• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قومی اسمبلی میں ہونے والی اکیس دن کی مکمل کاروائی

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(تمام امت کی تکفیر)
چھٹی وجہ تکفیر بیان کردہ گواہان مدعیہ کا مدعا علیہ کی طرف سے یہ جواب دیا گیا ہے کہ مرزاصاحب نے یہ کہیں نہیں لکھا کہ تمام امت محمدیہ مشرک ہے۔ بلکہ جس عبارت کا حوالہ گواہان مدعیہ کی طرف سے دیا جاکر یہ نتیجہ نکالا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی مرزاصاحب نے لکھا ہے کہ پہلے مسلمانوں سے یہ قول غلطی سے صادر ہوا ہے اور وہ لوگ خدا کے نزدیک معذور ہیں۔ کیونکہ انہوں نے عملاً غلطی نہیں کی اور انہوں نے حیات مسیح کے عقیدہ کو مبداء شرک یامنجز الی الشرک قرار دیا ہے اور اس کو شرک عظیم کہنا باعتبار مایؤل الیہ کے ہے اور اس امر کو حق بلاغت میں مجاز مرسل سے شمار کیاگیا ہے۔ اس ضمن میں زیادہ بحث کی ضرورت نہیں۔ صرف یہ درج کیا جاتا ہے کہ حیات عیسیٰ کے مسئلہ پر فریقین کو بحث کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ کیونکہ ان کی جس قسم کی حیات کے تمام مسلمان قائل ہیں وہ ادراک انسانی سے باہر ہے۔ اس لئے اسے امر واقع کے 2238طور پر ثابت کرنا ایک لاحاصل سعی ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ قرآن مجید کی رو سے اس ظاہر زندگی کے علاوہ ایک اور قسم کی زندگی بھی ہے جس کو انسانی فہم اور عقل احاطہ نہیں کر سکتے۔ جیسا کہ شہداء کے متعلق بیان کیاگیا ہے کہ وہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں اور اس کے ہاں انہیں رزق ملتا ہے۔ ملاحظہ ہو آیت ’’لا تحسبن الذین قتلوا… من فضلہ‘‘ پارہ۴ رکوع۷، سورۂ آل عمران مدعیہ کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ مرزاصاحب نے ایک لفظ ’’ذریۃ البغایا‘‘ استعمال کر کے تمام مسلمانوں کو ولد الزنا قرار دیا ہے اس کا جواب مدعا علیہ کی طرف سے یہ دیا گیا ہے کہ ذریۃ البغایا کے معنی وہ نہیں جو فریق مخالف نے لئے ہیں۔ کیونکہ ان معنوں کے لئے کوئی قرینہ موجود نہیں۔ ظاہر میں اس کے معنی ایک تو یہ ہیں کہ ہدایت سے دور اور ناشائستہ آدمی جن کی حالت یہ ہے کہ ان کے دلوں پر مہریں ہیں وہ انہیں قبول نہ کریں گے یا یہ کہ وہ لوگ جو اپنے آپ کو لوگوں کا پیشوا اور امام سمجھتے ہیں یعنی مولوی لوگ جو کفر کے فتویٰ لے کر شہر بشہر پھرتے ہیں۔ یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے کیونکہ بغایا کے معنی ہر اول کے بھی ہوتے ہیں۔ نیز بغایا مطلق عورتوں کو بھی کہتے ہیں۔ چاہے وہ فاجرہ ہوں یا نہ ہوں۔ لیکن اس پر بھی زیادہ بحث کی ضرورت نہیں۔ اس لفظ کے استعمال اور طرز خطاب سے سمجھا جا سکتا ہے کہ وہاں اس لفظ سے کیا مراد ہے۔
مرزاصاحب اپنے مکذبین اور منکرین کو کافر کہنے سے مدعیہ کی طرف سے جو انہیں کافر کہا گیا ہے اس کے متعلق مدعا علیہ کی طرف سے یہ کہا گیا ہے کہ مرزاصاحب اپنے نہ ماننے والوں کو اس لئے کافر کہتے ہیں کہ جو شخص انہیں نہیں مانتا وہ انہیں مفتری قرار دے کر نہیں مانتا۔ اس لئے ان کی تکفیر کی وجہ سے وہ خود کافر بنتا ہے۔ لیکن یہ کوئی معقول جواب نہیں۔ کیونکہ ایک شخص اگر واقعہ میں کافر ہو تو اسے کیوں کافر نہ کہا جاوے۔ اس طرح تو کسی پر بھی کفر کا فتویٰ نہیں لگایا جاسکتا۔ کیونکہ اسے کافر کہنے والا خود کافر ہو جائے گا۔ مرزاصاحب کے سچے یا جھوٹے نبی ہونے کے متعلق اوپر بحث کی جاچکی ہے۔ لہٰذا ان دلائل کی رو سے اگر کوئی شخص ان کو کافر کہتا ہے تو معلوم نہیں ہوتا کہ وہ خود پھر کیونکر کافر ہو جائے گا اور اگر بالفرض محال یہ رائے درست بھی ہو تو 2239پھر صرف ان لوگوں کوکافر کہنا چاہئے جو مرزاصاحب کو کاذب یا کافر کہیں۔ جو ان کی نہ تکذیب کرتے ہیں اور نہ تکفیر۔ انہیں کیوں کافر کہا جاتا ہے۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ انہیں کافر کہنے کی یہ وجہ نہیں کہ وہ مرزاصاحب کو مفتری جان کر کافر کہتے ہیں۔ بلکہ اس کی وجہ خود مرزاصاحب نے اپنی کتاب (فتاویٰ احمدیہ ج۱ ص۲۶۹) پر یہ بیان کی ہے کہ: ’’کسی کا کوئی عمل میرے دعویٰ اور دلیلوں اور میرے پہچاننے کے بغیر مفید نہیں ہوسکتا۔‘‘
پھر آگے اس کتاب (فتاویٰ احمدیہ ج۱ ص۳۰۸) پر لکھتے ہیں کہ: ’’بہرحال حکم خدا تعالیٰ نے مجھ پر ظاہر کیا ہے کہ ہر ایک شخض کو جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا وہ مسلمان نہیں اور خدا کے نزدیک قابل مواخذہ ہے۔‘‘
ان عبارات سے صاف اخذ ہوتا ہے کہ جو شخص مرزاصاحب کو نہیں مانتا خواہ ان کو کافر کہے یا نہ کہے وہ مسلمان نہیں اور اس کا کوئی عمل بارگاہ الٰہی میں قبول نہیں ہے۔ مدعا علیہ کے گواہان نے ریاست ہذا کے لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے اور یہ دکھلانے کے لئے کہ گواہان مدعیہ نے مرزاصاحب اور ان کے متبعین کے خلاف فتویٰ تکفیر محض اپنے بغض اور عناد کی بناء پر اور اپنے بزرگان کے اقتداء کا خوگر ہونے کی وجہ سے دیا ہے۔ ورنہ دراصل مرزاصاحب ضروریات دین میں سے کسی چیز کے منکر نہیں ہیں۔ حضرت خواجہ غلام فرید صاحبؒ کہ جن کا نہ صرف ریاست بہاول پور کا ایک حصہ معتقد اور مرید ہے بلکہ جن کے سندھ، بلوچستان اور پنجاب میں بھی بکثرت مرید پائے جاتے ہیں کی ایک کتاب ’’اشارات فریدی‘‘ سے یہ دکھلایا ہے کہ ان کے نزدیک مرزاصاحب کسی عقیدہ اہل سنت والجماعت اور ضروریات دین میں سے کسی چیز کے منکر نہیں پائے جاتے۔ بلکہ آپ ان کے متعلق یہ لکھتے ہیں کہ وہ اپنے تمام اوقات خداتعالیٰ کی عبادت میں گزارتے ہیں اور حمایت دین پر کمربستہ ہیں اور کہ علمائے وقت تمام مذاہب باطلہ کو چھوڑ اس نیک آدمی کے پیچھے پڑ گئے ہیں جو اہل سنت والجماعت میں سے ہے اور صراط مستقیم پر قائم ہے۔
اور خواجہ صاحب کی اس تحریر پر بڑی شرح اور بسط سے بحث کی جاکر یہ دکھلایا گیا ہے کہ یہ الفاظ خواجہ صاحبؒ کے اپنے ہی ہیں اور انہوں نے مرزاصاحب کی کتابیں دیکھنے کے بعد یہ 2240رائے قائم کی تھی۔ مدعیہ کی طرف سے بھی اس کا مفصل جواب دیا گیا ہے اور یہ کہا گیا ہے کہ مرزاصاحب کی جو کتابیں خواجہ صاحب نے اس وقت تک دیکھیں تھیں۔ ان میں مرزاصاحب کا دعویٰ نبوت درج نہ تھا۔ چنانچہ مرزاصاحب کی ایک تحریر سے جو آپ کی کتاب (انجام آتھم ص۶۹، خزائن ج۱۱ ص ایضاً) پر درج ہے پایا جاتا ہے کہ حضرت خواجہ صاحبؒ بھی بعد میں مرزاصاحب کے مکفر اور مکذب ہو گئے تھے مرزاصاحب اس تحریر میں لکھتے ہیں کہ: ’’اب ہم ان مولوی صاحبان کے نام ذیل میں لکھتے ہیں کہ جن میں سے بعض تو اس عاجز کو کافر بھی کہتے ہیں اور مفتری بھی اور بعض کافر کہنے سے تو سکوت اختیار کرتے ہیں۔ مگر مفتری اور کذاب اور دجال نام رکھتے ہیں۔ بہرحال یہ تمام مکفرین اور مکذبین مباہلہ کے لئے بلائے گئے ہیں اور ان کے ساتھ وہ سجادہ نشین بھی ہیں جو مکفر اور مکذب ہیں۔‘‘
اور اس کے ساتھ مرزاصاحب نے ہر دو گروہوں کی فہرستیں دی ہیں۔ اس فہرست میں میاں غلام فرید صاحب چشتی چاچڑاں علاقہ بہاول پور کا نام بھی درج ہے۔
فریقین کی ان بحث ہائے کو مدنظر رکھتے ہوئے حسب ذیل نتائج اخذ ہوتے ہیں۔ مسلمانوں کے ایک مقدس اور نیک لوگوں کے گروہ کا نام صوفیائے ہے۔ ان صوفیائے کرام کو ذکر الٰہی، عبادت اور ریاضت سے جو ذوق اور حظ حاصل ہوتا ہے اس میں ان پر تجلیات الٰہی وارد ہوتی ہیں، اور ان کے قلب کی کچھ اس قسم کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے کہ جس سے وہ کچھ غیب کی خبروں پر مطلع ہو جاتے ہیں۔ اس کو وہ الہام یا کشف کہتے ہیں اور بعض صوفیائے کرام نے اسے مجازی طور پر وحی سے بھی تعبیر کیا ہے۔ یہ لوگ اپنے نبی کی تعلیم کے تحت عمل پیرا ہوتے ہیں۔ نبی مامور من اﷲ ہوتا ہے اور اسے اﷲتعالیٰ کی جانب سے براہ راست غیب کی خبروں کی اطلاع دی جاتی رہتی ہے اور اسے حکم ہوتا ہے کہ وہ اﷲتعالیٰ کے احکام لوگوں تک پہنچائے۔ انہیں قیامت کے دن سے ڈرائے اور آئندہ زندگی کے حالات سے مطلع کرے اور جس ذریعہ سے انہیں یہ اطلاع ہوتی ہے۔ اسے وحی کہا جاتا ہے اور وحی کی یہ اصطلاح انبیاء کے لئے ہی مختص ہے۔ دوسری جگہ اگر یہ لفظ استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے مجازی یا لغوی معنی لئے جاتے ہیں۔ 2241انبیاء کو یہ وحی تین طریق پر ہوتی ہے۔ یا تو اﷲتعالیٰ کوئی بات کسی نبی کے دل میں ڈال دیتا ہے یا فرشتوں میں سے کوئی قاصد بھیج کر اس کے ذریعہ سے مطلع فرماتا ہے۔ یا پس پردہ خود کلام فرماتا ہے۔ یہ وحی چونکہ دخل شیطانی سے منزہ ہوتی ہے۔ اس لئے اسے قطعی سمجھا جاتا ہے اور اس کا نہ ماننا کفر ہے۔ اولیاء کا الہام یا کشف گو دخل شیطانی سے پاک بھی ہو،تا ہم نہ وہ قطعی ہوتا ہے اور نہ ہی دوسروں پر کوئی حجت ہوتا ہے۔ بلکہ الہام اور کشف کے ذریعہ قرآن مجید کے معارف اور اسرار سمجھائے جاتے ہیں اور اس سلسلے میں بعض اکابر صوفیائے کرام پر آیات قرآنی کا نزول بھی ہوتا ہے۔ ان آیات کو وہ اپنے اوپر چسپاں نہیں کرتے۔ بلکہ جیسے کسی سیاح کو دوران سیاحت میں اعلیٰ مقامات دکھلائے جاویں۔ اس طرح ان کو اعلیٰ مراتب روحانی کی سیر کرائی جاتی ہے۔
معلوم ہوتا ہے کہ مرزاصاحب جب اس میدان میں گامزن ہوئے اور ان پر مکاشفات کا سلسلہ جاری ہونے لگا تو وہ اپنے آپ کو نہ سنبھال سکے اور صوفیائے کرام کی کتابوں میں وحی اور نبوت کے الفاظ موجود پاکر انہوں نے سابقہ اولیاء اﷲ سے اپنا مرتبہ بلند دکھلانے کی خاطر اپنے لئے نبوت کی ایک اصطلاح تجویز فرمائی۔ جب لوگ یہ لفظ سن کر چونکنے لگے تو انہوں نے یہ کہہ کر انہیں خاموش کرنا چاہا کہ تم گھبراتے کیوں ہو۔ آنحضرت ﷺ کے اتباع سے جس مکالمہ اور مخاطبہ کے تم لوگ قائل ہو۔ میں اس کی کثرت کا نام بموجب حکم الٰہی نبوت رکھتا ہوں۔ یہ صرف لفظی نزاع ہے۔ سو ہر شخص کو حق حاصل ہے کہ وہ کوئی اصطلاح مقرر کرے۔ گویا انہوں نے نبی کے لفظ کو برعکس اس کی اصل اور عام فہم مراد کے یہاں اصطلاحی طور پر کثرت مکالمہ اور مخاطبہ پر حاوی کیا اور یہ اصطلاح بھی اﷲتعالیٰ کے حکم سے قائم کی۔ اس کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ جب وہ اس لفظ کا استعمال کثرت سے اپنے متعلق کرنے لگے تو لوگ پھر چونکے۔ اس پر انہوں نے پھر یہ کہہ کر انہیں خاموش کیا کہ میں کوئی اصلی نبی تو نہیں بلکہ اس معنی میں کہ میں نے تمام کمال آنحضرت ﷺ کے اتباع اور فیض سے حاصل کیا ہے۔ ظلی اور بروزی نبی ہوں اور اس کے بعد انہوں نے ان آیات قرآنی کو جو شاید کسی اچھے وقت میں ان پر نازل ہوئی تھیں۔ اپنے اوپر چسپاں کرنا شروع کر دیا اور شدہ شدہ تشریعی نبوت کے دعویٰ کا اظہار کر دیا۔ لیکن صریح آیات قرآنی 2242اور احادیث اور اقوال بزرگان سے جب انہیں اس میں کامیابی نظر نہ آئی تو انہوں نے اس دعویٰ کو ترک کر کے اپنا مفر نزول عیسیٰ علیہ السلام کی احادیث میں جا تلاش کیا اور عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کو بذریعہ وحی ثابت کر کے یہ دکھلایا کہ ان احادیث کا اصل مفہوم یہ ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی امت میں کسی شخص کو نبو ت کا درجہ عطاء کیا جائے گا، نہ یہ کہ حضرت مسیح ناصری واپس آئیں گے۔ مدعا علیہ کے ایک گواہ کے بیان سے یہ اخذ ہوتا ہے اور نامعلوم اس نے بطور خود یا مرزاصاحب کی کسی تحریر کی رو سے یہ بیان دیا ہے کہ احادیث میں جو عیسیٰ ابن مریم کے نزول کی خبر آئی ہے اس میں رسول اﷲ ﷺ سے ایک اجتہادی غلطی ہوگئی ہے۔ چنانچہ وہ کہتا ہے کہ بعض پیش گوئیاں ایسی ہوتی ہیں جو آئندہ زمانہ سے تعلق رکھتی ہیں۔ لیکن حقیقت ان کے ظہور کے وقت نمایاں ہوتی ہے اور اجتہادی غلطی پیش گوئیوں کے سمجھنے میں یعنی کیفیت تحقیق وقوع کے لحاظ سے ہر نبی سے ممکن ہے۔ حتیٰ کہ رسول اﷲ ﷺ سے بھی اس کی مثال اس نے بخاری کی ایک حدیث کا حوالہ دے کر یہ دی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ایک رؤیا کی بناء پر یہ سمجھا کہ وہ حجر یمامہ کی طرف ہجرت فرمائیں گے۔ لیکن آپ جس وقت مدینہ کی طرف ہجرت کر کے تشریف لے گئے تو اس وقت آپ پر اس پیش گوئی کی حقیقت کھلی کہ اس سے مراد مدینہ تھا اور کہ جب نبی سے اجتہادی غلطی ممکن ہوئی تو پیش گوئی کے پورا ہونے کے وقت اصل حقیقت پیش گوئی کی منکشف ہو جائے گی اور کہ امتی کو پیش گوئی کے تحقق وقوع کے وقت وقوع کا علم ہو جاتا ہے۔ غرض مرزاصاحب نے سابقہ مراحل سے گزرنے کے بعد بڑھ چڑھ کر اپنے مسیح موعود ہونے کے دعویٰ کا اظہار شروع کر دیا اور نبوت کو پھر ایک ایسا گورکھ دھندہ بنا دیا کہ جو نہ تو لوگوں کی سمجھ میں آسکا ہے اور نہ ہی ان کے اپنے متبعین جیسا کہ اوپر دکھلایا جاچکا ہے۔ ان کے مرتبہ کو بخوبی سمجھ سکے ہیں۔ بلکہ خود خدا کو بھی نعوذ باﷲ ان کے نبی بنانے میں بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ کیونکہ جب خداوند تعالیٰ نے یہ محسوس فرمایا کہ نعوذ باﷲ اس کے حبیب سے ایک اجتہادی غلطی ہوگئی ہے۔ اب ان کی آن رکھنے کے لئے اورمرزاصاحب کو نبوت کا مرتبہ عطاء فرمانے کے لئے اﷲتعالیٰ نے بقول مرزاصاحب پہلے تو ان تمام پیش گوئیوں کو جوقرآن میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق 2243تھیں۔ مرزاصاحب کی طرف پھیر دیا اور پھر انہیں کبھی مریم بنایا اور کبھی عیسیٰ اور اس کے بعد بارش کی طرح وحی کر کے یہ جتلایا کہ عیسیٰ ابن مریم فوت ہوچکے ہیں۔ اب تم بلاخوف وخطر نبی ہونے کا دعویٰ کر دو اور جہاں پہلے وہ ’’فاستمع لمایوحی‘‘ اور ’’یا ایہا المدثر قم فانذر‘‘ کی تحکمانہ وحی کے ذریعہ سے نبیوں کو چوکنا کر کے اپنی طرف سے مامور فرمایا کرتا تھا۔ وہاں مرزاصاحب کے لئے اسے نعوذ باﷲ مختلف حیل اختیار کرنے پڑے۔ مرزاصاحب کے اس طرز عمل سے نبی بننے سے یہ بات خود واضح ہو جاتی ہے کہ اﷲتعالیٰ کے ہاں نبوت کے عہدے ختم ہوچکے تھے۔ کیونکہ اس نے پہلے تو مرزاصاحب کے لئے نبوت کی اصطلاح تجویز فرمائی۔ پھر وہ جب اس سے خوش نہ ہوئے تو ان کو نبی کا خطاب عطاء فرمادیا۔ جیسا کہ نواب اور راجہ کے خطابات گورنمنٹ سے ان لوگوں کو بھی عطاء فرمائے جاتے ہیں۔ جو صاحب ریاست نہ ہوں۔ لیکن جب مرزاصاحب کی اس سے بھی تسلی نہ ہوئی باوجودیکہ اﷲتعالیٰ انہیں ’’یا ولدی‘‘ بھی فرماچکا تھا اور اس خیال سے کہ رسول اﷲ ﷺ کو چونکہ اﷲتعالیٰ قرآن مجید میں خاتم النّبیین کہہ چکا تھا۔ وہ بھی کسی دوسرے نبی کے بننے سے خفا نہ ہوں۔ مرزا صاحب کو آپؐ کا ظل بنادیا گیا اور آخر کار جب ان کی خوشی نبی بننے میں ہی دیکھی اور یہ بھی خیال آیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آخر زمانہ میں بھجوانے کا وعدہ ہوچکا ہے تو انہیں مار کر مرزاصاحب کو نبی بنادیا گیا۔ استغفراﷲ!
گواہ مدعا علیہ نے یہ بیان کیا ہے کہ نبی سے بھی اجتہادی غلطی ہوسکتی ہے تو پھر اس کا کیا اعتبار ہے کہ مرزاصاحب سے یہ غلطی نہ ہوئی ہوگی۔ خصوصاً جب کہ مرزاصاحب رسول اﷲ ﷺ کے ظل بھی ہیں۔ غیراغلب ہے کہ اصل کی فطرت ظل کی فطرت پر اثر انداز نہ ہوئی ہو اور علاوہ ازیں مرزاصاحب اپنے اقرار کے مطابق آنحضرت ﷺ سے زیادہ ذکی بھی نہیں پائے جاتے۔ کیونکہ خداوند تعالیٰ کی کئی سال سے متواتر وحی کے بعد انہوں نے یہ جا کر سمجھا کہ وہ نبی ہوچکے۔ اس لئے ممکن ہے کہ انہوں نے وحی الٰہی کا مفہوم غلط سمجھ کر دعویٰ نبوت کر دیا ہو۔ مرزاصاحب کی اپنی تصریحات سے یہ پایا جاتا ہے کہ انہیں امتی ہونے کے وقت نزول مسیح کے متعلق وقوع کا علم نہیں ہوا۔ بلکہ جب ان کو نبوت کا خطاب مل چکا۔ اس کے بعد انہیں یہ جتلایا گیا کہ مسیح ناصری 2244فوت چکے ہیں۔ اس لئے مدعا علیہ کے گواہ کا یہ کہنا کہ امتی کو وقوع کے وقت تحقیق وقوع کا علم ہو جاتا ہے۔ مرزا صاحب کی اپنی تصریحات سے باطل ہوجاتا ہے۔ گواہ مذکور نے رسول اﷲ ﷺ کی جس حدیث کا حوالہ دے کر یہ کہا ہے کہ آپ سے اجتہادی غلطی کا وقوع ممکن ہے۔ اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپ نے ہجرت کے وقت کوئی غلطی فرمائی۔ گواہ مذکور کی یہ حجت اس وقت صحیح ہوتی کہ جب آپ بجاے مدینہ کے حجر یمامہ کی طرف تشریف لے جاتے اور پھر وہاں سے مدینہ عالیہ کی طرف لوٹتے۔ وہاں جانے کے متعلق آپ کا صرف ایک خیال تھا جو وقوع میں نہ آیا اور اس رؤیا پر عمل اس طرح ہوا جس طرح مشیت ایزدی میں مقدر تھا۔ خود اس مثال سے یہ اخذ ہوتا ہے کہ اگر نبی کو کسی طرح غلط فہمی ہو بھی جائے تو اﷲتعالیٰ کی طرف سے اسے فوراً رفع کر دیا جاتا ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ صدیوں تک وہ غلطی چلی جائے اور نہ خود نبی پر اور نہ اس کے کامل متبعین پر اس کا افشاء ہو۔ اس لئے یہ کہنا بڑی دیدہ دلیری ہے کہ رسول اﷲ سے نزول عیسیٰ علیہ السلام کی پیش گوئی بیان کرنے میں اجتہادی غلطی ہوئی ہے۔
معلوم ہوتا ہے کہ مرزاصاحب نے پھر اخیر عمر میں جاکر اپنے دعویٰ کی غلطی کو محسوس کیا اور پھر اصطلاحی نبوت کو ہی جاکر قائم کیا۔ جس سے انہوں نے اپنے دعویٰ کی ابتداء شروع کی تھی۔ جیسا کہ ان کے اس خط سے جو انہوں نے وفات سے دو تین یوم قبل اخبار عام کے ایڈیٹر کے نام لکھا تھا۔ ظاہر ہوتا ہے اس میں درج ہے کہ سو میں صرف اس وجہ سے نبی کہلاتا ہوں کہ عربی اور عبرانی زبان میں نبی کے یہ معنی ہیں کہ خدا سے الہام پاکر بکثرت پیش گوئی کرنے والا ان تمام واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے سید انور شاہ صاحبؒ گواہ مدعیہ نے بجا طور یہ کہا ہے کہ مرزاصاحب کی کتابیں دیکھنے سے یہ بات پوری طرح روشن ہو جاتی ہے کہ ان کی ساری تصانیف میں صرف چند ہی مسائل کا تکرار اور دور ہے ایک ہی مسئلہ اور ایک ہی مضمون کو بیسیوں کتابوں میں مختلف عنوانوں سے ذکر کیا ہے اور پھر سب اقوال میں اس قدر تہافت اور تعارض پایا جاتا ہے اور خود مرزاصاحب کی ایسی پریشان خیالی ہے اور بالقصد ایسی روش اختیار کی ہے کہ جس سے نتیجہ گڑبڑ ہے اور 2245ان کو بوقت ضرورت مخلصی اور مفرباقی رہے۔ چنانچہ کہیں وہ تو ختم نبوت کے عقیدہ کو اپنے مشہور اور اجماعی معنی کے ساتھ قطعی اور اجماعی عقیدہ کہتے ہیں اور کہیں ایسے عقیدہ بتلانے والے مذہب کو لعنتی اور شیطانی مذہب قرار دیتے ہیں۔ کہیں عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کو تمام امت محمدیہ کے عقیدہ کے موافق متواترات دین میں داخل کرتے ہیں اور اس پر اجماع ہونا نقل کرتے ہیں اور کہیں اس عقیدہ کو مشرکانہ عقیدہ بتلاتے ہیں۔
ختم نبوت کا عقیدہ جیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے۔ اسلام کے اہم اور بنیادی مسائل میں سے ہے اور خاتم النّبیین کے جو معنی مدعا علیہ کی طرف سے بیان کئے گئے ہیں۔ آیات قرآنی اور احادیث صحیحہ سے اس کی تائید نہیں ہوتی۔ بلکہ اس کے صحیح معنی وہی ہیں جو گواہان مدعیہ نے بیان کئے ہیں مدعا علیہ کی طرف سے اس ضمن میں یہ کہاگیا ہے کہ یہ حدیث ہے کہ قرآن شریف کی ہر آیت کے ایک ظاہری معنی ہیں اور ایک باطنی اور کہ تاویل کرنے والے کو کافر نہیں سمجھا گیا۔ اس کا جواب سید انور شاہ صاحب گواہ مدعیہ نے یہ دیا ہے کہ یہ حدیث قوی نہیں اور باوجود قوی نہ ہونے کے اس کی مراد میرے نزدیک صحیح ہے۔ اس حدیث میں لفظ بطن سے تو جو کچھ رسول اﷲ ﷺ کے دل میں تھا وہ سب منکشف نہیں ہے۔ مجملاً ہم سمجھتے ہیں کہ قرآن کی مراد وہ ہے کہ قواعد لغت اور عربیت سے اور ادلہ شریعت سے علماء شریعت سمجھ لیں اور اس کے تحت میں قسمیں ہیں اور بطن سے یہ مراد ہے کہ حق تعالیٰ اپنے ممتاز بندوں کو ان حقائق سے سرفراز کر دے اور بہتوں سے وہ خفی رہ جائیں۔ لیکن ایسا کوئی بطن جو مخالف ظاہر ہو اور قواعد شریعت رد کرتے ہوں۔ مقبول نہ ہوگا اور رد کیا جائے گا اور بعض اوقات باطنیت اور الحاد کی حد تک پہنچا دے گا۔ حاصل یہ ہے کہ ہم مکلف فرمانبردار بندے اپنے مقدور کے موافق ظاہر کی خدمت کریں اور بطن کو سپرد کر دیں خدا کے۔ تاویل کے متعلق ان کا یہ جواب ہے کہ اخبار احاد کی تاویل اگر کوئی شخص قواعد کے مطابق کرے تو اس کے قائل کو بدعتی نہیں کہیں گے۔ اگر قواعد کی رو سے صحیح نہیں تو وہ خاطی ہے۔ آیات قرآنی متواتر ہیں اور قرآن وحدیث جو نبی کریم سے ہم تک پہنچا اس کی دو جانبیں ہیں۔ 2246ایک ثبوت کی، دوسری دلالت کی۔ ثبوت قرآن کا متواتر ہے۔ اس تواتر کا اگر کوئی انکار کرے تو پھر قرآن کے ثبوت کی اس کے پاس کوئی صورت نہیں اور ایسا ہی جو شخص تواتر کی صحت کا انکار کرے اس نے دین ڈھادیا۔ دوسری جانب دلالت ہے جس کا معنی یہ ہے کہ مطلب پر رہنمائی کرنا۔ دلالت قرآن کی کبھی قطعی ہوتی ہے اور کبھی ظنی۔ اگر اجماع ہو جائے صحابہ کا اس کی دلالت پر یا کوئی اور دلیل عقلی یا نقلی قائم ہو جائے کہ مدلول یہی ہے تو پھر وہ دلالت بھی قطعی ہے۔ حاصل یہ ہے کہ قرآن سارا بسم اﷲ سے لے کر والناس تک قطعی الثبوت ہے۔ دلالت میں کہیں ظنیت ہے اور کہیں قطعیت، لیکن قرآن کے معنی سے دلالت بھی قطعی ہو جاتی ہے۔ علاوہ ازیں تاویل اوامر ونواہی میں ہوسکتی ہے۔ اخبار میں نہیں ہوسکتی۔ جیسا کہ مدعیہ کے گواہ مولوی نجم الدین صاحب نے بیان کیا ہے۔ اس بحث سے یہ اخذ ہوتا ہے کہ آیت خاتم النّبیین قطعی الدلالت ہے اور اس کے بطن کے معنی ایسے نہیں ہوسکتے کہ جو رسول اﷲ ﷺ کے خاتم النّبیین معنی آخری نبی سمجھنے کے منافی ہوں اور چونکہ یہ اجماعی عقیدہ ہے۔ اس لئے مذکورہ بالا معنی سے انکار کفر ہے۔ مدعا علیہ کی طرف سے جو یہ کہاگیا ہے کہ تاویل کرنے والے کو کافر نہیں سمجھا گیا اور جن مسائل کی بناء پر اس نے ایسا کہا ہے۔ وہ اس قبیل کے نہیں۔ جیسا کہ مسئلہ ختم نبوت، لہٰذا یہ قرار دیاجاتا ہے کہ خاتم النّبیین کے جو معنی مدعیہ کی طرف سے کئے گئے ہیں اور اس معنی کے تحت جو عقیدہ ظاہر کیاگیا ہے اس عقیدہ سے انحراف وارتداد کی حد تک پہنچتا ہے اور کہ آنحضرت ﷺ کے بعد عہدہ نبوت اور وحی نبوت منقطع ہوچکے ہیں۔ مرزاصاحب صحیح اسلامی عقائد کی رو سے نبی نہیں ہوسکتے اور ان کے نبی نہ ہونے کی تائید میں ایک یہ امر بھی ہے کہ ان کے متبعین میں سے ایک گروہ جو لاہوری کہلاتے ہیں انہیں نبی تسلیم نہیں کرتے۔
لہٰذا ان کے مخالف جملہ فرقوں کے نزدیک اور ان کے ایک موافق فرقہ کی رائے میں رسول اﷲ ﷺ کا خاتم النّبیین بمعنی آخری نبی ہونا ثابت ہے۔ اس لئے مرزاصاحب کی نبوت کا دعویٰ کسی حالت میں بھی درست نہیں۔ ظلی اور بروزی نبی اگر آنحضرت ﷺ کے کمال اتباع سے ہونے ممکن ہوتے تو اس قسم کے نبی مرزاصاحب کے آنے 2247سے قبل کئی آچکے ہوتے۔ علاوہ ازیں مرزاصاحب کو درجہ کمال بھی اس وقت حاصل ہوسکتا تھا کہ اس قسم کے اور کئی نبی پیدا ہوچکے ہوتے۔ کیونکہ ہر جنس کا کمال اس بات کو مستلزم ہے کہ اس کے اور ناقص افراد موجود ہیں۔ چنانچہ رسول اﷲ ﷺ بھی اسی لئے افضل الانبیاء ہیں کہ سلسلہ رسالت اور نبوت میں دیگر انبیاء منسلک ہیں۔ مرزاصاحب نے اپنے آپ کو خاتم الاولیاء ظاہر کر کے یہ بیان کیا ہے کہ وہ ولایت ختم کر چکے۔ لیکن اس سے وہ ولی ہی شمار ہوں گے۔ نبی نہیں سمجھے جائیں گے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے افاضۂ روحانی سے اگر نبوت مل سکتی ہے تو ضرور ہے کہ ان سے قبل ایسے نبی آتے کہ جن کے بعد انہیں درجہ کمال حاصل ہوتا۔ مدعیہ کی طرف سے یہ درست کہا گیا ہے کہ ظلی اور بروزی کی اصطلاحیں دراصل الفاظ ہی الفاظ ہیں۔ ورنہ دراصل مرزاصاحب کی مراد اس سے اصل نبوت سے ہے۔ جیسا کہ اس کی تشریح بعد میں ان کے خلیفہ ثانی نے کی۔ کچھ شک نہیں کہ یہ الفاظ مغالطہ پیدا کرنے کے لئے استعمال کئے گئے ہیں۔ ورنہ ان کی کوئی حقیقت نہیں اور نہ ہی شرع میں اس قسم کے الفاظ پر کسی عقیدہ کا حصر ہے۔ مرزاصاحب نے یہ بیان کر کے کہ اس قسم کی نبوت قیامت تک جاری ہے۔ اسلام میں ایک فتنہ کی بناء ڈالی ہے اور ناممکن نہیں کہ ان کے بعد کوئی اور شخص دعویٰ نبوت کرے۔ ان کی کارگزاری کو بھی ملیا میٹ کر دے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(دین یا تماشہ؟)
اس طرح مذہب سے امان اٹھ جائے گی اور سوائے اس کے کہ وہ ایک کھیل اور تمسخر بن جائے۔ اس کی کوئی حقیقت بحیثیت دین کے قائم نہ رہے گی۔ اس لئے بھی رسول اﷲ ﷺ کا آخری نبی ماننا علاوہ عقائد صحیح میں سے ہونے کے از بس ضروری ہے۔ مرزاصاحب رسول اﷲ ﷺ کو آخری نبی نہیں مانتے۔ اس لئے ان کا اسلام کے اس بنیادی مسئلہ سے انکار کفر کی حد تک پہنچتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے دیگر عقائد بھی ان عقائد کے مطابق نہیں پائے جاتے۔ جس کی آج تک امت مرحومہ پابند چلی آئی ہے۔ خدا کا تصور اس نے تیندوے سے تشبیہ دے کر ایسا پیش کیا ہے کہ جو سراسر 2248نص قرآنی کے خلاف ہے اور اس طرح یہ بیان کر کے کہ خدا خطا بھی کرتا ہے اور صواب بھی اور روزے رکھتا ہے اور نماز پڑھتا ہے۔ انہوں نے ایک ایسے عقیدہ کا اظہار کیا ہے کہ جو سراسر نصوص قرآنی کے خلاف ہے۔ انہوں نے آیات قرآنی کو اپنے اوپر چسپاں کیا ہے۔ جیسا کہ ایک آیت ’’ہو الذی ارسل رسولہ… الخ!‘‘ کے متعلق انہوں نے یہ کہا کہ اس میں میرا ذکر ہے اور دوسرے الہام باالفاظ محمد رسول اﷲ بیان کر کے یہ کہا کہ اس میں میرا نام محمد رکھا گیا ہے اور رسول بھی۔ اس طرح اور کئی ایسی تصریحیں ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ آیات قرآنی کو اپنے اوپر چسپاں کرتے تھے۔ اس سے بھی رسول اﷲ ﷺ کی توہین کانتیجہ درست اخذ کیاگیا۔ اس طرح ان کے بعض اقوال سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بھی توہین ظاہر ہوتی ہے اور حضرت مریم کی شان میں مرزاصاحب نے جو کچھ کہا ہے اور جس کا حوالہ شیخ الجامعہ صاحب گواہ مدعیہ کے بیان میں ہے اور جس کا مدعا علیہ کی طرف سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ اس سے قرآن شریف کی صریح آیات کی تکذیب ہوتی ہے۔ یہ تمام امور ایسے ہیں کہ جن سے سوائے مرزا صاحب کو کافر قرار دینے کے اور کوئی نتیجہ اخذ نہیں ہوتا۔ مدعا علیہ کی طرف سے مرزاصاحب کی بعض کتب کے حوالے دئیے جاکر یہ کہا گیا ہے کہ مرزاصاحب نے کسی نبی کی توہین نہیں کی۔ اس کا جواب سید انور شاہ صاحب گواہ مدعیہ نے خوب دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب ایک جگہ کلمات توہین ثابت ہوگئے تو اگر ہزار جگہ کلمات مدحیہ لکھے ہوں اور ثناء خوانی بھی کی ہو تو وہ کفر سے نجات نہیں دلا سکتے۔ جیسا کہ تمام دنیا اور دین کے قواعد مسلمہ اس پر شاہد ہیں کہ اگر ایک شخص تمام عمر کسی کا اتباع اور اطاعت گزاری کرے اور مدح وثناء کرتا رہے لیکن کبھی کبھی اس کی سخت ترین توہین بھی کر دے تو کوئی انسان اس کو مطیع اور معتقد واقعی نہیں کہہ سکتا۔
مدعا علیہ کی طرف سے دیگر صوفیاے کرام کے بعض ایسے اقوال جو مرزاصاحب کے بعض اقوال کے مشابہ ہیں۔ بیان کئے جاکر یہ کہاگیا ہے کہ ان اقوال کی بناء پر پھر ان بزرگان کو کیونکر مسلمان سمجھا جاتا ہے۔ اس کا جواب باالفاظ سید انور شاہ صاحب گواہ مدعیہ درج کیاجاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے اولیاء اﷲ کو ان کی طہارت تقویٰ اور تقدس کی خبریں سن کر اور ان کے شواہد وافعال واعمال اور اخلاق سے تائید پاکر ولی مقبول تسلیم کر لیا ہے اور قرائن اور نشانیوں سے جو 2249خارج مبحوث عنہ سے ہوں۔ یعنی انہی شطحیات سے ان کی ولایت ثابت نہ کرتی ہو۔ بلکہ ولایت ان کی خارج سے پایہ ثبوت کو پہنچتی ہو۔ جو طریقہ ثبوت کا ہے اس کے بعد کہ ہم نے کسی کی ولایت تسلیم کی اور ہم اس تسلیم میں صواب پر تھے تو اس کے بعد اگر کوئی کلمہ مغائر یا موہم ہمارے سامنے پڑتا ہے تو ہم اس کی کوشش کرتے ہیں کہ اس کی توجیہ کریں اور محل نکالیں اور یہ کہ اس کا ٹھکانہ کیا ہے۔ شطحیات کو ہی پہلے پیش کرنا اور اس پر ولایت کا جمگھٹ جمانا نافہم اور جاہل کاکام ہے۔ کسی شخص کی راست بازی اگر جداگانہ تجارب سے اور جو طریقہ راست بازی ثابت کرنے کا ہے۔ ثابت ہوئی ہو تو پھر اگر کوئی کلمہ موہم اور مغالطہ میں ڈالنے والا اس کا سامنے آگیا۔ تو منصف طبیعتوں کے ذہن اس کی توضیح کریں گے اور عمل نکالیں گے۔ یہ عاقل کا کام نہیں ہے کہ راست بازی کسی کی ثابت ہونے سے پیشتر وہی کلمات مغالطہ پیش کر کے مسلم الثبوت مقولوں پر قیاس کرے اور کہے کہ فلاں نے ایسا کیا۔ فلاں نے ایسا کیا۔ اس کا جواب مختصر یہ ہو گا کہ فلاں کی راست بازی جداگانہ اگر ہمیں کسی طریقہ اور دلیل سے معلوم ہے تو ہم محتاج توجیہ ہوں گے اور اگر زیر بحث یہی کلمات ہیں اور اس سے پیشتر کچھ سامان خیر کا ہے ہی نہیں۔ تو ہم یہ کھوٹی پونجی اس کے منہ پر ماریں گے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(اہل قبلہ)
مدعا علیہ کی طرف سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ علماء نے یہ کہا ہے کہ اہل قبلہ کی تکفیر جائز نہیں اور کہ جو ’’جو لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ‘‘ کہے اس کو بھی کافر کہنا درست نہیں۔ وغیرہ وغیرہ! ان شبہات کا جواب بھی شاہ صاحب گواہ مدعیہ نے خود دیاہے جو انہی کے الفاظ میں درج کیا جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ بات کہ اہل قبلہ کی تکفیر جائز نہیں ہے۔ بے علمی اور ناواقفیت پر مبنی ہے۔ کیونکہ حسب تصریح واتفاق علماء اہل قبلہ کے یہ معنی نہیں کہ جو قبلہ کی طرف منہ کرے وہ مسلمان ہے۔ چاہے سارے عقائد اسلام کا انکار ہی کرے۔ قرآن مجید میں منافقین کو عام کفار سے زیادہ تر کافر ٹھہرایا گیا ہے۔ حالانکہ وہ فقط قبلہ ہی کی طرف منہ ہی نہیں کرتے تھے۔ بلکہ تمام ظاہری احکام اسلام ادا کرتے تھے۔ اہل قبلہ سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے کہ اتفاق کیا 2250ضروریات دین پر اور یہ جو مسئلہ ہے کہ اہل قبلہ کی تکفیر نہیں اس کی مراد یہ ہے کہ کافر نہیں ہوگا۔ جب تک کہ نشانی کفر کی اور علامتیں کفر کی اور کوئی چیز موجبات کفر میں سے نہ پائی گئی ہو۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(ارکان اسلام)
دوسرا شبہ یہ کہ یہ کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ تمام ارکان اسلام کے پابند اور تبلیغ اسلام میں کوشش کرنے والے ہیں۔ پھر ان کو کیسے کافر کہا جائے؟
اس کے جواب میں انہوں نے ایک حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے یہ فرمایا ہے کہ اس حدیث میں یہ تصریح ہے کہ یہ قوم جس کے متعلق آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ دین اسلام سے صاف نکل جائے گی اور اس کے قتل کرنے میں بڑا ثواب ہے۔ یہ لوگ نماز، روزے کے پابند ہوں گے۔ بلکہ ظاہری خشوع اور خضوع کی کیفیات بھی ایسی ہوں گی کہ ان کے نماز، روزے کے مقابلے میں مسلمان اپنے روزے کو بھی ہیچ سمجھیں گے۔ لیکن اس کے باوجود جب کہ بعض ضروریات دین کا انکار ان سے ثابت ہوا تو ان کی نماز، روزہ وغیرہ ان کو حکم کفر سے رہا نہ کر سکی۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(۹۹وجوہ کفر)
تیسرا شبہ یہ ہے کہ یہ کہا جاتا ہے کہ فقہائے نے ایسے شخص کو مسلمان ہی کہا ہے جس کی کلام میں ۹۹وجہ کفر کی موجود ہو اور صرف ایک وجہ اسلام کی، اس کا جواب یہ ہے کہ اس کا منشاء بھی یہی ہے کہ فقہاء کے بعض الفاظ دیکھ لئے گئے اور اس کے معنی سمجھنے کی کوشش نہ کی گئی اور ان کے وہ اقوال دیکھے جن میں صراحتاً بیان کیاگیا ہے کہ یہ حکم اپنے عموم پر نہیں ہے۔ بلکہ اس وقت ہے جب کہ قائل کا صرف ایک کلام مفتی کے سامنے آوے اور قائل کا کوئی دوسرا حال معلوم نہ ہو اور نہ اس کے کلام میں کوئی ایسی تصریح ہو۔ جس سے معنی کفر متعین ہو جائے تو ایسی حالت میں مفتی کا فرض ہے کہ معاملہ تکفیر میں احتیاط برتے اور اگر کوئی خفیف سے خفیف احتمال ایسا نکل سکے جس کی بناء پر یہ کلام کلمہ کفر سے بچ جائے تو اس احتمال کو اختیار کر لے اور اس شخص کو کافر نہ کہے۔ لیکن اگر ایک شخص کا یہی کلمہ کفر اس کی سینکڑوں تحریرات میں بعنوانات والفاظ مختلفہ موجود ہو جس کو دیکھ کر یہ یقین ہو جائے کہ یہی معنی، معنی کفری مراد لیتا ہے یا خود اپنے کلام میں معنی کفری کی تصریح کر دے تو باجماع فقہاء اس کو ہرگز مسلمان نہیں 2251کہہ سکتے بلکہ قطعی طور پر ایسے شخص پر کفر کا حکم لگایا جائے گا۔
چوتھا شبہ یہ ہے کہ اگر کوئی کلمہ کفر کسی تاویل کے ساتھ کہا جاوے تو کفر کا حکم نہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس میں بھی وہی تصریحات فقہا سے ناواقفیت کا رکن ہے۔ حضرات فقہائے اور متکلمین کی تصریحات موجود ہیں کہ تاویل اس کلام اور اس چیز میں مانع تکفیر ہوتی ہے جو ضروریات دین میں سے نہ ہو۔ لیکن ضروریات دین میں اگر کوئی تاویل کرے اور اجماعی عقیدہ کے خلاف کوئی نیا معنی تراشے تو بلاشبہ اس کو کافر کہا جائے گا۔ اسے قرآن مجید نے الحاد اور حدیث نے اس کا نام زندیقی رکھا ہے۔ زندیق اسے کہتے ہیں جو مذہبی لٹریچر بدلے یعنی الفاظ کی حقیقت بدل دے۔ مرزاصاحب نے جیسا کہ اوپر دکھلایا جاچکا ہے بہت سے اسلامی عقائد کے حقائق بدل دئیے ہیں۔ گو ان کے الفاظ وہی رہنے دئیے ہیں۔ اس لئے ان کو حسب تصریحات مذکورہ بالا کافر ہی قرار دینا پڑے گا اور ان عقائد کے تحت ان کا اتباع کرنے والا بھی اس طرح ہی کافر سمجھا جائے گا۔
مدعا علیہ کی طرف سے گواہان مدعیہ پر ایک یہ اعتراض بھی وارد کیاگیا ہے کہ وہ دیوبندی عقائد سے تعلق رکھنے والے ہیں اور علمائے دیوبند کے خلاف فتویٰ تکفیر شائع ہو چکا ہے۔ اس لئے ایک شخص جو خود کافر ہو وہ کس طرح دوسرے کے متعلق کفر کا فتویٰ دے سکتا ہے؟ اس کا جواب مدعیہ کی طرف سے ایک تو یہ دیا گیا ہے کہ اس کے تمام گواہان دیوبندی صاحبان نہیں ہیں۔ مثلاً شیخ الجامعہ صاحب، مولوی محمد حسین صاحب اور مولوی نجم الدین صاحب۔ دوسرا دیوبندی صاحبان کے خلاف فتویٰ تکفیر ایک غلط فہمی کی بناء پر دیاگیا تھا جو بعد میں واپس لیا جاچکا ہے۔ اگر یہ صحیح نہ بھی ہو تو بھی مدعا علیہ کی حجت اس بناء پر صحیح نہیں کہ ان کی رائے کو بطور فتویٰ قبول نہیں کیاگیا۔ بلکہ ان کے پیش کردہ دلائل پر مدعا علیہ کے پیش کردہ دلائل کے مقابلہ میں تنقید کی جاکر رائے قائم کی گئی ہے۔ اس لئے چاہے وہ کسی فرقہ سے تعلق رکھنے والے ہوں۔ ان کی ذاتی رائے پر کوئی عمل نہیں کیاگیا۔ بلکہ دیکھا گیا ہے کہ قرآن شریف اور احادیث کی رو سے کس 2252فریق کے دلائل صحیح ہیں اور کس کے غلط۔ اس لئے ان کے خلاف اگر کوئی فتویٰ تکفیر ہو بھی تو اس معاملہ پر اثرانداز نہیں ہوسکتا۔
اس کے علاوہ مدعا علیہ کی طرف سے یہ کہاگیا ہے کہ مدراس ہائیکورٹ نے اپنے فیصلہ میں یہ قرار دیا تھا کہ اس سوال کو کہ عقائد قادیانی سے ارتداد واقع ہوتا ہے یا نہ، علماء اسلام ہی بہتر فیصلہ کر سکتے ہیں۔ لہٰذا علمائے اسلام کی تحقیق کے لئے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ جن لوگوں نے اس مقدمہ میں شہادتیں دی ہیں اور اس پر فتویٰ کفر لگایا ہے وہ خود بھی مسلمان ہیں یا نہ؟ اور اس طرح فیصلہ کرنے والے کا مسلمان ثابت ہونا بھی ضروری ہے۔ اس کا جواب یہ ہے ہر دو فریق کا ادعا ہے کہ وہ مذہب اسلام سے تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن چند اہم اور بنیادی مسائل کے متعلق ہر دو فریق کا اختلاف ہے اور وہ ایک دوسرے کو کافر کہتے ہیں۔ لہٰذا اس بارہ میں عام دنیاوی اصول کے مطابق رائے اس فرقہ کی غالب سمجھی جائے گی جس میں اکثریت ہو۔ یہ اکثریت بحق مدعیہ پائی جاتی ہے۔ اس لئے فریق مدعیہ کی رائے ہی غالب رہے گی اور اسے مسلمان اور اقلیت کو کافر سمجھا جائے گا۔ لہٰذا اس قرارداد کے تحت مدعیہ کے کسی گواہ کے خارجی طور پر مسلمان ثابت کئے جانے کی ضرورت نہیں اور فیصلہ کنندہ بھی اس ذیل میں مسلمان شمار ہوگا۔ علاوہ ازیں مدعا علیہ نے اپنی بحث میں جب مدراس ہائیکورٹ کے فیصلہ کو شرعاً درست تسلیم کر کے اپنے اوپر حجت مان لیا ہے تو کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی کہ شرعاً عدالت ہذا کا فیصلہ اس پر حجت نہ ہوسکے۔
گواہان مدعیہ پر مدعا علیہ کی طرف سے کنایتہ اور بھی کئی ذاتی حملے کئے گئے ہیں۔ مثلاً انہیں علماء سوء کہا گیا اور یہ کہاگیا ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے خود ہی ایسے مولویوں کو جو ذریۃالبغایا میں مخاطب ہیں بندر اور سور کا لقب دیا ہے اور دوسری حدیث میں فرمایا ہے کہ وہ آسمان کے نیچے سب سے بدتر مخلوق ہوں گے۔ لیکن ملاحظہ مسل سے ہر عقلمند آدمی اندازہ لگاسکتا ہے کہ طرفین کے علماء میں سے ان احادیث کا صحیح مصداق کون ہیں۔
2253مرزاصاحب کے دعویٰ نبوت کے سلسلہ میں ایک اور مسئلہ پر بھی مختصر بحث کی ضرورت ہے۔ وہ یہ کہ مرزاصاحب اپنے آپ کو اس لئے بھی نبی سمجھتے ہیں کہ انہیں مسیح موعود ہونے کا بھی دعویٰ ہے اور مسیح موعود کو چونکہ احادیث میں نبی اﷲ کہاگیا ہے۔ اس لئے مرزاصاحب نبی اﷲ ہوئے۔ اس کے متعلق جیسا کہ اوپر دکھلایا گیا ہے مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ مسیح موعود حضرت عیسیٰ ابن مریم ہی ہیں اور آخر زمانہ میں وہی آسمان سے نزول فرمائیں گے اور وہ چونکہ پہلے سے نبی اﷲ ہیں۔ اس لئے پھر بھی نبی اﷲ ہوں گے۔مگر وہ عمل شریعت محمدیہ پر کریں گے۔ اپنی شریعت پر نہیں چلیں گے۔ اس کی مثال مدعیہ کی طرف سے یہ دی گئی ہے کہ جیسے کسی دوسرے علاقہ کا گورنر کسی دوسرے گورنر کے علاقہ میں چلا جائے تو وہاں اپنے عہدہ کے لحاظ سے گووہ گورنر شمار ہوگا۔ لیکن دوسرے گورنر کے علاقہ میں وہ اس گورنر کی حکومت کے تابع ہوکر رہے گا۔ اپنے علاقہ کے قوانین یا آئین پر عمل پیرا نہیں ہو سکے گا۔ اس لئے رسول اﷲ ﷺ چونکہ قیامت تک کے لوگوں کے لئے مبعوث ہوئے ہیں۔ اس لئے قیامت تک آپ ﷺ کی شریعت ہی نافذ رہے گی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس شریعت کے تحت عمل پیرا ہوں گے۔
اس مثال سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا امتی نبی ہونا تو واضح ہو جاتا ہے۔ لیکن آج کل کے تعلیم یافتہ لوگوں کو نزول مسیح کا عقیدہ بہت عجب معلوم ہوتا ہے اور ان کے ذہن اس بات کو قبول نہیں کرتے کہ کس طرح ایک شخص کئی ہزار سال کے بعد دنیامیں واپس آسکتا ہے۔ شک نہیں کہ علوم جدیدہ کی روشنی میں یہ مسئلہ بہت کچھ قابل اعتراض معلوم ہوتا ہے اور جیسا کہ مولانا محمود علی صاحب اپنی کتاب ’’دین وآئین‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’اس قسم کے اعتراضات سے عہدہ برآ ہونے کے لئے جواب دینے والے بالعموم یہ روش اختیار کرتے ہیں کہ جن قباحتوں کے چہرہ پر موجودہ مسلمات کا روغن قازمل دیا جاتاہے۔ ان کو قباحت سمجھنے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں دیکھتے اور جس جملہ کے ساتھ فلسفہ اور سائنس کا نقارہ بجتا ہوا سن پاتے ہیں اپنے ہوش وحواس کو اس کے مقابلہ پر قائم رکھنے کی جرأت نہیں کرتے اور ایک مجرم کی طرح اپنی بریت کی یہی صورت دیکھتے ہیں کہ اپنے فعل کو دلیری کے ساتھ حق بجانب ثابت کرنے کے بجائے ہاتھ جوڑ کر اس کے ارتکاب سے 2254انکار کریں اور مذہب کی حمایت میں صرف یہ کہہ کر دامن چھڑائیں کہ جس مسئلہ پر اعتراض ہے وہ اسلامی اصول میں داخل نہیں۔‘‘ مولانا موصوف آگے لکھتے ہیں ایسے اعتراضوں کے ایسے جواب آج کل فیشن میں داخل ہیں اور جواب دینے والے گویا یقین کر لیتے ہیں کہ تہذیب جدید جس امر پر قبیح ہونے کا فتویٰ صادر کرتی ہے اس میں کوئی حسن باقی نہ رہا ہوگا۔ ان کا بس چلتا ہے تو قرآن اور حدیث پر۔ ان دونوں سے جس طرح بن پڑتا ہے رہائی پانے کی سبیل نکال لیتے ہیں۔ اپنے ذاتی خیالات کو اسلام اور ایسے اسلام کو سب اعتراضوں سے پاک تصور کر لیتے ہیں۔
مسئلہ نزول مسیح بھی اس قبیل کا ہے کہ جس پر اس قسم کے اعتراض وارد کئے جاتے ہیں۔ لیکن جو شخص قرآن پر اعتقاد رکھتا ہے اسے اس پر یقین رکھنے میں کوئی تردد نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ قرآن مجید میں ایک شخص کو سو سال کے بعد زندہ کرنے کا واقعہ موجود ہے۔ اس طرح اصحاب کہف تین سو سال سے زائد عرصہ تک غار میں بحالت خواب پڑے رہے۔ اس لئے وہ امور اگر ذات باری کے لئے ناممکنات میں سے نہ تھے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دوبارہ دنیا میں بھیجنا بھی اس کے آگے کوئی مشکل نہیں۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش جس طرح غیرمعمولی طریق پر ہوئی۔ اس طرح ان کے نزول کو بھی غیرمعمولی طریق پر وقوع میں آنا تصور کیا جاسکتا ہے۔ باقی رہا اس پیش گوئی کی صداقت کا سوال سو اس کے صحیح ہونے میں کوئی شبہ نہیں کیا جاسکتا۔ اگر یہ پیش گوئی صحیح نہ ہوتی تو مرزاصاحب نے جہاں کئی دیگر متواترات کا انکار کیا تھا۔ وہاں اس کا بھی انکار فرمادیتے۔ لیکن وہ بھی اس کی صحت سے انکار نہیں کر سکے اور اس کی ممکن سے ممکن جو بھی تاویل ہوسکتی تھی وہ بیان کرنے میں انہوں نے کوئی دریغ نہیں کیا۔ لیکن اوپر کی بحث سے پایا جاتا ہے کہ قرآن واحادیث کی رو سے وہ تاویل درست ثابت نہیں ہوئی اور سوائے اس کے کہ یہی عقیدہ رکھا جائے کہ اس پیش گوئی کی رو سے حضرت عیسیٰ ابن مریم ہی دنیا میں واپس تشریف لائیں گے۔ اس کا اور کوئی حل نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ ان کے سوا آنحضرت ﷺ کے بعد اور کوئی نیا نبی نہیںہوسکتا۔ اس لئے اس 2255عقیدہ کو اگر قائم رکھا جاوے تو جو لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے وقت زندہ ہوں گے۔ انہیں خود اس پیش گوئی کی تصدیق ہو جائے گی اور جو اس سے قبل فوت ہوں گے نہ خداوندتعالیٰ ان کے ساتھ وہی معاملہ فرمائے گا کہ جو ان سے قبل اس عقیدہ پر وفات پاتے رہے۔ البتہ اس عقیدہ کو چھوڑنے والا ضرور گنہگار ہوگا۔ کیونکہ وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے فرمان کا مکذب سمجھا جائے گا۔
باقی رہا یہ سوال کہ آیا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ فرمایا بھی ہے یا نہ۔ کیونکہ شکی طبیعتیں یہ کہہ سکتی ہیں کہ احادیث کی تدوین چونکہ بہت مدت کے بعد ہوئی۔ اس لئے کیونکر پورے اطمینان سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ راویوں کو احادیث کے پورے الفاظ یاد رہے ہیں یا یہ کہ ان الفاظ سے رسول اﷲ ﷺ کی مراد وہی تھی جو کہ ان راویوں نے سمجھی۔ اس کا جواب تو علماء ہی بہتر دے سکتے ہیں۔ میرے نزدیک اس کا موٹا جواب یہ ہے کہ اگر یہ حدیث ہو صحیح اور ہم نے اس کا عقیدہ دیا چھوڑ تو قیامت کے دن ہم جوابدہ ہوں گے اور اگر یہ حدیث صحیح نہ بھی ہو تو اس پر محض ایک عقیدہ رکھنے سے جو قرآن کے کسی صورت میں بھی مخالف نہیں پایا جاتا۔ ہمارا کیا بگڑتا ہے۔ لہٰذا بہرحال ہمیں اس پر عقیدہ رکھنا لازمی ہے۔‘‘
مدعا علیہ کی طرف سے ایک یہ مغالطہ پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول مانا جاوے تو اس سے یہ سمجھا جائے گا کہ رسول اﷲ ﷺ کی امت میں سے ایسا کوئی شخص اہلیت نہ رکھتا تھا کہ اسے لوگوں کی اصلاح کے لئے مامور فرمایا جاتا اور اس سے امت کی توہین لازم آئے گی۔
اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ خداوند تعالیٰ کی طرف سے کسی شخص کا مامور ہونا اس کے کسی استحقاق کی بناء پر نہیں ہوتا۔ دوسرا احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت امت کی حالت بہت ابتر ہوگی۔ اس لئے یہ ممکن ہے کہ اس وقت تک کوئی بھی اس فرض کے سرانجام دینے کا اہل نہ پایا جاوے۔ اس لئے مخلوق کی اصلاح کے لئے سابقہ انبیائوں میں سے ہی ایک کو واپس لایا جانا ضرور 2256سمجھا گیا ہو۔ یہ باتیں مشیت ایزدی سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس لئے ان میں کوئی رائے زنی نہیں کی جاسکتی۔
ہمارے دلوں میں شکوک دراصل اس لئے پیدا ہوتے ہیں کہ ہم ہدایت قرآنی پر پوری طرح پابند نہیں ہیں۔ اگر ہم تمام احکام ربانی پر عمل کریں تو اس حالت کے نتائج ہی اعتراض کرنے والوں کو خاموش کر دیتے ہیں اور جیسا کہ مولانا محمود علی صاحب نے اپنے ایک اور مضمون میں تحریر فرمایا ہے۔ جب تک مسلمان ’’لقد کان لکم فی رسول اﷲ اسوۃ حسنہ‘‘ پر عامل رہے۔ انہیں نہ خود کوئی تکلیف پیش آئی اور نہ دوسروں پر اثر ڈالنے کے لئے کسی دشواری کا سامنا ہوا اور جب قوم کی قوم ہی ایک رنگ میں رنگین ہو تو ایسا منظر شکوک کو غبار بنا کر اڑادیتا ہے اور اعتراض کی گنجائش نہیں چھوڑتا۔ مگر افسوس جیسا کہ مولانا اپنی کتاب محولہ بالا میں تحریر فرماتے ہیں کہ سب سے بڑی ضروری بلکہ زندگی کا واحد مقصد آج کل یہ قرار پاگیا ہے کہ انسان زندگی کی ہر ساعت اور ہر ثانیہ کے اندر تمام تر توجہ اس مادی سامان کے مہیا کرنے اس کو کام میں لانے اور اس کے نتائج سے لطف اٹھانے پر مبذول رہے اور موجودہ زندگی کے بعد کوئی خیال اور اس کے لئے کسی عمل اور کسب کا کوئی ارادہ اور اس دنیا سے باہر کی ہستی کے ساتھ تعلق رکھنے کا کوئی وہم بھی دل میں نہ آنے پاوے اور اپنی تمام کوششوں کا محور اس دنیا کو اور یہاں کی چند روزہ زندگی کو سمجھنا صحیح اصول کار ہے۔ یہ حالت کیوں پیش آئی۔
اس کا جواب بھی مولانا محمود علی صاحب کی ایک تحریر سے دیا جاتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’قرآن کے پیش کرنے والے جو زبان سے کہتے ہیں وہ کر کے نہیں دکھلاتے اور وعظ ونصیحت میں فصاحت قرآنیہ پر انسانی طرز کلام کو ترجیح دے کر منطقی موشگافیوں اور شاعرانہ مبالغوں سے کام لیتے ہیں اور رہنمائی سے زیادہ اپنے فضل وکمال کی نمائش چاہتے ہیں۔ حالانکہ اہل ایمان پر نہ بحث نہ مناظرہ فرض ہے نہ منطقیانہ موشگافیوں اور فلسفیانہ معرکہ آرائیوں کی ضرورت۔ وہی روشنی ہدایت جو کلام الٰہی نے پیش کی ہے۔ اس طرز ادا سے جو اس ہادی برحق نے اختیار کی ہے ہر عالم وجاہل 2257تک پہنچا دینے کی ضرورت ہے۔ سب کا ہدایت پانا اور تمام مخلوق کا ایک راہ اختیار کرنا ممکن نہیں۔ ورنہ کلام الٰہی میں اب بھی وہی کشش ہے اور قرآن کریم کے اندر جذب قلوب کا وہی اثر غافل انسانوں کو خواب غفلت سے جگانے والا اور تشنگان ہدایت کو شراب معرفت سے سیراب کرنے والا اگر ہے تو صرف قرآن کریم اور اس کلام مبارک کا ایک ایک لفظ چشم بینا کو محو حیرت کرنے اور دل دانا کا دامن کھینچنے میں وہ تاثیر دکھاتا ہے جو آئینہ پر جمال یار اور پرکاہ پر کہربا۔
مدعا علیہ کی طرف سے اس بات پر بہت زور دیاگیا ہے کہ علماء وائمہ کی اندھی تقلید درست نہیں۔ یہ ٹھیک ہے قرآن مجید میں ہر شخص کو خود بھی تدبر کرنا چاہئے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ تمام قواعد ودیگر لوازمات کو جو معنی اخذ کرنے کے لئے ضروری ہیں پس پشت ڈال کر اپنی سمجھ پر چلنا شروع کر دیا جاوے۔ جیسا کہ خود مدعا علیہ کے اپنے گواہان کے طرز عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک تو آیت ’’وبالآخرۃ ہم یوقنون‘‘ کے یہ معنی کرتا ہے کہ یوم آخرت پر بھی ایمان رکھتے ہیں اور دوسرا آخرت کے معنی زمانہ آخر کی وحی بتلاتا ہے۔ ذرا احمدی صاحبان خود بھی سوچیں کہ انہوں نے دین کو کیا مذاق بنا رکھا ہے؟ اس بحث کے بعد اب اصل معاملہ متنازعہ کو طے کرنے کے لئے یہ بتلانا ہے کہ اسلام کے وہ کون سے بنیادی اصول ہیں کہ جن سے اختلاف کرنے سے ارتداد واقع ہو جاتا ہے یا یہ کہ کن اسلامی عقائد کی پیروی نہ کرنے سے ایک شخص مرتد سمجھا جاسکتا ہے اور کہ عقائد قادیانی سے ارتداد واقع ہوتا ہے یا نہ؟
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(خلاصہ بحث)
اوپر کی تمام بحث سے یہ ثابت کیا جاچکا ہے کہ مسئلہ ختم نبوت اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ہے اور کہ رسول اﷲ ﷺ کو خاتم النّبیین بایں معنی نہ ماننے سے کہ آپ آخری نبی ہیں ارتداد واقع ہو جاتا ہے اور کہ عقائد اسلامی کی رو سے ایک شخص کلمہ کفر کہہ کر بھی دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔
مدعا علیہ مرزاغلام احمد صاحب کو عقائد قادیانی کی رو سے نبی مانتا ہے اور ان کی تعلیم کے مطابق یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ امت محمدیہ میں قیامت تک سلسلہ نبوت جاری ہے۔ یعنی کہ وہ 2258رسول اﷲ ﷺ کو خاتم النّبیین بمعنی آخری نبی تسلیم نہیں کرتا۔ آنحضرت ﷺ کے بعد کسی دوسرے شخص کو نیا نبی تسلیم کرنے سے جو قباحتیں لازم آتی ہیں ان کی تفصیل اوپر بیان کی جاچکی ہے۔ اس لئے مدعا علیہ اس اجماعی عقیدہ امت سے منحرف ہونے کی وجہ سے مرتد سمجھا جائے گا اور اگر ارتداد کے معنی کسی مذہب کے اصولوں سے بکلی انحراف کے لئے جاویں تو بھی مدعا علیہ مرزاصاحب کو نبی ماننے سے ایک نئے مذہب کا پیرو سمجھا جائے گا۔ کیونکہ اس صورت میں اس کے لئے قرآن کی تفسیر اور معمول بہ مرزاصاحب کی وحی ہوگی نہ کہ احادیث واقوال فقہائ، جن پر کہ اس وقت تک مذہب اسلام قائم چلا آیا ہے اور جن میں سے بعض کے مستند ہونے کو خود مرزاصاحب نے بھی تسلیم کیا ہے۔
علاوہ ازیں احمدی مذہب میں بعض احکام ایسے ہیں کہ جو شرع محمدی پر مستزاد ہیں اور بعض اس کے خلاف ہیں مثلاً چندہ ماہواری کا دینا جیسا کہ اوپر دکھلایا گیا ہے۔ زکوٰۃ پر ایک زائد حکم ہے اس طرح غیراحمدی کا جنازہ نہ پڑھنا کسی احمدی کی لڑکی غیراحمدی کو نکاح میں نہ دینا۔ کسی غیراحمدی کے پیچھے نماز نہ پڑھنا شرع محمدی کے خلاف اعمال ہیں۔
مدعا علیہ کی طرف سے ان امور کی توجیہیں بیان کی گئی ہیں کہ وہ کیوں غیراحمدی کا جنازہ نہیں پڑھتے۔ کیوں ان کو نکاح میں لڑکی نہیں دیتے اور کیوں ان کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے۔ لیکن یہ توجیہیں اس لئے کارآمد نہیں کہ یہ امور ان کے پیشواؤں کے احکام میں مذکور ہیں۔ اس لئے وہ ان کے نقطۂ نگاہ سے شریعت کا جزو سمجھے جائیں گے جو کسی صورت میں بھی شرع محمدی کے موافق تصور نہیں ہوسکتے۔ اس کے ساتھ جب یہ دیکھا جاوے کہ وہ تمام غیراحمدی کو کافر سمجھتے ہیں تو ان کے مذہب کو مذہب اسلام سے ایک جدا مذہب قرار دینے میں کوئی شک نہیں رہتا۔ علاوہ ازیں مدعا علیہ کے گواہ مولوی جلال الدین شمس نے اپنے بیان میں مسیلمہ وغیرہ کاذب مدعیان نبوت کے سلسلہ میں جو کچھ کہا ہے اس سے یہ پایا جاتا ہے کہ گواہ مذکور کے نزدیک دعویٰ نبوت کاذبہ ارتداد ہے اور کاذب مدعی نبوت کو جو مان لے وہ مرتد سمجھا جاتا ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(فیصلہ)
مدعا علیہ کی طرف سے یہ ثابت کیاگیا ہے کہ مرزاصاحب کاذب مدعی نبوت ہیں۔ اس لئے مدعا علیہ بھی مرزاصاحب کو نبی تسلیم کرنے سے مرتد قرار دیا جائے گا۔ لہٰذا ابتدائی تنقیحات جو 2259۴؍نومبر ۱۹۲۶ء کو عدالت منصفی احمد پور شرقیہ سے وضع کی گئی تھیں۔ بحق مدعیہ ثابت قرار دے جا کر یہ قرار دیا جاتا ہے کہ مدعا علیہ قادیانی عقائد اختیار کرنے کی وجہ سے مرتد ہوچکا ہے۔ لہٰذا اس کے ساتھ مدعیہ کا نکاح تاریخ ارتداد مدعا علیہ سے فسخ ہوچکا ہے اور اگر مدعا علیہ کے عقائد کو بحث مذکورہ بالا کی روشنی میں دیکھا جاوے تو بھی مدعا علیہ کے ادعا کے مطابق مدعیہ ثابت کرنے میں کامیاب رہی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کے بعد کوئی امتی نبی نہیں ہوسکتا اور کہ اس کے علاوہ جو دیگر عقائد مدعا علیہ نے اپنی طرف منسوب کئے ہیں وہ گو عام اسلامی عقائد کے مطابق ہیں۔ لیکن ان عقائد پر وہ انہی معنوں میں عمل پیرا سمجھا جاوے گا۔ جو معنی مرزاصاحب نے بیان کئے ہیں اور یہ معنی چونکہ ان معنوں کے مغائر ہیں جو جمہور امت آج تک لیتی آئی۔ اس لئے بھی وہ مسلمان نہیں سمجھا جاسکتا ہے اور ہر دو صورتوں میں وہ مرتد ہی ہے اور مرتد کا نکاح چونکہ ارتداد سے فسخ ہو جاتا ہے۔ لہٰذا ڈگری بدیں مضمون بحق مدعیہ صادر کی جاتی ہے کہ وہ تاریخ ارتداد مدعا علیہ سے اس کی زوجہ نہیں رہی۔ مدعیہ خرچہ مقدمہ بھی ازاں مدعا علیہ لینے کی حقدار ہوگی۔
اس ضمن میں مدعا علیہ کی طرف سے ایک سوال یہ پیدا کیا گیا ہے کہ ہر دو فریق چونکہ قرآن مجید کو کتاب اﷲ سمجھتے ہیں اور اہل کتاب کا نکاح جائز ہے۔ اس لئے بھی مدعیہ کا نکاح فسخ قرار نہیں دینا چاہئے۔ اس کے متعلق مدعیہ کی طرف سے یہ کہا گیا ہے کہ جب دونوں فریق ایک دوسرے کو مرتد سمجھتے ہیں تو ان کو اپنے اپنے عقائد کی رو سے بھی ان کا باہمی نکاح قائم نہیں رہتا۔ علاوہ ازیں اہل کتاب عورتوں سے نکاح کرنا جائز ہے نہ کہ مردوں سے بھی، مدعیہ کے دعویٰ کے رو سے چونکہ مدعا علیہ مرتد ہوچکا ہے۔ اس لئے اہل کتاب ہونے کی حیثیت سے بھی اس کے ساتھ مدعیہ کا نکاح قائم نہیں رہ سکتا۔ مدعیہ کی یہ حجت وزن دار پائی جاتی ہے۔ لہٰذا اس بناء پر بھی وہ ڈگری پانے کے مستحق ہے۔
مدعا علیہ کی طرف سے اپنے حق میں چند نظائر قانونی کا بھی حوالہ دیاگیا تھا۔ ان میں سے پٹنہ اور پنجاب ہائیکورٹ کے فیصلہ جات کو عدالت عالیہ چیف کورٹ نے پہلے واقعات مقدمہ ہذا پر حاوی نہیں سمجھا اور مدراس ہائیکورٹ کے فیصلہ کو عدالت معلی اجلاس خاص نے قابل پیروی قرار نہیں دیا۔ باقی رہا عدالت عالیہ چیف کورٹ بہاول پور کا فیصلہ بمقدمہ مسمات جندوڈی بنام 2260کریم بخش اس کی کیفیت یہ ہے کہ یہ فیصلہ جناب مہتہ اودھوداس صاحب جج چیف کورٹ کے اجلاس سے صادر ہوا تھا اور اس مقدمہ کا صاحب موصوف نے مدراس ہائیکورٹ کے فیصلہ پر ہی انحصار رکھتے ہوئے فیصلہ فرمایا تھا اور خود ان اختلافی مسائل پر جو فیصلہ مذکور میں درج تھے کوئی محاکمہ نہیں فرمایا تھا۔ مقدمہ چونکہ بہت عرصہ سے دائر تھا۔ اس لئے صاحب موصوف نے اسے زیادہ عرصہ معرض تعویق میں رکھنا پسند نہ فرما کر باتباع فیصلہ مذکور اسے طے فرمادیا۔ دربار معلی نے چونکہ اس فیصلہ کو قابل پابندی قرار نہیں دیا۔ جس فیصلہ کی بناء پر کہ وہ فیصلہ صادر ہوا۔ اس لئے فیصلہ زیربحث بھی قابل پابندی نہیں رہتا۔
فریقین میں سے مختار مدعیہ حاضر ہے۔ اسے حکم سنایا گیا۔ مدعا علیہ کارروائی مقدمہ ہذا ختم ہونے کے بعد جب کہ مقدمہ زیر غور تھا فوت ہوگیا ہے۔ اس کے خلاف یہ حکم زیر آرڈر ۲۲۔رول ۶ ضابطہ دیوانی تصور ہوگا۔ پرچہ ڈگری مرتب کیا جاوے اور مسل داخل دفتر ہو۔
۷؍فروری ۱۹۳۵ئ، مطابق ۳؍ذیقعدہ ۱۳۵۳ھ
بمقام بہاول پور
دستخط: محمداکبر ڈسٹرکٹ جج ضلع بہاول نگر، ریاست بہاول پور (بحروف انگریزی)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
2261ضمیمہ نمبر:۲
’’قل جاء الحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقا‘‘


شیخ محمد اکبر ڈسٹرکٹ جج کیمبل پور بمقام راولپنڈی
کا
فیصلہ
مرزائی
دائرہ اسلام سے خارج ہیں


ناشر
مرکزی مکتبہ مجلس تحفظ ختم نبوت ملتان پاکستان
فون نمبر:۳۳۴۱
2262سلسلہ اشاعت نمبر(۱۸)

طبع اوّل
۱۳۸۸ھ
۱۹۶۸ء


؎ ناشر: مرکزی مکتبہ مجلس تحفظ ختم نبوت ملتان
؎ کتابت: ابوزبیر شاد خوشنویس شاہین مارکیٹ
؎ طباعت: حسینیہ پرنٹنگ پریس ملتان شہر
؎ صفحات: باون صفحات (۵۲)
؎ تعداد: پانچ ہزار (۵۰۰۰)
؎ قیمت: پچاس پیسے (۵۰ئ۰)

ملنے کا پتہ:
مرکزی مکتبہ مجلس تحفظ ختم نبوت۔ ملتان شہر
تغلق روڈ بیرون لوہاری گیٹ۔ فون نمبر:۳۳۴۱
2263بسم اﷲ الرحمن الرحیم!
تعارف
فروری ۱۹۵۳ء میں تحریک تحفظ ختم نبوت کے سلسلہ میں جب اس وقت کی گورنمنٹ نے مجلس عمل کے راہنماؤں کو اچانک پابند سلاسل کر کے جیل بھیج دیا تو راہنمایان ملت کی گرفتاری کے بعد اس وقت کی حکومت کے متشدانہ فیصلہ نے عوام کے جذبات میں جو اشتعال پیدا کیا اس سے حالات امن وقانون کے دائرہ اختیار سے باہر چلے گئے۔ آخری حربہ حکومت وقت نے یہ استعمال کیا کہ لاہور میں مارشل لاء نافذ کر دیا۔ جب جولائی میں حالات پرسکون ہوئے تو نئی وزارت نے جو ملک فیروز خان نون نے قائم کی۔ ان ہنگامی حالات کی تحقیقات کے لئے ایک کمیشن مقرر کیا جو مسٹر جسٹس محمد منیر اور جسٹس اے آر کیانی مرحوم پر مشتمل تھا۔ مجلس تحفظ ختم نبوت اس کیس کی پیروی میں مصروف تھی اور فروری ۱۹۵۴ء میں یہ کیس آخری مراحل میں داخل تھا۔ اس وقت جماعت کا ڈیفنس آفس حکیم عبدالمجید صاحب سیفی مرحوم جو بی۔اے علیگ تھے اور مرحوم اصل شاہ پور ضلع سرگودھا کے رہنے والے تھے۔ ان کا دولت کدہ واقع بیڈن روڈ تھا۔
۱۸؍فروری(۱۹۵۴ئ) کو اچانک ایک بزرگ راولپنڈی سے تشریف لائے جنہوں نے آتے ہی مولانا محمد علی جالندھری(رحمتہ اﷲ علیہ ) کانام پوچھا حضرت مولانا محمد علی صاحب سے ملاقات کرائی گئی۔ وہ غالباً لیفٹیننٹ نذیر الدین جو اس مقدمہ میں مدعا علیہ ہیں۔ ان کا بھائی تھا یا کوئی دوسرا عزیز تھا۔ انہوں نے اس کیس کی نوعیت ذکر کی کہ: ’’قادیانی عورت نے اپنے مرکز ربوہ سے امداد حاصل کر کے میرے بھائی کے خلاف حق مہر وغیرہ کا دعویٰ دائر کر دیا ہے۔ ہماری طرف سے آپ اس مقدمہ کی پیروی کریں۔‘‘
حضرت مولانا محمد علی صاحب نے وعدہ فرمالیا کہ ہم مناظر اسلام مولانا لال حسین صاحب اخترؒ کو کیس کی پیروی کے لئے روانہ کریں گے۔ چنانچہ سال ڈیڑھ سال کیس زیرسماعت رہا۔ جس کا 2264دفاع اہل اسلام کی طرف سے مولانا موصوف کرتے رہے اور راولپنڈی میں بحیثیت گواہ صفائی مدعا علیہ کے پیش ہوتے رہے۔ جس کا نتیجہ (لوئر کورٹ سے لے کر سیشن کورٹ تک) اہل اسلام کے حق میں نکلا۔ اﷲتعالیٰ دونوں جج صاحبان کو ان کی دینی وقانونی فراست پر جزائے خیر عطاء فرمائے۔ ہماری دعا ہے کہ خداتعالیٰ ایسے باخبر دینی احساس رکھنے والے ججز اور افسروں کو ان کے مناصب پر قائم رکھے تاکہ اسلامی ملک میں کفر وارتداد، اسلام سے جدا ہوکر سامنے آجائے اور مسلمان، قادیانی مکرو فریب سے بچ جائیں۔
یاد رہے پاکستان میں اپنی نوعیت کا یہ پہلا کیس تھا۔ کیونکہ یہ فیصلہ صرف ایک عورت کے خلاف نہ تھا۔ بلکہ پوری امت قادیانیہ کے کفر پر مہر تصدیق ثبت کرنا تھی۔ چنانچہ اس فیصلہ سے قادیانی کیمپ میں کھلبلی مچ گئی۔ جس کی وجہ سے پوری جماعت کے لیڈر اور وکلاء نے ہائیکورٹ میں اپیل دائر کرنے پر غور وخوض کیا۔ ہماری اطلاع کے مطابق اپیل تیار کر لی گئی۔ وکیل مقرر کیا گیا۔ لیکن جب چوہدری ظفر اﷲ خان سے مشورہ کیاگیا تو اس نے کہا کہ ’’اپنی ذمہ داری پر اپیل دائر کریں میں کوئی ذمہ داری نہیں لیتا۔‘‘ چنانچہ ۳؍جون ۱۹۵۵ء سے آج تک امت قادیانیت نے خاموشی اختیار کر کے اپنے کفر کی تصدیق کر دی ہے۔
قبل ازیں یہ فیصلہ انگریزی میں چالیس ہزار کی تعداد میں مجلس تحفظ ختم نبوت نے شائع کیا۔ پھر ڈاکٹر عبدالقادر صاحب نے گجرات سے کافی تعداد میں شائع کیا۔ پھر کراچی مجلس تحفظ ختم نبوت نے پانچ ہزار کی تعداد میں شائع کر کے اندرون وبیرون ملک مفت تقسیم کیا۔
انگریزی سے اردو میں ترجمہ کرنے کی وجہ سے بعض حوالہ جات اور عبارات میں خلجان پڑ گیا تھا۔ اس وجہ سے انگریزی فیصلہ کی طرح اب مجلس تحفظ ختم نبوت اسے اپنے مرکزی مکتبہ سے نہایت احتیاط سے بہ تصحیح تام چھاپ کر مسلمانوں کے سامنے پیش کر رہی ہے تاکہ روشن ضمیر ججز کے فیصلوں سے پڑھا لکھا طبقہ اپنے دل کا اطمینان کرے اور ملت کے اس باغی گروہ کے جال کفروارتداد سے اپنے آپ کو بچائے۔
ناظم شعبہ نظر واشاعت، مجلس تحفظ ختم نبوت ملتان
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
2265بعدالت شیخ محمد اکبر ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج راولپنڈی
سول اپیل ۱۹۵۵ء
امۃ الکریم بنت کرم الٰہی راجپوت جنجوعہ مکان نمبر۵۰۰/بی نیا محلہ ٹرنک بازار
بنام
لیفٹیننٹ نذیر الدین ملک خلف ماسٹر محمد دین اعوان محلہ کرشن پورہ راولپنڈی
مفصل فیصلہ
مسمات امۃ الکریم دختر کرم الٰہی (بقول میاں عطاء اﷲ وکیل برائے اپیلانٹ ایک لوہار ہے) کی شادی مسمی نذیر الدین میٹریکولیٹ (بقول میاں عطاء اﷲ ایک ترکھان ہے) سے ۲۵؍ستمبر ۱۹۴۹ء کو ہوئی تھی اور دو ہزار روپیہ مہر مقرر ہوا تھا۔ یہ بیان کیاگیا کہ نکاح ایک حنفی مولوی نے پڑھایا تھا۔ بقول خواجہ احمد اقبال وکیل برائے اپیلانٹ مسٹر نذیر الدین ترکھان اور میٹریکولیٹ ہونے کے باوجود بڑا خوش قسمت تھا کہ اسے پاکستان آرمی میں کمیشن حاصل ہوگیا۔
اس نے یہ سوچا کہ آگے چل کر بڑے بڑے افسروں سے اس کا میل جول ہوگا اور ایک لوہار کی لڑکی کو بیوی کی حیثیت سے اپنے گھر میں رکھنا باعث تذلیل ہوگا اور افسران کی نظروں میں وہ سوشل نہیں سمجھا جائے گا۔ اس لئے اس نے ۱۶؍جولائی ۱۹۵۱ء کو اپنی منکوحہ بیوی امۃ الکریم کو باقاعدہ طور پر طلاق دے دی اور طلاق نامہ لکھ دیا۔ مسمات امۃ الکریم نے اس بناء پر مہر کی دو ہزار روپیہ کی رقم حاصل کرنے کے لئے اپنے پہلے خاوند لیفٹیننٹ نذیر الدین ملک کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا۔ اس کے علاوہ شادی کے موقعہ پر اس کے والد نے اسے جو جہیز دیا تھا اور جو اس کے سابقہ خاوند کے پاس تھا۔ اس کی ۲۴۰۳روپے قیمت ادا کرنے کا مطالبہ کیا۔ یہ مفلسی (پاپرکیس) کا مقدمہ تھا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
2266شادی باطل تھی
لیفٹیننٹ نذیرالدین ملک پر مسمات امۃ الکریم نے بیشتر الزمات لگائے تھے۔ ان کی اس نے تردید کی اور جہیز کے متعلق کہا کہ وہ اس کے پاس نہیں تھا۔ اپیلانٹ نے جو اس کی قیمت بتائی ہے وہ صحیح نہیں۔ حق مہر کے دعویٰ کے متعلق کہاگیا کہ شادی قانونی طور پر باطل تھی اس لئے کہ یہ فریب سے ہوئی تھی۔ کیونکہ مدعیہ کے متعلق یہ ظاہر کیاگیا تھا کہ وہ حنفی فرقہ سے تعلق رکھتی ہے۔ حالانکہ وہ مرزاغلام احمد آف قادیان کی پیرو ہے اور اگر یہ فریب ثابت نہ بھی ہو تب بھی یہ شادی ایک مسلمان اور غیرمسلمان کے درمیان ہونے کی وجہ سے باطل ہے۔ بدیں وجہ یہ کہا گیا تھا کہ مدعیہ مہر کا کوئی مطالبہ نہیں کر سکتی۔ یہ ایک مسلمہ بات ہے کہ فریقین میں شادی کے بعد زن وشوہر کے تعلقات قائم رہے۔ ان تعلقات اور زن وشوئی کی تکمیل کی مظہر ایک بچی ہے جس کی عمر پانچ سال کے لگ بھگ ہے۔
 
Top