کیوں؟ یہ سوالات اب تک جواب طلب ہیں۔ مگر اس وقت آفتاب احمد صاحب سیکرٹری جموں وکشمیر مسلم کانفرنس کے کہے گئے یہ الفاظ اب بھی حقیقت کی غمازی کر رہے ہیں کہ مرزائی ۳۰سال سے (اور اب تو ۵۶سال) آزاد کشمیر کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
فرقان فورس، ایک احمدی بٹالین اور متوازی فوجی تنظیم
چنانچہ فرقان فورس اس وقت توڑ دی گئی مگر ربوہ کے متوازی حکمران یہی سمجھتے تھے کہ عوام کا حافظہ کمزور ہوتا ہے۔ حقائق بین نگاہیں بہت کم ہوتی ہیں۔ اگر چل کر بہت جلد اسے اور شکلوں میں قائم رکھا گیا اور اب یہ فورسیں اطفال الاحمدیہ، خدام الاحمدیہ، انصار اﷲ وغیرہ نیم فوجی تنظیموں کے صورت میں قائم ہیں۔ جسٹس منیر نے فسادات ۱۹۵۳ء کے تحقیقاتی رپورٹ ص۲۱۱ پر فرقان فورس کی موجودگی کے علاوہ مرزائی سٹیٹ کے خود ساختہ سیکرٹریٹ کی خبر ان الفاظ میں دی ہے: ’’احمدی ایک متحد ومنظم جماعت ہیں۔ ان کا صدر مقام ایک خالص احمدی قصبے میں واقع ہے۔ جہاں ایک مرکزی تنظیم قائم ہے جس کے مختلف شعبے ہیں۔ مثلاً شعبہ امور خارجہ، شعبہ امور داخلہ، شعبہ امور عامہ، شعبہ نشرواشاعت یعنی وہ شعبے جو ایک 2093باقاعدہ سیکرٹریٹ کی تنظیم میں ہوتے ہیں۔ وہ سب یہاں موجود ہیں۔ ان کے پاس رضاکاروں کا ایک جیش بھی ہے جس کو خدام دین کہتے ہیں۔ فرقان بٹالین اسی جیش سے مرکب ہے اور یہ خالص احمدی بٹالین ہے۔‘‘ (تحقیقاتی رپورٹ ص۲۱۱)
۱۹۶۶ء میں اس رسوائے زمانہ فرقان فورس کومرزائیوں نے ۱۹۶۵ء کی جنگ کی غیور پاکستانی افواج اور مجاہدین اور شہداء کے بالمقابل اس طرح پیش کیا کہ جب پاکستانی افواج کے بہادر مجاہدین کو تمغے دئیے جانے لگے تو الفضل میں اس طرح کے اعلانات شائع ہونے لگے۔
’’فرقان فورس میں شامل ہوکر جن قادیانیوں نے ۴۵دن یعنی ۳۱؍دسمبر ۱۹۴۸ء (فائر بندی کی تاریخ) کشمیر کی لڑائی میں حصہ لیا تھا وہ اب مندرجہ ذیل نمونہ کی رسید بنا کر اس پر دستخط ثبت کر کے مقامی قادیانی جماعت کے امیر کے دستخط کروا کر ملک محمد رفیق دارالصدر غربی ربوہ کو بھجوادیں۔ جس افسر کو ایڈریس کرنا ہے وہ جگہ خالی چھوڑ دی جائے۔ یہ رسیدیں ربوہ سے راولپنڈی جائیں گی۔ راولپنڈی سے ان لوگوں کے کشمیر میڈل ربوہ آئیں گے اور اس کی اطلاع الفضل میں شائع ہوگی اور پھر یہ میڈل ربوہ میں ان قادیانیوں کو تقسیم کئے جائیں گے۔‘‘ (۲۳؍مارچ ۱۹۶۶ء الفضل)
۱۹۶۵ء میں یتیم ہونے والے بچوں، اجڑنے والے سہاگوں کے مقابلہ میں کشمیر میڈل کا قصہ چھیڑنا کیا ۱۹۶۵ء کے شہیدوں اور ان کی قربانیوں سے مذاق نہیں تھا؟
مجاہدین ۱۹۶۵ء کے مقابلہ میں ۱۸؍برس بعد فرقان فورس کے قادیانیوں کو کشمیر میڈل ملنے کا قصہ؟ اس خطرناک سیکنڈل سے پردہ اٹھانا انٹیلی جنس بیورو کا کام ہے۔ ہم محکمہ دفاع کی نزاکت اور تقدس ملحوظ رکھتے ہوئے اس کی تفصیلات میں نہیں جانا چاہتے۔ کشمیر کے سلسلہ میں فرقان فورس کا یہ تو ضمنی ذکر تھا۔ اصل مسئلہ کشمیرکے سلسلہ میں بظاہر یہ معمولی باتیں بھی قابل غور ہیں کہ پاک بھارت جنگ کے ہر موقع پر کشمیر وقادیان سے ملحق سرحدات کی کمان عموماً قادیانی جرنیلوں ہی کے ہاتھ میں کیوں رہتی ہے۔ ۱۹۶۵ء کی جنگ سے پہلے اور اس کے بعد بھی صدر ایوب کے دور میں 2094سرظفراﷲ اور دوسرے مرزائی عمائدین کی طرف سے کشمیرپر چڑھائی اور اس کے لئے موزؤں وقت کی نشاندہی کے پیغامات اور فتح کشمیر کی بشارتیں کیوں دی جاتی رہیں؟
ض… مرزائیوں نے تقسیم کے وقت وزارتی کمیشن سے علیحدہ حقوق طلب کر کے پاکستان سے غداری کی۔
ض… پاکستان ایک اسلامی نظریاتی ملک ہے جس کی حفاظت اور دفاع کے لئے عقیدۂ جہاد روح کا کام دیتا ہے۔ مگر جو جماعت جہاد پر ایمان نہیں رکھتی۔ وہ پاکستان کی افواج میں مقتدر حیثیت اختیار کرتی گئی اور نتیجتاً پاک بھارت جنگ کے ہر موقعہ پرانہوں نے اپنے فرائض کی ادائیگی سے گریز کیا۔ حالیہ صمدانی ٹریبونل میں قادیانی گواہ مرزاعبدالسمیع وغیرہ کی تصریح آچکی ہے کہ وہ ۱۹۷۱ء کی جنگ کو جہاد تسلیم نہیں کرتے۔
ض… مشرقی پاکستان کے سقوط میں افواج اور ایوان اقتدار پر فائز مقتدر مرزائیوں کا بنیادی حصہ ہے جس کے بہت سے حقائق اپنے وقت پر پیش کئے جاسکتے ہیں۔ اس سلسلہ میں سرظفر اﷲ کی جنگ کے ایام میں یحییٰ اور مجیب کے درمیان تگ ودو بے معنی نہ تھی۔
ض… مرزائیوں نے راولپنڈی سازش کیس میں نہ صرف حصہ لیا بلکہ وہ اس کے بانی مبانی تھے۔ جس کا ثبوت عدالت سے ہوچکا ہے۔
مرزائی ریشہ دوانیوں کے نتیجہ ۱۹۵۳ء میں ملک کو پہلی بار مارشل لاء کی لعنت کا سامنا کرنا پڑا۔