ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
اب باقیماندہ وجوہات تکفیر میں سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہین۔ آنحضرتﷺ کی توہین اور دیگر انبیاء علیہم السلام کی توہین کے بارہ میں گواہان مدعیہ کے بیانات کا خلاصہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں مرزاغلام احمد صاحب کی حسب ذیل تحریروں پر اعتراض کیاگیا ہے۔مرزاصاحب اپنی کتاب (دافع البلاء ص۴، خزائن ج۱۸ ص۲۰۰) پر لکھتے ہیں: ’’لیکن مسیح کی راست بازی اپنے زمانہ میں دوسرے راست بازوں سے بڑھ کر ثابت نہیں ہوتی۔ بلکہ یحییٰ نبی کو اس پر ایک فضیلت ہے۔ کیونکہ وہ شراب نہیں پیتا تھا اور کبھی یہ نہیں سنا گیا کہ کسی فاحشہ عورت نے آکر اپنی کمائی کے مال سے اس پر عطر ملا تھا یا اپنے ہاتھوں یا سر کے بالوں سے اس کو چھوا تھا۔ یا کوئی بے تعلق جوان عورت اس کی خدمت کرتی تھی۔ اس وجہ سے خدا نے قرآن میں یحییٰ علیہ السلام کا نام ’’حصور‘‘ رکھا۔ مگر مسیح کا یہ نام نہ رکھا۔ کیونکہ ایسے قصے اس نام کے رکھنے سے مانع تھے۔‘‘
(حاشیہ ضمیمہ انجام آتھم ص۴، خزائن ج۱۱ ص۲۸۸) پر لکھتے ہیں کہ: ’’پس اس نادان اسرائیلی نے ان معمولی باتوں کا پیش گوئی نام کیوں رکھا۔‘‘
آگے (ضمیمہ انجام آتھم حاشیہ ص۵، خزائن ج۱۱ ص۲۸۹) پر لکھتے ہیں کہ: ’’آپ کو گالیاں دینے اور بدزبانی کی اکثر عادت تھی۔‘‘
اس (حوالہ ایضاً) پر آگے کہتے ہیں کہ: ’’میرے نزدیک آپ کی یہ حرکات جائے افسوس نہیں۔ کیونکہ آپ تو گالیاں دیتے تھے اور یہودی ہاتھ سے کسر نکال لیا کرتے تھے۔‘‘
آگے (حوالہ ایضاً) ہے کہ: ’’یہ بھی یاد رہے کہ آپ کوکس قدر جھوٹ بولنے کی عادت تھی۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۷ حاشیہ، خزائن ج۱۱ ص۲۹۱) پر ہے کہ: ’’آپ کا خاندان بھی نہایت پاک اور مطہر ہے۔ تین دادیاں اور تین نانیاں آپ کی 2166زنا کار اور کسبی تھیں۔ جن کے خون سے آپ کا وجود ظہور پذیر ہوا۔‘‘
آگے (حوالہ ایضاً) پر لکھتے ہیں کہ: ’’آپ کا کنجریوں سے میلان اور صحبت بھی شاید اس وجہ سے ہو کہ جدی مناسبت درمیان ہے۔ ورنہ کوئی پرہیزگار انسان ایک جوان کنجری کو یہ موقع نہیں دے سکتا کہ وہ اس کے سر پر اپنے ناپاک ہاتھ لگا دے۔‘‘
آگے ہے کہ: ’’سمجھنے والے سمجھ لیں کہ ایسا انسان کس چلن کا آدمی ہوسکتا ہے۔‘‘
یہ گالیاں یسوع کا نام لے کر ضمیمہ انجام آتھم میں درج کی گئی ہیں۔ لیکن بیان کیا جاتا ہے کہ مرزاصاحب کے نزدیک یسوع اور مسیح ایک تھے۔ کیونکہ مرزاصاحب اپنی کتاب (توضیح المرام ص۳، خزائن ج۳ ص۵۲) پر فرماتے ہیں کہ: ’’مسیح ابن مریم جس کو عیسیٰ اور یسوع بھی کہتے ہیں۔‘‘
اسی طرح اپنی کتاب (کشتی نوح ص۶۵ حاشیہ، خزائن ج۱۹ ص۷۱) پر لکھتے ہیں کہ: ’’یورپ کے لوگوں کوجس قدر شراب سے نقصان پہنچا ہے اس کا سبب تو یہ تھا کہ عیسیٰ علیہ السلام شراب پیا کرتے تھے۔ شاید کسی بیماری کی وجہ سے۔ اے مسلمانو! تمہارے نبیa تو ہر ایک نشہ سے پاک اور معصوم تھے۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم حاشیہ ص۵، خزائن ج۱۱ ص۲۸۹) پر ہے: ’’جن جن پیشین گوئیوں کا اپنی ذات کی نسبت توراۃ میں پایا جانا آپ نے بیان فرمایا۔ ان کتابوں میں ان کا نام ونشان بھی نہیں پایا جاتا۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم حاشیہ ص۶، خزائن ج۱۱ ص۲۹۰) پر لکھتے ہیں: ’’اور نہایت شرم کی بات ہے کہ آپ پہاڑی تعلیم کو جو انجیل کا مغز کہلاتی ہے یہودیوں کی کتاب ’’طالمود‘‘ سے چرا کر لکھا ہے اور پھر ایسا ظاہر کیا ہے کہ گویا میری تعلیم ہے۔‘‘
آگے (حوالہ ایضاً) پر ہے کہ: ’’آپ کے حقیقی بھائی آپ کی ان حرکات سے آپ سے سخت ناراض رہتے تھے اور ان کو یقین تھا کہ آپ کے دماغ میں ضرور کچھ خلل ہے۔‘‘
(کتاب ست بچن ص۱۷۱ حاشیہ، خزائن ج۱۰ ص۲۹۵) پر لکھتے ہیں کہ: ’’یہ درخواست بھی صریح اس بات پر دلیل ہے کہ یسوع درحقیقت بوجہ بیماری مرگی کے دیوانہ ہوگیا تھا۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۶ حاشیہ، خزائن ج۱۱ ص۲۹۰) پر ہے کہ: ’’عیسائیوں نے بہت سے آپ کے معجزات لکھے ہیں۔ مگر حق بات یہ ہے کہ آپ سے کوئی معجزہ نہیں ہوا۔‘‘
اور (انجام آتھم ص۷، خزائن ج۱۱ ص۲۹۱ حاشیہ) پر ہے کہ: ’’آپ 2167نے معمولی تدبیر کے ساتھ کسی شب کور وغیرہ کو اچھا کیا ہو یا کسی ایسی بیماریوں کا علاج کیا۔ مگر آپ کی بدقسمتی سے اس زمانہ میں ایک تالاب بھی موجود تھا جس سے بڑے بڑے نشان ظاہر ہوتے تھے۔ خیال ہوسکتا ہے کہ اس تالاب کی مٹی آپ بھی استعمال کرتے ہوں گے۔ اس تالاب سے آپ کے معجزات کی پوری پوری حقیقت کھلتی ہے اور اس تالاب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ اگر آپ سے کوئی معجزہ بھی ظاہر ہوا ہو تو وہ معجزہ آپ کا نہیں ہے۔ بلکہ اس تالاب کا معجزہ ہے اور آپ کے ہاتھوں میں سوائے مکروفریب کے اور کچھ نہ تھا۔‘‘
اسی کتاب (ضمیمہ انجام آتھم حاشیہ ص۹، خزائن ج۱۱ ص۲۹۳) پر آگے مسلمانوں کو مخاطب کر کے لکھتے ہیں کہ: ’’خداوند تعالیٰ نے قرآن شریف میں کوئی خبر نہیں دی کہ یسوع کون تھا اور پادری اس بات کے قائل ہیں کہ یسوع وہ شخص تھا کہ جس نے خدائی کا دعویٰ کیا اور حضرت موسیٰ کا نام ڈاکو اور بٹ مار رکھا اور آنے والے نبی کے مقدس وجود سے انکار کیا اور کہا کہ میرے بعد سب جھوٹے نبی آئیں گے۔ پس ہم ایسے ناپاک خیال اور متکبر اور راست بازوں کے دشمن کو ایک بھلے مانس آدمی بھی قرار نہیں دے سکتے۔ چہ جائیکہ اس کو نبی قرار دیں۔‘‘
اور کتاب (ست بچن ص۱۶۷،۱۶۸، خزائن ج۱۰ ص۲۹۱) پر لکھتے ہیں: ’’اور بالخصوص یسوع کے دادا صاحب داؤد نے تو سارے برے کام کئے۔ ایک بیگناہ کو اپنی شہوت رانی کے لئے فریب سے قتل کرایا اور دلالہ عورتوں کو بھیج کر اس کی جورو کو منگوایا اور اس کو شراب پلائی اور اس سے زنا کیا اور بہت سا مال حرام کاری میں ضائع کیا۔‘‘
(اعجاز احمدی ص۱۴، خزائن ج۱۹ ص۱۲۱)پر ’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تین پیشین گوئیوں کو غلط قرار دیا گیا ہے۔‘‘
(ازالتہ الاوہام ص۳۰۳ حاشیہ، خزائن ج۳ ص۲۵۴) پر درج ہے کہ: ’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے باپ یوسف کے ساتھ بائیس سال تک نجاری کا کام کرتے رہے ہیں۔‘‘
(کشتی نوح ص۱۶، خزائن ج۱۹ ص۱۸) پر لکھتے ہیں کہ: ’’مریم کی وہ شان ہے جس نے ایک مدت تک اپنے تئیں نکاح سے روکا۔ پھر بزرگان قوم کے نہایت اصرار سے بوجہ حمل کے نکاح کر لیا۔ گو لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ برخلاف تعلیم 2168تورات عین حمل میں کیونکر نکاح کیاگیا اور بتول ہونے کے عہد کو کیوں ناحق توڑا گیا اور تعدد ازواج کی کیوں بنیاد ڈالی گئی… مگر میں کہتا ہوں کہ یہ سب مجبوریاں تھیں جو پیش آگئیں۔ اس صورت میں وہ لوگ قابل رحم تھے۔ نہ قابل اعتراض۔‘‘
(ازالہ اوہام ج۱ ص۷، خزائن ج۳ ص۱۰۶) پر مرزاصاحب مولویوں کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ: ’’اس سے زیادہ تر قابل افسوس یہ امر ہے کہ جس قدر حضرت مسیح کی پیشین گوئیاں غلط نکلیں۔ اس قدر صحیح نکل نہیں سکیں۔‘‘
(دافع البلاء ص۱۳، خزائن ج۱۸ ص۲۳۳) پر لکھتے ہیں کہ: ’’خدا نے اس امت میں سے مسیح موعود بھیجا جو اس پہلے مسیح سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے اور اس نے اس دوسرے کا نام غلام احمد رکھا۔‘‘
پھر (حقیقت الوحی ص۱۵۵، خزائن ج۲۲ ص۱۵۹) پر لکھتے ہیں کہ: ’’جب کہ خدا نے اور اس کے رسول نے اور تمام نبیوں نے آخری زمانہ کے مسیح کو ان کے کارناموں کی وجہ سے افضل قرار دیا ہے تو پھر یہ وسوسہ شیطانی ہے کہ کہا جائے کہ کیوں تم اپنے تئیں مسیح ابن مریم سے افضل قرار دیتے ہو۔‘‘
مولوی انور شاہ صاحبؒ نے لفظ یسوع کی اصل یہ بتائی ہے کہ یہ دراصل عبرانی لفظ ہے اور عبرانی میں ایشوع بمعنی نجات دہندہ تھا۔ ایشوع سے یسوع بنا اور زبان عربی میں آکر لفظ عیسیٰ بنا اور یہ تعریب قرآن سے شروع نہیں ہوئی۔ بلکہ نزول قرآن سے پہلے عرب کے نصاریٰ عیسیٰ علیہ السلام کو عیسیٰ ہی بولتے تھے۔
(ازالۃ الاوہام ص۳۰۴، ۳۰۶ حاشیہ، خزائن ج۳ ص۲۵۵،۲۵۶) پر لکھتے ہیں کہ: ’’ماسوا اس کے یہ بھی قرین قیاس ہے کہ ایسے ایسے اعجاز طریق عمل ترب یعنی مسمریزمی طریق سے بطور لہوولعب نہ بطور حقیقت ظہور میں آسکیں۔ کیونکہ عمل ترب میں جس کو زمانہ حال میں مسمریزم کہتے ہیں۔ ایسے ایسے عجائبات ظہور میں آتے رہتے ہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام حاشیہ ص۳۰۹، خزائن ج۳ ص۲۵۸) پر لکھتے ہیں کہ: ’’اگر یہ عاجز اس عمل کو مکروہ اور قابل نفرت نہ سمجھتا تو اﷲتعالیٰ کے فضل وتوفیق سے امید قوی رکھتا تھا کہ ان عجوبہ نمائیوں میں حضرت مسیح ابن مریم سے کم نہ رہتا۔ لیکن مجھے وہ روحانی طریق پسند ہے۔‘‘
2169ان عبارات سے یہ نتائج نکالے گئے ہیں کہ مرزاصاحب یہ بخوبی جانتے تھے۔ یسوع مسیح ایک ہی شخص ہے جیسا کہ ان کی اپنی تحریرات سے ثابت ہوتا ہے۔ اس لئے وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ انہوں نے یسوع کے نام سے جو کچھ کہا ہے اس سے عیسیٰ علیہ السلام مراد نہیں ہیں اور اگر یہ کہا جائے کہ ان میں سے بعض فقرات عیسائی پادریوں کے جوابات میں الزامی صورت میں بیان کئے گئے ہیں تو یہ جواب بھی صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ ان فقرات میں اس قسم کے الفاظ کہ ’’حق بات یہ ہے‘‘ وغیرہ وغیرہ! الزامی جوابات نہیں ہوسکتے۔ بلکہ مرزاصاحب کی اپنی تحقیق کا نتیجہ شمار ہوں گے۔ نیز دافع البلاء کے حوالہ سے جو عبارت نقل کی گئی ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ خدا کے نزدیک بھی عیسیٰ علیہ السلام کو حصور نہ کہنے کے لئے مذکورہ بالا قصے مانع تھے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اﷲتعالیٰ کے نزدیک بھی جو عالم الغیب ہے یہ بات محقق تھی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام میں یہ عیوب موجود ہیں۔ اس لئے اس کا نام ’’حصور‘‘ نہ رکھا اور جو گالیاں مرزاصاحب نے پہلے ’’انجام آتھم‘‘ میں عیسیٰ علیہ السلام کو دی تھیں وہی یہاں مذکور ہیں۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پاکبازی اور راست گوئی کا ثبوت احادیث سے ملتا ہے اور قرآن نے ان کی شان میں کہا ہے کہ ’’وجیہاً فی الدنیا والآخرۃ ومن المقربین‘‘ رسولوں کو دنیا میں صرف اس لئے بھیجا جاتا ہے کہ لوگ ان کے نقش قدم پر چلیں اور ان کی اطاعت کریں۔ مرزاصاحب نے عیسیٰ علیہ السلام کے حق میں نہایت گستاخانہ الفاظ استعمال کئے ہیں۔ ان کے معجزات کو مسمریزم کہا ہے۔ حالانکہ مسمریزم اقسام سحر اور توجہ نفسانی کا ایک شعبہ ہے کہ جس کا کسی پاکباز یا نیک آدمی کے ساتھ اختصاص نہیں کیا جاسکتا۔ ہر بداخلاق بلکہ کافر تک اس کا عمل کر سکتا ہے اور پھر ایسے معجزات کو جس کو قرآن کریم نے نہایت شان اور عظمت سے ذکر فرمایا ہے۔ عمل ترب یا مسمریزم کہنا نہایت گستاخی اور بے ادبی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے جومعجزات ثابت کئے گئے ہیں ان کو آج تک تمام علمائے امت اور عامتہ المسلمین قبول کرتے رہے ۔ مرزاصاحب نے ان کو مسمریزم وغیرہ کی طرف منسوب کر کے خواہ مخواہ ایک 2170رخنہ اندازی فرمائی۔ ان کا عیسیٰ علیہ السلام کی اس طرح توہین کرنی ایک وجہ کفر ہے۔ چنانچہ مرزاصاحب نے بھی اپنی کتاب (ضمیمہ چشمہ معرفت ص۱۸، خزائن ج۲۳ ص۳۹۰) پر جو عبارت بالفاظ ذیل: ’’شاید کسی صاحب کے دل میں یہ بھی خیال آوے… تاموجب نزول غضب الٰہی‘‘ درج کی ہے۔ اس میں صاف لکھا ہے کہ ’’اسلام میں کسی نبی کی تحقیر کفر ہے اور سب پر ایمان لانا فرض ہے اور کسی نبی کا اشارہ سے بھی تحقیر کرنا سخت معصیت ہے اور موجب نزول غضب الٰہی۔‘‘
اس کی تائید میں منجانب گواہان مدعیہ چند سندات قرآن واحادیث اور اقوال بزرگان پیش کئے گئے ہیں۔ جن کی یہاں تفصیل درج کرنے کی ضرورت نہیں۔ صرف مختصراً یہ درج کیا جاتا ہے کہ سید انور شاہ صاحبؒ گواہ مدعیہ نے یہ کہا ہے کہ سب اور ناسزا کہنا۔ پیغمبروں کو اور طعن کہنا سرچشمہ ہے جمیع انواع کفر کا اور مجموعہ ہے جملہ گمراہیوں کا اور ہر کفر اس کی شاخ ہے اور کسی نبی کی ادنیٰ توہین کرنا بھی کفر ہے، اور کہ امام احمدؒ فرماتے ہیں کہ جس نے ناسزا کہا نبی کریم کو یا تنقیص کی مسلمان ہو یہ شخص یا کافر۔ سزا اس کی قتل ہے اور علماء نے کہا ہے کہ تعریض کرنا خدا کی سب کا،یا رسول کی سب کا، ارتداد ہے اور موجب قتل ہے۔ آگے بیان کرتے ہیں کہ علماء نے جب توراۃ اور انجیل محرف سے کوئی چیز محرف نقل کی ہے۔ ان سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ یہ کتابیں تحریف شدہ ہیں۔ مرزاصاحب یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام نالائق تھے۔ علماء کے طریق میں اور مرزاصاحب کے طریق میں کفر اور اسلام کا فرق ہے۔
مولوی نجم الدین صاحب گواہ مدعیہ نے بیان کیا ہے کہ مرزاصاحب نے اپنے آپ کو یوسف علیہ السلام سے بھی افضل کہا ہے اور کتاب (دافع البلاء ص۲۰، خزائن ج۱۸ ص۲۴۰) پر مرزاصاحب کہتے ہیں کہ: ’’ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو۔ اس سے بہتر غلام احمد ہے۔‘‘
اور یہ کہ باتیں شاعرانہ نہیں بلکہ واقعی ہیں۔ کتاب (ازالتہ الاوہام ص۱۵۸، خزائن ج۳ ص۱۸۰) سے مرزاصاحب کا ایک اور شعر نقل کیاگیا ہے جو بالفاظ ذیل ہے:
’’ اینک منم کہ حسب بشارات آمدم
عیسیٰ کجا است تابنہد پابمنبرم
‘‘
مولوی انور شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ قرآن شریف نے یہود اور نصاریٰ کے عقائد کی بیخ کنی کی ہے اور ایک حرف موسیٰ وعیسیٰ علیہم السلام کی ہتک کا اشارۃً یا کنایتہ نہیں فرمایا۔ 2171اب اس عنوان توہین انبیاء کے دوسرے ہیڈنگ پر گواہان مدعیہ کے پیش کردہ دلائل بیان کئے جاتے ہیں۔
توہین انبیاء کے تحت گواہان مدعیہ نے یہ دکھلایا ہے کہ مرزاصاحب نے نہ صرف عیسیٰ علیہ السلام کی توہین کی ہے۔ بلکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بھی توہین کی ہے۔ بحوالہ کتاب (حقیقت النبوۃ ص۲۶۵،۲۶۶) مرزاصاحب کے اس قول سے کہ: ’’میں بروزی طور وہی خاتم الانبیاء ہوں اور خدا نے آج سے بیس برس پہلے براہین احمدیہ میں میرا نام محمد اور احمد رکھا ہے اور مجھے آنحضرتﷺ کا ہی وجود قرار دیا۔ پس اس طور سے آنحضرتﷺ کے خاتم النّبیین ہونے میں میری نبوت سے کوئی تزلزل نہیں آیا۔ کیونکہ ظل اپنے اصل سے علیحدہ نہیں ہوتا۔‘‘
یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ مرزاصاحب کو نبوت ملنے سے خاتمیت محمدیہ میں فرق نہ آنے کے یہی معنی ہوسکتے ہیں کہ مرزاصاحب اور سرور عالمﷺ ایک ہوں جو عقلاً اور نقلاً باطل ہے اور اگر رسول اﷲﷺ بطریق تناسخ معاذ اﷲ مرزاصاحب ہوئے تو تناسخ کفر اور اگر یہ معنی ہیں کہ سایہ ذی سایہ کا عین ہوتا ہے تو یہ ایسی باطل بات ہے کہ دنیا جانتی ہے۔ کسی شخص کا سایہ ذی سایہ نہیں ہوسکتا تو اب مرزاصاحب کانبی ہونا۔ رسول اﷲﷺ کا نبی ہونا نہیں ہے۔ اگر بفرض محال یہ مان لیا جائے کہ سایہ اور ذی سایہ ایک ہوتا ہے تو رسول اﷲﷺ ظل اﷲ ہیں اور اس طرح وہ نعوذ باﷲ عین خدا ہیں اور مرزاصاحب عین محمد(ﷺ) ہیں تو اس سے صاف یہ نتیجہ ہے کہ مرزاصاحب عین خدا ہوئے۔ اگر ظل ہونے کے یہ معنی ہیں کہ ذی ظل کی کوئی صفت اس میں آجائے تو ایسی ظلیت تمام دنیا کو حاصل ہے۔ بہرحال مرزاصاحب کا دعویٰ اتحاد رسول اﷲﷺ کے ساتھ۔ رسول اﷲﷺ کی کھلی توہین ہے۔
مرزاصاحب کے اس قول سے کہ ’’تمام کمالات متفرقہ جو تمام دیگر انبیاء میں پائے جاتے ہیں۔ نبی کریم کے ظل ہیں۔‘‘ معلوم ہوتا ہے کہ بروزی اور ظلی نبوت کوئی کم یا گھٹیا درجہ نبوت نہیں ۔ کیونکہ ظل اور بروز کے لفظ سے یہ دھوکا پڑ سکتا تھا کہ مرزاصاحب کی مراد یہ ہوگی کہ آئینہ میں جیسے کسی شخص کا عکس پڑتا ہے۔ اسی طرح مرزاصاحب میں بھی کمالات محمدیہ اور نبوت کا عکس 2172پڑا ہے۔ مگر مرزاصاحب نبی نہیں ہے۔ اس واسطے کہ کسی شخص کا عکس جو آئینہ میں ہے اس ذی عکس کی کوئی حقیقی صفت نہیں ہوسکتی۔ مرزاصاحب کی اس عبارت نے اس شبہ کو ایسا صاف اور حل کر دیا ہے کہ شبہ کی گنجائش نہیں رہی۔ مرزاصاحب کا لفظ ظل عکس اور بروز کا ہے۔ مگر مراد ہے۔ حقیقت کاملہ نبوت۔ کیونکہ وہ فرماتے ہیں کہ جتنے انبیاء گذرے ہیں وہ سب رسول اﷲﷺ کی ایک ایک صفت میں ظل تھے اور باوجود اس ایک صفت میں ظل ہونے کے وہ مستقل نبی صاحب شریعت تھے اور حقیقی نبی تھے اور مرزاصاحب تمام صفات میں ظل ہیں تو ثابت ہو گیا کہ مرزاصاحب تمام نبیوں سے بڑے تھے اور یہ ایک بہت بڑا کفر ہے۔ مرزاصاحب باربار تحریر کرتے ہیں کہ پہلے نبیوں کی نبوت براہ راست اور میری نبوت فیض محمدی کا اثر ہے۔ ان کا یہ قول بھی غلط ہو جاتا ہے اس واسطے کہ جب ہر ایک نبوت ان کے نزدیک آپ کا فیض تھا۔ اس طرح مرزاصاحب کی نبوت بھی آپ کا فیض ہے۔ لہٰذا یہ فرق کرنا بھی باطل ہوا۔
مرزاصاحب کے ایک اور قول سے جو (تریاق القلوب حاشیہ ص۱۵۶، خزائن ج۱۵ ص۴۷۷) سے نقل کیاگیا ہے اور جو بالفاظ ذیل ہے۔
’’غرض جیسا کہ صوفیوں کے نزدیک مانا گیا ہے کہ مراتب وجود دو رویہ ہیں۔ اسی طرح ابراہیم نے اپنی خو اور طبیعت اور دلی مشابہت کے لحاظ سے قریباً اڑھائی ہزار برس اپنی وفات کے بعد پھر عبداﷲ پسر عبدالمطلب کے گھر میں جنم لیا اور محمد کے نام سے پکارا گیا۔‘‘
سید انور شاہ صاحب گواہ مدعیہ نے یہ استدلال کیا ہے کہ:
الف… اس قول سے یہ لازم آتا ہے کہ سرور عالمﷺ کوئی چیز نہیں رہتے اور آپ کا تشریف لانا بعینہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا تشریف لانا ہے۔ گویا کہ ابراہیم علیہ السلام کے یہ دور ہیں۔ گویا اصل ابراہیم علیہ السلام رہے اور آئینہ رسول اﷲﷺ ہوئے اور چونکہ ظل اور صاحب ظل میں مرزاصاحب کے نزدیک عینیت ہے اور اس وجہ سے وہ اپنے کو عین محمد کہتے ہیں تو جب محمدﷺ بروز ابراہیم علیہ السلام 2173ہوئے تو عین ابراہیم علیہ السلام ہوئے۔ اس سے صاف لازم آتا ہے کہ معاذ اﷲ رسول اﷲﷺ کا کوئی وجود بالاستقلال نہیں اور نہ ان کی نبوت کوئی مستقل شی ٔ ہے۔
ب… رسول اﷲﷺ ابراہیم علیہ السلام کے بروز ہوئے اور خاتم النّبیین آپ ہوئے کہ خاتم بروز اور ظل ہوتا ہے۔ صاحب ظل اور اصل نہیں ہوتا۔ اس طرح مرزاصاحب آنحضرتﷺ کے بروز ہوئے تو خاتم النّبیین مرزاصاحب ہوئے نہ کہ آنحضرتﷺ۔
ج… جب رسول اﷲﷺ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بروز ہوئے تو جملہ کمالات نبوت اگر مجتمع ہوں گے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام میں ہوں گے نہ کہ آنحضرتﷺ میں۔ یہ باطل اور بے معنی ہے۔
اس کے علاوہ یہ مضمون بھی فی نفسہ کہ آنحضرتﷺ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بروز ہوں اور ابراہیم علیہ السلام آنحضرت کے بروز ہوں۔ بے معنی اور فضول ہے اسلام میں جنم کا عقیدہ کفر ہے اور یہ ہے حقیقت مرزاصاحب کے نزدیک مجازی اور ظلی اور بروزی کی۔ رسول اﷲﷺ کی توہین کے سلسلہ میں مولوی نجم الدین صاحب گواہ مدعیہ نے حسب ذیل مزید واقعات بیان کئے ہیں۔
کسی کے توہین کرنے کے یہ معنی ہیں کہ یا تو اس میں کوئی عیب جسمانی ظاہر کیا جائے یا کسی بداخلاقی کے ساتھ اس کو متہم کیا جائے یا کسی کے لقب کو جس کے ساتھ اﷲتعالیٰ نے اسے سرفراز فرمایا ہے۔ اس کا اپنے لئے دعویٰ کیا جائے یا کوئی ایسی چیز اس کے سامنے یا اس کی شان میں کہی جائے۔ جس سے اس کی دل آزاری ہو۔ چنانچہ چند آیات قرآنی جن میں اﷲتعالیٰ سبحانہ وتعالیٰ نے نبی پاک محمدﷺ کو چند مراتب اور مقامات عالیہ سے مشرف فرمایا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے اوپر چسپاں کرے تو لامحالہ رسول اﷲﷺ کی شان میں گستاخی اور بے ادبی سمجھی جائے گی۔
2174چنانچہ آیات ذیل آیت ’’سبحان الذی اسریٰ بعبدہ… الخ!‘‘ جس میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لئے شان معراج کا ذکر فرمایا گیا۔
دوسری آیت ’’ثم دنیٰ فتدلیٰ… الخ!‘‘ جس میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لئے جو قرب الٰہی جناب رب العزت سے حاصل ہوا تھا۔ یا بقول دیگر جبرائیل علیہ السلام سے ذکر ہوا ہے۔
وآیت ’’انا فتحنالک فتحاً مبینا… الخ!‘‘
وآیت ’’قل ان کنتم تحبون اﷲ… الخ!‘‘
وآیت ’’انا اعطیناک الکوثر… الخ!‘‘
مرزاصاحب نے اپنے اوپر نازل ہونی بیان کی ہیں اور مقام محمود کو بھی اپنے حق میں تجویز کیا ہے اور ان اشعار میں جو آگے بیان کئے گئے ہیں کسی نبی کی استثناء نہیں کی گئی۔ ہمارے نبی کریم بھی انبیاء کی جماعت میں داخل ہیں۔ لفظ انبیاء کسی خاص نبی کے ساتھ مختص نہیں بلکہ تمام پر حاوی اور مشتمل ہے۔ دوسرے شعر کے مصرع ثانی میں اپنی افضلیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
(حقیقت الوحی ص۸۹، خزائن ج۲۲ ص۹۲) پر لکھتے ہیں:
’’آسمان سے کئی تخت اترے پر تیرا تخت سب سے اوپر بچھایا گیا۔‘‘ اس میں بھی رسول اﷲﷺ کی توہین ہے۔
مرزاصاحب کتاب (تحفہ گولڑویہ ص۴۰، خزائن ج۱۷ ص۱۵۳) پر لکھتے ہیں کہ: ’’مثلاً کوئی شریر النفس ان تین ہزار معجزات کا کبھی ذکر نہ کرے جو ہمارے نبیﷺ سے ظہور میں آئے۔‘‘
اور (براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۵۶، خزائن ج۲۱ ص۷۲) میں لکھتے ہیں کہ: ’’ان چند سطروں میں جو پیشین گوئیاں ہیں وہ اس قدر نشانوں پر مشتمل ہیں جو دس لاکھ سے زائد ہوں گے اور نشان بھی ایسے کھلے کھلے ہیں جو اوّل درجہ پر خرق عادت ہیں۔‘‘
ان عبارات سے یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ رسول اﷲﷺ کے معجزات کو تین ہزار قرار دینا اور اپنے معجزات دس لاکھ۔ کیونکہ معجزہ خرق عادت ہوتا ہے۔ مرزاصاحب نے رسول اﷲﷺ پر اپنی کتنی بڑی فضیلت بیان 2175کی؟ اس قسم کی توہین کو توہین لزومی کہا گیا ہے۔ جس سے مراد یہ ہے کہ عبارت اس لئے نہیں لائی گئی کہ تنقیص کرے۔ مگر وہ عبارت صادق نہیں آتی۔ جب تک تنقیص موجود نہ ہو۔ مذکورہ بالا عبارات میں اس قسم کی تنقیص پائی جاتی ہے۔
اس ضمن میں مرزاصاحب کا ایک قول نقل کیا گیا ہے۔ (تتمہ حقیقت الوحی ص۱۳۶، خزائن ج۲۲ ص۵۷۴) جو بالفاظ ذیل ہے۔ ’’ہاں اگر یہی اعتراض ہو کہ اس جگہ وہ معجزات کہاں ہیں تو میں صرف یہی جواب نہیں دوں گا کہ میں معجزات دکھلا سکتا ہوں۔ بلکہ خدا کے فضل وکرم سے میرا جواب یہ ہے کہ اس نے میرا دعویٰ ثابت کرنے کے لئے اس قدر معجزات دکھلائے ہیں کہ بہت ہی کم نبی ایسے آئے ہیں جنہوں نے اس قدر معجزات دکھلائے ہوں۔‘‘ (اعجاز احمدی ص۷۱، خزائن ج۱۹ ص۱۸۳) پر مرزاصاحب کا ایک شعر ہے جو الفاظ ذیل سے شروع ہوتا ہے۔ ’’
لہ خسف القمر المنیر وان لی
‘‘ جس کا یہ مطلب ہے کہ اس کے لئے چاند کے خسوف کا نشان ظاہر ہوا اور میرے لئے چاند اور سورج کا اس میں شق القمر کے معجزہ کو چاند گرہن سے تعبیر کیاگیا ہے۔ اس میں رسول اﷲﷺ کی توہین اور شق القمر کا انکار ہے۔ زیادہ تر توہین لفظ لہ کے استعمال اور طرز خطاب سے اخذ کی جاتی ہے جس سے صاف طور پر تقابل دکھا کر اپنی فضیلت دکھلائی گئی ہے۔
اس طرح (خطبہ الہامیہ ص ت حاشیہ، خزائن ج۱۶ ص۳۱۲) ’’
ما الفرق بین آدم والمسیح
‘‘ کے ایک مقولہ سے ظاہر کیاگیا ہے کہ اس میں آدم علیہ السلام کی توہین کی گئی ہے اور اس میں جو یہ الفاظ درج ہیں کہ یہ وعدہ قرآن میں لکھا ہوا ہے کہ مسیح موعود شیطان کو شکست دے گا۔ یہ بالکل خلاف واقع جھوٹ ہے۔ قرآن شریف میں اس قسم کی کوئی آیت نہیں ہے۔
اشعار محولہ بیان مولوی نجم الدین صاحب گواہ مدعیہ حسب ذیل ہیں: آنچہ داد است ہر نبی راجام
داد آن جام را مرابتمام
انبیاء گرچہ بودہ اندبسے
من بہ عرفاں نہ کمترم زکسے
کم نیم زاں ہمہ بروے یقین
ہر کہ گوید دروغ ہست ولعین
(نزول المسیح ص۹۹،۱۰۰، خزائن ج۱۸ ص۴۷۷،۴۷۸)
2176اور جو مضمون ان اشعار میں اداکیاگیا ہے۔ اس کے متعلق سید انور شاہ صاحبؒ گواہ کی طرف سے کہاگیا ہے کہ باہمی فضیلت کا باب انبیاء میں فرق مراتب کا ہے اور جو پیغمبر افضل ہے وہ کسی قرینہ سے ظاہر ہو جائے گا کہ وہ کسی دوسرے سے افضل ہے اور نبی کریمﷺ نے اپنی امت کویہ پہنچایا ہے۔ مگر اس احتیاط کے ساتھ کہ اس سے فوق متصور نہیں اور ایسی فضیلت دینا ایک پیغمبرکو اگرچہ واقعی ہو کہ جس میں دوسرے کی توہین لازم آتی ہو کفر صریح ہے۔
چھٹی وجہ تکفیر میں مدعیہ کی طرف سے یہ کہاگیا ہے کہ مرزا صاحب (ازالتہ الاوہام ص۵۵۶، خزائن ج۳ ص۳۹۹) پر لکھتے ہیں کہ: ’’تواتر کی جو بات ہے وہ غلط نہیں ٹھہرائی جاسکتی اور تواتر اگر غیرقوموں کا ہو تو وہ بھی قبول کیا جائے گا۔‘‘
پھر اس کے ساتھ اگلے صفحہ (ازالہ اوہام ص۵۵۷، خزائن ج۳ ص۴۰۰) پر جو کچھ لکھتے ہیں اس سے یہ اخذ ہوتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ تشریف لانے کی پیشین گوئی : ’’ایسی متواتر پیشین گوئیوں سے جو خیر القرون میں ہی تمام ممالک اسلام میں پھیل گئی تھی اور مسلمات میں سے سمجھی گئی تھی اور یہ اوّل درجہ کی پیشین گوئی ہے جس کو سب نے قبول کر لیا تھا اور جس قدر صحاح میں پیش گوئیاں لکھی گئی ہیں۔ کوئی اس کے ہم پہلو نہیں۔ انجیل بھی اس کی مصدق ہے۔‘‘
مگر اس کے بعد جب مرزاصاحب کو اس پیشین گوئی کا انکار مطلوب ہوا تو انہوں نے یہ کہا کہ ’’یہ بہت بے ادبی کی بات ہے کہ یہ کہا جائے کہ عیسیٰ علیہ السلام نہیں مرے۔ یہ نہیں ہے مگر شرک عظیم یہ عقیدہ حیات کا مسلمانوں میں نصرانیوں سے آیا ہے۔ پھر اس عقیدہ کو انصاریٰ نے بہت مال خرچ کر کے مسلمانوں میں شائع کیا۔ شہروں میں اور گاؤں میں اس وجہ سے کہ ان میں کوئی شخص عقلمند نہ تھا اور پہلے مسلمانوں سے یہ قول نہیں صادر ہوا۔ مگرلغزش کے طور پر وہ لوگ معذورہیں۔ اﷲ کے نزدیک اس واسطے کہ وہ لوگ گنہگار تھے۔ مگر قصداً نہ تھے اور خطا کی وجہ یہ ہوئی کہ وہ سادہ لوح آدمی تھے۔ اگر کوئی مجتہد خطا کر دے تو اﷲ اس کی غلطی کو معاف بھی کرتا ہے۔ ہاں جن کے پاس امام آیا۔ حکم بینات کے ساتھ اور جس نے رشد کو گمراہی سے ظاہر کر دیا اور پھر بھی انہوں نے اعتراض کیا وہ لوگ ماخوذ ہوں گے۔‘‘
(الاستفتاء ضمیمہ حقیقت الوحی ص۳۹، خزائن ج۲۲ ص۶۶۰)
اس سے یہ نتیجہ اخذ کیاگیا ہے کہ مرزا2177صاحب حیات عیسیٰ علیہ السلام کو شرک نہیں بلکہ شرک عظیم فرماتے ہیں اور وعدہ الٰہی کے مطابق بمنشاء آیت ’’
ان اﷲ لا یغفر ان یشرک… الخ!
‘‘ شرک کا معاف ہونا قطعاً محال ہے۔ اس سے لازم آتا ہے کہ مرزاصاحب کے اس قول کی بناء پر ساری امت گمراہ تھی اور ساری امت مشرک وکافر تھی اور جو شخص تمام امت کو گمراہ اور کافر کہے وہ خود کافر ہوتا ہے۔ مرزاصاحب کے اس قول سے اسلام پر اتنا بڑا حملہ ہوا ہے کہ اسلام کی ایک ذرہ بھر وقعت نہیں رہ سکتی۔ جب کہ یہ ثابت بھی ہوگیا کہ یہ عقیدہ بطریق تواتر تمام ممالک اسلام میں پھیل گیا تھا اور سب نے قبول بھی کر لیا اور کسی چھوٹے بڑے کو اس کی برائی کی اطلاع نہ ہوئی۔ اگر مرزاصاحب تشریف نہ لاتے تو جیسے پہلی ساری امت معاذ اﷲ شرک عظیم میں مبتلا تھی۔ آگے اسی طرح شرک عظیم میں مبتلا رہتی اور ممکن ہے کہ آئندہ کوئی اور شخص مجدد یا رسول اﷲﷺ کا بروز بن کر ۲۰،۲۵ اور شرک ثابت کر دے تو جب قرآن اور حدیث اور مسلمانوں کا ایسا مذہب ہے کہ شرک عظیم کا اس میں تیرہ سو برس تک پتہ نہ لگا تو پھر اس مذہب کا کیا اعتبار رہے گا؟
چنانچہ مرزاصاحب ایک اور استفتاء (ضمیمہ حقیقت الوحی ص۴۴، خزائن ج۲۲ ص۶۶۶) پر لکھتے ہیں کہ: ’’جو شخص بالقصد اس کا خلاف کرے اور یہ کہے کہ عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہے۔ پس ان لوگوں میں سے ہے کہ جو قرآن کے کافر ہیں۔ ہاں جو لوگ مجھ سے پہلے گزر گئے وہ اپنے اﷲ کے نزدیک معذور ہیں۔‘‘
دوسری کتاب (دافع البلاء ص۱۵، خزائن ج۱۸ ص۲۳۵) پر لکھتے ہیں کہ: ’’ہم نے سنا ہے کہ وہ بھی دوسرے مولویوں کی طرح اپنے مشرکانہ عقیدہ کی حمایت میں کہ تاکہ کسی طرح حضرت مسیح ابن مریم کو موت سے بچالیں اور دوبارہ اتار کر خاتم الانبیاء بنا دیں۔ بڑی جانکاہی سے کوشش کر رہے ہیں۔‘‘
(الفضل ج۳ نمبر۳، مورخہ ۲۹؍جون ۱۹۱۵ئ، ص۷) پر درج ہے: ’’پس ان معنوں میں مسیح موعود جو آنحضرتﷺ کی بعثت ثانی کے ظہور کا ذریعہ ہے۔ اس کے احمد اور نبی اﷲ ہونے سے انکارکرنا گویا آنحضرتﷺ کی بعثت ثانی اور نبی اﷲ ہونے سے انکار کرنا ہے۔ جو منکر کو دائرہ اسلام 2178سے خارج اور پکا کافر بنادینے والا ہے۔‘‘
اس ضمن میں مولوی نجم الدین صاحب گواہ مدعیہ نے ایک وجہ کفر یہ بیان کی ہے کہ مرزاصاحب نے تمام مسلمانان عالم کو جوان کی جماعت میں داخل نہیں خواہ وہ ان کو کافر کہیں یا نہ کہیں اور بقول خلیفہ ثانی ان کو دعوت پہنچے یا نہ۔ خارج از اسلام قرار دیا ہے۔ جو شخص تمام امت محمدیہ کو اسلام سے خارج کہتا ہے وہ کس طرح خود کو کفر کی زد سے بچا سکے گا۔
ان وجوہ کفر کے علاوہ مرزاصاحب کے حسب ذیل اعتقادات بھی عامتہ المسلمین کے اعتقادات کے خلاف بیان کئے گئے ہیں۔
مرزاصاحب یہ کہتے ہیں کہ قیامت کے معنی جو مسلمان اب تک سمجھتے تھے اس معنی پر قیامت نہیں ہونے کی۔ قرآن میں جو نفخ صور آیا ہے نہ اس سے یہ مراد ہے کہ واقعی کوئی نفخ صور ہے اور نہ یہ مراد ہے کہ قیامت قائم ہوگی۔ بلکہ اس سے مراد مرزاصاحب کا تشریف لانا ہے۔ قیامت کے متعلق جتنی آیات قرآن مجید میں ہیں اور جتنی احادیث میں ہیں ان تمام امور کا انکار ہے۔ صرف لفظوں کا انکار نہیں۔ مگر جن معنوں سے قرآن اور حدیث قیامت کو بیان کرتے ہیں۔ ان چیزوں کا انکار ہے۔ مردوں کا قبروں سے اٹھنا جو بہت سی آیات میں مذکور ہے اس کا بھی انکار ہے۔ وغیرہ وغیرہ!
مولوی غلام محمد صاحب شیخ الجامعہ گواہ مدعیہ نے مرزا صاحب کے چند دیگر اقوال بھی خلاف شریعت بیان کئے ہیں جو حسب ذیل ہیں۔
مثلاً مرزاصاحب اپنی کتاب (آئینہ کمالات ص۵۶۴، ۵۶۵، خزائن ج۵ ص ایضاً) پر لکھتے ہیں کہ: ’’میں نے خواب میں اپنے آپ کو اﷲ کا عین دیکھا اور یقین کیا کہ میں وہی ہوں اور خدائی والوہیت میرے رگ وریشہ میں گھس گئی اور میں نے اس حالت میں دیکھا کہ ہم نیا نظام بنانا چاہتے ہیں۔ نئی زمین، نیا آسمان۔ پس پہلے میں نے آسمان اور زمین کو اجمالی صورت میں پیدا کیا۔ جس میں کوئی تفریق وترتیب نہ تھی۔ پھر میں نے ان کو مرتب کیا اور میں اپنے دل سے جانتا تھا کہ 2179میں ان کے پیدا کرنے پر قدرت رکھتا ہوں۔ پھر میں نے سب سے قریبی آسمان کو پیدا کیا۔ پھر میں نے کہا کہ ’’
انا زینا السماء الدنیا بمصابیح… الخ!
‘‘ پھر میں نے کہا کہ ہم انسان کو کیچڑ میں سے پیدا کریں گے۔‘‘
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مرزاصاحب نے الوہیت کا دعویٰ کیا اور اپنے آپ کو خالق جانا اور کوئی شخص جب خدائی کا دعویٰ کرے اور اپنے آپ کو خالق جانے تو وہ اسلام سے مرتد ہو جاتا ہے۔
(حقیقت الوحی ص۸۶، خزائن ج۲۲ ص۸۹) پر لکھتے ہیں کہ: ’’خدا نے مجھے فرمایا کہ تو مجھ سے بمنزلہ میرے فرزند کے ہے۔‘‘
اس کتاب (حقیقت الوحی ص۱۰۳، خزائن ج۲۲ ص۱۰۶) پر لکھتے ہیں کہ: ’’میں رسول کے ساتھ ہو کر جواب دوں گا۔ کبھی خطا کروں گا کبھی ثواب کو پہنچوں گا۔‘‘
اس سے خدا کو غلطی کرنے والا قرار دیا گیا ہے۔
اسی کتاب (حقیقت الوحی ص۷۵، خزائن ج۲۲ ص۷۸) پر لکھتے ہیں کہ: ’’اﷲتعالیٰ نے فرمایا کہ جیسے زمین وآسمان ہمارے ساتھ اسی طرح تمہارے ساتھ بھی ہے۔‘‘ اس سے مرزاصاحب نے اﷲتعالیٰ کی طرح اپنے آپ کو حاضر وناظر جانا۔
اسی کتاب (حقیقت الوحی ص۱۰۵، خزائن ج۲۲ ص۱۰۸) پر لکھتے ہیں کہ: ’’اﷲتعالیٰ فرماتا ہے کہ تو جس چیز کو بنانا چاہے۔ پس ’’کن کہہ دے‘‘ وہ ہوجائے گی۔‘‘
(البشریٰ ج دوم ص۷۹) پر لکھتے ہیں کہ: ’’میں (اﷲتعالیٰ) نماز بھی پڑھتا ہوں، روزے بھی رکھتا ہوں، جاگتا بھی ہوں اور سوتا بھی ہوں۔ جس طرح میں ازلی ہوں۔ اس طرح تیرے لئے بھی میں نے ازلیت کے انوار کر دئیے ہیں اور تو بھی ازلی ہے۔‘‘
(توضیح المرام ص۷۵، خزائن ج۳ ص۹۰) پر لکھتے ہیں کہ: ’’قیوم العالمین ایک ایسا وجود اعظم ہے کہ جس کے بے شمار ہاتھ اور بے شمار پیر ہیں اور ہر ایک عضو اس کثرت سے ہے کہ تعداد سے خارج اور لا انتہاء عرض وطول رکھتا ہے اور تیندوے کی طرح اس وجود اعظم کی تاریں بھی ہیں جو صفحہ ہستی کے تمام کناروں تک پھیل رہی ہیں اور کشش کا کام دے رہی ہیں۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ مرزاصاحب خداوند تعالیٰ کو تیندوے کے ساتھ تشبیہ دیتے ہیں۔
کتاب (ضمیمہ نمبر۳ تریاق ص س، خزائن ج۱۵ ص۴۹۷) پر مرزاصاحب لکھتے ہیں کہ: ’’نئی زندگی ہرگز حاصل نہیں ہوسکتی جب 2180تک ایک نیا یقین پیدا نہ ہو اور کبھی نیا یقین پیدا نہیں ہوسکتا۔ جب تک موسیٰ مسیح اور یعقوب اور محمد مصطفیٰﷺ کی طرح نئے معجزات نہ دکھلائے جائیں۔ نئی زندگی انہی کو ملتی ہے جن کا خدا نیا ہو۔‘‘
اس سے مرزاصاحب نے خدا کو حادث بتلایا اور یہ عقائد وہ ہیں جو مرزاصاحب نے اﷲ تعالیٰ کے متعلق رکھے ہیں اور ان سے یقینا ایک مسلمان مرتد ہو جاتا ہے۔
قرآن شریف کے متعلق مرزاصاحب کا عقیدہ حسب ذیل ہے۔
(حقیقت الوحی ص۸۴، خزائن ج۲۲ ص۸۷) پر لکھتے ہیں کہ: ’’قرآن شریف خدا کی کتاب اور میرے منہ کی باتیں ہیں۔ ’’ان دلائل کے علاوہ مدعیہ کی طرف سے چند نظائر بمثل مسیلمہ کذاب وغیرہ کے بھی پیش کی گئی ہیں کہ انہوں نے دعویٰ نبوت کیا تھا اور اس بناء پر انہیں قتل کیاگیا ان کی زیادہ تفصیل درج کرنے کی ضرورت نہیں۔‘‘
اس تمام بحث سے جو اوپر بیان ہوئی حسب ذیل نتائج برآمد کئے گئے ہیں۔
۱… مرزاصاحب نے دعویٰ نبوت شرعیہ تشریعہ کیا جو باتفاق امت اور باتفاق مرزا صاحب کفر ہے۔ مرزاصاحب نے اپنے کلام میں شریعت کی تشریح بھی کر دی ہے۔
۲… مرزاصاحب نے اقرار فرمایا کہ خاتم النّبیین کے بعد مطلق نبوت منقطع ہے اور جو دعویٰ نبوت کرے وہ کافر ہے۔ مرزاصاحب نے دعویٰ نبوت کیا اس لئے کافر ہوئے۔
۳… مرزاصاحب نے یہ بھی فرمایا کہ خاتم النّبیین کے بعد کوئی نبی جدید یا قدیم نہیں آسکتا اور اس کو قرآن کا انکار کرنا بتلایا ہے۔ لیکن پھر خود دعویٰ نبوت کیا۔
۴… مرزاصاحب نے فرمایا کہ آنحضرتﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا۔ آپ کا خاتم الانبیاء ہونا۔ خاتم النّبیین اور ’’لا نبی بعدی‘‘ سے ثابت ہے اور پھر اس کے بعد یہ کہا کہ جو ایسا کہے کہ آپ کے بعد نبوت نہیں آسکتی وہ خود کافر ہے۔ اس لئے بھی مرزاصاحب کافر ہوئے۔
2181۵… مرزاصاحب نے جواز نبوت کو رسول اﷲﷺ کے بعد کفر قرار دیا ہے۔ اب مرزاصاحب اس نبوت کو فرض قرار دیتے ہیں اور ایمان قرار دیتے ہیں۔ یہ اس سے بڑھ کر کفر ہے۔
۶… مرزاصاحب دروازہ نبوت کو کھول کر اپنے ہی تک محدود نہیں رکھتے۔ بلکہ یہ کہتے ہیں کہ قیامت تک کھلا رہے گا۔ اس وجہ سے بھی کافر ہوئے۔
۷… مرزاصاحب یہ نہیں کہتے کہ رسول اﷲﷺ کے بعد کوئی دوسرا نبی آئے گا۔ بلکہ یہ کہتے ہیں کہ ممکن ہے کہ ہزار بار محمد رسول اﷲﷺ ہی خود بروز فرمائیں۔ گویا رسول اﷲﷺ جیسے ہزاروں لوگ یا ہزاروں نبی اب واقع ہوسکتے ہیں۔ امکان ذاتی نہیں بلکہ امکان وقوعی ہے۔ پھر مرزاصاحب نے یہ کہا کہ سرور عالم کی ایک بعثت پہلے تھی۔ ایک بعثت ثانیہ ہوئی اس کا حاصل تناسخ ہے جو تناسخ کا قائل ہے وہ کافر ہے۔
۸… مرزاصاحب کہتے ہیں کہ میں عین محمد ہوں۔ اس میں سرور عالم کی توہین ہے۔ اگر واقعی عین ہیں تو کھلا ہوا کفر۔ اگر عین محمد نہیں ہیں تو ان کے بعد دوسرے نبی ہوئے اورختم نبوت کی مہر ٹوٹ گئی۔ یہ اور وجہ کفر کی ہوئی۔
۹… مرزاصاحب نے دعویٰ وحی کیا اور ساتھ ہی دعویٰ وحی نبوت کیا جو کفر ہے۔
۱۰… مرزاصاحب نے اس وحی کو قرآن ،تورات اور انجیل کے برابر کہا۔ اس بناء پر قرآن آخر الکتب باقی نہیں رہتا۔ یہ بھی وجہ کفر ہے۔
۱۱… مرزاصاحب نے اپنے اقرار سے اور تمام علماء نے اس کی تصریح کی کہ جو شخص کسی نبی کو گالی دے یا توہین کرے وہ کافر ہے۔ مرزاصاحب نے عیسیٰ علیہ السلام کی کئی وجوہ سے توہین کی۔ ہر توہین موجب کفر ہے۔ علاوہ ازیں مرزا صاحب نے آدم علیہ السلام کی، سرور عالم کی توہین کی۔ اس لئے بھی کافر ہوئے۔
2182۱۲… مرزاصاحب نے احکام شریعت کو بدلا۔ لہٰذا اس وجہ سے بھی مرزاصاحب پر کفر لازم آتا ہے۔ مرزاصاحب نے فرمایا کہ کسی احمدی عورت کا غیراحمدی سے نکاح جائز نہیں۔ نیز یہ کہ کسی غیراحمدی کا جنازہ پڑھنا جائز نہیں۔ نیز فرمایا کہ ’’پس یاد رکھو کہ خدا نے مجھے اطلاع دی ہے۔ تمہارے پر حرام اور قطعی حرام ہے کہ کسی مکفر مکذب یا متردد کے پیچھے نماز پڑھو۔ بلکہ چاہئے کہ تمہارا وہی امام ہو جو تم میں سے ہو۔‘‘
(اربعین نمبر۳ حاشیہ ص۲۸، خزائن ج۱۷ ص۴۱۷)
مرزاصاحب نے فرمایا ہے کہ ’’جو مجھے نہ مانے وہ کافر ہے۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۱۷۹، خزائن ج۲۲ ص۱۸۵)
۱۳… مرزاصاحب نے نفخ صورکا انکار کیا۔ مردوں کے قبروں سے اٹھنے سے انکار ہے۔ جس طریق سے قیامت کی خبر قرآن اور حدیث میں آئی۔ ان سے بالکل انکار ہے۔ صرف ظاہری الفاظ ہی رکھے۔ مگر معنی الٹ بیان کئے۔ یہ وجوہ بھی مرزاصاحب کی تکفیر کے ہیں۔ لہٰذا ان وجوہ پر کسی مسلمان مردوعورت کا کسی احمدی مرد عورت سے نکاح جائز نہیں۔ اگر نکاح ہوگیا تو اور نکاح کے بعد کوئی اس مذہب میں داخل ہو جائے تو نکاح فوراً فسخ ہو جائے گا۔
اور اپنے اس ادعا کی تائید میں چند دیگر علماء کے فتاوے بھی پیش کئے گئے ہیں جو مسل کے ساتھ شامل ہیں اور سید انور شاہ صاحب گواہ نے مصر اور شام کے دو مطبوعہ فتوؤں کا حوالہ بھی اپنے بیان میں دیا ہے۔
تحریری فتوے جو مسل پر لائے گئے ہیں حسب ذیل مقامات کے علماء کے ہیں۔ مکہ معظمہ، ریاست رام پور، دارالافتاء ریاست بھوپال، ہمایوں (سندھ) بریلی۔ ڈابھیل، دہلی سہارن پورتھانہ بھون ملتان علماء کی فہرست میں شیخ عبداﷲ صاحب رئیس القضاۃ مکہ معظمہ، مفتی کفایت اﷲ صاحب صدر جمعیت علماء ہند اور مولوی اشرف علی صاحب کے اسماء بھی ہیں۔
فریق ثانی کی طرف سے ان دلائل کا جو مرزاصاحب کی تکفیر کے متعلق مدعیہ کی طرف سے پیش کئے گئے ہیں۔ تین طریق پر جواب دیا گیا ہے۔
اوّل! یہ کہ مرزاصاحب کی جن عبارات سے یہ دکھلایا گیا ہے کہ ان سے ان کے عقائد کفریہ ظاہر ہوتے ہیں۔ ان عبارات کے ماسبق اور مابعد کی عبارات کو مدنظر نہیں رکھاگیا اور نہ ہی سیاق وسباق عبارت کو زیرغور لایا گیا ہے اگر ان امور کو مدنظر رکھتے ہوئے ان عبارات پر غور کیا جاوے تو ان سے وہ نتائج اخذ نہیں ہوتے جو گواہان مدعیہ نے بیان کئے ہیں۔
دوسرا! یہ کہ مرزاصاحب نے خود دیگر مقامات پر ان عبارات کی تشریح کر دی ہے۔ اس لئے ان عبارات سے وہی مفہوم لیا جائے گا جو انہوں نے خود بیان کیا اور کہ دیگر مقامات پر ایسی عبارات بھی موجود ہیں کہ جن کو مدنظر رکھتے ہوئے نہیں کہا جاسکتا کہ ان عبارات زیر اعتراض سے مرزاصاحب کا وہی مدعا تھا جو گواہان مدعیہ نے اخذ کیا۔
تیسرا! یہ کہ مرزاصاحب کے اقوال زیر بحث میں سے بعض اقوال ایسے ہیں جو دیگر بزرگان دین سے بھی سرزد ہوئے۔ لیکن فریق مدعیہ کے نزدیک وہ بزرگان مسلمان تھے اس لئے ان اقوال کی بناء پر مرزاصاحب کے خلاف کیونکر فتویٰ تکفیر لگایا جاسکتا ہے۔ یہ تمام امور تشریح طلب ہیں اور اپنے اپنے موقعہ پر ان کی تفصیل بیان کی جائے گی اور وہاں ان کا پورا جواب بھی دیا جائے گا۔ یہاں ان کے متعلق مختصراً یہ درج کیا جاتا ہے کہ عبارات زیربحث میں سے بعض ایسی ہیں کہ جو اپنے اندر ایک مستقل مفہوم لئے ہوئے ہیں اور ان میں کوئی ایسا ابہام نہیں ہے کہ جو کسی تشریح یا توجیہ کا محتاج ہو۔ اس لئے ایسی عبارات کے نہ ماسبق اور مابعد دیکھنے کی ضرورت ہے اور نہ سیاق وسباق معلوم کرنے کی۔ لہٰذا ان فقرات کی اپنی ترتیب سے ہی جو مفہوم اخذ ہوگا وہی مراد لیا جائے گا۔
امر دوم! کے متعلق اوّل تو مرزاصاحب کی کتابوںکے مطالعہ سے یہ پایا جاتا ہے کہ ان کے بہت سے اقوال میں تعارض ہے اور اس تعارض کو کسی صاف تشریح یا وضاحت سے رفع نہیں کیا گیا۔ دوسرا جیسا کہ اوپر درج کیاگیا ہے بعض عبارات فی نفسہ ایسے مستقل جملے ہیں کہ جو اپنے مفہوم کی خود وضاحت کر رہے ہیں۔ اس لئے تاوقتیکہ یہ نہ دکھلایا جاوے کہ یہ کلمات واپس لئے 2183گئے۔ دیگر کلمات نہ ان کے قائمقام تصور ہوسکتے ہیں اور نہ ان کی تشریح بن سکتے ہیں۔ اس لئے یہ کہنا غلط ہے کہ ان اقوال کو ان اقوال کے تحت سمجھا جاوے۔ جو مرزاصاحب نے دوسری جگہ بیان کئے ہیں۔ کیونکہ وہ اقوال اقوال زیر بحث کو مسترد نہیں کرتے۔ بلکہ جیسا کہ مدعیہ کے گواہ سید انور شاہ صاحب نے بیان کیا ہے۔ معلوم یہ ہوتا ہے کہ یہ روش مرزا نے عمداً اختیار کی تاکہ نتیجہ گڑ بڑ رہے اور ان کو بوقت ضرورت مخلص اور مفرباقی رہے۔
امر سوم! کے متعلق اوّل تو ان بزرگان کے اقوال بعینہ ان الفاظ میں نہیں جو مرزاصاحب نے بیان کئے ہیں۔ دوسرا مقدمہ ہذا میں ان بزرگان کے مسلمان یا نہ مسلمان ہونے کا سوال زیربحث نہیں ہے اور نہ ہی ان کے دیگر حالات پیش نظر ہیں۔ اس لئے مرزاصاحب کے مقابلہ میں ان کے الفاظ پیش کرنا ایک سعی لاحاصل ہے۔
علاوہ ازیں سید انور شاہ صاحب گواہ مدعیہ نے یہ بیان کیا ہے کہ صوفیاء کے ہاں ایک باب ہے جس کو شطحیات کہتے ہیں۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ ان پر حالات گزرتے ہیں اور ان حالات میں کوئی کلمات ان کے منہ سے نکل جاتے ہیں جو ظاہری قواعد پر چسپاں نہیں ہوتے اور بسا اوقات غلط راستہ لینے کا سبب ہو جاتے ہیں۔ صوفیاء کی تصریح ہے کہ ان پر کوئی عمل پیرا نہ ہو اور تصریحیں کرتے ہیں کہ جس پر یہ احوال نہ گذرے ہوں۔ وہ ہماری کتاب کا مطالعہ نہ کرے۔ مجملاً ہم بھی یہ سمجھتے ہیں کہ کوئی شخص جو کسی حال کا مالک ہوتا ہے دوسرا خالی آدمی ضرور اس سے الجھ جائے گا۔ لیکن دین میں کسی زیادتی کمی کے صوفیاء میں سے بھی کوئی قائل نہیں اور ایسے مدعی کو کافر بالاتفاق کہتے ہیں۔
فریق ثانی کی طرف سے مرزاصاحب کی کتابوں سے ان کے چند عقائد بیان کئے جاکر یہ ظاہر کیاگیا ہے کہ قرآن مجید اور احادیث وفقہ کی رو سے جن باتوں کو ایک شخص کے مؤمن اور مسلمان ہونے کے لئے ضروری قرار دیا گیا ہے وہ سب مرزاصاحب میں ان کی جماعت میں پائی جاتی ہیں اور وہ ان سب پر خلوص دل اور صمیم قلب سے یقین اور اعتقاد رکھتے ہیں اور جن 2185اعمال صالحہ کے بجالانے کا حکم دیاگیا ہے۔ وہ سب بجا لاتے ہیں اور ان کا دین وہی ہے جو آنحضرتa خدا کی طرف سے لائے اور وہ ایمان رکھتے ہیں کہ دین اسلام کے سوا اگر کوئی شخص کوئی اور دین اختیار کرے تو وہ عند اﷲ ہر گز مقبول نہیں ۔ گواہان مدعیہ نے انہیں کافر، مرتد، ضال اور خارج از اسلام قرار دیا ہے اور ضروریات دین کا منکر ٹھہرایا ہے۔ لیکن جن امور کی بناء پر انہوں نے کافر اور مرتد کہاہے۔ ان کا ضروریات دین سے ہونا قرآن مجید اور احادیث صحیحہ سے ثابت نہیں کیا۔ بلکہ انہوں نے اپنے فتویٰ تکفیر کی بناء بعض علماء کے اقوال پر رکھی ہے اور اس ضمن میں ان علماء کے طرز افتاء پر اعتراض کرتے ہوئے چند کتب فقہ کے حوالوں سے یہ دکھلایا گیا ہے کہ اگر ان امور کو جو ان حوالہ جات میں درج ہیں مدنظر رکھا جاوے تو اس سے بڑے بڑے بزرگ اور تمام شیعہ اور وہ نئے تعلیم یافتہ نوجوان جو یہ کہتے سنے جاتے ہیں کہ اگر جنت میں ان موجودہ مولویوں نے بھی جانا ہے تو ہمیں ایسی جنت نہیں چاہئے اور وہ تمام مسلمان جو سرکاری دفتر میں ملازم ہیں اور اپنے ہندو یا عیسائی افسران کو تحائف دیتے ہیں کافر ہیں اور ان عورتوں کے لئے جو اپنے خاوندوں کی بدسلوکی سے تنگ ہیں اور ان کے عقد نکاح سے نکلنا چاہتی ہیں یہ اچھی ترکیب بتلائی گئی ہے کہ اگر ان میں سے کوئی عورت یہ کہہ دے کہ میں کافر ہوئی ہوں تو معاً وہ کافر ہو جائے گی اور اس کا نکاح فسخ ہو جائے گا اور وہ تمام مسلمان جو گاندھی ٹوپی یا ہیٹ لگاتے ہیں کافر ہیں اور اس طرح وہ مسلمان بھی جو ہندو اور انگریز افسروں کو سلام کرتے ہیں اور اس طرح سکول اور کالجوں کے وہ مسلمان طلباء جو اپنے ہندو یا عیسائی استادوں کو تعظیماً سلام کرتے ہیں اور اس طرح ہزارہا وہ تعلیم یافتہ اشخاص جو مولویوں کی دقیا نوسی باتوں پر جنہیں یہ لوگ علم اور دین خیال کرتے ہیں ہنستے ہیں کافر ہیں اور اس طرح وہ مسلمان جو کسی غیرمسلم کو اس کے سوال کرنے پر کہ مجھ پر اسلام کی صداقت بیان کر، کسی مولوی کے پاس برائے جواب لے جاتے ہیں کافر ہیں۔ وغیرہ وغیرہ!
2186پس اگر ان علماء اور مولویوں کے کہنے پر کسی کو کافر بنایا جاسکتا ہے تو مذکورہ بالا امور کے تحت تمام ایسے مسلمان جو اوپر بیان کئے گئے ہیں کافر ہیں اور ان کا نکاح فسخ ہونا چاہئے۔ لیکن اصول مذکورہ بالا پر علماء کا موجودہ زمانہ میں عمل نہیں ہے اور ان امور کو جو ان حوالہ جات میں درج ہیں۔ ضروریات دین میں سے سمجھا گیا ہے اور ان کے منکر کو کافر اور مرتد کہا گیا ہے۔ اس کے بعد یہ بیان کیاگیا ہے کہ گواہان مدعیہ نے اپنے بیانات کی تائید میں چند مفسرین کے اقوال نقل کئے ہیں۔ لیکن یہ بہت بڑی غلطی ہے کہ مفسرین کے اقوال کو بلا سوچے سمجھے من وعن تسلیم کر لیا جاوے اور جو کچھ وہ اپنے خیال وعقیدہ کے مطا بق لکھ گئے اسے حرف بحرف مان لیا جاوے۔ اس لئے ہمیں حسب تعلیم قرآن مجید ضروری ہوا کہ ہم خود بھی قرآن مجید کی آیات میں غور وتدبر کریں اور تحقیق کے بعد جو اقرب الی الصواب ہو اس کو اختیار کریں۔ پس مفسرین کے اقوال پر عقائد کی بنیاد رکھنا صحیح نہیں ہے۔ علماء اور ائمہ کی اندھی تقلید نہایت مذموم ہے۔ پس یہ ضروری نہیں کہ پہلے علماء جو کچھ تفسیروں میں لکھ گئے ہم آنکھ بند کر کے ان پر ایمان لے آویں۔ بلکہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ان فتوؤں اور اقوال کو کتاب اﷲ، سنت رسول اﷲﷺ اور عقل سلیم کی کسوٹی پر پرکھیں اور جو قرآن اور سنت سے صحیح ثابت ہو، اسے اختیار کریں اور مخالف کو چھوڑ دیں اور امت کے ان علماء کے متعلق ہمارا مذہب یہ ہے کہ انہوں نے اپنی نیک نیتی سے جو باتیں موافق اور مخالف پائیں یا جو وہ سمجھ سکے وہ ہم تک پہنچادیں۔ جس کے لئے وہ تمام ہمارے شکریہ کے مستحق ہیں۔
اس کے آگے پھر وجوہات تکفیر کا جواب شروع ہو جاتا ہے۔ اس لئے تحت میں اس بحث کا جواب درج کیا جاتا ہے۔
مرزاصاحب کے عقائد کے متعلق سید انور شاہ صاحب گواہ مدعیہ نے نہایت عمدہ جواب دیا ہے وہ کہتے ہیں کہ مرزاصاحب چونکہ مادر زاد کافر نہ تھے اور ابتداًء ان کی تمام اسلامی عقائد پر نشوونما ہوئی۔ اس لئے انہی کے وہ پابند تھے اور وہی کہے پھر تدریجاً ان سے الگ ہونا شروع ہوا۔ یہاں تک کہ آخری اقوال میں بہت سی ضروریات دین کے قطعاً مخالف ہوگئے۔ دوسرا یہ کہ 2187انہوں نے باطل اور جھوٹ دعوؤں کو رواج دینے کے لئے یہ تدبیر اختیار کی کہ اسلامی عقائد کے الفاظ وہی قائم رکھے جو قرآن اور حدیث میں مذکور ہیں اور عام وخاص مسلمانوں کی زبانوں پر جاری ہیں۔ لیکن ان کے حقائق کو ایسا بدل دیاجس سے بالکل ان عقائد کا انکار ہوگیا۔ اس لئے مرزاصاحب کی کتابوں سے ایسے اقوال پیش کرنا جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بعض عقائد میں اہل سنت والجماعت کے ساتھ شریک ہیں۔ ان کے اقوال وافعال کفریہ کا کفارہ نہیں بن سکتے۔ جب تک اس کی تصریح نہ ہو کہ ان عقائد کی مراد بھی وہی ہے جو جمہور امت نے سمجھی اور پھر اس کی تصریح نہ ہو کہ جو عقائد کفریہ انہوں نے اختیار کئے تھے۔ ان سے توبہ کر چکے ہیں اور جب تک توبہ کی تصریح نہ ہو چندعقائد اسلام کے الفاظ کتابوں میں لکھ کر کفر سے نہیں بچ سکتے۔ کیونکہ زندیق اس کو کہا جاتا ہے کہ جو عقائد اسلام ظاہر کرے اور قرآن وحدیث کے اتباع کا دعویٰ کرے۔ لیکن اس کی ایسی تاویل اور تحریف کر دے، جن سے اس کے حقائق بدل جائیں۔ اس لئے جب تک اس کی تصریح نہ دکھلائی جاوے کہ مرزاصاحب ختم نبوت اور انقطاع وحی کے ان معنی کے لحاظ سے قائل ہیں جس معنی سے کہ صحابہ، تابعین اور تمام امت محمدیہ قائل ہے۔ اس وقت تک ان کی کسی ایسی عبارت کا مقابلہ میں پیش کرنا مفید نہیں ہوسکتا۔ جس میں خاتم النّبیین کے الفاظ کا اقرار کیا۔ اسی طرح نزول مسیح وغیرہ عقائد کے الفاظ کا کسی جگہ اقرار کر لینا یا لکھ دینا بغیر تصریح مذکور کے ہر گز مفید نہیں ہے۔ خواہ وہ عبارت تصنیف میں مقدم ہو یا مؤخر۔
یہ بات ثابت ہوچکی کہ مرزاصاحب اپنی اخیر عمر تک دعویٰ نبوت پر قائم رہے اور اپنے کفریہ عقائد سے کوئی توبہ نہیں کی۔ علاوہ ازیں اگر یہ ثابت بھی نہ ہو تو کلمات کفریہ اور عقائد کفریہ کہنے اور لکھنے کے بعد اس وقت تک ان کو مسلمان نہیں کہہ سکتے۔ جب تک ان کی طرف سے ان عقائد سے توبہ کرنے کا اعلان نہ پایا جاوے اور یہ اعلان ان کی کسی کتاب یا تحریر سے ثابت نہیں پایا گیا۔
عدالت ہذا کی رائے میں مرزاصاحب کے عقائد کی بابت یہ جواب بہت جامع اور مدلل ہے اور گو کہ مختار مدعیہ نے اپنی بحث میں ان کے ہر عقیدہ پر تفصیلی بحث بھی کی ہے۔ لیکن اس کی 2188موجودگی میں ان عقائد پر مزید کسی بحث کی ضرورت نہیں رہتی۔ مختار مدعیہ نے بحث کی ہے کہ مرزاصاحب کا خود کلمہ طیبہ پر بھی پورا ایمان نہ تھا۔ کیونکہ اس کلمہ پر اس صورت میں ہی مکمل ایمان تصور ہوسکتا ہے۔ جب کہ خداوند تعالیٰ کی صفات اور رسول اﷲﷺکی خصوصیات پر پورا ایمان ہو۔ مرزاصاحب کے بعض اقوال سے یہ پایا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے اندر الوہیت کو موجزن پایا اور اپنے آپ میں خدائی طاقتیں اور صفتیں موجود دیکھیں اور اپنے آپ کو رسول اﷲﷺ کی خصوصیات اور مدارج میں شریک بتلاتے ہیں اور انہیں خاتم النّبیین بمعنی آخری نبی تسلیم نہیں کرتے۔ اس لئے نہیں کہا جاسکتا کہ وہ کلمہ طیبہ پر انہیں لوازم کے تحت ایمان رکھتے ہیں۔ جیسا کہ دیگر مسلمان۔ اس لئے بھی انہیں مسلمان تصور نہیں کیا جاسکتا۔
لیکن عدالت ہذا کی رائے میں ایسی تفصیلی بحث میں جانے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ مرزاصاحب کی تکفیر کا سوال مقدمہ ہذا میں اصل سوال مابہ النزاع نہیں بلکہ ایک ضمنی سوال ہے۔ اصل سوال مدعا علیہ کے ارتداد اور تکفیر کا ہے۔ اس لئے مرزاصاحب کے اعتقادات کے متعلق صرف اس حد تک بحث کی ضرورت ہے جس حد تک کہ مدعا علیہ کے خلاف امور مذکورہ بالا کے تصفیہ کے لئے روشنی پڑ سکتی ہے۔
علاوہ ازیں اگر اس بحث کو بفرض محال صحیح بھی تسلیم کر لیا جاوے تو پھر یہ دکھلانا پڑے گا کہ مدعا علیہ کا کلمہ طیبہ پر بھی ویسا ہی ایمان ہے۔ جیسا کہ مرزاصاحب کا، اور اس کا حل مشکلات سے خالی نہیں ہوگا۔ کیونکہ مدعا علیہ کی نیت کا اندازہ پورے طور نہیں لگایا جاسکتا۔
مدعا علیہ کی طرف سے یہ کہاگیا ہے کہ جن امور کی بناء پر مرزاصاحب اور ان کی جماعت کو ضروریات دین کا منکر قرار دیا جاکر کافر اور مرتد کہاگیا ہے ان کا ضروریات دین سے ہونا قرآن مجید یا احادیث صحیحہ سے ثابت نہیں کیاگیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ مدعا علیہ کی طرف سے یاتو مدعیہ کی پیش کردہ شہادت اور بحث کو بغور ذہن نشین نہیں رکھاگیا یا دیدہ دانستہ مغالطہ پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ گواہان مدعیہ نے بہت تکرار اور شدومد کے ساتھ اور خود مرزاصاحب کے 2189اپنے حوالوں سے یہ دکھلایا ہے کہ رسول اﷲa کے خاتم النّبیین ہونے کا عقیدہ بایں معنی کہ آپ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آسکتا۔ نص قرآن سے اور احادیث متواترہ سے اور اجماع امت سے ضروریات دین سے ہے اور اس کا انکار کفر ہے اور اس کی تائید میں انہوں نے بہت سی آیات قرآن اور احادیث پیش کی ہیں کہ جن میں سے بعض کی صحت کے متعلق جیسا کہ آگے دکھلایا جائے گا۔ خود مدعا علیہ کو بھی انکار نہیں۔ پھر سمجھ میں نہیں آتا کہ کیونکر یہ کہاگیا ہے کہ انہوں نے قرآن یا حدیث سے اس کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔ البتہ اگر یہ کہا جاتا کہ وہ ثبوت قوی نہیں۔ توکچھ بات بھی تھی۔ لیکن یہ کہنا بالکل خلاف واقع ہے کہ ان کی طرف سے قرآن اور احادیث سے کوئی ثبوت پیش نہیں کیاگیا۔ مدعیہ کی طرف سے بیان کردہ وجو ہات تکفیر اوپر درج کی جاچکی ہیں۔ ممکن ہے کہ ان میں سے بعض کے متعلق (گو کہ ایسا نہیں ہے جیسا کہ آگے دکھلایا جائے گا) یہ کہا جاسکے کہ وہ ضروریات دین میں سے نہیں ہیں۔ مگر مسئلہ ختم نبوت کے متعلق یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ضروریات دین سے نہیں۔ ضروریات دین کی اگرچہ ایک وسیع اصطلاح ہے اور ممکن ہے کہ بعض علماء نے اس کے تحت میں اپنی دانست کے مطابق بہت سے ایسے امور بھی داخل کر دئیے ہوں کہ جو بحث طلب ہوں۔ تاہم اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ختم نبوت کا مسئلہ اسلام کے اہم اور بنیادی مسائل سے ہے۔ ضروریات دین کا مفہوم گواہان مدعیہ نے اپنے بیانات میں ظاہر کر دیا ہے۔ جو اوپر گزر چکا ہے۔ اگر اس اصطلاح کے لفظی معنی بھی مراد لئے جاویں تو ان الفاظ کا یہ مطلب ہوسکتا ہے کہ وہ امور جو کسی دین میں داخل رہنے کے لئے ضروری ہوں اور جن کے نہ ماننے سے وہ شخص اس دین کا پیرو نہ سمجھا جاسکے۔ ضروریات دین سے ہوتے ہیں رسول اﷲﷺ کا خاتم النّبیین ماننا بایں معنی کہ آپ آخری نبی ہیں۔ مذہب اسلام میں داخل رہنے کے لئے ضروری اور لابدی ہے۔ کیونکہ آپ کے بعد اگر کوئی اور نبی مانا جائے تو مدعیہ اور اس کے گواہان کے نزدیک نہ یہ صرف نص قرآن اور احادیث متواترہ کا انکار ہوگا بلکہ معمول بہ اس نئے نبی کی وحی ہو جائے گی نہ کہ قرآن اور اس سے وہ شخص مذہب اسلام سے خارج ہو جائے 2190گا اور یہ بات کہ رسول اﷲﷺ کا آخری نبی ماننا نہ صرف مسلمانوں کے نزدیک ان کے مذہب کے بنیادی مسائل میں سے ہے۔ بلکہ اس کی نظیر دیگر مذاہب میں بھی ملتی ہے۔ مثلاً یہود اور نصاریٰ جن کے مذاہب کی تفریق محض اس بناء پر ہے کہ وہ اپنے اپنے پیشواؤں کے بعد اور کسی نبی کو تسلیم نہیں کرتے۔ اس طرح مسلمانوں کا یہ عقیدہ چلا آیا ہے کہ رسول اﷲﷺ کے بعد اور کوئی نبی نہیں اب اگر کوئی مسلمان کسی اور کو نبی مانے تو وہ مذہب اسلام کا پیرو نہیں سمجھا جائے گا۔ اس لئے ختم نبوت سے بڑھ کر اور کون سا مسئلہ ضروریات دین میں سے ہوسکتا ہے۔ یہ آگے دکھلایا جائے گا کہ اس بارہ میں جو اسناد پیش کی گئی ہیں وہ کس فریق کی معتبر اور زیادہ وزن دار ہیں۔
یہاں میں یہ درج کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ موجودہ زمانہ میں بہت سے مسلمان نبی کی حقیقت سے بھی ناآشنا ہیں۔ اس لئے بھی ان کے دلوں میں یہ مسئلہ گھر نہیں کر سکتا کہ مرزا صاحب کو نبی ماننے میں کیا قباحت ہوتی ہے کہ جس پر اس قدر چیخ وپکار کی جارہی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ اس کی کچھ تھوڑی سی حقیقت بیان کر دی جاوے۔
مدعیہ کی طرف سے نبی کی کوئی تعریف بیان نہیں کی گئی۔ صرف یہ کہا گیا ہے کہ نبوت ایک عہدہ ہے۔ اﷲتعالیٰ کی طرف سے اس کے برگزیدہ بندوں کو عطا کیا جاتا رہا ہے اور نبی اور رسول میں فرق بیان کیاگیا ہے کہ ہر رسول نبی ہوتا ہے اور نبی کے لئے لازمی نہیں کہ وہ رسول بھی ہو۔ فریق ثانی نے بحوالہ نبر اس ص۸۹۔ بیان کیا ہے کہ رسول ایک انسان ہے جسے اﷲتعالیٰ احکام شریعت کی تبلیغ کے لئے بھیجتا ہے۔ بخلاف نبی کے کہ وہ عام ہے۔ کتاب لائے یا نہ لائے۔ رسول کے لئے کتاب لانا شرط ہے۔ اس طرح رسول کی ایک تعریف یہ بھی کی گئی ہے کہ رسول وہ ہوتا ہے کہ جو صاحب کتاب ہو۔ یا شریعت سابقہ کے بعض احکام کو منسوخ کرے۔
یہ تعریفیں چونکہ اس حقیقت کے اظہار کے لئے کافی نہ تھیں۔ اس لئے میں اس جستجو میں رہا کہ نبی یا رسول کی کوئی ایسی تعریف مل جائے جو تصریحات قرآن کی رو سے تمام لوازم نبوت پر حاوی ہو۔ اس سلسلہ میں مجھے مولا نا محمود علی صاحب پروفیسر راندھیر کالج کی کتاب ’’دین وآئین‘‘ 2191دیکھنے کا موقعہ ملا۔ انہوں نے معترضین کے خیالات کو مدنظر رکھتے ہوئے نبوت کی حقیقت یہ بیان کی کہ جس شخص کے دل میں کوئی نیک تجویز بغیر ظاہری وسائل اور غور کے پیدا ہو۔ ایسا شخص پیغمبر کہلاتا ہے اور اس کے خیالات کو وحی سمجھا جاتا ہے۔ لیکن یہ تعریف بھی مجھے دلچسپ معلوم نہ ہوئی۔ آخر کار ایک رسالہ میں ایک مضمون بعنوان میکائیکی اسلام از جناب چوہدری غلام احمد صاحب پرویز میری نظر سے گزرا۔ اس میں انہوں نے مذہب اسلام کے متعلق آج کل کے روشن ضمیر طبقہ کے خیالات کی ترجمانی کی ہے اور پھر خود ہی اس کے حقائق بیان کئے ہیں۔ اس سلسلہ میں نبوت کی جو حقیقت انہوں نے بیان کی ہے۔ میری رائے میں اس سے بہتر اور کوئی بیان نہیں کی جاسکتی اور میرے خیال میں فریقین میں سے کسی کو اس پر انکار بھی نہیں ہوسکتا۔ اس لئے میں ان کے الفاظ میں ہی اس حقیقت کو بیان کرتا ہوں۔ وہ لکھتے ہیں کہ آج کل کے معقولیت پسندوں کی جماعت کے نزدیک رسول کا تصور یہ ہے کہ وہ ایک سیاسی لیڈر اور ایک مصلح قوم ہوتا ہے۔ جو اپنی قوم کی نکبت اور زبوں حالی سے متاثر ہوکر انہیں فلاح وبہبود کی طرف بلاتا ہے اور تھوڑے ہی دنوں میں ان کے اندر انضباط وایثار کی روح پھونک کر زمین کے بہترین خطوں کا ان کو مالک بنادیتا ہے۔ اس کی حقیقت قوم کے ایک امیر کے قسم کی ہوتی ہے۔ جن کے ہر حکم کا اتباع اسلئے لازمی ہوتا ہے کہ انحراف سے قوم کی اجتماعی قوت میں انتشار پیدا ہو جانے کا خطرہ ہوتا ہے اور وہ دنیاوی نعمتیں جو اس کے حسن تدبیر سے حاصل ہوئی تھیں۔ ان کے چھن جانے کا احتمال ہوتا ہے۔
اس کا حسن تدبر، عقل حکمت ذہنی انسان کے ارتفاع کی بہترین کڑی ہوتا ہے۔ اس لئے وہ اپنے ماحول کا بہترین مفکر شمار کیا جاتا ہے۔ کثرت ریاضت سے برائی کی قوتیں اس سے سلب ہو جاتی ہیں اور نیکی کی قوتیں نمایاں طور پر ابھرآتی ہیں۔ انہی قوتوں کا نام ان کے نزدیک ابلیس اور ملائکہ ہے۔ اس کا جواب پھر انہوں نے بحوالہ آیات قرآنی یہ دیا ہے۔
2192کہ رسول بلاشبہ مصلح اور مدبر ملت ہوتا ہے۔ لیکن اس کی حقیقت دنیاوی مصلحین اور مدبرین سے بالکل جداگانہ ہوتی ہے۔ دنیاوی مفکرین ومدبرین اپنے ماحول کی پیداوار ہوتے ہیں اور ان کا فلسفہ اصلاح وبہبود ان کی اپنی پرواز فکر کا نتیجہ ہوتا ہے۔ جو کبھی صحیح اور کبھی غلط ہوتا ہے۔ برعکس اس کے انبیاء کرام علیہم السلام مامور من اﷲ ہوتے ہیں اور ان کا سلسلہ اس دنیا میں خاص مشیت باری تعالیٰ کے ماتحت چلتا ہے۔ وہ نہ اپنے ماحول سے متاثر اور نہ احوال وظروف کی پیداوار ہوتے ہیں۔ بلکہ ان کا انتخاب مملکت ایزدی سے ہوتا ہے اور ان کا سرچشمہ علوم وہدایت علم باری تعالیٰ سے ہوتا ہے۔ جس میں کسی ہود خطا کی گنجائش نہیں۔ ان کا سینہ علم لدنی سے معمور اور ان کا قلب تجلیات نور ازلی سے منور ہوتا ہے۔
دنیاوی سیاست وتفکر صفت ہے جو اکتساباً حاصل ہوتی ہے اور مشق ومہارت سے یہ ملکہ بڑھتا ہے۔ لیکن نبوت ایک موہبت ربانی اور عطائے یزدانی ہے۔ جس میں کسب ومشق کو کچھ دخل نہیں۔ قوم وامت کی ترقی ان کے بھی پیش نظر ہوتی ہے۔ لیکن سب سے مقدم اخلاق انسانی کی اصلاح مقصود ہوتی ہے۔ اس کا پیغام زمان ومکان کی قیود سے بالا ہوتا ہے اور وہ تمام انسانوں کو راستہ دکھلانے والا اور ان کا مطاع ہوتا ہے۔ اس کی اطاعت میں خدا کی اطاعت اور اس کی معصیت خدا کی معصیت ہے اور جو لائحہ حیات اس کی وساطت سے دنیا کو ملتا ہے اس میں کوئی دنیاوی طاقت ردوبدل نہیں کر سکتی۔ بلکہ دنیا بھر کی عقول میں جہاں کہیں اختلاف ہو اس کا فیصلہ بھی اس کی مشعل ہدایت سے ہوسکتا ہے۔ ان کو خدائی پیغام ملائکہ کی وساطت سے ملتے ہیں جو اگرچہ عالم امر سے متعلق ہونے کی وجہ سے سرحد ادراک انسانی سے بالا تر ہیں۔ لیکن ان کا وجود محض انسان کی ملکوتی قوتیں نہیں ہیں۔
اس حقیقت کو ذہن نشین رکھنے کے بعد یہ بات آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہے کہ رسول اﷲﷺ کے بعد کسی دوسرے نبی کو تسلیم کرنے سے کیا قباحت لازم آئے گی۔ تصریحات قرآنی کی رو سے نیا نبی مطاع ہو جائے گا۔ اس سے اختلاف نہیں کیا جاسکے گا۔ اس کی ہر بات 2193کے آگے سر تسلیم خم کرنا پڑے گا۔ وہ جو حکم دے گا اس کی تعمیل لازمی ہوگی۔ ورنہ اعمال کے خبط ہونے کا اندیشہ ہوگا۔ اس کی شان میں ذرا بھر گستاخی نہیں کی جاسکے گی۔ بلکہ اس کے سامنے اونچا بولنا بھی گناہ ہوگا۔ اس کی اطاعت عین خدا کی اطاعت ہوگی اور اس سے روگردانی ایمان سے خارج ہونے کا باعث اور موجب عذاب الٰہی ہوگی۔
اس لئے مدعیہ کی طرف سے بحوالہ آیات قرآنی واحادیث یہ کہاگیا ہے کہ رسول اﷲa کے بعد اور کوئی نیا نبی نہیں ہوسکتا اور کوئی مسلمان کسی اور شخص کو نبی مانے تو دائرہ اسلام میں داخل نہیں رہ سکتا۔ مدعا علیہ کی طرف سے کتب فقہ سے جن عبارات کا حوالہ دیا جاکر علماء کے طرز افتاء پر اعتراض کیاگیا ہے۔ ان کے متعلق ایک تو خود مدعا علیہ کے اپنے گواہان کا بیان ہے کہ فی زمانہ ان پر علماء کا عمل نہیں۔ دوسرا مدعیہ کی طرف سے ان حوالہ جات کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ وہ کلمات کفر ہیں۔ نہ کہ فتاویٰ تکفیر، کلمہ کفر اور چیز ہے اور فتویٰ کفر اور چیز۔ کسی شخص پر ان کلمات کی بناء پر محض ان الفاظ کے استعمال سے ہی فتویٰ نہیں لگا دیا جائے گا۔ بلکہ فتویٰ ان اصولوں کے تحت لگایا جائے گا جو اس غرض کے لئے مجوز ہیں۔
عدالت ہذا کی رائے میں مدعیہ کا یہ جواب وزن رکھتا ہے۔ علاوہ ازیں علماء کے اقوال سند کے لحاظ سے وہ حیثیت نہیں رکھتے جو متواترات کی بیان کی گئی ہے۔ کلمات زیربحث کو ریکارڈ پر لانے اور اپنے خیال کے مطابق ان کی تشریح کرنے سے گواہان مدعا علیہ کا منشاء سوائے اس کے اور کوئی معلوم نہیں ہوتا کہ مسئلہ زیربحث کی نوعیت اور اہمیت کو خفیف کر کے دکھلایا جاوے۔ حالانکہ مسئلہ ختم نبوت کا ان مسائل سے کوئی تعلق نہیں۔ جن پر اعتراض کیاگیا ہے۔
اور غالباً وہ یہ چاہتے ہیں کہ عام لوگوں کے دلوں میں علماء کے متعلق ایک حقارت پیدا کی جا کر ان کے طرز افتاء کی مذمت ظاہر کی جاوے اور ہر فرقہ اور ہر طبقہ کے لوگوں کے جذبات ان کے خلاف ابھارے جاویں اور موجودہ زمانہ کے روشن خیال طبقہ کی جو اپنے آپ کو ہر اصلاح کا علمبردار سمجھتا ہے۔ ہمدردی حاصل کی جاوے۔
2194مذہب کے متعلق فی زمانہ جو بے اعتنائی برتی جارہی ہے۔ وہ محتاج بیان نہیں۔ قرآن مجید کے نزول کے زمانہ میں جو لوگ اس پر ایمان نہیں لائے تھے وہ اسے اضغاث احلام اور اساطیر الاولین کہا کرتے تھے۔ موجودہ زمانہ میں جو لوگ کہ مذہب کا جوا، اپنی گردن سے نہیں نکال پھینکنا چاہتے۔ وہ گو ان الفاظ کو اپنے منہ سے نکالنے کی تو جرأت نہیں کرتے۔ لیکن حقائق ومعارف قرآنی پر اپنے دل میں پورا یقین نہیں رکھتے اور بقول مولانا محمود علی صاحب یہ کہتے ہوئے سنے جاتے ہیں کہ اسلام میں زمانہ کے ساتھ چلنے کی صلاحیت نہیں ہے اور انقلاب حالات سے جو جدید ضرورتیں پیدا ہوتی ہیں اور جن کی وجہ سے اقوام عالم کو اپنی طرز وروش میں تغیر وتبدل کرنا پڑتاہے۔ اسلام ایسے انقلابوں کے اندر اپنی روش کو بدل کر دوسری روش پر چلنے کی قابلیت نہیں رکھتا اور اس کے ماننے والے اپنے حالات کے اندر کوئی اصلاح یا ترمیم نہیں کر سکتے اور کسی تہذیب جدید کا ساتھ نہیں دے سکتے۔
ان کے اسی اعتراض کا جواب تو مولانا صاحب موصوف نے اپنی کتاب ’’دین وآئین‘‘ میں دے دیا ہے۔ مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں۔ یہاں صرف یہ دکھلانا مقصود تھا کہ اس قسم کے خیالات آج کل عام ہیں اور چونکہ فریق مدعا علیہ کے بیان کردہ اصولوں کے مطابق اس طبقہ کے خیالات کی رو سے اسلام میں اصلاح کرنے کی کافی وسعت ہے۔ اس لئے مدعا علیہ کی طرف سے علماء کے خلاف بدظنی پیدا کی جا کر اس طبقہ کے دل میں ان کے خلاف حقارت اور نفرت پیدا کرنے کی سعی کی گئی ہے اور یہ کوشش کی گئی ہے کہ اس مقدمہ میں مدعیہ کی طرف سے جو علماء پیش ہوئے ہیں انہیں دقیانوسی خیالات کا پیرو اور مرض تکفیر میں مبتلا دکھلایا جاکر ان کی بیان کردہ وجوہات تکفیر کو تمسخر میں اڑا دیا جاوے اور یہ دکھلایا جاوے کہ ان کی بیان کردہ وجوہات تکفیر کوئی حقیقت نہیں رکھتیں اور انہوں نے محض اس وجہ سے کہ جماعت احمدیہ کے اصول چونکہ صلاحیت مذہبی کی طرف رجوع دلاتے ہیں۔ اپنی پرانی عادت سے مجبور ہوکر براہ بغض اور کینہ انہیں کافر کہا ہے۔ ورنہ دراصل ان کا کوئی عقیدہ یا عمل کفر کی حد تک نہیں پہنچتا۔ حالانکہ مسئلہ زیربحث ایسا نہیں 2195کہ اسے اس طرح مذاق میں اڑا دیاجاوے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ علماء غلطی نہیں کرتے یا یہ کہ وہ انسانی کمزوریوں سے پاک ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کی کسی رائے کو وقعت کی نگاہ سے نہ دیکھا جاوے اور ان کی کسی بات پر کان نہ دھرا جاوے۔ بلکہ چاہئے کہ ان کے اقوال پر ٹھنڈے دل سے غور کیا جاوے اور یہ دیکھا جاوے کہ کہاں تک راستی پر ہیں۔ مسئلہ ختم نبوت کے بارہ میں انہوں نے جو کچھ کہا ہے وہ صداقت سے خالی نہیں۔
مدعا علیہ کی طرف سے کتب تفاسیر کے حوالوں پر جو اعتراض کیاگیا ہے۔ اس کے متعلق صرف یہ لکھ دینا کافی ہے کہ ان حوالوں کو نہ یہاں درج کیاگیا ہے اور نہ ہی اس فیصلہ کا انحصار ان حوالوں پر رکھا گیا ہے اور سند کے اعتبار سے صرف قرآن مجید اور احادیث کو ہی معیار تصفیہ قرار دیا گیا ہے اور یہ عمل اس لئے اختیار کرنا پڑا ہے کہ فریقین کی طرف سے اپنے اپنے ادعا کی تائید میں بے شمار کتابیں جن کی تعداد سینکڑوں تک پہنچتی ہے۔ پیش کی گئیں ہیں۔ مدعا علیہ نے مدعیہ کی پیش کردہ کتب میں سے کسی کو بھی اپنے اوپر حجت تسلیم نہیں کیا۔ سوائے مرزاصاحب اور ان کے خلفاء کی کتابوں کے اور اسے اپنے اعتقاد کے مطابق ایسا ہی کرنا چاہئے تھا۔ کیونکہ جب وہ مرزاصاحب کونبی مانتا ہے تو اس کے لئے معمول بہ مرزاصاحب کی وحی کے سوا اور کوئی چیز نہیں ہو سکتی۔ اس کے لئے اس کا دوسری کتابوں کو بطور حجت تسلیم نہ کرنا کوئی تعجب کی بات نہیں۔ باقی قرآن اور احادیث کے متعلق اس نے یہ رویہ اختیار کئے رکھا ہے کہ آیات قرانی کا جو مفہوم مدعیہ کی طرف سے بیان کیاگیا ہے۔ اس کے متعلق اس نے یا تو یہ بیان کیا ہے کہ وہ درست نہیں ہے یا اس کی کوئی اور تاویل کر دی ہے اور احادیث کے بارہ میں بھی جو حدیث اس کے مفید مطلب تھی وہ تو لے لی اور جو اس کے خلاف تھی اس کی صحت کے متعلق یا تو اس نے انکار کر دیا ہے یا اس کی بھی کوئی تاویل کر دی اور اس کا یہ عمل بھی مرزاصاحب کی تعلیم کے خلاف نہیں۔ کیونکہ مرزاصاحب فرماتے ہیں کہ جو حدیث میری وحی کے معارض ہے وہ ردی کی ٹوکری میں پھینکنے کے قابل ہے۔ اس کے علاوہ مدعا علیہ نے جن دیگر مصنّفین کی کتابوں کے حوالے پیش 2196کئے ہیں۔ ان کے متعلق بھی اس کا یہ ادعا ہے کہ وہ چونکہ مدعیہ کے ہم مذہب اشخاص کی تصنیف شدہ ہیں۔ اس لئے اس نے انہیں مدعیہ کے خلاف بھی بطور حجت پیش کیا ہے۔ اس کے لئے وہ کوئی حجت نہیں۔ اس لئے ان حوالوں پر بحث کرنی نہ صرف غیرضروری خیال کی گئی ہے۔ بلکہ اسے مشکلات سے بھی خالی نہیں پایا گیا۔ کیونکہ فریقین نے ایک دوسرے کے خلاف خیانت کے بھی الزام لگائے ہیں اور یہ بھی اعتراض کئے ہیں کہ بعض مصنّفین کی کتابیں انہیں مسلم نہیں ہیں۔ اس لئے یہ طے کرنے کے لئے کہ کہاں تک خیانت ہوئی اور کس کس مصنف کی کتاب فریقین کے عقائد کے مطابق ہے اور آیا وہ فریقین کے مسلمات میں سے بھی ہیں یا نہ اور کہ ان سے جو نتائج اخذ کئے گئے ہیں وہ درست ہیں یا نہ اور کہ فریقین کو ان کی رائے کا پابند قرار دیا جاسکتا ہے یا نہ۔ بہت وقت وسیع مطالعہ اور کافی محنت کی ضرورت ہے اور پھر اس سے نتیجہ کے بھی پورے طور واضح اور عام فہم ہونے کی توقع نہیں۔ اس لئے ایک طرف قرآن مجید اور احادیث پر اور دوسری طرف مرزاصاحب اور ان کے خلفاء کی کتابوں پر حصر رکھا جا کر دیگر تمام حوالہ جات کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔
مدعا علیہ کی طرف سے یہ کہاگیا ہے کہ گواہان مدعیہ کا یہ کہنا کہ ادعا وحی کفر ہے اور اگر کوئی شخص مطلق وحی کا دعویٰ کرے خواہ نبوت کا مدعی نہ بھی ہو، تب بھی وہ کافر ہے اور کہ بنی آدم میں وحی پیغمبروں کے ساتھ مختص ہے اور غیر کیلئے کشف، الہام یا وحی معنوی ہوسکتی ہے۔ درست نہیں ہے کیونکہ قرآن مجید کی آیت ’’وما کان لبشر… الخ!‘‘ میں اﷲتعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ صرف پیغمبروں کے ساتھ ہی ان تین طرق مندرجہ آیت مذکور سے کلام کرتا ہے اور غیرپیغمبروں سے نہیں کرتا۔ بلکہ اس آیت میں بشر کا لفظ رکھا ہے۔ جس میں نبی اور غیر نبی دونوں داخل ہیں۔
سورہ قصص رکوع نمبر۱، آیت ’’
واوحینا الیٰ ام موسیٰ… الخ!
‘‘ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر وحی صرف پیغمبروں کے ساتھ مخصوص ہوتی تو ام موسیٰ پر خدا کی طرف سے یہ وحی نازل نہ ہوتی۔
اس طرح سورہ مریم کی آیت ’’
فارسلنا الیہا روحنا… الخ!
‘‘ اور آیت ’’
واذ قالت الملائکۃ… مع الراکعین۰ واذ قالت الملائکۃ2197… مقربین‘
‘ اور سورۂ کہف رکوع نمبر۱۱ کی آیت ’’
قلنا یا ذوالقرنین… حسنا
‘‘ کے حوالہ جات پیش کئے جاکر یہ دکھلایا گیا ہے کہ:
۱… وحی انبیاء سے مخصوص نہیں، بلکہ غیر انبیاء پر بھی وحی ہوسکتی ہے۔ بلکہ ہوتی ہے جیسا کہ اوپر مذکور ہوا۔
۲… جن طریقوں سے اﷲتعالیٰ انبیاء علیہم السلام سے کلام کرتا ہے، انہی طریقوں سے غیرانبیاء یعنی اولیاء وغیرہ کے ساتھ بھی ہم کلام ہوتا ہے جیسا کہ آیت نمبر۱ سے ظاہر ہوتا ہے۔
۳… فرشتوں کا نزول انبیاء علیہم السلام سے خاص نہیں، بعض اوقات غیرانبیاء پر بھی ایسی وحی نازل ہو جاتی ہے جس میں امر ونہی ہوتے ہیں اور کہ غیر انبیاء کی وحی بھی غیب کی خبروں پر مشتمل ہوتی ہے۔
اس کے آگے مدعا علیہ کے گواہ کا یہ بیان ہے کہ مدعیہ کے گواہان نے جو یہ کہا کہ آنحضرتﷺ کے بعد کسی پر وحی نہیں ہوسکتی جو اس کا دعویٰ کرے وہ کافر اس کی انہوں نے قرآن مجید یا احادیث سے کوئی دلیل پیش نہیں کی۔ ہاںصرف ایک گواہ نے بحوالہ آیت ’’
والذین یؤمنون… من قبلک
‘‘ پیش کر کے کہا ہے کہ آنحضرتﷺ کے بعد بھی کوئی وحی نازل ہونی ہوتی تو اس آیت میں ضرور اس کا ذکر کر دیا جاتا۔ چونکہ ذکر نہیں کیاگیا۔ اس لئے معلوم ہوا کہ آپ کے بعد وحی نہیں ہوسکتی۔ اس کا ایک جواب یہ ہے کہ اس آیت میں تشریعی وحی کا ذکر ہے اور چونکہ آنحضرتﷺ کے بعد ایسی وحی جو آپﷺ کی شریعت کی ناسخ ہو، منقطع تھی۔ اس لئے اس کا ذکر نہیں کیا گیا۔ اس کی تائید میں پھر چند علماء کے اقوال نقل کئے جاکر یہ کہاگیا ہے کہ علماء کہتے ہیں کہ ہمارے پاس کوئی ایسی خبر نہیں آئی جس سے معلوم ہو کہ آنحضرتﷺ کے بعد وحی تشریعی ہوگی۔ بلکہ وحی الہام ہوگی۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ اکابر علماء لکھ چکے ہیں کہ مسیح موعود پر وحی ہوگی اور حدیث میں آنحضرتﷺ فرماتے ہیں کہ مسیح موعود پر خدا کی طرف سے وحی ہوگی۔ تیسرا جواب یہ ہے کہ جو قرآن مجید پر ایمان رکھتا ہے اور یہ تسلیم کرتا ہے کہ مسیح موعود آئے گا تو ان پر وحی ہوگی تو اسے 2198خدا کی طرف سے یقین کرے گا۔ پس اس لحاظ سے یہ آیت تشریعی وحی کے انقطاع پر دلالت کرتی ہے۔ غیرتشریعی وحی کے انقطاع پر دلالت نہیں کرتی۔ اس امر کی دلیل میں کہ آنحضرتﷺ کے بعد غیرشریعت والی وحی ہوسکتی ہے اور آنحضرتﷺ کے کامل متبعین پر اس کا دروازہ بند نہیں ہے۔ آیات ذیل ’’الم یرو انہ… سبیلا‘‘ پارہ۹، رکوع۸ اور ’’افلا یرون… قولا‘‘ پارہ۱۶، رکوع۱۳، کے حوالے دیا جاکر یہ کہاگیا ہے کہ ان آیات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بندوں سے خدا کا کلام کرنا ضروری ہے۔ پس کیونکر مان لیا جاوے کہ حرم کعبہ کا رب اور قرآن کے اتارنے والا خدا جو بچھڑے کی عبودیت اور الوہیت کا ابطال اس کے عدم تکلم کی وجہ سے کرتا ہے۔ خود اپنے پیارے بندوں سے ویسا سلوک کرے نیز آیت ’’
ومن اضل ممن… غافلون
‘‘ سورۂ احقاف رکوع نمبر۱، سے یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ خداوند تعالیٰ اپنے بندوں کی پکار سنتا اور ان کو جواب دیتاہے اور آیت ’’
قل ان کنتم تحبون اﷲ… الخ!
‘‘ آل عمران رکوع نمبر۴ سے یہ نتیجہ اخذ کیاگیا ہے کہ خدا اپنے بندوں سے پیار کرتا ہے اور یہ بدیہی بات ہے کہ محب اپنے محبوب سے ہم کلام ہو اور اس کی باتیں سنے اور اپنی کہے ورنہ عدم کلام نقص محبت پر دلیل ہوگا۔ کیونکہ محبوب کا کلام نہ کرنا دلیل ناراضگی ہے اور خدا جو اپنے بندوں پر ماں باپ سے بڑھ کر مہربان ہے۔ ضرور اپنے پیارے بندوں سے کلام کرتا ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ جب وہ اپنے پیاروں سے کلام کرتا تھا تو اب نہ کرے۔ اﷲتعالیٰ کی ایک صفت جو اس کی خدائی پر ایک اعلیٰ دلیل ہے وہ اس کا متکلم ہونا ہے۔ پس یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ اب قیامت تک اس صفت کا تعطل مان لیا جاوے اور کہا جاوے کہ اس کی صفت تکلم زائل ہوچکی۔ یعنی کہ وہ اب کسی سے کلام نہ کرے گا تو اس کا سمیع ہونا کیونکر معلوم ہوگا۔ کہنے والے پھر بھی کہہ دیں گے کہ وہ پہلے سمیع تھا اور اب نہیں۔ اس کی تائید میں پھر یہ ایک دنیاوی مثال دی گئی ہے۔ اگر کوئی عاشق اپنے کسی محبوب کے دروازہ پر آہ وبکا اور گریہ زاری کرتے ہوئے بیقراری کی حالت میں جائے۔ مگر محبوب نہ دروازہ کھولے اور نہ اندر سے کوئی آواز آوے تو یقینا وہ عاشق نا امید ہوکر لوٹے گا اور خیال کرے گا کہ یا تو میرا محبوب مر چکا یا مجھے دھوکا 2199دیا گیا۔ پس اس طرح اﷲتعالیٰ جس کا دیدار بوجہ اس کے وراء الورا اور لطیف ہونے کے ہم نہیں کر سکتے۔ اگر وہ گفتار سے بھی اپنے عشاق کو تسلی نہیں دے سکتا تو آخر وہ ایک دن ناامید ہوکر اسے چھوڑ دیں گے۔ تعشق اور محبت کا مادہ انسان کی فطرت میں ودیعت کیاگیا ہے اور وہ ایسے محبوب کو جس کے دیدار اور گفتار سے اپنے آپ کو ہمیشہ کے لئے محروم سمجھے اسے کبھی اپنے عشق کا محل نہیں ٹھہراتا حقیقی عاشق اپنے محبوب سے ہم کلام ہونے کے لئے اپنے دل میں ازحد تڑپ رکھتا ہے اور اس کے کلام کو اپنے لئے تریاق اور آب حیات سمجھتا ہے۔ پس وہ علیم خبیر ہستی جو انسانوں کے اندر احساسات وجذبات کا پیدا کرنے والا ہے کس طرح اپنے عشاق کو اپنی ہم کلامی سے محروم رکھ سکتا ہے اور ا س کی تائید میں آیات ذیل ’’واذا سألک عبادی عنی فانی قریب… الخ!‘‘ اور ’’
ان الذین قالوا… تتنزل الملائکۃ
‘‘ حم سجدہ رکوع نمبر۴ پیش کی گئی ہیں۔ اس کے بعد پھر آیات ’’
رفیع الدرجات ذوالعرش… یوم التلاق
‘‘ سورہ مؤمن رکوع نمبر۲ اور ’’
تنزل الملائکۃ بالروح من امرہ علی من یشائ… فاتقون
‘‘ سے یہ استدلال کیاگیا ہے کہ جس طرح اﷲتعالیٰ اپنے بندوں کو از منۂ سابقہ میں اپنے وحی سے مشرف کرتا رہا ہے۔ آئندہ بھی کرے گا۔ کیونکہ آیت میں نزول وحی کا موجب اﷲتعالیٰ کا رفیع الدرجات وذوالعرش ہونا ہے اور ضرورت انداز قرار دیا گیا ہے۔ پس جب کہ اﷲتعالیٰ اب بھی رفیع الدرجات اور ذوالعرش ہے۔ اس میں تغیر نہیں آیا اور لوگ بھی بلحاظ روحانیت مردہ ہوگئے تو پھر وحی کا انقطاع کیونکر مان لیا جاوے۔ اﷲتعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’
کنتم خیر امۃ اخرجت للناس… الخ!
‘‘ یعنی امت محمدیہ تمام امتوں سے بہتر ہے اور نعمت بھی اس پر پوری ہوچکی اور دعا بھی خدا نے ہمیں یہ سکھلائی کہ ’’
صراط الذین انعمت علیہم
‘‘ کہ اے خدا تو ہمیں اپنے پیارے اور مقرب بارگاہ بندوں یعنی انبیاء صدیقین اور شہدائے اور صالحین کے راستہ پر چلا تو عقل سلیم کیونکر تسلیم کر سکتی ہے کہ امت محمدیہ جو سب امتوں سے بہتر ہو لیکن انعامات الٰہیہ سے محروم ہو پہلی امتوں کے مردوں کے علاوہ اﷲ تعالیٰ نے عورتوں کو بھی اپنے کلام سے مشرف کیا اور ان پر فرشتے نازل ہوئے۔ لیکن امت محمدیہ 2200کے بڑے سے بڑے درجہ کے مرد کو بھی یہ انعام نہ ملے۔ پس یہ کہنا کہ امت مرحومہ پر وحی الٰہی کا دروازہ بند ہے اور خدا اس سے کلام نہیں کرتا تو پھر یہ خیر الامم کیسے ہوئی؟ اور یہ کہنا غلطی ہے کہ خداتعالیٰ نے آنحضرتﷺ کے بعد جو تمام عالم کے لئے رحمت ہوکر آئے تھے اس انعام کو لوگوں سے چھین لیا ہے اور امت میں سے کسی ایک فرد کو بھی اپنے ہم کلام ہونے کے مبارک شرف سے ہمیشہ کے لئے محروم کر دیا ہے۔ اﷲتعالیٰ اور اس کا پاک رسول اور اولیاء امت یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ فیضان الٰہی اس امت پر بند نہیں ہیں اور آنحضرتﷺ فرماتے ہیں کہ تم میں سے پہلے قوم بنی اسرائیل میں ایسے لوگ ہوئے ہیں کہ باوجود یہ کہ وہ نبی نہ تھے۔ لیکن اﷲتعالیٰ ان سے کلام کرتا تھا۔ میری امت میں ایسے لوگوں میں اگر کوئی ہے تو عمرؓ ہے۔ دوسری روایت میں محدث کالفظ آیا ہے۔ صحابہؓ نے حضورﷺ سے دریافت فرمایا کہ یا رسول اﷲ محدث سے کیا مراد ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ فرشتے اس کی زبان پر کلام کرتے ہیں۔
اس کے بعد حضرت شیخ ابن عربیؒ، حضرت امام ربانی مجدد الف ثانیؒ اور مولانا رومؒ کی کتابوں کے حوالوں سے یہ بیان کیاگیا ہے کہ ان کے نزدیک بھی یہ پایا جاتا ہے کہ تمام اقسام وحی کی جو قرآن میں مذکور ہیں خدا کے بندوں اولیاء اﷲ سب میں پائی جاتی ہیں اور وحی جو نبی میں ہے وہ خاص ہے اور شریعت والی وحی ہے اور کہ جو وحی انبیاء علیہم السلام کو ہوتی ہے۔ وہ اس امت کے بعض کامل افراد کو بھی ہوتی ہے اور جیسا کہ مولانا رومؒ نے کہا ہے ہوتی تو وہ وحی حق ہے۔ لیکن صوفیائے عام لوگوں سے پردہ کرنے کی خاطر اسے وحی دل میں کہہ دیتے ہیں اور کہ جن طریق سے انبیاء علیہم السلام کو وحی الہام ہوتا ہے انہیں طرق سے اولیاء اﷲ کو ہوتا ہے۔ اگرچہ اصطلاحاً ان کا نام رکھنے میں فرق کیاگیا ہے اور یہ علماء کی اپنی اصطلاح ہے اور اصطلاح فرق مراتب کے لحاظ سے قرار پاگئی ہے کہ انبیاء کی وحی کو وحی اور اولیاء کی وحی کو الہام کہتے ہیں اور کہ ولی پر بھی وحی بواسطہ ملک ہوتی ہے اور مدعیہ کے اعتقاد کے مطابق عیسیٰ کے نزول پر ان پر وحی نازل ہوگی اور اس کے متعلق علماء کا قول ہے کہ وہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کی زبان پر ہوگی اس 2201کے آگے یہ کہاگیا ہے کہ مرزا صاحب کی کتب سے جو یہ دکھلایا گیا ہے کہ وہ بھی آنحضرتﷺ کے بعد سلسلہ وحی کو منقطع مانتے ہیں تو وہاں ان کی مراد وحی شریعت سے ہے نہ کہ دوسری وحی سے جسے وہ جاری سمجھتے ہیں ان تصریحات سے یہ نتیجہ اخذ کیاگیا ہے کہ آنحضرتﷺ کے بعد ایسی وحی کہ جس میں نئے اوامر ونواہی نہ ہوں جاری ہے اور جن علماء نے یہ کہا ہے کہ آپﷺ کے بعد وحی اور الہام کا سلسلہ بند ہے تو اس سے مراد ایسی وحی ہے جو شریعت محمدیہ کے مخالف نئے اوامر ونواہی پر مشتمل ہو۔ نہ مطلق وحی جس کا امت محمدیہ میں باقی رہنا قرآن مجید، حدیث وبزرگان دین کے اقوال سے ثابت ہے۔ اس کے آگے پھر دوسرا ہیڈنگ شروع ہو جاتا ہے۔ اس کے تحت میں اس بحث کا جواب درج کیا جاتا ہے۔
مدعیہ کی طرف سے جس وحی کے متعلق یہ کہاگیا ہے کہ اس کا ادّعا کفر ہے۔ اس سے مراد وحی نبوت سے ہی ہے۔ فریق مدعیہ کے نزدیک وحی کا لفظ صرف انبیاء کے لئے ہی مختص ہے اور وہ اس امر کے قائل نہیں کہ جو وحی نبی کی ہوتی ہے وہ غیرانبیاء کو بھی ہوسکتی ہے۔ اس لئے اب مدعا علیہ کے بحث سے ہی یہ طے کرنا ہے کہ آیا اس قسم کی وحی جو انبیاء کو ہوتی ہے غیرانبیاء کو بھی ہوسکتی ہے یا نہ۔ اس کے متعلق جن آیات قرآنی کا حوالہ مدعا علیہ کی طرف سے پیش کیاگیا ہے۔ ان کے ظاہری الفاظ سے یہ پایا جاتا ہے کہ حضرت ام موسیٰ پر وحی ہوئی۔ حضرت مریم پر فرشتے اترے، اور ذوالقرنین سے اﷲتعالیٰ نے کلام فرمایا۔ لیکن اگر یہ نتیجہ محض ان الفاظ ’’اوحینا قالت الملائکۃ‘‘ اور ’’قلنا‘‘ کے استعمال سے اخذ کیا جاتا ہے تو یہ درست نہیں۔ کیونکہ وحی کا لفظ قرآن مجید میں نہ صرف ذوی العقول کی بابت استعمال فرمایا گیا ہے۔ بلکہ غیرذوی العقول کی بابت بھی جیسا کہ سورۂ نحل میں ہے کہ شہد کی مکھی کو وحی کی گئی۔ یہاں میرے خیال میں مدعا علیہ کے نزدیک بھی وحی سے مراد وہ وحی نہیں ہوسکتی جو انبیاء کو ہوتی ہے۔ یہاں یقینا اس کے کوئی اور معنی بمثل فطرت میں داخل کرنا یا اسے سوجھانا کئے جائیں گے۔ اس طرح قرآن مجید میں وحی کا لفظ اور بھی کئی مقامات پر استعمال ہوا ہے۔ جس کے سیاق وسباق سے یہ نتیجہ اخذ نہیں ہوتا کہ وہاں اس لفظ 2202سے مراد اس قسم کی وحی ہے جو انبیاء کو ہوتی ہے اور غالباً اس شبہ کو زائل کرنے کے لئے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق قرآن مجید میں بتصریح یہ فرمایا گیا کہ ہم نے تیری طرف اس قسم کی وحی بھیجی ہے جیسا کہ حضرت نوح، ابراہیم، اسحق، اسماعیل، یعقوب (علیہم السلام) اور ان کی اولاد کی طرف بھیجی گئی۔ سورۂ نساء پارہ۶، رکوع نمبر۳ آیت ’’
انا اوحینا الیک کما اوحینا الیٰ نوح… زبوراً
‘‘ اس لئے ان مواقعات پر جہاں کہ لفظ وحی کے استعمال سے وحی نبوت کے معنی اخذ نہیں ہوسکتے۔ اس لفظ سے مراد جیسا کہ علماء نے لی ہے القاء کرنا یا دل میں ڈالنا ہی لی جائے گی۔ اسی طرح قرآن مجید میں ایک اور جگہ ہے ’’وان الشیٰطین لیوحون الیٰ اولیاء ہم‘‘ تو کیایہاں بھی لفظ وحی کے استعمال سے وحی انبیاء لی جاسکے گی۔
قرآن مجید میں اس قسم کے اور بھی کئی الفاظ ہیں کہ جن کے ظاہری معنی مراد نہیں لئے گئے۔ مثلاً فتنہ کا لفظ جس کے معنی عام طور پر آزمائش کے لئے گئے ہیں اس طرح اس کی سند بیان نہیں کی گئی کہ فرشتے ہر حال میں ذات باری کی طرف سے ہی بحیثیت رسول اترتے اور کلام کرتے رہے۔ ممکن ہے کہ نیک آدمیوں پر ان کا اترنا عام انتظام کائنات کے سلسلہ میں ہو یا روحانی ترقی کے مدارج میں داخل ہو۔ اس لئے حضرت مریم پر فرشتوں کے اترنے سے یہ نتیجہ لازمی طور پر برآمد نہیں ہوتا کہ اﷲتعالیٰ غیر انبیاء سے اس طریق پر کلام کرتا ہے۔ جیسا کہ انبیاء کے ساتھ، باقی رہی وہ آیت جو ذوالقرنین کے متعلق ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ بعض کے نزدیک وہ نبی تھے۔ اگر نبی تھے تو انہیں وحی نبوت ہوئی ہوگی اور اگر نبی نہ تھے تو ان کے متعلق محض لفظ قال کا استعمال عمومیت کے طور پر یہ نتیجہ اخذ کرنے کے لئے کافی نہیں کہ غیر انبیاء کے ساتھ بھی اﷲ تعالیٰ ہم کلام ہو سکتا ہے۔ علاوہ ازیں اگر یہ مان بھی لیا جاوے کہ حضرت ام موسیٰ اور حضرت مریم کو ایسی ہی وحی ہوئی جیسا کہ انبیاء کو ہوتی ہے تو اس سے لازمی طور پر یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ ایسی وحی ہر غیرانبیاء کو ہوسکتی ہے۔ کیونکہ یہ بیبیاں پیغمبروں کی مائیں تھیں اور ان ہر دو پیغمبروں کے متعلق یہ خطرہ تھا کہ انہیں پیدا ہونے کے بعد ہلاک نہ کر دیا جاوے۔ اس لئے ان کی ماؤں کو تسکین دینے 2203کے لئے اگر اﷲتعالیٰ نے اپنی ہم کلامی سے مشرف فرمادیا ہو تو کوئی عجب نہیں۔ اس کے ساتھ ہی پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ یہ واقعات حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت سے قبل کے ہیں۔ ممکن ہے کہ خاص حالات کے تحت خاص خاص اشخاص کے ساتھ ہم کلام ہونا مشیت ایزدی سے ضروری سمجھا گیا ہو اور ا س کی تائید خود مدعا علیہ کی اپنی بحث سے ہوتی ہے۔ جیسا کہ وہ کہتا ہے کہ آنحضرتa نے فرمایا ہے کہ بنی اسرائیل میں ایسے لوگ ہوئے ہیں کہ باوجود یہ کہ وہ نبی نہ تھے اﷲتعالیٰ ان سے کلام کرتا تھا۔ چنانچہ ذوالقرنین بھی اسی ذیل میں داخل سمجھے جاسکتے ہیں۔ لیکن اس کے بعد جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ میرے بعد نبوت میں سے سوائے مبشرات کے اور کچھ باقی نہیں تو پھر کیونکر کہا جاسکتا ہے کہ غیر انبیاء کو بھی وہی وحی ہوتی ہے جو انبیاء کو ہوتی ہے۔ اس حدیث کو فریق مدعا علیہ نے صحیح تسلیم کیا ہے۔ لیکن اس کی یہ تاویل کی ہے کہ یہ عام اشخاص کے متعلق ہے۔ خواص کے لئے نہیں اگر خواص اس سے مستثنیٰ تھے تو کوئی وجہ نہ تھی کہ رسول اﷲa اس کی تصریح نہ فرمادیتے۔ یہ حدیث حضرت عائشہؓ سے بھی روایت کی گئی ہے۔
باقی رہے صوفیائے کرام کے اقوال اور تحریریں، ان کے متعلق ایک جواب تو اوپر سید انور شاہ صاحب کے بیان کے حوالہ سے دیاجاچکا ہے کہ انہوں نے ان اشخاص کو جو ان کی اصطلاحات سے واقف نہ ہوں، اپنی کتابوں میں نظر کرنے سے منع فرمایا اور اس کا دوسرا جواب بھی شاہ صاحب مذکور کے الفاظ میں نقل کیاجاتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ صوفیائے کرام نے نبوۃ کوبمعنی لغوی لے کر مقسم بنایا اور اس کی تفسیر خدا سے اطلاع پانا۔ دوسرے کو اطلاع دینا کی، اور اس کے نیچے انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام دونوں کو داخل کیا اور نبوت کو دو قسم کر دیا۔ نبوت شرعی اور نبوت غیر شرعی، نبوت کے نیچے وحی اور رسل دونوں درج کر دئیے اور اب ان کے لئے نبوت غیر شرعی اولیاء کے کشف اور الہام کے لئے نکھر گیا اور مخصوص ہوگیا۔ صوفیائے کرام کی تصریح ہے کہ کشف کے ذریعہ مستحب کا درجہ بھی ثابت نہیں ہوتا۔ صرف اسرار معارف، مکاشف اس کا دائرہ ہیں اور تصریح فرماتے ہیں کہ ہمارا کشف دوسرے پر 2204حجت نہیں۔ ہمارا کشف ہمارے لئے ہے۔ گواہ مذکور نے کشف، الہام اور وحی کی یہ تعریف بیان کی ہے کہ کشف اسے کہتے ہیں کہ کوئی پیرایہ آنکھوں سے دکھلایا جس کی مراد کشف والا خود نکالے۔ دل میں کچھ مضمون ڈال دیا اور سمجھا دیا جاوے یہ الہام ہے۔
خدا نے پیغام بھیجا۔ اپنے ضابطہ کا وہ وحی ہے۔ وحی قطعی ہے اور کشف والہام ظنی ہیں۔ بنی نوع آدم میں وحی پیغمبروں کے ساتھ مخصوص ہے۔ غیروں کے لئے کشف یا الہام ہے یا معنوی وحی ہو سکتی ہے، شرعی نہیں۔
وحی کے شرعی یا غیرشرعی ہونے کی جو تفریق مدعا علیہ کی طرف سے کی گئی ہے۔ اس کی تائید میں اس نے سوائے اقوال بزرگان کے اور کوئی سند پیش نہیں کی اور ان اقوال کی گومدعیہ کی طرف سے توجیہ اور تشریح کی گئی ہے اور یہ دکھلایا گیا ہے کہ ان بزرگان کی ان اقوال سے کیا مراد ہے اور ان کے دیگر صریح اقوال پیش کئے گئے ہیں کہ جن میں وہ رسول اﷲﷺ کو خاتم النّبیین بمعنی آخری نبی تسلیم کرتے ہیں اور آپﷺ کے بعد کسی اور نبی کا آنا ممکن نہیں سمجھتے۔ لیکن ان پر اس لئے بحث کی ضرورت نہیں کہ وہ قرآن مجید اور احادیث کے مقابلہ میں کوئی حجت نہیں ہوسکتے اور مدعا علیہ کی طرف سے جو اعتراض مدعیہ پر عائد کیاگیا تھا کہ اس نے وجوہات تکفیر کے ضروریات دین ہونے کے متعلق قرآن یا حدیث سے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا وہ بدرجہ اولیٰ خود مدعا علیہ پر وارد ہوتا ہے کہ اس نے شرعی اور غیر شرعی وحی کی جو تقسیم کی ہے اس کے متعلق کوئی ثبوت قرآن واحادیث سے پیش نہیں کیا۔ محض قیاسات سے ہی یہ کہاگیا کہ جس آیت کا حوالہ مدعیہ کی طرف سے دیاگیا ہے۔ اس میں آئندہ وحی کا ذکر نہیں، وہ شریعت والی وحی کے انقطاع پر دلالت کرتی ہے۔
مدعیہ کی طرف سے درست طور پر یہ کہاگیا ہے کہ صوفیائے کرام نے نبوت کی جو قسمیں بیان کی ہیں وہ ان کی اپنی قائم کردہ اصطلاحات کے مطابق ہیں۔ اس لئے ان کی قائم کردہ اصطلاحات کو عام امت کے مقابلہ میں حجت قرار دینا درست نہیں ہے۔ مسیح موعود پر وحی کا ہونا مستثنیات سے ہے۔ جس کی استثناء خود حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کر دی اس سے وحی نبوت کے اجراء کا عمومیت کے ساتھ نتیجہ نکالنا ایک غلطی ہے۔
2205آیت ’’
وما کان لبشر… الخ!
‘‘ میں بشر کے لفظ کے متعلق مدعیہ کی طرف سے کہاگیا ہے کہ’’مراد انبیاء علیہم السلام سے ہے۔‘‘ لیکن اگر عام بشر بھی مراد لئے جاویں تو اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ خدا بالعموم آدمیوں سے کلام کرتا رہتا ہے۔ بلکہ اس میں اﷲتعالیٰ نے اپنے بندوں کے ساتھ ہم کلام ہونے کے طریق بتلائے ہیں۔ باقی کلام کا کرنا یا نہ کرنا اس کی اپنی مشیت پر منحصر ہے۔ لہٰذا گواہان مدعیہ نے یہ درست کہا ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد وحی نبوت جاری ہوتی تو قرآن مجید میں ضرور اس کی صراحت فرمادی جاتی۔ کیونکہ اس پر امت کی فلاح کا دارومدار تھا۔ باقی مولانا روم کی کتاب مثنوی کے حوالے سے جو یہ بیان کیاگیا ہے کہ وہ لکھتے ہیں کہ اولیاء کو جو وحی ہوتی ہے وہ دراصل وحی حق ہوتی ہے اور اولیاء عام لوگوں سے پردہ کرنے کی خاطر اسے وحی دل کہہ دیا کرتے ہیں۔ یہ ان کے شاعرانہ خیالات ہیں، اور شاعر کی نیت میں جیسا کہ سید انور شاہ صاحب گواہ مدعیہ نے کہا ہے۔ منوانا اس کا عالم کو منظور نہیں ہوتا اور پھر جہاں انہوں نے وحی حق کے الفاظ لکھے ہیں ان کے ساتھ ہی واﷲ اعلم بالصواب کا جملہ بھی موجود ہے۔ اس سے ان کے مفہوم کا خود اندازہ لگایاجاسکتا ہے۔ پارہ نمبر۹، رکوع نمبر۸ اور پارہ۱۶، رکوع نمبر۱۳ کی آیات محولہ بالا سے بھی یہ استدلال درست نہیں کیاگیا کہ آنحضرتa کے بعد غیرشریعت والی وحی ہوسکتی ہے۔ کیونکہ اوّل تو آیات اس زمانہ اور ان حالات سے تعلق رکھتی ہیں جو نزول قرآن کے وقت موجود تھے اور ان میں ان لوگوں کو خطاب ہے جو عبادت الٰہی سے ناآشنا اور غافل ہوں اور اب رسول اﷲa کی تعلیم کے بعد کسی ادنیٰ سے ادنیٰ مسلمان کا بھی یہ عقیدہ نہیں ہوسکتا کہ خداتعالیٰ سمیع، بصیر اور علیم نہیں۔ باقی رہا اس کا آدمیوں سے کلام کرنا وہ اس کی مشیت پر منحصر ہے۔ اسے کسی کی آہ وبکا، فریاد فغاں سے کلام کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ دنیاوی عاشق ومعشوق کی مثال عشق الٰہی پر نہایت ہی نازیبا طریق پر عائد کی گئی۔ تاہم اس مثال کو بھی اگر مدنظر رکھا جاوے تو رسول اﷲa کی تعلیم ایسی ناقص نہیں کہ عاشقان الٰہی اگر فی الحقیقت وہ پورے معنوں میں عاشقان الٰہی بن چکے ہیں۔ خداوند تعالیٰ کے دروازہ سے نا امید ہوکر لوٹیں۔ یا نعوذ باﷲ 2206یہ تصور کریں کہ ان کا محبوب مرچکا یا انہیں دھوکا دیا گیا۔ دنیاوی معشوق بھی اگر اپنے عاشق کی آہ وبکا سن کر اندر سے اسے کوئی تحفہ بھیج دے یا اس کی بات کو سن کر اس کا کوئی کام سرانجام کر دے تو باوجود اس کے کہ وہ اس سے ہم کلام نہ ہو یا اپنا دیدار نہ کرائے۔ اس کا عاشق ضرور سمجھ لے گا کہ اس کا معشوق زندہ ہے اور اس سے محبت کرتا ہے۔ دنیا میں عاشقان الٰہی کی تعداد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد آج تک کوئی تھوڑی نہیں سمجھی جاسکتی اور ویسے تو ایسے عشاق نہ صرف مذہب اسلام میں بلکہ ہر مذہب میں سینکڑوں کی تعداد میں پائے جائیں گے۔ اگر اﷲتعالیٰ کے ہم کلام ہونے کا ذریعہ اس کے عشاق کے دل کی تڑپ ہی قرار دی جاوے تو ضرور ہے کہ اﷲتعالیٰ نے اس عرصہ میں ہر ایک عاشق سے نہ سہی سوویں ہزارویں سے سہی۔ دس پندرہ بیس سال کے بعد نہ سہی، سو ہزار سال کے بعد سہی کسی نہ کسی ایک سے تو ہم کلامی فرمائی ہوتی؟ نہ یہ کہ تیرہ سو سال تک یک دم خاموشی اختیار کئے رکھنے کے بعد صرف ایک شخص سے ہم کلام ہونا منظور فرمایا گیا اور وہ بھی زیادہ تر پرانی تیرہ سو سال والی زبان میں گویا اب اس کے پاس الفاظ اور معانی کا ذخیرہ ختم ہوچکا ہے۔ اگر نعوذ باﷲ خدا کے پاس ہم کلامی کے لئے نہ کوئی اور نیا مواد ہے اور نہ نئے الفاظ۔ تو پھر بیچارے مولویوں کا کیا قصور ہے کہ انہیں پرانی لکیر کا فقیر قرار دیا جاکر کوسا جاتا ہے۔ کیونکہ انہوں نے خدا کے اس پرانے کلام کی تعبیر وہی کرنی ہے جو پہلے سے ہوتی آئی ہے۔
اگر عشاق کی تسلی محض گفتگو سے ہوتی اور وجود باری تعالیٰ کے علم کا ذریعہ بھی یہی ہوتا کہ جب کبھی اس کا کوئی عاشق بیقراری کی حالت میں آہ وبکا کرتا ہوا اس کے دروازہ پر پہنچے تو اسی کے لئے فوراً دروازہ کھل جائے۔ تو اسلام صفحۂ ہستی سے کبھی کانابود ہوچکا ہوتا۔ کیونکہ تیرہ سو سال کا زمانہ ایسا نہیں کہ عشاق نعوذ باﷲ خداوند تعالیٰ کی اس بے اعتنائی کو دیکھ کر اس کے دروازہ پر پڑے رہتے۔ بلکہ بقول گواہ مدعا علیہ عرصہ سے ناامید ہوکر لوٹ چکے ہوتے اور پھر اس کی کیا گارنٹی ہے کہ اﷲتعالیٰ صرف ان عشاق سے ہی گفتگو کرتا ہے کہ جو مذہب اسلام سے تعلق رکھتے ہوں اور دوسرے سے نہیں کرتا۔ علاوہ ازیں عشاق کی تسلی محض گفتگو سے نہیں ہوا کرتی۔ بلکہ 2207جیسا کہ مدعا علیہ کے گواہ نے بھی ظاہر کیا ہے۔ دیدار یاران کا مطمع نظر ہوتا ہے۔ اس لئے ممکن ہے کہ عشاق جب گفتگوئے یار سے بہرہ اندوز ہوں تو پھرکبھی اپنے عشق کی مستی میں قوم موسیٰ کی طرح ’’
ارنا اﷲ جہرۃ
‘‘ کی رٹ لگانی شروع کر دیں اور بجائے اس کے کہ دیداریار سے لذت اندوز ہوں۔ اپنا بیڑہ بھی غرق کر بیٹھیں۔ شک نہیں کہ حقیقی عشاق کے دلوں میں ضرور اپنے محبوب کے متعلق ایک تڑپ ہوتی ہے۔ اس تڑپ کے فرو کرنے کا علاج یہ نہیں کہ محبوب سے ضرور ہم کلامی ہو۔ ’’باری عزاسمہ‘‘ نے اپنے عشاق کی تڑپ فرو کرنے کا علاج خود ہی اپنے زندہ کلام قرآن پاک میں یہ فرمایا ہے۔ ’’
الا بذکر اﷲ تطمئن القلوب
‘‘ یعنی خدا کی یاد سے دل مطمئن ہوتے ہیں اور زیادہ اضطراب پیدا ہونے کی صورت میں فرمایا۔ ’’
واذا سالک عبادی عنی فانی قریب… الخ!‘‘
گواہ مدعا علیہ نے اس آیت کو بقاء وحی پر دلیل پکڑا ہے۔ لیکن وحی سے مراد اگر اس قسم کی استجابت لی جاوے جو اس آیت میں مذکور ہے۔ تو پھر خداوند تعالیٰ کا ہر فرد بشر کے ساتھ کلام کرنا ممکن ہوسکتا ہے اور ہر شخص محل وحی بھی بن سکتا ہے۔ اس قسم کے استدلال اختیار کرنے سے مذہب کی کوئی عظمت ووقعت ظاہر نہیں ہوسکتی اور نہ اس کی کوئی حقیقت منکشف کی جاسکتی ہے۔ گواہ مدعا علیہ نے بیان کیا ہے کہ خدا کا کلام نہ کرنا غضب اور ناراضگی کی علامت ہے تو کیا اس سے سمجھا جائے گا کہ جن لوگوں سے پہلے خداوند تعالیٰ نے کلام نہیں کی۔ کیا ان سب پر خداوند تعالیٰ ناراض رہا ہے اور وہ مورد عتاب الٰہی ہیں۔ استغفراﷲ!
بقاء وحی کے سلسلہ میں باقی ماندہ جن دو آیات سورۂ مومن اور پارہ ۱۴، رکوع۷ کا حوالہ دیا گیا ہے۔ ان سے بھی وحی کا جاری رہنا ثابت نہیں ہوتا۔ بلکہ یہ آیات مدعا علیہ کی اپنی تقسیم کے مطابق وحی تشریعی ہی سے تعلق رکھتی ہیں۔ کیونکہ ان میں یہ مذکور ہے کہ جس شخص کو وحی کی جاتی ہے۔ اس کو یہ حکم دیا جاتا ہے کہ وہ لوگوں کو قیامت کے دن سے ڈرائے۔ اس لئے اس قسم کی وحی کو مدعا علیہ کی اپنی تعریف کے مطابق وحی تشریعی ہی سمجھا جائے گا اور یہ سلسلہ مدعیہ کے ادعا کے 2208مطابق اﷲتعالیٰ نے رسول اﷲﷺ پر آکر ختم فرمادیا، اور مدعا علیہ کے نزدیک بھی اب تشریعی نبی نہیں آسکتا۔ اس لئے ان آیات سے وحی مطلق کے اجراء کا استدلال نہیں کیاجاسکتا۔ باقی رہی مدعا علیہ کی یہ حجت کہ اﷲتعالیٰ نے جب ہمیں یہ دعا سکھلائی ہے کہ اے اﷲ ہمیں راہ مستقیم پر چلا اور ان لوگوں کی راہ پر چلا جن پر تو نے اپنے انعام کئے ہیں اور پھر دوسری سورت میں اس کی تشریح فرمائی کہ وہ کون لوگ ہیں جن پر خدا کا انعام ہوا۔ اس کے متعلق فرمایا کہ وہ نبی، صدیق، شہید اور صالح ہیں۔ اس سے یہ تلقین کی گئی کہ اﷲاور اس کے رسول محمد مصطفیٰﷺ کی پیروی سے یہ چاروں مراتب تم کو حسب حیثیت مل سکتے ہیں۔ لہٰذا یہ نہیں ہوسکتا کہ امت محمدیہ تین مراتب کا تو انعام پائے اور چوتھے مرتبہ یعنی نبوت کا حصول اس کے لئے ناممکن ہو۔ حالانکہ اس سے پہلی امتوں نے اس انعام کو باربار حاصل کیا۔ پھر یہ خیرالامم کس طرح ہوئی؟ اور نہیں کہا جاسکتا کہ امت مرحومہ پر وحی الٰہی کا دروازہ بند ہے اور آنحضرتﷺ کے بعد جو تمام عالم کے لئے رحمت ہوکر آئے۔ اس انعام کو لوگوں سے چھین لیاگیا۔
اس کا جواب مدعیہ کی طرف سے یہ دیا گیا ہے کہ آیت ’’
من یطع اﷲ والرسول… والصالحین
‘‘ میں الفاظ ’’مع الذین‘‘ سے مراد رفاقت سے ہے نہ کہ عطائے درجہ۔ مدعا علیہ کے اعتراض کا مطلب یہ ہے کہ جب نبی کے علاوہ دیگر مدارج جو اس آیت میں مذکور ہیں۔ رسول اﷲﷺ کی پیروی سے مل سکتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ نبوت کا درجہ نہ مل سکے۔ اگر اس بحث کو بفرض محال صحیح تسلیم کر لیا جاوے تو پھر اس سے یہ لازم آئے گا کہ نبوت ایک کسبی چیز ہے جو اتباع سنت اور ریاضت سے حاصل ہوسکتی ہے۔ حالانکہ قرآن شریف کی نصوص سے یہ ثابت ہے کہ نبوت کسبی نہیں اور مرزاصاحب (کے مرید اعظم) نے بھی اسے مانا ہے۔ چنانچہ وہ (محمد علی لاہوری) اپنی کتاب (ضمیمہ النبوۃ فی الاسلام ص۷،۸) پر لکھتے ہیں کہ: ’’نبوت موہبت اکتساب سے نہیں ملتی… پس نبوت کا اکتساب یا کسی کی پیروی سے حاصل ہونا تمام آیات قرآنی اور احادیث کے صاف مفہوم کے خلاف ہے۔‘‘
اگر نبوت حضور علیہ السلام کے اتباع سے حاصل ہو سکتی تھی تو کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی کہ آج تک جس قدر اولیاء ابدال، اقطاب گزرے ہیں۔ ان 2209میں سے کسی کو بھی یہ مرتبہ حاصل نہ ہوتا۔ علاوہ ازیں اگر یہ سمجھا جاوے کہ حضور کے کمال اتباع اور فیض سے یہ مرتبہ حاصل ہو سکتا ہے اور حضور بھی اسے جائز سمجھتے تھے تو ضرور ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جہاں کئی دیگر مراتب اور مدارج کے حصول کے لئے اپنی امت کو ادعیات اور اوراد کی تلقین فرمائی ہے اور وہاں اس مرتبہ کے لئے بھی کوئی دعا وغیرہ بھی تلقین فرماتے۔ تاکہ امت کے افراد کو اس کے حاصل کرنے میں کوئی آسانی میسر آتی۔ کیونکہ حضورﷺ کی شفقت سے یہ بعید تھا کہ وہ امت کو اس قدر پریشانی اور محنت شاقہ میں ڈالتے کہ مدت مدید کا انتظار اور عبادات کے بعد صرف ایک ہی فرد کو جاکر یہ نعمت عطاء ہوتی۔ اگر کوئی دعا وغیرہ تلقین کرنا آپa کے نزدیک مناسب نہ تھا تو کم ازکم اس کی صراحت تو فرمادیتے کہ تم کو یہ درجہ مل سکتا ہے۔ تمہیں اس کے حصول کے متعلق کوشاں رہنا چاہئے۔ آپ نے نہ اس قسم کی کوئی صراحت فرمائی۔ نہ ہی اس کے لئے کوئی راستہ بتلایا بلکہ یہی فرماتے رہے ہیں کہ ’’لا نبی بعدی وانا اٰخر الانبیائ‘‘ وغیرہ گویا کہ امت کو نعوذ باﷲ از دست دھوکے میں رکھتے رہے۔ تاکہ وہ کہیں یہ درجہ حاصل کر کے آپ کے مقابلہ میں نہ کھڑے ہو جاویں۔
بلکہ آپ کا رحمتہ اللعالمین ہونا اس بات کا متقاضی تھا کہ آپ سابقہ انبیاء کے مقابلہ میں اپنی امت میں سے زیادہ انبیاء پیدا کر کے اپنے افضل الانبیاء ہونے کا ایک اعلیٰ اور بین ثبوت بہم پہنچاتے۔ لہٰذا قرآن شریف کی دیگر تصریحات کو مدنظر رکھتے ہوئے آیت محولہ بالا کا مفہوم یہی لیا جائے گا کہ وہ لوگ انبیاء کی رفاقت میں ہوں گے اور چونکہ مدعا علیہ کو دنیاوی امثال کا بہت شوق ہے۔ اس لئے اس کی مثال یہ ہوسکتی ہے کہ جیسے حکومت کسی شخص کو اس کی ذاتی وجاہت اور مرتبہ کے لحاظ سے اپنے دربار میں اپنے کسی ممتاز عہدہ دار کے ساتھ جگہ دے دے۔ تو نہیں کہا جاسکتا کہ اس شخص نے اس عہدہ دار کا رتبہ حاصل کر لیا ہے یا یہ کہ وہ اس کا رتبہ حاصل کرنے کا اہل بنادیا گیا ہے۔ اس طرح اﷲتعالیٰ نے یہ فرمایا کہ وہ لوگ جن کی آیات ماسبق میں فضیلت بیان کی گئی ہے۔ انبیاء شہداء صدیقین اور صلحاء کے ہمراہ ہوں گے۔ اس لئے مدعا علیہ کا یہ استدلال کوئی 2210وقعت نہیں رکھتا کہ اگر امت محمدیہ کو نبوت کا درجہ نہ ملے تو وہ خیرالامم نہیں رہتی۔ اس کے خیرالامم ہونے کے لئے خدا نے اسے اور کئی مدارج عطاء فرمائے ہیں۔ قرآن مجید نے اسے اس بات کا محتاج نہیں رہنے دیا کہ وہ نبوت کو حضور علیہ الصلوٰۃ السلام کی غلامی پر ترجیح دے بلکہ بڑے بڑے جلیل القدر انبیاء آپ کی امت میں داخل ہونے کے متمنی رہے ہیں۔ افسوس کہ قرآن کی تعلیم کو پوری طرح مدنظر نہیں رکھاگیا۔ ورنہ یہ اعتراض نہ کیا جاتا۔
قرآن حکیم میں حیات انسانی کی پوری انتہاء واضح نہیں فرمائی گئی اور جیسا کہ چوہدری غلام احمد صاحب پرویز مضمون محولہ بالا میں لکھتے ہیں۔جنت بھی جو بالعموم منزل مقصود سمجھی جاتی ہے۔ درحقیت اصل منزل مقصود نہیں بلکہ راستہ کا ایک خوشنما منظر ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں جنتیوں کی اس دعا سے ظاہر ہوتا ہے۔ ’’یقولون ربنا اتمم لنا نورنا‘‘ اس منتہٰی کو ایک راز رکھا گیا۔ نہ معلوم کے حضور کے فیض سے امت کو کیا کچھ عطاء فرمایا جائے گا۔ لہٰذا مدعا علیہ یہ ثابت کرنے میں کامیاب نہیں رہا کہ جو وحی انبیاء علیہم السلام کو ہوتی ہے وہ اس وقت تک جاری ہے۔ بلکہ صرف الہام اور کشف وغیرہ باقی ہیں۔ جیسا کہ مدعیہ کا ادعا ہے اور ان کو لغوی طور وحی کہا جاسکتا ہے۔ اس مقدمہ کے فیصلہ کادارومدار زیادہ تر رسول اﷲﷺ کے خاتم النّبیین بمعنی آخری نبی ماننے کے عقیدہ پر ہی ہے۔ مدعیہ کی طرف سے جیسا کہ اوپر درج کیاگیا۔ بحوالہ آیات قرآنی واحادیث واجماع امت یہ دکھلایا گیا ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد اور کوئی نبی نہیں ہوسکتا۔ بجز اس کے کہ اس کی استثناء حضورﷺ نے خود کر دی۔ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور کہ مرزاصاحب کے دعویٰ سے قبل اور اب بھی سوائے مرزاصاحب کے پیروؤں کے دیگر جملہ مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام انبیاء کی تعداد اور بعثت کے لحاظ سے آخری نبی ہیں اور آپﷺ کے بعد اور کوئی نبی نہیں ہوسکتا۔ اگر کوئی مسلمان کسی اور کو نبی مانے تو وہ کافر اور مرتد ہوجاتا ہے۔
مدعا علیہ کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کے کمال اتباع اور فیض سے نبوت کا مرتبہ عطا ہوسکتا ہے اور وہ خاتم النّبیین کے معنی عام مسلمانوں کے اعتقاد کے خلاف یہ کرتا ہے 2211کہ اﷲ جل شانہ نے آنحضرت ﷺ کو صاحب خاتم بنایا۔ یعنی آپ کو افاضۂ کمال کے لئے مہر عطاء کی جو کسی اور نبی کو ہر گز نہیں دی گئی۔ اس وجہ سے آپ کا نام خاتم النّبیین ٹھہرا۔ یعنی آپ ﷺ کی پیروی کمالات نبوت بخشتی ہے اور آپ ﷺ کی توجہ روحانی نبی تراش ہے اور قرآن مجید کی جس آیت میں یہ الفاظ درج ہیں اس کے معنی مدعا علیہ کی طرف سے یہ کئے گئے ہیں کہ اس آیت میں رسول اﷲ ﷺ کے بعد الفاظ خاتم النّبیین اس لئے لائے گئے کہ ہر نبی اپنی امت کا روحانی باپ ہوتا تھا۔ صرف اتنا کہہ دینے سے کہ آپ بحیثیت رسول اپنی امت کے باپ ہیں۔ آپ کی دوسرے رسولوں پر کوئی فضیلت ظاہر نہ ہوتی تھی۔ اس لئے اﷲتعالیٰ نے آپ ﷺ کو خاتم النّبیین فرما کر آپ کو دوسرے رسولوں سے ممتاز فرمادیا کہ اور نبی تو اپنی امت کے صرف مؤمنوںکے باپ تھے۔ مگر آپ ایسے عظیم الشان اور جلیل القدر نبی ہیں کہ انبیاء کے بھی باپ ہیں۔ یعنی آپ کی اتباع اور توجہ روحانی کمالات نبوت بخشتی ہے اور اگر اس کے معنی آخر کے لئے جاویں تو اس میں آپ ﷺ کو کوئی فضیلت نہیں ہے۔
اس تصریح سے اس حد تک تو مدعا علیہ کی یہ توجیہ درست ہے کہ اﷲتعالیٰ کو چونکہ دیگر انبیاء سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو افضل دکھلانا مقصود تھا۔ اس لئے الفاظ خاتم النّبیین استعمال فرمائے گئے۔ لیکن یہ سمجھ نہیں آتا کہ محض لفظ خاتم کے استعمال سے آپ کا نبی تراش ہونا کس طرح مفہوم لے لیا گیا ہے۔ کیونکہ اگر خاتم کے معنی مہر بھی کئے جاویں تو اس کے یہ معنی کرنے سے بھی آپ ﷺ انبیاء سابقہ پر مہر ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی فضیلت نمایاں ہوسکتی ہے اور محض یہ توجیہ بھی کہ آپ ﷺ انبیاء کے باپ ہیں۔ آپ کی فضیلت ظاہر کر دینے کے لئے کافی ہے۔ پھر معلوم نہیں ہوتا کہ آپ ﷺ کے اس تفصیلی علاقۂ ابوت سے آئندہ توالد انبیاء کا سلسلہ جاری ہونا کس طرح اخذ کیاگیا ہے اور پھر تولد بھی صرف ایک نبی کا اس میں شک نہیں کہ خاتم کے معنی مہر دیگر علماء نے بھی کئے ہیں اور حال ہی میںقرآن مجید کا جو ترجمہ مولانا محمود حسن صاحب دیوبندیؒ کا شائع ہوا ہے۔ اس میں بھی خاتم کے معنی درج ہیں اور خاتم النّبیین کے معنی انہوں نے یہ لکھے ہیں کہ ’’مہر 2212ہیں تمام نبیوں پر‘‘ اور میری رائے میں سیاق وسباق عبارت سے یہی معنی درست معلوم ہوتے ہیں۔ اس پر مدعا علیہ کا یہ اعتراض ہوگا کہ پھر رسول اﷲ ﷺ کا آخری نبی ہونا کہاں سے اخذ کیا جائے گا۔
اس کا جواب یہ ہے کہ ایک تو رسول اﷲﷺکا آخری نبی ہونا احادیث سے اور امت کے اجماعی عقیدہ سے اخذ کیا جائے گا۔ امت آج تک آپﷺ کو آخری نبی سمجھتی آئی اور جیسا کہ مولوی مرتضیٰ حسن صاحب گواہ مدعیہ نے بیان کیا ہے۔ آج تک جس قدر اولیاء ابدال، اقطاب، مجتہدین مجدد ہوتے آئے ہیں۔کسی نے اس عقیدہ کی تغلیط نہیں کی۔ دوسرے مدعا علیہ کو بھی اس سے انکار نہیں کہ خاتم النّبیین کے معنی آخری بھی ہیں اور اس معنی پر امت کا اجماع چلا آیا ہے۔
مدعا علیہ کی طرف سے اس اجماع کی حقیقت کو توڑنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن وہ اس سے انکار نہیں کر سکتا۔ مرزاصاحب کے دعویٰ سے قبل جمہور امت کا عقیدہ اس طرح چلا آیا ہے۔ اس لئے ایک امر واقع کو غلط کہنا ایک بے جا حجت ہے۔
مدعا علیہ کی طرف سے لغت اور عربی زبان کے محاورات سے یہ دکھلایا گیا ہے کہ لفظ خاتم جب ’ت‘ کی زبر سے پڑھا جاوے تو انگوٹھی یا مہر کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور اگر زیر سے پڑھا جائے تو اس کے معنی ختم کرنے والا۔ دوسرا مہر لگانے والا ہوتے ہیں اور خاتم کا لفظ کمال کے معنوں میں بکثرت استعمال ہوتا اور کہ خاتم کے اصل معنی آخر کے نہیں ہیں۔ اگر آخر کا معنی بھی لئے جائیں تو پھر لازم معنی کہلائیں گے، نہ اصل معنی اور جب اصل معنی لئے جاسکتے ہیں تو لازم معنی کیوں لئے جائیں۔ خاتم اگر کہیں آخر کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ تو لازم معنی لے کر کیا جاتا ہے اور جب کہ قرآن مجیدمیں کوئی ایسا صریح قرینہ موجود نہیں جو لازم معنی لینے پر ہی دلالت کرے تو اس کے باقی سب معنی چھوڑ کر صرف آخر کے معنی میں لینا کسی طرح صحیح نہیں۔ لیکن مقدمہ ہذا میں سوال زیر بحث عقیدہ سے تعلق رکھتا ہے۔ الفاظ کے معنی یا مراد سے تعلق نہیں رکھتا۔ دیکھنا یہ ہے کہ عقیدہ کس 2213معنی پر قائم ہوا۔ جب مدعا علیہ کے نزدیک خاتم کے معنی آخر کے ہوسکتے ہیں اور عقیدہ بھی تیرہ سو سال تک اس پر قائم رہا ہے تو اب ان الفاظ پر بحث کرنا کہ ان کے معنی آخرکے نہیں بلکہ مہر کے ہیں۔ سوائے ایک علمی دلچسپی کے اور کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ علاوہ ازیں جو علماء اس کے معنی قبل ازیں آخر کے کرتے آئے ہیں۔ ان کی نسبت نہیں کہا جاسکتا کہ وہ اس کی لغت یا اصل سے واقف نہ تھے۔ اس لئے اس لفظ کے معنی پر بحث لاحاصل ہے۔ علاوہ ازیں مرزاصاحب بھی اپنے دعویٰ سے قبل خاتم النّبیین کے معنی آخری کرتے آئے ہیں۔ جیسا کہ مدعیہ کے گواہان کے بیانات میں دکھلایا جاچکا ہے۔ بعد کے معنی محض تاویلی ہیں اور اپنے دعویٰ کو رنگ دینے کی خاطر کئے گئے ہیں اور اب مدعا علیہ کی طرف سے یہ کہنا کہ مرزاصاحب نے جہاں جہاں آنحضرت ﷺ کے بعد سلسلہ وحی کومنقطع مانا ہے وہاں ان کی مراد وحی شریعت سے ہے۔ نہ کہ دوسری وحی سے درست نہیں ہے، کیونکہ جہاں انہوں نے وحی کو منقطع مانا ہے۔ وہاں انہوں نے اس کی تصریح نہیں کی اور سیاق وسباق سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ہر قسم کی وحی کے انقطاع کے متعلق کہہ رہے ہیں۔ ان کے یہ اقوال اس قسم کے ہیں جن کے متعلق کہ مدعا علیہ کی بحث کے شروع میں فقرہ نمبر۲ میں تشریح کی گئی ہے کہ وہ اپنے اندر ایک مستقل مفہوم لئے ہوئے ہیں۔ اس لئے مرزاصاحب کے دیگر اقوال ان کی توضیح یا تشریح نہیں بن سکتے۔ اس قسم کے اقوال جن سے مرزاصاحب انقطاع وحی کے قائل پائے جاتے ہیں گواہان مدعیہ کے بیانات میں مفصل درج ہیں جو اوپر درج کئے جاچکے ہیں۔
مدعا علیہ کی طرف سے اس مسئلہ ختم نبوت کے متعلق پھر یہ کہا گیا ہے کہ احادیث پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے آیت خاتم النّبیین سے نبوت کو بکلی مسدود نہیں سمجھا۔ جیسا کہ حدیث ’’لوعاش ابراہیم لکان صدیقاً نبیاً‘‘ سے ظاہر ہوتا ہے۔ کیونکہ آیت خاتم النّبیین کے نزول سے پانچ سال کے بعد حضور نے یہ فرمایا ہے۔ لیکن اوّل تو اس حدیث کے صحیح ہونے میں شبہ ہے۔ جس کا اظہار خود گواہ مدعا علیہ نے کر دیا ہے۔ دوسرا اس میں لوکا ایک شرطیہ لفظ موجود 2214ہے اور قواعد عربی کی رو سے مدعا علیہ کی طرف سے یہ تسلیم کیاگیا ہے کہ جہاں لوداخل ہو وہاں وقوع نہیں ہوتا۔ تیسرا اس میں نبوت کی کوئی تفصیل نہیں کہ کیسی نبوت ہوگی۔ چوتھا نبوت کاامکان حضرت ابراہیم کی زندگی پر تھا جب وہ وفات پاگئے۔ نبوت کا امکان بھی چلا گیا۔ اس سے کسی طرح بھی آئندہ نبوت جاری رہنے کا نتیجہ نہیں نکالا جاسکتا۔ مدعا علیہ کی طرف سے حضرت عائشہ کا ایک قول ’’قولوا خاتم النّبیین ولا تقولوا لا نبی بعدہ‘‘ نقل کیا جاکر یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ اس قول سے ظاہر ہے کہ وہ لوگ جو الفاظ خاتم النّبیین اور لا نبی بعدی سے یہ سمجھتے ہیں کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا غلطی پر ہیں۔ اس ضمن میں پھر یہ کہاگیا ہے کہ دوسری شہادت حضرت علیؓ کی ہے جو یہ ہے کہ ایک دفعہ آپ کے صاحبزادے استاد کے پاس بیٹھے پڑھ رہے تھے۔ ایک دفعہ اتفاقاً حضرت علیؓ وہاں سے گزرے اور فرمایا کہ ان دونوں کو خاتم النّبیین کا لفظ ’’ت‘‘ کی زبر سے پڑھاؤ۔ دوسری قرأت میں خاتم ’ت‘ کی زیر سے بھی آیا ہے۔ پس اگر حضرت علیؓ کے نزدیک ’ت‘ کی زیر سے بھی خاتم کے معنی آخری نبی کے بنتے تھے تو آپ نے زیر کے پڑھانے سے منع کیوں کیا۔ کیونکہ زیر سے ختم کرنے کے معنی زیادہ واضح ہو جاتے تھے۔ کیا اس سے ثابت نہیں ہوتا کہ دونوں میں آپ فرق سمجھتے تھے اور زیر پڑھانے سے آپ کو اس کا خطرہ تھا کہ کہیں بچوں کے ذہن میں نبوت کے متعلق خلاف عقیدہ نہ بیٹھ جائے۔
حضرت علیؓ کے متعلق جو حدیث لا نبی بعدی والی بیان کی گئی ہے اور جو مولوی محمد حسین صاحب گواہ مدعیہ کے حوالہ سے اوپر گزر چکی ہے۔ اسے مدعا علیہ کی طرف سے صحیح مانا گیا ہے۔ مگر اس کی تاویل یہ کی گئی ہے کہ بعدی سے مراد یہاں موت کے بعد نہیں جیسا کہ عام طور پر سمجھا گیا ہے۔ بلکہ بعدی سے مراد جنگ تبوک کا عرصہ ہے۔ یعنی اس عرصہ میں آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہ ہو گا اور اس سلسلہ میں ایک اور حدیث کا حوالہ دیا جاکر یہ بیان کیاگیا ہے کہ ان کا مطلب یہ ہے کہ اے علیؓ تم اس بات پر راضی نہیں کہ میرے خلیفہ بنو۔ جیسے ہارون، موسیٰ کے خلیفہ تھے۔ مگر ہاں تم نبی نہیں ہوگے اور اس سے یہ نتیجہ اخذ کیاگیا ہے کہ اس جملہ کے فرمانے کی ضرورت یہ تھی 2215کہ جب حضرت علیؓ کو ہارون علیہ السلام سے مشابہت دی گئی تو شبہ پڑ سکتا تھا کہ آپ حضرت ہارون کی طرح نبی بھی ہوں گے۔ اس لئے آنحضرت ﷺ نے وضاحت فرمادی کہ تم میرے بعد خلیفہ ہوگے۔ نبی نہیں ہوگے۔
یہ تمام دلائل محض قیاسی ہیں اور کوئی علمی حیثیت نہیں رکھتے۔ ان کا جواب بھی قیاس ہوسکتا ہے۔ حضرت علیؓ کے صاحبزادوں کا جو قصہ بیان کیاگیا ہے۔ ممکن ہے کہ حضرت علیؓ نے ’’ت‘‘ کی زیر سے اس لئے پڑھانا منع کیاہو کہ زیر سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی فضیلت کا پہلو پوری طرح سے ظاہر نہیں ہوتا اور زبر سے پڑھانے سے دونوں پہلو نمایاں ہو جاتے ہیں اور اگر یہ سمجھا جاوے کہ اس وقت حضرت علیؓ کے ذہن میں یہ بات تھی کہ زیر سے پڑھانے سے نبوت کے منقطع ہونے کا مغالطہ پڑتا ہے کہ ان کے نزدیک حضور کے بعد نبوت جاری رہے گی تو جنگ تبوک کے موقعہ پر جب حضور ﷺ نے انہیں ہارون علیہ السلام سے تشبیہ دے کر یہ فرمایا تھا کہ لا نبی بعدی۔ تو وہ عرض کر سکتے تھے کہ حضور ﷺ جب آپ مثل موسیٰ ٹھہرے اور میں مثل ہارون علیہ السلام تو میں بھی آپ کا چچازاد بھائی ہوں اس لئے آپ موسیٰ علیہ السلام کی طرح کیوں میرے حق میں دعا نہیں فرمادیتے کہ خدا مجھے بھی نبی بنادے اور باہمی مماثلت کی بناء پر کوئی عجب نہ تھا کہ حضور ﷺ کی دعا سے خدا انہیں بھی نبوت کا مرتبہ عطاء فرمادیتا۔
یہ محض ایسے قیاسات ہیں کہ جو ظنیات کی حد تک بھی نہیں پہنچتے اورمذہب میں جیسا کہ خود مدعا علیہ کی طرف سے تسلیم کیاگیا ہے قطعیات کا اعتبار ہوتا ہے۔ نہ ظنیات یا قیاسات کا۔ باقی رہا حضرت عائشہؓ کا قول اس کے متعلق مدعیہ کی طرف سے تین جواب دئیے گئے ہیں ایک! تو یہ ’’لا نبی بعدہ‘‘ کے کہنے سے چونکہ یہ اندیشہ تھا کہ کہیں کوئی بدعقیدہ شخص حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول سے انکار نہ کر دے۔ اس لئے آپ نے فرمایا کہ خاتم النّبیین کہو۔ ’’لا نبی بعدہ‘‘ نہ کہو۔ دوسرا! یہ کہ خاتم النّبیین کے کہنے سے چونکہ دونوں مدعا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا آخری اور افضل ہونا ظاہر ہوتے ہیں۔ اس لئے آپؓ نے فرمایا کہ لا نبی بعدہ، نہ کہو بلکہ خاتم النّبیین کہو۔
2216تیسرا! یہ کہا جاتا ہے کہ حضرت عائشہؓ نے یہ حدیث خود روایت کی ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ نبوت ختم ہوچکی۔ سوائے اس کے اب مبشرات ہوں گے اور مبشرات کی تشریح آپ ﷺ نے یہ فرمائی کہ اچھی خوابیں اس لئے مدعیہ کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ جب حضرت عائشہؓ کو خود اس حدیث کا علم تھا تو کس طرح کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے ’’لا نبی بعدہ‘‘ کہنے سے اس لئے منع کیا کہ وہ آپ ﷺ کے بعد نبوت کو جاری سمجھتی تھیں۔ یہ ایک بہت معقول جواب ہے۔ اس کے علاوہ جن لوگوں کو آپ نے منع کیا ہوگا کہ وہ لا نبی بعدہ نہ کہیں۔ تو انہوں نے آخر کوئی وجہ تو دریافت کی ہوگی۔ کیونکہ اس سے شبہ پڑ سکتا تھا کہ کیا آپ کے بعد نبوت جاری ہے۔ جو وہ ایسا کرنے سے منع کرتے ہیں۔ ایسی کوئی تفصیل بیان نہیں کی جاتی۔ اس لئے ان کے اس قول سے یہ کوئی دلیل نہیں پکڑی جاسکتی کہ وہ آپ ﷺ کے بعد نبوت کا سلسلہ جاری سمجھتی تھیں۔
اس سلسلہ میں پھر مدعا علیہ کی طرف سے یہ کہا گیا ہے کہ یہ بھی واضح رہے کہ قرآن مجید میں الفاظ خاتم النّبیین ہیں آخر النّبیین نہیں۔ آخر کچھ تو بھید ہے کہ اﷲتعالیٰ نے آپ کے لئے آخر النّبیین نہیں کہا بلکہ خاتم النّبیین کہا۔
اس میں اوّل تو کوئی بھید نہیں پایا جاتا۔ کیونکہ آخر النّبیین کا لفظ خاتم النّبیین کے مقابلہ میں زیادہ فصیح معلوم نہیں ہوتا اور قرآن مجید میں کوئی ایسا لفظ استعمال نہیں ہوا جو غیر فصیح ہو۔ دوسرا اﷲتعالیٰ کو چونکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دونوں فضیلتیں یعنی آپ ﷺ کا آخر ہونا اور افضل ہونا دکھلانا مقصود تھیں۔ اس لئے خاتم النّبیین کا لفظ استعمال فرمایا گیا۔
اور اگر اﷲتعالیٰ کو اس میں کوئی بھید رکھنا منظور تھا تو پھر اس بھید کا کیا حل ہے کہ اﷲتعالیٰ نے جب قرآن مجید کو نور ہدایت اور فرقان فرمایا اور یہ بھی فرمایا کہ رسولوں پر ایمان لانے اور ان کی اطاعت کرنے میں تمہاری فلاح ہے اور گزشتہ بہت سے انبیاء کی تفصیل بھی بیان فرمادی۔ لیکن آئندہ آنے والے نبیوں کے متعلق نہ کوئی صراحت فرمائی اور نہ یہ فرمایا کہ ان پر بھی ایمان لانا فرض ہوگا تو پھر قرآن کیونکر نور اور ہدایت ٹھہرا۔
2217مدعا علیہ کے ایک گواہ کا بیان ہے کہ جس حدیث میں آخر الانبیاء کا لفظ آیا ہے وہ خبر واحد ہے جو ظن کا مرتبہ رکھتی ہے اور عقائد میں ظنیات کام نہیں دیتے۔ لیکن افسوس کہ یہ کہتے وقت اسے شاید اپنے طریق استدلال پر نظر نہیں رہی کہ وہ کہاں تک قطعیات کی رو سے بحث کر رہا ہے۔
اس طرح اس نے ان احادیث کی بہت سی تاویلیں کی ہیں جن میں حضور ﷺ کے متعلق آخر کے الفاظ پائے جاتے ہیں اور عربی، فارسی، اردو شعراء اور مصنّفین کے اقوال کے حوالوںسے یہ دکھلایا ہے کہ لفظ آخر اکثر، بمعنی کمال استعمال ہوتا ہے۔ لیکن جیسا کہ اوپر درج کیاگیا ہے یہ تمام بحث ایک علمی دلچسپی کے سوا اور کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ کیونکہ یہاں بحث عقائد سے ہے نہ کہ الفاظ کے معنی سے اور چونکہ الفاظ زیر بحث سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا آخری ہونا بھی پایا جاتا ہے۔ اس لئے اس معنی پر ہی آج تک امت کا عقیدہ چلا آیا ہے اور یہ عقیدہ جیسا کہ اوپر دکھلایا گیا ہے۔ اسلام کے اہم اور بنیادی مسائل میں سے ہے۔ اس لئے اس عقیدہ کو تبدیل کرانا کسی ادیب عالم مفتی یا قاضی کا کام نہیں بلکہ یہ عقیدہ سوائے اس شخص کے جو مامور من اﷲ ہو اور کوئی تبدیل نہیں کراسکتا۔ اس پر پیچھے کافی بحث ہوچکی ہے کہ آیا مرزاصاحب نبی اور مامور من اﷲ ہیں یا نہ اور آخیر نتیجہ میں بھی اس پر بحث کی جائے گی۔
مدعا علیہ کی طرف سے شیخ محی الدین ابن عربیؒ اور دیگر بزرگان کے اقوال نقل کئے جاکر یہ دکھلایا گیا ہے کہ ان کے نزدیک بھی نبوت مرتفع ہونے سے یہ مراد ہے کہ شریعت والی نبوت مرتفع ہوگئی نہ کہ مقام نبوت اور کہ وہ حضور ﷺ کے قول لا نبی بعدی کا یہ مطلب سمجھتے ہیں کہ آپ کے بعدکوئی ایسا نبی نہیں ہوگا جو آپ ﷺ کی شریعت کے خلاف ہو۔ بلکہ جب بھی ہو گا آپ ﷺ کی شریعت کے ماتحت ہوگا۔
مدعیہ کی طرف سے ان اقوال کی توجیہیں بیان کی گئی ہیں اور ان بزرگان کے دیگر اقوال سے یہ دکھلایا گیا ہے کہ وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے آخری نبی ہونے کے قائل تھے۔ لیکن قطع 2218نظر اس کے یہ ممکن ہے کہ یہ اقوال لکھتے وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ان لوگوں کے ذہن میں ہو اور اس لئے یہ کہا گیا ہو کہ آپ ﷺ کے بعد جب بھی کوئی نبی ہوگا وہ آپ ﷺ کی شریعت کے ماتحت ہوگا۔ اس کا فیصلہ تو ان کی کتابوں کے دیکھنے سے پوری طرح کیا جاسکتا ہے۔ ان حوالوں کو چونکہ اس فیصلہ میں بحث سے نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ اس لئے ان پر زیادہ رائے زنی کی ضرورت نہیں اور اگر ان تحریروں کا مطلب مدعا علیہ کے ادّعا کے مطابق بھی صحیح تسلیم کر لیا جاوے تو پھر دیکھنا یہ ہے کہ آیا یہ ان کی ذاتی رائے ہے یا امت کا عقیدہ۔ اگر ان تحریروں کے بعد امت نے اپنا عقیدہ تبدیل نہیں کیا اور ان کا عقیدہ جوں کا توں رہا ہے اور اس میں ذرہ برابر فرق نہیں آیا تو پھر یہ تحریریں ان کی ذاتی اور شخصی رائے کے سوا اور کوئی وقعت نہیں رکھتیں اور اگر ان کے یہ اقوال ان کا کشف بھی سمجھے جاویں تو بھی جیسا کہ سید انور شاہ صاحب گواہ مدعیہ نے کہا ہے۔ دین کے معاملہ میں وہ دوسروں پر کوئی حجت نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ دینی معاملات میں سوائے نبی کی وحی کے اور کوئی بات قطعی نہیں ہے۔
رسول اﷲ ﷺ کی دوسری حدیث پر جس میں آپ ﷺ نے بنی اسرائیل کے نبیوں کے متعلق کہا ہے کہ جب ان میں ایک نبی فوت ہوتا تھا تو فوراً اس کا خلیفہ نبی ہوتا تھا۔ مدعا علیہ کی طرف سے کہا گیا ہے کہ یہاں حضور ﷺ کی مراد بعدیت متصلہ ہے۔ یعنی آپ کے فوراً بعد ایسا نہیں ہوگا اور امت محمدیہ میں فوراً نبی کی ضرورت نہ ہوگی۔ لیکن اوّل تو اس حدیث کے یہ معنی تاویلی ہیں۔ دوسرا نہیں کہا جاسکتا کہ تیرہ سو سال کے عرصہ میں ایسا کوئی زمانہ نہیں آیا کہ جس میں نبی کی ضرورت محسوس نہ کی گئی ہو۔ علاوہ ازیں مرزاصاحب کے لئے مدعا علیہ جس قسم کی نبوت ثابت کرنا چاہتا ہے اس کی اس معنی سے تائید نہیں ہوتی۔ کیونکہ اس کے نزدیک مرزاصاحب کو جو نبوت ملی وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کمال اتباع اور فیض سے ملی ہے اور یہ پایا جاتا ہے کہ حضور ﷺ کے زمانہ میں ہی حضرت عمرؓ حضور ﷺ کے ایسے متبعین میں سے تھے کہ جن کی زبان پر فرشتے کلام کرتے تھے اور ان کی بابت حضور ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو حضرت عمرؓ ہوتے اور یہ بھی کہا کہ 2219اگر میں مبعوث نہ ہوتا تو حضرت عمرؓ مبعوث ہوتے۔ تو کیا حضرت عمرؓ سے بڑھ کر اس وقت حضور ﷺ کی اتباع کی لحاظ سے کوئی شخص نبوت کا مستحق ہوسکتا تھا؟ لیکن مدعا علیہ کی مذکورہ بالا صراحت کے مطابق وہ حضور ﷺ کے بعد اس لئے نبی نہ بنے کہ اس وقت نبی کی ضرورت نہ تھی۔
اس سے یہ معلوم ہوا کہ حضور ﷺ کے اتباع سے نبوت ملنے کے ساتھ مشیت میں یہ بھی مقدر ہے کہ اس قسم کے نبوت اس وقت دی جاوے جس وقت کہ اس کی ضرورت ہو اور اس سے مدعا علیہ کے اس اصول کی نفی ہو جاتی ہے کہ حضور ﷺ کے کمال اتباع اور فیض سے نبوت مل سکتی ہے۔ کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو ضرور ہے کہ حضرت عمرؓ کو نبوت عطا ہو جاتی۔ کیونکہ وہ نہ صرف کامل متبعین میں سے تھے۔ بلکہ حضور ﷺ کے خاص مورد الطاف تھے اور جیسا کہ حضور ﷺ کے الفاظ سے اخذ ہوتا ہے حضور ﷺ یہ چاہتے تھے کہ وہ نبی ہوں۔ لیکن چونکہ آپ ﷺ کے بعد نبوت منقطع ہوچکی تھی۔ اس لئے آپ ﷺ نے فرمایا کہ حضرت عمرؓ نبی نہیں ہوسکتے۔
مدعا علیہ کی طرف سے اس حدیث کو کہ میرے بعد اگر نبی ہوتا تو عمرؓ ہوتے، ضعیف کہاگیا ہے اور پھر اس ضمن میں لفظ بعد کے بہت سے تاویلی معنی کئے گئے ہیں اور شاید اس لئے کہ یہ حدیث مدعا علیہ کے منشاء کے بالکل مخالف تھی۔ حدیث کے الفاظ ایسے مبہم نہیں کہ ان کے مفہوم کے لئے کسی تاویل کی ضرورت ہو۔ ان سے ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ وہاںبعد سے کیامراد ہے۔
ختم نبوت کے بارہ میں مدعیہ کی طرف سے جو حدیث بیت النبوت والی پیش کی گئی ہے۔ اس کے متعلق مدعا علیہ کی طرف سے یہ کہاگیا ہے کہ اس میں من قبلی کے الفاظ ہیں اور ان الفاظ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مثال ان انبیاء کی نسبت سے ہے جو حضور ﷺ سے پہلے ہوگذرے ہیں۔ آئندہ کسی نبی کے آنے یا نہ آنے کا اس میں ذکر نہیں۔ لیکن یہ حجت اس لئے درست نہیں کہ اس حدیث میں نبوت کو ایک گھر سے تشبیہ دی گئی ہے اور اس کی تکمیل کے سلسلہ میں یہ کہاگیا ہے کہ وہ آپ ﷺ کے وجود سے قبل غیر مکمل تھا۔ آپ ﷺ کے تشریف لانے پر مکمل ہوگیا۔ اگر آئندہ انبیاء کا سلسلہ جاری رہنا تسلیم کیا جاوے تو پھر اس گھر کی تکمیل لازم نہیں آتی۔ یہ سمجھانے کے لئے کہ اب سلسلہ 2220انبیاء میں سے اور کوئی باقی نہیں۔ نبوت کو ایک گھر سے تشبیہ دی گئی اور جیسا کہ گھر کی چنائی اینٹوں سے کی جاتی ہے۔ اس سے بیت نبوت کی چنائی انبیاء سے ہوئی اور جو ایک اینٹ اس گھر کی تکمیل کو ناقص بنائے ہوئے تھی وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تشریف لانے پر پوری ہوگئی۔ اس مثال سے یہ دکھلایا گیا ہے کہ مشیت ایزدی میں جو تعداد انبیاء مقرر تھی وہ آپ ﷺ کے تشریف لانے سے پوری ہوچکی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دوبارہ آنا بھی یہ ظاہر کرتا ہے کہ انبیاء کی تعداد میں اب کوئی عدد باقی نہیں رہا۔ اس لئے سابقہ اعداد میں سے ایک کو واپس لانا پڑا ہے۔ اس پر مدعا علیہ کی طرف سے یہ اعتراض کیاگیا ہے کہ اگر عیسیٰ علیہ السلام کا آنا تسلیم کیا جاوے تو پھر یہ ماننا پڑے گا کہ مکان کی تعمیر ادھوری رہ گئی۔ لیکن یہ حجت اس لئے قائم نہیں رہ سکتی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس مکان کی تعمیر میں پہلے شامل ہوکر اسے مکمل کر چکے ہیں اور نئے نبی اگر ابھی اور آنے باقی ہوں تو پھر اس عمارت کی تعمیر مکمل نہیں سمجھی جاسکتی۔ اس کی تکمیل اس وقت سمجھی جائے گی جب تمام انبیاء ختم ہوچکیں۔ اس لئے اسے اس وقت میں مکمل سمجھا جائے گا جب کہ تمام انبیاء کا سلسلہ ختم نہ ہو لے۔ حضور ﷺ کا اس عمارت کو اپنی تشریف آوری سے مکمل فرمادینا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ ﷺ کے بعد تعداد انبیاء میں سے اور کچھ باقی نہیں۔ حضرت عیسیٰ کا آنا ایسا ہے کہ جیسے کوئی شخص اپنے تکمیل شدہ مکان میں سے کچھ اینٹیں اکھاڑ کر بشرط ضرورت دوسری جگہ لگادے۔ اس پر یہ کہا جائے گا کہ اس نے اپنے مکان کو اکھیڑا، یہ نہ کہا جائے گا کہ اس نے مکان کومکمل نہیں کیا۔ کیونکہ اس کی تکمیل پہلے ہوچکی تھی۔
مدعا علیہ کی طرف سے کہا گیا ہے کہ مرزاصاحب کا نبی ہونا اس مکان کی تعمیر کا منافی نہیں۔ کیونکہ انہیں حضور ﷺ کے فیض سے نبوت ملی ہے۔ اس لئے یہ نبوت اس مکان بیت النبوت کی تکمیل کا سلسلہ شمار ہوگی۔ ظاہر ہے کہ ایک مکمل چیز پر اگر کوئی اور زائد چیز بطور اضافہ شامل کیا جاوے تو اس سے دو ہی صورتیں پیدا ہوں گی یا تو وہ زائد چیز اس کی زینت کو 2221بڑھادے گی یا اسے بدزیب کر دے گی۔ اب اگر مرزاصاحب کو بیت النبوۃ پر چسپاں کیا جاوے تو وہ یا تو اس کی زینت کو بڑھائیں گے یا اسے بدزیب کریں گے۔ اگر سمجھا جاوے کہ انسے اس کی زینت بڑھے گی تو اس سے وہ افضل الانبیاء ہو جائیں گے نہ کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام، اور یہ بات ان کے اپنے عقیدہ کے بھی خلاف ہے۔ اب صاف ہے کہ ان کے اس بیت النبوۃ پر چسپاں ہونے سے دوسری ہی صورت پیدا ہوگی اور اس گھر کی تکمیل میں وہ زائد از ضرورت ہی رہیں گے۔ اس لئے اس حدیث سے جس کی صحت سے مدعا علیہ کو بھی انکار نہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا آخری نبی ہونا پوری طرح ثابت ہو جاتا ہے۔
مدعیہ کی طرف سے ایک اور حدیث کا حوالہ دیاگیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میری امت میں تیس کذاب ہوں گے۔ ان میں سے ہر ایک اپنے آپ کو نبی خیال کرے گا۔ حالانکہ میرے بعد کوئی نبی نہیں اس کے متعلق مدعا علیہ کی طرف سے یہ کہاگیا ہے کہ اس حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپ ﷺ کے بعد قیامت تک جو بھی دعویٰ نبوت کرے وہ ضرور جھوٹا ہے۔ کیونکہ آخر زمانہ میں آنے والے مسیح موعود کو خود حضور ﷺ نے بھی نبی اﷲ کے لقب سے ملقب فرمایا ہے۔ دوسرا تیس کی تعین بھی بتلارہی ہے کہ کوئی سچا بھی آسکتا ہے۔ تیسرا اس حدیث کا مضمون آج سے قریباً پانچ سو برس پہلے پورا ہوچکا ہے۔ کیونکہ ۳۰دجال وکذاب گزر چکے ہیں۔ اس کا جواب ایک تو خود گواہ مدعا علیہ نے ہی دے دیا ہے کہ اس کے علاوہ اور بھی حدیثیں ہیں کہ جس میں کذابوں کی تعداد کم وبیش ۷۰ تک بیان کی گئی ہے۔ اس لئے سمجھا جائے گا کہ حضور ﷺ نے ۳۰ کی کوئی متعین تعداد بیان نہیں فرمائی بلکہ اس قسم کے اعداد بیان کرنے سے حضور ﷺ کی مراد کذابوں کی کثرت بیان کرنے سے تھی۔ کیونکہ اگر مدعا علیہ کی بحث کی رو سے یہ قرار دیا جاوے کہ ایسے کذابوں کی صحیح تعداد ۲۷ ثابت ہے تو پھر یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ جو تیس کذاب اس سے قبل گذرنے بیان کئے جاتے ہیں ان میں سے تین ضرور سچے ہوں گے۔ لیکن ایسا ثابت نہیں ہوتا اور ان باقی مانندہ تین کو بھی دنیا نے جھوٹا ہی سمجھا اور انہیں بھی کذابوں کی ذیل میں داخل کیاگیا۔ دوسرا مسیح موعود کے آنے کی استثناء خود حضور ﷺ نے فرمادی اور ساتھ ہی اس کا نام عیسیٰ ابن مریم بتلا کر اسے نام سے ہی مشخص فرمادیا۔ علاوہ ازیں اگر سچے نبی ہوسکتے تھے تو کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی کہ جہاں حضور ﷺ نے جھوٹے نبیوں کی آمد اور ان کی تعداد کی اطلاع دی تھی۔ وہاں اس کی 2222تصریح کیوں نہ فرمائی کہ اس کے بعد سچے نبی بھی آئیں گے اور اس قدر آئیں گے۔ ناممکن معلوم ہوتا ہے کہ امت کو ایک گمراہی سے بچا کر دوسری گمراہی میں ڈال دیا جاتا اور انہیں جھوٹے اور سچے نبی میں تمیز کرنے کے لئے کوئی معیار نہ بتلایا جاتا۔ اس لئے یہ حدیث بھی مشیت ادعا مدعیہ اور مدعا علیہ کی حجت کے منافی ہے۔
لہٰذا اس تمام بحث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام آخری نبی ہیں اور آپ ﷺ کے بعد اور کوئی نیا نبی نہیں ہوسکتا۔
اس کے بعد مدعا علیہ کی طرف سے یہ کہاگیا ہے کہ مسیلمہ کذاب وغیرہ کاذب مدعیان نبوت کے جو حوالے مدعیہ کی طرف سے پیش کئے گئے ہیں اور یہ کہاگیا ہے کہ انہیں اس بناء پر قتل کیاگیا کہ انہوں نے دعویٔ نبوت کیا تھا۔ یہ درست نہیں ہے۔ کیونکہ ان لوگوں کے ساتھ صحابہؓ کا جنگ کرنا محض اس وجہ سے تھا کہ انہوں نے بغاوت کی تھی اور اسلامی حکومت کامقابلہ کر کے خود بادشاہ بننا چاہا تھا اور نبوت کے دعویٰ کو اس کے حصول کے لئے انہوں نے صرف ایک ذریعہ بنایا تھا۔ اگر مدعا علیہ کا یہ ادعا درست بھی سمجھ لیا جاوے تو چونکہ اس کے ساتھ ہی وہ بیان کرتا ہے کہ انہوں نے دعویٰ نبوت کو حصول حکومت کے لئے ایک ذریعہ بنایا تھا تو اس سے یہ نتیجہ بھی نکالا جاسکتا ہے کہ جس بناء پر وہ اپنے آپ کو حکومت کا حقدار سمجھتے تھے۔ صحابہؓ نے اسے بھی نادرست سمجھا تھا۔ اگر صحابہ کے ذہن میں یہ ہوتا کہ حضور ﷺ کے بعد نبوت ہوسکتی ہے تو وہ ان کی نبوت کے متعلق پورا اطمینان کرتے اور اس کے بعد ان کے ساتھ جنگ کرنے کا فیصلہ کرتے۔ خلافت ارضی جلیل القدر انبیاء کی نبوت کا ایک جزو لاینفک رہی ہے اور ممکن ہے کہ مذکورہ بالا مدعیان نبوت خلافت ارضی کو لوازمات نبوت میں سے سمجھتے ہوئے دعویٰ نبوت کے بعد اس کے لئے کوشاں ہوئے ہوں تو اس صورت میں صحابہؓ کا ان کے ساتھ جنگ کرنا دعویٰ نبوت کی بناء پر متصور ہوگا نہ کہ بغاوت کی بناء پر۔ کیونکہ انہیں باغی مرتد اور کافرقرار دیا جاکر سمجھا گیا۔ 2223اس سلسلہ میں مزید کسی بحث کی ضرورت نہیں۔
مدعا علیہ نے اپنی بحث میں آگے یہ دکھلایا ہے کہ مرزاصاحب نے ظلی اور بروزی کی اصطلاحات یہ دکھانے کے لئے قائم کی ہیں کہ جس قسم کی نبوت کے وہ مدعی ہیں وہ شریعت والی نبوت نہیں اور نہ اس سے قرآن مجید کا منسوخ ہونا لازم آتا ہے۔ بلکہ آپ کا مطلب ان سے صرف یہ تھا کہ ان کو بلاواسطہ نبوت نہیں ملی۔ بلکہ آنحضرت ﷺ کے اتباع اور آپ میں فنا ہوکر اور آپ کی غلامی میں یہ مرتبہ نبوت ملا ہے۔ اس لئے آپ نے اپنے آپ کو ظلی نبی لکھا تاکہ آئندہ لوگ نبی کا لفظ سن کر چونک نہ پڑیں اور اس ظلی بروزی کے لفظ سے سمجھ لیں کہ آپ ویسے نبی نہیں جو معروف اصطلاح میں لئے جاتے ہیں۔ بلکہ یہ کہ ہر ایک کمال آپ کو آنحضرت ﷺ کے اتباع اور ذریعہ سے ملا ہے۔ آپ نے صرف اپنی نبوت کی حقیقت سمجھانے کے لئے ظلی، بروزی اور امتی نبی کی اصطلاحیں مقرر کیں تاکہ لوگ نبی کے لفظ سے دھوکا نہ کھا جائیں اور اصطلاحوں کا قائم کرنا ہر ایک کے لئے جائز ہے۔ بروز وغیرہ کے الفاظ صوفیاء نے بھی قائم کئے ہیں۔ مرزاصاحب تناسخ کے اس معنی میں جس معنی میں کہ اہل ہنود سمجھتے ہیں قائل نہ تھے۔ ان کے اس قول سے کہ ’’حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی خو، طبیعت اور مشابہت کے لحاظ سے… عبداﷲ پسر عبدالمطلب کے گھر جنم لیا‘‘ سے یہ مراد نہیں کہ انحضرت ﷺ کی پیدائش حضرت ابراہیم ہی کی پیدائش تھی۔ چنانچہ انہوں نے (تریاق القلوب ص۱۵۵، خزائن ج۱۵ ص۴۷۷، حاشیہ) پر وجود دو رویہ کی تفسیر خود ہی بیان کی ہے اور تناسخ کے مسئلہ کا رد مرزاصاحب نے اپنی بہت سی کتابوں میں کیا ہے۔ مہدی موعود کی بروزی نبوت کے متعلق مدعیہ کے گواہ مولوی نجم الدین صاحب نے جو اعتراض کیا ہے۔ اس کے متعلق یہ کہاگیا ہے کہ اس نے اس حوالہ کے آگے کی عبارت نہیں پڑھی۔ اس میں خاتم الاولاد کا مطلب یہ ظاہر کیاگیا ہے کہ اس کے خاتمہ کے بعد نسل انسان کوئی کامل فرزند پیدا نہیں کرے گی۔ باستثناء ان فرزندوں کے جو اس کی حیات میں ہوں۔ سوائے ظلی اور بروزی اصطلاحات کے باقی تمام بحث فروعی امور کے متعلق ہے جن کا امر مابہ النزاع پر چنداں کوئی اثر نہیں پڑتا۔ لیکن اس کے جواب میں اگر مدعیہ کی بحث کو جو اوپر بیان 2224کی جاچکی ہے دیکھا جاوے تو اس سے یہ نتیجہ درست طور پر برآمد ہوتا ہے کہ ظلی اور بروزی اور امتی وغیرہ کی اصطلاحات محض الفاظ ہی الفاظ ہیں۔ دراصل مرزاصاحب کا دعویٰ حقیقی نبو ت کے متعلق ہی تھا۔ جیسا کہ اس کی تشریح بعد میں ان کے خلیفہ ثانی کی تحریر جس کا حوالہ اوپر گذر چکا کی گئی ہے۔ خلیفہ صاحب کی اس تحریر کے متعلق مدعا علیہ نے ان کی ایک اور تحریر کا حوالہ دیتے ہوئے یہ کہا ہے کہ وہ لکھتے ہیں کہ میں نے مثال کے طور پر لکھا تھا کہ اگر حقیقی نبی کے یہ معنی کئے جاویں کہ وہ بناوٹی یا نقلی نبی نہ ہو تو ان معنوں کی رو سے حضرت مسیح موعود کو میں حقیقی نبی مانتا ہوں۔ یعنی صادق اور منجانب اﷲ اور غیرتشریعی نبی مانتا ہوں۔ لیکن اس سے ان کی وہ تحریر جس کا حوالہ مدعیہ کی طرف سے دیاگیا ہے رد نہیں ہوئی۔ وہ تحریر بذاتہ ایسی ہے کہ جس سے خود ایک مستقل مفہوم پیدا ہوتا ہے۔ اس میں انہوں نے مرزاصاحب کے حقیقی نبی ہونے کا ثبوت دینے کی بھی آمادگی ظاہر کی ہے اور پھر ساتھ ہی یہ کہا کہ انہوں نے ظلی بروزی کے الفاظ محض بطور انکسار کے استعمال فرمائے ہیں اور کہ اس قسم کی فروتنی نبیوں کی شان میں داخل ہے۔ ان کے ان الفاظ کی مدعا علیہ کی طرف سے کوئی تردید نہیں کی گئی اور نہ ان کی کوئی تردید ہوسکتی ہے۔ مرزاصاحب نے اپنے ایک اعلان میں یہ لکھا ہے کہ خدا نے مجھے آنحضرت ﷺ کا وجود ہی قرار دیا۔ اس لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بروزات کے سلسلہ میں مرزاصاحب کے جن اقوال کا حوالہ گواہان مدعیہ کے بیانات میں دیاگیا ہے اور ان سے جو نتائج انہوں نے برآمد کئے ہیں اور جو ان کی بحث میں اوپر بیان کئے جاچکے ہیں ان سے واقعی یہ اخذ ہوتا ہے کہ مرزاصاحب اپنے ان اقوال میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اس قسم کا جنم مراد لیتے ہیں کہ جو بطریق تناسخ سمجھا جاتا ہے نہ کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خو، طبیعت اور دیگر خصائل کے ودیعت ہونے سے ان سوالات پر زیادہ بحث کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ یہ سوالات مرزاصاحب کی اپنی تکفیر سے تعلق رکھتے ہیں جو کہ اس مقدمہ میں ایک ضمنی سوال ہے۔ اس لئے ان کے ایسے عقائد پر کہ جن پر مقدمہ ہذا کے تصفیہ کا زیادہ دارومدار نہیں ہے۔ تفصیلی بحث بلاضرورت ہے۔
2225ذیل میں مدعا علیہ کی طرف سے مدعیہ کے ان اعتراضات کا جواب درج کیا جاتا ہے جو مرزاصاحب کے دعویٰ نبوت تشریعیہ کے متعلق عائد کئے گئے ہیں۔
اس کی طرف سے بیان کیاگیا ہے کہ مرزاصاحب نے جہاں اپنے لئے رسول کا لفظ لکھا ہے وہاں انہوں نے اس لفظ کے ساتھ کسی جگہ شریعت کا لفظ استعمال نہیں کیا بلکہ انہوں نے صاف لکھا ہے کہ آسمان کے نیچے بجز فرقان حمید اور کوئی کتاب نہیں۔ دعویٰ نبوت کے متعلق انہوں نے صاف کہا ہے کہ میں ان معنوں سے نبی ہوں کہ میں نے اپنے رسول مقتدا سے باطنی فیوض حاصل کر کے اور اپنے لئے اس کا نام پاکر اس کے واسطہ سے خدا کی طرف سے علم غیب پایا ہے۔ رسول اور نبی ہوں۔ مگر بغیر کسی جدید شریعت کے اور جہاں انہوں نے یہ کہا کہ مجھے نبی کا خطاب دیاگیا۔ وہاں آگے یہ الفاظ بھی ہیں مگر اس طرح سے کہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی۔
جہاں مرزاصاحب نے یہ کہا ہے کہ وہ اپنی وحی پر اس طرح ایمان لاتے ہیں جس طرح کہ قرآن اور دوسری وحیوں پر۔ اس سے ان کا صاحب شریعت نبی ہونے کا دعویٰ اخذ نہیں ہوتا۔ بلکہ اس قسم کے اقوال سے یہ مراد ہے کہ آپ اپنی وحی کو منجانب اﷲ اور اس کے دخل شیطانی اور خطا سے پاک ومنزہ ہونے پر کامل یقین رکھتے ہیں اوراس کا وہ اظہار کر رہے ہیں اور یہ اس بات کو مستلزم نہیں کہ آپ صاحب شریعت ہونے کے مدعی ہیں۔
مرزاصاحب نے یہ نہیں کہا کہ میری وحی شرعی اور قرآن کی مثل ہے۔ مرزاصاحب کا اپنی وحی کو مدار نجات ٹھہرانا بھی ان کا مدعی نبوت تشریعہ ہونا ثابت نہیں کرتا۔ کیونکہ ان کی جو وحی اور تعلیم ہے وہ وہی تعلیم ہے جو عین قرآن مجید اور اسلام کی ہے۔ لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ اب قرآن مجید کی اس تعلیم پر کاربند ہوکر وہی نجات پاسکتا ہے جو آپ کے حلقہ بیعت میں داخل ہو دوسرا نہیں۔ مرزاصاحب نے یہ نہیں فرمایا کہ میری وحی میں کوئی نئی شریعت ہے یا میری وحی ناسخ شریعت محمدیہ ہے۔ بلکہ فرمایا کہ شریعت محمدیہ کے ہی بعض ضروری احکام کی تجدید ہے۔ قرآن مجید کی بیسیوں آیتیں دوبارہ امت محمدیہ کے اولیاء اﷲ پر نازل ہوئیں۔ اس طرح مرزاصاحب پر قرآن مجید کے بہت 2226سے اوامر ونواہی نازل ہوئے اور انہی کے متعلق مرزاصاحب نے لکھا ہے کہ: ’’میری وحی میں امر بھی ہے اور نہی بھی۔‘‘
مرزاصاحب کے قول نمبر۶ مذکورہ بالا کے متعلق یہ کہاگیا ہے کہ اولیاء امت نے اس امر کو تسلیم کیا ہے۔ شریعت محمدی کے اوامر ونواہی کا بطور تجدید کے کسی بزرگ پر نازل ہو جانا ناجائز ہے۔ صرف ایسے اوامر ونواہی کا جو شریعت محمدیہ کے مخالف ہوں اور آنحضرت ﷺ کی پیروی کا نتیجہ نہ ہوں اترنا ممنوع ہے۔ اس قول میں مرزاصاحب نے شریعت کا لفظ صرف مخالفین کے مقابل پر بطور الزام استعمال کیا ہے اور فرضی طور پر معترضین کو ملزم کرنے کے لئے فرماتے ہیں کہ یہ عذر بھی مخالفین کا باطل ہے۔ کیونکہ شریعت اوامر ونواہی کا نام ہے اور میرے الہامات میں امر اور نہی دونوں موجود ہیں۔
قول نمبر۱۲ کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ اس سے جو مرزاصاحب کے صاحب شریعت نبی ہونے کا استدلال کیاگیا ہے وہ درست نہیں۔ کیونکہ اس جگہ انہوں نے صرف صاحب شریعت نبی محدث اور ملہم کے انکار کا حکم بیان کیا ہے اور دوسرے انبیاء جو شریعت یا احکام جدید نہیں لائے۔ ان کا حکم اس عبارت میں مذکور نہیں اس سے گواہان مدعیہ نے جو نتیجہ نکالا ہے وہ مرزاصاحب کی دوسری تحریروں کے مخالف ہے۔ کیونکہ دوسری جگہ مرزاصاحب نے کہا ہے کہ ’’میری مراد نبوت سے یہ نہیں ہے کہ میں آنحضرت ﷺ کے مقابلہ پر کھڑا ہوکر نبوت کا دعویٰ کرتا ہوں یا کوئی نئی شریعت لایا ہوں۔ صرف میری مراد نبوت سے کثرت مکالمت ومخاطبت الٰہیہ ہے۔‘‘ اور دوسری جگہ لکھتے ہیں۔ ’’جو شخص مجھے نہیں مانتا وہ اس وجہ سے نہیں مانتا کہ وہ مجھے مفتری قرار دیتا ہے اور اﷲتعالیٰ فرماتا ہے کہ خدا پر افتراء کرنے والا سب کافروں سے بڑھ کر کافر ہے۔ پس جب کہ میں نے مکذب کے نزدیک خدا پر افتراء کیا تو اس صورت میں میں نہ صرف کافر بلکہ بڑا کافر ہوا اور اگر میں مفتری نہیں تو بلاشبہ وہ کفر اس پر پڑے گا۔‘‘
مرزاصاحب کے مدعی صاحب شریعت ہونے کی بابت مدعیہ کی طرف سے جو ان کے ماہواری چندہ دئیے جانے کے حکم کا حوالہ دیا جا کر بحث کی گئی ہے۔ اس کے متعلق مدعا علیہ کا یہ 2227جواب ہے کہ وہ کوئی نیا حکم نہیں اور نہ اس میں تعمیل نہ کرنے والے کے متعلق کافر مرتد یا ملعون وغیرہ کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔ بلکہ یہ حکم قرآن مجید کی تعلیم کے مطابق ہے۔ کیونکہ قرآن مجید میں اﷲتعالیٰ نے انفاق فی سبیل اﷲ پر بہت زور دیا ہے۔ مرزاصاحب نے اس قرآنی تعلیم کے ماتحت فرمایا کہ ایسا شخص جو راہ خدا میں خرچ نہیں کرتا اور باوجود مقدرت ۳،۳ ماہ تک اس ربانی حکم سے غافل رہتا ہے اور کچھ پرواہ نہیں کرتا تو اس کا سلسلہ سے کوئی تعلق نہیں اور گواہان مدعیہ کا یہ کہنا کہ زکوٰۃ نہ دینے والے کے متعلق ایسا حکم نہیں ہے درست نہیں۔ کیونکہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے ان لوگوں کے متعلق جنہوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کیا تھا۔ فرمایا کہ اﷲ کی قسم کہ اگر انہوں نے ایک معمولی رسی بھی جس سے اونٹ باندھا جاتا ہے اور جسے وہ رسول اﷲ ﷺ کے وقت میں ادا کرتے تھے روکی، تو میں ان سے قتال کروں گا۔ دیکھئے کہ زکوٰۃ میں سے کچھ حصہ ادا نہ کرنے پر کتنی سخت سزا مقرر کی گئی۔ ان دلائل کا زیادہ تفصیلی جوابات دینے کی ضرورت نہیں۔ ان کو اگر گواہان مدعیہ کی پیش کردہ دلائل کی روشنی میں دیکھا جائے گا تو ان کا ابطال خود بخود ہی ثابت ہو جائے گا۔ تاہم ان کے مختصراً جوابات درج کئے جاتے ہیں۔ رسول کی تعریف خود گواہ مدعا علیہ نے یہ کی ہے کہ جو صاحب کتاب ہو اور نبی عام ہوتا ہے۔ چاہے کتاب لائے یا نہ لائے۔ اب مرزاصاحب کے اپنے آپ کو رسول کہنے سے یہی مراد لی جائے گی کہ وہ صاحب کتاب نبی ہیں۔ علاوہ ازیں جو وحی کہ دخل شیطانی سے منزہ قرار دیا جاوے تو وہ منجانب اﷲ ہونے کی وجہ سے اس طرح قطعی ہوگی جیسا کہ دیگر انبیاء کی وحی چنانچہ مرزاصاحب خود بھی فرماتے ہیں کہ اگر ان کی وحی کو جمع کیا جاوے تو وہ کئی جزئیں بن جائے۔ اب اس قسم کی وحی کو اگر کتابی صورت میں نہ بھی لایا جائے تو بھی کتاب اﷲ کہلائے گی۔ کیونکہ اس میں اﷲتعالیٰ کی طرف سے اوامر ونواہی بیان کئے جاتے ہیں۔ مرزاصاحب کی ایسی وحی جس میں شریعت محمدیہ کے اوامر ونواہی کی تجدید ہے۔ بہت تھوڑی ہے۔ اس کے علاوہ ان کی جو دیگر وحی ہے اس کی قطعیت کے لحاظ سے اس پر بھی اس طرح ایمان لانا ضروری ہوگا۔ جیسا کہ قرآن مجید پر اور وہ بھی شریعت کا جزو تصور ہوگی۔ اس لئے مرزاصاحب نے رسول کے لفظ کے ساتھ شریعت کا لفظ استعمال نہیں کیا تو بھی ان کی تصریحات 2228سے یہی سمجھا جائے گا کہ وہ صاحب شریعت رسول ہیں چاہے وہ صاف الفاظ میں یہ کہیں یا نہ کہیں۔ ان کے دیگر اقوال سے نتیجہ یہی برآمد ہوتا ہے جو اوپر بیان کیا جاچکا ہے۔ ان کے دیگر اقوال جن میں انہوں نے اپنی نبوت کی تشریح کی ہے یا یہ کہا ہے کہ جدید شریعت نہیں لائے۔ ان اقوال کا کہ جن سے مذکورہ بالا نتائج اخذ ہوتے ہیں۔ رد نہیں بن سکتے۔ کیونکہ جیسا کہ شروع بحث میں دکھلایا گیا جو اقوال کہ اپنے اندر مستقل مفہوم لئے ہوئے ہیں۔ ان کے مطالب وہی سمجھے جائیں گے جو ان اقوال کی اپنی طرز بیان سے اخذ ہوتے ہیں اور تاوقتیکہ اس بات کی صراحت نہ ہو کہ وہ اقوال واپس لئے جاچکے ہیں۔ دیگر اقوال نہ ان کے قائم مقام بن سکتے ہیں اور نہ ان کی تشریح۔
مرزاصاحب چاہے یہ کہیں یا نہ کہیں کہ ان کی وحی شرعی اور قرآن کی شکل ہے۔ وہ جب اسے دخل شیطانی سے پاک سمجھتے ہیں اور دوسروں پر حجت قرار دے کر اسے مدار نجات ٹھہراتے ہیں اور اپنے نہ ماننے والے کو بھی کافر سمجھتے ہیں اور بقول گواہ مدعا علیہ اب آئندہ کے لئے مرزاصاحب کی بیعت میں داخل ہونا بھی ضروری ہے تو پھر کیونکر کہا جاسکتا ہے کہ ان کی وحی شرعی نہیں؟ خصوصاً جب کہ صاحب شریعت کی تعریف بھی خود مرزاصاحب یہ کرتے ہیں کہ جس نے اپنی وحی کے ذریعہ چند امر ونہی بیان کئے اور اپنی امت کے لئے ایک قانون مقرر کیا وہی صاحب شریعت ہوگیا اور پھر آگے یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ ضروری نہیں کہ وہ اوامر ونواہی نئے ہوں۔ ان کی اس تعریف کی رو سے صاف قرار دیا جاسکتا ہے کہ وہ اپنی وحی کو شرعی وحی سمجھتے ہیں اور جب وہ شرعی وحی ہوئی تو اس پر ایمان لانا اس طرح واجب ہوا جیسا کہ قرآن مجید پر۔ یہ ضرور ہے کہ قرآن مجید کی آیات کا نزول دیگر اولیاء اﷲ پر بھی ہوتا ہے۔ لیکن ان میں سے کسی نے ان کو اپنے اوپر چسپاں نہیں کیا اور نہ ان کو دوسروں پر بطور حجت پیش کیا ہے۔ اس لئے دیگر اولیاء اﷲ کی مثال مرزاصاحب کے مقابلہ میں پیش نہیں کی جاسکتی۔
2229قول نمبر۶ میں صاحب شریعت کے الفاظ مرزاصاحب کی طرف سے فرضی طور پر استعمال نہیں کئے گئے۔ جیسا کہ مدعا علیہ کا ادّعا ہے۔ بلکہ بڑی شدومد سے صاحب شریعت کی تعریف کی جاکر اپنا صاحب شریعت ہونا دکھلایا گیا ہے۔ اس قول کی عبارت پڑھنے سے معلوم ہوسکتا ہے کہ وہاںصاحب شریعت کے الفاظ فرضی ہیں یا اصلی۔ اس قول کی مزید تائید پھر قول نمبر۱۲ سے ہوتی ہے۔ اس قول کے مرزاصاحب کے دیگر اقوال کے متناقض ہونے کو خود گواہ مدعا علیہ نے بھی مانا ہے اور مرزاصاحب کے دیگر اقوال سے اس نقیض کو رفع کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن یہ قول بذاتہ کسی شرح کا محتاج نہیں اور اپنا مفہوم آپ ہی بیان کر رہا ہے۔ اس قول میں مرزاصاحب نے اپنی عظمت اور شان دکھلا کر یہ ثابت کیا ہے کہ وہ صاحب شریعت نبی ہیں اور اپنے دعویٰ کے انکار کرنے والوںکو وہ اس بناء پر کافر کہتے ہیں۔ یہ ان کی طرف سے ایک دوسری توجیہ ہے کہ وہ اس شخص کو جو انہیں نہیں مانتا اس بناء پر کافر کہتے ہیں کہ وہ انہیں مفتری سمجھتا ہے اور چونکہ وہ مفتری نہیں ہیں اس لئے وہ کفر اس پر توٹتا ہے۔
مرزاصاحب نے اپنی جماعت کو جو ماہواری چندہ دینے کا حکم دیا ہے اور اس سلسلہ میں ان کی طرف سے جو فرمان شائع ہوا ہے اور جس کا حوالہ اوپر دیاجاچکا ہے اس کے ملاحظہ سے پایا جاتا ہے کہ انہوں نے یہ حکم اﷲتعالیٰ سے مطلع ہوکر دیا ہے۔ گویا یہ حکم دراصل ان کا حکم نہیں۔ اﷲتعالیٰ کا حکم ہے۔ چنانچہ گواہ مدعا علیہ بھی تسلیم کرتا ہے کہ یہ ایک ربانی حکم ہے اور اس ربانی حکم کی تعمیل نہ کرنے والے کو مرزاصاحب نے منافق کہا ہے۔ اب اگر مرزاصاحب نے صاف الفاظ میں یہ نہیں کہا کہ وہ مرتد اور ملعون ہے تو اس سے ان کے اس حکم کے نتیجہ پر کہ وہ منافق ہے کوئی اثر نہیں پڑ سکتا۔ کیونکہ منافق کو خداوند تعالیٰ نے کافروں کی ذیل میں شامل کیا ہے۔ بلکہ بہت بڑا کافر کہا ہے۔ اس لئے قاصر کو سوائے اس کے کہ اسے مرتد اور ملعون سمجھا جائے اور کیا کہا جائے گا۔ کیونکہ اس کا بیعت سے خارج ہو جانا بھی مثل ارتداد ہے۔
اگرمرزاصاحب کے باوجود اسے منافق کہنے اور بیعت سے خارج کرنے کے گواہ مدعا علیہ کے نزدیک پھر بھی وہ مسلمان رہتا ہے تو اس کے یہ معنی ہیں کہ وہ مرزاصاحب کو نبی اﷲ نہیں مانتا۔ 2230کیونکہ نبی کے حکم کی تعمیل عین خدا کی تعمیل ہوتی ہے اور اس کی ناراضگی موجب غضب الٰہی، معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم دیتے وقت مرزاصاحب نے بھی اپنے مرتبے کو پوری طرح مدنظر نہیں رکھا اور اپنی طاقت کے ساتھ خدا کی طاقت کو بھی شامل کرنے کے باوجود قاصر کو صرف یہی سزا دے سکتے ہیں کہ اسے سلسلۂ بیعت سے خارج کر دیا جائے گا۔ حالانکہ خدا نے نبی کی وہ شان بنائی ہے کہ اس کے حکم کی عدم تعمیل تو بجائے ماند، اس کے آگے اونچا بولنے سے بھی تمام اعمال کے ضائع ہو جانے کا اندیشہ ہوتا ہے اور عدم تعمیل احکام تو دین ودنیا میں کہیں کا نہیں چھوڑتی۔ اس سلسلہ میں مدعیہ کی طرف سے یہ درست کہا گیا ہے کہ زکوٰۃ کے متعلق بھی اس قسم کا کوئی شرعی حکم نہیں۔ جس حکم کا حوالہ گواہ مدعا علیہ نے دیا ہے۔ وہ رسول اﷲ ﷺ کے خلیفہ اوّل کا ہے نہ کہ خدا اور اس کے رسول کا، گواہ مدعا علیہ کا اس بارہ میں مرزا صاحب کا حضرت ابوبکرؓ صدیق کے ساتھ مقابلہ کرنا مرزاصاحب کے مرتبہ کی اور تنقیص ظاہر کرتا ہے۔ ایک طرف تو وہ انہیں نبی مانتا ہے اور پھر ان کے احکام کے مقابلہ میں ایک غیر نبی کے احکام پیش کرتا ہے۔ یہ معمہ سمجھ میں نہیں آتا کہ ان لوگوں نے مرزاصاحب کو باوجود نبی ماننے کے ان کی کیا شان سمجھ رکھی ہے۔ کچھ شک نہیں کہ مرزاصاحب کا یہ حکم زکوٰۃ پر مستزاد ہونے کی وجہ سے ایک نیا حکم ہے اور اس بناء پر مرزاصاحب اپنی بیان کردہ تعریف کی رو سے بھی شرعی نبی ہوئے۔ ہر حکم انفاق فی سبیل اﷲ کی ترغیب نہیں۔ بلکہ اﷲتعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں نافذ ہونا بیان کیاگیا ہے اور خود مدعا علیہ کی طرف سے اسے ایک ربانی حکم ہونا مانا گیا ہے اور پھر اس کی سزا بھی محض دنیاوی مقرر نہیں بلکہ قاصر کو منافق قرار دیا جاکر اور مرتد بنایا جا کر اسے عذاب آخرت کا مستوجب قرار دیا گیا ہے۔ تو اس حالت میں کیونکر کہا جاسکتا ہے کہ یہ کوئی شرعی حکم نہیں۔ بلکہ محض انفاق فی سبیل اﷲ میں ایک ترغیب ہے۔ اگر نبیوں کے احکام کی اس طرح تعبیر کی جانی لگے تو پھر نبی اور رسولوں کے احکام تو بجائے ماند، احکام خداوندی کی بھی کوئی حقیقت نہیں رہتی اور نبوت کا تمام سلسلہ ہی ایک بے معنی سی چیز دکھائی دینے لگتا ہے۔ لہٰذا مرزاصاحب کی ان تحریروں سے جن کا اوپر حوالہ دیا گیا ہے۔ یہ نتیجہ درست طور پر اخذ کیاگیا ہے کہ وہ 2231صاحب شریعت نبی ہونے کے بھی دعویدار ہیں۔ گو بعد میں انہوں نے اپنے اس دعویٰ میں کامیاب نہ ہونے کی صورت دیکھ کر اس پر زیادہ زور نہیں دیا اور اپنے ان اقوال کی جن سے ان کے صاحب شریعت نبی ہونے کے نتائج اخذ ہوتے مختلف توجیہیں شروع کر دیں۔
اس کے بعد مدعا علیہ کی طرف سے مرزاصاحب کے قیامت، نفخ صور اور حشر احیاء وغیرہ اعتقادات کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ گواہان مدعیہ کی طرف سے ان عقائد کی نسبت جو اعتراضات وارد کئے گئے ہیں وہ درست نہیں۔ کیونکہ مرزاصاحب نے ان عقائد کی نسبت جو کچھ بیان کیا ہے وہ قرآن مجید اور احادیث کی رو سے درست ہے۔ ان عقائد کے متعلق زیادہ تفصیلی بحث کی ضرورت نہیں۔ صرف یہ لکھ دینا کافی ہے کہ اگر مرزاصاحب کو نبی تسلیم نہ کیا جاوے تو پھر تو ان عقائد کے متعلق ان کی رائے ایک ذاتی رائے تصور ہوگی اور اس سے اختلاف کیا جانا ممکن ہو گا اور اگر انہیں نبی تسلیم کر لیا جاوے تو پھر ان کی رائے تعلیم وحی کا نتیجہ شمار ہو کر قابل پابندی ہو گا اور اس صورت میں اس سے ذرا بھر اختلاف نہیں ہوسکے گا۔ بلکہ اختلاف کرنے والا عاصی سمجھا جاوے گا۔ ان کے نبی نہ ہونے کی صورت میں ان کے یہ عقائد امت کے خلاف ہونے کی وجہ سے تحقیق طلب ہوں گے اور ممکن ہے کہ اس صورت میں ان کے خلاف فتویٰ کی صورت بھی بدل جائے۔ مگر ان کے مدعی نبوت ہونے کی حالت میں ان کے یہ عقائد جمہور امت کے عقائد کے خلاف ہونے کے باعث وجوہات تکفیر میں مزید اضافہ کا سبب بن سکیں گے۔
اب ذیل میں توہین انبیاء کے سلسلہ میں مدعیہ کی طرف سے پیش کردہ دلائل کا جو جواب مدعا علیہ کی طرف سے دیاگیا ہے وہ درج کیا جاتا ہے۔ مدعا علیہ کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ مرزاصاحب نے کسی نبی کی توہین نہیں کی۔ کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ جو شخص اپنے آپ کو جن لوگوں سے مشابہت دیتا ہے اور کہتا ہے کہ میں بھی اس پاک گروہ کا ایک فرد ہوں۔ پھر کیونکر ان کی توہین کر سکتا ہے۔ کیونکہ وہ توہین اس کی اپنی توہین ہوگی۔
2232اصول کے لحاظ سے تو یہ بات درست ہے۔ لیکن اس کا فیصلہ مرزاصاحب کے اقوال سے ہوتا ہے۔ گواہان مدعیہ کے بیانات میں اس کی مفصل بحث پائی جاتی ہے۔ اس لئے یہاں اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں۔
مدعا علیہ کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ مرزاصاحب کے جن اشعار کو باعث توہین قرار دیا گیا ہے۔ اس سے کوئی توہین پیدا نہیں ہوتی۔ بلکہ مرزاصاحب کے ان اشعار سے مراد یہ ہے کہ جام عرفان الٰہی اور ایقان ہر نبی کو دیا گیا تھا اور خداوند تعالیٰ نے وہ پورے کا پورا مجھے بھی دیا ہے اور کہ میں اپنی معرفت اور عرفان الٰہی میں اور اپنے یقین میں کسی نبی اور رسول سے کم نہیں ہوں اور یہ کمال جو مجھے حاصل ہوا ہے وہ آنحضرت ﷺ کے اتباع سے بطریق وراثت ملا ہے۔
مرزاصاحب پر یہ غلط اتہام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے آنحضرت ﷺ کی بھی توہین کی ہے۔ بلکہ آپ کی کتب آنحضرت ﷺ کی تعریف سے پر ہیں۔ جن آیات قرآنیہ کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ مرزاصاحب نے اپنے اوپر چسپاں کی ہیں۔ ان کے متعلق مولوی محمد حسین بٹالوی رئیس طائفہ اہل حدیث نے یہ لکھا ہے کہ مرزاصاحب نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ ان آیات کا مورد نزول ومخاطب وہ ہیں بلکہ ان کو کامل یقین اور صاف اقرار ہے کہ قرآن اور پہلی کتابوں میں ان آیات میں مخاطب ومراد وہی انبیاء ہیں جن کی طرف ان میں خطاب ہے اور ان کمالات کے محل وہی حضرات ہیں جن کو خداوند تعالیٰ نے ان کمال کا محل ٹھہرایا ہے۔
لیکن یہ جواب اس وقت کے متعلق ہے جب تک کہ مرزاصاحب نے دعویٰ نبوت نہیں کیا تھا۔ مدعا علیہ کی طرف سے کہاگیا ہے کہ مرزاصاحب پر یہ الزام بھی غلط لگایا گیا ہے کہ انہوں نے عین محمد ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ بلکہ انہوں نے اپنی کتابوں میں صاف طور پر کہا ہے کہ میں ان کا خادم ہوں اور وہ میرے مخدوم ہیں۔ میں ان کا ظل ہوں اور وہ اصل ہیں۔ میں آپ کی خدمت اور آپ کی شاگردی اور آپ کے اتباع میں اس قدر فنا ہوں کہ گویا میرا وجود آپ کے وجود سے بلحاظ روحانیت علیحدہ نہیں ہے اور بزرگان دین نے یہ لکھا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے 2233کامل متبع بہ سبب کمال متابعت انہیں میں جذب ہو جاتے ہیں اور ان کے رنگ میں ایسے رنگین ہوتے ہیں کہ تابع اور متبوع یعنی نبی اور امتی میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ سوائے اوّل آخر ہونے کے، مرزاصاحب نے یہ نہیں کہا کہ میں عین محمد ہوں۔ بلکہ بروزی طور پر فرمایا ہے اور لکھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کی روحانیت نے ایک ایسے شخص کو اپنے لئے منتخب کیا کہ جو خلق، ہمت، ہمدردی، اخلاق میں اس کے مشابہ تھا اور ظاہری طور پر اپنا نام احمد اور محمد اس کو عطاء کیا۔ تایہ سمجھاجاوے کہ گویا اس کا ظہور بعینہ آنحضرت ﷺ کا ظہور تھا۔ لیکن صوفیاء نے اس مقام کو عینیت کے لفظ سے تعبیر کیا ہے۔ اس پر بھی مزید کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں۔ اس استدلال کو مدعیہ کے پیش کردہ استدلال کی روشنی میں دیکھا جاسکتا ہے۔
مدعا علیہ کی طرف سے آگے یہ کہا گیا ہے کہ مرزاصاحب کے اس شعر سے کہ ’’لہ خسف القمر المنیر وان لی‘‘ سے آنحضرت ﷺ کی توہین نہیں نکلتی۔ کیونکہ اگر مرزاصاحب کے لئے چاند اور سورج کا گرہن نشان ہوا تو وہ اس لئے کہ احادیث کی کتب میں سچے مہدی کی علامات میں سے یہ قرار دیا گیا ہے۔ پس یہ نشان بھی آنحضرت ﷺ کی طرف منسوب ہوگا۔ مگر مدعیہ کا استدلال اس پر نہیں کہ مرزاصاحب نے چاند گرہن کے نشان کو اپنے لئے تجویز کیا ہے۔ بلکہ اس کی طرف سے توہین کا موجب یہ بات سمجھی گئی ہے کہ اس شعر میں رسول اﷲ ﷺ کے معجزہ شق القمر کا استخفاف کیا گیا ہے۔
رسول اﷲ ﷺ کے معجزات کے متعلق مدعیہ کی طرف سے مرزاصاحب کے جن اقوال پر اعتراض کیاگیا ہے۔ اس کا مدعا علیہ کی طرف سے یہ جواب دیا گیا ہے کہ مرزاصاحب نے دوسری کتاب میں جہاں آنحضرت ﷺ کے تین ہزار معجزات بتلائے ہیں۔ وہاں اپنی پیش گوئیاں سو کے قریب لکھی ہیں اور آپ نے اپنے دس لاکھ ایسے نشانات بتلائے ہیں کہ اگر ویسے نشانات آنحضرت ﷺ کے شمار کئے جاویں تو دس (۱۰) ارب سے بھی زیادہ ہوں۔
مدعیہ کی طرف سے یہ کہا گیا ہے کہ چونکہ معجزہ خرق عادات ہوتا ہے اور مرزاصاحب نے اپنے نشانات کے متعلق یہ کہا ہے کہ وہ اوّل درجہ کے خرق عادت ہیں۔ اس لئے ان نشانات کو بھی 2234معجزات ہی شمار کیا جائے گا۔ ہر دو فریق کے دلائل اس بارہ میں مسل پر موجود ہیں۔ ان سے نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ صداقت کس میں ہے۔ میں ان سوالات پر اس لئے بھی زیادہ بحث کی ضرورت نہیں سمجھتا کہ یہ سوالات مرزاصاحب کی اپنی ذات کے متعلق ہیں اور امر مابہ النزاع سے ان کا بہت تھوڑا تعلق پایا جاتا ہے۔ اس طرح مدعا علیہ کا یہ ادعا ہے کہ مرزاصاحب نے حضرت یوسف علیہ السلام اور حضرت آدم علیہ السلام کی بھی کوئی توہین نہیں کی۔ اس کے بعد پھر اس کی طرف سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہین کے سلسلہ میں یہ دکھلایا گیا ہے کہ مرزاصاحب نے جہاں عیسیٰ علیہ السلام پر اپنی فضیلت بیان کی ہے وہ آنحضرت ﷺ کے متبع اور امتی ہونے کی وجہ سے کی ہے اور علماء خود مانتے چلے آئے ہیں کہ حضرت موسیٰ نے بھی یہ خواہش کی تھی کہ وہ رسول اﷲ ﷺ کی امت میں سے ہوں اور دوسرے شعراء اور صوفیاء کے اقوال سے یہ دکھلایا گیا ہے کہ وہ بھی رسول اﷲ ﷺ کے متبع ہونے کے باعث حضرت عیسیٰ پر اپنی فضیلت ظاہر کرتے آئے ہیں۔ مگر اسے توہین نہیں سمجھا گیا اور اس ضمن میں شیخ محمود حسن صاحبؒ کے چند اشعار جو انہوں نے مولوی رشید احمد صاحب گنگوہیؒ کے مرثیہ میں لکھے ہیں درج کئے جاکر یہ بحث کی گئی ہے کہ ان اشعار سے انبیاء کی توہین نہیں ہوتی۔ پھر مرزاصاحب کے اشعار سے کیونکر توہین اخذ کی جاتی ہے۔
اس کا جواب سید انور شاہ صاحب گواہ مدعیہ نے دیا ہے کہ جو مدحیہ اشعار ہوں وہ تحقیقی نہیں ہوتے۔ بلکہ بشر کی کلام میں اٹکل کے ہوتے ہیں اور شاعرانہ محاورہ نئی نوع کلام کی تسلیم کیاگیا ہے۔ فرق اس میں یہ ہے کہ جو خدا کی کلام ہوگی تو وہ عقیدہ ہوگا اور تحقیق ہوگی اور وہ کسی طرح اٹکل نہ ہوگی۔ حقیقت حال ہوگی۔ نہ کم نہ بیش۔ بشر انتہائی حقیقت کو نہیں پہنچتا۔ تخمینی لفظ کہتا ہے اور دنیا نے اس کو تسلیم کیا ہے کہ شاعرانہ نوع تعبیر عام اطلاق الفاظ نہیں اور وہ تخمینہ پر عبارت کہہ دیتے ہیں جو آس پاس ہوتی ہے۔ ٹھیک حقیقت نہیں ہوتی اور خود شاعر کی نیت میں اور ضمیر میں منوانا اس کا عالم کو منظور نہیں ہوتا۔
2235جھوٹے اور شاعر میں یہ فرق ہے کہ جھوٹا کوشش کرتا ہے کہ میری کلام کو لوگ سچ مان لیں اور شاعر کی اصلاً یہ کوشش نہیں ہوتی۔ بلکہ وہ سمجھتا ہے کہ حاضرین بھی میرے اس کلام کو حقیقت پر نہیں سمجھیں گے۔ بلکہ اگر کوئی حقیقت پر سمجھے تو دوسرے وقت وہ اس کی اصلاح کے در پے ہوتا ہے اور ایسے وقائع دنیامیں بہت پیش آچکے ہیں۔ مبالغہ شاعروں کے ہاں ہوتا ہے اور یہ ایک قسم ہے کلام کی جو فنون علمیہ میں درج ہے اور اس مبالغہ کی حقیقت یہ ہے کہ چھوٹی چیزکو بڑا ادا کرنا اور بڑی چیز کو چھوٹا بشرطیکہ نہ اعتقاد ہو اور نہ مخلوق کو منوانا ہو۔ پس اگر کوئی شخص کوئی ایسی چیز کہتا ہے کہ جس سے مغالطہ پڑتا ہے۔ نبوت کے باب میں اور وہ ساری کوشش اس میں خرچ کرتا ہے تو وہ اور جہاں کا ہے اور حضرت شاعر اور جہاں میں۔
چنانچہ مرزاصاحب اپنی کتاب (دافع البلاء ص۲۰، خزائن ج۱۸ ص۲۴۰) پر لکھتے ہیں کہ ’’یہ باتیں شاعرانہ نہیں بلکہ واقعی ہیں۔‘‘ علاوہ ازیں سمجھ میں نہیں آتا کہ مرزاصاحب نے شاعری کا شیوہ کس طرح اختیار فرمایا اور کیوں انہیں اس معاملہ میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صفات عالیہ سے بطور ظل کے حصہ نہ ملا۔ کیونکہ حضور ﷺ کے متعلق قرآن مجید کی سورۂ یٰسین میں فرمایا گیا ہے کہ ’’وما علمنہ الشعر وما ینبغی لہ‘‘ اور سورۂ شعراء میں شعراء کی مذمت کی جاکر یہ فرمایا گیا ہے کہ ’’الم تر انہم… یفعلون‘‘ اس حکم کے تحت میں تو مرزاصاحب کے نہ صرف وہ اقوال جو اشعار میں درج ہیں بلکہ کوئی قول بھی معتبر نہیں رہتا۔
مدعیہ کے اس اعتراض کے جواب میں کہ ’’مرزاصاحب نے حضرت مسیح کے معجزات کو مسمریزم کی قسم سے کہا ہے۔‘‘ مدعا علیہ کی طرف سے یہ جواب دیا گیا ہے کہ میں حضرت مسیح کے اعجازی خلق کو مانتا ہوں۔ ہاں اس بات کو نہیں مانتا کہ حضرت مسیح نے خداتعالیٰ کی طرح حقیقی طور پر کسی مردہ کو زندہ کیا۔ یا حقیقی طور پر کسی پرندہ کو پیدا کیا۔ کیونکہ اگر حقیقی طور پر حضرت مسیح علیہ السلام کے مردہ زندہ کرنے یا پرندے پیدا کرنے کو تسلیم کیا جاوے تو اس سے خداتعالیٰ کی خلق اور اس کا احیاء مشتبہ ہو جائے گا اور عمل ترب کے متعلق وہ اپنے ایک الہام کے حوالہ سے یہ لکھتے ہیں کہ 2236یہ عمل الترب ہے۔ جس کی اصل حقیقت کی زمانہ حال کے لوگوں کو کچھ خبر نہیں۔ آپ نے اس عمل کو اپنے لئے اس لئے پسند نہ کیا کہ اس علمی زمانہ میں ایسے معجزات دکھلانے کی ضرورت نہ تھی اور حضرت مسیح کے متعلق وہ لکھتے ہیں کہ انہوں نے اس عمل جسمانی کو یہودیوں کے جسمانی اور پست خیالات کی وجہ سے جو ان کی فطرت میں مرکوز تھے۔ باذن وحکم الٰہی اختیار کیا تھا۔ ورنہ انہیں بھی یہ عمل پسند نہ تھا۔
اس جواب کے متعلق بھی مزید کسی تشریح کی ضرورت نہیں۔ ہر دو فریق کی طرف سے اس بارہ میں جو مواد پیش کیاگیا ہے وہ اوپر دکھلایاجاچکا ہے۔ اس سے ہر دو کے دلائل کا موازنہ کیا جاسکتا ہے۔
عیسیٰ علیہ السلام کی توہین کے متعلق مرزاصاحب کے جو دیگر اقوال ان کی کتب ’’دافع البلاء اور ضمیمہ انجام آتھم وغیرہ‘‘ سے پیش کئے جاکر یہ دکھلایا گیا ہے کہ ان میں بہت ہی سب وشتم درج ہے۔ ان کی بابت مدعا علیہ کی طرف سے یہ کہا گیا ہے کہ ان میں عیسائی مخاطب ہیں اور ان اقوال میں ان لوگوں کے اعتقادات کے مطابق جو ان کی کتابوں میں درج ہیں۔ انہیں الزامی جواب دئیے گئے ہیں اور فن مناظرہ میں اس قسم کی روش عام طور پر اختیار کی جاتی ہے اور اس کی تائید میں مدعا علیہ کی طرف سے دیگر علماء کے اقوال نقل کئے گئے ہیں۔ مرزاصاحب کے ان اقوال کو اگر سیاق وسباق عبارت سے ملا کر دیکھا جاوے تو مدعا علیہ کا یہ جواب حقیقت سے خالی معلوم نہیں ہوتا۔ علاوہ ازیں ان دشنام آمیز الفاظ کو سید انور شاہ صاحب گواہ مدعیہ نے اپنی شہادت میں بسلسلہ توہین عیسیٰ علیہ السلام بیان نہیں کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں موجب ارتداد مرزا صاحب میں اس قسم کی کوئی چیز پیش نہیں کرتا۔ جس میں کہ مجھے نیت سے بحث کرنی پڑے۔ بلکہ میں نے اس چیز کو لیا ہے جسے انہوں نے قرآن کی تفسیر بنایاہے اور اسے حق کہا ہے اور جن چیزوں میں مجھے نیت کی تلاش رہتی وہ میں نے اپنی بحث سے خارج کر دئیے ہیں اور انہیں موجب ارتداد قرار نہیں دیا۔
2237میں نے مرزاصاحب کی نیت پر گرفت نہیں کی زبان پر کی ہے اور نہ ہی وجہ ارتداد میں تعریض کو لیا ہے۔ بلکہ جس ہجو کو انہوں نے قرآن مجید سے مستند کیا اور اسے قرآن مجید کی تفسیر گردانا اور جس ہجو کو اپنی جانب سے حق کہا وہ اسے وجہ ارتداد سمجھتے ہیں اور اس ضمن میں انہوں نے مرزا صاحب کے حسب ذیل اقوال داخل کئے ہیں۔ ’’مگر میرے نزدیک آپ کی یہ حرکات جائے افسوس نہیں۔ کیونکہ آپ تو گالیاں دیتے تھے اور یہودی ہاتھ سے کسر نکال لیا کرتے تھے۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۵، خزائن ج۱۱ ص۲۸۹)
اور کہا ہے کہ اس سے تعریض اور تصریح دونوں قسم کی توہین ظاہر ہوتی ہے اور یہ کہ ’’عیسائیوں نے آپ کے بہت سے معجزات لکھے ہیں۔ مگر حق بات یہ ہے کہ آپ سے معجزہ نہیں ہوا۔‘‘ (ضمیمہ انجام آتھم ص۶، خزائن ج۱۱ ص۲۹۰)
اس سے صریح عیسیٰ علیہ السلام کی توہین ٹپکتی ہے۔ کیونکہ حق بات کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مرزاصاحب کے اپنے فیصلہ کے الفاظ ہیں۔ شاہ صاحب کی یہ رائے عین حق شناسی پر مبنی ہے اور جن اقوال سے انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہین کا نتیجہ نکالا ہے۔ ان سے واقعی ان کی توہین اخذ ہوتی ہے۔ باقی رہا کسی نبی کا دوسرے نبی سے افضل ہونے کا سوال اس کے متعلق شاہ صاحب کے بیان کے حوالہ سے اوپر جواب دیا جاچکا ہے۔