• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قومی اسمبلی میں ہونے والی اکیس دن کی مکمل کاروائی

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(مدعا علیہ کا مؤقف)
مدعا علیہ کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ قادیانی مذہب، مذہب اسلام سے کوئی مغائیر مذہب نہیں ہے۔ بلکہ اس مذہب کے صحیح اصولوں کی صحیح تعبیر ہے۔ اس تعبیر کے مطا بق عمل پیرا ہونے سے وہ خارج از اسلام نہیں ہوا۔ اس کا نکاح قائم ہے اور دعویٰ مدعیہ قابل اخراج ہے۔
چنانچہ فریقین نے اپنے اپنے اس ادعا کے مطابق شہادت پیش کی ہے۔ جس پر آگے بحث کی جائے گی۔ مقدمہ ہذا میں ابتدائی تنقیحات جن کا اوپر ذکر کیا جاچکا ہے۔ چاہے جس شکل یا جن الفاظ میں وضع شدہ ہیں ان کا نفس معاملہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ ان کا مفہوم بھی ہے کہ کیا مدعا علیہ نے قادیانی یامرزائی مذہب اختیار کر لیا ہے اور کیا اس مذہب میں داخل ہونے سے ارتداد واقع ہو جاتا ہے اور کیا اس صورت میں مدعیہ کا نکاح فسخ سمجھا جائے گا۔ اس لئے ان تنقیحات کی ترمیم کے متعلق مدعا علیہ کے عذرات کو وزن دار خیال نہیں کیاگیا۔ اس لئے ان تنقیحات کے الفاظ میں کسی ردوبدل کی ضرورت نہیں سمجھی گئی اور خصوصاً ان میں ترمیم کی 2137ضرورت اس لئے بھی نہیں رہی کہ اگر مدعا علیہ کے ادعا کے مطابق یہی صورت تنقیحات قائم کی جاوے تو مسل پر اس قدر مواد آچکا ہے کہ اس کی رو سے اس صورت میں بھی بحث کی جاسکتی ہے۔ اس سوال پر اب چنداں بحث کی ضرورت نہیں رہی کہ آیا مدعا علیہ قادیانی مرزائی ہے یا نہ۔ کیونکہ اس نے اپنے اعتقادات کی جو فہرست پیش کی ہے۔ اس میں اس نے صاف طور پر درج کیا ہے کہ ’’وہ حضرت مرزاصاحب کو امتی نبی تسلیم کرتا ہے اور ان پر وحی اور الہام بابرکت حضرت نبی کریمa وارد ہوتے تھے۔‘‘ اس لئے اس سے یہ قراردیا جاسکتا ہے کہ وہ مرزاصاحب کے قادیانی متبعین میں سے ہے۔ اب بحث طلب صرف یہ امر ہے کہ آیا یہ عقیدہ کفریہ ہے اور اس عقیدہ کے رکھنے والا دائرہ اسلام سے خارج اور مرتد قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس سلسلہ میں مدعیہ کی طرف سے چھ گواہان ذیل مولوی غلام محمد صاحبؒ شیخ الجامعہ عباسیہ بہاول پور، مولوی محمد حسین صاحبؒ سکنہ گوجرانوالہ، مولوی محمد شفیع صاحبؒ مفتی دارالعلوم دیوبند، مولوی مرتضیٰ حسن صاحب چاند پوریؒ، سید محمد انور شاہ صاحب کشمیریؒ، مولوی نجم الدین صاحب پروفیسر اورینٹل کالج لاہور پیش ہوئے ہیں اور مدعا علیہ کی طرف سے دو گواہان مولوی جلال الدین صاحب شمس اور مولوی غلام احمد صاحب مجاہد پیش ہوئے ہیں۔ یہ ہر دو گواہان قادیانی مبلغین میں سے ہیں۔ ان جملہ گواہان کی شہادتیں کئی معاملات شرعی پر مشتمل ہیں اور بہت طویل ہیں۔ ان کا اگر معمولی اختصار بھی یہاں درج کیا جاوے تو اس سے نہ صرف فیصلہ کا حجم بڑھ جائے گا بلکہ اصل معاملہ کے سمجھنے میں بھی الجھن پیدا ہو جائے گی۔ اس لئے ان شہادتوں سے جو اصول اور دلائل اخذ ہوتے ہیں۔ وہ یہاں درج کئے جاتے ہیں اورزیادہ تر دربار معلی کی ہدایت کے مطابق ان شہادتوں کی رو سے یہ دیکھنا ہے کہ اسلام کے وہ کون سے بنیادی اصول ہیں کہ جن سے اختلاف کرنے سے ارتداد واقع ہو جاتا ہے۔ یا یہ کہ کن اسلامی عقائد کی پیروی نہ کرنے یا نہ ماننے سے ایک شخص مرتد سمجھا جاسکتا ہے اور کیا عقائد قادیانی سے ارتداد واقع ہو جاتا ہے، یا نہ؟
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(ایمان وکفر؟)
مدعیہ کی طرف سے مذہب اسلام کے جو اہم اور بنیادی اصول بیان کئے گئے ہیں۔ وہ سید انور شاہ صاحبؒ گواہ مدعیہ کے بیان میں مفصل درج ہیں۔ یہاں ان کا مختصراً اعادہ کیا جاتا ہے وہ 2138بیان کرتے ہیں کہ ایمان کے معنی یہ ہیں کہ کسی کے قول کو اس کے اعتماد پر باور کر لیا جاوے اور کہ غیب کی خبروں کو انبیاء کے اعتماد پر باور کر لینے کو ایمان کہتے ہیں، اور حق ناشناسی، یا منکر ہو جانے یا مکر جانے کو کفر کہتے ہیں۔ ہمارے دین کا ثبوت دو طرح سے ہے یا تواتر سے یا خبر واحد سے، تواتر اسے کہتے ہیں کہ کوئی چیز نبی کریمﷺ سے ایسی ثابت ہوئی ہو اور ہم تک علی الاتصال پہنچی ہو کہ اس میں خطا کا احتمال نہ ہو۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(تواتر کی اقسام)
یہ تواتر چار قسم کا ہے۔ تواتر اسنادی، تواتر طبقہ، تواتر قدر مشترک اور تواتر توارث۔
تواتر اسنادی: اسے کہا جاتا ہے کہ جو صحابہؓ سے بسند صحیح مذکور ہو۔
تواتر طبقہ: اسے کہتے ہیں کہ جب یہ معلوم نہ ہو کہ کس نے کس سے لیا۔ بلکہ یہی معلوم ہو کہ پچھلی نسل نے اگلی سے سیکھا۔ جیسا کہ قرآن مجید کا تواتر۔
تواتر قدر مشترک: یہ ہے کہ حدیثیں کئی ایک خبر واحد آئی ہوئی ہوں۔ اس میں قدر مشترک متفق علیہ حصہ وہ حاصل ہوا جو تواتر کو پہنچ گیا۔ مثلاً نبی کریمa کے معجزات، جو کچھ متواتر ہیں اور کچھ خبر احاد ہیں۔ ان اخبار احاد میں اگر کوئی مضمون مشترک ملتا ہے تو وہ قطعی ہو جاتا ہے۔ اس کی مزید تشریح مولوی مرتضیٰ حسن صاحب گواہ مدعیہ نے یہ کی ہے کہ بعض ایسی احادیث جو باعتبار لفظ اور سند کے متواتر نہیں ہیں وہ باعتبار معنی کے متواتر ہو جاتی ہیں۔ اگر ان معنوں کو اتنی سندوں سے اور اتنے راویوں نے بیان کیا ہو کہ جن کا جھوٹ پر جمع ہونا محال ہو۔
تواتر توارث: اسے کہتے ہیں کہ نسل نے نسل سے لیا ہو اور یہ تواتر اس طرح سے ہے کہ بیٹے نے باپ سے لیا اور باپ نے اپنے باپ سے، ان جملہ اقسام کے تواتر کا انکار کفر ہے۔ اگر متواترات کے انکار کو کفر نہ کہا جاوے تو اسلام کی کوئی حقیقت نہیں رہتی۔ ان متواترات میں تاویل کرنا، مطلب بگاڑنا کفر صریح ہے اور متواترات کو تاویل سے پلٹنا بھی کفر ہے۔ کفر کبھی قولی ہوتا ہے اور کبھی فعلی۔ مثلاً کوئی شخص ساری عمر نماز پڑھتا رہے اور ۳۰سال کے بعد ایک بت کے آگے سجدہ کر دے تو کفر فعلی ہے۔ کفر قولی یہ ہے کہ کوئی شخص یہ کہہ دے کہ خدا 2139کے ساتھ صفتوں میں یا فعل میں کوئی شریک ہے۔ اسی طرح یہ کہنا بھی کفر قولی ہے کہ رسول اﷲﷺ (حضرت محمد مصطفیٰﷺ) کے بعد کوئی اور نیا پیغمبر آئے گا۔ کیونکہ تواتر توارث کی ذیل میں ساری امت اس علم میں شریک رہی ہے کہ رسول اﷲﷺ کے بعد اور کوئی نبی نہیں آئے گا۔
اسی طرح کوئی شخص اگراپنے مساوی سے کہہ دے کہ کلمہ بکا تو وہ کوئی چیز نہیں۔ استاد اور باپ سے کہے تو اسے عاق کہتے ہیں۔ پیغمبر کے ساتھ یہ معاملہ کرے تو کفر صریح ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(ختم نبوت کے دلائل)
نبوت کے ختم ہونے کے بارہ میں ہمارے پاس کوئی دو سو حدیثیں ہیں۔ قرآن مجید اور اجماع بالفعل ہے اور ہر نسل اگلی نے پچھلی سے اس کو لیا ہے اور کوئی مسلمان جو اسلام سے تعلق رکھتا ہے وہ اس عقیدہ سے غافل نہیں رہا۔ اس عقیدہ کی تحریف کرنا اور اس سے انحراف کرنا صریح کفر ہے۔ اسلام سے شناخت مسلمانوں کی اور مسلمانوں کے اشخاص شناخت ہیں اسلام کی۔ اگر اجماع کو درمیان میں سے اٹھادیا جاوے تو دین سے وہ گیا۔
جو دین محمدی کا اقرار نہ کرے۔اسے کافر کہتے ہیں۔ جسے اندر سے اعتقاد نہ ہو۔ زبان سے کہتا ہو۔ اسے منافق کہتے ہیں۔ جو زبان سے اقرار کرتا ہو۔ لیکن دین کی حقیقت بدلتا ہو، اسے زندیق کہتے ہیں اور وہ پہلی دو قسموں سے زیادہ شدید کافر ہے۔
ارتداد کے معنی یہ ہیں کہ دین اسلام سے ایک مسلمان کلمۂ کفر کہہ کر اور ضروریات ومتواترات دین میں سے کسی چیز کا انکار کر کے خارج ہو جائے گا، اور ایمان یہ ہے کہ سرور عالم حضرت محمد مصطفیٰﷺ جس چیز کو اﷲتعالیٰ کی جانب سے لائے ہیں اور اس کا ثبوت بدیہات اسلام سے ہے اور ہر مسلمان خاص وعام اسے جانتے ہیں۔ اس کی تصدیق کرنا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(ضروریات دین)

ضروریات دین وہ چیز ہیں کہ جن کو خواص وعوام پہچانیں کہ یہ دین سے ہیں جن سے اعتقاد توحید کا، رسالت کا، اور پانچ نمازوں کا اور مثل ان کے اور چیزیں۔
شریعت کے اگر کسی لفظ کو بحال رکھا جاکر اس کی حقیقت کو بدل دیا جاوے اور وہ معاملہ متواترات سے ہو تو وہ کفر صریح ہے۔ کفر وایمان کی اس شرعی حقیقت کے بیان کرنے سے یہ بات 2140واضح ہو جاتی ہے کہ ایک مسلمان بعض قسم کے افعال یا اقوال کی وجہ سے کافر اور خارج از اسلام ہو جاتا ہے۔ختم نبوت کا عقیدہ بایں معنی کہ آنحضرتa کی نبوت کے بعد کسی کو عہدہ نبوۃ نہ دیا جائے گا۔ بغیر کسی تاویل اور تخصیص کے ان اجماعی عقائد میں سے ہے جو اسلام کے اصولی عقائد میں سے سمجھایا گیا ہے اور آنحضرتa کے عہد سے لے کر آج تک نسلاً بعد نسلٍ ہر مسلمان اس پر ایمان رکھتا ہے۔
اور یہ مسئلہ قرآن مجید کی بہت سی آیات سے اور احادیث متواترۃ المعنی سے اور قطعی اجماع امت سے روزروشن کی طرح ثابت ہے اور اس کا منکر قطعاً کافر مانا گیا ہے اور کوئی تاویل وتخصیص اس میں قبول نہیں کی گئی۔ اس میں اگر کوئی تاویل یا تخصیص نکالی جاوے تو وہ شخص ضروریات دین میں تاویل کرنے کی وجہ سے منکر ضروریات دین سمجھا جائے گا۔
یہ اصول ہیں جن کے تحت میں اور بھی ایسے بہت سے فروع موجود ہیں جو مستقل موجبات کفر ہوسکتے ہیں۔
فریق ثانی کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ ایمان یہ ہے کہ اﷲتعالیٰ پر۔ اس کے فرشتوں پر۔ اس کی کتابوں پر۔ اس کے رسولوں پر اور بعث بعد الموت پر اور تقدیر پر یقین رکھاجاوے اور اسلام گواہی دیتا ہے اس بات کی کہ سوائے اﷲ کے کوئی معبود نہیں اور محمدﷺ اس کے رسول ہیں، اور نماز کا ادا کرنا اور زکوٰۃ کا دینا اور رمضان کے روزے رکھنا اور بیت اﷲ شریف کا حج ادا کرنا اگر استطاعت ہو، اور جو شخص زبان سے ’’لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ‘‘ کہے اور دل سے اس کے مطالب کی تصدیق کرے تو ایسا شخص یقینی طور پر مؤمن ہے۔ اگرچہ وہ فرائض اور محرمات سے بے خبر ہو اور اسلام کے معنی یہ ہیں کہ اﷲتعالیٰ نے جو فرائض اور محرمات بیان کئے ہیں کہ بعض اشیاء حلال اور بعض حرام ہیں ان پر بلاکسی اعتراض کے اپنی رضامندی کا اظہار کیا جاوے اور جو شخص ان اعمال صالحہ کا پابند ہو کہ جو قرآن مجید میں ایک 2141مؤمن کا طغرائے امتیاز قرار دئیے گئے ہیں تو وہ شخص مؤمن اور مسلمان ہے۔
یہ باتیں ایسی ہیں کہ جو ارکان اسلام سے تعلق رکھتی ہیں اور جن کے جزو ایمان ہونے میں فریق مدعیہ کو بھی کوئی کلام نہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ آیا ان باتوں پر فریق ثانی کا عقیدہ ان اصولوں کے تحت جو فریق مدعیہ کی طرف سے بیان کئے گئے ہیں۔ ویسا ہی ہے جیسا کہ دیگر عام مسلمانوں کا یا کہ اس سے مختلف۔ کیونکہ مدعیہ کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ جو شخص عقائد اسلام ظاہر کرے اور قرآن وحدیث کے اتباع کا دعویٰ بھی کرے۔ لیکن ان کی ایسی تاویل اور تحریف کردے کہ جس سے ان کے حقائق بدل جائیں تو وہ مسلمان نہیں سمجھا جاسکتا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(تواتر اور مرزاصاحب)
مدعیہ کی طرف سے دین اسلام کے ثبوت کے متعلق جو بنیادی اصول اور قواعد بیان کئے گئے ہیں ان کا مدعا علیہ کی طرف سے کوئی اطمینان بخش جواب نہیں دیا گیا۔ حالانکہ تواتر اور اجماع کے اصولوں کو خود ان کے پیشوا مرزاغلام احمد صاحب نے بھی تسلیم کیا ہے۔
چنانچہ وہ اپنی کتاب (ایام الصلح ص۸۷، خزائن ج۱۴ ص۳۲۳) میں لکھتے ہیں کہ: ’’وہ امور جو اہل سنت کی اجماعی رائے سے اسلام کہلاتے ہیں۔ان سب کا ماننا فرض ہے۔‘‘
ایک دوسری کتاب (انجام آتھم ص۱۴۴، خزائن ج۱۱ ص ایضاً) میں لکھتے ہیں کہ: ’’جو شخص اس شریعت پر مقدار ایک ذرہ کے زیادتی کرے یا اس میں سے کمی کرے یا کسی عقیدہ اجماعیہ کا انکار کرے۔ اس پر اﷲ کی لعنت اور ملائکہ کی لعنت اور تمام آدمیوں کی لعنت۔ یہ میرا اعتقاد ہے۔‘‘
اور کتاب (ازالۂ الاوہام ص۵۵۶، خزائن ج۳ ص۳۹۹) پر لکھتے ہیں کہ: ’’تواتر کی جو بات ہے وہ غلط نہیں ٹھہرائی جاسکتی اور تواتر اگر غیرقوموں کا بھی ہو تو وہ بھی قبول کیا جائے گا۔‘‘
مدعیہ کے گواہان کے بیان کردہ اصول اور قواعد کے مقابلہ میں مدعا علیہ کے گواہان نے جو کچھ بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ علماء اور ائمہ کی اندھی تقلید نہایت مذموم ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ پہلے علماء جو کچھ تفسیروں میں لکھ گئے ہیں۔ ہم آنکھ بند کر کے ان پر ایمان لے آویں۔ بلکہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کے فتاویٰ اور اقوال کو کتاب اﷲ اور سنت رسول اﷲa اور عقل سلیم کی کسوٹی پر پرکھیں اور جو قرآن اور سنت سے صحیح ثابت ہو اسے اختیار کریں اور مخالف کو چھوڑ دیں کہ جو شخص کسی حدیث کو یا قول کو قرآن مجید 2142کے واقعی طور پر خلاف ثابت کردے تو اس کا قول معتبر ہوگا اور کہ اگر کوئی شخص کسی فن کا امام ہو یا نہ ہو۔ اگر کوئی بات کسی دلیل کے ساتھ ثابت کر دے تو وہ مان لی جائے گی۔ صحابہ بھی تفسیر میں غلطی کرتے تھے۔ یہ بیان مولوی جلال الدین صاحب شمس گواہ مدعا علیہ کا ہے۔ اس کا دوسرا گواہ بیان کرتا ہے کہ کوئی شخص جو کلام کرتا ہے اس کلام کے معنی وہی بہتر سمجھتا ہے اور اس کلام کے معنی جو وہ بیان کرے گا یا تاویل کرے گا وہی مقدم ہوگی اور کہ گواہ مذکور کے نزدیک قرآن مجید کے سوا اور کوئی چیز مسلم نہیں۔ سوائے اس کے جو قرآن مجید سے تطابق رکھتی ہو اور جو قرآن شریف کو پڑھتا ہے وہ خود تطابق کر سکتا ہے اور میرے لئے قرآن شریف کی مطابقت دیکھنے کے لئے میرے واجب الاطاعت اماموںکی بیان فرمودہ مطابقت یا میری اپنی مطابقت مسلم ہے اور کہ ہر وہ بات جس کی تائید قرآن شریف سے نہیں ہوتی اور قرآن شریف کی تصدیق یافتہ احادیث نبویہ سے بھی جس کلام کی تصدیق نہیں ہوتی یا اماموں کے ایسے اقوال کہ جن اقوال کی تصدیق قرآن اور حدیث سے نہیں ہوتی اس کے علاوہ اور مصنّفین کی کتابیں جن کی تصدیق قرآن اور حدیث سے نہیں ہوتی۔ وہ مجھ پر حجت نہیں ہیں اور کہ قرآن کی تفسیر کے لئے کسی خاص شخص کی تعین نہیں کہ وہ جو معنی کرے گا خواہ وہ کیسے ہی ہوں اس کو مانا جاوے اور اس کے خلاف معنی کو رد کیا جاوے۔ اگر صحابہ سے کوئی صحیح تفسیر ثابت ہو جائے جس کے خلاف قرآن کی کوئی تصریح نہ ہو اور صحیح مرفوع متصل حدیثوں کی بھی تصریح نہ ہو۔ زبان عربی کی بھی کوئی تصریح ان معنوں کے خلاف نہ ہو۔ وہ بہرحال مقدم ہوگی اور اس کے خلاف معنی کرنے والے کو محض اس لئے کہ وہ ان معنوں کے خلاف کر رہا ہے۔ خاطی نہیں کہا جاسکتا۔ جب تک کہ قرآنی تصریح کے خلاف معنی نہ کئے جاویں۔
صحابہ کرامؓ کی طرف سے منسوب شدہ بات کہ انہوں نے کی ہے یا کہی ہے یا تحقیق کی ہے۔ اگر قرآن شریف کے مطابق ہے تو قابل قبول ہے۔ اگر صحابہ کرامؓ کی طرف منسوب شدہ بات کو ثابت شدہ اس لحاظ سے کہا جاتا ہے کہ ان تک روایت پہنچتی ہے تو اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ اگر کسی غیرصحابی کی تحقیق بشرطیکہ قرآن شریف کی صحیح نصوص 2143کے مطابق ہو۔ عربی زبان کی سند ساتھ رکھتی ہو۔ دیگر احادیث میں بھی تائید رکھتی ہو تو صحابی کی تحقیق سے مقدم ہے۔ ان شرائط کے بغیر اگر کوئی غیرصحابی کوئی تحقیق پیش کرتا ہے اگر وہ پیش کرنے والا خدا کی طرف سے ملہم اور مامور نہیں ہے کہ جس کی وحی والہام کی تصدیق قرآن پاک کی تصریحات سے ہو چکی ہو۔ بلکہ عام شخص ہے تو اس کی ذاتی رائے اوپر کی شرائط سے علیحدہ کر کے صحابی کی بیان کردہ تصریح سے سننے والے اور ماننے والے کے اختیار پر ہوگی کہ اسے راجح سمجھے یا نہ سمجھے۔کسی حدیث کو قرآن کی مطا بقت میں صحیح قرار دینے والا خود مختار ہے کہ وہ اپنے استدلال کی رو سے اسے مطابق قرار دے یا تصریح کے لحاظ سے مطابق قرار دے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(معقولیت کس میں ہے؟)
اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہر دو فریق کے بیان کردہ اصولوں میں سے معقولیت کس میں ہے۔ ایک تو اپنے دین کی بنیاد چند منظم اصولوں پر کہ جن کو قدامت کی قوت حاصل ہے۔ قائم کر کے اسے بطور ایک ضابطہ اور قانون کے پیش کرتا ہے۔ دوسرا اسے ایک کھلونا بنا کر ہر کس وناکس کے ہاتھ میں دے دیتا ہے اور بجائے اس کے کہ دین کو ایک مستقل لائحہ عمل سمجھا جاوے۔ اسے ہر لمحہ وہر آن تغیر وتبدل کا متحمل قرار دیتے ہوئے ایک بازیچۂ اطفال بنادیتا ہے۔ کیونکہ اس کے نزدیک ہر شخص اس بات کا اہل اور مجاز ہوسکتا ہے کہ وہ جب چاہے بلاروک وٹوک اپنے اجتہاد کی بناء پر ایک نیا رستہ نکال کر اس پر چلنا شروع کر دے اور نہ کسی صحابی، نہ کسی امام، نہ کسی بزرگ، نہ کسی دوسرے ماہر فن کی کوئی پرواہ کرے۔ بلکہ شارع کے جس قول کو وہ درست سمجھے اور اس کا معنی جو وہ قرار دے۔ اس کے مطابق عمل کرے اور اگر اسے کوئی گرفت کرے تو فوراً اپنے قول کی کوئی تاویل گھڑ کر پیش کر دے اور چونکہ وہ تاویل مقدم سمجھی جائے گی۔ اس لئے کوئی بھی اس کا کچھ نہ بگاڑ سکے گا اور بیچارہ گرفت کرنے والا منہ کی کھا کر چپ ہو جائے گا۔ اس اصول کے تحت نہ صرف کسی دین کی بلکہ کسی قانون کی کوئی حقیقت نہیں رہتی۔ کیونکہ اس قسم کی وسعت ہر اس ضابطہ میں کہ جس کا اجراء بطور قانون مقصود ہو متصور ہوسکتی ہے اور اس صورت میں اس پر کبھی بھی عملدرآمد نہیں ہوسکتا اور وہ محض لفظ ہی لفظ رہ جاتا ہے۔
2144اگر ان اصولوں کو جو فریق ثانی کی طرف سے بیان کئے گئے ہیں۔ بروئے کار لایا جاوے تو دین نہ صرف دین کہلائے جانے کا ہی مستحق نہیں رہتا۔ بلکہ ایک مضحکہ انگیز چیز بن جاتا ہے اور بجائے اس کے کہ اس میں کوئی یکسانیت پیدا کی جاسکے ہر شخص انفرادی حیثیت سے اپنی منشاء کے مطابق اپنے لئے ایک علیحدہ دین بتاسکے گا۔
مذکورہ بالاتصریحات سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ مرزاصاحب کے دعویٰ سے قبل دین اسلام جن باتوں پر قائم تھا۔ اب کوئی ان کی اصلیت اور بنا نہیں رہی اور اب بناء صرف مرزاصاحب اور ان کے خلفاء کے اقوال وعقائد پر ہی ہے۔ کیونکہ فریق ثانی کے نزدیک اب ان اصحاب کے سوا نہ کسی پہلے صحابی کی نہ امام کی۔ نہ بزرگ کی کوئی بات مقدم اور صحیح ہے۔ بلکہ جو کچھ مرزاصاحب اور ان کے خلفاء نے کہا ہے اور لکھا ہے۔ وہی درست ہے اور ان کی کتابوں کے سوا اور کوئی کتاب حجت نہیں ہے۔ اس سے صاف طور پر یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ مرزاصاحب کا دین اس دین اسلام سے مختلف ہے۔ جو مرزاصاحب کے دعویٰ سے قبل مسلمان سمجھتے آئے ہیں۔ اس لئے مدعیہ کی طرف سے بجا طور پر کہاگیا ہے کہ مذہب کے لحاظ سے ہر دو فریق میں قانون کا اختلاف ہے اور مدعیہ کی طرف سے بھی یہ تسلیم کیاگیا ہے کہ ان کے درمیان اصولی اختلاف بھی ہے اور فروعی بھی اور سید انور شاہ صاحبؒ گواہ مدعیہ بیان کرتے ہیں کہ احمدی مذہب والے نے مہمات دین کے بہت سے اصولوں کو تبدیل کر دیا ہے اور بہت سے اسماء کا مسمٰی بدل دیا ہے۔ آگے ظاہر ہو جائے گا کہ اس میں کہاں تک صداقت ہے۔
اب وہ عقائد بیان کئے جاتے ہیں کہ جن کی بناء پر فریق ثانی کی نسبت یہ کہا جاتا ہے کہ وہ مرتد اور کافر ہے۔ اس ضمن میں اہم وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ وہ مرزاغلام احمد صاحب کو نبی مانتا ہے۔ اس لئے یہ دکھانا پڑے گا کہ مرزاصاحب کے اعتقادات کیسے ہیں؟ اور کیا وہ نبی ہوسکتے ہیں یا ؟نہ اور ان کو نبی ماننے سے کیا قباحت لازم آتی ہے؟ اور کیا ان کے اقوال ایسے ہیں کہ ان کی بناء پر انہیں مسلمان قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس لئے ان کے اتباع سے مدعا علیہ کو بھی مسلمان 2145نہیں سمجھا جاسکتا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(قادیانیوں کے وجوہ کفر)
سید انور شاہ صاحبؒ گواہ مدعیہ نے ان اصولوں کے تحت جو ان کے بیان کے حوالہ سے اوپر بیان کئے جاچکے ہیں۔ چھ وجوہات ایسی بیان کی ہیں کہ جن کی بناء پر ان کے نزدیک مرزاصاحب باجماع امت کافر اور مرتد قرار دئیے جاسکتے ہیں اور جن کی وجہ سے ان کی رائے میں ہندوستان کے تمام اسلامی فرقے باوجود سخت اختلاف خیال اور اختلاف مشرب کے ان کے کفر وارتداد اور ان کے متبعین کے کفر اور ارتداد پر متفق ہیں۔ یہ وجوہات حسب ذیل ہیں:
۱… ختم نبوت کا انکار اور اس کے اجماعی معنی کی تحریف اور جس مذہب میں سلسلہ نبوت منقطع ہو۔ اس کو لعنتی اور شیطانی مذہب قرار دینا۔
۲… دعویٰ نبوت مطلقہ وتشریعہ۔
۳… دعویٰ وحی اور اپنی وحی کوقرآن کے برابر قرار دینا۔
۴… حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہین۔
۵… آنحضرتﷺ کی توہین۔
۶… ساری امت کو بجز اپنے متبعین کے کافر کہنا۔
تقریباً یہی وجوہات دیگر گواہان مدعیہ نے بھی بیان کی ہیں۔ اب ذیل میں حسب بیانات گواہان مذکوران وجوہات کی تشریح درج کی جاتی ہے۔
امور نمبر ۱تا۳، ایک ہی نوعیت کے ہیں۔ لہٰذا ان پرجو بحث کی گئی ہے وہ یکجا درج کی جاتی ہے۔ اس ضمن میں مرزاصاحب کے حسب ذیل اقوال پر جوان کی مطبوعہ کتب میں موجود ہیں اعتراض کیاگیا ہے۔
۱… ’’اوائل میں میرا بھی یہی عقیدہ تھا کہ مجھ کو مسیح ابن مریم سے کیانسبت۔ وہ نبی ہے اور خدا کے بزرگ مقربین میں سے ہے اور اگر کوئی امر میری فضیلت کی نسبت ظاہر ہوتا تو اس کو جزوی فضیلت قراردیتا تھا۔ مگر بعد میں جو خدتعالیٰ کی وحی 2146بارش کی طرح میرے پر نازل ہوئی۔ اس نے مجھے اس عقیدہ پر قائم نہ رہنے دیا اور صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیا گیا۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۱۴۹، ۱۵۰، خزائن ج۲۲ ص۱۵۳،۱۵۴)
۲… ’’الہامات میں میری نسبت باربار بیان کیاگیا کہ یہ خدا کا فرستادہ، خدا کا مامور، خدا کا امین اور خدا کی طرف سے آیا ہے جو کچھ کہتا ہے اس پر ایمان لاؤ اور اس کا دشمن جہنمی ہے۔‘‘
(انجام آتھم ص۶۲، خزائن ج۱۱ ص ایضاً)
۳… ’’مجھے اپنے وحی پرویسا ہی ایمان ہے جیسا کہ توراۃ، انجیل اور قرآن پاک پر اور کیا انہیں مجھ سے یہ توقع ہوسکتی ہے کہ میں ان کی ظنیات بلکہ موضوعات کے ذخیرہ کو سن کر اپنے یقین کو چھوڑ دوں گا۔‘‘
۴… ’’میں اس پاک وحی پر ایسا ہی ایمان لاتا ہوں جیسا کہ ان تمام خدا کی وحیوںپر ایمان لاتا ہوں۔ جو مجھ سے پہلے ہوچکی ہیں۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۱۵۱، خزائن ج۲۲ ص۱۵۴)
۵… ’’ہاں یہ نبوۃ تشریعی نہیں جو کتاب اﷲ کومنسوخ کرے اور نئی کتاب لائے ایسے دعویٰ کو تو ہم کفر سمجھتے ہیں۔‘‘
(ضمیمہ حقیقت النبوۃ ص۲،۳)
۶… ’’اگر کہو کہ صاحب شریعت افتراء کر کے ہلاک ہوتا ہے، نہ کہ ہر مفتری، تو اوّل تو یہ دعویٰ بلادلیل ہے۔ خدا نے افتراء کے ساتھ شریعت کی قید نہیں لگائی۔ ماسواء اس کے یہ بھی تو سمجھو کہ شریعت کیا چیز ہے۔ جس نے اپنی وحی کے ذریعہ سے چند امرونہی بیان کئے اور اپنی امت کے لئے ایک قانون مقرر کیا وہی صاحب شریعت ہو گیا۔ پس اس تعریف کی رو سے بھی ہمارے مخالف ملزم ہیں۔ کیونکہ میری وحی میں امر بھی ہے اور نہی بھی۔
’’اور ایسا ہی اب تک میری وحی میں امر بھی ہوتے ہیں اور نہی بھی اور اگر کہو کہ شریعت سے وہ شریعت مراد ہے۔ جس میں نئے احکام ہوں تو یہ باطل ہے۔ اﷲتعالیٰ فرماتا ہے۔ ’’ان ہذا لفی الصحف الا ولیٰ صحف 2147ابراہیم وموسیٰ‘‘ یعنی قرآنی تعلیم توراۃ میں بھی موجود ہے اور اگر یہ کہو کہ شریعت وہ ہے جس میں باستیفاء امر ونہی کا ذکر ہو تو یہ بھی باطل ہے۔ کیونکہ اگر تورات اور قرآن شریف میں باستیفاء احکام شریعت کا ذکر ہوتا تو پھر اجتہاد کی گنجائش نہ رہتی۔ غرض یہ سب خیالات فضول اور کوتاہ اندیشیاں ہیں۔‘‘
(اربعین نمبر۴ ص۶، خزائن ج۱۷ ص۴۳۵،۴۳۶)
اس کتاب کے (حاشیہ ص۶، خزائن ج۱۷ ص۴۳۵) پر لکھتے ہیں: ’’کیونکہ میری تعلیم میں امر بھی ہے اور نہی بھی اور شریعت کے ضروری احکام کی تجدید ہے۔ اس لئے خداتعالیٰ نے میری تعلیم کو اور اس وحی کو جو میرے پر ہوتی ہے فلک یعنی کشتی کے نام سے موسوم کیا ہے۔ جیسا کہ ایک الہام الٰہی کی یہ عبارت ہے۔‘‘
(اس کا ترجمہ یہ ہے کہ اس کشتی کو ہماری آنکھوں کے سامنے اور ہماری وحی سے بنا جو لوگ تجھ سے بیعت کرتے ہیں وہ خدا سے بیعت کرتے ہیں۔ یہ خدا کا ہاتھ ہے جو ان کے ہاتھوں پر ہے)
اب دیکھو خدا نے میری وحی، میری تعلیم اور میری بیعت کو نوح کی کشتی قرار دیا ہے اور تمام انسانوں کے لئے اس کو مدار نجات ٹھہرایا ہے۔ جس کی آنکھیں ہوں دیکھے۔ جس کے کان ہوں سنے۔
۸… ’’نبی کے حقیقی معنوں پر غور نہیں کی گئی۔ نبی کے معنی صرف یہ ہیں کہ خدا سے بذریعہ وحی خبر پانے والا ہو اور شرف مکالمہ ومخاطبہ الٰہیہ سے مشرف ہو۔ شریعت کا لانا اس کے لئے ضروری نہیں اور نہ یہ ضروری ہے کہ صاحب شریعت رسول کا متبع ہو۔ بلکہ فساد اس حالت میں لازم آتا ہے کہ اس امت کو آنحضرتa کے بعد قیامت تک مکالمات الٰہیہ سے بے نصیب قرار دیا جاوے۔ وہ دین، دین نہیں۔ نہ وہ نبی، نبی ہے۔ جس کی متابعت سے انسان خداتعالیٰ سے اس قدر نزدیک نہیں ہو 2148سکتا کہ مکالمات الٰہیہ سے مشرف ہو سکے۔ وہ دین لعنتی اور قابل نفرت ہے جو یہ سکھلاتا ہے کہ صرف چند منقولی باتوں پر انسانی ترقیات کا انحصار ہے اور وحی الٰہی آگے نہیں بلکہ پیچھے رہ گئی۔ اگر کوئی آواز بھی غیب سے کسی کے کان تک پہنچتی ہے تو وہ ایسی مشتبہ آواز ہے کہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ خدائی آواز ہے یا شیطان کی۔ سو ایسا دین بہ نسبت اس کے کہ اس کو رحمانی کہیں شیطانی کہلانے کا زیادہ مستحق ہے۔‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ ص۱۳۸،۱۳۹، خزائن ج۲۱ ص۳۰۶)
۹… ’’سچا خداوہی خدا ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا۔‘‘
(دافع البلاء ص۱۱، خزائن ج۱۸ ص۲۳۱)
۱۰… ’’اور مجھے بتلایا گیا تھا کہ تیری خبر قرآن وحدیث میں موجود ہے اور تو ہی اس آیت کا مصداق ہے۔ ہو الذی ارسل رسولہ بالہدیٰ… الخ! ‘‘ (اعجاز احمدی ص۷، خزائن ج۱۹ ص۱۱۳)
۱۱… ’’میں صرف پنجاب کے لئے ہی مبعوث نہیں ہوا ہوں بلکہ جہاں تک دنیا کی آبادی ہے ان سب کی اصلاح کے واسطے مامور ہوں۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۱۹۳ حاشیہ، خزائن ج۲۲ ص۲۰۰)
۱۲… ’’یہ نکتہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اپنے دعویٰ کے انکار کرنے والے کو کافر کہنا یہ صرف ان نبیوں کی شان ہے جو خداتعالیٰ کی طرف سے شریعت اور احکام جدیدہ لاتے ہیں۔ لیکن صاحب شریعت کے سوا جس قدر ملہم، محدث ہیں۔ گو وہ کیسے ہی جناب الٰہی میں شان اعلیٰ رکھتے ہوں اور خلعت مکالمہ الٰہیہ سے سرفراز ہوں ان کے انکار سے کوئی کافر نہیں بن جاتا۔‘‘
(تریاق القلوب ص۱۳۱، خزائن ج۱۵ ص۴۳۲)
۱۳… (حقیقت الوحی ص۱۰۳ حاشیہ، خزائن ج۲۲ ص۱۰۶) پر عبارت ذیل جاء نی آئیل… واشار کے تحت ایک نوٹ ہے جس میں لکھا ہے کہ ’’اس جگہ آئیل خداتعالیٰ نے جبرائیل کا نام رکھا ہے۔ اس لئے باربار رجوع کرتا ہے۔‘‘
۱۴… ’’غرض اس حصہ کثیر وحی الٰہی اور امور غیبیہ میں اس امت میں سے میں ہی ایک فرد 2149مخصوص ہوں اور جس قدر مجھ سے پہلے اولیاء ابدال اور اقطاب اس امت میں سے گذر چکے ہیں۔ ان کو یہ حصہ کثیر اس نعمت کا نہیں دیا گیا۔ پس اس وجہ سے نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیاگیا اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں ہیں۔ کیونکہ کثرت وحی اور کثرت امور غیبیہ اس میں شرط ہے اور وہ شرط ان میں پائی نہیں جاتی۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۳۹۱، خزائن ج۲۲ ص۴۰۶،۴۰۷)
۱۵… ’’حسب تصریح قرآن کریم، رسول اس کو کہتے ہیں کہ جس نے احکام وعقائد دین جبرائیل کے ذریعہ سے حاصل کئے ہوں۔‘‘ (ازالتہ الاوہام ص۵۳۴، خزائن ج۳ ص۳۸۷)
۱۶… ایک وحی باالفاظ ذیل درج ہے۔ محمد رسول اﷲ اس کے متعلق لکھتے ہیں کہ ’’اس وحی میں میرا نام محمد رکھا گیا اور رسول بھی۔‘‘ (ایک غلطی کا ازالہ ص۱، خزائن ج۱۸ ص۲۰۷)
۱۷… (حقیقت الوحی ص۲۸، خزائن ج۲۲ ص۳۰) پر لکھتے ہیں۔ ’’مگر ظلی نبوۃ جس کے معنی ہیں کہ محض فیض محمدی سے وحی پانا وہ قیامت تک باقی رہے گی۔‘‘
۱۸… (کتاب حق الیقین ص۱۰۲) پر مرزاصاحب کا یہ قول نقل کیاگیا ہے کہ ’’علماء کو نبوۃ کا مفہوم سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے۔ قرآن کریم میں جو خاتم النّبیین کا لفظ آیا ہے جس پر الف، لام پڑے ہیں۔ اس سے بھی صاف معلوم ہوتا ہے کہ شریعت لانے والی نبوۃ اب بند ہو چکی ہے۔ پس اگر کوئی نئی شریعت کا مدعی ہوگا وہ کافر ہے۔‘‘
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(قادیانی عبارتوں کے نتائج)

ان حوالہ جات سے جو نتائج اخذ کئے گئے ہیں وہ باالفاظ مولوی مرتضیٰ حسن صاحبؒ گواہ مدعیہ ذیل میں درج کئے جاتے ہیں۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ جناب مرزاصاحب اور مرزامحمود صاحب اور ان کے تمام متبعین کا یہ عقیدہ ہے کہ رسول اﷲﷺ کے بعد نبوۃ تشریعی کا دروازہ بند ہے۔ آپﷺ کے بعد جو نبوت تشریعی کا دعویٰ کرے وہ کافر اور اسلام سے خارج ہے۔ قول نمبر۶ میں مرزاصاحب نے اپنی تشریعی نبوت کا کھلے الفاظ میں دعویٰ کیا ہے اور اس میں چند باتوں کی تشریح مرزاصاحب نے خود فرمائی۔ ایک یہ کہ شریعت کیا چیز ہے۔ جس کی وحی میں امر یا نہی ہو۔ 2150جس نے اپنی امت کے لئے کوئی قانون مقرر کیا ہو وہی صاحب شریعت ہوگیا۔ یہ تعریف کر کے مرزاصاحب اپنا صاحب شریعت ہونا ثابت کرتے ہیں۔ اس لئے مرزاصاحب اپنے اقرار سے خود کافر ہوگئے۔ مرزاصاحب نے یہ بھی صاف فرمادیا ہے کہ وحی میں جو حکم یا نہی ہو۔ یہ ضروری نہیں کہ وہ حکم نیا ہو۔ بلکہ اگر پہلی شریعت کا بھی حکم اس کے پاس بذریعہ وحی کے آئے تو بھی یہ صاحب شریعت ہونے کے لئے کافی ہے۔ مرزاصاحب نے اپنی بہت سی وحی وہ بیان کی ہے جو کہ آیات قرآنی ہیں۔ اس لئے وہ بھی مرزاصاحب کی شریعت ہوگئی۔ مرزاصاحب نے اس شبہ کا بھی جواب دے دیا کہ صاحب شریعت کے لئے یہ ضروری نہیں کہ اس کی شریعت میں نئے احکام ہوں۔ کیونکہ اﷲتعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ یہ قرآن پہلی کتابوں میں بھی ہے۔ ابراہیم اور موسیٰ علیہم السلام کے صحیفوں میں بھی۔ اب اگر شریعت جدید کے لئے یہ ضروری ہو کہ اس نبی کی شریعت اور وحی اور کتاب میں سب نئے احکام ہوں تو لازم آتا ہے کہ رسول اﷲﷺ بھی صاحب شریعت نہ ہوں۔ کیونکہ قرآن میں سارے احکام نئے نہیں۔ اس کلام کا صاف مطلب یہ ہے کہ جس طرح پہلے انبیاء رسول اﷲ صاحب شریعت نبی ہیں۔ ویسے ہی مرزاصاحب بھی صاحب شریعت نبی ہیں۔
مرزاصاحب نے یہ بھی صاف کر دیا کہ اگر کوئی یہ کہے کہ شریعت کے لئے یہ ضروری ہے کہ تمام اوامر ونواہی اس شریعت اور کتاب اور وحی میں پورے پورے بیان ہونے چاہئیں تو یہ بھی باطل ہے۔ کیونکہ تمام احکام تورات اور قرآن مجید میں بھی مذکور نہیں اگر تمام احکام قرآن مجید میں مذکور ہوتے تو پھر اجتہاد کی گنجائش باقی نہ رہتی۔ اس سے معلوم ہوگیا کہ اگر کوئی مدعی نبوت ایک امرونہی کا بھی دعویٰ کرے اگرچہ وہ امر ونہی پرانی ہو تو وہ نبی صاحب شریعت کہلایا جائے گا اور اس میں اور رسول اﷲﷺ میں بایں معنی کچھ فرق نہیں کہ یہ دونوں صاحب شریعت ہیں۔
یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ اگر کسی نبی کو خدا کا بھی حکم آوے کہ تجھ کو ہم نے نبی کر کے 2151بھیجا ہے اور تو لوگوں پر اس حکم کی تبلیغ کر اور جو کوئی اس حکم کو نہ مانے گا وہ کافر ہے۔ تو وہ نبی بھی صاحب شریعت اور نبی تشریعی ہوگیا۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ جو نبی حقیقی ہے اور جو نبی شرعی ہے اس کے لئے نبی تشریعی ہونا ضروری ہے۔ اس لئے مرزاصاحب اپنی تحریر اور اس اقرار کے مطابق کافر ہوئے۔ اس کے علاوہ مرزاصاحب نے یہ بھی فرمایا کہ میری کشتی کو کشتی نوح قرار دیا گیا ہے۔ جو اس میں ہوگا وہ نجات پائے گا اور جو ایسا نہ ہوگا وہ ہلاک ہو گا۔ یہ مرزاصاحب کی شریعت کا نیا حکم ہے جس نے شریعت محمدیہ کو منسوخ کیا۔ مرزاصاحب نے ایک نیا حکم یہ بھی دیا ہے کہ ان کی عورتوں کا نکاح غیراحمدیوں سے جائز نہیں۔ یہ بھی حکم شریعت محمدیہ کے خلاف ہے۔
(یہ نتیجہ بحوالہ کتاب انوار الخلافۃ مرتبہ مرزامحمود صاحب ص۹۳،۹۴ اخذ کیا گیا ہے)
مرزاصاحب کی شریعت میں ایک نیا حکم اور یہ بھی ہے جو تمام اسلام کے خلاف ہے کہ مرزاصاحب نے اپنے مریدوں سے چندہ کی تحریک فرما کر یہ حکم فرمایا ہے کہ جو کوئی چندہ تین ماہ تک ادا نہ کرے گا وہ میری بیعت سے خارج ہے اور بیعت سے خارج ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اسلام سے خارج ہے اور کافر ہے۔ حالانکہ زکوٰۃ کے لئے بھی خدا نے یہ حکم نہیں دیا کہ اگر تین ماہ تک کوئی زکوٰۃ نہ دے تو وہ اسلام سے خارج ہو جائے گا۔ یہ حوالہ مرزاصاحب کے ایک فرمان سے جو لوح ہدیٰ میں قادیان سے دسمبر ۱۹۲۰ء میں شائع ہوئی، دیا گیا ہے۔ اس فرمان کے چیدہ چیدہ الفاظ حسب ذیل ہیں: ’’مجھے خدا نے بتلایا ہے کہ میری انہی سے پیوند ہے۔ یعنی وہی خدا کے دفتر میں مرید ہیں جو اعانت اور نصرت میں مشغول ہیں… ہر ایک شخص جو مرید ہے۔ اس کو چاہئے کہ وہ اپنے نفس پر کچھ ماہوار مقرر کر دے… جو شخص کچھ بھی مقرر نہیں کرتا… وہ منافق ہے۔ اب اس کے بعد وہ اس سلسلہ میں نہیں رہ سکے گا… اگر تین ماہ تک کسی کا جواب نہ آیا تو سلسلہ بیعت سے اس کا نام کاٹ دیا جائے گا۔‘‘
(اشتہار لنگر خانہ کے انتظام کے لئے، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۴۶۸،۴۶۹)
2152اس کے آگے گواہ مذکورہ آیت ’’ ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النّبیین ‘‘ کے حوالہ سے بیان کرتا ہے کہ آیت اس امر کی تصریح کرتی ہے کہ رسول اﷲﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں اور جب کوئی نبی آپﷺ کے بعد نہیں تو کوئی رسول بھی آپﷺ کے بعد بطریق اولیٰ نہیں۔ کیونکہ رسول نبی ہوتا ہے۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ جو نبی ہو وہ رسول بھی ہو اور اس کی تائید میں احادیث متواترہ ہیں۔ جن کو صحابہؓ کی ایک جماعت نے روایت کیا ہے۔ ایسی احادیث کا انکار کرنے والا ویسا ہی کافر ہوتا ہے جیسا کہ قرآن کا انکار کرنے والا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جو ختم نبوت کا انکار کرتا ہے وہ قرآن کا منکر ہو کر بھی کافر ہوا۔ اس کی تائید میں انہوں نے چند ائمہ دین کے اقوال نقل کئے ہیں اور ان سے یہ دکھلانا چاہا ہے کہ احادیث متواترہ میں یہ خبر درج ہے کہ رسول اﷲﷺ کے بعد کوئی نبی پیدا ہونے والا نہیں ہے اور کہ ہر وہ شخص جو آپﷺ کے بعد اس مقام نبوۃ کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا اور افتراء پرداز ہے۔ دجال اور گمراہ کرنے والا ہے۔ اگرچہ شعبدہ بازی کرے۔ قسم قسم کے جادو اور طلسم اور نیرنگیاں دکھلائے اور کہ جو شخص دعویٰ نبوت کرے وہ کافر ہے اور پھر ان حوالہ جات سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ یہ عقیدہ کہ رسول اﷲﷺ خاتم النّبیین ہیں، یقینی ہے اور اجماعی ہے کسی کا اس میں اختلاف نہیں ہے۔ کتاب اور سنت سے ثابت ہے اور آپﷺ کے بعد کوئی کسی قسم کی نبوۃ میں نبی نہ بنے گا۔ عیسیٰ علیہ السلام کا آنا اس کے منافی نہیں۔ کیونکہ وہ پہلے نبی بن چکے ہیں۔ خاتم الانبیاء کے معنی بھی یہی ہیں کہ اپنے عموم سے کسی نبی کو نبوت آپﷺ کے بعد نہیں مل سکتی۔ اس کی تائید میں چند دیگر آیات قرآنی اور احادیث بھی پیش کی گئی ہیں۔ جن کی یہاں تفصیل کی ضرورت نہیں اور ان کا حوالہ دیا جاکر یہ نتیجہ اخذ کیاگیا ہے کہ انکار ختم نبوت کفر، ادعا نبوت بھی کفر، اور ادعاء وحی بھی کفر ہے۔ البتہ ایک حدیث کا یہاں حوالہ دینا ضروری معلوم ہوتا ہے جس پر آگے مدعا علیہ کے جواب کے وقت بحث کی جاوے گی۔ وہ حدیث بایں مطلب ہے کہ رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ میری مثال اور ان انبیاء کی مثال جو مجھ سے پہلے تھے اس شخص کی سی ہے کہ جس نے ایک مکان تعمیر 2153کیا اور بہت اچھا اور بہت خوبصورت اس کو بنایا۔ مگر اس کے کونے میں ایک اینٹ کی جگہ باقی رہی۔ لوگ اس مکان کو دیکھتے ہیں اور تعجب کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اینٹ کی جگہ خالی ہے۔ اس کو کیوں پر نہ کر دیا گیا۔ سو میں ہوں وہ اینٹ، اور میں ہوں خاتم النّبیین۔ اس حدیث سے یہ نتیجہ اخذ کیاگیا ہے کہ تعمیر بیت نبوت جو ابتدائے آفرنیش سے ہوئی تھی۔ وہ بدوں سرور عالمﷺ کے ناقص تھی۔ سرور عالمﷺ کے وجود باجود سے وہ مکمل ہوگئی اور بیت النبوۃ میں کوئی جگہ باقی نہیں رہی۔ اب اگر کوئی اینٹ ہوگی تو وہ بیت النبوۃ سے نہیں ہوسکتی۔ اگر کوئی شخص مدعی نبوت ہو گا تو خدا نے جو نبوت کا گھر تعمیر کیا ہے وہ اس کا جزو نہیں ہوسکتی۔
مرزاصاحب کے قول نمبر۱۵ سے یہ استدلال کیاگیا ہے کہ قرآن کریم سے صراحتاً یہ بات معلوم ہوئی کہ رسول اس کو کہتے ہیں جس نے احکام وقواعد دین جبرائیل علیہ السلام کے ذریعہ سے حاصل کئے ہوں۔ اگر مرزاصاحب نے احکام وعقائد اس ذریعہ سے حاصل نہیں کئے تو دعویٰ نبوت جھوٹ ہوا اور جھوٹا مدعی نبوت باتفاق کافر ہوتا ہے۔
مرزاصاحب کے قول نمبر۱۳ سے مولوی نجم الدین صاحب گواہ مدعیہ نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ مرزاصاحب اپنے پر جبرائیل علیہ السلام کے نزول کے مدعی ہیں اور صرف دعویٰ پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنی شان نبوت ورسالت کا سکہ جمانے کے لئے تمام خصوصیات نبوۃ ولوازمات رسالت کو نہایت جزم اور وثوق کے ساتھ اپنی ذات کے لئے ثابت کرنے میں کسر نہیں چھوڑی۔ جن خصوصیات کی وجہ سے انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی جماعت دوسرے مقربان بارگاہ الٰہی سے ممتاز ہوسکتی ہے۔ انبیاء علیہم السلام پر بھی نزول جبرائیل ہوا کرتا ہے اور ان کے وحی والہام قطعی ویقینی ہوا کرتے ہیں۔ اس طرح مرزاصاحب بھی اپنی وحی کو خدا کا کلام کہتے ہیں اور قرآن شریف کی طرح قطعی کہتے ہیں۔ یہ خصوصیات مذکورہ ایسی ہیں جو سوائے انبیاء علیہم السلام اصحاب شریعت کے اور کسی دوسرے مقرب بارگاہ الٰہی میں جمع نہیں ہوسکتیں۔ اس سے ثابت ہوا کہ مرزاصاحب حقیقی نبوت کے مدعی تھے اور اپنے آپ کو اس معنی میں نبی اور رسول 2154ظاہر کرتے تھے جس معنی میں دوسرے انبیاء علیہم السلام کو نبی یا رسول کہاگیا ہے۔
گواہان مدعیہ نے خود مرزاصاحب کی اپنی تحریرات سے بھی یہ دکھلایا ہے کہ وہ خود قبل از دعویٰ نبوت یہی عقیدہ رکھتے تھے کہ رسول اﷲﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا اور کہ آپa آخری نبی ہونے کے معنوں میں خاتم النّبیین ہیں۔ چنانچہ (ازالۃ الاوہام ص۵۲۳، خزائن ج۳ ص۳۸۰) پر مرزاصاحب لکھتے ہیں کہ: ’’مسیح کیونکر آسکتا ہے اور خاتم النّبیین کی دیوار روئیں اس کو آنے سے روکتی ہے۔‘‘
آگے اس کتاب کے (ص۵۳۴، خزائن ج۳ ص۳۸۷) پر لکھتے ہیں: ’’لیکن وحی نبوۃ پر تو تیرہ سو برس سے مہر لگ چکی۔ کیا یہ مہر اس وقت ٹوٹ جائے گی۔‘‘
اور کتاب (حمامتہ البشریٰ ص۲۰، خزائن ج۷ ص۲۰۰) میں آیت ’’ماکان محمد… خاتم النّبیین‘‘ کی تشریح میں لکھتے ہیں: ’’ہمارے نبیﷺ خاتم النّبیین ہیں۔ بغیر کسی استثناء کے اور ہمارے نبیﷺ نے بھی ارشاد فرمایا ہے کہ ہمارے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور ہمارے نبیﷺ کے بعد اگر ہم کسی نبی کے ظہور کے مجوز بنیں گے تو نبوت کا دروازہ بند ہونے کے بعد اس کو کھولنے کے قائل ہو جائیں گے اور یہ اﷲ کے وعدہ کے خلاف ہے۔ ہمارے نبیﷺ کے بعد کس طرح کوئی نبی آسکتا۔ حالانکہ آپﷺ کے بعد وحی کا انقطاع ہوچکا ہے اور نبی آپﷺ کے ساتھ ختم ہوچکے ہیں۔‘‘
پھر اس کتاب کے (ص۲۱، خزائن ج۷ ص۲۰۱) پر لکھتے ہیں کہ: ’’ہزارہا سال کے گزرنے کے بعد کسی ایسی حالت کا انتظار کیا جاسکتا ہے جس میں دین کی تکمیل ہو۔ اگر یہ مانا جائے تو دین کی تکمیل اور اس کے کمال سے فراغت کا سلسلہ بالکل غلط ہو جاتا ہے اور اﷲتعالیٰ کا یہ قول کہ ’’ الیوم اکملت لکم دینکم ‘‘ جھوٹی خبر ہوگئی اور خلاف واقع ہوگئی۔‘‘
اسی کتاب کے (ص۷۹، خزائن ج۷ ص۲۹۶)کے ایک حوالہ سے یہ دکھلایا گیا ہے کہ مرزاصاحب بھی پہلے دعویٰ نبوت کو کفر سمجھتے تھے۔ چنانچہ لکھتے ہیں کہ: ’’مجھ سے یہ نہیں ہوسکتا کہ میں نبوت کا دعویٰ کروں اور اسلام سے نکل جاؤں اور قوم کافرین کے ساتھ مل جاؤں۔‘‘
(ازالۃ الاوہام ص۵۸۳، خزائن ج۳ ص۴۱۴) پر لکھتے ہیں کہ: ’’یہ ظاہر ہے کہ یہ بات مستلزم محال ہے کہ خاتم النّبیین کے بعد پھر جبرائیل کی وحی رسالت کے ساتھ زمین پر آمدورفت شروع ہو جائے۔ ایک نئی کتاب اﷲ گو مضمون قرآن شریف سے توارد رکھتی ہو پیدا ہو جائے۔ جو امر مستلزم 2155محال ہے۔ وہ محال ہو جاتا ہے۔‘‘
لیکن اس کے بعد پھر (براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۸۵، خزائن ج۲۱ ص۱۱۱) میں یہ تحریر فرمایا کہ: ’’میں بھی تمہاری طرح بشریت کے محدود علم کی وجہ سے یہی اعتقاد رکھتا تھا کہ عیسیٰ ابن مریم آسمان سے نازل ہوگا اور باوجود اس بات کے کہ خداتعالیٰ نے براہین احمدیہ حصص سابقہ میں میرا نام عیسیٰ رکھا اور جو قرآن شریف کی آیتیں پیش گوئی کے طور پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف منسوب تھیں وہ سب آیتیں میری طرف منسوب کر دیں اور یہ فرمایا کہ تمہارے آنے کی خبر قرآن اور حدیث میں موجود ہے۔ مگر پھر بھی میں متنبہ نہ ہوا اور براہین احمدیہ حصص سابقہ میں وہی غلط عقیدہ اپنی رائے کے طور پر لکھ دیا اور شائع کر دیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے اور میری آنکھیں اس وقت تک بالکل بند رہیں جب تک کہ خدا نے باربار کھول کر مجھ کو نہ سمجھایا کہ عیسیٰ ابن مریم اسرائیلی تو فوت ہوچکا اور وہ واپس نہیں آئے گا۔‘‘
ایک اور جگہ (ایک غلطی کا ازالہ ص۸، خزائن ج۱۸ ص۲۱۲) پر لکھتے ہیں کہ: ’’آنحضرتﷺ کے بعد جو درحقیقت خاتم النّبیین تھے مجھے نبی اور رسول کے لفظ سے پکارا جانا کوئی اعتراض کی بات نہیں ہے اور نہ ہی اس سے مہر ختمیت ٹوٹتی ہے۔ کیونکہ میں بارہا بتلا چکا ہوں کہ میں بموجب آیت ’’وآخرین منہم لمّا یلحقوا بہم‘‘ بروزی طور پر وہی خاتم الانبیاء ہوں اور خدا نے آج سے بیس برس پہلے براہین احمدیہ میں میرا نام محمد اور احمد رکھا اور مجھے آنحضرتﷺ کا ہی وجود قرار دیا ہے۔ پس اس طور سے آنحضرتﷺ کے خاتم النّبیین ہونے میں میری نبوت سے کوئی تزلزل نہیں آیا۔ کیونکہ ظل اپنے اصل سے علیحدہ نہیں ہوتا۔‘‘
آگے (ایک غلطی کا ازالہ ص۱۱، خزائن ج۱۸ ص۲۱۵) پر لکھتے ہیں کہ: ’’یہ ممکن ہے کہ آنحضرتﷺ نہ ایک دفعہ بلکہ ہزار دفعہ دنیا میں بروزی رنگ میں آجائیں اور بروزی رنگ میں اور کمالات کے ساتھ اپنی نبوت کا بھی اظہار کریں اور یہ بروز خدا کی طرف سے ایک قرار یافتہ عہدہ تھا۔‘‘
پھر (حوالہ ایضاً) پر لکھتے ہیں کہ: ’’چونکہ وہ بروز محمدی جو قدیم سے موعود تھا وہ میں ہوں۔ اس لئے بروزی رنگ کی نبوۃ مجھے عطاء کی گئی ہے اور اس نبوۃ کے مقابل پر اب تمام دنیا بے دست وپا ہے۔ کیونکہ نبوت پر مہر ہے۔‘‘
ایک اور جگہ لکھا ہے کہ ’’کمالات متفرقہ جو تمام دیگر انبیا میں پائے جاتے ہیں وہ سب حضرت رسول 2156کریم میں ان سے بڑھ کر موجود تھے اور اب وہ سارے کمالات حضرت رسول کریم سے ظلی طور پر ہم کو عطاء کئے گئے ہیں… پہلے تمام انبیاء ظل تھے۔ نبی کریم کی خاص خاص صفات میں اور اب ہم ان تمام صفات میں نبی کریم کے ظل ہیں۔‘‘ (ملفوظات ج۳ ص۲۷۰) اس عبارت سے نتیجہ نکالا گیا ہے کہ ظل اور بروز کے الفاظ محض الفاظ ہی الفاظ ہیں۔ مراد ان سے حقیقت کاملہ نبوۃ ہے۔
ان تصریحات سے مولوی نجم الدین صاحب گواہ مدعیہ کا یہ استدلال ہے کہ مرزاصاحب نے قرآن حکیم کی آیات اور احادیث نبوی سے اپنی نبوۃ کے لئے جو دلائل پیش کئے ہیں وہ محض لاطائل اور بے معنی سعی ہے۔ کیونکہ مرزاصاحب براہین احمدیہ کے لکھتے وقت اور اس سے مدتوں پہلے اپنی قرآن دانی اور حکم فہمی کے مدعی تھے۔ اگر ان کو اس سے پہلے قرآن کی رو سے کسی نئے نبی کے آنے کا انکار تھا تو بعد میں قرآن کی کون سی آیت اتری یا نبی کریمﷺ کی کون سی حدیث پیدا ہوئی جس کی بناء پر مرزاصاحب نے نبوت کا ادعاء کیا۔ خاتم النّبیین کی آیت ’’الیوم اکملت لکم‘‘ کی آیت اس وقت بھی قرآن میں موجود تھیں۔ یہ ہر دو آیتیں قسم اخبار میں سے ہیں اور اوامر ونہی کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں۔ اگر ادعائے نسخ سے پناہ لے کر کوئی تاویل کی جاوے تو اوامر ونواہی میں جاری ہوسکتی ہے۔ اخبار میں نہیں ہوسکتی۔ یہ مسئلہ تمام اہل اسلام کے نزدیک مسلمہ اور متفق علیہ ہے۔ پھر کیونکر ازروئے قرآن یا حدیث اپنے کو ادعاء نبوۃ میں صادق کہہ سکتے ہیں۔
ختم نبوت کے معنی کو جیسا کہ عام عقیدہ ہے مرزاصاحب تسلیم کرتے ہیں اور اپنے کلام میں اس طرح اس کو استعمال کرتے ہیں۔ لیکن صرف اپنی خوش خیالی کو باقی رکھنے کے لئے بے محل اور خلاف محاورات عرب تاویل کر کے جان بچانے کی کوشش کی ہے۔
آگے وہ کہتے ہیں کہ مرزاصاحب نے خاتم النّبیین کے بعد بروزی طور پر اپنے آپ کو نبی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ مگر خود انہی کے کلام سے ثابت ہوتا ہے کہ جو شخص خاتم ہو اس کا 2157بروز بھی نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ وہ اپنی کتاب (تریاق القلوب ص۱۵۶، خزائن ج۱۵ ص۴۷۷ حاشیہ) پر لکھتے ہیں: ’’مگر مہدی معہود بروزات کے لحاظ سے بھی دنیا میں نہیں آئے گا۔ کیونکہ وہ خاتم الاولاد ہے۔‘‘
اس کتاب (تریاق القلوب ص۱۵۶، خزائن ج۱۵ ص۴۷۸ حاشیہ) پر لکھتے ہیں کہ: ’’یہ بعض اکابر اولیاء کے مکاشفات ہیں اور اگر احادیث نبویہ کو بغور دیکھا جاوے تو بہت کچھ ان سے ان مکاشفات کو مدد ملتی ہے۔ لیکن یہ قول اس حالت میں صحیح ٹھہرتا ہے جب کہ مہدی معہود اور مسیح موعود کو ایک ہی شخص مان لیا جاوے۔‘‘
اس حوالہ سے مرزاصاحب کا بروزی اور ظلی نبی ہونے کا دعویٰ بھی غلط ثابت ہوتا ہے اور یہ ثابت ہے کہ حضرت محمد رسول اﷲa خاتم النّبیین والمرسلین ہیں۔ آپa کے بعد جو شخص اپنے لئے ادعا نبوت کرے یا کسی دوسرے کو نبی مانے تو وہ تمام اہل اسلام کے نزدیک کافر، مرتد اور خارج از اسلام ہے۔ اس کی تائید کہ ظلی اور بروزی الفاظ محض الفاظ ہی ہیں اور کہ دراصل مرزاصاحب کی مراد حقیقی نبوت سے ہے۔ مرزاصاحب کے صاحبزادے بشیرمحمود صاحب کی ایک تحریر سے ہوتی ہے۔ جو اخبار الفضل مورخہ ۲۶؍نومبر ۱۹۱۳ء کے حوالہ سے مدعیہ کے گواہ مولوی مرتضیٰ حسن صاحبؒ نے نقل کی ہے اور جو باالفاظ ذیل ہے: ’’ہم جیسے خداتعالیٰ کی دوسری وحیوں میں حضرت اسماعیل، حضرت ادریس علیہم السلام کونبی پڑھتے ہیں۔ ایسے ہی خدا کی آخری وحی میں مسیح موعود کو بھی یا نبی اﷲ کے خطاب سے مخاطب دیکھتے ہیں اور اس نبی کے ساتھ کوئی لغوی یا ظلی یا جزوی کا لفظ نہیں پڑھتے کہ اپنے آپ کو خود بخود ایک مجرم فرض کر کے اپنی بریت کرنے لگ جائیں۔ بلکہ جیسے اور نبیوں کی نبوۃ کا ثبوت ہم دیتے ہیں۔ بلکہ اس سے بڑھ کر کیونکہ ہم چشم دید گواہ ہیں۔ مسیح موعود کی نبوت کا ثبوت دے سکتے ہیں۔ پھر لکھا ہے کہ خداتعالیٰ نے صاف لفظوں میں آپ کا نام نبی اور رسول رکھا اور کہیں بروزی اور ظلی نبی نہیں کہا۔ پس ہم خدا کے حکم کو مقدم کریں گے اور آپ کی تحریریں جن میں انکساری اور فروتنی کا غلبہ ہے اور جو نبیوں کی شان ہے اس کو ان الہامات کے تحت کریں گے۔‘‘
2158اس سے یہ نتیجہ اخذ کیاگیا ہے کہ مرزاصاحب نے یہ الفاظ انکساری اور تواضع کے طور پر لکھ دئیے ہیں۔ ورنہ ان کے معنی مراد نہیں ہیں۔ مرزاصاحب جہاں اپنے آپ کو بروزی یا ظلی یا مجازی نبی کہتے ہیں۔ اس کا مطلب صرف حقیقی نبی سمجھنا چاہئے۔
اسی طرح خلیفہ دوم اخبار الفضل مورخہ ۲۹؍جون ۱۹۱۵ء ہینڈ بل ص۳ کی سطر۱ میں تحریر فرماتے ہیں کہ: ’’مسیح موعود کو نبی اﷲ تسلیم نہ کرنا اور آپ کو امتی قرار دینا یا امتی گروہ میں سمجھنا گویا آنحضرتﷺ کو جو سید المرسلین وخاتم النّبیین ہیں۔ امتی قرار دینا ہے اور امتیوں میں داخل کرنا ہے جو کفر عظیم اور کفر بعد کفر ہے۔‘‘
ختم نبوت اور انقطاع وحی پر مولوی محمد حسین صاحب گواہ مدعیہ نے ایک اور دلیل پیش کی ہے۔ وہ یہ کہ قرآن شریف پر مجموعی طور پر نظر ڈالنے سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ آنحضرتﷺ آخری نبی ہیں اور آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا۔ جس کی توجیہ یہ ہے کہ اﷲ جل شانہ نے آدم علیہ السلام سے وحی نبوت کے جاری ہونے کے سلسلہ کی خبر دی ہے۔ یہ ابتداء وحی اور آغاز وحی ہے۔ اس کے بعد ہم نوح علیہ السلام کے زمانہ تک پہنچتے ہیں۔ قرآن شریف سے پتہ لیتے ہیں کہ آیا سلسلہ نبوت جاری ہے یا نہ، جواب ملتا ہے کہ ہاں جاری ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا گیا ہے۔ ’’ولقد رسلنا نوحا وابراہیم وجعلنا فی ذریتہما النبوۃ والکتاب‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت نوح علیہ السلام کے ذریت میں سلسلہ نبوت جاری ہے اور ذریت ابراہیم علیہ السلام میں بھی ابھی سلسلہ نبوت جاری ہے۔ دوسری بات اس سے یہ ثابت ہوئی کہ نبوۃ کا ظرف اور محل اٰل ابراہیم ہی ہے۔ جس کا عملی ثبوت یہ ہے کہ اﷲ عزاسمہ نے حضرت ابراہیم کی اولاد میں دو شعبہ قرار دیتے ہیں۔ ایک ’’بنی اسحاق‘‘ جن میں پہلے نبوت کا سلسلہ جاری رہا اور بہت انبیاء ان میں آئے اور یہ سلسلہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ختم ہوا۔ دوسرے ’’بنی اسماعیل‘‘ جن میں آنحضرتﷺ تک کوئی نبی نہ آیا۔ اس کے بعد موسیٰ علیہ السلام 2159کے زمانہ کی طرف نگاہ کی جائے تو قرآن شریف سے یہ معلوم ہوگا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد سلسلہ نبوت جاری ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے۔ ’’ ولقد ایتنا موسی الکتاب وقفینا من بعدہ بالرسل ‘‘ اس آیت سے یہ ثابت ہوا کہ موسیٰ علیہ السلام کے بعد سلسلہ نبوت جاری ہے اور کئی ایک رسولوں کے آنے کا وعدہ ہے۔ جیسا کہ لفظ ’’الرسل‘‘ سے ظاہر ہے۔ اس کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا وقت آتا ہے تو قرآن کریم سے سوال ہوتا ہے کہ آیا بکثرت انبیاء بھی آئیں گے؟ یاکیا ہوگا؟ تو خداوند تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔ ’’واذ قال عیسی ابن مریم‘‘ خداوند سبحانہ تعالیٰ نے یہاں پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زبان پر اسلوب جواب کا بالکل بدل دیا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: ’’اے بنی اسرائیل میں اﷲ کا رسول تمہاری طرف ہوکر آیا ہوں مجھ سے پہلے موسیٰ علیہ السلام کی کتاب تورات جو خدا کی طرف سے ان کو عطاء ہوئی ہے اس کی تصدیق کرتا ہوں اور خوشخبری دیتا ہوں ایک رسول کی کہ جو میرے بعد آئے گا۔ نام اس کا احمد ہوگا۔ قرآن کریم نے اس سے پہلے رسل کے لفظ سے عام طور پر رسولوں کے آنے کی خبر دی تھی اور یہاں ایک خاص رسول کی خبر دے کر اس کے نام سے مشخص اور معین فرمایا۔ یہ اسلوب صاف اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ خداوند تعالیٰ احمدﷺ پر نبوت کو ختم کر رہا ہے اور عام طور پر جو رسولوں کے آنے کا اسلوب تھا۔ اس کو بدل کر ایک خاص معین شخص کے آنے کی اطلاع دیتا ہے۔ اس کے بعد آنحضرتﷺ کا زمانہ آتا ہے تو ہم قرآن سے پوچھتے ہیں کہ آنحضرتﷺ کے آنے کے بعد سلسلہ نبوت جاری ہے یا بند ہو جاتا ہے؟ تو قرآن کریم فرماتا ہے۔ ’’ ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النّبیین ‘‘ یہ بات قابل غور ہے کہ خداوند تعالیٰ نے مختلف انبیاء کے زمانہ میں سلسلہ نبوت جاری رہنے اور رسل کے آنے کی اطلاع دی اور آنحضرتﷺ پر آکر اس اطلاع کے برخلاف جوبصورت اجراء نبوت بمثل سابق ایسی اطلاع دی جانی ضروری تھی۔ جیسا کہ پہلے دی 2160گئی۔ ختم نبوت کا اعلان کر دیا۔ جس سے قطعاً اور یقینا یہ بات معلوم ہوئی کہ قرآن کریم مجموعی طور پر ختم نبوت کا اعلان کر رہا ہے۔‘‘
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(ختم نبوت اور احادیث)
اس ضمن میں دو احادیث کا حوالہ جو گواہ مذکور نے دیا ہے اور دیگر گواہان مدعیہ کے بیانات میں بھی موجود ہے۔ دیا جانا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ فریق ثانی کے جواب میں یہ حدیثیں بحث طلب ہیں۔ ایک حدیث یہ ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ بنی اسرائیل میں انبیاء آتے رہے۔ جب ایک نبی فوت ہو جاتا تو دوسرا نبی آجاتا۔ لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں اور خلیفہ ہوں گے۔ پس بہت ہوں گے۔
دوسری حدیث یہ ہے کہ جنگ تبوک پر جاتے ہوئے آپﷺ نے جب حضرت علیؓ کو اہل بیت کی نگرانی کے لئے چھوڑا تو حضرت علیؓ نے عرض کیا کہ آپ(ﷺ) مجھ کو عورتوں اور بچوں میں چھوڑے جاتے ہیں تو آپﷺ نے فرمایا کہ: ’’تو مجھ سے وہی نسبت رکھتا ہے، جیسا کہ ہارون علیہ السلام کو موسیٰ علیہ السلام سے تھی۔ البتہ میرے بعدکوئی نبی نہیں ہوسکتا۔‘‘ اگر نبوت آنحضرتﷺ کے بعد اور تشریعی یا غیرتشریعی جاری ہوتی تو حضرت علیؓ کو رسول اﷲﷺ ’’لا نبی بعدی‘‘ کہہ کر اس وصف سے محروم نہ کرتے۔ گواہ مذکور نے قرآن مجید سے ختم نبوت کی ایک اور یہ دلیل بھی پیش کی ہے کہ سورۂ آل عمران پارہ تیسرا کی آیت ’’ قل اٰمنا باﷲ وما انزل الینا… الخ! ‘‘ سے اﷲتعالیٰ نے یہ ظاہر فرمایا کہ جو کچھ انبیاء علیہم السلام پر وحی نازل کی گئی وہ زمانہ ماضی میں ہوئی اور اﷲ تعالیٰ نے ہمیں انہی انبیاء پر ایمان لانے کی ترغیب دی۔ جو آنحضرتﷺ سے پہلے ہوچکے ہیں اور کسی ایسے نبی کے لئے ایمان لانے کی تاکید نہیں کی جو آپ کے بعد ہو۔ اگر کوئی نبی آنحضرتﷺ کے بعد آنے والا ہوتا تو ضرور اﷲتعالیٰ ہمیں اس پر ایمان لانے کی تاکید فرماتا۔ سورۂ بقرہ کی ایک اور آیت ’’والذین یؤمنون بما انزل الیک… الخ!‘‘ میں بھی خداوند تعالیٰ نے انہی کو ہدایت پر قائم رہنے والا اور ’’مفلحون‘‘ فرمایا ہے۔ جو آنحضرتﷺ کی وحی پر اور آپ سے 2161پہلے انبیاء علیہم السلام کی وحی پر اور آخرت پر ایمان رکھتے ہوں اور قرآن کریم نے یہ التزام کیا ہے کہ ہر جگہ وحی کے ساتھ لفظ قبل کو ملایا ہے تاکہ یہ بات ثابت نہ ہو کہ آنحضرتﷺ سے پہلے ہی وحی نبوت اور انبیاء علیہم السلام آئے ہیں۔ چنانچہ اس کی تائید میں مولوی نجم الدین صاحب گواہ مدعیہ نے سورہ سبا پارہ نمبر۲۲ کی آیت ’’وما ارسلنک الا کافۃ للناس… الخ!‘‘ سے یہ استدلال کیا ہے کہ متقی بننے کے لئے صرف ان چار چیزوں کی ضرورت ہے جو اس آیت میں بیان کی گئی ہیں۔ ایک تو وہ وحی ہے جو آنحضرتﷺ کی طرف نازل کی گئی۔ دوسری وہ جو آپ سے پہلے لوگوں پر نازل کی گئی۔ اگر آنحضرتﷺ کے بعد بھی کسی وحی پر انسانوں کی نجات اور ارتقاء کی مدار ہوتی تو اﷲتعالیٰ اسے بھی یہاں ذکر فرمادیتا۔ مگر ایسا نہیں کیاگیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ کسی اور نئی بات کی، یا نئی وحی کی، متقی بننے کے لئے حاجت نہیں اور نہ ہی اس کے آنے پر یا اس کے ماننے پر انسانوں کی نجات کا دارومدار ہے۔
ختم نبوت کے بارہ میں مرزاصاحب کی ایک اور تحریر بہت واضح ہے جس کا ذکر مولوی مرتضیٰ حسن صاحبؒ گواہ مدعیہ کے بیان میں ہے۔ مرزاصاحب اپنی کتاب (ازالہ اوہام ص۵۴۴، خزائن ج۳ ص۳۹۳) پر لکھتے ہیں کہ: ’’یہ بات ہم کئی مرتبہ لکھ چکے ہیں کہ خاتم النّبیین کے بعد مسیح ابن مریم رسول کا آنا فساد عظیم کا موجب ہے۔ اس سے یا تو یہ ماننا پڑے گا کہ وحی نبوت کا سلسلہ پھر جاری ہو جائے گا یا قبول کرنا پڑے گا کہ خداتعالیٰ مسیح ابن مریم کو لوازم نبوت سے الگ کر کے اور محض ایک امتی بنا کر بھیجا اور یہ دونوں صورتیں ممتنع ہیں۔‘‘
اس طرح (ازالہ اوہام ص۵۷۶، خزائن ج۳ ص۴۱۱) پر لکھتے ہیں کہ: ’’ہم ابھی لکھ چکے ہیں کہ خداتعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ کوئی رسول دنیا میں مطیع اور محکوم ہوکر نہیں آتا۔ بلکہ وہ مطاع صرف اور اپنی اس وحی کا مبتع ہوتا ہے جو اس پر بذریعہ جبرائیل علیہ السلام نازل ہوتی ہے۔ اب یہ سیدھی سیدھی بات ہے کہ جب حضرت مسیح ابن مریم نازل ہوئے اور حضرت جبرائیل لگاتار آسمان سے وحی لانے لگے اور وحی کے ذریعہ انہیں تمام اسلامی عقائد اور 2162صوم صلوٰۃ اور زکوٰۃ اور حج اور جمیع مسائل فقہ کے سکھلائے گئے۔ تو پھر بہرحال یہ مجموعہ احکام دین کا کتاب اﷲ کہلائے گا۔ اگر یہ کہو کہ مسیح کو وحی کے ذریعہ صرف اتنا کہا جائے گا کہ تو قرآن پر عمل کر اور پھر وحی مدت العمر تک منقطع ہو جائے گی اور کبھی جبرائیل نازل نہ ہوں گے۔ بلکہ وہ مسلوب النبوۃ ہوکر امتیوں کی طرح بن جائیں گے تو یہ طفلانہ خیال ہنسی کے لائق ہے۔ ظاہر ہے کہ اگرچہ ایک ہی دفعہ وحی کا نزول فرض کیا جائے اور صرف ایک ہی فقرہ حضرت جبرائیل لائیں اور پھر چپ ہو جائیں۔ یہ امر بھی ختم نبوت کے منافی ہے۔ کیونکہ جب ختمیت کی مہر ہی ٹوٹ گئی اور وحی رسالت پھر نازل ہونی شروع ہوگئی تو پھر تھوڑا بہت نازل ہونا برابر ہے۔ ہر ایک دانا سمجھ سکتا ہے کہ اگر خداوند تعالیٰ صادق الوعد ہے اور جو آیت خاتم النّبیین میں وعدہ دیاگیا ہے اور جو حدیثوں میں بتصریح بیان کیاگیا ہے کہ اب جبرائیل بعد وفات رسول اﷲa ہمیشہ کے لئے وحی نبوۃ لانے سے منع کیاگیا ہے۔ یہ تمام باتیں سچ اور صحیح ہیں تو پھر کوئی شخص بحیثیت رسالت ہمارے نبیﷺ کے بعد ہرگز نہیں آسکتا۔‘‘
اس سے مدعیہ کی طرف سے یہ نتیجہ اخذ کیاگیا ہے کہ مرزاصاحب نے اس کی تصریح کر دی ہے کہ کوئی نبی مطیع یعنی امتی نہیں بن سکتا۔ بلکہ وہ مطاع اور صرف اپنی اس وحی کا متبع ہوتا ہے جو اس پر بذریعہ جبرائیل علیہ السلام نازل ہوتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جب مرزاصاحب نبی ہوئے تو انہوں نے اس وحی کی اتباع کی۔ جو ان پر نازل ہوئی یا قرآن کی، اگر قرآن کی اتباع کی تب بھی مرزاصاحب کافر۔ کیونکہ ان کو اپنی وحی کی اتباع کرنی چاہئے تھی اور اگر اپنی وحی کی اتباع کی تب بھی کافر کیونکہ قرآن کو چھوڑا۔ کتاب ازالۃ الاوہام مرزاصاحب کے دعویٰ کے کچھ عرصہ بعد تحریر ہوئی اور اس وقت تک وہ خاتم النّبیین کے وہی معنی سمجھتے رہے جو ساری دنیا نے سمجھے اور ایک نبی کا آنا اور ایک دفعہ جبرائیل علیہ السلام کا اترنا اور ایک فقرہ کہنا کہ تم قرآن کا اتباع کرو۔ یہ سب چیزیں مرزاصاحب کے نزدیک ختم نبوۃ کے مخالف تھیں اور اس سے مہر نبوت ٹوٹتی تھی۔
2163ہر صدی میں کم ازکم ایک مجدد آتا ہے۔ ان کا یہ فرض ہوتا ہے کہ دنیا میں جو لوگوں سے غلطی ہوگئی ہے۔ اس پر لوگوں کو متنبہ کریں اور بالخصوص ایسے امور اور عقائد کی نسبت کہ جن سے انسان کافر ہو جائے۔ علاوہ ازیں امت میں بے شمار اولیائ، ابدال اقطاب گزرے اور تمام صحابہ کرامؓ ان میں سے کسی نے خاتم النّبیین کے یہ معنی نہیں کئے۔ جو مرزاصاحب نے اب بیان کئے ہیں۔ اس لئے جو معنی ختم النبوۃ کے اب تجویز کئے ہیں۔ جس کی بناء پر نبوت کا جاری رہنا اور وحی نبوت کا جاری رہنا ضروری ہے اور جس مذہب میں وحی نبوت نہ ہو۔ وہ مذہب مرزا صاحب کے نزدیک لعنتی اور شیطانی مذہب کہلانے کامستحق ہے۔
اس بناء پر اگر یہ معنی صحیح ہیں تو جب تک مرزاصاحب کا مذکورہ بالا عقیدہ رہا۔ مرزاصاحب بھی کافر ہوئے اور ان سے پہلے جتنے مسلمان اس عقیدہ پر گزرے وہ سب کے سب کافر ہوئے اور اگر مسلمانوں کا اور مرزاصاحب کا عقیدہ سابقہ صحیح تھا تو پہلے لوگ تو مسلمان اور مرزاصاحب اس عقیدہ کے بدلنے کے بعد کافر ہوگئے۔ یہ نتائج مولوی مرتضیٰ صاحبؒ کے بیان سے اخذ ہوتے ہیں۔ آگے وہ یہ کہتے ہیں کہ مرزاصاحب نے یہ کہا ہے کہ جو امر مستلزم محال ہے وہ محال ہوتا ہے۔ اس سے اگر مراد محال عقلی ہے تو اس کا اخفاء ناجائز ہے۔ بالخصوص تیرہ سو برس تک جب کہ صحابہ، تابعین، ائمہ مجتہدین اور ائمہ فقہائے کہ جنہوں نے عقلی امور کی بال کی کھال نکال دی ہے اور اگر محال سے مراد شرعی ہے تو وہ بھی مخفی نہیں رہ سکتا۔ بالخصوص اتنے زمانہ تک اور اتنے علمائے متبحرین پر اور مجددین پر۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مرزاصاحب کا اس کلام کے لکھنے تک یہی عقیدہ تھا کہ خاتم النّبیین کے معنی یہ ہیں کہ کوئی جدید یا قدیم نبی آہی نہیں سکتا۔ علماء امت نے جو مسئلہ ختم النبوۃ پر اجماع بیان کیا ہے اور جس آیت کے معنی لکھے ہیں اور وہ معنی مرزاصاحب کے مسلمات میں سے ہیں۔ وہی حق ہے اور اب جو اس معنی سے انکار کرے وہ کافر اور بے شک کافر ہے ایک اور کتاب (حمامتہ البشریٰ ص۲۰، خزائن ج۷ ص۲۰۰،۲۰۱) پر مرزاصاحب نے جو 2164کچھ لکھا ہے اس کا مطلب یہ بیان کیاگیا ہے کہ: ’’عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے بارہ میں کسی مسلمان کوجائز نہیں کہ اس کلام کو جو احادیث میں آیا ہے ظاہر معنی پر حمل کرے۔ اس واسطے کہ یہ آیت ’’ماکان محمد ابا احد‘‘ خاتم النّبیین کے مخالف ہے۔ کیا تمہیں یہ معلوم نہیں کہ اﷲتعالیٰ نے رسول اﷲﷺ کا نام خاتم الانبیاء رکھا ہے اورا س میں کسی کی استثناء نہیں کی اور پھر اس خاتم الانبیاء کی خود اپنے کلام میں تفصیل فرمائی۔ ’’لا نبی بعدی‘‘ سے جو سمجھنے والوں کے لئے بیان واضح ہے اور اگر ہم یہ جائز رکھیں کہ آپ کے بعد کوئی نبی آسکتا ہے تو لازم آتا ہے کہ دروازہ وحی نبوت کا بعد بند ہونے کے کھل جائے اور آپ کے بعد کوئی نبی کیسے آسکتا ہے۔ حالانکہ وحی منقطع ہوچکی ہے اور اﷲتعالیٰ نے آپ کے ساتھ تمام نبیوں کو ختم کر دیا ہے۔ کیا ہم اس کا اعتقاد رکھیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آئیں گے اور خاتم الانبیاء وہ بنے نہ ہمارے رسول مقبولﷺ۔‘‘
اس سے یہ نتیجہ اخذ کیاگیا ہے کہ مرزاصاحب نے اس میں اس بات کی تصریح کر دی ہے کہ خاتم الانبیاء کی تفسیر بغیر کسی استثناء کے رسول اﷲﷺ نے اس کلام میں فرمائی کہ ’’لا نبی بعدی‘‘ اور معلوم ہوا کہ مرزاصاحب کے نزدیک خاتم النّبیین کی تفسیر ’’لا نبی بعدی‘‘ ہے اور خاتم النّبیین کے معنی یہ ہیں کہ آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ اس میں کسی نبی بروزی ظلی وغیرہ کی قید نہیں اور اب لا نبی بعدی کا یہ معنی لینے کہ اس سے مراد خالص وہ نبی ہے جو مستقل نبی ہو اور رسول اﷲﷺ سے الگ ہوکر اس نے نبوت حاصل کی ہو۔ کیونکہ یہ معنی مرزاصاحب کے نزدیک بھی غلط ہیں اور اب یہ معنی کرنے ہرگز قابل پذیرائی نہیں۔ مرزاصاحب خاتم کے یہ معنی کرتے ہیں کہ رسول کریم مہر ہیں اور آپ کے منظور کرنے سے نبی بنتے ہیں۔ کتاب (حقیقت النبوۃ ص۲۶۶ حصہ اوّل ضمیمہ نمبر۱) پر لکھتے ہیں کہ: ’’چونکہ میں ظلی طور پر محمد ہوں۔ پس اس طور سے خاتم النّبیین کی مہر نہیں ٹوٹی۔ کیونکہ محمدﷺ کی نبوت محمدﷺ تک ہی 2165محدود رہی۔ یعنی بہرحال محمدﷺ ہی نبی رہا۔ نہ کوئی اور۔‘‘
سید انور شاہ صاحب گواہ مدعی اس سے یہ مطلب اخذ کرتے ہیں کہ میں آئینہ بن گیا ہوں۔ محمد رسول اﷲﷺ کا اور مجھ میں تصویر اتر آئی ہے رسول کریمﷺ کی۔ اس سے مہر نبوت نہ ٹوٹی۔ یہ تمسخر ہے خدا اور خدا کے رسولﷺ کے ساتھ۔
 
Top