• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

مرزا قادیانی کی تفسیر مسیح موعود جدید جلد نمبر 1 یونیکوڈ ، صفحہ 33 تا 100

کامران افضال

رکن ختم نبوت فورم
صفحہ 72



رحمان

پر الله تعالی کی صفت الرحٰمن بیان کی ہے اور اس صفت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ انسان کی فطری خواہشوں کو اس کی دعا یا التجا کے بغیر اور بدوں کسی عامل کے عطا (پورا) کرتا ہے۔ مثلا جب انسان پیدا ہوتا ہے تو اس کے قیام و بقاء کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ پہلے سے موجود ہوتی ہیں۔ پیرا پیچھے ہوتا ہے لیکن ماں کی چھاتیوں میں دودھ پہلے آجاتا ہے۔ آسمان، زمین، سورج، چاند، ستارے، پانی، ہوا وغیرہ یہ تمام اشیاء جو اس نے انسان کے لئے بنائی ہیں یہ اس کی صفت رحمانیت ہی کے تقا ضے ہیں لیکن دوسرے مذہب والے یہ نہیں مانتے کہ وہ بلا مبادلہ بھی فضل کرسکتا ہے۔ (الحکم نمبر ۱۷ جلد ۷ مؤرخہ ۱۰ مئی ۱۹۰۳ صفحہ ۳)

الرحٰمن

بغیر کسی عمل کے خودبخود عطاء کرنے والا۔ سناتن دھرم والے ان میں سے ہیں جو ایک رنگ میں مانتے ہیں کہ پرمیشر سے سب کچھ نکلا مگر ساتھ ہی کہتے ہیں کرموں کا نتیجہ ہوتا ہے۔ مرد بنا ہے تو کرموں کی وجہ سے عورت بنی ہے تو کرموں کے سبب ۔ غرض گدها، بندر بلا جو کچھ ہوا کرموں سے۔ پس یہ لوگ صفت رحمانیت کے منکر ہیں ۔ وہ خدا جس نے آدمیوں سے پہلے سورج وغیرہ پیدا کیا، سانس کے لئے ہوا پیدا کی، نیز اس لئے کہ ایک دوسرے تک آواز پہنچے۔ جب یہ سب کچھ قبل از وجود پیدا کیا ہے تو پھر کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس نے کرموں کی وجہ سے کیا ہے۔ یہ لوگ بھولے ہوئے اور کفر میں گرفتار ہیں۔ سچھی بات یہی ہے کہ اللہ کافضل ہے کئی نعمتیں ایسی ہیں جن میں اعمال کا دخل نہیں اور کئی ایسی جن میں اعمال کا دخل ہے جیسے عابد زاہد بندگی کرتے ہیں اور اس کا اجر ملتا ہے۔ (البدر نمبر ا جلد ۷ مورخہ ۹ جنوری ۱۹۰۸ صفحہ ۵)

رحمن کے معنے خدا کے کلام سے یہ ثابت ہوتے ہیں کہ جب وہ بغیر کسی عوض کے اور سواکسی عمل کے رحمت کرتا اور اسباب مہیا کر دیتا ہے۔ مثلا دیکھو خدانے جب یہ نظام بنا رکھا ہے۔ سورج ہے، چاند ہے، اناج ہے، پانی ہے، ہوا ہے، ہمارے امراض کے دفعیہ کے لئے قسم قسم کی بوٹیاں ہیں ۔ اب کوئی بتلاسکتا ہے کہ یہ اس کے کسی عمل کا اجر ہیں۔ ہر ایک شخص جو عمیق فکر کرے۔ اس پر خدا کا رحمان ہونا ثابت ہوتا ہے۔ انسان کی زندگی و آسودگی کے لئے جو کچھ چاہئے تھا وہ اس کے پیدا ہونے سے پہلے مہیا کیا۔ جو کچھ آسمان میں ہے اور زمین میں اور پھر جو کچھ ہمارے وجود میں پایا جاتا ہے یہ سب اس کی رحمانیت کا نتیجہ ہیں ۔ کیونکہ جب ہم ماں کے پیٹ میں تھے۔ اس وقت جو کچھ اس کے انعام تھے وہ کسی عمل کا نتیں نہیں ہو سکتے۔ تناسخ کا مسئلہ

1 (72).png
 

کامران افضال

رکن ختم نبوت فورم
صفحہ 73


یہیں سے رد ہو جا تا ہے۔ مگر میں اسے چھیڑنا نہیں چاہتا۔ غرض خدا کی بے شمار نعمتیں ہیں جن کو کسی ترازو میں تول نہیں سکتے ضروری طور سے ماننا پڑتا ہے کہ خدا رحمان ہے۔ ہمارے اس ملک میں بہت قسم کے فرتے ہیں کہ جو کچھ انسان کو عطا کیا گیا وہ کسی گزشتہ کرم کا نتیجہ سمجھتے ہیں۔ سچ بات یہ ہے کہ جو کچھ ہے۔ یہ خدا کے فضل اور اس کی رحمانیت نے مہیا( کیا) ہے کوئی دعوی نہیں کر سکتا کہ میرے اعمال کا عوض ہے۔ (البدر نمبر ۲۵ جلد ۷ مؤرخہ ۲۵ جون ۱۹۰۸ صفحہ ۳)

فرمایا هوالرحمٰن یعنی وہ جانداروں کی ہستی اور ان کے اعمال سے پہلے محض اپنے لطف سے نہ کسی غرض سے اور نہ کسی عمل کی پاداش میں ان کے لئے سامان راحت میسر کرتا ہے۔ جیسا کہ آفتاب اور زمین اور دوسری تمام چیزوں کو ہمارے وجود اور ہمارےاعمال کے وجود سے پہلے ہمارے لئے بنادیا۔ اس عطیہ کا نام خدا کی کتاب میں رحمانیت ہے۔ اور اس کام کے لحاظ سے خدائے تعالی رحمن کہلاتا ہے۔ اور پھر فرمایا کہ الرحیم لیکن وہ خدا نیک عملوں کی نیک ترجزا دیتا ہے اور کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتا اور اس کام کے لحاظ سے رحیم کہلاتا ہے۔ اور یہ صفت رحیمیت کے نام سے موسوم ہے۔ (اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد۱۰ صفحہ ۳۷۳)

اللہ تعالی کے دو نام ہیں ایک رحمٰن دوسرا رحیم۔ رحٰمن تو یہی ہے کہ فطرت عمدہ اور مناسب حال اہل اللہ کے عطا کرتا ہے اور رحیم یہ کہ جب یہ خدا تعالی کے عطا کردم قٰوی سے کام لے تو اس پر نیک نتائج مترتب کر دیتا ہے۔ رحیمیت کے نیچے آ کر کوشش کرنا اس کا فرض ہو جاتا ہے۔ اس لئے فرمایا وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَاؕ ۔ (العنكبوت:۷۰) (الحکم نمبر اول جلد ۷ مؤرخہ ۱۰ جنوری ۱۹۰۴ صفحہ ۲)

الرحمان وہی ہے جس کی رحمتیں بے بدلہ ہیں مثلا انسان کا کیا عذر تھا اگر اللہ تعالی اسے کتا بنا دیتا تو کیا یہ کہہ سکتا تھا کہ اے اللہ میرا فلاں عمل نیک تھا اس کا بدلا تونے نہیں دیا۔ (البدر جلد ۲ نمبر ۲۴ مورخہ ۳ جولائی ۱۹۰۳ صفحہ ۱۸۶)

الرحیم

اس کے یہ معنے ہیں کہ اللہ تعالی نیک عمل کے بدلہ نیک نتیجہ دیتا ہے جیسا کے نماز پڑھنے والا روزہ رکھنے والا صدقہ دینے والا دنیا میں بھی رحم پاوے گا اور آخرت میں بھی۔ چنانچہ الله تعالی فرماتا ہے اِنَّ اللّٰهَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ (التوبة:۱۲۰) اور دوسری جگہ فرماتا ہے فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْرًا یَّرَهٗ ٭ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا یَّرَهٗ ٭ (الزلزال: ۹،۸) یعنی اللہ تعالی کسی کے اجر کو ضائع نہیں کرتا جو کوئی ذرہ ہی کبھی بھلائی کرتا ہے وہ اس کا بدلہ پالیتا ہے۔ ( البدر نمبر ۲۴ جلد ۲ مورخہ ۳ جولائی ۱۹۰۳ صفحہ ۱۸۶)

1 (73).png
 

کامران افضال

رکن ختم نبوت فورم
صفحہ 74


رحیم


یعنی عملوں کی پاداش میں بدل دینے والا۔ بعض لوگ ایسے ہیں (خودانہی مسلمانوں میں بھی) جو اعمال کو باطل قرار دیتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں نماز کیا روزہ کیا قسمت ہوئی تو بچ جائیں گے۔ لیکن جو کچھ ہونا ہے ہوجائے گا۔ ہم کیوں خوام مخواہ تکلیف اٹھائیں۔ یہ فرقہ بڑابڑھا ہوا ہے۔ جاہل سے جاہل کا اعتقاد یہی ہے۔ قسمت پر چھوڑا ہوا ہے۔ کہتے ہیں کہ ہم نے کوئی ولی بنتا ہے جو یہ ریاضتیں کریں مگر خدا تعالی فرماتا ہے کہ میرا نام رحیم ہے جوصالح الاعمال، عشق و محبت میں محو ہوجاتا ہے اس کے مدارج بلند کروں گا۔ جتنے اولیا ء اور بڑے بڑے راست باز ہوئے ہیں ان سب نے پہلے ضرور مجاہدات کئے ہیں ۔ جب جا کر ان پر یہ دروازہ کھلا۔ قرآن مجید میں ہے وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَاؕ (العکبوت :۷۰)۔ جوینده با بندہ۔ جس نے مجاہدات کئے اسی نے پایا۔ پس یہ رحیم ان لوگوں کے رد میں ہے جو کہتے ہیں کہ جو ہونا ہے وہ ہو جائے گا۔ ہمیں عبادات کی کیا ضرورت ہے۔ غالبا چوروں ڈاکوؤں کا بھی یہی مذہب ہوتا ہے اور یہی خیالات وہ اندر ہی اندررکھتے ہیں- (بدر نمبر۱ جلد ۷ مؤرخہ ۹ جنوری ۱۹۰۸ صفحہ ۵)

خدا نے اسی سورہ فاتحہ میں فرمایا کہ وہ رحیم ہے۔ یعنی کوششوں پر نیک نتیجہ مرتب کرتا ہے۔ مثلا ایک کسان کاشتکاری کرتا ہے، آبپاشی کرتا ہے اب عادت اللہ جاری ہے وہ کسی کی کوشش کو ضائع نہیں کرتا بلکہ ایک دانے کے عوض کئی دانے دیتا ہے۔ کسی پوشیدہ حکمت یا کاشت کار کی بدعملی کی وجہ سے فصل برباد ہو جائے تویہ علیحدہ بات ہے۔ یہ شاذ و نادر کالمعدوم کا حکم رکھتی ہے۔ (بدر نمبر ۲۵ جلد ۷ مؤرخہ ۲۵ جون ۱۹۰۸ صفحہ ۳)

رحمانیت کا مظہر تا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے کیونکہ محمد کے معنے ہیں بہت تعریف کیا گیا اور رحمان کے معنے ہیں بلامزد، بن مانگے بلاتفریق مومن و کافر ( کو) دینے والا ۔ اور یہ صاف بات ہے کہ جو بن مانگے دے گا اس کی تعریف ضرور کی جائے گی۔ پس محمد میں رحمانیت کی تجلی تھی اور اسم احمد میں رحیمیت کا ظہور تھا۔ کیونکہ رحیم کے معنے ہیں محنتوں اور کوششوں کو ضائع نہ کرنے والا اور احمد کے معنے ہیں تعریف کرنے والا ۔ اور یہ بھی عام بات ہے کہ وہ شخص جو کسی کا عمدہ کام کرتا ہے وہ اس سے خوش ہو جاتا ہے اور اس کی محنت پر ایک بدلا دیتا ہے اور اس کی تعریف کرتا ہے۔ اس لحاظ سے احمد میں رحیمیت کا ظہور ہے۔ پس اللہ محمد (رحمان) احمد (رحیم) ہے۔ گویا رسول الله صلی الله علیہ وسلم اللہ تعالی کی ان دوعظیم الشان صفات رحمانیت اور رحیمیت کے مظہر تھے۔ ( الحکم نمبر ۲ جلد ۵ مورخہ ۱۷ فروری ۱۹۰۱ صفحہ۷)

1 (74).png
 

کامران افضال

رکن ختم نبوت فورم
صفحہ 75


رحم دوقسم کا ہوتا ہے ایک رحمانیت دوسرارحیمیت کے نام سے موسوم ہے۔ رحمانیت تو ایسا فیضان ہے کہ جو ہمارے وجود اور بستی سے بھی پہلے ہی شروع ہوا۔ مثلا اللہ تعالی نے پہلے پہل اپنے علم قدیم سے دیکھ کراس قسم کا زمین آسمان اور ارضی اور سماوی اشیاء ایسی پیدا کی ہیں جوسب ہمارے کام آنے والی ہیں اور کام آتی ہیں۔ اور ان سب اشیاء سے انسان ہی عام طور پر فائدہ اٹھاتا ہے۔ بھیڑ، بکری اور دیگر حیوانات جبکہ بجائے خود انسان کے لئے مفید شے ہیں تو وہ کیا فائدہ اٹھاتے ہیں؟ دیکھو جسمانی امور میں انسان کیسی کیسی لطیف اور اعلی درجہ کی غذائیں کھاتا ہے۔ اعلی درجہ کا گوشت انسان کے لئے ہے۔ ٹکڑے اور ہڈیاں کتوں کے واسطے ۔ جسمانی طور پر جوحظوظ ورلذ ات انسان کو حاصل ہیں گو حیوان بھی اس میں شریک ہیں مگر انسان کو وہ بدرجہ اعلی حاصل ہیں اور روحانی لذات میں جانور شر یک بھی نہیں ہیں۔ پس ہی دو قسم کی رحمتیں ہیں ۔ ایک وہ جو ہمارے وجود سے پہلے پیش از وقت کے طور پر تقدمہ کی صورت میں عناصر وغیرہ اشیاء پیدا کیں جو ہمارے کام میں لگی ہوئی ہیں ۔ اور یہ ہمارے وجود خواہش اور دعا سے پہلے ہیں جورحمانیت کے تقا ضے سے پیدا ہوئے۔


اور دوسری رحمت رحیمیت کی ہے۔ یعنی جب ہم دعا کرتے ہیں تو اللہ تعالی دیتا ہے۔ غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ قانون قدرت کا تعلق ہمیشہ سے دعا کا تعلق ہے۔ بعض لوگ آج کل اس کو بدعت سمجھتے ہیں ہماری دعا کا تعلق خدائے تعالی سے ہے میں چاہتا ہوں کہ اسے بھی بیان کروں۔


ایک بچہ جب بھوک سے بیتاب ہو کر دودھ کے لئے چلاتا ہے اور چینحتا ہے تو ماں کے پستان میں دودھ جوش مار کر آ جاتا ہے بچہ دعا کا نام بھی نہیں جانتا۔ لیکن اس کی چینحیں دودھ کو کیونکر کھینچ لاتی ہیں؟ اس کا ہر ایک کو تجربہ ہے۔ بعض اوقات دیکھا گیا ہے کہ مائیں دودھ کومحسوس بھی نہیں کرتیں۔ مگر بچے کی چلا ہٹ ہے کہ دودھ کو کھینچ لاتی ہے۔ تو کیا ہماری چینحیں جب اللہ تعالی کے حضور ہوں تو وہ کچھ بھی نہیں کھینچ کر لاسکتیں ؟ آتا ہے اور سب کچھ آتا ہے۔ مگر آنکھوں کے اندھے جو فاضل اور فلاسفر بنے بیٹھے ہیں وہ دیکھ نہیں سکتے۔ بچہ کو جو مناسبت ماں سے ہے اس تعلق اور رشتہ کو انسان اپنے ذہن میں رکھ کر اگر دعا کی فلاسفی پر غور کرے تو وہ بہت آسان اور سہل معلوم ہوتی ہے۔ دوسری قسم کارحم یہ تعلیم دیتا ہے کہ ایک رحم مانگنے کے بعد پیدا ہوتا ہے۔ مانگتے جاؤ گے ملتا جاوے گا۔ ادْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْ (المومن: ۲۱) کوئی لفاظی نہیں بلکہ یہ انسانی سرشت کا ایک لازمہ ہے۔ مانگنا انسان کا خاصہ ہے اور استجابت اللہ تعالی کا۔ جو نہیں سمجھتا اور نہیں مانتاو جھوٹا ہے۔ بچہ


1 (75).png
 

کامران افضال

رکن ختم نبوت فورم
صفحہ 76


کی مثال جو میں نے بیان کی ہے وہ دعا کی فلاسفی خوب حل کر کے دکھاتی ہے۔ رحمانیت اور رحیمیت دو نہیں ہیں ۔ پس جو ایک کو چھوڑ کر دوسری کو چاہتا ہے اسے مل نہیں سکتا۔ رحمانیت کا تقاضا یہی ہے کہ وہ ہم میں رحیمیت سے فیض اٹھانے کی سکت پیدا کرے جو ایسا نہیں کرتا وہ کافرنعمت ہے اِیَّاكَ نَعْبُدُ کے یہی معنے ہیں کہ ہم تیری عبادت کرتے ہیں ۔ ان ظاہری سامانوں اور اسباب کی رعایت سے جو تو نے عطا کئے ہیں۔ دیکھو! یہ زبان جوعروق اور اعصاب سے خلق کی ہے۔ اگر ایسی نہ ہوتی تو ہم بول نہ سکتے ۔ ایسی زبان دعا کے واسلے عطا کی جو قلب کے خیالات تک کو ظاہر کر سکے۔ اگر ہم دعا کا کام زبان سے کبھی نہ لیں تو یہ ہماری شوربختی ہے۔ بہت سی بیماریاں ایسی ہیں کہ اگر وہ زبان کو لگ جاویں تو ایک دفعہ ہی زبان اپنا کام چھوڑ بٹھتی ہے۔ یہاں تک کہ انسان گونگا ہوجاتا ہے۔ پس یہ کیسی رحیمیت ہے کہ ہم کو زبان دے رکھی ہے۔ ایسا ہی کانوں کی بناوٹ میں فرق آجاوے تو خاک بھی سنائی نہ دے۔ ایساہی قلب کا حال ہے۔ وہ جو خشوع وخضوع کی حالت رکھی ہے اور سوچنے اور تفکر کی قوتیں رکھی ہے۔ اگر بیماری آجاوے تو وہ سب قریبا بیکار ہو جاتی ہیں۔ مجنونوں کو دیکھو کہ ان کے قویٰ کیسے بیکار ہو جاتے ہیں۔ تو پس کیا کہ ہم کو لازم نہیں کہ ان خداداد نعمتوں کی قدر کریں ؟ اگر ان قویٰ کو جو اللہ تعالی نے اپنے کمال فنضل سے ہم کو عطا کئے ہیں بیکار چھوڑ دیں تو لاریب ہم کافر نعمت ہیں ۔ پس یاد رکھو کہ اگر اپنی قوتوں اور طاقتوں کو معطل چھوڑ کر دعا کرتے ہیں تو یہ دعا کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچا سکتی کیونکہ جب ہم نے پہلے عطیہ ہی سے کچھ کام نہیں لیا تو دوسرے کو کب اپنے لئے مفید اور کارآمد بنا سکیں گے؟ (رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ صفحہ ۱۴۹ ،۱۵۰)


رحمت الہی نے دو قسم سے اپنی ابتدائی تقسیم کے لحاظ سے بنی آدم پر ظهور و بروز فرمایا ہے۔ اول وہ رحمت جو بغیر وجود عمل کسی عامل کے بندوں کے ساتھ شامل ہوئی جیسا کہ زمین اور آسان اور شمس اور قمر اور ستارے اور پانی اور ہوا اور آگ اور وہ تمام نعمتیں جن پر انسان کی بقا اور حیات موقوف ہے کیونکہ بلاشبہ یہ تمام چیزیں انسان کے لئے رحمت ہیں جو بغیر کسی استحقاق کےمحض فضل اور احسان کے طور سے اس کو عطا ہوئے ہیں ۔ اور یہ ایسا فیض خاص ہے جو انسان کے سوال کو بھی اس میں دخل نہیں بلکہ اس کے وجود سے بھی پہلے ہے اور یہ چیزیں ایسی بزرگ رحمت ہے جو انسان کی زندگی انہیں پر موقوف ہے۔ اور پھر باوصف اس کے یہ بات کبھی ظاہر ہے کہ یہ تمام چیزیں انسان کے کسی نیک عمل سے پیدا نہیں ہوئیں بلکہ انسانی گناہ کاعلم بھی جو خدا تعالی کو پہلے سے تھا ان رحمتوں کے ظہور سے مانع نہیں ہوا اور کوئی اواگون کا قائل یا تناسخ کاماننے والا کوئی انہیں اپنے

1 (76).png
 

کامران افضال

رکن ختم نبوت فورم
صفحہ 77


تعصب اور جہالت میں غرق ہومگر یہ بات تو وہ منہ پر نہیں لاسکتا کہ یہ انسان ہی کے نیک کاموں کا پھل اور نتیجہ ہے کہ اس کے آرام کے لئے زمین پیدا کی گئی یا اس کی تاریکی دور کرنے کے لئے آفتاب اور ماہتاب بنایا گیا یا اس کے کسی نیک عمل کی جزا میں پانی اور اناج پیدا کیا گیا یا اس کے کسی زہد اور تقویٰ کے پاداش میں سانس لینے کے لئے ہوا بنائی گئی کیونکہ انسان کے وجود اور زندگی سے بھی پہلے یہ چیزیں موجود ہو چکی ہیں اور جب تک ان چیزوں کا وجود پہلے فرض نہ کر لیں تب تک انسان کے وجود کا خیال بھی ایک خیال محال ہے پھرکیو نکرممکن ہے کہ یہ چیزیں جن کی طرف انسان اپنے وجود اور حیات اور بقا کے لئے محتاج تھا وہ انسان کے بعد ظہور میں آئے ہوں پھر خود انسانی وجود جس احسن طور کے ساتھ ابتدا سے تیار کیا گیا ہے یہ تمام وہ باتیں ہیں جو انسان کی تکمیل سے پہلے ہیں اور یہی ایک خاص رحمت ہے جس میں انسان کے عمل اور عبادت اور مجاہدہ کو کچھ بھی دخل نہیں۔

دوسری قسم رحمت کی وہ ہے جو انسان کے اعمال حسنہ پر مترتب ہوتی ہے کہ جب و تضرع سے دعا کرتا ہے تو قبول کی جاتی ہے اور جب وہ محنت سے تخم ریزی کر تا ہے تو رحمت الہی اس تخم کو بڑھاتی ہے یہاں تک کہ ایک بڑا ذخیرہ اناج کا اس سے پیدا ہوتا ہے اسی طرح اگر غور سے دیکھو تو ہمارے ہر یک عمل صالح کے ساتھ خواہ وہ دین سے متعلق ہے یا دنیا سے رحمت الہی لگی ہوئی ہے اور جب ہم ان قوانین کے لحاظ سے جوالہی سنتوں میں داخل ہیں کوئی محنت دنیا یا دین کے متعلق کرتے ہیں تو فی الفور رحمت الہی ہمارے شامل حال ہو جاتی ہے اور ہماری محنتوں کو سر سبز کردیتی ہے یہ دونوں رحمتیں اس قسم کی ہیں کہ ہم ان کے بغیر جی ہی نہیں سکتے ۔ کیا ان کے وجود میں کسی کو کلام ہوسکتا ہے؟ ہر گز نہیں بلکہ یہ تواجلی بدیہیات میں سے ہیں جن کے ساتھ ہماری زندگی کا تمام نظام چل رہا ہے۔ پس جبکہ ثابت ہو گیا کہ ہماری تربیت اور تکمیل کے لئے دو رحمتوں کے دو چشمے قادر کریم نے جاری کر رکھے ہیں اور وہ اس کی دو صفتیں ہیں جو ہمارے درخت وجود کی آبپاشی کے

لئے دو رنگوں میں ظاہر ہوئے ہیں تو اب دیکھنا چاہئے کہ وہ دو چشمے زبان عربی میں منعکس ہو کر کس کس نام سے پکارے گئے ہیں۔ پس واضح ہو کہ پہلے قسم کی رحمت کے لحاظ سے زبان عربی میں خدا تعالی کورحمٰن کہتے ہیں اور دوسرے قسم کی رحمت کے لحاظ سے زبان موصوف میں اس کا نام رحیم ہے اسی خوبی کے دکھلانے کے لئے ہم عربی خطبہ کے پہلی ہی سطر میں رحمان کا لفظ لائے ہیں ۔ اب اس نمونہ سے دیکھ لو کہ چونکہ یہ رحم کی صفت اپنی ابتدائے تقسیم کے لحاظ سے الہی قانون قدرت کے دوقسم پرمشتمل تھی ۔ لہذا اس کے لئے زبان عربی میں


1 (77).png
 

کامران افضال

رکن ختم نبوت فورم
صفحہ 78


دو مفرد لفظ موجود ہیں اور یہ قاعدہ طالب حق کے لئے نہایت مفید ہو گا کہ ہمیشہ عربی کے باریک فرقوں کے پہچاننے کے لئے صفات اور افعال الہیہ کو جوصحیفہ قدرت میں نمایاں ہیں معیار قرار دیا جائے اور ان کے اقسام کو جو قانون قدرت سے ظاہر ہوں عربی کے مفردات میں ڈھونڈا جائے اور جہاں کہیں عربی کے ایسے مترادف لفظوں کا باہمی فرق ظاہر کرنا مقصود ہو جو صفات یا افعال الہی کے متعلق ہیں تو صفات یا افعال الہی کی اس تقسیم کی طرف متوجہ ہوں جو نظام قانون قدرت دکھلا رہا ہے کیونکہ عربی کی اصل غرض الہیات کی خدمت ہے جیسا کہ انسان کے وجود کی اصل غرض معرفت باری تعالی ہے اور ہر یک چیز جس غرض کے لئے پیدا کی گئی ہے اسی غرض کو سامنے رکھ کر اس کے عقدے کھل سکتے ہیں اور اس کے جوہر معلوم ہو سکتے ہیں۔ ( من الرحمان - روحانی خزائن جلد ۹ صفحه - ۱۴۷ تا ۱۲۹ حاشیہ)

رحم دوقسم کا ہوتا ہے اول رحمانیت دوسرا رحیمیت کے نام سے موسوم ہے۔ رحمانیت تو ایسا فیضان ہے کہ جو ہمارے وجود اور ہستی سے بھی پہلے شروع ہوا مثلا اللہ تعالی نے ہمارے وجود سے پیشتر ہی زمین و آسمان چاند سورج اور دیگر اشیاء ارضی و سماوی پیدا کی ہیں جو سب کی سب ہمارے کام آنے والی ہیں اور کام آتی ہیں ۔ دوسرے حیوانات بھی ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں مگر وہ جب کہ بجائے خود انسان ہی کے لئے مفید ہیں اور انسان ہی کے کام آتے ہیں تو گویا مجموعی طور پر انسان ہیں ان سب سے فائدہ اٹھانے والا ٹھہرا۔ دیکھو جسمانی امور میں کیسی اعلی درجہ کی غذائیں کھاتا ہے اعلی درجہ کا گوشت انسان کے لئے ہے ٹکڑے اور ہڈیاں کتوں کے واسطے ۔ جسمانی طور پرتو کسی حد تک حیوان بھی شریک ہیں مگر روحانی لذت میں جانور شر یک نہیں ہیں۔ پس یہ دو قسم کی رحمتیں ہیں ایک وہ جو ہمارے وجود سے پہلے ہی عطا ہوئی ہیں اور دوسری وہ جو رحمیمیت کی شان کے نمونے ہیں اور وہ دعا کے بعد پیدا ہوتے ہیں اور ان میں ایک فعل کی ضرورت ہوتی ہے۔ (الحکم نمبر۳۲ جلد ۵ مورخه ۳۱ اگست ۱۹۰۱صفحه ۲، ۳)

پھر الله تعالی کی صفت رحیم بیان کی ہے اور الله تعالی کی وہ صفت ہے جس کا تقاضا ہے کہ محنت اور کوشش کو ضائع نہیں کرتا بلکہ ان پرثمرات اور نتائج مرتب کرتا ہے اگرانسان کو یقین ہی نہ ہو کہ اس کی محنت اور کوشش کوئی پھل لاوے گی تو پھر وہ سست اور نکما ہو جاوے گا۔ یہ صفت انسان کی امیدوں کو وسیع کرتی اور نیکیوں کے کرنے کی طرف جوش سے لے جاتی ہے اور یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ رحیم قرآن شریف کی اصطلاح میں الله تعالی اس وقت کہلاتا ہے جبکہ لوگوں کی دعا تضرع اور اعمال صالح کو قبول فرما کر آفات اور بلاؤں

1 (78).png
 

کامران افضال

رکن ختم نبوت فورم
صفحہ 79


اور تضیع اعمال سے ان کو محفوظ رکھتا ہے۔ رحمانیت تو بالکل عام تھی لیکن رحیمیت خاص انسانوں سے تعلق رکھتی ہے اور دوسری مخلوق میں دعا، تضرع اور اعمال صالحہ کا ملکہ اور قوت نہیں ہی انسان ہی کو ملا ہے۔

رحمانیت اور رحیمیت میں یہی فرق ہے کہ رحمانیت دعا کو نہیں چاہتی مگر رحیمیت دعا کو چاہتی ہے اور یہ انسان کے لئے ایک خلعت خاصہ ہے اور اگر انسان انسان ہو کر اس صفت سے فائدہ نہ اٹھاوے تو گویا ایسا انسان حیوانات بلکہ جمادات کے برابر ہے۔

یہ صفت بھی تمام مذاہب باطلہ کے رد کے لئے کافی ہے کیونکہ بعض مذہب اباحت کی طرف مائل ہیں اور وہ مانتے ہیں کہ دنیا میں ترقیات نہیں ہوتی ہیں۔ آریہ جبکہ اس صفت کے فیضان سے منکر ہے تو وہ اللہ تعالی کی صفات کاملہ کا کب قائل ہوسکتا ہے؟ سید احمد خان مرحوم نے بھی دعا کا انکار کیا ہے اور اس طرح پروہ فیض جو دعا کے ذریعہ انسان کو ملتا ہے اس سے محروم رکھا ہے۔ (الحکم نمبر ۱۹ جلد ۷ مؤرخہ ۲۴ می ۱۹۰۳ صفحہ۱)

جب ہم خدا تعالی کے قانون قدرت کی طرف نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں صاف معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالی نے جو کچھ اپنے بندوں کے لئے مہیا کیا ہے یا کرتا ہے وہ دو قسم کی بخشش ہے۔ ایک تو اس کے وہ انعام اکرام ہیں جو انسانوں کے وجود سے بھی پہلے ہیں ۔ اور ایک ذرہ انسانوں کے عمل کا ان میں دخل نہیں جیسا کہ اس نے انسانوں کے آرام کے لئے سورج، چاند، ستارے، زمین، پانی، ہوا، آگ وغیرہ چیزیں پیدا کی ہیں اور کچھ شک نہیں کہ ان چیزوں کو انسانوں کے وجود اور ان کے عملوں پر تقدم ہے اور انسان کا وجود ان کے وجود کے بعد ہے۔ یہ خدا تعالی کی وہ رحمت کی قسم ہے جس کوقر آنی اصطلاح کی رو سے رحمانیت کہتے ہیں یعنی ایسی جودوعطا جو بندہ کے اعمال کی پاداش میں نہیں بلکہ محض فضل کی راہ سے ہے۔

دوسری قسم رحمت کی وہ ہے جس کوقرآنی اصطلاح میں رحیمیت کہتے ہیں۔ یعنی وہ انعام اکرام جو بنام نہاد پاداش اعمال حسنہ انسان کو عطا ہوتا ہے۔ (چشمہ معرفت - روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۲۷ ،۲۸)

رحمانیت اور رحیمیت میں فرق یہ ہے کہ رحمانیت میں فعل اورعملی کو کوئی دخل نہیں ہوتا۔ مگر رحیمیت میں فعل وعمل کو دخل ہے لیکن کمزوری بھی ساتھ ہی ہے۔ خدا کارحم چاہتا ہے کہ پردہ پوشی کرے۔ (المحکم نمبر ۳۲ مورخہ ۳۱ اگست ۱۹۰۱ صفحہ ۲)

اللہ تعالی کی اس رحمت کا نام جوبغیرکسی عوض یا انسانی عمل محنت اور کوشش کے انسان کے شامل حال ہوتی ہے رحمانیت ہے مثلا اللہ تعالی نے نظام دنیا بنا دیا، سورج پیدا کیا، چاند بنا یا، ستارے پیدا کئے، ہوا، پانی،
1 (79).png
 

کامران افضال

رکن ختم نبوت فورم
صفحہ 80


اناج بنائے ۔ ہماری طرح طرح کی امراض کے واسطے شفا بخش دوائیں پیدا کیں غرض اسی طرح کے ہزاروں ہزار انعامات ایسے ہیں کہ بغیر ہمارے کسی عمل یا محنت و کوشش کے اس نے محض اپنے فضل سے پیدا کر دیئے ہیں ۔ اگر انسان ایک عمیق نظر سے دیکھے تو لاکھوں انعامات ایسے پائے گا۔ اور اس کو کوئی وجہ انکار کی نہ ملے گی اور ماننا ہی پڑے گا کہ وہ انعامات اور سامان راحت جو ہمارے وجود سے بھی پہلے کے ہیں۔ بھلاوہ ہمارے کسی عمل کا نتیجہ ہیں دیکھو یہ زمین اور یہ آسمان اور ان میں تمام چیزہیں اور خود ہماری بناوٹ اور وہ

حالت کہ جب ہم ماؤں کے پیٹ میں تھے اور اس وقت کے قویٰ یہ سب ہمارے کسی عمل کا نتیجہ ہیں ۔ میں ان لوگوں کا یہاں بیان نہیں کرنا چاہتا جو تناسخ کے قائل ہیں مگر ہاں اتنا بیان کئے بغیررہ بھی نہیں سکتا کہ اللہ تعالی کے ہم پراتنے لا تعداد اور انعام اورفضل ہیں کہ ان کو سی ترازو میں وزن نہیں کر سکتے ۔ بھلا کوئی بتا تو دے کہ یہ انعامات کہ چاند بنایا ، سورج بنایا، زمین بنائی اور ہماری تمام ضروریات ہماری پیدائش سے بھی پہلے مہیا کر دیں یہ کل انعامات کس عمل کے ساتھ وزن کریں گے؟

پس ضروری طور سے یہ ماننا پڑے گا کہ خدا رحمٰن ہے اور اس کے لاکھوں فضل ایسے بھی ہیں کہ جومحض اس کی رحمانیت کی وجہ سے ہمارے شامل حال ہیں اور اس کے وہ عطا یا ہمارے کسی گذشتہ عمل کا نتیںجہ نہیں ہیں اور کہ جو لوگ ان امور کو اپنے کسی گذشتہ عمل کا نتیجہ خیال کرتے ہیں و محض کوته اند یشی اور جہالت کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں خدا کافضل اور رحمانیت ہماری روحانی جسمانی تکمیل کی غرض سے ہے اور کوئی دعویٰ نہیں کرسکتا کہ یہ میرےاعمال کا نتیجہ ہیں۔

الرحيم ۔ انسان کی سچی محنت اور کوشش کا بدلہ دیتا ہے ایک کسان سچی محنت اور کوشش کرتا ہے۔ اس کے مقابل میں یہ عادت اللہ ہے کہ وہ اس کی محنت اور کوشش کو ضائع نہیں کرتا اور با برگ و بار کرتا ہے شاذ و نادر حکم عدم کا رکھتا ہے۔ (الحکم جلد ۱۲ نمبر ۴۱ مورخہ ۱۴ - جولائی ۱۹۰۸ جعفہ ۲)

خدا کی صفت رحمانیت اس فرقہ کی تردید کرتی ہے جو خدا کو بلا مبادلہ یعنی بغیر ہماری کسی محنت اور کوشش کے بعض اشیاء کے عنایت کرنے والا نہیں مانتے۔ اس کے بعد خدا تعالی کی صفت الرحیم کا بیان ہے یعنی مخنتوں کوششوں اور اعمال پرثمرات سے مترتب کرنے والا۔ یہ صفت اس فرقہ کورد کرتی ہے جو اعمال کو بالکل لغوخیال کرتے ہیں اور کہے دیتے ہیں کہ میاں نماز کیا تو روزے کیا اگر غفور الرحیم نے اپنافضل کیا تو بہشت میں جائیں گے نہیں تو جہنم میں ۔ اور کبھی کبھی یہ لوگ اس قسم کی باتیں بھی کہہ دیا کرتے ہیں کہ میاں عبادتاں کر

1 (80).png
 

کامران افضال

رکن ختم نبوت فورم
صفحہ 81


کے ولی تو ہم نے بھی تھوڑا ہی بننا ۔ کچھ کیتا کیتا نہ کیتا نہ سہی۔ غرض الرحیم کہہ کر خدا ایسے ہی لوگوں کا رد کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ جو محنت کرتا ہے اور خدا کے عشق اور محبت میں محو ہو جاتا ہے۔ وہ دوسروں سے ممتاز اور خدا کا منظور نظر ہو جاتا ہے اور اللہ تعالی ایسے شخص کی خود دستگیری کرتا ہے جیسے فر مایا وَ الَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَاؕ (العنكبوت:۷۰) لیکن جو لوگ ہماری خاطر مجاہدات کرتے ہیں آخرہم ان کو اپنا راستہ دکھا دیتے ہیں ۔ جتنے اولیا ، انبیاء اور بزرگ لوگ گذرے ہیں ۔ انہوں نے خدا کی راہ )میں) جب بڑے بڑے مجاہدات کئے تو آخر خدانے اپنے دروازےان پر کھول دیئے. لیکن وہ لوگ جو خدا تعالی کی اس صفت کو نہیں مانتے عموما ان کا یہی مقولہ ہوتا ہے کہ میاں ہماری کوششوں میں کیا پڑا ہے۔ جو کچھ تقدیر میں پہلے روز سے لکھا ہے وہ تو ہو کر رہے گا۔ ہماری محنتوں کی کوئی ضرورت نہیں جو ہوتا ہے وہ آپ ہی ہوجائے گا اور شاید چوروں اور ڈاکوؤں اور دیگر بد معاشوں کا اندر ہی اندر ہی مذہب ہوتا ہوگا۔ غرض یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ خدا تعالی کے فعل دو قسم کے ہوتے ہیں ایک تو وہ ہیں جن میں اعمال کا کوئی دخل نہیں جیسے سورج چاند ہو اوغیرہ جو خدا تعالی نے بغیر ہمارے کسی عمل کے ہمارے وجود میں آنے سے ہی پیشتر اپنی قدرت کاملہ سے تیار کر رکھے ہیں اور دوسرے وہ ہیں جن میں اعمال کا دخل ہے۔ اور عابد زاہد اور پرہیز گار لوگ عبادت کرتے اور پھر اپنا اجر پاتے ہیں۔ (الحکم نمبر ا جلد ۱۲ مورخہ ۲ جنوری ۱۹۰۸ صفحہ ۲)

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِكِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ ۔ تمام محامد اس ذات معبود برحق مستجمع جمیع صفات کاملہ کو ثابت ہیں جس کا نام اللہ ہے۔۔۔ قرآن شریف کی اصطلاح میں اللہ اس ذات کامل کا نام ہے کہ جو معبود برحق اور مستجمع جمیع صفات کاملہ اور تمام رذائل سے منزہ اور واحد لاشریک اور مبدء جمیع فیوض ہے۔ کیونکہ خدائے تعالی نے اپنے کلام پاک قرآن شریف میں اپنے نام الله کوتمام دوسرے اسماء وصفات کا موصوف کرایا ہے اور کسی جگہ کسی دوسرے اسم کو یہ رتبہ نہیں دیا۔ پس اللہ کے اسم کو بوجہ موصوفیت تامہ ان تمام صفتوں پر دلالت ہے جن کا وہ موصوف ہے اور چونکہ وہ جمیع اسماء اور صفات کا موصوف ہے اس لئے اس کا مفہوم یہ ہوا کہ وہ جمیع صفات کاملہ پرمشتمل ہے۔ پس خلاصه مطلب الحمدللہ کایہ نکلا کہ تمام اقسام حمد کے کیا باعتبار ظاہر کے اور کیا باعتبار باطن کے اور کیا باعتبار ذاتی کمالات کے اور کیا باعتبار قدرتی عجائبات کے اللہ سے مخصوص ہیں اور اس میں کوئی دوسرا شریک نہیں۔ اور نیز جس قدرمحامد صحیحہ اور کمالات تامہ کوکسی عاقل کی سوچ سکتی ہے یا فکر کسی متفکر کا ذہن میں لاسکتا ہے۔

1 (81).png
 
Top