• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

مکتوبات احمدیہ

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
۱؎ النساء: ۱۴۸

مکتوبات ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۔ جلد 5

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
عرض حال
الحمدللّٰہ رب العلمین الرحمن الرحیم مالک یوم الدین۔ والصلوۃ والسلام علیٰ رسولہ محمد الامین وخاتم النبین وآلہ واصحابہ الطیبین وعلی خلفائہ الراشدین المھدین۔
امابعد خاکسار ایڈیٹر الحکم نہایت خوشی اور مسرت قلبی سے اس امر کا اظہار کرتا ہے کہ جب سے اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے اس کو اس چشمہ ہدایت کی طرف رہنمائی فرمائی اور اپنے فضل ہی سے اسے اس کے ہاتھ میں قلم اور دل و دماغ میں قوت بخشی اور سلسلہ عالیہ احمدیہ کی قلمی خدمت کے لئے اسے ایک جوش عطاء فرمایا تب ہی سے اسے یہ آرزو ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ملفوظات۔ مکتوبات اور ہر ایسی تحریروں کو جمع کروں جو حضور کے قلم سے نکلتی ہوں اور کسی منتشر حالت میں ہوں یا اندیشہ ہو کہ نایاب نہ ہو جائیں۔ محض اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے یہ موقع دیا کہ وہ الحکم کے ذریعہ آپ کے ملفوظات اور الہامات اور مکتوبات وغیرہ کو ایک حد تک جمع کر سکا۔ الحکم کے ذریعہ اس سلسلہ میں فضل ربی سے بہت کام ہوا۔ پرانی تحریروں کے جمع کرنے میں بھی ایک حد تک کامیابی ہوئی ہے۔ پرانی تحریروں کے سلسلہ میں مکتوبات کا سلسلہ شامل کر دیا گیا تھا۔ خد اکا شکر ہے کہ مکتوبات کے سلسلہ میں پانچویں جلد کا پہلا حصہ شائع کرنے کی توفیق پاتا ہوں۔ اس پانچویں جلد کے کئی حصے ہوں گے کیونکہ اس جلد میں وہ مکتوبات آئیں گے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مخلص خدام کو لکھے تھے۔ پہلی جلد مکتوبات کی جب شائع کی کئی تھی۔ اس وقت میرا خیال تھا کہ دوسری جلد میں حضرت مولانا نورالدین صاحب کے نام مکتوبات درج کروں لیکن بعد میں میرا خیال ہوا کہ مخالفین اسلام کے نام کے مکتوبات کی جلدوں کو پہلے چھاپ دوں اور مخلص خدام کے مکتوبات کا سلسلہ بعد میں رکھوں۔ چنانچہ آریوں۔ ہندئوئوں۔ برہموئوں کے نام کے مکتوبات دوسری جلد میں اور عیسائی مذہب کے لیڈروں کے نام کے مکتوبات تیسری جلد میں شائع ہوں چکے ہیں۔ چوتھی جلد میں سلسلہ عالیہ کے تلخ تریں دشمن مولوی محمد حسین بٹالوی کے نام کے مکتوبات ہیں۔ یہ مکتوبات جمع ہو چکے ہیں اور جلد تر شائع ہوں جائیں گے۔ انشاء اللہ العزیز۔ پانچویں جلد حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے مخلصین کی جلد ہے اس کے متعدد حصے ہوں گے۔ چنانچہ یہ پہلا حصہ ہے۔ حصہ دوم میں حضرت چودھری رستم علی صاحب مرحوم رضی اللہ عنہ کے نام کے مکتوبات ہیں۔
میں یہ بھی کوشش کر رہا ہوں کہ آیندہ جو مکتوبات طبع ہوں وہ حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے اپنے ہی خط کے عکس میں شائع ہوں مگر یہ بہت محنت اور کوشش اور صرف کا کام ہے احباب نے میری حوصلہ افزائی کی اور اس کام میں میری مالی مدد کی تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بعید نہیں میں اس میں کامیاب ہو جائوں کیونکہ اصل مکتوبات میرے پاس موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہی کی اوّل اور آخر حمد ہے۔ سلسلہ احمدیہ کا ادنی خدمت گزار۔
خاکسار
یعقوب علی تراب احمدی ایڈیٹر۔ تراب منزل قادیان دارالامان
الحکم آفس ۱۰؍ دسمبر ۱۹۱۸ء





حضرت مولانا مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ عنہ
کے ملفوظات
حضرت مخدوم الملۃ مولانا مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ عنہ سلسلہ احمدیہ کے ان مشاہیر صحابہ سے ہیں جو نہ صرف السابقون الاولون من المھاجرین کے گروہ میں داخل ہیں بلکہ انہوں نے سلسلہ کے لئے بڑی بڑی قربانیاں کیں اور سلسلہ ہمیشہ ان کے وجود پر اس لحاظ سے فخر کرے گا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے عرفانی نشانوں میں سے ایک ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی اس وحی میں جو حضرت مسیح موعود علیہ اسلام پر نازل ہوئی ان کا نام مسلمانوں کا لیڈر رکھا اور حضرت مسیح موعود علیہ اسلام نے آپ ان کی نوح مزار لکھی جس میں فرمایا
کے تواں کردن شمار خوبی عبدالکریم
اسی مخدوم الملۃ کے ملفوظات کو سلسلہ وار چھوٹے چھوٹے رسالوں میں شائع کرنے کا میں نے تہیہ کیا ہے تا اس نیاز مندی اور محبت کے تعلقات کا اظہار کروں جو مولانا ممدوح سے مجھے ان کی کمال شفقت اور توجہ کی وجہ سے پید اہوئے تھے اس سلسلہ میں مولانا ممدوح کے خطبات۔ مکتوبات۔ ان کی تقریریں اور لیکچر ہوں گے اور ان کی اشاعت کے بعد انشاء اللہ العزیز حیات صافی یعنی مولانا ممدوح کی سوانخ عمری ہو گی۔ لیکچروں کے سلسلہ میں یہ پہلا لیکچر ہے۔ یہ رسالے صرف اسی قدر طبع ہوں گے جو نکل سکیں۔ کاغذ اور سامان طباعت کی گرافی مجھے اس وقت تک ۴۰۰ سے زیادہ چھاپنے کی اجازت نہیں دیتی۔ اگر چالیس احباب اس سلسلہ کے دس دس رسالوں کے مستقل خریدار بن جائیں تو میں اس تعداد کو دو چند کر دوں گا۔ یہ فرض شناسی قو م کے اہل دل احباب اور مخدوم الملۃ کے مخلص دوستوں کا فرض ہو گا کہ وہ اس سلسلہ کی سر پرستی کریں۔ اس سلسلہ میں پہلا نمبر لیکچر گناہ چھپ کر شائع ہو گیا ہے۔ اس لیکچر گناہ کے بعد مخدوم الملۃ کا رسالہ القول الفصیح شائع ہو گا۔ قیمت فی رسالہ ۴؍ ہو گی۔
تمام درخواستیں اس پتہ پر ہوں۔
خاکسار
یعقوب علی تراب احمدی۔ ایڈیٹر الحکم و رسالہ احمدی خاتون قادیان
کلیات حامد
یعنی
حضرت میر حامد صاحب سیالکوٹی رضی اللہ عنہ کی تصنیفاتنظم و نثر کا مجموعہ کامل
مارچ ۱۹۱۸ء کے اوائل میں حضرت حامد شاہ صاحب رضی اللہ عنہ نے کلیات حامد کی ترتیب و اشاعت کا کام میرے سپرد فرمایا اور اس کے کل اخراجات طبع اپنے ذمے لئے اور فرمایا کہ اخراجات میں دوں گا اور اس کی آمدنی اعانت الحکم میں خرچ ہو گی۔ چنانچہ ۱۴؍ مارچ ۱۹۱۸ء کے الحکم میں کلیات حامد کا اعلان کیا گیا اور میں نے حضرت شاہ صاحب کے تمام مضامین اور رسائل کو جمع کرنا شروع کیا۔ مگر اللہ تعالیٰ کی مشیت یہی تھی کہ شاہ صاحب کی زندگی میں یہ تمام کام ختم نہ ہو چنانچہ شاہ صاحب ۱۵؍ نومبر ۱۹۱۸ء کو تین بجے صبح کے رفیق اعلیٰ سے جا ملے اور کلیات کا کام نا تمام رہ گیا۔ اب میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس کو حضرت شاہ صاحب رضی اللہ عنہ کی یاد گار کے طور پر شائع کروں۔ کلیات حامد میں حضرت شاہ صاحب کی تمام تصانیف اور تمام مضامین نظم و نثر جمع کئے جائیں گے اور اس کے اوّل شاہ صاحب قبلہ کی مختصر لائف مع فوٹو ہو گی۔
حضرت شاہ صاحب سلسلہ احمدیہ کے ایک درخشندہ گوہر اور ممتاز رکن تھے۔ ان کا نام میری کسی معرفی کا محتاج نہیں۔ جماعت کے تمام افراد میں شاہ صاحب اپنی اعلی درجہ کی متقیانہ اور نمونہ کی زندگی باعث نمایاں تھے میں ان کے دوستوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ مجھے اپنے مخدوم بزرگ کی یاد گار کے قائم رکھنے میں مدد دیں۔ سالانہ جلسہ تک کلیات حامد کی ایک جلد شائع کرنا چاہتا ہوں۔ یہ دو جلدوں میں ہو گی۔ پہلا حصہ نثر کا اور دوسرا نظم کا ہو گا۔ مکمل کلیات حامد کی قیمت ۸؍ ہو گی۔ اگر ایک سو احباب صرف چار چار جلدیں خرید لیں اور پیشگی قیمت بھیج دیں تو اس کام میں سہولت اور آسانی پید اہو سکتی ہے۔ ورنہ اللہ تعالیٰ جس طرح چاہے گااسے پورا کرنے کی توفیق دے گا۔ سالانہ جلسہ تک انشاء اللہ یہ مجموعہ شائع ہو سکے گا۔ وباللہ التوفیق۔
تمام درخواستیں ذیل کے پتہ پر آنی چاہئیں۔
شیخ یعقوب علی تراب احمدی ایڈیٹر اخبار الحکم و رسالہ احمدی خاتون۔ قادیان دارالامان









بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
مکتوب نمبر ۱
مکرمی اخویم حاجی سیٹھ اللہ رکھاعبدالرحمن صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ۔
کل کی تاریخ میں مبلغ سو روپیہ مجھ کو پہنچے۔ جزاکم اللہ خیرا کوئی خط ساتھ نہیں آیا۔ اس لئے بدستخط خود رسید سے اطلاع دیتا ہوں امید کہ ہمیشہ خیر خیریت سے مطلع اور مسرور الوقت فرماتے رہیں۔ باقی ہر طرح سے خیریت ہے۔ مخالفون کا اس طرف بہت غلبہ ہے ایام ابتلا معلوم ہوتے ہیں خدا تعالیٰ ہر ایک مومن کو ثابت قدم رکھے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۲۲؍ اگست ۹۴ء
مکتوب نمبر ۲
مکرمی اخویم سیٹھ عبدالرحمن صاحب۔ السلام علیکم ورحمۃا للہ وبرکاتہ۔
آنمکرم کی طرف ایک دفعہ سو روپیہ اور ایک دفعہ تار کے ذریعہ ڈیڑھ سو روپیہ مجھ کو کل پہنچا اور اللہ جل شانہ بعوض انددینی خدمات کے دنیا اور آخرت میں آپ کو اجر بخشے اور آپ کے ساتھ مجھ کویہ روپیہ بہت ہے اور آپ کے ساتھ مجھ کو یہ روپیہ بہت ہے اس قدر کہ وقت پر کام دیا۔ ایسا اتفاق ہوا کہ عبداللہ آتھم عیسائی اور اس کا باقی گروہ جن کی نسبت پیشگوئی ہوئی تھی کہ پندرہ ماہ کے عرصہ میں ا س کو ہر طرح کا عذاب اور ذلت پہنچے گی ان کی نسبت پیشگوئی پوری ہوئی مگر بعض شریر قبول نہیں کرتے۔ عبداللہ آتھم کی نسبت یہ الہام تھا کہ اگر وہ پندرہ مہینے تک حق کی طرف رجوع نہ کرے تو مر جائے گا چنانچہ وہ پندرہ ماہ تک مارے خوف جان بلب رہا اور شہر بہ شہر سے ڈرتا پھرا اور اس کے دماغ میں بھی خلل آ گیا اور مجھ کو خدا تعالیٰ نے بتایا کہ اس نے پوشیدہ طور پر حق کی طرف رجوع کیا لہذا اس شرط کے موافق موت سے بچے گا۔ گو ہاویہ کامزہ دیکھ لیا۔ اس لئے میں نے عیسائیوں پر حجت ثابت کرنے کے لئے پانچ ہزارا شتہار چھپوایا ہے اور اسی بارے میں ایک رسالہ انواراسلام چھایا اس پر آپ ہی کا روپیہ آمدہ خرچ ہوا یہ اشتہار اور رسائل عنقریب آپ کی خدمت میں مرسل ہوں گے ان کاخلاصہ مضمون یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنی پیشگوئی کو پورا کیا اور عیسائیوں کے بحث کرنے والے گروہ کو طرح طرح عذاب اور دکھوں میں مبتلااور عبداللہ آتھم نے پوشیدہ طور پر حقانیت اسلام کو قبول کر لیا اور اگر عبداللہ آتھم انکار کریں کہ میں نے قبول نہیں کیا تو وہ ہم سے بلاتوقف ہزار روپیہ لے اور قسم کہا جائے اور اگر وہ قسم کھا کر ایک سال تک گیا تو روپیہ اس کاہوا اور نیز ہم اقرار کردیں گے کہ ہمارا الہام غلط ہے۔ اس غرض سے یہ پانچ ہزار اشتہار چھپوایا گیا ہے۔ خدا تعالیٰ مجھ پر اچھی طرح کھول دیا ہے کہ اس کی رہائی محض اسلام کی طرف جھکنے سے ہوئی ہے لیکن اگر وہ آپ کو ہزار روپیہ طلب کرے تو پہلے سے اس کافکر ہو رہنا ضروری ہے سو اگرچہ میں آپ کے متواتر خدمات کی وجہ سے کوئی تکلیف آپ کو دینا نہیں چاہتا۔ مگر پھر خیال آتا ہے کہ ایسے کاموں میں اگر دوستوں کو نہ کہا جائے تو اور کس کو کہا جائے میں خواہش رکھتا ہوں کہ چند دوست مل کر یہ ہزار روپیہ مجھ کو بطور قرضہ کے دے دیں۔ مگر ابھی میرے پاس بھیجا نہ جائے اگر اس عیسائی نے مقابلہ کے لئے دم مارا اور روپیہ طلب کیا تو اس وقت بذریعہ تار بھیج دیں یہ روپیہ محض میرے ذمہ ہو گا اور خدا کے متواتر الہامات سے آفتاب کی طرح میرے پر روشن ہے کہ ہم فتح پائیں گے۔ لیکن ایک معاملہ کی بات کو طے کرنے کے لئے لکھتا ہوں کہ … کے طور پر جو بالکل محال ہے کافر بیدین فتح یاب ہوا تو یہ قرضہ تامل ادا کروں گا۔ ورنہ وہ ہزار روپیہ جو بطور امانت اس کے پاس ہو گا۔ واپس کر دیا جائے گا۔ مجھ کو اس کاکمال ترود ہے خداتعالیٰ بہم مجھ کو پہنچا دے اور امر کہتا … …ہر طرح پر بہم پہنچا دے گا۔ وہ قادر مطلق ہے مگر اس وقت بھیجا جائے کہ جب طلب کروں اور دیکھوں کہ اب ……ابھی اشتہار چھپ رہے ہیں۔ بلکہ جس وقت اشتہار رجسٹری کرا کر اس کے پاس پہنچایاجائے گا اور وہ روپیہ …… اس وقت درکار ہے۔ اوّل تو مجھے امید نہیں کہ وہ طلب کرے کیونکہ وہ جھوٹا ہے اوردرحقیقت جیسا کہ الہام کامنشاء ہے اس نے اسلام کی طرف رجوع کیاچاہے اور اگر طلب کرے تو خداتعالیٰ کے فضل سے بہت ذلیل ہوکر مرے گا اور ہزار روپیہ ضامسنون کے پاس باضابطہ نمسک لے کر رکھوایا جائے گا۔ امید کہ جواب سے مطلع فرمادے گے۔ باقی خیریت ہے والسلام اور واضح کہ عبداللہ آتھم کے باقی گروہ جو فریق مباحثہ تھے ہر ایک طرح کا عذاب پہنچ گیا بلکہ موتیں بھی وار ہوئیں جس کی نقل اشتہار میں درج ہے۔
فقط
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
۸؍ دسمبر ۹۴ء
مکتوب نمبر ۳
مشفق مکرمی ہمارے بہادر پہلوان حاجی سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلمہ تعالیٰ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
تار پہنچاحال یہ ہے کہ درد دغ گو حق پوش عیسائی نے قسم کھانے سے انکار کیا اس وقت دوسرا اشہتار لکھا جا رہا ہے جس میں بجائے ایک ہزار دو ہزار روپیہ انعام رکھ دیا گیا ہے امید نہیں اور ہر گز امید نہیں کہ اب بھی کھا وے لیکن یہ تمام ثواب آپ کے حصہ میں ہے آپ اب بجائے ایک ہزار کے دو ہزار کی تیاری رکھیں میں چاہتا ہو ں کہ پانچ ہزار تک یکے بعد دیگرے اشتہار دئیے جائیں اور میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ یہ پانچ ہزار روپیہ ثواب آپ کو ہر گز امید نہیں کہ وہ پلید گروہ عیسائیوں کا مقابلہ پر آوے کیونکہ جھوٹے ہیں مگر خدا جانے اس تقریب سے کیا کیا ثواب آپ کو ملے گا ایسی صورت ہو کہ جب ہم آپ سے بذریعہ تا دو ہزار روپیہ طلب کریں تو بلا توقف پہنچ جائے اور اگر دو ہزار پر بھی یہ پلید گروہ خاموش رہے تو میں تین ہزار روپیہ کا اشتہار دوں گا تو بروقت طلب تین ہزار روپیہ پہنچنا چاہئے مگر ہمیں ہر گز امید نہیں کہ وہ نصرانی قسم کھا وے کیونکہ جھوٹا ہے ان کی روسیاہی اور ان لوگوں کی روسیا ہی مطلوب ہے جو مسلمان کہلا کر ان کے رفیق بن بیٹھے ہیں شاید ایک ہفتہ تک دو ہزار روپیہ کا اشتہار آپ کے پاس پہنچ جائے گا اور غالباً یہ اشتہار دس ہزار تک چھپے گا۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
(اس خط پر تاریخ نہیں مگر مضمون سے معلوم ہوتا ہے ستمبر ۱۸۹۴ء کا ہے۔ ایڈیٹر)
مکتوب نمبر ۴
مکرمی مخلص و محب یک رنگ حاجی سیٹھ اللہ رکھا عبدالرحمن صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ۔
آنمکرم کے ایک سو روپیہ مرسلہ بذریعہ تارکل کی ڈاک میں مجھ کو ملا خداتعالیٰ ان خدمات کا بدلہ جو آپ للہ کررہے ہیں۔ دین ودنیا میں آپ کو عطافرمائے او رہر قسم کی بلا و آفت سے محفوظ رکھے آمین ثم آمین۔ آپ کا روپیہ جن دینی کاموں اور اغراض میں ہمیں کام آرہا ہے۔ اس سے اطمینان دل کے ساتھ میں سمجھتا ہوں کہ اللہ جلشانہ نے ثواب کبرا پہنچانے کا آپ کے لئے ارادہ فرمایا ہے دنیا کی حقیقت خدا تعالیٰ کے نزدیک اس قدر ہیچ ہے کہ پرپشہ کی برابر بھی نہیں اس لئے فاسق اور فاجر اور بڑے بڑے کافر بھی اس میں شریک ہیں بلکہ زیادہ دنیا میں عروج انہیں کا نظر آتا ہے پس نیک بخت مسلمان کے لئے جو سچا مسلمان ہے فکر آخرت مقدم ہے دنیا میں ہم درختوں کے پتے کھا کر بھی گزارہ کر سکتے ہیں فاقوں سے بھی بسر کرسکتے ہیں۔ لیکن آخرت کے ذلت اور آخری محتاجگی ایک ابدی موت ہے سومیں دعا کرتا ہوں کہ اللہ جلشانہ دنیا کی آفات سے محفوظ رکھ کر عاقبت کے مراتب نصیب کرے اور اپنی محبت عطا فرمائے۔ آمین۔ مجھے آپ سے دلی محبت ہے او رآپ کے لئے غائبانہ دعا کرتا رہتا ہوں اور آپ کے بھائی صالح محمد اور عالی محمد دونوں کے لئے بھی دعا کرتا ہوں کہ اللہ جلشانہ دنیا کی بلائوں سے بچاوے اور دین کی لغزشوں سے محفوظ رکھے آپ کا پہلا روپیہ بھی پہنچ گیا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۹؍ دسمبر ۹۴ء
مکتوب نمبر ۵
محب یک رنگ مکرمی اخویم حاجی سیٹھ عبدالرحمن صاحب اللہ رکھا۔ سلمہ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
کل کی ڈاک میں بذریعہ تار مبلغ پانچ سو روپیہ آنمکرم مجھ کو پہنچ گیا۔ خداتعالیٰ آپ کے ان للہی خدمات کا دونوں جہان میں وہ اجر بخشے جواپنے مخلص اور وفادار بندوں کا بخشتا ہے۔ آمین ثم آمین۔ یہ بات فی الوقعہ سچ ہے کہ مجھ کو آپ کے روپیہ سے اس قدر دینی کام میں مدد پہنچ رہی ہے کہ اس کی نظیر میرے پاس بہت کم ہے میں اللہ تعالیٰ سے چاہتا ہوں کہ آپ کو ان خدمات کا وہ بہ رحمت باداش بخشے کہ تمام حاجات درارین پر محیط ہو اور اپنی محبت میں ترقیات عطا فرمائے محض اللہ تعالیٰ کے لئے اس پر آشوب زمانہ میں جو دل سخت ہو رہے ہیں آگے سے آگے بڑھانا کچھ تھوڑی بات نہیں ہے۔ انشاء اللہ القدیر آپ ایک بڑے ثواب کا حصہ پانے والے ہیں کچھ تھوڑے دن ہوئے ہیں کہ مجھ کو خواب آیا ہے کہ ایک جگہ میں بیٹھا ہوں یک دفعہ کیا دیکھتا ہوں کہ غیب سے کسی قدر روپیہ میرے سامنے موجود ہو گیا ہے میں حیران ہوا کہ کہاں سے آیا۔ آخر میری رائے ٹھہر ی کہ خداتعالیٰ کے فرشتہ نے ہماری حاجات کے لئے یہاں رکھ دیا ہے پھر ساتھ الہام ہوا کہ انی مرسل الیکم ہدیتہ۔ کہ میں تمہاری طرف بھیجتا ہوں اور ساتھ ہی میرے دل میں پڑا کہ اس کی بھی تعمیر ہے کہ ہمارے مخلص دوست حاجی سیٹھ عبدالرحمن صاحب اس فرشتہ کے رنگ میں متمثل کئے گئے ہوں گے اور غالباً وہ روپیہ پہنچائیں گے اور اس خواب کو عربی زبان میں اپنی کتاب میں لکھ دیا۔ چنانچہ کل اس کی تصدیق ہو گئی الحمدللہ یہ قبولیت کی نشانی ہے کہ مولی کریم نے خواب اور الہام سے تصدیق فرمائی۔ اللہ تعالیٰ آپ کو خوش رکھے اور فضل سے مکروہات سے بچاوے اور آپ کے ساتھ ہو۔ میں عنقریب ایک کتاب منن الرحمن نام شائع کرنے والا ہوں شاید کل اس کے کاغذ کے لئے لاہور میں آدمی بھیج دوں۔ اس میں یہ بیان ہے کہ خداتعالیٰ نے ہم پر کیا کیا فضل کئے اور قرآن کریم کی بعض آیتوں کی تفصیل ہو گی غالباً عربی زبان میں معہ ترجمہ ہو گی باقی سب خیریت ہے۔ والسلام از طرف محبی اخویم مولوی حکیم نور دین صاحب السلام علیکم معلوم کریں۔
خاکسار
مرزا غلام احمد
۱۷؍ مارچ ۹۵ء
مکتوب نمبر ۶
مخدومی مکرمی اخویم حاجی سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
کل بذریعہ تار مبلغ یک صدروپیہ مرسلہ آنمکرم مجھ کو پہنچ گئے جزاکم اللہ خیرا الجزاء احسن الیکم فی الدنیا والعقبی۔ یہ ایک الطاف رحمانیہ ہے اور قبولیت خدمت کی نشانی ہے کہ آپ کی خدمت مالی سے اکثر پیش از وقت مجھ کو خبر دی جاتی ہے اس لئے ایسا ہی اتفاق ہوا اور دوسرے دن کے لئے بہت ہی کم ایسا معاملہ وقوع میں آیا ہے۔ واللہ اعلم یہ عاجز ان دنوں بیمار رہا ہے اور اب بھی اکثر درد سر دوران سر کی بیماری میں لاحق ہے مگر الحمد للہ کہ ہزاروں خطرناک بیماریوں سے امن ہے۔ میری متواتر علالت طبع کے باعث سے رسائل اربعہ کے طبع میں توقف ہوا اب میں خیال کرتا ہوں کہ شاید یہ کام آخر نومبر ۹۶ء تک کامل ہو جائے آیندہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے بخدمت محبی اخویم سیٹھ صالح محمد صاحب بعد سلام علیکم میری دانست میں سفر جاپان مناسب نہیں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
۶؍ جون ۹۶ء
مکتوب نمبر ۷
مخدومی مخلصی محبی حاجی سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ۔
تین روز ہوئے کہ آپ کا ملہی عطیہ یعنی سو روپیہ بذریعہ ڈاک مجھ کو ملا جزاکم اللہ خیر اء احسن الیکم فی الدنیا والعقبی جس قدر آپ اس محبت کے جوش سے جوبندگان خداکو خداتعالیٰ کی راہ میں ہوتے ہیں خدمت مالی کر رہے ہیں اس کی عوض میں ہماری بھی دعا ہے کہ خد اکریم ور حیم آپ کو دنیا و آخرت میں لازوالی رحمتوں سے مالا مال کرے اور ہر ایک امتحان اور ابتلاء سے بچاوے آمین ثم آمین۔ اس وقت انہیں رسائل کی تالیف میں مشغول ہوں۔ جن کاآنمکرم سے تذکرہ ہوا تھا چونکہ بعض امور میں یہودیوں کی شہادتیں درکار تھیں اس لئے میرے وقت کا بہت حرج ہوا۔ اب صرف ادن امور مستفرہ سے ایک امر باقی ہے جس کی نسبت محبی منشی زین الدین محمد ابراہیم نے وعدہ کیا ہے کہ جلد میں اس کا جواب بھیج دوں گا اس کے بعد میری کاروائی جلد جلد انشاء اللہ خاتمہ کو پہنچے گی خدا تعالیٰ ان پادریوں کی گروہ کوتباہ کرے انہوں نے دنیا کو بہت نقصان پہنچایا ہے آمین امید کہ ہمیشہ اپنے حالات سے خیریت آیات سے مطلع و مسرور الوقت فرماتے رہیں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
۱۹؍ اگست ۹۶ء
مکتوب نمبر ۸
مخدومی مکرمی اخویم حاجی سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ ۔
کل کی ڈاک میں مبلغ ایک سو روپیہ آنمکرم مجھ کو ملا اور حال خیروعافیت معلوم ہوا خداتعالیٰ آپ کو ان مخلصانہ خدمات کا ثواب دار دین میں بخشے اور نیز آپ کے اموال میں برکت عطا کرے۔
مکتوب نمبر ۹
مخدومی مکرمی محبی حاجی سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ۔
کل کی ڈاک میں مبلغ ایک سو روپیہ مرسلہ آن محب مجھ کو پہنچا۔ اس کے عجائبات میں سے ایک یہ ہے کہ اس روپیہ کے پہنچنے سے تخمیناً سات گھنٹہ پہلے خدائے عزوجل نے اس کی اطلاع دی سو آپ کی اس خدمت کے لئے یہ اجر کافی ہے کہ خداتعالیٰ آپ سے راضی ہے ا س کی رضا کے بعد اگر تمام جہاں ریزہ ریزہ ہو جائے تو کچھ پرواہ نہیں یہ کشف اور الہام آپ ہی کے بارہ میں مجھ کو دو دفعہ ہوا ہے۔ فالحمدللہ الحمدللہ اس وقت میں تین رسالے اتمام حجت کے لئے تالیف کر رہا ہوں اور جو دوسرے رسالہ عیسائی مذہب پر لکھ رہا ہوں۔ ان میں یہ ایک توقف ہے کہ چند یہودیوں اور ……کی کتابیں میرے پاس انگریزی میں پہنچی ہیں میں جانتا ہوں کہ ان کا ترجمہ کراکر کچھ ان کے مقاصد جو کار آمد ہوں ان رسائل میں درج کروں اور یہ رسالہ جو اب چھپ رہا ہے۔ غالباً وہ تین ہفتہ تک آپ کی خدمت میں بھیج دیا جائے گا۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
۶؍ اکتوبر ۹۶ء
مکتوب نمبر ۱۰
مخدومی مکرمی اخویم حاجی سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا میں بباعث علالت طبع تین روز جواب لکھنے سے قاصر رہا۔ آپ کی تشریف آوری کے ارادہ سے نہایت خوشی پہنچی اللہ تعالیٰ جزا اور فضل اور عافیت سے پہنچائے۔ امید ہے کہ بعد تین دن کے استخارہ مسنونہ جو سفر کے لئے ضروری ہے اس طرف کا قصد فرما دیں بجز استخارہ کے کوئی سفر جائز نہیں۔ ہمارا اس میں طریق یہ ہے کہ اچھی طرح وضو کر کے دو رکعت نماز کے لئے کھڑے ہو جائیں۔ پہلی رکعت میں سورۃ قل یا اہیا الکافرون پڑھیں۔ یعنی الحمد تمام پڑھنے کے بعد ملالیں جیسا کہ سورۃ فاتحہ کے بعد دوسری سورۃ ملایا کرتے ہیں اور دوسری رکعت میں سورۃ فاتحہ پڑھ کر سورۃ اخلاص یعنی قل ہو اللہ احد ملا لیں اور پھر التحیات میں آخیر میں اپنے سفر کے لئے دعا کریں کہ یا الٰہی میں تجھ سے کہ تو صاحب فضل او ر خیر ہے اور قدرت ہے اس سفر کے لئے سوال کرتا ہوں۔ کیونکہ تو صواقب امور کو جانتا ہے اور میں نہیں جانتا اور تو ہر ایک امر پر قادر ہے اور میں قادر نہیں سو یا الٰہی اگر تیرے انجام امر میں یہ بات ہے کہ یہ سفر سراسر میرے لئے مبارک ہے میری دنیا کے لئے میرے دین کے لئے اور انجام امر کے لئے اور اس میں کوئی شر نہیں سو یہ سفر میرے لئے میسر کر دے اور پھر اس میں برکت ڈال دے اور ہر ایک شر سے بچا اور اگر تو جانتا ہے کہ یہ سفر میر امیری دنیا یا میری دین کے لئے مضر ہے اور اس میں کوئی مکروہ امر ہے تو اس سے میرے دل کو پھیر دے اور اس سے مجھ کو پھیر دے آمین۔ یہ دعا ہے جو کی جاتی ہے تین دن کرتے ہیں یہ حکمت ہے کہ بار بار کرنے سے اخلاص میسر آجائے آج کل اکثر لوگ استخارہ سے لاپراہ ہیں حالانکہ وہ ایسا ہی سکھایا گیا ہے جیسا کہ نماز سکھائی گئی ہے۔ سو یہ اس عاجز کا طریق ہے کہ اگرچہ دس کوس کا سفر ہو تب بھی استخارہ کیا جائے۔ سفروں میں ہزاروں بلائوں کا افتمال ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ استخارہ کے بعد متولی اور متکفل ہو جاتا ہے او راس کے فرشتے اس کے نگہبان رہتے ہیں جب تک کہ اپنی منزل تک نہ پہنچے۔ اگرچہ یہ دعا تمام عربی میں موجود ہے۔ لیکن اگر یاد نہ ہو تو اپنی زبان میں کافی ہے اور سفر کا نام لے لینا چاہئے کہ فلاں جگہ کے لئے سفر ہے اللہ تعالیٰ آپ کا ہر جگہ حافظ ہو لیکن ہماری طرف سے شرط یہ ہے کہ ایام سابق کی طرح آپ صرف دس پندرہ دن نہ رہیں چالیس دن کسی طرح کم نہ رہیں ہر ایک جدائی کے بعد معلوم نہیں کہ پھر ملنا ہے یا نہیں۔ کیونکہ یہ دنیا سخت بے ثبات اور ناپائیدار ہے۔ شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ کا اس میں کیا عمدہ سخن ہے۔ بلبلے زار زارمی نالید۔ بر فراق بہار و وقت خزاں۔گفتمش صبر کن کہ باز اید۔ آن زمان شگوفہ و ریحان۔ گفت ترسم بقاوفا نکذ۔ ورنہ ہر سال گل و ہدبستان۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
۱۴؍ نومبر ۹۶ء
مکتوب نمبر ۱۱
مخدومی مکرمی حاجی سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ۔
کل تار کے ذریعہ سے مبلغ سو روپیہ مجھ کو آپ کی طرف سے پہنچ گیا۔ اللہ جلشانہ آنمکرم کو ان للہی خدمات کا دونوںجہاں میں اجر بخشے اور آپ کو محبت میں اپنی ترقیات عطا فرمائے اور آپ کے ساتھ ہو میں آپ سے دلی محبت رکھتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ اپنی کسی کتاب میں محض بھائیوں کے دعا کے لئے آنمکرم کے دینی خدمات کا کچھ حال لکھوں۔ کیونکہ اس میں دوسروں کو نمونہ ہاتھ آیا ہے اور محبان اسلام غائبانہ دعا سے یاد کرتے ہیں اور آیندہ آنے والی نسلیں اس سے فائدہ اٹھاتی ہیں اور نیز چاہتا ہوں کہ آپ کے ساتھ چند دوستوں کا بھی ذکر کروں۔ کیونکہ اللہ جلشانہ قرآن شریف میں ترغیب دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ جیسا کہ تم بعض اپنے نیک اعمال کو پوشیدہ کرتے ہو ایسا ہی بعض اوقات ان لوگوں پر ظاہر کردیتا ہے کہ اگر آیندہ کسی رسالہ میں جلد یا دیر سے ایسا لکھوں تو آپ اس سے موافقت ظاہر کریں۔ ہمارے کام محض اللہ جلشانہ کے لئے ہیں اور کسی کی نسبت وہ حالات اور واقعات جو لکھے جائیں ماشا وکلاء اس کی ہرگز نہیں اور نہ اس کے خوش کرنے کے لئے کی سخت معصیت ہے۔ بلکہ نمونہ دکھلانے کے لئے صحت نیت سے محض للہ ہو گا وانما الاعمال بالنیات اور عنقریب بعض کاغذ دستخط کے لئے آنمکرم کی خدمت میں پہنچے جائیں گے امید کہ آنمکرم بہت کوشش کر کے اور ان کی تعمیل کر دیں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر ۱۲
محبی مکرمی حاجی سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ۔
آج کی ڈاک میں مجھ کو آپ کا خط ملا۔ آپ کی بہو کی علالت طبع کا حال معلوم کر کے نہایت تردد ہو ا۔ اسی وقت دعا کی گئی۔ اللہ جلشانہ آپ پر رحم فرماوے اور صدمات سے محفوظ رکھے میں انشاء اللہ القدیر بہت دعا کروں گا۔ دنیا جائے ابتلاء اور جائے امتحان ہے یہ مرض درحقیقت بہت خطرناک اور نازک ہے اور ریہ زیادہ آفت کا تحمل نہیں رکھتا اور گل جاتا ہے اور ریہ کی آفت کے ساتھ جو لازمی تب ہو وہ دق کہلاتی ہے اللہ جلشانہ اس بلا سے بچاوے اور اس آفت سے محفوظ رکھے۔ کہتے ہیں کہ مچھلی کاتیل اس کے مفید ہوتا ہے اور بکری کے پایہ کی یخنی بھی مفیدہے۔ بر عایت ظاہر اسباب کسی حاذق ڈاکٹر سے علاج کرانا چاہئے اور یہ عاجز دعا کرتا رہے گا۔ اللہ جلشانہ شفا بخشے آمین ثم آمین۔
مکتوب نمبر ۱۳
مخدومی مکرمی حاجی سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ۔
آج کی ڈاک میں مبلغ ایک سو روپیہ آنمکرم مجھ کو ملا۔ جزاکم اللہ خیرا الجزاء واحسن الیکم فی الدنیا والعقبی۔الحمد للہ والمنت۔آپ میں صحابہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے اخلاص اور صدق کا رنگ پایا جاتاہے۔ خداتعالیٰ آپ کا نگہبان ہو اور تمام مکروہات سے آپ کو محفوظ رکھے۔ آمین۔ اس ملک میں اگرچہ غربا اور مسکین کی کثرت سے ہماری جماعت میں داخل ہو رہے ہیں مگر ابھی تک متعصب مولوی اسی سے اپنے بخل پر قائم ہیں اور ہر طرح سے منہ کھول کر لوگوں کو حق کے قبول کرنے سے روکنا چاہتے ہیں مجھے اس سے بہت خوشی ہوئی ہے کہ چند روز ہوئے ہیں کہ خداتعالیٰ کی طرف سے یہ مبشر الہام مجھے ہو ا ہے۔ انی فی الافواج آتیک بغتہ ترجمہ یعنی میں فوجوں کے ساتھ ناگاہ ترے پاس آنے والا ہوں۔ یہ کسی عظیم الشان نشان کی طرف اشارہ کی طرف معلوم ہوتا ہے اور ظاہر یہی ہے کہ بجز آسمانی نشانوں کے دنیا حق کی طرف جھکتی نظر نہیں آتی تعصب بہت بڑھ گیا ہے بخدمت عزیزی سیٹھ صالح محمد صاحب اور محبی مشفقی مرزا خدا بخش صاحب اگر وہاں ہوں السلام علیکم
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۳؍جنوری ۹۸ء
مکتوب نمبر ۱۴
مخدومی مکرمی سیٹھ اخویم صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ‘۔
بذریعہ تار مرسلہ آنمکرم بخیرو عافیت پہنچا معلوم ہوا۔الحمداللہ علی ذالک امید کہ حالات خیریت آیات سے مسرور الوقت فرماتے رہیں اس جگہ بفضل ربی خیریت ہے اخویم سیٹھ صالح محمد صاحب و مولوی سلطان محمود صاحب و دیگر احباب السلام علیکم۔
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۲؍فروری ۹۷ء
مکتوب نمبر ۱۵
مخدومی مکرمی اخویم سرا پا محبت و اخلاص حاجی سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
اس وقت ۲۴؍ مارچ ۹۷ء میں مبلغ سوروپیہ بذریعہ تار مرسلہ آن مخدوم مجھ کو ملا خداتعالیٰ آپ کو اسی للہی ہمدردی اور خدمت کے اپنے پاس سے اپنے لطف و احسان سے جزا بخشے اور اس داارلفتن میں تمام مکروہات سے بچاوے آمین ثم آمین۔ امید ہے لیکہرام کے متعلق دونوں قسم کے دو ورقہ اور ورقہ اشتہار پہنچ گئے ہوں گے اور دو رسالہ لکھے جا رہے ہیں۔ جس وقت تیار ہوں گے انشاء اللہ خدمت میں بھیج دی جائے گے۔ تمام احباب میں السلام علیکم۔
خاکسار
مرزا غلام احمد
۲۵؍ مارچ ۹۷ء
مکتوب نمبر ۱۶
مخدومی مکرمی اخویم حاجی سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ‘۔
کل کی ڈاک میں ایک نہایت عمدہ ریشمی تھان اطلس مرسلہ آنمکرم بذریعہ پارسل مجھ کو ملا۔ خد ا تعالیٰ متواتر اور متوالی خدمات کادونوں جہان میں آپ کو ثواب بخشے اور آپ پر راضی ہو اور اس بے ثبات دنیا کی مکروہات سے امن میں رکھے آمین ثم آمین۔ یہ عاجز بفضلہ تعالیٰ بخیروعافیت ہے اور تمام احباب اور اخویم مولوی سید محمد احسن صاحب بخیرو عافیت ہیں اس جگہ کے احباب میں السلام علیکم۔
خاکسار
مرزا غلام احمد
۲۱؍ رمضان المبارک ۱۳۱۲ء
مکتوب نمبر ۱۷
مخدومی مکرمی اخویم حاجی سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ‘۔
کل کی ڈاک میں مبلغ ایک سو روپیہ مرسلہ مکرم مجھ کو پہنچا جزاکم اللہ خیر االجزاء احسن الیکم فی الدنیا والعقبی اس جگہ ہندئوئوں کے ہر روزہ مقابلہ سے نہایت کم فرصتی رہتی ہے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے کوئی نشان دکھانے والا ہے امید ہے کہ آنمکرم اپنے خیر و عافیت اور تمام عزیزوں کی خیروعافیت سے مطمئن فرماتے ہیں۔ بخدمت محبی سیٹھ صالح محمد السلام علیکم۔ جو آپ نے کپڑے اور کڑے لڑکی کے لئے بھیجے تھے وہ سب پہنچ گئے ہیں۔ باقی سب خیریت ہے
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر ۱۸
مخدومی مکرمی سیٹھ اخویم حاجی عبدالرحمن صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ‘۔
آنمکرم کاخط پہنچا میں آپ کے لئے دعا کروں گا۔ آپ خداوند کریم پر بہت توکل اور بھروسہ کریں آپ سچے دل سے ہمارے اس سلسلہ کے خادم ہیں۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ خداتعالیٰ آپ کو ضائع نہیں کرے گا ہم نے دینی مصلحت اور شکر الہی کے طورپر ایک کتاب تحفہ قیصر نام بطور ہدیہ قیصرہ ہندکی خدمت میں بھیجنے کے لئے تجویز کی تھی۔ آج خواب سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید اس ارادہ میں کہ کامیاب نہ ہو ایک الہام میں ہماری جماعت کے ایک ابتلاء کی طرف بھی اشارہ ہے۔ مگر انجام سب خیروعافیت ہے۔ خداتعالیٰ نہایت توجہ سے اس سلسلہ کی مدد کرنا چاہتا ہے یہ الہام کہ انی مع الا افواج ایتک بضہصاف دلالت کر رہا ہے کہ خداتعالیٰ کا کوئی اور نشان ظہور میں آنے والا ہے باقی سب خیریت ہے۔ بخدمت محبی سیٹھ صالح محمد صاحب السلام علیکم اور اگر محبی مرزا خدا بخش صاحب ہوں تو ان کی خیریت میں بھی السلام علیکم۔
خاکسار
مرزا غلام احمد
۹؍ جون ۱۸۹۷ء
مکتوب نمبر ۱۹
مخدومی مکرمی سیٹھ اخویم حاجی عبدالرحمن صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ‘۔
مجھے بذریعہ اس خبر کے پہنچنے سے کہ آنمکرم کے گھر کے لوگوں نے یک دفعہ …………… کہ تحریر سے باہر ہے۔ اللہ جلشانہ ایک صبر بخشے علاقہ مفارفت کے خانہ داری امور کی ابتری ایک مصیبت ہے مگر چونکہ اللہ جلشانہ کا یہ فعل ہے اس لئے استقال کے ساتھ صبر کرنا ہی چاہئے اور شریعت اسلام میں اور احادیث رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم سے اس بات کی تاکید پائی جاتی ہے کہ دوسری شادی کریں۔میرے نزدیک یہ بہت مناسب ہے اللہ تعالیٰ آپ کو خوش رکھے میں نے آپ کے لئے بہت دعا کی ہے اور میں چند روز سے بعارضہ درر پہلو اور تپ اور کھانسی بیمار ہوں اور آپ کی نہایت محبت اس خط کے لکھنے کا موجب ہوئی ورنہ میں اپنے ہاتھ سے بباعث ضعف کے خط نہیں لکھ سکتا۔ اس وقت مبلغ یک صد روپیہ مرسلہ آنمکرم مجھ کو پہنچا جزاکم اللہ خیرا لجزاء واحسن الیکم فی الدنیا والعقبی۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
ضلع گورداسپور ۹۷ء
مکتوب نمبر ۲۰
مخدومی مکرمی سیٹھ اخویم صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔
کل محبت نامہ آنمکرم مجھ کو ملا یہ عاجز کئی دن تک درد گردہ اور کھانسی شدیدمیں مبتلا رہا۔ اب بفضلہ تعالیٰ تخفیف ہے۔ انشاء اللہ آرام کلی ہو جائے گا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو خوش رکھے آپ کے قادیان آنے کے ارادہ سے بہت خوشی ہوئی اللہ جلشانہ آپ کے درخت کارخانہ مقصد کو کامیابی کے ساتھ پورا کرے پھر آپ ستمبر ۹۷ء کے آخری ہفتہ میں اس طرف کا قصد کریں۔ کیونکہ اوائل ستمبر میں گرمی بہت ہوتی ہے اور یہ مہینہ عمدہ حالت پر نہیں ہوتا۔ اسی مہینہ میں اس ملک میں موسمی اور وبائی بیماریاں ہوتی ہیں مگر اس کے ختم ہونے پر سردی شروع ہو جاتی ہے اور اکتوبر کا مہینہ گویا سردی کاپیغام رسان ہوتا ہے۔ اس لئے اس ملک کی طرف جو سفر کیا جائے وہ ستمبر کے آخر یا اکتوبر کی پہلی تاریخ بہت مناسب ہے تا گھبراہٹ اور گرمی کے دن نکل جائیں اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ اور آپ کے صدق اور اخلاص اور محبت کا آپ کو اجر بخشے باقی خیریت ہے بخدمت جمیع اعزہ جو حاضر الوقت ہوں السلام علیکم۔
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
مورخہ ۷؍ جولائی ۹۷ء
مکتوب نمبر ۲۱
مخدومی مکرمی سیٹھ اخویم حاجی عبدالرحمن صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔
کل کی ڈاک میں مبلغ ایک سو روپیہ مرسلہ آنمکرم مجھ کو ملا سبحان اللہ کس قدر ملہی ہمدردی آپ کے دل وجان میں ڈال دی گئی ہے اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور ایسی تمام خدمات کا جن کو وہ دیکھ رہا ہے وہ اجر بخشے جو اس کی رحمت اور کرامت کے مناسب ہے آمین۔ بباعث رمضان ابھی کوئی کتاب چھپی نہیں انشاء اللہ بعد رمضان کام طبع بعض رسائل شروع ہو گا۔ اس وقت میں جوقریب غروب ہے طبیعت نہایت کمزور ہو جاتی ہے زیادہ نہیں لکھ سکتا تمام احباب کی خدمت میں السلام علیکم۔
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۲۶؍ جولائی ۹۷ء
مکتوب نمبر ۲۲
محبی مکرمی اخویم سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔
کل کی ڈاک میں مبلغ یک صد مرسلہ آنمکرم مجھ کو عین ضرورت کے وقت میں ملا۔ اللہ اللہ حصہ ثواب آخرت کے لئے بہت بڑا مقدر ہے۔ کبھی کسی نے منجانب اللہ کی اس اخلاص سے خدمت نہیں کی جس کو خدا تعالیٰ نے ضائع کیا ہو یہ خداتعالیٰ کا فضل ہے اور رحمت اور اس کے لطف و احسان کا ایک مقدمہ ہے کہ دلی صدق اور صفا اور اخلاص سے آپ میں مشغول رہیں واللہ لا یضیع اجر المحسنیس۔ بخدمت جمیع احباب السلام علیکم۔ چونکہ اس جگہ وہ مسجدجس میں پانچ وقت نماز پڑھی جاتی ہے بہت تنگ ہے اور کثرت نمازیوں کی ہوتی ہے اس لئے نہایت ضروت کی وجہ سے کے باعث یہ تجویز کی گئی ہے کہ اپنے احباب کے چندہ سے یہ مسجد توسیع کی جائے شاید اشتہارآج چھپ گئے ہوں گے آنمکرم کی خدمت میں بھی پہنچیں گے۔ مدراس میں جس قدر دوست اور مخلص ہوں اگر وہ اس مسجد کی توسیع کے لئے کچھ مدد فرمائیں تو بہت ثواب ہو گا۔ یہ ایک خاص فضیلت کی مسجد ہے جس کا براہین احمدیہ میں ذکر ہے تو کلاًعلی اللہ پرسوں تک عمارت شروع کرا دی جاوے گی بالفعل قرضہ کے طور پر انیٹوں وغیرہ کا بندوبست کیا گیا ہے۔ پھر جیسا جیسا چندہ آوے گا قرضہ والوں کو دیا جائے گا۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۳۱؍ جولائی ۹۷ہء
مکتوب نمبر ۲۳
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
یہ عاجز اب تک آنکھوں کے آشوب سے بیمار رہا اس لئے واقعہ وفات فرزند مرحوم اخویم سیٹھ صالح محمد صاحب پر عزا پرستی کر سکا اور آپ کی طرف کوئی خط لکھ سکا۔ اب کچھ کچھ آرام ہے۔ مگر ابھی تک آنکھ کمزور ہے۔ ہمیں وفات فرزند دلبند سیٹھ صالح محمد صاحب کا سخت رنج ہے اللہ تعالیٰ ان کو صبر عطا فرمائے چندہ مسجد دو سو روپیہ تضصیل ذیل پہنچا۔ آپ کی طرف سے پچاس روپیہ اخویم سیٹھ صالح محمد صاحب … اخویم حاجی مہدی بغدادی صاحب … اخویم دال جی لال جی صاحب … اخویم اسحاق اسمعیل صاحب سیٹھ … اخویم سیٹھ عبدالرحیم احمد صاحب … او ردوسری مد میں آپ کی طرف سے سوروپیہ پہنچا۔ اللہ تعالیٰ تمام احباب کو ان کی خدمات کا اجر بخشے آمین ثم آمین۔ امید کہ حالات خیرت آیات سے مطلع فرماتے رہیں گے اور قبل روانگی مجھے اطلاع بخشیں کہ فلاں تاریخ تک اس طرف سفر کرنے کا ارادہ ہے اللہ تعالیٰ آپ کو ہر ایک غم۔ نجات بخشے اور کامیابی عطا فرمائے اور بلائوں سے محفوظ رکھے بفضلہ وکرم آمین ثم آمین۔
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
۲۱؍ اکتوبر ۹۷ء
مکتوب نمبر ۲۴
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
کل کی ڈاک میں ایک سو روپیہ بذریعہ تار مرسلہ آنمکرم مجھ کو ملا جزاکم اللہ خیرا احسن الیکم فی الدنیا والعقبی۔ خدا تعالیٰ آپ کو خوش رکھے اور مکروہات دنیا و آخرت سے بچاوے اور اپنی محبت سے بہرہ و افرہ بخشے آمین ثم آمین۔ اس جگہ چند کتابیں بڑی سرگرمی سے چھپ رہی ہیں امید کہ دو تین ہفتہ تک بعض کتابیں چھپ جائیں گی تب آنمکرم کی خدمت میں بھی مرسل ہو ں گی باقی بفضلہ تعالیٰ ہر طرح سے خیریت ہے تمام احباب اور دوستوں کی السلام علیکم۔
خاکسار
مرز اغلام احمد از قادیان
۲۱؍ اکتوبر ۹۷ء
مکتوب نمبر ۲۵
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
کل کی ڈاک میں آپ کا عنایت نامہ ملا۔ نہایت تشویش ہوئی اللہ تعالیٰ رحم کرے۔ کل میں ایک مقدمہ کی گواہی پر جو کسی شریر نے ناحق لکھا دی ہے اور ثمن جاری کرا دیا ہے ملتان جائوں گا شاید کہ ۳۰؍ اکتوبر ۹۷ء تک واپس آئوں۔ میں نے پختہ ارادہ کیا ہے کہ چالیس روز تک قبلہ وحید سے آپ کے لئے دعا کروں گا۔ ابھی سے میں نے دعا شروع کر دی ہے انشاء اللہ سفر سے واپس آکر برابر چالیس روز تک دعا کروں گا اور امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کی حالت پر رحم فرمائے۔ آپ حمایت سلسلہ میں ایسے سرگرم ہیں کہ دل وجان سے آپ کے لئے دعا نکلتی ہے اور اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے آپ تسلی رکھیں کہ بہت ہی توجہ سے آپ کے لئے دعا کی جاتی ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
۲۸؍ اکتوبر ۹۷ء
مکتوب نمبر ۲۶
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کاعنایت پہنچا میں نہایت توجہ سے آپ کے لئے مصروف دعا ہوں اور ہمارا خداوند کریم بے حد شمار غفور رحیم ہے اس پر اس کے فضل پر بھروسہ رکھنا چاہئے میں اس دعا کو چھوڑنا نہیں چاہتا۔ جب تک اس کے آثار ظاہر ہوں اس کے کاموں سے کیوں ڈرنا چاہئے جو معدوم کر کے پھر موجود کر سکتا ہے آپ تمام شجاعت او ربہادری سے اور امولو الغرمی سے خدا تعالیٰ کے فضل کے امیدوار رہیں۔ جو لوگ صبر سے اس کے فضل کے منتظر رہتے ہیں وہی لوگ اس دنیا میں اول درجہ کے خوش قسمت ہیں۔ آپ کی ملاقات کے لئے بہت اشتیاق ہے مگر میں نہیں چاہتا کہ بے صبری اور گھبراہٹ سے آپ آویں اور مجھ کو ہر وقت اپنے حال ہر متوجہ سمجھیں خداتعالیٰ آپ کے خوشی کے ایام جلد لاوے آمین ثم آمین۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۹؍ نومبر ۹۷ء
مکتوب نمبر ۲۷
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا یہ عاجز دعا میں بد ستور مشغول اور انشاء اللہ القدیر اسی طرح مشغول رہے گا۔ جب تک آثار خیرو برکت ظاہر نہ ہوں دیر آید درست آید میرے نزدیک بہتر ہے کہ آپ بھی اس تشویش کے وقت اکیس مرتبہ کم سے کم استغفار اور سو مرتبہ درود شریف پڑھ کر اپنے لئے دعا کرلیا کریں اور اب سے مجھے یہ بھی خیال آیا ہے کہ آپ اگر اس تردد کے وقت میں قادیان میں تشریف لائیں تو غالباً دعا کی قبولیت کے لئے یہ تکلیف کشی اور بھی زیادہ موثر ہو گی سو اگر موافع اور حرج پیش نہ ہو تو بعد استخارہ مسنون ان دنوں میں جو سفر کے بہت مناسب حال میں تشریف لاویں۔ لیکن اگر راہ میں بوجہ بیماری طاعون کے تکلیف قرنطینہ در پیش ہوا اور کچھ تکلیف دہ روکیں ہوں جس کی مجھے اطلاع نہیں ہے تو اس امر کو خوب دریافت کر لیں۔ غرض تشریف لانے کے یہی دن ہیں۔ شاید آپ کا یہ کام ہی جناب الٰہی میں قابل رحم تصور ہو مگر میں بار بار آپ کو وصیتاً یہی کہتا ہوں کہ یہ تکالیف خدا تعالیٰ کے نزدیک کچھ چیز نہیں ہیں صرف ثواب اور اجر دینے کے لئے خداتعالیٰ امتحان میں ڈالتا ہے اس لئے آپ بہت استقلال اور مردانہ شجاعت اور بہادری سے بڑ ے قوی صبر سے ساتھ روز کشایش کے منتظر رہیں کہ جب وہ وقت آئے گاتو ایک دم میں فضل الٰہی شامل ہو جائے گا آپ کے لئے اس خلوص اور توجہ کے ساتھ دعا کر رہا ہوں کہ جس سے بڑھ کر متصور نہیں زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرز اغلام احمد عفی عنہ
۱۳؍ نومبر ۹۷ء
مکتوب نمبر ۲۸
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
آج کئی دن کے بعد آنمکرم کا عنایت نامہ مجھ کو ملا۔ میں اول بمقام ایک گواہی کے لئے گیا تھا۔ پھر وہاں سے آکر دومرتبہ سخت بیمار ہوگیا ایک دفعہ شدت بیماری سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا آخری د م ہے ان حالات میں بھی آپ کے لئے دعا کرتا رہا۔ اب میں نے پختہ ارادہ کیا ہے کہ ہے کہ اگر خدا تعالی چاہے جیسا کہ میں نے وعدہ کیا ہے آپ کے لئے بہت دعا کروں جب تک اس دعا کا وقت پہنچ جائے کہ اللہ تعالیٰ قبولیت سے بشارت بخشے سو آپ مطمئن رہیں وہ خدا جس پر ہم ایمان لاتے ہیں وہ نہایت رحیم اور کریم ہے اور آخرت اپنے ضعف بندوں پر رحم فرماتا ہے ابتلائوں کا آنا ضروری ہے مومن کو چاہئے کہ ایک بہادر کی طرح ان کو قبول کرے خداتعالیٰ مومن کو تباہ نہیں کرتا چاہتا بلکہ ابتلائوں کو اس کے لئے نازل کرتاہے کہ اس کے گناہ بخشے اور اس کامرتبہ زیادہ کرے میں آپ کے لئے بہت جدوجہد سے دعا کروں گا اور خداتعالیٰ پر یقین رکھتا ہوں کہ وہ میری دعا کو ضائع نہ کرے گا اور یہ خط رجسٹری کرا کر بھیجتا ہوں اور میں امید رکھتا ہون کہ ہفتہ عشرہ میں آپ ضرور میری طرف خط مفصل لکھ دیا کریں۔
والسلام
خاکسار
مرز اغلام احمد
۱۶؍ نومبر ۹۷ء
مکتوب نمبر ۲۹
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آج آنمکرم کا دوسرا عنایت نامہ پہنچا۔ آپ کے اضطراب پر دل نہایت درد مند ہوتا ہے۔ خداتعالیٰ ایسا کرے کہ مجھے جلد تر خوشخبری کا خط پہنچے میں سرگرمی سے دعا میں مشغول ہوں اور میری وہ مثال ہے کہ جیسے کوئی نہایت احتیاط سے کسی نشانہ پر تیر مارہا ہے کہ امید ہے کہ جلد یا کچھ دیر سے تیر بہدف ہو۔ میں خیال کرتا ہوں کہ میں آپ سے زیادہ اس غم میں آپ کا شریک ہوں آپ خدائے کریم و رحیم پر پورا پور ابھروسہ رکھیں کہ ہم امید رکھتے ہیں کہ ایک دن خدا تعالیٰ ہماری دعا سن لے گا۔ انہ لا ئیس من روح اللہ الاالقوم الکا فرون۔ امید کہ حالات سے جلد جلد مطلع فرماتے رہیں اور میری نصیحت یہی ہے کہ آپ نہ گھبرائیں اور نہ مضطر ہوں اور رحیم وکریم پر پورا یقین رکھیں کہ ذات عجیب در عجیب قدرتیں رکھتی ہے جن کو صبر کرنے والے دیکھ لیتے ہیں اور بے صبر شامت بے صبری سے محروم رہ جاتے ہیں بلکہ ان کا ان ایمان بھی معرض خطر میں ہی ہوتا ہے۔ خداتعالیٰ آپ کے ساتھ ہو آمین ثم آمین۔ بہتر خیال ہے کہ ان دنوں میں آپ استغفار اور ردرود شریف کا التزام بہت رکھیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جلد تر کامیاب کرے۔ آمین ثم آمین۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
۲۶؍ نومبر ۹۷ء
مکتوب نمبر ۳۰
مخدومی مکرمی اخویم حاجی سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ یہ عاجز نہایت جوش سے آپ کے لئے دعا کر رہا ہے اور امیدوار ہے کہ اللہ تعالیٰ جلد یا دیر سے دعا قبول فرماوے۔ خدا تعالیٰ کی اور فضل سے ناامید نہیں ہونا چاہئے کہ اسے فضل کرتے دیر نہیں لگتی اور میں برابر توجہ سے دعا کرتا ہوں اور کرو ں گا جب تک آثار ظاہر ہوں آپ کی ملاقات کو تو دل بہت چاہتا ہے مگر میں نہیں دیکھتا کہ ایسی صورت میں آپ سفر کریں کہ کوئی حرج یا حرج ہونا ممکن ہو ہاں اگر بغیر حرج کے ملاقات ہو سکتی ہے تو قصدفرماویں۔ اللہ تعالیٰ آپ کا نگہبان ہو اگر سفر کا قصد ہو تو روانگی سے پہلے اطلاع بھی بخشیں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
۷؍ دسمبر ۹۷ء
مکتوب نمبر ۳۱
مخدومی مکرمی اخویم حاجی سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا یہ عاجز نہایت جوش سے آپ کے لئے دعا کر رہا ہے اور امید وار ہے کہ اللہ تعالیٰ جلد یا دیر سے دعا کو قبول فرماوے خد اتعالیٰ کی رحمت اور فضل سے ناامید نہیں ہونا چاہئے کہ اسے فضل کرتے دیر نہیں لگتی اور میں برابر توجہ سے دعا کرتا ہوں اور کروں گا۔ جب تک آثار ظاہر ہوں آپ کی ملاقات کو دل بہت چاہتا ہے۔ مگر میں مناسب نہیں دیکھتا کہ ایسی صورت میں آپ سفر کریں کہ کوئی حرج یا حرج ہونا ممکن ہو ہاں اگر بغیر ہرج کے ملاقات ہو سکتی ہے تو قصدر فرماویں۔ اللہ تعالیٰ آپ کا نگہبان ہو اگر سفر کا قصد ہو تو روانگی پہلے سے اطلاع بھی بخشیں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
۷؍ دسمبر ۹۷ء
مکتوب نمبر ۳۲
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم و رحمۃ وبرکاتہ‘۔
کل کی تاریخ مبلغ ایک سو روپیہ مرسلہ آنمکرم ڈاک کی معرفت مجھ کو ملا جزاکم اللہ خیرا۔اللہ تعالی آپ کو ہر ایک متردد سے نجات بخشے بہو کی بیماری بھی بہت تردد کی جگہ ہے اللہ جلشانہ ا ن کو شفا عطا فرمائے آمین ثم آمین۔ یہ عاجز قریباً دس روز سے بیمار ہے اور کھانسی اور زکام کا اس قدر غلبہ ہے کہ طبعیت پریشان ہے اور رات کو نیند نہیں آتی گو میں اب بھی آپ کے ترودات اور بیماری بہو کے لئے دعا کرتا ہوں مگر جس وقت اللہ جلشانہ نے مجھے شفاء بخشی تب نہایت توجہ سے دعا کروں گا اس وقت صحت کی حالت ایسی خراب ہے کہ بعض وقت زندگی کا خاتمہ معلوم ہوتا ہے مگر اللہ تعالیٰ پر ہر طرح سے بھروسہ ہے وہ قادر اور رحیم اور کریم ہے میں نے جو دعا اور طاعون کے بارہ میں ایک رسالہ شروع کیا تھا اسی بیماری کی وجہ سے اس میں توقف ہوگیا۔ کیونکہ نہایت ضعف اور سیلان دماغ کی وجہ سے میں تحریر سے عاجز ہوں۔ امید کے حالات خیریت آیات مجھے مطلع فرماتے رہیں۔ میں اس وقت زیادہ طاقت نہیں رکھتا۔ گلا بھی پکا ہوا اور گلٹیاں سی معلوم ہوتیں ہیں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
۱۰؍مارچ ۹۸ء
مکتوب نمبر ۳۳
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ عین انتظار میں پہنچا۔ آپ کی خدمت میں ایک خط پہلے لکھ چکاہوں امید کہ پہنچ گیا ہو گا۔ میری طبیعت ابھی علیل ہے کھانسی اور زکام کا بہت زور ہے مگر آپ کے لئے دعا کرتا ہوں۔ امید کہ انشاء اللہ القدیر کسی وقت دعا میسر آجائے گی۔ جس سے پورے طور پر کامیابی ہو بوجہ ضعف و علالت ابھی میں بہت توجہ سے قاصر ہوں میں نے جو اپنی نسبت بعض خوابیں اور الہامات دیکھے ہیں۔ میں ان سے حیران ہوں دو مرتبہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ گویا مجھے مرض طاعون ہو گئی ہے اور درم طاعون نمودار ہے اب آج بھی یہی خواب آئی ہے اسی کے قریب قریب ایک الہام بھی ہے جو کسی رنج اور بلا پر دلالت کرتا ہے اور معبرین نے طاعون اور کبھی خارش اور حکام کی طرف سے کوئی عذاب و تکالیف اور کبھی کوئی اور فتنہ رنج و مراد لیا ہے معلوم نہیں کہ اس خواب کی کیا تعبیر ہے او رطاعون اب ہمارے گائوں میں صرف سات کوس کے فاصلہ پر ہے اللہ تعالیٰ اپنی بلائوں کا محافظ ہو۔ میں اپنے بدن میں اس قدر ضعف محسوس کرتا ہوں کہ اس قدر خط بھی مشکل سے لکھا گیا ہے زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
۲۵؍ مارچ ۹۸ء
مکتوب نمبر ۳۴
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا اس عاجز کی طبیعت ہنوز کسی قدر علیل ہے کھانسی اور زکام کا عارضہ ہے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے شفا بخشے گا میں یقین رکھتا ہوں کہ جس وقت مجھے وہ دعا آئی جو اپنی قبولیت ساتھ کہتی ہے تو اللہ تعالیٰ سب غم آپ کے دور کرے گا آپ کے خیال میں یہ کام مشکل ہیں مگر اللہ تعالیٰ کے آگے آسان ہے۔ آپ اطمینان رکھیں اور ہر گز بے قرار نہ ہوں میں یہ بھی خیال کرتا ہوں کہ آپ کو تجربہ کے بعد کہ خدا تعالیٰ ایسا قادر ہے پھر آیندہ ایسی بے قراری کبھی محسوس نہ ہو گی میں بیمار ہوں اس لئے میں نہیں چاہتا کہ آپ کو یہ موقعہ پیش آوے مگر بہر حال دعا میں مصروف ہوں۔
والسلام
خاکسار
مرز ا غلام احمد
۲۸؍ مارچ ۹۸ء
مکتوب نمبر ۳۵
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا میری طبیعت بفضلہ تعالیٰ بہ نسبت سابق اب بہتر ہے الحمد للہ علی ذالک میں اکثر اوقات بلکہ کل نمازوں میں آپ کے رفع ہجوم غموم اور حاجت براری کے لئے دعا کرتا ہوں اور ا مید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے آپ کو گرداب غموم سے بچاوے گا اور میں جانتا ہوں کہ جس قدر گھبراہٹ کو کم کیا گیا ہے وہ بھی دعائوں کااثر ہے امید کہ ہمیشہ حالات خیریت آیات سے مطلع اور مسرورالوقت فرماتے رہیں باقی سب خیریت ہے بخدمت اخویم صاحبزادہ احمد عبدالرحمن صاحب اور اخویم سیٹھ صالح محمد صاحب او راخویم مولوی سلطان محمود صاحب السلام علیکم۔
راقم خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
از قادیان
۹؍ اپریل ۹۸ء
مکتوب نمبر ۳۶
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ احمد صاحب۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کاعنایت نامہ پہنچا بد دریافت خیرو عافیت شکر کیا گیا الحمدللّٰہ علی ذالک ۔ میری طبیعت ابھی تک علیل ہے ضعف دماغ اس قدر ہو گیا ہے کہ بعض اوقات غشی کا اندیشہ ہوتا ہے بباعث کثرت سیلان آب بینی دماغ خالی معلوم ہوتا ہے ساتھ اس کے کھانسی بھی ہے باوجود اس حالت کے میں دعا سے غافل نہیں میرادل اس بات کے لئے بہت بیتاب ہے کہ مجھے صحت ہو تو میں آپ کے والد صاحب کی رفع پریشانی کے لئے اس توجہ کامل سے دعا کر سکوں جو پہلے کرتا تھا باایں ہمہ جناب باری تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں کہ میری یہ دعائیں بھی خالی نہ جائیں اس طرف طاعون نردر بہت ہے اب ضلع جہلم میں بھی جو ہم سے قریباً ایک سو پچاس میل کے فاصل پر ہے واردات شروع ہو گئی ہیں او رہوشیار پور اور جالندھر کے ضلع میں قریباً ساٹھ گائوں میں طاعون پھوٹ رہی ہے نہ معلوم اللہ جلشانہ کا کیا ارادہ ہے میں ایک رسالہ طاعون کا لکھ رہا تھا کہ اتنے میں بیماری لاحق حال ہو گئی ہے او راللہ جلشانہ سے امید کرتا ہوں کہ مجھے پوری صحت عطا فرمائے زیادہ خیریت ہے بخدمت مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب آپ کے والد صاحب کے سلام مسنون سنا گیا ہے کہ پنجاب کی راہ بند ہو جائے گی۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
۲؍ اپریل ۹۸ء
مکتوب نمبر ۳۶
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آج کی ڈاک میں یک صد روپیہ مرسلہ آنمکرم ملا۔ جزاکم اللہ خیرا واحسن الیکم فی الدنیا والعقبی آمین ثم آمین۔ عجیب اتفاق ہے میں ضرروتوں کے وقت آپ کی طرف سے مدد پہنچتی ہے یہی دلیل اس بات پر ہے کہ اللہ جلشانہ ہر گز آپ کو ضائع نہیں کرے گا۔ حسن من نصراللہ نصرۃ۔ میری طبیعت بہ نسبت سابق اب بہت اچھی ہے۔ غالباً کسی نماز میں بھی آپ دعا سے فراموش نہیں رہتے آپ کے لئے دلی توجہ سے اور خلو ص سے بہت دعا ہو چکی ہے مجھے یقین ہے کہ یہ دعائیں ضرور اپنا اثر دکھائے گی۔ بلکہ جس قدر گھبراہٹ کے زمانہ میں اللہ تعالیٰ کوئی صورت تخفیف کی نکالتارہا ہے۔ درحقیقت یہ دعائوں کا اثر ہے وہ ہر ایک چیز پر قادر ہے۔ جو چاہتا ہے کرتا ہے امید کہ اپنے حالات سے مجھے جلد جلد خبر دیتے رہیں جب تک قبولیت دعا کے پورے طور پر آثار ظاہر ہوں باقی خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۱۵؍ اپریل ۹۸ء
مکتوب نمبر ۳۸
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا خیرو عافیت اورآثار خدا تعالیٰ کے فضل کا حال سن کر بہت خوشی ہوئی۔ الحمدللہ علی ذالک۔ اللہ جلشانہ بہت غفور رحیم ہے میں بفضلہ تعالیٰ خیریت ہوں اس طرف طاعون کا بہت زور ہے سنا ہے ایک دو مشتبہ وارداتیں امرتسر میں بھی ہوئی ہیں چند روز ہوئے ہیں میرے بدن پر گلٹی نکلتی تھی پہلے کچھ خوفناک آثار معلوم ہوئے مگر پھر خداتعالیٰ کے فضل سے اس کا زور جاتا رہا یہ ایک جدا ہاتھ میں عذود پھول گئے تھے اور یہ طاعون جوڑوں میں ہوتی ہے پس گوش یاکنج ران یا زیر بغل یا کوئی جوڑ کی جگہ جیسا کہ ہاتھ کے جوڑ یا پیروں کے تپ ساتھ ہوتا ہے۔ ہم خداتعالیٰ کے فضل سے امید رکھتے ہیں کہ ہر ایک طرح ہمارے احباب کو اس بلا سے بچاوے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
۲۵؍ اپریل ۹۸ء
مکتوب نمبر ۳۹
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
کل حالات شروو آپ کے خط سے معلوم ہو گئے۔ اب پھر میں اللہ تعالیٰ کے فضل کرم سے دعا میں توجہ بڑھا دوں گا اور کوشش کروں کہ اللہ تعالیٰ میری دعا کو قبول فرمائے۔ آپ جلد جلد اطلاع بھیجتے رہیں اور بہتر ہے کہ ہرروز مجھے اطلاع دیں زیادہ کیا لکھوں آپ کے تردد سے بہت تشویش میں طبیعت ہے خدا تعالیٰ اس تشویش کو دور فرماوے۔ آمین۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
۳؍ مئی ۹۸ء
مکتوب نمبر ۴۰
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کا عنایت نامہ خیریت شمامہ پہنچا بددریافت فضل الٰہی اور خیرو عافیت بدر گاہ بار یتعالیٰ شکر کیا گیا۔ میں بمع اپنے دوستوں کے اور اہل وعیال کے خیروعافیت سے ہوں۔ اس طرف طاعون چمکتی جاتی ہے اب اسی کے قریب گائوں جن میں زور و شور ہو رہا ہے قادیان میں یہ حال ہے کہ لڑکوں اور جوانوں اور بڈھوں کو بھی خفیف سانپ چڑھتا ہے۔ دوسرے دن کانوں کے نیچے یا بغل کے نیچے یا ران میں گلٹی نکل آتی ہے ایک گلٹی مجھے بھی نکلی اور پہلے بھی ایک نکلی تھی اور میرے لڑکے بشیر احمد بھی ایک دن تپ چڑھ کر پھر کانوں کے مقابل گال کی طرف گلٹی آئی۔ مولوی صاحب حکیم نورالدین صاحب کے داماد کو بغل کے نیچے گلٹی نکلی میر ناصر نواب صاحب کے لڑکے اسحاق کو کنج ران میں تپ کے بعد گلٹی نکل آئی۔ مگر خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ تپ اس قدر خفیف کہ کام والے لوگ اس میں کرتے ہیں نہ بے قراری نہ سردرد نہ کوئی گھبراہٹ … … وہی حالت جو صحت کی ہوتی ہے موجود رہتی ہے لڑکے بے تکلف ہنستے پھرتے ہیں اور گلٹی تیسرے چوتھے روز خود بخود تحلیل ہو کر کم ہو جاتی ہے۔ کسی کو ایک ذرہ خیال نہیں ہوتا کہ کب ہوئی اور کب گئی۔ بلکہ اس کو مرض ہی نہیں سمجھتے۔ تمام لوگ خوب راضی اور خوشی او راپنے کاموں میں مشغول ہیں۔ یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے اور اردگرد سخت خوفناک موتیں ہو رہی ہیں۔ سنا ہے کہ کلکتہ میں بھی طاعون پھوٹی ہے شاید یکم مئی ۹۸ء کو چوبیس وارداتیں ہوئیں امید کہ آپ ہمیشہ اپنے حالات خیریت آیات سے مطلع فرماتے رہیں۔ میں نے عید کے دن طاعون کے بارے میں ایک جلسہ کیا تھا وہ اشتہار چھپ رہا ہے جب چھپ چکے گا ارسال کروں گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
۱۵؍ مئی ۹۸ء
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
مکتوب نمبر ۴۱
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آج کی ڈاک میں مبلغ ایک سو روپیہ مرسلہ آنمکرم مجھ کو پہنچ گیا جزاکم اللہ خیرا مجھے خدا تعالیٰ کے فضل سے بعض اوقات میں آپ کے لئے دعا کرنے کا بہت عمدہ اتفاق ہوا ہے اور میں جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ فضل کرے گا۔ امید کہ حالات موجودہ سے اطلاع بخشیں اور جلد جلد خط بھجتیں رہیں یہ آپ کے ذمہ ہے زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۸؍ مئی ۹۸ء
مکتوب نمبر ۴۲
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا اللہ تعالیٰ آپ کی تکالیف دور فرماوے اگر تفکرات ہوں تو مجھے ہر روز خط لکھتے رہیں تا توجہ سرگرمی سے رہے اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے کریم ہے بڑی بڑی امیدں اس کی ذات پا رہیں امید قوی ہے کہ وہ فضل کرے گا او رکوئی راہ نکالے گا میں یقینا سمجھتا ہوں او ر اس پر ایمان رکھتا ہوں جو کچھ سخت ترودات کے وقت میں خدا تعالیٰ غم کو کم کرتا ہے وہ اسی کا فضل ہے اور اس کی استجابت دعا کا اثر ہے امید رکھتا ہوں کہ آپ ہر روز کارڈ سے مجھ کو اطلاع بخشتے رہیں گے۔ والسلام۔ عزیزی سیٹھ احمد عبدالرحمن صاحب کی اہلیہ کے لئے بھی دعا کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک ابتلاء سے بچاوے آمین۔
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۱۶؍ مئی ۹۸ء
مکتوب نمبر ۴۳
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
مبلغ ایک سو روپیہ مرسلہ آنمکرم مجھ کو مل گیا ہے جزاکم اللہ خیرا الجزا۔ جو کچھ آنمکرم کے حل مشکلات کے لئے دعا کی جاتی ہے اس کی تفصیل او رتصریح کی کچھ ضرورت نہیں اللہ جلشانہ سے چاہتا ہوں کہ ان دعائوں کے آثار آپ کے کسی خط سے مسنون اللہ تعالیٰ ہر ایک امر پر قادر ہے۔ امید کہ حالات خیریت سے آیات مسرورالوقت فرماتے رہیں۔
والسلام
خاکسار
مرز اغلام احمد ازقادیان
۲؍ جون ۹۸ء
مکتوب نمبر ۴۴
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کا عنایت نامہ مجھ کو ملا۔ میں بفضلہ تعالیٰ آپ کے لئے دعا میں مشغول ہوں آپ ہرگز دل برداشتہ نہ ہوں۔ کیونکہ درحقیقت خدا تعالیٰ مظہر العجائب ہے تاریکی سے روشنی نکال دیتا ہے۔ سب کچھ کر سکتا ہے ہر ایک بات پر قادر ہے سو اس کی طرف جھکتے رہیں او رمجھے ایسے حالات سے خبر دیتے رہیں۔ آپ کے صاحبزادے صاحب کو بشوق السلام۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
۷؍ جون
مکتوب نمبر ۴۵
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا میں اس قدر آپ کے لئے دعا میں لگا ہوا ہوں۔ جس کی تفصیل آپ کے پاس کرنا ضروری نہیں خدا وند علیم بہتر جانتا ہے میں آپ کے تار کامنتظر نہیں زیادہ مجھے اس بات کا انتظار ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے بشارت کی تار پہنچے یہ حالتیں عسرویسئر کی دنیا میں ہوتی رہتی ہیں مگر بڑی بہادری دولت یہ ہے کہ ایسے تقریبوں سے انسان کو خداتعالیٰ پر زیادہ یقین پیدا ہو جائے جب کہ میں آپ کے لئے دعا کرتا ہوں جس کو میں جانتا ہوں کہ وہ حضرت جلشانہ میں قدر رکھتی ہے تو پھر آپ کو زیادہ تر قلق او رکرب میں رہنا نہیں چاہئے دنیا کے کے محبوب لوگ جن کو خداتعالیٰ سے بلاواسطہ او رنہ بے واسطہ کچھ تعلق ہوتا ہے۔ اگر وہ غموں کے صدموں سے مر بھی جائیں تو کچھ تو عجب نہیں مگر جس یہ تقریب پیش آئے جو آپ کو میسر آئی ہے اس کو غم کرنا اس تقریر کی ناقدر شناسی ہے دنیا تماشا گاہ ہے کبھی انسان عروج میں گویا افلاک تک پہنچتا ہے اور کبھی خاک میں مگر جولوگ خد اکی طرف اور خدا کے بندوں کی طرف جھکتے ہیں وہ ضائع نہیں کئے جاتے ان اللہ لا یضع اجر المحسنین۔ میں ہر ایک رات پیام بشارت کا منتظر ہوں اور میں خدا وند کریم کو جس قدر فی الوقع رحیم کریم دیکھتا ہوں میرے پاس الفاظ نہیں کہ میں بیان کروں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
یکم جولائی ۹۸ء
مکتوب نمبر ۴۶
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا میں یہ خط ا س غرض سے رجسٹری کرا کر بھیجتا ہوں کہ میں آپ کے ترودات اور تفکرات او رحالت اضطرا ب سے غافل نہیں ہوں ہر روز رو باسمان ہوں کہ کب خدا تعالیٰ کے فضل سے مشکل کشائی ہوتی ہے او رمیر ایقین او رمیرا ایمان ہے کہ خدا تعالیٰ نہایت رحیم اور کریم ہے وہ ضرور دعا سنے گا۔ میں امید رکھتا ہوں کہ آپ زیادہ فکر کرنے سے اس ثواب کو کم نہ کریں جو اس غم کی حالت میں آپ کو ملے گا میں عین دعا کے ساتھ اس خط کو روانہ کرتا ہوں او ر خدا کے فضل ……… پر نظر ہے
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
۱۵؍ جولائی ۹۸ء
مکتوب نمبر ۴۷
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
کل کی ڈاک میں مبلغ ایک سو روپیہ مرسلہ آنمکرم مجھ کو مل گیا خدا تعالیٰ آپ کو بہت بہت جزائے خیربخشے کہ باوجود اس قدر انواع اقسام ترودات کے اس ہموم و غموم کے وقت میں آپ للہ خدمت میں سرگرمی سے مصروف ہیں لیکن باوجود اس علم کے کہ یہ کام اخلاص کا جوش آپ سے کراتا ہے پھر بھی خوشی سے ظاہر کرتا ہوں کہ جب تک یہ ہموم دور نہ ہوں اس وقت تک تکلیف نہ فرمائیں۔ میں ہرگز دعامیں قاصر نہیں ہوں گااور دعا کو نہیں چھوڑوں گا۔ جب تک صریح آثار نہ دیکھوں اور میں دعا میں مشغول ہوں اور خداتعالیٰ کے فضل کا ہروقت ہر لحظہ منتظر ہوں۔ والسلام۔
خاکسار
مرزا غلام احمد
۱۷؍جولائی ۹۸ء
مکتوب نمبر ۴۸
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ سلمہ۔ السلام و علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
عنایت نامہ پہنچا عاجز آپ کے لئے نماز میں اور خارج کے دعا میں مشغول ہے جس ذوالجلال خدا کی جنا ب میں دعا کی جاتی ہے۔ وہ قدرت اور رحمت دونوں صفات اپنی ذات میں رکھتا ہے صرف ایک امر کی دیر ہے عقل مند کسی آزمائش کے بعد پھر اس میں شک نہیں کرسکتا میں بے شمار مرتبہ اس غفوو رحیم کی رحمتوں کو آزمایا اور دیکھا ہے آپ کو وہ الہام یاد ہوگا۔ قادر ہے وہ بادشاہ ٹوٹا کام بناوے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ نہایت یقین سے آپ اس ذات پاک رب جلیل پر یقین رکھیں مجھے جس قدر اپنی دعاؤں کے قبول ہونے پر وثوق ہے یہ ایک ایسا راز ہے کہ میرے خدا کے سوا کسی کو واقعی اور پورا علم اس کا نہیں ہے فاالحمدللہ۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
۲۶؍جولائی۹۸ء
از قادیان
مکتوب نمبر ۴۹
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ سلمہ۔ السلام و علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
عنایت نامہ پہنچا اللہ جلشانہ آپ کے نیت خیر سے صد ہا حصہ زیادہ آپ سے معاملہ کرے آمین۔ میں آپ کے لئے دعا میں مشغول ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ قبولیت کی بشارت سنوں مجھے اس قد خدا تعالیٰ کے لطف احسان پر امید ہے کہ ان کا اظہار مشکل ہے اور بغیر کسی فخر کے مجھے یقین ہے کہ میری دعا معمولی نہیں۔
ہرآن کا ریگہ گردواز دعائے محوجانانے۔: نہ شمشیر ے کندآن کارونے بادے نہ بارانے
عجب وارد اثر دستے کہ دست عاشقی باشد۔: بگر واند جہانے رازبہر کارگریانے
اگر جنبد لب مردے زبہر آنکہ سرگردان۔: خدا از آسمان پیدا کند ہرنوع سا مانے
زکار اوفتادہ راہر کارمی آروخدازین رہ۔: ہمین باشد دلیل آنکہ ہست از خلق پہنانے
مگر باید کہ باشد طالب او صابر و صادق۔: بیند روز نو میدی وفا دار ازدل وجانے
خاکسار
مرزا غلام احمد
از قادیان
۵؍اگست ۹۸ء
مکتوب نمبر ۵۰
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ سلمہ۔ السلام و علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
مبلغ ایک سو روپیہ مرسلہ آنمکرم پہنچا احسن الجرا کم۔ اب دعائیں جناب حضرت عزت میں آپ کے لئے کما ل کو پہنچ گئیں۔ ہر گز امید نہیں کہ خدا تعالیٰ ان دعائوں کو ضائع کرے امید کہ آپ اپنے رویا سے بھی اگر ہو تو مطلع کریں مجھ کو یاد ہے کہ جب میں نے قادیان میں آپ کو کہا تھا تو ایک مبشر رویا آپ کو ہوئی تھی اورمیں منتظر بشارت الہام کا ہوں۔ جس وقت الہامی بشارت ہوئی تو بذریعہ خط یا بذریعہ تار اطلاع دوں گا باقی سب طرح سے خیریت ہے خداتعالیٰ آپ کومعہ عزیزوں کے آفات سے محفوظ رکھے آمین۔
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
از قادیان
۲۲؍ اگست ۹۸ء
مکتوب نمبر ۵۱
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ سلمہ۔ السلام و علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
مبلغ سو روپیہ کی رسید پہلے لکھ چکا ہوں امید کہ اپنے حالات خیریت آیات سے مطلع فرماتے رہیں اس طرح تک پہنچنا تھا کہ آپ کے عنایت نامہ پہنچ گیا اللہ تعالیٰ ہر ایک فتنہ اور بلا سے بچاوے اس جگہ طاعون کے لئے ایک دو اتیار ہوئی ہے خدانخواستہ اگر مدراس کے قریب آگیا تو وہ دو ا بھیج دوں گا اور آپ تسلی رکھیں آپ کے لئے دعا میں مشغول ہوں مناسب ہے ہیضہ کے دنوں گھر کے تمام لوگ دو وقت دو دورتی کونین کھاویں۔ ثقیل چیزوں او رمچھلی اور گوشت کی بوٹی اور عفونت پیدا کرنی والی چیزوں سے حتی الوسع پرہیز کریں اور کھانے میں کسی قدر ترشی استعمال کریں اور خدا تعالیٰ سے دعا کرتے رہیں۔ میں برابردعا میں مشغول ہوں بے قرار نہیں ہونا چاہئے دعائیں منظور ہو جاتی ہیں کسی وقت پر ان کا ظہور موقوف ہوتا ہے خدا تعالیٰ پر بہت یقین اور بھروسہ رکھنا چاہئے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
۲۸؍ اگست ۹۸ء
مکتوب نمبر ۵۲
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ سلمہ۔ السلام و علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
کل کی ڈاک میں مبلغ ایک سو روپیہ مرسلہ آنمکرم مجھ کو ملا جزا کم اللہ خیراالجزا۔ آپ کا عنایت نامہ بھی مجھ کو ملا۔ میں اس بات پر یقین کامل رکھتا ہوںکہ جس قدر میں نے آپ کے حق میں دعا کی ہے اور کر رہا ہوں گو بظاہر ابھی کچھ بھی آثار نہ ہوں تب بھی پوشیدہ طور پر آپ کے لئے بہتری کی تجویز ہے بلکہ شاید آپ کی بہتری کی غرض سے بعض اور ہم پیشوں کی بہتری بھی ہو جائے اور میں ابھی تک دعا میں سست نہیں ہوا۔ شاید آپ جس وقت سوتے ہیں اس وقت میں آپ کے لئے دعا میں مشغول ہوتا ہوں۔ آپ کی یہ نہایت خوشی قسمتی ہے کہ خداتعالیٰ نے آپ کو نہایت نیک اور پختہ اعتقاء بخشا ہے پس یہی ایک چیز ہے جس سے فتح یابی کی امید ہو سکتی ہے کیونکہ جس قدر اعتقاد ہوتا ہے اسی قدر دعا میں تحریک بھی ہوتی ہے سو ایک پاک دانائی ہے جو ہر ایک کو میسر نہیں آتی جو آپ کے دل میں ڈالی گئی ہے اللہ تعالیٰ جلد تر آپ کو اپنے مقاصد میں کامیاب فرمائے آمین۔ اور ان دنوں میں یہ دعا بھی کر رہا ہوں کہ خداتعالیٰ مدراس کو ہیضہ سے نجات بخشے اور طاعون سے محفوظ رکھے اور دونوں بلائوں سے آپ کو او رآپ کے عزیزوں سے دور رکھے امید کہ حالات خیریت آیات سے ہمیشہ مطلع فرماتے رہیں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
۲؍ ستمبر ۹۸ء
مکتوب نمبر ۵۳
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ سلمہ۔ السلام و علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
عنایت نامہ پہنچا جو کچھ آپ نے لکھا ہے آپ کے صدق و اخلاص پر قوی نشانی ہے میں نے جو لکھا تھا اس کے لکھنے کے لئے یہ تحریک پید اہوئی تھی جو چند ہفتہ ہوئے ہیں مجھے الہام ہوا تھا۔ غثم لہ۔ دفع البلامن مالہ دفعۃً۔ اس میں تفہیم یہ ہوئی تھی کہ کوئی شخص کسی مطلب کے حصول پر بہت سا حصہ اپنے مال میں سے بطور نذر بجھوائے گا۔ میں نے ا س الہام کو اپنی کتاب میں لکھ دیا تھا۔ بلکہ اپنے گھر کے قریب دیوار پر مسجد کی نہایت خوشخط یہ الہام لکھ کر چسپاں کر دیا اس الہام میں نہ کسی مدت کا ذکر ہے کہ کب ہوگا اور نہ کسی انسان کا ذکر ہے کہ کس شخص کو ایسے کامیابی ہو گی یاایسی مسرت ظہور میں آئے گی۔ لیکن چونکہ میر ادل آنمکرم کی کامیابی کی طرف لگا ہوا ہے اس لئے طبیعت نے یہی چاہا کہ کسی وقت اس کے مصداق آپ ہی ہوں اور خداتعالیٰ ایسا کرے کیا اللہ جلشانہ کے نزدیک لاکھ دو لاکھ روپیہ کچھ بڑی بات ہے دعائوں میں اثر ہوتے ہیں مگر صبر سے ان کا ظہور ہوتا ہے میرے نزدیک نہایت ہی خوش قسمت وہ شخص ہے جو ہمیشہ اپنے تئین دعا کے سلسلہ کے نزدیک رکھتا ہے اگر تمام جہاں اس قول کے برخلاف ہو جائے تب بھی وہ سب غلطی پر ہیں دعا سے بڑے بڑے انقلاب پید اہو جاتے ہیں وہ عازمین سے لے کر آسمان تک اپنا اثر رکھتی ہے۔ عجیب کرشمے دکھاتی ہے ہاں پوری طور پر اس زندہ عاکا ظہورمیں آجانا اور ہو جانا یہی خداتعالیٰ کے فضل پر موقوف ہے۔ میں آپ کے شدت اخلاص کی وجہ سے اس میں لگا ہوا ہوں کہ اعلیٰ درجہ کی زندہ دعا آپ کے حق میں ہو جائے۔ اور جس طرح شکاری ایک جگہ سے دام اٹھاتا ہے اور دوسری جگہ بچھاتا ہے تا کسی طرح شکار مارنے میں کامیاب ہو جائے۔ اس طرح میں ہر طرح سے دعا میں روحانی حیلون کو استعمال میں لاتا ہوں اگر میں زندہ رہا تو انشاء اللہ القدیر والموفق میں اسباب کو اسی قادر کے فضل وکرم اور توفیق سے دکھائوں گا کہ زندہ دعا اس کو کہتے ہیں ہمارا خدا بڑی قدرتوں والاہے اس پر ایمان لانا اور اس کے صفات کو جاننا بھی ایک سرور بخشتا ہے وہ خدا ایک مردہ اور ناامید کو ازسر نو امید دیتا ہے کو اس کے داصل ہوں ان کابڑا معجزہ یہی ہے کہ ان کی فوق العادت دعا منظور ہو جائے اور وہ کسی تباہ کشتی کو کناہ لگا سکیں او راس کا مال اور جانیں بچا سکیں۔ باقی خیریت ہے تمام عزیزوں کو سلام دعا۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۳؍ اکتوبر ۹۸ء
مکتوب نمبر ۵۴
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ سلمہ۔ السلام و علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
دو عنایت نامے یکے بعد دیگرے پہنچے بدریافت خیروعافیت اطمینان ہوا خداتعالیٰ آپ کو جزا ئے خیر دے کہ آپ ہر ایک کام میں للہ خدمتیمن سبقت لے جاتے ہیں اللہ جلشانہ یہ تمام مخلصانہ خدمات دیکھتا ہے اور ان کے موافق اجر دے گا مجھے بیماری دورہ سے دامنگیر ہوتی ہے۔ چند روز اچھی حالت رہتی ہے او رپھر دورہ مرض ہو جاتا ہے۔ یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے شفا عنایت فرمائے گا۔ ایسی حالت دعائوں کے لئے بہت مناسب حال ہے رات کو کئی مرتبہ اٹھتا ہوں اور دعا کو موقعہ خوب نکل آتا ہے او رطبیعت کی بے قراری اور شکتگی خود دعا کے مناسب حال ہوتی ہے الحمدللہ کہ آپ کے لئے دعائوں کابڑا ذخیرہ جمع ہو گیا ہے میں خدائے ذوالفضل و الکرم سے امید رکھتا ہوں کہ یہ دعائیں خالی نہ جائیں امید کہ اپنے حالات خیریت آیات سے مجھ مسرور الوقت فرماتے رہیں زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرز اغلام احمد
۲۰؍ اکتوبر ۹۸ء
مکتوب نمبر ۵۵
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلمہ۔ السلام و علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
پہلے خط کے روانہ کرنے کے بعد آج مبلغ سو روپیہ مرسلہ آنمکرم بذریعہ ڈاک مجھ کو ملا میں آپ کی اس صدق و اخلاص سے نہایت امیدوار ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ضائع نہیں کرے گا۔ مجھے آپ کے روپیہ سے اپنے کاروبار میں اس قدر مدد ملتی ہے کہ میں بیان نہیں کر سکتا جزاکم اللہ جزالجزء یہی عملی حالت ہے کہ جو خدا تعالیٰ کے فضل وکرم پر بہت ہی امید دلاتی ہے۔ چونکہ مجھے اپنے سلسلہ طبع تک میں ایسی حاجتیں پیش آتی ہیں اور مجھے اس سے زیادہ دنیا میں کوئی غم نہیںکہ جو میں بوجہ نہ میسر آنے مالی سر مایہ کے طبع کتب دینہ سے مجبور رہ جائوں۔ اس لئے میں ایک یہی حکمت عملی کے متعلق دیکھتا ہوں کہ آپ ایک نذر مقرر کر چھوڑیں کہ اگر عمدہ کامیابی امور تجارت آپ کو میسر آوے تو آپ یکمشت نذرا س کارخانہ کے لئے ارسال فرماویں کیا تعجب ہے کہ خدا تعالیٰ آپ کے اس صدق اور اخلاص پر نظر کر کے وہ کامیابی آپ کے نصیب کرے کہ جو فوق العادت ہو ااور اس ذریعہ سے اس اپنے سلسلہ کو بھی کافی مدد پہنچ جاوے کیونکہ اب یہ سلسلہ مشکلات میں پھنسا ہوا ہے اور شاید یہ کام طبع کتب کا آگے کو بند ہو جائے آپ کی طرف سے جو مدد آتی ہے وہ لنگر خانہ میں خرچ ہو جاتی ہے اور مجھے جس قدر آپ کے کاروبار کے لئے توجہ ہے یہ ایک دلی خواہش ہے جوخدا تعالیٰ نے مجھ میں پید ا کی ہے اور یہ یقین جانتا ہوں کہ یہ خالی نہیں جائے گا۔ کیا تعجب کہ اس نیت کے پختہ کرنے پر خدا تعالیٰ فوق العادت کے طور پر آپ سے کوئی رحمت کا معاملہ کرے میں تو جانتا ہوںآپ نہایت خوش نصیب ہیں آپ کی دنیا بھی اچھی ہے اور آخرت بھی۔ کیونکہ آپ اس طرف سے پورے اعتقاد سے جھک گئے ہیں سو اگر تمام دنیا کا کاروبار تباہی میں آجائے تب بھی میں یقین نہیں کرتا کہ آپ ضائع کئے جائیں ۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۲۱؍ اکتوبر ۹۸ء
مکتوب نمبر ۵۶
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ سلمہ۔ السلام و علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
آج مشک و عنبر بمبئی سے پہنچے گا جزاکم اللہ خیرالجزاء۔ خدا وند کریم آپ کو تمام خدمات کا احسن پاداش بخشے آمین ثم آمین۔ اس کی درگاہ سے امید ہے کہ کوئی شخص اس کے لئے نیک عمل نہیں کرتا جو اس کی جزا نہیں دیکھ لیتا اس کے فضل اور رحم کی ہر وقت امید ہے او رانجام بخیر دنیا وآخرت کے نہایت آثار نیک ہیں میری طبیعت بہ نسبت سابق کے رویا صلاح ہے الحمدللہ علی ذالک باقی سب طرح سے خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۲۲؍ اکتوبر ۹۸ء
مکتوب نمبر ۵۷
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ سلمہ۔ السلام و علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
عنایت نامہ پہنچا۔ حالات تردود اضطراب معلوم کر کے جس قدر دل کو درد پہنچتا ہے اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے مگر ساتھ ہی وہ امیدیں جو خد اتعالیٰ کے فضل پر ہیں وہ ناامیدی کو نزدیک نہیں آنے دیتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ وہ دن دکھلائے کہ آپ کی قلم سے نکلی ہو ئی یہ عبادت پر ہوں کہ حسب المراد خد اتعالیٰ نے فضل کر دیا اس کے آگے کچھ بھی دور نہیں۔ ہر ایک رات اس امید کے ساتھ پلنگ پر لیٹتا ہوں کہ کوئی خوشخبری حضرت عزت جل شانہ سے آپ کی نسبت پائوں اگر ایسی خوشخبری مجھ کو ملی تو مجھ کو وہ خوشی ہو گی جس کا اندازہ نہیں ہو سکتا اللہ تعالیٰ آپ کا معہ تمام عزیزوں کے ہر اک ارضی سمادی بلاسے بچاوے او راپنے سایہ رحمت سے محفوظ رکھے ہمیشہ حالات خیریت آیات سے مطلع فرماتے رہیں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۱۱؍ نومبر ۹۸ء
مکتوب نمبر ۵۸
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ سلمہ۔ السلام و علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
آپ کاعنایت نامہ معہ مبلغ ایک سو روپیہ آج مجھ کو ملا جزاکم اللہ خیرالجزاء آمین۔ جس قدر یہ عاجز آپ کو تسلی اور اطمینان کے الفاظ لکھتا ہے یہ لغو اور بہودہ نہیں ہے۔ بلکہ بوجہ آپ کے نہایت درجہ کے اخلاص کے اس درجہ پر آپ کے لئے ظہور میں آتی ہے کہ دل گواہی دیتا ہے کہ یہ دعائیں خالی نہیں جائیں گی جو لوگ خدا تعالیٰ کی ہستی پر ایمان لائے ہیں اور اس کو قادر او ر کریم اور رحیم سمجھتے ہیں ان کے لئے دعائوں سے زیادہ کوئی امر موجب تسلی نہیں ہوسکتا میں اپنے دل سے یہ گواہی پاتا ہوں کہ جیسا کہ ایک شخص اپنے لئے جوش اخلاص اور محبت اور ہمدردی سے کسی کے لئے دعا کرسکتا ہے وہ دعا میں آپ کے لئے کرتا ہوں او رمیں یقین رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ میری دعائوں کو ضائع نہیں کرے گا وہ خد ا وندرحیم وکریم ذوالحیاء الکرم ہے امید ہے کااپنے حالات خیریت آیات سے مطلع او رمسرورالوقت فرماتے رہیں باقی سب خیریت ہے۔ والسلام مبلغ ایک سو روپیہ سیٹھ دال حاجی صاحب کی طرف سے بھی پہنچ گیا تھا۔ میری طرف سے دعا اور شکر ان کوپہنچا دینا۔
خاکسار
مرزا غلام احمد
۲۲؍ نومبر ۹۸ء
مکتوب نمبر ۵۹
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ سلمہ۔ السلام و علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
خدا تعالیٰ آپ کے ساتھ او رآپ کا محافظ ہو اس وقت بباعث تکلیف وہی یہ ہے کہ کل کی ڈاک میں مبلغ پچاس روپیہ مرسلہ عرب صاحب بغدادی پہنچے۔ چونکہ مجھے پتہ یاد نہیں ہے اس لئے مکلف ہوں کہ میری طرف سے رسید معہ شکر ودعا پہنچا دیں اور اللہ تعالیٰ تمام دوستوں کو آفات سے بچاوے او راطلاع بخشیں کہ مدراس میں پھر تو کوئی واردات طاعون نہیں ہوئی اور سو روپیہ لال جی حاجی صاحب کا بھی پہنچ گیا تھا آپ کی خدمت میں بھی میری طرف سے دعا اور رسید روپیہ کی خبر پہنچا دیں باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۲۶؍ نومبر ۹۸ء
مکتوب نمبر ۶۰
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ سلمہ۔ السلام و علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
دو عنایت نامے یکے بعد از دیگرے پہنچے۔ آپ کی تشویشات کو اللہ تعالیٰ دور فرماوے اور اس طرف یہ حال ہے کہ جیسے ایک گدا کچھ سوال کر کے اسی دروازہ پر جم کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ جب تک کہ اندر سے اس کو کچھ دیا نہ جائے یہی حال ہمارا آپ کے لئے ہے آپ اگر بے قرار ہوں یا نہ ہوں ہماری طرف سے سلسلہ دعا کا جاری ہے اور جناب الٰہی کے آستانہ سے امید کی جاتی ہے کہ رات کو یا دن کو یہ بشارت ہم کو ملے زمین و آسمان پید ا کرنے والے کے آگے یہ آرزوئیں کیا چیز ہیں اس کے ایک نظر …… سے ہزاروں پیچیدہ کام سہل ہو جاتے ہیں اس طرف اب بظاہر طاعون سے امن ہے پھر بعد میں کوئی واردات نہیں ہوئی زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرز اغلام احمد عفی عنہ
۱۲؍ دسمبر ۹۸ء
مکتوب نمبر ۶۱
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ سلمہ۔ السلام و علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
آپ کاانتظار ہے اور اب تک ہے نہ معلوم کیا بباعث ہوا کہ آپ تشریف نہ لائے دعا انتہا تک پہنچ گئی ہے آج صبح کے وقت مجھ کو یہ الہام ہوا۔ قاد رہے وہ بارکاہ ٹوٹا کام بنا دے بنا بنا توڑ دے کوئی اس کا بھید نہ پاوے۔ امید ہے کہ اپنے حالات خیریت سے اطلاع دیں گے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۲۱؍ دسمبر ۹۸ء
مکتوب نمبر ۶۲
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ سلمہ۔ السلام و علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
عنایت نامہ آنمکرم اور نیز مبلغ ایک سو روپیہ مجھ کو پہنچا جزاکم اللہ احسن الجزا۔ میں آپ کے لئے دعا میں مشغول ہوں آپ کا ہر ایک خط جس میں تفرقہ خاطر اورخوف و خطر کا ذکر ہوتا ہے۔ پہلی دفعہ تو میری پر ایک دردناک اثر ہوتا ہے مگر پھر بعد اس کے جب اللہ جلشانہ کی طاقت اور قدرت اور اس کے دو الطاف کریمانہ جو میرے پر ہیں۔ بلا توقف یاد آجاتی ہے۔ تو وہ غم دور ہو کرنہایت یقینی امیدیں دل میں پیدا ہو جاتی ہیں۔ آپ کے لئے میرے دل میں عجب جوش تضرع اور دعا ہے۔ اگر عمیق مصالح جس کاعلم بشر کو نہیں ملتا توقف کونہ چاہتیں تو خدا تعالیٰ کے فضل وکر م سے امید تھی کہ اس قدر توقف ظہور میں نہ آتا۔ بہرحال میں آپ کی بلائوں کے دفع کے لئے ایسا کھڑا ہوں جیسا کو ئی شخص لڑائی میں کھڑا ہوتا ہے خدا داد قوت استقلال او ر ثابت قدمی اور صدق و یقین ہتھیاروں سے اور اور عقد ہمت کی پیش قدمی سے اس مبدا نمین خدا تعالیٰ سے کامیابی چاہتا ہوں وہ رحیم وکریم دعائوں کو سننے والا مہربان خدا ہے اس کے فضل سے ہر ایک رحمت کی امید ہے۔ آپ کے کے ملنے کااشتیاق ہے قرنطینہ کی تکلیفات راہ میں نہ ہوں جن کی برادشت مشکل ہوتی ہے تو آپ ہر ایک وقت آسکتے ہیں۔ مجھے دلی خواہش ہے کہ آپ تشریف لاویں۔ مگر یہ دریافت کر لینا چاہئے کہ قرنطینہ کی ایذا رسانی روکیں تو درمیان نہیں ہیں اسی وجہ سے میں نے تار نہیں دیا کہ یہ امور صرف خط کے ذریعہ مفصل طور پر پیش ہو سکتے ہیں امید کہ جس وقت تشریف لاویں تو مجھے تار دیں کہ فلاں وقت روانہ ہوئے۔ میں پہلے اس کے اطلاع دے چکا ہوں کہ میرے پر ایک فوجدار مقدمہ سرکار کی طرف سے دائر ہو گیا ہے۔ جس کا اصل محرک محمد حسین بٹالوی ہے یہ مقدمہ بظاہر سخت خطرناک ہے کیونکہ پولیس کے مقرر ملازم اس مقدمہ کے پروکار ہیں جو مقدمہ کے بنانے کی سعی کر رہے ہیں اور محمد حسین بٹالوی بھی کوشش کر رہا ہے کہ کسی طرح جھوٹے گواہ پیش کر کے مجھے زیر مواخذہ کرا دے چونکہ ان مخالفوں کی جماعت بڑی ہے۔ لاکھوں ہیں اس لئے محمد حسین کے لئے چندے جمع ہو رہے ہیں۔ تابیر سٹرا کئی انگریز وکیل کر کے جعلی الزاموں کی میری نسبت ثابت کرا دے ہماری جماعت غریبوں کی جماعت ہے لاہور امرتسر سیالکوٹ راولپنڈی پنجاب کے شہروں میں محمد حسین بٹالوی کے لئے ایک رقم کثیر جمع ہوتی جاتی ہے غالباً دہلی میں بھی نذیر حسین کی معرفت یہ چندہ ہو گا ہم اپنا کام خدا تعالیٰ کا سونپتے ہیں میں نے اوّل خیا ل کیا تھا کہ شاید آنمکرم کی تحریک سے مدراس میں کسی قدر چندہ جمع ہو مگر پھر مجھے خیال آیا کہ ہر انسان اس ہمدردی کے لائق نہیں۔ جب تک انسان سلسلہ میں داخل ہو کر جاں نثار مرید نہ ہو۔ تب تک ایسے واقعات روح پر قوی اثر نہیں کرتے دلوں کا خد امالک ہے اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے باوجود اس تفرقہ کے اور ایسی حالت کے جو قریب قریب تباہی کے ہے آپ کو وہ اخلاص بخشا ہے کہ جو وفادار جان نثار جو انمرد میں ہوتا ہے میں نے پہلے بھی لکھا تھا اور اب بھی لکھتا ہوں کہ بوجہ اس کے آپ ہر وقت مالی امداد میں مشغول ہیں اس لئے ایسے چندہ سے آپ مستشنیٰ ہیں آپ کا بہت سا چندہ پہنچ چکا ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۹۸ء
مکتوب نمبر ۶۳
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
تار مدراس سے بخروعافیت میرے پاس پہنچ گئی۔ الحمداللہ کہ اس نے اپنے فضل و کرم سے راہ کی آفات سے بچا کر سلامتی کے ساتھ گھر میں پہنچا دیا اس طرح میں جناب الٰہی میں دعا کرتا ہوں کہ وہ آپ کو معاملات تشویشات سے بھی رہائی بخش کر ہمیشہ آپ کے ساتھ ہو اور اپنی مرضی کی راہوں پر چلاوے آمین ثم آمین۔ ا مید رکھتا ہوں کہ آپ ہمیشہ اپنے حالات سے مطلع فرماتے رہیں گے۔ بخدمت دیگران سلام مسنون۔
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
۱۵؍ مئی ۹۸ء
مکتوب نمبر ۶۴
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
ہر طرح پر امید اللہ جلشانہ کے فضل پر امید رکھنا چاہئے۔ اگر کوئی تاجر تباہ حالت ہو گیا ہو تو ہر ایک سے اللہ تعالیٰ کا معاملہ جد ا ہے کسی کی تباہی اور سرسبزی محض ہداتفاقات سے نہیں ہوتی بلکہ خدا تعالیٰ کے ارادہ سے ہوتی ہے میں جیسا کہ آپ کے روبرو آپ کے لئے دعا میں مشغول تھا۔ ایسا ہی آپ کے بعد بھی مشغول ہوں اور ہر طرح پر ہم اللہ جلشانہ کی ذات پر نیک امید رکھتے ہیں کہ حالات خیریت آیات سے اطلاع بخشتے رہیں اور اس جگہ تا دم تحریر ہذا خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
۲۶؍ مئی ۹۸ء
مکتوب نمبر ۶۵
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
مبلغ دو سو روپیہ آنمکرم مجھ کومل گیا۔ اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ وہ معاملہ رحمت اور فضل اور کرم کرے جو آپ اس راہ میں اور اس کے بندہ کی مددمیں کررہے ہیں آمین ثم آمین۔ اس جگہ محمد حسین بٹالوی اور اس کے گروہ کی طرف سے مقدمہ میں فتح پانے کے لئے بڑی تیاری کررہے ہیں اور وکیلوں کو دینے کے لئے شہروں میں اس کے لئے چندہ جمع ہو رہا ہے اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ انہوں نے دوسری قوموں سے بھی اتفاق کر لیا ہے بظاہر مقدمہ ایک خطرناک صورت میں ہو گیا ہے مگر خد اتعالیٰ کے کام اور انسان کے کام الگ ہیں اب پانچ جنوری ۹۹ء قریب آگئی ہے جو تاریخ پیشی ہے میں نے آنمکرم کے بلانے میں ایک تواس وجہ سے تار نہیں بھیجا کہ غالباً راہ میں دقتیں ہیں۔ جالندھر کے ضلع میں بھی طاعون ہے دوسرے یہ بھی خیال رہا ہے کہ اس مقدمہ میں معلوم نہیں کہ قادیان رہوں یا انفصال مقدمہ تک حاضری کچہری رہنا پڑے یہ ایک آخری ابتلا ہے جومحمد حسین کی وجہ سے پیش آگیاہے ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے راضی ہیں اور ہم خوب جانتے ہیں کہ وہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا۔ مخالفوں نے اپنی کوششوں کو انتہا تک پہنچا دیا ہے اور خد اکے کام فکر اور عقل سے باہر ہیں زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
۲؍ جون ۹۹ء
مکتوب نمبر ۶۶
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا میں باوجود علالت طبع کے اور باوجود ایسی حالتوں کے کہ میں نے خیال کیا ہے کہ شاید زندگی میں چند دم باقی ہیں آپ کو دعا کرنے میں فراموش نہیں کیا بلکہ انہیں حالات میں نہایت درد دل سے دعا کی ہے اور اب تک میرے جوش میں کمی نہیں ہے۔ میں نہیں جانتا کہ اس خط کے پہنچنے تک کتنی دفعہ مجھ کودعا کا موقعہ ملے گا اور میں باور نہیں کرتا کہ یہ دعا میری قبول نہ ہوں اور میں چاہتا ہوں کہ جہاں تک انسان کے لئے ممکن ہو سکتا ہے آپ اس گھڑی کے یقین دل سے منتظر رہیں جبکہ دعائوں کی قبولیت ظاہر ہو ایک بڑے یقین کے ساتھ انتظار کرنا بڑا اثر رکھتا ہے میں آپ کو نہیں بتا سکتا کہ آپ کے لئے میرے کس توجہ سے دعا کرتا ہوں یہ حالت خد ا تعالیٰ کو معلوم ہے ان دنوں میں میری طبیعت بہت بیمار ہو گئی تھی ایک دفعہ مرض کا خطرناک حملہ بھی ہوا تھا۔ مگر شکر باری تعالیٰ ہے کہ اس وقت میں بھی میں نے بہت دعا کی ہے او راب تک طبیعت بہت کمزور ہے اس لئے کتاب کی تالیف میں بھی حرج ہے۔ ایک نہایت ضروری امر کے لئے آپ کولکھتا ہوں اور وہ یہ کہ میں نے سنا ہے کہ مدراس میں ایک میلہ یوز آسف کا سال بسال ہوا کرتا ہے میں معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ جو لوگ میلہ کرتے ہیں وہ یوز آسف کس کو کہتے ہیں اور کس مرتبہ کا انسان اس کو سمجھتے ہیں اور نیز ان کاکیا اعتقاد ہے کہ وہ کہاں سے آیا تھا اور کس قوم میں سے لنہا۔ او رکیا مذہب رکھتا تھا اور نیز یہ کہ کیا اس جگہ کوئی یوزآسف کا مقام موجود ہے اور کیا ان لوگوں کے پاس کوئی ایسی تحریریں ہیں جن سے یوز آسف کے سوانخ معلوم ہو سکیں اور ایسا ہی دوسرے حالات جہاں تک ممکن ہو دریافت کر کے جلد تر مجھ کو اس سے اطلاع بخشیں کیونکہ اس وقت کہ جواب آوے یہ کتاب معرض التوا میں رہے گی اور میں نے باوجود ضعف طبیعت کے نہایت ضروری سمجھ کر یہ خط لکھا ہے اللہ تعالیٰ خیروعافیت سے اس خط کو پہنچاوے باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
۱۱؍ جون ۹۹ء
مکتوب نمبر ۶۷
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا اب بفضلہ تعالیٰ میری طبیعت ٹھہر گئی ہے دورہ مرض سے امن ہے حقیقت میں یہ عمر جب انسان ساٹھ پینسٹھ سال کا ہوتا جاتا ہے مرنے کے لئے ایک بہانہ چاہتی ہے جیساکہ ایک بوسیدہ دیوار یہ خدا تعالیٰ کافضل ہے کہ اس قدر سخت حملوں سے وہ بچا لیتا ہے کل کی تاریخ عنبر بھی پہنچ گئی۔ میری طرف سے آپ اس مہربان دوست کی خدمت میں شکریہ ادا کر دیں جنہوں نے میری بیماری کا حال سن کر اپنی عنایت اور ہمدردی محض اللہ ظاہر کی خدا تعالیٰ ان کو اس خدمت کا اجر بخشے اور ساتھ ہی آپ کو آمین ثم آمین۔ میرے گھر میں جو ایام امید تھے۔ ۱۴؍ جون کو دل دردزہ کے وقت ہولناک حالت پید ا ہو گئی یعنی بدن تمام سرد ہو گیا اور ضعف کمال کو پہنچا اور غشی کے آثار ظاہر ہونے لگے اس وقت میںنے خیال کیا کہ شاید اب اس وقت یہ عاجزہ اس فانی دنیا کو الوداع کہتی ہے بچوں کی سخت درد ناک حالت تھی اور دوسرے گھر میں رہنے والی عورتیں اور ان کی والدہ تمام مردہ کی طرح اور نیم جان تھے۔ کیونکہ ردی علامتیں یک دفعہ پیدا ہو گئیں تھیںاس حالت میں ان کاآخری دم کر کے اور پھر خدا کی قدرت کو بھی مظہر العجائب یقین کر کے ان کی صحت کے لئے میں نے دعا کی کے ان کی صحت کہ یک دفعہ حالت بدل گئی اور الہام تحویل الموت یعنی ہم نے موت کو ٹال دیا اور دوسرے وقت پر ڈال دیا اور بدن پھر گرم ہو گیا اور حواس قائم ہو گئے اور لڑکا پید اہوا جس کانام مبارک احمد رکھا گیا۔ اس تنگی اور گھبراہٹ کی حالت میں میں نے مناسب سمجھا کہ آپ کے لئے بھی ساتھ دعا کروں۔ چنانچہ کئی دفعہ دعا کی گئی زیادہ خیریت ہے۔ اس وقت میں خط لکھ چکا تھا کہ پھر سخت کمر میں درد اور تپ میرے گھر میں ہو گیا ہے سخت بیتاب ہو گئی ہیں اللہ تعالیٰ رحم فرماوے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
۹۹ء
مکتوب نمبر ۶۷
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
مبلغ ایک سو روپیہ مرسلہ بذریعہ ڈاک مجھ کو پہنچ گیا۔ جزاکم اللہ خیرا لجزاء آمین ثم۔ آمین۔ میرے گھر میں پید ائش لڑکے وقت بہت طبیعت بگڑ گئی تھی الحمداللہ اب ہر طرح سے خیریت ہے عجب بات ہے کہ قریباً چودہ برس کا عرصہ گزرا ہے کہ میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ میری اس بیوی کو چوتھا لڑکا پید اہوا ہے اور تین پہلے موجود ہیں او ریہ بھی خواب میں دیکھا تھا کہ اس پسر چہارم کا عقیقہ بروز شنبہ یعنی پیرہو اہے او ر جس وقت یہ خواب دیکھی تھی اس وقت ایک بھی لڑکا نہ تھا یعنی کوئی بھی نہیں تھا اور خواب میں دیکھا تھا کی اس بیوی سے میرے چار لڑکے ہیں اور چاروں دن میری نظر کے سامنے موجود ہیں اور چھوٹے لڑکے کا عقیقہ پیر کو ہوا ہے اب جب کہ یہ لڑکا یعنی مبارک احمد پید اہوا تو وہ خواب بھول گئے او رعقیقہ اتوار کے دن مقرر ہوا لیکن خدا تعالیٰ کی قدرت ہے کہ اس قدر بارش ہوئی کہ اتوار میں عقیقہ کاسامان نہ ہو سکا او رہر طرف سے حرج پیش آئی۔ ناچار پیر کے دن عقیقہ قرار پایا پیر ساتھ یاد آیا کہ قریباً چودہ برس گزر گئے کہ خواب میں دیکھا تھا کہ ایک چوتھا لڑکا پید اہو گا او ر اس کا عقیقہ پیر کے دن ہو گا۔ تب وہ اضطراب ایک خوشی کے ساتھ مبدل ہو گیا کہ کیونکر خدا تعالیٰ نے اپنی بات کو پورا کیا اور ہم سب زور لگا رہے تھے کہ عقیقہ اتوار کے دن ہو۔ مگر کچھ بھی پیش نہ کی گئی او رعقیقہ پیر کو ہوا یہ پیشگوئی بڑی بھاری تھی کہ اس چودہ برس کے عرصہ میں یہ پیشگوئی کہ چار لڑکے پیدا ہوں گے اور پھر چہارم کا عقیقہ پیر کے دن ہو گا۔ انسان کو یہ بھی معلوم نہیں کہ اس مدت تک چار لڑکے پید اہو سکیں زندہ بھی رہیں۔ یہ خد اکے کام ہیں مگر افسوس ہے کہ ہماری قوم دیکھتی ہے۔ پھر آنکھ بند کرتی ہے یعنی میں نے دو روز ہوئے کہ یا کم و پیش آپ کو خواب میں دیکھا تھا۔ مگر مجھے اس کا سر معلوم رہا اس لئے صرف بار بار دعا کی گئی۔ زیادہ خیریت ہے والسلام آنمکرم کے مشک مرسلہ بھی مجھ کو پہنچ گئی خدا تعالیٰ آپ کو ان متواتر خدمات کا بہت بہت اجربخشے اور بہت سی برکتیں آپ پر نازل کرے عنبر سفید درحقیقت بہت ہی نافع معلوم ہوا تھوڑی خوراک سے دل کو قوت دیتا ہے اور دوران خون تیز کر دیتا ہے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے دراصل دو دائمی بیماریاں ہیں ایک یہ دل کی بیماری اور ایک کثرت بول یہ اس لئے ہو ا کہ تا وہ حدیث پوری ہو کہ مسیح موعود دو رزد چار دن کے ناز ل ہو گا اہل تعبیر لکھتے ہیں کہ دورزد چاروں سے مراد بیماریاں ہیں یہ بشریت کے لوازم ہیں۔
خاکسار
مرزا غلام احمد
۲۷؍ جون ۹۹ء
مکتوب نمبر ۶۹
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
مبلغ ایک سو روپیہ مرسلہ آنمکرم اس سو روپیہ کے بعد جو پہلے آنمکرم پہنچ چکے تھے مجھ کو پہنچا۔ اللہ جلشانہ بہت بہت جزائے خیر دنیا و آخرت میں آپ کو دے او راپنے فضل وکرم سے بلائوں سے بچاوے آمین ثم آمین۔ اب جیسا کہ تجویز فرمایا تھا۔ آپ کی تشریف آوری کا انتظار ہے اللہ تعالیٰ تمام تر خیریت او ررحمت کے ساتھ آپ کو لاوے آمین ثم آمین۔ منجمین اخباروں کے ذریعہ بہت شور مچا رہے ہیں کہ۱۳؍ نومبر ۹۹ء تک دنیا کا خاتمہ ہے یعنی اگر ستارہ کی زمین کے ساتھ ٹکڑ ہو گئی لیکن مجھے اب تک کچھ معلوم نہیں ہوا خد اتعالیٰ لوگوں کوتوبہ کی توفیق دے موسم کے حالات ردی ہیں پنجاب میں بارشیں نہیں ہوئی خریف اور ربیع دونوں سے زمیداروں کی نااُمیدی ہو گئی کلکتہ میں طاعون شروع ہوگیا اخبار میں لکھا ہے کہ جناب نواب وایسئرائے بہادر نے طاعون کا ٹیکا لگوایا ہے زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرز اغلام احمد
۲۵؍ اگست ۹۹ء
مکتوب نمبر ۷۰
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
الحمدللہ وانمت کہ اب میرے گھر میں ہر طرف سے خیریت ہے آپ کے حالات کی طرف نظر لگی ہوئی ہے خدا تعالیٰ ہماری عاجزانہ دعائوں کا نیک نتیجہ دکھاوے آمین ثم آمین دعا کا سلسلہ جناب باری میں جاری ہے اور وہ رحیم و کریم ہے زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
از قادیان
۸؍ جولائی ۹۹ء
مکتوب نمبر ۷۱
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
خدا تعالیٰ کے فضل و توفیق سے ہمیشہ نماز اور حارج نماز آپ کے مہمات اور بہبودی دنیا و آخرت کے لئے دعا کرتا ہوں او رامید وار ہوں کہ قبول حضرت عزت ہو۔ کل سے میری طبیعت علیل ہو گئی ہے کل شام کے وقت مسجد میں اپنے تمام دوستوں کے روبرو جو حاضر تھے سخت درجہ کا عارضہ لاحق حال ہوا اور یک دفعہ تمام بدن مسترد اور نبض کمزور اور طبیعت میں سخت گھبراہٹ شروع ہوئی او رایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا زندگی ایک دو دم باقی ہیں بہت نازک حالت ہو کر پہر صحت کی طرف عود ہوا۔ مگر اب تک کلی اطمینان نہیں کچھ کچھ آثار عود مرض کے ہیں اللہ تعالیٰ فضل و رحم فرمائے ایسے وقتوں میں ہمیشہ مشک کام آتی ہے اس وقت مشک جو بمبئی سے آپ نے منگوا کر بھیجی تھی لیکن طبیعت کی سخت سر گردانی اور دل کے اضطراب کی وجہ سے وہ مشک کھولنے کے وقت زمین پر متقرق ہو کر گر گئی اور گرنے کے سبب سے خشک تھی او رہو اچل رہی تھی اور ضائع ہو گئی اس لئے مجھے دوبارہ آپ کو تکلیف دینی پڑی یہ مشک بہت عمدہ تھی اس دوکان سے ایک تولہ مشک لے کر جہاں تک ممکن ہو جلد ارسال فرمادیں کہ دورہ مرض کا سخت اندیشہ ہے اور خد اتعالیٰ کے فضل وکر م پر بھروسہ ہے آپ نے یہ مشک بمبئی سے منگوائی تھی باقی سب خیریت ہے اس وقت بھی طبیعت صحت پر نہیں رجسٹری کرا کر یہ خط بھیجتا ہوں میں انشاء اللہ آپ کے صاحبزادہ سیٹھ احمد صاحب کے لئے او ر ان کی دنیا و آخرت کے کامیابی کے لئے بہت دعاکروں گا میری طرف سے سلام علیکم ان کو پہنچے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
مکتوب نمبر ۷۲
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ عین انتظار میں پہنچا مجھے اس سے بہت خوشی ہوئی کہ اس مبارک کام کے لئے آپ کی سلسلہ …… کامیابی کے ساتھ انجام پذیر ہوئی مجھے آپ کے اس کام کی خبر نہ تھی مگر میں نے آپ کے اس سفر کے لئے بہت دعا کی کہ جو جو مطالبہ اس سفر میں مدنظر ہیں خد اتعالیٰ ان کو انجام دے مجھے امید ہے کہ وہ دعا قبول ہو گئی ہوں گی۔ امید کہ عقد نکاح کے بعد ضرور مجھے مسرورالوقت فرماویں میرے نزدیک یہ کام نہ صرف مناسب ہے بلکہ خدا بہت سے برکات کا موجب کرے آمین ثم آمین۔ باقی ہر طرح سے خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
۲۰؍ اگست ۹۹ء
مکتوب نمبر ۷۳
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آج آپ کی تار کے ذریعہ یک دفعہ غم کی خبر یعنی واقعہ وفات عزیزی سیٹھ احمد صاحب کی بیوی کا سن کر دل کو بہت غم ہوا اور صدمہ پہنچا انا للہ وانا الیہ راجعون۔دنیا کی پائیداری اور بے ثباتی کا یہ نمونہ ہے کہ ابھی تھوڑے دن گزرے ہیں کہ عزیز موصوف کی اس شادی کا اہتمام ہو اتھا او رآج وہ مرحومہ قبر میں ہے جس قدر اس ناگہانی واقعہ سے آپ اور سب عزیزوں کو صدمہ پہنچا ہو گا اس کاکو ن اندازہ کر سکتا ہے اللہ تعالیٰ صبر جمیل عطا فرمائے اور نعم البدل عطا کرے اور عزیزی سیٹھ احمدکی لمبی عمر کرے آمین ثم آمین اس خبر کے پہنچے پر ظہر کی نماز میں جنازہ پڑھا گیا اور نماز میں مرحومہ کی مغفرت کے لئے دعا کی گئی۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس غم اور صدمہ کی عوض میں بہت خوشی پہنچاوے آمین ثم آمین تادم تحریر خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
۱۳؍ اگست ۹۹ء
مکتوب نمبر ۷۶
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا مجھ کو سخت افسوس ہے جس کو میں بھول نہیں سکتا کہ مجھ کو قبل اس حادثہ وفات وقت اس کامل دعا موقعہ نہیں جو اکثر کرشمہ قدرت دکھلاتی ہے میں دعا تو کرتا رہا مگر وہ اضطراب جو سینہ میں جلن پید اکرتی ہے اور دل کو بے چین کر دیتی ہے وہ ا س لئے کامل طور پر پیدا نہ ہوئی کہ آپ کے عنایت نامجات میں جو حال میں آئے تھے یہ فقرہ بھی درج ہوتا رہا کہ اب کسی قدر آرام ہے اور آخری خط آپ کو جو نہایت اضطراب سے بھرا ہوا تھا اس تار کے بعد آیا جس میں وفات کی خبر تھی اس خانہ ویرانی سے جو دوبارہ وقوع میں آگئی رنج اور درد غم تو بہت ہے نہ معلوم آپ پر کیا کیا قلق اور ریخ گزرا ہو گا لیکن خد ا وند کریم و رحیم کی اس میں کوئی ایسی حکمت ہو گی یہ بیماری طبیبوں کے نزدیک متعدی بھی ہوتی ہے اور اس گھر میں جو ایسی بیماری ہو سب کوخطرہ ہوتا ہے اور خاوند کے لئے سب سے زیادہ سو شاید ایک بھی حکمت ہو خدا وند تعالیٰ عزیزی سیٹھ احمد کی عمر دراز کرے اور اس کے عوض میں بہتر صورت عطا فرمائے یہ ضروری ہے کہ آپ اس غم کو حد سے زیادہ دل پر نہ ڈالیں کہ ہر ایک مصیبت کا اجر ہے اور مناسب ہے کہ اب کی دفعہ ایسے خاندان سے رشتہ نہ کریں جن میں یہ بیماری ہے اور نیز جو آپ نے اپنے لئے تحریک کی تھی اس تحریک میں سست نہ ہوں خد اتعالیٰ پر توکل کر کے ہر ایک کام درست ہو جاتا ہے باقی سب خیریت ہے کتاب تریاق القلوب چھپ رہی ہے انشاء اللہ القدیر دو تین ہفتہ تک چھپ جائے گی باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرز اغلام احمد
۱۶؍ ستمبر ۱۸۹۹ء
مکتوب نمبر ۷۵
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا میں بباعث قدیمی بیماری کے جو آج کل ستمبر کے مہینہ میں مجھے اکثر ہوتی ہے بیمار رہا اور اب تک میری بیماری صاف نہیں ہے اگر خدا تعالیٰ نے چاہا تو یکم اکتوبر یعنی موسم کی تبدیلی کے وقت طبیعت صاف ہو گی او رمیںنے آنمکرم کے اس مقدمہ کے لئے بھی دعا کرنا شروع کر دی ہے اور عزیزی سیٹھ احمد صاحب کی بیوی کے لئے بھی دعا کرتا ہوں امید ہے کہ طبیعت درست ہونے پر بہت توجہ کروں گا میری طبیعت کچھ ایسی ضعف او رکمزور ہو رہی ہے کہ بسااوقات میں خیال کرتا ہوں کہ گویا چند دم میری عمر میں باقی ہیں مگر باایں ہمہ آپ کے لئے دعا کرنے کو کبھی نہیں بھولتامیں انشاء اللہ اگر خدا تعالیٰ کے فضل وکرم سے زندگی ہوئی تو آپ کے لئے دعا کروں گا اور مجھے امید یہی ہے کہ اگر مجھے دعا کرنے کے لئے وقت دیا گیا تو وہ دعا قبول ہو گی میں بباعث علالت طبع کے اس وقت زیادہ نہیں لکھ سکتا اس لئے اسی قدر پر چھوڑتا ہوں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
ضلع گورداسپور
مکتوب نمبر ۷۶
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
پرسوں کی ڈاک میں کل او رایک سو روپیہ مرسلہ آنمکرمجھ کو ملا خدا تعالیٰ جزائے خیر بخشے آمین ثم آمین مجھے پھر معلوم نہیں تھا کہ وہ کار خیرا انجام پذیر ہو گیا ہے یا ابھی کوئی تاریخ مقرر ہے امید ہے ا س سے ضرور مطلع فرمائیں باقی ا س جگہ ہر طرح سے خیریت ہے کتاب تریاق القلوب ابھی چھپ رہی ہے اور رسالہ مسیح ہند میں بھی چھپ رہا ہے اور رسالہ ستارہ قیصرہ چھپ چکا ہے امید ہے کہ آنمکرم کی خدمت میں پہنچ گیا ہو گا ۲۷؍ اگست ۱۸۹۹ء کو مجھ کو اپنی نسبت یہ الہام ہوا۔ خدا نے ارادہ کیا ہے کہ تیرا نام بڑھا دے اور آفاق میں تیرے نام کی خوب چمک دکھاوے آسمان سے کئی تخت اترے مگر سب سے اونچا تیر اتخت بچھایا گیا۔ دشمنو ںسے ملاقات کرتے وقت ملائکہ نے تیری مدد کی۔
خاکسار
مرزا غلام احمد
مکتوب نمبر ۷۷
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
کل کی ڈاک میں مبلغ ایک سو روپیہ نقد آنمکرم مجھ کو مل گیا۔ خدا تعالیٰ متواتر خدمات کی غرض میں آپ کو متواتر اپنے فضل اور اجر سے خوش کرے آمین ثم آمین کتاب تریاق القلوب چھپ رہی ہے ابھی میں نہیں لکھ سکتا کہ کب ختم ہو شاید اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو دو ہفتہ تک ختم ہو جائے یہ آپ کے حصہ میں اللہ تعالیٰ نے رکھا ہے کہ مشکلات کے وقت میں آپ کی طرف سے مدد پہنچتی ہے ا س ملک میںسخت قحط ہو گیا ہے اور ان تک بارش نہیں ہوئی اب کی دفعہ ابتلا ……سخت اندیشہ ہے کیونکہ ہمارے سلسلہ کے اخراجات کا یہ حال ہے کہ علاوہ اور خرچوں کے دو سو روپیہ ماہوار کا آٹا ہی آتا تھا۔ اب میں خیا ل کرتا ہوں کہ پانچ سو کا آئے گا اور زیادہ سے زیادہ ایک ماہ تک چلے گا اور دوسرے اخراجات بھی او رمہمان داروں کے ہوتے ہیں وہ بھی اس کے قریب قریب ہیں چنانچہ ایندھن یعنی جلانے لکڑی وغیرہ غلہ کی طرح کامیاب ہو گئی ہے او رایسی کامیاب ہے کہ شاید اب کی دفعہ ڈیڑھ سو یا دو سو روپیہ ماہوار کا خرچ ہو میں ڈرتا ہوںکہ کہ وہی وقت نہ آگیا ہو جو احادیث میں پایا جاتا ہے کہ ایک دفعہ مسیح موعو داو راس کی جماعت پر قحط کا سخت اثر ہو گا سو حیرت ہے کہ کیا کیا جائے اگر دعا کے لئے وقت ملے تو کروں ابھی تک ہماری جماعت میں اہل استطاعت میں سے ایک آپ ہیں جو حتی الوسع اپنی خدمات میں تعہد رکھتے ہیں اور دوسرے لوگ یا تونادار ہیں یا سچا ایمان ان کے دلوں میں داخل نہیں ہوا۔ لیکن ہمارے مرنے کے بعد بہت سے لوگ پید ا ہو جائیں گے کہ کہیں گے کہ اگر وہ وقت پاتے تو تمام مال اور جان سے قربان ہو جاتے مگر وہ بھی اس بیان میں جھوٹے ہوں گے کیونکہ اگر وہ بھی اس زمانے کو پاتے تو وہ بھی ایسے ہی ہو جاتے اللہ تعالیٰ دلوں میں سچا ایمان بخشے خدا کے مامور جو آسمان سے آتے ہیں وہ اپنی جماعت کے ساتھ خریدو فروخت کا سامعاملہ رکھتے ہیں۔ لوگوں سے ان کاچند روزہ مال لیتے ہیں اور جادوانی مال کا ان کو وارث بناتے ہیں میں چاہتا ہوں کہ ان مشکلات کے وقت میں ایک اشتہار بھی شائع کروں تا ہریک صادق کو ثواب کا موقع ملے او راس میں کھلے کھلے طور پر آپ کاذکر بھی کر دو ںکیونکہ اب سخت ضرورت کا سامنا ہے اور ہمارے سیدو مولیٰ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم ایسے ضرورتوں کے وقت جب ایسا کرتے تھے تو صحابہ دل اور جان سے اس راہ میں قربان تھے جو کچھ گھروں میں ہوتا تھا تمام آگے رکھ دیتے غرض اسی طرح کا اشتہار ہو گا۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
۲۶؍ ستمبر ۱۸۹۹ء
مکتوب نمبر ۷۸
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
مبلغ سور وپیہ مرسلہ آنمکرم پہنچا اللہ تعالیٰ آپ کو بہت بہت جزا بخشے اور آفات دینی اور دنیاوی سے محفوظ رکھے آمین ثم آمین۔ کشمیر سے خلیفہ نور دین صاحب تحقیقات کر کے آگئے ہیں پانچ سو چہچن آدمی کی گواہی سے ثابت ہوا کہ وہ قبر جس کاذکر رسالہ میں کیا گیا ہے مختلف نامو ں سے مشہور ہے بعض یوز آسف بنی کی قبر کہتے ہیں اور بعض شہزادہ بنی کی قبر بعض عیسیٰ صاحب کی قبر اور اب عنقریب تین آدمی سفر خرچ کے انتظام کے بعد نصیبین کی طرف روانہ ہوں گے اور اس سے پہلے جلسہ ہو گا جس کی تاریخ ۱۲؍ نومبر ۱۸۹۹ء قرار پائی ہے اس جلسہ سے چند روز بعد یہ تینوں روانہ ہوں جائیں گے۔ باقی خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
۲؍ اکتوبر ۱۸۹۹ء
مکتوب نمبر ۷۹
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا اس بات کے سننے سے بہت خوشی ہوئی کہ آپ عنقریب تشریف لانا چاہتے ہیں اس مسرت کااندازہ نہیں ہو سکتا اس ناپائیدار دنیا میں بڑا ہی خدا تعالیٰ کافضل ہے سمجھنا چاہئے کہ جدائی کے بعد پھر ملاقات ہو تین دن رات کوشش کر رہا ہوں کہ جلد تر کتاب تریاق القلوب کو ختم کروں شائد ایک ماہ تک ختم ہو جائے اشتہار ۴؍ اکتوبر ۱۸۹۹ء آپ کی خدمت میں پہنچ گیا ہو گا جس میں ضمیہ جلسۃالودع بھی ہے خدا تعالیٰ اپنا فضل شامل حال رکھے اور جلد تر خیرو عافیت سے آپ کو ملاوے نہایت خوشی بلکہ بے اندازہ خوشی ہوئی کہ آپ کے تشریف لانے کی بشارت سنی جزاکم اللہ خیراء۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
۱۸؍ اکتوبر ۹۹ء
مکتوب نمبر ۸۰
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا آپ بکلی مطمئن رہیں۔ آپ کے لئے اس قدر دعا کی گئی ہے کہ جو دنیا میں ایک بڑے خوش نصیب کے لئے ہو سکتی ہے۔ خدا وند عزوجل غفور رحیم ہے اس کی درگاہ سے بڑی امیدں ہیں لیکن ضرور ہے کہ درمیان میں کچھ تشویش لاحق ہو۔ جب تک خدا تعالیٰ کا وہ مقرر کردہ دن آجائے اس لئے بڑی استقال اور قوت او رمردانگی سے ایسی تشویش کامقابلہ کرنا چاہئے انسان دنیا طلبی کی حالت میں ضرور دل کا کمزور ہوتا ہے اس قدر اس کا مصائب پیش آمدہ سے صدمہ پہنچتا ہے اور اس قدر نا امیدی طاری ہوتی ہے سو ایسا نہیں کرنا چاہئے آپ کے لئے خدا تعالیٰ نے مبشر الہام صادر فرمایا ہے اور خدا کاکلام غلط نہیں جاتا میرا یہ خیا ل ہے کہ دنیا میں تمام بادشاہ متفق ہو کر ایک وعدہ کریں تو میں اس وعدہ کو پھر بھی یقینی نہیں سمجھتا۔ کیونکہ ممکن ہے کہ قبل ایفائے وعدہ کے وہ لوگ مر جائیں یا اس کے ایفا پر قادر نہ ہو سکیں او رمجبور ہیں مگر خدا تعالیٰ ان تمام باتوں سے پاک ہے مجھے معلوم نہیں کہ کس راہ سے او رکس طور سے خد اتعالیٰ ان غموں سے آپ کو نجات دے گا او رنہ ابھی تک معلوم ہے کہ وہ وقت کب ہے لیکن کسی قدر مدت کی بات ہے کہ اس خداوند قادر کی طرف سے یہ وعدہ ہے والکریم افاوعد وفا اس کے لئے آپ جو انمروی سے اس ذوالجلال کے وعدہ کے منتظر رہیں اور کسی کی بے التقاتی پر کچھ بھی پرواہ نہ کریں جس طرح بارش نہ معلوم آتی ہے نہیں معلوم ہو گا کہ کب بادل ہو گا او رکب مینہ برسے گا۔اسی طرح خدا کافضل بھی چور کی طرح نظر آتا ہے پوری استقلال او راستقامت سے منتظر رہنا چاہئے بلکہ بہت خوش رہنا چاہئے کہ خدا کاوعدہ ہے نہ انسان کا اگرآپ دیکھیں کہ میں آگ میں پڑ گیا ہوں یا پڑتا ہوں تب بھی آپ خوش رہیں کیونکہ جس نے یہ آگ پید اکی ہے و ہ ایک دم اس کا بجھا سکتا ہے دنیا میں میں اس بات کو خوب سمجھتا ہوں کہ کیونکہ وہ ہمار اخد اہر ایک چیز پر قادر ہے ا س لئے میں آگ میں بھی ہو کر ا س کو بہشت تصور کرتا ہوں تمام دکھ اس بات سے ہوتے ہیں جب انسان نہیں جانتا کہ یہ تکلیفیں کیوں آتی ہیں او رکیونکہ دور ہو سکتی ہیں مگرجب خد اتعالیٰ کی آوازیں خبر دیتی ہیں کہ یہ تکلیفیں اس کی خبر سے ہیں اور اس کے ارادہ کے ساتھ معاًنیست و نابود ہو جاتی ہیں تو کیوں غم کیا جائے باقی سب خیریت ہے اس وقت قادیان کے چاروں طرف طاعون ہے قریبا ًدو کوس کے فاصلہ پر او رقادیان اس وقت ایک ایسی کشتی کی طرح ہے جس کے اردگرد سخت طوفان ہوا اور وہ دریا میں چل رہی ہے۔ ہر یک ہفتہ شاید بیس ہزار کے قریب آدمی مر جاتا ہے خدا نے اس شکوک کو دور کر دیا کہ اس وقت عام طاعون پھیلے گی۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
۳؍ اپریل ۱۹۰۲ء
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
مکتوب نمبر ۸۱
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا یہ بھی خدا تعالیٰ کی آپ پر ایک رحمت ہے کہ آپ نے میری اس نصیحت میں غفلت نہیں کی کہ خط برابر بھیجا جائے او رمیں جس قدر خد اتعالیٰ کی عجیب او رخارق عادت فضلوں پر یقین رکھتا ہوں کاش کوئی ایسا طریق ہو کہ میں آپ ک د ل میں بھی ڈال سکتا خد اتعالیٰ کے فضل اور رحمت او رقدرت کا تجربہ اگر ہو تو وہ اس حالت میں بھی انسان کوناامید نہیں کر سکتا کہ جب انسان پابزبخیر زندان میں دیکھتا ہوں کہ دنیا کے ا ور اس بات سے سب امیدیں ہماری ٹوٹ چکی ہیں لیکن جب تک ہم قبر میں داخل ہو جائیں یہ امید ہماری ٹوٹنے کے قابل نہیں ہے کہ ہمارا خد اوہ خد اہے جو ہر ایک بات پر قادر ہے انسان کی طبیعت کچھ ایسی واقع ہوئی ہے کہ دو چار تجربہ سے خواص اشیاء پر یقین کر لیتا ہے مثلاً ہم دیکھتے ہیں کہ پانی ہمیشہ پیاس کو بجھاتا ہے اور روٹی ایک بھوکے انسان کوسیر کرتی ہے کسڑایل دست لاتا ہے سم الفاء پوری خوراک پر ہلاک کرتا ہے تو پھر خد اتعالیٰ کے فضل اور رحم پر کیوں یقین نہ کریں جس کو ہم اپنی زندگی میں صدہا مرتبہ آزما چکے ہیں سچ تو یہ ہے کہ گھبراہٹ ضعف ایمان کے باعث ہوتی ہے اگر کسی کو یہ یقین ہوکہ میرا خدا ہے جو مجھے ہر گز ضائع نہیں کرے گا تو ممکن ہے کہ نہیں کہ وہ غمگین ہو او روہ کیونکر غمگین ہو سکے انسان تو ………سے بھی تسلی پاکر بھی غمگین نہیں ہوتا مثلاً اگر کسی کو لاکھ دو لاکھ کی ضرورت پیش آجائے او راس کے ایک پاس پیسہ نہیں او روہ فکر ادائیگی میں مر رہا ہے اور کوئی رفیق نہیں تو غم سے ہلاک ہو جائے گا جس طرح سیداحمد خان آخر ایک لاکھ روپیہ کے غم سے دنیا سے کوچ کرگئے لیکن اگر ایسے مضطرب آدمی کو کوئی دوست مل جائے جو ذات کاچورا یعنی بھنگی ہے یا چمار ہے اور وہ بہت دولت مند ہو اور وہ اس کو تسلی د ے کہ غم نہ کر کچھ دیرکے بعد یہ تمام روپیہ تیرا میں ادا کردوںگا او راس کو یقین آجائے کہ اب بلاشبہ اپنے وعدہ پر یہ شخص تمام روپیہ ادا کردے گا تو قبل پہنچے روپیہ کے جس قدر اس کو کشایش ہو رہی ہے وہ اس کی نظر میں ایک معمولی ہو جائے گا اور چہرہ پر افسردگی نہیں رہے گی ایسا ہی وہ شخص جو یقین رکھتا ہے کہ خدا تعالیٰ مجھے ضائع نہیں کرے گا وہ بلاشبہ ضائع نہیںہو گا۔ غم تب آتا ہے جب انسان جاتا ہے ایک تو بشریت کاغم ہے اس میں تو انسان ایک حد تک معذور ہوتا ہے جیسا کہ کسی کی موت پر غم آتا ہے اس میں تو انبیاء بھی شریک ہوتے ہیں جیسا کہ حضرت یعقوب یوسف کی جدائی میں چالیس برس تک روتے رہے وہ بشریت کا غم تھا مگر ایک ضعف ایمان کا غم ہوتا ہے۔ جیسا کہ کوئی نادان یہ غم کرے کہ میر اکیا حال ہو گا کیونکہ مجھے روٹی او رکپڑا ملے گا عیال کا کیا حال ہو گا اس غم سے اگر انسان توبہ نہ کرے تو کافر ہو جاتا ہے کیونکہ اپنے رازو کا منکر ہے دعا کا سلسلہ خوب سرگرمی سے جاری ہے ہر ایک ساعت خد اتعالیٰ کے فضل کی امید ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۱۷؍ جولائی ۱۹۰۲ء
مکتوب نمبر ۸۲
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا موجودہ حالات سے آپ دلگیر نہ ہوں اور نہ کسی گھبراہٹ کو اپنے دل تک آنے دیں میں اپنی دعائوں کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ ہر گز خطا نہیں جائیں گی۔اگر ایک پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل جائے تو میں اس کو ممکن مانتا ہوں مگر وہ دعائیں جو آپ کے لئے کی گئی ہیں وہ ٹلنے والی نہیں۔ ہاں میرے خدائے کریم وقدیر کی یہ عادت ہے کہ وہ اپنے اندر ارادوں کو جو دعائوں کے قبولیت کے بعد ظاہر کرنا چاہتا ہے اکثر دیر اور آہستگی سے طاہر کرتا ہے تا جو بدبخت اور شتاب کار ہیں وہ بھاگ جائیں او را س خاص طور کے فضل کا انہیں حصہ نہیں ملے گا جو خد اتعالیٰ عزوجل کے دفتر میں سعید لکھے گئے ہیں آپ کو کہتا ہوں کہ صبر سے انتظار کریں ایسا نہ ہو کہ آپ تھک جائیں اور وہ جو آپ کے لئے تخم بویا گیا ہے وہ سب برباد ہو جائے گا دنیا جلد تر آسمانی سلسلہ سے منہ پھیر لیتی ہے کیونکہ وہ نہیں چاہتی کہ ایک خد اہے جوایک خا ک کی مٹی کو سرسبز کر سکتا ہے۔ اگر خدائے عزوجل کا آپ کے حق میں کوئی نیک ارادہ نہ ہو تو مجھے آپ کے لئے اس قدر جوش نہ بخشتا یہ مت خیا ل کرو کہ بربادی درپیش ہے یابکلی ہو چکی ہے بلکہ اس خدا پر ایمان لائو جو ایک مردہ نطفہ سے انسان کو پیدا کردیتا ہے او ریہ باتیں محض قیاسی نہیں بلکہ ہم اس خد اکی قدرتوں اور معجزوں کے نمونے دیکھ چکے ہیں جس کے ہاتھ میں سب کچھ ہے او رانسان میں خامی او ربیدلی صرف اس وقت تک رہتی ہے جب تک اس قادر کا کوئی نمونہ نہیں دیکھا ہے لیکن نمونہ دیکھنے کے بعد وہ قادر خدا اس شے سے زیادہ پیارا ہو جاتا ہے جس کو طلب کیا تھا۔ اس وقت یہ خدا کو تمام چیزوں پر مقدم رکھ لیتا ہے او رپھر بھروسہ بھر دوسرے چیز کے ہونے نہ ہونے کا کبھی غم نہیں کرتا۔ کیونکہ اب وہ اپنے خد اکو ایک ہی خزانہ جانتا ہے جن میں تمام جوہرات ہیں اس کے موافق مثنوی رومی میں ایک حکایت لکھی ہے کہ ایک عاشق تھا جو اپنے عشق میں نہایت بیتاب تھا آخر ایک باخدا آیا او راس کومراد تک پہنچایا اور خدا کی طرف آنکھیں کھول دیں تب وہ اپنے جھوٹے معشوق سے برگشتہ ہو گیا او راس مرد خد اکا دامن پکڑ لیا او رکہا گفت معشوقم تو بودستی نہ آن۔ لیک کاراز کارخیز دور جہان سو خلاصہ تمام نصیحتوں کایہی ہے کہ آپ وہ قوت ایمانی دکھلاویں کہ اگر اس قدر انقلاب او رانصاب مصائب ہو کر سر رکھنے کی جگہ باقی نہ رہے تب بھی افسردہ نہ ہوں۔زکار بستہ منیدیش و دل شکستہ مدار۔ کہ آپ چشمہ حیوان اور دن تاریکست۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
۲۲؍ مئی ۱۹۰۲ء
مکتوب نمبر ۸۳
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
اس جگہ سب خیریت ہے دعا کا سلسلہ اس طرح جاری ہے او رخدا تعالیٰ کے فضل پر امیدیں ہیں چوانوراہ حکمت بہ بندے دورے۔ کشاید بفضل و کرم دیگرے۔ کل کا نظارہ دیکھ کر میں خوش ہوا۔ میرے مکانوں میں چار بلیاں رہتی ہیں ایک والدہ ہے اور تین اس کی بیٹیاں ہیں وہ بھی جوان او رمضبوط ہیں کل کے دوپہر کے وقت میں میں اکیلا ادھرکے دالان میں بیٹھا تھا کہ میرے دروازہ کے آگے ایک چڑیا آکر بیٹھ گئی فی الفور بڑی بلی نے حملہ کیا او را س چڑیا کا سر منہ میں پکڑ لیاپھر دوسر ی بلی آئی اس نے وہ چڑیا پہلی سے لے کر اپنے قبضے میں کر لی اور اس کاسر منہ میں لے لیا اور زمین پر ایسا رگڑا کہ میں وہ حالت مارے رحم کے دیکھ نہ سکا اور دوسری طرف میںنے منہ کرلیا ا ور پھر جو میں نے دیکھا تو تیسری بلی نے ا س چڑیا کا سر اپنے منہ میں لیا اور اس وقت مجھے خیال آیا کہ غالباً سر کھایا گیا اتنے میںچوتھی بلی نے اس چڑیا کو لیا اور زمین اسے رگڑا تب میںنے یقین کیا کہ چڑیا مر چکی او رسر کھا لیا گیا اور رگڑ دن میں کئی دفعہ چڑیا زمین پر پڑی پھر ایک بلی نے چاہا کہ ا س چڑیا کے گوشت میں کچھ حصہ لے اس نے چڑیا کو کھانے کے لئے اپنی طرف کھنچا شاید اس غرض سے کم سے کم نصف پہلی بلی کے منہ میں رہے او رنصف آپ کھائے لیکن کسی سبب سے وہ چڑیا دونوں کے منہ سے نکل کر زمین پر جاپڑی او رگرتے ہی پھر َ کر کے اڑ گئی چاروں بلیاں پیچھے دوڑیں مگر پھر کیا ہو سکتا تھا وہ کسی درخت پر جا بیٹھی اور بلیاں غائب و غا مسر واپس آئیں اس واقعہ کو دیکھ کر میرے دل کو بہت جوش آیا ا س طرح خد اتعالیٰ دشمنوں کے ہاتھ سے چھوڑاتا ہے۔ تب میںنے یہ خیال کیا کہ یہ وقت بہت مقبول ہے آپ کے لئے بہت دیر تک دعا کی کہ اے خدائے قادر جس طرح تونے اس عاجز چڑیا کو چار دشمنوں سے چھوڑایا اسی طرح اپنے عاجز بندہ عبدالرحمن کی جان بھی چھوڑ آمین۔ امید رکھتا ہوں کہ وہ یہ دعا بھی خالی نہیں جائے گی۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
۳۰؍ جون ۱۹۰۲ء
مکتوب نمبر ۸۴
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا یہ سچ ہے کہ بناہو ا کام بگڑنے سے اور وسائل معاش کے گم یا معدوم ہونے کی حالت میںبے شک انسان کو صدمہ پہنچتا ہے مگر وہ جو بگاڑتا ہے او روہی بنانے پر قادر ہے پس دنیا میں شکسہ دلوں کی او رتباہ شدہ لوگوں کے خوش ہونے کے لئے ایک ہی ذریعہ ہے کہ اس خدائے ذوالجلال کو ایمانی یقین کے ساتھ یاد کریں کہ جیسا کہ وہ ایک دم میں تخت پر سے خاک مذلت میں ڈالتا ہے ایسا ہی وہ خاک پر سے ایک لحظہ میں پھر تخت پر بیٹھاتا ہے اس جگہ یہ کہنا کفر ہے کہ کیونکہ او رکس طرح او رایسے اوہام کا جواب یہی ہے کہ جس طرح ایک قطرہ نطفہ سے انسان کو پید اکیا۔ الم القلم ان اللہ علی شئی قدیر۔ نابینائی او ربد ظنی کی وجہ سے تمام دکھ پید اہوتے ہیں ورنہ وہ ہمارا خدا عجیب قادر بادشاہ ہے جو چاہے کرے کوئی بات نہیں اس کے آگے انہونی نہیں اگر یقین کی لذت پیدا ہوجائے تو شاید انسان دنیا میں طلبی کے ارادوں کو خود ترک کردے کیونکہ اس سے بڑھ کر کوئی لذت نہیں کہ اس بات کو آزما لیا جائے کہ درحقیقت خد ا موجود ہے او ردرحقیقت وہ قادر ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے اور وہ کریم اور رحیم ہے ان لوگوںکو ضائع نہیں کرتا جو اس کے آستانہ پر گرتے ہیں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
۷؍جولائی ۱۹۰۲ء
مکتوب نمبر ۸۵
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا الحمدللہ کہ آثار بہبودی ظاہر ہونے لگے سلسلہ دعا کا برابر جاری ہے۔ سیٹھ دال جی صاحب نے جو مشک بھیجی ہے۔ خدا ان کو جزائے خیر دے اصل بات یہ ہے کہ عمدہ مشک ملتی نہیں۔ کبھی کبھی ہاتھ آتی ہے سو یہ مشک بھی درمیانی درجہ کی ہے بہرحال خدا تعالیٰ اس خدمت کانیک پاداش ان کو عطا کرے آمین۔ میں آپ کی طرف خط نہیں لکھ سکا کہ معلوم ہوا کہ وہ مدراس میں نہیں ہیں آپ میری طرف سے السلام علیکم کہہ دیں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
۲۸؍ ستمبر ۱۹۰۲ء
مکتوب نمبر ۸۶
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج عنایت نامہ جس میں کچھ پریشانی حال اور ایک خواب درج تھی خواب گویا اس پریشانی کا جواب تھا تعجب کہ اس قدر عمدہ خوابیں آپ کو ہوتی ہیں او رپھر بھی تفکرات دامن گیر ہوتے ہیں۔ یہ خواب آپ کے لئے بڑی بشارت ہے کہ خدا تعالیٰ پھر آپ کو عزت اور مرتبست کی سواری پر بیٹھانے والا ہے او رازروئے تعبیر کے جواب مال ہے۔ جو دشمن کے دست برد سے بچایا جائے یا کوئی خزانہ جو لے جائے یا وفادار عورت او رمیرے گھر میں سے جو آپ کو جواب دیا تھا تو اس کی تعبیر وہ ہو سکتی ہے ایک یہ کہ ان کانام نصرت جہان بیگم او ریہ خدا کی نصرت کی طرف اشارہ ہے او ردوسری یہ اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ میری دعائیں آپ کو نصرت کا کام دیں گی۔ ایساہی آپ کو میر ناصر نواب صاحب نظر آئے اس میں بھی نصرت کا لفظ ہے اور میرا بیٹا بھی آپ کو نظر آنا بشارت ہے کیونکہ دعا بجائے بیٹے کے ہوتی ہے گویا وہ دعا ادل ایک ہندہ کے پاس محبوس تھی یعنی اس کے ظہور کا وقت نہیں آیا تھا اور اب وقت قریب ہے غرض ہر ایک جو اس کی خواب بہت مبارک ہے آپ کو چاہئے کہ مرد میدان اور پہلوان بن کر اب چند روز کی ابتلائوں کو برداشت کر لیں انشاء اللہ آسمان پرسے آپ کے لئے کوئی راہ نکل آئے گی اور حلوہ پہنچ گیا ہے خد اتعالیٰ آپ کو بہت بہت جزائے خیردے کہ مدارس کارزق قادیان پہنچا دیا حلوہ بظاہر بباعث شدت گرما خراب ہو گیا او راس پر وہ زنگ جیسا شیرینی پر چڑھ گیا تھاکہ پھینکنے کے لائق معلوم ہوتی ہے بعض نے کہا اب قابل استعمال نہیں لیکن ایک خادمہ نے کہا کہ میں اس کو نئے سرے سے بنا دیتی ہوں پھر خبر نہیں کہ اس نے کیا کیا ایسی عمدہ شیرمینی بطور قرض بنا لائی کہ نہایت لذیذتھی اس وقت تمام اہل وعیال میں تقسیم کی گئی چونکہ بھیجنے والوں نے محبت اور ارادت سے بھیجی تھی اس لئے خدا نے شیرمینی کو بگڑنے اور بیکار ہونے سے محفوظ رکھا خدا دن کو جزائے خیر بخشے او رآپ کو جزائے خیر بخشے آمین۔ باقی سب طرح سے خیریت ہے طاعون کا اس علاقہ میں پھر زور ہوجاتا ہے کوہ کسونی پر طاعون زور سے شروع ہوگئی بعض سرکاری خبروں سے معلوم ہوا کہ احاطہ بمبئی میں ہماری جماعت دس ہزار سے بھی کچھ زیادہ ہے او ر پنجاب میں اُونچاس ہزار ہماری جماعت ہے ابھی سرکاری کاغذات ہم کو نہیں ملے۔ کوشش کی جاتی ہے کہ ان کی نقل مل جائے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
مکتوب نمبر ۸۷
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا غم و انددہ کی کثرت اور بارگران قرضہ اگرچہ ……ایسی حالت میں جبکہ انسان اپنی کمزوری او ربے سامالی او رعدم موجودگی اس بات کا مطالعہ کر رہا ہو بہت آزاداہ چیز ہے لیکن پھر اگر دوسرے پہلو میں خدا داری چہ غم داری سوچا چا ہے تو ایسے غم کو بہت مجبوریوں کے ساتھ لاحق ہوں تاہم ایک غفلت کا شعبہ ثابت ہوں گے یعنی قادر حقیقی کے عجائب در عجائب قدرتوں پر ایمان نہیں ہوتا جو ہونا چاہئے۔ یہ خیال درحقیقت ایک تسلی او رسکر اور ہزار ہا امیدوں کے سلسلہ کا موجب ہے کہ ہمارا خد اقادر غذا ہے اور مجبیب الدعوات ہے ا س کے آگے کوئی بات انہونی نہیں یہ ایسی باتیں نہیں کہ محض طفل تسلی کے طور پر خوش کن باتیں ہوں بلکہ اگر دنیا میں نجات کے لئے یہ راہ کشی نہ ہوئی تو بے کسی کی زندگی سے مرنا بہتر تھا یہ سچا نسخہ کیمیاء کا ہے جو ہمار اایک خدا ہے جو تمام باتوں پر قادر ہے خد اتعالیٰ آپ کو اس قادر خد اکے دونوں قسموں کے فیضوں سے پورے طور پر متمع فرمائے آمین۔ باقی سب طرح خیریت ہے خدا آپ کا حافظ ہو زیادہ خیریت۔
والسلام
خاکسا ر
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۳۱؍ اگست ۱۹۰۲ء
مکتوب نمبر ۸۸
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
اس جگہ بفضل تعالیٰ سب طرح سے خیریت ہے جناب الٰہی میں آپ کے لئے سلسلہ دعا کا شروع ہے۔ دمن دق باپ الکریم افتح چند روز ہوئے کہ مدارس سے ایک شیشی خورد مشک کی آئی وہ پرچہ جہ فریسندہ کا نام تھا ڈاکخانہ سے گم ہو گیا وہ زبانی شکی طور پر کہتے ہیں کہ شاید یہ مدارس سے آئی ہے اس سے پہلے ایک عجیب واقعہ گزرا کہ ایک شخص نے مجھ کو پوچھا کہ جو انبیاء علیہ السلام بعض کھانے کی چیزوں کو برکت دیا کرتے تھے اور کھانا ختم نہیں ہوتا تھا وہ برکت کیا چیز تھی میں نے جواب دیا کہ جس چیز پر ایک مقبول آدمی دعا کرے اس کاسلسلہ لمبا کیا جاتا ہے جلدی ختم نہیں ہوتا خواہ کسی طرح لمبا کیا جائے اتفاقاً اس وقت میرے پا س ایک شیشی مشک کی تھی۔ جو ا س میں بہت تھوڑی سی مشک تھی میں نے کہا کہ دیکھو کہ ہم ا س کوبرکت دیتے ہیں تا یہ مشک آج یا کل ختم نہ ہو جائے تب میں نے اس پر دعائے برکت پھونک دی اور اسی روز تیسرے پہر یہ مشک آگئی جو کہتے ہیں غالباً مدراس سے آئی جنہوں نے یہ معاملہ دیکھا ان کے ایمان میں ترقی کاموجب ہوا مجھے آپ اطلاع دیں کہ کس تاریخ تک آپ کا ارادہ ہے کہ آپ قادیان میں تشریف لاویں اس روز پہلے اطلاع دیں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۱۰؍ ستمبر ۱۹۰۲ء
مکتوب نمبر ۸۹
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا علالت طبع عزیزی سیٹھ احمد صاحب کی خبر سن کر تفکر ہوا اللہ تعالیٰ جلد تر شفا عطا فرمائے آمین اس جگہ بفضلہ تعالیٰ تا دم تحریر سب خیریت ہے برابر دعا کی جاتی ہے اس نواح میں طاعون تو ہے لیکن بفضلہ تعالیٰ ابھی کچھ زور نہیں اکثر بیمار اچھے بھی ہو جاتے ہیں سنا گیا ہے کہ امرتسر میں طاعون دن بدن چمکتی جاتی ہے معلوم نہیں کہ طاعون سے خدمت مفوضہ لینا کس مدت تک حضرت احدیث کاارادہ ہے۔ باقی سب خیریت امید ہے کہ آپ جلد تر وہاں روانہ ہوں گے یا شاید یہ خط وہاں نہ مل سکے قادیان واپس آکر ملے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
۲۶؍ اکتوبر ۱۹۰۲ء
مکتوب نمبر ۹۰
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ مجھ کو ملا آپ بہت مضبوط اپنے استقامت پر قائم ہیں۔ کیونکہ جو آپ کے لئے کوشش کی گئی ہے وہ ضائع نہیں جائے گی ضرور ہے اوّل یہ ابتلاء انتہاء تک پہنچ جائے عسر کے ساتھ یسر ہوتی ہے او رغم کے بعد خوشی ہوتی ایسا نہ ہو کہ آپ بشریت کے وہم سے مغلوب ہو کر سلسلہ امید کو ہاتھ سے چھوڑ دیں کہ ایسا کرنا دعا کی برکت کم کر دیتا ہے میں بڑی سرگرمی سے آپ کے لئے مشغول ہوں مگر قریباً پندرہ روز سے ریزش کی شدت سے بیمار ہو ںاور ضعف بہت ہے اس لئے میں خط لکھنے سے مجبور و معذور رہتا ہوں۔ اکثر بباعث ضعف میرے دل پر ایسے عوارض کا ہجوم ہوتا ہے کہ میں بہت کمزور ہو جاتا ہوں مگر بہر حال آپ کو نہیں بھولتا مومن کی بڑی قسمت یہ ہے کہ وہ خدا پر ایمان لاتا ہے او راس کے فضل پر بھروسہ رکھتا ہے جو شخص خد اسے ناامید ہوتا ہے و ہ مومن نہیں ہوتا دنیا تو خود روزے چند او ربے اعتبار ہے ایک خدا ہی ہے جس سے خوشی ہے وہ قادر ہے او ربلاشبہ وہ ہر چیز پر قادر ہے آج میں نے خواب دیکھا کہ بعض آفات ……کی شکل پر میرنے مارنے کے لئے آئیں اور میں ایک کوچہ سر بستہ میں گرا ہوں اور بھینس کو میں نے مار کر ہٹا دیا او ردوسری کو بھی ہٹا دیا۔ لیکن تیسرا بھینسا ایک نہایت خبیث اور شریر اور مست معلوم ہوتا ہے اب وہ کوچہ سر بستہ میںبفاصلہ قریباً دو بالشت کے کھڑا ہے اور سخت حملہ کے لیے تیا رہے او ربھاگنے کی راہ بند کر دی اس وقت موت کاسامنا معلوم ہوتا تھا کہ کسی طرح مخلصی نہیں ہلاکت ہے تب خدا کی قدرت سے دوسری طرف اس کامنہ ہوا مگر وہیں کھڑا رہا میں غنیمت سمجھ کر اس کے حلقے میں سے نکل آیا اور وہ پیچھے دوڑا تب میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ کلام پڑھ اس سے نجات پائے گا او روہ یہ کلام ہے۔ ربی کل شئیٍ خادمک رب فاحفظنی والصرنی وارحمنی۔ ترجمہ۔ الے میرے رب ہر ایک چیز پر تیری خادم ہے اور تیرے حکم میں ہے مجھے ہر ایک بلاسے نگہ رکھ اور مدد دے اور رحم کر۔ میں یہ پڑھتا جاتا اور دوڑتا تھا۔ تب میرے دل میں ڈالا گیا کہ بلا دفع ہو گئی اور نیز میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ خدا کااسم عظیم ہے جو شخص صدق دل سے اس کو پڑھے گا وہ نجات پائے گا۔ اس لئے میں لکھتا ہوں کہ آپ بھی ہر نماز میں رکوع میں سجود دیںاور بعد فاتحہ دوسری سورت کے بعد اگر دوسری سورت بھی ……فاتحہ کے ساتھ ہو ضرور پڑھیں او رنذل اور عجز سے پڑھیں او رخدا تعالیٰ کے فضل پر پوری امید رکھیں وہ قوی وقامہ خدا ہے ایک دم میں جو چاہے کر دے انسان کو اس رحیم وکریم اور قادر سے ناامید نہیں ہونا چاہئے جو شخص ناامید ہوا وہ جہنم میں گیا اگر ہماری جلد ہمارے بدن پر سے الگ کر دی جائے اور ایک آہنی تنور میں ڈالی جائے تب بھی ہم اس خدا سے ناامید نہیں ہوسکتے ہمارے لئے ابراہیم کانمونہ کافی ہے جس نے خد اکی مرضی حاصل کرنے کے لئے اپنے بیٹے کی گردن پر چھری رکھ دی اور آنکھیں بند کر کے اپنی دانست میں ذبح کر دیا مگر آج اسی ذبح کردہ کی اولاد کہ ہم ان کوگن نہیں سکتے خد ابے وفا نہیں انسان خود بے وفا بنتا ہے خدا غدار نہیں انسان خود عذر کرتا ہے خد ا ہرگز اپنے وفادار کو نہیں چھوڑتا مگر بد بخت انسان خود چھوڑتا ہے۔ تب دنیا اور دین دونوں اس کے لئے تباہ ہو جاتی ہے خد اآپ کواستقامت بخشے او رآپ کے دل میں صبر ڈالے وہ کیمیاء ہے جس کاسونا کبھی ختم نہیں ہوتا خدا ابتلاء کے طور پر آگ میں ڈالتا ہے مگر صابر اور وفادار کو پھر محبت سے پکڑ لیتا ہے اور دوسری حالت میں ا س کی پہلی سے اچھی ہوتی ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر ۹۱
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
مدت ہوئی آنمکرم کا کوئی خط میرے پاس نہیں پہنچا نہایت تردد او رتفکر ہے خدا تعالیٰ آفات سے محفوظ رکھے اس طرف طاعون کا ا س قدر زرد ہے کہ نمونہ قیامت ہے گرمی کے ایام میں بھی زور چلا جاتا ہے میں آپ کے لئے برابر دعا کر رہا ہوں خدا تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے آخرکار یہ پریشانی دور کرے گا۔ مناسب ہے کہ آپ ارسال خطوط میں سستی نہ کریں اس سے تفکر پید اہوتا ہے خدا حافظ ہو چند روز سے میری طبیعت بعارضہ علیل ہے انشاء اللہ القدیر شفاء ہوجائے گی۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
۲۰؍ مئی ۱۹۰۲ء
مکتوب نمبر ۹۲
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کاعنایت نامہ پہنچا میں کئی ہفتہ سے بیمار ہوں پوری صحت نہیں اس لئے ہاتھ سے جواب نہیں لکھ سکا۔ آپ کی ملاقات کابڑا اشتیاق تھا مگر ہر ایک امر اپنے وقت پر موقوف ہے خدا تعالیٰ آپ کو تمام تفکرات سے رہائی بخشے۔ آمین دعا برابر نماز میں کی جاتی ہے باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
مکتوب نمبر ۹۳
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا بد دریافت خیرو عافیت خوشی ہوئی الحمدللہ اس جگہ بھی بفضلہ تعالیٰ سب طرح سے خیریت ہے میں ا س وقت تک معہ اپنی جماعت کے باغ میں ہوں اگرچہ اب قادیان میں طاعون نہیں ہے لیکن اس خیال سے کہ جو زلزلہ کی نسبت مجھے اطلاع دی گئی ہے اس کی نسبت میں توجہ کر رہا ہوں اگر معلوم ہو کہ وہ واقعہ جلد تر آنے والا ہے تو اس واقعہ کے ظہور کے بعد قادیان میں جائوں۔ اگر معلوم ہو کہ وہ واقعہ کچھ دیر بعد آنے والا ہے تو پھر قادیان چلے جائیں بہر حال دس یا پندرہ جون تک انشاء اللہ میں اسی جگہ باغ میں ہوں آپ تشریف لے آئیں انشااللہ تعالیٰ اس جگہ کوئی تکلیف نہ ہوگی اور آنے سے پہلے مجھے اطلاع دیں سب طرح سے خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
۱۲؍ مئی ۱۹۰۵ء
مکتوب نمبر ۹۴
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کاعنایت نامہ پہنچا جیسا کہ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں آپ کے لئے بہت دعا کی جاتی ہے او ریقین رکھتا ہو ںکہ خدا تعالیٰ آپ کو ضائع ہونے سے بچا لے گا وہ رحیم وکریم ہے آپ کا اپنی جماعت کے ساتھ اختاط او رمصالحت یہ آپ کی رائے پر موقوف ہے اگر ایسی مصالحت میں کوئی امر معصیت او رگناہ کو درمیان نہ ہو تو کچھ مضائقہ نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فی الصلح خیر ورنہ اس وقت تک صبر کرنا چاہئے جب تک خد اتعالیٰ خود آسمان سے کوئی صورت بہبودی پید ا کردے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے انسان اپنی کمزوری اور بے صبری سے آنے والی رحمت سے منہ پھیر لیتا ہے ورنہ خد اتعالیٰ کے وعدے سچے ہوتے ہیں۔ وہ ضرور وقت پر اپنی تمام باتیں پوری کر دیتا ہے قادر ہے او رکریم ہے صبر سے ایک حدتک تلخی اٹھانا موجب برکات ہے۔ مگر یہ کام بڑے خوش قسمت انسان نو کا ہے جن کوخد اتعالیٰ پر بہت بھروسہ ہے جو کبھی تھکتے نہیں آخر کار خداتعالیٰ ان کی مدد کرتا ہے اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں ایک جگہ فرماتا ہے وظنو اانہم کذبو یعنی ہم نے نبیوں کو وعدہ مدد اور فتح کا دیا پھر مدت تک اس وعدہ کو التوا میں ڈال دیا یہاں کہ مومنوں نے خیال کیا کہ خد انے جھوٹ بولا اور جھوٹا وعدہ دیا او راس کے کچھ آثار بھی ظاہر نہ ہوئے مگر آخر وقت پر وہ وعدہ پور اہو ااس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ کس قدر یہ خوف کامقام ہے کہ کچی طبیعت والوں پر یہ حالت بھی آجاتی ہے کہ وہ تھک کر خد اکے وعدے بدظنی سے دیکھنے لگتے ہیں اور جھوٹ خیال کرتے ہیں نہایت خوش قسمت وہ شخص ہیں جن میں تھکنے کا مادہ نہیں گویا ان پیغمبروں کی روح ہے حضرت یعقوب علیہ السلام کو قسم دیگر گواہوں کے ساتھ یہ یقین دلایا گیا تھا کہ یوسف کو بھیڑیا کھا گیا مگر خد اکے وعدہ میں وہ شک نہ لائے او رچوبیس برس کے قریب مدت گزر گئی خد اکے وعدہ نے کچھ بھی ظہور نہ کیا یہاں تک کہ گھر کے لوگ بھی یعقوب کو دیوانہ کہنے لگے آخر خد اکاوعدہ سچا نکلا۔ غرض سب کچھ انسان کر سکتا ہے لیکن صادق مومنوں کی طرح صبر کرنا مشکل ہے خاص کر بے ایمانی ہو جو ہر طرف سے چل رہی ہے جس نے کی طرف کو بے عزت کر دیا ہے وہ اکثر دلوں پر زہریلہ اثر دکھاتی ہے آخر کمزور انسان تھک کر ان میں سے ایک ہو جاتا ہے اور خد اسے ……جدا ہو جاتا ہے لیکن مومن کے لئے عہد شکنی سے مرنا بہتر ہے مومن کا خدا کے ساتھ ایمانی عہد ہوتا ہے اور جب خدا تعالیٰ کا بھروسہ چھوڑ دیا تو وہ عہد قائم نہیں رہتا پس صبر جیسی کوئی چیز نہیں جس کی برکت سے بگڑے ہوئے کام درست ہو جاتے ہیں او رخد اتعالیٰ راضی ہو جاتا ہے سو خدا تعالیٰ آپ کو ایسی توفیق دے کہ ان ہدایتوں پر آپ پابند رہیں۔ میرے نزدیک مناسب ہے کہ قادیان آنے کا اس وقت آپ ارادہ کریں جب کہ مدراس میں کچھ اطمینان اور تسلی کی صورت نکل آئے میں آپ کے لئے دعا میںسر گرمی سے مشغول ہوں صرف اس وقت کی دیر ہے جو آسمان پر مقرر ہے بے صبری سے اس پودے کو ضائع نہ کریں خدا مہربان ہو تو آخر ہر ایک مہربان ہو جایا کرتا ہے ورنہ دنیا داروں کی مہربانی بھی ایک مکرہوتا ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
۶؍ جولائی ۱۹۰۵ء







ضمیمہ
آب بیتی
حضرت سیٹھ عبدالرحمن صاحب رضی اللہ عنہ کے نام کے مکتوبات کے بعد میں اس مضمون کودرج کرنا ضروری سمجھتا ہوں جو سیٹھ صاحب نے حضرت حجتہ اللہ علی الارض مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد عالی کے ماتحت لکھا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے حکم دیا تھا کہ میں اسے الحکم میں چھاپ دوں چنانچہ وہ الحکم میں چھپ گیا تھا۔ حضرت سیٹھ صاحب کی اس یادگار کے ساتھ اس کا اندراج بہت ضروری ہے۔
حضور اقد س امام ہمام علیہ السلام ! اس خبر ……کی ابتدائی عمر میں سے قسم قسم کے لوگوں سے ملاقات رہی ہے۔ مگر جس گروہ کے ساتھ ملاقات ہوئی ابتدا تو ایک دلی جوش سے ہوا کرتی تھی اور اس ناچیز کو بڑی محبت اس سے رہا کرتی۔ لیکن جب کبھی کسی قسم کی کوئی منافقانہ حرکت ایسے ملاقاتی سے مشاہدہ میں آتی تو میرا دل رنج و غم سے بھر جاتا اور سخت صدمہ پہنچتا میری صحبت اور ملاقات زیادہ تر او رحصوصیت کے ساتھ علماء اور صلحاء سے رہتی اور بجائے خود تقویٰ اورطہارت کوبھی فی الجملہ پسند کرتا تھا۔ چنانچہ میری ابتدائی عمر کی ایک کفیت یہ ہے کہ ایک بزرگ وہ خراسانی تھے۔ بنگلور کے قریب ایک مقام میں جس کو لا کر کسی نے سکونت رکھتے تھے اور ان کا نام دو دومیان تھا چونکہ خراسانی گھوڑوں کے سوداگر وہاں قیام کرتے تھے۔ ایک سرکاری کے گھوڑوں کی خریداری بھی وہاں ہو اکرتی تھی…… اس لئے ان کاقیام اس جگہ رہتا تھا ا ور کبھی کبھی بنگلور بھی آجایا کرتے تھے۔ ایک نوجوان خوش رد اور تقویٰ او رپرہیز گاری میں کامل تھے اور اس وقت ان کاسن بھی کوئی پچاس کے قریب ہو گا مگر قرآت بہت اچھی پڑھتے تھے او ربڑے ہی خوش الحان تھے۔ جب کبھی ان کاآنا بنگلور میں ہوتا تھا تو جامع مسجد میںآکر فرد کش ہوا کرتے تھے او راس ناچیز کے وقت کا ایک حصہ مسجد میں گزرتا تھا ایک دفعہ ایسا اتفاق ہوا کہ مولوی صاحب دو دومیان صاحب نے نماز عشاء پڑھائی یہ گویا ان کی قرآت او رخوش الحافی پر مطلع ہونے کا پہلا اتفاق ہوا جوں جوں نماز پڑھتا تھا اور ساتھ ساتھ طبیعت کوان کی طرف میلان ہوتا اور پھرتو میرے وقت کا کچھ کچھ حصہ ان کی محبت میں گزرتا رہا چونکہ وہ بزرگ نہایت درجہ کے متقی پارسا اور تہجد گزار او رمنکرالمزاج تھے اور ان کے پیچھے نماز پڑھنے میں ایک لذت بھی محسوس ہوتی تھی باین سبب ان پر میراحسن ظن بڑھتا گیا او راکثر وہ ہمارے ہاں بھی مہمان ہوتے جب تک ان کاقیام ہوتا۔ چونکہ اس ناچیز کے والدین خدا ان کو مغفرت عطا کرے ا س بات کو نہایت عزیز رکھتے تھے تو میرے لئے یہ بات بہت آسان ہوجاتی کہ جب کوئی عالم یاکوئی اعلیٰ درجہ کے آدمی وہاں آجاتے تو ہرگز ہمارے مہمان ہوئے بغیر رخصت نہ ہوتے تھے او ریہ اس زمانہ کا ذکر ہے کہ اس ناچیز کو کاروبار دنیا سے کچھ معلوم نہ تھا مسجد او رمدرسہ اور کبھی کبھی اپنے ہم عمر لڑکوں کے ساتھ کھیل تماشہ سیر کرنے میں بھی گزرتا تھا غرض جیسا کہ والدیں کی عادت ہوا کرتی تھی بڑے دنوں یعنی مشہو رتہواروں میں لڑکوں کو کچھ دے دیا کرتے ہیں جیسا کہ عیدین کو وغیرہ کو او رایسا ہی بعض دوسرے رشتہ دار بھی ایسے موقعوں پر کچھ نہ کچھ نقدی بطور عیدی دے دیا کرتے ہیں تو اس ناچیز کے پا س ایسی تقریبوں کے جمع کئے ہوئے کوئی دس بارہ روپے تھے اور اس کو بڑی احتیاط سے اپنے پاس رکھتا تھا یعنی کسی کو اس چیز کی خبر نہ تھی۔ میں خاص اپنے صندوق میں رکھا کرتا تھا ۔ غرض ایک وقت مولوی صاحب مذکورہ حسب عادت تشریف لائے اور میں ان کو کھانا کھلانے کے واسطے مکان پر لے گیا چونکہ وہ کوئی وقت کھانے کا نہ تھا ہم میری والدہ نے چٹ پٹ تھوڑی روٹی اور سالن تیار کرلیا اور بہت جلد مولوی صاحب کے درپیش کیا معلوم ہوتا ہے اس وقت ان کواشتہا بھی زیادہ ……کھانا کھانے کے بعد۔
دعائے خیر معمول سے زیادہ ان سے صادر ہوئی اور ان کی حالت ظاہری سے کچھ ایسا بھی محسوس ہوتا تھا کہ ان کو کچھ او ربھی احتیاج ہے او رمیں نے وہ مبلغ جو اس عمرتک جمع کیا ہوا تھا تمام وکمال مولوی صاحب کے نذر کر دیا اور شاید آج تک اس کی کسی کو خبر نہیں ہے او رمجھے یہ واقعہ اب تک اچھی طرح یاد ہے۔
اس کے بعد مولوی صاحب بہت ہی محبت اور شفقت فرماتے رہے اور چونکہ صوفی منش بھی تھے کچھ کچھ ذکر اور اوراء مجھے سکھلانے لگے اور میں بھی ان کی ہدایت بموجب کرتا رہا۔ چنانچہ ان کی لکھوائی ہوئی ادعیہ میں سے ایک ابھی تک میرا دستور العمل ہے لیکن بعد اس کے بہت جلد شادی ہوئی۔ میری عمر کا شاید چودہواں سال ہو گا۔ جومیری یہ تقریب ہوئی او رمیری حالت اس وقت تک یہ تھی کہ میں اس کی غرض وغیرہ سے بالکل نا آشنا تھا۔ یعنی کچھ بھی خبر نہ تھی کہ شادی سے کیا غرض ہوتی ہے۔ غرض بعد شادی کے مجھے زیادہ انس مسجد اور اچھے لوگوںکی صحبت سے رہی۔ اگرچہ ایک حد تک دوکانداری بعد شادی کے ضروری امر ہوگیا مگر میں اس کے واسطے کچھ نہیں کرتا تھا میری بیوی اس وقت کبھی میرے پاس رہتی تھی کبھی میکے میں گزارتی تھی اکثر عادت ایسی تھی کہ ایک ہفتہ یہاں اور ایک ہفتہ وہاں ان کاگزرتا تھا۔ مگر میری یہ حالت رہتی تھی کہ جب وہ میکے میں ہوتی تھیں تو میں بڑا خوش رہتا تھا۔ چونکہ کمرہ خالی ہوتا اور میں مصلے پر ہی صبح کرتا تھا اس لئے میں اس تنہائی میں ایک خاص لطف محسوس ہوتا تھا میرے سسرا ل کو چند روز کے لئے سفر درپیش آیا اور انہوں نے میری بی بی کو ساتھ لے جانا چاہا اور میرے والدین سے اس امر کی درخواست کی او ران کو یہ بات ناپسند تھی۔ مگر میری یہ خواہش تھی کہ اگر یہ اجازت دے دیں تو مجھے ایک عرصہ تک تنہائی میسر رہے گی۔ غرض ایسا ہی ہوا اور مجھے تنہائی میسر ہو گئی اور میں اس تنہائی میں اپنے شغل میں لگا رہتا اور کچھ کچھ باطنی صفائی بھی مجھے محسوس ہوتی تھی او ر اچھے اچھے خواب بھی آتے تھے۔ دیوان حافظ وغیرہ ایسی کتابوں کے ساتھ مجھے خاص رغبت رہتی تھی اور میں وہ دن بڑی خوشی اور ذوق کے ساتھ گزارتا تھا۔ غرض جیسا کہ میں اوپر لکھ آیا ہوں یعنی دو تین سال میرے اسی طرح گزرے اور اس کے بعد میرے چھوٹے بھائی ذکر مرحوم کی شادی ٹھہری او رمیرے والدین اس سے محبت کیا کرتے تھے اور اس کو بہت چاہتے تھے کیونکہ جیسے وہ کمال درجہ کے شکیل تھے ویسے ہی ذکی الطبع بھی تھے پس ان کی شادی اس وقت کے رسم ورواج کے موافق بڑی دھوم دھام سے ہوئی جب اس شادی سے فراغت پا چکے تو انہوں نے حج بیت اللہ کا ارادہ فرمایا او راسی اثنا میں ہماری دوکان مدراس میں الگ ہو گئی جو اس سے پیشتر چند شرکائو نمیں چلتی تھی۔ اب سب شرکاء نے اپنی اپنی جدا جدا دوکانیں کھول کر ایک مشترکہ دوکان کو بند کر دیا اس مشترکہ دوکان میں چار شریک تھے جن کی اب وہ چار دوکانیں ہوگئیں والد مرحوم نے مجھے کواور ذکر مرحوم کو یہا ںچھوڑا اور باقی سب کو ہمراہ لے کر بیت اللہ شریف کو راہی ہو گئے اور یہاں دو بھائی ہم او ردو بھائی چچا زاد ہیں جو بڑی عمر کے تھے اور معاملہ فہم تھے مگر ہم دونوں بھائی کم سن تھے اور نو آموز۔ غرض والد صاحب کے تشریف فرما ہونے کے بعد چھوٹا بھائی زکریا مدراس کواپنی خاص دوکان پر روانہ کیا گیا۔ چونکہ وہ میرے سے زیادہ معاملہ فہم او رطبیعت کا ہر طرح سے تیز تھا اس لئے میرے بڑے بھائی نے ان کودہان روانہ کر دیا او رمیرے دوسرے چچا زاد بھائی کو الگ دوکان پر بیٹھایا او راپنے تئیں مجھے بڑی دوکان کے لئے تجویز فرمایا اور بعد اس کے خود بھی جلد کسی کام کے پیش آنے سے مدراس روانہ ہوگئے اور میں اکیلا یہاں دوکان پر رہ گیا اور اس وقت تک میں گویا ایک آزادنہ زندگی بسر کرتا تھا اور اب پابند ہوگیا اس لئے اب کچھ کچھ بوجھ معاملہ کا او ر خانہ داری کا محسوس ہونے لگا چونکہ ابتداسے ہمارے چچا زاد کا کھانا پینا الگ ہی تھا۔ معاملہ شرکت کا تھا۔ غرض ہر ایک قسم کی آزمائش ہونے لگی اور بہت جلد طبیعت آیندہ کے لئے ہوشیا ر ہو چلی تجارت پیشہ میں بھی ایک شمار ہونے لگا او رکچھ عزت اور وقار ……نظر سے ابنائے جنس میں دیکھا جانے لگا اور بصداق تکیہ برجائے بزرگان ننواں زد بگراف۔ مگر اسباب بزرگی ہمہ آمادہ کنی۔ ہر ایک موقعہ اور محل کا فہم گویا خدا سے ہی لگ گیا او رکوئی ایک برس کے بعد مدراس جانے کی نوبت پیش آگئی والد مرحوم کابعد حج شاید دوسرے یا تیسرے دن مکہ معظمہ میں انتقال ہو گیا اور بڑا سخت صدمہ اس حادثہ دل کو پہنچا جس کو یہ عاجز اب تک نہیں بھولا۔ غرض اس حادثہ جانکاہ کے بعد میرا بھائی بنگلور آ گیا اور مجھے وہاں جانا پڑا بعد پہنچنے کے بعد میرے چچا زاد بڑے بھائی جو وہاں موجود تھے صرف دو یا تین دن رہے اور بنگلور کو روانہ ہو گئے ان کی اس حرکت سے سخت حیرانی ہوگئی یعنی ایک تو میں بالکل نیا او رپھر ہر ایک طرح سے نوآموز دفتر وغیرہ لکھنے کی بالکل تمیز نہ تھی او رکسی اہل معاملہ سے شناسائی کروائی او رنہ کچھ زبان سے کہا اور نہ کیا تو یہ کیا چلنے پر آمادہ ہو گئے اور یہاں مجھے گویا قیامت کا سامنا ہوگیا ہزاروں کالین دین او رکچھ بھی نذارو مگر کیا ہو سکتا تھا۔ بجز اس کے کہ کہر درویش کبھی تو گھبرا کر رو پڑتا تھا اور کبھی دفتروں کو پاس رکھ کر ساری ساری رات غور کیا کرتا تھا اس وقت ایک مدراسی مسلمان ہمارے کام میں تھے جن کو کام و کاج کا کچھ تجربہ تھا ان سے مجھے مدد ملتی رہی غرض یہ کہ ان باتوں پرمیں بہت جلدی حاوی ہو گیا او رپھر معاملہ کے متعلق بھی شوق ہو چلا۔
یا امام ہمام علیہ الصلوٰۃ والسلام میرا اس قدر طوالت کے ساتھ اس مضمون کو بیان کرنے سے مدعا یہ ہے کہ یہ گویا میری ابتدائی عمر کا ایک ثلث ہے جس کو آج میں یاد کرتا ہوں تو میرے آنسو نکل پڑتے ہیں وہ کیا ہی مبارک حصہ زندگی کا تھا جس میں ہر قسم کی خیروخوبی جمع تھی۔ تجارت ایک محدود دلیرہ کے اندر چلتی تھی۔ اکثر اسباب بمبئی سے آیا کرتا تھا بمبئی سے بنگلور شاید اڑھائی اور تین مہینے کے اندر اسباب پہنچتا تھا تو ایک دم ہی تیس چالیس گاڑیوں میں کئی تاجروں کامال آجاتا تھا گویا ایک قافلہ کی حثیت ہوتی تھی او راس اسباب کے آنے سے جو رونق بازار کی ہوتی تھی اس کانقشہ ابھی تک میرے آنکھوں کے سامنے ہے غرض بیس سے لے کر چالیس فیصدی کے قریب پر نفع موجود چھوٹے چھوٹے بیوپاری مال خرید لیتے تھے اور چار سے چھ قسط میں روپیہ ادا کرنے کی شرط ہوتی تھی اور اس طرح پر سال میں بیس ہزار کے قریب قریب ہماری تجارت چلتی تھی اور سال میں آٹھ مہینے راستہ کھلا رہتا تھا او رچار مہینے بند یعنی رسم کے مخالف ہونے کی وجہ سے جہاز رانی موقوف رہتی تھی۔ یہ گویا معاش کا ذریعہ او راس وقت کی تجارت کی حالت تھی اب رہا دوسرا پہلو یعنی خانہ داری کا ملاخطہ فرمائے کہ ہمارے چچا نے زندگی تک رفاقت کی رہائش او رتجارت میں اس وقت شاید پچیس کے قریب آدمی ہمارے کنبے میں ہوں گے جو ایک ہی مکان میں رہتے تھے کوئی تین روپیہ کرایہ کاماہوارتھا جس میں اچھی طرح سے اوقات بسری ہوتی تھی میرے چچا شاید تین روپیہ اور میرے والد پندرہ روپیہ ماہوار خرچ کے لئے اٹھایا کرتے تھے ہر ایک چیز ارزان تھی گھی کی شاید دو سوا دو روپیہ فی من قیمت اور عمدہ سے عمدہ چاول کی قیمت پونے دو سے دو روپیہ تک فی بستہ تھی۔ علی ہذا القیاس ہر ایک خوردنی چیز کا یہ حال تھا او راس زمانہ میں جو لذید غذائوں کا استعمال ہوا کرتا تھا آج اس کانام ونشان بھی نظر نہیں آتا۔ ہمدردی اپنے اور بیگانے سے ایسی تھی کہ شادی در غمی دونوں پہلوئوں کااثر صاحب خانہ کے برابر دوسروں پر ہوتا تھا۔ خیراتی کاموں کی نگرانی صدق اور اخلاق او رمحبت سے ہوا کرتی تھی بدستور فقرا اور علماء میں میر چشمی نظر آتی تھی او رطالب ضرور ایک حد تک مستفیص ہوجاتے تھے۔ ادنی درجہ کاآدمی یعنی ایک دو روپیہ کامعاش رکھنے والا بھی خورم و خندق نظر آتا تھا مروت ؔ محبتؔ۔ صدقؔ۔ اخلاقؔ۔ حیاؔ۔ شرمؔ۔ حفظؔ مراتب۔ ہمدرؔدی ہر ایک قسم کے لوگوں میں پائی جاتی تھی گویاآسمان سے خیروبرکت کی بارش برس رہی تھی علی العموم جمیعت خاطر کے آثار نظر آتے تھے اور ابھی تک گویا وہ منتظر آنکھوں کے سامنے ہے اس کے بعد عمر کادوسرا ثلث ہے جس کی نسبت جی نہیں چاہتا کہ کچھ لکھوں صرف اس قدر اشارہ کافی سمجھتا ہوں کہ بتدریج اس ابتدائی حصہ کی خوبیاں جن کومیں نمونے کے طور پر لکھ رہا ہوں روبکمی ہوتی گئیں اور آخر حصہ میں وہ سب کی سب کافو رہو گئیں اور ان کی جگہ ناگفتہ بہ باتوں کامجموعہ اپنے اندر جمع ہو گیا اور صحبت اور مجلس بھی دیسی رہتی تھی۔ غرض جب تیسرے حصہ کا آغاز ہونے لگا شاید عمر بھی چالیس سے متجاوز ہو گئی توکچھ کچھ آنکھ کھلنے لگی گو کسی قدر حالات وہی دوسرے حصہ کے باقی اور قائم رہ گئے صرف اتنا فرق پیدا ہوا کہ اپنی حالت کو غور سے دیکھنے لگا اور اچھے اور بڑے میں تمیز ہونے لگی۔ والدین وغیرہ تو گویا سر پر سے اٹھ گئے تھے اب نوبت اپنے ہمنشینوں کی آئی جو کسی قدر معمر تھے وہ بھی باری باری اٹھنے لگے اور عبرت ناک حالات بھی پیش ہونے لگے کچھ تو اپنی نالائق زندگی کا غم اور تغیرات زمانہ کورنگ دل کو پکڑتا تھا مروت محبت اپنے بیگانے سے اٹھنے لگی دوست دشمن سے بدتر نظر آنے لگے۔ گھر کی بات بگڑنے لگی۔ ہم آٹھ بھائی تھے چھ حقیقی اور دو چچا زاد او رپھر سب باعیال و اطفال بلکہ بھتیجے تک صاحب خیال و اطفال۔ سب مل کرکوئی پچاس آدمی کا مجموعہ تھا مگرسب کے سب اچھی طرح گزارتے تھے کوئی کسی کا بار خاطر نہ تھا او رکسی کو کسی کے خرچ کرنا گران نہیں گزرتا تھا۔ چچازاد گویا حقیقی بھائیوں سے زیادہ عزیز تھے مگر اب اس میں بھی فرق آنے لگا اور ایک دوسرے درپے ہو گیا اتفاق کی صورت میں فرق آتا تھا گو چندے بات سنبھلی رہی او راس کی وجہ یہ تھی اس عاجز کا رعب سب گھروالوں پر تھا کسی کو کسی قسم کی سبقت کی جرات نہ ہو سکتی تھی۔ مگر چونکہ صورت اتفاق میں فرق آگیا اس لئے زندگی بے لطف سی ہو گئی او رپھر علیحدہ ہونے کی نوبت آپہنچی اور سب کے سب یکے بعد دیگرے الگ ہو گئے صرف ایک میرا بھائی زکریا میرے ساتھ رہا اور کارخانہ میں بھی ہمارے ہی سر پر پڑا کوئی دس برس کا عرصہ گزرتا ہے کہ میں قسم قسم کی ابتلائوں میں پڑا اور کوئی پہلو زمانہ ایسا نہ رہا جس سے مجھ کوسابقہ نہ پڑا ہو اور ہر ایک پہلو پر تغیرات کلی کا اثر محسوس ہونے لگا اور ساتھ اس کے میری زبان پر ا س کاشکوہ اور گلہ بھی رہا یہاں تک کہ میں نے اپنے بعض دوستوں کو بعض کامو ںسے روکا جو بظاہر اس وقت ان کے لئے مفید تھے مگر درحقیقت میری نظر میں جو اس حالت سے گزر کر خوفناک اور مضر ہو گئے تھے غرض انہوںنے میری بات نہ سنی اور خرابیو ںمیں مبتلا ہو گئے اور اکثر میں اب تک ایسا ہی دیکھتا آیا ہوں یعنی جس پہلو کو کچھ مدت پہلے جیسا میںنے تصور کیا تھا آخر وقت پر وہ ویسا ہی ثابت ہوا او راس سے یہ امر میری طبیعت میں پید اہو گیا کہ ایک چھوٹی سی بات پر بھی زیادہ غور کرتا او رایک ادنی کام کو بھی سوچے کرنا میری طبیعت کے خلاف ہو گیا او رہر پہلو سے زمانہ کو نازک سمجھنے لگ گیا۔ اسی عرصہ میں کچھ خسارہ بھی اٹھایا او رکچھ لوگوں کے حالات کا تجربہ بھی ہو گیا۔ غرض یہ کہ جیسا کہ میں نے کسی قدر تفصیل کے ساتھ ابتدائی عمر کے حصہ کو خیرو خوبی کا مجموعہ بنایا ہے اس سے وہ چند زیادہ شرو فساد کا مجموعہ اپنی عمر کے آخری حصہ کے زمانہ کو میں نے پایا او ر اگر اس کی تفصیل لکھنے بیٹھوں تو شاید میرے ذاتی تجارت کی ایک بڑی کتاب بن جاوے اور میں نے ہر ایک پہلو کو نہ فقط اپنے ہی تجربہ او رمشاہدہ پر چھوڑا۔ بلکہ ہر ایک پہلو کے پختہ کار لوگوں کی شہادت بھی میں نے لی اور ہمیشہ ایک خوفناک حالت زمانہ میں زندگی بسر کرتا رہا اور خاص کر تجارت کی حالت گذشتہ دس سال سے ایسی نازک ہوتی چلی آئی کہ ہمیشہ زوال عزت و ناموس عزت کا دھڑکا دل کو لگا رہتا اور شاید ۱۸۹۱ء اور ۹۲ء میں دو لاکھ روپے کا خسارہ مجھے ایک ایکسچینج میں مجھے بھگتنا پڑا۔ مگر خد اتعالیٰ نے مجھے ٹھوکر سے بچا لیا الحمداللہ علی ذالک۔
غرض اس کے بعد میں ہمیشہ تفکرافت کے دریا میں ڈوبا رہا او رزندگی گویا تلخ معلوم ہوتی تھی ایک طرف تو معاملہ کی کچھ ایسی حالت دوسری طرف کچھ اپنی سیہ کاریاں اور تیسرا یہ کہ جس پہلو کو ایک راحت کا موجب سمجھ کر اختیار کیا جاتا دونوں سے بجز نقاق اور بد ایشی کے کچھ نظر نہ آتا۔ وہ راحت جس کو حاصل کرنامقصود کرتا وہ تو رہی ایک طرف باقی رنج پہلے سے وہ چند ہو گیا۔ غرض میں یہ سچ سچ عرض کرتا ہوں کہ ایسی حالت دیکھ کر میں موت کو زندگی پر ترجیح دیتا تھا اور کسی کسی وقت میں اپنی سیہ کاریوں کے قصور میں رو پڑتا تھا اور اپنے آپ کو بد ترین مخلوق سمجھتا تھا او رباقی میری طبیعت میں غیر کا لحاط ابتدائے عمر سے چلاآیا ہے وہ آخیر تک رہا کسی کو بھی کسی قسم کا بھی آزار نہیں پہنچنا میں بڑا خطرناک یہ سمجھتا تھا اللہ تعالیٰ سے اکثر اس امر کی توفیق طلب کرتا تھا کہ وہ مجھے کسی کے آثار کا موجب نہ بناوے غرض اسی حالت میرے بھائی حاجی ایوب فوت ہو گئے تھے۔ مگر زکریا میرے ساتھ تھے بمبئی میں ان کی عزت ہر ایک طرح سے اچھی تھی تجارتی کاروبار میں ……مالی تائید ان سے ہی ملتی تھی اب ان کابیمار ہونا دو طرح کا رنج کا باعث ہو گیا جس کے سبب سے بڑی پریشانی رہی کرتی تھی اور یہ قریب قریب وہی زمانہ ہے جس میں میں نے دو لاکھ روپے کے خسارہ کا ذکر کیا ہے غرض جب ان کی علالت زیادہ ہو گئی تو میں نے بنگلور میں ایک مکان خریدا او رتبدیل آب وہوا کے لئے ان کو یہاں لے آیا۔ ہر ہفتہ میں دو دن ان کے پا س رہتا او رباقی دن مدراس میں۔
دوسرے افکار کا بوجھ جو اس وقت میرے سر پر تھا ا س کاذکر میں کچھ نہیں کرتا۔ بس اتنا ہی کافی سمجھتا ہوں کہ میں کہہ دوں۔ دل من داندو من دانم وداند دل من۔
غرض ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ میں جمعہ کی شام کو مدراس سے چل کر ہفتہ کی صبح کو بنگلور پہنچا او ربھائی کے پا س بیٹھا ہوا تھا ایک منشی صاحب بھی اس وقت پا س بیٹھے تھے اِدھر اُدھر کی بات چیت ہورہی تھی او رموجود زمانہ کی حالت زار کا ذکر ہو رہا تھا او راسی اثنا میں میرا چھوٹا بھائی محمد صالح جو ایک روز پہلے سے بنگلور آیا ہوا تھا۔ وہاں آگیا او رایک کتاب بھی ساتھ لایا اور وہ یوں کہنے لگا کہ یہ کتاب مجھے میرے سیالکوٹ ( پنجاب) سے غلام قادر فصیح نے بھیجی ہے اور قابل پڑھنے او رسننے کے ہے یہ کہہ کر انہوں نے اس کا پڑھنا شروع کیااو روہ کتاب حضور اقدس کی پہلی کتاب دعوی مسیحت اور مہدیت کے بعد کی تھی جس کامبارک نام فتح اسلام ہے غرض ا س کتاب کے کوئی دو دو ورق پڑھنے کے بعد میرے دل پر اس قسم کا اثر ہو امیں اس کو بیان نہیں کر سکتا مگر میرے بیمار بھائی زکریا مرحوم نے اسی وقت ایک جوش کے ساتھ باآواز بلند کہہ دیا کہ خد اکی قسم یہ بے شک وہی ہیں او ر ان کا کلام اس کی پوری شہادت دے رہا ہے۔ غرض ان کے ا س کہنے پر میں او روہ منشی صاحب بھی میرے ساتھ ہم آواز ہو گئے کہ بے شک یہ کلام کوئی نرالہ دل پر اثر کررہا ہے او رپھر دیر تک اس کو سنتے رہے یہاں تک کہ اوّل سے آخرتک ا س کو پورا سن لیا او رمجھے حضور کی طرف پورا پورا یقین ہو گیا۔ مگر مسیحت کے دعوے پر کچھ تعجب سا ہو رہا او راس کے ساتھ یہ خیال بھی کہ مسیح کے لئے تو یہ کہا جاتا ہے کہ وہ زندہ آسمان پر موجود ہے اور پھر اپنے وقت پر وہاں سے نزول فرمادیں گے او رکسی طرح کا اس میں اختلاف نہیں غرض اس وقت یہ فیصلہ کیاکہ خواہ کچھ ہی ہو مگر کتابیں تو سب منگوا کر دیکھنی چاہیئں اور اس طرف مرحوم بھائی کا بار بار یہ کہنا کہ یہ بے شک اپنے قول او رصادق ہیں او ربہت جلد لوگو ں پر یہ امر کھل جائے گا حالانکہ ان کی بہت ہی کم استعداد تھی مگر جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا ہے بڑے ہی ذکی الطبع تھے اور ان کی طبیعت ملانو ںاو رپیرزاوں سے ہمیشہ متنفر رہا کرتے تھے یہاں کہ ایسی کبھی مجھے کسی سے ملتے ہوئے دیکھ لیتے تھے تو صاف کہہ دیتے تھے کہ آپ کو ان مکاروں سے ہمیشہ دور رہنا چاہئے ان کی صحبت میں کبھی خیر نہیں حضور اقدس کی کتاب کو سنتے ہی ان کا یقینا قبول کر لینا ان کی کمال فراست کی پوری دلیل تھی۔ غرض میں دوسرے دن مدراس کو روانہ ہوا اور یہاں پہنچ کر سب کتابو ںکے لئے خط لکھوائے او رجس کسی سے ملاقات ہوتی ان سے یہ تذکرہ کرتا او رپھر ساتھ ہی موجودہ وقت کی ہر قسم کی برائیوں کی طرف ان کی توجہ دلاتا او راس وقت تک میری نظر صرف مسلمان تک ہی محدود تھی۔ یعنی ہر طبقہ کے مسلمانوں کی ہی حالت پر میری نظر تھی جس کے مشاہدہ سے ہمیشہ دل کو درد پہنچتا تھا۔
جب کبھی عام مفید کام کے لئے جلسہ ہو جاتا تو پھر چند حضرات موجود ہوتے تھے ان کی صورت او رسیرت طرز گفتگواور پھر ایک دوسرے کو باہم دیکھا جاتا ا س کی بابت ذکر کروں تو شاید طویل ہوتا ہے مگر مختصر الفاظ اس کے یہ ہیں کہ پوری پوری یہودیت ثابت ہو جاتی تھی یعنی جس غرض کے لئے جلسہ کیا وہ تو نا تمام اور تمام ہو بھی کس طرح جب ایک دوسرے کی رائے کے تابع ہونے کو ایک سبکی اور ذلت کا بموجب سمجھا جاتا ہو آخری جو کچھ اس جلسہ سے نتیجہ حاصل ہوتا وہ یہی کہ دو چار صاحبوں میں ……تو ضرور ہمیشہ کے لئے نقاق پڑھا جاتا او رباقی بھی ایک دوسرے پر کچھ نہ کچھ الزام لگائے بغیر خالی نہ رہتے غرض جو صاحب صاحبوں اس جلسہ کے بانی ہوتے ان کو بجز خفت کے کچھ حاصل نہ ہوتا او رپھر ہمیشہ کے لئے شاید دل میں عہد کرلیں کہ آیندہ کبھی ایسی بے جا حرکت نہ کریں گے غرض یہ اس قسم کی مجلسیں تھیں جن میں ہر قسم کے اور طائفہ کے لوگ جمع ہو جاتے تھے عالم۔ مولوی خاندانی بیسپاری نوکری پیشہ زمیندار وغیرہ وغیرہ گویا سب قسم کے لوگوں کا مجموعہ ہوتا ہے او رہر ایک قسم کی طبیعتوں کا او راخلاص کا خوب پتہ مل جاتا تھا یہ تو عام مفید کاموں کے جلسہ کا حال ہوا اب خاص خاص قسم کے لوگو ںکے جلسے اور تقریبات کا حال جس کا مجھے تجربہ ہو اہے لکھنے بیٹھوں تو بہت طو ل ہوتا ہے اس لئے صرف ہماری تجارت پیشہ لوگوں ہی کا مختصر حال لکھتا ہوں کہ مجھے ہمیشہ سے یہ اررذو رہی کہ زیادہ نہیں صرف دومسلمانوں تاجروں کے کسی تجارت کے کام میں اتفاق اور ایک دلی سے کام کرتے دیکھوں جس سے وہ نتیجہ جو اتفاق کے لئے لازمی ہے ان کو حاصل ہو ا ہو لیکن یہ میری آرزو نا تمام ہی رہی یوں تو بہتوں کو اتفاق کرتے دیکھا مگر انجام اس کا ایک تھوڑے ہی عرصہ کے بعد بدنظر آیا کہیں تو کورٹ کچہری میں خراب ہوتے دیکھا او رکہیں ہمیشہ کے لئے عداوت او رکہیں ہمیشہ کے لئے آپس میں کمٹپشین پڑ گیا او ردونوں کو خرا ب کر دیا غرض اس طرح کے بہت تجربے اور مشاہدے کے بعد میرا یہ دستور ہو گیا تھا کہ جہاں کہیں کسی امر کے متعلق بھی ہو مسلمانوں کی مجلس ہوتی تو پہلے اس مجلس میں دعوے سے میں کہہ دیتا تھا کہ مجھے ایک مدت دراز سے یہ آرازو ہے کہ مسلمان اپنی مجلس میں کامیاب ہوتے ہوئے دیکھوں۔ مگر میری یہ آرزو پوری نہ ہوئی او رمیری یہ عادت مدراس تک ہی محدود نہ تھی جہاں کہیں جانے کا اتفاق ہوتا تھا۔ یعنی بمبئی۔ بنگلور۔ مدراس۔ نیلگری تو موقعہ پر ضرور یہ کہہ دیتا تھا او رپھر مخاطب بھی ہوجاتے تھے۔ غرض مسلمانوں کے حالات او رعادات پر ہمیشہ رنج ہوتا ہی رہتا تھا۔ یورپ کے نو اتحاد اور اتفاق کا کہنا ہی کیا ہے اکثر کام ان کے اتفاق اور شرکت او ریک دلی کی بدولت ترقی کے انتہائی نقطہ تک پہنچے ہوئے ہیں مگر اس صورت میں بھی مسلمانوں کے سوا دوسری قوموں میں پھر بھی کچھ نظر میں آجاتا ہے چوہڑے چمار بھی اپنی بساط کے موافق کبھی نہ کبھی کسی کام میں متفق ہو جاتے ہیں مگر مسلمانوں اس کے برخلاف کیا عام کاموں میں او رکیا خاص میں پہر وہ دینی ہو یا دینوی اور کسی ملک میںبھی یعنی عرب عجم ہندو اور سند دکھن او ر کوکن جہان تک مجھے علم ہے ایک نمونہ بھی نظر نہیں آتا غرض ہر ایک موقعہ پر مسلمان بہت ہی کم نظر آتے ہیں اور کسی جگہ اتفاق سے کوئی مسلمان سرکاری کام وکاج میں کوئی اعلیٰ مرتبہ پر آجاتا ہے تو گویا اس کے لئے یہ مثال موزوں ہو جاتی ہے کہ مورہمان بہ کہ بناشد پرش الا ماشا ء اللہ غرض یہ میرے خیال اور مشاہدے پریشان ہی نہیں بلکہ استعجاب میں بھی ڈال دیتے تھے کہ یااللہ اسلام تو تیرا ہے مگر مسلمانوں کی حالت ایسی زار در قابل عبرت کیوں ہو گئی ہے کوئی ایک پہلوان کا یعنی کیا عبادت او رکیا معاملات سیدہا او رحق پر نظر نہیں آتا او ر حالت ایسی ہو گئی ہے بجز تیرے فضل کے یعنی مردے از غیب بروں آید کارے یکندے او رکوئی رستگاری کی صورت نظر نہیں آتی غرض اسی حالت میں حضور کی کتاب فتح اسلام کو میں نے سنا او راندر کا اندر ہی باغ باغ ہو گیا کہ آخر خدا نے ایک کو کھڑا ہی کر دیا او رپھر اسی کو جس کا زمانہ رسول کے بعد وقتاً فوقتاً انتظار ہوتا رہا اور کئی جھوٹے مدعی بھی اس نام کے زمانہ قرب زمانہ رسول سے ہوتی آئی مگر اب تو گویا عین وقت پر اور وہ بھی اشد ضرور ت کے وقت ہی آواز آئی ہے۔ سو یا اللہ تو اس آواز کو سچی اور مسلمانوں کے لئے مبارک ثابت فرما آمین ۔ یہ میری اندرونی حالت تھی اور میرے محروم بھائی نے تو گویا با آواز بلند شہادت بھی دے دی اور الحمد اللہ والمنتہ کہ خدا تعالیٰ نے ویسا ہی ثابت کردکھایا اور باغ اسلام میں دوبارہ گئی ہوئی بہار اور رونق آتی چلی ہے غرض اس موقع کے بعد کتابیں بھی آگئیں اور اس کے پڑھنے سے فہم کچھ کچھ بڑھتا گیا اور مدراس میں چرچا بھی ہوتا چلا۔ جو یک بیک ایک اخبار نام لکھنوسے شائع ہوتا تھا۔ اس میں یہ لکھا ہوا دیکھا کہ مرزا قادیانی ……اپنے دعوے مسیحیت سے دست بردار ہوگئے اس لئے اب پھر ان کی عزت وہی قائم رہ گئی جو اس دعوی کے قبل تھی یہ مضمون تھا عبارات میں کچھ فرق ہو گا مگر اس کے پڑھنے سے میرے پر جو صدمہ گزرا او ررنج ہوااس کو خد اہی جانتا ہے او رابھی تک میں اس کو بھولا نہیں غرض اس کے بعد میں نے حضور کی کتابیں ایک طرف ڈال دیں اور ایسی چالوں سے اور او داسی میرے پر چھا گئی کہ کچھ نہیں لکھ سکتا باوجود اس کے بھی ہونے سے صدہا لوگوں کو میں نے گویا یہ خوشخبری پہنچائی تھی او راب گویا اس کے خلاف اخباروں میں شائع ہو گیا ہے غرض اس مضمون کے دیکھنے کے بعد دوسرے یا تیسرے دن بمبئی سے میرے بھا ئی کا تار آیا او میں روانہ ہو گیا اور وہاں سے اپنے دوست سے افسوس ناک دل سے میں نے یہ تذکرہ کیا تو انہوں نے کہا کہ وہ تو اپنے دعوے پر قائم ہیں چنانچہ ان کے ایک خاص مرید یہاں آئے ہوئے ہیں او ران کی زبانی مجھے یہ سب کچھ معلوم ہوا ہے اب اس موقع پر مجھے جو خوشی ہوئی گویااس رنج سے وہ چند زیادہ تھی او روہ مرید گویا ہمارے شیخ رحمت اللہ صاحب تھے جن سے دوسرے روز میری ملاقات ہو گئی او رمفصل حالات بھی معلوم ہوئے اور کتاب آئینہ کمالات اسلام کی خبر پا کے انہیں کو میں نے جلدوی پی مدراس کے پتہ پر روانہ کرنے کے لئے فرمائش دی اور میں مدراس واپس گیا اس وقت یہ کتابیں پہنچ گئی تھیں۔ غرض پھر اسی طرح میں اس کا چرچا کرتا رہا اور سلطان محمود صاحب اور ان کے برادر زادہ اپنی جگہ پر باہم اس بارہ میں بحث کرتے تھے اور آخر وفات عیسیٰ پر دونوں کا اتفاق ہوگیا اور سلطان محمود صاحب نے مجھے خط لکھا او رحضور کی کتابوں کی خواہش ظاہرکی اس خط کے طرز تحریر سے یہ پتہ لگ گیا کہ حضور کی جانب سے ان کاحسن باطن ہے غرض میرے پاس جو کتابیں موجود تھیں وہ تو بھیج دیں او رآئینہ کمالات اسلام ایک مولوی کو دی تھی ان سے لینے کو لکھ دیا اور پھر میں ملاقات کی اور میرے سے زیادہ ان کامیلان حضور کی طرف پایا اور اس وقت تک وفات عیسی پر مجھے کامل یقین نہ ہو اتھا۔ مگر ان کے دوستوں مولویوں سے غرض ان کا حضور کی رجوع کرنا بڑی تقویت کا باعث ہو گیا اور قلیل عرصہ میں ایک چھوٹی سی جماعت تیار ہو گئی ہے او رشہر میں زور شور کے ساتھ اس کی شہرت ہونے لگی یہ وقت تھا کہ ان مولویوں ا ورملانوں کی اچھی طرح سے قطعی کھلنے لگی اور ان کی اندورنی حالت کا پورا اظہا رہونے لگا جس کی وجہ سے حضور کی طرف کمال درجہ کا یقین بڑھتا گیا یہا ںتک کہ حضور کی خدمت میں خط لکھا گیا او رجس قدر لوگ اس وقت تک اس سلسلہ میں شریک ہوئے تھے ان سب کے دستخط لئے گئے بعد اس کے جو کچھ ان ملانوں کا حال دیکھا وہ احادیث کے موافق تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں پہلے سے بطور پیشگوئی بتا رکھی تھیں۔ عوام میں ایک خطرناک جوش ان کے دجل او رکذب سے پھیل گیا اور اب یہاں کے مسلمانوں کے اسلام کا حال ایک نئے رنگ میں ظاہر ہونے لگا۔ ضرورت امام پر میرا یقین بڑھتا گیا او رحضور کی زیارت کا شوق دن بدن بڑھنے لگا اور اس فکر میں ہوا کہ کوئی رفیق مل جائے تو روانہ ہو آئوں۔ وہاں کے ایک مولوی جن سے زیادہ تعلق تھا او رجو بظاہر منافقانہ طریق پر ملتے جلتے بھی تھے مگر باطن میں پورا دشمن تھا جس سے میں اب تک نا واقف تھا۔ ان کو ساتھ لانے کی صلاح ہوئی۔ وہ ترملکہڑی کی جامع میں رہتے تھے جہاں میں گاڑی میں سوا رہو کر گیا اور حاجی بادشاہ کے مکان پر موجود بھی اندورنی احاطہ مسجد ہی میں واقعہ ہے ملاقات ہو گئی او رمذکورہ بادشاہ صاحب وہاں کے ایک مشہور اور نامی تاجر ہیں ان مولوی صاحب نے ہماری مخالفت اختیار کرنے کے بعد وہا ںاپنے قدم جمانے شروع کردئیے یہ بادشاہ صاحب بھی اگرچہ مخالف تھے لیکن چونکہ قدیم سے ان کے بزرگوں کے ساتھ میرا کمال درجہ کا ارتباط تھا۔ اس لئے بظاہر ان سے وہی سلوک قائم تھا اور اب تک بھی باقی ہے غرض وہاں مولوی صاحب سے میں نے کہا کہ سب سے بہتر یہی بات ہے تم میرا ساتھ دو اور میں آپ کے ہرقسم کے اخراجات کا کفیل اور ذمہ دار ہوں جوکچھ امتحان کرنا ہے وہاں جاکر کیا جائے اس میں بڑے بڑے فائدے ہیں روبرو جاکر جو چاہیں پوچھ سکتے ہیں اس سے خلق خدا کو بھی فائدہ پہنچے گا۔ کیونکہ آجکل جو طوفان بے تمیزی پھیل رہا ہے اس سے خلق اللہ کو نجات ہوگی اور میں آپ کو اس لئے تجویز کیا ہے کہ بظاہر آپ کے مزاج میں حق پسندی ہے اور تمہارے طالب علمی کے زمانہ سے میرا یہ حسن ظن ہے۔ پس آپ تیار ہوجائیں جمعہ کے دن یہاں سے روانہ ہوجائیں گے مگر ان کو یہ کب منظور تھا۔ ان کو مخالف میں اس وقت صریح فائدہ نظر آتا تھا غرض انہوں نے انکار کردیا اور واپس چلاآیا۔ اسی خیال میں تھا مولوی حسن محروم صاحب یاد آگئے اور وہ ان دنوں مدراس آنے والے بھی تھے کیونکہ انجمن کی طرف سے سالانہ جلسہ کی دعوت ان کو ہوئی تھی اور انجمن کے دراصل بانی وہی ہی تھے۔ لیکن اتفاق ایسا ہوا کے بھاگپور مولوی صاحب نکل چکے تھے اور یہاں دو مہینے کے لئے جلسہ ملتوی ہوگیا اس لئے مجھے یہ موقع خوب ہاتھ آیا اور فی الفور میں نے بمبئی کی اپنی دوکان پر تار دی کہ مولوی صاحب کو ٹھہراؤ اور میں آتا ہوں یہ تار دے کہ می بنگلور گیا اور رات کو اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ میں ارادہ کر چکا ہوں اب تو عالم الغیب اور بہتر جانتا ہے میرے لئے جو بہتر ہے وہ مہیا کر صبح کو حسب معمول ناشتہ کرکے گھر سے باہر چبوترہ پر آکر بیٹھا کہ اسی وقت ڈاک والا آگیا اور اس نے ایک چھٹی اور اس کے ساتھ ایک رسالہ الحق دیا میں نے رسالہ کو کھولا تو میری نظر سب سے پہلے اس ہیڈنگ پر پڑی جو ایک ’’بھاری بشارت ‘‘ سے موسوم تھا اور مضمون اس کا جھنڈے والے پیر صاحب کا واقعہ اور خلیفہ عبداللطیف اور عبداللہ عرب کا حضور اقدس میں حاضر ہونے کا تھا۔
غرض اس کے بعد میرا عزم مصم ہوگیا اور اسی روز شام کو مدراس اور دوسرے روز مدراس سے بمبئی روانہ ہوگیا اور مولوی حسن علی مرحوم صاحب سے ملاقات ہوئی اور چلنے کی بابت گفتگو ہوئی مولوی صاحب مرحوم نے حق مغفرت کرے جو اب میں یہ فرمایا کہ میں آپ کا ساتھ دینے کے لئے تیار ہوں۔ مگر ایک شرط سے میں نے کہا وہ شرط فرمائے انہوں نے کہا کہ اس سفر میں جب تک آپ کا اور ہمارا ساتھ ہے آپ نماز کی پابندی ملحوظ خاطر رکھیں بس یہی پہلی شرط ہے جس کو میں نے شکریہ کے ساتھ قبول کیا۔ دوسرے روز علی گڑھ روزانہ ہوگئے اور وہاں کے حالات پر غور کیا تو یہ ایک دوسری دلیل ضرورت امام کے لئے ہاتھ آگئی یعنی دو نمونے دیکھں ایک تو اسٹریچی ہال جس میں یورپین انداز کا نقشہ تھا جو زبان حال سے کہہ رہا تھا کہ جو یہاں داخل ہوگا وہ ضرور ایک نہ ایک دن یورپین انداز کا جنٹلمین ہوجائے گا اور دوسرا نمونہ مسجد کا دیکھا جس کی ظاہر صورت یہ تھی کہ ایک دو پھٹے پرانے بوریئے اور دو چار ٹوٹے پھوٹے لوٹے گویا زبان حال اس کا یہ مضمون ادا ہورہا ہے کہ جو میری طرف رکوع اور سجود کے لئے مائل ہوگا اس کا بساط پھٹے بورئیے اور پھوٹے ہوئے لوٹے کہ سوا آگے وہی یعنی اللہ خیر صلاً غرض یہ دونوں نظارے ایک عبرت لینے کے باعث میرے لئے ہوئی۔ پھر وہاں سے سیدھا قادیان شریف کا ارادہ ہوا ہمارے مولوی صاحب نے بہت کچھ قال قرآن میں دیکھے اور استخارہ بھی کئے غرض ہر ایک پہلو پر بھی ان کو جواب ملا کہ چلیئے چلئیے۔ غرض روانہ تو ہوگئے مگر مولوی صاحب کا شروع سے آخیر تک یہی بیان رہا کہ مرزا صاحب بڑے نیک آدمی ہیں۔ مگر ان کا یہ دعوی ان کو ظاہری وجاہت سے بہت کچھ بڑھا ہوا ہے ۔
میں اس کے جواب میں کہتا تھا کہ اب جو کچھ ہے وہاں پہنچ کر ہی ہوگا۔ جب امرتسر پہنچے تو وہاں مولوی محمد حسین صاحب کا کوئی چیلا ہم کو مل گیا او راس نے مولوی صاحب کو بہت کچھ روکا او ربابو محکم الدین صاحب کی کوٹھی تک ہمار اپیچھا نہ چھوڑا اور بلائے بد کی طرح لگا رہا اور وہاں پہنچ کر بھی مولوی صاحب تو ان کونرم جواب دیتے رہے اور وہ زیادہ گستاخ ہوتا چلا یہاں تک کہ آخر مولوی صاحب نے میرے پر حوالہ دے کر اپنی جان چھڑائی جب وہ میری طرف ہوا تو میری دو ہی جھڑکیوں سے گھبرا گیا اور پھر بیٹھ نہ سکا یعنی دفعہ ہو گیا غرض شب ہم نے گزاری او رصبح کو بٹالہ کی راہ لی اور وہا ںپہنچے تو وہاں بھی ایک صدہا ہو امگر ویسے ہی دل پر اثر ہوتا گیا یہاں تک کہ دارلامان کا نظارہ نظر آنے لگا اور جامع مسجد ایک بقعہ نور نظر آتی تھی اس سال بارش کثرت سے ہوئی تھی اس لئے پہنچنے میں دیر ہوئی۔ جب یہاں پہنچے تو میری اپنی یہ حالت تھی کہ ذوق اورمحبت سے بھر گیا تھا او رعجیب و غریب لذت اپنے اندر محسوس کر رہا تھا غرض ہم قادیان پہنچے او رمولانا مولوی نورالدین صاحب کے مدراسہ اور مطب کے پاس ……ہو گئے او رہم دونوں اتر پڑے غروب آفتاب کا وقت تھا مولوی حسن علی صاحب نے نورالدین صاحب سے مجھے تعارف کرایا او رمیں ان سے مصافحہ کرکے پاس بیٹھ گیا اتنے میں کسی نے آکر خبر دی کہ وہ نیا مکان جو تیار ہوا ہے اس میں ان مسافروں کااسباب بھیج دو۔ مولوی حسن علی صاحب اسباب کے ہمراہ اس مکان میں تشریف لے گئے او رمیں نماز عصر پڑھ کر مولوی نورالدین صاحب کی خدمت میں بیٹھا ہی تھا کہ ایک شخص نے آکر خبر دی کہ حضرت اس نئے مکان میں آکر جلوہ فرما ہوئے ہیں۔ تو میں یہاں سے اٹھا اور جلد اس مکان میں داخل ہوا اور میری نظر چہرہ مبارک پر پڑی میں خلفاً گزارش کرتا ہوں کہ حضو رکا سراپا اس وقت ایک نور مجسم مجھے نظر آیا ا ور میں آنکھ بند کر کے حضور کی دستبوسی کرنے لگا او رجوش محبت کے ساتھ میری آنکھوںمیںآنسو نکل پڑے او رحضور اس کے بعد کمال مہربانی اور شفقت سے احوال پرستی فرماتے رہے او رمیرا حال یہ تھا کہ اندر ہی اندر مولو ی حسن علی صاحب کو ملامت کرتا تھا کہ انہو ںنے حضور کی ظاہری وجاہت کیا بتائی تھی اور یہاں کیا نظر آرہا ہے اور منتظر تھا کہ حضور یہا ںسے تشریف لے جائیں تو ان کی خبر پورے طور سے لوں یہ میر اخیال ہو چکا اور حضور اقدس داشرف بھی اسی وقت اندر تشریف لے گئے او رجونہی مولوی حسن علی صاحب سے مخاطب ہوا۔ انہوں نے بلند آواز سے اللہ اکبر کہا او رفرمایا کہ خدا کی قسم یہ مرزا نہیں جو کچھ برس پہلے میں نے دیکھا تھا یہ تو کوئی او رہی وجو د نظر آرہا ہے غرض کہ ظاہری وجاہت میں بھی حضور کی پرانی ترقی انہوں نے بیان فرمائی اور اسی وقت کہہ دیا کہ بے شک اب یہ وہی نظر آرہے ہیں جس کا ان کو دعوی ہے اور مجھے کہا کہ بے شک تم بیت کر لو۔ چونکہ میں نے اپنی بھی ان سے عرض بتائی تھی کہ فقط اس لئے آپ کو ساتھ لیتا ہوں کہ موقع پر آپ مجھے نیک او رمیرے مناسب مشورہ دیں پس اسی طرح انہوں نے مجھے فی الفور کہہ دیا اور میری اندورنی حالت یہ تھی کہ اگر ایک نہیں ہزار دفعہ یہی اس کے خلاف اگر وہ مشورہ دیتے تو میں حلقہ بگوش ہوئے بغیر اس مبارک آستانہ سے جدا نہ ہوتا۔ مگر الحمداللہ کہ فی الفور مولوی صاحب نے میری دلی آرزو کے مطابق کہہ دیا لیکن ان کا خاص ارادہ بالکل اس امر پر نہ تھا ان کے لئے سب ہمارے مدراسی بھائیو ں کی یہ رائے تھی۔ اگر مولوی صاحب کی مرضی بھی آجائے پھر بھی مصلحت کو ہاتھ سے نہ چھوڑیں چونکہ اس وقت کی مخالفت بڑی سخت تھی او رمولوی صاحب سے ابھی وہاں بہت کچھ ہونا باقی تھا۔ اس لئے میں خود اس وقت اس امر کے مخالف تھا مگر مولوی صاحب پہلے ہی نظارہ میں زخمی ہو گئے تھے اس لئے وہ بجائے خو دبڑی تشویش میں پڑ گئے او راستخاروں پر استخارہ کرنے لگے اور یہی فرماتے تھے کہ مجھے کچھ پتہ نہیں لگتا کہ میں کیا کرو ںاس کے جواب میں میں لودہی کہتا تھا جو تمام احباب کی رائے تھی جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے مگر وہ ان کے خلاف مرضی ہوتی تھی او رپھر استخاروں کی طرف جھک جاتے تھے او رمجھے بھی روک رکھا تھا غر ض چار شبنہ کے دن بعد نماز صبح اپنی عادت کے موافق چار اوڑھ کر سو گئے او رچند منٹوں کے بعد جیسا کہ ان کی عادت تھی اٹھے او رفرمایا کہ مجھے بھی جواب ملا ہے کہ مولوی نورا لدین صاحب کے مشورہ پر عمل کرو۔ غرض اس وقت حضرت مولانا مولوی صاحب کو تشریف آوری کے لئے پیغام بھیجا او رحضرت مولانا کے اظہار کے بعد میری طرف مخاطب ہو کر فرمایا کہ آپ تو شاید بیعت کر چکے جواباً میں نے عرض کی کہ مولوی صاحب نے مجھے روک رکھا ہے اور اس کو سن کر مولانا نے فرمایا یا کاش تمنے معاً کر لی ہوتی تو اب تک اس کا کچھ نہ کچھ اثر بھی کر لیتے او رپھر مولو ی صاحب سے کہا کہ پوچھتے کیا ہو؟
درچہ باشی زود باش۔ غرض مولوی صاحب کے مشورہ کے بعد بھی صلاح ٹھہری کہ کل شب جمعہ ہے او رہم دونوں بیعت ہوں جائیں گے او رجمعہ پڑھ کر شبنہ کو روانہ ہو جائیں گے کیونکہ حضور نے وہی دن روانگی کا مقرر فرمایا تھا اس کے بعد مولوی حسن علی صاحب کا یہ حال تھا کہ بار بار فرماتے تھے کہ شب جمعہ تو کل ہے اس سے ان کومطلب یہ تھا کہ ابھی اس میں دیر ہے او ریہاں اتنی دیر کرنے کی برداشت نہیں ہے۔ غرض اسی روز شام کو یہ عاجز او رمولوی صاحب بیعت سے مشرف ہو گئے۔ الحمدللہ علی ذالک۔
اس کے بعد کوئی دو دن ہی ٹھہرنا ہوا اور حضور سے جدا ہوگئے پھرتے پھراتے کوئی ایک مہینہ بعد مدراس پہنچے اور وہاں حضرت مولوی سلطان محمود صاحب بڑا ہی اہتمام فرمایا تھا۔ اسٹیشن سے سیدھا میلاپور لے گئے اور پر تکلف دعوت دی اور ساتھ ہی اس ناچیز کو ایک اڈریس بھی دیا صد ہا مخالف بھی اس وقت جمع تھے۔ میں نے اس اڈریس کے جواب میں کچھ نہ کہا صرف اتنا ہی کہا کہ مولوی حسن علی صاحب تشریف لاویں گے اور مجھ سے بدرجہا افضل بھی ہیں جو کچھ ہم نے وہاں دیکھا اور پایا اس کو وہ خوب ادا کریں گے اور جلسہ برخاست ہوگیا ہے۔ اس کے بعد مخالفت کی آگ بہت تیز ہوگئی یہاں اب اسی سے نہیں مگر یہ ظاہر کرنا ضروری تھا کہ قبل از بیعت میری حالت کیا ہوئی اور ضرورت امام کس حد تک محسوس ہونے لگی اور پھر حضرت امام کی صداقت پر زمینی اور آسمانی نشان کیاکیا ظاہر ہوئے جن پر توجہ نہ کرنے سے کیا نتائج پیدا ہورہے ہیں غرض ان باتوں کو مختصر طور پر ذکر کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے سب سے اول اس امام الزمان علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کرنے کے بعد اپنے اندر جو تبدیلی محسوس ہوئی اس کو مختصر الفاظ میں لکھ دینا کافی ہے ابتدائی عمر کے زمانہ کے بعد زمانہ اوسط اور اس کے بعد لگا تار بیعت جو کچھ اپنی عملی حالت میں نے بتائی ہے اس کا ازالہ ہوتا چلا اور کوئی بیس اور پچیس برس ناگفتنی علتین اور عادتیں جو اپنے اندر تھیں اور جن کی بابت کبھی کھبی خیال کرکے میں رودیا کرتا تھا کہ اے رب ان برائیوں سے نجات کس طرح ہوگی اور مجھے یہ امر ناممکن معلوم ہوتا تھا اور فی الحقیقت اگر میں ہزار کوشش کرکے بھی جان چھڑاتاتو پھر یہ امر ناممکن معلوم ہوتا تھا کہ میری صحت وغیرہ میں کوئی فتور پیدا نہ ہوتا مگر حلفاً لکھتا ہوں کہ بعد بیعت وہ سب باتیں یکے بعد دیگرے ایسے دور ہوگئیں جیسے لاحول سے شیطان بھاگتا ہے اور مجھے تکلیف بھی محسوس نہیں ہوئی اور صحت کا یہ حال ہوگیا کہ گویا ان ارتکابوں کے وقت بیمار تھا اور ان کے ترک کے بعد تندرست ہوگیا اور یہ صرف حضرت حجت اللہ امام ۔۔۔علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاس طیبات کے طفیل نصیب ہوا اور اب اپنے اندر وہ باتیں دیکھتا ہوں کہ بے اختیا ر ہوکر رب کریم و رحیم کا شکر کرتا ہوں اور ابتدائی زمانہ کو بھی اس کے مقابلہ میں ہیچ سمجھتا ہوں۔ فالحمد اللہ علی ذالک اگر چہ میں اب تک اپنے آپ کو گنبدہ بشر سمجھتا ہوں اور اپنے اندر بہت سے عیوب محسوس کرتا ہوں مگر اس مولا کریم کی جناب میں قوی امید رکھتا ہوں کہ وہ اپنے حبیب کی جوتیوں کے صدقے میری مغفرت کرے گا اب دوسری بات یہ کہ ضرورت امام کس حدتک محسوس ہونے لگی سو اس بارے میں صرف اتنا کہہ دینا کافی ہے اگرچہ اس وجود باجود کوئی بیس برس قائم ہے وہ نہ ہوتا تو یہ دنیا غارت ہوجاتی اور میرا کامل یقین ہے کہ اس کے مبارک وجود کے طفیل جو سراسر رحمت الہی کا مظہر ہے یہ دنیا قائم ہے اور بہت کچھ برکات فیوض آئندہ اس وجود باجودسے اس کو نصیب ہونے والے ہیں اور انشاء اللہ تعالیٰ عنقریب وہ تمام باتیں عام طور پر ظاہر ہوجائیں گی۔ اگر چہ خاص طور پر اس کا مشاہدہ کرنے والے مشاہدہ بھی کرچکے ہیں ۔ والحمد اللہ علی ذالک۔
اب تیسری بات یہ ہے کہ اس عالیمنباب امام کی صداقت پر ……اور آسمانی نشان کیا کیا ظاہر ہوئے سو اس کاجوا ب بھی ہے کہ اکثر وہ سب ظاہر ہوگئے ہیں جن کاحدیثوں میں ذکر ہوا ہے اور اکثر اکابر دین دیں اس چودہویں صدی ہی میں نے اس کے ظہور فرماتے کا زمانہ کشفاً اور الیھا ماًظاہر ہو گیا ہے اور وہ اپنی اپنی تصانیف میں اس کاذکر بھی کر چکے ہیں او ران سب باتوں کے مفصل مذکور کے لئے۔ ہمارے امام علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتابیں بھری پڑی تھیںخدا تعالیٰ دنیا کو ان کتابوں کے دیکھنے کی توفیق نصیب کرے۔ تو پھر کسی قسم کا شک بھی نہ رہے گا۔ اب رہی چوتھی بات کہ امام وقت کی طرف رجوع نہ کرنے کے باعث کس قسم کے آثار وقوع پذیر ہونے لگے ہیں۔ تو جواب میں یہی گزارش کافی ہے کہ صیان چہ بیان۔ آج کئی سال ہوئے جوقہر آلٰہی کے آثار دنیا میں ظاہر ہو گئے ہیں۔ مگر خاص طور پر ہند کا جو حال ہوا ہے وہ تو پوچھا ہی نہیں۔ ابتدا تو طاعون سے ہوا ہے مگر بعد اس کے قہر آلٰہی کی وہ مختلف صورتیں جو وقتاً فوقتاً مفضوب پر عذاب کی صورت میں ہوتے نظر آنے لگے ہیں اور وہ تمام عذاب جن کاقرآن شریف میں ذکر ہے کسی نہ کسی صورت میں آنے لگے ہیں دیکھو وبا طاعون کا حملہ باری باری کس طرح ہوتا آیا ہے اور ہنوز روز ادل ہی کا نمونہ نظر آتا ہے پھر قحط کو دیکھئے کہ ا س نے کس طرح ملک کو تباہ کیا اور یہ عمل مطالعہ اخبارات سے بخوبی کھل سکتا ہے۔ پھر زلوں کو دیکھئے کیا انہوںنے دنیا کو کس طرح ہلا ڈالا ہے او ربعض بعض مقامات پر خطرناک خف الارض ہوا ہے اور مکہ سے لے کر وار جلنگ تک ایک خطرناک زلرلہ آیا۔
اب رہی چوتھی بات کہ امام وقت کی طرف رجوع نہ کرنے کا باعث کس قسم کے آثار وقوع پذیر ہوتے ہیں تو جواب میں یہ گزارش کافی ہو گی کہ عیافرا چہ بیان آج کامل تین سال ہوئے جو قہر الٰہی کے آثار کل دنیا میں آشکاد لہو ہو گئے ہیں مگر خاص کرکے ہند کا حال پوچھو ہی نہیں ابتدا تو طاعون سے ہوئی ہے مگر بعد اس کے کل ان قہر الٰہی کے نمونہ جو وقتاً فوقتاً مخالف منصوب قوموں کے لئے ہوئی جن کاذکر خود اللہ جلشانہ کی کتاب پاک میں موجود ہے ظاہر ہو گئی ہیں او رپھر یہ نہیں کہ ایک وقت دیکھو طاعون کاحملہ باری باری سے کس طرح ہوتا ہے اور پھر یہ گوہنوردو ادل سے ہے او ربعد اس کے قحط کو دیکھو پچھلے سال اس قدر شدت نہ تھی جتنی اس سال میں ہے۔ اخبا ربینوںپر مخفی نہیں۔ اس کے بعد زلرلہ آیا۔ پہلی مرتبہ تو چند ایک پر خطر ناک منظر پر تھا۔ جو خبر گزری او ربنگالہ ضلع رین کلکتہ سے لے کر دار جلنگ پر ایک وقت شدت سے ہوا و رکچھ خفیف سا نقصان بھی ہوا۔ مگر جانوں کی خیر گندی اور بعد اس کے خفیف طور پر مختلف مقاموں پر کچھ کچھ حرکتیں اس کی ہوتی آئیں۔ مگر پچھلی دفعہ جو ا س کا حادثہ ہو اجس کو ابھی چند مہینے گزرے کس قیامت کا ہوا کتنی جانیںتلف ہوئیں اور کتنے مقامات زمین کے اندر دہس گئے۔ علی ہذا القیاس سیلاب کی بابت دیکھے پہلے تو جب یہ چٹگام او راس کے اطراف میں آیا تو کچھ کم نقصان ہوا مگر بار ثانی جوپٹہ ضلع بہاگل پور اس کی نوبت پہنچی تو کیا کچھ خرابی نہ ہوئی۔ صدہا گائوں غرقاب ہو گئے اور بے حساب بندگان خدا اور چارپائے ہلاک ہو گئے جس کا صحیح اندازہ اب تک نہیں ہوا اور کوئی شہر کے اندر پانچ میل کے اندر پانی دس سے بارہ فیٹ چڑھ آیا تھا غر ض اندازہ ہو سکتا ہے کہ کیا کچھ نہ ہو اہو گا۔ آتشرذگی کا حال تو کچھ پوچھا ہی نہیں کوئی ہفتہ شاید خالی نہیں جاتا او رجان ومال کی خرابی نہیں ہوتی اور یہ مسلسل تین سال سے میں تجربہ کر رہا ہوں۔ اب آخیر سال جو اکثر لوگوں میں یہ بھی مشہور تھا کہ قیامت آجائے گی اور ان میں بعض قوموں کا تو یہ خیال تھا کہ اس امر کو بالکل یقینی سمجھے ہوئے تھے جس سے ایک عجیب طرح کا خوف ان پر مستولی تھا جس کا میں نے خود نظارہ دیکھا ہے لیکن علی العموم یہ خوف تھا کہ کچھ نہ کچھ ضرور ہو کے رہے گا۔ الا ماشا اللہ۔ غرض اس ایک بات کو بھی ذرا عمیق نظر سے دیکھو تو یہ کتنا بڑا نمونہ قہر الٰہی کا ثابت ہوتا ہے غرض آخر الا مراسی تاریخ کے قریب قریب بعض مقاموں پر ایسا ہو اکہ سخت طوفان آیا کہ مکانوں کے اڑ جانے کا خوف ہو گیا اور اکثر مکانوں کی چھت اڑ بھی گئی یہ واقعہ مدراس کے قریب ناگبشن میں ہوا جو ایک بڑا بندر ہے اور سب اخباروں میں اس کا ذکر ہوا تھا اور بعض لوگوں کی زبانی میںنے سنا جو وہاں سے آئے تھے کہ جب یہ حادثہ شروع ہوا اور شدت ہوتی چلی تو ہم کو یقین ہو گیا کہ بے شک قیامت ہی کے آثار ہیں اور حضرت اسرافیل علیہ اسلام کی صور ہے کسی کو باہر نکلنے کی طاقت نہ تھی او رصدہا بلکہ ہزار ہا بڑے بڑے تناور درخت بیچ دین سے اکھڑ گئے اور پختہ مکانات او رچھتیں گر گئے او رہم کو بھی یقین ہو گیا تھا کہ اس قیامت خیز حادثہ سے ضرور ہم ہلاک ہو جائیں گے اور فی الحقیقت او رکچھ تھوڑے سے وقت اگر یہ حادثہ اسی طرح قائم رہتا تو سارا نا کہیں نابود ہو جاتا مگر اللہ کافضل کہ جلد وہ دفعہ ہو گیا اور ہم نے یہ نئی زندگی پائی غرض یہ تو ان واقعات کا ذکر ہے جو اضطراری صورت رکھتے ہیں یعنی انسانی دخل کسی طرح کا ان میں نہیں اور اگر ان امور کی طرف خیال کرتے ہیں جن میں فی الجملہ انسانی دخل ہوتا ہے او رجن کو اختیاری کے نام سے موسوم کرسکتے ہیںتو ان کی حالت زیادہ وحشت خیز نظر آتی ہے بالخصوص تجارتی امور کو دیکھتے اس کے بتلانے کے آگ ہی یہ امر ظاہر کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس برٹش حکومت میں ا س کی ترقی کس حد تک پہنچی ہوئی ہے اور اگر سچ پوچھو تو برٹش حکومت کی ترقی کایہی زبردست اصول ہے او رگو یہ زمینی استحکام بھی ہے مگر اس کی حالت اس قدر ابتر ہو گئی ہے او رہوتی جاتی ہے جس کو مفصل بتلانے کے بہت کچھ لکھنا پڑتا ہے اس لئے مختصر کفیت یہ ہے کہ بہت سے بیچارے تو گو کہ مقابلہ سے دست برار ہو بیٹھے ہیں اور گو یہ وقت کاانتظار کر رہے ہیں ا و بہت سے ناتجربہ کاری کے باعث خواب ہو گئے اور جو کچھ حصہ کام رہا ہے اس کی یہ حالت ہے کہ گویا اگر امام شبے مانم شبے دیگر نمی مانم ایسی خوفناک تجارت کی حالت ہے یہ تو میں نے ایک بتلائی جس کا بہت اثر ہے۔ لیکن ساتھ اس کے اگر زراعت اور مزار عین کو دیکھتے ہیں تو تاجروں سے بھی بدتران کو پایا جاتا ہے اور ساتھ ہی حکومتیں اور سلطنتوں کے حالات پر غور کرتے ہیں تو سب سے زیادہ پریشان او رافکاروںکے سمندر عمیق غرق بھنور نظر آتے ہیں غرض علی العموم زمانہ کی حالت بدلی ہوئی نظر آتی رہے اور کیا چھوٹا اور کیا بڑا اپنی اپنی حد پر متفکر اور پریشان ہی نظر آتا ہے گو یہ جمیعت اور طمانیت مفقود ہو گئی ہے اور ساتھ ہی اس کے گویہ مروت محبت وفا یہ باتیں بھی اٹھ گئیں ہیں جب وہ نہیں تو ……کہاں غرض وہ مولیٰ کریم اپنا فضل فرماوے او راپنے بندوں کو نیک توفیق دے تا دقتوںکو پہنچانیں او رسلامتی جس راہ کو صرط مستقیم کہتے ہیں او رجس کے دکھلانے کے لئے حضرت امام آخر الزمان جن کامبارک لقب مسیح و مہدی علیہ اسلام ہے موجود ہو گئے ہیں او ربڑے درد دل سے منادی کررہے ہیں ان کی پیروی نصیب کرے۔ آمین۔
خاکسار
عبدالرحمن
۸؍رمضان المبارک ۱۹۱۸ء




حضرت سیٹھ عبدالرحمن صاحب رضی اللہ عنہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی رائے
حضرت سیٹھ عبدالرحمن صاحب کی خود نوشت مختصر سی سوانخ عمری کے بعد ان کلمات کا اندراج بھی ضروری سمجھتا ہوں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت سیٹھ صاحب کے متعلق ایک موقعہ پر شائع فرمائے۔ ایڈیٹر
’’او روہ گروہ مخلص جو ہماری جماعت میں سے کاروبار تجارت میں مشغول ہے انہیں سے ایک حبی فی اللہ سیٹھ عبدالرحمن صاحب تاجر مدراس قابل تعریف ہیں او رانہوںنے بہت سے موقع ثواب کے حاصل کئے ہیں۔ وہ اس قدر پر جوش محب ہیں کہ اتنی دور رہ کر پھر نزدیک ہیں اور ہمارے سلسلہ کے لنگر خانہ کی بہت سی مدد کرتے ہیں اور ان کا صدق اور ان کی مسلسل خدمات جو محبت اور اعتقاد او ریقین سے بھری ہوئی ہیں تمام جماعت کے ذیمقدرت لوگوں کے لئے ایک نمونہ ہیں۔ کیونکہ تھوڑے ہیں جو ایسے ہیں وہ ایک سو روپیہ ماہوای بلاناغہ بھیجتے ہیں اور آج کل کئی دفعہ پانچ سو روپیہ تک یکمشت محض اپنی محبت اور اخلاص کے ساتھ بھیجتے رہے ہیں اور جو ایک روپیہ ماہواری ہے و ہ اس کے علاوہ ہے‘‘
(اشتہار الانصار۔ ۴؍ اکتوبر ۱۸۹۹ء)
ایک ضروری یاد داشت
حضرت سیٹھ صاحب صدر انجمن احمدیہ کے ٹرسٹی تھے خودحضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کو نامزد فرمایا تھا۔ صدر انجمن کے ان ممبروں کے ساتھ بھی (جو بعد میں خارج ہوئے اور جنہوںنے خلافت حصہ سے عذر کیا) اپنے اخلاص او رحسن ظن کی وجہ سے محبت رکھتے تھے۔ لیکن جب خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کی وفات پر انہوں نے خلافت کے خلاف آواز اٹھائی اور سلسلہ حقہ میں تفرقہ پید اکرنا چاہا تو حضرت سیٹھ صاحب نے ان سے قطع تعلق کر لینا ضروری سمجھا۔ بذریعہ تار ا نہوں نے حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ بنصرہ کی بیعت کی او رآخر دم تک اسی پر قائم رہے۔ اسی محبت و وفامیں اپنے مولیٰ حقیقی سے جا ملے۔ اللہ تعالیٰ ان پر بڑے بڑے فضل او ررحم کرے۔ انہیں اپنی رضا کے مقام پر اٹھائے۔ آمین۔
سیٹھ صاحب کی ایک مختصر سی سوانخ عمری انشاء اللہ بعد میں شائع ہو سکے گی۔ وباللہ التوفیق۔
خاکسار
یعقوب علی
حضرت سیٹھ صاحب کی زندگی کا ایک واقعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرمیں
حضرت سیٹھ صاحب کی زندگی کے ایک واقعہ کا ذکر حضرت مسیح موعود نے اپنی کتاب تحفہ گولڑویہ میںکیاہے۔ میں اسے بھی یہاں درج کر دیتا ہوں۔ یہ واقعہ حضرت مسیح موعود نے صادق کی شناخت او راپنے صادق ہونے کے ثبوت میں بیان کیاہے چنانچہ فرمایا:۔
’’سو متوجہ ہو کرسننا چاہئے کہ خواص کے علوم اور کشوف او رعوام کی خوابوں او رکشفی نظاروں میں فرق یہ ہے کہ خواص کا دل تو مظہر تحلبیات الہیہٰ ہوجا ہے اور جیسا کہ آفتاب روشنی سے بھر اہوا ہے وہ علوم اور اسرار نحیبیہ سے بھر جاتے اور جس طرح سمندر اپنے پانیوں کی کثرت کی وجہ سے ناپیدا کنار ہے۔ اسی طرح وہ بھی ناپیدا کنار ہوتے ہیں او رجس طرح جائز نہیں کہ ایک گندے سڑے ہوئے چھپڑ کومحض تھوڑے سے پانی کے اجماع کی وجہ سے سمندر کے نام موسوم کر دیں۔ اس طرح وہ لوگ جو شاذونادر کے طور پر کوی َ سچی خواب دیکھ لیتے ہیں۔ ان کی نسبت نہیں کہہ سکتا کہ وہ نعوذ باللہ ان بحار علوم ربانی سے کچھ نسبت رکھتے ہیں او رایسا خیال کرنا اسی قسم کا لغو اور بہودہ ہے کہ جیسے کوئی شخص صرف منہ او رآنکھ او رناک اور دانت دیکھ کر سور کو انسان سمجھ لے یا بندر کوبنی آدم کی طرح شمار کرے تمام مدار کثرت علوم غیب اور استجابت دعا اور باہمی محبت و وفا اور قبولیت او رمحبوبیت پر ہے ورنہ کثرت قلت کا فرق درمیان سے اٹھا کر ایک کرم شب تاب کو بھی دیکھ سکتے ہیں کہ وہ بھی سورج کے برابر ہے۔ کیونکہ روشنی اس میں بھی ہے۔ دنیا کی جتنی چیزیں ہیں وہ کسی قدر آپس میں مشاہبت ضرور رکھتی ہیں۔ بعض سفید پتھر تبب کے پہاڑوں سے ملتے ہیں اور غزنی کے حدود کی طرف سے بھی لاتے ہیں چنانچہ میںنے بھی ایسے پتھر دیکھے ہیں وہ ہیرے سے سخت مشاہبت رکھتے او راسی طرح چمکتے ہیں مجھے یاد ہے کہ تھوڑا عرصہ گزرا ہے کہ ایک شخص کابل کی طرف رہنے والاچند ٹکڑے پتھر کے قادیان لایا اور ظاہر کیا کہ وہ ہیرے کے ٹکرے ہیں کیونکہ وہ پتھر بہت چمکیلے اور ابدار تھے اور ان دنو ںمیں مدارس میں ایک دوست جو نہایت درجہ اخلاص رکھتے ہیں یعی اخویم سیٹھ عبدالرحمن صاحب تاجر مدراس قادیان میں میرے پاس تھے ان کو وہ پسند آگئے او ران کی قیمت میں پانچ سو روپیہ دینے کو تیار ہو گئے او رپچیس روپیہ یاکم و بیش ان کو دے بھی دئیے او رپھر اتفاقاً مجھ سے مشورہ طلب کیا کہ میں نے یہ سودا کیا ہے۔ آپ کی کیا ہے۔ میں اگرچہ ان ہیروں کی اصلیت او رشناخت سے نا واقف تھا۔ لیکن روحانی ہیرے جو دنیا میں کامیاب ہوتے ہیں یعنی پاک حالت کے اہل اللہ جس کے نام پر کوئی جھوٹے پتھر یعنی مزور لوگ اپنی چمک دمک دکھلا کر لوگوں کو تباہ کرتے ہیں اس جوہر شناسی میں مجھے دخل تھا۔ ا س لئے میں نے اس ہنر کو اس جگہ برتا اور اس دوست کو کہا کہ جو کچھ آپ نے دیا وہ تو واپس لینا مشکل ہے۔ لیکن میری رائے یہ ہے کہ قبل دینے کے پانچ سو روپیہ کے کسی اچھی جوہری کو یہ پتھر دکھلا لیں۔ اگر درحقیقت ہیرے ہوئے تو یہ روپیہ دیں۔ چنانچہ وہ پتھر مدراس میں ایک جوہری کے شناخت کرنے کے لئے بھیجے گئے او ردریافت کیا گیا کہ ان کی قیمت کیا ہے۔ پھر شاید دو ہفتہ کے اندر ہی وہاں سے جواب آگیا کہ ان کی قیمت ہے چند پیسے۔ یعنی یہ پتھر ہیں۔ ہیرے نہیں ہیں۔ غرض جس طرح اس ظاہری دنیا میں ایک ادنیٰ کو کسی جزئی امر میں اعلیٰ سے مشاہبت ہوتی ہے۔ ایسا ہی روحانی امو رمیں ہو جاتا کرتا ہے اور روحانی جوہری ہوںیا ظاہری وہ جھوٹے پتھروں کو اس طرح پر شناخت کر لیتے ہیں کہ جو سچے جوہرات کے بہت سے صفات ہیں ان کی رُوسے ان پتھروں کو امتحان کرتے ہیں آخر جھوٹ کھل جاتا ہے او رسچ ظاہر ہو جاتا ہے۔‘‘
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پرانی تحریروں کا سلسلہ نمبر۴
اَلْمَکَتُوْبُ نَصْفُ الْمُلاقَاتُ
مکتوبات احمدیہ
(جلدپنجم نمبر۲)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مکتوبات بنام حضرت حکیم الامۃ مولانا نورالدین صاحب
خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ
جنکو
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کمترین خادم یعقوب علی عرفانی ایڈیٹر الحکم وغیرہ نے جمع کیا
اور
ابوالخیر محمود احمد عرفانی (مجاہد مصری) نے راست گفتار پریس امرتسر میں چھوا کر شائع کیا
بار اوّل تعداد پانچصد قیمت
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
عرض حال
میں اپنی زندگی کا یہ بھی ایک مقصد سمجھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہر قسم کی پرانی تحریروں کو جو کبھی شائع نہیں ہوئی ہیں یا نایاب ہو چکی ہیں اور لوگوں کو خبر بھی نہیں تلاش کروں اور جمع کر کے شائع کرتا رہوں۔ اس سلسلہ میںاب تک بہت کچھ شائع ہو چکا ہے اور ابھی بہت کچھ باقی ہے۔میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ مکتوبات احمدیہ کے سلسلہ میں پانچویں جلد (جو حضرت کے اُن مکتوبات پر مشتمل ہے جو آپ نے اپنے دوستوں کو لکھے) کا دوسرا نمبر شائع کر رہا ہوں۔ یہ مکاتیب حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کے نام ہیں اور ۱۸۸۵ء سے لے کر ۱۸۹۲ء تک کے ہیں۔ ممکن ہے آپ کے نام کے اور خطوط بھی ہوں مگر مجھے جو مل سکے ہیں میں نے جمع کر دیئے ہیں اور اگر اور مکتوبات میسر آئے تو وہ اس نمبر کے ضمیمہ کے طور پر شائع کر سکوں گا۔ وباللہ التوفیق
مجھے یہ کہتے ہوئے شرم آتی ہے کہ افسوس ہے ابھی تک جماعت میں ایسے قدر دانوں کی تعداد بہت کم ہے جو ان بیش قیمت موتیوں کی اصل قدر کریں۔
بہرحال میں اپنا کام جس رفتار سے ممکن ہے کرتا رہوں گا جب تک خدا تعالیٰ توفیق دے تا ہم دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس کام میں میرے مددگار ہوں۔
والسلام
خاکسار
عرفانی
کنج عافیت قادیان دارالامان
۱۸؍ دسمبر ۱۹۲۸ء

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر۲
مکتوب نمبر۱
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ عاجز (مؤلف براہین احمدیہ) حضرت جل جلالہ کی طرف سے مامور ہوا ہے کہ نبی ناصری اسرائیلی مسیح کی طرز پر کمال مسکینی اور فروتنی اور غربت اور تذلل اور تواضع سے اصلاح خلق کیلئے کوشش کرے اور ان لوگوں کو راہ راست سے بے خبر ہیں۔ صِرَاطِ مُسْتَقِیْم (جس پر چلنے سے حقیقی نجات حاصل ہوتی ہے) اور اِسی عالم میں بہشتی زندگی کے آثار اور قبولیت اور محبوبیت کے انوار دکھائی دیتے ہیں ۔ دکھاوے۔
خاکسار
غلام احمد
۸؍ مارچ ۱۸۸۵ء
نوٹ: یہ پہلا خط ہے جو حضرت حکیم الامۃ کے نام مجھے ملا ہے قیاس چاہتا ہے کہ اِس سے پہلے بھی چند خطوط ہوں۔ اس خط کا بھی اصل مسودہ نہیں ملا۔ بلکہ حضرت حکیم الامۃ کی نوٹ بک سے لیا گیا تھا اور ۳۱؍ اگست ۱۹۰۷ء کے الحکم میں میں نے اِسے شائع کر دیا تھا۔ اس خط کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے مسیح ناصری کے قدم پر مبعوث اور مامور ہونے کا دعویٰ مارچ ۱۸۸۵ء میںکر دیاتھا لیکن آپ نے بیعت کا اعلان اُس وقت تک نہیں کیا جب تک صریح فرمان ربانی نازل نہیں ہو گیا۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر۲
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
از عاجز عایذ باللہ الصمد غلام احمد۔ بخدمت اخویم مکرم و مخدوم حکیم نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ عنایت نامہ پہنچا۔ حال صدمہ وفات دو لخت جگر آنمخدوم و علالت طبیعت پسر سوم سُن کر موجب حزن و اندوہ ہوا۔ اللہ تعالیٰ جلشانہٗ آپ کو صدمہ گزشتہ کی نسبت صبر عطا فرماوے اور آپ کے قرۃ العین فرزند سوم کو جلد تر شفا بخے۔ انشاء اللہ العزیز یہ عاجز آپ کے فرزند کیلئے دعا کرے گا۔ اللہ تعالیٰ مجھ کو اپنے فضل و کریم سے ایسی دعا کی توفیق بخشے جو اپنی جمیع شرائط کی جامع ہو یہ امر کسی انسان کے اختیار میں نہیں ہے صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ اسی کی مرضات حاصل کرنے کیلئے اگر آپ خفیہ طور پراپنے فرزند دلبند کے شفا حاصل ہونے پر اپنے دل میں کچھ نذر مقرر کر رکھیں تو عجب نہیں کہ وہ نکتہ نواز جو خود اپنی ذات میں کریم و رحیم ہے آپ کی اس صدق دلی کو قبول فرما کر ورطۂ غموم سے آپ کو مخلصی عطا فرماوے۔ وہ اپنے مخلص بندوں پر ان کے ماں باپ سے بہت زیادہ رحم کرتا ہے۔ اس کو نذروں کی کچھ جاحت نہیں مگر بعض اوقات اخلاص آدمی کا اُسی راہ سے متحقق ہوتا ہے۔ استغفار اور تشرع اور توبہ بہت ہی عمدہ چیز ہے اور بغیر اس کے سب نذریں ہیچ اور بے سود ہیں۔ اپنے مولیٰ پر قوی امید رکھو اور اس کی ذات بابرکات کو سب سے زیادہ پیارا بناؤ کہ وہ اپنے قویٰ الیقین بندوں کو ضائع نہیں کرتا اور اپنے سچے رجوع لانے والوں کو ورطۂ غموم میں نہیں چھوڑتا۔ رات کے آخری پہر میں اُٹھو اور وضو کرو اور چند دوگانہ اخلاص سے بجا لاؤ اور درمندی اور عاجزی سے یہ دعا کرو۔
اے میرے محسن اور اے خدا! میں ایک تیرا ناکارہ بندہ پُر معصیت اور پُر غفلت ہوں تو نے مجھ سے ظلم پر ظلم دیکھا اور انعام پر انعام کیا اور گناہ پر گناہ دیکھا اور احسان پر احسان کیا تو نے ہمیشہ میری پردہ پوشی کی اور اپنی بے شمار نعمتوں سے مجھے متمتع کیا۔ سو اب بھی مجھ نالائق اور پُر گناہ پر رحم کر اور میری بیباکی اور ناسپاسی کو معاف فرما اور مجھ کو میرے اس غم سے نجات بخش کہ بجز تیرے اور کوئی چارہ گر نہیں۔ آمین ثم آمین
مگر مناسب ہے کہ بروقت اس دعا کے فی الحقیقت دل کامل جوش سے اپنے گناہ کا اقرار اور اپنے مولیٰ کے انعام و اکرام کا اعتراف کرے کیونکہ صرف زبان سے پڑھنا کچھ چیز نہیں جوش دلی چاہئے اور رقت اور گریہ بھی۔ یہ دعامعمولات اس عاجز سے ہے اور درحقیقت اس عاجز کے مطابق حال ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۰؍ اگست ۱۸۸۵ء
نوٹ نمبر۱: اس مکتوب پر حضرت حکیم الامۃ کا نوٹ ہے۔ یہ لڑکا اس وقت اس مرض سے بچ گیا تھا۔ پھر دوبارہ سعال دام الصبیان میں انتقال کر دیا۔ انا بفراقہ لمخرون و ادعوا الیہ رب نورالدین۔ ۲؍اسوج ۱۹۴۳ء بکری
نوٹ نمبر۲: اس مکتوب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک دعا مرقوم ہے جو آپ کے معملات سے تھی اور نیز آپ نے قبول ہونے والی دعا کا راز بتایا ہے۔ اس دعا کو پڑھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اندرون خانہ لائف پر ایک قسم کی روشنی پڑتی ہے اور یہ ان ایام کی بات ہے کہ آپ دنیا میں شہرت یافتہ نہ تھے۔ آپ کا کوئی دعویٰ نہ تھا۔ کسی سے بیعت بھی نہ لیتے تھے بلکہ ایک گوشہ گزین کی طرح زندگی بسر کرتے تھے۔ خدا تعالیٰ پر کس قدر یقین اور قبولیت دعا پر کس قدر بھروسہ تھا اور آپ کے اعمال کی حقیقت بھی عیاں ہے۔ نیز حضرت حکیم الامۃ کا نوٹ بتاتا ہے کہ وہ بچہ اس وقت بچ گیا اور یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا کا نتیجہ تھا۔ خدا تعالیٰ نے اس وقت تقدیر کو ٹال دیا۔ یہ لڑکا فضل الٰہی نام حضرت حکیم الامۃ کی پہلی بیوی میں سے تھا۔ (عرفانی)


مکتوب نمبر ۳
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا آپ کے مخلصانہ کلمات سے بے شک خوشبو بلکہ جوش راست گفتاری محسوس ہوتا ہے۔ جزاکم اللّٰہ خیرا آمین ثم آمین! آپ کی دختر صالحہ کے لئے بھی دعا کی گئی ہے۔ قرآن شریف کا حفظ کرنا یہ آپ کی ہی برکات کا ثمرہ ہے۔ ہمارے ملک کی مستورات میں یہ فعل شاید کرامت میں تصور کیا جاوے کیا خوش نصیب والدین ہیں اور نیز وہ لوگ جو تعلق جدید پیدا کریں گے جن کو اس صاحبِ شرف سے علاقہ ہے۔
والسلام علی من اتبع الہدی
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۱؍ مارچ ۱۸۸۶ء
٭٭٭
مکتوب نمبر ۴
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی و مکرمی اخویم مولوی نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس وقت ایک اشتہار دربارہ ازالہ اوہام مخالفین آپ کی خدمت میں مرسل ہے چونکہ آپ تشبہ فاروقی کے مدعی ہیں اور یہ عاجز یہی نہایت درجہ آپ پر حسن ظن رکھتا ہے اور اپنا مخلص اور دوست جانتا ہے۔ اس لئے آپ کی طرف تعلق خاطر رہتا ہے جو عنایات خداوندکریم جلشانہٗ کے اس عاجز کے شامل حال ہیں ان کے بارہ میں ہمیشہ یہی دل چاہتا ہے کہ اپنے دوستوں سے کچھ اس میں سے بیان کرتا رہوں اور بحکم و امابنعمت ربک فحدث تحدیث نعمت کا ثواب حاصل کروں۔ سو آپ سے بھی جو میرے مخلص دوست ہیں۔ ایک راز پیشگوئی کا بیان کرتا ہوں۔ شاید چار ماہ کا عرصہ ہوا کہ اس عاجز پر ظاہر کیا گیا تھا کہ ایک فرزند قوی الطاقتین کامل الظاہر والباطن تم کو عطا کیا جائے گا سو اس کا نام بشیر ہوگا۔ اب تک میرا میرا قیاسی طور پر خیال تھا کہ شاید وہ فرزند مبارک اسی اہلیہ سے ہوگا۔ اب زیادہ تر الہام اس بات میں ہو رہے ہیں کہ عنقریب ایک اور نکاح تمہیں کرنا پڑے گا اور جناب الٰہی میں یہ بات قرار پا چکی ہے کہ ایک پارسا طبع اور نیک سیرۃ اہلیہ تمہیں عطا ہوگی وہ صاحب اولاد ہوگی۔ اس میں تعجب کی بات یہ ہے کہ جب الہام ہوا تو ایک کشفی عالم میں چار پھل مجھ کو دیئے گئے تین ان میں سے تو آم کے تھے۔ مگر ایک پھل سبز رنگ بہت بڑا تھا۔ وہ اس جہان کے پھلوں سے مشابہ نہیں تھا۔ اگرچہ ابھی یہ الہامی بات نہیں۔ مگر میرے دل میں یہ پڑا ہے کہ وہ پھل جو اس جہان کے پھلوں میں سے نہیں ہے وہی مبارک لڑکا ہے کیونکہ کچھ شک نہیں کہ پھلوں سے مراد اولاد ہے اور جب کہ ایک پارسا طبع اہلیہ کی بشارت دی گئی اور ساتھ ہی کشفی طور پر چار پھل دئے گئے جن میں سے ایک پھل الگ وضع کا ہے۔ تو یہی سمجھا جاتا ہے۔ واللّٰہ اعلم بالصواب
نئی شادی کی تحریک اور الٰہی روک
ان دنوں میں اتفاقاً نئی شادی کیلئے دو شخصوں نے تحریک کی تھی۔ مگر جب ان کی نسبت استخارہ کیا گیا تو ایک عورت کی نسبت جواب ملا کہ اس کی قسمت میں ذلت و محتاجگی و بے عزتی ہے اور اس لائق نہیں کہ تمہاری اہلیہ ہو۔ اور دوسری کی نسبت اشارہ ہوا کہ اس کی شکل اچھی نہیں گویا یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ صاحب صورت و صاحب سیرۃ لڑکا جس کی بشارت دی گئی ہے وہ برعایت مناسبت ظاہری اہلیہ جمیلہ و پارساطبع سے پیدا ہو سکتا ہے۔ واللّٰہ اعلم بالصواب
اب مخالفین آنکھوں کے اندھے اعتراض کرتے ہیں کہ کیوں اب کی دفعہ لڑکا پیدا نہیں ہوا۔ ان کے ابطال میں ایک دوست نے اشتہارات شائع کئے ہیں۔ مگر میری دانست میں اس لڑکے کے تولد سے پہلی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ یہ تیسری شادی ہو جاوے کیونکہ اس تیسری شادی میں اولاد ہونے کے اشارات پائے جاتے ہیں۔ غالباً اس تیسری شادی کا وقت نزدیک ہے۔ اب دیکھیں کہ کس جگہ ارادہ ازلی نے اس کا ظہور مقرر کر رکھا ہے۔ الہامات اس بارے میں کثرت سے ہوئے ہیں اور ربانی ارادہ میں کچھ جوش سا پایا جاتا ہے۔ واللّٰہ یفعل مایشاء وھوعلی کل شئی قدیر۔ اپنی خیرو عافیت سے اطلاع بخشیں۔ والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
از قادیان ۸؍ جون ۱۸۸۶ء
نوٹ: یہ خط نہایت اہم ہے اور بعض عظیم الشان پیشگوئیاں اس کے اندر موجود ہیں۔ سب سے اوّل یہ کہ خدا تعالیٰ آپ کو چار بیٹے دے گا اور ایک ان میں عظیم الشان ہوگا۔ اس خط سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کسی الہام الٰہی سے نہیں بلکہ خود حضرت کا یہ خیال تھا کہ شاید وہ موعود لڑکا تیسری بیوی سے ہو جس کو واقعات نے بتایا کہ وہ دراصل اسی پہلی اہلیہ سے جس کو خدا تعالیٰ نے اُمّ المؤمنین ہونے کا شرف اور عزت بخشی۔ پیدا ہونے والا تھا۔
جہاں تک واقعات نے ثابت کیا ہے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ پھل جو اس جہان کا نہ تھا اس سے مراد دراصل یہ تھی کہ ایک لڑکا تو پیدا ہوگا مگر وہ فوت ہو جائے گا جیسا کہ صاحبزادہ مبارک احمد صاحب (اللھم اجعلنا فرطًا و شافعاً) سبز رنگ کا پھل آپ کو دکھایا گیا تھا۔ اس سے سبز اشتہار کی حقیقت بھی ظاہر ہوگئی ہے کہ حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام نے اسے سبز رنگ پر کیوں شائع کیا تھا۔ پھر ایک اور امر نہایت صفائی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام فی الحقیقت خدا کی جانب سے مامور ہو کر آئے تھے اور آپ کے الہامات خدا کا کلام ہی تھے۔ آپ کو ان پر کامل یقین تھا اور یہ بھی کہ انبیاء جس طرح الہامات اور پیشگوئیوں کی تعبیر اور تعین میں قبل از وقت خطا اجتہادی کر جاتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی اس کلیہ سے مستثنیٰ نہ تھے۔ آپ کو فرزند موعود کے متعلق اوائل میں یہ اجتہادی غلطی لگ رہی تھی کہ وہ شاید تیسرے نکاح سے پیدا ہوگا۔ مگر واقعات نے بتایا کہ ایسا نہیں مقدر تھا اور اس … کو دور کرنے کیلئے خدا تعالیٰ نے اس پیشگوئی کو ہی منسوخ کر دیا اور قضائے معلق کو بھی مبرم بنا دیا۔ پھر اس خط کی بنا پر اور واقعات کی تائید سے حضرت اُمّ المومنین کا مقام شرف ظاہر ہوتا ہے۔ غرض یہ مکتوب گونا گوں امور مہمہ پر مشتمل ہے اور ہمارے ایمانوں کو تازہ کرنے والا ہے۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر ۵
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ اس عاجز نے جو آپ کی طرف لکھا تھا وہ صرف دوستانہ طور پر بعض اسرار الہامیہ پر مطلع کرنے کی غرض سے لکھا گیا کیونکہ اس عاجز کی یہ عادت ہے کہ اپنے احباب کو ان کو قوت ایمانی بڑھانے کی غرض سے کچھ کچھ امورغیبیہ بتا دیتا ہے اور اصل حال اس عاجز کا یہ ہے کہ جب سے اس تیسرے نکاح کیلئے اشارہ غیبی ہوا ہے تب سے خود طبیعت متفکر و متردد ہے اور حکم الٰہی سے گریز کسی جگہ نہیں۔ مگر بالطبع کارہ ہے اور ہر چند اوّل اوّل یہ چاہا کہ یہ امر غیبی موقوف رہے لیکن متواتر الہامات و کشوف اس بات پر دلالت کر رہے ہیں کہ یہ تقدیر مبرم ہے۔ بہرحال عاجز نے یہ عہد کر لیا ہے کہ کیسا ہی یہ موقعہ پیش آوے جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے صریح حکم سے اس کے لئے مجبور نہ کیا جاؤں تب تک کنارہ کش رہوں کیونکہ تعداد ازدواج کے بوجھ اور مکروہات از حد زیادہ ہیں اور اس میں خرابیاں بہت ہیں اور وہ لوگ ان خرابیوں سے بچے رہتے ہیں جن کو اللہ جلشانہٗ اپنے ارادہ خاص سے اور اپنی کسی خاص مصلحت سے اور اپنے خاص اعلام و الہام سے اس بار گراں کے اُٹھانے کیلئے مامور کرتا ہے۔ تب اس میں بجائے مکروہات کے سراسر برکات ہوتے ہیں۔ آپ کے نوکری چھوڑنے سے بظاہر دل کو رنج ہے مگر آپ نے کوئی مصلحت سوچ لی ہوگی۔ والسلام باقی سب خیریت ہے ۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۰؍ جون ۱۸۸۶ء
نوٹ: حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک تیسرے نکاح کے متعلق بعض اشارات ملی تھیں۔ یعنی ان سے پایا جاتا تھا کہ ایک تیسرا نکاح ہوگا۔ چنانچہ اس کے متعلق ایک تحریک بھی ہوئی۔ وہ نکاح کی تحریک اور پیشگوئی دراصل ایک نشان تھا جو ایسے خاندان کیلئے مخصوص تھا جو آپ کے ساتھ تعلقات قرابت بھی رکھتے تھے۔ مگر خدا تعالیٰ سے دورہی نہ تھے۔ گو نہ منکر تھے۔ اس لئے خدا تعالیٰ نے اس ذریعہ سے ان پر اتمام حجت کیا۔ حضرت حکیم الامۃ کو آپ نے بشارات سے اطلاع دی۔ جہاں تک میرا علم ہے حضرت حکیم الامۃ اس امر پر آمادہ تھے کہ اپنی لڑکی حضرت کو دے دیں۔ بشرطیکہ وہ قابل نکاح ہوتی۔ حضرت اقدس نے اس خط کے ذریعہ تصریح فرمائی کہ آپ اپنے احباب کو قبل از وقت بعض الہامات سے اطلاع کیوں دیتے ہیں اور وہ ایک ہی غرض ہے کہ ان کی ایمانی قوت ترقی کرے۔ دوسرے اِس خط سے صاف طور پر ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ذاتی طور پر تیسرے نکاح کو پسند نہ کرتے تھے بلکہ کارہ ہونا صاف لکھا ہے اور یہ بھی کہ آپ نے عہد کر لیا تھا کہ اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ صریح حکم مجبور نہ کیا جاؤں نکاح نہیں کروں گا۔ اس سے ان لوگوں کے تمام اعتراضات دور ہو جاتے ہیں۔ جو نعوذ باللہ آپ پر نفس پرستی کا اسی طرح الزام لگاتے ہیں جس طرح آریہ اور عیسائی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر لگاتے ہیں۔ (عرفانی)
٭٭٭
مکتوب نمبر۶
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ یہ بات عین منشاء اس عاجز کے مطابق ہوئی کہ آپ کا استعفیٰ منظور نہیں ہوا۔ انشاء اللہ کسی موقعہ پر ترقی بھی ہو جائے گی۔ امید ہے کہ ہمیشہ حالات خیریت آیات سے مطلع فرماتے رہیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۷؍ جولائی ۱۸۸۶ء
مکتوب نمبر ۷
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ عنایت نامہ پہنچا۔ استماع واقعہ وفات فرزند دلبندان مخدوم سے حزن و اندوہ ہوا۔ انا لِلّٰہ و انا الیہ راجعون۔ خداوندکریم بہت جلد آپ کو نعم البدل عطا کرے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے اور جو چاہتا ہے کرتا ہے انسان کیلئے اس کے گوشہ جگر کا صدمہ بڑا بھارا زخم ہے۔ اس لئے اس کا اجر بھی بہت بڑا ہے اللہ جلشانہٗ آپ کو جلد تر خوش کرے۔ آمین ثم آمین
سرمہ چشم آریہ میری بار بار کی علالت کے توقف سے چھپا اور اب پانچویں دن تک اس کی جلدیں یہاں پہنچ جاویں گی۔ تب بلاتوقف آپ کی خدمت میں ایک جلد بھیجی جائے گی چونکہ اس کے بعد رسالہ سراج منیر چھپنے والا ہے اور جو اس کے لئے روپیہ جمع تھا وہ سب اس میں خرچ ہو گیا ہے اس لئے آنمخدوم بھی اپنے گردونواح میں دلی توجہ سے کوشش کریں کہ دست بدست اس کے خریدار پیدا ہو جائیں۔ اس پر پانسوروپیہ کا کاغذ قرضہ لے کر لگایا ہے۔ منشی عبدالحق صاحب اکونٹنٹ شملہ نے یہ پانسوروپیہ قرضہ دیا۔ چار سو روپیہ اور تھا جو اسی پر خرچ ہوا یہ موقعہ نہایت محنت اور کوشش کرنے کا ہے تا سراج منیر کی طبع میں توقف نہ ہو اس رسالہ سرمہ چشم کی قیمت… ہے۔ اگر آپ کی محنت سے سَو رسالہ بھی فروخت ہو جاوے تب بھی ایک حق نصرت آپ کے لئے ثابت ہو جائے۔ ومن ینصرہ اللّٰہ بنصرہ اللّٰہ جلشانہٗ آپ پر رحمت کی بارش کرے اور اپنی خاص توفیق سے ایسے کام کرائے جس سے وہ راضی ہو جاوے۔ ولاتوفیق الا باللّٰہ۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۰؍ ستمبر۱۸۸۶ء
مکتوب نمبر ۸
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج ایک نوٹ پچاس روپیہ کا آنمخدوم کی جانب سے میاں کریم بخش صاحب نے سیالکوٹ سے بھیجا ہے۔ جزاکم اللہ خیرا۔ چونکہ رسالہ سراج منیر کے چھپنے میں اب کچھ زیادہ دیر نہیں معلوم ہوتی اور اس کے سرمایہ کے لئے روپیہ کی بہت ضرورت ہوگی۔ اس لئے اگر آنمخدوم بقیہ قیمت پچاس نسخہ یعنی … بھی جلد تر بھیج دیں تو سرمایہ کتاب کی طبع کیلئے عین وقت میں کام آ جاسکے۔ میں نے مبلغ پانسو روپیہ منشی عبدالحق صاحب اکونٹنٹ سے قرض لیا تھا اور تین سَو روپیہ اور میرے پاس تھا وہ سب اس رسالہ پر خرچ آ گیا۔ ماسوا اس کے ایک سَو یہ رسالہ مفت ہندوؤں اور آریوں اور عیسائیوں کو تقسیم کیا گیا۔ گرچہ ۱۲؍ع اس کی قیمت مقرر ہوئی مگر اس کے مصارف زیادہ ہونے کی وجہ سے یہ قیمت کم درجہ کی رہی۔ اکثر قریب کل کے مسلمانوں کا خیال دین کی طرف سے بکلّی اُٹھ گیا ہے۔ ہمدردی، غمخواری، نیک ظنی یہ سب عمدہ صفتیں روز بروز روبکمی ہیں۔ واللّٰہ خیروابقی
آپ کی ملاقات خدا جانے کب ہوگی۔ ہر ایک بات اُس قادر مطلق کے ارادہ پر موقف ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
از صدر انبالہ ۴؍ نومبر ۱۸۸۶ء
نوٹ: اس مکتوب میں جس رسالہ کی قیمت کیلئے حضرت حکیم الامۃ کو یاددہانی کرائی گئی ہے وہ سرمہ چشم آریہ ہے اور اس مکتوب سے ظاہر ہے کہ اس کتاب کی سَو جلدیں اس وقت تک آپ مفت تقسیم کر چکے تھے۔ (عرفانی)
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
مکتوب نمبر ۹
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ اللہ جلشانہٗ آپ کو دنیا و دین میں آرام دلی بخشے کہ ہر ایک نجشش و نجایش اُسی کے فضل پر موقوف ہے نظر بر فضل ایک لذت بخش امر ہے۔ ولاتئسوا من روح اللّٰہ۔ رسالہ مؤلفہ آنمخدوم جو امرتسر بھیجا گیا ہے کچھ ظاہر نہیں ہوا کہ اس کا کیا بندوبست ہوا۔ آج کل دیانت کم ہے اور لاف و گزاف زبانی ہرگز لائق اعتماد نہیں کسی کو بجز تحریری شرائط کے رسالہ نہیں دینا چاہئے تا پیچھے سے کوئی خراب نتیجہ نہ نکلے۔ یہ امور مفصلہ ذیل ضرور صاحب مطبع سے طے کر لینے چاہئیں اور اقرار نامہ لے لینا چاہئے۔
اوّل: فلاں نمونہ کے مطابق کام چھپائی صاف اور عمدہ ہوگا۔
دوم: اگر ایسا صاف نہ ہوا تو استحقاق ۴؍ فے داب میں رہے گا۔
سوم: اتنے ماہ میں کام ختم نہ ہوا تو ہرجہ دینا ہوگا۔
چہارم: کل کتابوں کے حوالے کرنے کے بعد اور اُن کی پرتال صحت کے بعد روپیہ اُجرت کا دیا جائے گا۔
پنجم: کاغذ کی عمدگی کا ذمہ خود مطبع والا ہوگا۔
دوا جس میں مروارید داخل ہیں جو کسی قدر آپ لے گئے تھے اس کے استعمال سے بفضلہ تعالیٰ مجھ کو بہت فائدہ ہوا۔ قوت باہ کو ایک عجیب فائدہ یہ دوا پہنچاتی ہے اور مقوی معدہ ہے اور کاہلی اور سستی کو دور کرتی ہے اور کئی عوارض کو نافع ہے۔ آپ ضرور اس کو استعمال کر کے مجھ کو اطلاع دیں مجھ کو تو یہ بہت ہی موافق آگئی۔ فالحمدللّٰہ علی ذالک
خاکسار
غلام احمد
۳۰؍ دسمبر ۱۸۸۶ء
مکتوب نمبر ۱۰
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ مجھے نہایت تعجب ہے کہ دَوا معلومہ سے آنمخدوم سے کچھ فائدہ محسوس نہ ہوا شاید کہ یہ وہی قول درست ہو کہ ادویہ کو ابدان سے مناسبت ہے۔ بعض ادویہ بعض ابدان کے مناسب حال ہوتی ہیں اور بعض دیگر کے نہیں۔ مجھے یہ دوا بہت ہی فائدہ مند معلوم ہوئی ہے کہ چند امراض کاہلی و سستی و رطوبات معدہ اس سے دور ہوگئے ہیں۔ ایک مرض مجھے نہایت خوفناک تھی کہ صحبت کے وقت لیٹنے کی حالت میں نعوذ بکلی جاتا رہتا تھا۔ شاید قلت حرارت عزیزی اس کا موجب تھی۔ وہ عارضہ بالکل جاتا رہا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ دوا حرارت عزیزی کو بھی مفید ہے اور منی کو بھی غلیظ کرتی ہے۔ غرض میں نے تو اس میں آثار نمایاں پائے ہیں۔ واللّٰہ اعلم و علمہ احکم۔ اگر دوا موجود ہو اور آپ دودھ اور ملائی کے ساتھ کچھ زیادہ قدر شربت کر کے استعمال کریں تو میں خواہشمند ہوں کہ آپ کے بدن میں ان فوائد کی بشارت سنوں۔ کبھی کبھی دوا کی چھپی چھپی تاثیر بھی ہوتی ہے کہ جو ہفتہ عشرہ کے بعد محسوس ہوتی ہے چونکہ دوا ختم ہو چکی ہے اور میں نے زیادہ کھا لی ہے اس لئے ارادہ ہے کہ اگر خدا تعالیٰ چاہے تو دوبارہ تیار کی جائے۔ لیکن چونکہ گھر میں ایام امید ہونے کا کچھ گمان ہے جس کا میں نے ذکر بھی کیا تھا۔ ابھی تک وہ گمان پختہ ہوتا جاتا ہے۔ خدا تعالیٰ اس کو راست کرے۔ اس جہت سے جلد تیار کرنے کی چنداں ضرورت میں نہیں دیکھتا۔ مگر میں شکرگزار ہوں کہ خدا تعالیٰ نے دوا کا بہانہ کر کے بعض خطرناک عوارض سے مجھ کو مخلصی عطا کی۔ فالحمدللہ علی احسانہ مجھے اس بات کے سننے سے افسوس ہوا کہ رسالہ امرتسر سے واپس منگوایا گیا۔ فیروز پور کو وہ خاص ترجیح کونسی تھی بلکہ میری دانست میں حال کے زمانہ میں دنیوی واقف کاروں سے کوئی معاملہ نہیں ڈالنا چاہئے کہ وہ عہد شکنی میں بڑے دلیر ہوتے ہیں۔ عمدہ اور سیدھا طریق یہ ہے کہ قانونی طور پر کارروائی کی جائے۔ اللہ جلشانہٗ بھی قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ جب کوئی دادستدتم کرو تو اس معاملے کے بارے میں تحریر ہونی چاہئے مطبع ایسا ہونا چاہئے جن کے پریس مین استاد ہوں اور عمدہ اور اوّل درجہ کی سیاہی استعمال کی جاتی ہو اور سب شرائط اسٹامپ کے کاغذ پر لکھے جاویں۔ جہاں تک ممکن ہو مطبع والوں کو اوّل روپیہ نہ دیا جاوے اور کاغذ اُن کی ذمہ داری سے خریدا جاوے مگر اپنا کاغذ اور کاتب بھی اپنا ہو۔ میری دانست میں امام الدین کاتب بہتر ہے۔ کاپی خود غور سے ملاحظہ کرنی چاہئے۔ امرتسر میں ایک ہندو کا مطبع بھی ہے اور وہ مالدار ہیں اور امید ہے کہ یہ شرائط وہ منظور کر لیں گے اور بغیر صفائی شرائط اور تحریری اقرار نامہ لکھانے کے کسی مطبع کو ہرگز کام نہیں دینا چاہئے کہ آج کل دیانت اور ایفاء عہد مفقود کی طرح ہو رہی ہے۔ اگر میں امرستر میں آؤں اور ایک دن کیلئے آپ بھی آجاویں تو اسی جگہ کوشش کی جاوے۔ مگر آپ نے آج کل کے مسلمانوں پر اعتماد کر کے کچا کام ہرگز نہ کرنا بلکہ ہر ایک بات میں مجھ سے مشورہ لے لیں رسالوں کی چھپائی میں تین چار سَو روپیہ کا خرچ ہے۔ نہ ایسی کفایت شعاری کرنی چاہئے کہ رسائل مثل ردّی کے چھپیں اور نہ ایسا اسراف کہ جس میں بیہودہ خرچ ہو کاپیوں کا ملاحظہ دوسروں کے سپرد ہرگز نہ کریں۔ آپ محنت اُٹھا لیں خرید کاغذ میںبھی کوئی اپنا دانا آدمی ساتھ چاہئے اور کاغذ کا حساب رکھنا چاہئے۔ آپ کی ملاقات کو بہت دل چاہتا ہے۔ اللہ جلشانہٗ جلد کوئی تقریب پیدا کر دے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
از قادیان۔۱۴؍ ربیع الثانی ۱۳۰۴ھ ۱۹؍ جنوری ۱۸۸۷ء



مکتوب نمبر ۱۱
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج عنایت نامہ پہنچا۔ اس عاجز کی یہی رائے ہے کہ آپ نوکری نہ چھوڑیں۔ اگر اِس سے بھی کم تنخواہ ہو جو آپ کو دیتے ہیں تب بھی اس کو قبول کریہ اور ہر ایک کے ساتھ اخلاق اور بُردباری سے معاملہ کریں۔ مومن پر یہی لازم ہے کہ بغیر مشورہ کے کوئی امر عجلت سے نہ کر بیٹھیں۔ سو میں آپ کو یہی مشورہ دیتا ہوں کہ آپ علیحدگی ہرگز اختیار نہ کریں مجھے اس بات سے افسوس ہوا کہ آپ نے استعفیٰ کیوں دیا حالانکہ آپ نے لکھا تھا کہ میرا اس علیحدگی میں دخل نہیں۔ اب بہرحال جہاں تک ممکن ہے۔ ایسے ارادہ کیلئے کوشش کریں کہ آپ اپنی نوکری پر قائم رہیں۔
والسلام
نعم المولیٰ ونعم الوکیل
خاکسار
غلام احمد
از قادیان
نوٹ: اس خط پر کوئی تاریخ درج نہیں ہے مگر ظن غالب یہی ہے کہ یہ ۱۸۸۷ء کا ہی ہے۔(عرفانی)



مکتوب نمبر۱۲
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
واللّٰہ معکم اینما کنتم صفحہ۹۹ سرمہ چشم آریہ میں سہو کاتب سے غلطی ہوگئی ہے یعنی ۱۳ سطر کے آخیر میں بجائے ’’کو‘‘ کے ’’سے‘‘ لکھا گیا ہے اور چودہویں سطر کے ابتداء میں بجائے ’’سے‘‘ کے ’’کو‘‘ درج ہو گیا ہے۔ اور ۱۷ سطر کے آخیر میں لفظ ’’اس کا‘‘ رہ گیا ہے یعنی بجائے اس عبارت کے کہ ضرور یہ مطلقہ سے یہ چاہئے تھا ضروریہ مطلقہ اس سے
غرض یہ تین لفظ کی غلطی کو، سے اور اس کے موجب اختلال عبارت ہے۔ جیسا کہ قرینہ سے خود سمجھا جاتا ہے اور ایسی غلطیاں اتفاقاً کہیں نہ کہیں رہ جاتی ہیں۔ بشریت ہے شاید کاپی نوید سے یا دوسرے کاتب سے ایسی غلطی وقوع میں آئی۔ لیکن یہ عاجز آنمخدوم کے کارڈ کی عبارت سے پڑھ کر اور بھی حیران ہوا ہے۔
آنمخدوم لکھتے ہیں کہ حضرت نے (یعنی اس عاجز نے) قضیہ ضروریہ مطلقہ کو دائمہ مطلقہ سے اخص لکھا ہے۔ یہ عبارت سمجھ میں نہیں آئی کیونکہ قضیہ ضروریہ مطلقہ کو دائمہ مطلقہ سے اخص سمجھنا سچ اور صحیح ہے جو سہو کاتب سے بالعکس لکھا گیا۔ چنانچہ منطقین کا یہی قول ہے۔ والنسبۃ بین الدائمۃ والضروریہ ان الضروریہ اخص من مطلقا لان مفہوم الضروریہ امتناع انفکاک النسبۃ عن المووع ومفھوم الدوام شمول النسبۃ فی جمیع الازمۃ والاقات مع جواز امکان انفکاکھا
اصل کارڈ مرسل ہے اگر اس میں کچھ سہو تو اطلاع بخشیں کیونکہ مجھ کو بوجہ استغراق جانب ثانی ان علوم میں تو غل نہیں رہا۔
علاج کسل
مرض کسل اور حزن اگر عوارض اور اسباب جسمانی میں سے ہوتو آپ تدبیر او رعلاج اس کا مجھ سے بہتر جانتے ہیں اور اگر اسباب روحانی سے ہے تو اس سے بہتر کوئی علاج نہیں۔ جو اللہ جلشانہٗ نے فرمایا ہے۔
ان الذین قالوا ربنا اللّٰہ ثم استقاموا تتنزل علیھم الملئکۃ الاَّتخافوا ولا تحزنوا۔ وابشر و بالجنۃ التی کنتم توعدون نحن اولیاء کم فی الیحاۃ الدنیا والاخرۃ ولکھم فیھا ماتشتھی انفسکم ولکم فیھا ماتدعون نزلاً من غفور الرحیم
سو خدا تعالیٰ کو اپنا متولی اور متکفل سمجھنا اور پھر لازمی امتحانوں اور آزمائش سے متزلزل نہ ہونا اور مستقیم الاحوال رہنا بھی خوف اور حزن کا علاج ہے۔
حکم جانا چونیست زخم مدوز
جاں اگر بسوز دت گو بسوز
والسلام
خاکسار
غلام احمد
آپ کی ملاقات کا از بس شوق ہے۔ اگر وطن جانے کا اتفاق پیش آ جاوے تو ضرور مجھ کو مل کر جاویں۔
نوٹ:اس خط پر بھی کوئی تاریخ درج نہیں ہے مگر سرمہ چشم آریہ کی بعض اغلاط کی اصلاح کے متعلق ذکر بتاتا ہے کہ یہ خط سرمہ چشم آریہ کی اشاعت کے بعد کا ہے اور یقینا ۱۸۸۷ء کا ہے۔ اس خط کے مطالعہ سے بعض خاص باتوں پر روشنی پڑتی ہے۔ اوّل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طبیعت میں کامل درجہ کی انکساری اور صاف باطنی ہے۔ دوم حضرت حکیم الامۃ کی طبیعت میں کمال درجہ کا ادب حضرت کیلئے ہے۔ انہوں نے جو کارڈ ایک علمی امر کے دریافت کے متعلق لکھا ہے اسے واپس منگوا لیا کہ مبادا وہ ادب کے خلاف نہ ہو اور معترضانہ رنگ اس میں نہ پایا جاوے۔ اور ایسی یادگار ایک قبیح یادگار ہوگی۔ سوم یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس وقت اپنی تمام تر توجہ الی اللہ رکھتے تھے اور خدا تعالیٰ کی راہ میں ہر دُکھ اور تکلیف کو پوری لذت اور ذوق سے برداشت کرنے کی اہلیت حاصل کر چکے تھے اور اسی لئے ہر قسم کے حزن اور کسل کے مقام سے نکل کر آپ جنت میں تھے۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر۱۳
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا اور میں نے کئی بار توجہ سے اس کو مطالعہ کیا اور ہر ایک دفعہ مطالعہ کے بعد آپ کے لئے دعا بھی کی کہ اللہ جلشانہٗ ایسی قدرت ربوبیت سے جس سے اس نے خلق عالم کو حیران کر رکھا ہے آپ کو حزن اور خوف اور اندوہ سے مخلصی عطا فرماوے اور اپنی رحمت خاصہ سے دنیا و دین میں کامیاب کرے۔ آمین
افسوس کہ مجھے آپ کے حزن و اندوہ کی تفاصیل پر اطلاع نہیں ملی اور نہ شدت مرض سے مطلع ہوں جن کا آپ نے ذکر کیا ہے۔ اگر مناس تصور فرمادیں تو کسی قدر اس عاجز کو اپنے ہموم و غموم کا ہمراز کر دیں۔ نوکری قبول کرنے میں آنمخدوم نے بہت ہی مناسب کیا اللہ تعالیٰ اسی قدر میں برکت بخشے۔
الہام
آج مجھے فجر کے وقت یوں القا ہوا۔ یعنی بطور الہام، عبدالباسط معلوم نہ تھا کہ یہ کس کی طرف اشارہ ہے۔ آج آپ کے خط میں عبدالباسط دیکھا۔ شاید آپ کی طرف اشارہ ہو۔ واللہ اعلم۔ میں آپ کا دلی غمخوار ہوں اور دل سے آپ سے محبت ہے۔ ولکل امر متقر والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۳؍ فروری ۱۸۸۷ء
نوٹ: نمبر۱ و ۲ کے مقام سے خط پھٹا ہوا ہے۔
حضرت حکیم الامۃ نے بار ہا فرمایا کہ میرا الہامی نام عبدالباسط ہے۔ مگر انہوں نے کبھی یہ تشریح نہ کی تھی کہ کس کو الہام ہوا۔ اس خط سے معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بذریعہ الہام آپ کا نام عبدالباسط بتایا گیا تھا۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر۱۴
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
از عاجز عایذ باللہ الصمد غلام احمد بخدمت اخویم مخدوم و مکرم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔
عنایت نامہ پہنچا اور کئی بار میں نے اس کو غور سے پڑھا۔ جب میں آپ کی ان تکلیفوں کو دیکھتا ہوں اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی ان کریمانہ قدرتوں کو جن کو میں نے بذاتِ خود آزمایا ہے اور جو میرے پر وارد ہو چکے ہیں تو مجھے بالکل اضطراب نہیں ہوتا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ خداوندکریم قادر مطلق ہے اور بڑے بڑے مصائب شدائد سے مخلصی بخشتا ہے اور جس کی معرفت زیادہ کرنا چاہتا ہے ضرور اُس پر مصائب نازل کرتا ہے تا اُسے معلوم ہو جائے کیونکہ وہ نومیدی سے امید پیدا کر سکتا ہے۔ غرض فی الحقیقت وہ نہایت ہی قادر و کریم و رحیم ہے البتہ جس پر چاہے کہ ہر ایک چیز اپنے وقت پر وابستہ ہے۔ جس قدر ضعف دماغ کے عارضہ میں یہ عاجز مبتلا ہے مجھے یقین نہیں کہ آپ کو ایسا ہی عارضہ ہو۔ جب میں نے نئی شادی کی تھی تو مدت تک مجھے یقین رہا کہ میں نامرد ہوں۔ آخر میں نے صبرکیا اور دعا کرتا رہا تو اللہ جلشانہ نے اس دعا کو قبول فرمایا اور ضعف قلب تو اب بھی مجھے اس قدر ہے کہ میں بیان نہیں کر سکتا خدا تعالیٰ سے زیادہ تر کامل معالج اور کوئی بھی نہیں۔ ہماری سعادت اسی میں ہے کہ ہم بالکل اپنے تئیں نکمے اور بے ہُنر سمجھیں اور ہر ایک طرف سے قطع امید کر کے ایک ہی آستانہ کے منتظر رہیں۔ سو اگر آپ مجھے بشرط صبر و شکیب رکھنے کی اجازت دیں تو میں اسی کامل معالج سے آپ کے علاج کی درخواست کرتا رہوں گا۔ بشرطیکہ آپ عجلت نہ کریں طلبگار باید صبوروحمول
اب مجھے کسی تدبیر ظاہری پر اعتقاد نہیں رہا۔ میں جانتا ہوں کہ تدبیر صائب بھی تب ہی سوجھتی ہے کہ جب خود قادر مطلق بندی سے رہا کرنا چاہتا ہے مگر میں اس بات سے بہت ہی خوش ہوں اس طرح کہ جس طرح کوئی نہایت راحت بخش نشے میں ہوتا ہے کہ ہم ایسا قادر کریم مولا رکھتے ہیں کہ جو قدرت بھی رکھتا ہے اور رحم بھی۔ آج میں نے چار کتابیں رجسٹری کرا کر سیالکوٹ بھیج دیں ہیں اطلاعاً لکھا گیا ہے۔والسلام ۔
خاکسار۔غلام احمد از قادیان۔۲۲؍ فروری ۱۸۸۷ء
مکتوب نمبر۱۵
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ عاجزبباعث شدت درد سر جو کئی دن سے لاحق رہی اور آج کچھ تخفیف ہے مگر ضعف بہت۔ تحریر جواب سے قاصر رہا۔
حقیقت میں اللہ تعالیٰ کا آپ پر بہت ہی فضل و کرم ہے جس کا غور سے مطالعہ کرنے کے بعد آپ اس کا شکر ادا نہیں کر سکیں گے۔ رہی جزئیات فکرو تردّد سو وہ بھی کسی بڑی مصلحت کیلئے جس کی حقیقت تک انسان کو رسائی نہیں ایک وقت مقررہ تک لگائے گئے ہیں اور وقت مقررہ کے آنے سے دور بھی ہو جائیں گے الم تعلم ان اللّٰہ علی کل شیئٍ قدیر۔ اس احقر ناچیز کی دعا بھی انشاء اللہ منقطع نہیں ہوگی جب تک کشود کار پیدا نہ ہو۔
ولم اکن بدعائیہ شقیا اور دینی امور میں اگرچہ کچھ قبض ہو یا اعمال صالحہ سے بے رغبتی ہو تو پھر بھی مقام شکر ہے کہ اس نقصان حالت کیلئے دل جلتا ہے اور کباب ہوتا ہے یہ بھی تو ایک بڑی نیکی ہے کہ نیکی کے حصول کیلئے دل غمگین رہے ہم لوگ بکلّی اپنے اختیار میں ہیں۔ علت العلل ہمارے سر پر جو مدبر و حکیم ہے بمقتضائے مصلحت و حکمت جو چاہتا ہے ہم سے معاملہ کرتا ہے۔ فرض کیا اگر وہ ہمیں دوزخ میں ڈالے تو وہ دوزخ ہمیں بہشت سے اچھا ہے۔ ہم کیسے ہی نہ لائق ہوں مگر پھر اس کے ہیں۔
گر نہ باشد بدوست راہ بروں
شرط عشق است در طلب مردن
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۲؍ مارچ ۱۸۸۷ء
مکتوب نمبر ۱۶
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
دنیا جائے تردّد و حزن و مصیبت و غم ہے۔نہ ایک کیلئے بلکہ سب کے لئے ہے۔ جس کے ابتداء میں غلطی و بیچارگی اور آخر میں پیرانہ سالی و شیخوخیت (اگر عمر طبعی تک پہنچے) اور سب سے آخر موت (بانگ برآید فلاں نماند) اس میں پوری پوری راحت و خوشی کا طلب کرنا غلطی ہے۔ رابعہ بصری رضی اللہ عنہا کا قول ہے کہ میں نے اپنے لئے یہ اصول مقرر کر رکھا ہے کہ اصل دنیا میں میرے لئے غم و مصیبت ہے اور اگر کبھی خوشی پہنچ جاوے تو یہ ایک زائد امر ہے جس کو میں اپنا حق نہیں سمجھتی۔ سو مومن کو مرد میدان بن کر اس دارفانی سے تلخیاں و ترشیاں سب اُٹھانی چاہئیں۔ ہمارا وجود انبیاء علیہم السلام اور اماموں سے کچھ انوکھا نہیں بلکہ اصل بات تو یہ ہے کہ لذت و اُنس و شوق و راحت طلب الٰہی میں آپ ہی محسوس ہوتی ہے کہ جب حضرت ایوب کی طرح مصیبتوں پر صابر ہو کر یہ کہیں کہ میں ننگا آیا اور ننگا ہی جاؤں گا۔
مفلس شدیم دوست از ہرمایہ فشاندیم
دزدِ خبیث شیطاں از مفلساں چہ خواہد
ففروا الی اللّٰہ وکونوالہ من کان اللّٰہ لہ والسلام علی من اتبع الھدی
خاکسار
غلام احمد
نوٹ: اس خط پر کوئی تاریخ نہیں۔ میں اسے ۱۸۸۷ء کا سمجھتا ہوں۔ (عرفانی)


مکتوب نمبر ۱۷
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کارڈ پہنچا خدا تعالیٰ آپ کو جلد تر شفا بخشے۔ مجھ کو آپ کی بار بار علالت سے دل کو صدمہ پہنچتا ہے اور بمقتضائے بشریت قلق و کرب شامل ہو جاتا ہے۔ خدا تعالیٰ بہت جلد وہ دن لائے کہ آپ کی کلّی صحت کی میں بشارت سنوں۔ اب موسم ربیع ہے یقین ہے کہ آپ نے کسی قدر مناسب حال تنقیہ بدن کیا ہوگا اور اگر نہیں کیا اور کوئی عارضہ بدنی مانع نہ ہو تو اس طرف غور کریں کہ آیا کوئی مناسب ہے یا نہیں۔ اگر مناسب ہو تو پھر توقف نہ کریں۔ کسی قدر شیر خشت وغیرہ سے تلئین طبع ہو جائے تو شاید مناسب ہو۔ کبھی کبھی دیکھا گیا ہے کہ انواع درد سر کیلئے ایارج فیقرا بہت مفید ہوتا ہے اور اس عاجز نے اپنے درد سر کیلئے کہ جو دوری طور پر تخمیناً ۳۰ سال سے شامل حال ہے استعمال کیا ہے اور مفید پایا ہے۔ایک اور متوحش خبر سنی گئی ہے کہ گیاراں سَو روپیہ کا اور نقصان آپ کا ہو گیا چنانچہ ایک خط میں جو ارسال خدمت ہے یہ حال لکھا ہے۔انا لِللّٰہ و انا الیہ راجعون
مصیبت پہنچنے والی تو ضرور پہنچ جاتی ہے مگر کسی قدر رعایت انتظام ظاہر مسنون ہے جس نے دیا اُس نے لیا۔ لیکن آئندہ بے احتیاطی کے طریقوںسے مجتنب رہنا ضروری ہے لایلدغ المومن من حجر واحد مرتین۔ پرسوں میری طرف سے آپ کے نام گھوڑے کی سفارش کیلئے ایک خط روانہ ہوا تھا۔ وہ خط میرے اقارب میں سے مرزا امام الدین میرے چچا زاد بھائی نے بالحاج مجھ سے لکھوایا تھا۔ ہر چند میں جانتا تھا کہ اس کا لکھنا غیر موزوں وغیر محل ہے مگر چونکہ مرزا امام الدین صاحب دراصل میرے قریبی رشتہ داروں میں سے ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ ان کی ایمانی حالت خدا تعالیٰ درست کر دے اور خیالات فاسدہ سے چھڑا دے اس لئے اُن کی دلجوئی کی غرض سے لکھا گیا ہے لودہانہ کا معاملہ اب بالکل پختہ ہے۔ آپ کے ارادہ کا توقف ہے۔ خیریت مزاج سے جلد اطلاع بخشیں۔
والسلام۔خاکسار
غلام احمد از قادیان
۵؍ مارچ ۱۸۸۷ء
مکتوب نمبر ۱۷
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعدالسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج عنایت نامہ موصول ہوکر موجب خوشی ہوا میں نے آپ کے اس خط کو بھی یادداشت میں رکھ لیا ہے اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ جلشانہٗ ابواب خیر و خوبی دارین آپ پر منکشف کرے۔ یہ سچ پر موقوف ہے۔ کار شادی کیلئے استخارہ مسنونہ عمل میں لاویں پھر اگر انشراح صدر سے میل خاطر جلدی کی طرف ہو تو جلدی سے اس کارخیر کو سرانجام دیویں ورنہ بعد فراغت سفر پونچھ۔ پانچ نسخہ شحنہ حق اور ایک حصہ رگوید آج رجسٹری کرا کر معرفت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی ارسال خدمت کیا گیا یہ وید بطور مستعار ارسال خدمت ہے اس سے جس قدر مطلب نکلتا ہو ایک یا دو ماہ میں نکال کر پھر بذریعہ رجسٹری واپس فرما دیں کہ مجھ کو اکثر اس کی ضرورت پڑتی ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۴؍ اپریل ۱۸۸۷ء




مکتوب نمبر ۱۹
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔
عنایت نامہ پہنچ کر باعث ممنونی ہوا مجھ کو آنمخدوم کے ہر ایک خط کے پہنچنے سے خوشی پہنچتی ہے کیونکہ میں جانتا ہوں خالص دوستوں کاوجود کبریت احمر سے عزیز تر ہے اور آپ کا دین کیلئے جذبہ اور ولولہ اور عالی ہمتی ایک فضل الٰہی ہے جس کو میں عظیم الشان فضل سمجھتا ہوں اور میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ جلشانہٗ آپ سے اپنے دین میں پہلے درجہ کی خدمتیں لیوے۔ حکیم فضل دین صاحب بھی بہت عمدہ آدمی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر بخشے۔ اگر ملاقات ہو تو آپ سلام مسنون پہنچا دیں۔
خاکسار
غلام احمد
۲۵؍ اپریل ۱۸۸۷ء
مکتوب نمبر ۲۰
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج آپ کا عنایت نامہ پہنچ کرمضمون مندرجہ معلوم ہوا مجھ کو بندوسبت مطبع و دیگر مصارف کے بارے میں بہت کچھ فکر اور خیال تھا جو آپ کے اس مبشر خط سے سب رفع دفع ہوا۔ جزاکم اللہ خیرا الجزاء واحسن الیکم فی الدنیا والعقبٰی واذہب عنکم الحزن و رضی عنکم و رضی آمین
چند روز ہوئے میں نے اس قرضہ کے تردّد میں خواب میں دیکھا تھا کہ میں ایک نشیب گڑھے میں کھڑا ہوں اور اوپر چڑھنا چاہتا ہوں۔ مگر ہاتھ نہیں پہنچتا اتنے میں ایک بندہ خدا آیا اُس نے اوپر سے میری طرف ہاتھ لمبا کیا اور میں اُس کے ہاتھ کو پکڑ کر اوپر چڑھ گیا اور میں نے چڑھتے ہی کہا کہ خدا تجھے اس خدمت کا بدلہ دیوے۔
آج آپ کا خط پڑھنے کے ساتھ میرے دل میں پختہ طو رپر یہ جم گیا کہ وہ ہاتھ پکڑنے والا جس سے رفع تردّد ہوا آپ ہی ہیں کیونکہ جیسا کہ میں نے خواب میں ہاتھ پکڑنے والے کیلئے دعا کی ایسا ہی برقت قلب خط کے پڑھنے سے آپ کیلئے منہ سے دلی دعا نکل گئی۔ فستجاب انشاء اللّٰہ تعالیٰ
اگر یہ ممکن ہو میری تحریر پہنچنے پر ماہ بماہ تین سو (سا) تک آپ بھیج سکیں یہاں تک کہ چودہ سَو (…) پورا ہو جائے۔ تو یہ نہایت عمدہ بات ہے۔ مگر اوّل دفعہ میں پانسو (…) روپیہ بھیجنا ضروری ہے تاضروری انتظام کیا جاوے۔ میرا ارادہ ہے کہ یہ کام ماہ رمضان میں جاری ہو جاوے۔ ایک شخص منشی رستم علی نام نے تین سَو روپیہ ڈیڑھ سال کی میعاد پر قرضہ دینا کیا ہے اور بابو الٰہی بخش صاحب بھی کچھ دینا چاہتے ہیں۔ سو جس قدر روپیہ دوسروں کی طرف سے بطور قرضہ آئے گا اُسی قدر آپ کو کم دینا ہوگا۔ مگر اصل مدار اس قرضہ کا آپ کے نام پر رہا۔ میں نے آپ کا خط بابو الٰہی بخش صاحب کے پاس لاہور میں بھیج دیا ہے کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ آپ کی انشراح صر اور علو ہمت اور خلوص اور صدق سے میرے دوسرے دوست مطلع ہوں۔
کل ایک خط بابو الٰہی بخش صاحب کا کسی شخص کی سفارش کے بارہ میں آیا ہے۔ سو وہ خط ارسال خدمت ہے۔ آپ بپابندی مصلحت جیسا کہ مناسب ہو ہمدردی کام میں لاویں۔ اگر آپ کے اشارہ سے کسی مسلمان کی خیر اور بہتری متصور ہو اور خود وہ اشارۃ خیر محض ہو فتنہ سے خالی ہو۔ تو بلاشبہ موجب ثواب ہے کہ خیرالناس من ینفع الناس زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۲؍ مئی ۱۸۸۷ء
طبی مشورہ
میری لڑکی دو ماہ سے بعارضہ تپ و اسہال و ورم وغیرہ عوارض و شدت عطش مبتلا ہے۔ تین سَو کے قریب دست آ چکے ہیں اور تین مسہل بھی دئے گئے اور جونکیں لگائی گئیں چونکہ تپ محرقہ تھا۔ زبان سیاہ ہوگئی تھی اس لئے ایک نسخہ شیخ کے موافق چھ سات دفعہ کافور بھی سکنجبین اور شیرہ خنارین کے ساتھ دیا گیا اور شربت بنقشہ و نیلو فر و دیگر برودات بہت دئے گئے اب تپ تیز تو نہیں اور ورم میں بھی تخفیف ہے لیکن پھر بھی کسی قدر تپ اور پیاس باقی ہے۔ بدن بہت دبلا ہو رہا ہے میرا ارادہ ہے کہ سفوف دست گلو شربت دینار کے ہمراہ دوں مگر ست گلو عمدہ نہیں ملتی اور نہ ریوند چینی خالص ملتی ہے۔ لڑکی کی عمر ایک برس اور دو ماہ کی ہے اس عمر میں اس غضب کی حرارت پیدا ہوگئی کہ دس بوتلیں بید مشک کی اور قریب بوتل کے سکنجبین اور لعاب اسبغول اور شیرہ خنارین اور چھ سات دفعہ کافور دیا گیا۔ مگر ابھی حرارت باقی ہے۔ دو بوتل شربت بنقشہ اور نیلوفر بھی پلایا۔ ورم میں اب خفت ہے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عارضی تھی۔ مگر اب علامات حرارت غالب ہیں۔ اگر تازہ ست گلو اور ایک تولہ ریوند چینی دستیاب ہوسکے تو ضرور ارسال فرما دیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان





مکتوب نمبر ۲۱
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ عین انتظار میں پہنچا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو خوش و خرم رکھے۔ میں پروردگار جلشانہٗ کا شکر ادا نہیں کر سکتا جس نے ایسے صادق اور کامل الوداد دوست میرے لئے میسر کئے۔ فالحمدللّٰہ علی احسانہ
اجرائے مطبع کا خیال
پانچ رسالہ شحنہ حق خدمت شریف میں روانہ کئے گئے ہیں کتنی مجبوریوںکے پیش آنے کی وجہ سے میرا ارادہ ہے کہ اپنا مطبع تیار کر کے سراج منیر وغیرہ کتب اس میں چھپواؤں۔ سو اگر خدا تعالیٰ نے اس کام کے لئے سرمایہ میسر کر دیا تو جلد پریس وغیرہ کاسامان ضروری خرید کر کتابوں کا چھپوانا شروع کیا جائے۔ اس طرف اب بشدت گرمی پڑتی ہے امید ہے کشمیر میں خوب بہار ہوگی۔ کشمیر کا تحفہ کشمیر کے بعد عمدہ میوے ہیں جیسے گوشہ بگو کی لوگ بہت تعریف کرتے ہیں مگر وہ میوہ ذخیرہ خور نہیں ہیں امید رکھتا ہوں کہ جلد جلد حالات خیریت آیات سے مطلع فرماتے رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو خوش رکھے اور خوشی خورمی سے لادے اور آپ کے ساتھ رہے۔ آمین
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ از قادیان
۱۱؍ مئی ۱۸۸۷ء

مکتوب نمبر ۲۲
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مکرمی اخویم میاں کریم بخش صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا عنایت نامہ جو محبت اور اخلاص سے بھرا ہوا تھا پہنچا۔ جس قدر آپ نے خلوص اور محبت سے خط لکھا ہے میں اس کا شکر گزار ہوں۔ خداوندکریم آپ کو اس کا اجر بخشے۔ بیشک اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب نہایت قابل تعریف اخلاق سے متخلق ہیں اور مجھ کو ان کے ہر ایک خط کے دیکھنے سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ بفضلہ تعالیٰ ان نادر الوجود مردوں میں سے ہیں کہ جو دنیا میں بہت ہی کم ہیں۔ صفت جوانمردی اور یک رنگی اور خلوص اور وفا اور روبحق ہونے کے اور بایں ہمہ انشراح صدر اور غربت اور فروتنی اور تواضع ایسی ان میں پائی جاتی ہے کہ جس پر درحقیقت ہر ایک مومن کو رشک کرنا چاہئے۔ ذالک فضل اللّٰہ یوتیہ من یشاء میں خوب جانتا ہوں اور مجھے بہت کامل تجربہ ہے کہ اللہ جلشانہٗ پر کوئی شخص اپنی صفائی میں سبقت نہیں لے جا سکتا اور وہ محنین کا ہرگز اجر ضائع نہیں کرتا ہاں یہ بات ہے کہ درمیانی زمانوںمیں ابتلا کے طور پر کشف خیر میں کچھ توقف ہوتی ہے مگر آخر رحمت الٰہی دستگیری کرتی ہے اور مومن کو چشم گریاں کے ساتھ اس بات کا اقرار کرنا پڑتا ہے کہ ربانی نیکی اور رحمت اور مروت اس کی نیکی سے بڑھ کر ہے۔ سو میں دلی اطمینان سے مولوی حکیم نورالدین صاحب کو بشارت دیتا ہوں کہ وہ ہر ایک بات میں امید وار رحمت الٰہی رہیں۔ خدا تعالیٰ اُن کو ضائع نہیں کرے گا۔ وہ جس کے ہاتھ میںسب قدرتیں ہیں نہایت ہی غفورٌ الرحیم ہے وفادار بندے آخر اس سے اپنی مرادیں پاتے ہیں۔ اس کا قدیم سے اپنے خالص بندوں کیلئے یہی قانون قدرت ہے کہ درمیان میں کچھ کچھ تکلیف اور خوف اور حزن اُٹھا کر انجام کار فائز المرام ہوتے ہیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۴؍ مئی ۱۸۸۷ء
نوٹ از مرتب: یہ خط حضرت مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ عنہ کے نام ہے جو ان ایام میں کریم بخش کہلاتے تھے اس لئے کہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کا نام ان کے والدین نے کریم بخش ہی رکھا تھا۔ میں نے آپ کے والد ماجد چوہدری محمد سلطان صاحب کو دیکھا کہ وہ ہمیشہ کریم بخش ہی کہا کرتے تھے۔ حضرت حکیم الامۃ کے مکتوبات کے ضمن میں اس مکتوب کو میں نے اس لئے درج کر دیا ہے کہ یہ خط حضرت حکیم الامۃ ہی کے متعلق ہے اس مکتوب سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مخدوم الملۃ مولانا عبدالکریم رضی اللہ عنہ کے تعلقات اور مراسلات کا سلسلہ بھی حضرت اقدس علیہ السلام سے آپ کے دعویٰ اور بیعت سے پہلے کا ہے اور یہ سلسلہ دراصل براہین احمدیہ کے اعلان اور اشاعت کے بعد قائم ہوا تھا۔ پھراس خط سے یہ بھی پایا جاتا ہے کہ ان ایام میں حضرت مولوی صاحب (حکیم الامۃ) پر کوئی ابتلا تھا جیسا کہ حضرت حکیم الامۃ کی عام عادت تھی انہوں نے خود حضرت اقدس کو اس کے متعلق کچھ نہیں لکھا بلکہ خود حضرت مولانا عبدالکریم صاحب نے اس تعلق اور محبت کی بنا پر جو انہیں حضرت حکیم الامۃ سے تھا براہِ راست حضرت اقدس کو اطلاع دی ہے جس پر حضرت نے یہ تسلی نامہ مولوی عبدالکریم صاحب کو لکھا اور انہوں نے حضرت حکیم الامۃ کو دکھایا اور حضرت حکیم الامۃ نے اسے اپنے خطوط میں منسلک کر لیا۔ (عرفانی)





مکتوب نمبر ۲۳
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔
عنایت نامہ موصول ہو کر موجب خوشی و شکر و ممنونی ہوا۔ پادری صاحب کی نکتہ چینی کے جواب میں جو کچھ آپ نے لکھا ہے نہایت ہی خوب ہے۔ جزاکم اللّٰہ خیراً جزاکم اللّٰہ خیرا۔ دین اسلام منجانب اللہ ایک حکیمانہ مذہب ہے۔ جو حکمت کے قواعد پر مبنی ہے۔ اس دین میں یہ بات نہیں کہ ہمیشہ ایک گال پر طمانچہ کھا کر دوسری بھی پھیر دیا کریں۔ بلکہ جو مناسب وقت اس کے کرنے کی تاکید ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ جادلھم بالحکمۃ یہ نہیں فرمایا جادلھم بالحلم انشاء اللّٰہ القدیر اسی قدر … کرو اس کیلئے دعا کروں گا اور مصارف مطبع کیلئے چند اور دوستوں کو بھی لکھا ہوا ہے ان کے جواب آنے پر اطلاع دوں گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
نوٹ: اس خط پر کوئی تاریخ نہیں۔ مگر اس پر یکم جون کی ڈاکخانہ کی مہر ہے اور قادیان کی مہر ۳۱ مئی ۱۸۸۷ء کی ہے۔ یہ ایک پوسٹ کارڈ ہے۔ (عرفانی)



مکتوب نمبر ۲۴
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج عنایت نامہ پہنچ کر موجب خوشی و اطمینان ہوا جزاکم اللہ خیرا۔ اس عاجر نے بموجب تحریر ثانی جو مولوی کریم بخش صاحب کے خط کے لفافہ پر تھی بلاتوقف کتابیں بھیج دیں تھیں لیکن رجسٹری نہیں کرائی گئی تھی۔ اگر اب تک نہ پہنچی ہوں تو مکرر بھیج دی جائیں میں نے مطبع کے بندوبست کیلئے بہت سے فکر کے بعد یہ قرین مصلحت سمجھا کہ بعض دوستوں سے بطور قرضہ کچھ لیا جائے۔ جس میں سے کچھ پریس اور پتھروں کی قیمت پر خرچ آوے اور کسی قدر کاغذ خریدا جائے اور کچھ اُجرت وغیرہ کیلئے جمع رکھا جائے تو ایسے بااخلاق آدمیوں کے انتخاب کیلئے جب فہرست خریداران پر نظر ڈالی گئی تو ہزار آدمی میں سے صرف چھ آدمی پر نظر پڑی جن میں سے بعض قوی الاخلاق ہیں اور بعض کا حال کماحقہٗ معلوم نہیں۔ ناچار دردِ دل سے یہ دعا کرنی پڑی۔
ربّ اعطنی من لدنک انصارًا فی دینک واذہب عنی حرلی واصلح لی شافی کلہ لا الہ الا انت
امید ہے کہ قرین باجابت ہو اب میں آپ کی خدم میں مفصل ظاہر کرتا ہوں کہ میرا ارادہ تھا کہ ۱۴ آدمی منتخب کر کے سَو سَو روپیہ بطور قرضہ بوعدہ معیاد ایک سال بعد طبع سراج میزان سے لیا جاوے۔ یعنی ابتدا میعاد کی اس تاریخ سے ہو جب چھپ چکے کیونکہ طبع سراج منیر کیلئے ۱۴ سَو روپیہ تخمینہ کیا گیا ہے کہ اگر یہ صورت انجام پذیر ہو سکے تو کسی ذی مقدرت دوست پر بوجھ نہیں ہوتا لیکن افسوس کہ فہرست خریداران کے دیکھنے سے صرف چھ آدمی ایسے خیال میں آئے جو اس کام کے لئے انشراح دل سے متوجہ ہو سکتے ہیں اور میرا ارادہ ہے کہ یہ کام بہرحال رمضان شریف میں شروع ہو جائے اور میں یہ روپیہ لینا صرف قرضہ کے طور پر چاہتا ہوں کہ دوستوں پر تھوڑا تھوڑا بار ہو جو سَو روپیہ سے زیادہ نہ ہو۔ سو اگر ایسا ہو سکے کہ بعض بااخلاص آدمی جو آپ کی نظر میں ہوں اس قرضہ کے دینے میں شریک ہو جائے تو بہت آسانی کی بات ہے ورنہ مالک خزائن السموات والارض کافی ہے جواب سے جلد مطلع فرماویں کیونکہ میں نے وعدہ کیا ہوا کہ رسالہ قرآنی طاقتوں کا جلوہ جون کے ماہ میں شائع ہوگا۔ سو میں چاہتا ہوں کہ اپنے ہی مطبع میں وہ رسالہ چھپنا شروع ہو جائے مجھے اس قرضہ کے بارہ میں کوئی اضطراب نہیں میں اپنے دل میں نہایت خوشی اور اطمینان اور سرور پاتا ہوں اور میں جانتا ہوں کہ میری دعائیں کرنے سے پہلے ہی مستجاب ہیں۔
خاکسار
غلام احمد
از قادیان ضلع گورداسپور
نوٹ: اس خط پر کوئی تاریخ درج نہیں مگر خطوط کے سلسلہ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی ۱۸۸۷ء کا خط ہے جیسا کہ ۲؍ مئی ۱۸۸۷ء کا خط بھی اسی سلسلہ میں ہی ہے۔ (عرفانی)







مکتوب نمبر ۲۵
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج نصف قطعہ نوٹ پانچ سَو روپیہ پہنچ گیا چونکہ موسم برسات ہے۔ اگر براہ مہربانی دوسرا ٹکڑا رجسٹری شدہ خط میں ارسال فرماویں تو انشاء اللہ کسی قدر احتیاط سے پہنچ جاوے۔ آج کی تاریخ جو ۱۸ شوال ہے اس جگہ خوب بارش ہوگئی اور اب ہو رہی ہے کل یہ حال تھا کہ گویا لوگ بوجہ شدت حرارت اور گذر جانے ایک حصہ برسات کے نومید ہوچکے تھے۔ سبحان اللہ کیا شان اُس قادر مطلق کی ہے کہ نومیدی کے بعد اُمید پیدا کر دیتا ہے۔
نکتہ معرفت
اسی وجہ سے جو عارف ہیں۔ اگرچہ مصائب و شدائد کے صدمات کی کوفتوں سے غارت بھی ہو جائیں تب بھی ان پر یاس کی دل آزار حالت طاری نہیںہوتی کیونکہ وہ پکے یقین سے سمجھتے ہیں کہ وہ مولا کریم محبت الدعوۃ ہے اور قادر مطلق اور درحقیقت انسان کو یہ سطر اُڑ گئی ہے۔ میں نے قیاس سے بعض الفاظ کو دیکھ کر لکھی ہے۔عرفانی) (اسی وقت تسلی نصیب ہوتی ہے کہ جو قوی یقین رکھتا ہے کہ وہ رحمن ہے اور قادر مطلق ہے) اور اپنے خدا کو کریم اور رحیم جانتا ہے اے خدائے برتر و بزرگ ہم سب کو قویٰ یقین بخش۔ جس سے ہم ہر دم اور ہر لحظہ سرور میں رہیں۔ آمین ثم آمین
گجرات سے دس روپے اور پہنچ گئے۔ اب معلوم ہوا کہ صاحب مرسل کا نام عطا محمد ہے اور وہ ضلع گجرات میں مختار ہیں۔ اب انشاء اللہ ساٹھ روپے کی رسید ان کی خدمت میں بھی بھیجی جاوے گی۔ باقی خیریت ہے۔ والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۱؍ جولائی ۱۸۸۷ء
مکتوب نمبر ۲۶
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج نصف قطعہ نوٹ پانسو روپیہ بذریعہ رجسٹری شدہ پہنچ گیا۔ اب آنمخدوم کی طرف سے پانسو ساٹھ روپے پہنچ گئے اس ضرورت کے وقت جس قدر آپ کی طرف سے غمخواری ظہور میں آئی ہے اس سے جس قدر مجھے آرام پہنچا ہے اس کا اندازہ نہیں کر سکتا۔ اللہ جلشانہٗ دنیا و آخرت میں آپ کو تازہ تازہ خوشیاں پہنچاوے اور اپنی خاص رحمتوں کی بارش کرے۔
تکذیب براہین کی طرف توجہ
میں آپ کو ایک ضروری امر سے اطلاع دیتا ہوں کہ حال میں لیکھرام نام ایک شخص نے میری کتاب براہین کے ردّ میں بہت کچھ بکواس کی ہے اور اپنی کتاب کا نام تکذیب براہین احمدیہ رکھا ہے۔ یہ شخص اصل میں غبی اور جاہل مطلق ہے اور بجز گندی زبان کے اور اس کے پاس کچھ نہیں۔ مگر معلوم ہوا ہے کہ اس کتاب کی تالیف میں بعض انگریزی خواں اور دنی استعداد ہندوؤں نے اس کی مدد کی ہے۔ کتاب میں دو رنگ کی عبارتیں پائی جاتی ہیں جو عبارتیں دشنام دہی اور تمسخر اور ہنسی اور ٹھٹھے سے بھری ہوئی ہیں اور لفظ لفظ میں توہین اور ٹوٹی پھوٹی عبارت اور گندی اور بدشکل ہیں وہ عبارتیں تو خاص لیکھرام کی ہیں اور جو عبارت کسی قدر تہذیب رکھتی ہے اور کسی عملی طور سے متعلق ہے وہ کسی دوسرے خواندہ آدمی کی ہے۔ غرض اس شخص نے خواندہ ہندوؤں کی منت سماجت کر کے اور بہت سی کتابوں کا اس نے خیانت آمیز حوالہ لکھ کر یہ کتاب تالیف کی ہے۔ اس کتاب کی تالیف سے ہندوؤں میں بہت جوش ہو رہا ہے۔ یقین ہے کہ کشمیر میں بھی یہ کتاب پہنچی ہوگی۔ کیونکہ میں نے سنا ہے کہ لالہ لچھمن داس صاحب ملازم ریاست کشمیر نے تین سو (…) روپیہ اس کتاب کے چھپنے کیلئے دیا ہے۔ شاید یہ بات سچ ہو یا جھوٹ ہو لیکن اس پُر افترا کتاب کا تدارک بہت جلد از بس ضروری ہے اور یہ عاجز ابھی ضروری کام سراج منیر سے جو مجھے درپیش ہے بالکل عدیم الفرصت ہے اور میں مبالغہ سے نہیں کہتا اور نہ آپ کی تعریف کے رو سے بلکہ قوی یقین سے خدا تعالیٰ نے میرے دل میں یہ جما دیا ہے کہ جس قدر اللہ تعالیٰ کے دین کی نصرت کیلئے آپ کے دل میں جوش ڈالا ہے اور میری ہمدردی پر مستعد کیا ہے۔کوئی دوسرا آدمی ان صفات سے موصوف نظر نہیں آتا۔ اس لئے میں آپ کو یہ بھی تکلیف دیتا ہوں کہ آپ اوّل سے آخر تک اس کتاب کو دیکھیں اور جس قدر اس شخص نے اعتراضات اسلام پر کئے ہیں ان سب کو ایک پرچہ کاغذ پر بیاد داشت صفحہ کتاب نقل کریں اور پھر ان کی نسبت معقول جواب سوچیں اور جس قدر اللہ تعالیٰ آپ کو جوابات معقول دل میں ڈالے وہ سب الگ الگ لکھ کر میری طرف روانہ فرماویں اور جو کچھ خاص میرے ذمہ ہوگا میں فرصت پا کر اس کا جواب لکھوں گا۔ غرض یہ کام نہایت ضروری ہے اور میں بہت تاکید سے آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ آپ بہمہ جدوجہد جانفشانی اور مجاہدہ سے اس طرح متوجہ ہوں اور جس طرح مالی کام میں آپ نے پوری پوری نصرت کی ہے اس سے یہ کم نہیں ہے کہ آپ خداداد طاقتوں کی رُو سے بھی نصرت کریں۔
اسلام پر مخالفوں کا حملہ اور حضرت کو اس کا احساس
آج ہمارے مخالف ہمارے مقابلہ پر ایک جان کی طرح ہو رہے ہیں اور اسلام کو صدمہ پہنچانے کیلئے بہت زور لگا رہے ہیں۔ میرے نزدیک آج جو شخص میدان میں آتا ہے اور اعلائے کلمۃ الاسلام کے لئے فکر میں ہے وہ پیغمبروں کا کام کرتا ہے۔ بہت جلد مجھ کو اطلاع بخشیں۔ خدا تعالیٰ آپ کے ساتھ رہے اور آپ کا مددگار ہو آپ اگر مجھے لکھیں تو میں ایک نسخہ کتاب مذکور کا خرید کر آپ کی خدمت میں بھیج دوں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۲۲؍ جولائی ۱۸۸۷ء
مکتوب نمبر ۲۷
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ اللہ جلشانہٗ آپ کو جمیع مطالب پر کامیاب کرے آمین ثم آمین! کتاب لیکھرام پشاوری ارسال خدمت کی گئی ہے۔ امید کہ غایت درجہ کی توجہ سے اس کا قلع قمع فرمائیں گے تا مخالف بدطنیت کی جلد تر رسوائی ظاہر ہو۔ اس طرف بکثرت بارش ہوئی ہے اور کوئی دن خالی جاتا ہے جو بارش نہیں ہوتی۔ پانی چاروں طرف سمندر کی طرح کھڑا ہے اس لئے ابھی کاغذ نہیں منگوایا گیا۔ دس پندرہ دن تک جب یہ دن کثرت بارش کے گزر جائیں گے تب انشاء اللہ القدیر کاغذ منگوا کر کام شروع کیا جائے گا۔
ناطہ کی نسبت جو آنمخدوم نے مجھ سے استفسار کیا ہے میرا دل ہرگز فتویٰ نہیں دیتا کہ ایسے شخص کی لڑکی سے نکاح کیا جاوے۔ ہر چند میں نے اس بارہ میں توجہ کی ہے مگر میرا دل یہی فتویٰ دیتا ہے کہ اس سے کنارہ کشی ہو۔ اللہ جلشانہٗ ہر ایک چیز پر قادر ہے۔ جیسا کہ وہ فرماتا ہے وما ننسخ من آیۃ اوننسھا نات بخیرٍ منھا اومثلھا الم تعلم ان اللّٰہ علی کلی شیئی قدیر۔
برہمن لڑکا جس کا آپ نے کئی خطوط میں ذکر کیا ہے اس کے لئے بھی انشاء اللہ القدیر میں دعا کروں گا اگر کچھ حصہ سعادت اس کے شامل حال ہے تو آخر وہ رجوع کرے گا اور اگر گروہ میں سے نہیں تو پھر کچھ چارہ نہیں۔
امید ہے کہ آنمخدوم لیکھرام کی طرف بہت جلد توجہ فرمائیں گے ۔ اوّل تمام اعتراضات اس کے علیحدہ پرچہ پر انتخاب کئے جاویں اور پھر مختصر و معقول و دندان شکن جواب دیا جاوے۔ اللہ جلشانہٗ آپ پر ہمیشہ سایہ لطف و رحمت و نصرت رکھے اور آپ کا مؤید و ناصر ہو۔ آمین
والسلام۔خاکسار
غلام احمد از قادیان
۵؍ اگست ۱۸۸۷ء
نوٹ: یہ ہندو لڑکاجس کا ذکر حضرت کے خطوط میں آتا ہے شیخ محمد عبداللہ صاحب وکیل علی گڑھ ہے۔ حضرت خلیفہ اوّل کی خدمت میں وہ رہتے تھے اور کشمیر سٹیٹ کے بعد بڑے بڑے ہندو عہدہ دار اس کی مخالفت میں منصوبے کر رہے تھے کہ مولوی صاحب کے پاس سے اس لڑکے کو نکالا جاوے۔ مگر وہ کامیاب نہ ہو سکے ایک موقعہ اس لڑکے کے مسلمان ہونے کے بعد اس پر ارتداد کا بھی آیا اور قریب تھا کہ وہ مرتد ہو جاوے۔ مگر خدا تعالیٰ نے اسے بچایا اور اب وہ علی گڑھ کے ایک کامیاب وکیل اور تحریک علی گڑھ کے پُر جوش مؤید ہیں اور کارکنوں میں سے ہیں خصوصیت سے تعلیم نسواں کے متعلق انہوں نے نہایت قابل قدر کام کیا ہے۔( عرفانی)
٭٭٭
مکتوب نمبر ۲۵
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مدت مدید ہوگئی کہ آنمخدوم کے حالات خیریت آیات سے بے خبر ہوں۔ اللہ جلشانہٗ آپ کو بہت خوش رکھے اس طرف بشدت بارش ہوئی۔ یہاں تک کہ بڑے بڑے معمر بیان کرتے ہیں کہ ایسی برسات ہم نے اپنی مدت عمر میں نہیں دیکھی۔ اسی وجہ سے ابھی کام طبع کتاب کا شروع نہیں ہو سکا۔ کیونکہ ایک تو کاغذ منگوانے میں بڑی دقت ہے اور دوسرے ہر روز بارش میں عمدہ چھپائی میں بہت کچھ حرج ہوگا۔ سو یقین ہے کہ بعد بیس بائیس روز کے بعد جب بارش کچھ تھمتی ہے دہلی سے کاغذ منگوایا جاوے گا۔ تب بفضلہ تعالیٰ کتاب کا چھپنا شروع ہوگا اب میں ایک کام کیلئے آپ کو تکلیف دیتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ ایک شخص نہایت درجہ مخلص ہے جس کا دل خلوص سے بھرا ہوا ہے۔ اس کا نام فتح خاں ہے۔ فتح اں بوجہ ان انقلابات کے جو مصلحت ایزدی نے ہر ایک فرد بشر کیلئے اس کے حسب حالت مقرر کئے ہیں بہت سے قرضہ کی زیر باریوں میں مبتلا ہے اور بایں ہمہ اس کا دل کچھ ایسے طور پر واقعہ ہے کہ ہم و غم دنیا کی نسبت ہم و غم دین کا اس پر بہت غالب ہے مگر میں جو اس کے اندرونی تردّدات پر واقف ہوں اس لئے مجھ اس کی حالت پر بہت رحم آتا ہے اور اس کا چھوٹا بھائی عبداللہ خان نام بھی نیک بخت اور جوان بیس بائیس سالہ مستعد آدمی ہے چونکہ فتح خاں پر دین کی ہمدردی اور غمخواری کا اس قدر غلبہ ہو رہا ہے کہ وہ دنیوی معاشات کو بہ سختی و جدوجہد طلب کرنے کے قابل نہیں لیکن بھائی اس کا اس قابل ہے سو میں چاہتا ہوں کہ آنمخدوم کی سعی اور کوشش اور سفارش سے جموں میں کسی جگہ دس بارہ روپیہ کی نوکری عبداللہ خاں کو مل جاوے۔ مجھے اس شخص کیلئے دردِ دل سے خیال ہے۔ سو آپ محض للہ ایک دو جگہ سفارش کریں۔ عبداللہ خاں بہت مضبوط آدمی ہے کسی امیر کی اردل میں کام دے سکتا ہے اور پولیس میں عمدہ خدمت دینے کے لائق ہے۔ کسی قدر فارسی بھی پڑھا ہوا ہے امید ہے کہ آنمخدوم نہایت تفتیش فرما کر جواب سے ممنون فرمائیں گے اور اپنی خیرو عافیت سے جلد تر مطلع فرما دیں۔ باقی بفضلہ تعالیٰ سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۷؍ اگست ۱۸۸۷ء
نوٹ: فتح خاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس خادم تھا اور قریباً چار پانچ سال تک یہاں رہا ہے۔ وہ رسولپور متصل ٹانڈہ کا رہنے والا تھا۔ قوم کا افغان تھا۔ حضرت اقدس کی خدمت میں محض اخلاص و ارادت سے رہتا تھا۔ اس کا بھائی عبداللہ خاں بھی یہاں ڈیڑھ سال تک رہا تھا۔ اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ سفارش فرمائی ہے۔ اگرچہ وہ محض اخلاص سے رہتا تھا اور اس کی کوئی تنخواہ مقرر نہ تھی۔ مگر مرزا محمد اسماعیل بیگ کو حضرت اقدس فرمایا کرتے تھے کہ اس کے کپڑے وغیرہ بنوا دو اور کچھ نقدی بھی وقتاً فوقتاً دے دیا کرتے تھے چونکہ نقدی اور حساب کتاب مرزا صاحب کے پاس رہتا تھا اس لئے ان کو ہی یہ حکم دیا جاتا تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے خادموں کی ضروریات کا کس قدر احساس رکھا کرتے تھے اور یہ خط اور بھی اس پر روشنی والتا ہے کہ آپ نے حضرت حکیم الامۃ کو سفارش فرمائی۔ (عرفانی)

مکتوب نمبر ۲۹
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج نصف قطعات نوٹ… مرسلہ آنمخدوم پہنچ گئے۔ امید کہ باقی قطعات بھی بذریعہ رجسٹری ارسال فرماویں میں نے السلام علیکم آنمخدوم بشیر احمد کو پہنچا دیا۔ پہلے تو مجھے یہی خیال ہو رہا تھا کیف لکم من کان فی المھدصبیا لیکن تعمیل ارشاد آنمخدوم کی گئی اُس وقت طبیعت اس کی اچھی تھی۔ بار بار تبسم کر رہا تھا۔ چنانچہ السلام علیکم کے بعد بھی یہی اتفاق ہوا کہ دو تین مرتبہ اس نے تبسم کیا اور انگشت شہادت منہ پر رکھ لی۔ اگر کشمیر میں یعنی سری نگر میں یہ خط مل جائے تو بیشک ایک مہر کھدوا کر لے آویں چاندی کی ایک سُبک جیسی انگشتری ہو جس پر یہ نام لکھا ہو کہ بشیر۔
امید ہے کہ اب ملاقات میسر آئے گی لیکن قبل از ملاقات ایک ہفتہ مجھ کو اطلاع بخشیں کہ بابو محمد صاحب کی خدمت میں بہت تاکید ہے کہ اگر آپ آویں تو مجھ کو بھی اطلاع دی جاوے۔ امید ہے کہ آنمخدوم نے کتاب لیکھرام کی طرف توجہ فرمائی ہوگی۔ اس کی بیخ کنی نہایت ضروری ہے لیکن حتی الوسع یہ مدنظر رہے کہ عام خیال کے آدمی اس سے فائدہ اُٹھا سکیں اور واضح اور سریع الفہم خیالوں میں بیان ہو۔
میں نے آگے بھی ایک خط میں اطلاع دی تھی کہ ایک صاحب فتح خاں نامی میرے پاس رہتے ہیں اور میری خدمت میں ملازموں کی طرح مشغول ہیں۔ نیک بخت اور دیندار آدمی ہے ان کا چھوٹا بھائی عبداللہ خاں نام بیکار ہے۔ قرضداری بہت ہے وہ بھی مضبوط معمر بست سالہ اور خوب ہوشیار اور کارکن آدمی اور سپاہیانہ کاموں کیلئے بہت مناسبت رکھتا ہے مجھے فتح خاں کے حال پر بہت رحم آتا ہے۔ میرا ارادہ ہے کہ یہ چھوٹا بھائی اس کا عبداللہ کسی سات آٹھ روپے تنخواہ پر نوکر ہو جائے قرضہ کی بلا سے کچھ تخفیف ہو۔ اگر آنمخدوم کوشش فرماویں تو یقین ہے کہ کسی امیر معزر عہدہ دار کی اردل میں یا ایسی ہی کسی اور جگہ نوکر ہو جاوے۔ مگر تنخواہ سات آٹھ روپے سے کم نہ ہو۔ فارسی بھی پڑھا ہوا ہے۔ اچھا بدن کا مضبوط ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۲۰؍ دسمبر ۱۸۸۷ء
مکرر یہ کہ مجھے یاد آیا ہے کہ یہ دو سَوچالیس روپے ایک حساب سے پورا تین سَو ہو گیا ہے کیونکہ پہلے علاوہ پانسو روپیہ کے ساٹھ روپے آپ کے زیادہ آگئے ہیں۔ پس ساٹھ روپیہ ملانے سے پورا تین سَو ہو گیا اور کل روپیہ جو آج تک آپ کی طرف سے آیا۔ آٹھ سَو روپیہ ہوا۔
کشمیر کا تحفہ زیرہ عمدہ اور دو تولہ زعفران اگر ملے تو ضرور آنمخدوم لے آویں۔ زیرہ کی اس جگہ نہایت ضرورت رہتی ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
مکتوب نمبر ۳۰
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا میں بہت شرمسار ہوں کہ صرف ایک خیال سے آنمخدوم کی خدمت میں اپنا نیاز نامہ ارسال نہیں کر سکا اور وہ یہ ہے کہ مجھے خیال رہا کہ جب تک آنمخدوم جموں میں نہ پہنچ جاویں اور جموں سے خط نہ آ جائے تب تک کوئی پتہ و نشان پختہ نہیں ہے جس کے حوالہ سے خط پہنچ سکے اگر یہ میری غلطی تھی تو امید ہے کہ معاف فرمائیں گے بقیہ نصف قطعہ نوٹ… بھی پہنچ گئے تھے۔ اب آنمخدوم کی طرف سے کل آٹھ سَو روپیہ قرضہ مجھ کو پہنچ گیا ہے اور میں نہایت ممنون کہ آنمکرم بروش صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سچے دل سے اور پورے جوش سے نصرت اسلام میں مشغول ہوں کہ آپ نے میرے تغافل ارسال خط کی وجہ سے اپنی روا رکھی۔ یہ کیونکر ہو سکے کہ آپ کے اخلاص و محبت پر میں سوء ظن کروں۔ سچ تو یہ ہے کہ میں نے اس زمانہ میں یہ خلوص و محبت و صدق قدم براہِ دین کسی دوسرے میں نہیںپایا اور آپ کی عالمی ہمتی کو دیکھ کر خداوند کریم جلشانہٗ کے آگے خود منفل ہوں۔ خداوند کریم عظیم الشان رحمتوں کی بارش سے آپ کو پودۂ اعمال دنیا و آخرت کو بار ور کرے۔ جس قدر میری طبیعت آپ کی للّٰہی خدمات سے شکرگزار ہے مجھے کہاں طاقت ہے کہ میں اس کو بیان کر سکوں۔ امید تھی کہ بعد واپسی سفر کشمیر آپ کی ملاقات میسر ہو۔ نہ معلوم پھر خلاف امید کیوں ظہور میں آیا۔ میں بہت مشتاق ہوں اگر وقت نکل سکے تو ملاقات سے ضرور مسرور فرمائیں۔ میں بباعث تعلقات مطبع جن سے شاید چھ ماہ تک مخلصی ہوگی۔ اس جگہ سے علیحدہ نہیں ہو سکتا۔ ورنہ میری خواہش تھی کہ اب کی دفعہ خود جا کر آپ سے ملاقات کروں اور اگر آپ کو جلد ترفرصت نہ ہووے اور مجھے چند روز کی کسی وقت فرصت نکل آوے تو کیا عجب ہے کہ اب بھی میں ایسا ہی کروں۔ آپ کو میںیگانہ دوست سمجھتا ہوں اور آپ کے لئے میرے دل و جان سے دعائیں نکلتی ہیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۳۱؍ اکتوبر ۱۸۸۷ء
مکتوب نمبر ۳۱
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
دو روز سے میں نے شخص کیلئے توجہ کرنا شروع کیا تھا۔ مگر افسوس کہ اس عرصہ میں میرے گھر کے لوگ یکدفعہ سخت علیل ہوگئے۔ یعنی تیز تپ ہو گیا جس کی وجہ سے مجھے ان کی طرف توجہ کرنی پڑی۔ کل ارادہ ہے کہ ان کو مسہل دوں۔ بعد ان کی صحت کے پھر توجہ میں مصروف ہوں گا۔ اب مجھے محض آپ کے لئے اس طرف بشدت خیال ہے اگرچہ مجھے صحت کامل نہیں تا ہم افاقہ میں آپ نے جو فتح محمد کے ہاتھ دوا بھیجی تھی وہی کھاتا رہا ہوں۔ معلوم ہوتا ہے واللہ اعلم کہ اس دوا نے کچھ فائدہ پہنچایا ہے پیراں دتا کے ہاتھ کوئی دوا نہیں پہنچی اور پیراں دتا کہتا ہے کہ مجھے مولوی صاحب نے کوئی دوا نہیں دی۔ یعنی اس عاجز کیلئے آپ نے جو کچھ لکھا تھا کہ پیراں دتا کے ہاتھ دوا بھیجی ہے شاید غلطی سے لکھا گیا ہو۔ میر عباس علی شاہ صاحب قادیان میں آپ کی دوا کے منتظر ہیں۔ براہ مہربانی ضرور توجہ فرما کر دوا بھیج دیں آپ کو یہ عاجز دعا میں یاد رکھتا ہے اور مید وار اثر ہے گو کسی قدر دیر کے بعد ہو۔ انسان کے دل پر کئی قسم کی حالتیں وارد ہوتی رہتی ہیں آخر خدا تعالیٰ سعید روحوں کی کمزوری کو دور کرتا ہے اور پاکیزگی اور نیکی کی قوت بطور موہبت عطا فرماتا ہے۔ پھر اس کی نظر میں وہ سب باتیں مکروہ ہو جاتی ہیں جو خدا تعالیٰ کی نظر میں مکروہ ہیں اور وہ سب راہیں پیاری ہو جاتی ہیں جو خدا تعالیٰ کو پیاری ہیں تب اس کو ایک ایسی طاقت ملتی ہے جس کے بعد ضعف نہیں اور ایک ایسا جوش عطا ہوتا ہے جس کے بعد کسل نہیں اور ایسی تقویٰ دی جاتی ہے کہ جس کے بعد معصیت نہیں اور ربّ کریم ایسا راضی ہو جاتا ہے کہ جس کے بعد خطا نہیں۔ مگر یہ نعمت دیر کے بعد عطا ہوتی ہے۔ اوّل اوّل انسان اپنی کمزوریوں سے بہت سی ٹھوکریں کھاتا ہے اور اسفل کی طرف گر جاتا ہے۔ مگر آخر اس کو صادق پا کر طاقت بالا کھینچ لیتی ہے۔ اس کی طرف اشارہ ہے جو اللہ جلشانہٗ فرماتا ہے۔ والذین جاھدوا فینا نہد مینھم سُبلنا یعنی نثبتھم علی التقوی والایامان ونھدینھم سبل المحبت والعرفان۔ و سنیسر ھم لضعل الخیرات وترک العصیان کتاب خطاب احمدیہ پیراں دتا کے ہاتھ پہنچ گئی۔ بعض ادویہ بھی۔ مگر اس عاجز کیلئے کوئی دوا نہیں پہنچی۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
از قادیان ضلع گورداسپور
نوٹ: اس خط پر کوئی تاریخ درج نہیں۔ قیاس چاہتا ہے کہ ۱۸۸۷ء کا خط ہے۔ (عرفانی)

مکتوب نمبر ۲۳
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عین حالت انتظار میں عنایت نامہ پہنچا۔ اللہ تعالیٰ بہت جلد آپ کو صحت کامل عطا فرمائے۔ اگرچہ ہمیشہ آپ کے لئے دعا کی جاتی ہے مگر خاص طو ر پر آپ کی صحت کیلئے میں نے آج سے دعا کرنا شروع کر دیا ہے۔ مجھے آپ کے اخلاق فاضلہ کہ گویا اس زمانہ کی حالت موجودہ پر نظر کر کے خارق عادت ہیں نہایت اطمینان قلبی سے یقین دلاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ہرگز ضائع نہیں کرے گا اور آپ کو اپنی رحمت خاصہ سے خط وافر بخشے گا۔ آپ کو خدا نے ذوی الایدی والابصار کا مرتبہ عطا کیا ہے اب لوازم اس مرتبہ کے بھی وہی دے گا۔
آپ کی ملاقات کو دل چاہتا ہے اور بعض احباب بھی آپ کی ملاقات کے بہت شائق ہیں جیسے بابو محمد صاحب کلرک دفتر انبالہ چھاؤنی اور بابو الٰہی بخش صاحب اکونٹنٹ۔ سو بابو محمد صاحب سے اقرار ہو چکا ہے کہ جس وقت آپ تشریف لانا چاہیں تو دس پندرہ روز پہلے اُنہیں اطلاع دی جائے گی۔ تب وہ رخصت لے کر عین موقعہ پر آ جائیں گے اور بابو الٰہی بخش صاحب کو بھی اطلاع دے دیں گے اس لئے مکلف ہوں کہ آنمخدوم عزم بالجزم کر کے بیس روز پہلے مجھے اطلاع دیں اور کم سے کم تین روز یا چار روز تک قادیان میں رہنے کا بندوبست کر کے مفصل اطلاع بخشیں کہ کس تاریخ تک پہنچ سکتے ہیں تا اسی تاریخ کے لحاظ سے وہ لوگ بھی آ جاویں۔
مجھے یہ بات سن کر نہایت خوشی ہوئی کہ تکذیب براہین کا ردّ آپ نے تیار کر لیا ہے۔ الحمدللّٰہ والمنہ اس ردّ کے شائع ہونے کیلئے عام طور پر مسلمانوں کا جوش پایا جاتا ہے۔ شاید ڈیڑھ سَو کے قریب ایسے خط آئے ہونگے جنہوں نے اس کتاب کے خریدنے کا شوق ظاہر کیا ہے میں نے ابھی کام ہر دو رسالہ کا شروع نہیں کیا اب شاید بیس بائیس روز تک شروع کیا جائے۔
عوام کو اس تاخیر سے جس قدر غصہ و بدظنی عاید حال ہوئی ہے میں امید کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ وہ سب دور کر دے گا۔ اصل بات یہی ہے کہ اگر خدا تعالیٰ راضی ہو تو انجام کار خلقت بصد ندامت خود راضی ہو جاتی ہے۔ اس خط کو رجسٹری کرا کر اس غرض سے بھیجا جاتا ہے کہ آپ مکرر اپنی صحت و عافیت سے بہت جلد اطلاع بخشیں اور نیز اپنی تشریف آواری کے بارہ میں جس وقت چاہیں اطلاع دے دیں۔ مگر پندرہ یا بیس روز پہلے اطلاع ہو۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۴؍ جنوری ۱۸۸۸ء
مکتوب نمبر ۳۳
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج رجسٹری شدہ خط کے روانہ کرنے کے بعد اخویم حکیم فضل دین صاحب کا خط جو بلف خط ہذا روانہ کیا جاتا ہے آپ کی علالت طبع کے بارے میں پہنچا۔ اس خط کو دیکھ کر نہایت تردّد ہوا اس لئے میں نے پختہ ارادہ کر لیا ہے کہ آپ کی عیادت کیلئے آؤں اور میں خدا تعالیٰ سے چاہتا ہوں کہ آپ کو من کُل الوجوہ تندرست دیکھوں۔ وھوعلی کل شی قدیر۔ سو ہفتہ کے دن یعنی ساتویں تاریخ جنوری ۱۸۸۸ء میں روانہ ہونے کا ارادہ ہے آگے اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے سو اگر ہفتہ کے دن روانہ ہوئے تو انشاء اللہ اتوار کے دن کسی وقت پہنچ جائیں گے۔ اطلاع دہی کیلئے لکھا گیا ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
از قادیان ضلع گوراسپور
۵؍ جنوری ۱۸۸۸ء روز پنجشنبہ
مکتوب نمبر۳۴
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مجذوب و مورد احسانات الٰہیہ سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جب سے یہ خاکسار آپ کی ملاقات کر کے آیا ہے تب سے مجھے آپ کے ہموم و غموم کی نسبت دزات خیال لگا ہوا ہے اور میرا دل بڑے یقین سے یہ فتویٰ دیتا ہے کہ اگر نکاح ثانی کا دلخواہ انتظام ہو جاوے تو یہ امر موجب برکات کثیرہ ہوگا اور میں امید کرتا ہوں کہ اس سے تمام کسل و حزن بھی دور ہوگا اور اللہ جلشانہٗ اپنے فضل و کرم سے اولاد صالح صاحب عمر و برکت بھی عطا کرے گا۔ لیکن اہلیہ ایسی چاہئے جس سے موافقت تامہ کا پہلے سے یقین ہو جائے۔
نہایت نیک قسمت اور سعید وہ آدمی ہے کہ جس کو اہلیہ صالحہ محبوبہ میسر آ جائے کہ اس سے تقویٰ طہارت کا استحکام ہوتا ہے اور ایک بزرگ حصہ دین اور دیانت کا مفت میں مل جاتا ہے۔ اسی وجہ سے تقریباً تمام نبیوں اور رسولوں کو توجہ اسی بات کی طرف لگی رہی ہے کہ انہیں جمیلہ حسینہ صالحہ بیوی میسر آوے جس سے گویا انہیں ایک قسم کا عشق ہو۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے محبت کا ایک مشہور واقعہ ہے اور لکھا ہے کہ اسلام میں پہلے وہی محبت ظہور میں آئی۔ سو میں آپ کے لئے دعا کرتا ہوں کہ سب سے پہلے اللہ جلشانہٗ آپ کو یہ نعمت عطا کرے۔ میرے نزدیک ہر نعمت اکثر نعمتوں کی اصل الاصول ہے اور چونکہ مومن اعلیٰ درجہ کے تقویٰ کا طالب و جویاں بلکہ عاشق و حریص ہوتا ہے اس لئے میری رائے میں مومن کیلئے یہ تلاش واجبات میں سے ہے اور میری رائے میں وہ گھر بہشت کی طرح پاک اور برکتوں کا بھرا ہوا ہے جس میں مرد اور عورت میں محبت و اخلاص و موافقت ہو۔ اب قصہ کوتاہ یہ کہ اس نعمت کیلئے جلد جلد فکر کرنا چاہئے اور جو آپ نے زبانی فرمایا تھا کہ اپنی برادری میں ایک جگہ زیر نظر ہے اس کی آپ اچھی طرح تحقیق و تفتیش کریں اور بچشم خود دیکھ لیں اور پھر مجھ کو اطلاع دیں اور اگر وہ صورت قابل پسند نہ نکلے تا ہم اطلاع بخشیں کہ تا جابجا اپنے دوستوں کی معرفت تلاش کی جاوے۔ دوسرے یہ امر بھی قابل انتظام ہے کہ آپ کے اخراجات ایسے حد سے بڑھے ہوئے ہیں کہ جن کے سبب سے ہمیشہ آپ کو تہی دست رہنا پڑتا ہے۔ یہاں تک کہ میں نے مولوی کریم بخش صاحب کی زبانی سنا ہے کہ جو آٹھ سَو روپیہ مجھ کو آپ نے بھیجا تھا وہ بھی قرضہ لے کر ہی بھیجا تھا۔ سو امن سے لاتبسط کل ابسط کی طرف خیال رکھنا چاہئے اور اپنے نفس سے ایک مستحکم عہد کر لیں کہ تیسرا یا چوتھا حصہ تنخواہ میں سے خرچ کریں اور باقی کسی دوکان وغیرہ میں جمع کرا دیں۔ امید کہ ان امور سے آپ مجھ کو اطلاع دیں گے۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
۲۲؍ فروری ۱۸۸۸ء
٭٭٭
مکتوب نمبر ۳۵
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ہر دو عنایت نامے پہنچ گئے خدا قادر ذوالجلال آپ کے ساتھ ہو اور آپ کو اپنے ارادات خیر میں مدد دیوے۔ اس عاجز نے آنمخدوم کے نکاح ثانی کی تجویز کیلئے کئی جگہ خط روانہ کئے تھے ایک جگہ سے جو جواب آیا ہے وہ کسی قدر حسبِ مراد معلوم ہوتا ہے یعنی میر عباس علی شاہ صاحب کا خط جو روانہ خدمت کرتا ہوں۔ اس خط میں ایک شرط عجیب ہے کہ حنفی ہوں غیر مقلد نہ ہوں۔ چونکہ میر صاحب بھی حنفی اور میرے مخلص دوست منشی احمد جان صاحب (خدا تعالیٰ ان کو غریق رحمت کرے) جن کی بابرکت لڑکی سے یہ تجویز درپیش ہے پکے حنفی تھے اور ان کے مرید جو اس علاقہ میں بکثرت پائے جاتے ہیں سب حنفی ہیں۔ اس لئے حنفیت کی قید بھی لگا دی گئی۔ یوں تو حنیفاً مسلماً میں سب مسلمان داخل ہیں لیکن اس قید کا جواب بھی معقولیت سے دیا جائے تو بہتر ہے۔
اب میں تھوڑا سا حال منشی احمد جان صاحب کا سناتا ہوں منشی صاحب مرحوم اصل میں متوطن دہلی کے تھے۔ شاید ایام مفسدہ ۱۸۵۷ء میں لودہانہ آ کر آباد ہوئے۔ کئی دفعہ میری ان سے ملاقات ہوئی نہایت بزرگوار، خوبصورت، خوب سیرۃ، صاف باطن، متقی، باخدا اور متوکل آدمی تھے۔ مجھے اس قدر دوستی اور محبت کرتے تھے کہ اکثران کے مریدوں نے اشارتاً اور صراحتاً بھی سمجھایا کہ آپ کی اس میں کسر شان ہے۔ مگر انہوں نے ان کو صاف جواب دیا کہ مجھے کسی شان سے غرض نہیں اور نہ مجھے مریدوں سے کچھ غرض ہے۔ اس پر بعض نالائق خلیفے ان کے منحرف بھی ہوگئے مگر انہوں نے جس اخلاص اور محبت پر قدم مارا تھا آخیر تک نبھاہا اور اپنی اولاد کو بھی یہی نصیحت کی۔ جب تک زندہ رہے خدمت کرتے رہے اور دوسرے تیسرے مہینے کسی قدر روپے اپنے رزوق خداداد سے مجھے بھیجتے رہے اور میرے نام کی اشاعت کیلئے بدل و جان مساعی رہے اور پھر حج کی تیاری کی اور جیسا کہ انہوں نے اپنے ذمہ مقدمہ کر رکھا تھا جاتے وقت بھی پچیس روپے بھیجے اور ایک بڑا لمبا دردناک خط لکھا جس کے پڑھنے سے رونا آتا تھا اور حج سے آتے وقت راہ میں ہی بیمار ہوگئے اور گھر آتے ہی فوت ہوگئے۔ انا للّٰہ و انا الہ راجعون اس میں کچھ شک نہیں کہ منشی صاحب علاوہ اپنی ظاہری علمیت و خوش تقریری و وجاہت کے جو خدا داد نہیں حاصل تھی۔ مومن صادق اور صالح آدمی تھے جو دنیا میں کم پائے جاتے ہیں چونکہ وہ عالی خیال اور صوفی تھے اس لئے ان میں تعصب نہیں تھا۔ میری نسبت وہ خوب جانتے تھے کہ یہ حنفی تقلید پر قائم نہیں ہیں اور نہ اسے پسند کرتے ہیں لیکن پھر بھی یہ خیال انہیں محبت و اخلاص سے نہیں روکتا تھا۔ غرض کچھ مختصر حال منشی احمد جان صاحب مرحوم کا یہ ہے اور لڑکی کا بھائی صاحبزادہ افتخار احمد صاحب بھی نوجوان صالح ہے جو اپنے والد مرحوم کے ساتھ حج بھی کر آئے ہیں۔ اب دو باتیں تدبیر طلب ہیں۔
اوّل یہ کہ انکی حنفیت کے سوال کا کیا جواب دیا جائے۔
دوسرے اگر اسی ربط پر رضا مندی فریقین کی ہو جائے تو لڑکی کے ظاہری حلیہ سے بھی کسی طور سے اطلاع ہو جانی چاہئے۔
بہتر تو بچشم خود دیکھ لینا ہوتا ہے مگر آج کل کی پردہ داری میں یہ بڑی قباحت ہے کہ وہ اس بات پر راضی نہیں ہوتے۔ مجھ سے میر عباس علی صاحب نے اپنے سوالات مستفسرہ خط کا بہت جلد جواب طلب کیا ہے۔ اس لئے مکلّف ہوں کہ جہاں تک ممکن ہو جلد تر جواب ارسال فرماویں۔ ابھی میں نے تصریح سے آپ کا نام ان پر ظاہر نہیں کیا۔ جواب آنے پر ظاہر کروں گا۔
ہندو پسر کے بارہ میں مجھے خیال ہے ابھی میں نے توجہ نہیں کی کیونکہ جس روز سے میں آیا ہوں میری طبیعت درست نہیں ہے۔ علالت طبع کچھ نہ کچھ ساتھ چلی آتی ہے اور کثرت مشغولی علاوہ۔ لیکن اگر میں نے کسی وقت توجہ کی اور آپ کی رائے کے موافق یا مخالف کچھ ظاہر ہوا جس کی مجھے ہنوز کچھ خبر نہیں۔ تو بہرحال آپ پر اس کے موافق عمل کرنا واجب ہوگا۔
ایک میرے دوست سامانہ علاقہ پیٹالہ میں ہیں۔ جن کا نام مرزا محمد یوسف بیگ ہے انہوںنے کئی دفعہ ایک معجون بنا کر بھیجی ہے جس میں کچلہ مدبر داخل ہوتا ہے وہ معجون میرے تجربہ میں آیاہے کہ اعصاب کیلئے نہایت مفید ہے اور امراض رعشہ اور فالج اور تقویت دماغ اور قوت باہ کیلئے اور نیز تقویت معدہ کیلئے فائدہ مند ہے۔ مدت سے میرے استعمال میں ہے اگر آپ اس کو استعمال کرنا قرین مصلحت سمجھیں تو میں کسی قدر جو میرے پاس ہے بھیج دوں۔
چھ سَو روپے کیلئے جو آنمخدوم نے لکھا ہے اس کی ضرورت تو بہرحال درپیش ہے مگر بالفعل اپنے پاس ہی بطور امانت رکھیں اور مناسب ہے کہ وہ آپ کے مصارف سے الگ پڑا رہے تا جس وقت مجھے ضرورت پڑے بلاتوقف آپ بھیج سکیں۔ مگر ابھی نہ بھیجیں جس وقت مطالبہ کیلئے میرا خط پہنچے اس وقت ارسال فرمادیں۔
لیکھرام کی کتاب کے متعلق اگر جلد مسودہ تیار ہو جاوے تو بہتر ہے لوگ بہت منتظر ہیں اور اگر آپ کی کتاب جو دہلی میں چھپتی ہے تمام و کمال چھپ چکی ہو تو ایک جِلد اس کی بھی عنایت فرماویں۔
منشور محمدی میں جو آنمخدوم نے مضمون چھپوایا ہے وہ سب پرچے پہنچ گئے وہ مضمون نہایت ہی عمدہ ہے۔ جزاکم اللہ خیرا۔
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۲۳؍ جنوری ۱۸۸۸ء

مکتوب نمبر ۳۶
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ عین انتظار میں پہنچا۔ ابھی وہ خط میں نے کھولا تھا کہ بابو الٰہی بخش صاحب کے کارڈ کے پڑھنے سے کہ جو ساتھ ہی اسی ڈاک میں آیا تھا۔ نہایت تشویش ہوئی کیونکہ اس میں لکھا تھا کہ آپ لاہور میں علاج کروانے کیلئے تشریف لے گئے تھے اور ڈاکٹروں نے کہا کہ کم از کم پندرہ دن تک سب ڈاکٹر مل کر معائنہ کریں تو حقیقت عرض معلوم ہو مگر آپ کے خط کے کھولنے سے کسی قدر رفع اضطراب ہوا مگر تا ہم تردّد باقی ہے کہ مرض تو بکلّی رفع ہو گئی تھی۔ صرف ضعف باقی تھا۔ پھر کس لئے ڈاکٹروں کی طرف التجا کی گئی۔ شاید بعض ضعف وغیرہ کے لحاظ سے بطور دور اندیشی مناسب سمجھا گیا ہو میری دانست میں جہاںتک ممکن ہے آپ زیادہ ہم و غم سے پرہیز کریں کہ اس سے ضعف بڑھتا ہے اور نہایت سرور بخشنے والی یہ آیت مبارکہ ہے الم تعلم ان اللّٰہ علی کل شیئٍ قدیر
میرے نزدیک یہ امر نہایت ضروری ہے کہ آپ نکاح ثانی کے امر کو سرسری نگاہ سے نہ دیکھیں بلکہ اس کو کسل و حزن کے دور کرنے کے لئے ضروری خیال کریں اور اللہ تعالیٰ کی رحمتوں سے امید ہے کہ آپ کو نکاح ثانی سے اولاد صالح بخشے۔ میرا اس طرف زیادہ خیال نہیں ہے کہ کوئی اہلیہ پڑھی ہوئی ملے۔ میں یقین کرتا ہوں کہ اگر مرد ہو یا عورت مگر پاکیزہ ذہن اور فطرت سے عمدہ استعداد رکھتا ہوں تو امیت اس کے لئے کوئی بڑا سدِراہ نہیں ہے جلدی صحت سے ضروریات دین و دنیا سے خبردار ہو سکتا ہے۔ ضروری یہ امر ہے کہ عقیلہ ہو اور حسن ظاہری بھی رکھتی ہو تا اس سے موافقت و محبت پیدا ہو جاوے۔ آپ اس محل زیر نظر میں اس شرط کی اچھی طرح تفتیش کرلیں اگر حسب دلخواہ نکل آوے تو الحمدللہ ورنہ دوسرے مواضع میں تمام تر جدوجہد سے تلاش کرنا شروع کیا جائے۔ بندہ کی طرف سے صرف کوشش ہے اور مطلوب کو میسر کر دینا قادر مطلق کا کام ہے بہرحال اس عالم اسباب میں جدوجہد پر نیک ثمرات مل جاتے ہیں۔ میں نے اب تک کسی دوست کی طرف سے اس تلاش کیلئے نہیں لکھا کیونکہ ابھی تک آپ کی طرف سے قطعی اور یک طرفہ رائے مجھ کو نہیں ملی اس لئے مکلّف ہوں کہ درمیانی خیالات کا جلد تصفیہ کر کے اگر جدید تلاش کی ضرورت پیش آوے تو مجھے اطلاع بخشیں اور جیسا کہ میں نے پہلے بھی لکھا تھا آپ اپنے مصارف کی نسبت ہوشیار ہو جائیں کہ انہیں اموال سے قوام معیشت ہے اور اپنی ضروریات کے وقت بھی موجب ثواب عظیم ہو جاتے ہیں اور جیسا کہ آپ نے عہد کر لیا ہے کسی حالت میں ثلث سے زیادہ خرچ نہ کریں۔
انگریزی خوانوں کی نسبت جو آپ نے لکھا ہے یہ نہایت عمدہ صلاح ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی اس نیت عالیہ میں برکت ڈالے۔ نبیوں کے پاس دو ہتھیار تھے جن کے ذریعہ وہ فتح یاب ہوئے۔ ایک ظاہری طور پر قول موجہ جو ہر ایک مخالف کو ملزم و ساکت کرتا تھا۔ دوسری باطنی توجہ جو نورانی اثر دلوں پر ڈالتی تھی۔ اوائل میں جو نبیوں کے وعظوں میں کم اثر ہوا بلکہ طرح طرح کے دُکھ اُٹھانے پڑے اور طرح طرح کی نالائق تہمتیں ان کی شان میں کی گئیں تو اس کا یہ باعث ہے کہ اوّل اوّل ان کی ہمت قول موجہ کے پھیلانے اور مخالفوں کے ساکت کرنے میں مصروف رہی۔ پھر جب اس طریق پر کوئی فائدہ مترتب نہ ہوا اور دل ٹوٹ گیا تو بقول حضرت مہدی
بہ ہمت نمایند مردی رجال
عقد ہمت اور توجہ سے کام لیا گیا۔ یہ عقد ہمت اور توجہ شمشیر تیز سے زیادہ اثر رکھتی ہے۔ میرے رائے میں نبیوں کی تمام کامیابی کا بڑا بھارا موجب یہی توجہ باطنی تھی اور نیز یہ بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ حکم خوایتم پر ہے۔ خدا تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے کہ العاقبۃ للمتقین سنت اللہ اسی طور پر جاری ہے کہ صادق لوگ اپنے انجام سے شناخت کئے جاتے ہیں۔ یہ عاجز خوب جانتا ہے کہ جس کام کو میں نے اُٹھایا ہے ابھی وہ لوگوں پر بہت مشتبہ ہے اور شاید اس بات میں کچھ مبالغہ نہ ہو کہ ہنوز ایسی حالت ہے کہ بجائے فائدہ کے آثار و علامت نقصان کے نظر آتے ہیں۔ یعنی بجائے ہدایت کے ضلالت و بدظنی سہل لگتی ہے۔ مگر میں جب ایک طرف آیات قرآنی پڑھتا ہوں کیونکہ اوائل میں نبیوں پر ایسے سخت زلازل آئے کہ مدتوں تک کوئی صورت کامیابی کی دکھلائی نہ دی اور پھر انجام کار نسیم حضرت الٰہی کا چلنا شروع ہوا اور دوسری طرف مواعید صادقہ حضرت احدیت سے بشارتیں پاتا ہوں تو میرا غم دور اور بالکل دور ہو جاتا ہے اور اسی بات پر تازہ ایمان آتا ہے۔ کتب اللّٰہ لاغلبن انا ورسلی
میرا یقین ہے کہ زمانہ حال کے انجرہ رویہ و مواد فاسدہ کا استیصال صرف خشک اور ظاہری دلائل سے ممکن نہیں۔ تاریکی ہمیشہ نور سے دور ہوتی رہی ہے اور لب بھی ایمانی انوار اس تاریکی کو دور کریں گے۔ ایسے معرکہ میں وہ لوگ کام نہیں کر سکتے کہ لیکچر یا تقریر کرنے میں نہایت فصیح ہوں اور ایمانی وفاداریوں اور صدقوں کی تحریک نہ پہنچی ہو۔
ہاں اگر فضل و احسان الٰہی سے کسی انگریزی خوان میں یہ دونوں باتیں جمع ہو جائیں تو پھر نورٌ علی نور ہوگا اور اگر ایسے انگریزی خوان ہمیں میسرنہ آ جائیں تو پھر بھی ہم ہرگز نااُمید نہیں اور کیوں نااُمید ہوں ہمارے پاس مواعید صادقہ حضرت اصدق الصادقین کا ایک ذخیرہ ہے اور ہماری تسلی کیلئے یہ آیات قرآن کریم کافی ہیں جن کو ہم پڑھتے ہیں۔ ام حسبتم ان تدخلوا لجنۃ ولما یاتکم مثل الذین خلوا من قبلکم مستھم الباساء وانصراء وزلزلوا حتی یقول الرسول والذین امنوا … نصر اللّٰہ الا ان نصراللّٰہ قریب۔ اب ہمیں انصاف کرناچاہئے کہ ابھی تک ہم نے کیا دُکھ اُٹھایا اور کون سے زلازل ہم پر آئے کس قدر صبر کرتے زمانہ گزرا یہ تو سوء ادبی ہے کہ ہم روز اوّل سے اپنے خداوند کریم پر افسوس کریں کہ اس نے ہماری محنت کا کوئی نتیجہ نہیں دیا۔ ہمیں مستقل رہنا چاہئے بلاشبہ نتائج خیر ظہور میں آئیں گے۔ ولاتبدیل لکلمات اللّٰہ
اس لڑکے کا حال آپ نے خوب یاد دلایا۔ میں بالکل بھول گیا تھا حافظہ کا نقص و ہجوم کا راز ہر طرف۔ انشاء اللہ اب اس خیال میں لگوں گا اور اگر اس کے لئے وقت ملا تو توجہ کروں گا۔ خواہ جلدی یا کسی قدر دیر ہے کیونکہ امر اختیاری نہیں۔ وماتنزل الا بامرربک
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۲۹؍ فروری۱۸۸۸ء


مکتوب نمبر۳۷
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا بجز میر صاحب کی خدمت میں ارسال کیا گیا۔ پہلے سے میں نے بھی ایسا ہی لکھا تھا جیسا آپ نے تحریر فرمایا ہے مگر میں مکرر لکھنا مناسب سمجھتا ہوں کہ آپ ضرور ایک امینہ و صادقہ عورت بھیج کر سب حال براہ راست دریافت کر لیں کیونکہ ساری عمر کا معاملہ ہے اس میں اگر درپردہ کوئی خرابی نکل آوے تو پھر لاعلاج امر ہے۔ میر عباس علی شاہ صاحب اگرچہ نہایت مخلص اور صادق آدمی ہیں مگر میر صاحب کی طبیعت میں نہایت سادگی ہے میرے نزدیک از بس مناسب و ضروری ہے کہ شکل و صورت وغیرہ کے بارہ میں قابل اطمینان آپ کو حال معلوم ہو جائے۔ اس میں ہرگز تساہل نہ کریں کہ یہ معاملہ نازک ہے اگر بیوی مرغوب طبع ہو تو وہ بلاشبہ اسی جہان میں ایک بہشت ہے اور تقویٰ اللہ پر کامل معین۔ اگرخدانخواستہ مکروہ الشکل نکل آوے تو وہ اسی جگہ میں ایک دوزخ ہے۔ مناسب ہے کہ ایک عاقلہ و آمینہ عورت اپنی طرف سے روانہ کریں۔ تب ساری کیفیت کھل جاوے گی۔ اس میں ہرگز سستی نہ کریں نکاح کرنے میں جو غلطی لگ جائے اس جیسی دل کو دکھ دینے والی دنیا میں اور کوئی غلطی نہیں۔ آئندہ آپ خوب سمجھتے ہیں اور ہندو لڑکے کے لئے انشاء اللہ اس امر کے فیصلہ کے بعد توجہ کروں گا۔
خاکسار
غلام احمد از قادیان
نوٹ: اس خط پر کوئی تاریخ درج نہیں۔ مگر اس کے مضمون سے معلوم ہوتا ہے یہ خط یا تو اواخر جنوری ۱۸۸۸ء کا ہے۔ یا اوائل فروری ۱۸۸۸ء کا ہے کیونکہ یہ خط ۱۳؍ جنوری ۱۸۸۸ء کے خط کے جواب کے بعد کا معلوم ہوتا ہے۔ (عرفانی)

مکتوب نمبر۳۸
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس خط کی تحریر سے مطلب آپ کو ایک تکلیف دینا ہے اور وہ یہ ہے کہ مرزا امام دین صاحب جو میرے چچا زاد بھائی ہیں ایک بیش قیمت گھوڑا ان کے پاس ہے جو خوش رفتار اور راجوں رئیسوں کی سواری کے لائق ہے۔ اب وہ اس کو فروخت کرنا چاہتے ہیں چونکہ ایسے گراں قیمت گھوڑوں کو عام لوگ خرید نہیں سکتے اور رئیس خود ایسی چیزوں کی تلاش میں رہتے ہیں لہٰذا مُکلّف ہوں کہ آپ براہ مہربانی رئیس جموں یا اس کے کسی بھائی کے پاس تذکرہ کر کے جدوجہد کریں کہ تا مناسب قیمت سے وہ گھوڑا خرید لیں۔ اگر خریدنے کا ارادہ ان کی طرف سے پختہ ہو جائے تو گھوڑا آپ کی خدمت میں بھیجا جاوے۔ ضرور کوشش بلیغ کے بعد اطلاع بخشیں۔
والسلام
غلام احمد از قادیان
۳؍ مارچ ۱۸۸۸ء
مکتوب نمبر۳۹
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا بجز کچھ مناسب کلمات ساتھ لکھ کر پیر صاحب کی خدمت میں بھیج دیا گیا۔ صاحبزادہ افتخار احمد صاحب جن کی ہمشیرہ سے تجویز نسبت ہے۔ نہایت سعادتمند اور اہل دل آدمی ہیں۔ ان کو آپ کی ذات سے کوئی پرخاش نہیں۔ صرف آج کل کے شور و غوغا کے لحاظ سے انہوں نے تحریر کیا تھا۔ امید کہ حکیم فضل دین کے پہنچنے پر تلاتامل بات پختہ ہو جائے گی۔ اس جگہ سب طرح سے خیریت ہے۔ رسالہ سراج منیر اور اشعۃ القرآن کی تکمیل میں چند طرح کی مشکلات درپیش تھیں۔ اب بفضلہ تعالیٰ وہ سب طے ہوگئی ہیں اور امید کی جاتی ہے کہ ماہ مبارک رمضان میں یہ کام شروع ہو جاوے۔ صرف ترتیب ظاہری عبارت کی کسی قدر باقی ہے۔ سو یہ کام فقط دس پندرہ روز کا ہے۔ اگر صحت اور فرصت رہی تو یکم رمضان میں یہ کام طبع کا بفضلہ تعالیٰ شروع ہو جائے گا۔ باقی بفضلہ تعالیٰ سب طرح سے خیریت ہے۔ بشیر احمد خیر و عافیت سے ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۶؍ اپریل ۱۸۸۸ء
مکتوب نمبر۴۰
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی حضرت مولوی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بٹالہ میں عنایت نامہ آنمخدوم مجھ کو ملا۔ اللہ جلشانہٗ آپ کو سلامت رکھے اور بخیرو عافیت واپس لاوے۔ آپ کی طرف بہت خیال رہتا ہے۔ میاں محمد عمر کے معاملہ میں بہت تردّد دامنگیر ہے۔ خدا تعالیٰ احسن تدبیر سے اس امر مکروہ کو درمیان سے اُٹھاوے۔ بشیر احمد کی طبیعت اب کسی قدر روبصحت ہے مگر میرا ارادہ یہی ہے کہ اخیر رمضان تک اسی جگہ بٹالہ میں رہوں کہ دوا وغیرہ کے ملنے کی اس جگہ آسانی ہے اور کسی قدر ڈاکٹر کا علاج بھی شروع ہے۔ معلوم نہیں کہ حکیم فضل دین صاحب کب بارادہ لودہانہ تشریف لاویں گے بہرحال اب مناسب ہے کہ بعد رمضان شریف لاویں۔ آپ براہ مہربانی جلد جلد اپنے حالات خیریت آیات سے مطلع فرماتے رہیں یہ عاجز بمقام بٹالہ نبی بخش ذیلدار کے مکان پر اُترا ہوا ہے۔ والسلام
خاکسار
غلام احمد از بٹالہ
۲۸؍ مئی ۱۸۸۸ء
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
مکتوب نمبر۴۱
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرم اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اگرچہ آنمکرم کی طبیعت میں عجزونیاز اور انکسار کامل طور پر ہے اور یہی ضروری شرط عبودیت کی ہے لیکن بحکم آیۃ کریمہ واسابنعمت ربک فحدث نعماء الٰہی کا اظہار بھی از بس ضروری ہے۔ اللہ جلشانہٗ نے آپ کو علم دین بخشا ہے۔ عقل سلیم عطا کی ہے۔ انشراح صدر جو ایک خاص نعمت ہے عطا فرمایا ہے۔ اپنی طرف توجہ دی ہے۔ یہ تمام نعمتیں شکر کے لائق ہیں۔ عنایت نامہ پہنچا معلوم نہیں کب تک آپ جموں میں تشریف لانے والے ہیں اللہ جلشانہٗ آپ کو بخیرو عافیت اپنے سایہ رحمت میں رکھے اور سفر اور حضر میں اس کا فضل اور احسان آپ کے شامل حال رہے۔ اس جگہ سب طرح سے خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۲؍ جون ۱۸۸۸ء




مکتوب نمبر۴۲
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی مولوی حکیم نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الحمدللّٰہ والمنۃ کہ کل کے خط سے بخیر و عافیت آپ کے واپس تشریف آوری کی خوشخبری معلوم ہوئی۔ بشیر احمد عرصہ تین ماہ تک برابر بیمار رہا۔ تین چار دفعہ ایسی نازک حالت تک پہنچ گیا جس سے معلوم ہوتا تھا کہ شاید دو چار دم باقی ہیں۔ مگر عجیب قدرت قادر ہے کہ ان سخت خطرناک حالتوں تک پہنچا کر پھر ان سے رہائی بخشتا رہا ہے۔ اب بھی کسی قدر علالت باقی ہے۔ مگر بفضلہ تعالیٰ آثار خطرناک نہیں ہیں۔ بے شک ایسے اوقات بڑے ابتلا کے وقت ہوتے ہیں اور ایسے وقتوں کی دعا بھی عجیب قسم کی دعاہوتی ہے۔ سوالحمدللّٰہ المنۃ کہ آپ ایسے وقتوں میں یاد آ جاتے ہیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
از قادیان ۲؍ جولائی ۱۸۸۸ء




مکتوب نمبر۴۳
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم حضرت مولوی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ایک خط روانہ خدمت کر چکا ہوں اب باعث تکلیف دہی یہ ہے کہ بشیر احمد میرا لڑکا جس کی عمر قریب برس کے ہو چلی ہے۔ نہایت ہی لاغر اندام ہو رہا ہے۔ پہلے سخت تپ محرقہ کی قسم چڑھا تھا۔ اس سے خدا تعالیٰ نے شفا بخشی پھر بعد کسی قدر خفت تپ کے یہ حالت ہوگئی کہ لڑکا اس قدر لاغر ہو گیا ہے کہ استخوان ہی استخوان رہ گیا ہے۔ سقوط قوت اس قدر ہے کہ ہاتھ پیر بیکار کی طرح معلوم ہوتے ہیں یا تو وہ جسیم اور قوی ہیکل معلوم ہوتا تھا اور یا اب ایک تنکے کی طرح ہے۔ پیاس بشدت ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بقیہ حرارت کا اندر موجود ہے۔ آپ براہِ مہربانی غور کر کے کوئی ایسی تجویر لکھ بھیجیں جس سے اگر خدا چاہے بدن میں قوت ہو اور بدن تازہ ہو۔ اس قدر لاغری اور سقوط قوت ہو گیا ہے کہ وجود میں کچھ باقی نہیں رہا۔ آواز بھی نہایت ضعیف ہو گئی ہے۔ یہ بھی واضح کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ دانت بھی اس کے نکل رہے ہیں۔ چار دانت نکل چکے تھے کہ یہ بیماری شیر کی طرح حملہ آور ہوئی۔ اب بباعث غائت درجہ ضعف قوت اور لاغری اور خشکی بدن کے دانت نکلنے موقوف ہوگئے ہیں اور یہ حالت ہے جو میں نے بیان کی ہے۔ براہِ مہربانی بہت جلد جواب سے مسرور فرماویں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
از قادیان ۱۲؍ جولائی ۱۸۸۸ء

مکتوب نمبر۴۴
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ اب بفضلہ تعالیٰ بشیر احمد بکلی تندرست ہے۔ میں نے صرف اس حالت میں تشریف آوری کیلئے تکلیف دینا چاہا تھا کہ جب وہ سخت بیمار تھا لیکن اب خدا تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے کامل تندرستی بخش دی ہے سو اب کچھ تردّد نہ کریں۔ انشاء اللہ القدیر کسی اور وقت ملاقات ہو جائے گی اور حکیم فضل دین صاحب کو تاکیداً تحریر فرما دیں کہ اب وہ بلاتوقف لودہانہ جانے کے لئے تشریف لے آویں کہ اب زیادہ تاخیر کرنا اچھا نہیں۔ فضل احمد نے جو آنمخدوم کو اپنے رشتہ داروں کو پہنچانے کے لئے روپیہ دیا تھا اب اس جگہ اس کے رشتہ داروں کی ایسی حالت ہے کہ ناگفتہ بہ۔ ان لوگوں کا مفصل حال انشاء اللہ کسی اور موقعہ پر گزارش خدمت کروں گا۔ وہ نہ صرف مجھ سے ہی عداوت رکھتے ہیں بلکہ علانیہ اللہ اور رسول سے برگشتہ ہیں۔ اس لئے روپیہ پہنچانے کے لئے آپ کا یا میرا واسطہ بننا ہرگز مناسب نہیں۔ بلکہ کسی وقت فضل احمد ملے تو اس کا روپیہ اس کے حوالے کریں کہ وہ اپنے طور پر جس طرح چاہے پہنچاوے۔ غرض آپ اس روپیہ کو اپنی معرفت ہرگز نہ پہنچاویں۔ کسی وقت جب ملے تو وہ روپیہ اس کے حوالہ کر دیں اور عذر ظاہر کر دیں۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
ازقادیان ضلع گورداسپور
۱۸؍ اگست ۱۸۸۸ء

مکتوب نمبر۴۵
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرم اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آنمکرم کا ایک خط جو بابو محمد بخش صاحب کے نام آپ نے بھیجا تھا انہوں نے بجنسہٖ وہ خط میرے پاس بھیج دیا ہے۔ اس لئے آپ کی خدمت میں ظاہر کرتا ہوں کہ جو کچھ خدا تعالیٰ نے اس عاجز کی نصرت کے لئے محبت اور ہمدردی کا آپ کو جوش بخشا ہے وہ تو ایک ایسا امر ہے جس کا شکر ادا نہیں ہو سکتا۔ الحمدللّٰہ الذی اعطانی مخلصا کمثلکم صحبا کمثلکم ناصرا فی سبیل اللّٰہ کمثلکم وھدہٖ کلہ فضل اللّٰہ
لیکن بابو محمد بخش کی نسبت جو کچھ آپ نے سنا ہے یہ خبر کسی نے غلط دی ہے۔ بابو محمد بخش بھی مخلص آدمی ہے اور اس عاجز سے ارادت اور محبت رکھتا ہے اور وہ بہت عمدہ آدمی ہے۔ اس کے مال سے ہمیشہ آج تک مجھ کو مدد پہنچتی رہی ہے۔ مجھ کو آپ یہ بھی لکھیں کہ لودہیانہ کے معاملہ میں کس مصلحت سے توقف کی گئی ہے۔ میرے نزدیک بہتر تھاکہ یہ معاملہ جلد پختہ کیا جاتا۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسارغلام احمد
ازقادیان
۱۲؍ ستمبر ۱۸۸۸ء



مکتوب نمبر۴۶
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی مولوی حکیم نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میرا لڑکا بشیر احمد تئیس روز بیمار رہ کر آج بقضائے ربّ عزو جل انتقال کر گیا۔ انا للّٰہ واناالیہ راجعون۔ اس واقعہ سے جس قدر مخالفین کی زبانیں دراز ہونگی اور موافقین کے دلوں میں شبہات پیدا ہوںگے۔ اس کا اندازہ نہیں ہو سکتا۔ وانا رضوان برضائہ وصابرون علی بلائہٖ یرضی عنا ھو مولیدین فی الدنیا والاخرۃ وھم ارحم الراحمین
والسلام
خاکسار
۴ ؍نومبر ۱۸۸۸ء
نوٹ: یہ مکتوب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رضا بالقضاء کا کامل اظہار ہے۔ آپ کو اس ابتلاء شدید میں اگر غم ہے تو صرف یہ کہ مخالفین اپنی مخالفت میں خدا سے دور جا پڑیں گے اور بعض موافقین کو شبہات پیدا ہونگے مگر آپ ہرحال میں خدا کی رضا کے طالب ہیں اور خدا تعالیٰ کے اس فعل کو بھی کمال رحم کا نتیجہ سمجھتے ہیں اور اس کی رضا کے حاصل کرنے کے لئے ہر بلاء پر صبر کرنے کے لئے بانشراح صدر تیار ہیں۔ اس کے بعد حضرت نے ایک مبسوط خط مولوی صاحب کو وفات بشیر پر لکھا تھا جس کا وہی مضمون تھا جو حقانی تقریر میں شائع ہوا اس لئے اس خط کو چھوڑ دیا ہے۔ (عرفانی)



مکتوب نمبر۴۷
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کل کی ڈاک میں عنایت نامہ پہنچا جو کچھ پرچہ تکمیل تبلیغ میں تاریخ لکھی گئی ہے وہ فقط انتظامی امر ہے تا ایسی تقریب میں اگر ممکن ہو تو بعض اخوان مومنین کا بعض سے تعارف ہو جائے۔ کوئی ضروری امر نہیں ہے آپ کے لئے اجازت ہے کہ جب فرصت ہو اور کسی طرح کا ہرج نہ ہو تو اس رسم کے پورے کرنے کیلئے تشریف لے آویں بلکہ تقریب شادی پر جو آپ تشریف لاویں وہ نہایت عمدہ موقع ہے اور شرائط پر پابند ہونا باعتبار استطاعت ہے۔ لایکلف اللّٰہ نفسا الا وسعھا۔ دوسرے خط کے جواب سے جلد مطلع فرماویں تا لدھیانہ میں اطلاع دی جاوے۔ بظاہر معلومہوتا ہے کہ شاید آپ بماہ مارچ کشمیرکی طرف روانہ ہوں۔ پس اگر یہی ضرورت ہو تو بماہ فروری کاروبار شادی بخیرو عافیت انجام پذیر ہونا چاہئے۔ منشی عبدالحق صاحب و بابو الٰہی بخش صاحب لاہور سے تشریف لائے تھے۔ منشی عبدالحق صاحب نے تقریر کی تھی کہ ردّ تکذیب کو عام پسند بنانے کے لئے یہ بات نہایت ضروری ہے کہ دیباچہ کتاب میں کھول کر لکھا جاوے کہ ہمارا ایمان تو خدا تعالیٰ کی قدرتوں پر ایسا قوی اور وسیع ہے کہ جس طرح اہل سنت و الجماعت تسلیم کرتے ہیں۔ مگر بعض نادر طور کے جواب صرف مخالفین کی تنگ دلی اور قلت معرفت کے لحاظ سے ان کے مذاق کے موافق لکھے گئے ہیں تا انہیں معلوم ہو کہ قرآن شریف پر اعتراض کرنے سے کسی معقولی اور منقولی کو مجال نہیں۔ اس عاجز کی دانست میں ایسا لکھنا نہایت ضروری ہے تا کہ عوام الناس اس فتنہ سے بچ جاویں۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار غلام احمد
از قادیان
۲۰؍ فروری ۱۸۸۹ء
مکتوب نمبر۴۸
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچ کر بہت خوشی ہوئی۔ خدا تعالیٰ آپ میں اور آپ کی نئی بیوی میں اتحاد اور محبت زیادہ سے زیادہ کرے اور اولاد صالح بخشے۔ آمین ثم آمین
اگر پرانے گھر والوں نے کچھ نامناسب الفاظ منہ سے نکالے ہیں تو آپ صبر کریں۔ پہلی بیویاں ایسے معاملات میں بباعث ضعف فطرت بدظنی کو انتہا تک پہنچا کر اپنی زندگی اور راحت کا خاتمہ کر لیتی ہیں۔
واحدہ لاشریک ہونا خدا کی تعریف ہے۔ مگر عورتیں بھی شریک ہرگز پسند نہیں کرتی ہیں۔ ایک بزرگ کہتے ہیں کہ میرے ہمسایہ میں ایک شخص اپنی بیوی سے بہت کچھ سختی کیا کرتا تھا اور ایک مرتبہ اس نے دوسری بیوی کرنے کا ارادہ کیا تب اس بیوی کو نہایت رنج پہنچا اور اس نے اپنے شوہر سے کہا کہ میں نے تیرے سارے دکھ سہے مگر یہ دکھ نہیں دیکھتا جاتا کہ تو میرا خاوند ہو کر اب دوسری کو میرے ساتھ شریک کرے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ان کے اس کلمہ نے میرے دل پر نہایت دردناک اثر پہنچایا میں نے چاہا کہ اس کلمہ کے مشابہ قرآن شریف میں پاؤں سو یہ آیت مجھے ملی۔ ویغفر مادون ذالک الایۃ
یہ مسئلہ بظاہر بڑانازک ہے دیکھا جاتا ہے کہ جس طرح مرد کی غیرت نہیں چاہتی کہ اس کی عورت اس میں اور اس کے غیر میں شریک ہو اسی طرح عورت کی غیرت بھی نہیں چاہتی کہ اس کا مرد اس میں اور اس کے غیر میں بٹ جاوے۔ مگر میں خوب جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی تعلیم میں نقص نہیں ہے اور نہ وہ خواص فطرت کے برخلاف ہے۔ اس میںپوری تحقیق یہی ہے کہ مرد کی غیرت ایک حقیقی و کامل غیرت ہے۔ جس کا انعکاک واقعی لاعلاج ہے۔ مگر عورت کی غیرت کامل نہیں بالکل مشتبہ اور زوال پذیر ہے۔ اس میں وہ نکتہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمّ سلمہ رضی اللہ کو فرمایا تھا نہایت معرفت بخش نکتہ ہے کیونکہ جب حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی درخواست پر نکاح پر عذر کیا کہ آپ کی بہت بیویاں ہیں اور آئندہ بھی خیال ہے اور میں ایک عورت غیرت مند ہوں جو دوسری بیوی کو دیکھ نہیں سکتی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تیرے لئے دعا کروں گا کہ تا خدا تعالیٰ تیری یہ غیرت دور کر دے اور صبر بخشے۔ سو آپ بھی دعا میں مشغول رہیں۔ نئی بیوی کی دلجوئی نہایت ضروری ہے کہ وہ مہمان کی طرح ہے۔ مناسب ہے کہ آپ کے اخلاق اس سے اوّل درجہ کے ہوں اور ان سے بے تکلف مخالطت اور محبت کریں اور اللہ جلشانہٗ سے چاہیں کہ اپنے فضل و کرم سے ان سے آپ کی صافی محبت و تعش پیدا کر دے کہ یہ سب امور اللہ جلشانہٗ کے اختیار میں ہیں۔ اب اس کے نکاح سے گویا آپ کی نئی زندگی شروع ہوئی ہے اور چونکہ انسان ہمیشہ کے لئے دنیا میں نہیں آیا۔ اس لئے نسلی برکتوں کے ظہور کے لئے اب اسی پیوند پر امیدیں ہیں۔ خدا تعالیٰ آپ کے لئے یہ بہت مبارک کرے۔ میں نے اس محلہ میں خاص صاحب اسرار و واقف لوگوں سے اس لڑکی کی بہت تعریف سنی ہے کہ بالطبع صالحہ، عفیفہ و جامع فضائل محمودہ ہے۔ اس کی تربیت تعلیم کے لئے بھی توجہ رکھیں اور آپ پڑھایا کریں کہ اس کی استعدادیں نہایت عمدہ معلوم ہوتی ہیں اور اللہ جلشانہٗ کا نہایت فضل اور احسان ہے کہ یہ جوڑ بہم پہنچایا۔ ورنہ اس قحط الرجال میں ایسا اتفاق محالات کی طرح ہے۔ خط سے کچھ معلوم نہیں ہوا کہ ۲۰؍ مارچ ۱۸۸۹ء تک رخصت ملے گی یا نہیں۔ اگر بجائے بیس کے بائیس کو آپ تشریف لاویں یعنی یوم یکشنبہ میں اس جگہ ٹھہریں تو بابو محمد صاحب بھی آپ سے ملاقات کریں گے۔ یہ عاجز ارادہ رکھتا ہے کہ ۱۵؍ مارچ ۱۸۸۹ء کو دو تین روز کے لئے ہوشیار پور جاوے اور ۱۹؍ مارچ یا ۲۰؍ مارچ کو بہرحال انشاء اللہ واپس آ جاؤں گا۔ والسلام۔ صاحبزادہ افتخار احمد اور ان کے سب متعلقین بخیر و عافیت ہیں۔ کل سات روپیہ اور کچھ پارچہ میرے لئے دیئے تھے جو ان کے اصرار سے لئے گئے۔
خاکسار
غلام احمد
نوٹ: اس خط پر کوئی تاریخ نہیں۔ مگرمضمون خط سے مارچ ۱۸۸۹ء کے پہلے ہفتہ کا معلوم ہوتا ہے۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر۴۹
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
از عاجز عایذ باللہ الصمد غلام احمد۔ بخدمت اخویم مکرم مولوی حکیم نورالدین صاحب۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ عنایت نامہ پہنچا۔ موجب خوشی و خرمی ہوا۔ خدا تعالیٰ آپ کو بہت جلد لاوے اور خیر و عافیت سے پہنچادے۔ آمین ثم آمین۔ اس عاجز کے گھر کے لوگوں کی طرف سے یہ درخواست بصد آرزو ہے کہ جس وقت آپ کے گھر کے لوگ لودہیانہ سے آپ کے ساتھ آویں تو دو تین روز تک اس جگہ قادیان میں ان کے پاس ٹھہر کر جاویں۔ اس عاجز کی دانست میںکچھ مضائقہ نہیں بلکہ انشاء اللہ موجب خیرو بہتری ہے۔ صاحبزادہ افتخار احمد صاحب اور ان کے تمام اعزہ و متعلقین کے دل پر تقلید حنفی کا بڑا رعب طاری ہے اور مدت دراز کی عادت جو طبیعت ثانی کا حکم پیدا کر لیتی ہے اگر خدا تعالیٰ چاہے تو تدریجاً دور ہو سکتی ہے۔ یکدفعہ تبدیلی گویا انقلاب ماہیت میں داخل ہے اس موقعہ میں تمام تر حکمت عملی حلم و رفق و درگذر و زیادت محبت و مودت و غائیانہ دعا میں ہے۔ فقل لہ قولا لینا لعلہ یتذکر اویخشی۔ میرے نزدیک یہ قرین مصلحت معلوم ہوتا ہے کہ اوّل آپ جموں میں پہنچنے کے بعد براہِ راست لدہیانہ میں تشریف لے جائیں۔ پھر اپنے گھر کے لوگوں کو ساتھ لے کر دو تین روز کے لئے قادیان میں ٹھہر جائیں۔ میرے گھر کے لوگوں کے خیالات موحدین کے ہیں۔ اوّل تو خیالات میں خشک موحدین کی طرح حد سے زیادہ غلو تھا مگر اب میں نے کوشش کی ہے کہ اس ناجائز غلو کو کچھ گھٹا دیا جائے۔ چنانچہ میرے خیال میں وہ کسی قدر گھٹ بھی گیا ہے میرے گھر کے لوگوں نے ذکر کیا تھا کہ انہوں نے یعنی آپ کے گھر کے لوگوں نے لودہیانہ میں کسی تقریب سے یہ ذکر کیا تھا کہ اب تک مولوی صاحب کا حنفیوں کا طریق معلوم ہوتا ہے۔ مگر میں ڈرتی ہوں کہ کہیں وباہی نہ ہوں اور اب تک تو میں نے وہابیوں کی بات ان میں کوئی دیکھی نہیں۔ انہوں نے اس کے جواب میں مناسب نہ سمجھا کہ اپنی کچھ رائے ظاہر کریں…………… چونکہ عورتوں کی باتیں عورتوں کے دلوں پر بُرا اثر ڈالتی ہیں اس لئے آپ کے گھر کے لوگوں کی بشیر کی والدہ سے ملاقات منتج حسنات ہوسکتی ہے۔ واللّٰہ اعلم و علمہ احکم
والسلام
خاکسار غلام احمد
از قادیان
۶؍ جون ۱۸۸۹ء
مکتوب نمبر۵۰
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ موجب تسلی ہوا۔ چند روز سے آنمکرم کی بہت انتظار تھی اور تشویش تھی کہ کیا باعث ہوا اب معلوم نہیں کہ آپ کو کب فراغت ہوگی۔ آپ کی ملاقات کو بہت دل چاہتا ہے۔ خداتعالیٰ بخیروعافیت آپ کو جلد ملاوے۔ انجمن حمایت اسلام کی طرف سے تین سوال جو کسی عیسائی نے کئے تھے۔ اس عاجز کے پاس بھی آئے۔ اس غرض سے تا ان کا جواب لکھا جاوے۔ شاید جو آپ کی خدمت میں بھیجے تھے وہی سوال ہیں یا اور ہیں۔ ہر چند مجھے فرصت نہ تھی اور طبیعت بھی اچھی نہ تھی۔ مگر پھر بھی کسی قدر فرصت نکال کر دو سوال کا جواب میں نے لکھ دیا تھا اور زیادہ تر رجوع طبیعت کا اس وجہ سے بھی نہیں ہوتا کہ یہ انجمن اپنی مرضی پر چلتی ہے جو اپنے پسند ہو۔ وہ کام کر لیتے ہیں۔ نہیں تو نہیں۔ پہلے اشتہار بیعت شائع کرنے کی غرض سے بھیجا گیا تھا انہوں نے چھاپا نہیں۔ اب میرا ارادہ نہیں تھا کہ ان سوالات کا جواب لکھ کر انجمن کو بھیجوں۔ یہ نامہ نگاروں کا کام ہے کہ اپنا وقت ضائع کر کے پھر چھپنا نہ چھپنا مضمون کا دوسرے کی مرضی پر چھوڑ دیں۔ جب مضمون ردّی کی طرح پھینکا گیا تو اپنا وقت گو ایک گھنٹہ ہی ہو ضائع ہو گیا۔ لیکن میں نے محض محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جوش سے دوسوالوں کا جواب لکھ دیا۔ تیسرے کے لئے ابھی فرصت نہیں مگر مجھے امید نہیں کہ وہ چھاپیں کیونکہ خود پسندی اس انجمن کی عادت ہے۔ مجھے معلوم نہیں کہ آپ نے انہیں سوالات شک وغیرہ کا جواب لکھا ہے یا وہ اور سوال تھے۔ والسلام ۔خاکسار۔ غلام احمد عفی عنہ
۲۹؍ جون ۱۸۸۹ء
مکتوب نمبر۵۱
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ بلاشبہ کلام الٰہی سے محبت رکھنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلمات طیبات سے عشق پیدا ہونا اور اہل اللہ کے ساتھ حب صافی کا تعلق حاصل ہونا یہ ایک ایسی بزرگ نعمت ہے جو خدا تعالیٰ کے خاص اور مخلص بندوں کو ملتی ہے اور دراصل بڑی بڑی ترقیات کی یہی بنیاد ہے اور یہی ایک تخم ہے۔ جس سے ایک بڑا درخت یقین اور معرفت اور قوت ایمانی کا پیدا ہوتا ہے اور محبت ذاتیہ اللہ جلشانہٗ کا پھل اس کو لگتا ہے۔ فالحمدللّٰہ۔ کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو یہ نعمت جو راس الخیرات ہے عطا فرمائی ہے اور پھر بعد اس کے جو کسل اور قصور بجا آواری اعمال حسنہ میں ہے وہ بھی انشاء اللہ القدیر ان حسنات عظیمہ کے جذبہ سے دور ہر جائے گا۔ ان الحسنات یذہبن السیئات
آپ کی ملاقات کا بہت شوق ہے۔
جیسے آپ کے اخلاص نے بطور خارق عادت اس زمانہ کے ترقی کی ہے۔ ویسا ہی جوش حب للہ کا آپ کے لئے اور آپ کے بڑھتا گیا اور چونکہ خدا تعالیٰ نے چاہا کہ اس درجہ اخلاص میں آپ کے ساتھ کوئی دوسرا بھی شریک نہ ہو۔ اس لئے اکثر لوگوں کے دلوں پر جو دعویٰ تعلق رکھتے ہیں خداتعالیٰ نے فیض وارد کئے اور آپ کے دل کو کھول دیا۔ ھذا فضل اللّٰہ نعمتہ یعطی من یشاء یھدی من یشاء ویضل من یشاء۔ حامد علی سخت بیمار ہوگیا تھا خداتھا خدا تعالیٰ نے اس کو دوبارہ زندگی بخشی ہے۔ جس وقت آپ تشریف لاویں اگر حکیم فضل دین و مولوی عبدالکریم صاحب بھی ساتھ تشریف لے آویں تو بہت خوب ہوگا۔ آنمخدوم اپنی طرف سے ان دونوں صاحبوں کو اطلاع دیں کیونکہ گاہ گاہ ملاقات ہونا ضروری ہے۔ زندگی بے اعتبار ہے۔ زیادہ خیریت ہے۔والسلام
خاکسار غلام احمد عفی عنہ
۹؍ جولائی ۱۸۸۹ء
مکتوب نمبر۵۲
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی احب الاخوان ابی مولوی حکیم نورالدین صاحب کان اللہ معکم۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔آنمکرم کی طرف سے دیر کر کے پرسوں تار پہنچی۔ خط کوئی نہیں پہنچا۔ یہ عاجز ایک روز سخت بیمار ہو گیا۔ مگر اللہ جلشانہٗ کے فضل و رحم سے اب مجھے صحت ہے۔ مجھے اپنی ذاتی ضرورت کیلئے ایک سَو روپیہ کی حاجت ہے۔ اگر حرج نہ ہو اور بآسانی میسر آ سکے تو ارسال فرما دیں۔ مولوی خدا بخش صاحب کے خط آتے ہیں کہ قرضہ کے طور پر ہی کچھ مل جاوے۔ معلوم نہیں آپ کی ملاقات کب تک ہو سکتی ہے ۔ اکثر لوگوں کو پراگندہ اور سرد مہر دیکھتا ہوں۔ ایک آپ ہیں جن کواللہ تعالیٰ نے ذوق محبت بخشا ہے۔ فالحمدللّٰہ علی ذالک
میں نے پہلے آپ سے نو سَو روپیہ لیا تھا۔ اب اس کے ساتھ ایک ہزار روپیہ ہو جائے گا چار سَو روپیہ آپ سے پھر دوسرے وقت میں انشاء اللہ القدیر لوں گا۔ دوستوں اور مخلصوں کو تکلیف دینا میرا کام نہیں۔ بالخصوص آپ جیسے دوست مخلص یک رنگ کو۔ سو جیسا کہ مسنون ہے۔ یہ ہزار روپیہ اور جو باقی لوں بطور قرضہ کے ہے اور یقین رکھتا ہوں کہ بہت آسانی سے ادا ہو جائے گا۔ وماعنداللّٰہ باق کے رو سے آنمکرم کو ثواب حاصل ہوگا۔ دماغ اس عاجز کا بباعث سخت بیماری بہت کمزور ہو گیا ہے۔ شاید بیس روز تک قوت ہو۔ اس لئے ابھی کسی محنت کے لائق نہیں۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار غلام احمد عفی عنہ
۲۰؍ نومبر ۱۸۸۹ء


مکتوب نمبر۵۳
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ کل عنایت نامہ پہنچا۔ مبلغ سَو روپیہ پہلے اس سے پہنچ گیا تھا۔ جزاکم اللہ خیرا۔ اس عاجز کا دماغ بہت ضعیف ہو گیا ہے۔ کوئی محنت کا کام نہیں ہو سکتا۔ ایک خط کا لکھنا مشکل ہے۔ اللہ جلشانہٗ غیب سے قوت عطا فرماوے۔ مولوی محمد حسین بہت دور جا پڑے ہیں۔ جو شخص اس دنیا سے دل نہ لگاوے اور اپنی حالت پر نظر کرے اور اپنے قصوروں کا تدارک چاہے خداتعالیٰ اس کو بصیرت بخش دیتا ہے۔ ورنہ بل ران علی قلوبھم ماکانوا یکسبون کا مصداق ہو جاتا ہے۔ مولوی محمد حسین ایک مقام اور ایک رائے پر ٹھہر گئے ہیں اور وہ مقام اور رائے انہیں پسند آ گیا ہے۔ لیکن میں سچ کہتا ہوں اگر اس پر ان کی موت ہو تو انہیں اس طبقہ میں جاناپڑے گا جس میں محجوبین جایا کرتے ہیں۔ خدا تعالیٰ صدق اور صادقین کی طلب ان میں پیدا کرے اور زنگ موجودہ سے انہیں نجات دے۔ ورنہ ان کی حالت خطرناک ہے۔ منقولی طور پر معلومات کی وسعت یا معقولی طور پر کچھ قیل و قال کا مادہ ایک ملحد میں بھی پیدا ہو سکتا ہے جائے فخر نہیں۔ اور نہ اس سے وہ قدوس خوش ہو سکتا ہے جس کی دلوں پر نظر ہے۔ سچائی اور راستبازی اور انقطاع الی اللہ میں انسان کی نجات ہے۔ ورنہ علم بھی ہو تو کیا فائدہ؟ چارپائے برد کتابے چند۔ محمد حسین کی حالت نہایت نازک ہے اور انہیں اس کی خبر نہیں۔ والسلام علی من اتبع الہدی
خاکسار غلام احمد
۷؍ دسمبر ۱۸۸۹ء


مکتوب نمبر۵۴
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اگر اخویم مکرم عبدالواحد صاحب معہ سب عزیزوں کے تشریف لاویں اگر دو تین روز پہلے اطلاع دی جاوے تو کوئی آدمی واقف بٹالہ کے سٹیشن پر بھیج دیا جائے۔ میرے گھر کے لوگ تاکید سے آپ کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ آپ ضرور صغریٰ کو ساتھ بھیج دیں۔ اس صورت میں ان کے لئے تبدیلی آب و ہوا بھی ہو جائے گی۔ انہوں نے بہت مرتبہ کہا ہے اور تاکید سے کہا ہے۔ اس لئے تکلیف دیتا ہوں۔ اگر مناسب سمجھیں تو منظور محمد کو ساتھ بھیج دیں۔ اس تقریب سے وہ بھی ساتھ آ جائے گی اور جو دوا آپ نے ان کے لئے ارسال فرمائی ہے اس کے کھانے کی ترکیب کوئی نہیں لکھی۔ مفصل اطلاع بخشیں۔ اور یہ دوا کشتہ کی قسم ہے یا کوئی اور دوا ہے۔ اور ان ایام میں اس کو کھا سکتے ہیں یا نہیں۔ قبض از حد ہے کوئی قابض یا مار دوا موافق نہیں ہوتی۔ نرم اور معقول وجہ کی دوا جو قابض نہ ہو موافق آتی ہے۔ اخویم مولوی غلام علی صاحب کی طبیعت کا بہت خیال ہے اب کی دفعہ آپ نے ان کی نسبت کچھ نہیں لکھا۔ خدا تعالیٰ ان کو شفا بخشے۔ اگر جموں میں ہوں تو میری طرف سے السلام علیکم دعا کی جاتی ہے۔ خدا تعالیٰ قبول فرماوے۔
خاکسار
غلام احمد
نوٹ: اس خط پر تاریخ موجود نہیں۔ مگر مولوی غلام علی صاحب کی علالت کے ذکر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خط ۱۸۸۹ء کا ہے۔ (عرفانی)


مکتوب نمبر۵۵
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومیمکرمی۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میر عباس علی نہایت اخلاص مند آدمی ہیں۔ آپ براہِ مہربانی توجہ کر کے کشتہ مرجان، موتی یا جو کچھ مناسب ہو ان کی مرض نفث الدم کے لئے ضرور ارسال فرما دیں اور میں آج لکھتا ہوں کہ تا وہ تبدیل ہوا کی غرض سے ہفتہ عشرہ تک میرے پاس آ جائیں۔ میری طبیعت آپ کے بعد پھر بیمار ہوگئی۔ ابھی ریزش کا نہایت زور ہے۔ دماغ بہت ضعیف ہو گیا ہے۔ آپ کے دوست ٹھاکر رام کے لئے ایک دن بھی توجہ کرنے کیلئے مجھے نہیںملا۔ صحت کا منتظر ہوں۔ اگر وہ اخلاص مند ہے تو اس کے اخلاص کی برکت سے وقت صفا مل جائے گا اور صحت بھی۔ میرے دماغ کے لئے اگر کچھ آپ کے خیال میں احسن تدبیر آوے تو ارقام فرماویں۔ سب کام پڑے ہوئے ہیں۔ واللّٰہ خیر حافظ اوھو ارحم الراحمین۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
یکم جنوری ۱۸۹۰ء
مکتوب نمبر۵۶
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
از عاجز عایذ باللہ الصمد غلام احمد۔ بخدمت مولوی نورالدین صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ طبیعت اس عاجز کی بفضلہ تعالیٰ اب کسی قدر صحت پر ہے۔ گھر میں بھی طبیعت اصلاح پر آ گئی ہے۔ محمود کو بخار آتا ہے میرا ارادہ تھا کہ اسی حالت میں آپ کے دوست کے لئے چند روزبجدوجہد جیسا کہ شلط ہے توجہ کروں مگر افسوس کہ بباعث آمد قاضی غلام مرتضی کے میں مجبور ہو گیا۔ وہ برابر دس روز تک اس جگہ رہیں گے چونکہ بہت حرج اُٹھا کر آئے ہیں اور دور سے خرچ کثیر کر کے آئے ہیں اس لئے بالکل نامناسب ہے کہ ان کی طرف توجہ نہ ہو۔ پھر ان کے ساتھ ہی سیّد امیر علی شاہ صاحب لاہور سے آنے والے ہیں وہ برابر پندرہ روز تک رہیں گے ان کے جانے کے بعد انشاء اللہ القدیر توجہ کامل کروں گا۔ صرف ایک اندیشہ ہے کہ لدہیانہ میں ایک شخص نے محض نادانی سے ایک خون کے مقدمہ میں میری شہادت لکھا دی ہے کہ جو کمیشن کے سامنے ادا کی جائے گی۔ شاید دو چار روز اس جگہ بھی لگ جاویں۔ آپ کے دوست نے اگر بے صبری نہ کی جیسی کہ آج کل لوگوں کی عادت ہے تو محض للہ ان کے لئے توجہ کروں گا۔ مشکل یہ ہے کہ انسان دنیا میں منعم ہو کر بہت نازک مزاج ہو جاتا ہے۔ پھر ادنیٰ ادنیٰ انتظار میں نازک مزاجی دکھاتا ہے اور خدا تعالیٰ پر احسان رکھنے لگتا ہے اور حسن ظن سے انتظار کرنے والے نیک حالت میں ہیں۔ وقلیل منھم
اس خط سے میری اصل غرض یہ ہے کہ میر عباس علی صاحب بیس دن سے آنمکرم کی دوا کی انتظار کر رہے ہیں۔ کل سے بخار آتا ہے۔ نہایت شکستہ خاطر ہیں۔ کل رقعہ لکھ کر مجھے دیا تھا کہ دوا تو آتی نہیں مجھے اجازت دیجئے تا میں لودہانہ چلا جاؤں۔ مگر میں نے دو چار دن کیلئے ٹھہرا لیا ہے۔ آپ براہِ مہربانی ضرور بمجرد پہنچنے اس خط کے کوئی عمدہ دوا نفث الدم کی ارسال فرماویں اور اس شخص پر میرے عذارات معقولی طور پر منکشف کر دیں۔
والسلام
خاکسار غلام احمد
۲۵؍ جنوری ۱۸۹۰ء



مکتوب نمبر۵۷
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ خدا تعالیٰ آپ کے گھر کے آدمیوںکو شفاء کلی عنایت فرمادے۔ بہت تردّد و تفکر پیدا ہوا۔ واللّٰہ علی کل شی قدیر۔ مولوی غلام علی صاحب کی نسبت بھی دل غم اور تردّد سے بھرا ہوا ہے۔ سب کے لئے دعا کرتا ہوں میں نے سنا ہے کہ انگلستان میں ایک انگریز ڈاکٹر نے سلولوں کے لئے اشتہار دیا ہے اور کوئی نسخہ جو اس مرض کیلئے مفید ہو تجربہ میں آ گیا ہے۔ معلوم نہیں کہ یہ خبر کہاں تک صحیح ہے۔ مولوی محمد حسین صاحب نے پختہ ارادہ مخالفانہ تحریر کا کر لیا ہے اور اس عاجز کے ضال ہونے کی نسبت زبانی طور پر اشاعت کر رہے ہیں۔ مرزا خدا بخش صاحب جو محمد علی خان صاحب کے ساتھ آئے ہیں ذکر کرتے ہیں کہ میں نے بھی ان کی زبانی ضال کا لفظ سنا ہے۔ کل بمشورہ مرزا خدا بخش و محمد علی خان صاحب ان کی طرف خط لکھا گیا ہے کہ پہلے ملاقات کر کے اپنے شکوک پیش کرو۔ معلوم نہیں کیا جواب لکھیں۔ میں نے یہ بھی لکھ دیا ہے کہ اگر آپ نہ آ سکیں تو میں خود آ سکتا ہوں۔ مگر ان کے اس فقرہ سے سب کو تعجب ہے کہ میں عقلی طور پر مسیح کا آسمان سے اُترنا ثابت کر دوں۔ غرض ان کی طبیعت عجیب جوش میں ہے اور ایک قسم کا ابتلاء ہے جو انہیں پیش آ گیا ہے۔
غزنوی صاحبوں کا جوش اس قدر ہے کہ ناگفتہ بہ ایک صاحب محی الدین نام لکہوکے میں ہیں۔ انہوں نے اس بارے میں اپنے الہامات لکھے ہیں اور اذاتمنی نفی الشیطان فی امیتہٖ کا نمونہ دکھایا ہے۔ درحقیقت ان الہامیوں نے اپنی پردہ دری کی ہے اور ان کی یعنی محی الدین اور عبدالحق کے الہامات کا یہی خلاصہ ہے کہ یہ شخص ضال ہے، جہنمی ہے اور میں نے سنا ہے کہ ان لوگوں نے کچھ دبی زبان میں کافر کہنا شروع کر دیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ ایک بڑے امر کو ظاہر کرنا چاہتا ہے۔ ایک شخص محمد علی نام شاید گوجرانوالہ کا رہنے والا ہے۔ مولوی تو نہیں مگر خوش الحان واعظ ہے۔ اس نے سنا ہے کہ بٹالہ میں بڑی بدزبانی شروع کی ہے۔ مولوی محمد حسین بدزبانی نہیں کرتے مگر ضال کہے جاتے ہیں اور تعجب یہ کہ بعض لوگ کافر کہتے ہیں۔ وہ اپنے خط میں السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہٗ بھی لکھ دیتے ہیں حالانکہ کفار کو ایسے لفظ لکھنے نہیں چاہئے۔ سنا گیا ہے کہ مولوی محمود علی شاہ صاحب جو محمد علی کی طرح واعظ ہیں۔ لودہانہ میں پانچ سال کی قید ہوگئے ہیں۔ یہ عاجز ہفتہ عشرہ تک لودہانہ میں جانے والا ہے۔
والسلام
خاکسار غلام احمد
۱۵؍ جولائی ۱۸۹۰ء
نوٹ: اس خط سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے دعویٰ کے ابتدا میں مخالفت کی آگ کس طرح پھیلنی شروع ہوئی ہے اور حضرت کو اتمام حجت کا کس قدر جوش اور خیال تھا کہ خود مولوی محمد حسین صاحب کے گھر جانے کو تیار تھے اور اس کے شکوک اور اعتراضات کے رفع کرنے کیلئے آمادہ۔ غزنویوں لکہوکے والوں کی مخالفت نے آپ کو کسی تعجب میں نہیں ڈالا بلکہ آپ نے اس کو خدا تعالیٰ کی طرف سے کسی امر عظیم کا پیش خیمہ سمجھا ہے اور یہی یقین آپ کو تھا۔ چنانچہ اس کے بعد تائیدات سماوی اور بانی نصرت کے جو نظارے نظر آتے ہیں وہ ایک مومن کے ایمان کو بڑھانے والے ہیں اور حضرت حجۃ اللہ کی صداقت پر آسمانی اور ربانی شہادت ہیں۔ ان الہامیوں کی ناکامی اور ان کے شیطانی وساوس کو خدا تعالیٰ نے پاش پاش کر دیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک ایسی جماعت عطا فرمائی جواشاعت اسلام اور عزت حضرت خیرالانام کے لئے اپنے دل میں جانثاری کا جوش رکھتی ہے۔ وذالک فضل اللّٰہ یؤتیہ من یشا واللّٰہ ذوالفضل العظیم۔ (عرفانی)
٭٭٭
مکتوب نمبر۵۸
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی۔ اخویم مولوی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جس بیمار کے آئے آنمکرم کو تکلیف دینی چاہی تھی وہ بقضائے الٰہی کل ۱۲؍ ربیع الاوّل روز دوشنبہ کو گزر گئیں۔ انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔ میری عباس علی صاحب جو ایک پُرانے مخلص ہیں۔ نہایت التجا اور تاکید سے لکھتے ہیں کہ میرا لڑکا مڈل تک پڑھا ہوا ہے۔ انگریزی میں گزارہ کے موافق تحریر کر سکتا ہے۔ حساب وغیرہ جانتا ہے۔ منشی محمد سراج الدین صاحب جو افسر ڈاکخانہ جات ریاست جموں ہیں آپ کی سفارش سے توجہ فرما کر اس کو اپنے سلسلہ میں کہیں نوکر رکھ لیں۔ اس لئے آپ کی خدمت میں سفارش کرتا ہوں کہ آپ خاص اپنی طرف سے اور نیز اس عاجز کی طرف سے سفارش تحریر فرما دیں۔ اور جس وقت وہ بلاویں اس لڑکے کو روانہ کر دیا جائے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۸؍ اکتوبر ۱۸۹۰ء
مکتوب نمبر۵۹
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی۔ اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مولوی خدا بخش حامل ہذا جو مجھ سے تعلق بیعت رکھتے ہیں۔ بہت نیک سرشت اور صاف باطن اور محب صادق ہیں۔ مجھے ان کی تکالیف معلوم ہوگئی ہیں وہ شاید تیس آدمیوں سے زیادہ کے قرضدار ہیں اور نہایت تلخی میں ان کا زمانہ گزرتا ہے۔ وطن میں جانا ان کا ترک ہو گیا ہے اور میں نے دریافت کیا ہے کہ یہ سب تکالیف محض دینی ہمدردی کی وجہ سے جس میں آج تک وہ مشغول ہیں ان کو پہنچ رہی ہیں اور کوئی ان کے حال کا پرساں نہیں۔ لہٰذا آنمخدوم کو محض اس وجہ سے کہ آپ ہمدرد خلائق ہیں اور للہی امور میں پورا جوش رکھتے ہیں تکلیف دیتا ہوں کہ اس بے چارہ بے سروسامان کے لئے کچھ بندوست فرمائیے۔ اگر چندہ ہو تو میں بھی اس میں شامل ہونے کو تیار ہوں بلکہ میرے نزدیک بہتر ہے کہ آپ کی تحریک اور انتظام سے اور آپ کی پوری اور کامل توجہ سے چندہ کے لئے احسن تدبیر کی جاوے اور میں اسی خط میں اپنے تمام مخلصوں کی خدمت میں محض للہ اس بات کا اظہار کرتا ہوں کہ ہر ایک صاحب حتی الوسع اپنے اس چندہ میں شریک ہو۔ سب کے لئے ایک ایک لقمہ دینے سے ایک کی غذا نکل آئے گی اور کسی کو تکلیف نہ ہوگی۔ میں نے سنا ہے کہ فری میسن کا گروہ اپنے ہم تعلقوں کے ساتھ قرضہ وغیرہ کے امور میں بہت ہمدردی کرتا ہے۔پس کیا مسلمانوں کا یہ پاک گروہ فری میسن کے پر بدعت اور ملحد گروہ سے ہمدردی میں کم ہونا چاہئے؟
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۴؍ دسمبر ۱۸۹۰ء
نوٹ: مولوی خدا بخش صاحب جالندھری نہایت مخلص آدمی تھے۔ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شہادت ہے۔ انہوں نے ۱۸۸۹ء میں ہی بیعت کی تھی اور کبھی کوئی ابتلا ان پر نہیں آیا۔ وہ اشاعت اسلام کے لئے بڑا جوش رکھتے تھے۔ ہمارے مکرم اور مخلص بھائی سردار مہر سنگھ حال ماسٹر عبدالرحمن صاحب بی اے ان کی ابتدائی تربیت سے اسلام مولوی صاحب ہی کے ہاتھوں ہوئی ہے۔ وہ اس تلاش میں رہتے تھے کہ کسی غیر مسلم کو داخل اسلام کریں اور اس کے لئے وہ کسی قسم کی محنت تکلیف اور خرچ سے کبھی مضائقہ نہ فرماتے تھے۔ اسی قسم کی دینی خدمات کی وجہ سے وہ زیر بار ہوئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس ہمدردی کا اظہار اور عملی اعانت کا ثبوت اس خط میں دیا ہے وہ ظاہر ہے۔ مولوی صاحب کا قد میانہ تھا اور رنگ سیاہ تھا۔ بہت سادہ زندگی تھی۔ عمر ۶۰ سال کے قریب تھی۔ (عرفانی)



مکتوب نمبر۶۰
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
دس روپے پہنچ گئے ہیں چونکہ کتاب فتح اسلام کی قدر بڑھائی ہے اور مبطع امرتسر میں چھپ رہی ہے اس لئے جب تک کل چھپ نہ جائے روانہ نہیں ہو سکتی امید ہے کہ بیس روز تک چھپ کر آ جائے گی۔
دوسری ضروری طور پر یہ تکلیف دیتا ہوں کہ مرزا احمد بیگ کا لڑکا جو میرے عزیزوں میں سے ہے۔ جن کی نسبت وہ الہامی پیشگوئی کا قصہ آپ کو معلوم ہے۔ کچھ عرصہ سے بمرض بحت الصوت مریض ہے۔ حنجرہ پر کچھ ایسا مادہ پڑا ہے کہ آواز پورے طور پر نہیں نکلتی یعنی آوازبیٹھ گئی ہے میں نے موافق قاعدہ علاج کیا تھا اب تک کچھ فائدہ نہیں ہوا۔اس کی والدہ کو آپ پر بہت اعتماد ہے اور آپ کے دست شفا پر اسے یقین ہے۔ اس نے بصد منت و الحاح کہلا بھیجا تھا کہ مولوی صاحب کی طرف لکھو کہ وہ کوئی عمدہ دوائی تیار کر کے بھیج دیں بلکہ یہ چاہا تھا کہ اس لڑکے کو جس کا نام محمد بیگ ہے آپ کی خدمت میں بھیج دیں۔ مگر میں نے مناسب سمجھا کہ بالفعل بذریعہ خط آپ کو تکلیف دی جائے۔ حلق میں سے پانی بہت آتا ہے۔ صبح کے وقت ریزش پختہ نکلتی ہے۔ کھانسی بھی ہے معلوم ہوتا ہے دماغ سے نوازل گرتے ہیں۔ آپ ضرور کوئی عمدہ نسخہ ارسال فرماویں۔ اس بیچارے کے اچھے ہو جانے سے ان کو آپ کا بہت احسان مند ہونا پڑے گا اور پہلے بھی آپ کے بہت معتقد ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ آپ کے علاج سے لڑکا اچھا ہو جائے گا۔ آپ خاص طور پر مہربانی فرماویں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۰؍ دسمبر ۱۸۹۰ء
مکتوب نمبر۶۱
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچ کر بباعث شدت علالت طبع اخویم مولوی غلام علی صاحب بہت تردّد ہوا اور خط کے پڑھنے کے بعد جناب الٰہی میں بہت دعاکی گئی اور پھر رات کو بھی دعا کی گئی اور اسی طرح میں انشاء اللہ القدیر بہت جدوجہد سے دعا کروں گا۔ آپ بھی ان کے حق میں دعا کریں اور ان کو مطمئن کریں کہ گو کیسے عوارض شدیدہ ہوں۔ خدا تعالیٰ کے فضل کی راہیں ہمیشہ کھلی ہیں اس کی رحمت کا امیدوار رہنا چاہئے ہاں اس وقت اضطراب میں توبہ و استغفار کی بہت ضرورت ہے۔
یہ ایک نکتہ یاد رکھنے کے لائق ہے کہ جو شخص کسی بلا کے نزول کے وقت میں کسی ایسے عیب اور گناہ کو توبہ نصوح کے طور پر ترک کر دیتا ہے جس کا ایسی جلدی سے ترک کرنا ہرگز اس کے ارادہ میں نہ تھا تو یہ عمل اس کے لئے ایک کفّارہ عظم ہو جاتا ہے اور اس کے سینہ کے کھلنے کے ساتھ ہی اس بلا کی تاریکی کھل جاتی ہے اور روشنی امید کی پیدا ہو جاتی ہے۔ سو مولوی صاحب کو آپ بخوبی سمجھا دیں کہ دلی استغفار سے خدا تعالیٰ سے زیادہ ربط پیدا کر لیں اور مجھے جس قدر اس کے لئے تردّد اور غم ہے خدا تعالیٰ خوب جانتا ہے اور میں انشاء اللہ بہت دعا کروں گا۔ خدا تعالیٰ ان پر فضل وارد کرے اور جلد تر صحت کامل بخش کر اس خوشخبری کو اس عاجز تک پہنچاوے۔ وھو علی کل شی قدیر
یہ عاجز بباعث دورہ مرض و علالت طبع کل لاہور نہیں جا سکا بالفعل میاں جان محمد کو بھیج دیا ہے کہ سلطان احمد کو اسی جگہ لے آوے۔ اس عاجز کی طبیعت سفر کے لائق نہیں۔ مرض دوران سر اور دل کے ڈوبنے کی یکدفعہ طاری حال ہو جاتی ہے۔ پھر موت نصب العین معلوم ہوتی ہے مگر اس وقت تو وہ ہاتھ پکڑ کر کھینچتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔
جو کچھ آنمخدوم نے تحریر فرمایا ہے کہ اگر دمشقی حدیث کے مصداق کو علیحدہ چھوڑ کر الگ مثیل مسیح کا دعویٰ ظاہر کیا جائے تو اس میں حرج کیا ہے۔ درحقیقت اس عاجز کو مثیل مسیح بننے کی کچھ حاجت نہیں یہ بننا چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے عاجز اور مطیع بندوں میں داخل کر لیوے لیکن ہم ابتلاء سے کسی طرح بھاگ نہیں سکتے۔ خدا تعالیٰ نے ترقیات کا ذریعہ صرف ابتلاء ہی رکھا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے۔ احسب الناس ان یترکوا ان یقولوا امنا وھم لایفتنون
معلوم نہیں کہ آنمکرم نے ابھی تک وہ خطوط جن کا وعدہ آپ نے فرمایا تھا روانہ کئے ہیں یا نہیں۔ رسالہ ازالہ اوہام میں یہ بحث اس قدر مبسوط ہے کہ شاید دوسرے کسی رسالہ میں نہ ہو۔ اگر آپ کی طرف سے کوئی خاص تحریر آپ کی اس وقت پہنچی تو میں مناسب سمجھتا ہوں اس کو رسالہ ازالہ اوہام میں چھاپ دوں۔ مضمون اگر اُردو عبارت میں ہو تو بہتر ہے تا عام لوگ اس کو پڑھ لیں۔ آئندہ جیسا کہ آپ مناسب سمجھیں وہی بہتر ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۴؍ جنوری ۱۸۹۱ء
نوٹ: اس مکتوب میں حضرت مسیح موعود کے دعویٰ کے متعلق جس امر پر روشنی پڑتی ہے وہ عجیب ہے۔ آپ کو حضرت حکیم الامۃ نے دمشقی حدیث الگ رکھ کر مثیل مسیح کے دعویٰ کے متعلق لکھا ہے مگر حضرت نے صاف فرمایا کہ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کا فرمانبردار بندہ بن جاؤں۔ اس حصہ کو پڑھو تو کھل جاتا ہے کہ آپ بالطبع پبلک میں آنے سے کارہ ہیں اور آپ صرف خداتعالیٰ کے عشق و مابت میں سرشار ہیں۔ مگر خدا تعالیٰ آپ کو باہر نکال رہا ہے اور مامور کر کے دعوت پر مجبور کرتا ہے۔ حضرت اس کے لئے تیار کئے جاتے ہیں۔
حضرت مولوی صاحب گویا ابتلا سے ڈرتے ہیں گو صاف الفاظ میں اس کا اظہار نہیں مگر حضرت حجۃ اللہ ذرا بھی پرواہ نہیں کرتے۔ (عرفانی)

مکتوب نمبر۶۲
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ عاجز شاید کل یا پرسوں تک لاہور جائے پھر آپ کی خدمت میں جلد اطلاع دوں گا۔ محمد بیگ کی نسبت آپ کو یاد دلاتا ہوں کہ ایک خاص طور پر مہربانی سے بھری توجہ اس کی نسبت فرماویں تا کہ وہ خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے جلد صحت یاب ہو جائے اور اس کو آپ تسلی دیں کہ پورے طور پر صحت یاب ہونے کے بعد اس کی نوکری کا بھی بندوبست کیا جائے گا۔ غرض اس پر مہربانی کی نظر فرماویں اور ہر طرح سے اس کی نیکی کا خیال رکھیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۲؍ جون ۱۸۹۱ء
مکتوب نمبر۶۳
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ ہمدست مفتی محمد صادق صاحب پہنچا۔ آنمکرم کے للّہی اخلاص کو دیکھ کر دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ مجھ کو بھی ان حسنات کو توفیق بخشے بے شک آپ کی ہمت اور آپ کا عہد ایثار ایک رشک دلانے والی چیز ہے۔ خدا تعالیٰ آپ کو دائمی سرور اور خوشحالی عطا کرے اور بہتوں کو آپ کے نمونہ پر چلاوے۔
مولوی غلام علی صاحب کی طبیعت کا مجھے کچھ حال معلوم نہیں۔ مگر بے اختیار دل ان کی علالت کی وجہ سے غمگین ہو جاتا ہے۔ خدا تعالیٰ ان کی اس سخت بیماری کا خاتمہ رو بصحت کرے۔ وھو علی کل شی قدیر۔ محمدبیگ کی طبیعت شاید ابھی بدستور ہے وہ لکھتا ہے کہ مولوی صاحب تو کسی طور سے مجھ سے فرق نہیں کرتے مگر لنگر خانہ میں بعض وقت بھوک کے وقت مجھ کو روٹی نہیں ملتی شاید کثرت آدمیوں کی وجہ سے دیر سے روٹی ملتی ہے چونکہ وہ لڑکا ہے ایسی عمر میں اکثر لوگوں کو کھانے پینے میں ہی خیال رہتا ہے اس لئے مکلّف ہوں کہ چند روز کے قیام میں خاص طور پر اس کی خبر رکھیں اور اگر اس کا جموں میں ٹھہرنا چنداں ضروری نہ ہو تو پھر تسلی اور مدارات کے ساتھ دوا دے کر اس کو اس طرف رخصت کر دیں اس کی نوکری اس حالت میں ہو سکتی ہے کہ حالت صحت اس کام کے لائق ہو۔ آئندہ آپ جیسا مناسب سمجھیں عمل میں لاویں۔ میں نے سنا ہے کہ میرے رسالہ کے دیکھنے سے مولوی عبدالجبار بہت برافروختہ ہوئے خدا تعالیٰ ان کو حقیقت کی طرف رہبری کرے۔ زیادہ خیریت۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۳۱؍ جنوری ۱۸۹۱ء
٭٭٭
مکتوب نمبر۶۴
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کل عنایت نامہ پہنچ کر موجب خوشی ہوا۔ خدا تعالیٰ آپ کو خوش رکھے اور اپنے دن کے لشکر کا مقدمۃ الجیش بناوے۔ حالت صحت اس عاجز کی بدستور ہے کبھی غلبہ دوران سر اس قد رہو جاتا ہے کہ مرض کی جنبش شدید کا اندیشہ ہوتا ہے اور کبھی یہ دوران کم ہوتا ہے لیکن کوئی وقت دورانِ سر سے خالی نہیں گزرتا۔ مدت ہوئی نماز تکلیف سے بیٹھ کر پڑھی جاتی ہے اور زمین پر قدم اچھی طرح نہیں جمتا۔ قریب چھ سات ماہ یا زیادہ عرصہ گزر گیا ہے کہ نماز کھڑے ہو کر نہیں پڑھی جاتی اور نہ بیٹھ کر اس وضع پر پڑھی جاتے ہے جو مسنون ہے اور قرأت میں شائد قل ہو اللہ بمشکل پڑھ سکوں کیونکہ ساتھ ہی توجہ کرنے سے تحریک بخارات کی ہوتی ہے۔ دوستوں کی غائبانہ دعاء مستجاب ہوا کرتی ہے آنمکرم اس عاجز کے حق میں دعا کریں۔ شیخ شہاب الدین بہت مسکین آدمی ہے۔ اس کی ملازمت کے لئے ضرور فکر فرماویں۔ باپ بڈھا آپ کمزور۔ گھر میں کھانے کے لئے نہیں۔ اگر آپ ایما فرماویں تو میں آپ کی خدمت میں بھیج دوں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۵؍ فروری ۱۸۹۱ء







مکتوب نمبر۶۵
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ عاجز لودہانہ کی طرف جانے کو تیار ہے ہر روز آنمکرم کے مضمون کی انتظار رہتی تھی کل مولوی محمد حسین صاحب کا خط آیا ہے اور آپ کی نسبت لکھا تھا کہ وہ ناراض ہوگئے ہیں یعنی اس عاجز کی وجہ سے۔ آج میں نے انہیں لکھا ہے کہ آپ اوّل ملاقات کریں اور رسالوں کو دیکھیں۔ ہر دو رسالے میں نے اپنی طرف سے ان کے پاس بھیج دیئے ہیں اور شاید وہ ملاقات کریں۔ نواب محمد علی خاں صاحب اب تک قادیان میں ہیں۔ آپ کا بہت ذکر خیر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مجھے مولوی صاحب کی کتاب تصدیق دیکھنے سے بہت فائدہ ہوا اور بعض ایسے عقدہ حل ہوگئے جن کی نسبت ہمیشہ مجھے دغدغہ رہتا تھا۔ وہ از بس آپ کی ملاقات کے مشتاق ہیں۔ میں نے انہیں کہا ہے کہ اب تو وقت تنگ ہے۔ یقین ہے کہ لودہانہ میں یہ صورت نکل آئے گی۔ یہ شخص جوان صالح ہے حالات بہت عمدہ معلوم ہوتے ہیں۔ پابند نماز اور نیک چلن ہے اور نیز معقول پسند۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۴؍ فروری ۱۸۹۱ء



مکتوب نمبر۶۶
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج ایک خط حافظ محمد یوسف صاحب کا پہنچا ارسال خدمت ہے۔ اس عاجز کی رائے میں لاہور کے جلسہ میں جانے میں کچھ حرج نہیں بلکہ اس کے غیر مضر ہونے کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے لیکن یہ عاجز پیر کے دن ۹؍ مارچ ۱۸۹۱ء کو معہ اپنے عیال کے لودہانہ کی طرف جائے گا اور چونکہ سردی اور دوسرے تیسرے روز بارش بھی ہو جاتی ہے اور اس عاجز کی مرض اعصابی ہے۔ سرد ہوا اور بارش سے بہت ضرر پہنچتا ہے اس وجہ سے یہ عاجز کسی صورت سے اس قدر تکلیف اُٹھا نہیں سکتا کہ اس حالت میں لدھیانہ پہنچ کر پھر جلدی لاہور آوے۔ طبیعت بیمار ہے لاچار ہوں۔ اس لئے مناسب ہے کہ اپریل کے مہینہ میں کوئی تاریخ مقرر کی جاوے اور اشتہارات شائع کئے جائیں اور بعض صلحا اور جملہ علماء و فقراء اس میں جمع کئے جاویں۔ یہ عاجز بھی آپ کی رفاقت میں حاضر ہو سکتا ہے۔ امید ہے کہ اپریل کے مہینہ میں موسم اچھا نکل آئے گا۔ سردی سے آرام ہوگا اور اگر خدا تعالیٰ نے چاہا تو بہ نسبت حال کے طبیعت بھی اس عاجز کی اچھی ہوگی۔ آنمکرم کی طرف اگر خط آیا ہو تو یہی جواب لکھ دیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
یہ بھی ارادہ ہے کہ اشتہارات اور خط میں میاں عبدالحق صاحب و مولوی عبدالرحمن صاحب کے ساتھ بھی فیصلہ ہو جاوے اور مباہلہ بھی ہو جاوے تا دوسری مرتبہ نہ آنا پڑے۔

مکتوب نمبر۶۷
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج ایک اشتہار از طرف میاں عبدالحق صاحب غزنوی جو جماعت مولوی عبدالجبار صاحب میں سے ہے پہنچا جس میں وہ اپنے الہام ظاہر کرتے ہیں کہ یہ شخص یعنی یہ عاجز جہنمی ہے۔ سیصلی نارا ذات لھب اور دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔ اس گناہ سے کہ مثیل مسیح ہونے کا کیوں دعویٰ کیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس اشتہار کے بہت سے پرچے انہوں نے امرتسر میں تقسیم کئے ہیں۔ امید کہ کوئی پرچہ آپ کی خدمت میں پہنچا ہوگا۔ درحقیقت یہ اشتہار مولوی عبدالجبار صاحب کی طرف سے معلوم ہوتے ہیں جو شاگرد کی طرف سے مشہور کئے گئے ہیں۔ اس میں مباہلہ کی بھی وہ درخواست کرتے ہیں اور اگرچہ اس میں تحقیر اور استہزاء کے طور پر کئی لفظ بھرے ہوئے ہیں مگر میں نے ان سے قطع نظر کرکے اصلی سوال کا جواب دے دیا ہے۔
مولوی محمد حسین کا بھی خط آیا تھا کہ میں کچھ لکھنا چاہتا ہوں۔ مجھے لکھو کہ ایسا دعویٰ کیا ہے یا نہیں کہ میں مسیح موعود ہوں۔ حقیقت میں یہی دعویٰ ہے اس لئے ہاں کے ساتھ جواب دیا گیا۔ مجھے آپ کے اوراق کا انتظار ہے اور رسالہ ازالہ اوہام کے ختم ہونے کے لئے بھی انتظار باقی ہے۔ آپ ان تمام پہلوؤں کے لحاظ سے جواب دیں۔ میری طبیعت اکثر علیل رہتی ہے۔ دوران سر بہت رہتا ہے۔ کبھی کبھی دورہ درد سر ہو جاتا ہے۔ اس لئے کوئی محنت کا کام نہیں ہو سکتا۔ خدا جانے ان رسالوں کا کام کیونکر ہو گیا۔ ورنہ میری حالت اس لائق نہیں۔ شہاب الدین انتظار میں بیٹھا ہے اگر اشارہ ہو تو بھیج دوں۔ آپ کا پرانا نیاز مند فتح محمد مدت سے امیدوار ہے اس کی طرف بھی توجہ فرماویں۔ محمد بیگ کے مرض کی کیا صورت ہے مولوی غلام علی صاحب کی طبیعت اب کیسی ہے۔ ایک دن بعض شریروں لوگوں نے سخت غم میں مجھے ڈال دیا کہ مولوی غلام علی صاحب کا انتقال ہو گیا ہے۔ پھر فتح محمد کے خط آنے پر تسلی ہوئی۔ والسلام
غلام احمد عفی عنہ ۹؍ فروری ۱۸۹۱ء
مکتوب نمبر۶۸
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آنمخدوم کے دو ورقہ کے انتظار ہے تا رسالہ ازالہ اوہام کا خاتمہ طبع ہو کر شائع کیا جائے۔ امرتسر کے غزنوی مولوی صاحبوں نے سنا گیا ہے کہ بہت شور کیا ہے یہ بھی خبر سنی ہے کہ مولوی عبدالرحمن لکھوکے والے مولوی محمد صاحب کے جو صاحبزادہ ہیں انہوں نے کچھ اپنے الہامات لکھ کر بجواب خط اخویم عبدالواحد صاحب جموں روانہ کئے ہیں۔ حامد علی ان الہامات کو سن آیا ہے۔ مگر وہ اس کو یاد نہیں رہے۔ ایسے لفاظ ان میں ہیں کہ ضلوا واضلوا اگر عبدالواحد صاحب نے آنمخدوم کو ان سے اطلاع دی ہو تو مطلع فرماویں۔
چند روز سے نواب محمد علی خاں صاحب رئیس کوٹلہ قادیان میں آئے ہوئے ہیں۔ جوان صالح الخیال مستقل آدمی ہے انٹرس تک تحصیل انگریزی بھی ہے۔ میرے رسالوں کو دیکھنے سے کچھ شک و شبہ نہیں کیا بلکہ قوت ایمانی میں ترقی کی۔ حالانکہ وہ دراصل شیعہ مذہب ہیں مگر شیعوں کے تمام فضول اور ناجائز اقوال سے دست بردار ہوگئے ہیں۔ صحابہ کی نسبت اعتقاد نیک رکھتے ہیں شاید دو روز تک اور اسی جگہ ٹھہریں۔ مرزا خدا بخش صاحب ان کے ساتھ ہیں۔ الحمدللہ اس شخص کو خوب مستقل پایا اور دلیر طبع آدمی ہے۔
شہاب الدین کی نسبت کیا تجویز ہے؟ یہ عاجز دس روز تک لودہانہ جانے والا ہے میرے ساتھ بعض تعلق رکھنے والے رسالوں کو پڑھ کر بڑی استقامت ظاہر کر رہے ہیں۔ اس وقت مجھے یہ تمام لوگ اس الہام کا مصداق ٹھہراتے ہیں جو صد ہا مرتبہ ہوچکا ہے یعنی یہ کہ یا عیسیٰ انی متوفیک ورافعک الی وجاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفروا الی یوم القیامۃ۔ ابھی سے عقلی طور سے فوقیت ظاہر ہے کہ جب وہ مخالفوں کے روبرو تقریر کرتے ہیں تو انہیں لاجواب ہونا پڑتا ہے۔والسلام
خاکسار۔ غلام احمد عفی عنہ
۱۲؍ فروری ۱۸۹۱ء
مکتوب نمبر۶۹
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
محبی مخدومی اخویم۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج مولوی محمد حسین صاحب نے صاف طور پر مخالفانہ خط بھیج دیاہے جو آپ کی خدمت میں روانہ کرتاہوں۔ الحمدللّٰہ والمنت کہ ہر ایک قسم کے علماء و امرا و عقلاء میں سے خدا تعالیٰ نے آپ کو چن لیا ہے۔ وذالک فضل اللّٰہ یوتیہ من یشاء۔ اس عاجز نے آپ کا مضمون غور سے پڑھا۔ بہت عمدہ ہے انشاء اللہ القدیر وہ تمام مضمون میں اسی رسالہ میں چھاپ دوں گا۔ خداتعالیٰ ہمارے ساتھ ہے ہماری مدد کرے گا۔ ایک عجیب بات یہ ہے کہ کل پرانے کاغذات میں سے اتفاقاً ایک پرچہ نکلا ہے جس کے سر پر ۵؍ مئی ۱۸۸۸ء لکھا ہوا تھا۔ اس میں یادداشت کے طور پر ایک خواب اس عاجز نے لکھی ہوئی ہے جس کا یہ مضمون تھا کہ مولوی محمد حسین نے ایک مخالفانہ مضمون چھپوایا ہے اور اس عاجز کی نسبت اس کی سرخی یہ رکھی ہے کہ ’’کمینہ‘‘ معلوم نہیں اس سے کیا مراد ہے۔ میں نے وہ مضمون دیکھ کر انہیں کہا کہ میں نے آپ کو منع کیا تھا۔ آپ نے اس مضمون کو کیوں چھپوایا۔
میرے نزدیک وہ نالائق جوش دکھلائیں گے انہیں بہت کچھ اپنی علمیت پر ناز ہے مگر میں آپ کے لئے دعا کروں گا اور آپ کو اس کے ردّ کیلئے تکلیف دوں گا۔ خدا تعالیٰ بلاشبہ آپ کی مدد کرے گا۔ باقی سب خیریت ہے۔
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۹؍ فروری ۱۸۹۱ء
نوٹ: یہ خط حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے دعویٰ مسیحت کے آغاز میں لکھا ہے۔ مولوی محمد حسین بٹالوی نے مخالفت کا کھلا کھلا الٹی میٹم دیا اور آپ نے اس کی اطلاع حضرت حکیم الامۃ کو دی اور ساتھ خدا تعالیٰ کی تائید اور نصرت کا بصیرت افروز یقین دلایا اور اپنی ایک پُرانی رؤیا کا حوالہ دیا ہے۔ اس وقت چونکہ آپ کے مکاشفات اور ملہمات چھپا کرتے تھے مگر یہ عظیم الشان پیشگوئی ہے ۱۸۸۸ء میں جو مولوی محمد حسین کی ارادت اور عقیدت کا عہد تھا اور وہ براہین احمدیہ پر نہایت اعلیٰ ریویو شائع کر چکا تھا۔ اس وقت خدا تعالیٰ نے آپ کو بتایا کہ یہ شخص مخالف کرے گا اور نہایت گندی مخالفت کرے گا۔ اس خواب سے آپ نے خود مولوی محمد حسین صاحب کو بھی اطلاع دی تھی۔ چنانچہ آپ کے متکوبات بنام محمد حسین جو میں نے چھاپے ہیں اس میں صفحہ…پر بھی یہ چھاپا گیا ہے۔ یہ خداتعالیٰ کاایک عظیم الشان نشان ہے۔ جس میں مولوی محمد حسین کی مخالفت اور اس کی مخالفت کا نہایت ذلیل پہلو بھی دکھایا گیا تھا ایک اور امر بھی اس مکتوب کسے مکشوف ہوتا ہے کہ یہ خدا کے برگزیدہ بندے اپنی ذات اور ہستی کو درمیان میں نہیں رکھتے اور اپنی کسی طاقت اور علم پر اعتماد نہیں رکھتے بلکہ خدا تعالیٰ ہی کی تائید اور نصرت پر انہیں ایمان ہوتا ہے۔ اگرچہ حضرت حکیم الامت کو لکھا کہ مولوی محمد حسین کے ردّ کے لئے آپ کو تکلیف دوں گا مگر کبھی ایک دن اور ایک لحظہ بھی آپ پر نہ آیا کہ آپ نے ان کو تکلیف دی ہو بلکہ خدا تعالیٰ نے آپ پر وہ حقائق اور معارف کھول دیئے کہ بڑے بڑے علوم کے مدعی حیران و پریشان رہ گئے۔ (عرفانی)
٭٭٭
مکتوب نمبر۷۰
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ایک خط مولوی محمد حسین صاحب کا محض آپ کی اطلاع کے لئے ارسال خدمت کرتا ہوں۔ الحمدللہ مولوی صاحب کی نسبت اس عاجز کی فراست صحیح نکلی۔ یہ عاجز پختہ ارادہ رکھتا ہے اگر خدا تعالیٰ چاہے تو ۲؍ مارچ ۱۸۹۱ء کو یہاں سے روانہ ہو کر ۳؍ مارچ ۱۸۹۱ء کو لودہانہ میں پہنچ جائے۔ اخویم حکیم فضل دین صاحب کی تحریر سے معلوم ہوا کہ آنمکرم غالباً لاہور میں تشریف لائیں گے۔ آنمکرم اطلاع دیں کہ مولوی عبدالکریم صاحب خط کو چھپوا دیں اور کچھ آپ بھی لکھ دیں۔والسلام
خاکسار۔ غلام احمد عفی عنہ
نوٹ: اس خط پر کوئی تاریخ نہیں مگر ظاہر ہے کہ یہ اواخر فروری ۱۸۹۱ء کا مکوتب ہے۔ (عرفانی)
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
مکتوب نمبر۷۱
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچ کر موجب مسرت و فرحت ہوا۔ اگرچہ اس عاجز کی طبیعت صحت پر نہیں اور اندیشہ ہے کہ بیمار نہ ہو جاؤں لیکن اگر آنمکرم مصلحت دیکھتے ہیں تو میں لاہور میں حاضر ہو سکتا ہوں۔ میرے خیال میں کوئی عمدہ نتیجہ ایسے مجمع کا نظر نہیں آتا۔ انا علی علم من عنداللّٰہ وھم علی رای من انفسھم ہاں یہ ممکن ہے کہ ان کے خیالات پیش کردہ معلوم کر کے ان کے رفع دفع کیلئے کچھ اور بھی ازالہ اوہام میں لکھا جائے مگر یہ بھی غیر ضروری معلوم ہوتا ہے یہ عاجزازالہ اوہام میں بہت کچھ لکھ چکا ہے بہرحال اگر آنمخدوم مصلحت وقت سمجھیں تو میں حاضر ہو سکتا ہوں بشرطیکہ طبیعت اس دن علیل نہ ہو۔
غزنوی فتنہ اور مباہلہ کا مطالعہ
میاں عبدالحق صاحب نے جو پنجاب اور ہندوستان میں بسعی مولوی عبدالجبار صاحب شائع کئے ہیں جن میں مباہلہ کی درخواست ہے ان اشتہارات سے لوگوں پر بہت بُرا اثر پڑا ہے سو میں چاہتا ہوں کہ مباہلہ کا بھی ساتھ ہی فیصلہ ہو جائے اور ان کے الہامات کا فیصلہ خدا تعالیٰ آپ کر دے گا۔ اس جلسہ کی بناء سید فتح علی شاہ صاحب کی طرف سے ہے اور وہ بہرحال ۱۲؍ مارچ ۱۸۹۱ء کوحج کے لئے روانہ ہو جائیں گے اور گیاراں مارچ تک ہم کسی صورت میں پہنچ نہیں سکتے۔ اگر یہ فتح علی شاہ صاحب دس دن اور ٹھہر جائیں تو اکیس مارچ ۱۸۹۱ء تک یہ عاجر بآسانی امرتسر میں آ سکتا ہے۔ آئندہ جیسی مرضی ہو۔
مفتی فضل الرحمن کے متعلق الہام
آنمخدوم کی ملاقات کا بہت شوق ہے۔ اگر فرصت ہو اور ملاقات اسی جگہ ہو جائے تو نہایت خوشی کا موجب ہوگا۔ فضل الرحمن کی نسبت اس عاجز کوپہلے سے ظن نیک ہے ایک دفعہ اس کی نسبت سیھدی کا الہام ہو چکا ہے۔ بعد استخارہ مسنونہ اگر اسی تجویز کو پختہ کر دیں تو میں بالطبع پسند کرتا ہوں۔ قرابت اور خویش بھی ہے جوان ہے۔
عبدالحق غزنوی اور عبدالرحمن لکھو کے معلق خدائی فیصلہ پر یقین
مولوی عبدالرحمن صاحب اور میاں عبدالحق صاحب کے معاملہ میں مَیں یقین رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ خود فیصلہ کر دے گا۔ یہ عاجز ایک بندہ ہے۔ فیصلہ الٰہی کی انتظار کر رہا ہوں۔ خدا تعالیٰ کے کام آہستگی سے ہوتے ہیں۔ بڑی خوشی ہوگی اگر آنمخدوم لودہانہ میں تشریف لاویں پھر ضروری امور میں مشورہ کیا جائے گا۔
۹؍ مارچ ۱۸۹۱ء
نوٹ: اس مکتوب میں جن سید فتح علی شاہ صاحب کا ذکر ہے وہ لاہور کے باشندے اور محکمہ نہر میں ڈپٹی کلکٹر تھے۔ خان بہادر بھی تھے۔ خاکسار عرفانی ذاتی طور پر جانتا ہے۔ اس لئے کہ جب وہ محکمہ نہر میں داخل ہوا ہے تو شاہ صاحب اس کے افسر تھے مگر مخلصانہ تعلقات رکھتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے انہیں بہت حسن ظن تھا اور محبت رکھتے تھے۔ یہ دراصل ایک مجمع احباب تھا۔ مرزا امان اللہ صاحب، منشی امیرالدین، منشی عبدالحق، بابو الٰہی بخش، حافظ محمد یوسف، منشی محمد یعقوب صاحب وغیرہم۔ یہ سب کے سب اہلحدیث تھے اور حضرت مسیح موعود کے ساتھ انہیں قبل از دعویٰ مسیحیت ارادت تھی۔ آپ کی خدمات دین کے بدل معترف اور ان میں مالی نصرت اور اشاعت میں حصہ لیتے تھے۔ دعویٰ مسیحیت پر بھی ان کے حسن ظن میں فرق نہیں آیا۔ لاہور میں مخالفت کا زور تھا اور مولوی محمد حسین صاحب کو اپنی اس بااثر جماعت کے جاتے رہنے کا صدمہ تھا۔ اس لئے ان لوگوں نے چاہا تھا کہ مولوی محمد حسین صاحب سے حضرت حکیم الامۃ کی گفتگو ہو جائے۔ یہ واقعات انشاء اللہ القدیر میں سوانح حضرت میں لکھوں گا۔ اس جلسہ احباب میں شمولیت کے لئے حضرت حکیم الامۃ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جو ان ایام میں لودہانہ مقیم تھے لکھا تھا مولوی صاحب لاہور گفتگو کر کے لودہانہ چلے گئے تھے اور ان احباب کی اجازت سے گئے تھے مگر مولوی محمد حسین نے فرار کا تار دے دیا۔ غرض یہ بہت بڑے معرکہ کا مجمع تھا۔ مفتی فضل الرحمن صاحب کے رشتہ نکاح کے متعلق حضرت مولوی صاحب نے مشورہ پوچھا تھا اور یہ تحریک دراصل ۱۸۸۸ء سے ہوئی تھی اور مفتی صاحب کو لے کر حکیم فضل دین صاحب یہاں قادیان آئے تھے اور ایک اور امیدوار خادم حسین نام کو بھی لائے تھے۔ حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام نے مفتی فضل الرحمن صاحب کے متعلق مشورہ دیا اور الہام الٰہی نے اس کی تائید فرمائی۔ حضرت اپنی زندگی کی آخری ساعت تک مفتی صاحب سے بہت خوش رہے اور وہ آخری ایام میں آپ کے ساتھ لاہور میں موجود تھے۔ ذالک فضل اللّٰہ یوتیہ من یشاء (عرفانی)
مکتوب نمبر۷۲
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
منشی جلال الدین نام بعہدہ میر منشی ملازم ہیں اور مجھ سے خاص طور پر محبت اور اخلاص رکھتے ہیں اور درحقیقت ان احباب میں سے ہیں جن کے دل میں خدا تعالیٰ نے للّہی محبت اس عاجز کی نسبت بٹھا دی ہے انہوں نے میرے سے بڑی امید سے یہ درخواست کی ہے کہ آپ کی سعی اور کوشش سے ان کا صاحبزادہ کہ لائق اور مستعد اور نجیب طبع ہے کسی عمدہ نوکری پر ملازم ہو جائے لہٰذا مکلّف ہوں کہ اگر آپ خاص توجہ کی گنجائش رکھتے ہوں تو وہ اس غرض کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہو جائیں۔ امید کہ آپ براہ راست منشی صاحب موصوف کے پاس اس کا جواب بھیجیں گے اور پتہ یہ ہے۔ چھاؤنی ملتان رجمنٹ نمبر۱۲ منشی جلال الدین صاحب قریشی
شیخ عبدالرحمن صاحب نو مسلم لڑکا ایک ہفتہ سے میرے پاس ٹھہرا ہوا ہے اس کی طرف سے یہ آپ کی خدمت میں عرض ہے کہ اگر دوچار روز تک آپ نے لودہانہ میں تشریف لانا ہو تو وہ اسی جگہ ٹھہرے ورنہ جموں میں آجاوے۔
مولوی محمد احسن صاحب کا خط بھوپال سے آیا ہوا ہے۔ معہ خط مولوی محمد حسین صاحب آپ کی خدمت میں ارسال ہے۔ یہ مولوی محمداحسن مستعد آدمی معلوم ہوتے ہیں اور اخلاص ان کے ہر ایک خط سے ظاہر ہو رہا ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۴؍ مارچ ۱۸۹۱ء
مکتوب نمبر۷۳
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مہربانی نامہ آنمکرم پہنچ کر بمژدہ افاقہ از مرض بہت خوشی ہوئی۔ الحمدللہ علی ذالک۔ خدا تعالیٰ آپ کو پوری صحت بخشے۔ آپ ایک حقانی جماعت کے لئے مخلصانہ جوش اور ہمت اور استقامت میں ایک ایسا نمونہ ہیں جس کی دوسروں کو پیروی کرنی چاہئے۔ واما ماینفع الناس فیمکث فی الارض فارجوا ان یتمتع اللہ المسلمین بطول حیاتکم مولوی محمد احسن کی جس قدر تحریریں بھوپال سے پہنچی ہیں ان میں اخلاص پایا جاتا ہے اور وہ مدت سے اس سلسلہ میں داخل ہو چکے ہیں۔ آنمکرم بے شک مفصل خط ان کی طرف لکھیں۔ آنمکرم کی نوکری ہمارے ہی کام آتی ہے۔ ظاہر اس کا دنیا اور باطن سراسر دین ہے۔ اگرچہ بظاہر صورت تفرقہ میں ہے۔ مگر انشاء اللہ القدیر اس میں جمیعت کا ثواب ہے اور انشاء اللہ القدیر ذریعہ بہت سے برکات اور خوشنودی مولیٰ کا ہو جائے گا۔ خدا تعالیٰ نے جو حکیم و علیم ہے۔ بعض مصالح کے رُو سے اس مقام میں آپ کو متعین فرمایا ہے۔ پس قیام فی ما اقام اللہ ضروری ہے۔ اس راہ سے آپ کو فیض رحمانی پہنچیں گے۔ انشاء اللہ تعالیٰ
جس وقت خدا تعالیٰ پورے طور پر آرام و صحت عطا فرماوے اگر رخصت مل سکے تو تشریف لاویں۔
محمد بیگ لڑکا جو آپ کے پاس ہے آنمکرم کو معلوم ہوگا کہ اس کا والد مرزا احمد بیگ بوجہ اپنی بے سمجھی اور حجاب کے اس عاجز سے سخت عداوت اور کینہ رکھتا ہے اور ایسا ہی اس کی والدہ۔ چونکہ خدا تعالیٰ نے بوجہ اپنے بعض مصالح کے اس لڑکے کی ہمشیرہ کی نسبت وہ الہام ظاہر فرمایا تھا کہ جو بذریعہ اشتہارات شائع ہو چکا ہے۔ اس وجہ سے اس لوگوں کے دلوں میں حد سے زیادہ جوش مخالفت ہے اور مجھے معلوم نہیں کہ وہ امر جس کی نسبت مجھے اس شخص کی ہمشیرہ کی نسبت اطلاع دی گئی ہے کیونکر اور کس راہ سے وقوع میں آئے گا اور بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ کوئی نرمی کارگر نہیں ہوگی۔ ویفعل اللّٰہ مایشاء۔ لیکن تا ہم کچھ مضائقہ نہیں کہ ان لوگوں کی سختی کے عوض میں نرمی اختیار کر کے ادفع بالتی ھی احسن کا ثواب حاصل کیا جائے۔ اس لڑکے محمد بیگ کے کتنے خط اس مضمون کے پہنچے کہ مولوی صاحب پولیس کے محکمہ میں مجھ کو نوکر کرا دیں۔ آپ براہ مہربانی اس کو بلا کر نرمی سے سمجھا دیں کہ تیری نسبت انہوں نے بہت کچھ سفارش لکھی ہے اور تیرے لئے جہاں تک گنجائش اور مناسب وقت کچھ فرق نہ ہوگا۔ غرض آنمکرم میری طرف سے اس کے ذہن نشین کر دیں کہ وہ تیری نسبت بہت تاکید کرتے ہیں۔ اگر محمد بیگ آپ کے ساتھ آنا چاہے تو ساتھ لے آویں۔
اخویم منشی مولوی عبدالکریم صاحب کی بہت انتظار ہے دیکھیں کب تشریف لاتے ہیں۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
از لودہیانہ محلہ اقبال گنج
۲۱؍ مارچ ۱۸۹۱ء
٭٭٭
مکتوب نمبر۷۴
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
چونکہ مخالف الرائے لوگوں نے علانیہ اور بالجہر اس عاجز کی اہانت اور تحقیر اور تکفیر کی غرض سے جابجا خطوط بھیجے اور اشتہارات جاری کئے اور خلاف واقع باتیں ہر ایک مجلس میں سنائیں اور مشہور کیں۔ اس لئے اس فتنہ کے تدارک کے لئے کوئی گم اور مخفی جلسہ علماء کا ہرگز مفید نہیں ہو سکتا۔ بلکہ جیسا کہ یہ بات عوام تک پہنچائی گئی ہے اور ہر ایک قوم میں علانیہ طور پر بے جا الزاموں کے ساتھ شہرت دی گئی ہے۔ اسی طرح سے ایک کھلا کھلا جلسہ چاہئے جس میں ہر ایک گروہ کے آدمی موجود ہوں اور بمقام امرتسر ہو جہاں سے یہ فتنہ اُٹھا ہے۔ لہٰذا اس عاجز نے اس جلسہ کے لئے ۲۳؍ مارچ ۱۸۹۱ء مقرر کر دی ہے۔ جلسہ امرتسر میں ہوگا اور پہلے سے عام طور پر اشتہارات جاری کر دیئے جائیں گے۔ اس جلسہ پر آپ کا آنا ضروری ہے اگر اب آپ تشریف نہ لاویں تو اتنا حرج نہیں۔ مگر ۲۳؍ مارچ ۱۸۹۱ء کو بمقام امرتسر آپ کا آنا ضروری ہوگا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
٭٭٭
مکتوب نمبر۷۵
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی صاحب سلمہ تعالیٰ۔
محبت نامہ جو آنمخدوم کے مرتبہ یقین اور اخلاص اور شجاعت اور للہی زندگی پر ایک محکم دلیل اور حجت قویہ تھا پہنچ کر باعث انشراح خاطر و سرور و ذوق ہوا۔ بلاشبہ اس درجہ کی قوت و استقامت و جوش و ایثار جان و مال للہ اس چشمہ صافیہ کمال ایمانی سے نکلتا ہے جس میں چمکتا ہوا یقین اس امر کا پورے زور کے ساتھ موجود ہوتا ہے کہ خدا ہے اور وہ صادقوں کے ساتھ ہے۔
اس عاجز نے ارادہ کیا تھا کہ بلاتوقف جناب الٰہی میں اس بارہ میں توجہ کروں۔ لیکن دورہ مرض اور ضعف دماغ اور ایک امر پیش آمدہ کی وجہ سے اس میں تاخیر ہے اور امید رکھتا ہوں کہ جس وقت خدا تعالیٰ چاہے مجھے اس توجہ کے لئے توفیق بخشی جائے گی۔ اوّل حضرت احدیث جلشانہٗ سے اجازت لینے کے لئے توجہ کی جائے گی۔ پھر بعد اس کے بعد یقینہ شرائط فریقین امر خارق عادت کے لئے توجہ ہوگی۔ یہ بات مسلم اور واضح رہے کہ راستباز انسان کیلئے ایسے امور کی غرض سے کسی قدر مجاہدہ ضروری ہے۔ الکرامات ثمرۃ مجاہدات، علامت طبع بہت حرج انداز ہے۔ اگریہ مقابلہ صحت اور طاقت دماغی کے ایام میں ہوتا تو یقین تھا کہ تھوڑے دن کافی ہوتے۔ مگر اب طبیعت تحمل شداید مجاہدات نہیں رکھتی اور ادنیٰ درجہ کی محنت اور خوض اور توجہ سے جلد بگڑ جاتی ہے۔ اگر ڈاکٹر صاحب کو طلب حق ہوگی تو وہ تین باتیں بآسانی قبول کریں گے۔
(۱) اوّل یہ کہ میعاد توجہ یعنی وہ میعاد جس کے اندر کوئی امر خارق عادت ظاہر ہونے والا پیش از وقوع بتلایا جاوے۔ اس کے موافق ہو۔ جو خدا تعالیٰ ظاہر کرے۔
(۲) دوم جو امر ظاہر کیا جائے یعنی منجانب اللہ بتلایا جاوے اس کی اس معیاد کی انتظار کریں جو من جانب اللہ مقرر ہو۔ ہاں میعاد ایسی چاہئے جو معاشرت کے عام معاملات میں قبول کے لائق سمجھی گئی ہو اور عام طور پر لوگ اپنے کاموں میں ایسی میعادوں کے انتظار کے عادی ہوں اور اپنے مالی معاملات کو ان میعادوں پر چھوڑتے ہوں یا اپنے دوسرے کاروبار ان میعادوں کے لحاظ سے کرتے ہوں اس سے زیادہ نہ ہو۔
(۳) امر خارق عادت پر کوئی ناجائز اور بے سود شرطیں نہ لگائی جائیں بلکہ خارق عادت صرف اسی طور سے سمجھا جائے جو انسانی طاقتیں اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہوں۔ مگر یہ سب اس وقت سے ہوگا کہ جب پہلے اجازت الٰہی اس بارے میں ہو جاوے۔
آپ کی ملاقات کے لئے دل بہت جوش رکھتا ہے اور آپ نے فرمایا تھاکہ ہم آنے کے لئے تیار ہیں اگر آپ تشریف لاویں تو یہ سب باتیں زبانی مفصل طور پر بیان کی جائیں گی۔ عبدالرحمن لڑکا بھی آپ کے انتظار میں مدت سے بیٹھا ہے۔ مولوی عبدالکریم صاحب منتظر ہیں آپ ضرور مطلع فرماویں کہ آپ کب تشریف لاویں گے۔ والسلام
خاکسار
غلام احمد
۳۱؍ مارچ ۱۸۹۱ء
نوٹ: جموں میں ایک ڈاکٹر جگن ناتھ تھے انہوں نے حضرت حکیم الامۃ کے ذریعہ حضرت اقدس سے نشان دیکھنا چاہا تھا مگر پھر وہ مقابلہ کے لئے قائم نہ رہا۔ (عرفانی)
٭٭٭
مکتوب نمبر۷۶
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچ کر موجب تسلی ہوا۔ مولوی محمد حسین صاحب زباندرازی میں بہت ترقی کر گئے ہیں۔ اللہ جلشانہٗ ان کے فاسد ارادوں سے خلق اللہ کو بچاوے۔ یہ عاجز اس وقت بباعث شدت ضرورت خرچ اور ایک طرف تقاضا مطبع اور کاپی نویسوں کے حیران ہے۔ آخر سوچا کہ آنمکرم کو تکلیف دوں آنمکرم نے تجویز چندہ ماہواری کو اس عاجز پر ڈالا تھا اور اب تک بباعث شرم خود تجویزی کے کچھ کہہ نہیں سکتا لیکن اب مجھے خیال آیا کہ باوجود آنمکرم کے اخلاص اور محبت کے جو خدا تعالیٰ نے آپ کو عنایت فرمائی ہے کوئی وجہ نہیں کہ زیادہ تامل کیا جاوے۔ اس لئے میری دانست میں بشرطیکہ آپ پر بار نہ ہو اور آسانی سے ایفا ہو سکے اور کچھ ہرج نہ ہو بیس روپیہ ماہواری آپ سے چندہ لیا جائے۔ سو میں چاہتا ہوں کہ آنمکرم سَو روپیہ کا بہرطرح بندوبست کر کے پانچ ماہ کا چندہ مجھے بھیج دیں۔ یکم اپریل ۱۸۹۱ء سے یہ چندہ آپ کے ذمہ ہوا اور جولائی کے آخیر تک اس پیشگی چندہ کا روپیہ ختم ہو جائے گا اور پھر ماہواری چندہ ارسال فرمایا کریں۔ محض شدید ضرورت کی وجہ سے مکلّف ہوں۔
ڈاکٹر جگن ناتھ کو جواب
ڈاکٹر صاحب کا خط پہنچا۔ ڈاکٹر صاحب ایسے امور کے دکھلانے کیلئے مجھے مجبور کرتے ہیں جو میرا نور قلب شہادت نہیں دیتا کہ میں ان کے لئے جناب الٰہی میں دعا کروں۔ گو یہ عاجز خدا تعالیٰ کی قدرتوں کو غیر محمدود جانتا ہے مگر ساتھ ہی یہ بھی یقین رکھتا ہے کہ ہر ایک قدرتی کام وابستہ بادقات ہے اور جب کسی امر کے ہو جانے کا وقت آتا ہے تو اس امر کے لئے دل میں جوش پیدا ہو جاتا ہے اور امید بڑھ جاتی ہے اور اب ایسی باتوں کی طرف جو ڈاکٹر صاحب کا منشاء ہے کہ کوئی مردہ زندہ ہو جائے یا کوئی مادر زاد اندھا اچھا ہو جائے پیدا نہیں ہوتا۔ ہاں اس بات کے لئے جوش پیدا ہوتا ہے کہ کوئی امر انسانی طاقتوں سے بالا تر ہو خواہ مردہ زندہ ہو۔ اور خواہ زندہ مر جائے۔ یہی بات پہلے بھی میں نے ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں لکھی تھی کہ آپ صرف یہی شرط رکھیں کہ ایسا امر ظاہر ہو کہ جو انسانی طاقتوں سے برتر ہو اور کچھ شک نہیں کہ جو امر انسانی طاقتوں سے برتر ہو وہی خارق عادت ہے۔ مگر ڈاکٹر صاحب نے خواہ نخواہ مردہ وغیرہ کی شرطیں لگا دی ہیں۔ اعجازی امور اگر ایسے کھلے کھلے اور اپنے اختیار میں ہوتے تو ہم ایک دن میں گویا تمام دنیا سے منوا سکتے ہیں لیکن اعجاز میں ایک ایسا امر مخفی ہوتا ہے کہ سچا طالب حق سمجھ جاتا ہے کہ یہ امر منجانب اللہ ہے اور منکر کو عذرات رکیکہ کرنے کی گنجائش بھی ہو سکتی ہے کیونکہ دنیا میں خدا تعالیٰ ایمان بالغیب کی حد تو کوڑنا نہیں چاہتا۔ جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے مردے زندہ کئے اور وہ مردے دوزخ یا بہشت سے نکل کر کل اپنا حال سناتے ہیں اور اپنے بیٹوں اور پوتوں کو نصیحت کرتے ہیں کہ ہم تو عذاب و ثواب کا کچھ دیکھ آئے ہیں ہماری گواہی مان لو کہ یہ خیالات لغو ہیں بیشک خوارق ظہور میں آتے ہونگے۔ مگر اس طرح نہیں کہ دنیا قیامت کا نمونہ بن جائے یہی وجہ ہے کہ بعض حضرت عیسیٰ سے منکر رہے کہ اور معجزہ مانگتے رہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کبھی ان کو جواب نہ دیا کہ ابھی توکل میں نے تمہارا باپ زندہ کر کے دکھلایا تھا اور وہ گواہی دے چکا ہے کہ میں بباعث نہ ماننے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوزخ میںجاپڑا اگر یہ طریق معجز نمائی کا ہوتا تو پھر دنیا دنیا نہ رہتی اور ایمان ایمان نہ رہتا اور ماننے اور ایمان لانے سے کچھ بھی فائدہ نہ ہوتا۔ پس جب تک ڈاکٹر صاحب اصول ایمان کے مطابق درخواست نہ کریں۔ میری نظر میں ایک قسم سے وہ دفع دفت کرتے ہیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از لودہیانہ محلہ اقبال گنج
۱۲؍ اپریل ۱۸۹۱ء
مکتوب نمبر۷۷
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم حضرت مولوی صاحب سلمہ تعالیٰ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ علالت طبع کے معلوم کرنے سے طبیعت بہت متردّد اور متفکر ہوئی اور غائت درجہ کا قلق اور اضطراب ہے امید کہ بہت جلد مفصل حالات خیرت آیات سے مطلع و مطمئن فرماویں۔ خدا تعالیٰ آنمکرم کو صحت اور عافیت کامل سے رکھ کر آپ کے ہاتھ سے سالہائے دراز تک خدمت دین لیتا رہے اور ایک عالم کو آپ سے متمتع اور مستفیض فرما دیں۔ حالات مزاج سامی سے ضرور جلد اطلاع بخشیں اور مجھے مفصل معلوم نہیں ہوا کہ کس قسم کی بیماری تھی۔ خدا تعالیٰ جلد اس سے شفا بخشے۔ اس جگہ کا حال یہ ہے کہ لوگوں کے زور دینے سے مولوی محمد حسین صاحب بحث کے لئے تشریف لائے ہوئے ہیں اور ۲۰؍ جولائی سے ہر روز تحریری بحث ہو رہی ہے۔ ابھی تمہیدی مقدمات میں بحث چلی آتی ہے۔ فریقین کی تحریریں پانچ جزو تک پہنچ چکی ہیں۔ ان کی طرف سے سوال یہ ہے کہ کتاب اللہ اور سنت کو واجب العمل سمجھتے ہو یا نہیں اس طرح سے جو واقعی اور تحقیقی جواب ہے دیا گیا ہے لیکن اس بحث کو انہوں نے بہت طول دے دیا ہے اور اس طرف سے بھی مناسب سمجھا گیا ہے کہ جہاں تک طول دیتے جائیں اس کا شافی وکافی جواب دیا جاوے۔ خدا جانے یہ بحث کب اور کس وقت ختم ہو۔ اب مجھے زیادہ تر خیال آپ کی طبیعت کی طرف ہے اور کسی بات کے لکھنے کی طرف دل توجہ نہیں کرتا۔ امید کہ جہاں تک جلد ممکن ہو حالت مزاج سے مسرور الوقت فرماویں۔ باقی سب خیریت ہے۔ ازالہ اوہام ابھی طبع ہو کر نہیں آیا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
از لودہانہ محلہ اقبال گنج
۲۲؍ جولائی ۱۸۹۱ء
مکتوب نمبر۷۸
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم حضرت مولوی صاحب سلمہ تعالیٰ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
پارسل مرسلہ آنمکرم جس میں مشک اور تھا پہنچا۔ جزاکم اللہ احسن الجزاء۔
کل مولوی محمد حسین صاحب کی بحث کا خاتمہ ہو گیا۔ آخر حق بات کے سننے سے مولوی محمد حسین کی قوت سبعیہ بڑے زور سے ظہور میں آئی۔ اگر یہ عاجز اپنی جماعت کے ساتھ جلد تر اس جگہ سے باہر نہ آتا تو احتمال فساد تھا۔ درحقیقت ان کو اشتعال کا سبب یہ ہوا کہ وہ اعتراضات کردہ سے ساکت اور لاجواب ہوگئے اور بحالت لاجواب ہونے کے بجز قوت غضبی سے کام لینے کے اور کیا ان کے ہاتھ میں تھا۔ مولوی عبدالکریم صاحب و مولوی غلام قادر صاحب نے فریقین کے پرچے لے لئے ہیں۔ آج دونو صاحب اس جگہ ہیں وہ کہتے ہیں کہ جلد ہم جناب کو مولوی صاحب کی خدمت میں بھیجیں گے۔ آپ کی علالت طبع کی نسبت بہت متردّد و غم تھا۔ آج آپ کے خط کے آنے سے کسی قدر طمانیت ہوئی۔ خدا تعالیٰ جلد تر آپ کو پوری صحت عطا فرماوے۔
والسلام
خاکسار۔ غلام احمد
از لودہیانہ اقبال گنج
۳۱؍ جولائی ۱۸۹۱ء
مکتوب نمبر۷۹
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم حضرت مولوی نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ و نظر اللہ بنظر الرحمۃ والرضوان۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ مشتمل بر تلطفات محبت نامہ پہنچ کر باعث انشراح و سرور و ممنونی ہوا۔ آپ کی ملاقات کو دل بہت چاہتا ہے۔ خدا تعالیٰ آپ کو خیر و خوشی کے ساتھ جلد ملاوے۔ تعلقات دنیا میں حاسدوں کا ہونا ایک طبعی امر ہے۔ ولکل مقبل حاسد۔ حمایت و حفاظت الٰہی آپ کے لازم حال رہے۔ بیشک ایسے تعلقات بہت خطرناک ہیں اور ان میں بجز خاص رحمت الٰہی کے انجام خیر کے ساتھ عہدہ برا ہونا بہت مشکل ہے۔ ہمیشہ تضرع اور استغفار حضرت ربّ کریم کی جناب میں لازم حال ہی رکھیں۔ رفق اور نرمی اور اخلاق میں تو پہلے ہی سے آنمکرم سبقت لے گئے ہیں۔ لیکن امید رکھتا ہوں کہ حاسدوں اور دشمنوں سے بھی یہی طریق جاری رہے اور حتی الوسع ریاست کے کاموں میں بہت دخل دینے سے پرہیز رہے کہ سلامت برکنار است کا مقولہ قابل توجہ ہے۔ ازالہ اوہام اب تک چھپ کر نہیں آیا۔ شاید دس پندرہ روز تک آ جاوے گا۔ اس کے نکلنے کے بعد آنمکرم کو تکلیف دوں گا کہ اس کا لب لباس نکال کر تشریحات اور ایزادات مناسب کے ساتھ آنمکرم کی طرف سے بھی کوئی رسالہ شائع ہو جاوے۔ مولوی محمد حسین صاحب سے جس قدر بحث ہوئی اس عاجز کی دانست میں وہ مصلحت سے خالی نہیں تھی اور امید رکھتا ہوں کہ فریقین کے بیانات شائع ہونے کے بعد انشاء اللہ اس کا بہت نیک اثر دلوں پر پڑے گا۔ یہ بھی دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ سید محمد عسکری خاں صاحب کی نسبت ابھی کچھ تذکرہ ہوا یا نہیں اور سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
از لدہیانہ اقبال گنج
۱۶؍ اگست ۱۸۹۱ء
نوٹ: جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مکتوب میں ظاہر کیا ہے اس مباحثہ لودہیانہ کی اشاعت کے بعد سلسلہ کی جو ترقی ہوئی وہ ظاہر امر ہے۔ (عرفانی)

مکتوب نمبر۸۰
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم حضرت مولوی صاحب ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس جگہ تا تحریر ہذا بفضلہ تعالیٰ ہر طرح سے خیریت ہے۔ خدا تعالیٰ آپ کو ہر بلا سے محفوظ رکھ کر اپنی رحمت خاص کا مورد کرے۔ رسالہ ازالہ اوہام کے اصل مضامین تو طبع ہوچکے ہیں۔ مولوی محمد حسین کے اشتہار کی نسبت جو ایک مضمون چھپنے کیلئے دیا گیا ہے وہ شاید چند روز تک چھپ کر رسالہ ازالہ اوہام کے ساتھ شائع ہو۔ لاہور کے بعض معزز ارکان نے چوداں خط علماء کی طرف لکھتے ہیں کہ تا وہ آ کر حضرت مسیح کی وفات و حیات کی نسبت مباحثہ کریں۔ دیکھیں کیا جواب آتے ہیں۔ اس عاجز کی مرضی ہے کہ رسالہ ازالہ اوہام کے نکلنے کے بعد کل متفرق فوائد اور نکات اس کے ایک جگہ جمع کریں اور پھر ان کے ساتھ ان سوالات کا جواب شامل کر کے جو مخالفین نے اپنی تالیف میں لکھے ہوں کہ رسالہ احسن ترتیب کے شائع کر دیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ مخالفین کی طرف سے شائد واللّٰہ اعلم صد ہا رسالے شائع ہونگے اور چار تو شائع ہو چکے ہیں۔ جن کے دیکھنے سے معلوم ہوا کہ کوئی ایسی بات اُن میں نہیں جس کا جواب رسالہ ازالہ اوہام میں نہ دیا گیا ہو۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
از لودہیانہ محلہ اقبال گنج
۱۰؍ اگست ۱۸۹۱ء

مکتوب نمبر۷۷
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم حضرت مولوی صاحب سلمہ تعالیٰ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
چونکہ اس جگہ کے علماء نے حد سے زیادہ شور و غوغا کیا ہے اور تمام دہلی میں ایک طوفان کی صورت پیدا کر دی ہے۔ لہٰذا مولوی نذیر حسین صاحب سے درخواست کی گئی۔ ایک جلسہ عام کر کے ۱۸؍ اکتوبر ۱۸۹۱ء روز اتوار کو اس عاجز سے بحث کر لیں۔ ابھی تک ان کی طرف سے جواب نہیں آیا لیکن بہرحال بحث ہوگی اور اگر بالکل گریز کر جائیں گے تو پھر اپنے طور پر لوگوں کو جمع کر کے مفصل تقریر سنائی جائے گی۔ لہٰذا مکلّف ہوں کہ آنمکرم جس طرح ممکن ہو ۱۵؍ اکتوبر ۱۸۹۱ء سے پہلے تشریف لاویں۔ ۱۸؍ اکتوبر ۱۸۹۱ء کو اتوار کا دن ہوگا اور سب ملازم غیر ملازم فرصت کامل رکھتے ہونگے۔ لہٰذا یہی تاریخ بحث کے لئے مقرر کی گئی۔ آنمکرم جس طرح ممکن ہو دس روز کی رخصت حاصل کر کے تشریف لاویں۔ تین روز تو آمد ورفت میں خرچ ہو جائیں گے اور سات روز اس جگہ تشریف رکھیں اور مبلغ بیس روپیہ مرسلہ آنمکرم آج پہنچ گئے۔ جزاکم اللّٰہ خیرا الجزاء۔ اگر حکیم فضل دین صاحب اور کوئی دوسرے دوست بھی اپنی خوشی سے تشریف لا سکتے ہوں تو بہتر ہے کیونکہ اس وقت میں جس قدر ہماری جماعت موجود ہو اسی قدر خوب ہوگا۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ باقی خیریت ہے۔
والسلام۔ خاکسار
غلام احمد
از دہلی بازار بلی ماراں۔ کوٹ نواب لوہارو
مکرر یہ کہ اوّل تو امید ہے کہ فریق مخالف بحث کریں گے اور اگر انہوں نے عمداً گریز کی تو ہماری طرف سے ایک وسیع مکان میں بطور وعظ مفصل بیان ہوگا۔ اوّل انشاء اللہ القدیر میں بیان کروں گا۔ بعد ازاں آنمکرم بیان کریں۔ پھر ہر ایک صاحب جو چاہے بیان کرے۔
والسلام۔ خاکسار غلام احمد
مکتوب نمبر۸۲
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچ کر علالت طبع آنمکرم سے بہت متردّد ہوا۔ رات کو آپ کی صحت کیلئے بہت دعا کی گئی۔ امید کہ خداوندکریم اپنے فضل و کرم سے صحت بخشے۔ اخویم مولوی عبدالکریم کی تحریر آپ کی بیماری میں زیادہ دل کو صدمہ پہنچاتی ہے۔ اگر کل آنمکرم کا دستخطی خط نہ آیا ہوتا تو معلوم نہیں مولوی عبدالکریم صاحب کی تحریرسے کس قدر قلق و اضطراب دل پر ہوتا خدا تعالیٰ بہت جلد آپ کو شفا بخشے۔ تمام غم راحت سے مبدّل ہو جائیں گے۔ اللہ جل شانہٗ جانبین میں خیرو عافیت رکھے اور آپ کی عمر میں صحت اورعافیت اور دین و دنیا کی سعادت کے ساتھ برکت سے بھری ہوئی درازی بخشے۔ آمین ثم آمین ۔ (یہ دعا قبول ہوگئی۔ عرفانی)
میاں عبدالحق اور مولوی عبدالرحمن صاحب کی تحریروں کا آپ ذرا فکر نہ کریں۔ ایک ابتلاء ہے خدا تعالیٰ آپ اُس کو اُٹھا دے گا۔ غور کا مقام ہے کہ جس وقت ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نبوت حقہ کی تبلیغ کر رہے تھے اور کلام ربّانی نازل ہو رہا تھا اس وقت مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی نے کیا کیا فتنے برپا کر دیئے تھے۔ ایک طرف قرآن کریم کی یہ سورتیں نازل ہوئیں۔ الم ترکیف فعل ربک باصحاب الفیل اور اس کے مقابلہ پر مسیلمہ نے اپنی وحی یہ سنائی۔ الم ترکیف فعل ربک بالحبلی اخرج منھا۔ ظاہر ہے کہ ایسے کذاب کے کھڑے ہونے سے کیا کیا فتنے ہوئے ہونگے اور جس وقت سادہ لوح لوگ ایک طرف وحی قرآنی سنتے ہونگے اور ایک طرف مسیلمہ کی شیطانی تکیں ان کے کانوں تک پہنچتی ہونگی تو کیا کیا ابتلاء انہیں پیش آتے ہونگے۔ ایسا ہی ابن صیاد نے بہت فتنہ ڈالا تھا اور یہ تمام لوگ ہزار ہا لوگوں کی ہلاکت کا موجب ہوئے تھے لیکن آخر خدا تعالیٰ نے حق کی روشنی ظاہر کر دی اور مومنین پر سکینت اور اطمینان نازل کی۔
سو اس کے حکم کا منتظر رہنا چاہئے اور صبر کے ساتھ راہ دیکھنا چاہئے۔ وھو علی کل شی قدیر۔ جب آسمان سے بارش نازل ہوتی ہے اور ایک وادی کو پُر کرتی ہے اور زور سے چلنا چاہتی ہے تو یہ قانون قدرت ہے کہ اس پر ایک قسم کی جھاگ آ جاتی ہے وہ جھاگ بظاہر ایک غلبہ از فوقیت رکھتی ہے کہ پانی اس کے نیچے اور وہ اوپر ہوتی ہے بلکہ بسا اوقات اس قدر بڑھتی ہے کہ پانی کے اوپر کی سطح کو ڈھانک لیتی ہے لیکن بہت جلد نابود کی جاتی ہے اور پانی جو لوگوں کو فائدہ پہنچانے والی چیز ہے باقی رہ جاتی ہے۔ عبدالرحمن نومسلم لڑکا اسی جگہ پر ہے اور شاید ضعف کی حالت میں ابھی سفر کرنا آنمکرم کا مناسب نہ ہو۔ اگر ایما فرماویں تو نامبردہ کو آپ کی طرف روانہ کیا جائے۔
نوٹ: عبدالرحمن نو مسلم وہی لڑکا ہے جو آج شیخ عبدالرحمن ماسٹر بی۔ اے مصنف کتب معدودہ ہے۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر۸۳
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
معلوم نہیں کہ اب آنمکرم کی طبیعت کیسی ہے۔ خدا تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے جلد تر شفا بخشے۔ اس عاجز کو آنمکرم نے قادیان کی سڑک پر لیکھرام کے اشعار دیئے تھے ۔ ان کی طرف خیال کرنا ایسا فراموش ہو گیا کہ کبھی یاد نہ آیا۔ آنمکرم نے ایک دو مرتبہ لکھا بھی مگر پھر بھی بھول گیا۔ اب انشاء اللہ القدیر بقیہ مضمون کو جلد ختم کر کے اس طرف متوجہ ہوں گا۔ بباعث علالت طبع دورہ مرض حافظہ میں بہت قصور ہو گیا ہے۔ دو تین روز سے اس قدر دورہ مرض ہوا کہ ضعف بہت ہوگیا اور کوئی کام نہیں ہو سکتا۔ مطبع سے بار بار مطالبہ ہے کہ بقیہ مضمون بھیجنا چاہئے مگر طاقت نہیں کہ کچھ لکھ سکوں۔
فضل احمد کا خط نہایت اور غایت درجہ کی التجا سے آیا تھا کہ مولوی صاحب کی خدمت میں سفارش کریں کہ کوئی نوکری میرے گزارہ کے موافق کرا دیں۔ عنہ ۲۰ میں اپنے خیال کا گزارہ نہیں کر سکتا۔ سو اگر مصلحت وقت کا حال آنمکرم کو بہتر معلوم ہوگا لیکن اگر کچھ ہرج نہ ہو اور مصلحت کے خلاف نہ ہو اور کچھ جائز اعتراض نہ ہو اور آنمکرم کچھ اس کی معاش کیلئے اس سے بہتر تجویز کر سکیں تو کر دیں۔ اگرچہ ابھی تک اس کے چال چلن کا حال قابل اعتراض ہے مگر شاید آئندہ درست ہو جاوے۔ ابرار و اخیار جو متخلق باخلاق اللہ ہوتے ہیں کبھی مطابق آیت کریمہ وکان ابوھما صالحاً عمل کر لیتے ہیں۔ اس آیت کریمہ کے مفہوم پر نظر غور ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جن دو لڑکوں کے لئے حضرت خضر نے تکلیف اُٹھائی۔ اصل میں وہ اچھے چال چلن کے ہونے والے نہیں تھے بلکہ غالباً وہ بدچلن اور خراب حالت رکھنے والے علم الٰہی میں تھے۔ لہٰذا خدا تعالیٰ نے بباعث اپنی ستاری کی صفت کے ان کے چال چلن کو پوشیدہ رکھ کر ان کے باپ کی صلاحیت ظاہر کر دی اور ان کی حالت کو جو اصل میں اچھی نہیں تھی کھول کر نہ سنایا۔
اور ایک خویش کی وجہ سے دو بیگانوں پر رحم کر دیا۔ امید ہے کہ اپنی روانگی سے پہلے اس عاجز کو ضرور مطلع فرماویں گے۔ اس قدر میں نے لکھا تھا کہ پھر نہایت عاجزی سے فضل احمد کا خط آیا ہے کہ خدمت میں مولوی صاحب کے میری نسبت ضرور لکھیں۔ آنمکرم اس کو بلا کر اطلاع دے دیں کہ تیری نسبت وہاں سے سفارش لکھی ہے۔ اگر مناسب سمجھیں کسی کو اس کی نسبت سفارش کر دیں کہ وہ سخت حیران ہے۔ اس کی ایک بیوی میرے ساتھ اس جگہ ہے اور ایک قادیان میں ہے۔
خاکسار
غلا م احمد عفی عنہ
لودہیانہ محلہ اقبال گنج
نوٹ: اس خط پر تاریخ نہیں مگر لدہیانہ کے پتہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ۱۸۹۱ء کا ہے۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر۸۴
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی صاحب سلمہ تعالیٰ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مبلغ تنتیس روپیہ معرفت مولوی محمد حسین صاحب مجھ کو پہنچ گئے۔ یہ آپ کا کمال اخلاص اور غایت درجہ کی محبت ہے کہ باوجود نہ ہونے روپیہ کے وقت پر آپ نے قرض لے کر روپیہ بھیجا اور مجھے خارجاً معلوم ہوا ہے کہ پہلے بھی آپ نے ایک دو مرتبہ ایسا ہی کیا تھا۔ جزاکم اللّٰہ کماعملتم۔ آپ نے لکھا تھا کہ رفاقت اور دوستی میں مجھے نسبت فاروقی ہے مگر میرے خیال میں آپ کو نسبت صدیقی ہے کیونکہ انشراح صدر سے ایثار مال اور رفاقت فرمانے تک مستعد ہونا یہ ہمت صدیقی تھی اور میں جس نیت سے آپ کو تکلیف دیتا ہوں وہ خدا تعالیٰ کو معلوم ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
از لودہیانہ محلہ اقبال گنج
نوٹ: اس خط پر تاریخ درج نہیں مگر لودہیانہ کے پتہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ۱۸۹۱ء کا ہے۔
(عرفانی)
مکتوب نمبر۸۵
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میں آپ کو اطلاع دیتاہوں کہ سردار رویٹ خان خلف الرشید مسٹر جان ویٹ کہ ایک جوان تربیت یافتہ قوم انگریز دانشمند مدبر آدمی انگریزی میں صاحب علم آدمی ہیں اور کرنول احاطہ مدراس میں بعہدہ منصفی مقرر ہیں۔ آج بڑی خوشی اور ارادت اور صدق دل سے سلسلہ بیعت میں داخل ہوگئے۔ ایک باہمت آدمی اور پرہیز گار طبع اور محب اسلام ہیں۔ انگریزی میں حدیث اور قرآن شریف کو دیکھا ہوا ہے چونکہ رخصت کم تھی اس لئے آج واپس چلے گئے پھر ارادہ رکھتے ہیں کہ تین ماہ کی رخصت لے کر اسی جگہ رہیں اور اپنی بیوی کو ساتھ لے آویں۔ وہ مشورہ دیتے ہیں کہ ہر ایک ملک میں واعظ بھیجنے چاہئیںاور کہتے ہیں کہ ایک مدراس میں واعظ بھیجا جاوے اس کی تنخواہ کے لئے میں ثواب حاصل کروں گا۔ غرض زندہ دل آدمی معلوم ہوتا ہے تمام اعتقاد سن کر امنا امنا کہا۔ کوئی روک پیدا نہیں ہوئی اور کہا کہ جو لوگ مسلمان اور مولوی کہلا کر آپ کے مخالف ہیں وہ آپ کے مخالف نہیں بلکہ اسلام کے مخالف ہیں۔ اسلام کی سچائی کی خوشبو اس راہ میں آتی ہے۔ الغرض وہ محققانہ طبیعت رکھتے ہیں اور علوم جدیدہ میں مہارت رکھتے ہیں۔ زیادہ تر خوشی یہ ہے کہ پابند نماز خوب ہے بڑے التزام سے نماز پڑھتا ہے۔ جاتے وقت امام مسجد حافظ کو دو روپیہ … دیئے اور اس عاجز کے ملازموں کو پوشیدہ طور پر…… چند روپیہ دینے چاہے مگر میرے اشارہ سے انہوں نے انکار کیا۔ ایک مضبوط جوان دوہرا بدن کا مشابہ بدن قاضی خواجہ علی کے اور اس سے کچھ زیادہ۔ خدا تعالیٰ اس کو استقامت بخشے۔ کرنول احاطہ مدراس میں منصف ہے۔ آنمکرم بھی اس سے خط وکتابت کریں ان کے پتہ کا ٹکٹ بھیجتا ہوں۔ مگر ٹکٹ میں بلور لکھا ہے وہاں سے بدلی ہوگئی ہوگی۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۳؍ جنوری ۱۸۹۲ء
یہ وعدہ کر کے گئے ہیں کہ ازالہ اوہام کے بعض مقامات انگریزی میں ترجمہ کر کے بھیج دوں گا۔ ان کو چھپوا کر شائع کر دینا اور ازالہ اوہام کی دو جلد لے گئے ہیں۔ قیمت دینے پر اصرار کرتے تھے مگر نہیں لی گئی۔
مکتوب نمبر۸۶
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم حضرت مولوی صاحب سلمہ تعالیٰ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کل مفصل حال اپنی علالت طبع کا لکھ چکا ہوں۔ رات قریباً اٹھارہ دفعہ بول کی حاجت ہوئی اور تمام رات بے چینی اور بیداری میں گذری۔ چار بجے کے قریب کچھ نیند آئی۔ امید کہ توجہ فرما کر کوئی تجویز کر کے بھیج دیں گے کہ ضعف بہت ہوتا جاتا ہے۔ شاید ضعف قلب کے خواص میں سے یہ بھی ہے کہ کثرت سے پیشاب آتا ہے اور پیشاب سے ضعف ہو جاتا ہے۔ امید کہ خداوند کریم اپنے فضل سے شفا بخشے گا۔ اسی طرح دیکھا گیا ہے کہ جب کوئی سخت عارضہ ہوتا ہے تو خواوند کریم اپنی طرف سے شفا بخشتا ہے۔ اسی طرح ایک دفعہ زحیر اور اسہال خونی کی سخت بیماری ہوئی۔ یہاں تک کہ بظاہر زندگی سے یاس کلّی ہوگئی اور ایک شخص جو میرے ساتھ ہی بیمار ہوا تھا وہ فوت ہو گیا۔ لیکن اس نازک حالت میں خدا تعالیٰ نے اپنی طرف سے ایک عجیب طور سے شفا بخشی اور یہ الہام ہوا۔
وان کنتم فی ریب مما نزلنا علی عبدنا فاتوا بشفاء من مثلہ
ایسا ہی اس دوسری بیماری میں بھی جب حال قریب موت ہوا تو خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا۔ الابرا۔ سو یقین رکھتا ہوں کہ خداوند کریم اس بیماری سے نجات بخشے گا۔
فضل احمد نے جموں سے بڑا شکریہ کا خط لکھا ہے کہ حضرت مولوی صاحب نے بڑی جدوجہد اور توجہ سے میرا معالجہ کیا اور نیز درخواست کرتا ہے کہ مولوی صاحب کٹوعہ میں میری تعیناتی کرا دیں اس کو لکھا گیا تھا کہ دوچار روز کے لئے مل جائے۔ معلوم نہیں وہ کیوں نہیں آیا اور صاحبزادہ افتخار احمد صاحب کی والدہ نہایت الحاح سے عرض کرتی ہیں کہ افتخار احمد کی ہمشیرہ چند روز کیلئے ہم کو مل جاویں اور نیز سیالکوٹ سے مختار بھی مل جاوے اور پھر اکٹھی چلی جاویں پس اگر خود آنمکرم کو فرصت ہو تو نہایت خوشی کی بات ہے کہ مدت کے بعد آنمکرم کی ملاقات سے فرحت حاصل ہو اور ان کا مطلب بھی پورا ہو جائے اور ہمارا بھی۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از لدھیانہ
۷؍ اپریل ۱۸۹۳ء
مکتوب نمبر۸۷
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم حضرت مولوی صاحب ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
شیخ محمد عرب کا خط آیا تھا۔ آپ کی خدمت میں ارسال ہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جب استطاعت و کمی بیشی وقت جو مل سکے ان کو دے دیں اور اگر کچھ کم ہو تو ملاطفت سے استمالت طبع فرماویں اور اس عاجز کی طبیعت آج بہت علیل ہو رہی ہے ہاتھ پاؤں بھاری اور زبان بھی بھاری ہو رہی ہے۔ مرض کے غلبہ سے نہایت لاچاری ہے مجھ کو ایک مرتبہ آنمکرم نے کسی قدر مشک دیا تھا وہ نہایت خالص تھا اور مجھ کو بہت فائدہ اس سے ہوا تھا۔ اب میں نے کچھ عرصہ ہوا لاہور سے مشک منگوائی تھی اور استعمال بھی کی مگر بہت کم فائدہ ہوا۔ بازاری چیزیں مغشوش ہوتی ہیں۔ خاص کر مشک۔ یہ تو مغشوش ہونے سے خالی نہیں ہوتی چونکہ میری طبیعت گری جاتی ہے اور ایک سخت کام کی محنت سر پر ہے اس لئے تکلیف دیتا ہوں کہ ایک خاص توجہ اس طرف فرماویں اور مشک کو ضرور دستیاب کریں بشرطیکہ وہ بازاری نہ ہو کیونکہ بازاری کا تو چند دفعہ تجربہ ہوچکا ہے۔ اگرچہ خشک دو ماشہ یا تین ماشہ ہو وہ بالفعل کفایت کرے گا۔ مگر عمدہ ہو اگر اصلی نافہ جو مصنوعی نہ ہومل جائے تو نہایت خوب ہے۔ مگر جلد ہو۔ کتاب چھپ رہی ہے شائد تین جز کے قریب چھپ گئی ہے۔ زیادہ خیرت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۲۴؍ اگست ۱۸۹۲ء
مکتوب نمبر۸۸
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم حضرت مولوی صاحب سلمہ تعالیٰ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کل کی ڈاک میں آنمکرم کا محبت نامہ پہنچ کر بوجہ بشریت اس کے پڑھنے سے ایک حیرت دل پر طاری ہوئی۔ مگر ساتھ ہی دل پر کھل گیا۔ یہ خداوند حکیم و کریم کی طرف سے ایک ابتلاء ہے۔ انشاء اللہ القدیر کوئی خوف کی جگہ نہیں۔ اللہ جلشانہ کی پیار کی قسموں میں سے یہ بھی ایک قسم پیار کی ہے کہ اپنے بندے پر کوئی ابتلاء نازل کرے۔
ایک خواب
مجھے تین چار روز ہوئے کہ ایک متوحش خواب آئی تھی جس کی یہ تعبیر تھی کہ ہمارے ایک دوست پر دشمن نے حملہ کیا ہے اور کچھ ضرر پہنچاتا ہے مگر معلوم ہوتا ہے کہ دشمن کا بھی کام تمام ہو گیا۔ میں نے رات کو جس قدر آنمکرم کے لئے دعا کی اور جس حالتِ پُرسوز میں دعا کی اس کو خداوند کریم خوب جانتا ہے اور ابھی اس پر بفضلہ تعالیٰ بس نہیں کرتا اور چاہتا ہوں…… کہ خداوندکریم سے کوئی بات دل کو خوش کرنے والی سنوں۔ اگر خدا تعالیٰ نے چاہا تو چند روز تک اطلاع دوں گا اور انشاء اللہ القدیر آپ کے لئے دعا کروں گا جو کبھی کبھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک یگانہ رفیق کے لئے کی جاتی ہے۔ ہمیں جو ہمارے بادشاہ ہمارا حاکم ذوی الاقتدار زندہ حی و قیوم موجود ہے جس کے آستانہ پر ہم گرے ہوئے ہیں جس قدر اس کی مہربانیوں اس کے فضلوں اس کے عجیب قدرتوں اس کی عنایات خاصہ پر بھروسہ ہے اس کا بیان کرنا غیر ممکن ہے۔ دعا کی حالت میں یہ الفاظ منجاب اللہ زبان پر جاری ہوئے۔ نوی علیہ (رذ) لاولی علیہ اور یہ خدا تعالیٰ کا کلام تھا اور اس کی طرف سے تھا۔
آج رات خواب میں دیکھا کہ کوئی شخص کہتا ہے کہ لڑکے کہتے ہیں کہ عید کل تو نہیں پر پرسوں ہوگی۔ معلوم نہیں کل اور پرسوں کی کیا تعبیر ہے۔ مجھے معلوم نہیں کہ ایسا پُر اشتعال حکم کسی اشتعال کی وجہ سے دیا گیا ہے۔ کیا بدقسمت وہ ریاست ہے جس سے ایسے مبارک قدم نیک بخت اور سچے خیر خواہ نکالے جائیں اور معلوم نہیں کہ کیاہونے والا ہے۔
حالات سے مجھے بہت جلد مفصّل اطلاع بخشیں اور یہ عاجز انشاء اللہ القدیر ثمرات بینہ دعا سے اطلاع دے گا۔ بفضلہ دمنہٖ تعالیٰ۔ مجھے فصیح کی نسبت حالات سن کر نہایت افسوس ہوا۔ اپنے محسن کا دل سخت الفاظ سے شکستہ کرنا اس سے زیادہ اور کیا نااہلی ہے۔ خدا تعالیٰ ان کو نادم کرے اور ہدایت بخشے۔
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
از قادیان
۲۲؍ اگست ۱۸۹۲ء
کافی نہیں۔ اس لئے بعض دوستوں کو تکلیف دینا اس کاروائی کے لئے ضروری سمجھا گیا۔آنمکرم اس کارخانہ کے لئے بیس … روپیہ ماہواری چندہ دیتے ہیں۔ سو اگر بندوبست ہو سکے اور فوق الطاقت تکلیف نہ ہو۔تو اڑھائی مہینہ کا چندہ ۵۰… روپیہ بھیج دیں۔ جب تک یہ ارھائی مہینہ گزر جائیں۔ یہ چندہ محسوب ہوتا رہے گا۔ اس طور سے ایسے ضروری وقت میں مدد مل جائے گی۔ورنہ پریسوں کے توقف میں خد اجانے کس وقت کتابیں نکلیں۔ کیونکہ تاخیر میں بہرحال آفات ہیں۔ رسالہ نور القرآن نمبر ۲ چھپ رہا ہے اور ست بچن اور آریہ دھرم بعض بیرونی شہادتوں کے انتظار میں معرض تعویق ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۷؍ اکتوبر ۱۸۹۵ء
(۲۳۵) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
مبلغ پچاس …روپے مرسلہ آپ کے معہ ۵ شیشی عطر کے مجھ کو پہنچ گئے۔ جزاکم اللہ خیرا۔ باقی سب طرح سے خیریت ہے۔ تینوں رسالے چھپ رہے ہیں۔ آپ کا ڈاک کا خط مجھ کو پہنچ گیا تھا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۵؍ نومبر ۱۸۹۵ء
(۲۳۶) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ بات یہ ہے کہ خد اتعالیٰ کی وحی کئی قسم کی ہوتی ہے اور وحی میں ضروری نہیں ہوتا کہ الفاظ بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوں۔ بلکہ بعض وحیوںمیں صرف نبی کے دل میں معافی ڈالے جاتے ہیں اور الفاظ نبی کے ہوتے ہیں اور تمام وحییں اسی طرح کی ہوئی ہیں۔ مگر قرآن کریم کے الفاظ اور معانی دونوں خد اتعالیٰ کی طرف سے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ پہلی وحی کے معانی بھی معجزہ کے حکم میں تھے۔ مگر قرآن شریف معانی اور الفاظ دونوں کے رُو سے معجزہ ہے اور تورات میں یہ خبر دی گئی تھی کہ وہ دونوں کے رُو سے خد ا تعالیٰ کی طرف سے ہوگا۔ تفصیل اس کی انشاء اللہ القدیر بروقت ملاقات سمجھا دوں گا۔ نقل خط امام الدین بھیج دیں۔ وہ نیم مرتد کی طرح ہے۔
خاکسار
غلام احمد
نوٹ:۔ اس خط پر تاریخ درج نہیں اور افسوس ہے کہ لفافہ محفوظ نہیں۔ مگر سلسلہ مکتوبات ظاہر کرتا ہے کہ یہ نومبر ۱۸۹۵ء کا مکتوب ہے۔(عرفانی)
(۲۳۷) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
افسوس کہ مجھ کو سوائے متواتر دو خط کے اور کوئی خط نہیں پہنچا۔ چونکہ دنیا سخت ناپایدار اور اس چند روزہ زندگی پر کچھ بھی بھروسہ نہیں۔ مناسب ہے کہ آپ التزام اور توبہ اور استغفار میں مشغول رہیں اور تدبر سے تلاوت قرآن کریم کریں اور نماز تہجد کی عادت ڈالیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو قوت بخشے۔ آمین۔
اشتہار چار ہزار… چھپ گیا ہے۔ امید کہ آپ کو پہنچ گیاہوگا۔باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
میاں نور احمد صاحب کوالسلام علیکم۔
(۲۳۷) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
ضروری کام یہ ہے کہ جو (باوا) نانک (صاحب) نے کمالیہ ضلع ملتان میں چلہ کھینچا تھا۔ اس کے بارے میں منشی داراب صاحب سے دریافت ہو اکہ کس بزرگ کے مزار پر چلہ کھینچا تھا اور وہ مزار کمالیہ گائوں کے اندر ہے یا باہر ہے اور اس بزرگ کا نام کیا ہے اور کس سلسلہ میں وہ بزرگ داخل تھے اور کتنے برس ان کو فوت ہوئے گزر گئے۔
دوسرے یہ کہ کمالیہ میں کوئی مقام چلہ نانک کا بنا ہوا موجود ہے یا نہیں اور اس مقام کا نقشہ کیا ہے اور اس مقام کے پا س کوئی مسجد بھی ہے یا نہیں اور وہ مقام روبقبلہ ہے یا نہیں؟
تیسرے یہ کہ اگر منشی داراب صاحب کو کسی قسم کے (باوا) نانک( صاحب) کے سفر یاد ہوں۔ جو گرنتھ میں موجود ہوں۔ جو ہمارے مفید ہوں اور ان کا حوالہ یا دہو تو وہ بھی لکھ دیں۔
چوتھے یہ کہ کیا یہ ثابت ہو سکتا ہے کہ (باوا)نانک( صاحب ) کسی مسلمان بزرگ کا مرید ہوا تھا۔
اور آپ کی خدمت میں ایک نوٹس بھیجا جا تا ہے۔ اس کے متعلق جہاں تک ممکن ہو دستخط کرا کر بھیج دیں اور ایسے دستخط بھی بھیج دیں اور جو گورنمنٹ کی طرف درخواست جائے گی۔ اس پر دستخط کرائے جائیں۔
پیچھے سے نقل درخواست اور نقشہ گواہوں کے لئے بھیج دوں گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
نوٹ:۔ اس خط پر تاریخ درج نہیں اور لفافہ محفوظ نہیں یہ ۱۸۹۵ء کا مکتوب ہے۔ جب کہ ست بچن زیر تالیف تھا۔(عرفانی)
(۲۳۹) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
رسالہ عربی طبع ہور ہا ہے اور جو آپ نے اس کی مدد کے لئے ارادہ فرمایا ہے۔ خد اتعالیٰ آپ کو جزائے خیر بخشے۔ لیکن چونکہ مطبع کے لئے اس وقت روپیہ کی ضرورت ہے۔ یعنی کاغذ وغیرہ کے لئے سو بہتر ہے کہ وہ بیس …روپیہ جو آپ نے وعدہ فرمایا ہے وہ مطبع سیالکوٹ میں یعنی پنجاب پریس سیالکوٹ میں بنام منشی غلام قادر صاحب فصیح مالک مطبع ارسال فرمادیں۔ تا اس کام میں لگ جائے۔ کتابیں تو اکثر مفت تقسیم ہوں گی۔ مگر خرچ کی اب ضرورت ہے اور روپیہ میرے پاس نہیں بھیجنا چاہئے۔ فصیح صاحب کے پاس جانا چاہئے اور اس میں لکھ دیں۔ میرے نزدیک اس قدر لمبی رخصت ابھی لینی قابل مشورہ ہے۔
نوٹ:۔ یہ مکتوب اسی قدر ہے۔ حضرت اقدس اپنا تاریخ وغیرہ کچھ نہیں لکھ سکے۔ یہ کمال استغراق کا نتیجہ ہے۔(عرفانی)
(۲۴۰) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کامحبت نامہ پہنچا۔ امید کہ میرا کارڈ بھی پہنچا ہو گا۔ تینوں رسالے سیالکوٹ میں چھپ رہے ہیں۔ درمیان میں بباعث بیماری پریس مین کے توقف ہو گئی ہے۔ لیکن اب برابر کام ہوتا ہے۔ امید کہ انشاء اللہ القدیر جلدچھپ جائیں گے۔ شیخ رحمت اللہ صاحب گجرات نے ان کی امداد کے لئے ایک سو روپیہ سیالکوٹ بھیج دیا ہے وہ بمبئی گئے ہیں۔ وہیں انشاء اللہ دوبارہ تقسیم کے بلادب عرب میں بندوبست کریں گے۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
ضلع گورداسپور
(۲۴۱)ملفوف
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کوبار بار تکلیف دیتے شرم آتی ہے۔ تمام جماعت میں ایک آپ ہی ہیں جو اپنی محنت او رکوشش کی تنخواہ کا ایک ربع ہمارے سلسلہ کی امداد میں خرچ کرتے ہیں۔ آپ کو اس صدق و ثبات کا خد اتعالیٰ بدلہ دے گا۔ آمین۔
اس وقت ایک شدید ضرورت کے لئے چند دوستوں کولکھا گیا ہے اور اسی ضرورت کے لئے آپ کو تکلیف دیتا ہوں کہ اگر آپ مبلغ بیس… روپیہ بطور پیشگی اپنے چندہ میں بھیج دیں۔ تو پھر جب کل حساب چندہ پیشگی طے نہ ہولے۔ آیندہ کچھ نہ بھیجیں۔ یہ روپیہ جہاں تک ممکن ہو روانہ فرمادیں۔ جزاکم اللہ خیرا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
یکم مئی ۱۸۹۶ء
آپ نے پہلے چالیس … پیشگی چندہ روانہ کیا تھا اور اب ۲۰… آپ سے طلب کیا گیا ہے۔ پس جب تک یہ ساٹھ روپیہ… چندہ ایام ختم نہیں ہوں گے۔ تب تک آپ سے طلب نہ کیا جائے گا۔
والسلام
(۲۴۲)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
میں آپ سے یہ دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ مرزا احمد بیگ کی لڑکی کے نکاح کی نسبت جو آپ نے خبر دی تھی کہ بیس روز سے نکاح ہو گیا ہے۔ قادیان میں اس کی خبر کچھ اصلیت معلوم نہیں ہوتی۔ یعنی نکاح ہو جانا کوئی شخص بیان نہیں کرتا۔ لہذا مکلف ہوں کہ اس امر کی نسبت اچھی طرح تحقیقات کر کے تحریر فرماویں کہ نکاح اب تک ہو ایا نہیں اور اگر نہیں ہو اتو کیا وجہ ہے؟ مگر بہت جلد جواب ارسال فرماویں اور نیز سلطان احمد کے معاملہ میں ارقام فرماویں کہ اس نے کیا جواب دیا ہے؟
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
ضلع گورداسپور
۲۸؍ ستمبر ۱۸۹۱ء
(۲۴۳) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آج آنمکرم کا کارڈ پہنچا۔ مجھے تعجب ہے کہ بیس روپیہ … کی رسید کے بارے میں میں نے ایک کارڈ اپنے ہاتھ سے لکھاتھا معلوم ہو تا ہے کہ یا تو وہ کارڈ اسی سے گم ہو گیا۔ جس کا ڈاک میں ڈالنے کے لئے دیا گیا تھا اور یا تو ڈاک میں گم ہو گیا۔ خدا تعالیٰ نے دعا کا کچھ تو اثر کیا کہ اس انگریز نے آپ کے گھوڑے کے بارے میں کچھ سوال نہیں کیا او رپھر اس کے فضل پر امید رکھنی چاہئے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۱۲؍ مئی ۱۸۹۸ء
(۲۴۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
انشاء اللہ میں آپ کے صبر کے لئے کئی دفعہ دعاکروں گا۔ خدا تعالیٰ آپ کو صبر بخشے اور اس لڑکے کو جس کا آپ ذکر کرتے ہیں۔ کسی تعطیل میں آپنے ساتھ لئے آویں۔
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۵؍ فروری ۱۸۹۶ء
(۲۴۵) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ چونکہ وفات پسر مرحوم کی خدا تعالیٰ کا فضل ہے اور صبر پر وہ اجر ہے۔ جس کاکوئی انتہاء نہیں۔ اس لئے آپ جہاں تک ممکن ہو۔ اس غم کو غلط کریں۔ خد ا تعالیٰ انعم البدل اجر عطا کردے گا۔ وہ ہر چیزپر قادر ہے۔ خدا تعالیٰ کے خزانوںمیں بیٹوں کی کمی نہیں۔ غم کو انتہاء تک پہنچانا اسلام کے خلاف ہے۔
میری نصیحت محض للہ ہے۔ جس میں سراسر آپ کی بھلائی ہے۔ اگر آپ کو اولاد اور لڑکوں کی خواہش ہے۔ تو آپ کے لئے اس کا دروازہ بند نہیں ۔ علاوہ اس کے شریعت اسلام کے رُو سے دوسری شادی بھی سنت ہے۔ میرے نزدیک مناسب ہے کہ آپ دوسری شادی بھی کر لیں۔ جو باکرہ ہو اور حسن ظاہری اور پوری تندرستی رکھتی ہو اور نیک خاتون ہو۔ اس سے آپ کی جان کو بہت آرام ملے گا۔ انسان کی تقویٰ تعدد ازواج کا چاہتی ہے۔ اچھی بیوی جو نیک اور موافق اورخوبصورت ہو تمام غموں کو فراموش کر دیتی ہے۔ قرآن شریف سے ثابت ہے کہ اچھی بیوی بہشت کی نعمت ہے۔ اس کی تلاش ضرور رکھیں۔ آپ ابھی نوجوان ہیں۔ خد اتعالیٰ بہت اولاد دے دے گا۔اس کے فضل پر قوی امید رکھیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۶؍ جون ۱۸۹۰ء
(۲۴۶) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کاعنایت نامہ پہنچا۔ مولوی صاحب کوٹلہ مالیر کی طرف تشریف لے گئے ہیں۔ نواب صاحب نے چھ ماہ کے لئے مولوی صاحب کو بلایا ہے۔ مگر شاید مولوی صاحب ایک ماہ یادو ماہ تک رہیں۔ یا کچھ زیادہ رہیں۔ حامد علی نے پختہ عزم کر لیا ہے۔ اب وہ شاید باز نہیں آئے گا۔ جب تک آخیر نہ دیکھ لے۔ دراصل دنیا طلبی ایک بلا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میں اپنے غم کو موت کے برابر دیکھ رہا ہوں۔ کاش یہ غم لوگوں کو ایمان کا ہو۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
نوٹ:۔ اس پرخط کوئی تاریخ نہیں۔ مگر قادیان مہر ۳؍ جولائی ۱۸۹۶ء کی ہے۔ چوہدری صاحب ان ایام میں گورداسپور میں تھے۔ حافظ حامد علی مرحوم نے اس وقت افریقہ جانے کا ارادہ کیا تھا۔ وہ اپنی بعض خانگی ضرورتوں اور مشکلات کی وجہ سے بہت تکلیف میں تھے۔ حضرت اقدس کا یہ منشا نہ تھا۔ نتیجہ یہی ہوا کہ حافظ صاحب وہاں سے ناکام واپس آئے اور پھر کہیں جانے کانام نہ لیا۔(عرفانی)
(۲۴۷) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
صاحبزادہ ظہور احسن از شرارت ہائے برادرعم زادہ خود ظہور الحسین نابینا بیساء منظوم است۔ مناسب کہ حتی الوسع برحال اوشان نظر ہمدردی کردہ درمواسات او شان دریغ نفرمایند۔ کہ ایں ہمدردی از قبیل اعانت مظلوماں است۔ ومبلغ …روپیہ رسیدو انجام آتھم فرستادہ مے شود۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
(۲۴۸) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
اس وقت میں نے تاکیداً میاں منظور محمد صاحب کو کہہ دیا ہے کہ ایک نقل اس خط کی جو امیر کابل کی طرف لکھا گیا ہے۔ آپ کی طرف بھیج دیں۔ امیدکہ کل یا پرسوں تک وہ نقل آپ کی خدمت میں پہنچ جائے گی۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۱؍ جون ۱۸۹۶ء
اور میں انشاء اللہ القدیر اب دلی توجہ سے آپ کی اولاد کے لئے دعا کروں گا تسلی رکھیں۔میں ارادہ کرتا ہوں ۔ اگر خد اتعالیٰ چاہے اور کثرت مصارف نہ ہو۔ مع عیال کے دو تین ماہ تک ڈلہوزی میں چلا جائوں۔ کیا آپ کا کوئی ایسا شخص وہاں دوست ہے جو اس کی معرفت مکان کا بندوبست ہو سکے۔ معہ عیال کس سواری پر جا سکتے ہیں اور کرایہ کیاخرچ آئے گا۔ تحریر فرما ویں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
(۲۴۹) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
خط پہنچا۔ پڑھ کرچاک دیا گیا۔ ڈلہوزی جانے کی تجویز ہنوز ملتوی ہے۔ کیونکہ میرا چھوٹا لڑکا زحیر کی بیماری سے سخت بیمار ہو گیا ۔ کئی دن تو خطرناک حالت میںر ہا۔ اب ذرا سا افاقہ معلوم ہوتا ہے۔ مگر ہنوز قابل اعتبار نہیں۔ اس حالت میںکسی طرح یہ سفر نہیں ہوسکتا۔ اگر خدا چاہتا تو یہ عوارض اور موانع پیش نہ آتے۔ا ن میں کچھ حکمت ہو گی۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۴؍ جون ۱۸۹۶ء
(۲۵۰) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
اس جگہ بفضلہ تعالیٰ خیریت ہے۔ دوسرے رسالہ نور القرآن کی تیاری ہے اور سنن الرحمن چھپ رہی ہے۔ آپ کی ملاقات پر مدت گزر گئی ہے۔ ضرور دو چارروز کی تعطیل پر ملاقات کے لئے تشریف لاویں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۱۷؍ اگست ۱۸۹۵ء
(۱۵۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
اب عورت کی بالفضل ضرورت نہیں اور میاں غلام محی الدین کے لئے جناب الٰہی میں دعا کی گئی تھی۔ خد اتعالیٰ اس کو اس سخت مشکل سے مخلصی عنایت فرماوے۔ آمین ثم آمین اور آتھم کی نسبت اب جلد اشتہار نکلنے والا ہے۔ نکلنے کے بعد ارسال خدمت ہو گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۸؍ اگست ۱۸۹۶ء
(۲۵۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ بابو غلام محی الدین کے لئے دعا کی گئی ۔ اگر یاد دلاتے رہیں گے تو کئی مرتبہ دعا کی جائے گی اور برص کا نسخہ مجھ کو زبانی یاد نہیں اور نہ کوئی نسخہ مجرب ہے۔ یوں تو قربادیں میں بہت سے نسخے لکھے ہوئے ہیں۔ مگر میرا تجربہ نہیں۔ اگر کوئی عمدہ نسخہ ملاتو انشاء اللہ لکھ کر بھیج دوں گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۳؍ ستمبر ۱۸۹۶ء
(۲۵۳) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
میری طبیعت علیل ہے اور اب بھی علیل ہے۔ اس لئے زیادہ تحریر کی طاقت نہیں رہی ۔ میں نے اس مہمان خانہ کے لئے ضرورت اشد کی وجہ سے ایک کنواں لگوانا شروع کیا تھا۔ چند دوستوں کے چندہ کے لئے تکلیف بھی دی گئی۔ مگر وہ چندہ ناکافی رہا۔ا ب کنوئیں کا کام شروع ہے۔ مگر روپیہ کی صورت ندارد چاہتا ہوں۔ اگر آپ دوماہ کا چندہ چالیس … روپیہ بھیج دیں۔ توشاید اس سے کچھ مدد مل سکے۔ ابھی کام بہت ہے۔ بلکہ عمارت بھی شروع نہیں ہوئی۔ بوجہ ضعف کے زیادہ نہیں لکھ سکتا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۷؍ ستمبر ۱۸۹۶ء
(۲۵۴) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی محبی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کی خدمات متواترہ سے مجھے شرمندگی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر بخشے۔ اس وقت بباعث قحط اور کثرت مہمانوں کے ضرورتیں ہیں۔ اخراجات کا کچھ ٹھکانہ نہیں۔ اب آٹے کی قیمت کے لئے ضرورت ہے۔ اس لئے مکلف ہوں کہ اگر ممکن ہو سکے تو پھر آپ مبلغ چالیس …بطور پیشگی بھیج دیں کہ بہت ضرورت در پیش ہے اور مجھ کو اطلاع دیں کہ یہ روپیہ کس معیاد تک آپ کے وعدہ چندہ کا متکفل رہے گا تااس وقت تک آیند تکلیف دینے سے خاموشی رہے۔ یہ امر ضرور تحریر فرمادیں کہ یہ روپیہ فلاں انگریزی مہینہ تک بطور پیشگی پہنچ گیا ہے۔ باقی سب خیریت ہے۔ امید کہ دسمبر کی تعطیلات میں آپ تشریف لاویں گے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۴؍ نومبر ۱۸۹۶ء
یہ خط آپ کی خدمت میں ضرورت کے وقت لکھا گیا ہے۔ ورنہ نے وقت آپ کو تکلیف دینا مناسب نہ تھا اور نیز اس حالت میں کہ اس وقت آپ کو گنجائش نہیں۔
والسلام
(۲۵۵) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
اب تو آپ کی ملاقات پر مدت گزر گئی ۔باعث تکلیف وہی یہ ہے کہ اگر اپنے چندہ کو دو ماہ بھیج دیںیعنی … … تو اس وقت خرچ کی ضرورت پر کام آوے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۹؍ دسمبر ۱۸۹۶ء
جس وقت تک آپ کا یہ روپیہ ہو گا۔ اس سے اطلاع بخشیں۔
(۲۵۶) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کاعنایت نامہ پہنچا۔ بباعث عذر مرض کچھ مضائقہ نہیں کہ آپ روزہ رمضان نہ رکھیں۔ کسی اور وقت پر ڈال دیں۔ کتابوں کی روانگی کے لئے کہہ دیا ہے۔ میں بھی بدستور بیمار چلا جاتا ہوں۔ ہر ایک امر خد اتعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
فروری ۱۸۹۷ء
نوٹ:۔ یہ پہلا خط ہے جس پر آپ نے مرزا کا لفظ اپنے نام کے ساتھ تحریر فر مایا ہے۔
(خاکسار۔عرفانی)
(۲۵۷) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
نقل حکم نوٹس اور اظہار نورالدین عیسائی پہنچ گیا۔ مگر چٹھی انگریزی ہے اور تیز روبکار فارسی جس کے رُو سے بریت ہوئی وہ کاغذات نہیں پہنچے۔ امید آتے وقت ضرورساتھ لے آویں اور ضرور آجائیں۔ اُجرت بھیجی جائے گی۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۷؍ اگست ۱۸۹۷ء
اور جو صاحب آنا چاہتے ہیں۔ ابھی تک ان کے لئے کوئی مکان مجھ کو نہیں ملا۔ بہتر ہے کہ جس وقت مکان ملے اس وقت آویں۔
خاکسار
مرزا غلام احمد ازقادیان
(۲۵۸) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ شاید ہفتہ سے زیادہ ہو گیا کہ دوا مطلوبہ آپ کی طرف آہنی ڈبیا میں بھیج دی گئی ہے جو آپ نے بھیجی تھی۔ تعجب ہے کہ اب تک آپ کونہیں پہنچی۔ جس کو آپ نے ڈبیا دی تھی۔ اسی کے ہاتھ میں دوا بھیجی گئی تھی۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مر زا غلام احمد عفی عنہ
اشتہار جب چھپے گا۔ بھیج دیا جائے گا۔
(۲۵۹) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ شاید ہفتہ سے زیادہ ہو گیا کہ دوا مطلوبہ آپ کی طرف سے آہنی ڈبیا میں بھیجی گئی ہے۔ جو آپ نے بھیجی تھی۔ تعجب ہے کہ اب تک آپ کو نہیں بھیجی گئی۔ جس کو آپ نے ڈبیا دی تھی۔ اس کے ہاتھ میں دوا بھیجی گئی ہے۔ باقی سب خیریت ہے۔
خاکسار
غلام احمد عفی اللہ عنہ
۱۲؍ ستمبر ۱۸۹۷ء
اشتہار جب چھپے گا۔ بھیج دیا جائے گا۔
دنیا نگر میں ایک قسم کا سفید اور شفاف شہد آیا کرتا ہے۔ آپ تلاش کرا کر ایک بوتل سفید اور رتازہ شہد کی ضرور ارسال فرماویں۔
غلام احمد
(۲۶۰) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کا عنایت نامہ پہنچا اور بعد پہنچنے خط کے جناب الٰہی میں آپ کے لئے دعا کی گئی اور انشاء اللہ رات کو دعا کروںگا۔ معلوم نہیں کہ سرکاری انتظام کے موافق اب آپ کتنے روز اور گورداسپور میں ٹھہریں گے۔ باقی تا دم حال بفضلہ تعالیٰ سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۱۹؍ جنوری ۱۸۹۹ء
نوٹ:۔ تاریخ ۱۹؍ جنوری ۱۸۹۸ء درج ہے۔ جو غالباً ۱۸۹۹ء ہے۔(عرفانی)
(۲۶۱) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ میں بہت ضروری سجھتا ہوںکہ اس مقدمہ کی نقل جومحمد حسین پر ہوا تھا ۲۷؍ جنوری ۱۸۹۹ء سے پہلے جو تاریخ پیشی مقرر ہے۔ مجھ کو پہنچ جاوے کیونکہ محمد بخش ڈپٹی انسپکٹر نے محمد حسین کی صفائی کرتے ہوئے اپنے اظہار میں بیان کیا ہے کہ یہ بہت نیک چلن آدمی ہے۔ کوئی مقدمہ اس کی طرف یا اس پر نہیں ہوا۔ مگر اس جگہ سے آدمی آنا البتہ مشکل ہے۔ اسی جگہ سے خواہ اخویم بابو محمد صاحب کے ذریعہ سے کسی کو مقرر کر کے درخواست دلا دینا چاہیے اور پھر جہاں تک ممکن ہو۔ وہ درخواست جلد بذریعہ رجسٹری پہنچا دینی چاہئے۔ محمد بخش نے نہایت ناپاک اور جھوٹا اظہار دیا ہے اور صاف لکھوایا ہے کہ یہ ان کی تمام جماعت بدچلن ہے۔ اوّل کسی کے مارنے کی پیشگوئی کر دیتے ہیں۔ پھر پوشیدہ ناجائز کوششوں کے ذریعہ سے اس پیشگوئی کو پورا کرنا چاہتے ہیں اور میں قادیان میں اسی خیال سے دوسرے تیسرے روز ضرور جاتا ہوں۔ اسی وجہ سے مجھے سب کچھ معلوم ہے اور ان کاچلن اچھا نہیں خراب اور خطرناک آدمی ہیں۔ مگر محمد حسین نیک بخت اور اچھے چلن کا آدمی ہے۔ کوئی بری بات اس کی کبھی سنی نہیں گئی۔ ایسے گندہ اظہار کی وجہ سے کل میں نے گواہوں کی طلبی اور خرچہ کے لئے چار سو روپیہ کے قریب روپیہ عدالت میں داخل کیا ہے، تین سو روپیہ میں نے دیا تھا اور ایک سو گورداسپور سے قرضہ لیا گیا اور وکیلوں کو جوکچھ ۲۷؍ جنوری کی پیشی میں دینا ہے۔ وہ ابھی باقی ہے۔ شاید پانچ سو روپیہ کے قریب دینا پڑے گا او ریقینا اس کے بعد ایک یا دو پیشیاں ہوںگی۔ تب مقدمہ فیصلہ پائے گا۔ میںنے سنا ہے کہ پوشیدہ طور پر اس مقدمہ کے لئے ایک جماعت کوشش کر رہی ہے اور چندے بھی بہت ہو گئے ہیں۔ آپ اگر ملاقات ہو تو اخویم بابو محمد صاحب کو لکھ دیں کہ میں نے انتظام کیا ہے کہ اس خطرناک مقدمہ میں جو تمام جماعت پر بد اثر ڈالتا ہے جماعت کے لوگوںسے چندہ لیا جائے گا۔ سو اس چندہ میں جہاں تک گنجائش ہو۔ وہ بھی بھی شریک ہوجائیں۔ لیکن ۲۷؍ جنوری ۱۸۹۹ء سے پہلے اپنی للہی مدد ثواب آخرت حاصل کریں اور اخویم سید عبدالہادی صاحب کو بھی اطلاع دے دیں۔ اب کی دفعہ مخالفوں کی طرف سے نہایت سخت حملہ ہے اب صحابہ رضی اللہ عنہم کی سنت پر دیندار اور مخلص دوستوں کو مالی مدد سے جلد اپنا صدق دکھانا چاہیے۔ آپ کی طرف سے ۸۰… عین وقت پر پہنچ گئے۔ وہ آپ کے چندہ میں داخل ہیں۔ اب انبالہ میں بابو محمد صاحب او رسید عبدالہادی باقی ہیں۔ اگر ملاقات ہو تو بجنیہ یہ خط ان کے پاس بھیج دیں اور تاکید کر دیں کہ ۲۷؍ جنوری ۱۸۹۹ء سے پہلے ہر ایک مالی امداد پہنچنی چاہیے۔ تاکہ وکیلوں کو دینے کے لئے کام آوے۔ چند پیشیاں محض شیخ رحمت اللہ صاحب کے مال سے ہوئی ہیں۔ معلوم ہوتا ہے۔ انہوںنے تین وکیلوںکے مقرر کرنے میںایک ہزار روپیہ کے قریب خرچ کردیاہے۔ جواب تک پیشیوں میں دیتے رہیں ہیں۔، خدا تعالیٰ ان کوجزائے خیر دے۔ اب کی بیشی چار ہزار… روپیہ ضمانت کے لئے لائے تھے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
مجھے فرصت نہیں ہوئی کہ بابو صاحب کی طرف علیحدہ خط لکھوں۔ یہ آپ کے ذمہ ہو گا۔ دونوں صاحبوں کو پیغام پہنچا دیں اورخط دکھلا دیں۔
(۲۶۲) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آج کی ڈاک میں غلام محی الدین صاحب نے آپ کی طرف سے مبلغ پچاس … روپیہ اور بھیجے ہیں۔ جزاکم اللہ خیرا لجزاء۔ ابھی وہ دس روپیہ نہیں آئے۔ اس نازک وقت میں آپ کی طرف سے مجھے وہ مدد پہنچی ہے کہ بجز دعا کے اورکچھ بیان نہیں کرسکتا۔ مجھے بباعث شدت رمد اور درد چشم اور پانی جاری ہونے کی طاقت نہ تھی کہ کاغذ کی طرف نظر بھی کر سکوں۔ مگر بہر حال صورت اپنے پر جبر کر کے یہ چند سطریں لکھی ہیں۔ کل کا اندیشہ ہے۔ خاص کر کچہری کے دن کا کہ اللہ تعالیٰ آنکھوں کا درد اور بند رہنے سے بچاوے۔ نہایت خوف ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۵؍ جنوری ۱۸۹۹ء
اس سے پہلے آج ہی ایک خط صبح روانہ کر چکا ہوں۔
(۲۶۳) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
کل کی ڈاک میں مبلغ ۹۹… مرسلہ آپ کے بذریعہ منی آرڈر پہنچے تھے۔ جزاکم اللہ خیرالجزاء۔ آپ ہر ایک موقعہ پر اپنی مخلصانہ خدمات کا رضا مندی اللہ جلشانہ کے لئے ثبوت دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزاء خیر بخشے۔ آمین۔
کل میں مقدمہ پر جائوں گا۔ میری آنکھ اس وقت دکھتی ہے کہ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے۔ …درد ناک حالت میں آپ کوخط لکھا ہے۔ تا آپ کو اطلاع دے دوں۔ بباعث شدت درد آنکھ زیادہ لکھنے کی طاقت نہیں ۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۵؍ جنوری ۱۸۹۹ء
(۲۶۴) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ آپ کو خبر پہنچ گئی ہو گی کہ سب کاروائی کا لعدم ہو چکی ہے اور ا ب نئے سرے نوٹس جاری ہو گا۔ تاریخ مقدمہ ۱۴؍ فروری ۱۸۹۹ء قرار پائی ہے اور حکم دیا گیا ہے کہ دفتر انگریزی کے کلارک پیشگوئی بابت آتھم اور پیشگوئی بابت لیکہرام اور پیشگوئی حال کا ترجمہ کر کے پیش کریں۔ معلوم ہوتا ہے کہ نیت بخیر نہیں ہے۔ محمد حسین کو غالباًبری کر دیا ہے اور اس گروہ کے لوگ یہی مشہور کرتے ہیں اور اس کی نسبت نوٹس بھیجنے کی کچھ بھی تیاری نہیں۔ وہ لوگ بہت خوش ہیں۔ اس حاکم نے ایک ٹیڑھی لکیر اخیتار کی ہے کہ قانون سے اس کا کچھ تعلق نہیں۔ محمد بخش ڈپٹی انسپکٹر بڑی شوخی اور بد زنانی سے ظاہر کر رہا ہے اور علانیہ ہر ایک کے پاس کہتا ہے کہ میں ضمانت کرائوں گا۔سزا دلائوں گا اور ظاہراً یہ بات سچ معلوم ہوتی ہے۔ کیونکہ یہ مجسٹریٹ اس کی عزت کرتا ہے اور بڑ ا کچھ اعتبار ہے۔ ہر ایک دفعہ میں دیکھتا ہوں کہ میری دانست اس کی نیت نیک ہے لیمار چنڈ بھی بگڑ ا ہوا ہے۔
جمعہ کی رات میںنے خواب دیکھا ہے کہ ایک شخص کی درخواست پر میںنے دعا کر کے ایک پتھر یا لکڑی کی ایک بھینس بنا دی ہے۔ اس بھینس کی بڑی بڑی آنکھیں ہیں۔ ظاہر معلوم ہوتا ہے کہ اس مقدمہ کے متعلق یہ خواب ہے کہ کیونکہ پتھر یا لکڑی سے وہ منافق حاکم مراد ہے۔ جس کاارادہ یہ ہے کہ بدی پہنچاوے اور جس کی آنکھیں بند ہیں اور پھر بھینس بن جانا اور بڑی بڑی آنکھیں ہو جانا۔ اس کی یہ تعبیر معلوم ہوتی ہے کہ یک دفعہ کوئی ایسے امور پید اہو جائیں۔ جن سے حاکم کی آنکھیں کھل جائیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب میںنے بھینس بنائی ہے تو اس نشان کے ظاہر ہونے سے کہ خد اتعالیٰ نے ایک لکڑی یا ایک پتھر کوایک سفید حیوان بنا دیا جو دودھ دیتا ہے مجھے بہت خوشی ہوئی ہے اور یک دفعہ سجدہ میں گرا ہوں اور بلند آواز سے کہتا ہوں،ربی الا علی ربی الارعلی۔اور سجدہ میں گرنے کی بھی یہی تعبیر ہے کہ دشمن پر فتح ہے۔ اس کی تاید میںکئی الہامات ہوئے ہیںایک یہ الہام ہے:۔
انا تجالدنا فاتطع ابعد و اسبابہ۔ یعنی ہم نے دشمن کے ساتھ تلوار سے لڑائی کی۔ پس ٹکرے ٹکڑے ہو گیا اور اس کے اسباب بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔ آنیدہ خدا تعالیٰ بہتر جانتا ہے اور اس خواب اور الہام کا مصداق کونسا امر ہے؟کیا آپ کو معلوم ہے کہ محمد بخش کے کہاں گھر ہیں؟ اور ذات کا کون ہے۔ مجھے سرسری طور پر معلوم ہو اہے کہ ذات کا … ہے اور گوجرانوالہ میں اس کے گھر ہیں اور معلوم ہو اہے کہ نظام الدین اس کے ایک شادی پر گوجرانوالہ میں گیا تھا اور تنبول دیا گیا۔ اگر اس کا کچھ پتہ آپ کو معلوم ہو ضرور مطلع فرماویں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمدعفی عنہ
۵؍ فروری ۱۸۹۹ ء قادیان
(۲۶۵) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
۱۶؍ فروری ۱۸۹۹ء
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
کل میں پٹھان کوٹ سے واپس آگیا ۔ ۲۴؍ فروری ۱۸۹۹ء میرے بیان کے لئے اور فیصلہ کے لئے مقرر ہوئی ہے۔ حالات بظاہر ابتر اور خراب معلوم ہوتے ہیں۔ محمد حسین اور محمد بخش کے اظہارات تعلیم سے کامل کئے گئے ہیں۔مجھ پر محمد حسین نے بغاوت سرکار انگریزی اور قتل لیکھرام کا اپنے بیان میں الزام لگایا ہے۔ محمد بخش نے لکھوایا ہے۔ ان کی حالت بہت خطرناک ہے۔ سرحدی لوگ آتے ہیں۔ اب بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے۔ وہی ہوتا ہے۔ دشمنوں نے افتراء میں کچھ فرق نہیں کیا میں نے آتے وقت حکیم فضل الدین صاحب کو ایک درخواست لکھ دی تھی اور مبلغ …۵۲ چار گواہوں کے طلب کرانے کے لئے دے دیئے تھے مگر نہایت خراب حالت ہے کہ کچھ امید نہیں کہ طلب کئے جاویں۔ منجملہ ان گواہوں کے ایک رانا جلال الدین خاں ہیں۔ دوسرے شیخ ملک یار اور تیسرے منشی غلام حیدر تحصیلدار چوتھے محمد علی شاہ صاحب ساکن قادیان۔ لوگ کہتے ہیں کہ رانا جلال ا لدین خان صاحب اگر طلب ہوئے تو محمد بخش اور دوسرے لوگ کوشش کریں گے کہ اس کا اظہار اپنی مرضی سے دلادیں۔
ہرچہ مرضی مولیٰ ہماں اولیٰ
اوّل تو مجھے امید نہیں کہ طلب کئے جاویں۔ مجسڑیٹ خواہ نخواہ درپے توہین اور سخت بدظن معلوم ہوتا ہے۔ میرے وکیلوں نے یہ حالات دریافت کرکے یہی چاہا تھا کہ چیف کورٹ میں مثل کو منتقل کرادیں۔ لیکن یہ بات بھی نہیں ہوسکی۔ اگر آپ کو رانا جلال الدین خاں کی نسبت کچھ مشورہ دینا ہوتو اطلاع بخشیں۔ حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ اول تو مجسڑیٹ گواہ بلانے منظور نہیں کرے گا۔ چنانچہ وہ پہلے بھی ایما کرچکا ہے اور کرے بھی تو غالباً بند سوال بھیجے گا۔ رانا جلال الدین خان کا مقام گوجرانوالہ لکھایا گیا ہے۔ شاید وہیں ہیں یا اور جگہ ہیں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
(۲۶۶) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
میں آپ کو اطلاع دیتا ہوں کہ میری گواہی کے لئے رانا جلال الدین خان صاحب عدالت میں طلب کئے گئے ہیںاور ۲۴؍فروری ۱۸۹۹ء تاریخ پیشی مقرر ہے اور چونکہ محمد حسین نے صاف طور پر لکھوادیا ہے کہ ظن غالب ہے کہ لیکھرام کے قاتل یہی ہیں۔ اس لئے لیکھرام کی مسل بھی طلب ہوئی ہے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
نوٹ:۔ اس خط پر تاریخ کوئی نہیں۔ مگر تسلسل خط وکتابت سے واضح ہے کہ یہ ۱۶؍فروری ۱۸۹۹ء کے بعد کا ہے۔(عرفانی)
(۲۶۷) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
۲۴؍فروری ۱۸۹۹ء کو مقدمہ پیش ہوکر بغیر لینے گواہوں کے مجھے بری کیا گیا۔ استفاثہ کی طرف سے گواہی گذر چکی تھی اور فریقین کے لئے دو نوٹس لکھے گئے اور ان پر دستخط کرائے گئے۔ جن کا یہ مضمون تھا کہ نہ کسی کی موت کی پیشگوئی کریں گے اور نہ دجال کذاب کافر کہیں گے اور نہ قادیان کو چھوٹے کاف سے لکھیں گے اور نہ بٹالہ کو طاء کے ساتھ اورنہ گالیاں دیں گے اور ہدائت کی گئی کہ یہ نوٹس عدالت کی طرف سے نہیں ہے اور نہ اس کو مجسڑیٹ کا حکم سمجھنا چاہیئے۔ صرف خدا کے سامنے اپنا اپنا اقرار سمجھو۔ قانون کو اس سے کچھ بھی تعلق نہیں۔ ہمارا کچھ دخل نہیں۔ مجھے کہا گیا کہ آپ کو ان کی گندی گالیوں سے تکلیف پہنچی ہے ۔ آپ اختیار رکھتے ہیں کہ بذریعہ عدالت اپنا انصاف لیں اور مثل خارج ہوکر داخل دفتر کی گئی۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۷؍فروری ۱۸۹۹ء
نوٹ:۔ میرا خیال ہے کہ ۲۷؍فروری ۱۸۹۹ء ہے۔ جلدی سے ۷؍فروری ۱۸۹۹ء لکھا گیا ہے۔ (عرفانی)
(۲۶۸) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
بلٹی آم پہنچ کر آج دونوں چیزیں آم اور بسکٹ میرے پاس پہنچے۔ جزاکم اللّٰہ خیرا۔ افسوس کہ آم کل کے کل گندے اور خراب نکلے۔ اسی خیال سے میںنے رجسٹری شدہ خط آپ کی خدمت میں بھیجا تھا۔ تا ناحق آپ کانقصان نہ ہو۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ آم اس خط کے پہنچنے سے پہلے روانہ ہو چکے تھے۔ افسوس کہ اس قدر خرچ آپ کی طرف سے ہوا۔ خیر انما الا عمال بالینات۔ کل میرے نام پر ایک پروانہ تحصیل سے آیا تھا۔ اس میں لکھا تھا کہ پتہ بتائو کہ عبدالواحد اور عبدالغفور اور عبدالجبار کہاں ہیں۔ خد اجانے اس میں کیا بھید ہے۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی اللہ عنہ
(۲۶۹) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آم مرسلہ آنمکرم پہنچے۔ جزاکم اللّٰہ خیرالجزاء۔ اگر ممکن ہو سکے تو اسی قدر اور آم بھیج دینا ۔ کیونکہ مہمان عزیز بہت ہیں۔ بہت شرمندگی ہوتی ہے۔ اگر کوئی چیز آوے اور بعض محروم رہیں۔ افسوس کہ آپ کو عقیقہ پر رخصت نہ مل سکی۔ خیر دوسرے موقعہ پر بھی مسمی عبدالجبار گرفتار ہو کر گورداسپور میں آگیاہے۔ کہتے ہیں کہ پھر مقدمہ بنایا جائے گا۔ خدا تعالیٰ ہر ایک بہتان سے بچاوے۔ مثل سے کسی قدر صفائی سے ظاہر ہے کہ پہلا اظہار عبدالجبار کا جھوٹا تھا۔ جو پادریوں کی تحریک سے لکھا گیا ہے۔ مگر پھر تفتیش ہو گی کہ کون سا اظہار جھوٹا ہے۔ شاید اب پادریوں کو پھر کسی جعلسازی کاموقعہ ملے اور پھر اس کو طمع دے کر یہ بیان لکھو ادیں کہ پہلا اظہار ہی سچا ہے اور دوسرا جھوٹا۔
کچھ معلوم نہیں کہ ایسا صاف مقدمہ فیصل شدہ پھر کیوں دائر کیا گیاہے۔ سزا اگر عبدالجبار کو دینا ہے توپہلا حاکم دے سکتا ہے اورسزا دینے کے لئے بہت سی تحقیقات کی ضرورت نہیں۔ عبدالجبار خود اقرار لکھاتا ہے۔ یعنی کپتان ڈگلس صاحب کے روبرو کا پہلا اظہار میرا جھوٹا ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۳۰؍ جون ۱۸۹۹ء
(۲۷۰) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
پہلا خط میں نے آم پہنچنے سے پہلے لکھا تھا۔ اب اس وقت جووقت عصر ہے۔ آم آئے اور کھولے گئے تو سب کے سب گندے اور سڑے ہوئے نکلے اور جو چند خوبصورت بیداغ معلوم ہوئے ان کا مزہ بھی تلخ رسوت کی طرح ہو گیا تھا۔غرض سب پھینک دینے کے لائق ہیں۔ مجھے افسوس ہے کہ آپ نے اس قدر تکلیف اٹھائی اور خرچ کیااور ضائع ہوا۔ مگر پھر بھی ضائع نہیں ہوا۔ کیونکہ آپ کو بہرحال ثواب ہو گیا۔ اب یہ خط اس لئے دوبارہ لکھتا ہوں کہ آپ دوبارہ خرچ سے بچے رہیں۔ اگر آپ کا دوبارہ بھیجنے کا ارادہ ہو تو سردنی کا آم جو سبز اور نیم خام اور سخت ہو کر بھیجیں۔ یہ آم ہر گز نہ بھیجیں ۔ زیادہ خریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
یکم جولائی ۱۸۹۹ء
خط اس غرض سے رجسٹری کر اکر بھیجا گیاہے کہ تسلی ہو کہ پہنچ گیا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ آپ ایسے ہی آم بھیج دیںاو رناحق اسراف ہو۔بجز اس قسم کے جس کو سردنی کہتے ہیں اور کوئی قسم روانہ نظر فرمائیں اوروہ بھی اس شرط سے کہ آم سبز اور نیم خام ہوں۔ تا کسی طرح ایسی شدت گرمی میں پہنچ سکیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
(۲۷۱) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
امید ہے کہ اشتہار ۴؍ اکتوبر ۱۸۹۹ء جس کے ساتھ جلسۃ الوداع کا بھی ایک پرچہ ہے۔ آپ کے پاس پہنچ گیا ہو گا۔ اب باعث تکلیف وہی یہ ہے کہ اخویم مولوی محمد علی صاحب کی نسبت جو گورداسپور میں تحریک کی گئی تھی۔ اس کو حد سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے اور درحقیقت اس طرح پر مولوی صاحب کا بڑ ا حرج ہوگیاہے۔ کہ آخر کار لوگ رشتہ سے کیوں انکار کریں توکتنے او رعمدہ رشتے اسی انتظار میں ان کے ہاتھ سے چلے گئے۔ یہ ایسا طریق ہے کہ خواہ مخواہ ایک شخص پر ظلم ہو جا تاہے۔ جب اسی انتظار میں دوسرے لوگ بھی ہاتھ سے نکل جائیں گے۔ چنانچہ بعض ہاتھ سے نکل گئے ہیں۔ تو کس قدر یہ امر باعث تکلیف ہے۔ لڑکی والے بعض اوقات دس روز بھی توقف ڈالنا نہیں چاہتے۔ بلکہ توقف سے وہ لاپروائی سمجھتے ہیں۔ اس لئے ناحق نقصان ہوجاتا ہے۔ مناسب ہے کہ آپ رجسٹری کرواکر ایک مفصل خط لکھ دیںکہ وہ ایک شریف او رمہذب ہیں۔ آپ کے لئے انہوں نے دوسرے کئی رشتوں کو ہاتھ سے دیا ہے۔ اس لئے مناسب ہے کہ ا ب آپ اپنے جواب باصواب سے جلد ان کو مسرورالوقت کریں اور پھر اگر وہ کسی ملازمت کے شغل میں لگ گئے تو فرصت نہیں ہو گی یہی دن ہیں کہ جن میں وہ اپنی شادی کرانا چاہتے ہیں۔ اگر کسی پہلی شادی کاذکر درمیان میں آئے تو آپ کہہ دیں کہ پہلی شادی تھی۔ وہ رشتہ طلاق کے حکم میں ہے۔ اس سے وہ کچھ تعلق نہیں چاہتے او رشاید طلاق بھی دے دی ہے۔ غرض اس کا جواب آپ دوسری طرف سے بہت جلد لے کر جہاں تک ممکن ہوسکے بھیج دیں۔ میں ڈرتا ہوکہ یہ توقف ان کی اس طرف کے لئے بہت حرج کا باعث نہ ہو جائے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
(۲۷۲) ملفوف
حضرت اقدس نے یہ مکتوب چوہدری صاحب کے مرسلہ خط کی پشت پر ہی لکھ دیا ہے اور اس طرح پر وہ اصلی خط بھی محفوظ ہے۔
میںنے پسند کیا کہ پہلے اس خط کو درج کردوں۔ پھر حضرت کا اصل مکتوب جو اس کے جواب میں ہے۔(عرفانی)
(چوہدری رستم علی صاحب کا خط)
بسم اللّٰہ الرحمن الرحمن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
بحضور پر نور جنا بناء دینا حضرت مرزا صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
سرفراز نامہ حضور کا صاد رہوا۔باعث افتخار ہوا۔ آج تک اشتہا رکوئی بھی اس عاجز کے پاس قادیان سے صادر نہیں ہوا۔ امید وار کہ براہ نوازش دو دو چار چار کاپیاں مرحمت فرمائی جائیں۔ مولوی محمد علی صاحب کی بابت گورداسپور سے جو جواب آیا۔ اس کی بابت سے پہلے نیاز نامہ میں عرض کر چکا ہوں۔ یعنی اس میں جواب سمجھنا چاہیے۔
اب رہا یہاں پر جو ہمارے سر دفتر صاحب خوہشمند ہیں۔ ان کی دو لڑکیاں ہیں اگر ان میں سے کوئی پسند آجائے تو بابو مذکورہ بہت خوش ہو سکتا ہے۔مگر اس کی متلون مزاجی پر مجھے پورا اعتماد نہیں ہے۔ یہ لشکری لوگ ہیں۔ گو شریعت کی پابندی کا دعویٰ ہے۔ مگر وقت پر آکر ایسی ایسی شرائط پیش کرتے ہیں کہ جو مشکل ہوں مثلاً مہر کی تعداد بہت زیادہ۔ مگر اس کی لڑکیوں میں سے کوئی پسند آجائے تو پھر ایسی شرائط پہلے ہی طے کر لی جاویں۔
میری حالت بہت خراب ہے۔ گناہوں میں گرفتارہوں۔ کیاکروں کوئی صورت رہائی کی نظر نہیں آتی۔ سوائے اس کے کہ خد اوند کریم اپنا فضل شامل حال کرے۔حضور سے الیجاء ہے کہ میرے واسطے ضرور بالضرور دعا فرمائی جائے کہ نفس امارہ کی غلامی سے رہائی پائوں۔ مجھے اپنی حالت پر بہت افسوس رہتا ہے اور ڈرتا بھی ہوں۔
آج کل خان صاحب علی گوہر خاں صاحب میرے پاس ہیں۔ وہ بیمار ہیں۔ بخار آتا ہے اور دیر سے بخار آتا ہے۔ ان کی درخواست ہے کہ ان کی صحت وجسمانی و روحانی کے واسطے دعافرمائی جائے اور وہ السلام علیکم کہہ دیا جائے۔
عاجز رستم علی از انبالہ
۲۲؍ اکتوبر ۱۸۹۹ء
ج
(مکتوب حضرت اقدس)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جلدی سے بہت ضروری سمجھ کر آپ کے خط کی پشت پر ہی یہ خط لکھتا ہوں کہ اخویم مولوی محمد علی صاحب کاگورداسپور کا معاملہ بہت حرج پہنچا چکا ہے۔ کچھ روپیہ دے کر اور یکہ کروا کر ایک عورت اور اور ایک مرد حجام کو گورداسپورہ میں بھیجا تھااور پھر انتظار میں اسقدر توقف کیا۔ آخر ان لوگوں نے اول آپ ہی کہا اور پھر آپ ہی جواب دے دیا۔ اب اپنے سر دفتر صاحب نسبت جواب تحریر فرماتے ہیں۔ اس کی نسبت اگر میں ایک کچی بات میں کوئی عورت اور مرد یہاں سے بھیجوں تو مناسب نہیں ہے۔ اول آپ براہ مہربانی جہاں تک جلد ممکن ہو لڑکیوں کی شکل اور حلیہ وغیرہ سے مجھے اطلاع دیںاو ر پھر میں کوئی خادمہ مزید تفتیش کے لئے بھیج دوں گا میں اس وقت اس لئے یہ خط اپنے ہاتھ سے لکھتا ہوں۔ کہ آپ بلا توقف کوئی عورت بھیج کر شکل اور خلق اور تعلیم سے مجھ کو اطلاع دے دیں اور پھر بعد میں اگر ایسی کوئی عورت آپ کے پاس بھیجی جاسکے اور نیز اس کے پختہ ارادہ سے بھی اطلاع بخشیں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
از قادیان
۲۴؍اکتوبر۱۸۹۹ء
(۲۷۳)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ چونکہ آپ کی تحریر سے معلوم ہوا ہے کہ وہ سر دفتر صاحب جن کی لڑکی سے رشتہ کی درخواست کچھ متلون مزاج اور تیز مزاج ہے ۔ اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آپ خاص طور پر پہلے ان سے کھلے کھلے طور پر تذکرہ کرلیں۔ کہ چھوٹی لڑکی سے ناطہ ہوگااورنیز یہ کہ شریعت کی پابندی سے نکاح ہوگا ۔ کوئی اسراف کا نام نہیں ہوگا۔ شریفانہ رسموں سے جو کپڑے زیور کی ان کے خاندان میں رسم ہو۔ اس سے وہ خود اطلاع دے دیں۔ تا وہ تیار کیا جاوے اور ان سے پختہ اقرار لے لیں کہ وہ اس پر قائم رہیں اور نیز یہ قابل گذارش ہے کہ اگر میں اس جگہ سے کوئی عورت بھیجوں تو وہ حجام عورت ہوگی اور وہ اکیلی نہیں آسکتی۔ کیونکہ جوان عورت ہوگی۔ اس کے ساتھ اس کا خاوند جاوے گا اور اس اجرت میں سات معہ سے آٹھ روپیہ اس کو دینے پڑیں گے اور دو آدمیوں کے آنے جانے کا دورپیہ یکہ کا کرایہ ہوگا۔ اور چھ سات روپیہ ریل کا کرایہ دوآدمیوں کی آمدو رفت کا ہوگا۔ غرض اس طرح ہمیں تقریباً بیس روپے خرچ کرنے پڑے گے ۔لیکن اگر آپ انبالہ سے کسی عورت کو میری طرف سے تین معہ چار روپیہ دے دیں تاوہ لڑکی کو دیکھ کر دیانت سے بیان کردے۔ تو خرچ کی کفایت رے گی۔ ہم تو اس قدر خرچ کرنے کو تیار ہیں لیکن ایسا نہ ہو کہ گورداسپورہ کے معاملہ کی طرح سب کچھ خرچ ہو کر پھر ان کی طرف سے جواب ہوجاوے۔ آپ مہربانی فرما کر یہ کوشش کریں کہ کوئی حجام عورت جو دیانت دار معلوم ہو۔ اسے کچھ دے کر بھیج دیں۔ وہ کل حلیہ بیان کردے کہ آنکھیں کیسی ہیں۔ ناک کیسا ہے۔ گردن کیسی ہے۔ یعنی لمبی ہے یا کوتہ۔ اور بدن کیساہے۔ فربہ یا لاغر منہ کتابی چہرہ ہے۔ یا گول ۔سرچھوٹا ہے یا بڑا قد لمبا ہے یا کوتہ۔ آنکھیں کپری ہیں یا سیاہ ۔رنگ گورہ ہے یا گندمی یا سیاہ ۔ منہ پر داغ چیچک ہیں یا نہیں یا صاف غرض تمام مراتب جن کے لئے یہاں کسی عورت کا بھیجنا تھا بیان کردے اور دیانت سے بیان کرے اس سے ہمیں فائدہ ہوگاکیونکہ اس کا مجھے زیادہ فکر ہے۔ میری طرف سے یہ خرچ دیا جاوے۔ میں تو اب بھی بیس روپیہ خرچ کرکے کسی عورت کو اس کے خاوند کے ساتھ بھیج سکتا تھا۔ مگر اندیشہ ہوا۔ کہ کچی بات میں گورداسپور کی طرح پیش نہ آجائے۔ اگر آپ توجہ فرمائیں گے ۔ تو آپ کو انبالہ شہر سے بھی کوئی دانا اور حسن و قبح پرکھنے والی اور دیانت دار کوئی عورت میسر آجائے گی آپ کسی سے مشورہ کرکے ایسی عورت تلاش کرلیں اور یہ غلط ہے کہ اخویم مولوی محمد علی صاحب کی پہلی عورت موجود ہے ۔ مدت ہوئی کہ وہ اس پہلی کو طلاق دے چکے ہیں ۔ اب کوئی عورت نہیں ۔ پوری تفتیش کے بعد آپ جلد جواب دیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
(۲۷۴) مکتوب
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
نہایت ضروری کام کے لئے آپ کو تکلیف دیتا ہوں کہ اس جگہ تین ایسے عمدہ اور مضبوط پلنگ کی ضرورت ہے۔ جس کے سیرو اور پائے اور پٹیاں درخت سال یا اور مضبوط لکڑی کے ہوں ۔ اسی غرض سے امرتسر آدمی بھیجا گیا۔ معلوم ہوا کہ ایسے سیرو او رپٹیاں اور پائے نہ امرتسر میں ملتے ہیں اور نہ لاہور میں مل سکتے ہیں اور انبالہ میں اس قسم کے پلنگ مل سکتے ہیں۔ اس لئے مکلف ہوں کہ آپ تمام تر کوشش سے ایسے تین پلنگ تیار کروا کر بھیج دیں۔ لیکن چاہیئے کہ ہر ایک پلنگ اس قدر بڑا ہو کہ دو آدمی اور ایک بچہ بآسانی اس پر سو سکیں او رجہاں تک ہو سکے۔ پلنگ بہت بوجھل نہ ہوں۔ گھر میں امید بھی ہے اورکئی وجوہ سے یہ ضرورت پیش آئی ہے اورروپیہ کے خرچ کا کچھ صرفہ کریں۔ جس قدر روپیہ خرچ آئے گا۔ انشاء اللہ بلاتوقف بھیج دیا جائے گا۔ بہرحال پٹیاں اور سیرو اور پائے مضبوط لکڑی کے ہوں اور عمدہ طور سے بنے جائیں۔ یہ یاد رہے کہ یہ ضروری ہے کہ ہر ایک پلنگ اس قدر بڑا ہو کہ پورے آدمی اور بچہ ان پر سو سکے اور جہاں تک ممکن ہو دو ہفتہ تک آپ تیار کر وا کر بذریعہ ریل بھیج دیں اور ریل کے کرایہ کو دیکھ لیں کہ زیادہ نہ ہو۔ کیونکہ ایک مرتبہ دہلی سے ایک پالکی منگوائی تھی اور غلطی سے خیال نہ کیا گیا۔ آخر ریل والوںنے پچاس روپیہ اس کا کرایہ لیا۔ باقی سب خیریت ہے۔ طاعون سے اس طرف شور قیامت بپا ہے۔ دن کو آدمی اچھا ہوتا ہے اور رات کو موت کی خبر آتی ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۲۹؍ اپریل ۱۹۰۲ء
(۲۷۵) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ چونکہ اس جگہ بنائی کا کام مشکل ہے۔ ہر طرف طاعون کی بیماری ہے۔ کوئی آدمی ہاتھ نہیں لگائے گا۔ اس لئے بہتر ہے کہ اگرچہ سات روپیہ تک کرایہ کی زیادتی ہو۔ تو کچھ مضائقہ نہیں۔ وہیں سے تیار ہوکر آنی چاہئیں۔ لیکن اگر کرایہ زیادہ مثلاً بیس پچیس روپیہ… ہو تو پھر سامان پلنگوں کا بھیج دیا جائے۔ ایک پلنگ نواڑکا ہو او ردو عمدہ باریک سن کی سوتری کے۔ غرض اس جگہ پلنگوں کے بننے کی بڑی دقت پیش آئے گی۔ ہر طرف زراعت کاٹنے کے دن ہیں او رایک طرف طاعون سے قباحت بر پا ہے۔ لوگوں کو سروے دفن کرنے کے لئے جگہ نہیں ملتی ۔ عجیب حیرانی میں گرفتار لوگ ہیں۔ جہاں تک جلد ممکن ہو جلد تر روانہ فرمادیں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۶؍ مئی ۱۹۰۲ء
(۲۷۶) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ حال یہ ہے کہ اب کی دفعہ میں نے پچاس روپیہ … کا مشک منگوایا تھا۔ اتفاقاً وہ سب کا سب ردّی اور مخشوش نکلا۔ اس قدر روپیہ ضائع ہو گیا۔ اس لئے میں نے آپ کی تحریر کے موافق مبلغ …۱۲ قیمت چھ ماشہ مشک مولوی صاحب کے حوالہ کردی ہے۔ اگر یہ قیمت کم ہوگی۔ باقی دے دوں گا اور عنبر بھی مدت ہوئی کہ میں نے افریقہ سے منگوایا تھا۔ وہ وقتاً فوقتاً خرچ ہوگیا۔ میں نے اس قدر استعمال سے ایک ذرہ بھی اس کا فائدہ نہ دیکھا۔ وہ اس ملک میں فی تولہ ایک سو روپیہ کی قیمت سے آتا ہے اور پھر بھی اچھا نہیں ملے گا۔ ولایت میں عنبر کو محض ایک ردّی چیز سمجھتے ہیں او رصرف خوشبوئوں میں استعمال کرتے ہیں۔ میرے تجربہ میں ہے کہ اس میں کوئی مفید خوبی نہیں۔ اگر آپ نے دوا میںعنبر ڈالناہو تو بواپسی ڈاک مجھے اطلاع دیں۔تو عنبر ہی کے خرید کے لئے مبلغ پچاس روپیہ… مولوی صاحب کے حوالہ کئے جائیںگے۔ مگر جواب بواپسی ڈاک بھیج دیں۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی اللہ عنہ
مکتوبات کے متعلق مرتب کا نوٹ
جس قدر مجھے مکتوبات مل سکتے تھے۔ وہ میں نے جمع کر دیئے ہیں والحمدللہ علی ذالک۔ ایک مکتوب کو میںنے عمداً ترک کر دیا ہے اور حضرت حکیم الامۃ کے مکتوبات میں بھی اسے چھوڑا ہے اوریہ وہ مکتوب ہے۔ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بشیراوّل کی وفات پر لکھا تھا۔ وہ خط دراصل حضرت حکیم الامۃ کے نام تھا۔ مگر اس کی نقول آپ نے متعدد احباب کے نام بھجوائی تھیں۔ میں اس مکتوب کو متفرق خطوط کی جلد میں انشاء اللہ العزیز شائع کروں گا اور اس میں ان دوستوں کے اسماء گرامی بھی لکھ دوںگا۔ (انشاء اللہ ) جن کی خدمت میں ان کی نقول بھیجی گئی تھیں۔
میں ان تمام احباب کو جنہیں حضرت چوہدری صاحب مرحوم سے تعلق رہا ہے۔ توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس کام میں میرے معین و مددگار ہوں اور اگر کسی کے پاس چوہدری صاحب کا کوئی خط یا نظم ہویا کوئی واقعہ ان کے سوانخ حیات سے متعلق انہیں کام ہوتو وہ لکھ کر مجھے ضرور بھیج دیں۔ یہ کام قلمی اور مابی تعاون کا ہے اورمیں اپنے دوستوں سے بجا توقع رکھتا ہوں اور انہیں کہتا ہوں
نام نیک رفتگان ضائع مکن
تا بماند نام نیکت برقرار
میرے لئے بھی دعا کریں کہ میںاس کام کو سرانجام دے سکوں۔ وباللہ التوفیق۔
(عرفانی)
حضرت چوہدری رستم علی صاحب رضی اللہ عنہ کا کلام
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے بعض مکتوبات میں چوہدری صاحب مرحوم و مغفور کے اشعار کا ذکر فرمایا ہے اور اسے بہت پسند کیا ہے۔ بلکہ ایک موقع پر آپ نے فرمایا۔ کہ ان کو جمع کرتے جائیں۔ چوہدری صاحب مرحوم کے کلام کو جمع کرنا آسان کام نہیں ۔ بیس برس کے قریب ان کی وفات پر گزرتا ہے۔ تاہم میں اپنی کوششوں کو زندگی بھر چھوڑ نہ دوں گا۔ محض اس لئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ خواہش پوری ہوجائے جو آپ نے ا س وقت ظاہر فرمائی تھی۔ میں اگر کامیاب نہ ہوا۔ تب بھی اس کی نیت کے لئے یقینا ماجور ہوں گا۔
اب جبکہ مکتوبات کے اس مجوعہ کو میں ختم کر چکا ہوں۔ مناسب سمجھتا ہوں کہ حضرت چوہدری صاحب مرحوم کے کلام کا کچھ نمونہ یہاں دے دوں۔ جو میں اس وقت تک جمع کر چکا ہوں۔ آپ کے کلام کے اندراج کے لئے بہتر ین موقعہ اور مقام آپ کے سوانح حیات کا ایک باب ہے۔ مگر میں نہیں جانتا کہ یہ توفیق کسے ملے گی۔ میں نے پسند کیا کہ اسے کسی غیر معلوم وقت تک ملتوی کرنے کی بجائے بہتر ہے کہ کچھ نمونہ حضرت چوہدری صاحب مرحوم کے کلام کا یہاں دے دوں اوراس طرح پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس ارشاد کی کسی قدر تک تکمیل کر دوں۔ جو آپ نے چوہدری صاحب کو اس کے جمع رکھنے اور طبع کرا دینے کے متعلق فرمایا تھا۔
حضرت چوہدری صاحب مرحوم کے کلام میں کسی شاعرانہ تنقید کی نہ قابلیت رکھتا ہوں اور نہ اس ضرورت سمجھتا ہوں ۔ بلکہ میں تو اپنے کلام المحبوب محبوب الکلام سمجھتا ہوں۔ مجھ کو ان سے خد اتعالیٰ کی رضا کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں ہوکر محبت تھی اور ان کی ادا پسند تھی۔ ان کے کلام کی داد جب خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام دے چکے ہیں۔ تو اس سے بڑھ کر ان کی سعادت کیا ہو گی۔ میں چوہدری صاحب مرحوم کے کلام کے انتخاب میں اپنے نبقطہ خیال کو مدنظر رکھتا ہوںاور یہ بطور نمونہ ہے۔
خطاب بہ اقبال
ڈاکٹر سر اقبال آج علمی مصروف ہیں۔ کسی زمانہ میں وہ سلسلہ عالیہ سے محبت و اخلاص کا تعلق رکھتے تھے۔ بلکہ جب ایف۔اے میں پڑھتے تھے۔ تو سلسلہ کے بعض معازین کا جواب بھی نظم میں آپ نے دیا تھا۔ آپ کے خاندان کے بعض ممبر اسی سلسلہ میں شامل ہونے کی عزت و سعادت حاصل کرچکے ہیں۔ مخزن نمبر ۲ جلد ۳ بابت ماہ مئی ۱۹۰۲ء کے صفحہ ۴۸ پر سر اقبال نے جو اس وقت اقبال تھے۔ ایک نظم بیعت کے جواب میں شائع کی تھی۔ ڈاکٹر اقبال کے کسی شفیق ناصح نے انہیں بیعت کی تحریک کی تھی۔ اس کا جواب انہوں نے نظم میں مخزن کے ذریعہ شائع کیا۔ سلسلہ کے گراں قدر بزرگ میرے اور ڈاکٹر اقبال کے مکرم حضرت میر حامدشاہ صاحب ؓ نے بھی انہیں ایام میں اس کا جواب منظوم نہایت لطیف شائع فرمایا اور ڈاکٹر اقبال کو ان کی ایک رویا کی یاد ۔ حضرت چودھری رستم علی صاحب مغفور نے بھی اس کا یک جواب لکھا اور یہ جواب گویا حضرت اقدس کی زبان سے دیاہے اور دنیا اس سے غافل رہی۔ مگر میںآج ۲۷ برس کے بعد اس کے بعض اشعار کو پبلک کرتا ہوں کہ اسی کی امانت ہے۔(عرفانی)
خضر سے چھپ کے کہہ رہا ہوں میں
تشنہ کام مئے فنا ہوں میں
یہی ہر اک سے کہہ رہا ہوں
حق سے خضر رہ خدا ہوں میں
وہ مرے گا چھٹیگا جو مجھ سے
فانیوں کے لئے بقا ہوں میں
ہم کلامی ہے غیرت کی دلیل
خاموشی پر مٹا ہوا ہوں میں
میں تو خاموش تھا اور اب بھی ہوں
ہاں مولا سے بولتا ہوں میں
ہم کلامی جو غیرت ہے تو ہو
پیرو احمد خدا ہوں میں
کانپ اٹھتا ہوں ذکر مریم پر
وہ دل درد آشنا ہوں میں
آشنا اور درد جھوٹی بات
آتیرے درد کی دوا ہوں میں
تنکے چن چن کر باغ الفت کے
آشیانہ بنا رہا ہوںمیں
تنکے تنکے ہوا آشیاں تیرا
ایک جھونکے میں آ آپناہ ہوں میں
گل پر مردہ چمن ہوں مگر
رونق خانہ صبا ہوں میں
گل شاداب باغ احمد ہوں
رونق طانہ خدا ہوںمیں
کارواں سے نکل گیا آگے
مثل آوازہ درا ہوں میں
مارا جائے گا توجو کہنا ہے ترا
کارواں سے نکل گیا ہوں میں
تاکہ بے خوف موت سے ہوں
مجھ میں آ کارواں سرا ہوں میں
دست واعظ سے آج بن کے نماز
کس ادا سے قضاء ہوا ہوں میں
یہ اور ہے کوئی قضاء کی نماز
اس کو ہرگز نہ مانتا ہوں میں
نہ قضاء ہو کھبی کسی سے ہرروز
اس غرض سے کھڑا ہوا ہوں میں
مجھ سے بیزار ہے دل زاہد
اس غرض سے کھڑا ہوا ہوں میں
مومنوں نے ہے مجھ کو پہنچانا
رندکی آنکھ سے چھپا ہوں میں
پاس میرے کب آسکے اوباش
دیدہ حود کی حیا ہوں میں
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال پر
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال پر آپ نے درد دل کا اظہار کیا اور حوالہ قلم و کا غذ کردیا۔ کاغذ پر کلیجہ نکال کر رکھ دیا۔ ان اشعار میں سے چند کا انتخاب ذیل میں کرتا ہوں۔ اس سے چودھری صاحب مرحوم و مغفور کا لاہور کے متعلق بھی خیال ظاہر ہوجاتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ جو عشق و محبت انہیں تھی۔ اس نے زیادہ دیر تک آپ سے جدا نہ رہنے دیا اور ایک سال کے اندر ہی آقا کے قدموں میں پہنچا دیا۔(عرفانی)
اے حضرت اقدس اب کہاں ہو
آنکھوں سے میری کہاں نہاں ہو
او جہل ہو نظر سے جب کہ خورشید
تاریک نہ کس طرح جہاں ہو
گم تجھ میں ہوا وہ رہبر خلق
لاہور! تیرا بھلا کہاں ہو
بے چین ہیں دور رہنے والے
کس حال میں اہل قادیان ہو
………
یا ربّ ہے کہاں مسیح موعود
اب قادیان میں نہیں موجود
یہ مخدوم جہاں غلام احمد
مہدی دوران مسیح مشہود
کس دیس میں لے گئے ہیں یوسف
بتلاو میاں بشیرو محمود
اس مصلح گمر ہاں کو کھو کر
لاہور رکھے امید بہبود


(۲۷۷) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
نماز مقتدی بغیر سورہ فاتحہ بھی ہوجاتی ہے۔ مگر افضلیت پڑھنے میں ہے۔ اگر کوئی امام جلد خواں ہو توا یک آیت یا دو آیت جس قدر میسر آوے آہستہ پڑھ لیں جو مانع سماعت قرات امام ہو اور اگر میسر نہ آسکے تو مجبوری ہے نماز ہوجائے گی۔ مگر افضلیت کے درجہ پر نہیں ہوگی۔۲۰؍دسمبر ۱۸۸۵ء۔
(۲۸۷) پوسٹ کارڈ
علما فقرا کا خواب میں کسی دوست کے گھر جانا موجب برکات ہوتا ہے اور ایسی جگہ رحمت الٰہی نازل ہوتی ہے… کبھی خواب اپنی ظاہری صورت پر بھی واقع ہواجاتی ہے۔ مگر ایسا کم اتفاق ہوتا ہے۔ ۵؍جنوری ۱۸۸۶ء۔

عرض حال
خدا تعالیٰ کاشکر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مکتوبات کی پانچویں جلد کا تیسرا نمبر شائع کرنے کی توفیق پاتا ہوں۔ یہ مکتوبات چوہدری رستم علی خان صاحب رضی اللہ عنہ کے نام کے ہیں۔
مجھے اس مجموعہ مکاتیب کے متعلق کچھ کہنا نہیں۔ مخدومی ڈاکٹر محمد اسمٰعیل صاحب نے الفضل میں جو کچھ لکھا ہے۔ میں اسے کافی سمجھتا ہوں۔ البتہ مجھے مخدومی اخوند محمد افضل خاں صاحب پنشزسب انسپکٹر کا شکریہ ادا کرتا ہے کہ وہ نہایت جوش اور اخلاص سے سیرۃ مسیح موعود کی اشاعت و تحریک کے کام میں لگے ہوئے ہیں۔ اگر چند احباب ان کے نقش قدم پر چل کر اس کی اشاعت کی کوشش کریںاور ایک ہزار خریدار پورے ہو جائیںتو میں ہر مہینے ایک نمبر شائع کر سکوں۔
مجھے یہ کہتے ہوئے شرم آتی ہے کہ افسو س ہے۔ ابھی تک جماعت میں ایسے قدر دانوں کی تعداد بہت کم ہے۔ جو ان پیش قدموں کی اصل قدر کریں۔
بہر حال اپنا کام جس رفتار سے ممکن ہے۔ کرتا رہوں گا۔ جب تک خدا تعالیٰ توفیق دے۔ تاہم دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس کام میں میرے مدد گار ہوں۔
والسلام
خاکسار
عرفانی
کنج عافیت قادیان دارالامان ۱۸؍ فروری ۱۹۲۹ء ۷؍رمضان ۴۷ء


بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر سوم
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مکتوبات چوہدری رستم علی رضی اللہ عنہ کے نام
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
(۱) پوسٹ کارڈ
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ بعد سلام مسنون۔
آپ کاعنایت نامہ پہنچا۔ انشاء اللہ العزیز یہ عاجز آپ کے لئے دعا کرے گا۔ آپ برعایت اسباب ہے کہ طریقہ مسنون ہے۔ طبیب حاذق کی طرف رجوع کریں او رطبیب کے مشورہ سے مارا بجن یا جو کچھ مناسب ہو اپنی اصلاح مزاج کے لئے عمل میں لاویں اور آپ کی ہر ایک غرض کے لئے یہ عاجز دعا کرے گا۔ کبھی کبھی آپ ہفتہ عشرہ کے بعد کارڈ یاد دلاتے رہیں اور صبر جو شعار مومن ہے اختیار کر رکھیں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد ازقادیان
۵؍ ۱۸۸۴ء
نوٹ۔ چوہدری رستم علی صاحب رضی اللہ عنہ کا تعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے براہین احمدیہ کی خریداری کے سلسلہ میں ہوا او ریہ ۱۸۸۴ء کا واقعہ ہے۔ اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تعلقات او رمراسلات کا سلسلہ مضبوط او روسیع ہوتا گیا۔ ۱۸۸۴ء میں چوہدری صاحب خاص شہر جالندھر میںمحرر پیشی تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ کو لفافہ اس طرح پر لکھا کرتے تھے۔
بمقام جالندھر خاص۔ محکمہ پولیس
بخدمت مشفتی مکرمی منشی رستم علی صاحب محرر پیشی محکمہ پولیس کے پہنچے اس وقت آپ کا عہدہ سارجنٹ تھا۔ آیندہ جب تک چوہدری صاحب کا ایڈریس تبدیل نہ ہو گا یا لفافہ کی نوعیت میں کوئی تبدیلی نہ ہو گی ایڈریس درج نہ ہو گا۔ ہر مکتوب کے ساتھ خط یا پوسٹ کارڈ کی تصریح کی جائے گی۔
(عرفانی)
(۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ بعد سلام مسنون۔
آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ انشاء اللہ آپ کے حسن خاتمہ اور صلاحیت دین کے لئے یہ عاجز دعا کرے گاا ور سب طرح سے خیریت ہے حصہ پنجم بعد فراہمی سرمایہ چھپنا شروع ہو گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد۔ قادیان
۱۸؍ جون ۱۸۸۴ء
(۳) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ بعد سلام مسنون۔
آپ کا دوسرا خط بھی پہنچا۔ یہ عاجز چھ روز سے بیمار ہے اور ضعف دماغ او رجگر او ردیگر عوارض لاحقہ سے مخنی ہو رہا ہے ورنہ آپ کے عزیز کے لئے کوشش اور مجاہدہ سے خاص طور پر دعا کی جائے۔ انشاء اللہ بعد افاقہ توجہ تام سے دعا کرتے گا اور مسنون طور پر آپ بھی دعا سے غافل نہیں رہئیے گا۔ بالفضل ارادہ ہے کہ چند مہینے تک کسی پہاڑ میں جاکر یہ مہینہ گرمی کا بسر کرے آیندہ خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ خدا تعالیٰ آپ کو غم اور فکر سے نجات بخشے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۷۱؍ اگست ۱۸۸۴ء
(۴) پوسٹ کارڈ
از طرف خاکسار غلام احمد۔ باخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ بعد سلام مسنون۔
آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ بعض اوقات یہ عاجز بیمار ہو جاتا ہے۔ اس لئے ارسال جواب سے قاصر رہتا ہے۔ آپ کے لئے دعا کی جاتی ہے۔ خد اتعالیٰ دنیا و آخرت محمود کرے۔ بعد نماز عشاء درود شریف بہت پڑھیں۔ اگر تین سو مرتبہ درود شریف کا ورد مقرر رکھیں توبہتر ہے او ربعد نماز صبح اگر ممکن ہو تو تین سو مرتبہ استغفارکا ورد رکھیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۸؍ ستمبر ۱۸۸۴ء

(۵) پوسٹ کارڈ
از عاجز غلام احمد باخویم منشی رستم علی صاحب۔
بعد سلام مسنون۔ آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ چونکہ طبیعت اس عاجز کی کچھ عرصہ سے علیل ہے اس لئے پہلے خط کا جواب نہیں لکھا گیا۔ حسین علی خان صاحب کے لئے اس عاجز نے دعا کی ہے او رانشاء اللہ العزیز پھر بھی دعا کرے گا۔ اطلاعا ًلکھا گیا۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
۷؍ جنوری ۱۸۸۵ء
(۶) پوسٹ کارڈ
از عاجز عاید باللہ الصمد غلام احمد۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ حال وفات آپ کے قبلہ بزگوار کا معلوم ہوا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون جو امر انسان کے لئے بہتر ہے وہ ہو جاتا ہے۔ خدا تعالیٰ ان غریب غریق رحمت کرے۔ آپ کواجر بخشے زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۱۵؍ فروری ۱۸۸۵ء
(۷) پوسٹ کارڈ
از عاید باللہ الصمد غلام احمد۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
حسب تحریر آپ کے ایک خط انگریزی اور ایک اشتہار انگریزی بھیجا جاتا ہے۔ کسی زیرک اور منصف مزاج کو ضرور دکھاویں یہ خط انگریزی تمام پادری صاحبان ہندوستان و پنجاب کی خدمت میں بھیجے گئے ہیں اور نیز پنڈتوں کے پاس بھی بھیجے گئے ہیں اور بھیجے جاتے ہیں اور ہر ایک بصیغہ رجسٹری بصرف ۴؍ روانہ کیا گیا ہے اور سب کی کیفیت انشاء اللہ حصہ پنجم کتاب میں درج ہو گی او آپ کے لئے دعا کی ہے۔
والسلام
خاکسا ر
غلام احمد از قادیان
۲؍ اپریل ۱۸۸۵ء
(۸) پوسٹ کارڈ
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاۃ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ دنیا مقام غفلت ہے بڑے نیک قسمت آدمی غفلت خانہ میں روبہ حق ہوتے ہیں۔ استغفار پڑھتے ہیں اور اللہ جلشانہ سے مدد چاہیں۔ یہ عاجز آپ کو دعا میں فراموش نہیں کرتا۔ ترتیب اثر وقت پر موقوف ہے۔ اللہ جلشانہ آپ کو دنیا و آخرت میں توفیق خیرات بخشے۔ اخویم چوہدری محمد بخش صاحب کو السلام علیکم پہنچے۔ میر عباس علی شاہ دو روز سے اس جگہ تشریف لائے ہوئے ہیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
(۹)پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
از عاجز عاید باللہ الصمد غلام احمد۔بخدمت اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
انشاء اللہ القدیر آپ کے لئے یہ عاجز دعا کرے گا اور حصہ پنجم کتاب انشاء اللہ عنقریب چھپنا شروع ہو گا۔ زیادہ خیریت ہے۔ والسلام منشی عطاء اللہ خاں صاحب السلام علیکم۔
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۵؍ جون ۱۸۸۵ء
(۱۰) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
از عاید باللہ الصمد غلام احمد۔ بخدمت اخویم منشی رستم علی صاحب۔
وفات فرزند سے آپ کو بہت غم پہنچا ہو گا۔ خدا تعالیٰ آپ کو صبر عطا کرے۔ بہت دعا کی گئی مگر تقدیر مبرم تھی۔ خدا تعالیٰ آپ کو نعم العبدل عطا کرے مومن کو ثواب آخرت کی بھی ضرورت ہوتی ہے اس لئے دنیا میں تکلیف پہنچ جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس رنج کے عوض میں راحت ولی سے متمتع کرے۔ آمین۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
(۱۱)پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاۃ۔
آپ کو عنایت نامہ پہنچا۔ درکار خیر حاجت ہیچ استخارہ نیست۔ چونکہ کتاب درحقیقت قرآن شریف کی تفسیر ہے۔ سو اسی طرز سے اجازت حاصل کرنا چاہئے تاکہ طبیعت پر گراں نہ گزرے۔
والسلام ۔ خاکسار
غلام احمد عفی عنہ۔۲۴؍ جولائی ۱۸۸۵ء
(۱۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی مکرمی۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
بعد نماز مغرب و عشاء جہاں تک ممکن ہو درود شریف بکثرت پڑھیں اور دلی محبت او راخلاص سے پڑھیں۔ اگر گیارہ سو دفعہ روز ورد مقرر کریں یا سات سو دفعہ ورد مقرر کریں تو بہتر ہے۔ اللھم صلی علیٰ محمد وعلیٰ آل محمد کما صلیت علیٰ ابراہیم و علیٰ آل ابراہیم انک حمید مجید اللھم مبارک علیٰ محمد علیٰ آل محمد کما بارکت علیٰ ابراہیم وعلیٰ ابراہیم انک حمید مجید۔یہی درود شریف پڑھیں۔ اگر اس کی دلی ذوق اور محبت سے مداومت کی جاوے تو زیارت رسول کریم بھی ہو جاتی ہے اور تنویر باطن او راستقامت دین کے لئے بہت موثر ہے۔ اور بعد نما زصبح کم سے کم سو مرتبہ استغفار دلی تصرع سے پڑھنا چاہئے۔ والسلام۔ بخدمت چوہدری محمد بخش صاحب سلام مسنون۔ میر صاحب نے دعا کے لئے بہت تاکید کی تھی سو کی گئی ہے۔
والسلام ۔ خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲؍ اگست ۱۸۸۵ء
(۱۳) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی منشی رستم علی صاحب۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
مبلغ پچاس روپے مرسلہ آپ کے بدست میاں امام الدین صاحب پہنچ گئے جس قدر آپ نے اور چوہدری محمد بخش صاحب نے کو شش کی ہے۔ خدا وند کریم جلشانہ آپ کو اجر عظیم بخشے اور دنیا او ر آخرت میں کامیاب کرے۔ اس جگہ تادم تحریر ہر طرح سے خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۲۲؍ اگست ۱۸۸۵ء
(۱۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی ۔ سلام علیکم۔
عنایت نامہ پہنچا۔ خدا تعالیٰ آپ کو مکروہات زمانہ سے بچاوے اور خاتمہ بالخیر کرے۔ یہ عاجز آپ کے لئے او رچوہدری محمد بخش صاحب کے لئے دعا میں مشغول ہے۔ خیرو عافیت سے مطلع فرماتے رہیں۔ والسلام۔ اخویم چوہدری محمد بخش صاحب سلام مسنون۔
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۲؍ ستمبر ۱۸۸۵ء
(۱۵)پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ میں انشاء اللہ القدیر دعا کروںگا۔ اللہ تعالیٰ بھائی مسلمانوں پر فضل و رحم کرے اور ان کی خطیات کو معاف فرماوے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
(۱۶) پوسٹ کارڈ
مکرمی۔ سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ سب احباب کے لئے دعا کی گئی اور حوالہ بخدا کیا گیا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۷؍ اکتوبر ۱۸۸۵ء

(۱۷) پوسٹ کارڈ
مکرمی اخویم۔ سلام علیک۔
پیر کے روز یہ عاجز امرتسر سے قریب دوپہر کے روانہ ہو کر لودھیانہ کی طرف جاوے گا۔ اگر اسٹیشن جالندھر پر آپ کی ملاقات ممکن ہو تو عین مراد ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۲؍ اکتوبر ۱۸۸۵ء
(۱۸) ملفوف خط
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
از طرف باللہ الصمد غلام احمد۔ بخدمت اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
مولوی عبدالرحمن صاحب کے لئے دعا کی گئی ہے اللہ تعالیٰ ان کو با مراد کرے۔ آمین ثم آمین۔ اللہ تعالیٰ آپ کو صراط مستقیم پر استقامت بخشے۔ یہ عاجز دعا میں جمیع مومنین بالخصوص اپنے خاص احباب کو یاد رکر لیتا ہے اور فی الحقیقت بڑا مقصود اعظم خوشنودی حضرت مولیٰ کریم ہے جس کے حصول سے مراد دارین حاصل ہو جاتے ہیں۔ سو مومن کی یہی علامت ہے کہ وہ کاہل نہ ہو جائے اور اگر ہمیشہ نہ ہو سکے تو کبھی کبھی برخلاف مرادت نفس کر گزرے تا مخالفت خطوط نفس گزشتہ گناہوں کا کفارہ ہو جائے کہ خد اوند کریم نکتہ نواز ہے اور ایک نیک خیال کا اجر بھی ضائع نہیں کرتا۔ اخویم مکرم میر عباس علی شاہ صاحب کی خدمت میں ایک خط لودہانہ بھیجا گیا ہے۔ رسالہ اگر براہین احمدیہ کی تقطیع پر ہو گا تو اس کے چھپنے کا خرچ بہت زیادہ ہوگا۔ کیونکہ اس تقطیع کے زیادہ صفحات پتھر نہیں چھپ سکتے۔ اسی طرح واقف لوگ کہتے ہیں۔ انشاء اللہ موقع پر آپ کو اگر خد اتعالیٰ نے چاہا تو اطلاع دی جائے گی۔ بخدمت چوہدری محمد بخش صاحب سلام مسنون۔
غلام احمد
یکم دسمبر ۱۸۸۵ء
نوٹ۔ اس مکتوب میں جس رسالہ کاذکر ہوا ہے وہ سراج منیر ہے چودہر ی رستم علی صاحب نے جیسا کہ اس مکتوب سے معلوم ہوتا ہے عرض کیا تھاکہ یہ رسالہ بھی براہین کی تقطیع پر طبع ہو اور انہوں نے اس میں ثواب کے لئے شریک ……ہونے کے لئے عرض کیا تھا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا استغنا اور توکل علی اللہ ملاخطہ ہو۔ آپ نے صاف طور پر لکھا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ نے چاہا تو اطلاع دی جائے گی۔ اس سے آپ کے اخلاص اور صاف دلی پر بھی روشنی پڑتی ہے اگر محض روپیہ جمع کرنا مقصود ہوتا تو لکھ دیتے کہ روپیہ بھیج دو۔ مگر آپ اس کی طرف اشارہ بھی نہیں کیا۔
مکتوب نمبر ۱۸ سے لے کر ملفوف خطوط ہیں مگر نمبر ۲۱ کا رڈ ہے اس کے بعد ۲۳،۲۴ پھر لعایت ۲۸ پوسٹ کارڈ۔ (عرفانی کبیر)
(۱۹) ملفوف خط
از عاجز عائد باللہ الصمد غلام احمد۔ بخدمت اخویم مکرم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنائت نامہ پہنچا۔ آپ کی رویا میں کسی قدروحشت ناک خبر ہے مگر انجام بخیر ہے ۔ ایسی خوابیں بسا اوقات بے اصل نکلتی ہیں اور حدیث شریف میں کہ جو خواب وخواب دل کو خوش کرے وہ رحمن کی طرف اور جو دل کو غمگین کرے وہ شیطان کی طرف سے ہے اور دوسری خواب کے سب اجزاء اچھے ہیں۔ اب تک اس عاجز کو امید نہیں کہ جالندھر میں پہنچ سکے۔ اگر ایام تعطیل میں تشریف لاویں تو بہتر ہے ۔ مگر اول مجھ کو اطلاع دیں۔ بخدمت چوہدری میں بخش صاحب سلام مسنون۔
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۴؍دسمبر ۱۸۸۵ء
(۲۰) ملفوف خط
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ‘ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
عنائت نامہ پہنچا۔ خدوند کریم آپ کو خوش و خرم رکھے۔ حال یہ ہے کہ اس خاکسار نے حسب ایماء خدا وند کریم بقیہ کام رسالہ کے لئے اس شرط سے سفر کا ارادہ کیا ہے کہ شب و روز تنہا ہی رہے اور کسی کی ملاقات نہ ہو اور خداوند کریم جلشانہ‘ نے اس شہر کا نام بتادیا ہے جس میں کچھ مدت بطور خلوت رہنا چاہیئے اور وہ ہوشیار پورہے آپ پر ظاہر نہ کریں۔ کہ بجز چند دوستوں کے اور کسی پر ظاہر نہیں کیا گیا ہے اور آپ بھی اور چوہدری محمد بخش صاحب بھی دعا کریں۔ کہ یہ کام خدا وند جلشانہ‘ جلد انجام پورا کردے۔ والسلام ۔بخدمت چوہدری صاحب سلام مسنون
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۳؍جنوری ۱۸۸۶ء
(۲۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمن الر حیم نحمدہ‘ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی۔ السلام وعلیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
آپ کا کارڈ پہنچ گیا۔ مفصل خط آپ کی خدمت میں ارسال ہوچکا ہے۔ تعجب کہ نہیں پہنچا۔ شاید بعد میں پہنچ گیا ہو۔ اب یہ عاجز دو روز تک انشاء اللہ روانہ ہو گا۔ آپ بھی دعا کرتیں رہیں اور اگر خط پہلا پہنچا ہو تو مجھ کو اطلاع بخشیں زیادہ خیریت ہے۔ والسلام۔ بخدمت چوہدری محمد بخش صاحب سلام مسنون۔
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۶؍ جنوری ۱۸۸۶ء
(۲۲)پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ‘ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی مکرمی اخویم سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ اس وقت روانگی براہ راست ہوشیار وپور تجویز ہو کر کل انشاء اللہ یہ عاجز روانہ ہو جاوے گا۔ آپ بھی دعا کرتے رہیں۔ بخدمت چوہدری محمد بخش صاحب سلام مسنون پہنچے۔ واپسی کے وقت اگر کوئی مانع پیش نہ آیا تو جالندھر کی راہ سے آسکتے ہیں۔
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۸؍ جنوری ۱۸۸۶ء
(۲۳)خط
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ‘ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی۔ رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔
اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
یہ عاجز بروز جمعہ بخیرو عافیت ہوشیار وپور پہنچ گیا ہے اور طویلہ شیخ مہر علی صاحب میں فرد کش ہے آپ بھی دعا کرتے رہیں کہ خد اوند کریم جل شانہ یہ سفر مبارک کرے۔ چوہدری محمد بخش صاحب بعد سلام مضمون واحد ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۶؍جنوری ۱۸۸۶ء
(۲۴)خط
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ‘ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی مکرمی اخویم منشی۔ رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
یہ عاجز ہوشیار پور بخیریت پہنچ گیا ہے۔ یاد نہیں رہا پہلے بھی اس جگہ آکر آپ کو اطلاع دی یا نہیں۔ اس لئے مکرر آپ کی خدمت میں لکھا گیا۔ آپ بھی دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے جلد تر اس کام کو انجام تک پہنچاوے اور یہ عاجز شیخ مہر علی صاحب رئیس کے مکان پر اترا ہے اور اس پتہ سے خط پہنچ سکتا ہے۔ چوہدری محمد بخش صاحب کو سلام مسنون پہنچے باقی خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۲۸؍ جنوری ۱۸۸۶ء
(۲۵) خط
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ‘ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم سلمہ۔ رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ یہ خبر غلط ہے کہ یہ عاجز جالندھر آنے کاارادہ کا ارادہ رکھتا ہے۔ ابھی تک مجھ کو کوئی خبر نہیں کہ کب تک اس شہر میں رہوں اور کس راہ سے جائوں یہ سب باتیں جناب الٰہی کے اختیار میں ہیں۔ افوض امری الی اللہ ھو نعم المولیٰ و نعم النصیر۔ شاید منشی الٰہی بخش صاحب اکائونٹنٹ کچھ انگور اور کچھ پھل کیلا اگر دستیاب ہو گیا لا ہور سے اس عاجز کے لئے آپ کے نام ریل میں بھیجیں سو اگر آیا تو کسی یکہ بان کے ہاتھ پہنچاویں۔ بخدمت چوہدری محمد بخش صاحب کو سلام مسنون۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۱؍ فروری ۱۸۸۶ء
(۲۶) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ‘ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ کچھ چیزیں منشی الٰہی بخش صاحب کو اکائونٹنٹ لاہور آپ کے نام اور چوہدری محمد بخش صاحب کے نام بلٹی کراکر جالندھری کے نام بھیجیں گے۔ آپ براہ مہربانی وہ چیزیں یکہ بان کے ساتھ یا جیسی صورت ہو ہوشیارپور میں اس عاجز کے نام بھیج دیں او راگر آپ دورہ میں ہوں تو چوہدری محمد بخش صاحب کو اطلاع دے دیں۔ زیادہ خیریت ہے۔ والسلام۔ چوہدری محمد بخش صاحب کو سلام مسنون۔
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۳؍ فروری ۱۸۸۶ء
(۲۷) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ‘ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ اب کوئی پہلا اشتہار موجود نہیں۔ اس لئے بھیجنے سے مجبوری ہے اور یہ عاجز آپ کے لئے اکثر دعا کرتا ہے جس کے آثار کی بفضلہ تعالیٰ دین و دنیا میں امید ہے۔ مضمون محمد رمضان کا پنجابی اخبار میں اس عاجز نے دیکھ لیا ہے کہ ناچار فریاد خیز دا ز درد کا مصداق ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۳؍مارچ ۱۸۸۶ء
(۲۸) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ‘ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔
السلام علیکم ورحمۃا للہ وبرکاتہ۔
اب یہ عاجز قادیان کی طرف جانے کو تیار ہے اور انشاء اللہ منگل کو روانہ ہو گا۔ آپ میر صاحب کو تاکید کردیں کہ وہ جلدیںچہارم حصہ براہین احمدیہ اگر سفید کاغذ پر ہوں تو بہتر ورنہ حنائی کاغذ پر ہی سوموار تک روانہ فرمادیں یعنی اس جگہ پہنچ جاویں۔ اور شاید اگر اصلاح ہوئی تو جالندھر کی راہ سے جاویں مگر جلدی ہے توقف نہیں ہو گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۱؍ مارچ ۱۸۸۶ء
(۲۹) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ‘ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی۔ اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
یہ عاجز عرصہ قریب ایک ہفتہ سے قادیان آگیا ہے۔ چند روز بباعث علالت طبع تحریر جواب سے قاصر رہا ہے۔ اب اہتمام رسالہ کی وجہ سے اشد کم فرصتی ہے۔ میری دانست ہے آپ کا رسالہ کے لئے روپیہ بھیجنا اس وقت مناسب ہے۔ جب رسالہ تیار ہو جائے۔ کیونکہ تیاری اس کاتخمینہ معلوم نہیں ہو سکتا او ر انشاء اللہ اب عنقریب چھپنا شروع ہو گا اور میںآپ کے لئے دعا کرتا ہوں کہ خداوند کریم جلشانہ آپ کو ترودات پیش آمدہ سے مخلصی عطا فرماوے آمین ثم آمین۔ بخدمت چوہدری محمد بخش صاحب سلام مسنون۔زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۲؍ مارچ ۱۸۸۶ء
نوٹ۔ یہ رسالہ جس کااس مکتوب میںذکر ہے سرمہ چشم آریہ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہوشیار پور تشریف لے گئے تھے وہاں لالہ مرلی دھر سے مباحثہ ہو گیا۔ اس مباحثہ کو ترتیب دے کر حضرت نے شائع کرنے کاارادہ فرمایا۔ تو چوہدری رستم علی صاحب نے اس کی طبع و اشاعت کے لئے مدد دینے کی درخواست کی تھی۔ اس مکتوب سے جہاںحضرت چوہدری صاحب کے اخلاص پر روشنی پڑتی ہے وہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کے ایک پہلو کا بھی اظہار ہے اگر آپ کو صرف روپیہ لینا مقصود ہوتا تو فوراً لکھ دیتے کہ بھیج دو مگر آپ نے یہ پسند نہیں کیا جب تک رسالہ کاتخمینہ وغیرہ نہ ہو جائے۔ ابتداً حضرت اقدس کا خیال تھا کہ یہ رسالہ چھوٹا سا ہو گا مگر بعد میں جب وہ مطبع میں گیا تو ایک ضخیم کتاب بن گیا۔ (عرفانی)
(۳۰) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ‘ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
خط پہنچ گیا۔ میں آپ کے لئے اکثر دعا کرتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ ان دعائوںکے اثر خواہ جلدی خواہ دیر سے ہوں۔ خواب کے اوّل اجز تو کچھ متوحش ہیں مگر آخری اجزاایسے عمدہ ہیں جن سے سب تو حش دور ہو گیا ہے۔ خواب میں پارچات کو صاف کرنا استقامت اور نجات ازہم و غم اور توبہ خالص پر دلالت کرتا ہے غرض انجام اس کابہت اچھا ہے۔ فالحمد للہ۔
رسالہ کے چھپنے میں اب یہ توقف ہے کہ مالک مطبع اجرت ……مانگتا ہے مگر لاہور سے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ اجرت صرف ……روپیہ ہے۔ سو امید ہے کہ دو چار روز تک بات قائم ہو کر مطبع میں اس جگہ آجائے گا یا کوئی اور مطبع لانا پڑے گا۔ زیادہ خیریت ہے۔ اخویم چوہدری محمد بخش صاحب کو سلام مسنون پہنچے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۵؍ اپریل ۱۸۸۶ء
(۳۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ‘ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم سلمہ تعالیٰ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ کام رسالہ کا تین چار روز تک شروع ہونے والا ہے۔ اسی باعث سے اس عاجز کواس قدر کم فرصتی ہے کہ بیان سے باہر ہے۔ حافظ نور محمد کے فرزند کے لئے بعد پڑھنے خط کے دعا کی گئی۔ اللہ جلشانہ رحم فرمائے آمین۔ اس وقت بباعث ورد سرو علالت طبع طبیعت قائم نہیں۔ اس لئے اسی کفایت کی گئی۔ آپ دعا کرتے رہیں۔ بخدمت چوہدری محمد بخش صاحب سلام مسنون۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۱؍ اپریل ۱۸۸۶ء
(۳۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی۔ السلام علیکم
انشاء اللہ آپ کی بیماری کے لئے دعا کرنا شروع کروں گا۔ آپ کبھی کبھی یاد دلاتے رہیں۔ مگر مضطرب اور بے صبر نہیں ہونا چاہئے۔ بے اذن الٰہی کوی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ یہ بیماری کئی لوگوںکو ہو تی ہے اور اچھے ہو جاتے ہیں۔ اگر حکیم حاذق کی صلاح سے مارالجبن شروع کریں اورسر پر بعض مرطب چیزیں ناک میں ڈالنے والی استعمال ہوں تو انشاء اللہ تعالیٰ قوی فائدہ کی امید ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۶؍ اپریل ۱۸۸۶ء
(۳۳) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
آپ کاعنایت نامہ پہنچا۔آپ کے لئے کئی دفعہ کی ہے اور کی جائے گی۔ کس بات کااندیشہ ہے۔ خداوندکریم جلشانہ قادر مطلق ہے۔ ابتلاء اور غم اور ہم سے ثواب حاصل ہوتا ہے۔ سو ذرہ اندیشہ نہ کریں میں آپ کے لئے بہت دعا کروں گا۔ اگر مزاج میں یبس ہو تو تازہ دودھ بکری کاعلی الصاح ضرور پی لیاکریںاگر موافق آجائے تو بہت عمدہ ہے اور کسی نوع کافکر نہ کریں۔ اب رسالہ کاکام عنقریب شروع ہو گا۔بخدمت چوہدری محمد بخش صاحب سلام مسنون۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۶؍ اپریل ۱۸۸۶ء
(۳۴)پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
رسالہ سرمہ چشم آریہ صرف ہزار کاپی چھپے گا۔ انشاء اللہ القدیر جو شخص ایک دفعہ اس کو دیکھ لے گا۔ ہر کوئی حسب نیت و مذاق دینی اس کو ضرور خریدے گا اور یہ کام بہت تھوڑا ہے۔ اب جلد ختم ہونے والا ہے او ررسالہ سرمہ چشم آریہ تو چار ماہ تک ختم ہو گا۔ اسی رسالہ میں انشاء اللہ القدیر اس کااشتہار دیاجائے گا۔ چوہدری محمد بخش صاحب کوسلام مسنون۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۰؍۱۸۸۶ء

(۳۵) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ۔
میر صاحب کی روانگی کے دوسرے دن روز کا تب آگیا ہے اور رسالہ سرمہ چشم آریہ جو صرف پندرہ یا بیس دن کا کام ہے چھپنا شروع ہوا ہے۔ کیونکہ رسالہ سراج منیر چار ماہ میں چھپے گا اور یہ صرف چند روز کا کام ہے۔ اس لئے اوّل اس سے فراغت کر لینا مناسب سمجھا گیا ہے روز کے روز کاپیاں روانہ ہوتی جاتی ہیں اور کام بفضلہ تعالیٰ ہو رہا ہے آپ کویہ عاجز دعا میں فراموش نہیں کرتا۔ بہر حال فضل الٰہی کی امیدہے۔ والسلام۔ چوہدری صاحب کو سلام مسنون۔ پہنچے۔
نوٹ۔ اس خط کوئی تاریخ نہیں مگر قادیان کی مہر ۱۵؍ جون ۱۸۸۶ء اور جالندھر کی ۱۷؍ جون ۱۸۸۶ء کی ہے۔ اس لئے ۱۵؍ جون ۱۸۸۶ء تاریخ روانگی ہے
(عرفانی)
(۳۶) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی۔ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ۔
انشاء اللہ القدیر اگر زندگی رہی تو رسالہ سرمہ چشم آریہ رمضان مبارک کے آخیر تک چھپ جائے گا۔صرف درمیانی حرج یہ واقع ہو گیا ہے کہ شدت سے بارشیں ہو رہی ہیں چھپے ہوئے ورقے دیر کے بعد خشک ہوتے ہیں۔ بہرحال ا مید کی جاتی ہے کہ رمضان کے گزرنے کے بعد جلد تر شائع ہو گا۔ اس وقت ڈیڑھ سو جلد آپ کی خدمت میں روانہ کروں گا۔ دعا آپ کے لئے کی جاتی ہے۔ مگر یہ دشمن نفس جنگجو ہے اس کی بدیوں کے مقابلہ پر نیکیوں کے ساتھ حملہ کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نیکیوں کی برکت سے بدیوں پر آخر انسان غالب آجاتا ہے۔
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ از قادیان
۲۵؍ جون ۱۸۸۶ء
(۳۷) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃا للہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ استغفار کو بہت لازم پکڑنا چاہئے جب بندہ عاجزی سے اپنے مولیٰ کریم سے معافی اور مغفرت چاہتا ہے تو آخر اس کے گناہ بخشے جاتے ہیں اور اس کے دل کو گناہ کی طرف سے نفرت دی جاتی ہے۔ ا ستغفار کی حقیقیت یہ ہے کہ انسان رو کر اور تضرع سے اللہ جلشانہ سے اپنے گناہوں کی معافی چاہے سو استغفار کا کم سے کم یہ اثر ہوتا ہے غضب الٰہی سے بچ جاتا ہے۔ یہ عاجز بھی آپ کے لئے دعا کرتا ہے مگر ترتیب اثر کے لئے جلدی نہیں کرنی چاہئے۔ اس زندگی میں حکمت الٰہی ہے۔ استغفار ہر گز چھوڑنا چاہئے۔ یہ بہت مبارک طریق ہے۔ رسالہ جب تیار ہو جائے گا تو اطلاع دی جائے گی۔ والسلام۔ بخدمت چوہدری محمد بخش صاحب سلام مسنون پہنچے۔
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۳؍ جولائی ۱۸۸۶ء
(۳۸) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی۔ السلام علیکم ورحمۃا للہ وبرکاتہ۔
پہلے اس جگہ کو امرتسر سے کتابوں کا آنا ضروری ہے تا میں ان کی غلطی وغیرہ کو دیکھ لوں گا۔ کیونکہ اکثر ترتیب میں جز ملانے کے وقت کمی و بیشی اوراق کی ہو جایا کرتی ہے۔ سو اس جگہ سے ایک سو تیس کتابیں آپ کی خدمت میں بھیجی جائیں گی۔ جز بندی ہو رہی ہے۔ میں خیال کرتا ہوں کہ ۲۵؍ ستمبر تک آپ کے پاس کتابیں پہنچ جائیں گی۔ زیادہ خیریت ہے۔ والسلام۔ از طرف اخویم میر صاحب عباس علی صاحب کو سلام مسنون پہنچے۔
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۵؍ ستمبر ۱۸۸۶ء
نوٹ۔ اس خط کی مہر سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اقدس اس وقت صدر انبالہ میں تھے۔
(عرفانی)
(۳۹) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم سلمہ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃا للہ وبرکاتہ۔
آپ کا عنایت نامہ صدر انبالہ میں مجھ کو ملا۔ میں اس جگہ تک اللہ جلشانہ چاہے متوقف ہوں۔ میرا پتہ یہ ہے۔ صدر انبالہ۔ حاطہ ناگ پہنی۔ محلہ گھوسیاں بنگلہ محمد لطیف رسالہ سراج منیر اب انشاء اللہ القدیر بعد رسالہ سرمہ چشم آریہ طبع ہو گا۔ مگر چونکہ اس کی فروخت کے سرمایہ سے طبع رسالہ سراج منیر کی تجویز ہے۔ واللہ علی کل شئی قدیر۔ اس لئے جس قدر جلد اس رسالہ کی فروخت ہو گی اسی قدر جلد تر رسالہ سراج منیر طبع ہو گا۔ آٹھ سو روپیہ جمع تھا۔ وہ سب رسالہ چشم آریہ پر خرچ ہو گیا۔ اس رسالہ میں کچھ تو بوجہ علالت طبع اس عاجز اور کچھ دیگر مواقع سے مطبع وغیرہ سے توقف ہوئی۔ اب یہ رسالہ سرمہ چشم آریہ امید قوی ہے کہ پندرہ روز تک من کل الوجوہ تیارہوکر میرے پاس پہنچ جائے گا۔ چونکہ رسالہ ضخامت میں بہت بڑا ہو گیا ہے او رخرچ بھی اس پر بہت زیادہ ہو اہے اور ابھی وہ سو روپیہ دینا ہے اس لئے قیمت اس کی ۱۲؍ مقرر کی گئی ہے جس زمانہ میں یونہی تخمینہ سے ۴؍ قیمت مقرر کی تھی اس زمانہ میں آپ نے ڈیڑھ سو رسالہ کا فروخت کرنا اپنے ذمہ لیا تھا۔ پس اس حساب سے ……کا رسالہ آپ کے ذمہ فروخت کرانا ہے۔ لیکن اس سے قطع نظر کر کے اگر آپ محض اللہ پوری پوری کوشش کریں اور جہاں تک ممکن ہو رقم کثیر جمع کرنے میں سعی مبذول فرماویں۔ تو نہایت ثواب کی بات ہے۔ مجنملہ اس کے پانچ سو روپیہ منشی عبدالحق صاحب اکائنٹنٹ شملہ کا ہے جو بطور قرضہ طبع رسالہ کے لئے لیا گیا۔ اور تین سو روپیہ کاچندہ ہے۔اس میں بہت کوشش کرنی چاہئے۔ تا سراج منیر کی طبع میں توقف نہ ہو۔ امید ہے کہ یہ کوشش موجب خوشنودی رحمن ہو آپ کے رفیق ہندو کو اس رسالہ کا پڑھنا مفید ہے اگر وہ غور سے پڑھے اور نجابت طبع رکھتا ہو او رسعادت ازلی مقدر ہو تو ہدایت پانے کے لئے کافی ہے۔ انشاء اللہ القدیر دعا بھی کروں گا۔ کبھی کبھی یاد دلاتے رہیں۔ میر احافظہ بہت خراب ہے۔ اگر کئی دفعہ کسی کی ملاقات ہو تب بھی بھول جاتا ہوں یاد دہانی عمدہ طریقہ ہے۔ حافظ کی یہ ابتری ہے کہ بیان نہیں کر سکتا۔ واللہ فی کل فعل حکمتہ۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از صدر انبالہ حاطہ ناگ پہنی
(۴۰) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
پختہ ارادہ ہے کہ آخیر نومبر تک یہ عاجز قادیان کی طرف روانہ ہوگا۔ ابھی کوئی دن مقرر نہیں کہ کب تک یہاں سے روانہ ہونا پڑے۔ اگر موقع نکلا تو انشاء اللہ القدیر اطلاع دی جائے گی۔ اللہ جلشانہ اس اخلاص اور خدمت کا آپ کو بہت اجر بخشے۔ شیخ مہر علی شاہ نسبت ضرور قادیان میں ۲۶؍ اپریل ۱۸۸۶ء میں ایک خطرناک خواب آئی تھی جس کی یہی تعبیر تھی کہ ان پر ایک بڑی بھاری مصیبت نازل ہوگی۔ چنانچہ انہی دنوں ان کواطلاع بھی دی گئی تھی۔ خواب یہ تھی کہ ان کی فرش نشت کوآگ لگ گئی اور ایک بڑا تہکہ برپا ہوا اور ایک پرہول شعلہ آگ کا اٹھا او رکوئی نہیں تھا۔ جو اس کوبجھاتا۔ آخر میں میںنے بار بار پانی ڈال کر اس کو بجھا دیاپھر آگ نظر نہیںآئی مگر دھواں رہ گیا۔مجھے معلوم نہیں تھا کہ کس قدر اس نے آگ جلا دی۔ مگر ایسا ہی دل گزرا کہ تھوڑا نقصان ہوا۔ یہ خواب تھی۔ یہ خط شیخ صاحب کے حوالات میں ہونے کے بعد ان کے گھر سے ان کے بیٹے کوملا۔ پھر بعد میں اس کے بھی ایک دو خواب ایسے ہی آئے جن میں اکثر حصہ وحشت ناک اور کسی قدر اچھا تھا۔ میں تعبیر کے طور پر کہتا ہوں کہ شاید یہ مطلب ہے کہ درمیان میں سخت تکالیف ہیں اور انجام بخیر ہے مگر ابھی انجام کی حقیقت مجھ پر صفائی سے نہیں کھلی۔ جس کی نسبت دعوے سے بیان کیا جائے واللہ اعلم باالصواب۔ شیخ صاحب فی الحقیقت سپرد ششن ہو گئے۔ انا للہ وا نا الیہ راجعون۔ میں ان کی نسبت بہت دعا کرتا ہوں اور ان کے عزیزوںکو بھی تسلی کے خط لکھے ہیں۔ اگر کوئی امر صفائی سے منکشف ہوا تو آپ کو اطلاع دوں گا۔ آپ بھی دعا کریں۔ والسلام چوہدری محمد بخش صاحب و مولوی امام الدین صاحب و عطاء اللہ خاں صاحب کو سلام مسنون۔ اگر ملاقات ہو تو پہنچا دیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ صدر انبالہ
(۴۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی مکرمی اخویم سلمہ۔ بعد سلام مسنون۔
عنایت نامہ پہنچا۔ آپ کو ہر طرح اختیار ہے جس جو چاہیں مفت دیں اور اگر ممکن ہو تو پانچ جلد عمدہ خوبصورت اسی نمونہ کی جو میں نے دکھلایا تھا تیار کرا کر ساتھ آویں یا بھیج دیں۔ زیادہ خیریت ہے چوہدری محمد بخش صاحب کو سلام مسنون۔
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۷؍ اکتوبر ۱۸۸۶ء
(۴۲) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم سلمہ تعالیٰ۔ بعد سلام مسنون۔
یہ عاجز قادیان پہنچ گیا ہے اور یہ بات اطلاعاً لکھنا مناسب ہے کہ آں مکرم اس روپے سے جوبابت قیمت کتاب جمع ہو گا۔ ……۱۵۰ نقد بخدمت بابو الٰہی بخش صاحب اکائنٹنٹ لاہور پہنچا دیں۔ وہ سرمایہ رسالہ کے لئے جمع کر لیں گے۔ پتہ یہ ہے۔ بمقام لاہور انار کلی۔ پبلک ورکس۔ بابو الٰہی بخش صاحب اکوئنٹنٹ اور باقی روپیہ براہ مہربانی اس جگہ پہنچا دیں اور سب طرح سے خیریت ہے۔ بخدمت چوہدری محمد بخش صاحب سلام مسنون۔
راقم خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
نوٹ۔ یہ خط غالباً ۲۵؍ نومبر کے بعد کا ہے۔ عرفانی۔
(۴۳)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی ومکرمی اخویم رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
عنائت نامہ پہنچا یہ عاجز ۲۵؍نومبر ۱۸۸۲ء سے قادیان پہنچ گیا ہے آپ برائے مہربانی اس روپیہ سے …روپیہ بابو الٰہی بخش صاحب کے نام لاہور پہنچا دیں کہ وہ رسالہ کے لئے بابو صاحب کے پاس جمع ہوگا اور باقی روپیہ اس جگہ ارسال فرمادیں اور ہمیشہ خیرو عافیت سے مطلع فرماتے رہیں چوہدری محمد بخش صاحب کو سلام مسنون پہنچے ۔ والسلام۔
خاکسار
غلام احمد
از قادیان
ضلع گورداسپور
یکم دسمبر ۱۸۸۶ء
(۴۴) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
عنایت نامہ پہنچا۔ شیخ مہر علی صاحب کی نسبت میں نے بہت دعائیں کی ہیں اور …بہر حال علی طور پر امید رحمت الٰہی ہے۔ اور بہت چاہا کہ صفائی سے ان کی نسبت منکشف ہو مگر کچھ مکروہات اور کچھ اثار نظر آئے۔ اگر اس کی تعبیر اسی قدر ہو کہ مکروہات اور شدائد جس قدر بھگت چکے ہوں ان کی طرف اشارہ ہو۔ انجام بخیر کی بہت کچھ امید ہے۔ اور دعائیں بھی ازحدہوچکی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے حال پر رحم کرے ۔ آمین ثم آمین ۔ اور جوآپ نے نیت کی ہے اگر ضرورت ہوتو چار ماہ کے لئے بطور قرضہ سو یا دوسو روپیہ دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس نیت کا اجر بخشے۔ اگر کسی وقت ایسی ضرورت پیش آئے گی ۔ تو آپ کو اطلاع دوںگااور خود اس عاجز کا ارادہ ہے کہ جو امور ہندوؤں کے ویدسے بطور مقابلہ طلب کئے گئے ہیں۔ وہ بطور حق براہین ہیں۔ ابلاغ پائیں۔ اور اللہ جلشانہ‘ توفیق بخشے کہ تاہم ان سب امور کو انجام دے سکیں۔ بخدمت چودھری محمد بخش صاحب وجمیع احباب کو سلام مسنون پہنچے اورجس وقت آپ قادیان تشریف لاویں ایک شیشی چٹنی سرکہ کی ضرور ساتھ لاویں۔
نوٹ:یہ مکتوب حضرت کے اپنے قلم سے لکھا ہوا ہے مگر آپ حسب معمول اس پر اپنا نام نہیں لکھ سکے۔ تاریخ بھی درج نہیں سلسلہ خطوط سے دسمبر ۱۸۸۶ء کا پایا جاتا ہے ۔عرفانی
(۴۵)پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
آج آپ کا کارڈ مجھ کو ملا میں نے سنا ہے مولوی صاحب نے کچھ ریویو رسالہ سرمہ چشم آریہ پر لکھا ہے ابھی میرے پاس پہنچا۔ سنا جاتا ہے کہ ابھی وہ رسالہ چھپنا ہے۔ جب میرے پاس پہنچے شاید پندرہ روز تک پہنچے توا نشاء اللہ آپ کی مقرر یادہانی سے بھیج دوں گا۔ چودھری صاحب کو سلام مسنون پہنچے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۲۰؍دسمبر ۱۸۸۶ء
والسلام
(۴۶) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی منشی رستم علی خان صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آزبند اور قند جو پہلے آنمکرم نے بھیجے تھے۔ سب پہنچ گئے ہیں۔ امید ہے کہ آج یا کل شیر مال بھی پہنچ جائے گا۔ جزاکم اللہ احسن الجزاء۔ رسالہ سراج منیر کا مضمون تو اب تیار ہے۔ مگر اس کی طبع کے لئے تجویز کر رہا ہوں۔ کیونکہ تخمینہ کیا گیا ہے کہ اس کو چودہ سو روپیہ لاگت ہے۔ اگر کوئی مطبع کسی قدر پیچھے یعنی تین ماہ بعد لینا منظور کرے تو باآسانی کام چل جائے۔اور اشتہار میرے پاس پہنچ جائے ہے۔ فتح محمد خاں صاحب کی غلطی سے کچھ کا کچھ لکھ دیا۔ اب آپ بھی وصولی روپیہ قیمت سرمہ چشم آریہ کابہت جلد بندوبست کریں۔ اور ……روپیہ کی مجھے اور ضرورت ہے وہ میرے پاس بھیج دیں۔ باقی روپیہ منشی الٰہی بخش صاحب کے نام لاہور روانہ کر فرمادیںاور جو آپ نے دو سو روپیہ بطور قرضہ کے دینا تجویز کیا ہے وہ بھی ان کے پاس محفوظ رکھیں کہ اب روپیہ کی ضرورت بہت پڑے گی۔ قیمت رسالہ میں آج تک آپ سے …… پہنچ گئے ہیں اور ……روپیہ آنے سے پورے ……روپیہ ہو جائیںگے۔ شیخ مہر علی صاحب کے لئے بہت دعا کی گئی ہے۔ واللہ غفور الرحیم۔ سندرواس کے لئے تو ہم نے آپ کے کہنے سے بہت دعا کی تھی مگر چونکہ ہندو آخر ہندو ہے اس لئے وفاداری کے شکر گزار ہونا مشکل ہے ۔ آج کل ہندئووں کے جو مادے ظاہر ہو رہے ہیں۔ اس سے عقل حیران ہے ہندئووں میں وہ لوگ کم ہیں جو نیک اصل ہوں۔ ایک خطا۔ دوئم خطا۔ سوئم مادربخطا۔ بخدمت چوہدری محمد بخش صاحب السلام علیکم ۔
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
(۴۷)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ انشاء اللہ القدیر شیخ میر محمد صاحب کے واسطے دعا کروں گا آپ بالفصل پچیس روپیہ بذریعہ منی آرڈر اس جگہ کی ضرورتوں کے لئے ارسال فرما دیں او رباقی روپیہ کی وصولی کا جہاں تک ممکن ہو جلد بندوبست کریں تا وہ روپیہ سراج منیر کے کسی کام آوے اور قند جیساکہ آپ نے ہوشیار پور بھیجا تھا اور دو روپیہ کے شیر مال تازہ تیا رکروا کے ٹوکری میں بند کر کے بذریعہ ریل بھیج دیں او راوّل اس کی بلٹی بھیج دیں اور شیخ صاحب مہر علی صاحب کی صورت مقدمہ سے اطلاع بخشیں۔ سندر داس اس کی کامیابی سے خوشی ہوئی اللہ تعالیٰ اس کو سچی ہدایت بخشے کہ قوم میں سے باہر آنے کے ہرگز حاصل نہیں ہو سکتی۔ واللہ یھدی الیہ من یشاء۔ بخدمت چوہدری محمد بخش صاحب سلام مسنون۔ دو سو روپیہ جو قرضہ لیا جائے گا۔ آپ نے اپنے طور پر تیار رکھیں کہ جب نزدیک یادیر سے اس کی ضرورت ہوئی تو بھیجنے میں توقف نہ ہووے۔
(۴۸) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
شیخ مہر علی صاحب کے لئے میں نے اس قدر دعا کی ہے کہ جس کا شمار اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے۔ اللہ جلشانہ اس کی قدر بخشی کرے۔ کہ وہ کریم و رحیم ہے۔ رونے والوں کو ایک دم ہنسا نہیں سکتا۔ سندر داس کے لئے بھی دعا کی گئی ہے۔ مگر اسے کیوں ایسا مضطر ہوناچاہئے۔ وہ تو ابھی لڑکا ہے اور ابھی وہ بہت وسیع میدان درپیش ہے مجھے معلوم نہیں کہ آپ نے کس قدر روپیہ لاہور میں بھیجا ہے۔اگر کچھ بقیہ آپ کے پاس ہو تو مجھے بعض ضروریات کے لئے منگوانا ضروری ہے۔اس سے جلد اطلاع بخشیں اورنیز معلوم ہوتا ہے کہ قرضہ کی بھی ضرورت پڑے گی۔ سو آپ دو سو روپیہ تک قرضہ کا انتظام کر دیں تو اس قسم کا ثواب بھی آپ کو حاصل ہو گا۔ باقی خیریت ہے۔ مقدمہ شیخ مہر علی صاحب سے اطلاع بخشیں۔
والسلام
(۴۹) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی مکرمی محبی۔ السلام عیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ معہ قصیدہ متبرکہ موصول ہوکر بہت خوشی ہوئی۔ جزاکم اللہ خیرا لجزاء۔ اگر چند بوتل سوڈا واٹر مل سکیں تووہ بھی بھیج دینا۔ یہ قصیدہ انشاء اللہ ورج کتاب کرا دوں گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از لودھیانہ
(۵۰) ملفوف و مختوم
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
کل عنایت نامہ آپ کاپہنچا۔ مگر کوئی کارڈ نہیں پہنچا۔ شیخ مہر علی صاحب کے واسطے جس قدراس عاجز سے ہو سکا۔ دعا کی گئی اور حوالہ بخدا وند کریم و رحیم کیا گیا ۔ اور اس جگہ سب خیریت ہے۔ رسالہ سراج منیر کے طبع میں صرف بعض امور کی نسبت دریافت کرنا موجب توقف ہو رہا ہے۔ جب وہ امور بھی طے ہو جاتے ہیں۔ تو پھر انشاء اللہ القدیر رسالہ کا طبع ہونا شروع ہو جائے گا اور شائد امرتسر میں کسی قدر توقف کرنا ضروری ہو گا۔ اب آپ کی تشریف آواری کی ۲۶؍ دسمبر تک امید لگی ہوئی ہے اور اس جگہ بفضلہ تعالیٰ سب طرح سے خیرییت ہے۔ اخویم چوہدری محمد بخش صاحب سلام مسنون پہنچے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۵؍ دسمبر ۱۸۸۶ء
نوٹ۔ یہ پہلا خط ہے جس پر حضرت اقدس نے تین مہریں لگائی ہیں ایک الیس اللہ بکاف عبدہ۔ کی ہیں اور دوسری اذکر رحمتی کی ہے اور یہ مہریں آپ نے شروع خط میں لگائی ہیں۔(
( عرفانی)
(۵۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی سلمہ تعالیٰ۔ بعد سلام مسنون۔
عنایت نامہ پہنچا۔ سردار کی بات بالکل فضول اور دروغ معلوم ہوتی۔ صحیفہ قدسی بہت مدت سے میرے پاس آتا ہے اور اس کا ایڈیٹر ایک دوست ہے۔ اس میں مجال نہیں کہ کوئی مخالف مضمون چھپے اور آریہ گزٹ قادیان میں آتا ہے اگر ہوتا تو ظاہر ہو جاتا۔ جو مضمون شائع ہوچکا اس کا پوشیدہ کرنا کوئی وجہ نہیں۔ کل اشاعۃ السنہ خدمت میں بھیجا گیا ہے۔ ولیوپی امیل کے کاغذات جو آپ نے بھیجے ہیں وہ بے رنگ ہوکر آئے۔ کسی نے ۵؍ انپر لگا دیا۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ از قادیان
۳۰؍ دسمبر ۱۸۸۶ء
نوٹ۔ صحیفہ قدسی کے ایڈیٹرمولوی عبدالقدوس صاحب مرحوم تھے اور فی الحقیقت حضرت اقدس سے ان کو محبت واخلاص تھا۔ مقدمہ کرم دین میں بطور گواہ پیش ہوئے۔ الحکم کے خریدار تھے۔
(عرفانی)
(۵۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد سلام مسنون۔
کل ایک روز خط حاجی ولی اللہ صاحب کی طرف روانہ کیا گیا ہے۔ جس میں ان کو واپسی کی طرف رغبت دی گئی ہے اور جواب طلب کیا گیا ہے جواب آنے پر اطلاع دوں گا۔ مضمون جو آپ لے گئے تھے ضرور چھپوا دیں۔ سندر داس کے لئے انشاء اللہ دعا کروں گا۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۱؍ ربیع الثانی ۱۳۰۴ء
(۵۳) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم سلمہ تعالیٰ۔ اسلام علیکم ورحمۃا للہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا مجھے اس وقت پختہ معلوم نہیں کہ کب تک امرتسر جائوں۔ شاید بیس روز تک جانا ہو۔ بہرحال اس وقت انشاء اللہ خبر دے دوں گا۔ شیخ صاحب کے لئے اس قدر دعا کی گئی ہے بہر حال رحم اللہ جلشانہ کی امید ہے وھو الغفور الرحیم۔ آپ استغفار کو لازم پکڑیں۔ اس میں کفارہ و ثواب ہے التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ۔ سندر داس کے لئے بھی دعا کی ہے۔ واللّٰہ یفعل مایشاء
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ از قادیان
نوٹ۔ خط پر تاریخ نہیں۔ مگر مہر ۴؍ جنوری ۱۸۸۷ء درج ہے۔
(عرفانی)
(۵۴) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی سلمہ تعالیٰ۔ بعد سلام مسنون۔
جیساکہ آپ کو دلی جوش شیخ صاحب کے حق میں ہے ایساہی مجھ کو ہے اور میں نے اس قدر دلی جوش سے دعا ان کے حق میں کی ہے۔ جس کا کچھ اندازہ نہیں رہا۔ اب ہم اس قدر دعائوں کے بعد شیخ صاحب کو اسی ذات کریم و رحیم کے سپرد کرتے ہیں جواپنے عاجز اور گنہگار بندوں کی تفصیرات بخشتا ہے اور عین موت کے قریب دیکھ لیتا ہے۔ واللہ علی کل شئی قدیر حالات سے اطلاع بخشتے رہیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ قادیان
۱۱؍ فروری ۱۸۸۷ء
(۵۵) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ‘۔
اشتہار پہنچااور…روپیہ بھی پہنچ گئے۔ انشاء اللہ القدیر اشتہار دینے والے شرمندہ اور رسوا ہونگے۔ آج کل ہندؤوں کو اپنے قومی تعصب میں بہت کچھ اشتعال ہورہا ہے مگر دروغ کو فروغ تا کجا خودنابود ہوجائیں گے۔ شیخ مہر علی صاحب کے مقدمہ کی تاریخ پہلے آپ نے ۲۲ مارچ ۸۷ء لکھی ہے ۔ کیا پیشی سے پہلے تاریخ منسوخ ہوگئی یا تاریخ سے پہلے مقدمہ پیش ہوگیا۔ اس سے ضرور اطلاع بخشیں۔ چودھری محمد بخش صاحب کو سلام مسنون پہنچے۔
خاکسار
غلام احمدعفی عنہ
۲۲؍فروری ۱۸۸۷ء ازقادیان
(۵۶) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃا للہ وبرکاتہ
پانچ روپیہ کے شیر مال پہنچ گئے ہیں۔ جزاکم اللہ خیرا اور سب طرح سے خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ از قادیان
نوٹ۔ اس پر تاریخ نہیں ہے مگر مہر ۴؍ مئی ۱۸۸۷ء کی ہے۔
(۵۷) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
آج مبلغ پندرہ روپے بابت قیمت کتاب سرمہ چشم آریہ پہنچ گئے۔ رسیدًا اطلاع خدمت ہے باقی سب طرح سے خیریت ہے۔ میں دعا کروں گا۔ اللہ تعالیٰ آپ کا ترود دور فرمائے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۸؍ مارچ ۱۸۸۷ء
نوٹ۔ اس خط پر سندر داس از جالندھر بھی درج ہے جو اس نے خط پہنچنے پر لکھا ہے۔
(عرفانی)
(۵۸) ملفوف
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کے دوست کے لئے بہت دفعہ دعا کی گئی۔ اگر کچھ مادہ سعادت مخفی ہے تو کسی وقت اثر کرے گی۔ ورنہ تہیدست ازل کا کیا علاج آپ کے لئے دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ آپ کو غیروں کی طرف التفات کرنے سے مستغنی کرے۔ واللّٰہ علی کل شئی قدیر۔ رسالہ سراج منیر کاسب اسباب تیار ہے صرف یہ خیال ہے کہ اوّل خریداروں کی مجرو درخواستیں دو ہزار تک پہنچ جائیں پھر چھپنا شروع ہو۔ کیونکہ یہ کام بڑا ہے جس میں دو ہزار کے قریب خرچ ہو گا۔ آپ بھی اطلاع بخشیں کہ ایسے سچے شائق آپ کو کس قدر مل سکتے ہیں۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۱؍ مارچ ۱۸۸۷ء
(۵۹) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
۲۶؍ مارچ ۱۸۸۷ء کو بباعث ضروری کام رسالہ رو ایک یا وہ گو کہ ایک ہفتہ کے لئے جانا پڑا ہے۔ اس لئے اطلاع دیتا ہوں کہ اگر فرصت ہو تو امرتسر میں آپ کی ملاقات ہو جائے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۳؍ مارچ ۱۸۸۷ء
(۶۰) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃا للہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ مجھے کچھ بھی معلوم نہیں کہ کہاں اتروں گا۔ انشاء اللہ وہاں جاکر اطلاع دوں گا۔ اگرچہ میرا پتہ ہال بازار۔ مطبع ریاض ہند میں جاکر شیخ نور احمد سے جو مالک مطبع ہیں۔ بخوبی مل سکتاہے۔ مگر پھر بھی انشاء اللہ امرتسر میں جاکر آپ کو اطلاع دوں گا۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
نوٹ۔ اس خط پر تاریخ درج نہیں ۔ مگر مہر ۲۶؍ مارچ ۱۸۸۷ء کی ہے۔ (عرفانی)
(۶۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
یہ عاجز امرتسر پہنچ گیا ہے۔ شاید پیر منگل تک اس جگہ رہوں مگر بروز اتوار صرف ایک دن کے لئے لاہور جانے کاارادہ ہے۔ اگر آپ تشریف لائیںتو میں کٹرہ مہاں سنگھ میں برمکان منشی محمد عمرداوغہ سابق اتر ہوں۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از امرتسر کٹرہ مہاں سنگھ
۳۰؍ مارچ ۱۸۸۷ء
(۶۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد سلام مسنون ہیں۔
امرتسر سے قادیان آگیا ہوں۔ آپ دوام استغفار سے غافل نہ رہیں کہ دنیا نہایت خطرناک آزمائش گاہ ہے۔ شاید کتاب شحنہ حق آپ کے پاس پہنچی ہے یا نہیں۔ یہ بھی معلوم نہیںکے پہلی کتابوں کی بقیہ قیمت وصول ہوئی یا نہیں۔ اب وہ تمام قیمت جلد وصول ہوجائے تو بہتر ہے۔کہ وقت نزدیک ہے اطلاع بخشیں ۔ میر صاحب جالندھر میں ہیںیا تشریف لے گئے ہیںامرتسر میں آپ کی بہت انتظار ہوتی رہی مگر مرضی الٰہی نہ تھی۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمدعفی عنہ
۸؍اپریل ۱۸۸۷ء
(۶۳)پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الر حمن الر حیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
چونکہ نئے رسالہ شحنہ حق کی اجرت وغیرہ ادا کرنا ہے اور اس جگہ روپیہ وغیرہ نہیں ہے۔ اس لئے مکلف ہوں۔ کہ آپ مجھ کو بیس …روپیہ بھیج دیں اور حساب یاداشت میں لکھتے رہیں یعنی جس قدر آپ نے متفرق بھیجا ہے۔ا س کو آپ اپنی یاداشت میں تحریر فرماتے جاویںاور اب وصولی روپیہ اور تصفیہ بقایا کی طرف توجہ فرماویں ۔ کہ اب روپیہ کی بہت ضرورت پڑے گی۔ بڑا بھاری کام سر پر آگیا ہے۔ آپ کی ملاقات اگر کبھی ہوتو بہتر ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
نوٹ:۔تاریخ درج نہیں ڈاک خانہ کی مہر قادیان ۱۱؍اپریل ۱۸۸۷ء ہے۔ عرفانی
(۶۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الر حمن الر حیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
رسالہ ماہوار کی قیمت بہت ہلکی اور خفیف رکھنا مصلحت سمجھا گیا ہے مگر رسالہ کے نکلنے پر معلوم ہو جاوے گا۔ آپ کی ہمدردی دینی معلوم کرنے سے باربار آپ کے لئے دعا نکلتی ہے کہ خداوند کریم جلشانہ‘آپ کو محمود الدنیاو العاقبت کرے۔ یہ نہایت خوشی کی بات ہے کہ آپ نے دوسو رسالہ سراج منیر اپنے ذمہ لے لیا ہے۔ جزاکم اللّٰہ خیرا۔ ملاقات کو دل چاہتا ہے ۔اگر آپ کو کسی وقت فرصت ملے تو اول اطلاع بخشیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۱۸؍اپریل ۱۸۸۷ء
نوٹ:۔اس مکتوب میں جس رسالہ کا ذکر حضرت اقدس نے کیا ہے اس سے مرادقرآنی صداقتوں کا جلوہ گاہ ہے جوآپ ماہوار جاری فرمانا چاہتے تھے اس کا اعلان آپ نے شحنہ حق میں بھی فرمایاتھا ۔ مگر بعد کے واقعات اور حالات نے حضور کو اور طرف متوجہ کردیا۔ پھر ایک زمانہ میں نورالقرآن آپ نے شائع کرنا شروع فرمایا چونکہ یہ رسائل کسی تجارتی اصول پر جاری نہیں کرنے چاہے تھے اس لئے دونمبروں کے بعد یہ رسالہ بند ہوگیاہے۔ مگر خداتعالیٰ نے آپ کے مقاصد و منشاء کی اشاعت سے سامان اخبارات و رسالہ جات کی صورت میں کردیئے جو آج کئی زبانوں میں جاری ہیں۔ عرفانی۔
(۶۵) ملفوف
بسم اللّٰہ الر حمن الر حیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ۔
آپ کا عنایت نامہ پہنچا ۔دعا کی گئی ۔ مجھ کو بباعث علالت طبعیت خود کم فرصتی بھی ہے۔ اب میں آپ سے ایک ضروری امر میں مشورہ لینا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ بوجہ چند در چندو جہوں کے دوسری جگہ کتابوں کے طبع کرانے سے میری طبعیت وق آگئی ہے۔ میرا ارادہ ہے کہ اپنا مطبع تیارکرکے کام سراج منیر و دیگر رسائل کا شروع کرادوں اگر مطبع میں کچھ خسارہ بھی ہوگا۔ تو ان خساروں کی نسبت کم ہوگا۔ جو مجھے دوسرے لوگوں کے مطبع سے اٹھانے پڑتے ہیں۔ لیکن تخمینہ کیا گیا ہے کہ اس کام کے شروع کرانے میں تیرہ چودہ سو روپیہ خرچ آئے گا۔ جس میں خرید پریس وغیرہ بھی داخل ہے اور آپ نے اقرار کیا تھا کہ ہم تین ماہ کے عرصہ کے لئے دوسو روپیہ بطور قرض دے سکتے ہیں۔ سو اگر آپ سے یہ ہوسکے اور آپ کسی طور سے یہ بندوبست کرسکیں کہ چارسو روپیہ بطور قرضہ چھ ماہ کے لئے تجویز کرکے مجھ کو اطلاع دیں تو میں جانتا ہوں کہ اس میں آپ کو بہت ثواب ہوگا۔ اگر خداتعالیٰ چاہے تو چھ ماہ کے اندر ہی یہ قرضہ ادا کرادے لیکن چھ ماہ کے بعد بلاتوقف آپ کو دیا جائے گا اس کا جواب آپ بہت جلد بھیج دیں۔ کچھ تعجب نہیں کہ آپ ہاتھ پر خداتعالیٰ نے یہ خیر مقدر کی ہو۔ اگر میں سمجھتا کہ آپ اِدھر اُدھر سے لے کر کچھ اور زیادہ بندوبست کرسکتے ہیں تو میں آپ آٹھ سَو روپیہ کے لئے آپ کو لکھتا مگر مجھے خیال ہے کہ گو آپ اپنے نفس سے اللہ رسول کی راہ میں فدا ہیں۔ مگر آجکل دوسرے مسلمان ایسے ضعیف ہورہے ہیں کہ ان کے پاس قرضہ کا بھی نام لیا جائے تو ان کی طبع میں قبض شروع ہوجاتا ہے۔ جو اب سے جلد تر اطلاع بخشیں۔ شیخ مہر علی صاحب کے مقدمہ کی نسبت اگر کچھ پتہ ہو تو ضرور اطلاع بخشیں۔ زیادہ خیریت ہے ۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۱۱؍مئی ۸۷ء
نوٹ:۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۸۸۷ء میں ارادہ فرمایا کہ قادیان میں ایک مطبع جاری ہو مگر مشیت ایزدی نے اس وقت اس کے لئے سامان پیدا نہ دیئے۔ اس کے بعد مختلف اوقات میں قادیان میں پریس منگوایا گیا مگر وہ کام کرکے واپس چلاجاتا رہا۔ آخر بالا استقلال خدا تعالی نے یہاں مطبع کا سامان مہیا کردیا۔ خاکسار عرفانی نے مشین پریس قائم کیا جواب ضیاء الاسلام پریس میں کام کرتا ہے۔ حضرت کے ہرارادہ کی خداتعالیٰ نے تکمیل کردی۔ گو لوکان بعد حین ہوئی مگر پریس آپ کی زندگی میں ہی اور اخبارات ورسائل بھی آپ کی زندگی میں جاری ہوگئے یہ منشاء الٰہی تھا اور پورہوکررہا۔ اس مکتوب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چودھری صاحب کے خدا تعالیٰ کی رہ میں فدا ہونے کا اظہار فرمایا ہے جو حضرت چودھری صاحب رضی اللہ عنہ کے کمال اخلاص اور اس کے نتیجہ میں کامل فلاح پانے کا ثبوت ہے۔ (عرفانی)
(۶۶) ملفوف
بسم اللّٰہ الر حمن الر حیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
آج آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔مولوی غلام محی الدین کے لئے میں نے کئی دفعہ دعا کی ہے اور اللہ تعالیٰ ان کو تروّدات سے مخلصی بخشے اب مجھ کو نہایت جلد اسبات کی ہے کہ جس طرح ہوسکے اپنے کام کو شروع کروں جن پر کسی قدر امید پڑتی ہے قرضہ کے لئے لکھ دیا ہے اور سب کو لکھا گیا ہے کہ بعد طبع سراج منیر ایک برس کے وعدہ پر قرض دیں۔ آپ کے مانند چارپانچ آدمی ہیں اورچودہ سو روپیہ ……کے قرضہ کا بندوبست کرنا ہے آپ مجھ کو بہت جلد اطلاع دیں کہ آپ ٹھیک اس وعدہ پر کس قدر قرضہ کابندوبست کرسکتے ہیں تا میں روپیہ کومنگوانے کے لئے کوئی تجویز کروں اور پھر لاہور میں خرید مطبع کے لئے آدمی بھیجا جائے۔ اب یہ کام جلدی کا ہے کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ ماہ مبارک رمضان میں یہ کام شروع ہو جائے۔جس قدر بقیہ کتب ہو وے وہ بھی آپ وصول کر کے جلد بھیج دیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۹؍ شعبان
نوٹ۔ اس خط میں جن مولوی غلام محی الدین صاحب کوذکر ہے وہ مڈل سکول کے ہیڈ ماسٹر تھے خاکسار عرفانی کے بھی استاد تھے عرفانی نے براہین احمدیہ ۱۸۸۷ء میں انہیں صاحب کے پاس دیکھی تھی اور جمال وحسن قرآن نو ر جان ہر مسلمان ہے والی نظم کو اس میں سے نقل کیا تھا سلسلہ احمدیہ میں جیساکہ بعد میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا نام رکھایا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے میرے تعلقات کی ابتداء اسی ۱۸۸۷ء سے ہوتی ہے اور چوہدری علی صاحب مرحوم ہی اسی کے موجب ہیں یہ کتاب چوہدری صاحب ہی کی تھی۔ مولوی غلام محی الدین صاحب کوحضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ابتداً ارادت و عقیدت تھی مگر افسوس ہے کہ وہ بیعت میں داخل نہ ہو سکے۔
(عرفانی)
(۶۷) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم ۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی مکرمی۔ اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔
شیخ مہر علی صاحب کی نسبت اب تک کوئی خبر نہیں آئی کہ بریت پاکر بخیرو عافیت گھر پہنچ گئے۔ اگر آپ کو خبر ہو تو برائے مہربانی اطلاع بخشیں۔ قرضہ کی بابت تجربہ کار لوگوں سے دریافت کیا گیا۔ تو انہوں نے اس تجویز کی تجسس کی لیکن یہ کہا کہ جس حالت میں انہیں کتابوں کی فروخت سے قرضہ اتارا جائے گا۔ تو اس صورت میں کم سے کم ادائے قرضہ کی میعاد ایک سال ہونی چاہئے۔ کیونکہ سراج منیر پانچ مہینہ سے کم نہیں چھپے گا۔ اس لئے میں نے کلاً علی اللہ بعض دوستوں کو لکھا ہے او رمیرا ارادہ ہے کہ اگر قرضہ کا بندوبست حسب و لخواہ ہو جائے تو بہت جلد اس کام کو شروع کروں۔ آپ کو میں نے چھ ماہ کے وعدہ کے لئے خط لکھا تھا۔ مگر درحقیقت وعدہ ایک سال بہت خوب ہے اگر آپ متحمل ہوسکیں۔ توا س ثواب کے لئے میں عین جدوجہد کریں۔میرا ارادہ ہے کہ رمضان شریف میں یہ کام شروع ہو جائے۔ آیندہ جو ارادہ الٰہی ہو۔ مجھے اس زبانی یاد نہیں کہ آپ نے کتابوں کی قیمت میں کیا کچھ ارسال فرمایا تھا اور کیاباقی ہے بہرحال جوکچھ باقی ہے اب اس موقعہ میں جہاں تک جلدی ممکن ہو بھیجنا چاہئے اور نیز اس قرضہ کی بابت جو اس میعاد کے لئے ہو ممکن ہو جیسی مرضی ہو اطلاع دینی چاہئے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۲۹؍ مئی ۱۸۸۷ء
(۶۸) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم ۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی۔ اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ جو کچھ آپ نے ایک سال کے وعدہ پر سو روپیہ دینا کیا ہے۔ اس سے بہت خوشی ہوئی ۔ لیکن اس بات کوبھی اپنے لئے گوارہ کر لیں کہ یہ وعدہ اس تاریخ سے ہو کہ جب سراج منیر چھپ کر تیار ہو جائے۔ کیونکہ سراج منیر کی چھپائی کا کام پانچ یا چھ ماہ تک ختم ہو گا۔ چونکہ یہ روپیہ سراج منیر ہی کی فروخت سے نکالا جائے گا اس لئے صرف چھ ماہ تک ایک خطرناک عہد ہے۔ ایسا ہونا چاہئے کہ ایک سال پر چھ ماہ اور زائد کئے جائیں۔ بقیہ فروخت کتب کا جو رپیہ ہے اگر وہ آپ بہت جلد ساتھ لاویں تو آپ کی ملاقات بھی ہو جائے بہت خوشی کی بات ہے اگر آپ آویںتو ……روپیہ کی شکر جو عمدہ ہو اور نیز ایک بوتل چٹنی کی اور دو شیر مال میرے حساب میں خرید کر ساتھ لاویں ا ور اگر جلدتر آنا ہو ممکن ہو توبقیہ روپیہ فروخت کتب کا بذریعہ منی آرڈر بھیج دیں۔ لیکن جلد آنا چاہئے۔ کیونکہ مجھے اس وقت روپیہ کی بہت ضرورت ہے اور نیز میرا ارادہ ہے۔ اگر خداتعالیٰ چاہے تو پختہ ارادہ ہے کہ اسی ماہ رمضان میں جوبہت مبارک ہے یہ کام شروع کیا جائے۔ سو اگر آپ تشریف لائیں تو بعض امور کا مشورہ آپ سے لیا جائے۔ اگر ممکن ہو تو مکرمی اخویم میر عباس علی صاحب بھی ساتھ آجائیں توبہتر ہو میر صاحب سے استصواب کر لیں۔ یہ کام بہت عظم الشان ہے۔ دوستوں کامشورہ اس میں بہتر ہے اور بعض مشورہ طلب امور بھی ہیں۔ آپ پہلے آنے کی پختہ گنجائش نکال کر پھر میر صاحب کولکھیں۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۲۹؍ مئی ۱۸۸۷ء
(۶۹) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم ۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ آپ نے جو مخنثون کا گھر آباد دیکھا جو زیوروں سے آراستہ ہیں اس سے مراد دنیا دار ہیں جو دنیا کی آرائشوں میں مشغول ہیں اور جو دیکھا کہ ایک دوست کی تلاش میں دوڑ رہے ہیں اور پرواز بھی کر رہے ہیں اور پھر ملاقات ہو گئی۔ یہ کسی کامیابی کی طرف اشارہ ہے اور دوست کے جگر سے مال مراد ہے جوانسان کو بالطبع عزیز ہوتا ہے اور دشمن کے جگر کا کانٹا اس پر تباہی ڈالتا ہے۔ تلوار ہاتھ میں ہونا فتح و نصرت کی نشانی ہے۔ غرض اللہ تعالیٰ نے وہ کام جو اب درپیش ہیں۔ آپ کو دکھا دیا ہے۔ اس کام میں چند دوستوں کی قرضہ کے لئے تکلیف دی گئی ہے۔ تا دشمنوں کی بیخ کنیکی جائے۔ سو خواب بہت عمدہ ہے۔ میں امید رکھتا ہوں کہ فرصت نکال کر ملاقات کریں۔ ایک اور تکلیف دیتا ہوں اگر ممکن ہو سکے تو اس کے لئے سعی کریں۔ آج کل ماہ رمضان بباعث مہمانداری و مصارف خانگی میں روغن زرد یعنی گھی کی بہت ضرورت در پیش ہے اور اتفاق ایسا ہوا کہ گھی جو جمع تھا سب خرچ ہو گیا اور اردگرد تمام تلاش کیا گیا اچھا گھی ملتا نہیں آخر چھ سات دن کے بعد ہمارا معتبر میاں فتح خاں واپس آیا۔ اگر پانچ روپیہ کا گھی عمدہ کسی گائوں سے مل سکے تو میرے حساب میں ضرور خرید کر ضرور ساتھ لاویں اور وہ دوسری چیزیں بھی جو میں نے لکھی تھیں۔بخدمت چوہدری صاحب کو سلام مسنون۔
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۳۰؍ مئی ۱۸۸۷ء
(۷۰) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم ۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی۔ بعد السلام علیکم۔
اس وقت میں انبالی چھائونی کی طرف روانہ ہوتا ہوں۔ کیونکہ میر ناصر صاحب لکھتے ہیں کہ میرے گھر کے لوگ سخت بیمار ہیں۔ زندگی سے ناامید ہے۔ ان کی لڑکی کی اپنی والدہ سے ایسے وقت میں ملاقات ہونی چاہئے۔ سو میں آج لے کر اسی وقت روانہ ہوتا ہوں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۱۹؍ جون ۱۸۸۷ء
(۷۱) پوسٹ کارڈ
مکرمی اخویم۔ بعد السلام علیکم۔
آم پہنچ گئے۔ اگر دوسری دفعہ ارادہ ارسال ہو تو دو امر کا لحاظ رکھیں۔ ایک تو آم کسی قدر کچے ہوں دوسرے ایسے ہوں جن میں صوف ہو اور جن کا شیرہ پتلا ہو۔ میںنے سندر داس کی شفا اور نیز ہدایت کے لئے دعا کی ہے۔ اطلاعاً لکھا گیا۔
خاکسار
والسلام
غلام احمد از قادیان
۱۶؍ جولائی ۸۷ء
(۷۲) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم ۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم۔
آج ایک ٹوکرہ آموں کاپہنچ گیا۔ جزاکم اللّٰہ خیرا۔ بوجہ شدت حرارت موسم آم جو ٹوکرے کے اندر دبے ہوئے تھے بگڑ گئے۔ اس لئے آموں کی کیفیت سے کچھ اطلاع نہیں ہوئی۔ اگر ٹوکرے میں درخت سے تازہ توڑ کر کسی قدر کچے رکھے جاتے تو غالباً امید تھی کہ نہ بگڑتے۔ دوسری مرتبہ یہ ضرور احتیاط رکھیں میںنے جو آج خواب میں دیکھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہمارے مکان پر موجود ہیں۔ دل میں خیال آیا کہ ان کو کھلائیں۔ آم توخراب ہو گئے ہیں۔ تب اور آم غیب سے موجود ہو گئے۔ واللہ اعلم۔ اس کی کیا تعبیر ہے۔ مولوی حکیم نورالدین صاحب کا آدھا ٹکڑا نوٹ پانچ سو رپیہ کا پہنچ گیا اور ساتھ ہی روپیہ نقد پہنچے اور آدھا ٹکڑا نوٹ کا امید کہ دس روز تک پہنچ جائے گا۔ سندر داس کے لئے انشاء اللہ دعا کروں گا۔ بخدمت چوہدری صاحب کو محمد بخش السلام علیکم۔
الراقم خاکسار
غلام احمد ا ز قادیان
۱۱؍ جولائی ۱۸۸۷ء
(۷۳) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم ۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم۔ بعد السلام علیکم۔
آج اِکیاسی آم مرسلہ آپ کے پہنچ گئے۔ یہ آم بہت عمدہ تھے۔ ان میں سے صرف ایک بگڑا۔ باقی سب عمدہ پہنچ گئے۔ دو آدمیوں کے پاس ضرور آپ دوبارہ تحریک کریں اور جلداطلاع بخشیں کہ اب وقت نزدیک ہے۔ شاید آج دوسرا قطعہ پانچ سو روپیہ کا بقایا آجائے۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۹؍ جولائی ۱۸۸۷ء
عاجز عبداللہ سنوری کا سلام علیک۔
نوٹ۔ منشی عبداللہ سنوری صاحب رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھ سے اس کارڈ پر سلام علیک لکھا ہے۔ (عرفانی)
(۷۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم ۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آم پہنچ گئے۔ آپ نے خالصاً للہ بہت خدمت کی ہے اور دلی محبت اور اخلاص سے آپ خدمت میں لگے ہو ئے ہیں اللہ جلشانہ آپ کوبہت اجر بخشے۔ پاس کا جواب آنے سے مجھ کو آپ اطلاع بخشیں۔ میاں نور احمد خود بخود دہلی چلے گئے۔ مگر پاس د و آدمیوں کے لئے ہونا چاہئے۔ نصف ٹکڑا نوٹ ابھی نہیں آیا۔ فتح خاں و حامد علی کا سلام علیکم۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۱؍ جولائی ۱۸۸۷ء
نوٹ۔ اس کارڈ پر فتح محمد و حامد علی کا سلام علیکم بھی درج ہے۔(عرفانی)

(۷۵) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم ۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آج سولہویں ذیعقد ۱۳۰۴ء ھ بفضلہ تعالیٰ و کرمہ اس عاجز کے گھر لڑکا پیدا ہوا ہے۔ ۲۲ ذیعقد مطابق ۱۳؍ اگست روز عقیقہ ہے۔ اگر کچھ موجب تکلیف وحرج نہ ہوتو آپ تشریف لا کر ممنون احسان فرماویں۔ فقط۔
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور
۷؍ اگست ۱۸۸۷ء
اور چوہدری محمد بخش صاحب کوبھی اطلاع کر دیں۔ سب کاسلام۔ والسلام
نوٹ۔ اس مکتوب میں بشیر اوّل واللہم جعلہ فرطاً کی پیدائش کی آپ نے بشارت دی ہے چونکہ ایک مولود کے متعلق خد اتعالیٰ کی ایک عظیم الشان بشارت برنگ پیشگوئی ہوئی تھی بشیراوّل کے پید اہونے پر حضرت اقدس کا خیال اسی طرف گیا کہ شاید یہی وہ مولود موعود ہو اس کے عقیقہ پر آپ نے بہت سے دوستوں کو دعوت دی تھی او ریہ عقیقہ خدا تعالیٰ کے نشان کے پورا ہونے پر اظہار مسرت و شکر گزاری کا ایک بہترین نمونہ تھا۔ اس کے متعلق تفصیل آپ کے سوانخ حیات میں ہو گی۔ انشاء اللہ العزیز۔ (عرفانی)
(۷۶)پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم ۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعدا لسلام علیکم ۔
دو شطرنجی کلاں اگردو روز کے لئے بطور مستعار مل سکیں توضرور بندوبست کر کے ساتھ لاویں اور پھر ساتھ ہی لے جاویں او رجمعہ تک یعنی جمعہ کی شام تک ضرور تشریف لے آویں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۰؍ اگست ۱۸۸۷ء
(۷۷) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم ۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی۔ رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میں ایک آپ کو نہایت ضروری تکلیف دیتا ہوں۔ امید ہے کہ آپ کے جدوجہد سے یہ کام بھی انجام پذیر ہو جائے گا اور وہ یہ ہے کہ دو روز کے لئے ایک سائبان درکار ہے جوبڑا سائبان ہوخیمہ کی طرح جس کے اندر آرام پاسکیں۔ اگر سائبان نہ ہو تو خیمہ ہی ہو۔ ضرور کسی رئیس سے لے کر ساتھ لاویں۔ نہایت ضروری ہے۔ کیونکہ مکان کی تنگی ہے۔ بہت توجہ کر کے کوشش کریں۔
خاکسار
غلام احمد
۱۰؍ اگست ۱۸۸۷ء
(۷۸) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد سلام مسنون۔
آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ مگر پان نہیں پہنچے۔ حتی المقدر ور آپ ایسا بندوبست کریں پان دوسرے چوتھے روز باآسانی پہنچ جایا کریں اور اب تک جہاں ممکن ہو۔ پان جلدی پہنچا دیں اور دوبارہ آپ کو تاکیداً لکھتا ہوں کہ آپ بڑی جدوجہد سے ڈیڑھ من خام روغن زرد عمدہ جمعہ تک پہنچا دیں اور ……۳۰ روپیہ نقد ارسال فرما دیں اور شاید قریباً یہ ……یا ……روپیہ ہوں گے آپ اس میں جہاں تک ہو سکے بڑی کوشش کریں اور عقیقہ کی ضیافت کے لئے تین بوتل عمدہ چٹنی کی اور بیس ثار آلو پختہ اور چار ثار اربی پختہ اور کسی قدر میتھی و پالک وغیرہ ترکاری اگر مل سکے ضرور ارسال فرمادیں۔ یہ بڑا بھارا اہتمام عقیقہ کا میں نے آپ کے ذمہ ڈال دیا ہے۔ بہتر ہے کہ آپ تین روز کی رخصت لے کر معہ ان سب چیزوں کے جمعہ کی شام تک قادیان میں پہنچ جائیں کیونکہ ہفتہ کے دن عقیقہ ہے۔ اگر چوہدری محمدبخش صاحب کو بھی ساتھ لاویں تو بہت خوشی کی بات ہے۔ مگر آپ تو بہرحال آویں اور اوّل تو چار روز کی ورنہ تین دن کی ضرور رخصت لے آویں۔ میں نے سندر داس اس کیلئے بہت دعا کی ہے اور نیز مراد علی صاحب بھی اس تقریب میں تشریف لاویں توعین خوشی ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمدعفی عنہ
نوٹ۔ اس خط پر تاریخ درج نہیں مگر سلسلہ بتاتا ہے کہ اگست ۱۸۸۷ء کاخط ہے مولوی مراد علی صاحب جالندھری مشہور آدمی تھے۔ (عرفانی)
(۷۹) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد سلام مسنون۔
اس وقت ایک نہایت ضروری خیمہ سائبان کی پیش آئی ہے کیونکہ معلوم ہوتا ہے کہ مہمان عقیقہ کے روز اس قدر آئیں گے کہ مکان میں گنجائش نہیں ہوگی۔ یہ آپ کے لئے ثواب حاصل کرنے کا عمدہ موقعہ ہے۔ اس لئے مکلف ہوں کہ ایک سائبان معہ قنات کسی رئیس سے بطور مستعار دو روز کے لئے لے کر جیسے سردار چیت سنگھ ہیں ضرور ساتھ لاویں۔ بہرحال جدوجہد کر کے ساتھ لاویں۔ نہایت ضروری تاکید ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۱۰؍ اگست ۱۸۸۷ء
مگر یہ ایک سائبان فراخ معہ قنات کے جو اردگرد اس کے لگائی جائے تلاش کر کے ہمراہ لاویں۔
(۸۰)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس سے پہلے روغن زرد کے لئے آپ کی خدمت میں لکھا گیا تھا۔ اس جگہ کچھ بندوبست نہیں کیا گیا۔ لیکن دل میں اندیشہ ہے کہ شاید وہ خط نہ پہنچا ہو۔ کیونکہ آپ کی طرف سے کوئی اطلاع نہیں آئی کہ خریدار گیایا نہیں اور وقت ضرورت روغن کابہت ہی قریب آگیا ہے اور روغن کم سے کم ڈیڑھ من خام ہونا چاہئے اوراگر دو من خام ہو تو بہتر ہے۔ کیونکہ خرچ بہت ہو گا۔ چونکہ یہ کام تمام آپ کے ذمہ ڈال دیا گیا ہے۔ اس لئے آپ ہی کو اس کافکر واجب ہے۔ اگر خدانخواستہ وہ خط نہ پہنچا ہو تو اس جگہ جلدی سے بندوبست ہونا محال وغیرہ ممکن ہے اس صورت میں لازم ہے کہ آپ دو من خام روغن امرتسر سے خرید کر کے ساتھ لاویں۔ خواہ کیسا ہی ہو آپ کا حرج ہو اس میں تساہل نہ فرماویں اور مناسب ہے کہ چوہدری محمدبخش صاحب بھی ساتھ آویں اور دوسرے جس قدر آپ کے احباب ہوں۔ ان کو بھی ساتھ لے آویں اورسب باتیںآپ کو معلوم ہیںاعادہ کی حاجت نہیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان گورداسپور
(۸۱) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کل میاں نور احمد نے صاف جواب بھیجا ہے کہ مجھے قادیان میں مطبع لے کر آنا منظور نہیں اور نہ میں دہلی جاتا ہوں اور نہ شرح مجوزہ سابقہ پر مجھے کتاب چھاپنا منظور ہے اس لئے بالفضل تجویز پاس کی غیر ضروری ہے لوگ ہر ایک بات میں اپنی دنیا کا پورا پورا فائدہ دیکھ لیتے ہیں بلکہ جائز فائدہ سے علاوہ چاہتے ہیں دیانت اور انسان کا ذکر کیا ایسا بد دیانت بھی کم ملتا ہے جو کسی قدر بد دیانتی ڈر کر کرتا ہے۔ اب جب تک کسی مطبع والے سے تجویز پختہ نہ ہوجائے خود بخود کاغذ خریدنا ناعبث ہے۔ میاں عبداللہ سنوری تو بیمار ہو کر چلا گیا۔ میں فتح خان کا بھائی بھی بیمار ہے اور اس جگہ بیماری بھی بکثرت ہو رہی ہے۔ ہفتہ عشرہ میں جب موسم کچھ صحت پر آتا ہے تو لاہور یا امرتسر جا کر کسی مطبع والے سے بندوبست کیاجائے گا پھر آپ کو اطلاع دی جائے گی۔
ایک ضروری بات کے لئے آپ کوخود تکلیف دیتا ہوں کہ میرے پاس ایک آدمی حافظ عبدالرحمن نام موجود ہے وہ نوجوان اور قد کاپورا اور قابل ملازمت پولیس ہے بلکہ ایک دفعہ پولیس میں نوکری بھی کر چکا ہے اور اس کاباپ بھی سارجنٹ درجہ اوّل تھا جو پنشن یاب ہو گیا ہے۔ اس کامنشاء یہ ہے جوپولیس سے کنسٹبل بھی ہو جائے تو از بس غنیمت ہے ایک سند ترک ملازمت بھی بطور صفائی اس کے پاس ہے عمر تخمیناً بائیس سال کی ہے۔اگر آپ کی کوشش سے وہ نوکری ہو سکتا ہے تو مجھے اطلاع بخشیں کہ اس کو آپ کی خدمت میں روانہ کر دوں اور جلد اطلاع بخش دیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۹؍ اگست ۱۸۸۷ء
(۸۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
پہلے اس سے روغن ررو کے لئے لکھا گیا تھا کہ ایک من خام ارسال فرماویں۔سو اس کی انتظار ہے۔ کیونکہ اس کی بہت ضرورت ہے۔ دوسری یہ تکلیف دیتا ہوں کہ ایک خادم کی ضرورت ہے۔ قادیان کے لوگوں کا جال دگر گون ہے۔ ہمارا یہ منشاء ہے کہ کوئی باہر سے خادم آوے۔ جو طفیل وزراد کی خدمت میں مشغول رہے۔ آپ ا س میں نہایت درجہ سعی فرماویں کہ کوئی نیک طبیعت اور دنیدار خادم جو کہ قدر جوان ہو مل جائے اور جواب سے مطلع فرمائیں۔
خاکسار
غلام احمد
۲۱؍ اگست ۱۸۸۷ء
(۸۳) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
آپ کا خط پہنچا۔ آپ کے لئے بہت دعا کی گئی ہے۔ جس بات میں فی الحقیقت بہتری ہو گی۔ وہی بات اللہ تعالیٰ آپ کے لئے اختیار کرے گا۔ انسان نہیں سمجھ سکتا کہ میری بہتری کس بات میں ہے۔ یہ میرا سرار فقط خدا تعالیٰ کو معلوم ہیں سو قوی یقین سے اس بھروسہ رکھنا چاہئے۔ روغن زرد ایک تک نہیں پہنچا۔ اس جگہ بالکل نہیں ملتا۔ اگر آپ ایک من روغن خام تلاش کر کے بھیج دیں توا س وقت نہایت ضرورت ہے اور نیز جیسا کہ میںپہلے میں لکھ چکا ہوں کوئی خادم ضرور تلاش کریں اورپھر تحریر فرمانے پر روانہ کر دیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۲۲؍ اگست ۱۸۸۷ء
(۸۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃا للہ وبرکاتہ
بباعث کثرت آمد مہمانان روغن زرد کی اشد ضرورت ہے او راس جگہ ملتا نہیں اور میاں عبداللہ سنوری نے لکھا ہے کہ میں بعد گزرنے عید آئوں گا۔ معلوم نہیں کہ وہ کب آویں گے۔ اس لئے تاکیداً لکھتا ہوں کہ آپ کی بڑی مہربانی ہو گی اگر آپ تین چار روز تک ہی سعی اور کوشش فرما کر روغن زرد ارسال فرمادیں۔اگر ایک من خام جلدی روانہ نہ ہوسکے تو دس پندرہ سیر ہی روانہ کر دیں کہ شاید ایک ہفتہ کے لئے کافی ہو جاوے۔ مگر پھر باقی مطلوب کو بھی متعاقب اس کے جلد روانہ کر دیں۔ نہایت تاکید ہے یہ ایک ضروری امر تھا لکھا گیا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۲۴؍ اگست ۱۸۸۷ ء
(۸۵) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی السلام علیکم۔
میں آپ کے لئے بہت دعا کرتا ہوں او رامید رکھتا ہوں کہ خداوند کریم آپ کے لئے وہی صورت مہیا کرے گا جو بہتر ہے جناب الٰہی پر پورا پورا حسن ظن اور توکل رکھیں۔ روغن زرد جو تازہ اور عمدہ ہو کسی انتظام سے جلد تر روانہ فرماویں اور ساتھ اگر ممکن ہوسکے تو پان بھی بھیج دیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۲۵؍ اگست ۱۸۸۷ء
(۸۶) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
امید ہے کہ روغن کے لئے آپ نے بہت تلاش کی ہوگی۔اس جگہ پان کی بھی اشد ضرورت ہے اگر کسی طرح باآسانی پہنچ سکیں تو یہ ثواب بھی آپ کو حاصل ہو جائے۔ معلوم نہیں خادمہ ملی یا نہیں۔ اس سے بھی اطلاع بخشیں اور نیز نئے انتظام یا پہلی صورت کے قائم رہنے سے مطلع فرما ویں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۳۰؍ اگست ۱۸۸۷ء
(۸۷) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا میرے نزدیک بہتر ہے کہ آپ بارادہ خود کسی طرف حرکت نہ کریں۔ مشیت الٰہی پر چھوڑ دیں۔ لیکن اگر دل میں بہت اضطراب پیدا ہو جاوے تو تب اختیار ہے کہ آپ ہی سلسلہ جنبانی کریں۔ کیونکہ اضطراب منجانب اللہ ہوتی ہے اور آپ کو معلوم ہوگا کہ دعا میں مجھے فرق نہیں۔ انشاء اللہ تعالیٰ انجام بہتر ہو گا۔روغن زرد و پان پہنچ گئے ہیں۔ پیسے انشاء اللہ کل بوٹے خان صاحب کے پاس بھیج دیئے جائیں گے اور خادم کی اشد ضرورت ہے۔ لیکن آپ اوّل بخوبی معلوم کر لیں کہ وہ نیک چلن او رنیک بخت ہے اور محنتی ہے اور پھر تنخواہ بھی بکفایت ہو۔ اس کے حال سے مفصل اطلاع بخشیں۔ پھر انشاء اللہ طلب کی جائے اور جب خادم آوے تو اس کے ہاتھ بھی پان ارسال فرماویں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۴؍ ستمبر ۱۸۸۷ء
(۸۸) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ بعد السلام علیکم ورحمۃا للہ وبرکاتہ۔
خادمہ کے لئے جو کچھ فتح خان صاحب نے شرطیں لکھی ہیں ان کی تو کچھ ضرورت نہیں۔ صرف نیک بخت اور ہوشیار اور بچہ کے رکھنے کے لائق ہو۔ یہ بات ضرور ہے کہ تنخواہ بہت رعایت سے ہو ۔ گھر میں تین عورتیں خدمت کرنے والی تو اسی جگہ موجود ہیں۔ جن میں کسی کو تنخواہ نہیں دی جاتی۔ اگر یہ عورت تنخواہ دار آئی اور تنخواہ بھی ……روپے تو ان کو بھی خراب کرے گی۔ تو اس کانتیجہ اچھا نہ ہو گا۔ اس ایام قحط میں صرف روٹی کپڑا ایک شریف عورت کے لئے از بس غنیمت ہے۔ جو تین روپے ماہواری بیٹھ جاتا ہے۔ سو اگر ایسی عورت مل سکے تو اس کو روانہ کر دیں۔ بخدمت چوہدری محمد بخش صاحب سلام مسنون۔دعا کی گئی۔
۶؍ستمبر ۱۸۸۷ء
(۸۹) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم سلمہ تعالیٰ۔بعدا لسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مدت ہوئی روغن زرد اورپان پہنچ چکے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ میرا خط ن نہیں پہنچا۔ آپ کی نسبت وہی تجویز میرے نزدیک بھی مناسب ہے جو آپ نے لکھی ہے۔ میں آپ کے لئے اور چوہدری محمد بخش صاحب کے لئے دعا کرتا ہوں۔ اللہ جلشانہ جلد شفاء بخشے۔اس جگہ مینہ روز برستا ہے شاذو نادر کوئی دن خالی نہیں جاتا ہے۔ سو یہی وجہ توقف خرید کاغذ ہے۔ جب کچھ تحفیف بارش ہوئے تب کاغذ کے لئے کوئی اپنا معتبر بھیجا جائے کاپی روانہ کردی گئی ہے۔
والسلام۔خاکسار
غلام احمد از قادیان
۵؍ ستمبر ۱۸۸۷ء
(۹۰) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
حسب تحریر آپ کی آپ کے دوست کے لئے بھی دعا کی گئی ۔ بشیر کے لئے خادمہ کی از بس ضرورت ہے۔ خد اتعالیٰ کرے کہ آپ کو کوئی نیک طبیعت خادمہ مل جائے۔ زیادہ تنخواہ کی تواب بالکل گنجائش نہیں ہے اگر کوئی ایسی خادمہ مل جائے کہ روٹی کپڑا پر کفایت کرے جیسا کہ اس جگہ کی عورتیں کر لیتی ہیں اور پھر شریف بھی ہو تو ایسی کی تلاش کرنی چاہئے اور چونکہ نہایت ضرورت ہے آپ جلدی اطلاع بخشیں۔
والسلام۔خاکسار
غلام احمد۷؍ ستمبر ۱۸۸۷ء
(۹۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میاں عبداللہ سنوری ابھی آنے والے نہیں ہیں اگر آپ ایک مرتبہ کوشش کر کے بقیہ روغن زرد جو ایک من خام سے باقی رہ گیا ہے۔ معہ کسی قدر پان کے بہت جلد ارسال فرماویں تو میرے لئے موجب آرام ہو گا۔ کیونکہ اس جگہ روغن نہیںملتا اور مہمانوں کی آمد بہت ہے اور سندر داس کو ایک ماہ یا دو تین ہفتہ کے لئے اپنے پاس طلب کر لیں۔ پھر اگر مجھے بھی آپ کے ہمراہ ملے تو اچھا ہے۔دعا اس کے لئے کرتا ہوں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۱؍ ستمبر ۱۸۸۷ء
(۹۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ بعدا لسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کاخط پہنچا۔ سندر داس صاحب کی صحت کے لئے دعا کی گی او رکئی دفعہ توجہ دلی سے دعا کی گئی۔ میرے نزدیک بہتر ہے کہ آپ تا ایام صحت اس کا رڑ کی منگوا لو اور اگر ممکن ہو تو مجھ سے ملاقات کرائو کہ جس شخص کو ایک مرتبہ دیکھ لیا ہو اس کی نسبت دعا بہت اثر رکھتی ہے۔ ایک مرتبہ اپنے ساتھ اس کو لے کر آنا اور وہاں سے ضرور طلب کر لو اور بقیہ روغن زرد معہ کسی قدر پان کے بہت جلد بھیج دیں۔ کیونکہ عبداللہ کے آنے میں ابھی دیر معلوم ہوتی ہے۔ خادمہ کی تلاش ضرور چاہئے۔
والسلام
خاکسار
غلام ا حمد
۱۱؍ ستمبر ۱۸۸۷ء
(۹۳) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم
کے بعد روغن زرد کی اشد ضرورت ہے قادیان کے اردگرد س کوس تک ہی تلاش کی گئی ایک ۴؍ روغن بھی ملتا۔ کہتے ہیں کہ ہندئووں کے سرادہ ہیں۔ بنا چاری آپ کو دوبارہ تکلیف دی جاتی ہے کہ برائے مہربانی جلد تر ارسال فرماویں۔ مہمانوں کی آمدو رفت ہے۔ ہمراہ پان بھی اگر آسکیں وہ بھی ارسال فرما ویں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۱۵؍ ستمبر ۱۸۸۷ء
(۹۴)پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم
پان تو پہنچ گئے مگر روغن زرد اب تک پہنچا۔اس کا کیا باعث ہے۔ امید کہ جلدی روانہ فرماویں۔آج ۲۰؍ ستمبر ۱۸۸۷ء تک نہیں پہنچا شاید کل تک پہنچ جائے۔تو کچھ تعجب نہیں۔ بہرحال اطلاعاً لکھا گیا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۲۰؍ ستمبر ۱۸۸۷ء
(۹۵) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی۔ بعدا لسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
روغن زرد اب تک نہیں پہنچا براہ مہربانی جلد تر ارسال فرماویں اور ایک خادمہ محنت کش ہوشیار دانا۔ دیانت دار کی اشد ضرورت ہے اور کا کام یہی ہو گا کہ لڑکا اور لڑکی دونوں کی خدمت میں مشغول رہے۔ چنانچہ مفصل خط بخدمت میر صاحب تحریر ہو چکا ہے۔ آپ براہ مہربانی ایک خاص توجہ اور محنت اور کوشش سے ایسی خادمہ تلاش کر کے روانہ فرماویں۔ تنخواہ جو کچھ آپ مقرر کریں گے۔ دی جائے گی۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۲۱؍ ستمبر ۱۸۸۷ء
(۹۶) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
چونکہ نہایت ضرورت خادمہ امینہ اور دانا اورمحنت کش کی پیش آگئی ہے اس لئے مکرر مکلف ہوں کہ آپ جہاں تک ممکن ہو خادمہ کو بہت جلد روانہ فرماویں اور روغن اب تک نہیں پہنچا ہمدست خادمہ ایک آنہ کے پان بھی روانہ فرماویں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۱۱؍ستمبر ۱۸۸۷ء
(۹۸) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
روغن زرد اب تک نہیں پہنچا۔ پان تو پہنچ گئے ہیں۔ روغن جلد ارسال فرماویں۔ کیا کیا جائے اس جگہ روغن زرد ملتا ہی نہیں۔ اس لئے تکلف دی تھی اور خادمہ کی نسبت آپ جہاں تک ممکن ہے۔ پوری پوری کوشش فرماویں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ا ز قادیان
۲۳؍ ستمبر ۱۸۸۷ء
(۹۸) ……
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی۔ السلام علیکم
ابھی تک ایک خط روانہ ہو چکا ہے۔ اب دوسرا باعث تکلیف وہی ہے کہ میری لڑکی بباعث بیماری نہایت نقیہ اور ضعیف ہورہی ہے۔کچھ کھاتی نہیں ۔ انگریزی بسکٹ جو کہ نرم اور ایک بکس میں بند ہوتے ہیں۔ جن کی قیمت فی بکس ……ہوتی ہے۔ وہ اس کو موافق ہیں۔اب براہ مہربانی ایسے بسکٹ شہر میں ……کو خرید کر ایک بکس ہمراہ خادمہ یا جس طرح پہنچ سکے جلد ارسال فرماویں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۲۶؍ ستمبر ۱۸۸۷ء
(۹۹) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخوم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
چونکہ بلاخادمہ نہایت تکلیف ہے برائے مہربانی جس طرح ہو سکے خادمہ کو روانہ فرماویں۔ سارا پتہ سمجھا دیں۔ ۲؍ کے پان لیتی آوے مگر اس کے پہنچنے میں اب توقف نہ ہو۔ میاں عبداللہ سنوری معلوم نہیں کب آئیںگے ان کاانتظار کرنا عبث ہے۔روغن زرد اب تک نہیں پہنچا۔ معلوم ہوتا ہے کسی جگہ رہ گیا ہے روغن محض قرضہ کے طور پر آپ سے منگوایا ہے محض اس ضرورت سے کہ اس جگہ پیدا نہیں ہوتا تھا۔ آپ روغن وغیرہ کا حساب لکھ کر بھیج دیں۔ تامیں آپ کی خدمت میں قیمت روانہ کر دوں مجھے پان کی بابت بھی نہایت وقت و تکلیف رہتی ہے اگر آپ انتظام کر سکیں تو میں پان کے لئے بھی کسی قدر اکھٹی قمیت بھیج دوں۔ امرتسر آنے جانے میں دس گیارہ آنہ خرچ ہوتے ہیں اور بٹالہ میں پان نہیں ملتا۔ اب برسات گزر گئی اور کاغذ خریدنے کے لئے عبداللہ و نور احمد کو بھیجا جاوے گا۔ اب دو آدمی کے پاس کا بندوبست ہو سکتا ہے۔ اگر ہوسکتا ہے تو کوشش کریں ورنہ کرایہ دے کر روانہ کیا جائے گا زیادہ خیریت۔ والسلام۔ تنخواہ دو روپیہ ماہواری خادمہ کی منظور ہے۔ مگر محنت کش اور دیانتداری شرط ہے۔ کئی عورتیںاس جگہ دن رات بلا تنخواہ کام کرتی ہیںمگر چونکہ نہ محنت کش ہیں۔ نہ دیانیدار۔ اس لئے ان کوہونا نہ ہونا برابر ہے کام نہایت محنت اور جان ہی کا اور ہوشیاری کا ہے۔آپ اس خادمہ کو بخوبی سمجھا دیں تا پیچھے سے کوئی مخفی بات ظہور میں نہ آوے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۲۶؍ ستمبر ۱۸۸۷ء
یہ بات مکرر لکھنے کے لائق ہے کہ خادمہ نہایت درجہ کی دیانتدار اور شریف اور نیک نیت اور نیک بخت اورمتقی چاہئے۔ کیونکہ لڑکا اس کے سپرد کیا جاوے گا اور اس جگہ تمام مخالف ہندو اور اکثر مسلمان بھی لڑکے ہو ں جائیںگے۔ جابجا یہی ذکر سنتا ہوں کہ اس جگہ کے تمام ہندو اور اکثر مسلمانوں کی شریر طبع قریب کل کے مسلمان لڑکے کی موت چاہتے ہیں اور جابجا علانیہ باتیں کرتے ہیں۔ تعجب نہیں کہ زہر دینے کی تجویز میں ہوں۔ اس لئے لڑکے کی خادمہ جس قدر ن نیک بخت اور خدا ترس ہو چاہئے۔ آپ سمجھ سکتے ہیں۔ زیادہ کیا لکھا جائے۔ والسلام
( ۱۰۰) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخوم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
……کے پان پہنچ گئے۔ مگر روغن زرد ۸ ثار خام جو آپ نے لکھا تھا وہ نہیں پہنچا۔ پہلی دفعہ بھی ۲۱ ثار خام روغن گم ہو گیا۔ اب بھی گم ہوا انا للہ الیہ راجعون۔ اب آیندہ روغن بھیجنا بالکل فضول ہے معلوم نہیں کہ یہ ۲۹ثاروغن کس نے راہ میں لے لیا۔ اب آیندہ ارسال نہ فرماویں۔ دو چار روز تک دو آدمی خریداری کاغذ کے لئے انشاء اللہ دہلی میں جائیںگے۔ اگر ممکن ہو تو بندوبست پاس کر رکھیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۴؍ اکتوبر ۱۸۸۷ء
(۱۰۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعدا لسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میاں نور احمد کے دہلی جانے کے آثارکچھ معلوم نہیں ہوتے۔ بہرحال میں ۱۸؍ تاریخ یا ۱۷؍ اکتوبر ۱۸۸۷ء کو میاں فتح خاں کو امرتسر میں بھیجوں گا۔ اگر میاں نور احمد نے امرتسر جانا قبول کر لیا تو دونوں مل کر دہلی جائیںگے اور اگر قبول نہ کیا تو پھر نا چاری کی بات ہے۔ اطلاعاً لکھا گیا ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۶؍ اکتوبر ۱۸۸۷ء
اور یہ بھی تحریر فرماویں کہ آپ کا اس طرف آنے کا کب تک ارادہ ہے۔ اگر سندر داس آگیا ہوتو ایک دن کے لئے اس کو ساتھ لے آویں۔ضرور اطلاع بخشیں۔
(۱۰۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
مخدومی مکرمی ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
انسان کے اختیار میں کچھ نہیں جو کچھ خدا تعالیٰ چاہتا ہے وہی ہوتا ہے۔ مصمّم ارادہ تھا۔ کہ ۱۹؍اکتبوبر ۱۸۸۷ء کو روانگی دہلی کے لئے امرتسر آدمی پہنچ جائے۔ اول میاں نو احمد کی حالت کچھ بدل گئی ہے۔ میاں عبداللہ سنوری بیمار ہوکر اپنے گھر پہنچ گئے ہیں۔ میاں فتح خان کچھ نیم علیل سا ہوگیا اور ان کا بھائی بعارضہ تپ بیمار ہوگیا وہ اس کو چھوڑ کر کسی طرح جانہیں سکتا۔ اس لئے مجبوراً لکھا جاتا ہے کہ آپ لکھ دیں کہ دس روز کے بعد جانے کی تجویز کی جائے گی اور اول اطلاع کریں گے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۱۸؍اکتوبر ۱۸۸۷ء
(۱۰۳)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی ۔ السلام علیکم
روغن زرد جو کہ ۸ ثار خام تھا وہ اب تک نہیں پہنچا اور دوسری مرتبہ کا شاید ۳۰ ثار تھا۔ وہ پہنچ گیا ہے۔ اگر آپ کوشش کریں تو پہنچ جائے۔ بے فائدہ نہ جائے ۔ اگر ممکن ہو تو ۲ رکے پان بھی بھیج دیں۔ اب امید رکھتا ہوں۔ کہ کام جلدی شروع ہوگا۔ مفصل کفیت پیچھے سے لکھوں گا۔ عبدالرحمن کو میں کہہ دیا ہے۔ شاید ہفتہ عشرہ تک آپ کی خدمت میں حاضر ہوگا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۲۶؍اکتوبر ۱۶۶۷ء
(۱۰۳) الف۔ ملفوف
ایک غیر معمولی خط
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی چودھری صاحب ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
آپ کا نوازش نامہ پہنچا۔ حضرت اقدس کی خدمت میں سنایا۔ فرمایا لکھ دو وخط بھی نصف ملاقات ہوتی ہے اگر وہ خط لکھ دیا کریںاور دعا کے لئے دیادلا دیا کریںتومیں دعا کرتا رہا ہوں گا۔ بہت پرانے مخلص ہیں۔ فرمایا ان پر کچھ قرضہ کا بھی بوجھ ہے جب تک اس سے فراغت نہیں ہوتی۔ ملازمت کرتے رہیں بعد میں پنشن لیویں۔
آج پھر فرمایا کہ رات کو پھر وہی الہام پھر ہوا۔
قرب اجلک المقدر ولا نبقی لک من المخزیات ذکرا۔ قل میعاد ربک ولا نبقی لک من المخزیات شیئا۔
فرمایا۔ ان فقرات کے ساتھ لگانے سے صاف منشاء الٰہی یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب پیغام رخلت دیاجاوے گا تو دل میں یہ خیال پیدا ہو گا کہ ابھی ہمارے فلاں فلاں مقاصد باقی ہیں اس کے لئے فرمایا کہ ہم سب کی تکمیل کریںگے۔ فرمایا لوگ اکثر غلطی کھاتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ سب امور کی تکمیل مامور ہی کر جائے۔ وہ بڑی بڑی امیدیں باندھ رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ سب کچھ مامور اپنی زندگی میں ہی کر کے اٹھا ہے۔ صحابہ میں بھی ایسا خیال پید اہو گیا تھا کہ ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فوت ہونے وقت نہیں آیا۔ کیونکہ دعوی تو تھا کہ کل دنیا کی طرف رسول ہوئے اور ابھی عرب بھی بہت سا حصہ یونہی پڑا تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ ان سب امور کی تکمیل آہستہ آہستہ کر تا رہتا ہے۔ تاکہ جانشینوں کو بھی خدمت دین کا ثواب ملتا رہے۔
اسی ذکرمیں فرمایا کہ ہماری جماعت میں اچھے اچھے لوگ مرتے جاتے ہیں چنانچہ مولوی عبدالکریم صاحب جوا یک عجیب مخلص انسان تھے اور ایسا ہی اب مولوی برہان الدین صاحب جہلم میں فوت ہو گئے اور بھی بہت سے مولوی صاحبان اس جماعت میں سے فوت ہو گئے مگر افسوس یہ ہے کہ جو مرتے ہیں ان کاجانشین ہم کو کوئی نظر نہیں آتا۔ پھر فرمایا مجھے مدرسہ کی طرف دیکھ کر بھی رنج پہنچتا ہے کہ جو کچھ ہم چاہتے تھے وہ بات اس سے حاصل نہیں ہوئی۔ اگر یہاں سے بھی طالب علم نکل کر دنیا کے طالب ہی بنتے تھے تو ہمیں اس کے قائم کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ ہم تو چاہتے تھے کہ دین کے لئے خادم پیدا ہوں چنانچہ پھر بہت سے احباب کو بلا کر ان کے سامنے یہ امر پیش کیا کہ مدرسہ میں ایسی اصلاح ہونی چاہئے کہ یہاں سے واعظ اور مولوی پیدا ہوں جو آیندہ ان لوگوں کے قائم مقام ہوتے رہیں جوگزرتے چلے جاتے ہیں۔ کیسا افسوس ہے کہ آریہ سماج میں وہ لوگ پیدا ہوںجو ایک باطل کے لئے اپنی زندگیاں وقف کریں مگر ہماری قوم سچے خدا کو پاکر پھر دنیا کی طرف جھک رہی ہے او ردین کے لئے زندگی وقف کرنا محال ہو رہا ہے۔
فرمایا سب سوچو کہ اس مدرسہ کو ایسے رنگ میں رکھا جائے کہ یہاں سے قرآن دان واعظ لوگ پیدا ہوں۔ جو دنیا کی ہدایت کا ذریعہ ہوں۔
والسلام
خاکسار
محمد علی
۶؍ ستمبر ۱۹۰۵ء
یہ مکتوب اگرچہ براہ راست حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ کا لکھا ہوا نہیں ہے بلکہ مکرمی مولوی محمد علی صاحب ( جوخلافت ثانیہ کے ساتھ ہی قادیان سے انکار خلافت کر کے خروج کر چکے ہیں اور لاہور جا بسے ہیں۔ عرفانی) نے حضرت اقدس کے حکم سے لکھا ہے خطوط کی سال وار ترتیب کے لحاظ سے بھی یہ خط یہاں نہیں آنا چاہئے تھا مگر ا س کے لئے میں دوسری جگہ بھی نہیں نکال سکا۔
یہ خط بہت سے ضروری اور اہم مضامین پر مشتمل ہے اورحضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض پاک خواہشوں اور مقاصد کامظہر ہے۔ تاریخ سلسلہ میں یہ ایک مفید اور دلچسپ ورق ہے۔ مناسب موقعہ پر میں اس سے ضروری امور پر روشنی ڈالنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ وباللہ التوفیق۔ آ مین۔
ایک امر خصوصیت سے قابل ذکر ہے کہ اس مکتوب میں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حکم و ارشاد سے لکھا ہوا ہے خدا کے مامور ……کے جانشینوں کا ذکر کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود مولوی صاحب کے ہاتھ سے ان پر اتمام حجت کرا دیا ہے۔ ہر ایک شخص اپنی انفرادی حیثیت میں جانشین نہیں ہوتا بلکہ خلیفہ موعود و منصوص کے ساتھ تعلق رکھ کر اور اس میں ہو کر کل جماعت ایک وجود بن جاتی ہے۔
غرض یہ خط بہت دلچسپ اور قابل غور ہے۔ حضرت چوہدری رستم علی صاحب اخلاص اور فتافی السلسلہ کا اظہار یوں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہر ایک خط سے ہوتا ہے مگر اس میں بھی اس کی تائید ہے چوہدری صاحب سلسلہ کی ضروریات ہی کے لئے آخری وقت جبکہ وہ ملازمت کا زمانہ ختم کر رہے تھے مقروض تھے اور حضرت نے ان کو کچھ عرصہ او رملازمت کرنے کا ارشاد فرمایا اور نتیجہ یہ ہوا کہ جب وہ فارغ ہوئے تو خدا کے فضل اور رحم سے ہر قسم کی زیر باری سے سبکدوش ہو چکے تھے۔ اس کے بعد ا نہوںنے قادیان میں آکر سلسلہ کی عملی خدمت شروع کی اور وہ سلسلہ میں سب سے پہلے بزرگ تھے جنہوں نے پنشن لے کر سلسلہ کا کام مفت کیا حتی کہ کھانا لینا بھی پسند نہ کیا۔
خدا تعالیٰ یہ روح دوسرے بزرگوں میں بھی پیدا کرے اور ان کے نقش قدم پر چلنے والی ایک جماعت ہو تاکہ سلسلہ کے مرکری اخراجات میں ایسے کارکنوں کے وجود سے بہت کمی ہو سکے جومفت کام کریں۔
(عرفانی)
(۱۰۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
۵؍ ثار خام گھی ………آپ جو محض للہ تکالیف اٹھا رہے ہیں۔ خدا وندکریم جلشانہ اس کو باعث اپنی خوشنودی کا کرے۔ جیسے لوگ آج کل اپنی بد خیالی و بدظنی میں ترقی کر رہے ہیں۔ آپ خدمت و خلوص میں ترقی کرتے جائیں۔ خدا تعالیٰ ایسے قحط الرجال کے وقت میں ان مخلصا نہ خدمتوں کا دوہرا ثواب آپ کو بخشے لودھیانہ کے خط سے معلوم ہو ا ہے کہ اخویم میر عباس علی صاحب کی طبیعت کچھ علیل ہے۔ خدا تعالیٰ جلد تر ان کو شفا بخشے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۲۸؍ اکتوبر ۱۸۸۷ء
(۱۰۵) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
پہلا گھی صرف ۲۱؍ سیر پہنچا تھا۔ جیساکہ آپ نے لکھا ہے۔ میں نے غلطی سے ۳۰؍ ثار وزن لکھا دیا تھا۔ اطلاعاً لکھا گیا اور سب طرح سے خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمدعفی عنہ
۱۸۸۷ء
(۱۰۶) پوسٹ کارڈ
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ حال یہ ہے کہ اس عرصہ میں کئی عورتیں بچہ کی خدمت کے لئے رکھی گئی ہیں۔ مگر سب ناکارہ نکلی ہیں۔ یہ کام شب خیزی اور ہمدردی اور دانائی کا ہے۔ لڑکا چند روز سے بیمار ہے۔ ظن ہے کہ پسلی کا درد نہ ہو۔ علاج کیا جاتا ہے۔ واللہ شافی۔ مجھے یقین نہیں ہے کہ کوئی کمزورعورت اس خدمت شب خیزی کو اٹھا سکے۔ چند روز سے فقط مجھے تین تین پہر رات تک اور کبھی ساری رات لڑکے کے لئے جاگنا ہوتا ہے۔ ہر گز امید نہیں ہو سکتی کہ کوئی عورت ایسی محنت سے کام کر سکے۔اس سے دریافت کر لیں کہ کیا ایسا محنت کا کام کر سکتی ہے۔
خاکسار
غلام احمد
۶؍ نومبر ۱۸۸۷ء
(۱۰۷) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
خادمہ پہنچ گئی۔ اب تک کسی کام میں مصروف نہیں ہوئی۔ سست اور کاہل الوجود بہت ہے۔ اس کے آنے سے تکلیف اسی طرح باقی ہے۔ جوپہلے تھی۔ لیکن آزمائش کے طور پر ایک دو ماہ کے لئے ایک دو ماہ کے لئے اس کو رکھ لیا گیا ہے کہ دور سے آئی ہے۔ اس وقت ضروری کام کے لئے اطلاع دیتا ہوں کہ اب ایک مہتم مطبع بٹالہ سے باہم اقرار کاغذ اسٹامپ پر ہو کر دو رسالہ کے چھپنے کے لئے تجویز کی گئی ہے اور سنا جاتا ہے کہ دہلی میں یہ نسبت لاہور کاغذ ارزاں ملتا ہے۔ اس لئے امید رکھتا ہوں کہ آپ اگر ممکن ہو بہت جلد بندوبست دو آدمی کے پاس کاغذ کاکر کے مجھ کو اطلاع بخشیں۔ تامیں میاں فتح خاں اور ایک اور آدمی کو دہلی کی طرف روانہ کروں اور اگر آپ مناسب سمجھیں تو میں بلاتوقف اپنے دونوں آدمی امرتسر میں بھیج دوں اور پتہ ان کا یہ ہو گا کہ وہ کٹڑہ مہیاں سنگھ میں مکان مولوی حکیم محمد شریف صاحب پر ٹھہرے گے۔ بہرحال آپ کا جواب بواپسی ڈاک آنا چاہئے کہ اب بعد معاہدہ تحریری زیادہ توقف نہیں ہو سکے۔ اگر دو آدمی کا پاس مل جانا ممکن ہے کہ اس سے کفایت رہے گی اور اگر ناممکن ہوتا تو ہم اطلاع بخشتیں۔ جواب بہت جلد آنا چاہئے۔
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۱۵؍ نومبر ۱۸۸۷ء
نوٹ۔ بٹالہ میں شعلہ طور نامی ایک آدمی مبطع تھا۔ اس کی طرف اشارہ ہے۔
(۱۰۸) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی السلام علیکم۔
بباعث علالت طبع اور موسمی بخار آنے کے بعد آپ کی طرف خط نہیں لکھ سکا۔ آپ کو اللہ جلشانہ جزاء خیر بخشے۔ آپ نے بہت سعی کی ہے۔ اب میرا تپ ٹوٹ گیا ہے۔ کچھ شکایت باقی ہے۔ میاں فتح خاں کے آتے وقت اگر کچھ بندوبست ہو سکے۔ تو کچھ رعایت ہو جائے گی۔ آیندہ جو مرضی مولا اور سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۲۹؍ نومبر ۱۸۸۷ء
(۱۰۹) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کی یاد دہانی پر برابر سندر داس کے لئے دعا کی جاتی ہے۔ مرتب اثر جل شانہ کے اختیار میں ہے۔ میاں فتح خاں کو اطلاع دی ہے۔ اب تک کچھ حال معلوم نہیں۔ شاید آپ کو کوئی خط آیا ہو اور سب طرح سے خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمدعفی عنہ
از قادیان ضلع گورداسپور
۱۲؍ دسمبر ۱۸۸۷ء
(۱۱۰) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ سندرداس کی علالت کی طرف مجھے بہت خیال ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کوتندرستی بخشے۔ اگر قضاء مبرم نہیں ہے تو مخلصانہ دعا کا اثر ظہور پذیر ہو گا۔ آپ کی ملاقات کو بھی بہت دیر ہو گئی ہے۔ کسی فرصت کے وقت آپ کی ملاقات بھی ہو توبہتر ہے اوراللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھیں اور اسی کو ہر ایک بات میں مقدم سمجھیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۱۴؍ دسمبر ۱۸۸۷ء
معلوم نہیں کہ میاں فتح خاں کے آنے کے لئے آپ نے کوئی بندوبست کیا یا نہیں۔ وہ آج ۱۴؍ دسمبر ۱۸۸۷ء کو روانہ ہوں گے۔
والسلام
(۱۱۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میرا لڑکا بشیر احمد سخت بیمار ہے۔ کھانسی و تپ وغیرہ خطرناک عوارض ہیں۔ آپ جس طرح ہو سکے۲؍ کے پان بہت جلد بھیج دیں کہ کھانسی کے لئے ایک دو اس میں دی جاتی ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمدا زقادیان
۱۶؍ دسمبر ۱۸۸۷ء
(۱۱۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ عاجز دعا کرتاہے کہ آپ کی ترقی اسی ضلع میں ہو۔ آیندہ خدا تعالیٰ کے کاموں میں مصالح ہیں۔ میرا لڑکا شدت سے بیمار تھا۔ بلکہ بظاہر علامات بہت ردی تھیں۔ امید زندگی کی نہیں تھی۔ اب بفضلہ تعالیٰ وہ میلاب بیماری کا ردبکمی ہے۔ لڑکے نے آنکھیں کھول لیں ہیں اور دودھ پیتا ہے۔ ہنوز عوارض باقی ہیں۔ انشاء اللہ تعالیٰ وہ بھی دفع ہو جائیںگے۔ ۲؍ کے پان ضرور بھیج دیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۱۸۸۷ء
(۱۱۳) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جہاں تک ممکن ہو۔ آپ اس طرف ہو کر جائیں۔ ۲۶؍دسمبر کو آپ کی انتظار رہے گی۔ پان مرسلہ آپ کے نہیں پہنچے۔ سو یہ پہنچانے والوں کی غفلت یا خیانت ہے۔ آپ ۱؍ کے پان ضرور لیتے آویں۔ لڑکا اب اچھا ہو رہا ہے۔ کسی قدر کھانسی باقی ہے ایک نہایت ضروری کام ہے۔ جس سے دنیا و آخرت میں برکات کی امید کی جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ بشیر احمد کے لئے ایک ایسی دودھ پلانے والی عورت کی ضرورت ہے۔جس کو بچہ ہونے پر برس سے زیادہ نہ گزرا ہو اور خوب طاقتور عورت ہو اور بچہ مر جانے کی اس کو بیماری بھی نہ ہو اور اس کے بچہ تازہ اور فربہ ہوتے ہیں۔ دبلے و خشک نہ رہتے ہوں۔ ایسی عورت تلاش کر کے آپ بھیج دیں یاساتھ لاویں۔ تنخواہ جو مقرر ہو دی جائے گی۔ اگر ایسی کوئی بیوہ عورت ہو تو نہایت عمدہ ہے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان[
۲۱؍ دسمبر ۱۸۸۷ء
(۱۱۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ موجب خوشی ہوئی۔ کئی دفعہ سندر داس کے لئے دعا کی گئی۔ اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرماوے۔ مناسب ہے کہ آپ اپنی خیرو عافیت سے مطلع فرماتے رہو۔ بشیر احمد بفضلہ تعالیٰ اب اچھا ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ا ز قادیان
۲؍ جنوری ۱۸۸۸ء
(۱۱۵) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا اور اک خیروعافیت سے خوشی و تسلی ہوئی۔ امید کہ ہمیشہ حالات خیریت آیات سے مطلع فرماتے رہیں۔ اب سردی نکلنے والی ہے اور اب آپ کے لئے موسم بہت اچھا نکل آئے گا۔ سندر داس کی طبیعت کا حال پھر آپ نے کچھ نہیں لکھا۔ صرف اتنا معلو م ہو اتھا کہ اب بہ نسبت سابق کچھ آرام ہے۔ اس کی طبیعت کے حال سے مفصل اطلاع بخشیں۔ اس وقت کاغذی اخروٹ یعنی جوز کے ایک دوا بنانے کے لئے ضرورت ہے اور بقدر باراں اثار خام اخروٹ چاہئے۔ مگر کاغذی چاہئے۔ اس کے لئے تکلیف دیتا ہوں کہ اگر کاغذی اخروٹ اس جگہ سے مل سکیں اور یہ بندوبست بھی ہو سکے کہ پٹھان کوٹ سے بلٹی کرا کر اسٹیشن بٹالہ پر پہنچ سکیں تو ضرور ارسال فرماویں۔ یہ سب بے تکلف آپ کی طرف جو لکھا جاتا ہے۔ محض للہ آپ کے اخلاص و محبت کے لحاظ سے ہے۔ جو آپ محض للہ کہتے ہیں۔ کیونکہ آپ نے محض للہ اخلاص کو غایت درجہ پر بڑھا دیا ہے۔خدمت للہ میں کوئی وقیقہ اٹھا نہیں رکھا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزاء خیر بخشے اور دین میں استقامت و تقوی و دنیا میںعزت و حرمت عطا کرے۔ آمین۔ مکرر یاد رہے کہ یوں ہی بلا محصول ہر گز بھیجنا نہیں چاہئے۔ بلکہ بلٹی بیرنگ کرا کر لف خط علیحدہ میرے پاس بھیج دیں اور بٹالہ کے اسٹیشن کے نام بلٹی ہو۔ تا اسی جگہ سے لیا جاوے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۲۵؍ جنوری ۱۸۸۸ء
نوٹ۔ مکتوب نمبر ۱۱۲ میں چوہدری رستم علی صاحب کی ترقی کا ذکر آیا ہے۔ ان کی ترقی کا سوال در پیش تھا۔ خد اکے فضل وکرم سے وہ سارجنٹی سے ڈپٹی انسکپڑی ترقی پا کر دھرم سالہ ضلع کانگڑہ میں تغینات ہوئے تھے۔ اس وقت ہیڈ کانسٹیبل سارجنٹ اور سب انسپکٹر کہلاتی تھی۔ بہرحال چوہدری صاحب ڈپٹی انسپکٹر یا سب انسپکٹر ہوکر دھرم سالہ چلے گئے۔ اس وقت حضرت اقدس لفافہ انہیں اس طرح پر لکھتے تھے۔
ضلع کانگڑہ۔ بمقام دھرم سال۔ خدمت میں مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب ڈپٹی انسپکٹر ( جو سرشتہ دار پیشی ہیںیا لین پولیس میں)پہنچے۔
(عرفانی)
یہ یاد رہے کہ اخروٹ کاغذی ہوں۔ جن کا باآسانی مغز نکل آتا ہے۔
(۱۱۶) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحمن۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ اس قحط الرجال اور قسادت قلبی کے زمانہ میں جو کہ ہر ایک فرد پر ہوائے زہر ناگ غفلت و سنگدلی کی طاری ہو رہی ہے۔ الاماشاء اللہ ایسے زمانہ میں خلوص دینی کے لئے زندہ دلی ازبس قابل شکر ہے۔ خدا تعالیٰ ہماری جماعت کو بڑھاوے اوران کو دنیا اوردین میں زیادہ سے زیادہ برکت دے۔ آمین ثم آمین۔ بلٹی جو آپ بھیجنا چاہتے ہیں۔ وہ میری دانست میں لفافہ میں ڈال کر اس جگہ قادیان میں بھیج دی جاوے۔ تو بلاتوقف کوئی شخص یہاں سے جا کر لے آئے گا۔ کیونکہ آخر اس جگہ سے کوئی آدمی بھیجنا ضروری ہے۔ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ اگر چاہیں محرر تھانہ کے نام بلٹی بھیج دیں۔ مگر اس صورت میں بہت دیر کے بعد اسبات ملتا ہے۔ بلکہ چوکیداروں وغیرہ کی شرارت سے اکثر نقصان ہو جاتا ہے۔ جس حالت میںبلٹی بھیجنا ہے تو قادیان میں ہی کیوں نہ بھیجی جائے اور بشیر بفضل خدا وند قدیر خیرو عافیت سے ہیں اور رسالہ سراج منیر یقین ہے کہ جلد چھپنا شروع ہو گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۴؍ فروری ۱۸۸۸ء
(۱۱۷) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحمن۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃا للہ وبرکاتہ
۱۴؍ فروری ۱۸۸۸ء کی گزشتہ رات مجھے آپ کی نسبت دو ہولناک خوابیں آئی تھیں جن سے ایک سخت ہم و غم مصیبت معلوم ہوتی تھی۔ میں نہایت وحشت و تردد میں تھا کہ یہ کیا بات ہے اور غنودگی میں ایک الہام بھی ہوا کہ جو مجھے بالکل یاد نہیں رہا۔ چنانچہ کل سندر داس کے وفات اور انتقال کا خط پہنچ گیا۔اناللہ وانا الیہ راجعون۔ معلوم ہوتا ہے۔ یہ وہی غم تھا۔ جس کی طرف اشارہ تھا۔ خدا تعالیٰ آپ کو صبر بخشے۔
ترابا کہ رو در آشنائے است
قرار کارت آخر یر جدائی ست
زفرقت بردے بازی نباشد
کہ بامیر ندہ اش کاری نباشد
مجھے کبھی ایسا موقعہ چند مخلصانہ نصائح کا آپ کے لئے نہیں ملا۔ جیسا کہ آج ہے جاننا چاہیئے کہ خدا تعالیٰ کی غیوری محبت ذاتیہ میں کسی مومن کی اس کے غیر سے شراکت نہیں چاہتی۔ ایمان جو ہمیں سب سے پیارا ہے۔ وہ اسی بات سے محفوظ رہ سکتا ہے کہ ہم محبت میں دوسرے کو اس سے شریک نہ کریں۔ اللہ جل شانہ مومنین کی علامت یہ فرماتا ہے۔ والذین امنو اشد حبا للہ۔ یعنی جو مومن ہیں۔ وہ خد اسے بڑھ کر کسی سے دل نہیں لگاتے۔ محبت ایک خاص حق اللہ جلشانہ کا ہے۔ جو شخص اس کا حق اس کو دے گا۔ وہ تباہ ہو گا۔ تمام برکتیں جو مرادن خدا کو ملتی ہیں۔ تمام قبولیتیں جو ان کو حاصل ہوتی ہیں۔ کیاوہ معمولی وظائف سے یا معمولی نماز روز سے ملتی ہیں۔ ہرگز نہیں۔ بلکہ وہ توحید فی المجت سے ملتی ہیں۔ اسی کے ہوجاتے ہیں۔ اسی کے ہو رہتے ہیں۔ اپنے ہاتھ سے دوسروں کو اس کی راہ میں قربان کرتے ہیں۔ میں خواب اس درد کی حقیقت کو پہنچتا ہوں کہ جو ایسے شخص کو ہوتا ہے کہ تک دفعہ وہ ایسے شخص سے جد اکیا جاتا ہے۔ جس کو وہ اپنے قالب کی گویا جان جانتا ہے۔ لیکن مجھے زیادہ غیرت اس بات میںہے کہ کیا ہمارے حقیقی پیارے کے مقابل پر کوئی اور ہونا چاہئے۔ہمیشہ سے میرا دل یہ فتوی دیتا ہے کہ غیر سے مستقل محبت کرنا کہ جس سے للہی محبت باہر ہے۔ خواہ وہ بیٹا ہو یا دوست۔ کوئی ہو ایک قسم کاکفر اور کبیر گناہ ہے۔ جس سے اگر شفقت ور حمت الٰہی تدارک نہ کرے توسلب ایمان کاخطرہ ہے۔سو آپ یہ اللہ جل شانہ کا احسان سمجھیں کہ اس نے اپنی محبت کی طرف آپ کو بلایا۔ عسی ان تکرھواشیئا وھو خیرلکم و عسی ان تحبوشیئا و ھو شرا ً لکم واللہ یعلم وانتم لا تعملون۔ اوران پر ایک جگہ فرماتا ہے جل شانہ وعزاسمہ ما اصاب من مصیبۃ الا باذن اللہ من ویومن باللہ ……تلیہ واللہ بکل شئی علیم۔یعنی کوئی مصیبت بغیر اذن اور ارادہ الٰہی کے نہیں پہنچتی اور جو شخص ایمان پر قائم ہو۔خد ااس کے دل کو ہدایت دیتا ہے۔ یعنی صبر بخشتا ہے اور اس مصیبت میں جو مصلحت اور حکمت تھی۔وہ اسے سمجھادیتا ہے اور خد اکو ہر ایک چیز معلوم ہے میں انشاء اللہ آپ کے لئے دعا کروں گا اور اب بھی کئی دفعہ کی ہے۔ چاہئے کہ سجدہ میں اور دن رات کئی دفعہ یہ دعا پڑھیں۔ یا احب من کل محبوب اغفرلی ذنوبی و اوخلنی فی عبادک المخلصین۔ آمین۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۵؍ فروری ۱۸۸۸ء
نوٹ۔ مکرمی چوہدری رستم علی صاحب کو سندر داس نامی ایک شخص سے محبت تھی اور وہ اسے عزیز سمجھتے تھے۔ اس کا ذکر مختلف مکتوبات میں آیا ہے۔ پھر محبت میں چوہدری صاحب کو غلو تھا اور یہ بھی ایک کمال تھا کہ وہ اسے محسوس کرتے تھے اور حضرت اقدس کو بار ہا لکھتے رہتے تھے۔ آخر وہ بیمار ہوا اورمر گیا۔ اس پر یہ مکتوب حضرت نے تعزیت کا لکھا۔
(عرفانی)
(۱۱۸) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحمن۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ اس عاجز کے ساتھ ربط ملاقات پیدا کرنے سے فائدہ یہ ہے کہ اپنی زندگی کو بدلا جائے۔ تا عاقبت درست ہو۔ سندر داس کی وفات کے زیادہ غم سے آپ کو پرہیز کرنا چاہیئے۔ خد اتعالیٰ کا ہر کام انسان کی بھلائی کے لئے ہے۔ گو انسان اس کوسمجھے یا نہ سمجھے۔ جب ہمارے بنی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بعثت کے بعد بیعت ایمان لینا شروع کیا تو اس بیعت میں یہ داخل تھا کہ اپنا حقیقی دوست خد اتعالیٰ کو ٹھہرایا جائے اور اس کے ضمن میں اس کے نبی اور درجہ بدرجہ تمام صلحاء کو اور تعبیر حلت دینی کسی کو دوست نہ سمجھا جائے۔ یہی اسلام ہے۔ جس سے آج لوگ بے خبر ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔والذین امنو اشد حباللہ۔ یعنی ایمانداروں کا کامل دوست خدا ہی ہوتا ہے وبس جس حالت میں انسان پر خد اتعالیٰ کے سوا اور کسی کا حق نہیں تو اس لئے خالص دوستی محض خد اتعالیٰ کا حق ہے۔ صوفیہ کو اس میں اختلاف ہے کہ جو مثلاً غیر سے اپنی محبت کو عشق تک پہنچاتا ہے۔اس کی نسبت کیا حکم ہے۔ اکثر یہی کہتے ہیں کہ اس کی حالت حکم کفر کا رکھتی ہے۔ گو احکام کفر کے اس پر صادر نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ بباعث بے اختیاری مرفوج القلم ہے۔ تاہم اس کی حالت کافر کی صورت میں ہے کیونکہ عشق اور محبت کا حق اللہ جل شانہ کا ہے اور وہ بد دیانتی کی راہ سے خد اتعالیٰ کا حق دوسرے کا دیتا ہے اور یہ ایک ایسی صورت ہے۔ جس میں دین و دنیا دونوں کے وبال کا خطرہ ہے۔ راستبازوں نے اپنے پیارے بیٹوں کو اپنے ہاتھ سے ذبح کیا۔ اپنی جانیں خدا تعالیٰ کے راہ میں دیں۔ تا توحید کی حقیقت انہیں حاصل ہو۔سو میں آپ کو خالصا ً للہ نصیحت دیتا ہوں کہ آپ اس حزن و غم سے دستکش ہو جائیں اور اپنے محبوب حقیقی کی طرف رجوع کریں۔ تا وہ آپ کو برکت بخشے او ر آفات سے محفوظ رکھے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمدا ز قادیان
یکم مارچ ۱۸۸۸ء
(۱۱۹) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحمن۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ موجب خوشی ہوئی۔ اللہ جلشانہ آپ کو اس اخلاص اور محبت کا اجر بخشے اور آپ سے راضی ہو اور راضی کرے۔ آمین ثم آمین۔ حال یہ ہے کہ یہ عاجز خود آرزو خواہاں ہے کہ ماہ رمضان آپ کے پا س بسر کرے۔ لیکن نہایت وقت در پیش ہے کہ آج کل میرے دو نو بچے ایسے ضعیف اور کمزور ہو رہے ہیں کہ ہفتہ میں ایک دو دفعہ بیمار ہوجاتے ہیں اور میرے گھر کے لوگ اس جگہ کچھ قرابت نہیں رکھتے اور ہمارے کنبہ والوں سے کوئی ان کا غمخوار اور انیس نہیں ہے۔ اس لئے اکیلا سفر کرنا نہایت دشوار ہے۔ میںنے تجویز کی تھی کہ ان کوانبالہ چھائونی میں ان کے والدین کے پاس چھوڑ آئوں۔مگر ان کے والدین نے اس بات کو چند وجوہ کے سبب سے تاخیر میں ڈال دیا۔ اب مجھے ایک طرف یہ شوق بھی نہایت درجہ ہے کہ ایک ماہ تک ایام گرمی میں آپ کے پاس رہوں اور اسی جگہ رمضان کے دن بسر کروں اور ایک طرف یہ موافع در پیش ہیں اور معہ عیال پہاڑ کا سفر کرنا مشکل اور صرف کثیر پر موقوف ہے۔ مستورات کا پہاڑ پر بغیر ڈولی کے جانا مشکل اور ان کے ہمراہ ہی کی ضرورت جسے اپنے لئے ایک ڈولی چاہئے اور چھ سات خادم اور خادمہ کے ساتھ ساتھ پہنچ جانے کے لئے بھی کچھ بندوبست چاہیئے۔ سو اس سفر کے آمدو رفت میں صرف کرایہ کا خرچ شاید کم سے کم سو روپیہ ہو گا اور اس موقعہ ضرورت روپیہ میں اس قدر خرچ کر دینا قابل تامل ہے۔ البتہ کوشش اور خیال میں ہوں کہ اگر موانع رفع ہو جائیںتو بلاتوقف آپ کے پاس پہنچ جائوں اور میںنے موانع کے لئے رفع کرنے کے لئے حال میں بہت کوشش کی۔ مگر ابھی تک کچھ کارگر نہیں ہوئی۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
نوٹ۔ اس خط پر تاریخ درج نہیں ۔
(عرفانی)
(۱۲۰) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحمن۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کے اس خط پہنچنے کے دو دن پہلے اخروٹ پہنچ گئے۔ جزاکم اللہ خیراً۔میر انہایت پکا ارادہ تھا کہ ماہ رمضان میں آپ کی ہمسائیگی میں بسر کروں۔ چنانچہ اپنے گھر کے لوگوں کو انبالہ چھائونی میں پہنچانے کی تجویز کردی تھی۔ لیکن بحکمت و مصلحت الٰہی چند موانع کی وجہ سے وہ تجویز ملتوی رہی۔ اگر اب بھی رمضان کے آنے تک وہ تجویز قائم ہو گئی۔ تو عین مراد ہے کہ وہ مبارک رمضان اس جگہ بسر کیا جائے۔ گھر کے لوگوں کے ساتھ وہاں جانا نہایت مشکل معلوم ہوتا ہے۔ سراج منیر کی طبع میں حکمت الٰہی سے توقف در توقف ہوتے گئے۔ اب کوشش کر رہا ہوں کہ جلد انتظام طبع ہو جائے۔ آیندہ ہر ایک بات اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے اور جو آپ نے وارسلنا ہ والی امائۃ کے معنے پوچھے ہیں۔سو واضح رہے کہ رد کا لفظ جیساکلام عرب میں شک کے لئے آتا ہے۔ ایسا ہی داو کے معنے میں بھی آتاہے اوریہ محاوہ شائع متعارف ہے۔سو آیت کے یہ معنے ہیں کہ وہ لوگ ایک لاکھ اور کچھ زیادہ تھے۔ رہا یہ اعتراض کہ اس سے زیادہ کی تصریح کیوںنہیں کی۔ اس کاجواب یہ ہے کہ ہر ایک بات کی تصریح اللہ جلشانہ پر واجب نہیں چاہے کسی چیز کو مجمل بیان کرے اور چاہے مفصل۔ پائوں کے مسح کی بابت کی تحقیق ہے کہ آیت کی عبارت پر نظر ڈالنے سے نحوی قاعدہ کی رو سے دونوں طرح کے معنی نکلتے ہیں۔ یعنی غسل کرنا اور مسح کرنا اور پھر ہم نے جب متواتر آثار نبویہ کی رہ سے دیکھا تو ثابت ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پائوں دھوتے تھے۔ اس لئے وہ پہلے معنے غسل کرنا۔ متعبر سمجھے گئے۔ مطبع اور مغرب الشمس کاذکر ایک استعارہ اور مجاز کے طور پر ہے نہ کہ حقیقت کے طور پر۔ ایسے استعارات جابجا کلام الٰہی میں بھرے ہوئے ہیں اور اشارہ بھی ہمیشہ مجاز اور استعارہ کا استعمال کرتا ہے۔ مثلاً ایک شخص کہتا ہے کہ میں نے چاولوں کی ایک رکابی کھائی۔ تو کیا اس نے رکابی کھا کر توڑ کر کھا لیا۔ پس ایسا اعتراض کوئی دانا نہیں کرسکتا اور اگر کوئی مخالف کرے تو پہلے اس کو اقرار کر لینا چاہئے کہ میری کتاب میں جن کوالٰہامی مانتا ہوں۔ کسی استعارہ یا مجاز کو استعمال نہیں کیا گیا اور مادامت السموات وا لارض کی شرط میں کوئی قباحت نہیں۔ کیونکہ میں جو بہشتوں کے لئے نئی زمینیں اور آسمان بنائے جائیں گے۔ وہ بھی دائمی ہوں گے۔ یہ کہاں سے معلوم ہو اکہ ایک وقت مقررہ کے بعد وہ نہیں رہیں گے۔ ماسوا اس کے آسمان اور زمین فوق و تحت کے معنوں میں بھی آتا ہے۔سو اس طور سے آیت کے یہ معنے ہوئے کہ جب تک جہات فوق و تحت موجود ہیں۔ تب تک وہ بہشت میں رہیںگے اور ظاہر ہے کہ جہات ایسی چیزیں ہیںکہ قابل انعدام نہیں۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۲؍ مارچ ۱۸۸۸ء
(۱۲۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا اور اس کے ساتھ ایک اور خط پہنچا۔ جو ۲۷؍ جنوری ۱۸۸۸ء کا لکھا ہو ا تھا۔ تعجب کہ وہ ماہ تک یہ خط کہاں رہا۔ مکلف ہوں کہ ……روپیہ جو آپ بھیجنے کو کہتے ہیں۔ وہ آپ جلدی بھیج دیں کہ یہاں ضرورت ہے۔ ہر چند دل میں خواہش ہے۔ مگر ابھی اس طرف ان کے آثار ظاہر نہیں ہوئے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں آپ تک پہنچانا ہے تو آثار ظاہر ہوں جائیںگے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۲؍ اپریل ۱۸۸۸ء
(۱۲۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج چائے مرسلہ آنجاب پہنچ گئی ہے۔ جزاکم اللہ خیرا لجزاء واحسن الیکم فی الدنیا والعقبی۔اس جگہ سب طرح سے خیریت ہے۔ رسالہ اشعتہ القرآن کا انگریزی میں ترجمہ ہو رہا ہے۔ دونوں رسالہ ایک ہی جگہ اکھٹے کر دئیے گئے ہیں۔ ہمیشہ اپنی خیروعافیت سے مطلع فرماتے رہیں۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان ضلع گورداسپور
۷؍ فروری ۱۸۸۸ء
(۱۲۳) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچ کر موجب خوشی ہوا۔ رسالہ جو انگریزی میں ترجمہ کیا جائے گا اور سراج منیران دونوں رسالوں کی نسبت میری تجویز ہے۔ کہ ایک ہی جگہ کردی جائیں کیونکہ ان کے باہم تعلقات ایسے ضروری ہیں کہ ایک دوسرے سے الگ کردینے ہیںاثر مطلوب بہت کم ہو جاتا ہے۔ جس قدر توقفات ظہور میں آئے۔ وہ سب حکمت الٰہی اور مصلحت ربانی تھے۔ اب اسید کی جاتی ہے کہ منتظرین کی خواہش بہت جلدی پوری ہوجائے ۔ہمیشہ اپنی خیرو عافیت سے مطلع فرماتے رہیں۔ کہ گو مجھے خط لکھنے کا کم اتفاق ہو۔ مگر آپ کی طرف خیال رہتا ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۱۶؍اپریل ۱۸۸۸ء
(۱۲۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آج کی ڈاک میں عنایت نامہ پہنچا۔ مفصل خط علیحٰدہ لکھا گیا ہے۔ میں آپ کے لئے انشاء اللہ بہت دعا کرتا رہوں گا اور یقین رکھتا ہوںکہ اثر ہو۔ اگر براہین احمدیہ کا کوئی شائق خریدار ہے تو آپ کو اختیار ہے کہ قیمت لے کر دے دیں مگر ارسال قیمت کا محصول ان کے ذمہ رہے۔ اخروٹ اب تک نہیں پہنچے۔شاید دوچار دن تک پہنچ جائیں اور اگر کوئی کام سبیل پہنچانے کا ہوا ہو تو کسی قدر … بیشک بھیج دیں کہ مہمانوں کی خدمت میں کام آجائے گا۔ بشیر احمد اچھا ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۲؍ مارچ ۱۸۸۸ء
(۱۲۵) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
چند روز کی دیر کے بعد آپ کے خطوط مرسلہ معہ بٹالہ میں قادیان سے واپس منگوا کر ملے ۔ قصیدہ بہت عمدہ ہے۔ خاص کر بعض شعر بہت ہی اچھے ہیں۔ جزاکم اللہ خیراً۔ میں اس جگہ بشیر احمد کے علاج کروانے کے لئے ٹھہرا ہوا ہوں۔ معلوم ہوتا ہے کہ تمام رمضان اس جگہ ٹھہرنا ہوگا۔ قصیدہ متعاقب روانہ خدمت کردوں گا۔ بشیر احمد کو اب کسی قدر بفضلہ آرام ہے
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۱۲؍ مئی ۱۸۸۸ء
(۱۲۶) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بشیر احمد سخت بیمار ہوگیا تھا۔ اس لئے یہ عاجز ڈاکٹر کے علاج کے لئے بٹالہ میں آگیا ہے۔ شاید ماہ رمضان بٹالہ میں بسرہو۔ بالفعل نبی بخش ذیلدار کے مکان پر جو شہر کے دروازہ پر ہے فروکش ہوں۔ زیادہ خیریت ہے ۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد قادیان
۲۸؍شعبان
۱۱؍مئی ۱۸۸۸ء
(۱۲۷) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ عاجز اب تک بٹالہ میں ہے۔ کسی قدر بشیر احمد کی طبیعت روبا صلاح ہے۔ انشاء اللہ القدیر صحت ہو جائے گی۔ پانچ چار روز تک قادیان جانے کا ارادہ ہے۔ باقی سب طرح سے خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز بٹالہ
۳؍ جون ۱۸۸۸ء
(۱۲۸) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی۔ السلام علیکم۔
آج ایک خط کو آپ نے رحمت علی کے ہاتھ بھیجا تھا۔ کسی حجام کے ہاتھ قادیان میں مجھ کو ملا۔ خط میں جوآپ نے چاول روانہ کرنے کاحال لکھا ہے۔ سو واضح رہے کہ آج تاریخ ۴؍ جون تک چاول نہیں بھیجے۔ نہ تھانہ میں آئے اور میں اب تک بٹالہ میں ہوں۔ شاید ۲۵؍ رمضان تک قادیان جائوں گا۔ بشیر احمد کی طبیعت بہ نسبت سابق اچھی ہے اور سب طرح سے خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۴؍ جون ۱۸۸۸ء
(۱۲۹) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی۔ اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ عاجز آخیررمضان تک اس جگہ بٹالہ میں ہے۔ غالباً عید پڑھنے کے بعد قادیان جائوں گا۔ چاول مرسلہ آپ کے نہیں پہنچے۔ معلوم نہیں آپ نے کس کے ہاتھ بھیجے تھے اور چونکہ اس جگہ خرچ کی ضرورت ہے۔ اگر خریدار براہین احمدیہ سے دس روپے وصول ہو گئے ہیں تو وہ بھی اسی جگہ ارسال فرماویں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۵؍ جون ۱۸۸۸ء
(۱۳۰) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ قادیان میں آکر بشیر احمد سخت بیمار ہو گیا اور کئی بیماریاں لاحق ہو گئیں۔ منجملہ ان کے ایک تپ محرقہ کی قسم اور زحیر یعنی مڑوڑ اور اسی اثنا میں ہیضہ بھی ہو گیا۔ حالت نہایت خطرناک ہو گئی۔ اب کچھ تخفیف ہے۔ اسی وجہ سے کوئی کام طبع رسالہ وغیرہ کا نہیں ہو سکا۔ مولوی قدرت اللہ صاحب کو السلام علیکم پہنچے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۲؍ جولائی ۱۸۸۸ء
(۱۳۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ چونکہ بشیر احمد کی طبیعت سخت بیمار رہی ہے۔ بلکہ نہایت نازک ہو گئی تھی۔ اس لئے جواب نہیں لکھ سکا۔ اب کچھ آرام ہے۔ میں انشاء اللہ آپ کے لئے دعا کروں گا۔ مولوی نورالدین صاحب کی کتاب کا مجھ کو کچھ پتہ نہیں اور نہ میرے پا س اب تک آئی ہے۔ جس وقت کوئی نسخہ ملے گا تو انشاء اللہ تعالیٰ خدمت میں بھیج دوں گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۲۰؍ جولائی ۱۸۸۸ء
(۱۳۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی۔ اخویم ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ بشیراحمد کی طبیعت سخت بیمارہے۔ اس غلبہ بیماری میں تین چار دفعہ ایسی حالت گزر چکی ہے کہ گویا ایک دو دم باقی معلوم ہوتے تھے۔ اب بھی شدت امراض ہے۔ اس لئے دن رات اسی کی طرف مصروفیت رہتی ہے۔ امید کہ بعد افاقہ طبیعت بشیراحمدآپ کے نسخہ کے لئے توجہ کروں گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۲؍ اگست ۱۸۸۸ء
(۱۳۳) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بشیر احمد اب تک مروڑوں کی بیماری میں مبتلا ہے اور چونکہ نہایت لاغر اور دبلا اور تکلیف میں ہے۔ اس لئے ضروری کاموں کاحرج بھی کر کے اس کی طرف مصروفیت ہے۔ چند مرتبہ اس عرصہ میں اس کی حالت بہت نازک ہو گئی اور آخری دم سمجھا جاتا تھا۔ انشاء اللہ اس کی صحت کے بعد بہت غور سے آپ کے لئے تجویز کروں گا۔آپ مطمئن رہیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد بقلم خود
۸؍ اگست ۱۸۸۸ء
(۱۳۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ مچھلی کا تیل وہی ہے۔جس کاآپ ذکر کرتے ہیں۔ استعمال کے لئے کچھ ضرورت نہیں۔ صرف ایک چاء کا چمچ یعنی چھوٹا چمچہ پی لیا کریں اور پھر ہضم کے لحاظ سے زیادہ کرتے جائیں۔ کدو سے مراد میری کدو کا پھل ہے۔ جس کا گھیا کدو بھی کہتے ہیں۔ اگر وہ نہ ملے تو پھر مغز کدو ہی ہمراہ بنفشہ کے پانی میں ڈال دیا جائے۔ جب پانی گرم ہو جائے اور خوب جوش آجائے۔ تب اس سے غسل کر لیں اور زیادہ گرم نہ ہو تو اور پانی ملا لیں۔ امید کہ انشاء اللہ تعالیٰ طبی تدبیر بہت مفید ہو گی اور آپ کا بدن خوب تازہ ہو جائے گا۔ لیکن اگر اس کے ساتھ صبح کے وقت آدھ ثار خام بکری کا دودھ پی لیا کریں تو انشاء اللہ بہت فائدہ ہو گا۔
خاکسار
غلام احمد از قادیان
(۱۳۵) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ یہ عاجز ایک ہفتہ سے موسمی بخار میں علیل ہے۔ بباعث ضعف و تکلیف مرض کوئی کام نہیں ہو سکتا۔ صندوقچہ خطوط سے بھرا ہوا ہے۔ اگر تیل مچھلی کا اب استعمال کرنے میں کچھ حرارت معلوم ہوتی ہے تو ایک ماہ کے بعد استعمال کریں۔ انشاء اللہ ان سب ادویہ کے استعمال سے بدن بہت تازہ ہو جائے گا۔ آپ کی استقامت کے لئے دعا کرتا ہوں۔ امید رکھتا ہوں کہ کسی وقت منظور ہو جائے۔ اشتہارات ارسال خدمت ہیں۔ ہر ایک شہر میں جو آپ کا کوئی دیندار دوست ہو اس کو بھیج دیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۶؍ ستمبر ۱۸۸۸ء
(۱۳۶) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ پہلے اس عاجز کی طبیعت چند روز بعارضہ تپ بیمار رہی تھی۔ اب بفضلہ تعالیٰ بالکل صحت ہے اور سب طرح سے خیریت ہے۔ امید کہ اپنی خیروعافیت سے ہمیشہ مطلع فرماتے رہیں۔ تلی کے واسطے مولوں کا اچار اور انجیر کا اچار جو سرکہ میں ڈالا جائے۔ نہایت مفید ہے۔ ان دونوں چیزوں کو جوش دے کر سرکہ میں ڈال دیں اور پھر کبھی روٹی کے ہمراہ یا یوں ہی کھا لیں کریں اور جو سکجبین صادق المحوصت یعنی جو خوب ترش ہو بہت مفید ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۱۴؍ ستمبر ۱۸۸۸ء
(۱۳۸) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کے مستقل کوڑٹ انسپکٹر ہونے سے بہت خوشی ہوئی۔ اللہ جلشانہ مبارک کرے۔ اشتہارات آپ کی خدمت میں بھیجے گئے تھے۔ ان کی اب تک رسید نہیں آئی۔ معلوم نہیں کہ آپ اب کی دفعہ کون سے اشتہارات مانگتے ہیں۔ مفصل تحریر فرماویں۔ تا بھیجے جاویں اور اس جگہ بفضلہ تعالیٰ سب طرح سے خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۲۶؍ ستمبر ۱۸۸۸ء
(۱۳۸) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔انشاء اللہ القدیر اشتہار تلاش کرکے دستیاب ہونے پر روانہ کر دوں گا۔ میرے نزدیک بہت مناسب ہے کہ مناسب ہے کہ آپ بقدر ضرورت انگریزی پڑھ لیں۔ سب بولیاں خدا کی طرف سے ہیں۔ بولی سیکھنے میںکچھ حرج نہیں۔ صرف صحت نیت درکار ہے اور سب طرح سے خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۳۰؍ اگست ۱۸۸۸ء
(۱۳۹) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ سردی میں میں انڈہ بہت خراب ہوتا ہے۔ اگر آپ بیس دن توقف کر کے انڈہ منگوا لیں اور تازہ ہوں تو وہ بیس روز تک اچھے ہوسکتے ہیں۔ انڈہ اگر اُبالا جائے یہاں تک کہ اندر سے زردی سفیدی دونوں سخت ہو جائیں تو کچھ زیادہ رہ سکتا ہے۔ مگر وہ پھر آپ کے کھانے کے لائق نہیں رہے گا۔ آپ کے لئے تو نیم برشت بہتر ہے۔ جو درحقیقت کچے کی طرح ہوتا ہے۔ بہتر ہے کہ پچاس تک انڈہ منگوا کر استعمال کریں۔ جب وہ ختم ہو جائیںاور منگوا لیں۔زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۷؍ اکتوبر ۱۸۸۸ء
(۱۴۰) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ انشاء اللہ القدیر آج سے آپ کے لئے دعا کرتا رہا ہوں گا۔ مگر جیسا کہ آپ نے لکھا ہے۔ یہ بات نہایت صحیح ہے کہ بندہ جب کسی قدر غافل ہو جاتا ہے اور بیسباکی سے کوئی کام کرتا ہے۔ یاکسی معصیت میں گرفتار ہوتا ہے تو رحمت کے طور پر تنبیہ الٰہی اس پر نازل ہوتی ہے۔پھر وہ جب سچے دل سے تو بہ کرلیتا ہے تو کبھی تنبیہ ساتھ ہی دور کی جاتی ہے۔ اور کبھی اس کو کامل متنسبہ کرنے کے لئے کچھ وہ تنبیہ بنی رہتی ہے۔ سو خطرات فاسدہ یا اعمال نامرضیہ سے بصدق دل توبہ کرنا اعادہ رحمت الٰہی کے لئے بہت ضروری امر ہے۔ والحمد للہ والمنت کہ خود آپ کے دل میں اس طرف رجوع ہو گیا۔ خدا تعالیٰ اس رجوع کو ثابت رکھے۔ خد اتعالیٰ سے بہرحال ڈرتے رہنا اور اس کے غضب کے اشتعال سے پرہیز کرنا بڑی عقلمندی ہے۔ دنیا گزشتہ و گزاشتنی اور جذبات نفساتی بدنام کندہ چیزیں ہیں اور انسان کی تمام سعادت مندی اور ڈرنا اور آخرت کے سلامتی خوف الٰہی دقیق ہیں۔ و باریک رس ہیں۔ وہ اس پر راضی ہے۔ جو اس سے خائف و ہراساں رہے اور کوئی ایسا کام نہ کرے کہ جو بیباکی کا کام ہو۔ اللہ جلشانہ آپ کو سچی اطاعت کی توقیق بخشے۔ مناسب ہے کہ اگر ابتلاء کے طور پر کوئی دوسری صورت پیش بھی آجاوے تو بہت بے قرار نہ ہوں۔ اللہ جل شانہ تغیر حالات پر قادر ہے اور دعا بدستور آپ کے لئے کی جائے گی۔ میری دانست میں اس موقعہ پر استعلام امور غیبیہ کی کچھ ضرورت نہیں۔ اس جگہ تضرع اور استغفار چاہئے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۱۰؍ اکتوبر ۱۸۸۸ء
 
Top