• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

مرزا قادیانی کی تفسیر مسیح موعود جدید جلد نمبر 1 یونیکوڈ ، صفحہ 33 تا 100

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
صفحہ 63

سے اس کی صفت رحمان کے مظہر ہیں کیونکہ آپ کا وجود مبارک سب جہانوں کے لئے رحمت ہے۔ بنی نوع انسان، حیوانات ، کافروں ، مومنوں سبھی کے لئے ۔ پھر فر ما یا’پالؤمنين رو ‘‘ اور اس میں آپ کو رحمان اور رحیم کے نام دیئے جیسا کہ کسی سمجھدارخص سے پوشیدہ نہیں۔ چنانچہ الله تعالی نے آپ کی تعریف کی اور عظمت اور عزت کی وجہ سے آپ کو ځلق عظيچ * پر قرار دیا جیسا کہ قرآن کریم میں آیا ہے۔ اگر آپ سوال کریں

کہ آپ کا خلق عظیم کیا تھا تو ہم کہتے ہیں وہ رحمان اور رحیم ہیں اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ دونوں نور اس وقت عطا

کئے گئے تھے جبکہ آ دم ابھی پانی اور مٹی کے درمیان تھا۔ اور آپ اس وقت بھی نبی تھے جبکہ حضرت آدم علیہ السلام کے

گوشت پوست کا نام ونشان بھی نہ تھا۔ چونکہ اللہ تعالی خود نور ہے اس نے اور نوربھی پیدا کرنے کا فیصلہ کیا۔ تب اس نے محمد رسول الله صلى الله علیہ وسلم کو پیدا کیا جو در بیم ( بیتا موتی کی طرح ہیں ۔ اور اللہ تعالی نے آپ کے دونوں ناموں محمد اور احمد کو اپنی دونوں صفات رحمن و رحیم میں (ظلی طور پر شریک کیا۔ پس آپ ہر اس شخص پر سبقت لے گئے جو قلب سلیم لے کر درگاہ الہی میں حاضر ہوا۔ اور آپ کے یہ دونوں نام قرآن حکیم کی تعلیم میں درخشندہ ہیں اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت مولی کے نور اور حضرت عیسی کے نور کے مرکب ہیں جیسا کہ آپ اللہ جل شانہ کی دونوں صفات سے تر کیب یافتہ ہیں ۔ پس اسی ترکیب
 

کامران افضال

رکن ختم نبوت فورم
صفحہ 63


عربی متن :

فأشار الله في قوله "عزيز " وفي قوله "حريص" إلى انہ عليه السلام مطهر صفيه الرحمن بفضله العظيم. لانه رحمة للعالمين کلهم ولنوع الإنسان والحيوان وأهل الكفر والإيمان. ثم قال "بالمومنين رءوف رحیم" فجعله رحمانا و رحیما کما لا يخفى على الفهيم. وحمدہ وعزا إليه خلقا عظيما من التفخيم والتكريم. کما جاء في القران الكريم. وإن سألت ما خلقة العظيم فنقول إنه رحمان و رحیم. ومنع هو عليه الصلوة هذین النورین وأدم بن الماء و الطين. وكان هو نبيا وما كان لأدم أثرمن الوجود ولا من الأديم. وكان الله نورا فقضی آن تخلق نورا فخلق محمد الذي هو كدریتيم و أشرك أسميه في صفتيه ففاق کل من أتى الله بقلب سليم و إنما يتلالان في تعليم القران الحكيم. وإن نبينا مركب نور موسی ونور عیسی کماهو مركب من صفتی ربنا الأعلى فاقتضی التركيب أن يعطی له هذا المقام

اردو ترجمہ :

سے اس کی صفت رحمان کے مظہر ہیں کیونکہ آپ کا وجود مبارک سب جہانوں کے لئے رحمت ہے۔ بنی نوع انسان، حیوانات ، کافروں ، مومنوں سبھی کے لئے۔ پھر فرمایا " بالمومنین رءوف رحیم" اور اس میں آپ کو رحمان اور رحیم کے نام دیئے جیسا کہ کسی سمجھدار شخص سے پوشیدہ نہیں۔ چنانچہ اللہ تعالی نے آپ کی تعریف کی اور عظمت اور عزت کی وجہ سے آپ کو خلق عظیم پر قرار دیا جیسا کہ قرآن کریم میں آیا ہے۔ اگر آپ سوال کریں کہ آپ کا خلق عظیم کیا تھا تو ہم کہتے ہیں وہ رحمان اور رحیم ہیں اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام کو ہی دونوں نور اس وقت عطا کئے گئے تھے جبکہ آدم ابھی پانی اور مٹی کے درمیان تھا۔ اور آپ اس وقت بھی نبی تھے جبکہ حضرت آدم علیہ السلام کے گوشت پوست کا نام و نشان بھی نہ تھا۔ چونکہ اللہ تعالی خود نور ہے اس نے اور نور بھی پیدا کر نے کا فیصلہ کیا۔ تب اس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا کیا جو در یتیم ( یکتا موتی) کی طرح ہیں ۔ اور اللہ تعالی نے آپ کے دونوں ناموں محمد اور احمد کو اپنی دونوں صفات رحمن در حمیم میں (ظلی طور پر) شریک کیا۔ پس آپ ہر اس شخص پر سبقت لے گئے جو قلب سلیم لے کر درگا الہی میں حاضر ہوا۔ اور آپ کے یہ دونوں نام قرآن حکیم کی تعلیم میں درخشندہ ہیں اور ہمارے نبی صلی الله علیہ وسلم حضرت موسی کے نور اور حضرت عیسی کے نور کے مرکب ہیں جیسا کہ آپ اللہ جل شانه کی دونوں صفات سے تر کیب یافتہ ہیں ۔ پس اسی ترکیب

1 (63).png
 

کامران افضال

رکن ختم نبوت فورم
صفحہ 64


عربی متن :

الغریب. فلأجل ذالك سماء الله محمد و احمد فانه ورث نور الجلال و الجمال و په تفر. و إنه أعطى شأن المحبوبين و جنان المحبين. كما هو من صفتی رټ العالمين. هو خير المخبوبين و خير الحامدين. و أشركه الله في صفتيه و أعطاء خظا کثیرا من رحمتيه. وسقاہ من عينيه. وخلقة بيديه فصار کقارورة فيها راح او کمشکوة فيها ومصباح وکمثل صفتيه أنزل عليه الفرقان. و جمع فيه الجلال و الجمال و رکب البيان. و جعله سلالة التوراة و الإنجيل. ومراۃ لرؤية وجهه الجليل والجميل ثم أعصى الأمة نصيبا من کاس هذا الكريم. و علمھم من أنفاس هذا المتعلم من العلیم. فشرب بعضھم من عین اسم محمد التي انفجرت من صقة الرحمانية.و بعضھم اغترفوا من ينبوع اسم أحمد الذی اشتمل على الحقيقة


اردو ترجمہ :

کا تقاضا تھا کہ آپ کو یہ یگانہ مقام عطا ہو۔ اس لئے خدا تعالی نے آپ کا نام محمد بھی رکھا اور احمد بھی تو آپ خدا تعالی کے جمالی نور اور جلال نور کے وارث بنے اور اس شان میں آپ منفرد ہیں اور آپ کو جو بیت کی شان اور محبوں والا دل بھی عطا کیا گیا۔ جیسا که محبوبیت اور محبيت رب العالمین کی صفات میں سے ہیں۔ پس آپ بہتر ین محمود اور بہترین حامد ہیں اور اللہ تعالی نے آپ کو اپنی ان دونوں صفات میں (ظلی طور پر اثر یک کیا ہے اور اپنی ان دونوں رحمتوں سے آپ کو حصہ وافر عطا فر ما یا ہے اور اپنے ان دونوں چشموں سے آپ کو سیراب کیا ہے اور اپنے دونوں ہاتھوں سے آپ کو پیدا کیا ہے (یعنی دست جمال و جلال سے ) پس آپ اس شیشہ کی طرح ہو گئے جس میں (محبت الی کی ) شراب ہے یا اس طاق کی مانند جس میں ایک عظیم الشان چراغ ہے۔ اور الله تعالی نے اپنی ان دونوں صفتوں کی طرح آپ پر قرآن کریم نازل فرمایا اور اس میں جلال و جمال ہر دو کو جمع کیا اور اس کے بیان کو ان ہر دو صفات سے مرکب کیا اور اس میں توریت اور انجیل ہر دور (کی تعلیم) کا خلاصہ رکھ دیا۔ اور اللہ تعالی صاحب جلال و جمال کا چہرہ دیکھنے کے لئے قرآن کو آئینہ بنا یا اور پھرامت کو بھی اس قرآن کریم کے پیالہ سے حصہ عطا فرمایا۔ اور خدائے علیم کے اس عظیم شاگرد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انفاس قدسیہ سے انہیں تعلیم دی۔ پس ان میں سے بعض نے اسم محمد کے چشمہ سے پانی پیا جو چشمہ کہ صفت رحمانیت سے چھوٹا ہے اور بعض نے اسم احمد
1 (64).png
 

کامران افضال

رکن ختم نبوت فورم
صفحہ 65


عربی متن :

الرحيمية. وكان قدرا مقدرا من الابتداء و وعدا موقوتا جاريا على السن الأنبياء . إن اسم أحمد لا تتجلى بتجلی تام في أحد من الوارثین إلا في المسيح الموعود الذى يأتي الله به عند طلوع يوم الدین. وحشر المؤمين ويرى الله المسلمين کالضعفاء والإسلام کصبی نبذ بالعراء. فیفعل لھم أفعالا من لدنہ وینزل لھم في السماء. فهناك تكون له السطنۃ في الأرض كما هی في الأفلاک. وتھلك الأباطيل من غير ضرب الأغناق وتنقطع السباب کلھاو ترجع الأمور إلى مالک الأملاک. وعد من الله حق کمثل وعد تم في أخر زمن بنی إسرائيل إذ بعث فیهم عیسی بن مريم فأشاع الدين من غير أن يقتل من عصى الرب الجليل. وكان في قدر الله العلي العليم. أن يجعل اخر هذہ السلسلة کاخر خلقاء الکليم. فلأجل ذالك جعل ځاتمة أمرها

اردو ترجمہ:

کے چشمہ سے پیا جو حقیقت رحیمیت پرمشتمل ہے۔ اور ابتدا سے یہی الہی تقدیر اور مقرر وعدہ تھا۔ جو انبیاء کی زبانوں پر جاری تھا کہ مفت احمد کی کامل تجلی اس کے وارثوں میں سے مسیح موعود کے سوا کسی پر نہ ہوگی جسے اللہ تعالی (اس دنیا میں) جز اسزا کا دن طلوع ہونے اور مومنوں کے جمع کئے جانے کے وقت مبعوث فرمائے گا۔ اس دن اللہ تعالی مسلمانوں کو کمزور اور اسلام کو اس بچے کی طرح پائے گا جسے جنگل میں پھینک دیا گیا ہو۔ تب ان کے لئے اپنے ہاں سے بہت سے کام بروئے کار لائے گا اور ان کی خاطر خود آسمان سے اتر آئے گا۔ اس وقت زمین پر بھی ویسے ہی اس کی (روحانی) بادشاہت قائم ہو جائے گی جیسا کہ آسمانوں پر ہے (لوگوں کی) گردنیں اڑائے بغیر تمام باطل مٹ جائیں گے اور( کفر کے ) سب ذرائع کٹ جائیں گے۔ اور تمام امور بادشاہوں کے بادشاہ (خدا تعالی) کی طرف لوٹائے جائیں گے۔ یہ اللہ کا سچا وعدہ اسی وعدہ کی مانند ہے جو بنی اسرائیل کے آخری زمانہ میں پورا ہوا جب ان میں حضرت عیسی علیہ السلام مبعوث ہوئے اور آپ نے خدا تعالی کے نافرمانوں کو قتل کئے بغیر دین کی اشاعت کی۔ عالم الغیب اور عالی مرتبہ خداوند کی تقدیر میں ہی تھا کہ وہ اس امت محمد یہ کے سلسلہ کے آخری حصہ کو حضرت موسی علیہ السلام کے خلفاء کے آخری حصہ کی طرح بنائے اس لئے اس ( أمت) کے انجام کو انسانی مددگاروں

1 (65).png
 

کامران افضال

رکن ختم نبوت فورم
صفحہ 66


عربی متن :

مستعنيۃ من نصر الناصرين ومظهرا لحقيقة مالك يوم الدين. كما ياتی تفسيره بعدحین
ومن تتمة هذا الكلام أن نبينا خیرالانام لما كان خاتم الأنبياء و أصفى الأصفياء. و أحب الناس إلى حصرة الكبرياء . أراد الله سبحانه أن یجمع فيه صفتيه العظيمتین على الطريقة الظلية. فوهب له اسم محمد و احمد لیکونا کا کالظلین للرخمانیہ و الرحيمية۔ ولذالک أشار في قولہ. إياك نعبد و إياك نستعين إلى أن العابد الكامل یعطی له صفات رب العالمين بعد أن يكون من العابدين الفانین و قد علمت أن کل كمال من کمالات الأخلاق الإلهية منحصر في كونه رحمانا و رحیما و لذالك خصهما الله بالبسملة. وعلمت أن اسم محمد و احمد قد أقیما مقام الرحمن والرجیم. و أودعهما کل كان مخفيا في ھاتين الصفتين من الله العلم الحكيم. فلا شك أن الله جعل ھذین الإسمين ظلين لصفتيہ ومظهرین لسيرتيه ليری حقيقة الرحمانیہ و الرحيمية فی مراۃ


اردو ترجمہ:

کی مدد سے مستغنی رکھا اور اسے "ملک يوم الدين“ کی حقیقت کے اظہار کا ذریعہ بنا دیا۔ حیسا کہ آئندہ "ملک يوم الدين“ کی تفسیر آرہی ہے۔

اس کلام کا تتمہ یہ ہے کہ چونکہ ہمارے نبی خیر البشر صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء برگزیدوں کے برگزیدہ اور اللہ تعالی کی جناب میں سب لوگوں سے زیادہ محبوب ہیں۔ اس لئے اللہ تعالی نے ارادہ کیا ظلی طور پر آپ میں اپنی یہ دونوں بڑی صفات جمع کردے۔ پس آپ کو محمد اور احمد کے نام عطا کئے تا کہ دونوں نام صفت رحمانیت اور صفت رحیمیت کے لئے بمنزلہ ظل کے ہوں ۔ اسی لئے اس نے اپنے قول إياك نعبد و ایاک نستعین میں اس بات کی طرف اشارہ فرمایا کہ کال عبادت گزار کو رب العالمین کی صفات عطا کی جاتی ہیں جبکہ وہ فنا فی اللہ عابدوں کے مقام تک پہنچ جائے۔ اور آپ کو معلوم ہے کہ اخلاقي الہیہ کا ہر کمال اللہ تعالی کے رحمان و رحیم ہونے پر منحصر ہے۔ اس لئے اللہ تعالی نے ان دونوں صفات کو بسم اللہ کے ساتھ مخصوص کر دیا۔ اور آپ کو یھی معلوم ہو چکا ہے کہ محمد اور احمد نام "الرحمان، الرحیم" کے مظہر ہیں اور ہر کمال جوان دونوں صفات الہیہ میں مخفی تھا وعلیم وحکیم خدا کی طرف سے (محمد اور احمد کے ) دونوں ناموں میں ودیعت کر دیا گیا ہے پس بلاشبہ اللہ تعالی نے ان دونوں ناموں (محمد اور احمد) کو اپنی دونوں صفات کے ظل اور اپنی دونوں سیرتوں کے مظہر ٹھہرایا ہے تا کہ رحمانیت اور رحیمیت کی حقیقت کومحمدیت اور
1 (66).png
 

کامران افضال

رکن ختم نبوت فورم
صفحہ 67


عربی متن :

المحمدیۃ و الأخمدية ثم لما كان كمل أمته عليه السلام من أجز آئہ الروحانية و الجوارح يلحقيقة النبوية. أراد الله لإبقاء اثار هذا النبی المعصوم. آن یورثھم ھذین الإسمین کماجعلهم ورثاء العلوم. فأدخل الصحابة تحت ظل اسم محمد الذي هو مظهر الجلال. وأدخل المسيع الموعود تحت اسم احمد الذی هو مظهر الجمال وما وجد هؤلاء هذہ الدولة إلا بالظلية فإذن ما ثم شريك على الحقيقة. وکان غير الله من تقسيم هذين الاسمین أن يفرق بين الأمة ویجعلهم فريقين فجعل فريقا منھم کمثل موسی مظهر الجلال. وهم صحابه النبی الذین تصدوا أنفسهم للقتال. و جعل فريقا منھم کمثل عیسی مظهر الجمال. و جعل قلوبهم لينة وأودع السلم صد ورھم و أقامھم على أحسن الخصال و هو المسيح المؤعود و الذين التبعوہ من النساء و الرجال۔ فتم ما قال موسى وما فاه بکلام عیسی و وعد الرب الفعال

اردو ترجمہ:

احمدیت کے آئینہ میں دکھائے۔ پھر جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے کامل افراد جو آنحضرت کی روحانیت کے اجزاء اور حقیقت نبویہ کے اعضاء کی طرح ہیں تو اللہ تعالی نے ارادہ فرمایا کہ اس نبی معصوم صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار کو باقی رکھنے کے لئے انہیں ( أمت کے کامل افراد کو) بھی اسی طرح ان دونوں ناموں کا وارث بنائے جیسے اس نے انہیں علوم نبوی کا وارث بنایا ہے۔ پس اس نے صحا به کواسم محمد کے ظل کی ذیل میں داخل کر دیا جو اسم کے جلال کا مظہر ہے اور مسیح موعود کو اسم احمد کے ذیل میں داخل کردیا جو جمال کا مظہر ہے۔ اور ان سب نے اس دولت کومحض ظلیت کے طور پر پایا ہے۔ پس حقیقت کی رو سے اس مقام پر خدا تعالی کا کوئی شریک نہیں اور ان دو ناموں کی تقسیم سے اللہ تعالی کی غرض یہی تھی کہ وہ امت کو تقسیم کرے اور اس کے دو گروہ کردے۔ میں اس نے ان میں سے ایک گروہ کو حضرت موسی علیہ السلام مظہر جلال کی مانند بنایا اور وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ہیں جنہوں نے جہاد کے لئے اپنے آپ کو پیش کر دیا تھا اور ایک گروہ کو حضرت عیسی علیہ السلام مظہر جمال کی مانند بنایا اور ان کو دل کا حلیم بنایا۔ ان کے سینوں میں صلح جوئی ودیعت کی اور ان کو اعلی اخلاق پر قائم کیا اور امت کا اگر وہ مسیح موعود اور اس کے متبعین ہیں خواہ مرد ہوں یا عورتیں ۔ پس جو کچھ حضرت موسی نے فرمایا تھا وہ بھی اور جو حضرت عیسی (علیهما السلام) نے فرمایا تھا وہ بھی پورا ہوا اور اس طرح خدائے قادر کا وعدہ

1 (67).png
 

کامران افضال

رکن ختم نبوت فورم
صفحہ 68


عربی متن :

فإن موسی أخبر عن صحب کانوا مظهر اسم محمد نبينا المختار وصور جلال الله القهار. بقوله "اشداء على الكفار" وإن عيسی أخبر عن اخرين منھم وعن إمام تلك الا برار. أغنى المسیح الذي هو مظهر أحمد الراحم الستار ومنبع جمال الله الرحيم الغفار۔ بقولہ ’’کزرع اخرج شطہ الذی هو معجب الكفار . وکل منھما آخبر بصفات تناسب صفاته الذاتية واختار جماعة تشابه أخلاقھم أخلاقه المرضية. فأشار موسی بقوله "أشداء على الكفار" إلى صحابة أدرکوا صحبة نبينا المختار. وأروا شده وغلظة فی المضمار. و أظهروا جلال الله بالسيف البتار وصاروا ظل اسم محمد رسول الله القهار. عليه صلوات الله وأهل السماء وأھل الأرض من الأبرار والأخيار. وأشار عيسي بقولہ ’’کزرع اخرج شطہ" إلى قوم اخرین منھم إمامهم

اردو ترجمہ:

بھی پورا ہوگیا کیونکہ حضرت موسٰی علیہ السلام نے " اشداء على الكفار " کہہ کر ان صحابہ کے متعلق پیشگوئی فرمائی تھی جو ہمارے نبی محمد مصطفي صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم محمد کے مظہر اور خدائے قہار کے جلال کا انعکاس تھے۔ اور حضرت عیسی علیہ السلام نے صحابہ کے ایک دوسرے گروہ اور ان ابرار کے امام کے متعلق اپنے قول کزرع اخرج شطہ ، میں اس روئیدگی کی پیشگوئی فرمائی تھی جو کسانوں کو خوش کرتی ہے۔ یعنی اس مسیح کے تعلق جورحم کرنے والے اور پردہ پوش (اسم) احد کا مظہر اور رحیم وغفار خدا کے جمال کا منبع ہے۔ پس موسیٰ و عیسیٰ ہر دونے پیشگوئی میں ایسی صفات کی خبر دی تھی جو ان کی اپنی صفات زاتیہ سے مناسبت رھتی ہیں ۔ اور ہر ایک نے اس جماعت کو (پیشگوئی کے لئے) چنا جن کے اخلاق اس کے اپنے پسند یده اخلاق کے مشابہ تھے۔ پس حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے الفاظ " اشداء على الكفار " میں ان صحابہ کی طرف اشارہ فرمایا جنہوں نے ہمارے نبی اکرم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت پائی اور انہوں نے جنگ کے میدانوں میں سختی و مضبوطی کا مظاہر ہ کیا۔ اللہ تعالی کے جلال کو سیف قاطع کے ذریہ ظاہر کیا اور خدائے قہار کے رسول کے اسم محمد کے ظل بن گئے ۔ آپ پر اللہ تعالی، اہل آسمان اور اہل زمین میں سے راستبازوں اور نیکو کاروں کا صلوة اور سلام ہو۔ اور حضرت عیسی علیہ السلام نے اپنے قول کزرع اخرج شطہ سے اخرین منھم کی قوم اور ان کے امام مسیح کی طرف

1 (68).png
 

کامران افضال

رکن ختم نبوت فورم
صفحہ 69


عربی متن :

المسيح. بل ذكر اسمه أحمد بالتصريخ وأشاربهذا المثل الذی جاء في القرآن المجید۔ إلى أن المسیح الموعود لا يظهر الا کنبات لين لا کالشیء الغليظ الشديد ثم من عجائب القران الکریم أنه ذكر اسم أحمد حکایتا عن عيسىٰ وذکر اسم محمدحکایتا عن موسی يعلم القارئ أن النبی الجلالی أغيی موسیٰ اختاراسما يشابة شأنه. أعنی متن الين محمد الذی هو اسم الجلال وکذالك اختار عيسی اسم احمد الذی هو اسم الجمال بما كان نبیا جماليا وما أغطی له شيئ من القهر والقتال

فحاصل الکلام أن کلا منھما أشار إلى مثیلہ التام. فاحفظ ھذہ النكتة فإنها تنجيك من الأوهام و تكشف عن ساقی الجلال والجمال. وتری الحقيقة بعد رفع الفدام. وإذا قبلت هذا فدخلت في حفظ الله وکلاہ من و دجال. ونجوت من کل ضلال


(اعجار المسيح - روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۸۹ تا ۱۲۸)

اردو ترجمہ:

اشارہ کیا بلکہ اس کے احمد نام کا صراحت سے ذکر کر دیا۔ اور اس مثال سے جو قرآن کریم میں آئی ہے آپ نے اس بات کی طرف اشارہ فرمایا کہ مسیح موعود کسی بہت سخت چیز کی طرح نہیں بلکہ صرف نرم و نازک سبزہ کی طرح ظاہر ہوگا ۔ پھر یہ بھی قرآن کریم کے عجائبات میں سے ہے کہ اس نے احمد نام کا ذ کر حضرت عیسی علیہ السلام سے نقل کیا اور محمد نام کا ذکر حضرت موسی علیہ السلام سے نقل کیا تا کہ پڑھنے والے کو معلوم ہوجائے کہ جلالی نبی یعنی حضرت موسی علیہ السلام نے وہ نام چنا جو ان کی اپنی شان کے مطابق ہے یعنی اسم محمد جو جلالی نام ہے اور اسی طرح حضرت عیسی علیہ السلام نے احمد نام چنا جو جمالی نام ہے کیونکہ وہ خود جمالی نبی تھے اور انہیں شدت اور جنگ سے کوئی حق نہیں دیا گیا تھا۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ ان دونوں میں سے ہر ایک نبی نے اپنے اپنے کامل مثیل کی طرف اشارہ کیا پس (اے مخاطب ) اس نکتہ کو یاد رکھ کیونکہ یہ تجھے شکوک وشبہات سے نجات دے گا اور جلال اور جمال کے دونوں پہلووں کو آشکار کرے گا اور پردہ اٹھا کر حقیقت کو واضح کر دے گا اور جب تو اس بیان کو قبول کر لے تو ہر دجال ( کے شر) سے خدا تعالی کی حفظ و امان میں آجائے گا اور ہر گمراہی سے نجات پاجائے گا۔ (ترجمہ از مرتب)

سارے قرآن شریف کا خلاصہ بسم اللہ الرحمن الرحیم ہے۔ اللہ تعالی کی اصل صفات بھی جمالی ہیں اور اصل نام خدا بھی جما لی ہے۔ یہ تو کفار لوگ اپنی ہی کرتوتوں سے ایسے سامان بہم پہنچاتے ہیں کہ بعض وقت

1 (69).png
 

کامران افضال

رکن ختم نبوت فورم
صفحہ 70


جلالی رنگ دکھانا پڑتا ہے۔ اس وقت چونکہ اس کی ضرورت نہیں اس واسطے ہم جمالی رنگ میں آئے ہیں۔ (الحکم جلد نمبر ۲ مورخہ ۱۷ فروری ۱۹۰۱ صفحہ ۱۴)

کتاب دساتیر مجوس میں فقرات ہیں"بنام ایزد بخشائنده بخشائش گر مہربان دادگر، جو بظاہر بسم الله الرحمن الرحیم کے مشابہ ہیں لیکن جو لفظ رحمان اور رحیم میں پرحکمت فرق ہے وہ فرق ان لفظوں میں موجود نہیں اور جو اللہ کا اسم وسیع معنی رکھتا ہے وہ ایزد کے لفظ میں ہرگز پائے نہیں جاتے۔ لہذا یہ ترکیب پارسیوں کی بسم اللہ سے کچھ مناسبت نہیں رکھتی غالبا یہ الفاظ پیچھے سے بطور سرقہ لکھے گئے ہیں۔ بہر حال یہ نقص دلالت کرتا ہے کہ یہ انسان کا قول ہے۔ (منن الرحمن - روحانی خزائن جلد ۹ صفیه ۱۴۹، ۱۵۰ حاشیه در حاشیہ)

اللہ جو خدائے تعالی کا ایک ذاتی اسم ہے اور جو تمام جمیع صفات کاملہ کا مستجمع ہے... کہتے ہیں کہ اسم اعظم یہی ہے اور اس میں بڑی بڑی برکات ہیں لیکن جس کو وہ اللہ یاد ہی نہ ہو وہ اس سے کیا فائدہ اٹھائے گا۔(رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ صفحہ ۹۸)

قرآن کی اصطلاح کی رو سے اللہ اس ذات کا نام ہے جس کی تمام خوبیاں حسن و احسان کے کمال کے نقطہ پر پہنچی ہوئی ہوں اور کوئی منقصت اس کی ذات میں نہ ہو۔ قرآن شریف میں تمام صفات کا موصوف صرف اللہ کے اسم کو ہی ٹھہرایا ہے تا اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ اللہ کا اسم تب مستحقق ہوتا ہے کہ جب تمام صفات کاملہ اس میں پائی جائیں۔(ایام الصلح روحانی خزائن جلد ۳، صفحہ۷ ۲۴)

اللہ جس کا ترجمہ ہے وہ معبود یعنی وہ ذات جو غیر مدرک اور فوق العقول اور وراء الوراء اور دقیق در دقیق ہے جس کی طرف ہر ایک چیز عابدانہ رنگ میں یعنی عشقی فنا کی حالت میں جو نظری فنا ہے یا حقیقی فنا کی حالت میں جو موت ہے رجوع کر رہی ہے۔(تحفہ گولڑو یہ روحانی خزائن جلد ۷ا صفحہ ۲۴۸)

اللہ کا نام خدا تعالی کے لئے اسم اعظم ہے۔(تحفہ گولڑو یہ روحانی خزائن جلد ۱۷ کا صفحہ ۲۴۸)

اللہ جامع جمیع شیون کا ہے اور اسم اعظم ہے۔ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی جماعت کے ساتھ اسم اعظم کی معیت مع تمام صفات کے پائی جاتی ہے۔ (الحکم نمبر ۲ جلد ک۷ مؤرخہ – ۷ا رجنوری ۱۹۰۳ تصفیہ ۷)

قرآن شریف جس خدا کو منوانا چاہتا ہے وہ تمام نقائص سے منزہ اور تمام صفات کاملہ سے موصوف ہے۔ کیونکہ اللہ کا لفظ اسی ہستی پر بولا جاتا ہے جس میں کوئی نقص ہو ہی نہیں اور کمال دوقسم کے ہوتے ہیں یا بلحاظ حسن کے یا بلحاظ احسان کے۔ پس وہ دونوں قسم کے کمال اس لفظ میں پائے جاتے ہیں۔ دوسری قوموں نے جولفظ خدا تعالی کے لئے تجویز کئے ہیں وہ ایسے جامع نہیں ہیں اور یہی لفظ اللہ کا دوسرے باطل مذاہب کے معبودوں کی بستی اور ان کی صفات کے مسئلہ کی پوری تردید کرتا ہے۔(الحکم نمبر ۷ا جلد کے مؤرخہ ۱۰مئی ۱۹۰۳ صفحہ ۲)

1 (70).png
 

کامران افضال

رکن ختم نبوت فورم
صفحہ 71


بت پرست بھی وجودیوں کی طرح اپنے بتوں کی مظاہر ہی مانتے ہیں ۔ قرآن شریف اس مذہب کی تردید کرتا ہے۔ وہ شروع ہی میں یہ کہتا ہے الحمد للہ رب العلمين اگرخلوق اور خالق میں کوئی امتیاز نہیں بلکہ دونوں برابر اور ایک ہیں تو رب العالمین نہ کہتاب عالم تو خدا تعالی میں داخل نہیں ہے کیونکہ عالم کے معنے ہیں مایعلم به اور خدا تعالی کے لئے لاتدركه الأبصار (الانعام : ۱۰۴)۔
(احکم جلد کا نمبر ۲۸ مورخہ ۱۰ اگست ۱۹۰۲ صفحہ ۸ - ملفوظات جلد ۲ صفحہ ۴۳۰)

عربی متن:

قد عرفت أن الله بصفة الرحمن ينزل على کل عبدمن الإنسان و الحيوان والكافر و أهل الإيمان انواع الإخسان و الإمتنان بغير عمل یجعلھم مستحقين فی حضرۃ الدیان اذ لاشك أن الإحسان على هذا المنوال یجعل المحسن محبوبا في الحال فثبت آن الإفاضة على الطريقة الرحمانية. يظهر في أغین المستفيضين شأن المحبوبية و أما صفة الرحيمية. فقد الزمت نفسها شأن المحبية. فان الله لا تتجلی ٭ على احد بھذا الفيضان الا بعد أن یحبہ ويرضی به قولا وفعلا من أهل الإيمان (اعجاز المسيح. روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۱۰۰۰۹۹ حاشید)

قال الله تعالى "وما أرسلناك إلا رحمۃ للعالمين٭٭" ولا يستقیم هذا المعنی الا في الرحمانية فان الرحیمية یختص بعالم واحد من المؤمنين (اعجاز المسيح - روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۱۱۸ حاشید)

اردو ترجمہ:

بت پرست بھی وجودیوں کی طرح اپنے بتوں کی مظاہر ہی مانتے ہیں ۔ قرآن شریف اس مذہب کی تردید کرتا ہے۔ وہ شروع ہی میں یہ کہتا ہے الحمد للہ رب العلمين اگرخلوق اور خالق میں کوئی امتیاز نہیں بلکہ دونوں برابر اور ایک ہیں تو رب العالمین نہ کہتاب عالم تو خدا تعالی میں داخل نہیں ہے کیونکہ عالم کے معنے ہیں مایعلم به اور خدا تعالی کے لئے لاتدركه الأبصار (الانعام : ۱۰۴)۔
(احکم جلد کا نمبر ۲۸ مورخہ ۱۰ اگست ۱۹۰۲ صفحہ ۸ - ملفوظات جلد ۲ صفحہ ۴۳۰)

آپ کو معلوم ہے کہ الله تعالی اپنی صفت رحمانیت کے نتیجہ میں ہر مخلوق پر وہ انسان ہو یا حیوان ، کافر ہو یا مومن ہر قسم کے احسانات اور افضال ایسے عمل کے بغیر نازل فرماتا ہے جو ان کو جزا دینے والے خدا کی بارگاہ میں انعامات کا مستحق بنا دے اور بلاشبہ اس طرز کا احسان احسان کرنے والے کوفو را محبوب بنا دیتا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ رحمانیت کے ماتحت فیض پہنچانا فیض حاصل کرنے والوں کی نظروں میں شان محبوبیت کو نمایاں کر دیتا ہے لیکن صفت رحیمیت نے اپنے آپ کو شان محبیت کے ساتھ لازم کر دیا ہے اور الله تعالی اس فیضان کے ساتھ کسی مومن پر اسی وقت تجلی فرماتا ہے۔ جب وہ اس سے محبت کرنے لگے اور اس پر اپنے قول اور فعل سے اپنی خوشنودی کا اظہار کرے۔ (ترجمہ از مرتب)

اللہ تعالی قرآن مجید میں فرماتا ہے۔ اے نبی! ہم نے تمہیں تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ آپ کارحمة للعالمین ہونا صفت رحمانیت کے لحاظ سے ہی درست ہوسکتا ہے۔ کیونکہ رحيميت توصرف مومنوں کی دنیا کے ساتھ ہی مخصوص ہے۔ (ترجمہ از مرتب)

٭ سہو کتابت ہے درست يتجلی ہے (ناشر) ٭٭ ( الانبیاء:۱۰۸)


1 (71).png
 
Top