• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

مکتوبات احمدیہ

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
(۱۴۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کاتہ
آج میرا لڑکا بشیر احمد انیس روز بیمار رہ کر بقضائے الٰہی دنیائے فانی سے قضا کر گیا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۴؍ نومبر ۱۸۸۸ء
(۱۴۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
خط پہنچا۔ اللہ جلشانہ پر مضبوط بھروسہ رکھو۔ وہ رحیم و کریم ہے۔ یہ عاجز انشاء اللہ القدیر آپ کے لئے برابر دعا کرتا رہے گا۔ یاد دہانی کی ضرورت نہیں۔ لیکن اگر فرصت ہو تو کبھی کبھی اپنے خیالات سے مطلع فرمایا کریں۔ دعا کے لئے یاد دہانی کی ضرورت نہیں۔ محض تسلی خاطر کے لئے ضرورت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۲۳؍ نومبر ۱۸۸۸ء
(۱۴۳) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ جو آپ نے لکھا ہے۔ بات تو بظاہر بہت عمدہ ہے۔ اگر حقیقت میں آپ کے لئے یہ بہتر ہے تو اللہ جلشانہ آپ کے لئے میسر کرے۔ امید کہ آپ تعطیلوں میں ضرور تشریف لاویں گے۔ میں انشاء اللہ القدیر دعا کرتا ہوں۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۸؍ دسمبر ۱۸۸۸ء
(۱۴۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
آپ کے لئے دعا کر رہا ہوں۔ اللہ جلشانہ آپ کو مکروہات سے بچاوے۔ ان دنوںمیں استغفار کا بہت ورد رکھیں اور بہت بہت معافی گناہوں کی خدا وند کریم جل شانہ سے مانگیں اور اشتہار صداقت آثار ۸؍ اپریل ۸۶ء جس کی بناء پر اشتہار میں سے صرف ایک ایک اشتہار بطور سند میرے پاس پڑے ہوئے ہیں۔ کہ کسی موقعہ پر مخالفوں کو دکھلائے جاتے ہیں۔ اگر ان کے دیکھنے کی ضرورت ہو اور دوسری جگہ سے مل نہ سکیں تو بذریعہ رجسٹری بھیج سکتا ہوں۔ تاکہ ملاخطہ کے بعد واپس بھیج دیں۔ لیکن اگر مشکک کو اسی سے اطمینان ہو سکے تو پھر ضرورت نہیں۔ جیسا کہ منشاء ہو اطلاع بخشیں۔ اگر ضرورت ہو گی تو بلاتوقف رجسٹری کرا کر بھیج دوں گا۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۸۹ء مکرر یہ کہ ۷؍ اگست کا اشتہار ایک کے پاس سے اتفاقاً مل گیا۔ بعد ملاخطہ واپس فرمادیں۔ یہ بشیر کی پیدائش کا اشتہار ہے۔
والسلام
(۱۴۵) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
اب بفضلہ تعالیٰ بشیر احمد کی طبیعت پر آگئی ہے اور آپ کے لئے بہت غور اور فکر کیا۔ سو اس موسم کے موافق جو کچھ اللہ تعالیٰ کے ایما سے میرے دل پر گزرا ہے وہ یہ ہے کہ آپ زردی بیضہ برشت استعمال کریں۔ یعنی خوب پانی گرم کر کے ایسا کہ ابلنا شروع ہو جائے۔ انڈے اس میں ڈال دئیے جائیں اور انڈے ڈال کر ڈیڑھ سو کی گنتی پوری کی جائے۔ جب شمار ڈیڑھ سو تک پہنچ جائے تو بلاتوقف انڈے پانی سے نکال لئے جائیں۔ ایک ہفتہ تک تین انڈے صبح اور تین شام خوراک رکھیں۔ جب معلوم ہو کہ انڈا موافق آگیا ہے تو پھر تین کی جگہ چار کر دئیے جائیں۔ دوسرے یہ کہ گرم پانی کر کے اور اگر مل سکے تو اس میں تین چار ماشہ بنفشہ اور پانچ چار تولہ کدو ڈال کر گرم کریں اور اس میں غسل کریں صبح اور شام تیسرے روغن ماہی جو امرتسر اور لاہور میں مل سکتا ہے۔ بدن کو فربہ کرتا ہے۔ مگر ابھی وہ شائد گرمی کرے گا۔ سردی کے موسم میں ضرور استعمال کریں اورنیز سردی کے موسم میں آپ کے لئے کوئی ماء اللحم تجویز کر دیا جائے گا۔ حالات خیریت سے اطلاع بخشیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان ضلع گورداسپور
انڈے میں صرف زردی کھانی چاہئے۔ سفیدی نہیں کھانی چاہیئے۔
نوٹ۔ اس مکتوب پر تاریخ درج نہیں ہے۔ مگر مضمون سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ستمبر ۱۸۸۸ء کا خط ہے اور مکتوب نمبر ۱۳۹ سے پہلے چاہئے تھا۔(عرفانی)
(۱۴۶) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کارڈ پہنچا۔ انشاء اللہ القدیر دعا کرتا رہوںگا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ رکھیں۔ وہ بڑا رحیم و کریم ہے۔ اس کے رحم و کرم کا کچھ انتہا نہیں۔ استغفار لازم حال رکھیں۔ شرائط بیعت پھر کسی وقت روانہ کروں گا اور سب طرح سے بفضلہ تعالیٰ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۷؍ جنوری ۱۸۸۹ء
(۱۴۷) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج تاکیدی خط آپ کے لئے مولوی حکیم نورالدین صاحب کی خدمت میں لکھا گیا ہے۔ خدا تعالیٰ آپ کے ترودات دور کرے۔ آمین۔ امید کہ سبز اشتہار بعد میں نکال کر اگر ملے تو خدمت میں مرسل کروں گا۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۷؍ جنوری ۱۸۸۹ء
(۱۴۸) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
۵ جمادی الاوّل کو میرے گھر میں لڑکا پیدا ہو ا۔جس کا نام بطور تفاول بشیر الدین محمود رکھا گیا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۱۵؍ جنوری ۱۸۸۹ء
(۱۴۹) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اشتہارات آج روانہ کئے گئے ہیں۔ جس شخص کی اشتہار سے تسلی نہیں ہوئی۔ آپ کے لئے کیوں مضطرب ہوں۔ تعجب ہے۔ ہر شخص اپنے مادہ کے موافق جوہر دکھلاتا ہے۔ اس شخص کو اگر کچھ بصیرت ایمانی ہوتی تو وہ بے شک میںنہ ہوتا اور جب کہ بصیرت نہیں ۔ تو اس کو چھوڑنا چاہئے۔ کتاب واپس لے لو۔ روپیہ واپس کر دو۔ باقی سب خیریت ہے۔ آپ کے لئے دعا کی جاتی ہے۔ تسلی رکھو۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۳؍ فروری ۱۸۸۹ء
(۱۵۰) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آ پ کے لئے دعا میں مشغول ہوں۔ دعا سے بہتر اور کوئی چیز نہیں ۔ میری دانست آج بباعث غلبہ زکام بہت علیل ہے۔ زیادہ لکھنے کی طاقت نہیں۔ اگر صحت ہو گئی تو گھر کے لوگوں کو پہنچانے کے میر ا ارادہ ہے کہ دس یا گیارہ فروری ۱۸۸۹ء تک لودھیانہ میںجائوں۔ شاید ایک ماہ تک لودھیانہ میں ٹھہرنا ہو گا۔ پھر انشاء اللہ وہاں سے خط لکھوں گا۔ باقی سب خیریت ہے۔خواب اس عاجز کو یاد نہیں رہا۔ ہر چند خیال کیا۔ کچھ خیال میں نہیں آتا
والسلام
خاکسار
غلام احمدازقادیان
۷؍ فروری ۱۸۸۹ء
(۱۵۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی منشی صاحب۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ خوشی ہوئی۔ میں لڑکے کے واسطے دعا کروں گا اور ۱۸؍ اپریل ۸۹ء کو قادیان روانہ ہوںگا۔ انشاء اللہ۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ از لودھیانہ
۱۵؍ اپریل ۱۸۸۹ء
از عبداللہ سنوری السلام علیکم پذیر۔ حافظ حامد علی صاحب کی طرف سے السلام علیکم۔
(۱۵۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ موجب خوشی ہوئی۔ یہ عاجز بباعث کثرت خطوط اور کسی قدر علالت طبع کے اس قدر حیران ہے کہ حدسے زیادہ۔ انشاء اللہ القدیر بعد رمضان شریف آپ کی خدمت میں اشتہار بھیجا جائے گا۔ ہمیشہ خیروعافیت سے مطلع فرماتے رہیں۔ آپ کا تھانہ بڑ سر میںبھی حسب مرا دتبدیل ہوتا موجب خوشی ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ تھانہ آپ کے لئے مبارک کرے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۶؍ مئی ۱۸۸۹ء
(۱۵۳) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نا مہ پہنچا۔ تمام مضمون اوّل سے آخر تک پڑھا۔ مضمون بہت عمدہ ہے۔ کچھ ضرورت اصلاح یا کم و بیش کی نہیں۔ مگر مجھے معلوم نہیںہو اکہ قوم اوان اولاد حضرت علی کیونکر ہیں۔ آیا سید ہیں یا کسی اور بیوی سے اس کی اصل حقیقت کیا ہے اور اوان کی وجہ تسمیہ کیا ہے۔ دوسرے آپ فرماتے ہیں کہ سو کاپی چھپوائی جائے۔ مگر معلوم ہوا کہ خواہ سوچھپوائیں یا کم یا زیادہ سات سو کاپی کی اجرت لیں گے۔ یہی چھاپنے والوں کے ہاں دستور ہے۔ میری رائے میں اس مضمون کے چھپوانے میں ……۱۰ روپیہ سے کم خرچ نہیں آئیںگے۔ اگر کم ہوتو شاید آٹھ روپیہ تک ہو گا۔ جیسامنشاء ہو اطلاع بخشیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۱۶؍ مئی ۱۸۸۹ء
(۱۵۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کارد پہنچا۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے۔ غلام احمد نام کوئی شخص امرتسر میں مالک مطبع نہیں ہے۔ شاید کوئی نیا آگیا ہو۔ ہاں شیخ نور احمد صاحب نام ایک صاحب مالک مطبع ہیں۔ مجھے آپ مفصل لکھیں کہ غلام احمد مالک مطبع امرتسر میں کون ہے۔ کس پتہ سے اس کاخط بھیجا جائے اور یہ بھی لکھیں کہ کیا اس نے قبول کر لیا ہے کہ تین روپیہ لوں گا۔ کیا اسی میں کاغذ اور کاپی نویس کی اجرت داخل ہے۔ مجھے تو یہ بات سمجھ میںنہیں آتی۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۸؍ جون ۱۸۸۹ء
(۱۵۵) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب ڈپٹی انسپکٹر سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ پہلے بھی بذریعہ ایک خط کے آپ کو اطلاع دی گئی تھی کہ میری نظر میں غلام احمد نام کوئی مطبع نہیں ہے اورنہ آپ نے کچھ پتہ لکھا کہ اس شخص کا کس کٹڑہ میں ہے۔ جب تک پتہ نہ ہو۔ مضمون ارسال نہیں ہو سکتا۔ براہ مہربانی بہت جلد پتہ بھیجیں۔ اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب کی تشریف آوری کی آج کل امید لگی ہوئی ہے۔ جس وقت تشریف لائے۔خط دے دوں گا۔ آپ ک تبدیلی اگر نزدیک ہو جائے تو بظاہر تو اچھا معلوم ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ حافظ ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۱۳؍ جون ۱۸۸۹ء
(۱۵۶) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آج اس عاجز نے جناب الٰہی میں آپ کے لئے اس طور سے دعا کی ہے کہ یاالٰہی اگر جالندھر کی تبدیلی موجب بہتری ہے اور موجب خیر اورفضل کا ہو تو اپنے بندہ رستم علی کو اس جگہ پہنچا دے اور اگر اس میں مصلحت نہ ہو تو مشکلات سے نکال کر ایسی جگہ مرحمت فرما جو موجب برکت و خوشی دنیا و دین ہو کہ تو ہر چیز پر قادر ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمدعفی عنہ
۱۶؍ جون ۱۸۸۹ء
(۱۵۸) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ میںافسوس سے لکھتا ہوں کہ اس قسم کی طرح طرح کی مجبوریاں پیش آرہی ہیں۔ کہ میں آپ کے عزیز کی تقریب پر حاضر نہیں ہو سکتا اور مولوی صاحب غالباً کل یا پرسوں تک بحصول رخصت جموں سے لودھیانہ کی طرف تشریف لاویںگے اور قادیان میں آئیں گے۔ مگر میرے خیال میں ایسا ہے کہ وہ ۲۷؍ جون سے پہلے ہی تشریف لے جائیںگے۔ پس مشکل ہے کہ وہ ابھی اس تقریب پر حاضر ہو سکیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی ہمت میں برکت بخشے اورکامیاب کرے۔ آمین ثم آمین۔
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۱؍ جون ۱۸۸۹ء
(۱۵۸) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ خد اتعالیٰ آپ کو خاص محبت عطا فرمائے۔ جب خالص محبت دل میں آجاتی ہے تو یاد الٰہی کے لئے دل قوت اور شوق پید اہو جاتا ہے۔ جب تک وہ محبت نہیں۔ کسل شامل حال ہے۔ مولوی نورالدین صاحب بصحت تام جموںمیں پہنچ گئے ہیں۔ تولیہ راہ میں مل گیا تھا۔ میرے پاس موجود پڑا ہے۔ہمیشہ حالات خیریت آلات سے مطلع فرمایا کریں۔ آپ کو محبت اور اخلاص جو اس عاجز کے ساتھ ہے۔ یقین کہ وہ کشاں کشاں آپ کو اعلیٰ مقصد تک لے آئے گی۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۵؍ اگست ۱۸۸۹ء
(۱۵۹) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ خدائے عزوجل کوخواب میں دیکھنا بہرحال بہتر ہے۔ خدا تعالیٰ مبارک کرے۔ انشاء اللہ القدیر آپ کے لئے دعا کرتا رہوں گا۔ آپ کبھی دعا اور استغفار میںمشغول رہیں۔ خدا تعالیٰ رحیم و کریم ہے۔ آپ ایک محب خالص ہیں اور ایسے محب کہ ایسے تھوڑے ہیں۔پھر کیوں آپ بھول سکتے ہیں۔ خد اتعالیٰ خود ایسے محبوں کو بنظر محبت دیکھتا ہے۔ آپ کا تولیہ استعمال کیا جائے گا۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۲؍ ستمبر ۱۸۸۹ء
(۱۶۰) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ایارج فقرہ کی گولیاں رات کے پچھلے وقت یعنی پہر رات باقی رہے استعمال کرنی چاہئیں۔ ایک درم سے د ودرم تک اور معجون بعد تفقیہ کھانے چاہیئے۔ اور نسوار بھی بعد تفقیہ اور آپ کے لئے دعا بھی کی جاتی ہے۔ اگر اس میں بہتری ہو گی تو اللہ جلشانہ بہتر کر دے گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۴؍ ستمبر ۱۸۸۹ء
(۱۶۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ایک ضروری خط آپ کے نام کے متعلق چند روز سے بھیجا تھا۔ اب تک آپ نے جواب نہیں بھیجا۔ طبیعت نہایت مشوش ہے۔ وقت گزرتا جاتا ہے۔ جلد جواب ارسال فرماویں اور پیراندتا میرا ملازم غریب ہونے کی حالت میں عمر بسر کرتا ہے۔ آپ براہ مہربانی اس کو ملک میں ضرور اس کے لئے کوئی زوجہ صالحہ تلاش کریں۔ آپ کی ادنیٰ کوشش سے اس کا کام ہو جائے گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمدعفی عنہ
یکم اکتوبر ۱۸۸۹ء
جواب بہت جلد دیں تاکہ انتظار ہے۔ لڑکی باکرہ خورد عمر ہو۔
(۱۶۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
بخدمت اخویم محب صادق منشی رستم علی صاحب۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ خط میں آپ کو لودھیانہ سے لکھتا ہوں۔ میری روانگی کے وقت آپ کو خط معہ مبلغ …۱۰ روپیہ قادیان میں مجھ کو ملا تھا۔ مگر افسوس کہ میں اس دن تشویش کی حالت میں لدھیانہ کی طرف تیار تھا۔ اس لئے آپ کی فرمائش پر عمل کرنے سے مجبور رہا۔ اسی طرح لدھیانہ سے خط تھا کہ میر ناصر نواب صاحب کے گھر کے لوگ سخت بیمار ہیں او رانہوں نے میرے گھر کے لوگوں کو بلایا تھا کہ خط دیکھتے ہی چلے آئو وقت بہت تنگ ہے۔اس وجہ سے بندوبست جلد بھیجنے کا نہ کر سکا اور افسوس رہا۔ اب شاید ایک ہفتہ تک لودھیانہ ہوں۔ شیخ غلام غوث صاحب نے پیغام بھیجا تھا کہ میں کرسٹی صاحب کو آپ کی نسبت کہلایا ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ جن شخص کے ساتھ تبدیلی کرنا چاہتے ہیں۔ اس کی تبدیلی ہوچکی ہے۔ اب پھر کوئی شخص تبدیلی کی درخواست کرے گا تو ہم ضرور رستم علی صاحب کو بلا لیں گے۔ غرض غلام غوث کی زبانی معلوم ہوتا ہے کہ انگریز نے پختہ ارادہ کر لیا ہے۔ باقی خیریت ہے۔ جس وقت میں قادیان میں آئوں۔ اس وقت آپ کسی پہنچانے والے کا بندوبست کر کے مجھ کو اطلاع دیں۔ میں حلوہ تیار کرا کر بھیج دوں گا۔ ہمیشہ حالات خیریت سے مجھ کو اطلااع دیتے رہیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۷؍ اکتوبر ۱۸۸۹ء
(۱۶۳) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جس روز آپ کا خط اور …۱۰ روپیہ کا منی آرڈر پہنچا تھا۔ اسی روز رعاجز بباعث ایک عزیز کے سخت بیمار ہونے کے بعد لودھیانہ میں آگیا ہے۔ اس مجبوری سے آپ کی فرمائش کی تعمیل نہ ہو سکی نہایت ندامت ہے۔ آپ کے اشعار سے صاف ظاہر ہے کہ خد اوند کریم نے آپ کے دل میں طہارت باطنی کے لئے خالص جوش بخشا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس جوش میںترقی بخشے۔آمین۔
والسلام
خاکسار
غلام احمدعفی عنہ
۳۱؍ اکتوبر ۱۸۸۹ء
(۱۶۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ عاجز ابھی تک لودھیانہ میں ہے۔ میرے ملازم پیراں دتہ کی نسبت تو آپ کو زبانی بھی کہا تھا اور اب بھی بطور یاد دہانی لکھتا ہوں کہ اس کے نکاح کی نسبت آپ ضرور فکر کریں۔ قوم گوجر میں بہت لڑکیاں مل سکتی ہیں۔ کوئی ایسی لڑکی نو عمر تلاش کریں کہ نوعمر پندرہ سولہ برس کی اور نیک چلن اور محنتی ہو۔ انشاء اللہ القدیر آپ کو ثواب ہو گا۔ ضرور تلاش کریں۔ شاید میں ۴؍ نومبر ۸۹ء تک اس جگہ پہنچ جائوں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمدعفی عنہ
۲؍ نومبر ۱۸۸۹ء
(۱۶۵) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی مکرمی۔ اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ چند اشعار جو عمدہ اور دل سے نکلے ہوئے معلوم ہوتے تھے پہنچا۔ افسوس کہ میرے تینوں خطوں میںایک خط بھی آپ کے پاس نہیں پہنچا۔ نہایت حیرت ہے۔ جس روز قادیان میں انڈوں کے لئے آپ کا خط پہنچا تھا۔ اسی دن لودھیانہ سے خط پہنچا کہ والدہ اُم بشیر سخت بیمار ہیں۔ بمجرد دیکھنے کے چلے آئو۔ لہذا بلاتوقف روانہ ہونا پڑا۔ اس وجہ سے انتظام انڈوں یا ان کے حلوہ کا نہ ہو سکا۔ اب میں۵؍ نومبر ۱۸۸۹ء کو قادیان کی طرف تیار ہوں۔ آیندہ جو خط آپ لکھیں۔ قادیان آنا چاہیئے۔ پیراندتا کی نسبت بہت فکر رکھیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
یکم نومبر ۱۸۸۹ء
(۱۶۶) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
عنایت نامہ معرفت اخویم میر عباس علی شاہ صاحب مجھ کو ملا۔ خدا تعالیٰ آپ کو اپنی محبت عطا کرے۔ آپ کے اشعار آپ کے صدق طلب پر گواہ ہیں ۔ جزاکم اللہ۔ میں انشاء القدیر دہم نومبر ۸۹ء کو قادیان کی طرف جانے کے لئے ارادہ رکھتا ہوں۔ آئندہ ہرچہ مرضی مولا۔ پیراندتا میرے ملازم کے امر نکاح کو خوب یارکھیں۔ آپ کی ادنی کوشش سے اس غریب کا کام ہوجائے گااور آپ اگر ادنی توجہ کریں گے تو ضرور انشاء اللہ کوئی صورت نکل آوے گی۔ مگر چاہیئے۔ عورت جوان باکرہ بیس بائیس سال سے زیادہ نہ ہواور بیوہ نہ ہوکہ اس میں فتنہ پیدا ہوتا ہے۔ دلی توجہ سے تلاش فرمایں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۹؍نومبر ۱۸۸۹ء
(۱۶۷) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
کل لودہانہ سے قادیان آکر آپ کا دوسرا خط ملا۔ اشعار آبدار جو آپ نے دلی درد اورجوش سے لکھے تھے۔ پڑھ کر آپ کے لئے دعا خیر کی گئی۔ ترتب اثر وقت پر موقوف ہے کیونکہ اللہ جل شنانہ‘ نے ہر ایک بات کو اوقات سے وابستہ رکھا ہے ۔ آپ کی ملاقات کا بہت شوق ہے اور مناسب ہے کہ آپ گنجائش کے وقت میں ضرور ملاقات کریں کہ اس میں انشاء اللہ القدیر فوائد بے شمار ہیں۔ پیراں دتہ کے لئے ضرور خیال رکھیں ۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۳؍ نومبر ۱۸۸۹ء
(۱۶۸) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی مشفقی اخویم ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
عنایت نامہ پہنچا۔ آپ کے اشعار پاکیزہ اور عمدہ دل سے نکلے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ باایں ہمہ متانت ایسی ہے۔ کہ گویا ایک اہل زبان شاعر کی یہ امر خداداد ہے۔ خدا تعالیٰ آپ کو اپنی محبت بخشے۔ دنیا فانی اور محبت دنیا ہمہ فانی ۔ جس طرح آسمان پر ستارہ نظر آتے ہیں کہ ان کے نیچے کوئی ستون نہیں ۔ خدا تعالیٰ کے حکم سے ٹھہرے ہوئے ہیں اور حکم کی پابندی سے بے ستون کھڑے ہیں گرتے نہیں۔ اسی طرح مومن بھی حکم کا پابند ہے۔ خد اتعالیٰ کی فرمانبرداری پر کھڑا رہتا ہے گرتا نہیں۔ مومن کا دینا اور نفس کو چھوڑنا ایک خارق عادت امر ہے۔ وہ تبدیلی جو خدا تعالیٰ اس میں پید اکرتا ہے۔ وہ مومن کوقوت کو دیتی ہے۔ ورنہ ہر ایک شخص فانی لذت کا طالب اور شیطانی خیال اس پر غالب ہے۔ ……پر شیطان غالب نہیں آتا۔ کیونکہ وہ خدا تعالیٰ سے بیعت الموت کر چکا ہے۔ شیطان پر وہی فتح پاتا ہے جو بیعت الموت کرے۔ جیسے کہ آپ کے اشعار میں لذت ہے۔ خدا تعالیٰ آپ کے دل میں ایسی ہی سچی رقت پید اکرے۔ ایک شخص جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں شاعر تھا اور ایمان نہیں لاتا تھا۔ ایک نفس پرست آدمی تھا۔ لیکن اس کے موحدانہ اور عارفانہ تھے۔ ایک مرتبہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شعر سے نہایت پاکیزہ تھے۔ آنحضرت بہت خوش ہوئے اور فرمایا۔ امن شعرلا وکفر نفسہ۔ یعنی شعر اس کا ایمان لایا اور نفس اس کاکافر ہوا۔ خدا تعالیٰ آپ کے شعر اور آپ کے دل کو ایک ہی نور سے منور کرے۔ مناسب ہے کہ یہ اشعار آپ جمع کرتے جائیں۔ کیونکہ لطیف ہیں اور لائق جمع ہیں۔ مجھے بباعث کثرت کار فراغت نہیں۔ ورنہ میں جمع کرتا جاتا۔ تین روز سے لودھیانہ سے قادیان آگیا ہوں۔ مولوی نور دین صاحب کا کچھ پتہ نہیں۔ ہمیشہ حالات خیریت آیات سے مطلع فرماتے رہیں۔ دعا میں بہت مشغول رہیں کہ تمام امن و آرام خدا تعالیٰ کی یاد میں ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۳؍ نومبر ۹ ۱۸۸ء
(۱۶۹) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ آپ کے اشعار پڑھنے سے ہمیشہ دعا کی جاتی ہے کہ خدا وندکریم آپ کو خط و افر اپنی محبت کا بخشے۔ میں ان دنوں سخت بیمار ہوں۔ نہایت کمزور ہو گیا۔ اس لئے طاقت زیادہ تحریر کی نہیں۔ امید کہ بعد صحت انشاء اللہ مفصل خط لکھوں گا۔ میر صاحب کسی قدر بیمار رہے ہیں اور اب بھی پورے تندرست نہیں۔ اسی وجہ سے میر صاحب کا کوئی خط نہیں آیا ہوگا۔ آپ تلاش رکھیں۔ اگر شہد عمدہ مل سکے تو ضرور تشریف آویں۔ آپ کا ملاقات بہت شوق ہے۔ اگر رخصت ملے تو ضرور تشریف لے آویں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمدعفی عنہ
۲۵؍ نومبر ۱۸۸۹ء
پیراندتا کی نسبت رہے۔
(۱۷۰) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ میں افسوس سے لکھتا ہوں کہ درحقیقت بباعث بیماری مجھ سے تحریر جوابات میں کوتاہی ہوئی اوراب بھی پوری تندرستی نہیں ہوئی۔ اسی وجہ سے زیادہ لکھنے سے سخت مجبور ہوں۔ اگر چند سطریں بھی لکھوں تو سر گھوم جاتا ہے۔ ضعف بہت ہے۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
ضلع گورداسپورہ
۲۸؍ نومبر ۱۸۸۹ء
(۱۷۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا اور نہایت خوشی ہوئی۔ خداتعالیٰ آپ کو مکروہات سے بچاوے۔ انشاء اللہ القدیر آپ کے لئے بجدوجہد دعا کروں گا۔ اپنے حالات سے مطلع فرماتے رہیں اور استغفار میں بہت مشغول رہیں کہ اس میں دفع بلا ہے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۷؍ دسمبر ۱۸۸۹ء
(۱۷۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
انشاء اللہ القدیر دعا کروں گا۔ مگر اس طرح پر جو کچھ آپ کے دنیا اوردین کے لئے فی الحقیقت بہتر ہے۔ وہ بات آپ کو میسر آوے۔ کیونکہ خبر نہیں کہ خیر کس کام میں ہے۔ ہمیشہ حالات خیریت آیات سے مطلع فرماتے رہیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمدعفی عنہ
۱۸؍ دسمبر ۱۸۸۹ء
(۱۷۳) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
آپ کا انتظار تھا۔ خدا جانے کیا سبب ہوا کہ آپ تشریف نہیں لائے۔ چھ سات روز سے اخویم مولوی نورالدین صاحب تشریف رکھتے ہیں۔ شاید چھ سات روز تک اور بھی رہیں۔ اگر آپ ان دنوں آجائیں تو مولوی صاحب کی ملاقات بھی ہوجائے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۹؍دسمبر ۱۸۸۹ء
(۱۷۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
اس جگہ سب طرح سے خیریت ہے ۔ اپنے حالات خیریت آیات سے مطلع فرماتے رہیں۔ پیراندتا بغایت درجہ آپ کے وعدہ کا منتظر ہے اور کسی غریب کا کام کردینا نہایت ثواب ہے۔ آپ خاص توجہ فرما کر اس کے لئے کوشش فرمادیں۔ آپ کے لئے برابر دعا بحضرت باری عزاسمہ کی جاتی ہے۔ امید کے وقت پر ترتب اثر بھی ہوگا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی اللہ عنہ
۳؍جنوری ۱۸۹۰ء
(۱۷۵) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمی تعالی ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
مدت مدید کے بعد آپ کا خط پہنچا۔ اس قدر خطوط کے ارسال میں توقف کرنا مناسب نہیں۔ ہمیشہ استغفار میں مشغول رہیںکہ عمر کا ذرہ اعتبار نہیںاور جلد جلد اپنے حالات خیریت سے مطلع کرتے رہیں۔ تا دعا کی جاوے اور قریباً بیس روز سے لودہانہ میں ہوں۔ شاید ۶؍ مارچ ۹۰ء تک جاؤں۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از لودہانہ
۲۴؍فروری ۱۸۹۰ء
(۱۷۶) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
آپ کا عنایت نامہ پہنچا ۔ یہ عاجز عرصہ دس روز سے سخت بیمار رہا۔ بظاہر امید زندگی منقطع تھی۔ اب بھی کسی قدر بیماری باقی ہے۔ نہایت درجہ کا ضعف ہے۔ طاقت تحریر نہیں۔ صرف اطلاع کی غرض سے لکھتا ہوں۔ ورنہ حالت ایسی نہیں کہ لکھ سکوں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۷؍اپریل ۱۸۹۰ء
(۱۷۷) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ میں بمقام لاہور بغرض کرانے کے آیا ہوں۔ علاج ڈاکٹری شروع ہے۔ لیکن ابھی پوری پوری صحت نہیں ہوئی۔ انشاء اللہ کامل صحت ہوجائے گی اور میں دو تین روز تک واپس قادیان چلا جائوں گا۔ آپ اپنے حالات سے مطلع فرماتے رہیں۔
والسلامـ
خاکسار
غلام احمد از لاہور
مکان مرزا سلطااحمد
نائب تحصیلدار لاہور
۳؍ مئی ۱۸۹۰ء
نوٹ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اوائل میں جب لاہور جاتے تو مرزا سلطان احمد صاحب (جو آپ کے سب سے بڑے بیٹے ہیں۔ کے مکان پر ٹھہرا کرتے تھے اور جب ڈاکٹر محمد حسین صاحب مرحوم سے علاج کرایا کرتے تھے۔ یہ ڈاکٹر صاحب مرزا احمد حسین مشہور ناولسٹ کے والد ماجد تھے اور بھاٹی دروازہ کے اندر رہا کرتے تھے) یہ مکتوب حضرت کے اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا نہیں اور اس پر ازعاجز حامد علی السلام علیکم بھی تحریر ہے۔
(عرفانی)
(۱۷۸) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ الحمدللّٰہ والمۃ کہ بیماری لاحقہ سے اب بہت کچھ آرام ہے اور جس قدر باقی ہے۔امید کی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جلد شفا ہو جائے گی۔ ضعف بہت ہو گیا ہے۔ اس لئے اپنے ہاتھ سے خط لکھنا دشوار ہمیشہ اپنی خیروعافیت سے مطلع فرماتے رہیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۳۱؍ مئی ۱۸۹۰ء
(۱۸۹) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کے لئے دعا کی جاتی ہے تسلی رکھیں۔میری طبیعت بباعث ایک مرض دوری کے اکثر بیمار رہتی ہے اور ضعف بہت ہو گیا ہے۔ امید کہ اللہ تعالیٰ فضل کرے گا اور آپ اندیشہ مند نہ ہوں اور توبہ و استغفار میں مشغول رہیں۔ زمین پر کچھ نہیں ہو سکتا۔ جب تک آسمان پر نہ ہو۔ خدا تعالیٰ پر قوی بھروسہ رکھیں۔ میرا ارادہ ہے کہ تبدیل ہواکے لئے ۳؍ جولائی ۱۸۹۰ء تک لودھیانہ میں جائوں۔ اگر آپ کی ملاقات ہو تو بہت بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ غفور الرحیم ہے۔ محبت اور یقین سے اس پر امید رکھو۔
والسلام
۲۵؍جون ۱۸۹۰ء
(۱۸۰) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی مکرمی اخویم سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کے لئے جو اللہ جلشانہ نے بہتر سمجھا ہے وہی ہو گا اور امید رکھتا ہوں کہ دعا کا اثر آپ کے حق میں خیرو برکت ہو گا۔عسیٰ ان تکرھو اشیاء وھو خیر لکم۔ غالباً ۷؍ جولائی۱۸۹۰ء کو لودھیانہ کی طرف روانہ کروں گا۔ اقبال گنج کے محلہ میں میر ناصر نواب کا مکان ہے۔ وہاں سے میرا پتہ معلوم ہو گا۔ اضطراب نہ کریں تسلی رکھیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
یکم جولائی ۱۸۹۰ء
(۱۸۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ عاجز عرصہ زیادہ دو ہفتہ سے لودھیانہ میں ہے اور بار ہا بخلوص قلب آپ کے لئے دعا کی گئی ہے۔ امید ہے کہ خدا تعالیٰ بہرحال آپ کے لئے بہتر کرے۔ اسی کی طرف رجوع رکھو اور بے قرار مت ہو۔ وہ کریم ورحیم ہے اورمیں لودھیانہ میں محلہ گنج میں برمکان شاہزادہ حیدر اترا ہوا ہوں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۵؍ جولائی ۱۸۹۰ء
(۱۸۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا خط مدت کے بعد آیا۔ برابر آپ کے لئے بتوجہ دعا کی جاتی ہے اور خدا تعالیٰ رحیم وکریم ہے۔ تسلی رکھو اور اپنے حالات سے بلا تاخیر اطلاع فرماتے رہیں۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
از لودھیانہ محلہ اقبال گنج
مکان شاہزادہ حیدر
یکم اگست ۱۸۹۰ء
نوٹ۔ اس کے بعد چوہدری صاحب کی تبدیلی محکمہ ریلوے پولیس میں ہوگئی۔ چوہدری صاحب اس کے متعلق حضرت اقدس کو لکھتے رہتے تھے اور آپ ہر خط میں ان کو تسلی اور اطمینان دلاتے تھے۔ آخر خد اتعالیٰ نے آپ کی دعائوں کو شرف قبولیت بخشا اور چوہدری صاحب کو حسب مراد کامیابی ہوگئی۔ حقیقت میں بھی وہ نشانات اورخوارق تھے۔ جن کو دیکھ کر سابقون الاولون کی جماعت نے ایمانی ترقی حاصل کی تھی اور کوئی چیز حضرت کی راہ میں ان کے لئے روک تھی۔ وہ سب کچھ قربان کر کے یہی آرزو کہتے تھے کہ اور موقعہ ملے۔ اس لئے کہ بشاشت ایمانی ان میں داخل ہو چکی تھی اور خد اتعالیٰ کی آیات کو کھلا کھلا انہوں نے دیکھ لیا تھا۔
افسوس ہے کہ اگست سے دسمبر ۹۰ء بلکہ مارچ ۱۸۹۱ء تک کے خطوط نہیں مل سکے۔ میں تلاش میں ہوں۔ اگر مل گئے تو بطور ضمیہ شائع ہوں گے۔ انشاء اللہ العزیز (عرفانی)
(۱۸۳) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میں پھر آپ کو یاد دلاتا ہوں کہ براہ مہربانی جالندھر چھائونی سے انگریزی نورہ جو سوداگروں کی دوکان میں بکتا ہے لے کر ضرور ارسال فرمادیں۔ صرف ۴؍ کا کافی ہو گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۳؍ اپریل ۱۸۹۱ء
(۱۸۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
دہلی بازار بلی ماراں کوٹھی نواب لوہارو ۲۹؍ ستمبر ۱۸۹۱ء
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج یہ عاجز بخیروعافیت دہلی میں پہنچ گیاہے۔ ظاہراً معلوم ہوتا ہے کہ انشاء اللہ القدیر ایک ماہ تک اسی جگہ رہوں۔ کوٹھی نواب لوہارو جو بلیماراں والے بازار میں ہے رہنے کے لئے لے لی ہے۔ آپ ضرور آتی دفعہ ملیں اور میں نہایت تاکید سے آپ کو سفارش کرتا ہوں کہ آپ شیخ عبدالحق کرانچی والے کی نوکری کی نسبت ضرور کوشش فرماویں کہ وہ میرے بہت مخلص ہیں۔زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
(۱۸۵) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
دہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریماس عاجز کی تیاری کی ابھی کوئی پختہ خبر نہیں۔ ابھی بحث کے لئے تیاری ہو رہی ہے۔ شاید مولوی حکیم نور دین صاحب اور ایک جماعت ۱۷؍ اکتوبر ۱۸۹۱ء تک میرے پاس پہنچ جاوے۔ میں جانے کے وقت آپ کو اطلاع دوں گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از دہلی
نوٹ۔ یہ مباحثہ دہلی کے ایام کی خط وکتابت ہے۔ جب کہ سید نذیر حسین صاحب محدث دہلوی کو حضرت اقدس کی طرف سے دعوت دی گئی تھی۔(عرفانی)
(۱۸۶) پوسٹ کارڈ
۱۸؍دسمبر ۱۸۹۱ء
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کارڈ پہنچا ۔ تھان گبرون حامد علی کو پہنچ گیا اور آپ کا چوغہ بنات میاں حافظ معین الدین کو دیا گیا۔ جس کو دینے کے لئے آپ نے کہا تھا اور میں امید کرتا ہوں کہ آپ توجہ سے سلطان احمد سے فیصلہ کرلیں۔ تا اس کے موافق عملدر آمد ہوجاوے کیونکہ میرا قیام قادیان میں زیادہ تر التزام سے اسی غرض سے ہے کہ تا یہ انتظام ہوجاوے۔ زیادہ خیریت ہے
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
نوٹ:۔ چودھری رستم علی اس وقت لاہور میں متعین تھے اور مرزا سلطان احمد صاحب سے بعض امور متعلقہ اراضیات و باغ کا تصفیہ حضرت چاہتے تھے (عرفانی)
(۱۸۷) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی مکرمی۔ اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
چونکہ ۲۷؍دسمبر ۱۸۹۱ء کو قادیان میں علماء مکذبین کے فیصلہ کے لئے ایک جلسہ ہوگا۔ انشاء اللہ القدیر۔ کثیر احباب اس جلسہ میں حاضر ہونگے۔ لہذا مکلف ہوں کہ آپ بھی براہ عنایت ضرور تشریف لاویں۔ آتے ہوئے ی۴ روکھے پان ضرور لیتے آویں۔زیادہ خیریت ہے
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
نوٹ :۔ اس خط پر از بند محمد اسمعیل السلام علیکم بھی درج ہے۔ یہ مرزا محمد اسمعیل کی طرف سے ہے۔ اس پر کوئی تاریخ درج نہیں۔ مہرے سے معلوم ہوتا ہے۔ ۲۲؍دسمبر ۱۸۹۱ء کو ڈاک میں ڈالا گیا اور لاہور کی مہر ۲۳؍ دسمبر ۱۸۹۱ء کی ہے۔ یہ سب سے پہلے جلسہ کی اطلاع ہے اور اب جیسا کی حضرت اقدس نے اس جلسہ کے اعلان میں ظاہر فرمایا تھا۔ وہی جلسہ برابر انہی تاریخوں پر ہوتا چلا آرہا ہے ۔ گویا اب تک ۳۷ سالانہ جلسہ ہوچکے ہیں۔ سلسلہ کی ابتدائی تاریخ اور حضرت اقدس کی اس وقت کی مصروفیت کا اندازہ ہوسکتا ہے کہ ہی سب کام اپنے ہاتھ سے کرتے تھے۔ (عرفانی)
(۱۸۸) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی صاحب سلمہ تعالیٰ ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
ضرور دو بڑی شطرنجی اور ایک قالین ساتھ لاویں۔ ۲۵؍ دسمبر ۱۸۹۱ء تک ضرور آجاویں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۲۳؍دسمبر ۱۸۹۱ء
(۱۸۹) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمی تعالیٰ ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ خواب نہایت عجیب ہے۔ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ نتیجہ امتحان سے اطلاع بخشیں اور براہ مہربانی میر ناصر نواب صاحب کا اسباب پٹیالہ پہنچا دیں۔ وہ بہت تاکید کرتے ہیں۔ پتہ یہ ہے۔ دفتر نہر میر ناصر نواب صاحب نقشہ نویس۔
راقم خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۹؍جنوری ۱۸۹۲ء
(۱۹۰) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی محبی اخویم سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ عاجز قادیان میں آگیا ہے اور ایک رسالہ دافع الشہادت تالیف کرنے کی فکر میں ہے۔ براہ مہربانی وہ کتاب جو آپ نے مولوی غلام حسین صاحب سے لی ہے۔ یعنی تاویل الاحادیث شاہ ولی اللہ صاحب ضرور مجھ کو بھیج دیں۔ ہرگز توقف نہ فرماویں کہ اس کا دیکھنا ضروری ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۱۹؍مئی ۱۸۹۲ء
نوٹ:۔ اس خط میں از جانب محمد اسمعیل اور محمد سعید السلام علیکم درج ہے سید محمد سعید دہلوی حضرت میر صاحب قبلہ رضی اللہ عنہ کے عزیزوں میں سے تھے۔ وہ یہاں قادیان آئے اور حضرت نے انہیں مہتمم کتب خانہ بنادیا تھا۔ پھر ان کی شامت اعمال انہیں یہاں سے لے گئی اور گمنامی میں رخصت ہوئے۔ (عرفانی)
(۱۹۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ عزیزی غلام مصطفی کے لئے دعا کی گئی ۔ خدا تعالیٰ اس کو کامیاب کرے۔ آمین۔ انشاء اللہ القدیر پھر دعا کروں گا۔ امید کی اپنے حالات خیریت آیات سے مطلع و مسرور الوقت فرماتے رہیں گے۔ نیاء رسالہ ابھی مطبع ہوکر نہیں آیا۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۲۰؍جولائی ۱۸۹۲ء
(۱۹۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی مکرمی اخویم منشی صاحب۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ آپ رخصت لیں۔ تو ضرور مجھ کو بھی ملیں۔ کیونکہ آپ کی ملاقات کو ایک مدت ہوگئی ہے۔ عرب صاحب کے لئے بہت خیال ہے اور نواب محمد علی خان صاحب کو اشارہ کے طور پر اور نیز تصریح سے میں نے کہا بھی تھا ۔ اس سے زیادہ اور کیا کہا جاوے۔ حیدر آباد سے کوئی خط نہیں آیا۔ معلوم نہیں وہ لوگ کس حال میں ہیں۔ آج کل ایسی ہوا چل رہی ہے کہ ایک نئے روز کا خطرہ ہوتا ہے ۔ کہ دلوں پر کیا اثر ڈالے۔ جسمانی وبا بھی ہیں اور روحانی بھی ۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۲۵؍ جون ۱۸۹۲ء
نوٹ:۔ حامد علی السلام علیکم و سید محمد سعید السلام علیکم ،،درج ہے۔ (عرفانی)
(۱۹۳) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
محبت نامہ پہنچاآپ کی دلی ہمدردی اور اخلاص فی الواقعہ ایسا ہی ہے کہ کسی قسم کا فرق باقی نہیں رکھا۔ جزاکم اللہ خیرالجزء واحسن الیکم فی الدنیا والعقبیٰ۔رسالہ آسمانی نشان کے شروع ہونے میں یہ دیر ہے کہ میاں نور احمد مہتمم مطبع کی لڑکی جوان فوت ہوگئی ہے۔ اس غم کے سبب سے چند روز اس کی توقف ہوگئی۔ اب وہ قادیان آکر اول قرار داد اجرت باہم کرکے ضلع گورداسپور کے ڈپٹی کمشنر سکے اجازت لیں گے کہ قادیان میں میں مطبع لاویں۔بعد ازاں مطبع لے آویں گے۔ شاید اس عرصہ میں ہفتہ عشرہ اور دیر لگ جاوے ۔ اسمعیل کو سمجھا دیا گیا۔ اس کا بھائی لاہور کسی جگہ نوکر ہے ۔ وہ کہتا ہے ۔دوتین روز میں وہاں سے الگ ہوکر امرتسر پہنچ جائے گا۔ آپ کی دس تاریخ جولائی تک انتظار رہے گی۔ کتابیں ابھی امرتسر سے آئی نہیں۔ امید کہ چھ سات روز تک آجائیں گی اور شاید آپ کے پہنچنے تک آجائیں ۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۶؍جولائی ۱۸۹۲ء
(۱۹۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
چندہ …ماہوار کی حضرت مولوی محمد حسین صاحب کو اطلاع دی گئی۔ خد اتعالیٰ آپ کو اجر بخشے اور کتاب رسالہ نشان آسمانی قدر امرتسر میں باقی ہے۔ جس وقت کتابیں آتی ہیں روانہ کروں گا۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۷؍ جولائی ۱۸۹۲ء
(۱۹۵) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کی تبدیلی سے خوشی ہوئی۔ مبارکباد اور آپ نے جو مبلغ بیس ……روپیہ عربی رسالہ کے لئے کہا تھا۔ اس وقت عربی رسالے چھپ رہے ہیں۔ ایک کا نام تحفہ بغداد اور دوسرے کا نام کرامات الصادقین ہے۔ اگر آپ اسی وقت میں اگر گنجائش ہو مبلغ ۲۰… …روپیہ سیالکوٹ میں بھیج دیں۔ تو بہتر ہو۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۲۷؍ اگست ۱۸۹۲ء
نوٹ:۔اس وقت چوہدری رستم علی تھانہ ولٹوہا ضلع لاہور میں ڈپٹی انسپکٹر تھے۔ (عرفانی)
(۱۹۶) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ خدا تعالیٰ تفکر سے آپ کو نجات بخشے۔ کتاب آئینہ کمالات اسلام ۵ جزو تک چھپ چکی ہے۔ اگر آپ دوماہ تک چندہ مولوی محمد حسین صاحب کو بلاتوقف بھوپال بھیج دیں تو موجب ثواب ہو گا۔ پتہ بھوپال دارالریاست محلہ چوبدار پورہ۔ آپ کے اس تفکر کے لئے بھی دعا کی گئی ہے۔ مولوی عبدالکریم صاحب اور عرب صاحب آپ کے انتظار میں قادیان میں ہیں۔
راقم خاکسار
غلام احمداز قادیان
ضلع گوراسپورہ
۱۶؍ ستمبر ۱۸۹۲ء
(۱۹۷) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کے برادر زادہ کی خبر سن کر بہت رنج واندوہ ہوا۔ اللہ تعالیٰ اس کے تمام عزیزوں کو صبر عطا فرمائے اور اس مرحوم کو غریق رحمت کرے۔ اب تاریخ جلسہ ۲۷؍ دسمبر ۱۸۹۲ء بہت بزدیک آگئی ہے۔ آپ کا شامل ہونا ضروری ہے ماسوائے اس کے انتظام دو تین شطرنجی اور قالین کاا گر ہو سکے تو ضرور کر لیں۔ یہ تو پہلے آجانی چاہئیں۔ اگر آپ دو روز پہلے ہی تشریف لاویںتو مناسب ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
ضلع گورادسپورہ
۱۶؍ دسمبر ۱۸۹۲ء
(۱۹۸) ملفوف
افسوس ہے کہ یہ خط پھٹ چکا ہے۔ اس میں سے صرف مندرجہ ذیل حصہ باقی ہے۔(عرفانی)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کامحبت نامہ پہنچا۔ آپ کی بار بار کی تکلیفات کی …………معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی جلسہ کے لئے ضروری سامان وغیرہ لانے کے متعلق تاکیدی خط تھا اور اس میںحضرت نے عذر کیا ہے کہ آپ کو بار بار ضروریات سلسلہ کے متعلق تکلیف دی جاتی ہے۔ اس سے حضرت اقدس کی پاکیزہ سیرۃ کے بہت سے پہلوئوں پر روشنی پڑتی ہے کہ آپ بالطبع اپنے احباب کو کسی قسم کی تکلیف دینا چاہتے تھے اور اگر خدا تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کے ذریعہ مخلوق کی روحانی ترقی اور اخلاقی اصلاح کا یہ ذریعہ قرار نہ دیا ہوتا تو آپ کا بالطبع اس سے نفرت تھی۔ لیکن سنت اللہ یہی ہے اور اسی منازل سکوک طے ہو سکے تھے۔ چوہدری صاحب کی یہ خوش قسمتی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس بے تکلفی سے انہیں نوازتے تھے اور یہ سعادت قابل رشک ہے۔ ابتداًہر قسم کے جلسوں کی ابتدائی ضروریات کا انصرام چوہدری صاحب ہی کے حصہ میں آیا تھا اور وہ خود بھی ہر موقع کی تلاش میں رہتے تھے۔ رضی اللہ عنہ۔(عرفانی)
(۱۹۹) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ آپ مطمئن رہیں۔ آپ کے لئے انشاء اللہ القدیر یہ عاجز بہت دعا کرے گا۔ اللہ جلشانہ پہلے سے ہر ایک دعا آپ کے لئے قبول فرما رہا ہے۔ امید کہ اب بھی قبول فرمائے گا۔ مگر میں نہیں کہہ سکتا کہ جلد یا کسی قدر دیر سے۔ اس کے ہر ایک کام میں خیر اور خوبی ہے۔ اپنے حالات سے مجھ کو بدستور مطلع فرماتے رہیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
نوٹ:۔ تاریخ مٹ گئی ہے۔(عرفانی)
(۲۰۰) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
ابھی اسی وقت آ پ کے لئے تضرع اور ابتہال سے دعا کی گئی۔ بفضلہ تعالیٰ ضائع نہ جائے اور اس کا اثر ہو گا۔ آپ صبر سے منتظر رہیں۔ ہرگز ہر گز بے صبری نہ کریں۔ اپنے کام کو پوری توجہ اور ہوشیاری سے کریں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۲۶؍ جنوری ۱۸۹۲ء
(۲۰۱) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
مبلغ بیس… روپے مرسلہ آنمکرم مجھ کو مل گئے۔ جزاکم اللہ خیرالجزاء۔ رسالہ عربی سیالکوٹ میں چھپ رہا ہے۔ شاید بیس روز تک تیار ہو جائے۔اس رسالہ کی تالیف کے دو مقصد ہیں۔ اوّل یہ کہ عربوں کے معلومات وسیع کیے جائیں اور اپنے حقائق و معارف کی ان کو اطلاع دی جائے۔ دوسرے یہ کہ میاں محمدحسین اور ان کے ساتھ دوسرے علماء جو اپنی عربی دانی اورعلم دین ناز کرتے ہیں۔ ان کا یہ کبر توڑا جائے۔ چنانچہ اس رسالہ کے ساتھ اسی غرض سے ہزار روپیہ کاا شتہار بھی شامل ہے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۶؍ جولائی ۱۸۹۲ء
(۲۰۲) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کاعنایت نامہ پہنچا۔ آپ جانتے ہیں کہ آپ کا اس عاجز سے محض للہ دلی تعلق اور محبت ہے اور یہ عاجز آپ کے ہر ایک تردد کے ساتھ متردد اور ہر ایک غم کے ساتھ غمگین ہوتا ہے۔ پھر کیونکر آپ کی دعا کی میں غفلت ہو۔ اللہ تعالیٰ آپ پر رحم کرے اور آپ کے مدعا کے موافق کام کر دیوے۔ آمین ثم آمین۔ انشاء اللہ القدیر توجہ سے آپ کے لئے دعا کروں گا۔ بلکہ شروع کر دی ہے۔ باقی خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۲۵؍ جولائی ۱۸۹۲ء
(۲۰۳) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ تعجب کہ کس قدر آپ کے پاس کسی نے جھوٹ بولا اور دوسرا تعجب کہ آپ کو بھی حقیقت واقعہ سے اطلاع نہیں ہوئی۔ بات یہ ہے کہ جب کہ عاجز امرتسر گیا اور جاتے ہی عاجز نے ایک خط رجسٹری کرا کر عبدالحق کو مباہلہ کے لئے بھیجا۔ کہ تم اس وقت مجھ سے مباہلہ کر لو۔ لیکن اس نے بدست منشی محمد یعقوب صاحب ایک خط اس مضمون کا لکھا کہ اس وقت تم عیسائیوں سے مباہلہ کرتے ہو۔ اس ووقت میں مباہلہ مناسب نہیں دیکھتا۔ جس وقت لاہور میں مولوی غلام دستگیر سے بحث ہو گی۔ اس وقت مباہلہ کروں گا۔ لیکن اس کے جواب میں لکھا گیا کہ جو شخص ہم میں سے اعراض کرے اور تاریخ مقررہ پر مقام مباہلہ میں حاضر نہ آوے۔ اس پر خد اتعالیٰ کی *** ہو۔ چنانچہ وہ اس سخت خط کو دیکھ کر بہر حال مباہلہ کے لئے تیار ہو گیا اور ایسا ہی ایک محمد حسین بٹالوی کو بھی لکھا گیا تھا۔ مگر تاریخ مقررہ پر عبدالحق مباہلہ پر آگیا اور امرتسر میں جو بیرون دروازہ رام باغ عید گاہ متصل مسجد ہے۔ اس میں مباہلہ ہوا اور کئی سو آدمی جمع ہوئے۔ یہاں تک کہ بعض انگریز پادری بھی آئے اور ہماری جماعت کے احباب شاید چالیس کے قریب تھے اور عبدالحق بھی آیا اور بہت سی بددعائیں دیں۔ لیکن محمد حسین بٹالوی چارو ناچار مباہلہ کے میدان میں آیا۔ مگر مباہلہ نہیں کیا اور سب لوگ معلوم کر گئے۔ کہ وہ گریز کر گیا۔ یہ سچی حقیقت ہے۔ جس کا شاید د س ہزار کے قریب باشندہ امرتسر گواہ ہو گا۔ اب جب تک پہلے مباہلہ کا فیصلہ نہ ہو۔ دوسرا مباہلہ کیونکر ہو۔ علاوہ اس کے اسی مباہلہ کی تاریخ میاں محی الدین لکھو کے والے اور ایسا ہی مولوی محمد جبار کو ( عبدالجبار مراد ہے۔عرفانی)کو رجسٹری کرا کر خط بھیجا گیا کہ اس تاریخ پر تم بھی آکر مباہلہ کر لو۔ اگر تاریخ مقررہ پر نہ آئے تو پھر کاذب ٹھہرو گے۔ مگر بحالیکہ ان کی رسیدیں بھی آگئیں اور کافی مہلت بھی دی گئی۔ لیکن وہ نہ آئے۔ رسیدیں موجود ہیں۔ ایسا ہی لودھیانہ میں بھی رجسٹری شدہ خط بھیجے گئے تھے اور دہلی اور پٹیالہ میں بھی۔
غلام احمد عفی عنہ
۱۹؍ اگست ۱۸۹۳
(۲۰۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ اسی جگہ سے آپ کے خط کے جواب میں حتی الوسع توقف نہیں ہوتا۔ شاید کسی وجہ سے خط نہ پہنچا ہو۔ دو رسالہ عربی چھپ رہے ہیں اور ایک رسالہ نہایت عمدہ اردو میں چھپ ہے۔ شاید یہ کام ایک ماہ تک ختم ہو۔ امید کہ اپنے حالات خیریت آیات سے مجھ کو مطلع فرماتے رہیں گے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۲۵؍ ستمبر ۱۸۹۳ء
نوٹ:۔ اس وقت چوہدری صاحب کورٹ انسپکٹر تبدیل ہو چکے تھے اور محکمہ ریلوے سے دوسری طرف منتقل ہو گئے تھے۔ اب لفافہ پر حضرت اقدس لکھتے تھے۔
بمقام منٹگمری۔ کچہری صدر۔ بخدمت مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب کورٹ انسپکٹر پولیس۔(عرفانی)
(۲۰۵)پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
مبلغ دس روپیہ مرسلہ آپ کے پہنچ گئے۔ جزاکم اللہ خیراً۔ کتابیں ابھی چھپ رہی ہیں۔ جس وقت آئیں گی۔ آپ کی خدمت میں ارسال ہوں گی۔ باقی سب خیریت ہے۔ امید کہ اپنے حالات سے ہمیشہ مطلع فرماتے رہیں۔
والسلام
نوٹ:۔ اس خط پر آپ نے دستخط نہیں کئے اور تاریخ بھی درج نہیں فرمائی۔ قادیان کی مہر اور ۱۸؍ اکتوبر ۱۸۹۳ء کی ہے۔(عرفانی)
(۲۰۶) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
مبلغ پچاس روپیہ آنمکرم پہنچ گئے۔ جزاکم اللّٰہ خیرا لجزاء۔ رسالہ حمامۃ البشری جو مکہ معظمہ میں بھیجا جائے گا اور تفسیر سورۃ فاتحہ چھپ رہی ہے۔ اب کچھ چھپنا باقی ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۱؍ نومبر ۱۸۹۳ء
(۲۰۷) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ میری طبیعت چند روز سے بعارضہ تپ بیمار ہے اور درد سر اور ضعف بہت ہے۔ اس لئے میں زیادہ نہیں لکھ سکتا۔ آپ کے دریافت طلبا امور کا جواب لکھ سکتا ہوں اور کسی اور وقت پر چھوڑ سکتا ہوں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۱۷؍ نومبر ۱۸۹۳ء
(۲۰۸) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
میں اس وقت فیروز پور چھاؤنی میں ہوں۔ اتوار کو واپس قادیان آجاؤں گا۔ آپ اپنے حالات خیریت سے بو اپسی اطلاع دیں۔ خداتعالیٰ آپ کو کلی صحت بخشے۔ آمین ثم آمین۔
خاکسار
غلام احمد
از فیروز پور چھاؤنی
نوٹ:۔ اس کارڈ پر مندرجہ ذیل السلام علیکم بھی لکھے ہوئے ہیں۔ از عاجز سید محمد سعید السلام علیکم و نیز غلام احمد کاتب۔ حامد علی السلام علیکم۔‘‘(عرفانی)
(۲۰۹) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
میں کل ایک ماہ کے قریب سفر پر رہ کر آیاہوں۔ امید کہ اپنی طبعیت کے حالات سے اطلاع بخشیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۵؍دسمبر ۱۸۹۳ء
(۲۱۰) پوسٹ کارڈ
السلام علیکم ۔ اول بشیرو محمود کی والدہ ملاقات اپنے والد ماجد کے فیروز پور گئے۔ پھر سنا کہ بشیر بہت بیمار پڑگیا۔ اس لئے ہم فیروز پور گئے اور وہاں پچیس روز کے قریب رہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی رضا مندی اور اپنے بنی کریم کی اتباع میں خورم و خورسند رکھے۔
والسلام
خاکسار
مرزاغلام احمد از قادیان
ضلع گورداسپور
۱۶؍دسمبر ۱۸۹۳ء
نوٹ:۔ یہ خط حضرت اقدس کے ارشاد سے حضرت حکیم الامتہ نے لکھا ہے اور حضرت کے دستخط بھی خود انہوں نے کئے ہیں۔ اس وقت گویا حضرت حکیم الامتہ رضی اللہ عنہ حضرت کی ڈاک بھی لکھا کرتے تھے اور یہ پہلا خط ہے۔ جس پر مرزا کا لفظ بھی لکھا گیا ہے۔ (عرفانی)
(۲۱۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ نے جو کوٹ بنوانے کے لئے لکھا تھا۔ میرے خیال میں سب سے بہتر یہ ہے کہ آپ ایک لحاف مہانوں کی نیت سے بنوادیں کہ مہمانوں کے لئے اکثر لحافوں کی ضرورت ہوتی ہے۔زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
غلام احمد
ازقادیان
نوٹ:۔ اس خط پر تاریخ نہیں ۔ مگر قادیان کی مہر ۲۲؍دسمبر ۱۸۹۳ء کی ہے۔ دوسری بات اس خط پر یہ ہے کہ آپ نے بسم اللّٰہ الر حمن الرحیم پورا نہیں لکھا بلکہ صرف بس لکھ دیا ہے۔ تیسری بات یہ خط آپ ایثار اور اکرام ضیف کے حسنات کو آپ کی سیرت میں دکھاتا ہے ۔ چودھری رستم علی صاحب آپ کے لئے ایک کوٹ تیا کرانا چاہتے ہیں مگر آپ اپنے نفس و آرام کو ترک کرکے انہیں مہمانوں کے لئے ایک لحاف بنوادینے مشورہ دے رہے ہیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ اپنے خدام کی تربیت کس طرح فرماتے تھے اور منازل سلوک کس طرح طے کرا رہے تھے۔ چودھری صاحب کے اخلاص و محبت کا توکیا کہناہے ۔ (عرفانی)
(۲۱۲) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
محبت نامہ پہنچاامید انشاء اللہ القدیر آپ کی معافی سواری کے لئے دعا کروں گا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس تکلیف سے بھی نجات بخشے۔ مگر میں دریافت کرنا چاہتا ہوںکہ جو مبلغ ۲۰… آپ نے بھیجے ہیں کیا یہ عرب صاحب کے چندہ میں ہیں یا میرے کاروبار کے لئے کیونکہ میں نے سنا تھا کہ آپ نے بیس روپیہ چندہ کے لئے تجویز کئے ہیں۔ اس سے اطلاع بخشیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۱۰؍مارچ ۱۸۹۴ء
(۲۱۳) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
محبت نامہ پہنچا۔ میں انشاء اللہ القدیر آپ کے لئے رمضان میں دعا کرتا رہوں گا۔ آپ کی تو ہر مراد اللہ پوری کردیتا ہے۔ آپ کیوں مضطرب ہوتے ہیں؟ رسالہ نورالحق بڑی شان کا رسالہ ہوگیا ہے اور پانچ ہزار …روپیہ اس کے ساتھ اشتہار دیا گیا ہے اور ہزار *** بھی۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۰؍ مارچ ۱۸۹۴ء
(۲۱۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
محبت نامہ پہنچا۔ یہ عاجز بباعث کثرت کار بیشک سخت معذور ہے۔ اب چند روز تک بالکل فرصت ہونے والی ہے۔ کتابیں چھپ گئیں ہیں۔ اب جز بندی باقی ہے۔ امید کہ ہفتہ عشرہ تک جز بند ی ہوکر میرے پاس پہنچ جائیں گی۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۶؍جون ۱۸۹۴ء
(۲۱۵) ملفوف
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
مبلغ پچاس روپیہ مرسلہ آپ کے پہنچ گئے۔ جزاکم اللہ خیراً۔ صاحبزادہ صاحب کتابیں روانہ کریں گے۔ بہت کم فرصتی میں چند سطریں لکھی گئی ہیں۔ باقی سب خیریت ہے ۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۶؍جولائی ۱۸۹۴ء
(۲۱۶) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
اس جگہ بباعث نہ پیدا ہونے روغن کے نہایت تکلیف ہورہی ہے۔ چربی دار اور خراب روغن ملتے ہیں۔ آپ کی بڑی مہربانی ہوگی اگر آپ ایک من پختہ روغن بذریعہ ریل بھیج دیں۔باقی ابھی تک کوئی تازہ خبر نہیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۲؍اگست ۱۸۹۴ء
یہ روغن آپ کے چندہ میں جو آئندہ دیں گے ۔ محسوب ہوجائے گا۔
(۲۱۷) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ معہ کارڈ پہنچا۔ اب تو صرف چند روز پیشگوئی میں رہ گئے ہیں۔ دعا کرتے رہیں کے اللہ تعالیٰ اپنے بند وں کا امتحان سے بچاوے۔ شخص معلوم فیروز پور میں ہے اور تندرست اور فربہ ہے۔ خداتعالیٰ اپنے ضعیف بند وں کو ابتلا سے بچاوے۔ آمین ثم آمین۔ باقی خیریت ہے مولوی صاحب کو بھی لکھیں کہ اس دعا میں شریک رہیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۲۲؍اگست ۱۸۹۴ء
نوٹ:۔ یہ آتھم کی پیشگوئی کے متعلق ہے۔ حضرت اقدس کا ایمان خداتعالیٰ کی بے نیازی اور استغنار ذاتی پر قابل رشک ہے۔ آپ کو مخلوق کے ابتلا ء کا خیال ہے(عرفانی)
(۲۱۸) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آتھم کی نسبت جو فیصلہ الٰہی ہے۔ حقیقت میں فتح اسلام ہے۔ جب اشتہار پہنچے گاتو آپ معلوم کرلیں گے کہ کیا حقیقت ہے مگر آپ کی ستقامت اور استقلالی پر نہایت خوشی ہوئی۔ خداتعالیٰ بہت بہت جزائے خیر بخشے۔ انشاء اللہ تجدید بیعت کا آپ ک دوہرا ثواب ہوگا اور اللہ تعالیٰ گناہ بخشے گا اور وآپ پر خاص فضل کرے گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۶؍ستمبر ۱۸۹۴ء
(۲۱۹) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
خط آپ کا جو بنام صاحبزادہ سراج الحق صاحب تھاپہنچا۔ جس کے دیکھنے پر بہت ہی تعجب ہوتا ہے کہ آپ ایسی خوشی کے موقع پر کیوں اس قدر اظہار اور ملال اور حزن کررہے ہیں اور نہ یہ افسوس صرف مجھ کو ہے۔ بلکہ جس قدر ہماری جماعت کے احباب اس جگہ موجود ہیںوہ سب افسوس کرتے ہیں۔ اگر آپ کو حقیقت حال معلوم ہوتو آپ کا ایسا غم خوشی کے ساتھ تبدیل ہوجائے۔ آپ ضرور دوچار روز رخصت ملنے پر تشریف لاویں ۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۶؍ستمبر ۱۸۹۴ء
نوٹ:۔ یہ مکتوب حضرت نے مخدومی حضرت سید حامد شاہ صاحب رضی اللہ عنہ کے اشتہار بہ عنوان ’’این مدہاست دراسلام چو خورشید عیاں۔ کہ بہر دور مسجانفے نے آید۔،،پر ہی لکھ دیا ہے۔ یہ اشتہار حضرت شاہ صاحب نے سعد اللہ لودہانوی کے جواب میں شائع کیا تھا (عرفانی)
(۲۲۰) مکتوب
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کا محبت نامہ پہنچا۔ آتھم کی نسبت جو خدا تعالی نے فیصلہ کیا ۔ اس کی آپ کو کچھ بھی خبر نہیں۔ میں پانچ ہزار اشتہار چھپوایا ہے۔ تین چار دن تک آپ کی خدمت میں پہنچے گا۔ اس وقت بجائے غم کے آپ کے دل میں خوشی پیدا ہوجائے گی۔ کہ اسلام کی فتح ہوئی۔والسلام
خاکسار۔غلام احمد
۸؍ستمبر ۱۸۹۴ء
میاں نور احمد صاحب کو السلام علیکم
(۱۲۱) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ آپ کے تردد کا حال معلوم ہوا۔ خدا تعالیٰ آپ اپنی طرف سے اطمینان بخشے۔ آمین۔ رسالہ انوار الاسلام تین دن تک یا چار دن تک چھپ کر آجائے گا۔ امید کہ وہ آپ کے اطمینان کا موجب ہو۔ تاہم بہترہے کہ آپ ایک ہفتہ کی رخصت لے کر ضرور ہمارے پاس آجائیں۔ میں بباعث کثرت مہمانان پہلے اس سے خط نہیں لکھ سکا۔ بخدمت اخویم میاں نور احمد صاحب السلام علیکم ۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۶؍ستمبر ۱۸۹۴ء
(۲۲۲) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
کل کی ڈاک میں مبلغ …۲۵ مرسلہ آں مجھ کو ملے۔ جزاکم اللہ خیراً۔ امید کہ اشتہار چارہزار روپیہ پہنچ گیا ہوگا۔ میری اصلاح ہے کہ کل اشتہار دونوں پیشگوئیوں کے متعلق رسالہ انوارالاسلام کے ساتھ شامل کرکے اپنے مخلص دوستوں کے نام بھیجے جاویں اور وہ ایک جلد ان کو مجلد کرالیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۲؍نومبر ۱۸۹۴ء
محبی اخویم میاں نور احمد صاحب۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔ آپ کا پہلا خط مجھے معلوم نہیں کب پہنچا۔ شاید سہو سے نظر انداز ہوگیا۔ اگر کوئی خاص مطلب ہے۔ تو اس سے اطلاع بخشیں تااس کا جواب لکھا جاوے۔ اس وقت وقت تنگ ہے۔ اس لئے زیادہ نہیں لکھا گیا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۲؍نومبر ۱۸۹۴ء
(۲۲۳) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کا محبت نامہ مجھ کو ملا۔ بہت خوب ہے کہ آپ انوارالا سلام معہ جملہ اشتہارات کے مجلد کرالیں۔ اگر ایساہی ایک صاحب کریں تو بہت ہی بہتر ہوگا۔ امید کہ انوار الاسلام آپ کی خدمت میں پہنچ گئی ہوگی۔ باقی سب خیریت ہے۔
خاکسار
نوٹ:۔ اس مکتوب پر خاکسار لکھ کر آگے اپنا نام حضرت نہیں لکھ سکے۔ اورنہ تاریخ درج کی ہے۔ مگر مہر سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ ۸؍نومبر ۱۸۹۴ء کو قادیان سے پوسٹ کیا گیا ہے۔ (عرفانی)
(۲۲۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
اللہ تعالی آپ کے مقاصد کو پورا کرے۔ا گر طبیعت ایسی ہی علیل رہتی ہے توکچھ مضائقہ نہیں کہ آپ اپنے آرام کے لئے کوشش کریں۔ جو منافی احکام شروع نہ ہو۔ مگر اللہ تعالیٰ پر توکل رکھیں۔ اگر معمولی طورپر سرٹیفکیٹ مل جائے تو بہتر ہے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۲۲؍نومبر ۱۸۹۴ء
(۲۲۵) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ خدا تعالیٰ آپ کو اپنی مرادات میں کامیاب کرے۔ آمین ثم آمین۔ نہایت خوشی ہوگی اگر آپ کورٹ انسپکٹری پر گورادسپور تشریف لے آویں۔ جلسہ ۲۷؍ دسمبر ۱۸۹۳ء نزدیک آگیا ۔ امید رکھتا ہوں کہ آپ ضرور اس موقعع پرخد اتعالیٰ کے فضل وکرم سے تشریف لاویں گے۔ اس جلسہ احباب میں آپ کا آنا نہایت ضروری ہے ابھی سے اس کابندوبست کر رکھیں۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
ضلع گورداسپور
۳؍ دسمبر ۱۸۹۳ء
(۲۲۶) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
مبلغ بیس … روپے آنمکرم مجھ کو مل گئے۔ جزاکم اللہ خیرا۔ چونکہ اب عنقریب تعطیلیں آنے والی ہیں۔مجھ کو معلوم نہیں تھا کہ آپ کو فرصت ملے گی۔ بہت خوشی ہو گی اگر آپ کو تعطیلوں میں اس جگہ آنے کاموقع ملے۔ خد اتعالیٰ آپ کو ترددات سے نجات بخشے اور اپنی محبت میںترقی عطا فرمائے۔ آمین۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۷؍ دسمبر ۱۸۹۴ء
(۲۲۷) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ حضرت مولوی نورالدین صاحب معہ چند دیگر مہمانان تشریف لے آئے ہیں۔ امید کہ آپ بھی ضرور جلد تشریف لے آئیںگے اور آتے وقت کسی سے بطور عاریت دو قالین اور شطرنجی لے آویں کہ نہایت ضروری ہے اور ۴؍ کے پان لے آویں۔ قالین اور شطرنجی والے سے کہہ دیں کہ صرف تین چار روز تک ان چیزوں کی ضرورت ہو گی اور پھر ساتھ واپس لے آویں گے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ا ز قادیان
ضلع گورداسپور
۱۹؍ دسمبر ۱۸۹۴ء
(۲۲۷)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کامحبت بھرا عنایت نامہ پہنچا۔میری دانست میں بغیر متواتر نماز استخارہ کے تبدیلی کے لئے پوری کوشش نہیں کرنی چاہئے۔ میں سنتا ہوں کہ گورداسپورہ میں کام بہت ہے اور طرح طرح کے پیچیدہ مقدمات ہوتے ہیں۔ اس صورت میں تعجب نہیں کہ کوئی دقت پیش آوے۔ خدا تعالیٰ ہر ایک آفت سے محفوظ رکھے۔ امید کہ اپنے حالات خیریت آیات سے مسرور الوقت فرماتے رہیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۶؍ جنوری ۱۸۹۵ء
(۲۲۹) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
اس وقت باعث تکلیف دہی یہ ہے کہ مہمانوں کی آمدورفت زیادہ ہے اور اس وقت روغن کااس جگہ قدر قحط ہے کہ بازار میں کہیں روغن نہ اچھا نہ برا دستیاب نہیں ہوا اور آج لاچار سرسوں کاتیل ہنڈیا میں ڈال دیا گیا۔ آپ ہمیشہ ۲۰… ماہوار چندہ ارسال کرتے ہیں۔ بہتر ہو گا کہ آپ اس ماہ کی بابت بیس … روپیہ کا عمدہ روغن زرد خرید کر کے ارسال فرمادیں۔ مگر ریل کے لئے روانہ کے لئے بلٹی اس کی بھیج دیں تاجلدی پہنچ جاوے اور تبدیلی کے بارہ میں اوّل استخارہ کرنا چاہئے۔ گورداسپور میں اکثر حاسد اور شریر طبع لوگ ہیں۔
خاکسار
غلام احمد
۹؍ جنوری ۱۸۹۵ء
نوٹ:۔ تبدیلی کے متعلق چوہدری رستم علی صاحب اپنے اخلاص اور محبت کے اقتضا سے چاہتے ہیں کہ گورداسپور آجائیں اور حضرت اقدس بھی قرب کو پسند فرماتے ہیں۔ مگر لوگوں کی سازشوں اور شرارتوں کو مدنظر رکھ کر آپ جلد بازی کا مشورہ نہیں دیتے تھے۔ بلکہ ہر ایک کام کے لئے استخارہ کی ہدایت دیتے ہیں۔ اس سے آپ کا توکل علی اللہ ظاہر ہے اور آپ کبھی پسند نہ کرتے کہ کوئی کام اپنی ذاتی خواہش اور خیال سے کریں۔ بلکہ ہر امر کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اسی کے سپرد کرنا انسب قرار دیتے۔(عرفانی)
(۲۳۰) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
کل روغن کے لئے آدمی بھیج دیا گیاہے ۔ شاید آج یاکل آجاوے۔ جزاکم اللہ خیراً۔ رات تہجد میں آپ کے لئے دعا کی تھی اور کوئی خواب بھی دیکھی تھی۔ جو یادنہیں رہی۔ خد اتعالیٰ جو کچھ کرے گا۔ بہتر کرے گا۔ انشاء اللہ پھر بھی توجہ سے دعا کروںگا۔آپ سلسلہ ظاہر کے محرک رہیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۸۹۵ء
(۲۳۱) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کا محبت نامہ پہنچا اور روغن زرد اس سے پہلے پہنچ گیا تھا۔ جزاکم اللہ خیرا۔ آپ کے جناب الٰہی میں کئی دفعہ اخلاص اور توجہ سے دعا کی گئی۔ اب انشاء اللہ وہی ہوگا جو اللہ تعالیٰ آپ کے لئے بہتر جانتا ہے۔ خدا تعالیٰ آپ کے ہم وغم کودور کرے۔آمین۔
خاکسار
غلام احمد عفی اللہ عنہ
۱۶؍ فروری ۱۸۹۵ء
(۲۳۲) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کامحبت نامہ پہنچا۔ میں نے آپ کے لئے دعا کی ہے کہ اگر گورداسپور کی تبدیلی آپ کے لئے بہتر ہو اور اس میں کوئی شر نہ ہو توخد اتعالیٰ میسر کرے۔ یقین ہے کہ خدا تعالیٰ بہتر جو آپ کے لئے بہتر ہے وہی کرے گا اور منشی امام الدین منصف کو میرے نزدیک کچھ ذرہ علم نہیں۔ سمجھ پر شیطانی پردہ ہے۔ اس کے ساتھ بحث وقت ضائع کرنا ہے۔لیکن بہر حال اگر آپ اس کی تحریریں بھیج دیں۔ تو شایدکسی موقعہ پر ان کا رد کیا جائے گا۔ مگر وہ اپنی سخت نا سمجھی سے پاک غلطیوں سے گرفتار ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ۷؍ مارچ ۱۸۹۵ء
نوٹ:۔جیسا کہ میں پہلے بھی لکھ آیا ہوں۔ چوہدری صاحب گورداسپورہ کی تبدیلی کے لئے کوشاں تھے اور جیسے حضرت اقدس ان کے لئے یہ دعا فرماتے تھے کہ جو ان کے لئے بہتر ہو وہ میسر آئے اور یہ بصیرت افزا یقین حضرت اقدس کا تھا کہ جو کچھ ہو گا بہتر ہو گا۔ یہ دعا چوہدری صاحب کے حق میں گورداسپور ہی کی تبدیلی کی صورت میں قبول ہوئی اور یہاں عزت و احترام سے رہے اور انہیں سلسلہ کی خدمت کا قریب سے موقع ملتا رہا۔
امام الدین منصف جس کااس مکتوب میں ذکر ہے۔ یہ شخص اپنے آپ کو فاتح الکتب المبین کہتا ہے اور اس کا عقیدہ یہ تھا کہ قرآن مجید کو بائبل کے ساتھ ایک جلد میں رکھنا چاہئے اور بھی بعض عجیب و غریب عقائد وہ رکھتا تھا۔(عرفانی)
(۲۳۳) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
۶؍ اپریل ۱۸۹۵ء
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
گوردسپور آنے سے بہت خوشی ہوئی۔ا مید کہ اب وقتاً فوقتاً ملاقات ہوتی رہے گی۔ اطلاع بخشیں کہ صاحب ڈپٹی کمشنر گورداسپور میں ہیں یا نہیں اور اگر نہیں تو کب تک آئیں گے۔ کیونکہ ایک اخبار جاری کرنے کے لئے منظوری حاصل کرنی ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
(۲۳۴) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
چونکہ اخراجات پریس وغیرہ اس قدر ہیں کہ جس قدر معمولی آمدنی ہوتی ہے۔ اس کے لئے کافی نہیں۔ اس لئے بعض دوستوں کو تکلیف دینا اس کاروائی کے لئے ضروری سمجھا گیا۔آنمکرم اس کارخانہ کے لئے بیس … روپیہ ماہواری چندہ دیتے ہیں۔ سو اگر بندوبست ہو سکے اور فوق الطاقت تکلیف نہ ہو۔تو اڑھائی مہینہ کا چندہ ۵۰… روپیہ بھیج دیں۔ جب تک یہ ارھائی مہینہ گزر جائیں۔ یہ چندہ محسوب ہوتا رہے گا۔ اس طور سے ایسے ضروری وقت میں مدد مل جائے گی۔ورنہ پریسوں کے توقف میں خد اجانے کس وقت کتابیں نکلیں۔ کیونکہ تاخیر میں بہرحال آفات ہیں۔ رسالہ نور القرآن نمبر ۲ چھپ رہا ہے اور ست بچن اور آریہ دھرم بعض بیرونی شہادتوں کے انتظار میں معرض تعویق ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۷؍ اکتوبر ۱۸۹۵ء
(۲۳۵) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
مبلغ پچاس …روپے مرسلہ آپ کے معہ ۵ شیشی عطر کے مجھ کو پہنچ گئے۔ جزاکم اللہ خیرا۔ باقی سب طرح سے خیریت ہے۔ تینوں رسالے چھپ رہے ہیں۔ آپ کا ڈاک کا خط مجھ کو پہنچ گیا تھا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۵؍ نومبر ۱۸۹۵ء
(۲۳۶) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ بات یہ ہے کہ خد اتعالیٰ کی وحی کئی قسم کی ہوتی ہے اور وحی میں ضروری نہیں ہوتا کہ الفاظ بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوں۔ بلکہ بعض وحیوںمیں صرف نبی کے دل میں معافی ڈالے جاتے ہیں اور الفاظ نبی کے ہوتے ہیں اور تمام وحییں اسی طرح کی ہوئی ہیں۔ مگر قرآن کریم کے الفاظ اور معانی دونوں خد اتعالیٰ کی طرف سے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ پہلی وحی کے معانی بھی معجزہ کے حکم میں تھے۔ مگر قرآن شریف معانی اور الفاظ دونوں کے رُو سے معجزہ ہے اور تورات میں یہ خبر دی گئی تھی کہ وہ دونوں کے رُو سے خد ا تعالیٰ کی طرف سے ہوگا۔ تفصیل اس کی انشاء اللہ القدیر بروقت ملاقات سمجھا دوں گا۔ نقل خط امام الدین بھیج دیں۔ وہ نیم مرتد کی طرح ہے۔
خاکسار
غلام احمد
نوٹ:۔ اس خط پر تاریخ درج نہیں اور افسوس ہے کہ لفافہ محفوظ نہیں۔ مگر سلسلہ مکتوبات ظاہر کرتا ہے کہ یہ نومبر ۱۸۹۵ء کا مکتوب ہے۔(عرفانی)
(۲۳۷) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
افسوس کہ مجھ کو سوائے متواتر دو خط کے اور کوئی خط نہیں پہنچا۔ چونکہ دنیا سخت ناپایدار اور اس چند روزہ زندگی پر کچھ بھی بھروسہ نہیں۔ مناسب ہے کہ آپ التزام اور توبہ اور استغفار میں مشغول رہیں اور تدبر سے تلاوت قرآن کریم کریں اور نماز تہجد کی عادت ڈالیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو قوت بخشے۔ آمین۔
اشتہار چار ہزار… چھپ گیا ہے۔ امید کہ آپ کو پہنچ گیاہوگا۔باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
میاں نور احمد صاحب کوالسلام علیکم۔
(۲۳۷) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
ضروری کام یہ ہے کہ جو (باوا) نانک (صاحب) نے کمالیہ ضلع ملتان میں چلہ کھینچا تھا۔ اس کے بارے میں منشی داراب صاحب سے دریافت ہو اکہ کس بزرگ کے مزار پر چلہ کھینچا تھا اور وہ مزار کمالیہ گائوں کے اندر ہے یا باہر ہے اور اس بزرگ کا نام کیا ہے اور کس سلسلہ میں وہ بزرگ داخل تھے اور کتنے برس ان کو فوت ہوئے گزر گئے۔
دوسرے یہ کہ کمالیہ میں کوئی مقام چلہ نانک کا بنا ہوا موجود ہے یا نہیں اور اس مقام کا نقشہ کیا ہے اور اس مقام کے پا س کوئی مسجد بھی ہے یا نہیں اور وہ مقام روبقبلہ ہے یا نہیں؟
تیسرے یہ کہ اگر منشی داراب صاحب کو کسی قسم کے (باوا) نانک( صاحب) کے سفر یاد ہوں۔ جو گرنتھ میں موجود ہوں۔ جو ہمارے مفید ہوں اور ان کا حوالہ یا دہو تو وہ بھی لکھ دیں۔
چوتھے یہ کہ کیا یہ ثابت ہو سکتا ہے کہ (باوا)نانک( صاحب ) کسی مسلمان بزرگ کا مرید ہوا تھا۔
اور آپ کی خدمت میں ایک نوٹس بھیجا جا تا ہے۔ اس کے متعلق جہاں تک ممکن ہو دستخط کرا کر بھیج دیں اور ایسے دستخط بھی بھیج دیں اور جو گورنمنٹ کی طرف درخواست جائے گی۔ اس پر دستخط کرائے جائیں۔
پیچھے سے نقل درخواست اور نقشہ گواہوں کے لئے بھیج دوں گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
نوٹ:۔ اس خط پر تاریخ درج نہیں اور لفافہ محفوظ نہیں یہ ۱۸۹۵ء کا مکتوب ہے۔ جب کہ ست بچن زیر تالیف تھا۔(عرفانی)
(۲۳۹) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
رسالہ عربی طبع ہور ہا ہے اور جو آپ نے اس کی مدد کے لئے ارادہ فرمایا ہے۔ خد اتعالیٰ آپ کو جزائے خیر بخشے۔ لیکن چونکہ مطبع کے لئے اس وقت روپیہ کی ضرورت ہے۔ یعنی کاغذ وغیرہ کے لئے سو بہتر ہے کہ وہ بیس …روپیہ جو آپ نے وعدہ فرمایا ہے وہ مطبع سیالکوٹ میں یعنی پنجاب پریس سیالکوٹ میں بنام منشی غلام قادر صاحب فصیح مالک مطبع ارسال فرمادیں۔ تا اس کام میں لگ جائے۔ کتابیں تو اکثر مفت تقسیم ہوں گی۔ مگر خرچ کی اب ضرورت ہے اور روپیہ میرے پاس نہیں بھیجنا چاہئے۔ فصیح صاحب کے پاس جانا چاہئے اور اس میں لکھ دیں۔ میرے نزدیک اس قدر لمبی رخصت ابھی لینی قابل مشورہ ہے۔
نوٹ:۔ یہ مکتوب اسی قدر ہے۔ حضرت اقدس اپنا تاریخ وغیرہ کچھ نہیں لکھ سکے۔ یہ کمال استغراق کا نتیجہ ہے۔(عرفانی)
(۲۴۰) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کامحبت نامہ پہنچا۔ امید کہ میرا کارڈ بھی پہنچا ہو گا۔ تینوں رسالے سیالکوٹ میں چھپ رہے ہیں۔ درمیان میں بباعث بیماری پریس مین کے توقف ہو گئی ہے۔ لیکن اب برابر کام ہوتا ہے۔ امید کہ انشاء اللہ القدیر جلدچھپ جائیں گے۔ شیخ رحمت اللہ صاحب گجرات نے ان کی امداد کے لئے ایک سو روپیہ سیالکوٹ بھیج دیا ہے وہ بمبئی گئے ہیں۔ وہیں انشاء اللہ دوبارہ تقسیم کے بلادب عرب میں بندوبست کریں گے۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
ضلع گورداسپور
(۲۴۱)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کوبار بار تکلیف دیتے شرم آتی ہے۔ تمام جماعت میں ایک آپ ہی ہیں جو اپنی محنت او رکوشش کی تنخواہ کا ایک ربع ہمارے سلسلہ کی امداد میں خرچ کرتے ہیں۔ آپ کو اس صدق و ثبات کا خد اتعالیٰ بدلہ دے گا۔ آمین۔
اس وقت ایک شدید ضرورت کے لئے چند دوستوں کولکھا گیا ہے اور اسی ضرورت کے لئے آپ کو تکلیف دیتا ہوں کہ اگر آپ مبلغ بیس… روپیہ بطور پیشگی اپنے چندہ میں بھیج دیں۔ تو پھر جب کل حساب چندہ پیشگی طے نہ ہولے۔ آیندہ کچھ نہ بھیجیں۔ یہ روپیہ جہاں تک ممکن ہو روانہ فرمادیں۔ جزاکم اللہ خیرا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
یکم مئی ۱۸۹۶ء
آپ نے پہلے چالیس … پیشگی چندہ روانہ کیا تھا اور اب ۲۰… آپ سے طلب کیا گیا ہے۔ پس جب تک یہ ساٹھ روپیہ… چندہ ایام ختم نہیں ہوں گے۔ تب تک آپ سے طلب نہ کیا جائے گا۔
والسلام
(۲۴۲)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
میں آپ سے یہ دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ مرزا احمد بیگ کی لڑکی کے نکاح کی نسبت جو آپ نے خبر دی تھی کہ بیس روز سے نکاح ہو گیا ہے۔ قادیان میں اس کی خبر کچھ اصلیت معلوم نہیں ہوتی۔ یعنی نکاح ہو جانا کوئی شخص بیان نہیں کرتا۔ لہذا مکلف ہوں کہ اس امر کی نسبت اچھی طرح تحقیقات کر کے تحریر فرماویں کہ نکاح اب تک ہو ایا نہیں اور اگر نہیں ہو اتو کیا وجہ ہے؟ مگر بہت جلد جواب ارسال فرماویں اور نیز سلطان احمد کے معاملہ میں ارقام فرماویں کہ اس نے کیا جواب دیا ہے؟
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
ضلع گورداسپور
۲۸؍ ستمبر ۱۸۹۱ء
(۲۴۳) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آج آنمکرم کا کارڈ پہنچا۔ مجھے تعجب ہے کہ بیس روپیہ … کی رسید کے بارے میں میں نے ایک کارڈ اپنے ہاتھ سے لکھاتھا معلوم ہو تا ہے کہ یا تو وہ کارڈ اسی سے گم ہو گیا۔ جس کا ڈاک میں ڈالنے کے لئے دیا گیا تھا اور یا تو ڈاک میں گم ہو گیا۔ خدا تعالیٰ نے دعا کا کچھ تو اثر کیا کہ اس انگریز نے آپ کے گھوڑے کے بارے میں کچھ سوال نہیں کیا او رپھر اس کے فضل پر امید رکھنی چاہئے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۱۲؍ مئی ۱۸۹۸ء
(۲۴۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
انشاء اللہ میں آپ کے صبر کے لئے کئی دفعہ دعاکروں گا۔ خدا تعالیٰ آپ کو صبر بخشے اور اس لڑکے کو جس کا آپ ذکر کرتے ہیں۔ کسی تعطیل میں آپنے ساتھ لئے آویں۔
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۵؍ فروری ۱۸۹۶ء
(۲۴۵) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ چونکہ وفات پسر مرحوم کی خدا تعالیٰ کا فضل ہے اور صبر پر وہ اجر ہے۔ جس کاکوئی انتہاء نہیں۔ اس لئے آپ جہاں تک ممکن ہو۔ اس غم کو غلط کریں۔ خد ا تعالیٰ انعم البدل اجر عطا کردے گا۔ وہ ہر چیزپر قادر ہے۔ خدا تعالیٰ کے خزانوںمیں بیٹوں کی کمی نہیں۔ غم کو انتہاء تک پہنچانا اسلام کے خلاف ہے۔
میری نصیحت محض للہ ہے۔ جس میں سراسر آپ کی بھلائی ہے۔ اگر آپ کو اولاد اور لڑکوں کی خواہش ہے۔ تو آپ کے لئے اس کا دروازہ بند نہیں ۔ علاوہ اس کے شریعت اسلام کے رُو سے دوسری شادی بھی سنت ہے۔ میرے نزدیک مناسب ہے کہ آپ دوسری شادی بھی کر لیں۔ جو باکرہ ہو اور حسن ظاہری اور پوری تندرستی رکھتی ہو اور نیک خاتون ہو۔ اس سے آپ کی جان کو بہت آرام ملے گا۔ انسان کی تقویٰ تعدد ازواج کا چاہتی ہے۔ اچھی بیوی جو نیک اور موافق اورخوبصورت ہو تمام غموں کو فراموش کر دیتی ہے۔ قرآن شریف سے ثابت ہے کہ اچھی بیوی بہشت کی نعمت ہے۔ اس کی تلاش ضرور رکھیں۔ آپ ابھی نوجوان ہیں۔ خد اتعالیٰ بہت اولاد دے دے گا۔اس کے فضل پر قوی امید رکھیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۶؍ جون ۱۸۹۰ء
(۲۴۶) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کاعنایت نامہ پہنچا۔ مولوی صاحب کوٹلہ مالیر کی طرف تشریف لے گئے ہیں۔ نواب صاحب نے چھ ماہ کے لئے مولوی صاحب کو بلایا ہے۔ مگر شاید مولوی صاحب ایک ماہ یادو ماہ تک رہیں۔ یا کچھ زیادہ رہیں۔ حامد علی نے پختہ عزم کر لیا ہے۔ اب وہ شاید باز نہیں آئے گا۔ جب تک آخیر نہ دیکھ لے۔ دراصل دنیا طلبی ایک بلا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میں اپنے غم کو موت کے برابر دیکھ رہا ہوں۔ کاش یہ غم لوگوں کو ایمان کا ہو۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
نوٹ:۔ اس پرخط کوئی تاریخ نہیں۔ مگر قادیان مہر ۳؍ جولائی ۱۸۹۶ء کی ہے۔ چوہدری صاحب ان ایام میں گورداسپور میں تھے۔ حافظ حامد علی مرحوم نے اس وقت افریقہ جانے کا ارادہ کیا تھا۔ وہ اپنی بعض خانگی ضرورتوں اور مشکلات کی وجہ سے بہت تکلیف میں تھے۔ حضرت اقدس کا یہ منشا نہ تھا۔ نتیجہ یہی ہوا کہ حافظ صاحب وہاں سے ناکام واپس آئے اور پھر کہیں جانے کانام نہ لیا۔(عرفانی)
(۲۴۷) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
صاحبزادہ ظہور احسن از شرارت ہائے برادرعم زادہ خود ظہور الحسین نابینا بیساء منظوم است۔ مناسب کہ حتی الوسع برحال اوشان نظر ہمدردی کردہ درمواسات او شان دریغ نفرمایند۔ کہ ایں ہمدردی از قبیل اعانت مظلوماں است۔ ومبلغ …روپیہ رسیدو انجام آتھم فرستادہ مے شود۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
(۲۴۸) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
اس وقت میں نے تاکیداً میاں منظور محمد صاحب کو کہہ دیا ہے کہ ایک نقل اس خط کی جو امیر کابل کی طرف لکھا گیا ہے۔ آپ کی طرف بھیج دیں۔ امیدکہ کل یا پرسوں تک وہ نقل آپ کی خدمت میں پہنچ جائے گی۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۱؍ جون ۱۸۹۶ء
اور میں انشاء اللہ القدیر اب دلی توجہ سے آپ کی اولاد کے لئے دعا کروں گا تسلی رکھیں۔میں ارادہ کرتا ہوں ۔ اگر خد اتعالیٰ چاہے اور کثرت مصارف نہ ہو۔ مع عیال کے دو تین ماہ تک ڈلہوزی میں چلا جائوں۔ کیا آپ کا کوئی ایسا شخص وہاں دوست ہے جو اس کی معرفت مکان کا بندوبست ہو سکے۔ معہ عیال کس سواری پر جا سکتے ہیں اور کرایہ کیاخرچ آئے گا۔ تحریر فرما ویں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
(۲۴۹) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
خط پہنچا۔ پڑھ کرچاک دیا گیا۔ ڈلہوزی جانے کی تجویز ہنوز ملتوی ہے۔ کیونکہ میرا چھوٹا لڑکا زحیر کی بیماری سے سخت بیمار ہو گیا ۔ کئی دن تو خطرناک حالت میںر ہا۔ اب ذرا سا افاقہ معلوم ہوتا ہے۔ مگر ہنوز قابل اعتبار نہیں۔ اس حالت میںکسی طرح یہ سفر نہیں ہوسکتا۔ اگر خدا چاہتا تو یہ عوارض اور موانع پیش نہ آتے۔ا ن میں کچھ حکمت ہو گی۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۴؍ جون ۱۸۹۶ء
(۲۵۰) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
اس جگہ بفضلہ تعالیٰ خیریت ہے۔ دوسرے رسالہ نور القرآن کی تیاری ہے اور سنن الرحمن چھپ رہی ہے۔ آپ کی ملاقات پر مدت گزر گئی ہے۔ ضرور دو چارروز کی تعطیل پر ملاقات کے لئے تشریف لاویں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۱۷؍ اگست ۱۸۹۵ء
(۱۵۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
اب عورت کی بالفضل ضرورت نہیں اور میاں غلام محی الدین کے لئے جناب الٰہی میں دعا کی گئی تھی۔ خد اتعالیٰ اس کو اس سخت مشکل سے مخلصی عنایت فرماوے۔ آمین ثم آمین اور آتھم کی نسبت اب جلد اشتہار نکلنے والا ہے۔ نکلنے کے بعد ارسال خدمت ہو گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۸؍ اگست ۱۸۹۶ء
(۲۵۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ بابو غلام محی الدین کے لئے دعا کی گئی ۔ اگر یاد دلاتے رہیں گے تو کئی مرتبہ دعا کی جائے گی اور برص کا نسخہ مجھ کو زبانی یاد نہیں اور نہ کوئی نسخہ مجرب ہے۔ یوں تو قربادیں میں بہت سے نسخے لکھے ہوئے ہیں۔ مگر میرا تجربہ نہیں۔ اگر کوئی عمدہ نسخہ ملاتو انشاء اللہ لکھ کر بھیج دوں گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۳؍ ستمبر ۱۸۹۶ء
(۲۵۳) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
میری طبیعت علیل ہے اور اب بھی علیل ہے۔ اس لئے زیادہ تحریر کی طاقت نہیں رہی ۔ میں نے اس مہمان خانہ کے لئے ضرورت اشد کی وجہ سے ایک کنواں لگوانا شروع کیا تھا۔ چند دوستوں کے چندہ کے لئے تکلیف بھی دی گئی۔ مگر وہ چندہ ناکافی رہا۔ا ب کنوئیں کا کام شروع ہے۔ مگر روپیہ کی صورت ندارد چاہتا ہوں۔ اگر آپ دوماہ کا چندہ چالیس … روپیہ بھیج دیں۔ توشاید اس سے کچھ مدد مل سکے۔ ابھی کام بہت ہے۔ بلکہ عمارت بھی شروع نہیں ہوئی۔ بوجہ ضعف کے زیادہ نہیں لکھ سکتا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۷؍ ستمبر ۱۸۹۶ء
(۲۵۴) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی محبی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کی خدمات متواترہ سے مجھے شرمندگی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر بخشے۔ اس وقت بباعث قحط اور کثرت مہمانوں کے ضرورتیں ہیں۔ اخراجات کا کچھ ٹھکانہ نہیں۔ اب آٹے کی قیمت کے لئے ضرورت ہے۔ اس لئے مکلف ہوں کہ اگر ممکن ہو سکے تو پھر آپ مبلغ چالیس …بطور پیشگی بھیج دیں کہ بہت ضرورت در پیش ہے اور مجھ کو اطلاع دیں کہ یہ روپیہ کس معیاد تک آپ کے وعدہ چندہ کا متکفل رہے گا تااس وقت تک آیند تکلیف دینے سے خاموشی رہے۔ یہ امر ضرور تحریر فرمادیں کہ یہ روپیہ فلاں انگریزی مہینہ تک بطور پیشگی پہنچ گیا ہے۔ باقی سب خیریت ہے۔ امید کہ دسمبر کی تعطیلات میں آپ تشریف لاویں گے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۴؍ نومبر ۱۸۹۶ء
یہ خط آپ کی خدمت میں ضرورت کے وقت لکھا گیا ہے۔ ورنہ نے وقت آپ کو تکلیف دینا مناسب نہ تھا اور نیز اس حالت میں کہ اس وقت آپ کو گنجائش نہیں۔
والسلام
(۲۵۵) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
اب تو آپ کی ملاقات پر مدت گزر گئی ۔باعث تکلیف وہی یہ ہے کہ اگر اپنے چندہ کو دو ماہ بھیج دیںیعنی … … تو اس وقت خرچ کی ضرورت پر کام آوے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۹؍ دسمبر ۱۸۹۶ء
جس وقت تک آپ کا یہ روپیہ ہو گا۔ اس سے اطلاع بخشیں۔
(۲۵۶) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کاعنایت نامہ پہنچا۔ بباعث عذر مرض کچھ مضائقہ نہیں کہ آپ روزہ رمضان نہ رکھیں۔ کسی اور وقت پر ڈال دیں۔ کتابوں کی روانگی کے لئے کہہ دیا ہے۔ میں بھی بدستور بیمار چلا جاتا ہوں۔ ہر ایک امر خد اتعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
فروری ۱۸۹۷ء
نوٹ:۔ یہ پہلا خط ہے جس پر آپ نے مرزا کا لفظ اپنے نام کے ساتھ تحریر فر مایا ہے۔
(خاکسار۔عرفانی)
(۲۵۷) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
نقل حکم نوٹس اور اظہار نورالدین عیسائی پہنچ گیا۔ مگر چٹھی انگریزی ہے اور تیز روبکار فارسی جس کے رُو سے بریت ہوئی وہ کاغذات نہیں پہنچے۔ امید آتے وقت ضرورساتھ لے آویں اور ضرور آجائیں۔ اُجرت بھیجی جائے گی۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۷؍ اگست ۱۸۹۷ء
اور جو صاحب آنا چاہتے ہیں۔ ابھی تک ان کے لئے کوئی مکان مجھ کو نہیں ملا۔ بہتر ہے کہ جس وقت مکان ملے اس وقت آویں۔
خاکسار
مرزا غلام احمد ازقادیان
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
۲۵۸) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ شاید ہفتہ سے زیادہ ہو گیا کہ دوا مطلوبہ آپ کی طرف آہنی ڈبیا میں بھیج دی گئی ہے جو آپ نے بھیجی تھی۔ تعجب ہے کہ اب تک آپ کونہیں پہنچی۔ جس کو آپ نے ڈبیا دی تھی۔ اسی کے ہاتھ میں دوا بھیجی گئی تھی۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مر زا غلام احمد عفی عنہ
اشتہار جب چھپے گا۔ بھیج دیا جائے گا۔
(۲۵۹) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ شاید ہفتہ سے زیادہ ہو گیا کہ دوا مطلوبہ آپ کی طرف سے آہنی ڈبیا میں بھیجی گئی ہے۔ جو آپ نے بھیجی تھی۔ تعجب ہے کہ اب تک آپ کو نہیں بھیجی گئی۔ جس کو آپ نے ڈبیا دی تھی۔ اس کے ہاتھ میں دوا بھیجی گئی ہے۔ باقی سب خیریت ہے۔
خاکسار
غلام احمد عفی اللہ عنہ
۱۲؍ ستمبر ۱۸۹۷ء
اشتہار جب چھپے گا۔ بھیج دیا جائے گا۔
دنیا نگر میں ایک قسم کا سفید اور شفاف شہد آیا کرتا ہے۔ آپ تلاش کرا کر ایک بوتل سفید اور رتازہ شہد کی ضرور ارسال فرماویں۔
غلام احمد
(۲۶۰) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کا عنایت نامہ پہنچا اور بعد پہنچنے خط کے جناب الٰہی میں آپ کے لئے دعا کی گئی اور انشاء اللہ رات کو دعا کروںگا۔ معلوم نہیں کہ سرکاری انتظام کے موافق اب آپ کتنے روز اور گورداسپور میں ٹھہریں گے۔ باقی تا دم حال بفضلہ تعالیٰ سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۱۹؍ جنوری ۱۸۹۹ء
نوٹ:۔ تاریخ ۱۹؍ جنوری ۱۸۹۸ء درج ہے۔ جو غالباً ۱۸۹۹ء ہے۔(عرفانی)
(۲۶۱) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ میں بہت ضروری سجھتا ہوںکہ اس مقدمہ کی نقل جومحمد حسین پر ہوا تھا ۲۷؍ جنوری ۱۸۹۹ء سے پہلے جو تاریخ پیشی مقرر ہے۔ مجھ کو پہنچ جاوے کیونکہ محمد بخش ڈپٹی انسپکٹر نے محمد حسین کی صفائی کرتے ہوئے اپنے اظہار میں بیان کیا ہے کہ یہ بہت نیک چلن آدمی ہے۔ کوئی مقدمہ اس کی طرف یا اس پر نہیں ہوا۔ مگر اس جگہ سے آدمی آنا البتہ مشکل ہے۔ اسی جگہ سے خواہ اخویم بابو محمد صاحب کے ذریعہ سے کسی کو مقرر کر کے درخواست دلا دینا چاہئے اور پھر جہاں تک ممکن ہو۔ وہ درخواست جلد بذریعہ رجسٹری پہنچا دینی چاہئے۔ محمد بخش نے نہایت ناپاک اور جھوٹا اظہار دیا ہے اور صاف لکھوایا ہے کہ یہ ان کی تمام جماعت بدچلن ہے۔ اوّل کسی کے مارنے کی پیشگوئی کر دیتے ہیں۔ پھر پوشیدہ ناجائز کوششوں کے ذریعہ سے اس پیشگوئی کو پورا کرنا چاہتے ہیں اور میں قادیان میں اسی خیال سے دوسرے تیسرے روز ضرور جاتا ہوں۔ اسی وجہ سے مجھے سب کچھ معلوم ہے اور ان کاچلن اچھا نہیں خراب اور خطرناک آدمی ہیں۔ مگر محمد حسین نیک بخت اور اچھے چلن کا آدمی ہے۔ کوئی بری بات اس کی کبھی سنی نہیں گئی۔ ایسے گندہ اظہار کی وجہ سے کل میں نے گواہوں کی طلبی اور خرچہ کے لئے چار سو روپیہ کے قریب روپیہ عدالت میں داخل کیا ہے، تین سو روپیہ میں نے دیا تھا اور ایک سو گورداسپور سے قرضہ لیا گیا اور وکیلوں کو جوکچھ ۲۷؍ جنوری کی پیشی میں دینا ہے۔ وہ ابھی باقی ہے۔ شاید پانچ سو روپیہ کے قریب دینا پڑے گا او ریقینا اس کے بعد ایک یا دو پیشیاں ہوںگی۔ تب مقدمہ فیصلہ پائے گا۔ میںنے سنا ہے کہ پوشیدہ طور پر اس مقدمہ کے لئے ایک جماعت کوشش کر رہی ہے اور چندے بھی بہت ہو گئے ہیں۔ آپ اگر ملاقات ہو تو اخویم بابو محمد صاحب کو لکھ دیں کہ میں نے انتظام کیا ہے کہ اس خطرناک مقدمہ میں جو تمام جماعت پر بد اثر ڈالتا ہے جماعت کے لوگوںسے چندہ لیا جائے گا۔ سو اس چندہ میں جہاں تک گنجائش ہو۔ وہ بھی بھی شریک ہوجائیں۔ لیکن ۲۷؍ جنوری ۱۸۹۹ء سے پہلے اپنی للہی مدد ثواب آخرت حاصل کریں اور اخویم سید عبدالہادی صاحب کو بھی اطلاع دے دیں۔ اب کی دفعہ مخالفوں کی طرف سے نہایت سخت حملہ ہے اب صحابہ رضی اللہ عنہم کی سنت پر دیندار اور مخلص دوستوں کو مالی مدد سے جلد اپنا صدق دکھانا چاہئے۔ آپ کی طرف سے ۸۰… عین وقت پر پہنچ گئے۔ وہ آپ کے چندہ میں داخل ہیں۔ اب انبالہ میں بابو محمد صاحب او رسید عبدالہادی باقی ہیں۔ اگر ملاقات ہو تو بجنیہ یہ خط ان کے پاس بھیج دیں اور تاکید کر دیں کہ ۲۷؍ جنوری ۱۸۹۹ء سے پہلے ہر ایک مالی امداد پہنچنی چاہئے۔ تاکہ وکیلوں کو دینے کے لئے کام آوے۔ چند پیشیاں محض شیخ رحمت اللہ صاحب کے مال سے ہوئی ہیں۔ معلوم ہوتا ہے۔ انہوںنے تین وکیلوںکے مقرر کرنے میںایک ہزار روپیہ کے قریب خرچ کردیاہے۔ جواب تک پیشیوں میں دیتے رہیں ہیں۔، خدا تعالیٰ ان کوجزائے خیر دے۔ اب کی بیشی چار ہزار… روپیہ ضمانت کے لئے لائے تھے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
مجھے فرصت نہیں ہوئی کہ بابو صاحب کی طرف علیحدہ خط لکھوں۔ یہ آپ کے ذمہ ہو گا۔ دونوں صاحبوں کو پیغام پہنچا دیں اورخط دکھلا دیں۔
(۲۶۲) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آج کی ڈاک میں غلام محی الدین صاحب نے آپ کی طرف سے مبلغ پچاس … روپیہ اور بھیجے ہیں۔ جزاکم اللہ خیرا لجزاء۔ ابھی وہ دس روپیہ نہیں آئے۔ اس نازک وقت میں آپ کی طرف سے مجھے وہ مدد پہنچی ہے کہ بجز دعا کے اورکچھ بیان نہیں کرسکتا۔ مجھے بباعث شدت رمد اور درد چشم اور پانی جاری ہونے کی طاقت نہ تھی کہ کاغذ کی طرف نظر بھی کر سکوں۔ مگر بہر حال صورت اپنے پر جبر کر کے یہ چند سطریں لکھی ہیں۔ کل کا اندیشہ ہے۔ خاص کر کچہری کے دن کا کہ اللہ تعالیٰ آنکھوں کا درد اور بند رہنے سے بچاوے۔ نہایت خوف ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۵؍ جنوری ۱۸۹۹ء
اس سے پہلے آج ہی ایک خط صبح روانہ کر چکا ہوں۔
(۲۶۳) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
کل کی ڈاک میں مبلغ ۹۹… مرسلہ آپ کے بذریعہ منی آرڈر پہنچے تھے۔ جزاکم اللہ خیرالجزاء۔ آپ ہر ایک موقعہ پر اپنی مخلصانہ خدمات کا رضا مندی اللہ جلشانہ کے لئے ثبوت دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزاء خیر بخشے۔ آمین۔
کل میں مقدمہ پر جائوں گا۔ میری آنکھ اس وقت دکھتی ہے کہ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے۔ …درد ناک حالت میں آپ کوخط لکھا ہے۔ تا آپ کو اطلاع دے دوں۔ بباعث شدت درد آنکھ زیادہ لکھنے کی طاقت نہیں ۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۵؍ جنوری ۱۸۹۹ء
(۲۶۴) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ آپ کو خبر پہنچ گئی ہو گی کہ سب کاروائی کا لعدم ہو چکی ہے اور ا ب نئے سرے نوٹس جاری ہو گا۔ تاریخ مقدمہ ۱۴؍ فروری ۱۸۹۹ء قرار پائی ہے اور حکم دیا گیا ہے کہ دفتر انگریزی کے کلارک پیشگوئی بابت آتھم اور پیشگوئی بابت لیکہرام اور پیشگوئی حال کا ترجمہ کر کے پیش کریں۔ معلوم ہوتا ہے کہ نیت بخیر نہیں ہے۔ محمد حسین کو غالباًبری کر دیا ہے اور اس گروہ کے لوگ یہی مشہور کرتے ہیں اور اس کی نسبت نوٹس بھیجنے کی کچھ بھی تیاری نہیں۔ وہ لوگ بہت خوش ہیں۔ اس حاکم نے ایک ٹیڑھی لکیر اخیتار کی ہے کہ قانون سے اس کا کچھ تعلق نہیں۔ محمد بخش ڈپٹی انسپکٹر بڑی شوخی اور بد زنانی سے ظاہر کر رہا ہے اور علانیہ ہر ایک کے پاس کہتا ہے کہ میں ضمانت کرائوں گا۔سزا دلائوں گا اور ظاہراً یہ بات سچ معلوم ہوتی ہے۔ کیونکہ یہ مجسٹریٹ اس کی عزت کرتا ہے اور بڑ ا کچھ اعتبار ہے۔ ہر ایک دفعہ میں دیکھتا ہوں کہ میری دانست اس کی نیت نیک ہے لیمار چنڈ بھی بگڑ ا ہوا ہے۔
جمعہ کی رات میںنے خواب دیکھا ہے کہ ایک شخص کی درخواست پر میںنے دعا کر کے ایک پتھر یا لکڑی کی ایک بھینس بنا دی ہے۔ اس بھینس کی بڑی بڑی آنکھیں ہیں۔ ظاہر معلوم ہوتا ہے کہ اس مقدمہ کے متعلق یہ خواب ہے کہ کیونکہ پتھر یا لکڑی سے وہ منافق حاکم مراد ہے۔ جس کاارادہ یہ ہے کہ بدی پہنچاوے اور جس کی آنکھیں بند ہیں اور پھر بھینس بن جانا اور بڑی بڑی آنکھیں ہو جانا۔ اس کی یہ تعبیر معلوم ہوتی ہے کہ یک دفعہ کوئی ایسے امور پید اہو جائیں۔ جن سے حاکم کی آنکھیں کھل جائیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب میںنے بھینس بنائی ہے تو اس نشان کے ظاہر ہونے سے کہ خد اتعالیٰ نے ایک لکڑی یا ایک پتھر کوایک سفید حیوان بنا دیا جو دودھ دیتا ہے مجھے بہت خوشی ہوئی ہے اور یک دفعہ سجدہ میں گرا ہوں اور بلند آواز سے کہتا ہوں،ربی الا علی ربی الارعلی۔اور سجدہ میں گرنے کی بھی یہی تعبیر ہے کہ دشمن پر فتح ہے۔ اس کی تاید میںکئی الہامات ہوئے ہیںایک یہ الہام ہے:۔
انا تجالدنا فاتطع ابعد و اسبابہ۔ یعنی ہم نے دشمن کے ساتھ تلوار سے لڑائی کی۔ پس ٹکرے ٹکڑے ہو گیا اور اس کے اسباب بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔ آنیدہ خدا تعالیٰ بہتر جانتا ہے اور اس خواب اور الہام کا مصداق کونسا امر ہے؟کیا آپ کو معلوم ہے کہ محمد بخش کے کہاں گھر ہیں؟ اور ذات کا کون ہے۔ مجھے سرسری طور پر معلوم ہو اہے کہ ذات کا … ہے اور گوجرانوالہ میں اس کے گھر ہیں اور معلوم ہو اہے کہ نظام الدین اس کے ایک شادی پر گوجرانوالہ میں گیا تھا اور تنبول دیا گیا۔ اگر اس کا کچھ پتہ آپ کو معلوم ہو ضرور مطلع فرماویں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمدعفی عنہ
۵؍ فروری ۱۸۹۹ ء قادیان
(۲۶۵) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
۱۶؍ فروری ۱۸۹۹ء
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
کل میں پٹھان کوٹ سے واپس آگیا ۔ ۲۴؍ فروری ۱۸۹۹ء میرے بیان کے لئے اور فیصلہ کے لئے مقرر ہوئی ہے۔ حالات بظاہر ابتر اور خراب معلوم ہوتے ہیں۔ محمد حسین اور محمد بخش کے اظہارات تعلیم سے کامل کئے گئے ہیں۔مجھ پر محمد حسین نے بغاوت سرکار انگریزی اور قتل لیکھرام کا اپنے بیان میں الزام لگایا ہے۔ محمد بخش نے لکھوایا ہے۔ ان کی حالت بہت خطرناک ہے۔ سرحدی لوگ آتے ہیں۔ اب بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے۔ وہی ہوتا ہے۔ دشمنوں نے افتراء میں کچھ فرق نہیں کیا میں نے آتے وقت حکیم فضل الدین صاحب کو ایک درخواست لکھ دی تھی اور مبلغ …۵۲ چار گواہوں کے طلب کرانے کے لئے دے دیئے تھے مگر نہایت خراب حالت ہے کہ کچھ امید نہیں کہ طلب کئے جاویں۔ منجملہ ان گواہوں کے ایک رانا جلال الدین خاں ہیں۔ دوسرے شیخ ملک یار اور تیسرے منشی غلام حیدر تحصیلدار چوتھے محمد علی شاہ صاحب ساکن قادیان۔ لوگ کہتے ہیں کہ رانا جلال ا لدین خان صاحب اگر طلب ہوئے تو محمد بخش اور دوسرے لوگ کوشش کریں گے کہ اس کا اظہار اپنی مرضی سے دلادیں۔
ہرچہ مرضی مولیٰ ہماں اولیٰ
اوّل تو مجھے امید نہیں کہ طلب کئے جاویں۔ مجسڑیٹ خواہ نخواہ درپے توہین اور سخت بدظن معلوم ہوتا ہے۔ میرے وکیلوں نے یہ حالات دریافت کرکے یہی چاہا تھا کہ چیف کورٹ میں مثل کو منتقل کرادیں۔ لیکن یہ بات بھی نہیں ہوسکی۔ اگر آپ کو رانا جلال الدین خاں کی نسبت کچھ مشورہ دینا ہوتو اطلاع بخشیں۔ حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ اول تو مجسڑیٹ گواہ بلانے منظور نہیں کرے گا۔ چنانچہ وہ پہلے بھی ایما کرچکا ہے اور کرے بھی تو غالباً بند سوال بھیجے گا۔ رانا جلال الدین خان کا مقام گوجرانوالہ لکھایا گیا ہے۔ شاید وہیں ہیں یا اور جگہ ہیں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
(۲۶۶) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
میں آپ کو اطلاع دیتا ہوں کہ میری گواہی کے لئے رانا جلال الدین خان صاحب عدالت میں طلب کئے گئے ہیںاور ۲۴؍فروری ۱۸۹۹ء تاریخ پیشی مقرر ہے اور چونکہ محمد حسین نے صاف طور پر لکھوادیا ہے کہ ظن غالب ہے کہ لیکھرام کے قاتل یہی ہیں۔ اس لئے لیکھرام کی مسل بھی طلب ہوئی ہے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
نوٹ:۔ اس خط پر تاریخ کوئی نہیں۔ مگر تسلسل خط وکتابت سے واضح ہے کہ یہ ۱۶؍فروری ۱۸۹۹ء کے بعد کا ہے۔(عرفانی)
(۲۶۷) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
۲۴؍فروری ۱۸۹۹ء کو مقدمہ پیش ہوکر بغیر لینے گواہوں کے مجھے بری کیا گیا۔ استفاثہ کی طرف سے گواہی گذر چکی تھی اور فریقین کے لئے دو نوٹس لکھے گئے اور ان پر دستخط کرائے گئے۔ جن کا یہ مضمون تھا کہ نہ کسی کی موت کی پیشگوئی کریں گے اور نہ دجال کذاب کافر کہیں گے اور نہ قادیان کو چھوٹے کاف سے لکھیں گے اور نہ بٹالہ کو طاء کے ساتھ اورنہ گالیاں دیں گے اور ہدائت کی گئی کہ یہ نوٹس عدالت کی طرف سے نہیں ہے اور نہ اس کو مجسڑیٹ کا حکم سمجھنا چاہیئے۔ صرف خدا کے سامنے اپنا اپنا اقرار سمجھو۔ قانون کو اس سے کچھ بھی تعلق نہیں۔ ہمارا کچھ دخل نہیں۔ مجھے کہا گیا کہ آپ کو ان کی گندی گالیوں سے تکلیف پہنچی ہے ۔ آپ اختیار رکھتے ہیں کہ بذریعہ عدالت اپنا انصاف لیں اور مثل خارج ہوکر داخل دفتر کی گئی۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۷؍فروری ۱۸۹۹ء
نوٹ:۔ میرا خیال ہے کہ ۲۷؍فروری ۱۸۹۹ء ہے۔ جلدی سے ۷؍فروری ۱۸۹۹ء لکھا گیا ہے۔ (عرفانی)
(۲۶۸) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
بلٹی آم پہنچ کر آج دونوں چیزیں آم اور بسکٹ میرے پاس پہنچے۔ جزاکم اللّٰہ خیرا۔ افسوس کہ آم کل کے کل گندے اور خراب نکلے۔ اسی خیال سے میںنے رجسٹری شدہ خط آپ کی خدمت میں بھیجا تھا۔ تا ناحق آپ کانقصان نہ ہو۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ آم اس خط کے پہنچنے سے پہلے روانہ ہو چکے تھے۔ افسوس کہ اس قدر خرچ آپ کی طرف سے ہوا۔ خیر انما الا عمال بالینات۔ کل میرے نام پر ایک پروانہ تحصیل سے آیا تھا۔ اس میں لکھا تھا کہ پتہ بتائو کہ عبدالواحد اور عبدالغفور اور عبدالجبار کہاں ہیں۔ خد اجانے اس میں کیا بھید ہے۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی اللہ عنہ
(۲۶۹) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آم مرسلہ آنمکرم پہنچے۔ جزاکم اللّٰہ خیرالجزاء۔ اگر ممکن ہو سکے تو اسی قدر اور آم بھیج دینا ۔ کیونکہ مہمان عزیز بہت ہیں۔ بہت شرمندگی ہوتی ہے۔ اگر کوئی چیز آوے اور بعض محروم رہیں۔ افسوس کہ آپ کو عقیقہ پر رخصت نہ مل سکی۔ خیر دوسرے موقعہ پر بھی مسمی عبدالجبار گرفتار ہو کر گورداسپور میں آگیاہے۔ کہتے ہیں کہ پھر مقدمہ بنایا جائے گا۔ خدا تعالیٰ ہر ایک بہتان سے بچاوے۔ مثل سے کسی قدر صفائی سے ظاہر ہے کہ پہلا اظہار عبدالجبار کا جھوٹا تھا۔ جو پادریوں کی تحریک سے لکھا گیا ہے۔ مگر پھر تفتیش ہو گی کہ کون سا اظہار جھوٹا ہے۔ شاید اب پادریوں کو پھر کسی جعلسازی کاموقعہ ملے اور پھر اس کو طمع دے کر یہ بیان لکھو ادیں کہ پہلا اظہار ہی سچا ہے اور دوسرا جھوٹا۔
کچھ معلوم نہیں کہ ایسا صاف مقدمہ فیصل شدہ پھر کیوں دائر کیا گیاہے۔ سزا اگر عبدالجبار کو دینا ہے توپہلا حاکم دے سکتا ہے اورسزا دینے کے لئے بہت سی تحقیقات کی ضرورت نہیں۔ عبدالجبار خود اقرار لکھاتا ہے۔ یعنی کپتان ڈگلس صاحب کے روبرو کا پہلا اظہار میرا جھوٹا ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۳۰؍ جون ۱۸۹۹ء
(۲۷۰) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
پہلا خط میں نے آم پہنچنے سے پہلے لکھا تھا۔ اب اس وقت جووقت عصر ہے۔ آم آئے اور کھولے گئے تو سب کے سب گندے اور سڑے ہوئے نکلے اور جو چند خوبصورت بیداغ معلوم ہوئے ان کا مزہ بھی تلخ رسوت کی طرح ہو گیا تھا۔غرض سب پھینک دینے کے لائق ہیں۔ مجھے افسوس ہے کہ آپ نے اس قدر تکلیف اٹھائی اور خرچ کیااور ضائع ہوا۔ مگر پھر بھی ضائع نہیں ہوا۔ کیونکہ آپ کو بہرحال ثواب ہو گیا۔ اب یہ خط اس لئے دوبارہ لکھتا ہوں کہ آپ دوبارہ خرچ سے بچے رہیں۔ اگر آپ کا دوبارہ بھیجنے کا ارادہ ہو تو سردنی کا آم جو سبز اور نیم خام اور سخت ہو کر بھیجیں۔ یہ آم ہر گز نہ بھیجیں ۔ زیادہ خریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
یکم جولائی ۱۸۹۹ء
خط اس غرض سے رجسٹری کر اکر بھیجا گیاہے کہ تسلی ہو کہ پہنچ گیا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ آپ ایسے ہی آم بھیج دیںاو رناحق اسراف ہو۔بجز اس قسم کے جس کو سردنی کہتے ہیں اور کوئی قسم روانہ نظر فرمائیں اوروہ بھی اس شرط سے کہ آم سبز اور نیم خام ہوں۔ تا کسی طرح ایسی شدت گرمی میں پہنچ سکیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
(۲۷۱) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
امید ہے کہ اشتہار ۴؍ اکتوبر ۱۸۹۹ء جس کے ساتھ جلسۃ الوداع کا بھی ایک پرچہ ہے۔ آپ کے پاس پہنچ گیا ہو گا۔ اب باعث تکلیف وہی یہ ہے کہ اخویم مولوی محمد علی صاحب کی نسبت جو گورداسپور میں تحریک کی گئی تھی۔ اس کو حد سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے اور درحقیقت اس طرح پر مولوی صاحب کا بڑ ا حرج ہوگیاہے۔ کہ آخر کار لوگ رشتہ سے کیوں انکار کریں توکتنے او رعمدہ رشتے اسی انتظار میں ان کے ہاتھ سے چلے گئے۔ یہ ایسا طریق ہے کہ خواہ مخواہ ایک شخص پر ظلم ہو جا تاہے۔ جب اسی انتظار میں دوسرے لوگ بھی ہاتھ سے نکل جائیں گے۔ چنانچہ بعض ہاتھ سے نکل گئے ہیں۔ تو کس قدر یہ امر باعث تکلیف ہے۔ لڑکی والے بعض اوقات دس روز بھی توقف ڈالنا نہیں چاہتے۔ بلکہ توقف سے وہ لاپروائی سمجھتے ہیں۔ اس لئے ناحق نقصان ہوجاتا ہے۔ مناسب ہے کہ آپ رجسٹری کرواکر ایک مفصل خط لکھ دیںکہ وہ ایک شریف او رمہذب ہیں۔ آپ کے لئے انہوں نے دوسرے کئی رشتوں کو ہاتھ سے دیا ہے۔ اس لئے مناسب ہے کہ ا ب آپ اپنے جواب باصواب سے جلد ان کو مسرورالوقت کریں اور پھر اگر وہ کسی ملازمت کے شغل میں لگ گئے تو فرصت نہیں ہو گی یہی دن ہیں کہ جن میں وہ اپنی شادی کرانا چاہتے ہیں۔ اگر کسی پہلی شادی کاذکر درمیان میں آئے تو آپ کہہ دیں کہ پہلی شادی تھی۔ وہ رشتہ طلاق کے حکم میں ہے۔ اس سے وہ کچھ تعلق نہیں چاہتے او رشاید طلاق بھی دے دی ہے۔ غرض اس کا جواب آپ دوسری طرف سے بہت جلد لے کر جہاں تک ممکن ہوسکے بھیج دیں۔ میں ڈرتا ہوکہ یہ توقف ان کی اس طرف کے لئے بہت حرج کا باعث نہ ہو جائے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
(۲۷۲) ملفوف
حضرت اقدس نے یہ مکتوب چوہدری صاحب کے مرسلہ خط کی پشت پر ہی لکھ دیا ہے اور اس طرح پر وہ اصلی خط بھی محفوظ ہے۔
میںنے پسند کیا کہ پہلے اس خط کو درج کردوں۔ پھر حضرت کا اصل مکتوب جو اس کے جواب میں ہے۔(عرفانی)
(چوہدری رستم علی صاحب کا خط)
بسم اللّٰہ الرحمن الرحمن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
بحضور پر نور جنا بناء دینا حضرت مرزا صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
سرفراز نامہ حضور کا صاد رہوا۔باعث افتخار ہوا۔ آج تک اشتہا رکوئی بھی اس عاجز کے پاس قادیان سے صادر نہیں ہوا۔ امید وار کہ براہ نوازش دو دو چار چار کاپیاں مرحمت فرمائی جائیں۔ مولوی محمد علی صاحب کی بابت گورداسپور سے جو جواب آیا۔ اس کی بابت سے پہلے نیاز نامہ میں عرض کر چکا ہوں۔ یعنی اس میں جواب سمجھنا چاہئے۔
اب رہا یہاں پر جو ہمارے سر دفتر صاحب خوہشمند ہیں۔ ان کی دو لڑکیاں ہیں اگر ان میں سے کوئی پسند آجائے تو بابو مذکورہ بہت خوش ہو سکتا ہے۔مگر اس کی متلون مزاجی پر مجھے پورا اعتماد نہیں ہے۔ یہ لشکری لوگ ہیں۔ گو شریعت کی پابندی کا دعویٰ ہے۔ مگر وقت پر آکر ایسی ایسی شرائط پیش کرتے ہیں کہ جو مشکل ہوں مثلاً مہر کی تعداد بہت زیادہ۔ مگر اس کی لڑکیوں میں سے کوئی پسند آجائے تو پھر ایسی شرائط پہلے ہی طے کر لی جاویں۔
میری حالت بہت خراب ہے۔ گناہوں میں گرفتارہوں۔ کیاکروں کوئی صورت رہائی کی نظر نہیں آتی۔ سوائے اس کے کہ خد اوند کریم اپنا فضل شامل حال کرے۔حضور سے الیجاء ہے کہ میرے واسطے ضرور بالضرور دعا فرمائی جائے کہ نفس امارہ کی غلامی سے رہائی پائوں۔ مجھے اپنی حالت پر بہت افسوس رہتا ہے اور ڈرتا بھی ہوں۔
آج کل خان صاحب علی گوہر خاں صاحب میرے پاس ہیں۔ وہ بیمار ہیں۔ بخار آتا ہے اور دیر سے بخار آتا ہے۔ ان کی درخواست ہے کہ ان کی صحت وجسمانی و روحانی کے واسطے دعافرمائی جائے اور وہ السلام علیکم کہہ دیا جائے۔
عاجز رستم علی از انبالہ
۲۲؍ اکتوبر ۱۸۹۹ء
ج
(مکتوب حضرت اقدس)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جلدی سے بہت ضروری سمجھ کر آپ کے خط کی پشت پر ہی یہ خط لکھتا ہوں کہ اخویم مولوی محمد علی صاحب کاگورداسپور کا معاملہ بہت حرج پہنچا چکا ہے۔ کچھ روپیہ دے کر اور یکہ کروا کر ایک عورت اور اور ایک مرد حجام کو گورداسپورہ میں بھیجا تھااور پھر انتظار میں اسقدر توقف کیا۔ آخر ان لوگوں نے اول آپ ہی کہا اور پھر آپ ہی جواب دے دیا۔ اب اپنے سر دفتر صاحب نسبت جواب تحریر فرماتے ہیں۔ اس کی نسبت اگر میں ایک کچی بات میں کوئی عورت اور مرد یہاں سے بھیجوں تو مناسب نہیں ہے۔ اول آپ براہ مہربانی جہاں تک جلد ممکن ہو لڑکیوں کی شکل اور حلیہ وغیرہ سے مجھے اطلاع دیںاو ر پھر میں کوئی خادمہ مزید تفتیش کے لئے بھیج دوں گا میں اس وقت اس لئے یہ خط اپنے ہاتھ سے لکھتا ہوں۔ کہ آپ بلا توقف کوئی عورت بھیج کر شکل اور خلق اور تعلیم سے مجھ کو اطلاع دے دیں اور پھر بعد میں اگر ایسی کوئی عورت آپ کے پاس بھیجی جاسکے اور نیز اس کے پختہ ارادہ سے بھی اطلاع بخشیں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
از قادیان
۲۴؍اکتوبر۱۸۹۹ء
(۲۷۳)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ چونکہ آپ کی تحریر سے معلوم ہوا ہے کہ وہ سر دفتر صاحب جن کی لڑکی سے رشتہ کی درخواست کچھ متلون مزاج اور تیز مزاج ہے ۔ اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آپ خاص طور پر پہلے ان سے کھلے کھلے طور پر تذکرہ کرلیں۔ کہ چھوٹی لڑکی سے ناطہ ہوگااورنیز یہ کہ شریعت کی پابندی سے نکاح ہوگا ۔ کوئی اسراف کا نام نہیں ہوگا۔ شریفانہ رسموں سے جو کپڑے زیور کی ان کے خاندان میں رسم ہو۔ اس سے وہ خود اطلاع دے دیں۔ تا وہ تیار کیا جاوے اور ان سے پختہ اقرار لے لیں کہ وہ اس پر قائم رہیں اور نیز یہ قابل گذارش ہے کہ اگر میں اس جگہ سے کوئی عورت بھیجوں تو وہ حجام عورت ہوگی اور وہ اکیلی نہیں آسکتی۔ کیونکہ جوان عورت ہوگی۔ اس کے ساتھ اس کا خاوند جاوے گا اور اس اجرت میں سات معہ سے آٹھ روپیہ اس کو دینے پڑیں گے اور دو آدمیوں کے آنے جانے کا دورپیہ یکہ کا کرایہ ہوگا۔ اور چھ سات روپیہ ریل کا کرایہ دوآدمیوں کی آمدو رفت کا ہوگا۔ غرض اس طرح ہمیں تقریباً بیس روپے خرچ کرنے پڑے گے ۔لیکن اگر آپ انبالہ سے کسی عورت کو میری طرف سے تین معہ چار روپیہ دے دیں تاوہ لڑکی کو دیکھ کر دیانت سے بیان کردے۔ تو خرچ کی کفایت رے گی۔ ہم تو اس قدر خرچ کرنے کو تیار ہیں لیکن ایسا نہ ہو کہ گورداسپورہ کے معاملہ کی طرح سب کچھ خرچ ہو کر پھر ان کی طرف سے جواب ہوجاوے۔ آپ مہربانی فرما کر یہ کوشش کریں کہ کوئی حجام عورت جو دیانت دار معلوم ہو۔ اسے کچھ دے کر بھیج دیں۔ وہ کل حلیہ بیان کردے کہ آنکھیں کیسی ہیں۔ ناک کیسا ہے۔ گردن کیسی ہے۔ یعنی لمبی ہے یا کوتہ۔ اور بدن کیساہے۔ فربہ یا لاغر منہ کتابی چہرہ ہے۔ یا گول ۔سرچھوٹا ہے یا بڑا قد لمبا ہے یا کوتہ۔ آنکھیں کپری ہیں یا سیاہ ۔رنگ گورہ ہے یا گندمی یا سیاہ ۔ منہ پر داغ چیچک ہیں یا نہیں یا صاف غرض تمام مراتب جن کے لئے یہاں کسی عورت کا بھیجنا تھا بیان کردے اور دیانت سے بیان کرے اس سے ہمیں فائدہ ہوگاکیونکہ اس کا مجھے زیادہ فکر ہے۔ میری طرف سے یہ خرچ دیا جاوے۔ میں تو اب بھی بیس روپیہ خرچ کرکے کسی عورت کو اس کے خاوند کے ساتھ بھیج سکتا تھا۔ مگر اندیشہ ہوا۔ کہ کچی بات میں گورداسپور کی طرح پیش نہ آجائے۔ اگر آپ توجہ فرمائیں گے ۔ تو آپ کو انبالہ شہر سے بھی کوئی دانا اور حسن و قبح پرکھنے والی اور دیانت دار کوئی عورت میسر آجائے گی آپ کسی سے مشورہ کرکے ایسی عورت تلاش کرلیں اور یہ غلط ہے کہ اخویم مولوی محمد علی صاحب کی پہلی عورت موجود ہے ۔ مدت ہوئی کہ وہ اس پہلی کو طلاق دے چکے ہیں ۔ اب کوئی عورت نہیں ۔ پوری تفتیش کے بعد آپ جلد جواب دیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
(۲۷۴) مکتوب
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
نہایت ضروری کام کے لئے آپ کو تکلیف دیتا ہوں کہ اس جگہ تین ایسے عمدہ اور مضبوط پلنگ کی ضرورت ہے۔ جس کے سیرو اور پائے اور پٹیاں درخت سال یا اور مضبوط لکڑی کے ہوں ۔ اسی غرض سے امرتسر آدمی بھیجا گیا۔ معلوم ہوا کہ ایسے سیرو او رپٹیاں اور پائے نہ امرتسر میں ملتے ہیں اور نہ لاہور میں مل سکتے ہیں اور انبالہ میں اس قسم کے پلنگ مل سکتے ہیں۔ اس لئے مکلف ہوں کہ آپ تمام تر کوشش سے ایسے تین پلنگ تیار کروا کر بھیج دیں۔ لیکن چاہیئے کہ ہر ایک پلنگ اس قدر بڑا ہو کہ دو آدمی اور ایک بچہ بآسانی اس پر سو سکیں او رجہاں تک ہو سکے۔ پلنگ بہت بوجھل نہ ہوں۔ گھر میں امید بھی ہے اورکئی وجوہ سے یہ ضرورت پیش آئی ہے اورروپیہ کے خرچ کا کچھ صرفہ کریں۔ جس قدر روپیہ خرچ آئے گا۔ انشاء اللہ بلاتوقف بھیج دیا جائے گا۔ بہرحال پٹیاں اور سیرو اور پائے مضبوط لکڑی کے ہوں اور عمدہ طور سے بنے جائیں۔ یہ یاد رہے کہ یہ ضروری ہے کہ ہر ایک پلنگ اس قدر بڑا ہو کہ پورے آدمی اور بچہ ان پر سو سکے اور جہاں تک ممکن ہو دو ہفتہ تک آپ تیار کر وا کر بذریعہ ریل بھیج دیں اور ریل کے کرایہ کو دیکھ لیں کہ زیادہ نہ ہو۔ کیونکہ ایک مرتبہ دہلی سے ایک پالکی منگوائی تھی اور غلطی سے خیال نہ کیا گیا۔ آخر ریل والوںنے پچاس روپیہ اس کا کرایہ لیا۔ باقی سب خیریت ہے۔ طاعون سے اس طرف شور قیامت بپا ہے۔ دن کو آدمی اچھا ہوتا ہے اور رات کو موت کی خبر آتی ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۲۹؍ اپریل ۱۹۰۲ء
(۲۷۵) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ چونکہ اس جگہ بنائی کا کام مشکل ہے۔ ہر طرف طاعون کی بیماری ہے۔ کوئی آدمی ہاتھ نہیں لگائے گا۔ اس لئے بہتر ہے کہ اگرچہ سات روپیہ تک کرایہ کی زیادتی ہو۔ تو کچھ مضائقہ نہیں۔ وہیں سے تیار ہوکر آنی چاہئیں۔ لیکن اگر کرایہ زیادہ مثلاً بیس پچیس روپیہ… ہو تو پھر سامان پلنگوں کا بھیج دیا جائے۔ ایک پلنگ نواڑکا ہو او ردو عمدہ باریک سن کی سوتری کے۔ غرض اس جگہ پلنگوں کے بننے کی بڑی دقت پیش آئے گی۔ ہر طرف زراعت کاٹنے کے دن ہیں او رایک طرف طاعون سے قباحت بر پا ہے۔ لوگوں کو سروے دفن کرنے کے لئے جگہ نہیں ملتی ۔ عجیب حیرانی میں گرفتار لوگ ہیں۔ جہاں تک جلد ممکن ہو جلد تر روانہ فرمادیں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۶؍ مئی ۱۹۰۲ء
(۲۷۶) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ حال یہ ہے کہ اب کی دفعہ میں نے پچاس روپیہ … کا مشک منگوایا تھا۔ اتفاقاً وہ سب کا سب ردّی اور مخشوش نکلا۔ اس قدر روپیہ ضائع ہو گیا۔ اس لئے میں نے آپ کی تحریر کے موافق مبلغ …۱۲ قیمت چھ ماشہ مشک مولوی صاحب کے حوالہ کردی ہے۔ اگر یہ قیمت کم ہوگی۔ باقی دے دوں گا اور عنبر بھی مدت ہوئی کہ میں نے افریقہ سے منگوایا تھا۔ وہ وقتاً فوقتاً خرچ ہوگیا۔ میں نے اس قدر استعمال سے ایک ذرہ بھی اس کا فائدہ نہ دیکھا۔ وہ اس ملک میں فی تولہ ایک سو روپیہ کی قیمت سے آتا ہے اور پھر بھی اچھا نہیں ملے گا۔ ولایت میں عنبر کو محض ایک ردّی چیز سمجھتے ہیں او رصرف خوشبوئوں میں استعمال کرتے ہیں۔ میرے تجربہ میں ہے کہ اس میں کوئی مفید خوبی نہیں۔ اگر آپ نے دوا میںعنبر ڈالناہو تو بواپسی ڈاک مجھے اطلاع دیں۔تو عنبر ہی کے خرید کے لئے مبلغ پچاس روپیہ… مولوی صاحب کے حوالہ کئے جائیںگے۔ مگر جواب بواپسی ڈاک بھیج دیں۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی اللہ عنہ
مکتوبات کے متعلق مرتب کا نوٹ
جس قدر مجھے مکتوبات مل سکتے تھے۔ وہ میں نے جمع کر دیئے ہیں والحمدللہ علی ذالک۔ ایک مکتوب کو میںنے عمداً ترک کر دیا ہے اور حضرت حکیم الامۃ کے مکتوبات میں بھی اسے چھوڑا ہے اوریہ وہ مکتوب ہے۔ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بشیراوّل کی وفات پر لکھا تھا۔ وہ خط دراصل حضرت حکیم الامۃ کے نام تھا۔ مگر اس کی نقول آپ نے متعدد احباب کے نام بھجوائی تھیں۔ میں اس مکتوب کو متفرق خطوط کی جلد میں انشاء اللہ العزیز شائع کروں گا اور اس میں ان دوستوں کے اسماء گرامی بھی لکھ دوںگا۔ (انشاء اللہ ) جن کی خدمت میں ان کی نقول بھیجی گئی تھیں۔
میں ان تمام احباب کو جنہیں حضرت چوہدری صاحب مرحوم سے تعلق رہا ہے۔ توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس کام میں میرے معین و مددگار ہوں اور اگر کسی کے پاس چوہدری صاحب کا کوئی خط یا نظم ہویا کوئی واقعہ ان کے سوانخ حیات سے متعلق انہیں کام ہوتو وہ لکھ کر مجھے ضرور بھیج دیں۔ یہ کام قلمی اور مابی تعاون کا ہے اورمیں اپنے دوستوں سے بجا توقع رکھتا ہوں اور انہیں کہتا ہوں
نام نیک رفتگان ضائع مکن
تا بماند نام نیکت برقرار
میرے لئے بھی دعا کریں کہ میںاس کام کو سرانجام دے سکوں۔ وباللہ التوفیق۔
(عرفانی)
حضرت چوہدری رستم علی صاحب رضی اللہ عنہ کا کلام
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے بعض مکتوبات میں چوہدری صاحب مرحوم و مغفور کے اشعار کا ذکر فرمایا ہے اور اسے بہت پسند کیا ہے۔ بلکہ ایک موقع پر آپ نے فرمایا۔ کہ ان کو جمع کرتے جائیں۔ چوہدری صاحب مرحوم کے کلام کو جمع کرنا آسان کام نہیں ۔ بیس برس کے قریب ان کی وفات پر گزرتا ہے۔ تاہم میں اپنی کوششوں کو زندگی بھر چھوڑ نہ دوں گا۔ محض اس لئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ خواہش پوری ہوجائے جو آپ نے ا س وقت ظاہر فرمائی تھی۔ میں اگر کامیاب نہ ہوا۔ تب بھی اس کی نیت کے لئے یقینا ماجور ہوں گا۔
اب جبکہ مکتوبات کے اس مجوعہ کو میں ختم کر چکا ہوں۔ مناسب سمجھتا ہوں کہ حضرت چوہدری صاحب مرحوم کے کلام کا کچھ نمونہ یہاں دے دوں۔ جو میں اس وقت تک جمع کر چکا ہوں۔ آپ کے کلام کے اندراج کے لئے بہتر ین موقعہ اور مقام آپ کے سوانح حیات کا ایک باب ہے۔ مگر میں نہیں جانتا کہ یہ توفیق کسے ملے گی۔ میں نے پسند کیا کہ اسے کسی غیر معلوم وقت تک ملتوی کرنے کی بجائے بہتر ہے کہ کچھ نمونہ حضرت چوہدری صاحب مرحوم کے کلام کا یہاں دے دوں اوراس طرح پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس ارشاد کی کسی قدر تک تکمیل کر دوں۔ جو آپ نے چوہدری صاحب کو اس کے جمع رکھنے اور طبع کرا دینے کے متعلق فرمایا تھا۔
حضرت چوہدری صاحب مرحوم کے کلام میں کسی شاعرانہ تنقید کی نہ قابلیت رکھتا ہوں اور نہ اس ضرورت سمجھتا ہوں ۔ بلکہ میں تو اپنے کلام المحبوب محبوب الکلام سمجھتا ہوں۔ مجھ کو ان سے خد اتعالیٰ کی رضا کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں ہوکر محبت تھی اور ان کی ادا پسند تھی۔ ان کے کلام کی داد جب خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام دے چکے ہیں۔ تو اس سے بڑھ کر ان کی سعادت کیا ہو گی۔ میں چوہدری صاحب مرحوم کے کلام کے انتخاب میں اپنے نبقطہ خیال کو مدنظر رکھتا ہوںاور یہ بطور نمونہ ہے۔
خطاب بہ اقبال
ڈاکٹر سر اقبال آج علمی مصروف ہیں۔ کسی زمانہ میں وہ سلسلہ عالیہ سے محبت و اخلاص کا تعلق رکھتے تھے۔ بلکہ جب ایف۔اے میں پڑھتے تھے۔ تو سلسلہ کے بعض معازین کا جواب بھی نظم میں آپ نے دیا تھا۔ آپ کے خاندان کے بعض ممبر اسی سلسلہ میں شامل ہونے کی عزت و سعادت حاصل کرچکے ہیں۔ مخزن نمبر ۲ جلد ۳ بابت ماہ مئی ۱۹۰۲ء کے صفحہ ۴۸ پر سر اقبال نے جو اس وقت اقبال تھے۔ ایک نظم بیعت کے جواب میں شائع کی تھی۔ ڈاکٹر اقبال کے کسی شفیق ناصح نے انہیں بیعت کی تحریک کی تھی۔ اس کا جواب انہوں نے نظم میں مخزن کے ذریعہ شائع کیا۔ سلسلہ کے گراں قدر بزرگ میرے اور ڈاکٹر اقبال کے مکرم حضرت میر حامدشاہ صاحب ؓ نے بھی انہیں ایام میں اس کا جواب منظوم نہایت لطیف شائع فرمایا اور ڈاکٹر اقبال کو ان کی ایک رویا کی یاد ۔ حضرت چودھری رستم علی صاحب مغفور نے بھی اس کا یک جواب لکھا اور یہ جواب گویا حضرت اقدس کی زبان سے دیاہے اور دنیا اس سے غافل رہی۔ مگر میںآج ۲۷ برس کے بعد اس کے بعض اشعار کو پبلک کرتا ہوں کہ اسی کی امانت ہے۔(عرفانی)
خضر سے چھپ کے کہہ رہا ہوں میں
تشنہ کام مئے فنا ہوں میں
یہی ہر اک سے کہہ رہا ہوں
حق سے خضر رہ خدا ہوں میں
وہ مرے گا چھٹیگا جو مجھ سے
فانیوں کے لئے بقا ہوں میں
ہم کلامی ہے غیرت کی دلیل
خاموشی پر مٹا ہوا ہوں میں
میں تو خاموش تھا اور اب بھی ہوں
ہاں مولا سے بولتا ہوں میں
ہم کلامی جو غیرت ہے تو ہو
پیرو احمد خدا ہوں میں
کانپ اٹھتا ہوں ذکر مریم پر
وہ دل درد آشنا ہوں میں
آشنا اور درد جھوٹی بات
آتیرے درد کی دوا ہوں میں
تنکے چن چن کر باغ الفت کے
آشیانہ بنا رہا ہوںمیں
تنکے تنکے ہوا آشیاں تیرا
ایک جھونکے میں آ آپناہ ہوں میں
گل پر مردہ چمن ہوں مگر
رونق خانہ صبا ہوں میں
گل شاداب باغ احمد ہوں
رونق طانہ خدا ہوںمیں
کارواں سے نکل گیا آگے
مثل آوازہ درا ہوں میں
مارا جائے گا توجو کہنا ہے ترا
کارواں سے نکل گیا ہوں میں
تاکہ بے خوف موت سے ہوں
مجھ میں آ کارواں سرا ہوں میں
دست واعظ سے آج بن کے نماز
کس ادا سے قضاء ہوا ہوں میں
یہ اور ہے کوئی قضاء کی نماز
اس کو ہرگز نہ مانتا ہوں میں
نہ قضاء ہو کھبی کسی سے ہرروز
اس غرض سے کھڑا ہوا ہوں میں
مجھ سے بیزار ہے دل زاہد
اس غرض سے کھڑا ہوا ہوں میں
مومنوں نے ہے مجھ کو پہنچانا
رندکی آنکھ سے چھپا ہوں میں
پاس میرے کب آسکے اوباش
دیدہ حود کی حیا ہوں میں
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال پر
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال پر آپ نے درد دل کا اظہار کیا اور حوالہ قلم و کا غذ کردیا۔ کاغذ پر کلیجہ نکال کر رکھ دیا۔ ان اشعار میں سے چند کا انتخاب ذیل میں کرتا ہوں۔ اس سے چودھری صاحب مرحوم و مغفور کا لاہور کے متعلق بھی خیال ظاہر ہوجاتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ جو عشق و محبت انہیں تھی۔ اس نے زیادہ دیر تک آپ سے جدا نہ رہنے دیا اور ایک سال کے اندر ہی آقا کے قدموں میں پہنچا دیا۔(عرفانی)
اے حضرت اقدس اب کہاں ہو
آنکھوں سے میری کہاں نہاں ہو
او جہل ہو نظر سے جب کہ خورشید
تاریک نہ کس طرح جہاں ہو
گم تجھ میں ہوا وہ رہبر خلق
لاہور! تیرا بھلا کہاں ہو
بے چین ہیں دور رہنے والے
کس حال میں اہل قادیان ہو
………
یا ربّ ہے کہاں مسیح موعود
اب قادیان میں نہیں موجود
یہ مخدوم جہاں غلام احمد
مہدی دوران مسیح مشہود
کس دیس میں لے گئے ہیں یوسف
بتلاو میاں بشیرو محمود
اس مصلح گمر ہاں کو کھو کر
لاہور رکھے امید بہبود


(۲۷۷) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
نماز مقتدی بغیر سورہ فاتحہ بھی ہوجاتی ہے۔ مگر افضلیت پڑھنے میں ہے۔ اگر کوئی امام جلد خواں ہو توا یک آیت یا دو آیت جس قدر میسر آوے آہستہ پڑھ لیں جو مانع سماعت قرات امام ہو اور اگر میسر نہ آسکے تو مجبوری ہے نماز ہوجائے گی۔ مگر افضلیت کے درجہ پر نہیں ہوگی۔۲۰؍دسمبر ۱۸۸۵ء۔
(۲۸۷) پوسٹ کارڈ
علما فقرا کا خواب میں کسی دوست کے گھر جانا موجب برکات ہوتا ہے اور ایسی جگہ رحمت الٰہی نازل ہوتی ہے… کبھی خواب اپنی ظاہری صورت پر بھی واقع ہواجاتی ہے۔ مگر ایسا کم اتفاق ہوتا ہے۔ ۵؍جنوری ۱۸۸۶ء۔

عرض حال
خدا تعالیٰ کاشکر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مکتوبات کی پانچویں جلد کا تیسرا نمبر شائع کرنے کی توفیق پاتا ہوں۔ یہ مکتوبات چوہدری رستم علی خان صاحب رضی اللہ عنہ کے نام کے ہیں۔
مجھے اس مجموعہ مکاتیب کے متعلق کچھ کہنا نہیں۔ مخدومی ڈاکٹر محمد اسمٰعیل صاحب نے الفضل میں جو کچھ لکھا ہے۔ میں اسے کافی سمجھتا ہوں۔ البتہ مجھے مخدومی اخوند محمد افضل خاں صاحب پنشزسب انسپکٹر کا شکریہ ادا کرتا ہے کہ وہ نہایت جوش اور اخلاص سے سیرۃ مسیح موعود کی اشاعت و تحریک کے کام میں لگے ہوئے ہیں۔ اگر چند احباب ان کے نقش قدم پر چل کر اس کی اشاعت کی کوشش کریںاور ایک ہزار خریدار پورے ہو جائیںتو میں ہر مہینے ایک نمبر شائع کر سکوں۔
مجھے یہ کہتے ہوئے شرم آتی ہے کہ افسو س ہے۔ ابھی تک جماعت میں ایسے قدر دانوں کی تعداد بہت کم ہے۔ جو ان پیش قدموں کی اصل قدر کریں۔
بہر حال اپنا کام جس رفتار سے ممکن ہے۔ کرتا رہوں گا۔ جب تک خدا تعالیٰ توفیق دے۔ تاہم دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس کام میں میرے مدد گار ہوں۔
والسلام
خاکسار
عرفانی
کنج عافیت قادیان دارالامان ۱۸؍ فروری ۱۹۲۹ء ۷؍رمضان ۴۷ء


بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر سوم
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مکتوبات چوہدری رستم علی رضی اللہ عنہ کے نام
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
(۱) پوسٹ کارڈ
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ بعد سلام مسنون۔
آپ کاعنایت نامہ پہنچا۔ انشاء اللہ العزیز یہ عاجز آپ کے لئے دعا کرے گا۔ آپ برعایت اسباب ہے کہ طریقہ مسنون ہے۔ طبیب حاذق کی طرف رجوع کریں او رطبیب کے مشورہ سے مارا بجن یا جو کچھ مناسب ہو اپنی اصلاح مزاج کے لئے عمل میں لاویں اور آپ کی ہر ایک غرض کے لئے یہ عاجز دعا کرے گا۔ کبھی کبھی آپ ہفتہ عشرہ کے بعد کارڈ یاد دلاتے رہیں اور صبر جو شعار مومن ہے اختیار کر رکھیں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد ازقادیان
۵؍ ۱۸۸۴ء
نوٹ۔ چوہدری رستم علی صاحب رضی اللہ عنہ کا تعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے براہین احمدیہ کی خریداری کے سلسلہ میں ہوا او ریہ ۱۸۸۴ء کا واقعہ ہے۔ اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تعلقات او رمراسلات کا سلسلہ مضبوط او روسیع ہوتا گیا۔ ۱۸۸۴ء میں چوہدری صاحب خاص شہر جالندھر میںمحرر پیشی تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ کو لفافہ اس طرح پر لکھا کرتے تھے۔
بمقام جالندھر خاص۔ محکمہ پولیس
بخدمت مشفتی مکرمی منشی رستم علی صاحب محرر پیشی محکمہ پولیس کے پہنچے اس وقت آپ کا عہدہ سارجنٹ تھا۔ آیندہ جب تک چوہدری صاحب کا ایڈریس تبدیل نہ ہو گا یا لفافہ کی نوعیت میں کوئی تبدیلی نہ ہو گی ایڈریس درج نہ ہو گا۔ ہر مکتوب کے ساتھ خط یا پوسٹ کارڈ کی تصریح کی جائے گی۔
(عرفانی)
(۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ بعد سلام مسنون۔
آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ انشاء اللہ آپ کے حسن خاتمہ اور صلاحیت دین کے لئے یہ عاجز دعا کرے گاا ور سب طرح سے خیریت ہے حصہ پنجم بعد فراہمی سرمایہ چھپنا شروع ہو گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد۔ قادیان
۱۸؍ جون ۱۸۸۴ء
(۳) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ بعد سلام مسنون۔
آپ کا دوسرا خط بھی پہنچا۔ یہ عاجز چھ روز سے بیمار ہے اور ضعف دماغ او رجگر او ردیگر عوارض لاحقہ سے مخنی ہو رہا ہے ورنہ آپ کے عزیز کے لئے کوشش اور مجاہدہ سے خاص طور پر دعا کی جائے۔ انشاء اللہ بعد افاقہ توجہ تام سے دعا کرتے گا اور مسنون طور پر آپ بھی دعا سے غافل نہیں رہئیے گا۔ بالفضل ارادہ ہے کہ چند مہینے تک کسی پہاڑ میں جاکر یہ مہینہ گرمی کا بسر کرے آیندہ خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ خدا تعالیٰ آپ کو غم اور فکر سے نجات بخشے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۷۱؍ اگست ۱۸۸۴ء
(۴) پوسٹ کارڈ
از طرف خاکسار غلام احمد۔ باخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ بعد سلام مسنون۔
آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ بعض اوقات یہ عاجز بیمار ہو جاتا ہے۔ اس لئے ارسال جواب سے قاصر رہتا ہے۔ آپ کے لئے دعا کی جاتی ہے۔ خد اتعالیٰ دنیا و آخرت محمود کرے۔ بعد نماز عشاء درود شریف بہت پڑھیں۔ اگر تین سو مرتبہ درود شریف کا ورد مقرر رکھیں توبہتر ہے او ربعد نماز صبح اگر ممکن ہو تو تین سو مرتبہ استغفارکا ورد رکھیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۸؍ ستمبر ۱۸۸۴ء

(۵) پوسٹ کارڈ
از عاجز غلام احمد باخویم منشی رستم علی صاحب۔
بعد سلام مسنون۔ آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ چونکہ طبیعت اس عاجز کی کچھ عرصہ سے علیل ہے اس لئے پہلے خط کا جواب نہیں لکھا گیا۔ حسین علی خان صاحب کے لئے اس عاجز نے دعا کی ہے او رانشاء اللہ العزیز پھر بھی دعا کرے گا۔ اطلاعا ًلکھا گیا۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
۷؍ جنوری ۱۸۸۵ء
(۶) پوسٹ کارڈ
از عاجز عاید باللہ الصمد غلام احمد۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ حال وفات آپ کے قبلہ بزگوار کا معلوم ہوا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون جو امر انسان کے لئے بہتر ہے وہ ہو جاتا ہے۔ خدا تعالیٰ ان غریب غریق رحمت کرے۔ آپ کواجر بخشے زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۱۵؍ فروری ۱۸۸۵ء
(۷) پوسٹ کارڈ
از عاید باللہ الصمد غلام احمد۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
حسب تحریر آپ کے ایک خط انگریزی اور ایک اشتہار انگریزی بھیجا جاتا ہے۔ کسی زیرک اور منصف مزاج کو ضرور دکھاویں یہ خط انگریزی تمام پادری صاحبان ہندوستان و پنجاب کی خدمت میں بھیجے گئے ہیں اور نیز پنڈتوں کے پاس بھی بھیجے گئے ہیں اور بھیجے جاتے ہیں اور ہر ایک بصیغہ رجسٹری بصرف ۴؍ روانہ کیا گیا ہے اور سب کی کیفیت انشاء اللہ حصہ پنجم کتاب میں درج ہو گی او آپ کے لئے دعا کی ہے۔
والسلام
خاکسا ر
غلام احمد از قادیان
۲؍ اپریل ۱۸۸۵ء
(۸) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاۃ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ دنیا مقام غفلت ہے بڑے نیک قسمت آدمی غفلت خانہ میں روبہ حق ہوتے ہیں۔ استغفار پڑھتے ہیں اور اللہ جلشانہ سے مدد چاہیں۔ یہ عاجز آپ کو دعا میں فراموش نہیں کرتا۔ ترتیب اثر وقت پر موقوف ہے۔ اللہ جلشانہ آپ کو دنیا و آخرت میں توفیق خیرات بخشے۔ اخویم چوہدری محمد بخش صاحب کو السلام علیکم پہنچے۔ میر عباس علی شاہ دو روز سے اس جگہ تشریف لائے ہوئے ہیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
(۹)پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
از عاجز عاید باللہ الصمد غلام احمد۔بخدمت اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
انشاء اللہ القدیر آپ کے لئے یہ عاجز دعا کرے گا اور حصہ پنجم کتاب انشاء اللہ عنقریب چھپنا شروع ہو گا۔ زیادہ خیریت ہے۔ والسلام منشی عطاء اللہ خاں صاحب السلام علیکم۔
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۵؍ جون ۱۸۸۵ء
(۱۰) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
از عاید باللہ الصمد غلام احمد۔ بخدمت اخویم منشی رستم علی صاحب۔
وفات فرزند سے آپ کو بہت غم پہنچا ہو گا۔ خدا تعالیٰ آپ کو صبر عطا کرے۔ بہت دعا کی گئی مگر تقدیر مبرم تھی۔ خدا تعالیٰ آپ کو نعم العبدل عطا کرے مومن کو ثواب آخرت کی بھی ضرورت ہوتی ہے اس لئے دنیا میں تکلیف پہنچ جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس رنج کے عوض میں راحت ولی سے متمتع کرے۔ آمین۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
(۱۱)پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاۃ۔
آپ کو عنایت نامہ پہنچا۔ درکار خیر حاجت ہیچ استخارہ نیست۔ چونکہ کتاب درحقیقت قرآن شریف کی تفسیر ہے۔ سو اسی طرز سے اجازت حاصل کرنا چاہئے تاکہ طبیعت پر گراں نہ گزرے۔
والسلام ۔ خاکسار
غلام احمد عفی عنہ۔۲۴؍ جولائی ۱۸۸۵ء
(۱۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی مکرمی۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
بعد نماز مغرب و عشاء جہاں تک ممکن ہو درود شریف بکثرت پڑھیں اور دلی محبت او راخلاص سے پڑھیں۔ اگر گیارہ سو دفعہ روز ورد مقرر کریں یا سات سو دفعہ ورد مقرر کریں تو بہتر ہے۔ اللھم صلی علیٰ محمد وعلیٰ آل محمد کما صلیت علیٰ ابراہیم و علیٰ آل ابراہیم انک حمید مجید اللھم مبارک علیٰ محمد علیٰ آل محمد کما بارکت علیٰ ابراہیم وعلیٰ ابراہیم انک حمید مجید۔یہی درود شریف پڑھیں۔ اگر اس کی دلی ذوق اور محبت سے مداومت کی جاوے تو زیارت رسول کریم بھی ہو جاتی ہے اور تنویر باطن او راستقامت دین کے لئے بہت موثر ہے۔ اور بعد نما زصبح کم سے کم سو مرتبہ استغفار دلی تصرع سے پڑھنا چاہئے۔ والسلام۔ بخدمت چوہدری محمد بخش صاحب سلام مسنون۔ میر صاحب نے دعا کے لئے بہت تاکید کی تھی سو کی گئی ہے۔
والسلام ۔ خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲؍ اگست ۱۸۸۵ء
(۱۳) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی منشی رستم علی صاحب۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
مبلغ پچاس روپے مرسلہ آپ کے بدست میاں امام الدین صاحب پہنچ گئے جس قدر آپ نے اور چوہدری محمد بخش صاحب نے کو شش کی ہے۔ خدا وند کریم جلشانہ آپ کو اجر عظیم بخشے اور دنیا او ر آخرت میں کامیاب کرے۔ اس جگہ تادم تحریر ہر طرح سے خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۲۲؍ اگست ۱۸۸۵ء
(۱۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی ۔ سلام علیکم۔
عنایت نامہ پہنچا۔ خدا تعالیٰ آپ کو مکروہات زمانہ سے بچاوے اور خاتمہ بالخیر کرے۔ یہ عاجز آپ کے لئے او رچوہدری محمد بخش صاحب کے لئے دعا میں مشغول ہے۔ خیرو عافیت سے مطلع فرماتے رہیں۔ والسلام۔ اخویم چوہدری محمد بخش صاحب سلام مسنون۔
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۲؍ ستمبر ۱۸۸۵ء
(۱۵)پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ میں انشاء اللہ القدیر دعا کروںگا۔ اللہ تعالیٰ بھائی مسلمانوں پر فضل و رحم کرے اور ان کی خطیات کو معاف فرماوے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
(۱۶) پوسٹ کارڈ
مکرمی۔ سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ سب احباب کے لئے دعا کی گئی اور حوالہ بخدا کیا گیا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۷؍ اکتوبر ۱۸۸۵ء

(۱۷) پوسٹ کارڈ
مکرمی اخویم۔ سلام علیک۔
پیر کے روز یہ عاجز امرتسر سے قریب دوپہر کے روانہ ہو کر لودھیانہ کی طرف جاوے گا۔ اگر اسٹیشن جالندھر پر آپ کی ملاقات ممکن ہو تو عین مراد ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۲؍ اکتوبر ۱۸۸۵ء
(۱۸) ملفوف خط
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
از طرف باللہ الصمد غلام احمد۔ بخدمت اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
مولوی عبدالرحمن صاحب کے لئے دعا کی گئی ہے اللہ تعالیٰ ان کو با مراد کرے۔ آمین ثم آمین۔ اللہ تعالیٰ آپ کو صراط مستقیم پر استقامت بخشے۔ یہ عاجز دعا میں جمیع مومنین بالخصوص اپنے خاص احباب کو یاد رکر لیتا ہے اور فی الحقیقت بڑا مقصود اعظم خوشنودی حضرت مولیٰ کریم ہے جس کے حصول سے مراد دارین حاصل ہو جاتے ہیں۔ سو مومن کی یہی علامت ہے کہ وہ کاہل نہ ہو جائے اور اگر ہمیشہ نہ ہو سکے تو کبھی کبھی برخلاف مرادت نفس کر گزرے تا مخالفت خطوط نفس گزشتہ گناہوں کا کفارہ ہو جائے کہ خد اوند کریم نکتہ نواز ہے اور ایک نیک خیال کا اجر بھی ضائع نہیں کرتا۔ اخویم مکرم میر عباس علی شاہ صاحب کی خدمت میں ایک خط لودہانہ بھیجا گیا ہے۔ رسالہ اگر براہین احمدیہ کی تقطیع پر ہو گا تو اس کے چھپنے کا خرچ بہت زیادہ ہوگا۔ کیونکہ اس تقطیع کے زیادہ صفحات پتھر نہیں چھپ سکتے۔ اسی طرح واقف لوگ کہتے ہیں۔ انشاء اللہ موقع پر آپ کو اگر خد اتعالیٰ نے چاہا تو اطلاع دی جائے گی۔ بخدمت چوہدری محمد بخش صاحب سلام مسنون۔
غلام احمد
یکم دسمبر ۱۸۸۵ء
نوٹ۔ اس مکتوب میں جس رسالہ کاذکر ہوا ہے وہ سراج منیر ہے چودہر ی رستم علی صاحب نے جیسا کہ اس مکتوب سے معلوم ہوتا ہے عرض کیا تھاکہ یہ رسالہ بھی براہین کی تقطیع پر طبع ہو اور انہوں نے اس میں ثواب کے لئے شریک ……ہونے کے لئے عرض کیا تھا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا استغنا اور توکل علی اللہ ملاخطہ ہو۔ آپ نے صاف طور پر لکھا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ نے چاہا تو اطلاع دی جائے گی۔ اس سے آپ کے اخلاص اور صاف دلی پر بھی روشنی پڑتی ہے اگر محض روپیہ جمع کرنا مقصود ہوتا تو لکھ دیتے کہ روپیہ بھیج دو۔ مگر آپ اس کی طرف اشارہ بھی نہیں کیا۔
مکتوب نمبر ۱۸ سے لے کر ملفوف خطوط ہیں مگر نمبر ۲۱ کا رڈ ہے اس کے بعد ۲۳،۲۴ پھر لعایت ۲۸ پوسٹ کارڈ۔ (عرفانی کبیر)
(۱۹) ملفوف خط
از عاجز عائد باللہ الصمد غلام احمد۔ بخدمت اخویم مکرم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنائت نامہ پہنچا۔ آپ کی رویا میں کسی قدروحشت ناک خبر ہے مگر انجام بخیر ہے ۔ ایسی خوابیں بسا اوقات بے اصل نکلتی ہیں اور حدیث شریف میں کہ جو خواب وخواب دل کو خوش کرے وہ رحمن کی طرف اور جو دل کو غمگین کرے وہ شیطان کی طرف سے ہے اور دوسری خواب کے سب اجزاء اچھے ہیں۔ اب تک اس عاجز کو امید نہیں کہ جالندھر میں پہنچ سکے۔ اگر ایام تعطیل میں تشریف لاویں تو بہتر ہے ۔ مگر اول مجھ کو اطلاع دیں۔ بخدمت چوہدری میں بخش صاحب سلام مسنون۔
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۴؍دسمبر ۱۸۸۵ء
(۲۰) ملفوف خط
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ‘ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
عنائت نامہ پہنچا۔ خدوند کریم آپ کو خوش و خرم رکھے۔ حال یہ ہے کہ اس خاکسار نے حسب ایماء خدا وند کریم بقیہ کام رسالہ کے لئے اس شرط سے سفر کا ارادہ کیا ہے کہ شب و روز تنہا ہی رہے اور کسی کی ملاقات نہ ہو اور خداوند کریم جلشانہ‘ نے اس شہر کا نام بتادیا ہے جس میں کچھ مدت بطور خلوت رہنا چاہیئے اور وہ ہوشیار پورہے آپ پر ظاہر نہ کریں۔ کہ بجز چند دوستوں کے اور کسی پر ظاہر نہیں کیا گیا ہے اور آپ بھی اور چوہدری محمد بخش صاحب بھی دعا کریں۔ کہ یہ کام خدا وند جلشانہ‘ جلد انجام پورا کردے۔ والسلام ۔بخدمت چوہدری صاحب سلام مسنون
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۳؍جنوری ۱۸۸۶ء
(۲۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمن الر حیم نحمدہ‘ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی۔ السلام وعلیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
آپ کا کارڈ پہنچ گیا۔ مفصل خط آپ کی خدمت میں ارسال ہوچکا ہے۔ تعجب کہ نہیں پہنچا۔ شاید بعد میں پہنچ گیا ہو۔ اب یہ عاجز دو روز تک انشاء اللہ روانہ ہو گا۔ آپ بھی دعا کرتیں رہیں اور اگر خط پہلا پہنچا ہو تو مجھ کو اطلاع بخشیں زیادہ خیریت ہے۔ والسلام۔ بخدمت چوہدری محمد بخش صاحب سلام مسنون۔
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۶؍ جنوری ۱۸۸۶ء
(۲۲)پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ‘ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی مکرمی اخویم سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ اس وقت روانگی براہ راست ہوشیار وپور تجویز ہو کر کل انشاء اللہ یہ عاجز روانہ ہو جاوے گا۔ آپ بھی دعا کرتے رہیں۔ بخدمت چوہدری محمد بخش صاحب سلام مسنون پہنچے۔ واپسی کے وقت اگر کوئی مانع پیش نہ آیا تو جالندھر کی راہ سے آسکتے ہیں۔
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۸؍ جنوری ۱۸۸۶ء
(۲۳)خط
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ‘ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی۔ رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔
اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
یہ عاجز بروز جمعہ بخیرو عافیت ہوشیار وپور پہنچ گیا ہے اور طویلہ شیخ مہر علی صاحب میں فرد کش ہے آپ بھی دعا کرتے رہیں کہ خد اوند کریم جل شانہ یہ سفر مبارک کرے۔ چوہدری محمد بخش صاحب بعد سلام مضمون واحد ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۶؍جنوری ۱۸۸۶ء
(۲۴)خط
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ‘ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی مکرمی اخویم منشی۔ رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
یہ عاجز ہوشیار پور بخیریت پہنچ گیا ہے۔ یاد نہیں رہا پہلے بھی اس جگہ آکر آپ کو اطلاع دی یا نہیں۔ اس لئے مکرر آپ کی خدمت میں لکھا گیا۔ آپ بھی دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے جلد تر اس کام کو انجام تک پہنچاوے اور یہ عاجز شیخ مہر علی صاحب رئیس کے مکان پر اترا ہے اور اس پتہ سے خط پہنچ سکتا ہے۔ چوہدری محمد بخش صاحب کو سلام مسنون پہنچے باقی خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۲۸؍ جنوری ۱۸۸۶ء
(۲۵) خط
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ‘ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم سلمہ۔ رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ یہ خبر غلط ہے کہ یہ عاجز جالندھر آنے کاارادہ کا ارادہ رکھتا ہے۔ ابھی تک مجھ کو کوئی خبر نہیں کہ کب تک اس شہر میں رہوں اور کس راہ سے جائوں یہ سب باتیں جناب الٰہی کے اختیار میں ہیں۔ افوض امری الی اللہ ھو نعم المولیٰ و نعم النصیر۔ شاید منشی الٰہی بخش صاحب اکائونٹنٹ کچھ انگور اور کچھ پھل کیلا اگر دستیاب ہو گیا لا ہور سے اس عاجز کے لئے آپ کے نام ریل میں بھیجیں سو اگر آیا تو کسی یکہ بان کے ہاتھ پہنچاویں۔ بخدمت چوہدری محمد بخش صاحب کو سلام مسنون۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۱؍ فروری ۱۸۸۶ء
(۲۶) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ‘ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ کچھ چیزیں منشی الٰہی بخش صاحب کو اکائونٹنٹ لاہور آپ کے نام اور چوہدری محمد بخش صاحب کے نام بلٹی کراکر جالندھری کے نام بھیجیں گے۔ آپ براہ مہربانی وہ چیزیں یکہ بان کے ساتھ یا جیسی صورت ہو ہوشیارپور میں اس عاجز کے نام بھیج دیں او راگر آپ دورہ میں ہوں تو چوہدری محمد بخش صاحب کو اطلاع دے دیں۔ زیادہ خیریت ہے۔ والسلام۔ چوہدری محمد بخش صاحب کو سلام مسنون۔
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۳؍ فروری ۱۸۸۶ء
(۲۷) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ‘ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ اب کوئی پہلا اشتہار موجود نہیں۔ اس لئے بھیجنے سے مجبوری ہے اور یہ عاجز آپ کے لئے اکثر دعا کرتا ہے جس کے آثار کی بفضلہ تعالیٰ دین و دنیا میں امید ہے۔ مضمون محمد رمضان کا پنجابی اخبار میں اس عاجز نے دیکھ لیا ہے کہ ناچار فریاد خیز دا ز درد کا مصداق ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۳؍مارچ ۱۸۸۶ء
(۲۸) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ‘ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔
السلام علیکم ورحمۃا للہ وبرکاتہ۔
اب یہ عاجز قادیان کی طرف جانے کو تیار ہے اور انشاء اللہ منگل کو روانہ ہو گا۔ آپ میر صاحب کو تاکید کردیں کہ وہ جلدیںچہارم حصہ براہین احمدیہ اگر سفید کاغذ پر ہوں تو بہتر ورنہ حنائی کاغذ پر ہی سوموار تک روانہ فرمادیں یعنی اس جگہ پہنچ جاویں۔ اور شاید اگر اصلاح ہوئی تو جالندھر کی راہ سے جاویں مگر جلدی ہے توقف نہیں ہو گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۱؍ مارچ ۱۸۸۶ء
(۲۹) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ‘ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی۔ اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
یہ عاجز عرصہ قریب ایک ہفتہ سے قادیان آگیا ہے۔ چند روز بباعث علالت طبع تحریر جواب سے قاصر رہا ہے۔ اب اہتمام رسالہ کی وجہ سے اشد کم فرصتی ہے۔ میری دانست ہے آپ کا رسالہ کے لئے روپیہ بھیجنا اس وقت مناسب ہے۔ جب رسالہ تیار ہو جائے۔ کیونکہ تیاری اس کاتخمینہ معلوم نہیں ہو سکتا او ر انشاء اللہ اب عنقریب چھپنا شروع ہو گا اور میںآپ کے لئے دعا کرتا ہوں کہ خداوند کریم جلشانہ آپ کو ترودات پیش آمدہ سے مخلصی عطا فرماوے آمین ثم آمین۔ بخدمت چوہدری محمد بخش صاحب سلام مسنون۔زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۲؍ مارچ ۱۸۸۶ء
نوٹ۔ یہ رسالہ جس کااس مکتوب میںذکر ہے سرمہ چشم آریہ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہوشیار پور تشریف لے گئے تھے وہاں لالہ مرلی دھر سے مباحثہ ہو گیا۔ اس مباحثہ کو ترتیب دے کر حضرت نے شائع کرنے کاارادہ فرمایا۔ تو چوہدری رستم علی صاحب نے اس کی طبع و اشاعت کے لئے مدد دینے کی درخواست کی تھی۔ اس مکتوب سے جہاںحضرت چوہدری صاحب کے اخلاص پر روشنی پڑتی ہے وہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کے ایک پہلو کا بھی اظہار ہے اگر آپ کو صرف روپیہ لینا مقصود ہوتا تو فوراً لکھ دیتے کہ بھیج دو مگر آپ نے یہ پسند نہیں کیا جب تک رسالہ کاتخمینہ وغیرہ نہ ہو جائے۔ ابتداً حضرت اقدس کا خیال تھا کہ یہ رسالہ چھوٹا سا ہو گا مگر بعد میں جب وہ مطبع میں گیا تو ایک ضخیم کتاب بن گیا۔ (عرفانی)
(۳۰) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ‘ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
خط پہنچ گیا۔ میں آپ کے لئے اکثر دعا کرتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ ان دعائوںکے اثر خواہ جلدی خواہ دیر سے ہوں۔ خواب کے اوّل اجز تو کچھ متوحش ہیں مگر آخری اجزاایسے عمدہ ہیں جن سے سب تو حش دور ہو گیا ہے۔ خواب میں پارچات کو صاف کرنا استقامت اور نجات ازہم و غم اور توبہ خالص پر دلالت کرتا ہے غرض انجام اس کابہت اچھا ہے۔ فالحمد للہ۔
رسالہ کے چھپنے میں اب یہ توقف ہے کہ مالک مطبع اجرت ……مانگتا ہے مگر لاہور سے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ اجرت صرف ……روپیہ ہے۔ سو امید ہے کہ دو چار روز تک بات قائم ہو کر مطبع میں اس جگہ آجائے گا یا کوئی اور مطبع لانا پڑے گا۔ زیادہ خیریت ہے۔ اخویم چوہدری محمد بخش صاحب کو سلام مسنون پہنچے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۵؍ اپریل ۱۸۸۶ء
(۳۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ‘ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم سلمہ تعالیٰ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ کام رسالہ کا تین چار روز تک شروع ہونے والا ہے۔ اسی باعث سے اس عاجز کواس قدر کم فرصتی ہے کہ بیان سے باہر ہے۔ حافظ نور محمد کے فرزند کے لئے بعد پڑھنے خط کے دعا کی گئی۔ اللہ جلشانہ رحم فرمائے آمین۔ اس وقت بباعث ورد سرو علالت طبع طبیعت قائم نہیں۔ اس لئے اسی کفایت کی گئی۔ آپ دعا کرتے رہیں۔ بخدمت چوہدری محمد بخش صاحب سلام مسنون۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۱؍ اپریل ۱۸۸۶ء
(۳۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی۔ السلام علیکم
انشاء اللہ آپ کی بیماری کے لئے دعا کرنا شروع کروں گا۔ آپ کبھی کبھی یاد دلاتے رہیں۔ مگر مضطرب اور بے صبر نہیں ہونا چاہئے۔ بے اذن الٰہی کوی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ یہ بیماری کئی لوگوںکو ہو تی ہے اور اچھے ہو جاتے ہیں۔ اگر حکیم حاذق کی صلاح سے مارالجبن شروع کریں اورسر پر بعض مرطب چیزیں ناک میں ڈالنے والی استعمال ہوں تو انشاء اللہ تعالیٰ قوی فائدہ کی امید ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۶؍ اپریل ۱۸۸۶ء
(۳۳) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
آپ کاعنایت نامہ پہنچا۔آپ کے لئے کئی دفعہ کی ہے اور کی جائے گی۔ کس بات کااندیشہ ہے۔ خداوندکریم جلشانہ قادر مطلق ہے۔ ابتلاء اور غم اور ہم سے ثواب حاصل ہوتا ہے۔ سو ذرہ اندیشہ نہ کریں میں آپ کے لئے بہت دعا کروں گا۔ اگر مزاج میں یبس ہو تو تازہ دودھ بکری کاعلی الصاح ضرور پی لیاکریںاگر موافق آجائے تو بہت عمدہ ہے اور کسی نوع کافکر نہ کریں۔ اب رسالہ کاکام عنقریب شروع ہو گا۔بخدمت چوہدری محمد بخش صاحب سلام مسنون۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۶؍ اپریل ۱۸۸۶ء
(۳۴)پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
رسالہ سرمہ چشم آریہ صرف ہزار کاپی چھپے گا۔ انشاء اللہ القدیر جو شخص ایک دفعہ اس کو دیکھ لے گا۔ ہر کوئی حسب نیت و مذاق دینی اس کو ضرور خریدے گا اور یہ کام بہت تھوڑا ہے۔ اب جلد ختم ہونے والا ہے او ررسالہ سرمہ چشم آریہ تو چار ماہ تک ختم ہو گا۔ اسی رسالہ میں انشاء اللہ القدیر اس کااشتہار دیاجائے گا۔ چوہدری محمد بخش صاحب کوسلام مسنون۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۰؍۱۸۸۶ء

(۳۵) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ۔
میر صاحب کی روانگی کے دوسرے دن روز کا تب آگیا ہے اور رسالہ سرمہ چشم آریہ جو صرف پندرہ یا بیس دن کا کام ہے چھپنا شروع ہوا ہے۔ کیونکہ رسالہ سراج منیر چار ماہ میں چھپے گا اور یہ صرف چند روز کا کام ہے۔ اس لئے اوّل اس سے فراغت کر لینا مناسب سمجھا گیا ہے روز کے روز کاپیاں روانہ ہوتی جاتی ہیں اور کام بفضلہ تعالیٰ ہو رہا ہے آپ کویہ عاجز دعا میں فراموش نہیں کرتا۔ بہر حال فضل الٰہی کی امیدہے۔ والسلام۔ چوہدری صاحب کو سلام مسنون۔ پہنچے۔
نوٹ۔ اس خط کوئی تاریخ نہیں مگر قادیان کی مہر ۱۵؍ جون ۱۸۸۶ء اور جالندھر کی ۱۷؍ جون ۱۸۸۶ء کی ہے۔ اس لئے ۱۵؍ جون ۱۸۸۶ء تاریخ روانگی ہے
(عرفانی)
(۳۶) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی۔ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ۔
انشاء اللہ القدیر اگر زندگی رہی تو رسالہ سرمہ چشم آریہ رمضان مبارک کے آخیر تک چھپ جائے گا۔صرف درمیانی حرج یہ واقع ہو گیا ہے کہ شدت سے بارشیں ہو رہی ہیں چھپے ہوئے ورقے دیر کے بعد خشک ہوتے ہیں۔ بہرحال ا مید کی جاتی ہے کہ رمضان کے گزرنے کے بعد جلد تر شائع ہو گا۔ اس وقت ڈیڑھ سو جلد آپ کی خدمت میں روانہ کروں گا۔ دعا آپ کے لئے کی جاتی ہے۔ مگر یہ دشمن نفس جنگجو ہے اس کی بدیوں کے مقابلہ پر نیکیوں کے ساتھ حملہ کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نیکیوں کی برکت سے بدیوں پر آخر انسان غالب آجاتا ہے۔
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ از قادیان
۲۵؍ جون ۱۸۸۶ء
(۳۷) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃا للہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ استغفار کو بہت لازم پکڑنا چاہئے جب بندہ عاجزی سے اپنے مولیٰ کریم سے معافی اور مغفرت چاہتا ہے تو آخر اس کے گناہ بخشے جاتے ہیں اور اس کے دل کو گناہ کی طرف سے نفرت دی جاتی ہے۔ ا ستغفار کی حقیقیت یہ ہے کہ انسان رو کر اور تضرع سے اللہ جلشانہ سے اپنے گناہوں کی معافی چاہے سو استغفار کا کم سے کم یہ اثر ہوتا ہے غضب الٰہی سے بچ جاتا ہے۔ یہ عاجز بھی آپ کے لئے دعا کرتا ہے مگر ترتیب اثر کے لئے جلدی نہیں کرنی چاہئے۔ اس زندگی میں حکمت الٰہی ہے۔ استغفار ہر گز چھوڑنا چاہئے۔ یہ بہت مبارک طریق ہے۔ رسالہ جب تیار ہو جائے گا تو اطلاع دی جائے گی۔ والسلام۔ بخدمت چوہدری محمد بخش صاحب سلام مسنون پہنچے۔
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۳؍ جولائی ۱۸۸۶ء
(۳۸) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی۔ السلام علیکم ورحمۃا للہ وبرکاتہ۔
پہلے اس جگہ کو امرتسر سے کتابوں کا آنا ضروری ہے تا میں ان کی غلطی وغیرہ کو دیکھ لوں گا۔ کیونکہ اکثر ترتیب میں جز ملانے کے وقت کمی و بیشی اوراق کی ہو جایا کرتی ہے۔ سو اس جگہ سے ایک سو تیس کتابیں آپ کی خدمت میں بھیجی جائیں گی۔ جز بندی ہو رہی ہے۔ میں خیال کرتا ہوں کہ ۲۵؍ ستمبر تک آپ کے پاس کتابیں پہنچ جائیں گی۔ زیادہ خیریت ہے۔ والسلام۔ از طرف اخویم میر صاحب عباس علی صاحب کو سلام مسنون پہنچے۔
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۵؍ ستمبر ۱۸۸۶ء
نوٹ۔ اس خط کی مہر سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اقدس اس وقت صدر انبالہ میں تھے۔
(عرفانی)
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
۳۹) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم سلمہ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃا للہ وبرکاتہ۔
آپ کا عنایت نامہ صدر انبالہ میں مجھ کو ملا۔ میں اس جگہ تک اللہ جلشانہ چاہے متوقف ہوں۔ میرا پتہ یہ ہے۔ صدر انبالہ۔ حاطہ ناگ پہنی۔ محلہ گھوسیاں بنگلہ محمد لطیف رسالہ سراج منیر اب انشاء اللہ القدیر بعد رسالہ سرمہ چشم آریہ طبع ہو گا۔ مگر چونکہ اس کی فروخت کے سرمایہ سے طبع رسالہ سراج منیر کی تجویز ہے۔ واللہ علی کل شئی قدیر۔ اس لئے جس قدر جلد اس رسالہ کی فروخت ہو گی اسی قدر جلد تر رسالہ سراج منیر طبع ہو گا۔ آٹھ سو روپیہ جمع تھا۔ وہ سب رسالہ چشم آریہ پر خرچ ہو گیا۔ اس رسالہ میں کچھ تو بوجہ علالت طبع اس عاجز اور کچھ دیگر مواقع سے مطبع وغیرہ سے توقف ہوئی۔ اب یہ رسالہ سرمہ چشم آریہ امید قوی ہے کہ پندرہ روز تک من کل الوجوہ تیارہوکر میرے پاس پہنچ جائے گا۔ چونکہ رسالہ ضخامت میں بہت بڑا ہو گیا ہے او رخرچ بھی اس پر بہت زیادہ ہو اہے اور ابھی وہ سو روپیہ دینا ہے اس لئے قیمت اس کی ۱۲؍ مقرر کی گئی ہے جس زمانہ میں یونہی تخمینہ سے ۴؍ قیمت مقرر کی تھی اس زمانہ میں آپ نے ڈیڑھ سو رسالہ کا فروخت کرنا اپنے ذمہ لیا تھا۔ پس اس حساب سے ……کا رسالہ آپ کے ذمہ فروخت کرانا ہے۔ لیکن اس سے قطع نظر کر کے اگر آپ محض اللہ پوری پوری کوشش کریں اور جہاں تک ممکن ہو رقم کثیر جمع کرنے میں سعی مبذول فرماویں۔ تو نہایت ثواب کی بات ہے۔ مجنملہ اس کے پانچ سو روپیہ منشی عبدالحق صاحب اکائنٹنٹ شملہ کا ہے جو بطور قرضہ طبع رسالہ کے لئے لیا گیا۔ اور تین سو روپیہ کاچندہ ہے۔اس میں بہت کوشش کرنی چاہئے۔ تا سراج منیر کی طبع میں توقف نہ ہو۔ امید ہے کہ یہ کوشش موجب خوشنودی رحمن ہو آپ کے رفیق ہندو کو اس رسالہ کا پڑھنا مفید ہے اگر وہ غور سے پڑھے اور نجابت طبع رکھتا ہو او رسعادت ازلی مقدر ہو تو ہدایت پانے کے لئے کافی ہے۔ انشاء اللہ القدیر دعا بھی کروں گا۔ کبھی کبھی یاد دلاتے رہیں۔ میر احافظہ بہت خراب ہے۔ اگر کئی دفعہ کسی کی ملاقات ہو تب بھی بھول جاتا ہوں یاد دہانی عمدہ طریقہ ہے۔ حافظ کی یہ ابتری ہے کہ بیان نہیں کر سکتا۔ واللہ فی کل فعل حکمتہ۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از صدر انبالہ حاطہ ناگ پہنی
(۴۰) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
پختہ ارادہ ہے کہ آخیر نومبر تک یہ عاجز قادیان کی طرف روانہ ہوگا۔ ابھی کوئی دن مقرر نہیں کہ کب تک یہاں سے روانہ ہونا پڑے۔ اگر موقع نکلا تو انشاء اللہ القدیر اطلاع دی جائے گی۔ اللہ جلشانہ اس اخلاص اور خدمت کا آپ کو بہت اجر بخشے۔ شیخ مہر علی شاہ نسبت ضرور قادیان میں ۲۶؍ اپریل ۱۸۸۶ء میں ایک خطرناک خواب آئی تھی جس کی یہی تعبیر تھی کہ ان پر ایک بڑی بھاری مصیبت نازل ہوگی۔ چنانچہ انہی دنوں ان کواطلاع بھی دی گئی تھی۔ خواب یہ تھی کہ ان کی فرش نشت کوآگ لگ گئی اور ایک بڑا تہکہ برپا ہوا اور ایک پرہول شعلہ آگ کا اٹھا او رکوئی نہیں تھا۔ جو اس کوبجھاتا۔ آخر میں میںنے بار بار پانی ڈال کر اس کو بجھا دیاپھر آگ نظر نہیںآئی مگر دھواں رہ گیا۔مجھے معلوم نہیں تھا کہ کس قدر اس نے آگ جلا دی۔ مگر ایسا ہی دل گزرا کہ تھوڑا نقصان ہوا۔ یہ خواب تھی۔ یہ خط شیخ صاحب کے حوالات میں ہونے کے بعد ان کے گھر سے ان کے بیٹے کوملا۔ پھر بعد میں اس کے بھی ایک دو خواب ایسے ہی آئے جن میں اکثر حصہ وحشت ناک اور کسی قدر اچھا تھا۔ میں تعبیر کے طور پر کہتا ہوں کہ شاید یہ مطلب ہے کہ درمیان میں سخت تکالیف ہیں اور انجام بخیر ہے مگر ابھی انجام کی حقیقت مجھ پر صفائی سے نہیں کھلی۔ جس کی نسبت دعوے سے بیان کیا جائے واللہ اعلم باالصواب۔ شیخ صاحب فی الحقیقت سپرد ششن ہو گئے۔ انا للہ وا نا الیہ راجعون۔ میں ان کی نسبت بہت دعا کرتا ہوں اور ان کے عزیزوںکو بھی تسلی کے خط لکھے ہیں۔ اگر کوئی امر صفائی سے منکشف ہوا تو آپ کو اطلاع دوں گا۔ آپ بھی دعا کریں۔ والسلام چوہدری محمد بخش صاحب و مولوی امام الدین صاحب و عطاء اللہ خاں صاحب کو سلام مسنون۔ اگر ملاقات ہو تو پہنچا دیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ صدر انبالہ
(۴۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی مکرمی اخویم سلمہ۔ بعد سلام مسنون۔
عنایت نامہ پہنچا۔ آپ کو ہر طرح اختیار ہے جس جو چاہیں مفت دیں اور اگر ممکن ہو تو پانچ جلد عمدہ خوبصورت اسی نمونہ کی جو میں نے دکھلایا تھا تیار کرا کر ساتھ آویں یا بھیج دیں۔ زیادہ خیریت ہے چوہدری محمد بخش صاحب کو سلام مسنون۔
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۷؍ اکتوبر ۱۸۸۶ء
(۴۲) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم سلمہ تعالیٰ۔ بعد سلام مسنون۔
یہ عاجز قادیان پہنچ گیا ہے اور یہ بات اطلاعاً لکھنا مناسب ہے کہ آں مکرم اس روپے سے جوبابت قیمت کتاب جمع ہو گا۔ ……۱۵۰ نقد بخدمت بابو الٰہی بخش صاحب اکائنٹنٹ لاہور پہنچا دیں۔ وہ سرمایہ رسالہ کے لئے جمع کر لیں گے۔ پتہ یہ ہے۔ بمقام لاہور انار کلی۔ پبلک ورکس۔ بابو الٰہی بخش صاحب اکوئنٹنٹ اور باقی روپیہ براہ مہربانی اس جگہ پہنچا دیں اور سب طرح سے خیریت ہے۔ بخدمت چوہدری محمد بخش صاحب سلام مسنون۔
راقم خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
نوٹ۔ یہ خط غالباً ۲۵؍ نومبر کے بعد کا ہے۔ عرفانی۔
(۴۳)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی ومکرمی اخویم رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
عنائت نامہ پہنچا یہ عاجز ۲۵؍نومبر ۱۸۸۲ء سے قادیان پہنچ گیا ہے آپ برائے مہربانی اس روپیہ سے …روپیہ بابو الٰہی بخش صاحب کے نام لاہور پہنچا دیں کہ وہ رسالہ کے لئے بابو صاحب کے پاس جمع ہوگا اور باقی روپیہ اس جگہ ارسال فرمادیں اور ہمیشہ خیرو عافیت سے مطلع فرماتے رہیں چوہدری محمد بخش صاحب کو سلام مسنون پہنچے ۔ والسلام۔
خاکسار
غلام احمد
از قادیان
ضلع گورداسپور
یکم دسمبر ۱۸۸۶ء
(۴۴) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
عنایت نامہ پہنچا۔ شیخ مہر علی صاحب کی نسبت میں نے بہت دعائیں کی ہیں اور …بہر حال علی طور پر امید رحمت الٰہی ہے۔ اور بہت چاہا کہ صفائی سے ان کی نسبت منکشف ہو مگر کچھ مکروہات اور کچھ اثار نظر آئے۔ اگر اس کی تعبیر اسی قدر ہو کہ مکروہات اور شدائد جس قدر بھگت چکے ہوں ان کی طرف اشارہ ہو۔ انجام بخیر کی بہت کچھ امید ہے۔ اور دعائیں بھی ازحدہوچکی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے حال پر رحم کرے ۔ آمین ثم آمین ۔ اور جوآپ نے نیت کی ہے اگر ضرورت ہوتو چار ماہ کے لئے بطور قرضہ سو یا دوسو روپیہ دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس نیت کا اجر بخشے۔ اگر کسی وقت ایسی ضرورت پیش آئے گی ۔ تو آپ کو اطلاع دوںگااور خود اس عاجز کا ارادہ ہے کہ جو امور ہندوؤں کے ویدسے بطور مقابلہ طلب کئے گئے ہیں۔ وہ بطور حق براہین ہیں۔ ابلاغ پائیں۔ اور اللہ جلشانہ‘ توفیق بخشے کہ تاہم ان سب امور کو انجام دے سکیں۔ بخدمت چودھری محمد بخش صاحب وجمیع احباب کو سلام مسنون پہنچے اورجس وقت آپ قادیان تشریف لاویں ایک شیشی چٹنی سرکہ کی ضرور ساتھ لاویں۔
نوٹ:یہ مکتوب حضرت کے اپنے قلم سے لکھا ہوا ہے مگر آپ حسب معمول اس پر اپنا نام نہیں لکھ سکے۔ تاریخ بھی درج نہیں سلسلہ خطوط سے دسمبر ۱۸۸۶ء کا پایا جاتا ہے ۔عرفانی
(۴۵)پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
آج آپ کا کارڈ مجھ کو ملا میں نے سنا ہے مولوی صاحب نے کچھ ریویو رسالہ سرمہ چشم آریہ پر لکھا ہے ابھی میرے پاس پہنچا۔ سنا جاتا ہے کہ ابھی وہ رسالہ چھپنا ہے۔ جب میرے پاس پہنچے شاید پندرہ روز تک پہنچے توا نشاء اللہ آپ کی مقرر یادہانی سے بھیج دوں گا۔ چودھری صاحب کو سلام مسنون پہنچے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۲۰؍دسمبر ۱۸۸۶ء
والسلام
(۴۶) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی منشی رستم علی خان صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آزبند اور قند جو پہلے آنمکرم نے بھیجے تھے۔ سب پہنچ گئے ہیں۔ امید ہے کہ آج یا کل شیر مال بھی پہنچ جائے گا۔ جزاکم اللہ احسن الجزاء۔ رسالہ سراج منیر کا مضمون تو اب تیار ہے۔ مگر اس کی طبع کے لئے تجویز کر رہا ہوں۔ کیونکہ تخمینہ کیا گیا ہے کہ اس کو چودہ سو روپیہ لاگت ہے۔ اگر کوئی مطبع کسی قدر پیچھے یعنی تین ماہ بعد لینا منظور کرے تو باآسانی کام چل جائے۔اور اشتہار میرے پاس پہنچ جائے ہے۔ فتح محمد خاں صاحب کی غلطی سے کچھ کا کچھ لکھ دیا۔ اب آپ بھی وصولی روپیہ قیمت سرمہ چشم آریہ کابہت جلد بندوبست کریں۔ اور ……روپیہ کی مجھے اور ضرورت ہے وہ میرے پاس بھیج دیں۔ باقی روپیہ منشی الٰہی بخش صاحب کے نام لاہور روانہ کر فرمادیںاور جو آپ نے دو سو روپیہ بطور قرضہ کے دینا تجویز کیا ہے وہ بھی ان کے پاس محفوظ رکھیں کہ اب روپیہ کی ضرورت بہت پڑے گی۔ قیمت رسالہ میں آج تک آپ سے …… پہنچ گئے ہیں اور ……روپیہ آنے سے پورے ……روپیہ ہو جائیںگے۔ شیخ مہر علی صاحب کے لئے بہت دعا کی گئی ہے۔ واللہ غفور الرحیم۔ سندرواس کے لئے تو ہم نے آپ کے کہنے سے بہت دعا کی تھی مگر چونکہ ہندو آخر ہندو ہے اس لئے وفاداری کے شکر گزار ہونا مشکل ہے ۔ آج کل ہندئووں کے جو مادے ظاہر ہو رہے ہیں۔ اس سے عقل حیران ہے ہندئووں میں وہ لوگ کم ہیں جو نیک اصل ہوں۔ ایک خطا۔ دوئم خطا۔ سوئم مادربخطا۔ بخدمت چوہدری محمد بخش صاحب السلام علیکم ۔
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
(۴۷)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ انشاء اللہ القدیر شیخ میر محمد صاحب کے واسطے دعا کروں گا آپ بالفصل پچیس روپیہ بذریعہ منی آرڈر اس جگہ کی ضرورتوں کے لئے ارسال فرما دیں او رباقی روپیہ کی وصولی کا جہاں تک ممکن ہو جلد بندوبست کریں تا وہ روپیہ سراج منیر کے کسی کام آوے اور قند جیساکہ آپ نے ہوشیار پور بھیجا تھا اور دو روپیہ کے شیر مال تازہ تیا رکروا کے ٹوکری میں بند کر کے بذریعہ ریل بھیج دیں او راوّل اس کی بلٹی بھیج دیں اور شیخ صاحب مہر علی صاحب کی صورت مقدمہ سے اطلاع بخشیں۔ سندر داس اس کی کامیابی سے خوشی ہوئی اللہ تعالیٰ اس کو سچی ہدایت بخشے کہ قوم میں سے باہر آنے کے ہرگز حاصل نہیں ہو سکتی۔ واللہ یھدی الیہ من یشاء۔ بخدمت چوہدری محمد بخش صاحب سلام مسنون۔ دو سو روپیہ جو قرضہ لیا جائے گا۔ آپ نے اپنے طور پر تیار رکھیں کہ جب نزدیک یادیر سے اس کی ضرورت ہوئی تو بھیجنے میں توقف نہ ہووے۔
(۴۸) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
شیخ مہر علی صاحب کے لئے میں نے اس قدر دعا کی ہے کہ جس کا شمار اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے۔ اللہ جلشانہ اس کی قدر بخشی کرے۔ کہ وہ کریم و رحیم ہے۔ رونے والوں کو ایک دم ہنسا نہیں سکتا۔ سندر داس کے لئے بھی دعا کی گئی ہے۔ مگر اسے کیوں ایسا مضطر ہوناچاہئے۔ وہ تو ابھی لڑکا ہے اور ابھی وہ بہت وسیع میدان درپیش ہے مجھے معلوم نہیں کہ آپ نے کس قدر روپیہ لاہور میں بھیجا ہے۔اگر کچھ بقیہ آپ کے پاس ہو تو مجھے بعض ضروریات کے لئے منگوانا ضروری ہے۔اس سے جلد اطلاع بخشیں اورنیز معلوم ہوتا ہے کہ قرضہ کی بھی ضرورت پڑے گی۔ سو آپ دو سو روپیہ تک قرضہ کا انتظام کر دیں تو اس قسم کا ثواب بھی آپ کو حاصل ہو گا۔ باقی خیریت ہے۔ مقدمہ شیخ مہر علی صاحب سے اطلاع بخشیں۔
والسلام
(۴۹) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی مکرمی محبی۔ السلام عیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ معہ قصیدہ متبرکہ موصول ہوکر بہت خوشی ہوئی۔ جزاکم اللہ خیرا لجزاء۔ اگر چند بوتل سوڈا واٹر مل سکیں تووہ بھی بھیج دینا۔ یہ قصیدہ انشاء اللہ ورج کتاب کرا دوں گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از لودھیانہ
(۵۰) ملفوف و مختوم
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
کل عنایت نامہ آپ کاپہنچا۔ مگر کوئی کارڈ نہیں پہنچا۔ شیخ مہر علی صاحب کے واسطے جس قدراس عاجز سے ہو سکا۔ دعا کی گئی اور حوالہ بخدا وند کریم و رحیم کیا گیا ۔ اور اس جگہ سب خیریت ہے۔ رسالہ سراج منیر کے طبع میں صرف بعض امور کی نسبت دریافت کرنا موجب توقف ہو رہا ہے۔ جب وہ امور بھی طے ہو جاتے ہیں۔ تو پھر انشاء اللہ القدیر رسالہ کا طبع ہونا شروع ہو جائے گا اور شائد امرتسر میں کسی قدر توقف کرنا ضروری ہو گا۔ اب آپ کی تشریف آواری کی ۲۶؍ دسمبر تک امید لگی ہوئی ہے اور اس جگہ بفضلہ تعالیٰ سب طرح سے خیرییت ہے۔ اخویم چوہدری محمد بخش صاحب سلام مسنون پہنچے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۵؍ دسمبر ۱۸۸۶ء
نوٹ۔ یہ پہلا خط ہے جس پر حضرت اقدس نے تین مہریں لگائی ہیں ایک الیس اللہ بکاف عبدہ۔ کی ہیں اور دوسری اذکر رحمتی کی ہے اور یہ مہریں آپ نے شروع خط میں لگائی ہیں۔(
( عرفانی)
(۵۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی سلمہ تعالیٰ۔ بعد سلام مسنون۔
عنایت نامہ پہنچا۔ سردار کی بات بالکل فضول اور دروغ معلوم ہوتی۔ صحیفہ قدسی بہت مدت سے میرے پاس آتا ہے اور اس کا ایڈیٹر ایک دوست ہے۔ اس میں مجال نہیں کہ کوئی مخالف مضمون چھپے اور آریہ گزٹ قادیان میں آتا ہے اگر ہوتا تو ظاہر ہو جاتا۔ جو مضمون شائع ہوچکا اس کا پوشیدہ کرنا کوئی وجہ نہیں۔ کل اشاعۃ السنہ خدمت میں بھیجا گیا ہے۔ ولیوپی امیل کے کاغذات جو آپ نے بھیجے ہیں وہ بے رنگ ہوکر آئے۔ کسی نے ۵؍ انپر لگا دیا۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ از قادیان
۳۰؍ دسمبر ۱۸۸۶ء
نوٹ۔ صحیفہ قدسی کے ایڈیٹرمولوی عبدالقدوس صاحب مرحوم تھے اور فی الحقیقت حضرت اقدس سے ان کو محبت واخلاص تھا۔ مقدمہ کرم دین میں بطور گواہ پیش ہوئے۔ الحکم کے خریدار تھے۔
(عرفانی)
(۵۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد سلام مسنون۔
کل ایک روز خط حاجی ولی اللہ صاحب کی طرف روانہ کیا گیا ہے۔ جس میں ان کو واپسی کی طرف رغبت دی گئی ہے اور جواب طلب کیا گیا ہے جواب آنے پر اطلاع دوں گا۔ مضمون جو آپ لے گئے تھے ضرور چھپوا دیں۔ سندر داس کے لئے انشاء اللہ دعا کروں گا۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۱؍ ربیع الثانی ۱۳۰۴ء
(۵۳) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم سلمہ تعالیٰ۔ اسلام علیکم ورحمۃا للہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا مجھے اس وقت پختہ معلوم نہیں کہ کب تک امرتسر جائوں۔ شاید بیس روز تک جانا ہو۔ بہرحال اس وقت انشاء اللہ خبر دے دوں گا۔ شیخ صاحب کے لئے اس قدر دعا کی گئی ہے بہر حال رحم اللہ جلشانہ کی امید ہے وھو الغفور الرحیم۔ آپ استغفار کو لازم پکڑیں۔ اس میں کفارہ و ثواب ہے التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ۔ سندر داس کے لئے بھی دعا کی ہے۔ واللّٰہ یفعل مایشاء
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ از قادیان
نوٹ۔ خط پر تاریخ نہیں۔ مگر مہر ۴؍ جنوری ۱۸۸۷ء درج ہے۔
(عرفانی)
(۵۴) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی سلمہ تعالیٰ۔ بعد سلام مسنون۔
جیساکہ آپ کو دلی جوش شیخ صاحب کے حق میں ہے ایساہی مجھ کو ہے اور میں نے اس قدر دلی جوش سے دعا ان کے حق میں کی ہے۔ جس کا کچھ اندازہ نہیں رہا۔ اب ہم اس قدر دعائوں کے بعد شیخ صاحب کو اسی ذات کریم و رحیم کے سپرد کرتے ہیں جواپنے عاجز اور گنہگار بندوں کی تفصیرات بخشتا ہے اور عین موت کے قریب دیکھ لیتا ہے۔ واللہ علی کل شئی قدیر حالات سے اطلاع بخشتے رہیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ قادیان
۱۱؍ فروری ۱۸۸۷ء
(۵۵) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ‘۔
اشتہار پہنچااور…روپیہ بھی پہنچ گئے۔ انشاء اللہ القدیر اشتہار دینے والے شرمندہ اور رسوا ہونگے۔ آج کل ہندؤوں کو اپنے قومی تعصب میں بہت کچھ اشتعال ہورہا ہے مگر دروغ کو فروغ تا کجا خودنابود ہوجائیں گے۔ شیخ مہر علی صاحب کے مقدمہ کی تاریخ پہلے آپ نے ۲۲ مارچ ۸۷ء لکھی ہے ۔ کیا پیشی سے پہلے تاریخ منسوخ ہوگئی یا تاریخ سے پہلے مقدمہ پیش ہوگیا۔ اس سے ضرور اطلاع بخشیں۔ چودھری محمد بخش صاحب کو سلام مسنون پہنچے۔
خاکسار
غلام احمدعفی عنہ
۲۲؍فروری ۱۸۸۷ء ازقادیان
(۵۶) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃا للہ وبرکاتہ
پانچ روپیہ کے شیر مال پہنچ گئے ہیں۔ جزاکم اللہ خیرا اور سب طرح سے خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ از قادیان
نوٹ۔ اس پر تاریخ نہیں ہے مگر مہر ۴؍ مئی ۱۸۸۷ء کی ہے۔
(۵۷) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
آج مبلغ پندرہ روپے بابت قیمت کتاب سرمہ چشم آریہ پہنچ گئے۔ رسیدًا اطلاع خدمت ہے باقی سب طرح سے خیریت ہے۔ میں دعا کروں گا۔ اللہ تعالیٰ آپ کا ترود دور فرمائے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۸؍ مارچ ۱۸۸۷ء
نوٹ۔ اس خط پر سندر داس از جالندھر بھی درج ہے جو اس نے خط پہنچنے پر لکھا ہے۔
(عرفانی)
(۵۸) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کے دوست کے لئے بہت دفعہ دعا کی گئی۔ اگر کچھ مادہ سعادت مخفی ہے تو کسی وقت اثر کرے گی۔ ورنہ تہیدست ازل کا کیا علاج آپ کے لئے دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ آپ کو غیروں کی طرف التفات کرنے سے مستغنی کرے۔ واللّٰہ علی کل شئی قدیر۔ رسالہ سراج منیر کاسب اسباب تیار ہے صرف یہ خیال ہے کہ اوّل خریداروں کی مجرو درخواستیں دو ہزار تک پہنچ جائیں پھر چھپنا شروع ہو۔ کیونکہ یہ کام بڑا ہے جس میں دو ہزار کے قریب خرچ ہو گا۔ آپ بھی اطلاع بخشیں کہ ایسے سچے شائق آپ کو کس قدر مل سکتے ہیں۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۱؍ مارچ ۱۸۸۷ء
(۵۹) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
۲۶؍ مارچ ۱۸۸۷ء کو بباعث ضروری کام رسالہ رو ایک یا وہ گو کہ ایک ہفتہ کے لئے جانا پڑا ہے۔ اس لئے اطلاع دیتا ہوں کہ اگر فرصت ہو تو امرتسر میں آپ کی ملاقات ہو جائے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۳؍ مارچ ۱۸۸۷ء
(۶۰) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃا للہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ مجھے کچھ بھی معلوم نہیں کہ کہاں اتروں گا۔ انشاء اللہ وہاں جاکر اطلاع دوں گا۔ اگرچہ میرا پتہ ہال بازار۔ مطبع ریاض ہند میں جاکر شیخ نور احمد سے جو مالک مطبع ہیں۔ بخوبی مل سکتاہے۔ مگر پھر بھی انشاء اللہ امرتسر میں جاکر آپ کو اطلاع دوں گا۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
نوٹ۔ اس خط پر تاریخ درج نہیں ۔ مگر مہر ۲۶؍ مارچ ۱۸۸۷ء کی ہے۔ (عرفانی)
(۶۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
یہ عاجز امرتسر پہنچ گیا ہے۔ شاید پیر منگل تک اس جگہ رہوں مگر بروز اتوار صرف ایک دن کے لئے لاہور جانے کاارادہ ہے۔ اگر آپ تشریف لائیںتو میں کٹرہ مہاں سنگھ میں برمکان منشی محمد عمرداوغہ سابق اتر ہوں۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از امرتسر کٹرہ مہاں سنگھ
۳۰؍ مارچ ۱۸۸۷ء
(۶۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد سلام مسنون ہیں۔
امرتسر سے قادیان آگیا ہوں۔ آپ دوام استغفار سے غافل نہ رہیں کہ دنیا نہایت خطرناک آزمائش گاہ ہے۔ شاید کتاب شحنہ حق آپ کے پاس پہنچی ہے یا نہیں۔ یہ بھی معلوم نہیںکے پہلی کتابوں کی بقیہ قیمت وصول ہوئی یا نہیں۔ اب وہ تمام قیمت جلد وصول ہوجائے تو بہتر ہے۔کہ وقت نزدیک ہے اطلاع بخشیں ۔ میر صاحب جالندھر میں ہیںیا تشریف لے گئے ہیںامرتسر میں آپ کی بہت انتظار ہوتی رہی مگر مرضی الٰہی نہ تھی۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمدعفی عنہ
۸؍اپریل ۱۸۸۷ء
(۶۳)پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الر حمن الر حیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
چونکہ نئے رسالہ شحنہ حق کی اجرت وغیرہ ادا کرنا ہے اور اس جگہ روپیہ وغیرہ نہیں ہے۔ اس لئے مکلف ہوں۔ کہ آپ مجھ کو بیس …روپیہ بھیج دیں اور حساب یاداشت میں لکھتے رہیں یعنی جس قدر آپ نے متفرق بھیجا ہے۔ا س کو آپ اپنی یاداشت میں تحریر فرماتے جاویںاور اب وصولی روپیہ اور تصفیہ بقایا کی طرف توجہ فرماویں ۔ کہ اب روپیہ کی بہت ضرورت پڑے گی۔ بڑا بھاری کام سر پر آگیا ہے۔ آپ کی ملاقات اگر کبھی ہوتو بہتر ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
نوٹ:۔تاریخ درج نہیں ڈاک خانہ کی مہر قادیان ۱۱؍اپریل ۱۸۸۷ء ہے۔ عرفانی
(۶۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الر حمن الر حیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
رسالہ ماہوار کی قیمت بہت ہلکی اور خفیف رکھنا مصلحت سمجھا گیا ہے مگر رسالہ کے نکلنے پر معلوم ہو جاوے گا۔ آپ کی ہمدردی دینی معلوم کرنے سے باربار آپ کے لئے دعا نکلتی ہے کہ خداوند کریم جلشانہ‘آپ کو محمود الدنیاو العاقبت کرے۔ یہ نہایت خوشی کی بات ہے کہ آپ نے دوسو رسالہ سراج منیر اپنے ذمہ لے لیا ہے۔ جزاکم اللّٰہ خیرا۔ ملاقات کو دل چاہتا ہے ۔اگر آپ کو کسی وقت فرصت ملے تو اول اطلاع بخشیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۱۸؍اپریل ۱۸۸۷ء
نوٹ:۔اس مکتوب میں جس رسالہ کا ذکر حضرت اقدس نے کیا ہے اس سے مرادقرآنی صداقتوں کا جلوہ گاہ ہے جوآپ ماہوار جاری فرمانا چاہتے تھے اس کا اعلان آپ نے شحنہ حق میں بھی فرمایاتھا ۔ مگر بعد کے واقعات اور حالات نے حضور کو اور طرف متوجہ کردیا۔ پھر ایک زمانہ میں نورالقرآن آپ نے شائع کرنا شروع فرمایا چونکہ یہ رسائل کسی تجارتی اصول پر جاری نہیں کرنے چاہے تھے اس لئے دونمبروں کے بعد یہ رسالہ بند ہوگیاہے۔ مگر خداتعالیٰ نے آپ کے مقاصد و منشاء کی اشاعت سے سامان اخبارات و رسالہ جات کی صورت میں کردیئے جو آج کئی زبانوں میں جاری ہیں۔ عرفانی۔
(۶۵) ملفوف
بسم اللّٰہ الر حمن الر حیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ۔
آپ کا عنایت نامہ پہنچا ۔دعا کی گئی ۔ مجھ کو بباعث علالت طبعیت خود کم فرصتی بھی ہے۔ اب میں آپ سے ایک ضروری امر میں مشورہ لینا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ بوجہ چند در چندو جہوں کے دوسری جگہ کتابوں کے طبع کرانے سے میری طبعیت وق آگئی ہے۔ میرا ارادہ ہے کہ اپنا مطبع تیارکرکے کام سراج منیر و دیگر رسائل کا شروع کرادوں اگر مطبع میں کچھ خسارہ بھی ہوگا۔ تو ان خساروں کی نسبت کم ہوگا۔ جو مجھے دوسرے لوگوں کے مطبع سے اٹھانے پڑتے ہیں۔ لیکن تخمینہ کیا گیا ہے کہ اس کام کے شروع کرانے میں تیرہ چودہ سو روپیہ خرچ آئے گا۔ جس میں خرید پریس وغیرہ بھی داخل ہے اور آپ نے اقرار کیا تھا کہ ہم تین ماہ کے عرصہ کے لئے دوسو روپیہ بطور قرض دے سکتے ہیں۔ سو اگر آپ سے یہ ہوسکے اور آپ کسی طور سے یہ بندوبست کرسکیں کہ چارسو روپیہ بطور قرضہ چھ ماہ کے لئے تجویز کرکے مجھ کو اطلاع دیں تو میں جانتا ہوں کہ اس میں آپ کو بہت ثواب ہوگا۔ اگر خداتعالیٰ چاہے تو چھ ماہ کے اندر ہی یہ قرضہ ادا کرادے لیکن چھ ماہ کے بعد بلاتوقف آپ کو دیا جائے گا اس کا جواب آپ بہت جلد بھیج دیں۔ کچھ تعجب نہیں کہ آپ ہاتھ پر خداتعالیٰ نے یہ خیر مقدر کی ہو۔ اگر میں سمجھتا کہ آپ اِدھر اُدھر سے لے کر کچھ اور زیادہ بندوبست کرسکتے ہیں تو میں آپ آٹھ سَو روپیہ کے لئے آپ کو لکھتا مگر مجھے خیال ہے کہ گو آپ اپنے نفس سے اللہ رسول کی راہ میں فدا ہیں۔ مگر آجکل دوسرے مسلمان ایسے ضعیف ہورہے ہیں کہ ان کے پاس قرضہ کا بھی نام لیا جائے تو ان کی طبع میں قبض شروع ہوجاتا ہے۔ جو اب سے جلد تر اطلاع بخشیں۔ شیخ مہر علی صاحب کے مقدمہ کی نسبت اگر کچھ پتہ ہو تو ضرور اطلاع بخشیں۔ زیادہ خیریت ہے ۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۱۱؍مئی ۸۷ء
نوٹ:۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۸۸۷ء میں ارادہ فرمایا کہ قادیان میں ایک مطبع جاری ہو مگر مشیت ایزدی نے اس وقت اس کے لئے سامان پیدا نہ دیئے۔ اس کے بعد مختلف اوقات میں قادیان میں پریس منگوایا گیا مگر وہ کام کرکے واپس چلاجاتا رہا۔ آخر بالا استقلال خدا تعالی نے یہاں مطبع کا سامان مہیا کردیا۔ خاکسار عرفانی نے مشین پریس قائم کیا جواب ضیاء الاسلام پریس میں کام کرتا ہے۔ حضرت کے ہرارادہ کی خداتعالیٰ نے تکمیل کردی۔ گو لوکان بعد حین ہوئی مگر پریس آپ کی زندگی میں ہی اور اخبارات ورسائل بھی آپ کی زندگی میں جاری ہوگئے یہ منشاء الٰہی تھا اور پورہوکررہا۔ اس مکتوب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چودھری صاحب کے خدا تعالیٰ کی رہ میں فدا ہونے کا اظہار فرمایا ہے جو حضرت چودھری صاحب رضی اللہ عنہ کے کمال اخلاص اور اس کے نتیجہ میں کامل فلاح پانے کا ثبوت ہے۔ (عرفانی)
(۶۶) ملفوف
بسم اللّٰہ الر حمن الر حیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
آج آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔مولوی غلام محی الدین کے لئے میں نے کئی دفعہ دعا کی ہے اور اللہ تعالیٰ ان کو تروّدات سے مخلصی بخشے اب مجھ کو نہایت جلد اسبات کی ہے کہ جس طرح ہوسکے اپنے کام کو شروع کروں جن پر کسی قدر امید پڑتی ہے قرضہ کے لئے لکھ دیا ہے اور سب کو لکھا گیا ہے کہ بعد طبع سراج منیر ایک برس کے وعدہ پر قرض دیں۔ آپ کے مانند چارپانچ آدمی ہیں اورچودہ سو روپیہ ……کے قرضہ کا بندوبست کرنا ہے آپ مجھ کو بہت جلد اطلاع دیں کہ آپ ٹھیک اس وعدہ پر کس قدر قرضہ کابندوبست کرسکتے ہیں تا میں روپیہ کومنگوانے کے لئے کوئی تجویز کروں اور پھر لاہور میں خرید مطبع کے لئے آدمی بھیجا جائے۔ اب یہ کام جلدی کا ہے کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ ماہ مبارک رمضان میں یہ کام شروع ہو جائے۔جس قدر بقیہ کتب ہو وے وہ بھی آپ وصول کر کے جلد بھیج دیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۹؍ شعبان
نوٹ۔ اس خط میں جن مولوی غلام محی الدین صاحب کوذکر ہے وہ مڈل سکول کے ہیڈ ماسٹر تھے خاکسار عرفانی کے بھی استاد تھے عرفانی نے براہین احمدیہ ۱۸۸۷ء میں انہیں صاحب کے پاس دیکھی تھی اور جمال وحسن قرآن نو ر جان ہر مسلمان ہے والی نظم کو اس میں سے نقل کیا تھا سلسلہ احمدیہ میں جیساکہ بعد میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا نام رکھایا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے میرے تعلقات کی ابتداء اسی ۱۸۸۷ء سے ہوتی ہے اور چوہدری علی صاحب مرحوم ہی اسی کے موجب ہیں یہ کتاب چوہدری صاحب ہی کی تھی۔ مولوی غلام محی الدین صاحب کوحضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ابتداً ارادت و عقیدت تھی مگر افسوس ہے کہ وہ بیعت میں داخل نہ ہو سکے۔
(عرفانی)
(۶۷) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم ۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی مکرمی۔ اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔
شیخ مہر علی صاحب کی نسبت اب تک کوئی خبر نہیں آئی کہ بریت پاکر بخیرو عافیت گھر پہنچ گئے۔ اگر آپ کو خبر ہو تو برائے مہربانی اطلاع بخشیں۔ قرضہ کی بابت تجربہ کار لوگوں سے دریافت کیا گیا۔ تو انہوں نے اس تجویز کی تجسس کی لیکن یہ کہا کہ جس حالت میں انہیں کتابوں کی فروخت سے قرضہ اتارا جائے گا۔ تو اس صورت میں کم سے کم ادائے قرضہ کی میعاد ایک سال ہونی چاہئے۔ کیونکہ سراج منیر پانچ مہینہ سے کم نہیں چھپے گا۔ اس لئے میں نے کلاً علی اللہ بعض دوستوں کو لکھا ہے او رمیرا ارادہ ہے کہ اگر قرضہ کا بندوبست حسب و لخواہ ہو جائے تو بہت جلد اس کام کو شروع کروں۔ آپ کو میں نے چھ ماہ کے وعدہ کے لئے خط لکھا تھا۔ مگر درحقیقت وعدہ ایک سال بہت خوب ہے اگر آپ متحمل ہوسکیں۔ توا س ثواب کے لئے میں عین جدوجہد کریں۔میرا ارادہ ہے کہ رمضان شریف میں یہ کام شروع ہو جائے۔ آیندہ جو ارادہ الٰہی ہو۔ مجھے اس زبانی یاد نہیں کہ آپ نے کتابوں کی قیمت میں کیا کچھ ارسال فرمایا تھا اور کیاباقی ہے بہرحال جوکچھ باقی ہے اب اس موقعہ میں جہاں تک جلدی ممکن ہو بھیجنا چاہئے اور نیز اس قرضہ کی بابت جو اس میعاد کے لئے ہو ممکن ہو جیسی مرضی ہو اطلاع دینی چاہئے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۲۹؍ مئی ۱۸۸۷ء
(۶۸) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم ۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی۔ اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ جو کچھ آپ نے ایک سال کے وعدہ پر سو روپیہ دینا کیا ہے۔ اس سے بہت خوشی ہوئی ۔ لیکن اس بات کوبھی اپنے لئے گوارہ کر لیں کہ یہ وعدہ اس تاریخ سے ہو کہ جب سراج منیر چھپ کر تیار ہو جائے۔ کیونکہ سراج منیر کی چھپائی کا کام پانچ یا چھ ماہ تک ختم ہو گا۔ چونکہ یہ روپیہ سراج منیر ہی کی فروخت سے نکالا جائے گا اس لئے صرف چھ ماہ تک ایک خطرناک عہد ہے۔ ایسا ہونا چاہئے کہ ایک سال پر چھ ماہ اور زائد کئے جائیں۔ بقیہ فروخت کتب کا جو رپیہ ہے اگر وہ آپ بہت جلد ساتھ لاویں تو آپ کی ملاقات بھی ہو جائے بہت خوشی کی بات ہے اگر آپ آویںتو ……روپیہ کی شکر جو عمدہ ہو اور نیز ایک بوتل چٹنی کی اور دو شیر مال میرے حساب میں خرید کر ساتھ لاویں ا ور اگر جلدتر آنا ہو ممکن ہو توبقیہ روپیہ فروخت کتب کا بذریعہ منی آرڈر بھیج دیں۔ لیکن جلد آنا چاہئے۔ کیونکہ مجھے اس وقت روپیہ کی بہت ضرورت ہے اور نیز میرا ارادہ ہے۔ اگر خداتعالیٰ چاہے تو پختہ ارادہ ہے کہ اسی ماہ رمضان میں جوبہت مبارک ہے یہ کام شروع کیا جائے۔ سو اگر آپ تشریف لائیں تو بعض امور کا مشورہ آپ سے لیا جائے۔ اگر ممکن ہو تو مکرمی اخویم میر عباس علی صاحب بھی ساتھ آجائیں توبہتر ہو میر صاحب سے استصواب کر لیں۔ یہ کام بہت عظم الشان ہے۔ دوستوں کامشورہ اس میں بہتر ہے اور بعض مشورہ طلب امور بھی ہیں۔ آپ پہلے آنے کی پختہ گنجائش نکال کر پھر میر صاحب کولکھیں۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۲۹؍ مئی ۱۸۸۷ء
(۶۹) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم ۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ آپ نے جو مخنثون کا گھر آباد دیکھا جو زیوروں سے آراستہ ہیں اس سے مراد دنیا دار ہیں جو دنیا کی آرائشوں میں مشغول ہیں اور جو دیکھا کہ ایک دوست کی تلاش میں دوڑ رہے ہیں اور پرواز بھی کر رہے ہیں اور پھر ملاقات ہو گئی۔ یہ کسی کامیابی کی طرف اشارہ ہے اور دوست کے جگر سے مال مراد ہے جوانسان کو بالطبع عزیز ہوتا ہے اور دشمن کے جگر کا کانٹا اس پر تباہی ڈالتا ہے۔ تلوار ہاتھ میں ہونا فتح و نصرت کی نشانی ہے۔ غرض اللہ تعالیٰ نے وہ کام جو اب درپیش ہیں۔ آپ کو دکھا دیا ہے۔ اس کام میں چند دوستوں کی قرضہ کے لئے تکلیف دی گئی ہے۔ تا دشمنوں کی بیخ کنیکی جائے۔ سو خواب بہت عمدہ ہے۔ میں امید رکھتا ہوں کہ فرصت نکال کر ملاقات کریں۔ ایک اور تکلیف دیتا ہوں اگر ممکن ہو سکے تو اس کے لئے سعی کریں۔ آج کل ماہ رمضان بباعث مہمانداری و مصارف خانگی میں روغن زرد یعنی گھی کی بہت ضرورت در پیش ہے اور اتفاق ایسا ہوا کہ گھی جو جمع تھا سب خرچ ہو گیا اور اردگرد تمام تلاش کیا گیا اچھا گھی ملتا نہیں آخر چھ سات دن کے بعد ہمارا معتبر میاں فتح خاں واپس آیا۔ اگر پانچ روپیہ کا گھی عمدہ کسی گائوں سے مل سکے تو میرے حساب میں ضرور خرید کر ضرور ساتھ لاویں اور وہ دوسری چیزیں بھی جو میں نے لکھی تھیں۔بخدمت چوہدری صاحب کو سلام مسنون۔
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۳۰؍ مئی ۱۸۸۷ء
(۷۰) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم ۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی۔ بعد السلام علیکم۔
اس وقت میں انبالی چھائونی کی طرف روانہ ہوتا ہوں۔ کیونکہ میر ناصر صاحب لکھتے ہیں کہ میرے گھر کے لوگ سخت بیمار ہیں۔ زندگی سے ناامید ہے۔ ان کی لڑکی کی اپنی والدہ سے ایسے وقت میں ملاقات ہونی چاہئے۔ سو میں آج لے کر اسی وقت روانہ ہوتا ہوں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۱۹؍ جون ۱۸۸۷ء
(۷۱) پوسٹ کارڈ
مکرمی اخویم۔ بعد السلام علیکم۔
آم پہنچ گئے۔ اگر دوسری دفعہ ارادہ ارسال ہو تو دو امر کا لحاظ رکھیں۔ ایک تو آم کسی قدر کچے ہوں دوسرے ایسے ہوں جن میں صوف ہو اور جن کا شیرہ پتلا ہو۔ میںنے سندر داس کی شفا اور نیز ہدایت کے لئے دعا کی ہے۔ اطلاعاً لکھا گیا۔
خاکسار
والسلام
غلام احمد از قادیان
۱۶؍ جولائی ۸۷ء
(۷۲) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم ۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم۔
آج ایک ٹوکرہ آموں کاپہنچ گیا۔ جزاکم اللّٰہ خیرا۔ بوجہ شدت حرارت موسم آم جو ٹوکرے کے اندر دبے ہوئے تھے بگڑ گئے۔ اس لئے آموں کی کیفیت سے کچھ اطلاع نہیں ہوئی۔ اگر ٹوکرے میں درخت سے تازہ توڑ کر کسی قدر کچے رکھے جاتے تو غالباً امید تھی کہ نہ بگڑتے۔ دوسری مرتبہ یہ ضرور احتیاط رکھیں میںنے جو آج خواب میں دیکھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہمارے مکان پر موجود ہیں۔ دل میں خیال آیا کہ ان کو کھلائیں۔ آم توخراب ہو گئے ہیں۔ تب اور آم غیب سے موجود ہو گئے۔ واللہ اعلم۔ اس کی کیا تعبیر ہے۔ مولوی حکیم نورالدین صاحب کا آدھا ٹکڑا نوٹ پانچ سو رپیہ کا پہنچ گیا اور ساتھ ہی روپیہ نقد پہنچے اور آدھا ٹکڑا نوٹ کا امید کہ دس روز تک پہنچ جائے گا۔ سندر داس کے لئے انشاء اللہ دعا کروں گا۔ بخدمت چوہدری صاحب کو محمد بخش السلام علیکم۔
الراقم خاکسار
غلام احمد ا ز قادیان
۱۱؍ جولائی ۱۸۸۷ء
(۷۳) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم ۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم۔ بعد السلام علیکم۔
آج اِکیاسی آم مرسلہ آپ کے پہنچ گئے۔ یہ آم بہت عمدہ تھے۔ ان میں سے صرف ایک بگڑا۔ باقی سب عمدہ پہنچ گئے۔ دو آدمیوں کے پاس ضرور آپ دوبارہ تحریک کریں اور جلداطلاع بخشیں کہ اب وقت نزدیک ہے۔ شاید آج دوسرا قطعہ پانچ سو روپیہ کا بقایا آجائے۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۹؍ جولائی ۱۸۸۷ء
عاجز عبداللہ سنوری کا سلام علیک۔
نوٹ۔ منشی عبداللہ سنوری صاحب رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھ سے اس کارڈ پر سلام علیک لکھا ہے۔ (عرفانی)
(۷۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم ۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آم پہنچ گئے۔ آپ نے خالصاً للہ بہت خدمت کی ہے اور دلی محبت اور اخلاص سے آپ خدمت میں لگے ہو ئے ہیں اللہ جلشانہ آپ کوبہت اجر بخشے۔ پاس کا جواب آنے سے مجھ کو آپ اطلاع بخشیں۔ میاں نور احمد خود بخود دہلی چلے گئے۔ مگر پاس د و آدمیوں کے لئے ہونا چاہئے۔ نصف ٹکڑا نوٹ ابھی نہیں آیا۔ فتح خاں و حامد علی کا سلام علیکم۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۱؍ جولائی ۱۸۸۷ء
نوٹ۔ اس کارڈ پر فتح محمد و حامد علی کا سلام علیکم بھی درج ہے۔(عرفانی)

(۷۵) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم ۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آج سولہویں ذیعقد ۱۳۰۴ء ھ بفضلہ تعالیٰ و کرمہ اس عاجز کے گھر لڑکا پیدا ہوا ہے۔ ۲۲ ذیعقد مطابق ۱۳؍ اگست روز عقیقہ ہے۔ اگر کچھ موجب تکلیف وحرج نہ ہوتو آپ تشریف لا کر ممنون احسان فرماویں۔ فقط۔
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور
۷؍ اگست ۱۸۸۷ء
اور چوہدری محمد بخش صاحب کوبھی اطلاع کر دیں۔ سب کاسلام۔ والسلام
نوٹ۔ اس مکتوب میں بشیر اوّل واللہم جعلہ فرطاً کی پیدائش کی آپ نے بشارت دی ہے چونکہ ایک مولود کے متعلق خد اتعالیٰ کی ایک عظیم الشان بشارت برنگ پیشگوئی ہوئی تھی بشیراوّل کے پید اہونے پر حضرت اقدس کا خیال اسی طرف گیا کہ شاید یہی وہ مولود موعود ہو اس کے عقیقہ پر آپ نے بہت سے دوستوں کو دعوت دی تھی او ریہ عقیقہ خدا تعالیٰ کے نشان کے پورا ہونے پر اظہار مسرت و شکر گزاری کا ایک بہترین نمونہ تھا۔ اس کے متعلق تفصیل آپ کے سوانخ حیات میں ہو گی۔ انشاء اللہ العزیز۔ (عرفانی)
(۷۶)پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم ۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعدا لسلام علیکم ۔
دو شطرنجی کلاں اگردو روز کے لئے بطور مستعار مل سکیں توضرور بندوبست کر کے ساتھ لاویں اور پھر ساتھ ہی لے جاویں او رجمعہ تک یعنی جمعہ کی شام تک ضرور تشریف لے آویں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۰؍ اگست ۱۸۸۷ء
(۷۷) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم ۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی۔ رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میں ایک آپ کو نہایت ضروری تکلیف دیتا ہوں۔ امید ہے کہ آپ کے جدوجہد سے یہ کام بھی انجام پذیر ہو جائے گا اور وہ یہ ہے کہ دو روز کے لئے ایک سائبان درکار ہے جوبڑا سائبان ہوخیمہ کی طرح جس کے اندر آرام پاسکیں۔ اگر سائبان نہ ہو تو خیمہ ہی ہو۔ ضرور کسی رئیس سے لے کر ساتھ لاویں۔ نہایت ضروری ہے۔ کیونکہ مکان کی تنگی ہے۔ بہت توجہ کر کے کوشش کریں۔
خاکسار
غلام احمد
۱۰؍ اگست ۱۸۸۷ء
(۷۸) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد سلام مسنون۔
آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ مگر پان نہیں پہنچے۔ حتی المقدر ور آپ ایسا بندوبست کریں پان دوسرے چوتھے روز باآسانی پہنچ جایا کریں اور اب تک جہاں ممکن ہو۔ پان جلدی پہنچا دیں اور دوبارہ آپ کو تاکیداً لکھتا ہوں کہ آپ بڑی جدوجہد سے ڈیڑھ من خام روغن زرد عمدہ جمعہ تک پہنچا دیں اور ……۳۰ روپیہ نقد ارسال فرما دیں اور شاید قریباً یہ ……یا ……روپیہ ہوں گے آپ اس میں جہاں تک ہو سکے بڑی کوشش کریں اور عقیقہ کی ضیافت کے لئے تین بوتل عمدہ چٹنی کی اور بیس ثار آلو پختہ اور چار ثار اربی پختہ اور کسی قدر میتھی و پالک وغیرہ ترکاری اگر مل سکے ضرور ارسال فرمادیں۔ یہ بڑا بھارا اہتمام عقیقہ کا میں نے آپ کے ذمہ ڈال دیا ہے۔ بہتر ہے کہ آپ تین روز کی رخصت لے کر معہ ان سب چیزوں کے جمعہ کی شام تک قادیان میں پہنچ جائیں کیونکہ ہفتہ کے دن عقیقہ ہے۔ اگر چوہدری محمدبخش صاحب کو بھی ساتھ لاویں تو بہت خوشی کی بات ہے۔ مگر آپ تو بہرحال آویں اور اوّل تو چار روز کی ورنہ تین دن کی ضرور رخصت لے آویں۔ میں نے سندر داس اس کیلئے بہت دعا کی ہے اور نیز مراد علی صاحب بھی اس تقریب میں تشریف لاویں توعین خوشی ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمدعفی عنہ
نوٹ۔ اس خط پر تاریخ درج نہیں مگر سلسلہ بتاتا ہے کہ اگست ۱۸۸۷ء کاخط ہے مولوی مراد علی صاحب جالندھری مشہور آدمی تھے۔ (عرفانی)
(۷۹) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد سلام مسنون۔
اس وقت ایک نہایت ضروری خیمہ سائبان کی پیش آئی ہے کیونکہ معلوم ہوتا ہے کہ مہمان عقیقہ کے روز اس قدر آئیں گے کہ مکان میں گنجائش نہیں ہوگی۔ یہ آپ کے لئے ثواب حاصل کرنے کا عمدہ موقعہ ہے۔ اس لئے مکلف ہوں کہ ایک سائبان معہ قنات کسی رئیس سے بطور مستعار دو روز کے لئے لے کر جیسے سردار چیت سنگھ ہیں ضرور ساتھ لاویں۔ بہرحال جدوجہد کر کے ساتھ لاویں۔ نہایت ضروری تاکید ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۱۰؍ اگست ۱۸۸۷ء
مگر یہ ایک سائبان فراخ معہ قنات کے جو اردگرد اس کے لگائی جائے تلاش کر کے ہمراہ لاویں۔
(۸۰)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس سے پہلے روغن زرد کے لئے آپ کی خدمت میں لکھا گیا تھا۔ اس جگہ کچھ بندوبست نہیں کیا گیا۔ لیکن دل میں اندیشہ ہے کہ شاید وہ خط نہ پہنچا ہو۔ کیونکہ آپ کی طرف سے کوئی اطلاع نہیں آئی کہ خریدار گیایا نہیں اور وقت ضرورت روغن کابہت ہی قریب آگیا ہے اور روغن کم سے کم ڈیڑھ من خام ہونا چاہئے اوراگر دو من خام ہو تو بہتر ہے۔ کیونکہ خرچ بہت ہو گا۔ چونکہ یہ کام تمام آپ کے ذمہ ڈال دیا گیا ہے۔ اس لئے آپ ہی کو اس کافکر واجب ہے۔ اگر خدانخواستہ وہ خط نہ پہنچا ہو تو اس جگہ جلدی سے بندوبست ہونا محال وغیرہ ممکن ہے اس صورت میں لازم ہے کہ آپ دو من خام روغن امرتسر سے خرید کر کے ساتھ لاویں۔ خواہ کیسا ہی ہو آپ کا حرج ہو اس میں تساہل نہ فرماویں اور مناسب ہے کہ چوہدری محمدبخش صاحب بھی ساتھ آویں اور دوسرے جس قدر آپ کے احباب ہوں۔ ان کو بھی ساتھ لے آویں اورسب باتیںآپ کو معلوم ہیںاعادہ کی حاجت نہیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان گورداسپور
(۸۱) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کل میاں نور احمد نے صاف جواب بھیجا ہے کہ مجھے قادیان میں مطبع لے کر آنا منظور نہیں اور نہ میں دہلی جاتا ہوں اور نہ شرح مجوزہ سابقہ پر مجھے کتاب چھاپنا منظور ہے اس لئے بالفضل تجویز پاس کی غیر ضروری ہے لوگ ہر ایک بات میں اپنی دنیا کا پورا پورا فائدہ دیکھ لیتے ہیں بلکہ جائز فائدہ سے علاوہ چاہتے ہیں دیانت اور انسان کا ذکر کیا ایسا بد دیانت بھی کم ملتا ہے جو کسی قدر بد دیانتی ڈر کر کرتا ہے۔ اب جب تک کسی مطبع والے سے تجویز پختہ نہ ہوجائے خود بخود کاغذ خریدنا ناعبث ہے۔ میاں عبداللہ سنوری تو بیمار ہو کر چلا گیا۔ میں فتح خان کا بھائی بھی بیمار ہے اور اس جگہ بیماری بھی بکثرت ہو رہی ہے۔ ہفتہ عشرہ میں جب موسم کچھ صحت پر آتا ہے تو لاہور یا امرتسر جا کر کسی مطبع والے سے بندوبست کیاجائے گا پھر آپ کو اطلاع دی جائے گی۔
ایک ضروری بات کے لئے آپ کوخود تکلیف دیتا ہوں کہ میرے پاس ایک آدمی حافظ عبدالرحمن نام موجود ہے وہ نوجوان اور قد کاپورا اور قابل ملازمت پولیس ہے بلکہ ایک دفعہ پولیس میں نوکری بھی کر چکا ہے اور اس کاباپ بھی سارجنٹ درجہ اوّل تھا جو پنشن یاب ہو گیا ہے۔ اس کامنشاء یہ ہے جوپولیس سے کنسٹبل بھی ہو جائے تو از بس غنیمت ہے ایک سند ترک ملازمت بھی بطور صفائی اس کے پاس ہے عمر تخمیناً بائیس سال کی ہے۔اگر آپ کی کوشش سے وہ نوکری ہو سکتا ہے تو مجھے اطلاع بخشیں کہ اس کو آپ کی خدمت میں روانہ کر دوں اور جلد اطلاع بخش دیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۹؍ اگست ۱۸۸۷ء
(۸۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
پہلے اس سے روغن ررو کے لئے لکھا گیا تھا کہ ایک من خام ارسال فرماویں۔سو اس کی انتظار ہے۔ کیونکہ اس کی بہت ضرورت ہے۔ دوسری یہ تکلیف دیتا ہوں کہ ایک خادم کی ضرورت ہے۔ قادیان کے لوگوں کا جال دگر گون ہے۔ ہمارا یہ منشاء ہے کہ کوئی باہر سے خادم آوے۔ جو طفیل وزراد کی خدمت میں مشغول رہے۔ آپ ا س میں نہایت درجہ سعی فرماویں کہ کوئی نیک طبیعت اور دنیدار خادم جو کہ قدر جوان ہو مل جائے اور جواب سے مطلع فرمائیں۔
خاکسار
غلام احمد
۲۱؍ اگست ۱۸۸۷ء
(۸۳) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
آپ کا خط پہنچا۔ آپ کے لئے بہت دعا کی گئی ہے۔ جس بات میں فی الحقیقت بہتری ہو گی۔ وہی بات اللہ تعالیٰ آپ کے لئے اختیار کرے گا۔ انسان نہیں سمجھ سکتا کہ میری بہتری کس بات میں ہے۔ یہ میرا سرار فقط خدا تعالیٰ کو معلوم ہیں سو قوی یقین سے اس بھروسہ رکھنا چاہئے۔ روغن زرد ایک تک نہیں پہنچا۔ اس جگہ بالکل نہیں ملتا۔ اگر آپ ایک من روغن خام تلاش کر کے بھیج دیں توا س وقت نہایت ضرورت ہے اور نیز جیسا کہ میںپہلے میں لکھ چکا ہوں کوئی خادم ضرور تلاش کریں اورپھر تحریر فرمانے پر روانہ کر دیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۲۲؍ اگست ۱۸۸۷ء
(۸۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃا للہ وبرکاتہ
بباعث کثرت آمد مہمانان روغن زرد کی اشد ضرورت ہے او راس جگہ ملتا نہیں اور میاں عبداللہ سنوری نے لکھا ہے کہ میں بعد گزرنے عید آئوں گا۔ معلوم نہیں کہ وہ کب آویں گے۔ اس لئے تاکیداً لکھتا ہوں کہ آپ کی بڑی مہربانی ہو گی اگر آپ تین چار روز تک ہی سعی اور کوشش فرما کر روغن زرد ارسال فرمادیں۔اگر ایک من خام جلدی روانہ نہ ہوسکے تو دس پندرہ سیر ہی روانہ کر دیں کہ شاید ایک ہفتہ کے لئے کافی ہو جاوے۔ مگر پھر باقی مطلوب کو بھی متعاقب اس کے جلد روانہ کر دیں۔ نہایت تاکید ہے یہ ایک ضروری امر تھا لکھا گیا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۲۴؍ اگست ۱۸۸۷ ء
(۸۵) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی السلام علیکم۔
میں آپ کے لئے بہت دعا کرتا ہوں او رامید رکھتا ہوں کہ خداوند کریم آپ کے لئے وہی صورت مہیا کرے گا جو بہتر ہے جناب الٰہی پر پورا پورا حسن ظن اور توکل رکھیں۔ روغن زرد جو تازہ اور عمدہ ہو کسی انتظام سے جلد تر روانہ فرماویں اور ساتھ اگر ممکن ہوسکے تو پان بھی بھیج دیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۲۵؍ اگست ۱۸۸۷ء
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
۸۶) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
امید ہے کہ روغن کے لئے آپ نے بہت تلاش کی ہوگی۔اس جگہ پان کی بھی اشد ضرورت ہے اگر کسی طرح باآسانی پہنچ سکیں تو یہ ثواب بھی آپ کو حاصل ہو جائے۔ معلوم نہیں خادمہ ملی یا نہیں۔ اس سے بھی اطلاع بخشیں اور نیز نئے انتظام یا پہلی صورت کے قائم رہنے سے مطلع فرما ویں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۳۰؍ اگست ۱۸۸۷ء
(۸۷) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا میرے نزدیک بہتر ہے کہ آپ بارادہ خود کسی طرف حرکت نہ کریں۔ مشیت الٰہی پر چھوڑ دیں۔ لیکن اگر دل میں بہت اضطراب پیدا ہو جاوے تو تب اختیار ہے کہ آپ ہی سلسلہ جنبانی کریں۔ کیونکہ اضطراب منجانب اللہ ہوتی ہے اور آپ کو معلوم ہوگا کہ دعا میں مجھے فرق نہیں۔ انشاء اللہ تعالیٰ انجام بہتر ہو گا۔روغن زرد و پان پہنچ گئے ہیں۔ پیسے انشاء اللہ کل بوٹے خان صاحب کے پاس بھیج دیئے جائیں گے اور خادم کی اشد ضرورت ہے۔ لیکن آپ اوّل بخوبی معلوم کر لیں کہ وہ نیک چلن او رنیک بخت ہے اور محنتی ہے اور پھر تنخواہ بھی بکفایت ہو۔ اس کے حال سے مفصل اطلاع بخشیں۔ پھر انشاء اللہ طلب کی جائے اور جب خادم آوے تو اس کے ہاتھ بھی پان ارسال فرماویں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۴؍ ستمبر ۱۸۸۷ء
(۸۸) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ بعد السلام علیکم ورحمۃا للہ وبرکاتہ۔
خادمہ کے لئے جو کچھ فتح خان صاحب نے شرطیں لکھی ہیں ان کی تو کچھ ضرورت نہیں۔ صرف نیک بخت اور ہوشیار اور بچہ کے رکھنے کے لائق ہو۔ یہ بات ضرور ہے کہ تنخواہ بہت رعایت سے ہو ۔ گھر میں تین عورتیں خدمت کرنے والی تو اسی جگہ موجود ہیں۔ جن میں کسی کو تنخواہ نہیں دی جاتی۔ اگر یہ عورت تنخواہ دار آئی اور تنخواہ بھی ……روپے تو ان کو بھی خراب کرے گی۔ تو اس کانتیجہ اچھا نہ ہو گا۔ اس ایام قحط میں صرف روٹی کپڑا ایک شریف عورت کے لئے از بس غنیمت ہے۔ جو تین روپے ماہواری بیٹھ جاتا ہے۔ سو اگر ایسی عورت مل سکے تو اس کو روانہ کر دیں۔ بخدمت چوہدری محمد بخش صاحب سلام مسنون۔دعا کی گئی۔
۶؍ستمبر ۱۸۸۷ء
(۸۹) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم سلمہ تعالیٰ۔بعدا لسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مدت ہوئی روغن زرد اورپان پہنچ چکے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ میرا خط ن نہیں پہنچا۔ آپ کی نسبت وہی تجویز میرے نزدیک بھی مناسب ہے جو آپ نے لکھی ہے۔ میں آپ کے لئے اور چوہدری محمد بخش صاحب کے لئے دعا کرتا ہوں۔ اللہ جلشانہ جلد شفاء بخشے۔اس جگہ مینہ روز برستا ہے شاذو نادر کوئی دن خالی نہیں جاتا ہے۔ سو یہی وجہ توقف خرید کاغذ ہے۔ جب کچھ تحفیف بارش ہوئے تب کاغذ کے لئے کوئی اپنا معتبر بھیجا جائے کاپی روانہ کردی گئی ہے۔
والسلام۔خاکسار
غلام احمد از قادیان
۵؍ ستمبر ۱۸۸۷ء
(۹۰) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
حسب تحریر آپ کی آپ کے دوست کے لئے بھی دعا کی گئی ۔ بشیر کے لئے خادمہ کی از بس ضرورت ہے۔ خد اتعالیٰ کرے کہ آپ کو کوئی نیک طبیعت خادمہ مل جائے۔ زیادہ تنخواہ کی تواب بالکل گنجائش نہیں ہے اگر کوئی ایسی خادمہ مل جائے کہ روٹی کپڑا پر کفایت کرے جیسا کہ اس جگہ کی عورتیں کر لیتی ہیں اور پھر شریف بھی ہو تو ایسی کی تلاش کرنی چاہئے اور چونکہ نہایت ضرورت ہے آپ جلدی اطلاع بخشیں۔
والسلام۔خاکسار
غلام احمد۷؍ ستمبر ۱۸۸۷ء
(۹۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میاں عبداللہ سنوری ابھی آنے والے نہیں ہیں اگر آپ ایک مرتبہ کوشش کر کے بقیہ روغن زرد جو ایک من خام سے باقی رہ گیا ہے۔ معہ کسی قدر پان کے بہت جلد ارسال فرماویں تو میرے لئے موجب آرام ہو گا۔ کیونکہ اس جگہ روغن نہیںملتا اور مہمانوں کی آمد بہت ہے اور سندر داس کو ایک ماہ یا دو تین ہفتہ کے لئے اپنے پاس طلب کر لیں۔ پھر اگر مجھے بھی آپ کے ہمراہ ملے تو اچھا ہے۔دعا اس کے لئے کرتا ہوں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۱؍ ستمبر ۱۸۸۷ء
(۹۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ بعدا لسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کاخط پہنچا۔ سندر داس صاحب کی صحت کے لئے دعا کی گی او رکئی دفعہ توجہ دلی سے دعا کی گئی۔ میرے نزدیک بہتر ہے کہ آپ تا ایام صحت اس کا رڑ کی منگوا لو اور اگر ممکن ہو تو مجھ سے ملاقات کرائو کہ جس شخص کو ایک مرتبہ دیکھ لیا ہو اس کی نسبت دعا بہت اثر رکھتی ہے۔ ایک مرتبہ اپنے ساتھ اس کو لے کر آنا اور وہاں سے ضرور طلب کر لو اور بقیہ روغن زرد معہ کسی قدر پان کے بہت جلد بھیج دیں۔ کیونکہ عبداللہ کے آنے میں ابھی دیر معلوم ہوتی ہے۔ خادمہ کی تلاش ضرور چاہئے۔
والسلام
خاکسار
غلام ا حمد
۱۱؍ ستمبر ۱۸۸۷ء
(۹۳) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم
کے بعد روغن زرد کی اشد ضرورت ہے قادیان کے اردگرد س کوس تک ہی تلاش کی گئی ایک ۴؍ روغن بھی ملتا۔ کہتے ہیں کہ ہندئووں کے سرادہ ہیں۔ بنا چاری آپ کو دوبارہ تکلیف دی جاتی ہے کہ برائے مہربانی جلد تر ارسال فرماویں۔ مہمانوں کی آمدو رفت ہے۔ ہمراہ پان بھی اگر آسکیں وہ بھی ارسال فرما ویں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۱۵؍ ستمبر ۱۸۸۷ء
(۹۴)پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم
پان تو پہنچ گئے مگر روغن زرد اب تک پہنچا۔اس کا کیا باعث ہے۔ امید کہ جلدی روانہ فرماویں۔آج ۲۰؍ ستمبر ۱۸۸۷ء تک نہیں پہنچا شاید کل تک پہنچ جائے۔تو کچھ تعجب نہیں۔ بہرحال اطلاعاً لکھا گیا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۲۰؍ ستمبر ۱۸۸۷ء
(۹۵) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی۔ بعدا لسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
روغن زرد اب تک نہیں پہنچا براہ مہربانی جلد تر ارسال فرماویں اور ایک خادمہ محنت کش ہوشیار دانا۔ دیانت دار کی اشد ضرورت ہے اور کا کام یہی ہو گا کہ لڑکا اور لڑکی دونوں کی خدمت میں مشغول رہے۔ چنانچہ مفصل خط بخدمت میر صاحب تحریر ہو چکا ہے۔ آپ براہ مہربانی ایک خاص توجہ اور محنت اور کوشش سے ایسی خادمہ تلاش کر کے روانہ فرماویں۔ تنخواہ جو کچھ آپ مقرر کریں گے۔ دی جائے گی۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۲۱؍ ستمبر ۱۸۸۷ء
(۹۶) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
چونکہ نہایت ضرورت خادمہ امینہ اور دانا اورمحنت کش کی پیش آگئی ہے اس لئے مکرر مکلف ہوں کہ آپ جہاں تک ممکن ہو خادمہ کو بہت جلد روانہ فرماویں اور روغن اب تک نہیں پہنچا ہمدست خادمہ ایک آنہ کے پان بھی روانہ فرماویں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۱۱؍ستمبر ۱۸۸۷ء
(۹۸) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
روغن زرد اب تک نہیں پہنچا۔ پان تو پہنچ گئے ہیں۔ روغن جلد ارسال فرماویں۔ کیا کیا جائے اس جگہ روغن زرد ملتا ہی نہیں۔ اس لئے تکلف دی تھی اور خادمہ کی نسبت آپ جہاں تک ممکن ہے۔ پوری پوری کوشش فرماویں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ا ز قادیان
۲۳؍ ستمبر ۱۸۸۷ء
(۹۸) ……
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی۔ السلام علیکم
ابھی تک ایک خط روانہ ہو چکا ہے۔ اب دوسرا باعث تکلیف وہی ہے کہ میری لڑکی بباعث بیماری نہایت نقیہ اور ضعیف ہورہی ہے۔کچھ کھاتی نہیں ۔ انگریزی بسکٹ جو کہ نرم اور ایک بکس میں بند ہوتے ہیں۔ جن کی قیمت فی بکس ……ہوتی ہے۔ وہ اس کو موافق ہیں۔اب براہ مہربانی ایسے بسکٹ شہر میں ……کو خرید کر ایک بکس ہمراہ خادمہ یا جس طرح پہنچ سکے جلد ارسال فرماویں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۲۶؍ ستمبر ۱۸۸۷ء
(۹۹) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخوم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
چونکہ بلاخادمہ نہایت تکلیف ہے برائے مہربانی جس طرح ہو سکے خادمہ کو روانہ فرماویں۔ سارا پتہ سمجھا دیں۔ ۲؍ کے پان لیتی آوے مگر اس کے پہنچنے میں اب توقف نہ ہو۔ میاں عبداللہ سنوری معلوم نہیں کب آئیںگے ان کاانتظار کرنا عبث ہے۔روغن زرد اب تک نہیں پہنچا۔ معلوم ہوتا ہے کسی جگہ رہ گیا ہے روغن محض قرضہ کے طور پر آپ سے منگوایا ہے محض اس ضرورت سے کہ اس جگہ پیدا نہیں ہوتا تھا۔ آپ روغن وغیرہ کا حساب لکھ کر بھیج دیں۔ تامیں آپ کی خدمت میں قیمت روانہ کر دوں مجھے پان کی بابت بھی نہایت وقت و تکلیف رہتی ہے اگر آپ انتظام کر سکیں تو میں پان کے لئے بھی کسی قدر اکھٹی قمیت بھیج دوں۔ امرتسر آنے جانے میں دس گیارہ آنہ خرچ ہوتے ہیں اور بٹالہ میں پان نہیں ملتا۔ اب برسات گزر گئی اور کاغذ خریدنے کے لئے عبداللہ و نور احمد کو بھیجا جاوے گا۔ اب دو آدمی کے پاس کا بندوبست ہو سکتا ہے۔ اگر ہوسکتا ہے تو کوشش کریں ورنہ کرایہ دے کر روانہ کیا جائے گا زیادہ خیریت۔ والسلام۔ تنخواہ دو روپیہ ماہواری خادمہ کی منظور ہے۔ مگر محنت کش اور دیانتداری شرط ہے۔ کئی عورتیںاس جگہ دن رات بلا تنخواہ کام کرتی ہیںمگر چونکہ نہ محنت کش ہیں۔ نہ دیانیدار۔ اس لئے ان کوہونا نہ ہونا برابر ہے کام نہایت محنت اور جان ہی کا اور ہوشیاری کا ہے۔آپ اس خادمہ کو بخوبی سمجھا دیں تا پیچھے سے کوئی مخفی بات ظہور میں نہ آوے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۲۶؍ ستمبر ۱۸۸۷ء
یہ بات مکرر لکھنے کے لائق ہے کہ خادمہ نہایت درجہ کی دیانتدار اور شریف اور نیک نیت اور نیک بخت اورمتقی چاہئے۔ کیونکہ لڑکا اس کے سپرد کیا جاوے گا اور اس جگہ تمام مخالف ہندو اور اکثر مسلمان بھی لڑکے ہو ں جائیںگے۔ جابجا یہی ذکر سنتا ہوں کہ اس جگہ کے تمام ہندو اور اکثر مسلمانوں کی شریر طبع قریب کل کے مسلمان لڑکے کی موت چاہتے ہیں اور جابجا علانیہ باتیں کرتے ہیں۔ تعجب نہیں کہ زہر دینے کی تجویز میں ہوں۔ اس لئے لڑکے کی خادمہ جس قدر ن نیک بخت اور خدا ترس ہو چاہئے۔ آپ سمجھ سکتے ہیں۔ زیادہ کیا لکھا جائے۔ والسلام
( ۱۰۰) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخوم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
……کے پان پہنچ گئے۔ مگر روغن زرد ۸ ثار خام جو آپ نے لکھا تھا وہ نہیں پہنچا۔ پہلی دفعہ بھی ۲۱ ثار خام روغن گم ہو گیا۔ اب بھی گم ہوا انا للہ الیہ راجعون۔ اب آیندہ روغن بھیجنا بالکل فضول ہے معلوم نہیں کہ یہ ۲۹ثاروغن کس نے راہ میں لے لیا۔ اب آیندہ ارسال نہ فرماویں۔ دو چار روز تک دو آدمی خریداری کاغذ کے لئے انشاء اللہ دہلی میں جائیںگے۔ اگر ممکن ہو تو بندوبست پاس کر رکھیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۴؍ اکتوبر ۱۸۸۷ء
(۱۰۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعدا لسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میاں نور احمد کے دہلی جانے کے آثارکچھ معلوم نہیں ہوتے۔ بہرحال میں ۱۸؍ تاریخ یا ۱۷؍ اکتوبر ۱۸۸۷ء کو میاں فتح خاں کو امرتسر میں بھیجوں گا۔ اگر میاں نور احمد نے امرتسر جانا قبول کر لیا تو دونوں مل کر دہلی جائیںگے اور اگر قبول نہ کیا تو پھر نا چاری کی بات ہے۔ اطلاعاً لکھا گیا ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۶؍ اکتوبر ۱۸۸۷ء
اور یہ بھی تحریر فرماویں کہ آپ کا اس طرف آنے کا کب تک ارادہ ہے۔ اگر سندر داس آگیا ہوتو ایک دن کے لئے اس کو ساتھ لے آویں۔ضرور اطلاع بخشیں۔
(۱۰۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
مخدومی مکرمی ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
انسان کے اختیار میں کچھ نہیں جو کچھ خدا تعالیٰ چاہتا ہے وہی ہوتا ہے۔ مصمّم ارادہ تھا۔ کہ ۱۹؍اکتبوبر ۱۸۸۷ء کو روانگی دہلی کے لئے امرتسر آدمی پہنچ جائے۔ اول میاں نو احمد کی حالت کچھ بدل گئی ہے۔ میاں عبداللہ سنوری بیمار ہوکر اپنے گھر پہنچ گئے ہیں۔ میاں فتح خان کچھ نیم علیل سا ہوگیا اور ان کا بھائی بعارضہ تپ بیمار ہوگیا وہ اس کو چھوڑ کر کسی طرح جانہیں سکتا۔ اس لئے مجبوراً لکھا جاتا ہے کہ آپ لکھ دیں کہ دس روز کے بعد جانے کی تجویز کی جائے گی اور اول اطلاع کریں گے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۱۸؍اکتوبر ۱۸۸۷ء
(۱۰۳)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی ۔ السلام علیکم
روغن زرد جو کہ ۸ ثار خام تھا وہ اب تک نہیں پہنچا اور دوسری مرتبہ کا شاید ۳۰ ثار تھا۔ وہ پہنچ گیا ہے۔ اگر آپ کوشش کریں تو پہنچ جائے۔ بے فائدہ نہ جائے ۔ اگر ممکن ہو تو ۲ رکے پان بھی بھیج دیں۔ اب امید رکھتا ہوں۔ کہ کام جلدی شروع ہوگا۔ مفصل کفیت پیچھے سے لکھوں گا۔ عبدالرحمن کو میں کہہ دیا ہے۔ شاید ہفتہ عشرہ تک آپ کی خدمت میں حاضر ہوگا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۲۶؍اکتوبر ۱۶۶۷ء
(۱۰۳) الف۔ ملفوف
ایک غیر معمولی خط
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی چودھری صاحب ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
آپ کا نوازش نامہ پہنچا۔ حضرت اقدس کی خدمت میں سنایا۔ فرمایا لکھ دو وخط بھی نصف ملاقات ہوتی ہے اگر وہ خط لکھ دیا کریںاور دعا کے لئے دیادلا دیا کریںتومیں دعا کرتا رہا ہوں گا۔ بہت پرانے مخلص ہیں۔ فرمایا ان پر کچھ قرضہ کا بھی بوجھ ہے جب تک اس سے فراغت نہیں ہوتی۔ ملازمت کرتے رہیں بعد میں پنشن لیویں۔
آج پھر فرمایا کہ رات کو پھر وہی الہام پھر ہوا۔
قرب اجلک المقدر ولا نبقی لک من المخزیات ذکرا۔ قل میعاد ربک ولا نبقی لک من المخزیات شیئا۔
فرمایا۔ ان فقرات کے ساتھ لگانے سے صاف منشاء الٰہی یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب پیغام رخلت دیاجاوے گا تو دل میں یہ خیال پیدا ہو گا کہ ابھی ہمارے فلاں فلاں مقاصد باقی ہیں اس کے لئے فرمایا کہ ہم سب کی تکمیل کریںگے۔ فرمایا لوگ اکثر غلطی کھاتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ سب امور کی تکمیل مامور ہی کر جائے۔ وہ بڑی بڑی امیدیں باندھ رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ سب کچھ مامور اپنی زندگی میں ہی کر کے اٹھا ہے۔ صحابہ میں بھی ایسا خیال پید اہو گیا تھا کہ ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فوت ہونے وقت نہیں آیا۔ کیونکہ دعوی تو تھا کہ کل دنیا کی طرف رسول ہوئے اور ابھی عرب بھی بہت سا حصہ یونہی پڑا تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ ان سب امور کی تکمیل آہستہ آہستہ کر تا رہتا ہے۔ تاکہ جانشینوں کو بھی خدمت دین کا ثواب ملتا رہے۔
اسی ذکرمیں فرمایا کہ ہماری جماعت میں اچھے اچھے لوگ مرتے جاتے ہیں چنانچہ مولوی عبدالکریم صاحب جوا یک عجیب مخلص انسان تھے اور ایسا ہی اب مولوی برہان الدین صاحب جہلم میں فوت ہو گئے اور بھی بہت سے مولوی صاحبان اس جماعت میں سے فوت ہو گئے مگر افسوس یہ ہے کہ جو مرتے ہیں ان کاجانشین ہم کو کوئی نظر نہیں آتا۔ پھر فرمایا مجھے مدرسہ کی طرف دیکھ کر بھی رنج پہنچتا ہے کہ جو کچھ ہم چاہتے تھے وہ بات اس سے حاصل نہیں ہوئی۔ اگر یہاں سے بھی طالب علم نکل کر دنیا کے طالب ہی بنتے تھے تو ہمیں اس کے قائم کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ ہم تو چاہتے تھے کہ دین کے لئے خادم پیدا ہوں چنانچہ پھر بہت سے احباب کو بلا کر ان کے سامنے یہ امر پیش کیا کہ مدرسہ میں ایسی اصلاح ہونی چاہئے کہ یہاں سے واعظ اور مولوی پیدا ہوں جو آیندہ ان لوگوں کے قائم مقام ہوتے رہیں جوگزرتے چلے جاتے ہیں۔ کیسا افسوس ہے کہ آریہ سماج میں وہ لوگ پیدا ہوںجو ایک باطل کے لئے اپنی زندگیاں وقف کریں مگر ہماری قوم سچے خدا کو پاکر پھر دنیا کی طرف جھک رہی ہے او ردین کے لئے زندگی وقف کرنا محال ہو رہا ہے۔
فرمایا سب سوچو کہ اس مدرسہ کو ایسے رنگ میں رکھا جائے کہ یہاں سے قرآن دان واعظ لوگ پیدا ہوں۔ جو دنیا کی ہدایت کا ذریعہ ہوں۔
والسلام
خاکسار
محمد علی
۶؍ ستمبر ۱۹۰۵ء
یہ مکتوب اگرچہ براہ راست حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ کا لکھا ہوا نہیں ہے بلکہ مکرمی مولوی محمد علی صاحب ( جوخلافت ثانیہ کے ساتھ ہی قادیان سے انکار خلافت کر کے خروج کر چکے ہیں اور لاہور جا بسے ہیں۔ عرفانی) نے حضرت اقدس کے حکم سے لکھا ہے خطوط کی سال وار ترتیب کے لحاظ سے بھی یہ خط یہاں نہیں آنا چاہئے تھا مگر ا س کے لئے میں دوسری جگہ بھی نہیں نکال سکا۔
یہ خط بہت سے ضروری اور اہم مضامین پر مشتمل ہے اورحضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض پاک خواہشوں اور مقاصد کامظہر ہے۔ تاریخ سلسلہ میں یہ ایک مفید اور دلچسپ ورق ہے۔ مناسب موقعہ پر میں اس سے ضروری امور پر روشنی ڈالنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ وباللہ التوفیق۔ آ مین۔
ایک امر خصوصیت سے قابل ذکر ہے کہ اس مکتوب میں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حکم و ارشاد سے لکھا ہوا ہے خدا کے مامور ……کے جانشینوں کا ذکر کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود مولوی صاحب کے ہاتھ سے ان پر اتمام حجت کرا دیا ہے۔ ہر ایک شخص اپنی انفرادی حیثیت میں جانشین نہیں ہوتا بلکہ خلیفہ موعود و منصوص کے ساتھ تعلق رکھ کر اور اس میں ہو کر کل جماعت ایک وجود بن جاتی ہے۔
غرض یہ خط بہت دلچسپ اور قابل غور ہے۔ حضرت چوہدری رستم علی صاحب اخلاص اور فتافی السلسلہ کا اظہار یوں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہر ایک خط سے ہوتا ہے مگر اس میں بھی اس کی تائید ہے چوہدری صاحب سلسلہ کی ضروریات ہی کے لئے آخری وقت جبکہ وہ ملازمت کا زمانہ ختم کر رہے تھے مقروض تھے اور حضرت نے ان کو کچھ عرصہ او رملازمت کرنے کا ارشاد فرمایا اور نتیجہ یہ ہوا کہ جب وہ فارغ ہوئے تو خدا کے فضل اور رحم سے ہر قسم کی زیر باری سے سبکدوش ہو چکے تھے۔ اس کے بعد ا نہوںنے قادیان میں آکر سلسلہ کی عملی خدمت شروع کی اور وہ سلسلہ میں سب سے پہلے بزرگ تھے جنہوں نے پنشن لے کر سلسلہ کا کام مفت کیا حتی کہ کھانا لینا بھی پسند نہ کیا۔
خدا تعالیٰ یہ روح دوسرے بزرگوں میں بھی پیدا کرے اور ان کے نقش قدم پر چلنے والی ایک جماعت ہو تاکہ سلسلہ کے مرکری اخراجات میں ایسے کارکنوں کے وجود سے بہت کمی ہو سکے جومفت کام کریں۔
(عرفانی)
(۱۰۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
۵؍ ثار خام گھی ………آپ جو محض للہ تکالیف اٹھا رہے ہیں۔ خدا وندکریم جلشانہ اس کو باعث اپنی خوشنودی کا کرے۔ جیسے لوگ آج کل اپنی بد خیالی و بدظنی میں ترقی کر رہے ہیں۔ آپ خدمت و خلوص میں ترقی کرتے جائیں۔ خدا تعالیٰ ایسے قحط الرجال کے وقت میں ان مخلصا نہ خدمتوں کا دوہرا ثواب آپ کو بخشے لودھیانہ کے خط سے معلوم ہو ا ہے کہ اخویم میر عباس علی صاحب کی طبیعت کچھ علیل ہے۔ خدا تعالیٰ جلد تر ان کو شفا بخشے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۲۸؍ اکتوبر ۱۸۸۷ء
(۱۰۵) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
پہلا گھی صرف ۲۱؍ سیر پہنچا تھا۔ جیساکہ آپ نے لکھا ہے۔ میں نے غلطی سے ۳۰؍ ثار وزن لکھا دیا تھا۔ اطلاعاً لکھا گیا اور سب طرح سے خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمدعفی عنہ
۱۸۸۷ء
(۱۰۶) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ حال یہ ہے کہ اس عرصہ میں کئی عورتیں بچہ کی خدمت کے لئے رکھی گئی ہیں۔ مگر سب ناکارہ نکلی ہیں۔ یہ کام شب خیزی اور ہمدردی اور دانائی کا ہے۔ لڑکا چند روز سے بیمار ہے۔ ظن ہے کہ پسلی کا درد نہ ہو۔ علاج کیا جاتا ہے۔ واللہ شافی۔ مجھے یقین نہیں ہے کہ کوئی کمزورعورت اس خدمت شب خیزی کو اٹھا سکے۔ چند روز سے فقط مجھے تین تین پہر رات تک اور کبھی ساری رات لڑکے کے لئے جاگنا ہوتا ہے۔ ہر گز امید نہیں ہو سکتی کہ کوئی عورت ایسی محنت سے کام کر سکے۔اس سے دریافت کر لیں کہ کیا ایسا محنت کا کام کر سکتی ہے۔
خاکسار
غلام احمد
۶؍ نومبر ۱۸۸۷ء
(۱۰۷) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
خادمہ پہنچ گئی۔ اب تک کسی کام میں مصروف نہیں ہوئی۔ سست اور کاہل الوجود بہت ہے۔ اس کے آنے سے تکلیف اسی طرح باقی ہے۔ جوپہلے تھی۔ لیکن آزمائش کے طور پر ایک دو ماہ کے لئے ایک دو ماہ کے لئے اس کو رکھ لیا گیا ہے کہ دور سے آئی ہے۔ اس وقت ضروری کام کے لئے اطلاع دیتا ہوں کہ اب ایک مہتم مطبع بٹالہ سے باہم اقرار کاغذ اسٹامپ پر ہو کر دو رسالہ کے چھپنے کے لئے تجویز کی گئی ہے اور سنا جاتا ہے کہ دہلی میں یہ نسبت لاہور کاغذ ارزاں ملتا ہے۔ اس لئے امید رکھتا ہوں کہ آپ اگر ممکن ہو بہت جلد بندوبست دو آدمی کے پاس کاغذ کاکر کے مجھ کو اطلاع بخشیں۔ تامیں میاں فتح خاں اور ایک اور آدمی کو دہلی کی طرف روانہ کروں اور اگر آپ مناسب سمجھیں تو میں بلاتوقف اپنے دونوں آدمی امرتسر میں بھیج دوں اور پتہ ان کا یہ ہو گا کہ وہ کٹڑہ مہیاں سنگھ میں مکان مولوی حکیم محمد شریف صاحب پر ٹھہرے گے۔ بہرحال آپ کا جواب بواپسی ڈاک آنا چاہئے کہ اب بعد معاہدہ تحریری زیادہ توقف نہیں ہو سکے۔ اگر دو آدمی کا پاس مل جانا ممکن ہے کہ اس سے کفایت رہے گی اور اگر ناممکن ہوتا تو ہم اطلاع بخشتیں۔ جواب بہت جلد آنا چاہئے۔
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۱۵؍ نومبر ۱۸۸۷ء
نوٹ۔ بٹالہ میں شعلہ طور نامی ایک آدمی مبطع تھا۔ اس کی طرف اشارہ ہے۔
(۱۰۸) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی السلام علیکم۔
بباعث علالت طبع اور موسمی بخار آنے کے بعد آپ کی طرف خط نہیں لکھ سکا۔ آپ کو اللہ جلشانہ جزاء خیر بخشے۔ آپ نے بہت سعی کی ہے۔ اب میرا تپ ٹوٹ گیا ہے۔ کچھ شکایت باقی ہے۔ میاں فتح خاں کے آتے وقت اگر کچھ بندوبست ہو سکے۔ تو کچھ رعایت ہو جائے گی۔ آیندہ جو مرضی مولا اور سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۲۹؍ نومبر ۱۸۸۷ء
(۱۰۹) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کی یاد دہانی پر برابر سندر داس کے لئے دعا کی جاتی ہے۔ مرتب اثر جل شانہ کے اختیار میں ہے۔ میاں فتح خاں کو اطلاع دی ہے۔ اب تک کچھ حال معلوم نہیں۔ شاید آپ کو کوئی خط آیا ہو اور سب طرح سے خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمدعفی عنہ
از قادیان ضلع گورداسپور
۱۲؍ دسمبر ۱۸۸۷ء
(۱۱۰) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ سندرداس کی علالت کی طرف مجھے بہت خیال ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کوتندرستی بخشے۔ اگر قضاء مبرم نہیں ہے تو مخلصانہ دعا کا اثر ظہور پذیر ہو گا۔ آپ کی ملاقات کو بھی بہت دیر ہو گئی ہے۔ کسی فرصت کے وقت آپ کی ملاقات بھی ہو توبہتر ہے اوراللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھیں اور اسی کو ہر ایک بات میں مقدم سمجھیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۱۴؍ دسمبر ۱۸۸۷ء
معلوم نہیں کہ میاں فتح خاں کے آنے کے لئے آپ نے کوئی بندوبست کیا یا نہیں۔ وہ آج ۱۴؍ دسمبر ۱۸۸۷ء کو روانہ ہوں گے۔
والسلام
(۱۱۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میرا لڑکا بشیر احمد سخت بیمار ہے۔ کھانسی و تپ وغیرہ خطرناک عوارض ہیں۔ آپ جس طرح ہو سکے۲؍ کے پان بہت جلد بھیج دیں کہ کھانسی کے لئے ایک دو اس میں دی جاتی ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمدا زقادیان
۱۶؍ دسمبر ۱۸۸۷ء
(۱۱۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ عاجز دعا کرتاہے کہ آپ کی ترقی اسی ضلع میں ہو۔ آیندہ خدا تعالیٰ کے کاموں میں مصالح ہیں۔ میرا لڑکا شدت سے بیمار تھا۔ بلکہ بظاہر علامات بہت ردی تھیں۔ امید زندگی کی نہیں تھی۔ اب بفضلہ تعالیٰ وہ میلاب بیماری کا ردبکمی ہے۔ لڑکے نے آنکھیں کھول لیں ہیں اور دودھ پیتا ہے۔ ہنوز عوارض باقی ہیں۔ انشاء اللہ تعالیٰ وہ بھی دفع ہو جائیںگے۔ ۲؍ کے پان ضرور بھیج دیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۱۸۸۷ء
(۱۱۳) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جہاں تک ممکن ہو۔ آپ اس طرف ہو کر جائیں۔ ۲۶؍دسمبر کو آپ کی انتظار رہے گی۔ پان مرسلہ آپ کے نہیں پہنچے۔ سو یہ پہنچانے والوں کی غفلت یا خیانت ہے۔ آپ ۱؍ کے پان ضرور لیتے آویں۔ لڑکا اب اچھا ہو رہا ہے۔ کسی قدر کھانسی باقی ہے ایک نہایت ضروری کام ہے۔ جس سے دنیا و آخرت میں برکات کی امید کی جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ بشیر احمد کے لئے ایک ایسی دودھ پلانے والی عورت کی ضرورت ہے۔جس کو بچہ ہونے پر برس سے زیادہ نہ گزرا ہو اور خوب طاقتور عورت ہو اور بچہ مر جانے کی اس کو بیماری بھی نہ ہو اور اس کے بچہ تازہ اور فربہ ہوتے ہیں۔ دبلے و خشک نہ رہتے ہوں۔ ایسی عورت تلاش کر کے آپ بھیج دیں یاساتھ لاویں۔ تنخواہ جو مقرر ہو دی جائے گی۔ اگر ایسی کوئی بیوہ عورت ہو تو نہایت عمدہ ہے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان[
۲۱؍ دسمبر ۱۸۸۷ء
(۱۱۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ موجب خوشی ہوئی۔ کئی دفعہ سندر داس کے لئے دعا کی گئی۔ اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرماوے۔ مناسب ہے کہ آپ اپنی خیرو عافیت سے مطلع فرماتے رہو۔ بشیر احمد بفضلہ تعالیٰ اب اچھا ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ا ز قادیان
۲؍ جنوری ۱۸۸۸ء
(۱۱۵) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا اور اک خیروعافیت سے خوشی و تسلی ہوئی۔ امید کہ ہمیشہ حالات خیریت آیات سے مطلع فرماتے رہیں۔ اب سردی نکلنے والی ہے اور اب آپ کے لئے موسم بہت اچھا نکل آئے گا۔ سندر داس کی طبیعت کا حال پھر آپ نے کچھ نہیں لکھا۔ صرف اتنا معلو م ہو اتھا کہ اب بہ نسبت سابق کچھ آرام ہے۔ اس کی طبیعت کے حال سے مفصل اطلاع بخشیں۔ اس وقت کاغذی اخروٹ یعنی جوز کے ایک دوا بنانے کے لئے ضرورت ہے اور بقدر باراں اثار خام اخروٹ چاہئے۔ مگر کاغذی چاہئے۔ اس کے لئے تکلیف دیتا ہوں کہ اگر کاغذی اخروٹ اس جگہ سے مل سکیں اور یہ بندوبست بھی ہو سکے کہ پٹھان کوٹ سے بلٹی کرا کر اسٹیشن بٹالہ پر پہنچ سکیں تو ضرور ارسال فرماویں۔ یہ سب بے تکلف آپ کی طرف جو لکھا جاتا ہے۔ محض للہ آپ کے اخلاص و محبت کے لحاظ سے ہے۔ جو آپ محض للہ کہتے ہیں۔ کیونکہ آپ نے محض للہ اخلاص کو غایت درجہ پر بڑھا دیا ہے۔خدمت للہ میں کوئی وقیقہ اٹھا نہیں رکھا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزاء خیر بخشے اور دین میں استقامت و تقوی و دنیا میںعزت و حرمت عطا کرے۔ آمین۔ مکرر یاد رہے کہ یوں ہی بلا محصول ہر گز بھیجنا نہیں چاہئے۔ بلکہ بلٹی بیرنگ کرا کر لف خط علیحدہ میرے پاس بھیج دیں اور بٹالہ کے اسٹیشن کے نام بلٹی ہو۔ تا اسی جگہ سے لیا جاوے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۲۵؍ جنوری ۱۸۸۸ء
نوٹ۔ مکتوب نمبر ۱۱۲ میں چوہدری رستم علی صاحب کی ترقی کا ذکر آیا ہے۔ ان کی ترقی کا سوال در پیش تھا۔ خد اکے فضل وکرم سے وہ سارجنٹی سے ڈپٹی انسکپڑی ترقی پا کر دھرم سالہ ضلع کانگڑہ میں تغینات ہوئے تھے۔ اس وقت ہیڈ کانسٹیبل سارجنٹ اور سب انسپکٹر کہلاتی تھی۔ بہرحال چوہدری صاحب ڈپٹی انسپکٹر یا سب انسپکٹر ہوکر دھرم سالہ چلے گئے۔ اس وقت حضرت اقدس لفافہ انہیں اس طرح پر لکھتے تھے۔
ضلع کانگڑہ۔ بمقام دھرم سال۔ خدمت میں مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب ڈپٹی انسپکٹر ( جو سرشتہ دار پیشی ہیںیا لین پولیس میں)پہنچے۔
(عرفانی)
یہ یاد رہے کہ اخروٹ کاغذی ہوں۔ جن کا باآسانی مغز نکل آتا ہے۔
(۱۱۶) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحمن۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ اس قحط الرجال اور قسادت قلبی کے زمانہ میں جو کہ ہر ایک فرد پر ہوائے زہر ناگ غفلت و سنگدلی کی طاری ہو رہی ہے۔ الاماشاء اللہ ایسے زمانہ میں خلوص دینی کے لئے زندہ دلی ازبس قابل شکر ہے۔ خدا تعالیٰ ہماری جماعت کو بڑھاوے اوران کو دنیا اوردین میں زیادہ سے زیادہ برکت دے۔ آمین ثم آمین۔ بلٹی جو آپ بھیجنا چاہتے ہیں۔ وہ میری دانست میں لفافہ میں ڈال کر اس جگہ قادیان میں بھیج دی جاوے۔ تو بلاتوقف کوئی شخص یہاں سے جا کر لے آئے گا۔ کیونکہ آخر اس جگہ سے کوئی آدمی بھیجنا ضروری ہے۔ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ اگر چاہیں محرر تھانہ کے نام بلٹی بھیج دیں۔ مگر اس صورت میں بہت دیر کے بعد اسبات ملتا ہے۔ بلکہ چوکیداروں وغیرہ کی شرارت سے اکثر نقصان ہو جاتا ہے۔ جس حالت میںبلٹی بھیجنا ہے تو قادیان میں ہی کیوں نہ بھیجی جائے اور بشیر بفضل خدا وند قدیر خیرو عافیت سے ہیں اور رسالہ سراج منیر یقین ہے کہ جلد چھپنا شروع ہو گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۴؍ فروری ۱۸۸۸ء
(۱۱۷) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحمن۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃا للہ وبرکاتہ
۱۴؍ فروری ۱۸۸۸ء کی گزشتہ رات مجھے آپ کی نسبت دو ہولناک خوابیں آئی تھیں جن سے ایک سخت ہم و غم مصیبت معلوم ہوتی تھی۔ میں نہایت وحشت و تردد میں تھا کہ یہ کیا بات ہے اور غنودگی میں ایک الہام بھی ہوا کہ جو مجھے بالکل یاد نہیں رہا۔ چنانچہ کل سندر داس کے وفات اور انتقال کا خط پہنچ گیا۔اناللہ وانا الیہ راجعون۔ معلوم ہوتا ہے۔ یہ وہی غم تھا۔ جس کی طرف اشارہ تھا۔ خدا تعالیٰ آپ کو صبر بخشے۔
ترابا کہ رو در آشنائے است
قرار کارت آخر یر جدائی ست
زفرقت بردے بازی نباشد
کہ بامیر ندہ اش کاری نباشد
مجھے کبھی ایسا موقعہ چند مخلصانہ نصائح کا آپ کے لئے نہیں ملا۔ جیسا کہ آج ہے جاننا چاہیئے کہ خدا تعالیٰ کی غیوری محبت ذاتیہ میں کسی مومن کی اس کے غیر سے شراکت نہیں چاہتی۔ ایمان جو ہمیں سب سے پیارا ہے۔ وہ اسی بات سے محفوظ رہ سکتا ہے کہ ہم محبت میں دوسرے کو اس سے شریک نہ کریں۔ اللہ جل شانہ مومنین کی علامت یہ فرماتا ہے۔ والذین امنو اشد حبا للہ۔ یعنی جو مومن ہیں۔ وہ خد اسے بڑھ کر کسی سے دل نہیں لگاتے۔ محبت ایک خاص حق اللہ جلشانہ کا ہے۔ جو شخص اس کا حق اس کو دے گا۔ وہ تباہ ہو گا۔ تمام برکتیں جو مرادن خدا کو ملتی ہیں۔ تمام قبولیتیں جو ان کو حاصل ہوتی ہیں۔ کیاوہ معمولی وظائف سے یا معمولی نماز روز سے ملتی ہیں۔ ہرگز نہیں۔ بلکہ وہ توحید فی المجت سے ملتی ہیں۔ اسی کے ہوجاتے ہیں۔ اسی کے ہو رہتے ہیں۔ اپنے ہاتھ سے دوسروں کو اس کی راہ میں قربان کرتے ہیں۔ میں خواب اس درد کی حقیقت کو پہنچتا ہوں کہ جو ایسے شخص کو ہوتا ہے کہ تک دفعہ وہ ایسے شخص سے جد اکیا جاتا ہے۔ جس کو وہ اپنے قالب کی گویا جان جانتا ہے۔ لیکن مجھے زیادہ غیرت اس بات میںہے کہ کیا ہمارے حقیقی پیارے کے مقابل پر کوئی اور ہونا چاہیے۔ہمیشہ سے میرا دل یہ فتوی دیتا ہے کہ غیر سے مستقل محبت کرنا کہ جس سے للہی محبت باہر ہے۔ خواہ وہ بیٹا ہو یا دوست۔ کوئی ہو ایک قسم کاکفر اور کبیر گناہ ہے۔ جس سے اگر شفقت ور حمت الٰہی تدارک نہ کرے توسلب ایمان کاخطرہ ہے۔سو آپ یہ اللہ جل شانہ کا احسان سمجھیں کہ اس نے اپنی محبت کی طرف آپ کو بلایا۔ عسی ان تکرھواشیئا وھو خیرلکم و عسی ان تحبوشیئا و ھو شرا ً لکم واللہ یعلم وانتم لا تعملون۔ اوران پر ایک جگہ فرماتا ہے جل شانہ وعزاسمہ ما اصاب من مصیبۃ الا باذن اللہ من ویومن باللہ ……تلیہ واللہ بکل شئی علیم۔یعنی کوئی مصیبت بغیر اذن اور ارادہ الٰہی کے نہیں پہنچتی اور جو شخص ایمان پر قائم ہو۔خد ااس کے دل کو ہدایت دیتا ہے۔ یعنی صبر بخشتا ہے اور اس مصیبت میں جو مصلحت اور حکمت تھی۔وہ اسے سمجھادیتا ہے اور خد اکو ہر ایک چیز معلوم ہے میں انشاء اللہ آپ کے لئے دعا کروں گا اور اب بھی کئی دفعہ کی ہے۔ چاہئے کہ سجدہ میں اور دن رات کئی دفعہ یہ دعا پڑھیں۔ یا احب من کل محبوب اغفرلی ذنوبی و اوخلنی فی عبادک المخلصین۔ آمین۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۵؍ فروری ۱۸۸۸ء
نوٹ۔ مکرمی چوہدری رستم علی صاحب کو سندر داس نامی ایک شخص سے محبت تھی اور وہ اسے عزیز سمجھتے تھے۔ اس کا ذکر مختلف مکتوبات میں آیا ہے۔ پھر محبت میں چوہدری صاحب کو غلو تھا اور یہ بھی ایک کمال تھا کہ وہ اسے محسوس کرتے تھے اور حضرت اقدس کو بار ہا لکھتے رہتے تھے۔ آخر وہ بیمار ہوا اورمر گیا۔ اس پر یہ مکتوب حضرت نے تعزیت کا لکھا۔
(عرفانی)
(۱۱۸) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحمن۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ اس عاجز کے ساتھ ربط ملاقات پیدا کرنے سے فائدہ یہ ہے کہ اپنی زندگی کو بدلا جائے۔ تا عاقبت درست ہو۔ سندر داس کی وفات کے زیادہ غم سے آپ کو پرہیز کرنا چاہیئے۔ خد اتعالیٰ کا ہر کام انسان کی بھلائی کے لئے ہے۔ گو انسان اس کوسمجھے یا نہ سمجھے۔ جب ہمارے بنی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بعثت کے بعد بیعت ایمان لینا شروع کیا تو اس بیعت میں یہ داخل تھا کہ اپنا حقیقی دوست خد اتعالیٰ کو ٹھہرایا جائے اور اس کے ضمن میں اس کے نبی اور درجہ بدرجہ تمام صلحاء کو اور تعبیر حلت دینی کسی کو دوست نہ سمجھا جائے۔ یہی اسلام ہے۔ جس سے آج لوگ بے خبر ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔والذین امنو اشد حباللہ۔ یعنی ایمانداروں کا کامل دوست خدا ہی ہوتا ہے وبس جس حالت میں انسان پر خد اتعالیٰ کے سوا اور کسی کا حق نہیں تو اس لئے خالص دوستی محض خد اتعالیٰ کا حق ہے۔ صوفیہ کو اس میں اختلاف ہے کہ جو مثلاً غیر سے اپنی محبت کو عشق تک پہنچاتا ہے۔اس کی نسبت کیا حکم ہے۔ اکثر یہی کہتے ہیں کہ اس کی حالت حکم کفر کا رکھتی ہے۔ گو احکام کفر کے اس پر صادر نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ بباعث بے اختیاری مرفوج القلم ہے۔ تاہم اس کی حالت کافر کی صورت میں ہے کیونکہ عشق اور محبت کا حق اللہ جل شانہ کا ہے اور وہ بد دیانتی کی راہ سے خد اتعالیٰ کا حق دوسرے کا دیتا ہے اور یہ ایک ایسی صورت ہے۔ جس میں دین و دنیا دونوں کے وبال کا خطرہ ہے۔ راستبازوں نے اپنے پیارے بیٹوں کو اپنے ہاتھ سے ذبح کیا۔ اپنی جانیں خدا تعالیٰ کے راہ میں دیں۔ تا توحید کی حقیقت انہیں حاصل ہو۔سو میں آپ کو خالصا ً للہ نصیحت دیتا ہوں کہ آپ اس حزن و غم سے دستکش ہو جائیں اور اپنے محبوب حقیقی کی طرف رجوع کریں۔ تا وہ آپ کو برکت بخشے او ر آفات سے محفوظ رکھے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمدا ز قادیان
یکم مارچ ۱۸۸۸ء
(۱۱۹) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحمن۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ موجب خوشی ہوئی۔ اللہ جلشانہ آپ کو اس اخلاص اور محبت کا اجر بخشے اور آپ سے راضی ہو اور راضی کرے۔ آمین ثم آمین۔ حال یہ ہے کہ یہ عاجز خود آرزو خواہاں ہے کہ ماہ رمضان آپ کے پا س بسر کرے۔ لیکن نہایت وقت در پیش ہے کہ آج کل میرے دو نو بچے ایسے ضعیف اور کمزور ہو رہے ہیں کہ ہفتہ میں ایک دو دفعہ بیمار ہوجاتے ہیں اور میرے گھر کے لوگ اس جگہ کچھ قرابت نہیں رکھتے اور ہمارے کنبہ والوں سے کوئی ان کا غمخوار اور انیس نہیں ہے۔ اس لئے اکیلا سفر کرنا نہایت دشوار ہے۔ میںنے تجویز کی تھی کہ ان کوانبالہ چھائونی میں ان کے والدین کے پاس چھوڑ آئوں۔مگر ان کے والدین نے اس بات کو چند وجوہ کے سبب سے تاخیر میں ڈال دیا۔ اب مجھے ایک طرف یہ شوق بھی نہایت درجہ ہے کہ ایک ماہ تک ایام گرمی میں آپ کے پاس رہوں اور اسی جگہ رمضان کے دن بسر کروں اور ایک طرف یہ موافع در پیش ہیں اور معہ عیال پہاڑ کا سفر کرنا مشکل اور صرف کثیر پر موقوف ہے۔ مستورات کا پہاڑ پر بغیر ڈولی کے جانا مشکل اور ان کے ہمراہ ہی کی ضرورت جسے اپنے لئے ایک ڈولی چاہئے اور چھ سات خادم اور خادمہ کے ساتھ ساتھ پہنچ جانے کے لئے بھی کچھ بندوبست چاہیئے۔ سو اس سفر کے آمدو رفت میں صرف کرایہ کا خرچ شاید کم سے کم سو روپیہ ہو گا اور اس موقعہ ضرورت روپیہ میں اس قدر خرچ کر دینا قابل تامل ہے۔ البتہ کوشش اور خیال میں ہوں کہ اگر موانع رفع ہو جائیںتو بلاتوقف آپ کے پاس پہنچ جائوں اور میںنے موانع کے لئے رفع کرنے کے لئے حال میں بہت کوشش کی۔ مگر ابھی تک کچھ کارگر نہیں ہوئی۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
نوٹ۔ اس خط پر تاریخ درج نہیں ۔
(عرفانی)
(۱۲۰) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحمن۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کے اس خط پہنچنے کے دو دن پہلے اخروٹ پہنچ گئے۔ جزاکم اللہ خیراً۔میر انہایت پکا ارادہ تھا کہ ماہ رمضان میں آپ کی ہمسائیگی میں بسر کروں۔ چنانچہ اپنے گھر کے لوگوں کو انبالہ چھائونی میں پہنچانے کی تجویز کردی تھی۔ لیکن بحکمت و مصلحت الٰہی چند موانع کی وجہ سے وہ تجویز ملتوی رہی۔ اگر اب بھی رمضان کے آنے تک وہ تجویز قائم ہو گئی۔ تو عین مراد ہے کہ وہ مبارک رمضان اس جگہ بسر کیا جائے۔ گھر کے لوگوں کے ساتھ وہاں جانا نہایت مشکل معلوم ہوتا ہے۔ سراج منیر کی طبع میں حکمت الٰہی سے توقف در توقف ہوتے گئے۔ اب کوشش کر رہا ہوں کہ جلد انتظام طبع ہو جائے۔ آیندہ ہر ایک بات اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے اور جو آپ نے وارسلنا ہ والی امائۃ کے معنے پوچھے ہیں۔سو واضح رہے کہ رد کا لفظ جیساکلام عرب میں شک کے لئے آتا ہے۔ ایسا ہی داو کے معنے میں بھی آتاہے اوریہ محاوہ شائع متعارف ہے۔سو آیت کے یہ معنے ہیں کہ وہ لوگ ایک لاکھ اور کچھ زیادہ تھے۔ رہا یہ اعتراض کہ اس سے زیادہ کی تصریح کیوںنہیں کی۔ اس کاجواب یہ ہے کہ ہر ایک بات کی تصریح اللہ جلشانہ پر واجب نہیں چاہے کسی چیز کو مجمل بیان کرے اور چاہے مفصل۔ پائوں کے مسح کی بابت کی تحقیق ہے کہ آیت کی عبارت پر نظر ڈالنے سے نحوی قاعدہ کی رو سے دونوں طرح کے معنی نکلتے ہیں۔ یعنی غسل کرنا اور مسح کرنا اور پھر ہم نے جب متواتر آثار نبویہ کی رہ سے دیکھا تو ثابت ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پائوں دھوتے تھے۔ اس لئے وہ پہلے معنے غسل کرنا۔ متعبر سمجھے گئے۔ مطبع اور مغرب الشمس کاذکر ایک استعارہ اور مجاز کے طور پر ہے نہ کہ حقیقت کے طور پر۔ ایسے استعارات جابجا کلام الٰہی میں بھرے ہوئے ہیں اور اشارہ بھی ہمیشہ مجاز اور استعارہ کا استعمال کرتا ہے۔ مثلاً ایک شخص کہتا ہے کہ میں نے چاولوں کی ایک رکابی کھائی۔ تو کیا اس نے رکابی کھا کر توڑ کر کھا لیا۔ پس ایسا اعتراض کوئی دانا نہیں کرسکتا اور اگر کوئی مخالف کرے تو پہلے اس کو اقرار کر لینا چاہئے کہ میری کتاب میں جن کوالٰہامی مانتا ہوں۔ کسی استعارہ یا مجاز کو استعمال نہیں کیا گیا اور مادامت السموات وا لارض کی شرط میں کوئی قباحت نہیں۔ کیونکہ میں جو بہشتوں کے لئے نئی زمینیں اور آسمان بنائے جائیں گے۔ وہ بھی دائمی ہوں گے۔ یہ کہاں سے معلوم ہو اکہ ایک وقت مقررہ کے بعد وہ نہیں رہیں گے۔ ماسوا اس کے آسمان اور زمین فوق و تحت کے معنوں میں بھی آتا ہے۔سو اس طور سے آیت کے یہ معنے ہوئے کہ جب تک جہات فوق و تحت موجود ہیں۔ تب تک وہ بہشت میں رہیںگے اور ظاہر ہے کہ جہات ایسی چیزیں ہیںکہ قابل انعدام نہیں۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۲؍ مارچ ۱۸۸۸ء
(۱۲۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا اور اس کے ساتھ ایک اور خط پہنچا۔ جو ۲۷؍ جنوری ۱۸۸۸ء کا لکھا ہو ا تھا۔ تعجب کہ وہ ماہ تک یہ خط کہاں رہا۔ مکلف ہوں کہ ……روپیہ جو آپ بھیجنے کو کہتے ہیں۔ وہ آپ جلدی بھیج دیں کہ یہاں ضرورت ہے۔ ہر چند دل میں خواہش ہے۔ مگر ابھی اس طرف ان کے آثار ظاہر نہیں ہوئے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں آپ تک پہنچانا ہے تو آثار ظاہر ہوں جائیںگے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۲؍ اپریل ۱۸۸۸ء
(۱۲۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج چائے مرسلہ آنجاب پہنچ گئی ہے۔ جزاکم اللہ خیرا لجزاء واحسن الیکم فی الدنیا والعقبی۔اس جگہ سب طرح سے خیریت ہے۔ رسالہ اشعتہ القرآن کا انگریزی میں ترجمہ ہو رہا ہے۔ دونوں رسالہ ایک ہی جگہ اکھٹے کر دئیے گئے ہیں۔ ہمیشہ اپنی خیروعافیت سے مطلع فرماتے رہیں۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان ضلع گورداسپور
۷؍ فروری ۱۸۸۸ء
(۱۲۳) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچ کر موجب خوشی ہوا۔ رسالہ جو انگریزی میں ترجمہ کیا جائے گا اور سراج منیران دونوں رسالوں کی نسبت میری تجویز ہے۔ کہ ایک ہی جگہ کردی جائیں کیونکہ ان کے باہم تعلقات ایسے ضروری ہیں کہ ایک دوسرے سے الگ کردینے ہیںاثر مطلوب بہت کم ہو جاتا ہے۔ جس قدر توقفات ظہور میں آئے۔ وہ سب حکمت الٰہی اور مصلحت ربانی تھے۔ اب اسید کی جاتی ہے کہ منتظرین کی خواہش بہت جلدی پوری ہوجائے ۔ہمیشہ اپنی خیرو عافیت سے مطلع فرماتے رہیں۔ کہ گو مجھے خط لکھنے کا کم اتفاق ہو۔ مگر آپ کی طرف خیال رہتا ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۱۶؍اپریل ۱۸۸۸ء
(۱۲۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آج کی ڈاک میں عنایت نامہ پہنچا۔ مفصل خط علیحٰدہ لکھا گیا ہے۔ میں آپ کے لئے انشاء اللہ بہت دعا کرتا رہوں گا اور یقین رکھتا ہوںکہ اثر ہو۔ اگر براہین احمدیہ کا کوئی شائق خریدار ہے تو آپ کو اختیار ہے کہ قیمت لے کر دے دیں مگر ارسال قیمت کا محصول ان کے ذمہ رہے۔ اخروٹ اب تک نہیں پہنچے۔شاید دوچار دن تک پہنچ جائیں اور اگر کوئی کام سبیل پہنچانے کا ہوا ہو تو کسی قدر … بیشک بھیج دیں کہ مہمانوں کی خدمت میں کام آجائے گا۔ بشیر احمد اچھا ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۲؍ مارچ ۱۸۸۸ء
(۱۲۵) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
چند روز کی دیر کے بعد آپ کے خطوط مرسلہ معہ بٹالہ میں قادیان سے واپس منگوا کر ملے ۔ قصیدہ بہت عمدہ ہے۔ خاص کر بعض شعر بہت ہی اچھے ہیں۔ جزاکم اللہ خیراً۔ میں اس جگہ بشیر احمد کے علاج کروانے کے لئے ٹھہرا ہوا ہوں۔ معلوم ہوتا ہے کہ تمام رمضان اس جگہ ٹھہرنا ہوگا۔ قصیدہ متعاقب روانہ خدمت کردوں گا۔ بشیر احمد کو اب کسی قدر بفضلہ آرام ہے
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۱۲؍ مئی ۱۸۸۸ء
(۱۲۶) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بشیر احمد سخت بیمار ہوگیا تھا۔ اس لئے یہ عاجز ڈاکٹر کے علاج کے لئے بٹالہ میں آگیا ہے۔ شاید ماہ رمضان بٹالہ میں بسرہو۔ بالفعل نبی بخش ذیلدار کے مکان پر جو شہر کے دروازہ پر ہے فروکش ہوں۔ زیادہ خیریت ہے ۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد قادیان
۲۸؍شعبان
۱۱؍مئی ۱۸۸۸ء
(۱۲۷) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ عاجز اب تک بٹالہ میں ہے۔ کسی قدر بشیر احمد کی طبیعت روبا صلاح ہے۔ انشاء اللہ القدیر صحت ہو جائے گی۔ پانچ چار روز تک قادیان جانے کا ارادہ ہے۔ باقی سب طرح سے خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز بٹالہ
۳؍ جون ۱۸۸۸ء
(۱۲۸) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی۔ السلام علیکم۔
آج ایک خط کو آپ نے رحمت علی کے ہاتھ بھیجا تھا۔ کسی حجام کے ہاتھ قادیان میں مجھ کو ملا۔ خط میں جوآپ نے چاول روانہ کرنے کاحال لکھا ہے۔ سو واضح رہے کہ آج تاریخ ۴؍ جون تک چاول نہیں بھیجے۔ نہ تھانہ میں آئے اور میں اب تک بٹالہ میں ہوں۔ شاید ۲۵؍ رمضان تک قادیان جائوں گا۔ بشیر احمد کی طبیعت بہ نسبت سابق اچھی ہے اور سب طرح سے خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۴؍ جون ۱۸۸۸ء
(۱۲۹) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی۔ اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ عاجز آخیررمضان تک اس جگہ بٹالہ میں ہے۔ غالباً عید پڑھنے کے بعد قادیان جائوں گا۔ چاول مرسلہ آپ کے نہیں پہنچے۔ معلوم نہیں آپ نے کس کے ہاتھ بھیجے تھے اور چونکہ اس جگہ خرچ کی ضرورت ہے۔ اگر خریدار براہین احمدیہ سے دس روپے وصول ہو گئے ہیں تو وہ بھی اسی جگہ ارسال فرماویں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۵؍ جون ۱۸۸۸ء
(۱۳۰) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ قادیان میں آکر بشیر احمد سخت بیمار ہو گیا اور کئی بیماریاں لاحق ہو گئیں۔ منجملہ ان کے ایک تپ محرقہ کی قسم اور زحیر یعنی مڑوڑ اور اسی اثنا میں ہیضہ بھی ہو گیا۔ حالت نہایت خطرناک ہو گئی۔ اب کچھ تخفیف ہے۔ اسی وجہ سے کوئی کام طبع رسالہ وغیرہ کا نہیں ہو سکا۔ مولوی قدرت اللہ صاحب کو السلام علیکم پہنچے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۲؍ جولائی ۱۸۸۸ء
(۱۳۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ چونکہ بشیر احمد کی طبیعت سخت بیمار رہی ہے۔ بلکہ نہایت نازک ہو گئی تھی۔ اس لئے جواب نہیں لکھ سکا۔ اب کچھ آرام ہے۔ میں انشاء اللہ آپ کے لئے دعا کروں گا۔ مولوی نورالدین صاحب کی کتاب کا مجھ کو کچھ پتہ نہیں اور نہ میرے پا س اب تک آئی ہے۔ جس وقت کوئی نسخہ ملے گا تو انشاء اللہ تعالیٰ خدمت میں بھیج دوں گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۲۰؍ جولائی ۱۸۸۸ء
(۱۳۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی۔ اخویم ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ بشیراحمد کی طبیعت سخت بیمارہے۔ اس غلبہ بیماری میں تین چار دفعہ ایسی حالت گزر چکی ہے کہ گویا ایک دو دم باقی معلوم ہوتے تھے۔ اب بھی شدت امراض ہے۔ اس لئے دن رات اسی کی طرف مصروفیت رہتی ہے۔ امید کہ بعد افاقہ طبیعت بشیراحمدآپ کے نسخہ کے لئے توجہ کروں گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۲؍ اگست ۱۸۸۸ء
(۱۳۳) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بشیر احمد اب تک مروڑوں کی بیماری میں مبتلا ہے اور چونکہ نہایت لاغر اور دبلا اور تکلیف میں ہے۔ اس لئے ضروری کاموں کاحرج بھی کر کے اس کی طرف مصروفیت ہے۔ چند مرتبہ اس عرصہ میں اس کی حالت بہت نازک ہو گئی اور آخری دم سمجھا جاتا تھا۔ انشاء اللہ اس کی صحت کے بعد بہت غور سے آپ کے لئے تجویز کروں گا۔آپ مطمئن رہیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد بقلم خود
۸؍ اگست ۱۸۸۸ء
(۱۳۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ مچھلی کا تیل وہی ہے۔جس کاآپ ذکر کرتے ہیں۔ استعمال کے لئے کچھ ضرورت نہیں۔ صرف ایک چاء کا چمچ یعنی چھوٹا چمچہ پی لیا کریں اور پھر ہضم کے لحاظ سے زیادہ کرتے جائیں۔ کدو سے مراد میری کدو کا پھل ہے۔ جس کا گھیا کدو بھی کہتے ہیں۔ اگر وہ نہ ملے تو پھر مغز کدو ہی ہمراہ بنفشہ کے پانی میں ڈال دیا جائے۔ جب پانی گرم ہو جائے اور خوب جوش آجائے۔ تب اس سے غسل کر لیں اور زیادہ گرم نہ ہو تو اور پانی ملا لیں۔ امید کہ انشاء اللہ تعالیٰ طبی تدبیر بہت مفید ہو گی اور آپ کا بدن خوب تازہ ہو جائے گا۔ لیکن اگر اس کے ساتھ صبح کے وقت آدھ ثار خام بکری کا دودھ پی لیا کریں تو انشاء اللہ بہت فائدہ ہو گا۔
خاکسار
غلام احمد از قادیان
(۱۳۵) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ یہ عاجز ایک ہفتہ سے موسمی بخار میں علیل ہے۔ بباعث ضعف و تکلیف مرض کوئی کام نہیں ہو سکتا۔ صندوقچہ خطوط سے بھرا ہوا ہے۔ اگر تیل مچھلی کا اب استعمال کرنے میں کچھ حرارت معلوم ہوتی ہے تو ایک ماہ کے بعد استعمال کریں۔ انشاء اللہ ان سب ادویہ کے استعمال سے بدن بہت تازہ ہو جائے گا۔ آپ کی استقامت کے لئے دعا کرتا ہوں۔ امید رکھتا ہوں کہ کسی وقت منظور ہو جائے۔ اشتہارات ارسال خدمت ہیں۔ ہر ایک شہر میں جو آپ کا کوئی دیندار دوست ہو اس کو بھیج دیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۶؍ ستمبر ۱۸۸۸ء
(۱۳۶) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ پہلے اس عاجز کی طبیعت چند روز بعارضہ تپ بیمار رہی تھی۔ اب بفضلہ تعالیٰ بالکل صحت ہے اور سب طرح سے خیریت ہے۔ امید کہ اپنی خیروعافیت سے ہمیشہ مطلع فرماتے رہیں۔ تلی کے واسطے مولوں کا اچار اور انجیر کا اچار جو سرکہ میں ڈالا جائے۔ نہایت مفید ہے۔ ان دونوں چیزوں کو جوش دے کر سرکہ میں ڈال دیں اور پھر کبھی روٹی کے ہمراہ یا یوں ہی کھا لیں کریں اور جو سکجبین صادق المحوصت یعنی جو خوب ترش ہو بہت مفید ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۱۴؍ ستمبر ۱۸۸۸ء
(۱۳۸) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کے مستقل کوڑٹ انسپکٹر ہونے سے بہت خوشی ہوئی۔ اللہ جلشانہ مبارک کرے۔ اشتہارات آپ کی خدمت میں بھیجے گئے تھے۔ ان کی اب تک رسید نہیں آئی۔ معلوم نہیں کہ آپ اب کی دفعہ کون سے اشتہارات مانگتے ہیں۔ مفصل تحریر فرماویں۔ تا بھیجے جاویں اور اس جگہ بفضلہ تعالیٰ سب طرح سے خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۲۶؍ ستمبر ۱۸۸۸ء
(۱۳۸) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔انشاء اللہ القدیر اشتہار تلاش کرکے دستیاب ہونے پر روانہ کر دوں گا۔ میرے نزدیک بہت مناسب ہے کہ مناسب ہے کہ آپ بقدر ضرورت انگریزی پڑھ لیں۔ سب بولیاں خدا کی طرف سے ہیں۔ بولی سیکھنے میںکچھ حرج نہیں۔ صرف صحت نیت درکار ہے اور سب طرح سے خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۳۰؍ اگست ۱۸۸۸ء
(۱۳۹) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ سردی میں میں انڈہ بہت خراب ہوتا ہے۔ اگر آپ بیس دن توقف کر کے انڈہ منگوا لیں اور تازہ ہوں تو وہ بیس روز تک اچھے ہوسکتے ہیں۔ انڈہ اگر اُبالا جائے یہاں تک کہ اندر سے زردی سفیدی دونوں سخت ہو جائیں تو کچھ زیادہ رہ سکتا ہے۔ مگر وہ پھر آپ کے کھانے کے لائق نہیں رہے گا۔ آپ کے لئے تو نیم برشت بہتر ہے۔ جو درحقیقت کچے کی طرح ہوتا ہے۔ بہتر ہے کہ پچاس تک انڈہ منگوا کر استعمال کریں۔ جب وہ ختم ہو جائیںاور منگوا لیں۔زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۷؍ اکتوبر ۱۸۸۸ء
(۱۴۰) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ انشاء اللہ القدیر آج سے آپ کے لئے دعا کرتا رہا ہوں گا۔ مگر جیسا کہ آپ نے لکھا ہے۔ یہ بات نہایت صحیح ہے کہ بندہ جب کسی قدر غافل ہو جاتا ہے اور بیسباکی سے کوئی کام کرتا ہے۔ یاکسی معصیت میں گرفتار ہوتا ہے تو رحمت کے طور پر تنبیہ الٰہی اس پر نازل ہوتی ہے۔پھر وہ جب سچے دل سے تو بہ کرلیتا ہے تو کبھی تنبیہ ساتھ ہی دور کی جاتی ہے۔ اور کبھی اس کو کامل متنسبہ کرنے کے لئے کچھ وہ تنبیہ بنی رہتی ہے۔ سو خطرات فاسدہ یا اعمال نامرضیہ سے بصدق دل توبہ کرنا اعادہ رحمت الٰہی کے لئے بہت ضروری امر ہے۔ والحمد للہ والمنت کہ خود آپ کے دل میں اس طرف رجوع ہو گیا۔ خدا تعالیٰ اس رجوع کو ثابت رکھے۔ خد اتعالیٰ سے بہرحال ڈرتے رہنا اور اس کے غضب کے اشتعال سے پرہیز کرنا بڑی عقلمندی ہے۔ دنیا گزشتہ و گزاشتنی اور جذبات نفساتی بدنام کندہ چیزیں ہیں اور انسان کی تمام سعادت مندی اور ڈرنا اور آخرت کے سلامتی خوف الٰہی دقیق ہیں۔ و باریک رس ہیں۔ وہ اس پر راضی ہے۔ جو اس سے خائف و ہراساں رہے اور کوئی ایسا کام نہ کرے کہ جو بیباکی کا کام ہو۔ اللہ جلشانہ آپ کو سچی اطاعت کی توقیق بخشے۔ مناسب ہے کہ اگر ابتلاء کے طور پر کوئی دوسری صورت پیش بھی آجاوے تو بہت بے قرار نہ ہوں۔ اللہ جل شانہ تغیر حالات پر قادر ہے اور دعا بدستور آپ کے لئے کی جائے گی۔ میری دانست میں اس موقعہ پر استعلام امور غیبیہ کی کچھ ضرورت نہیں۔ اس جگہ تضرع اور استغفار چاہئے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۱۰؍ اکتوبر ۱۸۸۸ء
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
۱۴۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کاتہ
آج میرا لڑکا بشیر احمد انیس روز بیمار رہ کر بقضائے الٰہی دنیائے فانی سے قضا کر گیا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۴؍ نومبر ۱۸۸۸ء
(۱۴۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
خط پہنچا۔ اللہ جلشانہ پر مضبوط بھروسہ رکھو۔ وہ رحیم و کریم ہے۔ یہ عاجز انشاء اللہ القدیر آپ کے لئے برابر دعا کرتا رہے گا۔ یاد دہانی کی ضرورت نہیں۔ لیکن اگر فرصت ہو تو کبھی کبھی اپنے خیالات سے مطلع فرمایا کریں۔ دعا کے لئے یاد دہانی کی ضرورت نہیں۔ محض تسلی خاطر کے لئے ضرورت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۲۳؍ نومبر ۱۸۸۸ء
(۱۴۳) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ جو آپ نے لکھا ہے۔ بات تو بظاہر بہت عمدہ ہے۔ اگر حقیقت میں آپ کے لئے یہ بہتر ہے تو اللہ جلشانہ آپ کے لئے میسر کرے۔ امید کہ آپ تعطیلوں میں ضرور تشریف لاویں گے۔ میں انشاء اللہ القدیر دعا کرتا ہوں۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۸؍ دسمبر ۱۸۸۸ء
(۱۴۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
آپ کے لئے دعا کر رہا ہوں۔ اللہ جلشانہ آپ کو مکروہات سے بچاوے۔ ان دنوںمیں استغفار کا بہت ورد رکھیں اور بہت بہت معافی گناہوں کی خدا وند کریم جل شانہ سے مانگیں اور اشتہار صداقت آثار ۸؍ اپریل ۸۶ء جس کی بناء پر اشتہار میں سے صرف ایک ایک اشتہار بطور سند میرے پاس پڑے ہوئے ہیں۔ کہ کسی موقعہ پر مخالفوں کو دکھلائے جاتے ہیں۔ اگر ان کے دیکھنے کی ضرورت ہو اور دوسری جگہ سے مل نہ سکیں تو بذریعہ رجسٹری بھیج سکتا ہوں۔ تاکہ ملاخطہ کے بعد واپس بھیج دیں۔ لیکن اگر مشکک کو اسی سے اطمینان ہو سکے تو پھر ضرورت نہیں۔ جیسا کہ منشاء ہو اطلاع بخشیں۔ اگر ضرورت ہو گی تو بلاتوقف رجسٹری کرا کر بھیج دوں گا۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۸۹ء مکرر یہ کہ ۷؍ اگست کا اشتہار ایک کے پاس سے اتفاقاً مل گیا۔ بعد ملاخطہ واپس فرمادیں۔ یہ بشیر کی پیدائش کا اشتہار ہے۔
والسلام
(۱۴۵) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
اب بفضلہ تعالیٰ بشیر احمد کی طبیعت پر آگئی ہے اور آپ کے لئے بہت غور اور فکر کیا۔ سو اس موسم کے موافق جو کچھ اللہ تعالیٰ کے ایما سے میرے دل پر گزرا ہے وہ یہ ہے کہ آپ زردی بیضہ برشت استعمال کریں۔ یعنی خوب پانی گرم کر کے ایسا کہ ابلنا شروع ہو جائے۔ انڈے اس میں ڈال دئیے جائیں اور انڈے ڈال کر ڈیڑھ سو کی گنتی پوری کی جائے۔ جب شمار ڈیڑھ سو تک پہنچ جائے تو بلاتوقف انڈے پانی سے نکال لئے جائیں۔ ایک ہفتہ تک تین انڈے صبح اور تین شام خوراک رکھیں۔ جب معلوم ہو کہ انڈا موافق آگیا ہے تو پھر تین کی جگہ چار کر دئیے جائیں۔ دوسرے یہ کہ گرم پانی کر کے اور اگر مل سکے تو اس میں تین چار ماشہ بنفشہ اور پانچ چار تولہ کدو ڈال کر گرم کریں اور اس میں غسل کریں صبح اور شام تیسرے روغن ماہی جو امرتسر اور لاہور میں مل سکتا ہے۔ بدن کو فربہ کرتا ہے۔ مگر ابھی وہ شائد گرمی کرے گا۔ سردی کے موسم میں ضرور استعمال کریں اورنیز سردی کے موسم میں آپ کے لئے کوئی ماء اللحم تجویز کر دیا جائے گا۔ حالات خیریت سے اطلاع بخشیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان ضلع گورداسپور
انڈے میں صرف زردی کھانی چاہئے۔ سفیدی نہیں کھانی چاہیئے۔
نوٹ۔ اس مکتوب پر تاریخ درج نہیں ہے۔ مگر مضمون سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ستمبر ۱۸۸۸ء کا خط ہے اور مکتوب نمبر ۱۳۹ سے پہلے چاہئے تھا۔(عرفانی)
(۱۴۶) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کارڈ پہنچا۔ انشاء اللہ القدیر دعا کرتا رہوںگا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ رکھیں۔ وہ بڑا رحیم و کریم ہے۔ اس کے رحم و کرم کا کچھ انتہا نہیں۔ استغفار لازم حال رکھیں۔ شرائط بیعت پھر کسی وقت روانہ کروں گا اور سب طرح سے بفضلہ تعالیٰ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۷؍ جنوری ۱۸۸۹ء
(۱۴۷) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج تاکیدی خط آپ کے لئے مولوی حکیم نورالدین صاحب کی خدمت میں لکھا گیا ہے۔ خدا تعالیٰ آپ کے ترودات دور کرے۔ آمین۔ امید کہ سبز اشتہار بعد میں نکال کر اگر ملے تو خدمت میں مرسل کروں گا۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۷؍ جنوری ۱۸۸۹ء
(۱۴۸) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
۵ جمادی الاوّل کو میرے گھر میں لڑکا پیدا ہو ا۔جس کا نام بطور تفاول بشیر الدین محمود رکھا گیا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۱۵؍ جنوری ۱۸۸۹ء
(۱۴۹) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اشتہارات آج روانہ کئے گئے ہیں۔ جس شخص کی اشتہار سے تسلی نہیں ہوئی۔ آپ کے لئے کیوں مضطرب ہوں۔ تعجب ہے۔ ہر شخص اپنے مادہ کے موافق جوہر دکھلاتا ہے۔ اس شخص کو اگر کچھ بصیرت ایمانی ہوتی تو وہ بے شک میںنہ ہوتا اور جب کہ بصیرت نہیں ۔ تو اس کو چھوڑنا چاہیے۔ کتاب واپس لے لو۔ روپیہ واپس کر دو۔ باقی سب خیریت ہے۔ آپ کے لئے دعا کی جاتی ہے۔ تسلی رکھو۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۳؍ فروری ۱۸۸۹ء
(۱۵۰) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آ پ کے لئے دعا میں مشغول ہوں۔ دعا سے بہتر اور کوئی چیز نہیں ۔ میری دانست آج بباعث غلبہ زکام بہت علیل ہے۔ زیادہ لکھنے کی طاقت نہیں۔ اگر صحت ہو گئی تو گھر کے لوگوں کو پہنچانے کے میر ا ارادہ ہے کہ دس یا گیارہ فروری ۱۸۸۹ء تک لودھیانہ میںجائوں۔ شاید ایک ماہ تک لودھیانہ میں ٹھہرنا ہو گا۔ پھر انشاء اللہ وہاں سے خط لکھوں گا۔ باقی سب خیریت ہے۔خواب اس عاجز کو یاد نہیں رہا۔ ہر چند خیال کیا۔ کچھ خیال میں نہیں آتا
والسلام
خاکسار
غلام احمدازقادیان
۷؍ فروری ۱۸۸۹ء
(۱۵۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی منشی صاحب۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ خوشی ہوئی۔ میں لڑکے کے واسطے دعا کروں گا اور ۱۸؍ اپریل ۸۹ء کو قادیان روانہ ہوںگا۔ انشاء اللہ۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ از لودھیانہ
۱۵؍ اپریل ۱۸۸۹ء
از عبداللہ سنوری السلام علیکم پذیر۔ حافظ حامد علی صاحب کی طرف سے السلام علیکم۔
(۱۵۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ موجب خوشی ہوئی۔ یہ عاجز بباعث کثرت خطوط اور کسی قدر علالت طبع کے اس قدر حیران ہے کہ حدسے زیادہ۔ انشاء اللہ القدیر بعد رمضان شریف آپ کی خدمت میں اشتہار بھیجا جائے گا۔ ہمیشہ خیروعافیت سے مطلع فرماتے رہیں۔ آپ کا تھانہ بڑ سر میںبھی حسب مرا دتبدیل ہوتا موجب خوشی ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ تھانہ آپ کے لئے مبارک کرے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۶؍ مئی ۱۸۸۹ء
(۱۵۳) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نا مہ پہنچا۔ تمام مضمون اوّل سے آخر تک پڑھا۔ مضمون بہت عمدہ ہے۔ کچھ ضرورت اصلاح یا کم و بیش کی نہیں۔ مگر مجھے معلوم نہیںہو اکہ قوم اوان اولاد حضرت علی کیونکر ہیں۔ آیا سید ہیں یا کسی اور بیوی سے اس کی اصل حقیقت کیا ہے اور اوان کی وجہ تسمیہ کیا ہے۔ دوسرے آپ فرماتے ہیں کہ سو کاپی چھپوائی جائے۔ مگر معلوم ہوا کہ خواہ سوچھپوائیں یا کم یا زیادہ سات سو کاپی کی اجرت لیں گے۔ یہی چھاپنے والوں کے ہاں دستور ہے۔ میری رائے میں اس مضمون کے چھپوانے میں ……۱۰ روپیہ سے کم خرچ نہیں آئیںگے۔ اگر کم ہوتو شاید آٹھ روپیہ تک ہو گا۔ جیسامنشاء ہو اطلاع بخشیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۱۶؍ مئی ۱۸۸۹ء
(۱۵۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کارد پہنچا۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے۔ غلام احمد نام کوئی شخص امرتسر میں مالک مطبع نہیں ہے۔ شاید کوئی نیا آگیا ہو۔ ہاں شیخ نور احمد صاحب نام ایک صاحب مالک مطبع ہیں۔ مجھے آپ مفصل لکھیں کہ غلام احمد مالک مطبع امرتسر میں کون ہے۔ کس پتہ سے اس کاخط بھیجا جائے اور یہ بھی لکھیں کہ کیا اس نے قبول کر لیا ہے کہ تین روپیہ لوں گا۔ کیا اسی میں کاغذ اور کاپی نویس کی اجرت داخل ہے۔ مجھے تو یہ بات سمجھ میںنہیں آتی۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۸؍ جون ۱۸۸۹ء
(۱۵۵) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب ڈپٹی انسپکٹر سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ پہلے بھی بذریعہ ایک خط کے آپ کو اطلاع دی گئی تھی کہ میری نظر میں غلام احمد نام کوئی مطبع نہیں ہے اورنہ آپ نے کچھ پتہ لکھا کہ اس شخص کا کس کٹڑہ میں ہے۔ جب تک پتہ نہ ہو۔ مضمون ارسال نہیں ہو سکتا۔ براہ مہربانی بہت جلد پتہ بھیجیں۔ اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب کی تشریف آوری کی آج کل امید لگی ہوئی ہے۔ جس وقت تشریف لائے۔خط دے دوں گا۔ آپ ک تبدیلی اگر نزدیک ہو جائے تو بظاہر تو اچھا معلوم ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ حافظ ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۱۳؍ جون ۱۸۸۹ء
(۱۵۶) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آج اس عاجز نے جناب الٰہی میں آپ کے لئے اس طور سے دعا کی ہے کہ یاالٰہی اگر جالندھر کی تبدیلی موجب بہتری ہے اور موجب خیر اورفضل کا ہو تو اپنے بندہ رستم علی کو اس جگہ پہنچا دے اور اگر اس میں مصلحت نہ ہو تو مشکلات سے نکال کر ایسی جگہ مرحمت فرما جو موجب برکت و خوشی دنیا و دین ہو کہ تو ہر چیز پر قادر ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمدعفی عنہ
۱۶؍ جون ۱۸۸۹ء
(۱۵۸) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ میںافسوس سے لکھتا ہوں کہ اس قسم کی طرح طرح کی مجبوریاں پیش آرہی ہیں۔ کہ میں آپ کے عزیز کی تقریب پر حاضر نہیں ہو سکتا اور مولوی صاحب غالباً کل یا پرسوں تک بحصول رخصت جموں سے لودھیانہ کی طرف تشریف لاویںگے اور قادیان میں آئیں گے۔ مگر میرے خیال میں ایسا ہے کہ وہ ۲۷؍ جون سے پہلے ہی تشریف لے جائیںگے۔ پس مشکل ہے کہ وہ ابھی اس تقریب پر حاضر ہو سکیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی ہمت میں برکت بخشے اورکامیاب کرے۔ آمین ثم آمین۔
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۱؍ جون ۱۸۸۹ء
(۱۵۸) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ خد اتعالیٰ آپ کو خاص محبت عطا فرمائے۔ جب خالص محبت دل میں آجاتی ہے تو یاد الٰہی کے لئے دل قوت اور شوق پید اہو جاتا ہے۔ جب تک وہ محبت نہیں۔ کسل شامل حال ہے۔ مولوی نورالدین صاحب بصحت تام جموںمیں پہنچ گئے ہیں۔ تولیہ راہ میں مل گیا تھا۔ میرے پاس موجود پڑا ہے۔ہمیشہ حالات خیریت آلات سے مطلع فرمایا کریں۔ آپ کو محبت اور اخلاص جو اس عاجز کے ساتھ ہے۔ یقین کہ وہ کشاں کشاں آپ کو اعلیٰ مقصد تک لے آئے گی۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۵؍ اگست ۱۸۸۹ء
(۱۵۹) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ خدائے عزوجل کوخواب میں دیکھنا بہرحال بہتر ہے۔ خدا تعالیٰ مبارک کرے۔ انشاء اللہ القدیر آپ کے لئے دعا کرتا رہوں گا۔ آپ کبھی دعا اور استغفار میںمشغول رہیں۔ خدا تعالیٰ رحیم و کریم ہے۔ آپ ایک محب خالص ہیں اور ایسے محب کہ ایسے تھوڑے ہیں۔پھر کیوں آپ بھول سکتے ہیں۔ خد اتعالیٰ خود ایسے محبوں کو بنظر محبت دیکھتا ہے۔ آپ کا تولیہ استعمال کیا جائے گا۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۲؍ ستمبر ۱۸۸۹ء
(۱۶۰) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ایارج فقرہ کی گولیاں رات کے پچھلے وقت یعنی پہر رات باقی رہے استعمال کرنی چاہئیں۔ ایک درم سے د ودرم تک اور معجون بعد تفقیہ کھانے چاہیئے۔ اور نسوار بھی بعد تفقیہ اور آپ کے لئے دعا بھی کی جاتی ہے۔ اگر اس میں بہتری ہو گی تو اللہ جلشانہ بہتر کر دے گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۴؍ ستمبر ۱۸۸۹ء
(۱۶۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ایک ضروری خط آپ کے نام کے متعلق چند روز سے بھیجا تھا۔ اب تک آپ نے جواب نہیں بھیجا۔ طبیعت نہایت مشوش ہے۔ وقت گزرتا جاتا ہے۔ جلد جواب ارسال فرماویں اور پیراندتا میرا ملازم غریب ہونے کی حالت میں عمر بسر کرتا ہے۔ آپ براہ مہربانی اس کو ملک میں ضرور اس کے لئے کوئی زوجہ صالحہ تلاش کریں۔ آپ کی ادنیٰ کوشش سے اس کا کام ہو جائے گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمدعفی عنہ
یکم اکتوبر ۱۸۸۹ء
جواب بہت جلد دیں تاکہ انتظار ہے۔ لڑکی باکرہ خورد عمر ہو۔
(۱۶۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
بخدمت اخویم محب صادق منشی رستم علی صاحب۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ خط میں آپ کو لودھیانہ سے لکھتا ہوں۔ میری روانگی کے وقت آپ کو خط معہ مبلغ …۱۰ روپیہ قادیان میں مجھ کو ملا تھا۔ مگر افسوس کہ میں اس دن تشویش کی حالت میں لدھیانہ کی طرف تیار تھا۔ اس لئے آپ کی فرمائش پر عمل کرنے سے مجبور رہا۔ اسی طرح لدھیانہ سے خط تھا کہ میر ناصر نواب صاحب کے گھر کے لوگ سخت بیمار ہیں او رانہوں نے میرے گھر کے لوگوں کو بلایا تھا کہ خط دیکھتے ہی چلے آئو وقت بہت تنگ ہے۔اس وجہ سے بندوبست جلد بھیجنے کا نہ کر سکا اور افسوس رہا۔ اب شاید ایک ہفتہ تک لودھیانہ ہوں۔ شیخ غلام غوث صاحب نے پیغام بھیجا تھا کہ میں کرسٹی صاحب کو آپ کی نسبت کہلایا ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ جن شخص کے ساتھ تبدیلی کرنا چاہتے ہیں۔ اس کی تبدیلی ہوچکی ہے۔ اب پھر کوئی شخص تبدیلی کی درخواست کرے گا تو ہم ضرور رستم علی صاحب کو بلا لیں گے۔ غرض غلام غوث کی زبانی معلوم ہوتا ہے کہ انگریز نے پختہ ارادہ کر لیا ہے۔ باقی خیریت ہے۔ جس وقت میں قادیان میں آئوں۔ اس وقت آپ کسی پہنچانے والے کا بندوبست کر کے مجھ کو اطلاع دیں۔ میں حلوہ تیار کرا کر بھیج دوں گا۔ ہمیشہ حالات خیریت سے مجھ کو اطلااع دیتے رہیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۷؍ اکتوبر ۱۸۸۹ء
(۱۶۳) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جس روز آپ کا خط اور …۱۰ روپیہ کا منی آرڈر پہنچا تھا۔ اسی روز رعاجز بباعث ایک عزیز کے سخت بیمار ہونے کے بعد لودھیانہ میں آگیا ہے۔ اس مجبوری سے آپ کی فرمائش کی تعمیل نہ ہو سکی نہایت ندامت ہے۔ آپ کے اشعار سے صاف ظاہر ہے کہ خد اوند کریم نے آپ کے دل میں طہارت باطنی کے لئے خالص جوش بخشا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس جوش میںترقی بخشے۔آمین۔
والسلام
خاکسار
غلام احمدعفی عنہ
۳۱؍ اکتوبر ۱۸۸۹ء
(۱۶۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ عاجز ابھی تک لودھیانہ میں ہے۔ میرے ملازم پیراں دتہ کی نسبت تو آپ کو زبانی بھی کہا تھا اور اب بھی بطور یاد دہانی لکھتا ہوں کہ اس کے نکاح کی نسبت آپ ضرور فکر کریں۔ قوم گوجر میں بہت لڑکیاں مل سکتی ہیں۔ کوئی ایسی لڑکی نو عمر تلاش کریں کہ نوعمر پندرہ سولہ برس کی اور نیک چلن اور محنتی ہو۔ انشاء اللہ القدیر آپ کو ثواب ہو گا۔ ضرور تلاش کریں۔ شاید میں ۴؍ نومبر ۸۹ء تک اس جگہ پہنچ جائوں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمدعفی عنہ
۲؍ نومبر ۱۸۸۹ء
(۱۶۵) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی مکرمی۔ اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ چند اشعار جو عمدہ اور دل سے نکلے ہوئے معلوم ہوتے تھے پہنچا۔ افسوس کہ میرے تینوں خطوں میںایک خط بھی آپ کے پاس نہیں پہنچا۔ نہایت حیرت ہے۔ جس روز قادیان میں انڈوں کے لئے آپ کا خط پہنچا تھا۔ اسی دن لودھیانہ سے خط پہنچا کہ والدہ اُم بشیر سخت بیمار ہیں۔ بمجرد دیکھنے کے چلے آئو۔ لہذا بلاتوقف روانہ ہونا پڑا۔ اس وجہ سے انتظام انڈوں یا ان کے حلوہ کا نہ ہو سکا۔ اب میں۵؍ نومبر ۱۸۸۹ء کو قادیان کی طرف تیار ہوں۔ آیندہ جو خط آپ لکھیں۔ قادیان آنا چاہیئے۔ پیراندتا کی نسبت بہت فکر رکھیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
یکم نومبر ۱۸۸۹ء
(۱۶۶) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
عنایت نامہ معرفت اخویم میر عباس علی شاہ صاحب مجھ کو ملا۔ خدا تعالیٰ آپ کو اپنی محبت عطا کرے۔ آپ کے اشعار آپ کے صدق طلب پر گواہ ہیں ۔ جزاکم اللہ۔ میں انشاء القدیر دہم نومبر ۸۹ء کو قادیان کی طرف جانے کے لئے ارادہ رکھتا ہوں۔ آئندہ ہرچہ مرضی مولا۔ پیراندتا میرے ملازم کے امر نکاح کو خوب یارکھیں۔ آپ کی ادنی کوشش سے اس غریب کا کام ہوجائے گااور آپ اگر ادنی توجہ کریں گے تو ضرور انشاء اللہ کوئی صورت نکل آوے گی۔ مگر چاہیئے۔ عورت جوان باکرہ بیس بائیس سال سے زیادہ نہ ہواور بیوہ نہ ہوکہ اس میں فتنہ پیدا ہوتا ہے۔ دلی توجہ سے تلاش فرمایں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۹؍نومبر ۱۸۸۹ء
(۱۶۷) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
کل لودہانہ سے قادیان آکر آپ کا دوسرا خط ملا۔ اشعار آبدار جو آپ نے دلی درد اورجوش سے لکھے تھے۔ پڑھ کر آپ کے لئے دعا خیر کی گئی۔ ترتب اثر وقت پر موقوف ہے کیونکہ اللہ جل شنانہ‘ نے ہر ایک بات کو اوقات سے وابستہ رکھا ہے ۔ آپ کی ملاقات کا بہت شوق ہے اور مناسب ہے کہ آپ گنجائش کے وقت میں ضرور ملاقات کریں کہ اس میں انشاء اللہ القدیر فوائد بے شمار ہیں۔ پیراں دتہ کے لئے ضرور خیال رکھیں ۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۳؍ نومبر ۱۸۸۹ء
(۱۶۸) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی مشفقی اخویم ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
عنایت نامہ پہنچا۔ آپ کے اشعار پاکیزہ اور عمدہ دل سے نکلے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ باایں ہمہ متانت ایسی ہے۔ کہ گویا ایک اہل زبان شاعر کی یہ امر خداداد ہے۔ خدا تعالیٰ آپ کو اپنی محبت بخشے۔ دنیا فانی اور محبت دنیا ہمہ فانی ۔ جس طرح آسمان پر ستارہ نظر آتے ہیں کہ ان کے نیچے کوئی ستون نہیں ۔ خدا تعالیٰ کے حکم سے ٹھہرے ہوئے ہیں اور حکم کی پابندی سے بے ستون کھڑے ہیں گرتے نہیں۔ اسی طرح مومن بھی حکم کا پابند ہے۔ خد اتعالیٰ کی فرمانبرداری پر کھڑا رہتا ہے گرتا نہیں۔ مومن کا دینا اور نفس کو چھوڑنا ایک خارق عادت امر ہے۔ وہ تبدیلی جو خدا تعالیٰ اس میں پید اکرتا ہے۔ وہ مومن کوقوت کو دیتی ہے۔ ورنہ ہر ایک شخص فانی لذت کا طالب اور شیطانی خیال اس پر غالب ہے۔ ……پر شیطان غالب نہیں آتا۔ کیونکہ وہ خدا تعالیٰ سے بیعت الموت کر چکا ہے۔ شیطان پر وہی فتح پاتا ہے جو بیعت الموت کرے۔ جیسے کہ آپ کے اشعار میں لذت ہے۔ خدا تعالیٰ آپ کے دل میں ایسی ہی سچی رقت پید اکرے۔ ایک شخص جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں شاعر تھا اور ایمان نہیں لاتا تھا۔ ایک نفس پرست آدمی تھا۔ لیکن اس کے موحدانہ اور عارفانہ تھے۔ ایک مرتبہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شعر سے نہایت پاکیزہ تھے۔ آنحضرت بہت خوش ہوئے اور فرمایا۔ امن شعرلا وکفر نفسہ۔ یعنی شعر اس کا ایمان لایا اور نفس اس کاکافر ہوا۔ خدا تعالیٰ آپ کے شعر اور آپ کے دل کو ایک ہی نور سے منور کرے۔ مناسب ہے کہ یہ اشعار آپ جمع کرتے جائیں۔ کیونکہ لطیف ہیں اور لائق جمع ہیں۔ مجھے بباعث کثرت کار فراغت نہیں۔ ورنہ میں جمع کرتا جاتا۔ تین روز سے لودھیانہ سے قادیان آگیا ہوں۔ مولوی نور دین صاحب کا کچھ پتہ نہیں۔ ہمیشہ حالات خیریت آیات سے مطلع فرماتے رہیں۔ دعا میں بہت مشغول رہیں کہ تمام امن و آرام خدا تعالیٰ کی یاد میں ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۳؍ نومبر ۹ ۱۸۸ء
(۱۶۹) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ آپ کے اشعار پڑھنے سے ہمیشہ دعا کی جاتی ہے کہ خدا وندکریم آپ کو خط و افر اپنی محبت کا بخشے۔ میں ان دنوں سخت بیمار ہوں۔ نہایت کمزور ہو گیا۔ اس لئے طاقت زیادہ تحریر کی نہیں۔ امید کہ بعد صحت انشاء اللہ مفصل خط لکھوں گا۔ میر صاحب کسی قدر بیمار رہے ہیں اور اب بھی پورے تندرست نہیں۔ اسی وجہ سے میر صاحب کا کوئی خط نہیں آیا ہوگا۔ آپ تلاش رکھیں۔ اگر شہد عمدہ مل سکے تو ضرور تشریف آویں۔ آپ کا ملاقات بہت شوق ہے۔ اگر رخصت ملے تو ضرور تشریف لے آویں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمدعفی عنہ
۲۵؍ نومبر ۱۸۸۹ء
پیراندتا کی نسبت رہے۔
(۱۷۰) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ میں افسوس سے لکھتا ہوں کہ درحقیقت بباعث بیماری مجھ سے تحریر جوابات میں کوتاہی ہوئی اوراب بھی پوری تندرستی نہیں ہوئی۔ اسی وجہ سے زیادہ لکھنے سے سخت مجبور ہوں۔ اگر چند سطریں بھی لکھوں تو سر گھوم جاتا ہے۔ ضعف بہت ہے۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
ضلع گورداسپورہ
۲۸؍ نومبر ۱۸۸۹ء
(۱۷۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا اور نہایت خوشی ہوئی۔ خداتعالیٰ آپ کو مکروہات سے بچاوے۔ انشاء اللہ القدیر آپ کے لئے بجدوجہد دعا کروں گا۔ اپنے حالات سے مطلع فرماتے رہیں اور استغفار میں بہت مشغول رہیں کہ اس میں دفع بلا ہے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۷؍ دسمبر ۱۸۸۹ء
(۱۷۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
انشاء اللہ القدیر دعا کروں گا۔ مگر اس طرح پر جو کچھ آپ کے دنیا اوردین کے لئے فی الحقیقت بہتر ہے۔ وہ بات آپ کو میسر آوے۔ کیونکہ خبر نہیں کہ خیر کس کام میں ہے۔ ہمیشہ حالات خیریت آیات سے مطلع فرماتے رہیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمدعفی عنہ
۱۸؍ دسمبر ۱۸۸۹ء
(۱۷۳) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
آپ کا انتظار تھا۔ خدا جانے کیا سبب ہوا کہ آپ تشریف نہیں لائے۔ چھ سات روز سے اخویم مولوی نورالدین صاحب تشریف رکھتے ہیں۔ شاید چھ سات روز تک اور بھی رہیں۔ اگر آپ ان دنوں آجائیں تو مولوی صاحب کی ملاقات بھی ہوجائے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۹؍دسمبر ۱۸۸۹ء
(۱۷۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
اس جگہ سب طرح سے خیریت ہے ۔ اپنے حالات خیریت آیات سے مطلع فرماتے رہیں۔ پیراندتا بغایت درجہ آپ کے وعدہ کا منتظر ہے اور کسی غریب کا کام کردینا نہایت ثواب ہے۔ آپ خاص توجہ فرما کر اس کے لئے کوشش فرمادیں۔ آپ کے لئے برابر دعا بحضرت باری عزاسمہ کی جاتی ہے۔ امید کے وقت پر ترتب اثر بھی ہوگا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی اللہ عنہ
۳؍جنوری ۱۸۹۰ء
(۱۷۵) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمی تعالی ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
مدت مدید کے بعد آپ کا خط پہنچا۔ اس قدر خطوط کے ارسال میں توقف کرنا مناسب نہیں۔ ہمیشہ استغفار میں مشغول رہیںکہ عمر کا ذرہ اعتبار نہیںاور جلد جلد اپنے حالات خیریت سے مطلع کرتے رہیں۔ تا دعا کی جاوے اور قریباً بیس روز سے لودہانہ میں ہوں۔ شاید ۶؍ مارچ ۹۰ء تک جاؤں۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از لودہانہ
۲۴؍فروری ۱۸۹۰ء
(۱۷۶) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
آپ کا عنایت نامہ پہنچا ۔ یہ عاجز عرصہ دس روز سے سخت بیمار رہا۔ بظاہر امید زندگی منقطع تھی۔ اب بھی کسی قدر بیماری باقی ہے۔ نہایت درجہ کا ضعف ہے۔ طاقت تحریر نہیں۔ صرف اطلاع کی غرض سے لکھتا ہوں۔ ورنہ حالت ایسی نہیں کہ لکھ سکوں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۷؍اپریل ۱۸۹۰ء
(۱۷۷) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ میں بمقام لاہور بغرض کرانے کے آیا ہوں۔ علاج ڈاکٹری شروع ہے۔ لیکن ابھی پوری پوری صحت نہیں ہوئی۔ انشاء اللہ کامل صحت ہوجائے گی اور میں دو تین روز تک واپس قادیان چلا جائوں گا۔ آپ اپنے حالات سے مطلع فرماتے رہیں۔
والسلامـ
خاکسار
غلام احمد از لاہور
مکان مرزا سلطااحمد
نائب تحصیلدار لاہور
۳؍ مئی ۱۸۹۰ء
نوٹ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اوائل میں جب لاہور جاتے تو مرزا سلطان احمد صاحب (جو آپ کے سب سے بڑے بیٹے ہیں۔ کے مکان پر ٹھہرا کرتے تھے اور جب ڈاکٹر محمد حسین صاحب مرحوم سے علاج کرایا کرتے تھے۔ یہ ڈاکٹر صاحب مرزا احمد حسین مشہور ناولسٹ کے والد ماجد تھے اور بھاٹی دروازہ کے اندر رہا کرتے تھے) یہ مکتوب حضرت کے اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا نہیں اور اس پر ازعاجز حامد علی السلام علیکم بھی تحریر ہے۔
(عرفانی)
(۱۷۸) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ الحمدللّٰہ والمۃ کہ بیماری لاحقہ سے اب بہت کچھ آرام ہے اور جس قدر باقی ہے۔امید کی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جلد شفا ہو جائے گی۔ ضعف بہت ہو گیا ہے۔ اس لئے اپنے ہاتھ سے خط لکھنا دشوار ہمیشہ اپنی خیروعافیت سے مطلع فرماتے رہیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۳۱؍ مئی ۱۸۹۰ء
(۱۸۹) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کے لئے دعا کی جاتی ہے تسلی رکھیں۔میری طبیعت بباعث ایک مرض دوری کے اکثر بیمار رہتی ہے اور ضعف بہت ہو گیا ہے۔ امید کہ اللہ تعالیٰ فضل کرے گا اور آپ اندیشہ مند نہ ہوں اور توبہ و استغفار میں مشغول رہیں۔ زمین پر کچھ نہیں ہو سکتا۔ جب تک آسمان پر نہ ہو۔ خدا تعالیٰ پر قوی بھروسہ رکھیں۔ میرا ارادہ ہے کہ تبدیل ہواکے لئے ۳؍ جولائی ۱۸۹۰ء تک لودھیانہ میں جائوں۔ اگر آپ کی ملاقات ہو تو بہت بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ غفور الرحیم ہے۔ محبت اور یقین سے اس پر امید رکھو۔
والسلام
۲۵؍جون ۱۸۹۰ء
(۱۸۰) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی مکرمی اخویم سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کے لئے جو اللہ جلشانہ نے بہتر سمجھا ہے وہی ہو گا اور امید رکھتا ہوں کہ دعا کا اثر آپ کے حق میں خیرو برکت ہو گا۔عسیٰ ان تکرھو اشیاء وھو خیر لکم۔ غالباً ۷؍ جولائی۱۸۹۰ء کو لودھیانہ کی طرف روانہ کروں گا۔ اقبال گنج کے محلہ میں میر ناصر نواب کا مکان ہے۔ وہاں سے میرا پتہ معلوم ہو گا۔ اضطراب نہ کریں تسلی رکھیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
یکم جولائی ۱۸۹۰ء
(۱۸۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ عاجز عرصہ زیادہ دو ہفتہ سے لودھیانہ میں ہے اور بار ہا بخلوص قلب آپ کے لئے دعا کی گئی ہے۔ امید ہے کہ خدا تعالیٰ بہرحال آپ کے لئے بہتر کرے۔ اسی کی طرف رجوع رکھو اور بے قرار مت ہو۔ وہ کریم ورحیم ہے اورمیں لودھیانہ میں محلہ گنج میں برمکان شاہزادہ حیدر اترا ہوا ہوں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۵؍ جولائی ۱۸۹۰ء
(۱۸۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا خط مدت کے بعد آیا۔ برابر آپ کے لئے بتوجہ دعا کی جاتی ہے اور خدا تعالیٰ رحیم وکریم ہے۔ تسلی رکھو اور اپنے حالات سے بلا تاخیر اطلاع فرماتے رہیں۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
از لودھیانہ محلہ اقبال گنج
مکان شاہزادہ حیدر
یکم اگست ۱۸۹۰ء
نوٹ۔ اس کے بعد چوہدری صاحب کی تبدیلی محکمہ ریلوے پولیس میں ہوگئی۔ چوہدری صاحب اس کے متعلق حضرت اقدس کو لکھتے رہتے تھے اور آپ ہر خط میں ان کو تسلی اور اطمینان دلاتے تھے۔ آخر خد اتعالیٰ نے آپ کی دعائوں کو شرف قبولیت بخشا اور چوہدری صاحب کو حسب مراد کامیابی ہوگئی۔ حقیقت میں بھی وہ نشانات اورخوارق تھے۔ جن کو دیکھ کر سابقون الاولون کی جماعت نے ایمانی ترقی حاصل کی تھی اور کوئی چیز حضرت کی راہ میں ان کے لئے روک تھی۔ وہ سب کچھ قربان کر کے یہی آرزو کہتے تھے کہ اور موقعہ ملے۔ اس لئے کہ بشاشت ایمانی ان میں داخل ہو چکی تھی اور خد اتعالیٰ کی آیات کو کھلا کھلا انہوں نے دیکھ لیا تھا۔
افسوس ہے کہ اگست سے دسمبر ۹۰ء بلکہ مارچ ۱۸۹۱ء تک کے خطوط نہیں مل سکے۔ میں تلاش میں ہوں۔ اگر مل گئے تو بطور ضمیہ شائع ہوں گے۔ انشاء اللہ العزیز (عرفانی)
(۱۸۳) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میں پھر آپ کو یاد دلاتا ہوں کہ براہ مہربانی جالندھر چھائونی سے انگریزی نورہ جو سوداگروں کی دوکان میں بکتا ہے لے کر ضرور ارسال فرمادیں۔ صرف ۴؍ کا کافی ہو گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۳؍ اپریل ۱۸۹۱ء
(۱۸۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
دہلی بازار بلی ماراں کوٹھی نواب لوہارو ۲۹؍ ستمبر ۱۸۹۱ء
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج یہ عاجز بخیروعافیت دہلی میں پہنچ گیاہے۔ ظاہراً معلوم ہوتا ہے کہ انشاء اللہ القدیر ایک ماہ تک اسی جگہ رہوں۔ کوٹھی نواب لوہارو جو بلیماراں والے بازار میں ہے رہنے کے لئے لے لی ہے۔ آپ ضرور آتی دفعہ ملیں اور میں نہایت تاکید سے آپ کو سفارش کرتا ہوں کہ آپ شیخ عبدالحق کرانچی والے کی نوکری کی نسبت ضرور کوشش فرماویں کہ وہ میرے بہت مخلص ہیں۔زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
(۱۸۵) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
دہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریماس عاجز کی تیاری کی ابھی کوئی پختہ خبر نہیں۔ ابھی بحث کے لئے تیاری ہو رہی ہے۔ شاید مولوی حکیم نور دین صاحب اور ایک جماعت ۱۷؍ اکتوبر ۱۸۹۱ء تک میرے پاس پہنچ جاوے۔ میں جانے کے وقت آپ کو اطلاع دوں گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از دہلی
نوٹ۔ یہ مباحثہ دہلی کے ایام کی خط وکتابت ہے۔ جب کہ سید نذیر حسین صاحب محدث دہلوی کو حضرت اقدس کی طرف سے دعوت دی گئی تھی۔(عرفانی)
(۱۸۶) پوسٹ کارڈ
۱۸؍دسمبر ۱۸۹۱ء
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کارڈ پہنچا ۔ تھان گبرون حامد علی کو پہنچ گیا اور آپ کا چوغہ بنات میاں حافظ معین الدین کو دیا گیا۔ جس کو دینے کے لئے آپ نے کہا تھا اور میں امید کرتا ہوں کہ آپ توجہ سے سلطان احمد سے فیصلہ کرلیں۔ تا اس کے موافق عملدر آمد ہوجاوے کیونکہ میرا قیام قادیان میں زیادہ تر التزام سے اسی غرض سے ہے کہ تا یہ انتظام ہوجاوے۔ زیادہ خیریت ہے
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
نوٹ:۔ چودھری رستم علی اس وقت لاہور میں متعین تھے اور مرزا سلطان احمد صاحب سے بعض امور متعلقہ اراضیات و باغ کا تصفیہ حضرت چاہتے تھے (عرفانی)
(۱۸۷) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی مکرمی۔ اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
چونکہ ۲۷؍دسمبر ۱۸۹۱ء کو قادیان میں علماء مکذبین کے فیصلہ کے لئے ایک جلسہ ہوگا۔ انشاء اللہ القدیر۔ کثیر احباب اس جلسہ میں حاضر ہونگے۔ لہذا مکلف ہوں کہ آپ بھی براہ عنایت ضرور تشریف لاویں۔ آتے ہوئے ی۴ روکھے پان ضرور لیتے آویں۔زیادہ خیریت ہے
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
نوٹ :۔ اس خط پر از بند محمد اسمعیل السلام علیکم بھی درج ہے۔ یہ مرزا محمد اسمعیل کی طرف سے ہے۔ اس پر کوئی تاریخ درج نہیں۔ مہرے سے معلوم ہوتا ہے۔ ۲۲؍دسمبر ۱۸۹۱ء کو ڈاک میں ڈالا گیا اور لاہور کی مہر ۲۳؍ دسمبر ۱۸۹۱ء کی ہے۔ یہ سب سے پہلے جلسہ کی اطلاع ہے اور اب جیسا کی حضرت اقدس نے اس جلسہ کے اعلان میں ظاہر فرمایا تھا۔ وہی جلسہ برابر انہی تاریخوں پر ہوتا چلا آرہا ہے ۔ گویا اب تک ۳۷ سالانہ جلسہ ہوچکے ہیں۔ سلسلہ کی ابتدائی تاریخ اور حضرت اقدس کی اس وقت کی مصروفیت کا اندازہ ہوسکتا ہے کہ ہی سب کام اپنے ہاتھ سے کرتے تھے۔ (عرفانی)
(۱۸۸) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی صاحب سلمہ تعالیٰ ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
ضرور دو بڑی شطرنجی اور ایک قالین ساتھ لاویں۔ ۲۵؍ دسمبر ۱۸۹۱ء تک ضرور آجاویں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۲۳؍دسمبر ۱۸۹۱ء
(۱۸۹) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمی تعالیٰ ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ خواب نہایت عجیب ہے۔ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ نتیجہ امتحان سے اطلاع بخشیں اور براہ مہربانی میر ناصر نواب صاحب کا اسباب پٹیالہ پہنچا دیں۔ وہ بہت تاکید کرتے ہیں۔ پتہ یہ ہے۔ دفتر نہر میر ناصر نواب صاحب نقشہ نویس۔
راقم خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۹؍جنوری ۱۸۹۲ء
(۱۹۰) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی محبی اخویم سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ عاجز قادیان میں آگیا ہے اور ایک رسالہ دافع الشہادت تالیف کرنے کی فکر میں ہے۔ براہ مہربانی وہ کتاب جو آپ نے مولوی غلام حسین صاحب سے لی ہے۔ یعنی تاویل الاحادیث شاہ ولی اللہ صاحب ضرور مجھ کو بھیج دیں۔ ہرگز توقف نہ فرماویں کہ اس کا دیکھنا ضروری ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۱۹؍مئی ۱۸۹۲ء
نوٹ:۔ اس خط میں از جانب محمد اسمعیل اور محمد سعید السلام علیکم درج ہے سید محمد سعید دہلوی حضرت میر صاحب قبلہ رضی اللہ عنہ کے عزیزوں میں سے تھے۔ وہ یہاں قادیان آئے اور حضرت نے انہیں مہتمم کتب خانہ بنادیا تھا۔ پھر ان کی شامت اعمال انہیں یہاں سے لے گئی اور گمنامی میں رخصت ہوئے۔ (عرفانی)
(۱۹۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ عزیزی غلام مصطفی کے لئے دعا کی گئی ۔ خدا تعالیٰ اس کو کامیاب کرے۔ آمین۔ انشاء اللہ القدیر پھر دعا کروں گا۔ امید کی اپنے حالات خیریت آیات سے مطلع و مسرور الوقت فرماتے رہیں گے۔ نیاء رسالہ ابھی مطبع ہوکر نہیں آیا۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۲۰؍جولائی ۱۸۹۲ء
(۱۹۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی مکرمی اخویم منشی صاحب۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ آپ رخصت لیں۔ تو ضرور مجھ کو بھی ملیں۔ کیونکہ آپ کی ملاقات کو ایک مدت ہوگئی ہے۔ عرب صاحب کے لئے بہت خیال ہے اور نواب محمد علی خان صاحب کو اشارہ کے طور پر اور نیز تصریح سے میں نے کہا بھی تھا ۔ اس سے زیادہ اور کیا کہا جاوے۔ حیدر آباد سے کوئی خط نہیں آیا۔ معلوم نہیں وہ لوگ کس حال میں ہیں۔ آج کل ایسی ہوا چل رہی ہے کہ ایک نئے روز کا خطرہ ہوتا ہے ۔ کہ دلوں پر کیا اثر ڈالے۔ جسمانی وبا بھی ہیں اور روحانی بھی ۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۲۵؍ جون ۱۸۹۲ء
نوٹ:۔ حامد علی السلام علیکم و سید محمد سعید السلام علیکم ،،درج ہے۔ (عرفانی)
(۱۹۳) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
محبت نامہ پہنچاآپ کی دلی ہمدردی اور اخلاص فی الواقعہ ایسا ہی ہے کہ کسی قسم کا فرق باقی نہیں رکھا۔ جزاکم اللہ خیرالجزء واحسن الیکم فی الدنیا والعقبیٰ۔رسالہ آسمانی نشان کے شروع ہونے میں یہ دیر ہے کہ میاں نور احمد مہتمم مطبع کی لڑکی جوان فوت ہوگئی ہے۔ اس غم کے سبب سے چند روز اس کی توقف ہوگئی۔ اب وہ قادیان آکر اول قرار داد اجرت باہم کرکے ضلع گورداسپور کے ڈپٹی کمشنر سکے اجازت لیں گے کہ قادیان میں میں مطبع لاویں۔بعد ازاں مطبع لے آویں گے۔ شاید اس عرصہ میں ہفتہ عشرہ اور دیر لگ جاوے ۔ اسمعیل کو سمجھا دیا گیا۔ اس کا بھائی لاہور کسی جگہ نوکر ہے ۔ وہ کہتا ہے ۔دوتین روز میں وہاں سے الگ ہوکر امرتسر پہنچ جائے گا۔ آپ کی دس تاریخ جولائی تک انتظار رہے گی۔ کتابیں ابھی امرتسر سے آئی نہیں۔ امید کہ چھ سات روز تک آجائیں گی اور شاید آپ کے پہنچنے تک آجائیں ۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۶؍جولائی ۱۸۹۲ء
(۱۹۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
چندہ …ماہوار کی حضرت مولوی محمد حسین صاحب کو اطلاع دی گئی۔ خد اتعالیٰ آپ کو اجر بخشے اور کتاب رسالہ نشان آسمانی قدر امرتسر میں باقی ہے۔ جس وقت کتابیں آتی ہیں روانہ کروں گا۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۷؍ جولائی ۱۸۹۲ء
(۱۹۵) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کی تبدیلی سے خوشی ہوئی۔ مبارکباد اور آپ نے جو مبلغ بیس ……روپیہ عربی رسالہ کے لئے کہا تھا۔ اس وقت عربی رسالے چھپ رہے ہیں۔ ایک کا نام تحفہ بغداد اور دوسرے کا نام کرامات الصادقین ہے۔ اگر آپ اسی وقت میں اگر گنجائش ہو مبلغ ۲۰… …روپیہ سیالکوٹ میں بھیج دیں۔ تو بہتر ہو۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۲۷؍ اگست ۱۸۹۲ء
نوٹ:۔اس وقت چوہدری رستم علی تھانہ ولٹوہا ضلع لاہور میں ڈپٹی انسپکٹر تھے۔ (عرفانی)
(۱۹۶) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ خدا تعالیٰ تفکر سے آپ کو نجات بخشے۔ کتاب آئینہ کمالات اسلام ۵ جزو تک چھپ چکی ہے۔ اگر آپ دوماہ تک چندہ مولوی محمد حسین صاحب کو بلاتوقف بھوپال بھیج دیں تو موجب ثواب ہو گا۔ پتہ بھوپال دارالریاست محلہ چوبدار پورہ۔ آپ کے اس تفکر کے لئے بھی دعا کی گئی ہے۔ مولوی عبدالکریم صاحب اور عرب صاحب آپ کے انتظار میں قادیان میں ہیں۔
راقم خاکسار
غلام احمداز قادیان
ضلع گوراسپورہ
۱۶؍ ستمبر ۱۸۹۲ء
(۱۹۷) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کے برادر زادہ کی خبر سن کر بہت رنج واندوہ ہوا۔ اللہ تعالیٰ اس کے تمام عزیزوں کو صبر عطا فرمائے اور اس مرحوم کو غریق رحمت کرے۔ اب تاریخ جلسہ ۲۷؍ دسمبر ۱۸۹۲ء بہت بزدیک آگئی ہے۔ آپ کا شامل ہونا ضروری ہے ماسوائے اس کے انتظام دو تین شطرنجی اور قالین کاا گر ہو سکے تو ضرور کر لیں۔ یہ تو پہلے آجانی چاہئیں۔ اگر آپ دو روز پہلے ہی تشریف لاویںتو مناسب ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
ضلع گورادسپورہ
۱۶؍ دسمبر ۱۸۹۲ء
(۱۹۸) ملفوف
افسوس ہے کہ یہ خط پھٹ چکا ہے۔ اس میں سے صرف مندرجہ ذیل حصہ باقی ہے۔(عرفانی)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کامحبت نامہ پہنچا۔ آپ کی بار بار کی تکلیفات کی …………معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی جلسہ کے لئے ضروری سامان وغیرہ لانے کے متعلق تاکیدی خط تھا اور اس میںحضرت نے عذر کیا ہے کہ آپ کو بار بار ضروریات سلسلہ کے متعلق تکلیف دی جاتی ہے۔ اس سے حضرت اقدس کی پاکیزہ سیرۃ کے بہت سے پہلوئوں پر روشنی پڑتی ہے کہ آپ بالطبع اپنے احباب کو کسی قسم کی تکلیف دینا چاہتے تھے اور اگر خدا تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کے ذریعہ مخلوق کی روحانی ترقی اور اخلاقی اصلاح کا یہ ذریعہ قرار نہ دیا ہوتا تو آپ کا بالطبع اس سے نفرت تھی۔ لیکن سنت اللہ یہی ہے اور اسی منازل سکوک طے ہو سکے تھے۔ چوہدری صاحب کی یہ خوش قسمتی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس بے تکلفی سے انہیں نوازتے تھے اور یہ سعادت قابل رشک ہے۔ ابتداًہر قسم کے جلسوں کی ابتدائی ضروریات کا انصرام چوہدری صاحب ہی کے حصہ میں آیا تھا اور وہ خود بھی ہر موقع کی تلاش میں رہتے تھے۔ رضی اللہ عنہ۔(عرفانی)
(۱۹۹) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ آپ مطمئن رہیں۔ آپ کے لئے انشاء اللہ القدیر یہ عاجز بہت دعا کرے گا۔ اللہ جلشانہ پہلے سے ہر ایک دعا آپ کے لئے قبول فرما رہا ہے۔ امید کہ اب بھی قبول فرمائے گا۔ مگر میں نہیں کہہ سکتا کہ جلد یا کسی قدر دیر سے۔ اس کے ہر ایک کام میں خیر اور خوبی ہے۔ اپنے حالات سے مجھ کو بدستور مطلع فرماتے رہیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
نوٹ:۔ تاریخ مٹ گئی ہے۔(عرفانی)
(۲۰۰) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
ابھی اسی وقت آ پ کے لئے تضرع اور ابتہال سے دعا کی گئی۔ بفضلہ تعالیٰ ضائع نہ جائے اور اس کا اثر ہو گا۔ آپ صبر سے منتظر رہیں۔ ہرگز ہر گز بے صبری نہ کریں۔ اپنے کام کو پوری توجہ اور ہوشیاری سے کریں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۲۶؍ جنوری ۱۸۹۲ء
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
۲۰۱) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
مبلغ بیس… روپے مرسلہ آنمکرم مجھ کو مل گئے۔ جزاکم اللہ خیرالجزاء۔ رسالہ عربی سیالکوٹ میں چھپ رہا ہے۔ شاید بیس روز تک تیار ہو جائے۔اس رسالہ کی تالیف کے دو مقصد ہیں۔ اوّل یہ کہ عربوں کے معلومات وسیع کیے جائیں اور اپنے حقائق و معارف کی ان کو اطلاع دی جائے۔ دوسرے یہ کہ میاں محمدحسین اور ان کے ساتھ دوسرے علماء جو اپنی عربی دانی اورعلم دین ناز کرتے ہیں۔ ان کا یہ کبر توڑا جائے۔ چنانچہ اس رسالہ کے ساتھ اسی غرض سے ہزار روپیہ کاا شتہار بھی شامل ہے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۶؍ جولائی ۱۸۹۲ء
(۲۰۲) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کاعنایت نامہ پہنچا۔ آپ جانتے ہیں کہ آپ کا اس عاجز سے محض للہ دلی تعلق اور محبت ہے اور یہ عاجز آپ کے ہر ایک تردد کے ساتھ متردد اور ہر ایک غم کے ساتھ غمگین ہوتا ہے۔ پھر کیونکر آپ کی دعا کی میں غفلت ہو۔ اللہ تعالیٰ آپ پر رحم کرے اور آپ کے مدعا کے موافق کام کر دیوے۔ آمین ثم آمین۔ انشاء اللہ القدیر توجہ سے آپ کے لئے دعا کروں گا۔ بلکہ شروع کر دی ہے۔ باقی خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۲۵؍ جولائی ۱۸۹۲ء
(۲۰۳) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ تعجب کہ کس قدر آپ کے پاس کسی نے جھوٹ بولا اور دوسرا تعجب کہ آپ کو بھی حقیقت واقعہ سے اطلاع نہیں ہوئی۔ بات یہ ہے کہ جب کہ عاجز امرتسر گیا اور جاتے ہی عاجز نے ایک خط رجسٹری کرا کر عبدالحق کو مباہلہ کے لئے بھیجا۔ کہ تم اس وقت مجھ سے مباہلہ کر لو۔ لیکن اس نے بدست منشی محمد یعقوب صاحب ایک خط اس مضمون کا لکھا کہ اس وقت تم عیسائیوں سے مباہلہ کرتے ہو۔ اس ووقت میں مباہلہ مناسب نہیں دیکھتا۔ جس وقت لاہور میں مولوی غلام دستگیر سے بحث ہو گی۔ اس وقت مباہلہ کروں گا۔ لیکن اس کے جواب میں لکھا گیا کہ جو شخص ہم میں سے اعراض کرے اور تاریخ مقررہ پر مقام مباہلہ میں حاضر نہ آوے۔ اس پر خد اتعالیٰ کی *** ہو۔ چنانچہ وہ اس سخت خط کو دیکھ کر بہر حال مباہلہ کے لئے تیار ہو گیا اور ایسا ہی ایک محمد حسین بٹالوی کو بھی لکھا گیا تھا۔ مگر تاریخ مقررہ پر عبدالحق مباہلہ پر آگیا اور امرتسر میں جو بیرون دروازہ رام باغ عید گاہ متصل مسجد ہے۔ اس میں مباہلہ ہوا اور کئی سو آدمی جمع ہوئے۔ یہاں تک کہ بعض انگریز پادری بھی آئے اور ہماری جماعت کے احباب شاید چالیس کے قریب تھے اور عبدالحق بھی آیا اور بہت سی بددعائیں دیں۔ لیکن محمد حسین بٹالوی چارو ناچار مباہلہ کے میدان میں آیا۔ مگر مباہلہ نہیں کیا اور سب لوگ معلوم کر گئے۔ کہ وہ گریز کر گیا۔ یہ سچی حقیقت ہے۔ جس کا شاید د س ہزار کے قریب باشندہ امرتسر گواہ ہو گا۔ اب جب تک پہلے مباہلہ کا فیصلہ نہ ہو۔ دوسرا مباہلہ کیونکر ہو۔ علاوہ اس کے اسی مباہلہ کی تاریخ میاں محی الدین لکھو کے والے اور ایسا ہی مولوی محمد جبار کو ( عبدالجبار مراد ہے۔عرفانی)کو رجسٹری کرا کر خط بھیجا گیا کہ اس تاریخ پر تم بھی آکر مباہلہ کر لو۔ اگر تاریخ مقررہ پر نہ آئے تو پھر کاذب ٹھہرو گے۔ مگر بحالیکہ ان کی رسیدیں بھی آگئیں اور کافی مہلت بھی دی گئی۔ لیکن وہ نہ آئے۔ رسیدیں موجود ہیں۔ ایسا ہی لودھیانہ میں بھی رجسٹری شدہ خط بھیجے گئے تھے اور دہلی اور پٹیالہ میں بھی۔
غلام احمد عفی عنہ
۱۹؍ اگست ۱۸۹۳
(۲۰۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ اسی جگہ سے آپ کے خط کے جواب میں حتی الوسع توقف نہیں ہوتا۔ شاید کسی وجہ سے خط نہ پہنچا ہو۔ دو رسالہ عربی چھپ رہے ہیں اور ایک رسالہ نہایت عمدہ اردو میں چھپ ہے۔ شاید یہ کام ایک ماہ تک ختم ہو۔ امید کہ اپنے حالات خیریت آیات سے مجھ کو مطلع فرماتے رہیں گے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۲۵؍ ستمبر ۱۸۹۳ء
نوٹ:۔ اس وقت چوہدری صاحب کورٹ انسپکٹر تبدیل ہو چکے تھے اور محکمہ ریلوے سے دوسری طرف منتقل ہو گئے تھے۔ اب لفافہ پر حضرت اقدس لکھتے تھے۔
بمقام منٹگمری۔ کچہری صدر۔ بخدمت مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب کورٹ انسپکٹر پولیس۔(عرفانی)
(۲۰۵)پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
مبلغ دس روپیہ مرسلہ آپ کے پہنچ گئے۔ جزاکم اللہ خیراً۔ کتابیں ابھی چھپ رہی ہیں۔ جس وقت آئیں گی۔ آپ کی خدمت میں ارسال ہوں گی۔ باقی سب خیریت ہے۔ امید کہ اپنے حالات سے ہمیشہ مطلع فرماتے رہیں۔
والسلام
نوٹ:۔ اس خط پر آپ نے دستخط نہیں کئے اور تاریخ بھی درج نہیں فرمائی۔ قادیان کی مہر اور ۱۸؍ اکتوبر ۱۸۹۳ء کی ہے۔(عرفانی)
(۲۰۶) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
مبلغ پچاس روپیہ آنمکرم پہنچ گئے۔ جزاکم اللّٰہ خیرا لجزاء۔ رسالہ حمامۃ البشری جو مکہ معظمہ میں بھیجا جائے گا اور تفسیر سورۃ فاتحہ چھپ رہی ہے۔ اب کچھ چھپنا باقی ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۱؍ نومبر ۱۸۹۳ء
(۲۰۷) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ میری طبیعت چند روز سے بعارضہ تپ بیمار ہے اور درد سر اور ضعف بہت ہے۔ اس لئے میں زیادہ نہیں لکھ سکتا۔ آپ کے دریافت طلبا امور کا جواب لکھ سکتا ہوں اور کسی اور وقت پر چھوڑ سکتا ہوں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۱۷؍ نومبر ۱۸۹۳ء
(۲۰۸) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
میں اس وقت فیروز پور چھاؤنی میں ہوں۔ اتوار کو واپس قادیان آجاؤں گا۔ آپ اپنے حالات خیریت سے بو اپسی اطلاع دیں۔ خداتعالیٰ آپ کو کلی صحت بخشے۔ آمین ثم آمین۔
خاکسار
غلام احمد
از فیروز پور چھاؤنی
نوٹ:۔ اس کارڈ پر مندرجہ ذیل السلام علیکم بھی لکھے ہوئے ہیں۔ از عاجز سید محمد سعید السلام علیکم و نیز غلام احمد کاتب۔ حامد علی السلام علیکم۔‘‘(عرفانی)
(۲۰۹) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
میں کل ایک ماہ کے قریب سفر پر رہ کر آیاہوں۔ امید کہ اپنی طبعیت کے حالات سے اطلاع بخشیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۵؍دسمبر ۱۸۹۳ء
(۲۱۰) پوسٹ کارڈ
السلام علیکم ۔ اول بشیرو محمود کی والدہ ملاقات اپنے والد ماجد کے فیروز پور گئے۔ پھر سنا کہ بشیر بہت بیمار پڑگیا۔ اس لئے ہم فیروز پور گئے اور وہاں پچیس روز کے قریب رہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی رضا مندی اور اپنے بنی کریم کی اتباع میں خورم و خورسند رکھے۔
والسلام
خاکسار
مرزاغلام احمد از قادیان
ضلع گورداسپور
۱۶؍دسمبر ۱۸۹۳ء
نوٹ:۔ یہ خط حضرت اقدس کے ارشاد سے حضرت حکیم الامتہ نے لکھا ہے اور حضرت کے دستخط بھی خود انہوں نے کئے ہیں۔ اس وقت گویا حضرت حکیم الامتہ رضی اللہ عنہ حضرت کی ڈاک بھی لکھا کرتے تھے اور یہ پہلا خط ہے۔ جس پر مرزا کا لفظ بھی لکھا گیا ہے۔ (عرفانی)
(۲۱۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ نے جو کوٹ بنوانے کے لئے لکھا تھا۔ میرے خیال میں سب سے بہتر یہ ہے کہ آپ ایک لحاف مہانوں کی نیت سے بنوادیں کہ مہمانوں کے لئے اکثر لحافوں کی ضرورت ہوتی ہے۔زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
غلام احمد
ازقادیان
نوٹ:۔ اس خط پر تاریخ نہیں ۔ مگر قادیان کی مہر ۲۲؍دسمبر ۱۸۹۳ء کی ہے۔ دوسری بات اس خط پر یہ ہے کہ آپ نے بسم اللّٰہ الر حمن الرحیم پورا نہیں لکھا بلکہ صرف بس لکھ دیا ہے۔ تیسری بات یہ خط آپ ایثار اور اکرام ضیف کے حسنات کو آپ کی سیرت میں دکھاتا ہے ۔ چودھری رستم علی صاحب آپ کے لئے ایک کوٹ تیا کرانا چاہتے ہیں مگر آپ اپنے نفس و آرام کو ترک کرکے انہیں مہمانوں کے لئے ایک لحاف بنوادینے مشورہ دے رہے ہیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ اپنے خدام کی تربیت کس طرح فرماتے تھے اور منازل سلوک کس طرح طے کرا رہے تھے۔ چودھری صاحب کے اخلاص و محبت کا توکیا کہناہے ۔ (عرفانی)
(۲۱۲) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
محبت نامہ پہنچاامید انشاء اللہ القدیر آپ کی معافی سواری کے لئے دعا کروں گا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس تکلیف سے بھی نجات بخشے۔ مگر میں دریافت کرنا چاہتا ہوںکہ جو مبلغ ۲۰… آپ نے بھیجے ہیں کیا یہ عرب صاحب کے چندہ میں ہیں یا میرے کاروبار کے لئے کیونکہ میں نے سنا تھا کہ آپ نے بیس روپیہ چندہ کے لئے تجویز کئے ہیں۔ اس سے اطلاع بخشیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۱۰؍مارچ ۱۸۹۴ء
(۲۱۳) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
محبت نامہ پہنچا۔ میں انشاء اللہ القدیر آپ کے لئے رمضان میں دعا کرتا رہوں گا۔ آپ کی تو ہر مراد اللہ پوری کردیتا ہے۔ آپ کیوں مضطرب ہوتے ہیں؟ رسالہ نورالحق بڑی شان کا رسالہ ہوگیا ہے اور پانچ ہزار …روپیہ اس کے ساتھ اشتہار دیا گیا ہے اور ہزار *** بھی۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۰؍ مارچ ۱۸۹۴ء
(۲۱۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
محبت نامہ پہنچا۔ یہ عاجز بباعث کثرت کار بیشک سخت معذور ہے۔ اب چند روز تک بالکل فرصت ہونے والی ہے۔ کتابیں چھپ گئیں ہیں۔ اب جز بندی باقی ہے۔ امید کہ ہفتہ عشرہ تک جز بند ی ہوکر میرے پاس پہنچ جائیں گی۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۶؍جون ۱۸۹۴ء
(۲۱۵) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
مبلغ پچاس روپیہ مرسلہ آپ کے پہنچ گئے۔ جزاکم اللہ خیراً۔ صاحبزادہ صاحب کتابیں روانہ کریں گے۔ بہت کم فرصتی میں چند سطریں لکھی گئی ہیں۔ باقی سب خیریت ہے ۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۶؍جولائی ۱۸۹۴ء
(۲۱۶) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
اس جگہ بباعث نہ پیدا ہونے روغن کے نہایت تکلیف ہورہی ہے۔ چربی دار اور خراب روغن ملتے ہیں۔ آپ کی بڑی مہربانی ہوگی اگر آپ ایک من پختہ روغن بذریعہ ریل بھیج دیں۔باقی ابھی تک کوئی تازہ خبر نہیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۲؍اگست ۱۸۹۴ء
یہ روغن آپ کے چندہ میں جو آئندہ دیں گے ۔ محسوب ہوجائے گا۔
(۲۱۷) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ معہ کارڈ پہنچا۔ اب تو صرف چند روز پیشگوئی میں رہ گئے ہیں۔ دعا کرتے رہیں کے اللہ تعالیٰ اپنے بند وں کا امتحان سے بچاوے۔ شخص معلوم فیروز پور میں ہے اور تندرست اور فربہ ہے۔ خداتعالیٰ اپنے ضعیف بند وں کو ابتلا سے بچاوے۔ آمین ثم آمین۔ باقی خیریت ہے مولوی صاحب کو بھی لکھیں کہ اس دعا میں شریک رہیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۲۲؍اگست ۱۸۹۴ء
نوٹ:۔ یہ آتھم کی پیشگوئی کے متعلق ہے۔ حضرت اقدس کا ایمان خداتعالیٰ کی بے نیازی اور استغنار ذاتی پر قابل رشک ہے۔ آپ کو مخلوق کے ابتلا ء کا خیال ہے(عرفانی)
(۲۱۸) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آتھم کی نسبت جو فیصلہ الٰہی ہے۔ حقیقت میں فتح اسلام ہے۔ جب اشتہار پہنچے گاتو آپ معلوم کرلیں گے کہ کیا حقیقت ہے مگر آپ کی ستقامت اور استقلالی پر نہایت خوشی ہوئی۔ خداتعالیٰ بہت بہت جزائے خیر بخشے۔ انشاء اللہ تجدید بیعت کا آپ ک دوہرا ثواب ہوگا اور اللہ تعالیٰ گناہ بخشے گا اور وآپ پر خاص فضل کرے گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۶؍ستمبر ۱۸۹۴ء
(۲۱۹) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
خط آپ کا جو بنام صاحبزادہ سراج الحق صاحب تھاپہنچا۔ جس کے دیکھنے پر بہت ہی تعجب ہوتا ہے کہ آپ ایسی خوشی کے موقع پر کیوں اس قدر اظہار اور ملال اور حزن کررہے ہیں اور نہ یہ افسوس صرف مجھ کو ہے۔ بلکہ جس قدر ہماری جماعت کے احباب اس جگہ موجود ہیںوہ سب افسوس کرتے ہیں۔ اگر آپ کو حقیقت حال معلوم ہوتو آپ کا ایسا غم خوشی کے ساتھ تبدیل ہوجائے۔ آپ ضرور دوچار روز رخصت ملنے پر تشریف لاویں ۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۶؍ستمبر ۱۸۹۴ء
نوٹ:۔ یہ مکتوب حضرت نے مخدومی حضرت سید حامد شاہ صاحب رضی اللہ عنہ کے اشتہار بہ عنوان ’’این مدہاست دراسلام چو خورشید عیاں۔ کہ بہر دور مسجانفے نے آید۔،،پر ہی لکھ دیا ہے۔ یہ اشتہار حضرت شاہ صاحب نے سعد اللہ لودہانوی کے جواب میں شائع کیا تھا (عرفانی)
(۲۲۰) مکتوب
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کا محبت نامہ پہنچا۔ آتھم کی نسبت جو خدا تعالی نے فیصلہ کیا ۔ اس کی آپ کو کچھ بھی خبر نہیں۔ میں پانچ ہزار اشتہار چھپوایا ہے۔ تین چار دن تک آپ کی خدمت میں پہنچے گا۔ اس وقت بجائے غم کے آپ کے دل میں خوشی پیدا ہوجائے گی۔ کہ اسلام کی فتح ہوئی۔والسلام
خاکسار۔غلام احمد
۸؍ستمبر ۱۸۹۴ء
میاں نور احمد صاحب کو السلام علیکم
(۱۲۱) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ آپ کے تردد کا حال معلوم ہوا۔ خدا تعالیٰ آپ اپنی طرف سے اطمینان بخشے۔ آمین۔ رسالہ انوار الاسلام تین دن تک یا چار دن تک چھپ کر آجائے گا۔ امید کہ وہ آپ کے اطمینان کا موجب ہو۔ تاہم بہترہے کہ آپ ایک ہفتہ کی رخصت لے کر ضرور ہمارے پاس آجائیں۔ میں بباعث کثرت مہمانان پہلے اس سے خط نہیں لکھ سکا۔ بخدمت اخویم میاں نور احمد صاحب السلام علیکم ۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۶؍ستمبر ۱۸۹۴ء
(۲۲۲) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
کل کی ڈاک میں مبلغ …۲۵ مرسلہ آں مجھ کو ملے۔ جزاکم اللہ خیراً۔ امید کہ اشتہار چارہزار روپیہ پہنچ گیا ہوگا۔ میری اصلاح ہے کہ کل اشتہار دونوں پیشگوئیوں کے متعلق رسالہ انوارالاسلام کے ساتھ شامل کرکے اپنے مخلص دوستوں کے نام بھیجے جاویں اور وہ ایک جلد ان کو مجلد کرالیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۲؍نومبر ۱۸۹۴ء
محبی اخویم میاں نور احمد صاحب۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔ آپ کا پہلا خط مجھے معلوم نہیں کب پہنچا۔ شاید سہو سے نظر انداز ہوگیا۔ اگر کوئی خاص مطلب ہے۔ تو اس سے اطلاع بخشیں تااس کا جواب لکھا جاوے۔ اس وقت وقت تنگ ہے۔ اس لئے زیادہ نہیں لکھا گیا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۲؍نومبر ۱۸۹۴ء
(۲۲۳) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کا محبت نامہ مجھ کو ملا۔ بہت خوب ہے کہ آپ انوارالا سلام معہ جملہ اشتہارات کے مجلد کرالیں۔ اگر ایساہی ایک صاحب کریں تو بہت ہی بہتر ہوگا۔ امید کہ انوار الاسلام آپ کی خدمت میں پہنچ گئی ہوگی۔ باقی سب خیریت ہے۔
خاکسار
نوٹ:۔ اس مکتوب پر خاکسار لکھ کر آگے اپنا نام حضرت نہیں لکھ سکے۔ اورنہ تاریخ درج کی ہے۔ مگر مہر سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ ۸؍نومبر ۱۸۹۴ء کو قادیان سے پوسٹ کیا گیا ہے۔ (عرفانی)
(۲۲۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
اللہ تعالی آپ کے مقاصد کو پورا کرے۔ا گر طبیعت ایسی ہی علیل رہتی ہے توکچھ مضائقہ نہیں کہ آپ اپنے آرام کے لئے کوشش کریں۔ جو منافی احکام شروع نہ ہو۔ مگر اللہ تعالیٰ پر توکل رکھیں۔ اگر معمولی طورپر سرٹیفکیٹ مل جائے تو بہتر ہے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۲۲؍نومبر ۱۸۹۴ء
(۲۲۵) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ خدا تعالیٰ آپ کو اپنی مرادات میں کامیاب کرے۔ آمین ثم آمین۔ نہایت خوشی ہوگی اگر آپ کورٹ انسپکٹری پر گورادسپور تشریف لے آویں۔ جلسہ ۲۷؍ دسمبر ۱۸۹۳ء نزدیک آگیا ۔ امید رکھتا ہوں کہ آپ ضرور اس موقعع پرخد اتعالیٰ کے فضل وکرم سے تشریف لاویں گے۔ اس جلسہ احباب میں آپ کا آنا نہایت ضروری ہے ابھی سے اس کابندوبست کر رکھیں۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
ضلع گورداسپور
۳؍ دسمبر ۱۸۹۳ء
(۲۲۶) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
مبلغ بیس … روپے آنمکرم مجھ کو مل گئے۔ جزاکم اللہ خیرا۔ چونکہ اب عنقریب تعطیلیں آنے والی ہیں۔مجھ کو معلوم نہیں تھا کہ آپ کو فرصت ملے گی۔ بہت خوشی ہو گی اگر آپ کو تعطیلوں میں اس جگہ آنے کاموقع ملے۔ خد اتعالیٰ آپ کو ترددات سے نجات بخشے اور اپنی محبت میںترقی عطا فرمائے۔ آمین۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۷؍ دسمبر ۱۸۹۴ء
(۲۲۷) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ حضرت مولوی نورالدین صاحب معہ چند دیگر مہمانان تشریف لے آئے ہیں۔ امید کہ آپ بھی ضرور جلد تشریف لے آئیںگے اور آتے وقت کسی سے بطور عاریت دو قالین اور شطرنجی لے آویں کہ نہایت ضروری ہے اور ۴؍ کے پان لے آویں۔ قالین اور شطرنجی والے سے کہہ دیں کہ صرف تین چار روز تک ان چیزوں کی ضرورت ہو گی اور پھر ساتھ واپس لے آویں گے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ا ز قادیان
ضلع گورداسپور
۱۹؍ دسمبر ۱۸۹۴ء
(۲۲۷)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کامحبت بھرا عنایت نامہ پہنچا۔میری دانست میں بغیر متواتر نماز استخارہ کے تبدیلی کے لئے پوری کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ میں سنتا ہوں کہ گورداسپورہ میں کام بہت ہے اور طرح طرح کے پیچیدہ مقدمات ہوتے ہیں۔ اس صورت میں تعجب نہیں کہ کوئی دقت پیش آوے۔ خدا تعالیٰ ہر ایک آفت سے محفوظ رکھے۔ امید کہ اپنے حالات خیریت آیات سے مسرور الوقت فرماتے رہیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۶؍ جنوری ۱۸۹۵ء
(۲۲۹) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
اس وقت باعث تکلیف دہی یہ ہے کہ مہمانوں کی آمدورفت زیادہ ہے اور اس وقت روغن کااس جگہ قدر قحط ہے کہ بازار میں کہیں روغن نہ اچھا نہ برا دستیاب نہیں ہوا اور آج لاچار سرسوں کاتیل ہنڈیا میں ڈال دیا گیا۔ آپ ہمیشہ ۲۰… ماہوار چندہ ارسال کرتے ہیں۔ بہتر ہو گا کہ آپ اس ماہ کی بابت بیس … روپیہ کا عمدہ روغن زرد خرید کر کے ارسال فرمادیں۔ مگر ریل کے لئے روانہ کے لئے بلٹی اس کی بھیج دیں تاجلدی پہنچ جاوے اور تبدیلی کے بارہ میں اوّل استخارہ کرنا چاہیے۔ گورداسپور میں اکثر حاسد اور شریر طبع لوگ ہیں۔
خاکسار
غلام احمد
۹؍ جنوری ۱۸۹۵ء
نوٹ:۔ تبدیلی کے متعلق چوہدری رستم علی صاحب اپنے اخلاص اور محبت کے اقتضا سے چاہتے ہیں کہ گورداسپور آجائیں اور حضرت اقدس بھی قرب کو پسند فرماتے ہیں۔ مگر لوگوں کی سازشوں اور شرارتوں کو مدنظر رکھ کر آپ جلد بازی کا مشورہ نہیں دیتے تھے۔ بلکہ ہر ایک کام کے لئے استخارہ کی ہدایت دیتے ہیں۔ اس سے آپ کا توکل علی اللہ ظاہر ہے اور آپ کبھی پسند نہ کرتے کہ کوئی کام اپنی ذاتی خواہش اور خیال سے کریں۔ بلکہ ہر امر کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اسی کے سپرد کرنا انسب قرار دیتے۔(عرفانی)
(۲۳۰) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
کل روغن کے لئے آدمی بھیج دیا گیاہے ۔ شاید آج یاکل آجاوے۔ جزاکم اللہ خیراً۔ رات تہجد میں آپ کے لئے دعا کی تھی اور کوئی خواب بھی دیکھی تھی۔ جو یادنہیں رہی۔ خد اتعالیٰ جو کچھ کرے گا۔ بہتر کرے گا۔ انشاء اللہ پھر بھی توجہ سے دعا کروںگا۔آپ سلسلہ ظاہر کے محرک رہیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۸۹۵ء
(۲۳۱) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کا محبت نامہ پہنچا اور روغن زرد اس سے پہلے پہنچ گیا تھا۔ جزاکم اللہ خیرا۔ آپ کے جناب الٰہی میں کئی دفعہ اخلاص اور توجہ سے دعا کی گئی۔ اب انشاء اللہ وہی ہوگا جو اللہ تعالیٰ آپ کے لئے بہتر جانتا ہے۔ خدا تعالیٰ آپ کے ہم وغم کودور کرے۔آمین۔
خاکسار
غلام احمد عفی اللہ عنہ
۱۶؍ فروری ۱۸۹۵ء
(۲۳۲) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کامحبت نامہ پہنچا۔ میں نے آپ کے لئے دعا کی ہے کہ اگر گورداسپور کی تبدیلی آپ کے لئے بہتر ہو اور اس میں کوئی شر نہ ہو توخد اتعالیٰ میسر کرے۔ یقین ہے کہ خدا تعالیٰ بہتر جو آپ کے لئے بہتر ہے وہی کرے گا اور منشی امام الدین منصف کو میرے نزدیک کچھ ذرہ علم نہیں۔ سمجھ پر شیطانی پردہ ہے۔ اس کے ساتھ بحث وقت ضائع کرنا ہے۔لیکن بہر حال اگر آپ اس کی تحریریں بھیج دیں۔ تو شایدکسی موقعہ پر ان کا رد کیا جائے گا۔ مگر وہ اپنی سخت نا سمجھی سے پاک غلطیوں سے گرفتار ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ۷؍ مارچ ۱۸۹۵ء
نوٹ:۔جیسا کہ میں پہلے بھی لکھ آیا ہوں۔ چوہدری صاحب گورداسپورہ کی تبدیلی کے لئے کوشاں تھے اور جیسے حضرت اقدس ان کے لئے یہ دعا فرماتے تھے کہ جو ان کے لئے بہتر ہو وہ میسر آئے اور یہ بصیرت افزا یقین حضرت اقدس کا تھا کہ جو کچھ ہو گا بہتر ہو گا۔ یہ دعا چوہدری صاحب کے حق میں گورداسپور ہی کی تبدیلی کی صورت میں قبول ہوئی اور یہاں عزت و احترام سے رہے اور انہیں سلسلہ کی خدمت کا قریب سے موقع ملتا رہا۔
امام الدین منصف جس کااس مکتوب میں ذکر ہے۔ یہ شخص اپنے آپ کو فاتح الکتب المبین کہتا ہے اور اس کا عقیدہ یہ تھا کہ قرآن مجید کو بائبل کے ساتھ ایک جلد میں رکھنا چاہیے اور بھی بعض عجیب و غریب عقائد وہ رکھتا تھا۔(عرفانی)
(۲۳۳) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
۶؍ اپریل ۱۸۹۵ء
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
گوردسپور آنے سے بہت خوشی ہوئی۔ا مید کہ اب وقتاً فوقتاً ملاقات ہوتی رہے گی۔ اطلاع بخشیں کہ صاحب ڈپٹی کمشنر گورداسپور میں ہیں یا نہیں اور اگر نہیں تو کب تک آئیں گے۔ کیونکہ ایک اخبار جاری کرنے کے لئے منظوری حاصل کرنی ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
(۲۳۴) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
چونکہ اخراجات پریس وغیرہ اس قدر ہیں کہ جس قدر معمولی آمدنی ہوتی ہے۔ اس کے لئے کافی نہیں۔ اس لئے بعض دوستوں کو تکلیف دینا اس کاروائی کے لئے ضروری سمجھا گیا۔آنمکرم اس کارخانہ کے لئے بیس … روپیہ ماہواری چندہ دیتے ہیں۔ سو اگر بندوبست ہو سکے اور فوق الطاقت تکلیف نہ ہو۔تو اڑھائی مہینہ کا چندہ ۵۰… روپیہ بھیج دیں۔ جب تک یہ ارھائی مہینہ گزر جائیں۔ یہ چندہ محسوب ہوتا رہے گا۔ اس طور سے ایسے ضروری وقت میں مدد مل جائے گی۔ورنہ پریسوں کے توقف میں خد اجانے کس وقت کتابیں نکلیں۔ کیونکہ تاخیر میں بہرحال آفات ہیں۔ رسالہ نور القرآن نمبر ۲ چھپ رہا ہے اور ست بچن اور آریہ دھرم بعض بیرونی شہادتوں کے انتظار میں معرض تعویق ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۷؍ اکتوبر ۱۸۹۵ء
(۲۳۵) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
مبلغ پچاس …روپے مرسلہ آپ کے معہ ۵ شیشی عطر کے مجھ کو پہنچ گئے۔ جزاکم اللہ خیرا۔ باقی سب طرح سے خیریت ہے۔ تینوں رسالے چھپ رہے ہیں۔ آپ کا ڈاک کا خط مجھ کو پہنچ گیا تھا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۵؍ نومبر ۱۸۹۵ء
(۲۳۶) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ بات یہ ہے کہ خد اتعالیٰ کی وحی کئی قسم کی ہوتی ہے اور وحی میں ضروری نہیں ہوتا کہ الفاظ بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوں۔ بلکہ بعض وحیوںمیں صرف نبی کے دل میں معافی ڈالے جاتے ہیں اور الفاظ نبی کے ہوتے ہیں اور تمام وحییں اسی طرح کی ہوئی ہیں۔ مگر قرآن کریم کے الفاظ اور معانی دونوں خد اتعالیٰ کی طرف سے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ پہلی وحی کے معانی بھی معجزہ کے حکم میں تھے۔ مگر قرآن شریف معانی اور الفاظ دونوں کے رُو سے معجزہ ہے اور تورات میں یہ خبر دی گئی تھی کہ وہ دونوں کے رُو سے خد ا تعالیٰ کی طرف سے ہوگا۔ تفصیل اس کی انشاء اللہ القدیر بروقت ملاقات سمجھا دوں گا۔ نقل خط امام الدین بھیج دیں۔ وہ نیم مرتد کی طرح ہے۔
خاکسار
غلام احمد
نوٹ:۔ اس خط پر تاریخ درج نہیں اور افسوس ہے کہ لفافہ محفوظ نہیں۔ مگر سلسلہ مکتوبات ظاہر کرتا ہے کہ یہ نومبر ۱۸۹۵ء کا مکتوب ہے۔(عرفانی)
(۲۳۷) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
افسوس کہ مجھ کو سوائے متواتر دو خط کے اور کوئی خط نہیں پہنچا۔ چونکہ دنیا سخت ناپایدار اور اس چند روزہ زندگی پر کچھ بھی بھروسہ نہیں۔ مناسب ہے کہ آپ التزام اور توبہ اور استغفار میں مشغول رہیں اور تدبر سے تلاوت قرآن کریم کریں اور نماز تہجد کی عادت ڈالیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو قوت بخشے۔ آمین۔
اشتہار چار ہزار… چھپ گیا ہے۔ امید کہ آپ کو پہنچ گیاہوگا۔باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
میاں نور احمد صاحب کوالسلام علیکم۔
(۲۳۷) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
ضروری کام یہ ہے کہ جو (باوا) نانک (صاحب) نے کمالیہ ضلع ملتان میں چلہ کھینچا تھا۔ اس کے بارے میں منشی داراب صاحب سے دریافت ہو اکہ کس بزرگ کے مزار پر چلہ کھینچا تھا اور وہ مزار کمالیہ گائوں کے اندر ہے یا باہر ہے اور اس بزرگ کا نام کیا ہے اور کس سلسلہ میں وہ بزرگ داخل تھے اور کتنے برس ان کو فوت ہوئے گزر گئے۔
دوسرے یہ کہ کمالیہ میں کوئی مقام چلہ نانک کا بنا ہوا موجود ہے یا نہیں اور اس مقام کا نقشہ کیا ہے اور اس مقام کے پا س کوئی مسجد بھی ہے یا نہیں اور وہ مقام روبقبلہ ہے یا نہیں؟
تیسرے یہ کہ اگر منشی داراب صاحب کو کسی قسم کے (باوا) نانک( صاحب) کے سفر یاد ہوں۔ جو گرنتھ میں موجود ہوں۔ جو ہمارے مفید ہوں اور ان کا حوالہ یا دہو تو وہ بھی لکھ دیں۔
چوتھے یہ کہ کیا یہ ثابت ہو سکتا ہے کہ (باوا)نانک( صاحب ) کسی مسلمان بزرگ کا مرید ہوا تھا۔
اور آپ کی خدمت میں ایک نوٹس بھیجا جا تا ہے۔ اس کے متعلق جہاں تک ممکن ہو دستخط کرا کر بھیج دیں اور ایسے دستخط بھی بھیج دیں اور جو گورنمنٹ کی طرف درخواست جائے گی۔ اس پر دستخط کرائے جائیں۔
پیچھے سے نقل درخواست اور نقشہ گواہوں کے لئے بھیج دوں گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
نوٹ:۔ اس خط پر تاریخ درج نہیں اور لفافہ محفوظ نہیں یہ ۱۸۹۵ء کا مکتوب ہے۔ جب کہ ست بچن زیر تالیف تھا۔(عرفانی)
(۲۳۹) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
رسالہ عربی طبع ہور ہا ہے اور جو آپ نے اس کی مدد کے لئے ارادہ فرمایا ہے۔ خد اتعالیٰ آپ کو جزائے خیر بخشے۔ لیکن چونکہ مطبع کے لئے اس وقت روپیہ کی ضرورت ہے۔ یعنی کاغذ وغیرہ کے لئے سو بہتر ہے کہ وہ بیس …روپیہ جو آپ نے وعدہ فرمایا ہے وہ مطبع سیالکوٹ میں یعنی پنجاب پریس سیالکوٹ میں بنام منشی غلام قادر صاحب فصیح مالک مطبع ارسال فرمادیں۔ تا اس کام میں لگ جائے۔ کتابیں تو اکثر مفت تقسیم ہوں گی۔ مگر خرچ کی اب ضرورت ہے اور روپیہ میرے پاس نہیں بھیجنا چاہئے۔ فصیح صاحب کے پاس جانا چاہئے اور اس میں لکھ دیں۔ میرے نزدیک اس قدر لمبی رخصت ابھی لینی قابل مشورہ ہے۔
نوٹ:۔ یہ مکتوب اسی قدر ہے۔ حضرت اقدس اپنا تاریخ وغیرہ کچھ نہیں لکھ سکے۔ یہ کمال استغراق کا نتیجہ ہے۔(عرفانی)
(۲۴۰) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کامحبت نامہ پہنچا۔ امید کہ میرا کارڈ بھی پہنچا ہو گا۔ تینوں رسالے سیالکوٹ میں چھپ رہے ہیں۔ درمیان میں بباعث بیماری پریس مین کے توقف ہو گئی ہے۔ لیکن اب برابر کام ہوتا ہے۔ امید کہ انشاء اللہ القدیر جلدچھپ جائیں گے۔ شیخ رحمت اللہ صاحب گجرات نے ان کی امداد کے لئے ایک سو روپیہ سیالکوٹ بھیج دیا ہے وہ بمبئی گئے ہیں۔ وہیں انشاء اللہ دوبارہ تقسیم کے بلادب عرب میں بندوبست کریں گے۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
ضلع گورداسپور
(۲۴۱)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کوبار بار تکلیف دیتے شرم آتی ہے۔ تمام جماعت میں ایک آپ ہی ہیں جو اپنی محنت او رکوشش کی تنخواہ کا ایک ربع ہمارے سلسلہ کی امداد میں خرچ کرتے ہیں۔ آپ کو اس صدق و ثبات کا خد اتعالیٰ بدلہ دے گا۔ آمین۔
اس وقت ایک شدید ضرورت کے لئے چند دوستوں کولکھا گیا ہے اور اسی ضرورت کے لئے آپ کو تکلیف دیتا ہوں کہ اگر آپ مبلغ بیس… روپیہ بطور پیشگی اپنے چندہ میں بھیج دیں۔ تو پھر جب کل حساب چندہ پیشگی طے نہ ہولے۔ آیندہ کچھ نہ بھیجیں۔ یہ روپیہ جہاں تک ممکن ہو روانہ فرمادیں۔ جزاکم اللہ خیرا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
یکم مئی ۱۸۹۶ء
آپ نے پہلے چالیس … پیشگی چندہ روانہ کیا تھا اور اب ۲۰… آپ سے طلب کیا گیا ہے۔ پس جب تک یہ ساٹھ روپیہ… چندہ ایام ختم نہیں ہوں گے۔ تب تک آپ سے طلب نہ کیا جائے گا۔
والسلام
(۲۴۲)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
میں آپ سے یہ دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ مرزا احمد بیگ کی لڑکی کے نکاح کی نسبت جو آپ نے خبر دی تھی کہ بیس روز سے نکاح ہو گیا ہے۔ قادیان میں اس کی خبر کچھ اصلیت معلوم نہیں ہوتی۔ یعنی نکاح ہو جانا کوئی شخص بیان نہیں کرتا۔ لہذا مکلف ہوں کہ اس امر کی نسبت اچھی طرح تحقیقات کر کے تحریر فرماویں کہ نکاح اب تک ہو ایا نہیں اور اگر نہیں ہو اتو کیا وجہ ہے؟ مگر بہت جلد جواب ارسال فرماویں اور نیز سلطان احمد کے معاملہ میں ارقام فرماویں کہ اس نے کیا جواب دیا ہے؟
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
ضلع گورداسپور
۲۸؍ ستمبر ۱۸۹۱ء
(۲۴۳) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آج آنمکرم کا کارڈ پہنچا۔ مجھے تعجب ہے کہ بیس روپیہ … کی رسید کے بارے میں میں نے ایک کارڈ اپنے ہاتھ سے لکھاتھا معلوم ہو تا ہے کہ یا تو وہ کارڈ اسی سے گم ہو گیا۔ جس کا ڈاک میں ڈالنے کے لئے دیا گیا تھا اور یا تو ڈاک میں گم ہو گیا۔ خدا تعالیٰ نے دعا کا کچھ تو اثر کیا کہ اس انگریز نے آپ کے گھوڑے کے بارے میں کچھ سوال نہیں کیا او رپھر اس کے فضل پر امید رکھنی چاہئے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۱۲؍ مئی ۱۸۹۸ء
(۲۴۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
انشاء اللہ میں آپ کے صبر کے لئے کئی دفعہ دعاکروں گا۔ خدا تعالیٰ آپ کو صبر بخشے اور اس لڑکے کو جس کا آپ ذکر کرتے ہیں۔ کسی تعطیل میں آپنے ساتھ لئے آویں۔
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۵؍ فروری ۱۸۹۶ء
(۲۴۵) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ چونکہ وفات پسر مرحوم کی خدا تعالیٰ کا فضل ہے اور صبر پر وہ اجر ہے۔ جس کاکوئی انتہاء نہیں۔ اس لئے آپ جہاں تک ممکن ہو۔ اس غم کو غلط کریں۔ خد ا تعالیٰ انعم البدل اجر عطا کردے گا۔ وہ ہر چیزپر قادر ہے۔ خدا تعالیٰ کے خزانوںمیں بیٹوں کی کمی نہیں۔ غم کو انتہاء تک پہنچانا اسلام کے خلاف ہے۔
میری نصیحت محض للہ ہے۔ جس میں سراسر آپ کی بھلائی ہے۔ اگر آپ کو اولاد اور لڑکوں کی خواہش ہے۔ تو آپ کے لئے اس کا دروازہ بند نہیں ۔ علاوہ اس کے شریعت اسلام کے رُو سے دوسری شادی بھی سنت ہے۔ میرے نزدیک مناسب ہے کہ آپ دوسری شادی بھی کر لیں۔ جو باکرہ ہو اور حسن ظاہری اور پوری تندرستی رکھتی ہو اور نیک خاتون ہو۔ اس سے آپ کی جان کو بہت آرام ملے گا۔ انسان کی تقویٰ تعدد ازواج کا چاہتی ہے۔ اچھی بیوی جو نیک اور موافق اورخوبصورت ہو تمام غموں کو فراموش کر دیتی ہے۔ قرآن شریف سے ثابت ہے کہ اچھی بیوی بہشت کی نعمت ہے۔ اس کی تلاش ضرور رکھیں۔ آپ ابھی نوجوان ہیں۔ خد اتعالیٰ بہت اولاد دے دے گا۔اس کے فضل پر قوی امید رکھیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۶؍ جون ۱۸۹۰ء
(۲۴۶) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کاعنایت نامہ پہنچا۔ مولوی صاحب کوٹلہ مالیر کی طرف تشریف لے گئے ہیں۔ نواب صاحب نے چھ ماہ کے لئے مولوی صاحب کو بلایا ہے۔ مگر شاید مولوی صاحب ایک ماہ یادو ماہ تک رہیں۔ یا کچھ زیادہ رہیں۔ حامد علی نے پختہ عزم کر لیا ہے۔ اب وہ شاید باز نہیں آئے گا۔ جب تک آخیر نہ دیکھ لے۔ دراصل دنیا طلبی ایک بلا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میں اپنے غم کو موت کے برابر دیکھ رہا ہوں۔ کاش یہ غم لوگوں کو ایمان کا ہو۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
نوٹ:۔ اس پرخط کوئی تاریخ نہیں۔ مگر قادیان مہر ۳؍ جولائی ۱۸۹۶ء کی ہے۔ چوہدری صاحب ان ایام میں گورداسپور میں تھے۔ حافظ حامد علی مرحوم نے اس وقت افریقہ جانے کا ارادہ کیا تھا۔ وہ اپنی بعض خانگی ضرورتوں اور مشکلات کی وجہ سے بہت تکلیف میں تھے۔ حضرت اقدس کا یہ منشا نہ تھا۔ نتیجہ یہی ہوا کہ حافظ صاحب وہاں سے ناکام واپس آئے اور پھر کہیں جانے کانام نہ لیا۔(عرفانی)
(۲۴۷) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
صاحبزادہ ظہور احسن از شرارت ہائے برادرعم زادہ خود ظہور الحسین نابینا بیساء منظوم است۔ مناسب کہ حتی الوسع برحال اوشان نظر ہمدردی کردہ درمواسات او شان دریغ نفرمایند۔ کہ ایں ہمدردی از قبیل اعانت مظلوماں است۔ ومبلغ …روپیہ رسیدو انجام آتھم فرستادہ مے شود۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
(۲۴۸) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
اس وقت میں نے تاکیداً میاں منظور محمد صاحب کو کہہ دیا ہے کہ ایک نقل اس خط کی جو امیر کابل کی طرف لکھا گیا ہے۔ آپ کی طرف بھیج دیں۔ امیدکہ کل یا پرسوں تک وہ نقل آپ کی خدمت میں پہنچ جائے گی۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۱؍ جون ۱۸۹۶ء
اور میں انشاء اللہ القدیر اب دلی توجہ سے آپ کی اولاد کے لئے دعا کروں گا تسلی رکھیں۔میں ارادہ کرتا ہوں ۔ اگر خد اتعالیٰ چاہے اور کثرت مصارف نہ ہو۔ مع عیال کے دو تین ماہ تک ڈلہوزی میں چلا جائوں۔ کیا آپ کا کوئی ایسا شخص وہاں دوست ہے جو اس کی معرفت مکان کا بندوبست ہو سکے۔ معہ عیال کس سواری پر جا سکتے ہیں اور کرایہ کیاخرچ آئے گا۔ تحریر فرما ویں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
(۲۴۹) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
خط پہنچا۔ پڑھ کرچاک دیا گیا۔ ڈلہوزی جانے کی تجویز ہنوز ملتوی ہے۔ کیونکہ میرا چھوٹا لڑکا زحیر کی بیماری سے سخت بیمار ہو گیا ۔ کئی دن تو خطرناک حالت میںر ہا۔ اب ذرا سا افاقہ معلوم ہوتا ہے۔ مگر ہنوز قابل اعتبار نہیں۔ اس حالت میںکسی طرح یہ سفر نہیں ہوسکتا۔ اگر خدا چاہتا تو یہ عوارض اور موانع پیش نہ آتے۔ا ن میں کچھ حکمت ہو گی۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۴؍ جون ۱۸۹۶ء
(۲۵۰) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
اس جگہ بفضلہ تعالیٰ خیریت ہے۔ دوسرے رسالہ نور القرآن کی تیاری ہے اور سنن الرحمن چھپ رہی ہے۔ آپ کی ملاقات پر مدت گزر گئی ہے۔ ضرور دو چارروز کی تعطیل پر ملاقات کے لئے تشریف لاویں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۱۷؍ اگست ۱۸۹۵ء
(۱۵۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
اب عورت کی بالفضل ضرورت نہیں اور میاں غلام محی الدین کے لئے جناب الٰہی میں دعا کی گئی تھی۔ خد اتعالیٰ اس کو اس سخت مشکل سے مخلصی عنایت فرماوے۔ آمین ثم آمین اور آتھم کی نسبت اب جلد اشتہار نکلنے والا ہے۔ نکلنے کے بعد ارسال خدمت ہو گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۸؍ اگست ۱۸۹۶ء
(۲۵۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ بابو غلام محی الدین کے لئے دعا کی گئی ۔ اگر یاد دلاتے رہیں گے تو کئی مرتبہ دعا کی جائے گی اور برص کا نسخہ مجھ کو زبانی یاد نہیں اور نہ کوئی نسخہ مجرب ہے۔ یوں تو قربادیں میں بہت سے نسخے لکھے ہوئے ہیں۔ مگر میرا تجربہ نہیں۔ اگر کوئی عمدہ نسخہ ملاتو انشاء اللہ لکھ کر بھیج دوں گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۳؍ ستمبر ۱۸۹۶ء
(۲۵۳) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
میری طبیعت علیل ہے اور اب بھی علیل ہے۔ اس لئے زیادہ تحریر کی طاقت نہیں رہی ۔ میں نے اس مہمان خانہ کے لئے ضرورت اشد کی وجہ سے ایک کنواں لگوانا شروع کیا تھا۔ چند دوستوں کے چندہ کے لئے تکلیف بھی دی گئی۔ مگر وہ چندہ ناکافی رہا۔ا ب کنوئیں کا کام شروع ہے۔ مگر روپیہ کی صورت ندارد چاہتا ہوں۔ اگر آپ دوماہ کا چندہ چالیس … روپیہ بھیج دیں۔ توشاید اس سے کچھ مدد مل سکے۔ ابھی کام بہت ہے۔ بلکہ عمارت بھی شروع نہیں ہوئی۔ بوجہ ضعف کے زیادہ نہیں لکھ سکتا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۷؍ ستمبر ۱۸۹۶ء
(۲۵۴) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی محبی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کی خدمات متواترہ سے مجھے شرمندگی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر بخشے۔ اس وقت بباعث قحط اور کثرت مہمانوں کے ضرورتیں ہیں۔ اخراجات کا کچھ ٹھکانہ نہیں۔ اب آٹے کی قیمت کے لئے ضرورت ہے۔ اس لئے مکلف ہوں کہ اگر ممکن ہو سکے تو پھر آپ مبلغ چالیس …بطور پیشگی بھیج دیں کہ بہت ضرورت در پیش ہے اور مجھ کو اطلاع دیں کہ یہ روپیہ کس معیاد تک آپ کے وعدہ چندہ کا متکفل رہے گا تااس وقت تک آیند تکلیف دینے سے خاموشی رہے۔ یہ امر ضرور تحریر فرمادیں کہ یہ روپیہ فلاں انگریزی مہینہ تک بطور پیشگی پہنچ گیا ہے۔ باقی سب خیریت ہے۔ امید کہ دسمبر کی تعطیلات میں آپ تشریف لاویں گے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۴؍ نومبر ۱۸۹۶ء
یہ خط آپ کی خدمت میں ضرورت کے وقت لکھا گیا ہے۔ ورنہ نے وقت آپ کو تکلیف دینا مناسب نہ تھا اور نیز اس حالت میں کہ اس وقت آپ کو گنجائش نہیں۔
والسلام
(۲۵۵) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
اب تو آپ کی ملاقات پر مدت گزر گئی ۔باعث تکلیف وہی یہ ہے کہ اگر اپنے چندہ کو دو ماہ بھیج دیںیعنی … … تو اس وقت خرچ کی ضرورت پر کام آوے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۹؍ دسمبر ۱۸۹۶ء
جس وقت تک آپ کا یہ روپیہ ہو گا۔ اس سے اطلاع بخشیں۔
(۲۵۶) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کاعنایت نامہ پہنچا۔ بباعث عذر مرض کچھ مضائقہ نہیں کہ آپ روزہ رمضان نہ رکھیں۔ کسی اور وقت پر ڈال دیں۔ کتابوں کی روانگی کے لئے کہہ دیا ہے۔ میں بھی بدستور بیمار چلا جاتا ہوں۔ ہر ایک امر خد اتعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
فروری ۱۸۹۷ء
نوٹ:۔ یہ پہلا خط ہے جس پر آپ نے مرزا کا لفظ اپنے نام کے ساتھ تحریر فر مایا ہے۔
(خاکسار۔عرفانی)
(۲۵۷) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
نقل حکم نوٹس اور اظہار نورالدین عیسائی پہنچ گیا۔ مگر چٹھی انگریزی ہے اور تیز روبکار فارسی جس کے رُو سے بریت ہوئی وہ کاغذات نہیں پہنچے۔ امید آتے وقت ضرورساتھ لے آویں اور ضرور آجائیں۔ اُجرت بھیجی جائے گی۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۷؍ اگست ۱۸۹۷ء
اور جو صاحب آنا چاہتے ہیں۔ ابھی تک ان کے لئے کوئی مکان مجھ کو نہیں ملا۔ بہتر ہے کہ جس وقت مکان ملے اس وقت آویں۔
خاکسار
مرزا غلام احمد ازقادیان
(۲۵۸) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ شاید ہفتہ سے زیادہ ہو گیا کہ دوا مطلوبہ آپ کی طرف آہنی ڈبیا میں بھیج دی گئی ہے جو آپ نے بھیجی تھی۔ تعجب ہے کہ اب تک آپ کونہیں پہنچی۔ جس کو آپ نے ڈبیا دی تھی۔ اسی کے ہاتھ میں دوا بھیجی گئی تھی۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مر زا غلام احمد عفی عنہ
اشتہار جب چھپے گا۔ بھیج دیا جائے گا۔
(۲۵۹) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ شاید ہفتہ سے زیادہ ہو گیا کہ دوا مطلوبہ آپ کی طرف سے آہنی ڈبیا میں بھیجی گئی ہے۔ جو آپ نے بھیجی تھی۔ تعجب ہے کہ اب تک آپ کو نہیں بھیجی گئی۔ جس کو آپ نے ڈبیا دی تھی۔ اس کے ہاتھ میں دوا بھیجی گئی ہے۔ باقی سب خیریت ہے۔
خاکسار
غلام احمد عفی اللہ عنہ
۱۲؍ ستمبر ۱۸۹۷ء
اشتہار جب چھپے گا۔ بھیج دیا جائے گا۔
دنیا نگر میں ایک قسم کا سفید اور شفاف شہد آیا کرتا ہے۔ آپ تلاش کرا کر ایک بوتل سفید اور رتازہ شہد کی ضرور ارسال فرماویں۔
غلام احمد
(۲۶۰) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کا عنایت نامہ پہنچا اور بعد پہنچنے خط کے جناب الٰہی میں آپ کے لئے دعا کی گئی اور انشاء اللہ رات کو دعا کروںگا۔ معلوم نہیں کہ سرکاری انتظام کے موافق اب آپ کتنے روز اور گورداسپور میں ٹھہریں گے۔ باقی تا دم حال بفضلہ تعالیٰ سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۱۹؍ جنوری ۱۸۹۹ء
نوٹ:۔ تاریخ ۱۹؍ جنوری ۱۸۹۸ء درج ہے۔ جو غالباً ۱۸۹۹ء ہے۔(عرفانی)
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
۲۶۱) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ میں بہت ضروری سجھتا ہوںکہ اس مقدمہ کی نقل جومحمد حسین پر ہوا تھا ۲۷؍ جنوری ۱۸۹۹ء سے پہلے جو تاریخ پیشی مقرر ہے۔ مجھ کو پہنچ جاوے کیونکہ محمد بخش ڈپٹی انسپکٹر نے محمد حسین کی صفائی کرتے ہوئے اپنے اظہار میں بیان کیا ہے کہ یہ بہت نیک چلن آدمی ہے۔ کوئی مقدمہ اس کی طرف یا اس پر نہیں ہوا۔ مگر اس جگہ سے آدمی آنا البتہ مشکل ہے۔ اسی جگہ سے خواہ اخویم بابو محمد صاحب کے ذریعہ سے کسی کو مقرر کر کے درخواست دلا دینا چاہیے اور پھر جہاں تک ممکن ہو۔ وہ درخواست جلد بذریعہ رجسٹری پہنچا دینی چاہئے۔ محمد بخش نے نہایت ناپاک اور جھوٹا اظہار دیا ہے اور صاف لکھوایا ہے کہ یہ ان کی تمام جماعت بدچلن ہے۔ اوّل کسی کے مارنے کی پیشگوئی کر دیتے ہیں۔ پھر پوشیدہ ناجائز کوششوں کے ذریعہ سے اس پیشگوئی کو پورا کرنا چاہتے ہیں اور میں قادیان میں اسی خیال سے دوسرے تیسرے روز ضرور جاتا ہوں۔ اسی وجہ سے مجھے سب کچھ معلوم ہے اور ان کاچلن اچھا نہیں خراب اور خطرناک آدمی ہیں۔ مگر محمد حسین نیک بخت اور اچھے چلن کا آدمی ہے۔ کوئی بری بات اس کی کبھی سنی نہیں گئی۔ ایسے گندہ اظہار کی وجہ سے کل میں نے گواہوں کی طلبی اور خرچہ کے لئے چار سو روپیہ کے قریب روپیہ عدالت میں داخل کیا ہے، تین سو روپیہ میں نے دیا تھا اور ایک سو گورداسپور سے قرضہ لیا گیا اور وکیلوں کو جوکچھ ۲۷؍ جنوری کی پیشی میں دینا ہے۔ وہ ابھی باقی ہے۔ شاید پانچ سو روپیہ کے قریب دینا پڑے گا او ریقینا اس کے بعد ایک یا دو پیشیاں ہوںگی۔ تب مقدمہ فیصلہ پائے گا۔ میںنے سنا ہے کہ پوشیدہ طور پر اس مقدمہ کے لئے ایک جماعت کوشش کر رہی ہے اور چندے بھی بہت ہو گئے ہیں۔ آپ اگر ملاقات ہو تو اخویم بابو محمد صاحب کو لکھ دیں کہ میں نے انتظام کیا ہے کہ اس خطرناک مقدمہ میں جو تمام جماعت پر بد اثر ڈالتا ہے جماعت کے لوگوںسے چندہ لیا جائے گا۔ سو اس چندہ میں جہاں تک گنجائش ہو۔ وہ بھی بھی شریک ہوجائیں۔ لیکن ۲۷؍ جنوری ۱۸۹۹ء سے پہلے اپنی للہی مدد ثواب آخرت حاصل کریں اور اخویم سید عبدالہادی صاحب کو بھی اطلاع دے دیں۔ اب کی دفعہ مخالفوں کی طرف سے نہایت سخت حملہ ہے اب صحابہ رضی اللہ عنہم کی سنت پر دیندار اور مخلص دوستوں کو مالی مدد سے جلد اپنا صدق دکھانا چاہیے۔ آپ کی طرف سے ۸۰… عین وقت پر پہنچ گئے۔ وہ آپ کے چندہ میں داخل ہیں۔ اب انبالہ میں بابو محمد صاحب او رسید عبدالہادی باقی ہیں۔ اگر ملاقات ہو تو بجنیہ یہ خط ان کے پاس بھیج دیں اور تاکید کر دیں کہ ۲۷؍ جنوری ۱۸۹۹ء سے پہلے ہر ایک مالی امداد پہنچنی چاہیے۔ تاکہ وکیلوں کو دینے کے لئے کام آوے۔ چند پیشیاں محض شیخ رحمت اللہ صاحب کے مال سے ہوئی ہیں۔ معلوم ہوتا ہے۔ انہوںنے تین وکیلوںکے مقرر کرنے میںایک ہزار روپیہ کے قریب خرچ کردیاہے۔ جواب تک پیشیوں میں دیتے رہیں ہیں۔، خدا تعالیٰ ان کوجزائے خیر دے۔ اب کی بیشی چار ہزار… روپیہ ضمانت کے لئے لائے تھے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
مجھے فرصت نہیں ہوئی کہ بابو صاحب کی طرف علیحدہ خط لکھوں۔ یہ آپ کے ذمہ ہو گا۔ دونوں صاحبوں کو پیغام پہنچا دیں اورخط دکھلا دیں۔
(۲۶۲) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آج کی ڈاک میں غلام محی الدین صاحب نے آپ کی طرف سے مبلغ پچاس … روپیہ اور بھیجے ہیں۔ جزاکم اللہ خیرا لجزاء۔ ابھی وہ دس روپیہ نہیں آئے۔ اس نازک وقت میں آپ کی طرف سے مجھے وہ مدد پہنچی ہے کہ بجز دعا کے اورکچھ بیان نہیں کرسکتا۔ مجھے بباعث شدت رمد اور درد چشم اور پانی جاری ہونے کی طاقت نہ تھی کہ کاغذ کی طرف نظر بھی کر سکوں۔ مگر بہر حال صورت اپنے پر جبر کر کے یہ چند سطریں لکھی ہیں۔ کل کا اندیشہ ہے۔ خاص کر کچہری کے دن کا کہ اللہ تعالیٰ آنکھوں کا درد اور بند رہنے سے بچاوے۔ نہایت خوف ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۵؍ جنوری ۱۸۹۹ء
اس سے پہلے آج ہی ایک خط صبح روانہ کر چکا ہوں۔
(۲۶۳) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
کل کی ڈاک میں مبلغ ۹۹… مرسلہ آپ کے بذریعہ منی آرڈر پہنچے تھے۔ جزاکم اللہ خیرالجزاء۔ آپ ہر ایک موقعہ پر اپنی مخلصانہ خدمات کا رضا مندی اللہ جلشانہ کے لئے ثبوت دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزاء خیر بخشے۔ آمین۔
کل میں مقدمہ پر جائوں گا۔ میری آنکھ اس وقت دکھتی ہے کہ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے۔ …درد ناک حالت میں آپ کوخط لکھا ہے۔ تا آپ کو اطلاع دے دوں۔ بباعث شدت درد آنکھ زیادہ لکھنے کی طاقت نہیں ۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۵؍ جنوری ۱۸۹۹ء
(۲۶۴) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ آپ کو خبر پہنچ گئی ہو گی کہ سب کاروائی کا لعدم ہو چکی ہے اور ا ب نئے سرے نوٹس جاری ہو گا۔ تاریخ مقدمہ ۱۴؍ فروری ۱۸۹۹ء قرار پائی ہے اور حکم دیا گیا ہے کہ دفتر انگریزی کے کلارک پیشگوئی بابت آتھم اور پیشگوئی بابت لیکہرام اور پیشگوئی حال کا ترجمہ کر کے پیش کریں۔ معلوم ہوتا ہے کہ نیت بخیر نہیں ہے۔ محمد حسین کو غالباًبری کر دیا ہے اور اس گروہ کے لوگ یہی مشہور کرتے ہیں اور اس کی نسبت نوٹس بھیجنے کی کچھ بھی تیاری نہیں۔ وہ لوگ بہت خوش ہیں۔ اس حاکم نے ایک ٹیڑھی لکیر اخیتار کی ہے کہ قانون سے اس کا کچھ تعلق نہیں۔ محمد بخش ڈپٹی انسپکٹر بڑی شوخی اور بد زنانی سے ظاہر کر رہا ہے اور علانیہ ہر ایک کے پاس کہتا ہے کہ میں ضمانت کرائوں گا۔سزا دلائوں گا اور ظاہراً یہ بات سچ معلوم ہوتی ہے۔ کیونکہ یہ مجسٹریٹ اس کی عزت کرتا ہے اور بڑ ا کچھ اعتبار ہے۔ ہر ایک دفعہ میں دیکھتا ہوں کہ میری دانست اس کی نیت نیک ہے لیمار چنڈ بھی بگڑ ا ہوا ہے۔
جمعہ کی رات میںنے خواب دیکھا ہے کہ ایک شخص کی درخواست پر میںنے دعا کر کے ایک پتھر یا لکڑی کی ایک بھینس بنا دی ہے۔ اس بھینس کی بڑی بڑی آنکھیں ہیں۔ ظاہر معلوم ہوتا ہے کہ اس مقدمہ کے متعلق یہ خواب ہے کہ کیونکہ پتھر یا لکڑی سے وہ منافق حاکم مراد ہے۔ جس کاارادہ یہ ہے کہ بدی پہنچاوے اور جس کی آنکھیں بند ہیں اور پھر بھینس بن جانا اور بڑی بڑی آنکھیں ہو جانا۔ اس کی یہ تعبیر معلوم ہوتی ہے کہ یک دفعہ کوئی ایسے امور پید اہو جائیں۔ جن سے حاکم کی آنکھیں کھل جائیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب میںنے بھینس بنائی ہے تو اس نشان کے ظاہر ہونے سے کہ خد اتعالیٰ نے ایک لکڑی یا ایک پتھر کوایک سفید حیوان بنا دیا جو دودھ دیتا ہے مجھے بہت خوشی ہوئی ہے اور یک دفعہ سجدہ میں گرا ہوں اور بلند آواز سے کہتا ہوں،ربی الا علی ربی الارعلی۔اور سجدہ میں گرنے کی بھی یہی تعبیر ہے کہ دشمن پر فتح ہے۔ اس کی تاید میںکئی الہامات ہوئے ہیںایک یہ الہام ہے:۔
انا تجالدنا فاتطع ابعد و اسبابہ۔ یعنی ہم نے دشمن کے ساتھ تلوار سے لڑائی کی۔ پس ٹکرے ٹکڑے ہو گیا اور اس کے اسباب بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔ آنیدہ خدا تعالیٰ بہتر جانتا ہے اور اس خواب اور الہام کا مصداق کونسا امر ہے؟کیا آپ کو معلوم ہے کہ محمد بخش کے کہاں گھر ہیں؟ اور ذات کا کون ہے۔ مجھے سرسری طور پر معلوم ہو اہے کہ ذات کا … ہے اور گوجرانوالہ میں اس کے گھر ہیں اور معلوم ہو اہے کہ نظام الدین اس کے ایک شادی پر گوجرانوالہ میں گیا تھا اور تنبول دیا گیا۔ اگر اس کا کچھ پتہ آپ کو معلوم ہو ضرور مطلع فرماویں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمدعفی عنہ
۵؍ فروری ۱۸۹۹ ء قادیان
(۲۶۵) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
۱۶؍ فروری ۱۸۹۹ء
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
کل میں پٹھان کوٹ سے واپس آگیا ۔ ۲۴؍ فروری ۱۸۹۹ء میرے بیان کے لئے اور فیصلہ کے لئے مقرر ہوئی ہے۔ حالات بظاہر ابتر اور خراب معلوم ہوتے ہیں۔ محمد حسین اور محمد بخش کے اظہارات تعلیم سے کامل کئے گئے ہیں۔مجھ پر محمد حسین نے بغاوت سرکار انگریزی اور قتل لیکھرام کا اپنے بیان میں الزام لگایا ہے۔ محمد بخش نے لکھوایا ہے۔ ان کی حالت بہت خطرناک ہے۔ سرحدی لوگ آتے ہیں۔ اب بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے۔ وہی ہوتا ہے۔ دشمنوں نے افتراء میں کچھ فرق نہیں کیا میں نے آتے وقت حکیم فضل الدین صاحب کو ایک درخواست لکھ دی تھی اور مبلغ …۵۲ چار گواہوں کے طلب کرانے کے لئے دے دیئے تھے مگر نہایت خراب حالت ہے کہ کچھ امید نہیں کہ طلب کئے جاویں۔ منجملہ ان گواہوں کے ایک رانا جلال الدین خاں ہیں۔ دوسرے شیخ ملک یار اور تیسرے منشی غلام حیدر تحصیلدار چوتھے محمد علی شاہ صاحب ساکن قادیان۔ لوگ کہتے ہیں کہ رانا جلال ا لدین خان صاحب اگر طلب ہوئے تو محمد بخش اور دوسرے لوگ کوشش کریں گے کہ اس کا اظہار اپنی مرضی سے دلادیں۔
ہرچہ مرضی مولیٰ ہماں اولیٰ
اوّل تو مجھے امید نہیں کہ طلب کئے جاویں۔ مجسڑیٹ خواہ نخواہ درپے توہین اور سخت بدظن معلوم ہوتا ہے۔ میرے وکیلوں نے یہ حالات دریافت کرکے یہی چاہا تھا کہ چیف کورٹ میں مثل کو منتقل کرادیں۔ لیکن یہ بات بھی نہیں ہوسکی۔ اگر آپ کو رانا جلال الدین خاں کی نسبت کچھ مشورہ دینا ہوتو اطلاع بخشیں۔ حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ اول تو مجسڑیٹ گواہ بلانے منظور نہیں کرے گا۔ چنانچہ وہ پہلے بھی ایما کرچکا ہے اور کرے بھی تو غالباً بند سوال بھیجے گا۔ رانا جلال الدین خان کا مقام گوجرانوالہ لکھایا گیا ہے۔ شاید وہیں ہیں یا اور جگہ ہیں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
(۲۶۶) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
میں آپ کو اطلاع دیتا ہوں کہ میری گواہی کے لئے رانا جلال الدین خان صاحب عدالت میں طلب کئے گئے ہیںاور ۲۴؍فروری ۱۸۹۹ء تاریخ پیشی مقرر ہے اور چونکہ محمد حسین نے صاف طور پر لکھوادیا ہے کہ ظن غالب ہے کہ لیکھرام کے قاتل یہی ہیں۔ اس لئے لیکھرام کی مسل بھی طلب ہوئی ہے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
نوٹ:۔ اس خط پر تاریخ کوئی نہیں۔ مگر تسلسل خط وکتابت سے واضح ہے کہ یہ ۱۶؍فروری ۱۸۹۹ء کے بعد کا ہے۔(عرفانی)
(۲۶۷) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
۲۴؍فروری ۱۸۹۹ء کو مقدمہ پیش ہوکر بغیر لینے گواہوں کے مجھے بری کیا گیا۔ استفاثہ کی طرف سے گواہی گذر چکی تھی اور فریقین کے لئے دو نوٹس لکھے گئے اور ان پر دستخط کرائے گئے۔ جن کا یہ مضمون تھا کہ نہ کسی کی موت کی پیشگوئی کریں گے اور نہ دجال کذاب کافر کہیں گے اور نہ قادیان کو چھوٹے کاف سے لکھیں گے اور نہ بٹالہ کو طاء کے ساتھ اورنہ گالیاں دیں گے اور ہدائت کی گئی کہ یہ نوٹس عدالت کی طرف سے نہیں ہے اور نہ اس کو مجسڑیٹ کا حکم سمجھنا چاہیئے۔ صرف خدا کے سامنے اپنا اپنا اقرار سمجھو۔ قانون کو اس سے کچھ بھی تعلق نہیں۔ ہمارا کچھ دخل نہیں۔ مجھے کہا گیا کہ آپ کو ان کی گندی گالیوں سے تکلیف پہنچی ہے ۔ آپ اختیار رکھتے ہیں کہ بذریعہ عدالت اپنا انصاف لیں اور مثل خارج ہوکر داخل دفتر کی گئی۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۷؍فروری ۱۸۹۹ء
نوٹ:۔ میرا خیال ہے کہ ۲۷؍فروری ۱۸۹۹ء ہے۔ جلدی سے ۷؍فروری ۱۸۹۹ء لکھا گیا ہے۔ (عرفانی)
(۲۶۸) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
بلٹی آم پہنچ کر آج دونوں چیزیں آم اور بسکٹ میرے پاس پہنچے۔ جزاکم اللّٰہ خیرا۔ افسوس کہ آم کل کے کل گندے اور خراب نکلے۔ اسی خیال سے میںنے رجسٹری شدہ خط آپ کی خدمت میں بھیجا تھا۔ تا ناحق آپ کانقصان نہ ہو۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ آم اس خط کے پہنچنے سے پہلے روانہ ہو چکے تھے۔ افسوس کہ اس قدر خرچ آپ کی طرف سے ہوا۔ خیر انما الا عمال بالینات۔ کل میرے نام پر ایک پروانہ تحصیل سے آیا تھا۔ اس میں لکھا تھا کہ پتہ بتائو کہ عبدالواحد اور عبدالغفور اور عبدالجبار کہاں ہیں۔ خد اجانے اس میں کیا بھید ہے۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی اللہ عنہ
(۲۶۹) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آم مرسلہ آنمکرم پہنچے۔ جزاکم اللّٰہ خیرالجزاء۔ اگر ممکن ہو سکے تو اسی قدر اور آم بھیج دینا ۔ کیونکہ مہمان عزیز بہت ہیں۔ بہت شرمندگی ہوتی ہے۔ اگر کوئی چیز آوے اور بعض محروم رہیں۔ افسوس کہ آپ کو عقیقہ پر رخصت نہ مل سکی۔ خیر دوسرے موقعہ پر بھی مسمی عبدالجبار گرفتار ہو کر گورداسپور میں آگیاہے۔ کہتے ہیں کہ پھر مقدمہ بنایا جائے گا۔ خدا تعالیٰ ہر ایک بہتان سے بچاوے۔ مثل سے کسی قدر صفائی سے ظاہر ہے کہ پہلا اظہار عبدالجبار کا جھوٹا تھا۔ جو پادریوں کی تحریک سے لکھا گیا ہے۔ مگر پھر تفتیش ہو گی کہ کون سا اظہار جھوٹا ہے۔ شاید اب پادریوں کو پھر کسی جعلسازی کاموقعہ ملے اور پھر اس کو طمع دے کر یہ بیان لکھو ادیں کہ پہلا اظہار ہی سچا ہے اور دوسرا جھوٹا۔
کچھ معلوم نہیں کہ ایسا صاف مقدمہ فیصل شدہ پھر کیوں دائر کیا گیاہے۔ سزا اگر عبدالجبار کو دینا ہے توپہلا حاکم دے سکتا ہے اورسزا دینے کے لئے بہت سی تحقیقات کی ضرورت نہیں۔ عبدالجبار خود اقرار لکھاتا ہے۔ یعنی کپتان ڈگلس صاحب کے روبرو کا پہلا اظہار میرا جھوٹا ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۳۰؍ جون ۱۸۹۹ء
(۲۷۰) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
پہلا خط میں نے آم پہنچنے سے پہلے لکھا تھا۔ اب اس وقت جووقت عصر ہے۔ آم آئے اور کھولے گئے تو سب کے سب گندے اور سڑے ہوئے نکلے اور جو چند خوبصورت بیداغ معلوم ہوئے ان کا مزہ بھی تلخ رسوت کی طرح ہو گیا تھا۔غرض سب پھینک دینے کے لائق ہیں۔ مجھے افسوس ہے کہ آپ نے اس قدر تکلیف اٹھائی اور خرچ کیااور ضائع ہوا۔ مگر پھر بھی ضائع نہیں ہوا۔ کیونکہ آپ کو بہرحال ثواب ہو گیا۔ اب یہ خط اس لئے دوبارہ لکھتا ہوں کہ آپ دوبارہ خرچ سے بچے رہیں۔ اگر آپ کا دوبارہ بھیجنے کا ارادہ ہو تو سردنی کا آم جو سبز اور نیم خام اور سخت ہو کر بھیجیں۔ یہ آم ہر گز نہ بھیجیں ۔ زیادہ خریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
یکم جولائی ۱۸۹۹ء
خط اس غرض سے رجسٹری کر اکر بھیجا گیاہے کہ تسلی ہو کہ پہنچ گیا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ آپ ایسے ہی آم بھیج دیںاو رناحق اسراف ہو۔بجز اس قسم کے جس کو سردنی کہتے ہیں اور کوئی قسم روانہ نظر فرمائیں اوروہ بھی اس شرط سے کہ آم سبز اور نیم خام ہوں۔ تا کسی طرح ایسی شدت گرمی میں پہنچ سکیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
(۲۷۱) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
امید ہے کہ اشتہار ۴؍ اکتوبر ۱۸۹۹ء جس کے ساتھ جلسۃ الوداع کا بھی ایک پرچہ ہے۔ آپ کے پاس پہنچ گیا ہو گا۔ اب باعث تکلیف وہی یہ ہے کہ اخویم مولوی محمد علی صاحب کی نسبت جو گورداسپور میں تحریک کی گئی تھی۔ اس کو حد سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے اور درحقیقت اس طرح پر مولوی صاحب کا بڑ ا حرج ہوگیاہے۔ کہ آخر کار لوگ رشتہ سے کیوں انکار کریں توکتنے او رعمدہ رشتے اسی انتظار میں ان کے ہاتھ سے چلے گئے۔ یہ ایسا طریق ہے کہ خواہ مخواہ ایک شخص پر ظلم ہو جا تاہے۔ جب اسی انتظار میں دوسرے لوگ بھی ہاتھ سے نکل جائیں گے۔ چنانچہ بعض ہاتھ سے نکل گئے ہیں۔ تو کس قدر یہ امر باعث تکلیف ہے۔ لڑکی والے بعض اوقات دس روز بھی توقف ڈالنا نہیں چاہتے۔ بلکہ توقف سے وہ لاپروائی سمجھتے ہیں۔ اس لئے ناحق نقصان ہوجاتا ہے۔ مناسب ہے کہ آپ رجسٹری کرواکر ایک مفصل خط لکھ دیںکہ وہ ایک شریف او رمہذب ہیں۔ آپ کے لئے انہوں نے دوسرے کئی رشتوں کو ہاتھ سے دیا ہے۔ اس لئے مناسب ہے کہ ا ب آپ اپنے جواب باصواب سے جلد ان کو مسرورالوقت کریں اور پھر اگر وہ کسی ملازمت کے شغل میں لگ گئے تو فرصت نہیں ہو گی یہی دن ہیں کہ جن میں وہ اپنی شادی کرانا چاہتے ہیں۔ اگر کسی پہلی شادی کاذکر درمیان میں آئے تو آپ کہہ دیں کہ پہلی شادی تھی۔ وہ رشتہ طلاق کے حکم میں ہے۔ اس سے وہ کچھ تعلق نہیں چاہتے او رشاید طلاق بھی دے دی ہے۔ غرض اس کا جواب آپ دوسری طرف سے بہت جلد لے کر جہاں تک ممکن ہوسکے بھیج دیں۔ میں ڈرتا ہوکہ یہ توقف ان کی اس طرف کے لئے بہت حرج کا باعث نہ ہو جائے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
(۲۷۲) ملفوف
حضرت اقدس نے یہ مکتوب چوہدری صاحب کے مرسلہ خط کی پشت پر ہی لکھ دیا ہے اور اس طرح پر وہ اصلی خط بھی محفوظ ہے۔
میںنے پسند کیا کہ پہلے اس خط کو درج کردوں۔ پھر حضرت کا اصل مکتوب جو اس کے جواب میں ہے۔(عرفانی)
(چوہدری رستم علی صاحب کا خط)
بسم اللّٰہ الرحمن الرحمن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
بحضور پر نور جنا بناء دینا حضرت مرزا صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
سرفراز نامہ حضور کا صاد رہوا۔باعث افتخار ہوا۔ آج تک اشتہا رکوئی بھی اس عاجز کے پاس قادیان سے صادر نہیں ہوا۔ امید وار کہ براہ نوازش دو دو چار چار کاپیاں مرحمت فرمائی جائیں۔ مولوی محمد علی صاحب کی بابت گورداسپور سے جو جواب آیا۔ اس کی بابت سے پہلے نیاز نامہ میں عرض کر چکا ہوں۔ یعنی اس میں جواب سمجھنا چاہیے۔
اب رہا یہاں پر جو ہمارے سر دفتر صاحب خوہشمند ہیں۔ ان کی دو لڑکیاں ہیں اگر ان میں سے کوئی پسند آجائے تو بابو مذکورہ بہت خوش ہو سکتا ہے۔مگر اس کی متلون مزاجی پر مجھے پورا اعتماد نہیں ہے۔ یہ لشکری لوگ ہیں۔ گو شریعت کی پابندی کا دعویٰ ہے۔ مگر وقت پر آکر ایسی ایسی شرائط پیش کرتے ہیں کہ جو مشکل ہوں مثلاً مہر کی تعداد بہت زیادہ۔ مگر اس کی لڑکیوں میں سے کوئی پسند آجائے تو پھر ایسی شرائط پہلے ہی طے کر لی جاویں۔
میری حالت بہت خراب ہے۔ گناہوں میں گرفتارہوں۔ کیاکروں کوئی صورت رہائی کی نظر نہیں آتی۔ سوائے اس کے کہ خد اوند کریم اپنا فضل شامل حال کرے۔حضور سے الیجاء ہے کہ میرے واسطے ضرور بالضرور دعا فرمائی جائے کہ نفس امارہ کی غلامی سے رہائی پائوں۔ مجھے اپنی حالت پر بہت افسوس رہتا ہے اور ڈرتا بھی ہوں۔
آج کل خان صاحب علی گوہر خاں صاحب میرے پاس ہیں۔ وہ بیمار ہیں۔ بخار آتا ہے اور دیر سے بخار آتا ہے۔ ان کی درخواست ہے کہ ان کی صحت وجسمانی و روحانی کے واسطے دعافرمائی جائے اور وہ السلام علیکم کہہ دیا جائے۔
عاجز رستم علی از انبالہ
۲۲؍ اکتوبر ۱۸۹۹ء
ج
(مکتوب حضرت اقدس)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جلدی سے بہت ضروری سمجھ کر آپ کے خط کی پشت پر ہی یہ خط لکھتا ہوں کہ اخویم مولوی محمد علی صاحب کاگورداسپور کا معاملہ بہت حرج پہنچا چکا ہے۔ کچھ روپیہ دے کر اور یکہ کروا کر ایک عورت اور اور ایک مرد حجام کو گورداسپورہ میں بھیجا تھااور پھر انتظار میں اسقدر توقف کیا۔ آخر ان لوگوں نے اول آپ ہی کہا اور پھر آپ ہی جواب دے دیا۔ اب اپنے سر دفتر صاحب نسبت جواب تحریر فرماتے ہیں۔ اس کی نسبت اگر میں ایک کچی بات میں کوئی عورت اور مرد یہاں سے بھیجوں تو مناسب نہیں ہے۔ اول آپ براہ مہربانی جہاں تک جلد ممکن ہو لڑکیوں کی شکل اور حلیہ وغیرہ سے مجھے اطلاع دیںاو ر پھر میں کوئی خادمہ مزید تفتیش کے لئے بھیج دوں گا میں اس وقت اس لئے یہ خط اپنے ہاتھ سے لکھتا ہوں۔ کہ آپ بلا توقف کوئی عورت بھیج کر شکل اور خلق اور تعلیم سے مجھ کو اطلاع دے دیں اور پھر بعد میں اگر ایسی کوئی عورت آپ کے پاس بھیجی جاسکے اور نیز اس کے پختہ ارادہ سے بھی اطلاع بخشیں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
از قادیان
۲۴؍اکتوبر۱۸۹۹ء
(۲۷۳)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ چونکہ آپ کی تحریر سے معلوم ہوا ہے کہ وہ سر دفتر صاحب جن کی لڑکی سے رشتہ کی درخواست کچھ متلون مزاج اور تیز مزاج ہے ۔ اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آپ خاص طور پر پہلے ان سے کھلے کھلے طور پر تذکرہ کرلیں۔ کہ چھوٹی لڑکی سے ناطہ ہوگااورنیز یہ کہ شریعت کی پابندی سے نکاح ہوگا ۔ کوئی اسراف کا نام نہیں ہوگا۔ شریفانہ رسموں سے جو کپڑے زیور کی ان کے خاندان میں رسم ہو۔ اس سے وہ خود اطلاع دے دیں۔ تا وہ تیار کیا جاوے اور ان سے پختہ اقرار لے لیں کہ وہ اس پر قائم رہیں اور نیز یہ قابل گذارش ہے کہ اگر میں اس جگہ سے کوئی عورت بھیجوں تو وہ حجام عورت ہوگی اور وہ اکیلی نہیں آسکتی۔ کیونکہ جوان عورت ہوگی۔ اس کے ساتھ اس کا خاوند جاوے گا اور اس اجرت میں سات معہ سے آٹھ روپیہ اس کو دینے پڑیں گے اور دو آدمیوں کے آنے جانے کا دورپیہ یکہ کا کرایہ ہوگا۔ اور چھ سات روپیہ ریل کا کرایہ دوآدمیوں کی آمدو رفت کا ہوگا۔ غرض اس طرح ہمیں تقریباً بیس روپے خرچ کرنے پڑے گے ۔لیکن اگر آپ انبالہ سے کسی عورت کو میری طرف سے تین معہ چار روپیہ دے دیں تاوہ لڑکی کو دیکھ کر دیانت سے بیان کردے۔ تو خرچ کی کفایت رے گی۔ ہم تو اس قدر خرچ کرنے کو تیار ہیں لیکن ایسا نہ ہو کہ گورداسپورہ کے معاملہ کی طرح سب کچھ خرچ ہو کر پھر ان کی طرف سے جواب ہوجاوے۔ آپ مہربانی فرما کر یہ کوشش کریں کہ کوئی حجام عورت جو دیانت دار معلوم ہو۔ اسے کچھ دے کر بھیج دیں۔ وہ کل حلیہ بیان کردے کہ آنکھیں کیسی ہیں۔ ناک کیسا ہے۔ گردن کیسی ہے۔ یعنی لمبی ہے یا کوتہ۔ اور بدن کیساہے۔ فربہ یا لاغر منہ کتابی چہرہ ہے۔ یا گول ۔سرچھوٹا ہے یا بڑا قد لمبا ہے یا کوتہ۔ آنکھیں کپری ہیں یا سیاہ ۔رنگ گورہ ہے یا گندمی یا سیاہ ۔ منہ پر داغ چیچک ہیں یا نہیں یا صاف غرض تمام مراتب جن کے لئے یہاں کسی عورت کا بھیجنا تھا بیان کردے اور دیانت سے بیان کرے اس سے ہمیں فائدہ ہوگاکیونکہ اس کا مجھے زیادہ فکر ہے۔ میری طرف سے یہ خرچ دیا جاوے۔ میں تو اب بھی بیس روپیہ خرچ کرکے کسی عورت کو اس کے خاوند کے ساتھ بھیج سکتا تھا۔ مگر اندیشہ ہوا۔ کہ کچی بات میں گورداسپور کی طرح پیش نہ آجائے۔ اگر آپ توجہ فرمائیں گے ۔ تو آپ کو انبالہ شہر سے بھی کوئی دانا اور حسن و قبح پرکھنے والی اور دیانت دار کوئی عورت میسر آجائے گی آپ کسی سے مشورہ کرکے ایسی عورت تلاش کرلیں اور یہ غلط ہے کہ اخویم مولوی محمد علی صاحب کی پہلی عورت موجود ہے ۔ مدت ہوئی کہ وہ اس پہلی کو طلاق دے چکے ہیں ۔ اب کوئی عورت نہیں ۔ پوری تفتیش کے بعد آپ جلد جواب دیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
(۲۷۴) مکتوب
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
نہایت ضروری کام کے لئے آپ کو تکلیف دیتا ہوں کہ اس جگہ تین ایسے عمدہ اور مضبوط پلنگ کی ضرورت ہے۔ جس کے سیرو اور پائے اور پٹیاں درخت سال یا اور مضبوط لکڑی کے ہوں ۔ اسی غرض سے امرتسر آدمی بھیجا گیا۔ معلوم ہوا کہ ایسے سیرو او رپٹیاں اور پائے نہ امرتسر میں ملتے ہیں اور نہ لاہور میں مل سکتے ہیں اور انبالہ میں اس قسم کے پلنگ مل سکتے ہیں۔ اس لئے مکلف ہوں کہ آپ تمام تر کوشش سے ایسے تین پلنگ تیار کروا کر بھیج دیں۔ لیکن چاہیئے کہ ہر ایک پلنگ اس قدر بڑا ہو کہ دو آدمی اور ایک بچہ بآسانی اس پر سو سکیں او رجہاں تک ہو سکے۔ پلنگ بہت بوجھل نہ ہوں۔ گھر میں امید بھی ہے اورکئی وجوہ سے یہ ضرورت پیش آئی ہے اورروپیہ کے خرچ کا کچھ صرفہ کریں۔ جس قدر روپیہ خرچ آئے گا۔ انشاء اللہ بلاتوقف بھیج دیا جائے گا۔ بہرحال پٹیاں اور سیرو اور پائے مضبوط لکڑی کے ہوں اور عمدہ طور سے بنے جائیں۔ یہ یاد رہے کہ یہ ضروری ہے کہ ہر ایک پلنگ اس قدر بڑا ہو کہ پورے آدمی اور بچہ ان پر سو سکے اور جہاں تک ممکن ہو دو ہفتہ تک آپ تیار کر وا کر بذریعہ ریل بھیج دیں اور ریل کے کرایہ کو دیکھ لیں کہ زیادہ نہ ہو۔ کیونکہ ایک مرتبہ دہلی سے ایک پالکی منگوائی تھی اور غلطی سے خیال نہ کیا گیا۔ آخر ریل والوںنے پچاس روپیہ اس کا کرایہ لیا۔ باقی سب خیریت ہے۔ طاعون سے اس طرف شور قیامت بپا ہے۔ دن کو آدمی اچھا ہوتا ہے اور رات کو موت کی خبر آتی ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۲۹؍ اپریل ۱۹۰۲ء
(۲۷۵) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ چونکہ اس جگہ بنائی کا کام مشکل ہے۔ ہر طرف طاعون کی بیماری ہے۔ کوئی آدمی ہاتھ نہیں لگائے گا۔ اس لئے بہتر ہے کہ اگرچہ سات روپیہ تک کرایہ کی زیادتی ہو۔ تو کچھ مضائقہ نہیں۔ وہیں سے تیار ہوکر آنی چاہئیں۔ لیکن اگر کرایہ زیادہ مثلاً بیس پچیس روپیہ… ہو تو پھر سامان پلنگوں کا بھیج دیا جائے۔ ایک پلنگ نواڑکا ہو او ردو عمدہ باریک سن کی سوتری کے۔ غرض اس جگہ پلنگوں کے بننے کی بڑی دقت پیش آئے گی۔ ہر طرف زراعت کاٹنے کے دن ہیں او رایک طرف طاعون سے قباحت بر پا ہے۔ لوگوں کو سروے دفن کرنے کے لئے جگہ نہیں ملتی ۔ عجیب حیرانی میں گرفتار لوگ ہیں۔ جہاں تک جلد ممکن ہو جلد تر روانہ فرمادیں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۶؍ مئی ۱۹۰۲ء
(۲۷۶) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ حال یہ ہے کہ اب کی دفعہ میں نے پچاس روپیہ … کا مشک منگوایا تھا۔ اتفاقاً وہ سب کا سب ردّی اور مخشوش نکلا۔ اس قدر روپیہ ضائع ہو گیا۔ اس لئے میں نے آپ کی تحریر کے موافق مبلغ …۱۲ قیمت چھ ماشہ مشک مولوی صاحب کے حوالہ کردی ہے۔ اگر یہ قیمت کم ہوگی۔ باقی دے دوں گا اور عنبر بھی مدت ہوئی کہ میں نے افریقہ سے منگوایا تھا۔ وہ وقتاً فوقتاً خرچ ہوگیا۔ میں نے اس قدر استعمال سے ایک ذرہ بھی اس کا فائدہ نہ دیکھا۔ وہ اس ملک میں فی تولہ ایک سو روپیہ کی قیمت سے آتا ہے اور پھر بھی اچھا نہیں ملے گا۔ ولایت میں عنبر کو محض ایک ردّی چیز سمجھتے ہیں او رصرف خوشبوئوں میں استعمال کرتے ہیں۔ میرے تجربہ میں ہے کہ اس میں کوئی مفید خوبی نہیں۔ اگر آپ نے دوا میںعنبر ڈالناہو تو بواپسی ڈاک مجھے اطلاع دیں۔تو عنبر ہی کے خرید کے لئے مبلغ پچاس روپیہ… مولوی صاحب کے حوالہ کئے جائیںگے۔ مگر جواب بواپسی ڈاک بھیج دیں۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی اللہ عنہ
مکتوبات کے متعلق مرتب کا نوٹ
جس قدر مجھے مکتوبات مل سکتے تھے۔ وہ میں نے جمع کر دیئے ہیں والحمدللہ علی ذالک۔ ایک مکتوب کو میںنے عمداً ترک کر دیا ہے اور حضرت حکیم الامۃ کے مکتوبات میں بھی اسے چھوڑا ہے اوریہ وہ مکتوب ہے۔ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بشیراوّل کی وفات پر لکھا تھا۔ وہ خط دراصل حضرت حکیم الامۃ کے نام تھا۔ مگر اس کی نقول آپ نے متعدد احباب کے نام بھجوائی تھیں۔ میں اس مکتوب کو متفرق خطوط کی جلد میں انشاء اللہ العزیز شائع کروں گا اور اس میں ان دوستوں کے اسماء گرامی بھی لکھ دوںگا۔ (انشاء اللہ ) جن کی خدمت میں ان کی نقول بھیجی گئی تھیں۔
میں ان تمام احباب کو جنہیں حضرت چوہدری صاحب مرحوم سے تعلق رہا ہے۔ توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس کام میں میرے معین و مددگار ہوں اور اگر کسی کے پاس چوہدری صاحب کا کوئی خط یا نظم ہویا کوئی واقعہ ان کے سوانخ حیات سے متعلق انہیں کام ہوتو وہ لکھ کر مجھے ضرور بھیج دیں۔ یہ کام قلمی اور مابی تعاون کا ہے اورمیں اپنے دوستوں سے بجا توقع رکھتا ہوں اور انہیں کہتا ہوں
نام نیک رفتگان ضائع مکن
تا بماند نام نیکت برقرار
میرے لئے بھی دعا کریں کہ میںاس کام کو سرانجام دے سکوں۔ وباللہ التوفیق۔
(عرفانی)
حضرت چوہدری رستم علی صاحب رضی اللہ عنہ کا کلام
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے بعض مکتوبات میں چوہدری صاحب مرحوم و مغفور کے اشعار کا ذکر فرمایا ہے اور اسے بہت پسند کیا ہے۔ بلکہ ایک موقع پر آپ نے فرمایا۔ کہ ان کو جمع کرتے جائیں۔ چوہدری صاحب مرحوم کے کلام کو جمع کرنا آسان کام نہیں ۔ بیس برس کے قریب ان کی وفات پر گزرتا ہے۔ تاہم میں اپنی کوششوں کو زندگی بھر چھوڑ نہ دوں گا۔ محض اس لئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ خواہش پوری ہوجائے جو آپ نے ا س وقت ظاہر فرمائی تھی۔ میں اگر کامیاب نہ ہوا۔ تب بھی اس کی نیت کے لئے یقینا ماجور ہوں گا۔
اب جبکہ مکتوبات کے اس مجوعہ کو میں ختم کر چکا ہوں۔ مناسب سمجھتا ہوں کہ حضرت چوہدری صاحب مرحوم کے کلام کا کچھ نمونہ یہاں دے دوں۔ جو میں اس وقت تک جمع کر چکا ہوں۔ آپ کے کلام کے اندراج کے لئے بہتر ین موقعہ اور مقام آپ کے سوانح حیات کا ایک باب ہے۔ مگر میں نہیں جانتا کہ یہ توفیق کسے ملے گی۔ میں نے پسند کیا کہ اسے کسی غیر معلوم وقت تک ملتوی کرنے کی بجائے بہتر ہے کہ کچھ نمونہ حضرت چوہدری صاحب مرحوم کے کلام کا یہاں دے دوں اوراس طرح پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس ارشاد کی کسی قدر تک تکمیل کر دوں۔ جو آپ نے چوہدری صاحب کو اس کے جمع رکھنے اور طبع کرا دینے کے متعلق فرمایا تھا۔
حضرت چوہدری صاحب مرحوم کے کلام میں کسی شاعرانہ تنقید کی نہ قابلیت رکھتا ہوں اور نہ اس ضرورت سمجھتا ہوں ۔ بلکہ میں تو اپنے کلام المحبوب محبوب الکلام سمجھتا ہوں۔ مجھ کو ان سے خد اتعالیٰ کی رضا کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں ہوکر محبت تھی اور ان کی ادا پسند تھی۔ ان کے کلام کی داد جب خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام دے چکے ہیں۔ تو اس سے بڑھ کر ان کی سعادت کیا ہو گی۔ میں چوہدری صاحب مرحوم کے کلام کے انتخاب میں اپنے نبقطہ خیال کو مدنظر رکھتا ہوںاور یہ بطور نمونہ ہے۔
خطاب بہ اقبال
ڈاکٹر سر اقبال آج علمی مصروف ہیں۔ کسی زمانہ میں وہ سلسلہ عالیہ سے محبت و اخلاص کا تعلق رکھتے تھے۔ بلکہ جب ایف۔اے میں پڑھتے تھے۔ تو سلسلہ کے بعض معازین کا جواب بھی نظم میں آپ نے دیا تھا۔ آپ کے خاندان کے بعض ممبر اسی سلسلہ میں شامل ہونے کی عزت و سعادت حاصل کرچکے ہیں۔ مخزن نمبر ۲ جلد ۳ بابت ماہ مئی ۱۹۰۲ء کے صفحہ ۴۸ پر سر اقبال نے جو اس وقت اقبال تھے۔ ایک نظم بیعت کے جواب میں شائع کی تھی۔ ڈاکٹر اقبال کے کسی شفیق ناصح نے انہیں بیعت کی تحریک کی تھی۔ اس کا جواب انہوں نے نظم میں مخزن کے ذریعہ شائع کیا۔ سلسلہ کے گراں قدر بزرگ میرے اور ڈاکٹر اقبال کے مکرم حضرت میر حامدشاہ صاحب ؓ نے بھی انہیں ایام میں اس کا جواب منظوم نہایت لطیف شائع فرمایا اور ڈاکٹر اقبال کو ان کی ایک رویا کی یاد ۔ حضرت چودھری رستم علی صاحب مغفور نے بھی اس کا یک جواب لکھا اور یہ جواب گویا حضرت اقدس کی زبان سے دیاہے اور دنیا اس سے غافل رہی۔ مگر میںآج ۲۷ برس کے بعد اس کے بعض اشعار کو پبلک کرتا ہوں کہ اسی کی امانت ہے۔(عرفانی)
خضر سے چھپ کے کہہ رہا ہوں میں
تشنہ کام مئے فنا ہوں میں
یہی ہر اک سے کہہ رہا ہوں
حق سے خضر رہ خدا ہوں میں
وہ مرے گا چھٹیگا جو مجھ سے
فانیوں کے لئے بقا ہوں میں
ہم کلامی ہے غیرت کی دلیل
خاموشی پر مٹا ہوا ہوں میں
میں تو خاموش تھا اور اب بھی ہوں
ہاں مولا سے بولتا ہوں میں
ہم کلامی جو غیرت ہے تو ہو
پیرو احمد خدا ہوں میں
کانپ اٹھتا ہوں ذکر مریم پر
وہ دل درد آشنا ہوں میں
آشنا اور درد جھوٹی بات
آتیرے درد کی دوا ہوں میں
تنکے چن چن کر باغ الفت کے
آشیانہ بنا رہا ہوںمیں
تنکے تنکے ہوا آشیاں تیرا
ایک جھونکے میں آ آپناہ ہوں میں
گل پر مردہ چمن ہوں مگر
رونق خانہ صبا ہوں میں
گل شاداب باغ احمد ہوں
رونق طانہ خدا ہوںمیں
کارواں سے نکل گیا آگے
مثل آوازہ درا ہوں میں
مارا جائے گا توجو کہنا ہے ترا
کارواں سے نکل گیا ہوں میں
تاکہ بے خوف موت سے ہوں
مجھ میں آ کارواں سرا ہوں میں
دست واعظ سے آج بن کے نماز
کس ادا سے قضاء ہوا ہوں میں
یہ اور ہے کوئی قضاء کی نماز
اس کو ہرگز نہ مانتا ہوں میں
نہ قضاء ہو کھبی کسی سے ہرروز
اس غرض سے کھڑا ہوا ہوں میں
مجھ سے بیزار ہے دل زاہد
اس غرض سے کھڑا ہوا ہوں میں
مومنوں نے ہے مجھ کو پہنچانا
رندکی آنکھ سے چھپا ہوں میں
پاس میرے کب آسکے اوباش
دیدہ حود کی حیا ہوں میں
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال پر
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال پر آپ نے درد دل کا اظہار کیا اور حوالہ قلم و کا غذ کردیا۔ کاغذ پر کلیجہ نکال کر رکھ دیا۔ ان اشعار میں سے چند کا انتخاب ذیل میں کرتا ہوں۔ اس سے چودھری صاحب مرحوم و مغفور کا لاہور کے متعلق بھی خیال ظاہر ہوجاتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ جو عشق و محبت انہیں تھی۔ اس نے زیادہ دیر تک آپ سے جدا نہ رہنے دیا اور ایک سال کے اندر ہی آقا کے قدموں میں پہنچا دیا۔(عرفانی)
اے حضرت اقدس اب کہاں ہو
آنکھوں سے میری کہاں نہاں ہو
او جہل ہو نظر سے جب کہ خورشید
تاریک نہ کس طرح جہاں ہو
گم تجھ میں ہوا وہ رہبر خلق
لاہور! تیرا بھلا کہاں ہو
بے چین ہیں دور رہنے والے
کس حال میں اہل قادیان ہو
………
یا ربّ ہے کہاں مسیح موعود
اب قادیان میں نہیں موجود
یہ مخدوم جہاں غلام احمد
مہدی دوران مسیح مشہود
کس دیس میں لے گئے ہیں یوسف
بتلاو میاں بشیرو محمود
اس مصلح گمر ہاں کو کھو کر
لاہور رکھے امید بہبود


(۲۷۷) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
نماز مقتدی بغیر سورہ فاتحہ بھی ہوجاتی ہے۔ مگر افضلیت پڑھنے میں ہے۔ اگر کوئی امام جلد خواں ہو توا یک آیت یا دو آیت جس قدر میسر آوے آہستہ پڑھ لیں جو مانع سماعت قرات امام ہو اور اگر میسر نہ آسکے تو مجبوری ہے نماز ہوجائے گی۔ مگر افضلیت کے درجہ پر نہیں ہوگی۔۲۰؍دسمبر ۱۸۸۵ء۔
(۲۸۷) پوسٹ کارڈ
علما فقرا کا خواب میں کسی دوست کے گھر جانا موجب برکات ہوتا ہے اور ایسی جگہ رحمت الٰہی نازل ہوتی ہے… کبھی خواب اپنی ظاہری صورت پر بھی واقع ہواجاتی ہے۔ مگر ایسا کم اتفاق ہوتا ہے۔ ۵؍جنوری ۱۸۸۶ء۔

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
عرض حال
میں اپنی زندگی کایہ بھی ایک مقصد سمجھتا ہوںکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہر قسم کی پرانی تحریروںکو جو کبھی شائع نہیں ہوئی ہیں۔نایاب ہو چکی ہیں اورلوگوںکو خبر بھی نہیں ……کروںاور جمع کرتا رہوں۔ اس سلسلہ میں اب تک بہت کچھ شائع ہو چکاہے اورابھی کچھ باقی ہے۔ میںخد اکا بہت شکر کرتا ہوں کہ مکتوبات احمدیہ کے سلسلہ میں پانچویں جلد( جو حضرت کے ان مکتوبات پر مشتمل ہے۔ جو آپ نے اپنے دوستوں کو لکھے)کا چوتھا نمبر شائع کر رہا رہوں۔ یہ مکاتیب نواب محمد علی خان صاحب قبلہ کے نام اور ممکن ہے کہ آپ کے نام کے اور خطوط بھی ہوں۔ مگر مجھے جو مل سکے ہیں میں نے شائع کردئیے ہیں اور اگر اور مکتوبات میسر آئے تو وہ بھی نمبر کے ضمیمہ کے طور پر شائع کر سکوں گا۔ وباللہ التوفیق۔
مجھے یہ کہتے ہوئے شرم آتی ہے کہ افسوس ہے ابھی تک جماعت میں ایسے قدر کی تعداد بہت کم ہے۔ جوبیش قیمت موتیوں کی اصل قدر کریں۔
بہرحال میں اپنا کام جس رفتار سے ممکن ہے کرتا رہوں گا۔ جب تک خدا تعالیٰ توفیق دے۔ تاہم دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس کام میں میرے مدد گار ہوں۔
والسلام
خاکسار
عرفانی کنج عافیت قادیان دارلامان
یکم فروری ۱۹۲۳ء

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر چہارم
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلا م کے مکتوبات حضرت نواب محمد علی خان صاحب آف مالیرکوٹلہ کے نام
مکتوب نمبر( ۱) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
از طرف عاید باللہ الصمد غلام احمد عافاہ اللہ وایدباخویم محمد علی خان صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ آپ کاخط پہنچا۔ اس عاجز نے جو بیعت کے لئے لکھا تھا۔ وہ محض آپ کے پہلے خط کے حقیقی جواب میں واجب سمجھ کر تحریر ہوا تھا۔ کیونکہ آپ کاپہلا خط اس سوال پر متضمن تھا کہ پر معصیت حالت سے کیونکر رستگاری ہو۔ سو جیسا کہ اللہ جلشانہ نے اس عاجز پر الفا کیا تحریر میں آیا اورفی الحقیقت جذبات نفانیہ سے نجات پانا کسی کے لئے بجز اس صورت کے ممکن نہیں کہ عاشق زار کی طرح خاکپائے محبان الٰہی ہو جائے اور بصدق ارادت ایسے شخص کے ہاتھ میں دے جس کی روح کو روشنی بخشی جاوے تا اسی کے چشمہ صافیہ سے اس فردماندہ کو زندگی کا پانی پہنچے اور اس تر وتازہ اور درخت کی ایک شاخ ہوکر اس کے موافق پھل لاوے۔ غرض آپ نے پہلے خط میں نہایت انکسار اور تواضع سے اپنے روحانی علاج کی درخواست کی تھی۔ سو آپ کو وہ علاج بتلایا گیا۔ جس کو سعید آدمی بصد شکریہ قبول کرے گا۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ ابھی آپ کاوقت نہیں آیا۔ معلوم نہیں ابھی کیا کیا دیکھنا ہے اورکیا کیا ابتلا درپیش ہے اوریہ جو آپ نے لکھا ہے کہ میں شیعہ ہوں اس لئے بیعت نہیں کرسکتا ۔ سو آپ کو اگر صحبت فقراء کاملین میسر ہو تو آپ خود ہی سمجھ لیں کہ شیعوں کا یہ عقیدہ کہ ولایت اور امامت بارہ شخص پر محدود ہو کر آیندہ قرب الٰہی کے دروازو ںپر مہر لگ جائے تو پرپھر اس سے تمام تعلیم عبث ٹھہرتی ہے اور اسلام ایک ایسا گھر ویران اور سنسان ماننا پڑتا ہے۔ جس میں کسی نوع کی برکت کانام نشان نہیں اور اگر یہ سچ ہے کہ خد اتعالیٰ تمام برکتوں اور امامتوں اور ولایتوں پر مہر لگا چکا ہے اور آیندہ کے لئے وہ راہیں بند ہیں۔ توخدا تعالیٰ کے سچے طالبوں کے لئے اس سے بڑھ کر کوئی دل توڑنے والا واقعہ نہ ہو گا۔ گویا وہ جلتے ہی مر گئے اور ان کے ہاتھ میں بجز چند خشک قصوں کے اور کوئی مفروار نہیں اور اگر شیعہ لوگ اس عقیدہ کو سچ مانتے ہیں تو پھر پنج وقت نماز میںیہ دعا پڑھتے ہیں
اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھم
کیونکہ اس دعا کے تو یہ معنی ہیںکہ اے خدائے قادر ہم کو وہ راہ اپنے قرب کا عنایت کر جو تونے نبیوں اور اماموں اور صدیقوں اور شہیدوں کو عنایت کیا تھا۔ پس یہ آیت صاف بتلائی ہے کہ کمالات امامت کا راہ ہمیشہ کے لئے کھلا ہے اور ایسا ہی ہونا چاہیئے تھا۔ اس عاجز نے اسی راہ کے اظہار ثبوت کے لئے بیس ہزار اشتہار مختلف دیار امصار میں بھیجا ہے۔
اگر یہی کھلا نہیں تو پھر اسلام میں فضیلت کیا ہے
یہ تو سچ ہے کہ بارہ امام کامل اور بزرگ اور سید القوم تھے۔ مگر یہ ہرگز سچ نہیں کہ کمالات میں ان کے برابر ہونا ممکن نہیں۔
خداتعالیٰ کے دونوں ہاتھ رحمت اور قدرت کے ہمیشہ کے لئے کھلے ہیں اور کھلے رہیں گے اور جس دن اسلام میں یہ برکتیں نہیں ہوں گی۔ اس دن قیامت آجائے گی۔ خداتعالیٰ ہر ایک کو راہ راست کی ہدائت کرے۔
پرانا عقیدہ ایسا مو ثر ہوتا ہے کہ بجائے دلیل ماناجاتا ہے اور اس سے کوئی انسان بغیر فضل خداتعالیٰ نجات نہیں پاسکتا۔ ایک آدمی آپ لوگوں میں سے کسی کو خیال آتا ہے۔ کہ اس کی آزمائش کروں۔
٭ کتاب براہین احمدیہ کا اب تک حصہ پنجم طبع نہیں ہوا ہے۔ امید کہ خداتعالیٰ کے فضل سے جلد سامان طبع کا پیدا ہوجائے۔ صرف کتاب کے چند نسخے باقی ہیں اور بطور پیشگی دئے جاتے ہیں اور بعد تکمیل طبع باقی انہی کو ملیں گے۔ جو اول خریدار ہوچکے ہیں ۔ قیمت کتاب سوروپیہ سے پچیس روپیہ حسب مقدرت ہے۔ یعنی جس کو سو روپیہ کی توفیق ہے وہ سوروپیہ ادا کرے اور جس کو کم توفیق ہے وہ کم مگر بہرحال پچیس روپیہ سے کم نہ ہواور نادار کو مفت للہ ملتی ہے۔ آپ جس صیغہ میں چاہیں لے سکتے ہیں اور چاہیں تو مفت بھیجی جاوے۔
والسلام
احقر عباد اللہ غلام احمد
ازلودہانہ محلہ اقبال گنج
شہزادہ حیدر
۷؍اگست ۱۸۹ء
مکتوب نمبر (۲) ملفوف
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہٰ الکریم۔
بخدمت اخویم عزیزی خان صاحب محمد علی خاں السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
عنایت نامہ متضمن بہ دخول درسلسلہ بیعت این عاجز موصول ہوا۔ دعا ثبات و استقامت درحق آں عزیز کی گئی۔
ثبلتکم علی للتقویٰ والا یمان وافتح لکم ابواب الخلوص و المجتہ والفرقان امین ثم امین۔
اشتہار شرائط بیعت بھیجا جاتا ہے۔ جہاں تک وسعت و طاقت ہو اس پر پابند ہوں اور کمزوری دور کرنے کے لئے خداتعالیٰ سے مدد چاہتے رہیں۔ اپنے رب کریم سے مناجات خلوت کی مداومت رکھیں اور ہمیشہ طلب قوت کرتے رہیں۔
جس دن کا آنا نہایت ضروری اور جس گھڑی کا وارد ہوجانا نہایت یقینی ہے۔ اس کو فراموش مت کرو اور ہروقت ایسے رہو کہ گویا تیار ہو کیونکہ نہیں معلوم کہ وہ دن اور گھڑی کس وقت آجائے گی۔ سو اپنے وقتوں کے محافظت کرو اور اس اس سے ڈرتے رہو۔ جس کے تصرف میں سب کچھ ہے۔ جو شخص قبل از بلا ڈرتا ہے۔ اس کے امن دیا جائے گا۔ کیونکہ جو شخص بلا سے پہلے دنیا کی خوشیوں میں مست ہورہا ہے۔ وہ ہمیشہ کے لئے دکھوںمیں ڈالا جائے گا۔ جو شخص اس قادر سے ڈرتا ہے۔ وہ اس کے حکموں کی عزت کرتاہے۔ پس اس کو عزت دی جائے گی۔ جو شخص نہیں ڈرتا اس کو ذلیل کیا جائے گا۔ دنیا بہت ہی تھوڑا وقت ہے۔
بے وقوف وہ شخص ہے جو اس سے دل لگا وے اور نادان ہے وہ آدمی جو اس کے لئے اپنے رب کریم کو ناراض کرے۔ سو ہو شیار ہو جائو تا غیب سے قوت پائو۔ دعا بہت کرتے رہو اورعاجزی کو اپنی خصلت بنائو۔ جو صرف رسم اور عادت کے طور پر زباں سے دعا کی جاتی ہے۔ کچھ بھی چیز نہیں۔ جب دعا کرو تو بجز صلوٰۃ فرض کے یہ دستور رکھو کہ اپنی خلوت میں جائو اوراپنی زبان میں نہایت عاجزی کے ساتھ جیسے ایک اونیٰ سے ادنیٰ بندہ ہوتا ہے۔خدا ئے تعالیٰ کے حضور میں دعا کرو۔
اے رب العالمین ! تیرے احسان کا میں شکر نہیں کر سکتا۔
تونہایت رحیم وکریم ہے اور تیرے بے نہایت مجھ پر احسان ہیں۔ میرے گناہ بخش تا میں ہلاک نہ ہو جائوں ۔ میرے دل میں اپنی خالص محبت ڈال تا مجھے زندگی حاصل ہو اور میری پودہ پوشی فرما اور مجھ سے ایسے عمل کرا۔ جن سے تو راضی ہو جائے۔ میں تیرے وجہ سے کریم کے ساتھ اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ تیرا غضب مجھ پر وارد ہو۔ رحم فرما اور دین وآخرت کی بلائوں سے مجھے بچاکہ ہر ایک فضل وکرم تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔آمین ثم آمین۔
آپ کی اس بیعت کی کسی کو خبر نہیں دی گئی اور بغیر آ پ کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ لیکن مناسب ہے کہ اس اخفا کو صرف اسی وقت تک رکھیں کہ جب تک کوئی اشد مصلحت درپیش ہو۔ کیونکہ اخفا میں ایک قسم کا ضعف ہے اور نیز اظہار سے گویا قولاً نصیحت للخلق ہے۔
آپ کے اظہار سے ایک گروہ کو فائدہ پہنچتا ہے ا ور غبت الی الخیر پیدا ہو تی ہے۔ خداتعالیٰ ہر ایک کام میں مدد گار ہو کہ بغیر اس کی مدد کے انسانی طاقتیں ہیچ ہیں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
نوٹ:۔اس خط کی تاریخ تو معلوم نہیں۔ لیکن واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور نے نواب صاحب کو بیعت کی تحریک فرمائی تھی۔ مگر ا س وقت وہ اس کے لئے تیار نہ تھے اور اپنی جگہ بعض شکوک ایسے رکھے تھے جو مزید اطمینان کے لئے رفع کرنے ضروری تھے۔ جب وہ شکوک رفع ہوئے تو انہوں نے تامل نہیں کیا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ازالہ اوہام میں نواب صاحب کے ایک خط کا اقتباس دیا ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ
ابتدا میں گو میں آپ کی نسبت نیک ظن ہی تھا۔ لیکن صرف اس قدر کہ آپ اور علماء اور مشائخ ظاہری کی طرح مسلمانوں کے تفرقہ کے موید نہیں ہیں۔ بلکہ مخالفین اسلام کے مقابل پر کھڑے ہیں۔ مگر الہامات کے بارے میں مجھ کو نہ اقرار تھا نہ انکار۔ پھر جب میں معاصی سے بہت تنگ آیا اور ان پر غالب نہ ہو سکا تو میں سوچا کہ آپ نے بڑے بڑے دعوے کئے ہیں۔ یہ سب جھوٹے نہیں ہوسکتے۔ تب میں نے بطور آزمائش آپ کی طرف خط وکتابت شروع کی جس سے مجھ کو تسکین ہوتی رہی اور جب قریباً اگست میں آپ سے لودہانہ ملنے گیا تواس وقت میری تسکین خوب ہو گئی اور آپ کو باخدابزرگ پایا اور بقیہ شکوک کو پھر بعد کی خط وکتابت میں میرے دل سے بکلی دھویا گیا اور جب مجھے یہ اطمینان دی گئی کہ ایک ایسا شیعہ جو خلفائے ثلثہ کی کسر شان نہ کرے سلسلہ بیعت میں داخل ہو سکتا ہے۔ تب میں نے آپ سے بیعت کر لی۔ اب میں اپنے آپ کو نسبتاً بہت اچھا پاتا ہوں اور آپ گواہ رہیں کہ میں نے تمام گناہوں سے آیندہ کے لئے توبہ کی ہے۔ مجھ کو آپ کے اخلاق اور طرز معاشرت سے کافی اطمینان ہے کہ آپ سچے مجدو اوردنیا کے لئے رحمت ہیں۔
جیساکہ پہلے خط سے ظاہر حضرت اقدس اگست ۱۸۹۰ء میں لودھانہ ہی تھے۔ اس لئے کہ وہ خط لودہانہ سے ہی حضرت نے لکھا ہے۔ پس ۱۸۹۰ء کی آخری سہ۶ماہی میں غالباً نواب صاحب کے شکوک وغیرہ صاف ہو گئے اور آپ نے سلسلہ بیعت میں شمولیت اختیار کی۔ اگر میں صحیح تاریخ بیعت بھی معلوم کر سکا تو وہ کسی دوسری جگہ درج کردی جائے گی۔وباللہ التوفیق۔عرفانی۔
مکتوب نمبر(۳)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
مشفقی عزیزی محبی نواب صاحب سردار محمد علی خان صاحب سلمہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کاعنایت نامہ آج کی ڈاک میں مجھ کو ملا۔ الحمد للہ والمنۃ کہ خداتعالیٰ نے آپ کو صحت بخشی اللہ جلشانہ آپ کو خوش رکھے اور عمر اور راحت اورمقاصد دلی میںبرکت اور کامیابی بخشے۔ اگرچہ حسب تحریر مرزا خدابخش صاحب آپ کے مقاصد میں سخت پیچدگی ہے۔ مگر ایک دعا کے وقت کشفی طور پر مجھے معلوم ہو اکہ آپ میرے پاس موجود ہیں اورایک دفعہ گردن اونچی ہو گئی ا ورجیسے اقبال اورعزت کے بڑھنے سے انسان اپنی گردن کو خوشی کے ساتھ ابھارتا ہے۔ ویسی ہی صورت پیدا ہوئی۔ میں حیران ہوں کہ یہ بشارت کس وقت اور کس قسم کے عروج سے متعلق ہے۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس صورت کے ظہور کا زمانہ کیا ہے۔ مگر میں کہہ سکتا ہوں کہ کسی وقت میں کسی کا اقبال اور کامیابی اور ترقی عزت اللہ جلشانہ کی طرف سے آپ کے لئے مقررہے۔ اگر اس زمانہ نزدیک ہو یا دور ہو سو میں آپ کے پیش آمدہ ملال سے گو پہلے غمگین تھا۔ مگر آج خوش ہوں۔ کیونکہ آپ کے مال کار کی بہتری کشفی طور پر معلوم ہوگئی۔ واللہ اعلم بالصواب۔
میں پہلے خط میں لکھ چکا ہوں کہ ایک آسمانی فیصلہ کے لئے میں مامور ہوں اور اس کے ظاہری انتظام کے دست کرنے کے لئے میں نے ۲۷؍ دسمبر ۱۸۹۱ء کو ایک جلسہ تجویز کیا ہے۔ متفرق مقامات سے اکثر مخلص جمع ہوں گے۔ مگر میں افسوس کرتا ہوں کہ آں محب بوجہ ضعف و نقاہت ایسے متبرک جلسہ میں شریک نہیں ہو سکتے۔ اس حالت میں مناسب ہے کہ آں محب اگر حرج کار نہ ہو تو مرزا خدا بخش صاحب کو روانہ کر دیں۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۲۲؍ دسمبر ۱۸۹۱ء
مکتوب نمبر(۴)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
میرے پیارے دوست نواب محمد علی خان صاحب سلمہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا عنایت عین انتظار میں مجھ کو ملا۔ جس کو میں نے تعظیم سے دیکھا اور ہمدردی اور اخلاص کے جوش سے حرف حرف پڑھا۔ میری نظر میں طلب ثبوت اور استکشاف حق کا طریقہ کوئی ناجائز اور ناگوار طریقہ نہیں ہے۔ بلکہ سعیدوں کی یہی نشانی ہے کہ وہ ورطہ مذبذبات سے نجات پانے کے لئے حل مشکلات چاہتے ہیں۔ لہذا یہ عاجز آپ کے اس طلب ثبوت سے ناخوش نہیں ہوا۔ بلکہ نہایت خوش ہے کہ آپ میں سعادت کی وہ علامتیں دیکھتا ہوں جس سے آپ کی نسبت عرفانی ترقیات کی امید بڑھتی ہے۔
اب آپ پر یہ واضح کرتا ہوں کہ میں نے مباہلہ سے قطعی طور پر انکار نہیں کیا۔ا گر امر متنازعہ فیہ میں قرآن اورحدیث کی رو سے مباہلہ جائز ہو تو میں سب سے پہلے مباہلہ کے لئے کھڑا ہوں ۔ لیکن ایسی صورت میں ہرگز مباہلہ جائز نہیںجب کہ فریقین کا یہ خیال ہو کہ فلاں مسئلہ میں کسی فریق کی اجتہاد یا فہم یا سمجھ کی غلطی ہے۔ کسی کی طرف سے عمداً افتدا یہ دروغ باقی نہیں کیونکہ مجرو ایسے اختلافات ہیں۔جو قطع نظر مصیبت یا محظی ہونے کے صحت نیت اور اخلاص اور صدق پر مبنی ہیں۔مباہلہ جائز ہوتا اور خداتعالیٰ ہر ایک جزئی اختلاف کی وجہ سے محظی پر عندالمباہلہ عذاب نازل کرتا تو آج تک تمام انسان کا روئے زمین سے خاتمہ ہو جاتا۔ کیونکہ کچھ شک نہیں کہ مباہلہ سے یہ غرض ہوتی ہے کہ جو فریق حق پر نہیں اس پر بلا نازل ہو اور یہ بات ظاہر ہے کہ اجتہادی امور میں مثلاً کسی جزئی میں حنفی حق پر نہیں اور کسی میں شافعی حق پر اور کسی میں اہل حدیث اب جب کہ فرض کیا جائے کہ سب فرقے اسلام کی جزئی اختلاف کی وجہ سے باہم مباہلہ کریں اورخداتعالیٰ اس جو حق پر نہیں عذاب نازل کرے تو اس کانتیجہ یہ ہو گا کہ اپنی اپنی خطا کی وجہ سے تمام فرقے اسلام کے روئے زمین سے نابود کئے جائیں۔ اب ظاہر ہے کہ جس امر کے تجویز کرنے سے اسلام کا استیصال تجویز کرتا پڑتا ہے۔ وہ خداتعالیٰ کے نزدیک جو حامی اسلام اورمسلمین ہے۔ کیوں کر جائز ہو گا۔ پھر کہتا ہوں کہ اگر اس کے نزدیک جزئی اختلاف کی وجہ سے مباہلہ جائز ہوتا تو وہ ہمیں یہ تعلیم نہ دیتا ربنا اغفرلنا والا خواننا یعنی اے خداہماری خطا معاف کراور ہمارے بھائیوں کی خطا بھی عفوفرما۔ بلکہ لا یُصب اور محظی کا تصفیہ مباہلہ پر چھوڑتا اور ہمیں ہر ایک جزئی اختلاف کی وجہ سے مباہلہ کی رغبت دیتا لیکن ایسا ہر گز نہیں اگر اس امت کے باہمی اختلافات کاعذاب سے فیصلہ ہوناضروری ہے تو پھر تمام مسلمانوں کے ہلاک کرنے کے لئے دشمنوں کی نظر میں اس سے بہتر کوئی حکمت نہیں ہو گی کہ ان تمام جزئیات مختلف میں مباہلہ کرایا جائے۔ تاایک ہی مرتبہ سب مسلمانوں پر قیامت آجائے۔ کیونکہ کوئی فرقہ کسی خطا کی وجہ سے ہلاک ہو جائے گااور کوئی کسی خطا کے سبب سے مورد عذاب و ہلاکت ہوگا۔ وجہ یہ کہ جزئی خطا سے تو کوئی فرقہ بھی خالی نہیں۔
اب میں یہ بیان کرتا چاہتا ہوں کہ کس صورت میں مباہلہ جائز ہے۔ سو واضح ہو کہ وہ صورت میں مباہلہ جائز ہے۔
(۱)اوّل اس کافر کے ساتھ جو یہ دعویٰ رکھتا ہے کہ مجھے یقینا معلوم ہے کہ اسلام حق پر نہیں اور جو کچھ غیراللہ کی نسبت خدائی کی صفتیں میں مانتاہوں وہ یقینی امر ہے۔
(۲)دوم اس ظالم کے ساتھ جو ایک بے جا تہمت کسی پر لگا کر اس کو ذلیل کرنا چاہتا ہے۔ مثلاً ایک مستورہ کو کہتا ہے۔ کہ میں یقینا جانتا ہوں کہ یہ عورت زانیہ ہے۔ کیونکہ میں نے بچشم خود اس کا زنا کرتے دیکھا ہے۔ یا مثلاً ایک شخص کو کہتا ہے کہ میں یقینا جانتا ہوں کہ یہ شراب خور ہے اور بچشم خود اس کو شراب پیتے دیکھا ہے۔ سوا س حالت میں بھی مباہلہ جائز ہے کیونکہ اس جگہ کوئی اجتہادی اختلاف نہیں بلکہ ایک شخص اپنے یقین اور رؤیت پر بنا رکھ کر ایک مومن بھائی کو ذلت پہنچانا چاہتا ہے۔ جیسے مولوی اسمٰعیل صاحب نے کیاتھا اور کہا تھا کہ یہ میرے ایک دوست کی چشم دید بات ہے۔ کہ مرزا غلام احمد یعنی یہ عاجز پوشیدہ طورپر آلات نجوم اپنے پاس رکھتا ہے اورا نہیں کے ذریعہ سے کچھ کچھ آئندہ کی خبریں معلوم کرکے لوگوں کو کہہ دیتا ہے کہ مجھے الہام ہوا ہے۔ مولوی اسمٰعیل صاحب نے کسی اجتہادی مسئلہ میں اختلاف نہیں کیا تھا بلکہ اس عاجز کی دیانت اور صدق پر ایک تہمت لگائی تھی جس کی اپنے ایک دوست کی رؤیت پر بنا رکھی تھی۔ لیکن بنا صرف اگر اجتہاد پر ہو اور اجتہادی طو پر کوئی شخص کسی مومن کو کافر کہے یا ملحد نام رکھے ۔ تو یہ کوئی تعجب نہیں ۔ بلکہ جہاں تک اس کی سمجھ اور اس کا علم تھا۔ اس کے موافق اس نے فتویٰ دیا ہے۔ غرض مباہلہ صرف ایسے لوگوں سے ہوتا ہے۔جو اپنے قول کی قطعی اور یقین پر بنا رکھ کر دوسرے کو مفتری اور زانی وغیرہ قرار دیتے ہیں۔
پس انا نحن فیہ میں مباہلہ اس وقت جائز ہوگا۔ کہ جب فریق مخالف یہ اشتہار دیں کہ ہم اس مدعی کو اپنی نظر میں اس قسم کا مخطی نہیں سمجھتے کہ جیسے اسلام کے فرقوں میں مصیب بھی ہوتے ہیں اور مخطی بھی اور بعض فرقے بعض سے اختلاف رکھتے ہیں بلکہ ہم یقین کلی سے اس شخص کو مفتری جانتے ہیں اور ہم اس بات کے محتاج نہیں کہ یہ کہیں کہ امر متنازعہ فیہ کہ اصل حقیقت خدا تعالیٰ جانتا ہے۔ بلکہ یقینا اس پیشگوئی کی سب اصل حقیقت ہمیں معلوم ہوچکی ہے۔ اگر یہ لوگ اس قدر اقرار کردیں۔ توپھرکچھ ضرورت نہیں کہ علماء کا مشورہ اس میں لیا جائے وہ مشورہی نقصان علم کی وجہ سے طلب نہیںکیا گیا۔ صرف اتمام حجت کی غرض سے طلب کیا گیاہے۔ سو اگر یہ مدعیان ایسا اقرار کریں کہ جو اوپر بیان ہو چکا ہے تو پھر کچھ حاجت نہیں کہ علماء سے فتویٰ پوچھا جائے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ جوشخص آپ ہی یقین نہیں کرتا۔ وہ مباہلہ کس بناء پر کرناچاہتا ہے؟ مباہل کا منصب یہ ہے کہ اپنے دعوے میں یقین ظاہر کرے صرف ظن اور شبہ پر بنا نہ ہو۔ مباہل کو یہ کہنا ماننا پڑتا ہے کہ جو کچھ اس امر کے بارے میں خداتعالیٰ کو معلوم ہے وہی مجھ کو یقینی طور پر معلوم ہوگیا ہے۔تب مباہلہ کی بنیاد پیدا ہوتی ہے۔پھر یہ بات بھی ہے کہ مباہلہ سے پہلے شخص مبلغ کا وعظ بھی سن لینا ضروری امر ہے۔ یعنی جو شخص خداتعالیٰ سے مامور ہو کرآیا ہے۔ اسے لازم ہے کہ اوّل دلایل بینہ سے اشخاص منکرین کو اپنے دعوے کی صداقت سمجھا دے اور اپنے صدق کی علامتیں ان پر ظاہر کرے۔ پھر اگر اس کے بیانات کو سن کرا شخاص منکرین باز نہ آویں اور کہیں کہ ہم یقینا جانتے ہیںکہ مفتری ہے تو آخر الحیل مباہلہ ہے۔ یہ نہیں کہ ابھی نہ کچھ سمجھا نہ بوجھا نہ کچھ سنا پہلے مباہلہ ہی لے بیٹھے۔
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مباہلہ کی درخواست کی تواس وقت کی تھی کہ جب کئی برس قرآن شریف نازل ہو کرکامل طور پر تبلیغ ہوچکی تھی۔ مگر یہ عاجز کئی برس نہیں چاہتا۔ صرف یہ چاہتا ہے کہ ایک مجلس علماء کی جمع ہو اور ان میں وہ لوگ بھی جمع ہوں جو مباہلہ کی درخواست کرتے ہیں۔ پہلے یہ عاجز انبیاء کے طریق پر شرط نصیحت بجا لائے اور صاف صاف بیان سے اپنا حق ہونا ظاہر کرے جب اس وعظ سے فراغت ہو جائے تو درخواست کنندہ مباہلہ اٹھ کر یہ کہے کہ وعظ میں نے سن لیا۔ مگر میں اب بھی یقینا جانتا ہوں کہ یہ شخص کاذب اور مفتری ہے اور اس یقین میں شک و شبہ کو راہ نہیں بلکہ روئیت کی طرح قطعی ہے۔ ایسا ہی مجھے اس بات پر بھی یقین ہے کہ جو کچھ میںنے سمجھا ہے وہ ایسا شک و شبہ سے منزہ ہے کہ جیسے روئیت تب اس کے بعد مباہلہ شروع ہو۔ مباہلہ سے پہلے کسی قدر مناظرہ ضروری ہوتا ہے۔ تا حجت پوری ہو جائے۔ کبھی سنا نہیں گیاکہ کسی نبی نے ابھی تبلیغ نہیں کی اور مباہلہ پہلے ہی شروع ہو گیا۔ غرض اس عاجز کومباہلہ سے ہرگز انکار نہیں۔ مگر اسی طریق سے جو اللہ تعالیٰ نے اس کا پسند کیا ہے۔ مباہلہ کی بناء یقین ہوتی ہے نہ اجتہادی خطا و صواب پر جب مباہلہ سے غرض تائید دین ہے۔ تو کیونکر پہلا قدم ہی دین کے مخالف رکھا جائے۔
یہ عاجز انشاء اللہ ایک ہفتہ تک ازالۃ الااوہام کے اوراق مطبوعہ آپ کے لئے طلب کرے گا۔ مگر شرط ہے کہ ابھی تک آپ کسی پر ان کو ظاہر نہ کریں۔ اس کامضمون اب تک امانت رہے۔ اگرچہ بعض مقاصد عالیہ ابھی تک طبع نہیں ہوئے اور یک جائی طور پر دیکھنا بہتر ہوتا ہے۔ تا خدانخواستہ قبل ازوقت طبیعت سیر نہ ہو جائے۔ مگر آپ کے اصرار سے آپ کے لئے طلب کروں گا۔ چونکہ میرا نوکر جس کے اہتمام اور حفاظت میں یہ کاغذات ہیں۔ اس جگہ سے تین چار روز تک امرتسر جائے گا۔ اس لئے ہفتہ یا عشرہ تک یہ کاغذات آپ کی خدمت میں پہنچیں گے۔ آپ کے لئے ملاقات کرنا ضروری ہے۔ ورنہ تحریر کے ذریعہ سے وقتاً فوقتاً استکشاف کرنا چاہئے۔
خاکسار
غلام احمد
نوٹ:۔ اس خط پر تاریخ نہیں ہے۔ لیکن ازالہ اوہام کی طبع کا چونکہ ذکر ہے۔ اس سے پایا جاتا ہے کہ ۱۸۹۱ء کا یہ مکتوب ہے۔ نواب صاحب قبلہ نے آپ کو مباہلہ کی درخواست منظور کرنے کے متعلق تحریک کی تھی۔ جو عبدالحق غزنوی وغیرہ کی طرف سے ہوئی تھی۔اس کے جواب میں آپ نے یہ مکتوب لکھا۔ ا س مکتوب سے آپ کی سیرۃ پر بھی ایک خاص روشنی پڑتی ہے اور آپ کے دعا وہی پر بھی جب مباہلہ کے لئے آپ کھڑے ہونے کی آمادگی ظاہر کرتے ہیں۔ تو صاف فرماتے ہیں کہ پہلے یہ عاجز انبیاء کے طریق پر شرط نصیحت بجا لائے اپنے سلسلہ کو ہمیشہ منہاج نبوت پر پیش کیا ہے۔ دوسرے آپ استکشاف حق کے لئے کسی سوال اور جرح کو برا نہیں مانتے۔ بلکہ سایل کو شوق دلاتے ہیں کہ وہ دریافت کرے۔ اس لئے کہ اسے آپ سعیدوں کی نشانی قرار دیتے ہیں۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر(۵)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
محبی عزیزی نواب صاحب سردار محمد علی خان سلمہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مبلغ …… ۲۸۱ روپیہ آں محب کل کی ڈاک میں مجھ کو مل گئے۔ جزاکم اللہ خیراً۔ جس وقت آپ کا روپیہ پہنچا ہے مجھ کو اتفاقاً نہایت ضرورت درپیش تھی۔ موقعہ پر آنے کی وجہ سے میں جانتا ہوں کہ خداووند کریم و قادر اس خدمت للہی کا آپ کو بہت اجردے گا۔ واللہ یحب المحسین۔آج مجھ کو صبح کی نماز کے وقت بہت تضرع اور ابتہال سے آپ کے لئے دعا کرنے کا موقعہ ملا۔ یقین کہ خداتعالیٰ اس کو قبول کرے گا اور جس طرح چاہے گا اس کی برکات ظاہر کرے گا۔ میں آپ کوخبر دے چکا ہوں کہ میں نے پہلے بھی بشارت کے طور پر ایک امر دیکھا ہوا ہے۔ گو میں ابھی اس کو کسی خاص مطلب یا کسی خاص وقت سے منسوب نہیں کرسکتا۔ تاہم بفضلہ تعالیٰ جانتا ہوں کہ وہ آپ کے لئے کسی بہتری کی بشارت ہے اور کوئی اعلیٰ درجہ کی بہتری ہے۔ جو اپنے مقررہ وقت پر ظاہر ہوگی۔ واللہ اعلم بالصواب۔
خداوند ذوالجلال کی جناب میں کوئی کمی نہیں۔ اُس کی ذات میں بڑی بڑی عجائب قدرتیں ہیں اور وہی لوگ ان قدرتوں کو دیکھتے ہیں۔ کہ جووفاداری کے ساتھ اس کے تابع ہو جاتے ہیں۔ جو شخص عہد وفا کو نہیںتورٹا اور صدق قدم سے نہیں ہارتا اورحسن ظن کو نہیں چھوڑتا۔ اس کی مراد پوری کرنے کے لئے اگر خداتعالیٰ بڑے بڑے محالات کوممکنات کر دیوے تو کچھ تعجب کی بات نہیں کیونکہ ایسے بندوں کا اس کی نظر میںبڑی ہی قدر ہے۔ کہ جو کسی طرح اس کے دروازہ کو چھوڑتا نہیں چاہتے اور شتاب بازو اور بے وفانہیں ہیں۔
یہ عاجز انشاء اللہ العزیز ۲۰؍ جنوری ۱۸۹۲ء کو لاہور جائے گا اورارادہ ہے کہ تین ہفتہ تک لاہور رہے۔ اگر کوئی تقریب لاہور میں آپ کے آنے کی اس وقت پید اہو تو یقین کہ لاہور میں ملاقات ہو جائے گی۔
والسلام
راقم خاکسار
غلام احمد از قادیان
۹؍ جنوری ۱۸۹۲ء
مشفقی اخویم مرزا خدابخش صاحب کو السلام علیکم
مکتوب نمبر(۶)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب محمد علی خان صاحب سلمہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ایک ہفتہ سے بلکہ عشرہ سے زیادہ گزر گیا کہ آں محب کا محبت نامہ پہنچا تھا۔ چونکہ اس میں امور مستفسرہ بہت تھے اور مجھے بباعث تالیف کتاب آئینہ کمالات اسلام بغایت درجہ کی کمی فرصت تھی۔ کیونکہ ہر روز مضمون تیار کر کے دیاجاتا ہے۔ اس لئے جواب لکھنے سے معذور رہا اور ّآپ کی طرف سے تقاضا بھی نہیں تھا۔ آج مجھے خیال آیا کہ چونکہ آپ خالص محب ہیں اور آپ کا استفسار سراسر نیک ارادہ اور نیک نیتی پر مبنی ہے۔ اس لئے بعض امور سے آپ کو آگا ہ کرنا اور آپ کے لئے جو بہتر ہے۔ اُس سے اطلاع دینا ایک امر ضروری ہے۔ لہذا چند سطور آپ کی آگاہی کے لئے ذیل میں لکھتا ہوں۔
یہ سچ ہے کہ جب سے اس عاجز نے مسیح موعودہونے کادعویٰ بامر اللہ کیا ہے۔ تب سے وہ لوگ جو اپنے اندر قوت فیصلہ نہیں رکھتے عجب تذب ذب اور کشمش میں مبتلا پڑ گئے ہیں اور آپ یہ بھی کہتے ہیں کہ کوئی نشان بھی دکھلانا چاہئے۔
(۱) مباہلہ کی نسبت آپ کے خط سے چند روز پہلے مجھے خود بخود اللہ جلشانہ نے اجازت دی ہے اور یہ خداتعالیٰ کے ارادہ سے آپ کے ارادہ کا توارد ہے کہ آپ کی طبیعت میں یہ جنبش پید ا ہوئی۔ مجھے معلوم ہوتا کہ اب اجازت دینے میں حکمت یہ ہے کہ اوّل حال میں صرف اس لئے مباہلہ ناجائز تھا کہ ابھی مخالفین کو بخوبی سمجھایا نہیں گیا تھا اور وہ اصل حقیقت سے سراسر ناواقف تھے اور تکفیر پر بھی ان کاجوش نہ تھا۔ جو بعد ا س کے ہوا۔ لیکن اب تالیف آئینہ کمالات اسلام کے بعد تفہیم اپنے کمال کو پہنچ گئی اور اب اس کتاب کے دیکھنے سے ایک ادنیٰ استعداد کا انسان بھی سمجھ سکتا ہے کہ مخالف لوگ اپنی رائے میں سراسر خطا پر ہیں۔اس لئے مجھے حکم ہو اہے کہ مباہلہ کی درخواست کو کتاب آئینہ کمالات اسلام کے ساتھ شائع کردوں۔ سو وہ درخواست انشاء اللہ القدیر پہلے حصے کے ساتھ ہی شائع ہوگی۔ اوّل دنوں میں میرا یہ بھی خیال تھا کہ مسلمانوں سے کیونکر مباہلہ کیا جائے۔ کیونکہ مباہلہ کہتے ہیں کہ ایک دوسرے پر * بھیجنا اور مسلمانوں پر * بھیجنا جائز نہیں۔مگر اب چونکہ وہ لوگ بڑے اسرار سے مجھ کو کافر ٹھہراتے ہیں اورحکم شرع یہ ہے کہ جو شخص کسی مسلمان کو کافر ٹھہراوے اگر وہ شخص درحقیقت کافر نہ ہو توکفر الٹ کر اسی پر پڑتا ہے۔ جو کافر ٹھہراتا ہے۔ اسی بناء پر مجھے یہ حکم ہو ا ہے کہ جو لوگ تجھ کو کافر ٹھہراتے ہیں اور انباء اور نساء رکھتے ہیں اور فتویٰ کفر کے پیشوا ہیں ان سے مباہلہ کی درخواست کرو۔
(۲) نشان کے بارے جو آپ نے لکھا ہے کہ یہ بھی درخواست ہے درحقیقت انسان دو قسم کے ہوتے ہیں۔ اوّل وہ جو زیرک اور زکی ہیں او راپنے اندر قوت فیصلہ رکھتے ہیں اور متخاصمین کی قیل وقال میں سے جو تقریر حق کی عظمت اور برکت پر روشنی ڈالتی ہے۔ اس تقریر کو پہچان لیتی ہے اور باطل جو تکلیف اور بناوٹ کی بدبو رکھتا ہے۔ وہ بھی ان کی نظر سے پوشیدہ نہیں رہتا۔ ایسے لوگ مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شناخت کے لئے اس بات کے محتاج نہیں ہو سکتے کہ ان کے سامنے سوٹی کا سانپ بنایا جائے اورحضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شناخت کے لئے حاجت مند ہو سکتے ہیں کہ ان کے ہاتھ سے مفلوجوں اور مجذوبوں کو اچھے ہوتے دیکھ لیں اورنہ ہمارے سیدو مولیٰ حضرت خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں ایسے اعلیٰ درجہ کے لوگوں نے کبھی معجزہ طلب نہیں کیا کوئی ثابت نہیںکرسکتا کہ صحابہ کبار رضی اللہ عنہم کوئی معجزہ دیکھ کر ایمان لائے تھے بلکہ وہ زکی تھے اور نور قلب رکھتے تھے انہوںنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا منہ دیکھ کر ہی پہچان لیاتھا کہ یہ جھوٹوں کامنہ نہیں ہے اس لئے خداتعالیٰ کے نزدیک صدیق اور راستباز ٹھہرے انہوں نے حق کو دیکھا اور ان کے دل بول اٹھے کہ یہ منجانب اللہ ہے۔
دوسرے قسم کے وہ انسان ہیں جو معجزہ او ر کرامت طلب کرتے ہیں اور ان کے حالات خداتعالیٰ نے قرآن کریم میں تعریف کے ساتھ نہیں بیان کئے اور اپنا غضب ظاہر کیا ہے جیسا کہ ایک جگہ فرماتاہے واقسمو ا باللہ جھد ایمانھم لئن جاء تھم ایۃ لیومنن بھاقل انما الا یات عنداللہ ومایشعر کم انھا اذا جائت لایومنون یعنی یہ لوگ سخت قسمیں کھاتے ہیں کہ اگر کوئی نشان دیکھیں تو ضرور ایمان لے آئیں گے ان کو کہہ دے کہ نشان تو خداتعالیٰ کے پاس ہیں اور تمہیں خبر نہیں کہ جب نشان بھی دیکھیںگے تو کبھی ایمان نہ لائیںگے۔ پھر فرماتا ہے یوم یاتی بعض ایات ربک لا ینفع نفسا ایمانھا لم تکن امنت من قبل یعنی جب بعض نشان ظاہر ہوں گے تو اس دن ایمان لانا بے سود ہو گا اور جو شخص صرف نشان کے دیکھنے کے بعد ایمان لاتا ہے اس کو وہ ایمان نفع نہیں دے گا پھر فرماتا ہے ویقولون متی ھذا لوعذان کنتم صادقین قل لا املک لنفسی ضراً ولا نفعاً الا ماشاء اللہ کل امۃ اجل الخ۔ یعنی کافر کہتے ہیں کہ وہ نشان کب ظاہر ہوں گے اوریہ وعدہ کب پورا ہو گا۔ سو ان کہہ دے کہ مجھے ان باتوں میں دخل نہیں۔نہ میں اپنے نفس کے لئے ضرر کا مالک ہوں نہ نفع کا۔ مگر جو خدا چاہے۔ ہر ایک گروہ کے لئے ایک وقت مقرر ہے جوٹل نہیں سکتا اور پھر اپنے رسول کو فرماتا ہے وان کان کبرعلیک اعراضھم فان اسطعت ان تبتغی نفقافی الارض ااوسلما فی السما فتاتیھم بایۃ ولوشاء اللہ لجعھم علیٰ الھدی فلا تکونن من الجاھلین۔یعنی اگر تیرے پر اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کافروں کا اعراض بہت بھاری ہے ۔ سو اگر تجھے طاقت ہے تو زمین میں سرنگ کھود کر یا آسمان پر زینہ لگا کر چلاجا اور ان کے لئے کوئی نشان لے آ اور اگر خدا چاہتا تو ان سب کو جونشان مانگتے ہیں ہدائت دیتا تو جاہلوں میں سے مت ہو۔ اب ان تمام آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں کافر نشان مانگا کرتے تھے۔ بلکہ قسمیں کھاتے تھے کہ ہم ایمان لائیں گے۔ مگر جلشانہ‘ صاف صاف فرماتا ہے کہ جو شخص نشان دیکھنے کے بعد ایمان لاوے اس کا ایمان مقبول نہیں۔ جیسا کہ ابھی آیت لا یِنفع نفسا ایمانھا تحریر ہوچکی ہے اور اسی کے قریب قریب ایک دوسری آیت ہے اور وہ یہ ہے۔ ولقد جا ء تھم رسلھم با لبینات فما کانو الیومنوا بما کذبو امن کذالک یطبع اللہ قلوب الکا فرین یعنی پہلی امتوں میں جب ان کے نبیوں نے نشان دکھلائے تو ان نشانوں کو دیکھ بھی لوگ ایمان لائے ۔ کیونکہ وہ نشان دیکھنے سے پہلے تکذیب کرچکے تھے۔ اسی طرح خدا ان لوگوں کے دلوں پر مہریں لگا دیتا ہے۔ جوا س قسم کے کافر ہیں جو نشان سے پہلے ایمان نہیں لاتے ۔
یہ تمام آیتیں اور ایسا ہی اوربہت سی آیتیں قرآن کریم کی جن کا اس وقت لکھنا موجب طوالت ہے با لا تفاق بیان فرما رہیں ہیں کے نشان کو طلب کرنے والے مورد غضب الہی ہوتے ہیں اور جو شخص نشان دیکھنے سے ایمان لاویں اس کا ایمان منظور نہیں اس پردو اعتراض وار ہوتے ہیں اول یہ کے نشان طلب کرنے والے کیوں مورد غضب الٰہی ہیں۔ جو شخص اپنے اطمنان کے لئے یہ آزمائش کرنا چاہتا ہے کہ یہ شخص منجانب اللہ ہے یا نہیں بظاہر وہ نشان طلب کرنے کا حق رکھتا ہے تا دھوکہ نہ کھاوے اور مرداہ الٰہی کو قبول الٰہی خیال نہ کرے۔
اس وہم کا جواب یہ ہے کہ تمام ثواب ایمان پر مترتب ہوتا ہے اور ایمان اسی بات کا نام ہے کہ جو بات پردہ غیب میں ہو۔ اس کو قراین مرحجہ کے لحاظ سے قبول کیا جاوے۔ یعنی اس قدر دیکھ لیا جائے کہ مثلاً صدق کے وجوہ کذب کے وجوہ پر غالب ہیں اور قراین موجودہ ایک شخص کے صادق ہونے پر بہ نسبت اس کے کاذب ہونے کے بکثرت پائے جاتے ہیں۔
یہ تو ایمان کی حد ہے لیکن اگر اس حدسے بڑھ کر کوئی شخص نشان طلب کرتا ہے تو وہ عنداللہ فاسق ہے اور اسی کے بارہ میں اللہ جلشانہ‘ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ نشان دیکھنے کے بعد اس کو ایمان نفع نہیں دے گا یہ بات سوچنے سے جلد سمجھ میں آسکتی ہے کہ انسان ایمان لانے سے کیوں خداتعالیٰ کی رضا مندی حاصل کرتا ہے اس کی وجہ یہی ہے جن چیزوں کو ہم ایمانی طور پر قبول کر لیتے ہیں وہ بکل الوجود ہم پر مکشوف نہیں ہوتیں۔مثلاً خد ائے تعالیٰ پر ایمان لاتا ہے مگر اس کو دیکھا نہیں۔ فرشتوں پر بھی ایمان لاتا ہے مگر وہ بھی نہیں دیکھے۔ بہشت اور دوخ پر بھی ایمان لاتا ہے اور وہ بھی نظر سے غائب ہیں محض حسن ظن سے مان لیتا ہے اس لئے خداتعالیٰ کے نزدیک صادق ٹھہر جاتا ہے اور یہ صدق اس کے لئے موجب نجات ہوجاتا ہے ورنہ ظاہر ہے کہ بہشت اور دوخ ملایک مخلوق خداتعالیٰ کی ہے ان پر ایمان لانا نجات سے کیا تعلق رکھتا ہے جو چیز واقعی طور پر موجود ہے اور بد یہی طور پر اس کا موجود ہونا ظاہر ہے اگر ہم اس کو موجود مان لیں تو کس اجر کے ہم مستحق ٹھہر سکتے ہیں۔ مثلاً اگر ہم یہ کہیں کہ ہم آفتاب کے وجود پر بھی ایمان لائے اور زمین پر بھی ایمان لائے کہ موجود ہے اور چاند کے موجود ہونے پر بھی ایمان لائے اور اس بات پرایمان لائے کہ دنیا میں گدھے بھی ہیں اور گھوڑے بھی خچر بھی اور بیل بھی اور طرح طرح کے پرند بھی تو کیا اس ایمان سے کسی ثواب کی توقع ہوسکتی ہے پھر کیا وجہ سے کہ جب ہم مثلاً ملایک کہ وجود پر ایمان لاتے ہیں تو خداتعالیٰ کے نزدیک مومن ٹھہر تے ہیں اور مستحق ثواب بنتے ہیں اور جب ہم ان تمام حیوانات پر ایمان لاتے ہیں جو زمین پر ہماری نظر کے سامنے موجود ہیں تو ایک ذرہ بھی ثواب نہیں ملتا حالانکہ ملایک اور دوسری سب چیزیں برابر خداتعالیٰ کی مخلوق ہیں ۔ پس اس کی یہی وجہ ہے کہ ملایک پر وہ غائب میں ہیں اور اور دوسری چیزیں یقینی طور پر ہمیں معلوم ہیں اور یہی وجہ ہے کہ قیامت کے دن ایمان لانا منظور نہیں ہو گا یعنی اگر اس وقت کوئی شخص خداتعالیٰ کی تجلیات دیکھ کر اور اس کے ملایک اور بہشت اور دوزخ کا مشاہدہ کرکے یہ کہے کہ اب میں ایمان لایا تو منظور نہ ہو گا۔ کیوں منظور نہ ہو گا؟ اسی وجہ سے کہ اس وقت کوئی پردہ غیب درمیان نہ ہو گا تا اس سے ماننے والے کاصدق ثابت ہو۔
اب پھر غور کر کے ذرا اس بات کو سمجھ لینا چاہئے کہ ایمان کس بات کو کہتے ہیں اور ایمان لانے پر کیوں ثواب ملتا ہے امید ہے کہ آپ بفضلہ تعالیٰ تھوڑا سا فکر کرکے اس بات کاجلد سمجھ جائیں گے کہ ایمان لانا اس طرز قبول سے مراد ہے کہ جب بعض گوشے یعنی بعض پہلو کسی حقیقت کے جس پر ایمان لایا جاتا ہے مخفی ہوں اور نظر دقیق سے سو چکر اور قراین مرحجہ کو دیکھ کر اس حقیقت کو قبل اس کے کہ وہ تجلی کھل جائے قبول کرلیا جائے یہ ایمان ہے جس پر ثواب مترتب ہوتا ہے اور اگرچہ رسولوں اور انبیاء اور اولیاء کرام علیہم السلام سے بلاشبہ نشان ظاہر ہوتے ہیں۔ مگر سعید آدمی جو خداتعالیٰ کے پیارے ہیں۔ ان نشانوں سے پہلے اپنی فراست صحیحہ کے ساتھ قبول کر لیتے ہیں اور جولوگ نشانوں کے بعد قبول کرتے ہیں۔ وہ لوگ خدا ئے تعالیٰ کی نظر میں ذلیل اوربے قدر ہیں۔ بلکہ قرآن کریم بآواز بلند بیان فرماتا ہے کہ جولوگ نشان دیکھنے کے بغیر حق کوقبول نہیں کر سکتے وہ نشان کے بعد بھی قبول نہیں کرتے اور کیونکہ نشان کے ظاہر ہونے سے پہلے وہ بالجہر منکر ہوتے ہیں اور علانیہ کہتے پھرتے ہیں کہ یہ شخص کذاب اور جھوٹا ہے۔ کیونکہ اس نے کوئی نشان نہیں دکھلایا اور ان کی ضلالت کا زیادہ یہ موجب ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ بھی بباعث آزمائش اپنے بندوں کے نشان دکھلانے میں عمداتاً خیر اور توقف ڈالتا ہے اور وہ لوگ تکذیب اور انکار میں بڑھتے جاتے ہیں اور دعویٰ سے کہنے لگتے ہیں کہ درحقیقت یہ شخص کذاب ہے۔ مفتری ہے۔ مکار ہے۔ دردغگو ہے۔ جھوٹا ہے اور منجانب اللہ نہیں ہے۔ پس جب وہ شدت سے اپنی رائے کو قائم کر چکتے ہیں اور تقریروں کے ذریعہ سے اور تحریروں کے ذریعہ سے اور مجلسوں میں بیٹھ کر اور منبروں پر چڑھ کر اپنی مستقل رائے دنیا میں پھیلا دیتے ہیں کہ درحقیقت یہ شخص کذاب ہے۔ تب اس پر عنایت الٰہی توجہ فرماتی ہے کہ اپنے عاجز بندے کی عزت اورصداقت ظاہر کرنے کے لئے کوئی اپنا نشان ظاہر کرے۔ سو اس وقت کوئی غیبی نشان ظاہر ہوتا ہے جس سے صرف لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ جو پہلے مان چکے ہیں اور انصار حق میں داخل ہو گئے تھے۔ یاد جنہوں اپنی زبانوں اور اپنی قلموں سے اپنے خیالات کو مخالفانہ اظہار سے بچا لیاتھا۔ لیکن وہ بدنصیب گروہ جو مخالفانہ رائوں کو ظاہر کر چکے تھے۔ وہ نشان دیکھنے کے بعد بھی اس کو قبول نہیں کرسکتے کیونکہ وہ تو اپنی رائیں علیٰ رئوس الاشہاد شائع کرچکے ۔ اشتہار دے چکے مہریں لگا چکے کہ یہ شخص درحقیقت کذاب ہے۔ اس لئے اب اپنی مشہور کردہ رائے سے مخالف اقرار کرنا ان کے لئے مرنے سے بھی زیادہ سخت ہوجاتا ہے۔ کیونکہ اس سے ان کی ناک کٹتی ہے اورہزاروں لوگوں پر ان کی حمایت ثابت ہوتی ہے کہ پہلے تو بڑے زور شور سے دعوے کرتے تھے کہ شخص ضرور کاذب ہے ضرور کاذب ہے اور قسمیں کھاتے اور اپنی عقل اور علمیت جتلاتے تھے اور اب اسی کی تائید کرتے ہیں۔
میں پہلے اس سے بیان کرچکا ہوں کہ ایمان لانے پر ثواب اسی وجہ سے ملتا ہے کہ ایمان لانے والا چند قراین صدق کے لحاظ سے ایسی باتوں کو قبول کر لیتا ہے کہ وہ ہنوز مخفی ہیں۔ جیسا کہ اللہ جلشانہ نے مومنوں کی تعریف قرآن کریم میں فرمائی ہے یومنون بالغیب یعنی ایسی بات کو مان لیتے ہیں کہ وہ ہنوز در پردہ غیب ہے۔ جیساکہ صحابہ کرام نے ہمارے سید و مولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو مان لیا اور کسی نے نشان نہ مانگا اور کوئی ثبوت طلب نہ کیا اورگو بعد اس کے اپنے وقت پر بارش کی طرح نشان برسے اور معجزات ظاہر ہوئے۔ لیکن صحابہ کرا م ایمان لانے میں معجزات کے محتاج نہیں ہوئے اوراگر وہ معجزات کے دیکھنے اپر ایمان موقوف رکھتے تو ایک ذرہ بزرگی ان کی ثابت نہ ہوتی اور عوام میں سے شمار کئے جاتے تو خداتعالیٰ کے مقبول اور پیارے بندوں میں داخل نہ ہوسکتے کیونکہ جن لوگوں نے نشان مانگا خداتعالیٰ نے ان پر عتاب ظاہر کیا اور درحقیقت ان کاانجام اچھا نہ ہوا اور اکثر وہ بے ایمانی حالت میں ہی مرے۔ غرض خداتعالیٰ کی تمام کتابوں سے ثابت ہوتا ہے کہ نشان مانگنا کسی قوم کے لئے مبارک نہیں ہوا اور جس نے نشان مانگا وہی تباہ ہوا۔ انجیل میں بھی حضرت مسیح فرماتے ہیں کہ اس وقت کے حرامکار مجھ سے نشان مانگتے ہیں ان کوکوئی نشان نہیں دیا جائے گا۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ بالطبع ہر شخص کے دل میں اس جگہ یہ سوال پید اہو گا کہ بغیر کسی نشان کے حق اور باطل میں انسان کیونکر فرق کر سکتا ہے او راگر بغیر نشان دیکھنے کے کسی کو منجانب اللہ قبول کیا جائے تو ممکن ہے کہ اس قبول کرنے میں دھوکا ہو۔
اس کاجواب وہی ہے جو میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ خداتعالیٰ نے ایمان کا ثواب اکبر اسی امر سے مشروط کر رکھا ہے کہ نشان دیکھنے سے پہلے ایمان ہو اور حق و باطل میں فرق کرنے کے لئے یہ کافی ہے کہ چند قراین جو وجہ تصدیق ہو سکیں اپنے ہاتھ میں ہوں او رتصدیق کاپلہ تکذیب کے پلہ سے بھاری ہو۔ مثلاً حضرت صدیق اکبر ابوبکر رضی اللہ عنہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تو انہوںنے کوئی معجزہ طلب نہیں کیا او رجب پوچھا گیا کہ کیوں ایمان لائے۔ توبیان کیاکہ میرے پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کاامین ہونا ثابت ہے اور میں یقین رکھتاہوں کہ انہوں نے کبھی کسی انسان کی نسبت بھی جھوٹ استعمال نہیں کیا چہ جائیکہ خداتعالیٰ پر جھوٹ باندھیں۔ ایسا ہی اپنے اپنے مذاق پر ہر ایک صحابی ایک ایک اخلاقی یا تعلیمی فضلیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دیکھ کر اور اپنی نظر دقیق سے اس کو وجہ صداقت ٹھہرا کر ایمان لائے تھے اور ان میں سے کسی نے بھی نشان نہیں مانگا تھا اور کاذب اور صادق میں فرق کرنے کے لئے ان کی نگاہوں میں یہ کافی تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تقوے کے اعلیٰ مراتب پر ہیں۔ اپنے منصب کے اظہار میں بڑی شجاعت اور استقامت رکھتے ہیں اور جس تعلیم کو لائے ہیں وہ دوسری تعلیموں سے صاف تراور پاک تر اور سراسرا نور ہے اور تمام اخلاق حمیدہ میں بے نظیر ہیں اور للہی جوش ان میں اعلیٰ درجے کے پائے جاتے ہیں اور صداقت ان کے چہرہ پر برس رہی ہے۔ پس انہیں باتوں کو دیکھ کر انہو ں نے قبول کر لیا کہ وہ درحقیقت خداتعالیٰ کی طرف سے ہیں۔ اس جگہ یہ نہ سمجھا جائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے معجزات ظاہر نہیںہوئے۔ بلکہ تمام انبیاء سے زیادہ ظاہر ہوئے لیکن عادت اللہ اسی طرح پر جاری رہے کہ اوائل میں کھلے کھلے معجزات اور نشان مخفی رہتے ہیں۔ تا صادقوں کا صدق اور کاذبوں کا کذب پرکھا جائے یہ زمانہ ابتلاکا ہوتاہے اور اس میں کوئی کھلا نشان ظاہر نہیں ہوتا۔پھر جب ایک گروہ صافی دلوں کااپنی نظر دقیق سے ایمان لاتا لے آتا ہے اورعوام کا لانعام باقی رہ جاتے ہیں۔ تو ان پر حجت پوری کرنے کے لئے یا ان پر عذاب نازل کرنے کے لئے نشان ظاہر ہو جاتے ہیں ۔ مگر ان نشانوں سے وہی لوگ فائدہ اٹھاتے ہیںجو پہلے ایمان لا چکے تھے اور بعد میں ایمان لانے والے بہت کم ہوتے ہیں۔ کیونکہ ہر روز تکذیب سے ان کے دل سخت ہوجاتے ہیں اور اپنی مشہور کردہ رائوں کو وہ بدل نہیں سکتے۔ آخر اسی کفر اور انکار میں واصل جہنم ہوتے ہیں۔
مجھے دلی خواہش ہے اور میں دعا کرتا ہوں کہ آپ کو یہ بات سمجھ میں آجائے کہ درحقیقت ایمان کے مفہوم کے لئے یہ بات ضروری ہے کہ پوشیدہ چیزوں کو مان لیا جائے اور جب ایک چیز کی حقیقت ہر طرح سے کھل جائے یا ایک وافر حصہ اس کا کھل جائے۔ تو پھر اس کو مان لینا ایمان میں داخل نہیں مثلاً اب جو دن کاوقت ہے۔ اگر میں کہوں کہ میں اس بات پر ایمان لاتا ہوں کہ اب دن ہے رات نہیں ہے۔ تو میرے اس ماننے میں کیا خوبی ہو گی اور اس ماننے میں مجھے دوسروں پر کیا زیادت ہے۔ سعید آدمی کی پہلی نشانی یہی ہے کہ اس بابرکت بات کو سمجھ لے کہ ایمان کس چیز کو کہا جاتا ہے۔ کیونکہ جس قدر ابتدائے دنیاسے لوگ انبیاء کی مخالفت کرتے آئے ہیں۔ ان کی عقلوں پر یہی پردہ پڑا ہو اتھا کہ وہ ایمان کی حقیقت کانہیں سمجھتے تھے اورچاہتے تھے کہ جب تک دوسرے امور مشہودہ محسوسہ کی طرح انبیاء کی نبوت اور ان کی تعلیم کھل نہ جائے۔ تب تک قبول کرنا مناسب نہیں اور وہ بیوقوف یہ خیال کرتے تھے کہ کھلی ہوئی چیز کو ماننا ایمان میں کیونکر داخل ہو گا۔ وہ تو ہندسہ اور حساب کی طرح ایک علم ہوا نہ کہ ایمان۔ پس یہی حجاب تھا کہ جس کی وجہ سے ابوجہل اور ابولہب وغیرہ اوایل میں ایمان لانے سے محروم رہے اور پھر جب اپنی تکذ یب میں پختہ ہو گئے اور مخالفانہ رائوں پر اصرار کر چکے۔اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے کھلے کھلے نشان ظاہر ہوئے تب انہوں کہا کہاب قبول کرنے سے مرنا بہتر ہے۔ غرض نظر دقیق سے صادق کے صدق کو شناخت کرنا سعیدوں کا کام ہے اورنشان طلب کرنا نہایت منحوس طریق اور اشقیا کا شیوہ ہے۔ جس کی وجہ سے کروڑ ہا منکر ہیزم جنہم ہو چکے ہیں۔ خداتعالیٰ اپنی نسبت کو نہیں بدلتا۔ وہ جیسا کہ اس نے فرمادیا ہے۔ ان ہی کے ایمان کو ایمان سمجھتا ہے۔ جو زیادہ ضد نہیں کرتے اور قرآن مرحجہ کودیکھ کر اور علامات صدق پا کر صادق کوقبول کرلیتے ہیں اورصادق کا کلام اورصادق کی راستبازی۔ صادق کی استقامت اورخود صادق کا منہ ان کے نزدیک اس کے صدق پر گواہ ہوتا ہے۔ مبارک وہ جن کو مردم شناسی کی عقل دی جاتی ہے۔
ماسوا اس کے جو شخض ایک نبی متبوع علیہ السلام کا متبع ہے اور اس کے فرمودہ پر اور کتاب اللہ پر ایمان لاتا ہے۔ اس کی آزمائش انبیاء کی آزمائش کی طرح کرنا سمجھی جاتی ہے۔ کیونکہ انبیاء اس لئے آتے ہیں کہ تا ایک دین سے دوسرے دین میں داخل کریں اور ایک قبلہ سے دوسرا قبلہ مقرر کراویں اور بعض احکام کومنسوخ کریں اوربعض نئے احکام لاویں۔ لیکن اس جگہ تو ایسے انقلاب کادعویٰ نہیں ہے وہی اسلام ہے جو پہلے تھا۔ وہ ہی نمازیں ہیں جوپہلے تھیں۔وہ ہی رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم ہے جو پہلے تھا اور وہی کتاب ہے جو پہلے تھی۔ اصل دین سے کوئی ایسی بات چھوڑنی نہیں پڑی جس سے اس قدر حیرانی ہو۔ مسیح موعود کادعویٰ اس وقت گراں اورقابل احتیاط ہوتا کہ جب اس دعوے کے ساتھ نعوذباللہ کچھ دین کے احکام کی کمی بیشی ہوتی اور ہماری عملی حالت دوسرے مسلمانوں سے کچھ فرق رکھتی۔ اب جبکہ ان باتوں میں سے کوئی بھی نہیں۔ صرف مابہ التراع حیات مسیح اور وفات مسیح ہے اور مسیح موعود کا دعویٰ اس مسئلہ کی درحقیقت ایک فرع ہے اور اس دعویٰ سے مراد کوئی عملی انقلاب نہیں اورنہ اسلامی اعتقادات پر ا س کا کوئی مخالفانہ اثر ہے۔ تو کیا اس دعویٰ کے تسلیم کرنے کے لئے کسی بڑے معجزہ یا کرامت کی حاجت ہے؟ جس کا مانگنا رسالت کے دعویٰ میں عوام کا قدیم شیوہ ہے۔ ایک مسلمان جسے تائید اسلام کے لئے خداتعالیٰ نے بھیجا۔ جس کے مقاصد یہ ہیں کہ تا دین اسلام کی خوبیاں لوگوں پر ظاہر کرے اورآج کل کے فلسفی وغیرہ الزاموں سے اسلام کا پاک ہونا ثبوت کر دیوے اور مسلمانوں کو اللہ و رسول کی محبت کی طرف رجوع دلا وے۔ کیا اس کاقبول کرنا ایک منصف مزاج اور خدا ترس آدمی پر کوئی مشکل امر ہے؟
مسیح موعود کادعویٰ اگر اپنے ساتھ ایسے لوازم رکھتا جن سے شریعت کے احکام اور عقائد پر کچھ اثر پہنچتا۔ تو بے شک ایک ہولناک بات تھی۔ لیکن دیکھنا چاہئے کہ میں نے اس دعویٰ کے ساتھ کس اسلامی حقیقت کو منقلب کر دیا ہے کون سے حکام اسلام میں سے ایک ذرہ بھی کم یا زیادہ کردیا ہے ہاں ایک پیشگوئی کے وہ معنی کئے گئے ہیں جو خداتعالیٰ نے اپنے وقت پر مجھ پر کھولے ہیں او رقرآن کریم ان معنوں کے صحت کے لئے گواہ ہے اور احادیث صحیحہ بھی ان کی شہادت دیتے ہیںپھر نہ معلوم کہ اس قدر کیوں شور وغوعا ہے۔
ہاں طالب حق ایک سوال بھی اس جگہ کر سکتا ہے اور وہ یہ کہ مسیح موعود کا دعویٰ تسلیم کرنے کے لئے کون سے قرائن موجود ہیںکیوں اس مدعی کی صداقت کو ماننے کے لئے قراین تو چاہئے خصوصاً آج کل کے زمانہ میں جو مکرو فریب او ربد دیانتی سے بھرا ہوا ہے اور دعاوی باطلہ کا بازار گرم ہے۔
اس سوال کے جواب میں مجھے یہ کہنا کافی ہے کہ مندرجہ زیل امور طالب حق کے لئے بطور علامات اور قراین کے ہیں۔
(۱) اوّل وہ پیشگوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو تواتر معنوی تک پہنچ گئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ خداتعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ ہر ایک صدی کے سر پر وہ ایسے شخص کو معبوث کرے گا جودین کو پھر تازہ کر دے گا اس کی کمزوریوں کا دور کرکے پھر اپنی اصلی طاقت اور قوت پر اس کو لے آئے گااس پیشگوئی کی رو سے ضرور تھا کہ کوئی شخص اس چودہویں صدی پر بھی خداتعالیٰ کی طرف سے معبوث ہوتا اور موجوہ خرابیوں کی اصلاح کے لئے درپیش قدمی دکھلاتا سو یہ عاجز عین وقت پر مامور ہوا۔ اس لئے پہلے صدہا اولیاء نے اپنے الہام سے گواہی دی تھی کہ چودہویں صدی کا مجدو مسیح ہو گا اوراحادیث صحیحہ ……پکار پکار کرکہتی ہے کہ تیرہویںصدی کے بعد ظہور مسیح ہے۔ پس کیا اس عاجز کا یہ دعویٰ اس وقت اپنے محل اور اپنے وقت پر نہیں ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ فرمودہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطا جاوے۔ میں نے اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ اگر فرض کیا جائے کہ چودہویں صدی کے سر پر مسیح موعود پید انہیں ہوا۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کئی پیشگوئیاں خطاجاتی ہیں اور صدہا بزرگوار صاحب الہام جھوٹے ٹھہرتے ہیں۔
(۲) اس بات کو بھی سوچنا چاہیئے کہ جب علماء سے یہ سوال کیا جائے کہ چودھویں صدی کا مجدد ہونے کے لئے بجز اس احقر کے اور کس نے دعویٰ کیا ہے اور کس نے منجانب اللہ آنے کی خبر دی ہے اورملہم ہونے اور مامور ہونے کا دعویٰ ملہم من اللہ اور مجدد من اللہ کے دعویٰ سے کچھ بڑا نہیں ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ جس کو یہ رتبہ حاصل ہو کہ وہ خدا تعالیٰ کا ہمکلا م ہو ۔ اس کا نام منجانب اللہ خوا ہ مثیل مسیح خوا ہ مثیل موسی ہو یہ تمام نام اس کے حق میں جائز ہیں ۔ مثیل ہونے میں کوئی اصلی فضیلت نہیں۔ اصلی اور حقیقی فضیلت ملہم من اللہ اور کلیم اللہ ہونے میںہے۔ پھر جس شخص مکالمہ الہٰیہ کی فضیلت حاصل ہوگی اور کسی خدمت دین کے لئے مامور من اللہ ہوگیا۔ تواللہ جلشانہ‘ وقت کے مناسب حال اس کا کوئی نام رکھ سکتا ہے۔ یہ نام رکھنا تو کوئی بڑی بات نہیں ۔ اسلام میں موسیٰ عیسیٰ ۔داؤد۔ سلیمان۔ یعقوب وغیرہ بہت سے نام نبیوں کے نام پر لوگ رکھ لیتے ہیں۔ اس تفادل کی نیت سے کہ ان کے اخلاق انہیں حاصل ہوجائیں۔ پھر اگر خدا تعالیٰ کسی کو اپنے مکالمہ کا شرف دے کر کسی موجودہ مصلحت کے موافق اس کا کوئی نام بھی رکھ دے۔ تو کیااس میں استبعادہے؟
اور اس زمانہ کے مجدد کا نام مسیح موعود رکھنا اس مصلحت پر مبنی معلوم ہوتا ہے کہ اس مجدد کا عظیم الشان کام عیسائیت کا غلبہ توڑنا اور ان کے حملوں کو دفع کرنا اور ان کے فلسفہ کو جو مخالف قرآن ہے۔ دلائل قویہ کے ساتھ توڑنا اور ان پر اسلام کی حجت پوری کرنا ہے کیونکہ سب سے بڑی آفت اس زمانہ میں اسلام کے لئے جو بغیر تائید الہٰی دور نہیں ہوسکتی۔ عیسائیوں کے فلسفیانہ حملے اور مذہبی نکتہ چینیاں ہیں۔ جن کے دورکرنے کے لئے ضرور تھا کہ خداتعالیٰ کی طرف سے کوئی آوے اور جیسا کہ میرے پر کشفاً کھولا گیا ہے۔ حضرت مسیح کی روح ان افتراؤں کی وجہ سے جو ان پر اس زمانہ میں کئے گئے۔ اپنے مثالی نزول کے لئے شدت جوش میں تھی اور خداتعالیٰ سے درخواست کرتی تھی کہ اس وقت مثالی طور پر اس کا نزول ہو سو خدا تعالیٰ نے اس کے جوش کے موافق اس کی مثال کو دنیا میں بھیجا تا وہ وعدہ پورا ہو جو پہلے سے کیا گیا تھا۔
یہ ایک سراسرارا الہٰیہ میں سے ہے کہ جب کسی رسول یا نبی کی شریعت اس کے فوت ہونے کے بعد بگڑ جاتی ہے اور اور اس اصل تعلیموں اور ہدایتوں کے بدلا کر بہیودہ اور بیجا باتیں اس کی طرف منسوب کی جاتی ہیں اور ناحق کا جھوٹ افتراکرکے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ تمام کفر اور بدکاری کی باتیں اس نبی نے ہی سکھلائی تھیں تواس نبی کے دل میں ان فساد اور تہمتوں کے دور کرنے کے لئے ایک اشد توجہ اور اعلیٰ درجہ کا جوش پیدا ہو جاتا ہے تب اس نبی کی روحانیت تقاضا کرتی ہے کہ کوئی قائم مقام اس کا زمین پر پید اہو۔
اب غور سے اس معرفت کے دقیقہ کو سنو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دومرتبہ یہ موقعہ پیش آیا کہ ان کی روحانیت نے قائم مقام طلب کیا اوّل جبکہ ان کے فوت ہونے پر چھ سو برس گزر گیا اور یہودیوں نے اس بات پر حد سے زیادہ اصرار کیا کہ وہ نعوذ بااللہ مکار اور کاذب تھا اور اس کا ناجائز طور پر غلو کیا کہ وہ خدا تھا اور اسی لئے وہ مصلوب ہوا اور عیسائیوں نے اس بات پر غلو کیا کہ وہ خدا تھا اور خدا کا بیٹا تھا اور دنیا کو نجات دینے کے لئے اس نے صلیب پر جان دی پس جبکہ مسیح موعود علیہ السلام کی بابرکت شان میں نابکار یہودیوں نے نہایت خلاف تہذیب جرح کی اور اوبموجب توریت کے اس آیت کے جو کتاب استفاء میں ہے کہ جو شخص صلیب پر کھینچا جائے وہ * ہوتا ہے نعوذ بااللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو * قرار دیا اور مفتری اور کاذب اور باپاک پیدائش والا ٹھہرایا اور عیسائیوں نے ان کی مدح میں اطراء کر کے ان کوخدا ہی بنا دیا اور ان پر یہ تہمت لگائی کہ یہ تعلیم انہی کی ہے تب یہ اعلام الٰہی مسیح کی روحانیت جوش میں آئی اور اس نے ان تمام الزاموں سے اپنی بریت چاہی اور خداتعالیٰ سے اپنا مقام چاہا تب ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے جن کی بعثت کی اغراض کثیرہ میں سے ایک یہ بھی غرض تھی کہ ان تمام بیجا الزاموں سے مسیح موعود کا دامن پاک صاف کریں اور اس کے حق میں صداقت کی گواہی دیں کہ یہی وجہ ہے کہ خود مسیح موعود نے یوحنا کی انجیل کے ۱۶ باب میں کہا ہے کہ میں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ تمہارے لئے میرا جانا ہی مفید مند ہے کیونکہ اگر میں نہ جائوں تو تسلی دینے والا (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) تم پاس نہیں آئے گا پھر اگر ملیں جائوں تو اسے تم پاس بھیج دو ں گا اور وہ آکر دنیا کو گناہ سے اور راستی سے اور عدالت سے نقصیر وار ٹھہرائے گا گناہ سے اس لئے کہ وہ مجھ پر ایمان نہیں لائے راستی سے اس لئے کہ میں اپنے باپ پاس جاتا ہوں اور تم مجھے پھر نہ دیکھو گے عدالت سے اس لئے کہ اس جہان کے سردار پر حکم کیا گیا ہے جب وہ روح حق آئے گی تو تمہیں ساری سچائی کی راہ بتا دے گی اورروح حق میری بزرگی کرے گی اس لئے وہ میری چیزوں سے پائے گی (۱۴) وہ تسلی دینے والا جسے باپ میرے نام سے بھیجے گا وہی تمہیں سب چیزیں سکھائے گا۔ لوکا ۱۴؍ میں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ مجھ کو نہ دیکھو گے۔ اس وقت تک کہ تم کہو گے مبارک ہے وہ جو خدا وند کے نام پر یعنی مسیح موعود علیہ السلام کے نام پر آتا ہے۔
ان آیات میں مسیح کا یہ فقرہ کہ میں اسے تم پاس بھیج دوں گا۔ اس بات پر صاف دلالت کرتا ہے کہ مسیح کی روحانیت اس کے آنے کے لئے تقاضا کرے گی اور یہ فقرہ کہ باپ اس کو میرے نام سے بھیجے گااس بات پر دلالت کرتا ہے کہ آنے والا مسیح موعود کی تمام روحانیت پائے گا اور اپنے کمالات کی ایک شاخ کے رو سے وہ مسیح ہو گا۔ جیسا کہ ایک شاخ کی رو سے وہ موسیٰ ہے۔ بات یہ ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء کے نام اپنے اندر جمع رکھتے ہیں۔ کیونکہ وہ وجود پاک جامع کمالات متفرقہ ہے۔ پس وہ موسیٰ بھی ہے اور عیسیٰ بھی اورآدم بھی اورابراہیم بھی اور یوسف بھی اور یعقوب بھی اسی کی طرف اللہ جل شانہ اشارہ فرماتا ہے۔ فبہدی ھم اقتدہ یعنی اے رسول اللہ تو ان تمام ہدایات متفرقہ کو اپنے وجود میں جمع کرلے۔ جو ہر ایک نبی خاص طور پر اپنے ساتھ رکھتا تھا۔ پس اس سے ثابت ہے کہ تمام انبیاء کی شاخیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں شامل تھیںاور درحقیقت محمد کانام صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرف اشارہ کرتا ہے کیونکہ محمد کے یہ معنی ہیںکہ بغایت تعریف کیا گیا اور غایت درجہ کی تعریف تب ہی متصور ہو سکتی ہے کہ جب انبیاء کے تمام کمالات متفرقہ اورصفات خاصہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں جمع ہوں۔ چنانچہ قرآن کریم کی بہت سی آیتیں جن اس وقت لکھنا موجب طوالت ہے اسی پر دلالت کرتی بلکہ بصراحت بتلاتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پاک باعتبار اپنی صفات اور کمالات کے مجموعہ انبیاء تھی اور ہر ایک نبی نے اپنے وجود کے ساتھ مناسب پاکر یہی خیال کیا کہ میرے نام پر آنے والاہے اور قرآن کریم ایک جگہ فرماتا ہے کہ سب سے زیادہ ابراہیم سے مناسبت رکھنے والا یہ نبی ہے اور بخاری میں ایک حدیث ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مسیح سے یہ شدت مناسبت ہے اور اس کے وجود سے میرا وجود ملا ہو اہے پس اس حدیث میں حضرت مسیح موعود کے اس فقرہ کی تصدیق ہے کہ وہ نبی میرے نام پر آئے گا سو ایسا ہی ہو اکہ ہمارا مسیح صلی اللہ علیہ وسلم جب آیا تو اس نے مسیح ناصری کے ناتمام کاموں کو پورا کیا اور اس کی صداقت کے لئے گواہی دی اور ان تہمتوں سے اس کو بری قرار دیا یہود اورنصاریٰ نے اس پر لگائی تھیں او رمسیح کی روح کو خوشی پہنچائی۔ یہ مسیح ناصری کی روحانیت کا پہلا جوش تھا جو ہمارے سید ہمارے مسیح خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور سے اپنی مراد کو پہنچا۔ فالحمداللہ۔
پھر دوسری مرتبہ مسیح کی روحانیت اس وقت جوش میں آئی کہ جب نصاریٰ میں دجالیت کی صفت اتم اور اکمل طور پر آگئی جیسا کہ لکھا ہے کہ دجال نبوت کا دعویٰ بھی کرے گا اور خدائی کا بھی ایسا ہی انہوں نے کیا نبوت کا دعویٰ اس طرح پر کیا کہ کلام الٰہی میں اپنی طرف سے وہ دخل دئیے تو وہ قواعد مرتب کئے اور وہ تنسیخ و ترمیم کی جو ایک نبی کا کلام تھا۔ جس حکم کو چاہا قائم کر دیا اور اپنی طرف سے عقائد نامے اورعبادت کے طریقے گھڑ لئے اور ایسی آزادی سے مداخلت بیجا کی کہ گویا ان باتوں کے لئے وحی الٰہی ان پر نازل ہو گئی سو الٰہی کتابوں میں اس قدر بیجا دخل دوسرے رنگ میں نبوت کادعویٰ ہے اور خدائی کا دعویٰ اس طرح پر کہ ان کے فلسفہ والوں نے یہ ارادہ کیا کہ کسی طرح تمام کام خدائی کے ہمارے قبضہ میں آجائیں۔ جیساکہ ان کے خیالات اس ارادہ پر شائد ہیں کہ وہ دن رات ان فکروں میں پڑے ہوئے ہیں کہ کسی طرح ہم بھی مینہ برسائیں اور نطفہ کو کسی آلہ میں ڈال کر اوررحم عورت میں پہنچا کر بچے بھی پید اکر لیں اور ان کاعقیدہ ہے کہ خداکی تقدیر کچھ چیز نہیں ناکامی ہماری بوجہ غلطی تدبیر تقدیر ہو جاتی ہے اور جوکچھ دنیا میں خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے وہ صرف اس وجہ سے ہے کہ پہلے زمانہ کے لوگوں کو ہر ایک چیز کی طبع اسباب معلوم نہیں تھے اور اپنے تھک جانے کی انتہاء کا نام خدا اور خدا کی تقدیر رکھا تھا اب عللہ طبیعت کا سلسلہ جب بکلی لوگوں کو معلوم ہو جائے گا تو یہ خام خیالات خود بخود ور ہو جائیں گے۔ پس دیکھنا چاہئے کہ یورپ اور امریکہ کے فلاسفروں کے یہ اقوال خدائی کا دعویٰ ہے یا کچھ اور ہے اسی وجہ سے ان فکروں میں پڑے ہوئے ہیں کہ کسی طرح مرد بھی زندہ ہوجائیں اور امریکہ میں ایک گھر وہ عیسائی فلاسفروں کا انہیں باتوں کا تجربہ کر رہا ہے اور مینہ برسانے کا کارخانہ تو شروع ہو گیا اور ان کا منشاء ہے کہ بجائے اس کے کہ لوگ مینہ کے لئے خداتعالیٰ سے دعا کریں یا استقاء کی نمازیں پڑھیں گورنمنٹ میں ایک عرضی دے دیں کہ فلاں کھیت میں مینہ برسا یا جائے اور یورپ میں یہ کوشش ہو رہی ہے کہ نطفہ رحم میں ٹھہرانے کے لئے کوئی مشکل پید ا نہ ہو اور نیز یہ بھی کہ جب چاہیں لڑکا پید ا کرلیں اور جب چاہیں لڑکی اور ایک مرد کا نطفہ لے کر اور کسی پچکاری میں رکھ کر کسی عورت کے رحم میں چڑہا دیں اور اس تدبیر سے اس کو حمل کر دیں۔ اب دیکھنا چاہئے کہ یہ خدائی پر قبضہ کرنے کی فکر ہے یا کچھ اور ہے اور یہ جو حدیثوں میں آیا ہے کہ دجال اوّل نبوت کا دعویٰ کرے گا پھر خدائی کا اگر اس کے یہ معنی لئے جائیں کہ چند روز نبوت کا دعویٰ کر کے پھر خدا بننے کا دعویٰ کرے گا تو یہ معنی صریح باطل ہیں کیونہ جو شخص نبوت کا دعویٰ کرے گا اس دعویٰ میں ضرور ہے کہ وہ خداتعالیٰ کی ہستی کا اقرار کرے اور نیز خلق اللہ کو وہ کلام سنا وے جو اس پر خداتعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے اور ایک اُمت بنادے جو اس کو ہی سمجھتی اور اس کی کتاب کو کتاب اللہ جانتی ہے اب سمجھنا چاہئے کہ ایسا دعویٰ کرنے والا اسی اُمت کے روبرو خدائی کا دعویٰ کیونکر کر سکتا ہے کیونکہ وہ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ بڑا مفتری ہے پہلے تو خداتعالیٰ کا اقرار کرتا تھا اور خداتعالیٰ کا کلام سناتا تھا اور اب اس سے انکار ہے اور اب آپ خدابنتا ہے پھر جب اوّل دفعہ تیرے ہی اقرار سے تیرا جھوٹ ثابت ہو گیا تو دوسرا دعویٰ کیونکر سچا سمجھا جائے جس نے پہلے خدا تعالیٰ کی ہستی کا اقرار کر لیا اور اپنے تئیں بندہ قرار دے دیا اور بہت سا الہام اپنا لوگوں میں شائع کر دیا کہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے وہ کیو نکر ان تمام اقرارات سے انحراف کر کے خدا ٹھہر سکتا ہے اور ایسے کذاب کو کون قبول کر سکتا ہے۔ سو یہ معنی جو ہمارے علماء لیتے ہیں بالکل فاسد ہیں صحیح معنی ہیں کہ نبوت کے دعویٰ سے مراد خل در امور نبوت اورخدائی کے دعویٰ دخل در امور خدائی ہے جیسا کہ آجکل عیسائیوں سے یہ حرکات ظہور میں آرہی ہیں ایک فرقہ ان میں سے انجیل کو ایساتوڑ مروڑ رہا ہے کہ گویا وہ نبی ہے اور پر آیتیں نازل ہو رہی ہیں اور ایک فرقہ خدائی کے کاموں میں اس قدر دخل دے رہا ہے کہ گویاخدائی کو اپنے قبضے میں کرنا چاہتا ہے۔
غرض یہ دجالیت عیسائیوں کی اس زمانہ میں کمال درجہ تک پہنچ گئی ہے اور اس کے قائم کرنے کے لئے پانی کی طرح انہوں نے اپنے مالوں کو بہادیا ہے اور کروڑ ہا مخلوقات پر بد اثر ڈالا ہے۔ تقریر سے تحریر سے مال سے عورتوں گانے سے بجانے سے تماشے دکھلانے سے ڈاکٹر کھلائے سے غرض ہر ایک پہلو سے ہر ایک طریق سے ہر ایک پیرایہ سے ہر ایک ملک پر انہوں نے اثر ڈالا ہے چنانچہ چھ کروڑ تک ایسی کتاب تالیف ہو چکی ہے جس میں یہ غرض ہے کہ دنیا میں یہ ناپاک طریق عیسیٰ پرستی کا پھیل جائے پس اس زمانہ میں دوسری مرتبہ حضرت مسیح کی روحانیت کو جوش آیا اور انہوں نے دوبارہ مثالی طور پر دنیا میں اپنا نزول چاہا اور جب ان میں مثالی نزول کے لئے اشد درجہ کی توجہ اور خواہش پید اہوئی تو خداتعالیٰ نے اس خواہش کے موافق دجال موجودہ کے نابود کرنے کے لئے ایسا شخص بھیج دیا جو ان کی روحانیت کا نمونہ تھا۔ وہ نمونہ مسیح علیہ السلام کاروپ بن کر مسیح موعود کہلایا۔ کیونکہ حقیقت عیسویہ کا اس میں حلول تھا۔ یعنی حقیقت عیسویہ اس سے متحد ہو گئے تھے اور مسیح کی روحانیت کے تقاضا سے وہ پید اہوا تھا۔ پس حقیقت عیسویہ اس میں ایسی منعکس ہو گئی جیسا کہ آئینہ میں اشکال اور چونکہ وہ نمونہ حضرت مسیح کی روحانیت کے تقاضا سے ظہور پذیر ہوا تھا۔اس لئے وہ عیسیٰ کے نام سے موسوم کیا گیا۔ کیوکہ حضرت عیسیٰ کی روحانیت نے قادر مطلق غزاسمہ سے بوجہ اپنے جوش کے اپنی ایک شبیہہ چاہی اور چاہا کہ حقیقت عیسویہ اس شبیہہ میں رکھی جائے۔ تا اس شبیہہ کا نزول ہو۔ پس ایسا ہی ہو گیا۔ اس تقریر میں اس وہم کا بھی جواب ہے کہ نزول کے لئے مسیح کو کیوں مخصوص کیا گیا۔ یہ کیوں نہ کہا گیا کہ موسیٰ نازل ہو گا یا ابراہیم نازل ہو گا یا دائود نازل ہو گا۔ کیونکہ اس جگہ صاف طور پر کھل گیا کہ موجودہ فتنوں کے لحاظ سے مسیح کا نازل ہونا ہی ضروری تھا۔ کیونکہ مسیح کی ہی قوم بگڑی تھی اور مسیح کی قوم میں ہی دجالیت پھیلی تھی۔ اس لئے مسیح کی روحانیت کو ہی جوش آنا لائق تھا۔ یہ وہ دقیق معرفت ہے کہ جو کشف کے ذریعہ سے اس عاجز پرکھلی ہے اور یہ بھی کھلا کہ یوں مقدر ہے کہ ایک زمانے کے گزرنے کے بعد کہ خیر اوراصلاح اور غلبہ توحید کا زمانہ ہو گا پھر دنیا میں فساد اور شرک اور ظلم عود کرے گا اور بعض کو کیڑوں کی طرح کھائیں گے اور جاہلیت غلبہ کرے گی اور دوبارہ مسیح کی پرستش ہو جائے گی اور مخلوق کو خدابنانے کی جہالت بڑی زور سے پھیلے گی اوریہ سب فساد عیسائی مذہب سے اس آخری زمانہ کے آخری حصہ میں دنیا میں پھیلیں گے تب پھر مسیح کی روحانیت سخت جوش میں آکر جلالی طور پر اپنا نزول چاہے گی تب کہ قہری شبیہہ میں اس کا نزول ہو کر اس زمانہ کا خاتمہ ہو جائے گا تب آخر ہو گا اور دنیا کی صف لپیٹ دی جائے گی اس سے معلوم ہوا ہے کہ مسیح کی امت کی نالائق کرتوتوں کی وجہ سے مسیح کی روحانیت کے لئے یہی مقدر تھا کہ تین مرتبہ دنیا میں نازل ہو۔
اس جگہ یہ نکتہ بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت بھی اسلام کے اندورنی مفاسد کے غلبہ کے وقت ہمیشہ ظہور فرماتی رہتی ہے اورحقیقت محمدیہ کا حلول ہمیشہ کسی کامل متبع میں ہوکر جلوہ گر ہوتا ہے اور جو احادیث میں آیا ہے مہدی پید اہو گا او راس کا نام میرا ہی نام ہو گا اور اس کا خلق ہوگا۔ اگر یہ حدیثیں صحیح ہیں تو یہ معنی اسی نزول روحانیت کی طرف اشارہ ہے لیکن وہ نزول کسی خاص فرد میں محدود نہیں صدہا ایسے لوگ گزرے ہیں کہ جن میں حقیقت محمدیہ متحتق تھی اور عنداللہ ظلی طور پر ان کا نام محمد یا احمد تھا لیکن چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت مرحومہ ان فسادوں سے بفضلہ تعالیٰ محفوظ رہی ہے جو حضرت عیسیٰ کی امت کو پیش آئے اور آج تک ہزار ہا صلحا اور اتفیاس امت میں موجود ہیں کہ قحبہ دنیا کی طرف پشت دے کر بیٹھے ہوئے ہیں پنج وقت توحید کی اذان مسجد میں ایسی گونج پڑتی ہے کہ آسمان تک محمدی توحید کی شعاعیں پہنچتی ہیں پھر کون موقع تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت کو ایسا جوش آتا جیسا کہ حضرت مسیح کی روح عیسائیوں کے دل آزاد عظوں اور نفرتی کاموں اور مشترکہ تعلیموں اور نبوت میں بیجا دخلوں اور خداتعالیٰ کی ہمسری کرنے نے پید اکردیا اس زمانہ میں یہ جوش حضرت موسیٰ کی روح میں بھی اپنی امت کے لئے نہیں آسکتا تھا کیونکہ وہ تونابود ہو گئی اور اب صفحہ دنیا میں ذریت ان کی بجز چند لاکھ کے باقی نہیں اور وہ بھی ضربت علیھم الذلۃ والمسکنۃ کے مصداق اور اپنی دنیا داری کے خیالات میں غرق اور نظروں سے گرے ہوئے ہیں لیکن عیسائی قوم اس زمانہ میںچالیس کروڑ سے کچھ زیادہ ہے اور بڑے زور سے اپنے دجالی خیالات کو پھیلا رہی ہے اور صدہا پیرایوں میں اپنے شیطانی منصوبوں کو دلوں میں جاگزین کر رہی ہے بعض واعظوں کے رنگ میں پھرتے ہیں بعض گوئیے بن کر گیت گاتے ہیں بعض شاعر بن کر تثلیت کے متعلق غزلیں سناتے ہیں بعض جوگی بن کر اپنے خیالات کو شائع کرتے پھرتے ہیں بعض نے یہی خدمت لی ہے کہ دنیا کی تمام زبانوں میں اپنی محرف انجیل کا ترجمہ کر کے اور ایسا ہی دوسری کتابیں اسلا م کے مقابل پر ہر ایک زبان میں لکھ کر تقسیم کرتے پھرتے ہیں بعض تھٹیر کے پیرایہ میں اسلام کی بری تصویر لوگوں کے دلوں میں جماتے ہیں اور ان کاموں میں کروڑ ہا روپیہ ان کا خرچ ہوتا ہے اور بعض ایک فوج بناکر اور مکتی فوج اس کانام رکھ کر ملک بہ ملک پھرتے ہیں اور ایسا ہی اور کاروایئوں نے بھی جو ان کے مرد بھی کرتے ہیں اور ان کی عورتیں بھی کروڑ ہا بند گان خداکو نقصان پہنچایا ہے اور بات انتہا تک پہنچ گئی ہے۔ اس لئے ضرور تھا کہ اس زمانہ میں حضرت مسح کی روحانیت جوش میں آتی اور اپنی شبیہہ کے نزول کے لئے جو اس حقیقت سے متحد ہو تقاضا کرتی۔ سو اس عاجز کے صدق کی شناخت کے لئے ایک بڑی علامت ہے مگر ان کے لئے جو سمجھتے ہیں اسلام کے صوفی جو قبروں سے فیض طلب کرنے کے عادی ہیں اور اس بات کے بھی قائل ہیں کہ ایک فوت شدہ نبی یا ولی کی روحانیت کبھی ایک زندہ مرد خدا سے متحد ہو جاتی ہے۔ جس کو کہتے ہیں فلاں ولی موسیٰ کے قدم پر ہے اور فلاں ابراہیم کے قدم پر یا محمدی المشرب اور ابراہیمی المشرب نام رکھتے ہیں۔ وہ ضرور اس دقیقہ معرفت کی طرف توجہ کریں۔
(۳)تیسری علامت اس عاجز کے صدق کی یہ ہے کہ بعض اہل اللہ نے اس عاجز سے بہت سے سال پہلے اس عاجز کے آنے کی خبر دی ہے۔ یہاں تک کہ نام اور سکونت اور عمر کا حال تبصریح بتلایا ہے۔ جیسا کہ ’’نشان آسمانی‘‘ میں لکھ چکا ہوں۔
(۴) چوتھی علامت اس عاجز کے صدق کی یہ ہے کہ اس عاجز نے بارہاہزار کے قریب خط اور اشتہار الہامی برکات کے مقابلہ کے لئے مذاہب غیر کی طرف روانہ کئے۔ بالخصوص پادریوں میں سے شاید ایک بھی نامی پادری یورپ اور امریکہ اور ہندوستان میں باقی نہیں رہے گا۔ جس کی طرف خط رجسڑی کرکے نہ بھیجا ہو۔ مگر سب پر حق کا رعب چھا گیا۔اب جو ہماری قوم کے مُلا مولوی لوگ اس دعوت میں نکتہ چینی کرتے ہیں۔ درحقیقت یہ ان کی دو وغگوئی اور نجاست خواری ہے مجھے یہ قطعی طور بشارت دی گئی ہے کہ اگر کوئی مخالف دین میرے سامنے مقابلہ کے لئے آئے گا تو اس میں اس پر غالب ہوں گا اور وہ ذلیل ہوگا۔ پھر یہ لوگ جو مسلمان کہلاتے ہیں او ر میری نسبت شک رکھتے ہیں کیوں اس زمانہ کے پادری سے میرا مقابلہ نہیں کراتے۔ کسی پادری یا پنڈت کو کہہ دیں کہ یہ شخص درحقیقت مفتری ہے۔ اس کے ساتھ مقابلہ کرنے میں کچھ نقصان نہیں ہم ذمہ دار ہیں۔ پھر خداتعالیٰ خود فیصلہ کردے گا۔ میں اس بات پر راضی ہوں کہ جس دنیا کی جائیداد یعنی اراضی وغیرہ بطور رواثت میرے قبضہ میں آئی ہے۔ بحالت در وغگو نکلنے کے وہ سبب اس پادری یا پنڈت کو دے دوں گا۔ا گر وہ دروغگو نکلا تو بجز اس کے اسلام لانے کے میں اس سے کچھ نہیں مانگتا۔ یہ بات میں نے اپنے جی میں جزماً ٹھہرائی ہے اورتہ دل سے بیان کی ہے اور اللہ جلشانہ کی قسم کھا کر کہتاہوں کہ میں اس مقابلہ کے لئے تیار ہوں اوراشتہار دینے کے لئے مستعد بلکہ میں نے بارہ اشتہار شائع کر دیا ہے۔ بلکہ میں بلاتا بلاتا تھک گیا کوئی پنڈت پادری نیک نیتی سے سامنے نہیں آتا۔ میری سچائی کے لئے اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ میں اس مقابلہ کے لئے ہر وقت حاضر ہوںاور اگر کوئی مقابلہ پر کچھ نشان دکھلانے کا دعویٰ نہ کرے تو ایسا پنڈت یا ایسا پادری صرف اخبار کے ذریعہ سے یہ شائع کر دے کہ میں صرفر ایک طرفہ کوئی امر غارق عادت دیکھنے کو تیار ہوں اور اگر امر خارق عادت ظاہر ہو جائے اور میں اس کا مقابلہ نہ کر سکوں تو فی الفور اسلام قبول کر لوںگا تو یہ تجویز بھی مجھے منظور ہے کہ کوئی مسلمان میں سے ہمت کرے اور جس شخص کو کافر بیدین کہتے ہیں اور دجال نام رکھتے ہیں بمقابل کسی پادری کے اس امتحان کر لیں اور آپ صرف تماشا دیکھیں۔
(۵)پانچویں علامت اس جز کے صدق کی یہ ہے کہ مجھے اطلاع دی گئی کہ میں ان مسلمانوں پر بھی اپنے کشفی او ر الہامی علوم میں غالب ہوں ان کے ملہوں کو چاہئے کہ میرے مقابل پر آویں پھر اگر تائید الٰہی میں اور فیض سماوی ہیں او رآسمانی نشانوں میں مجھ پر غالب ہو جائیں تو جس کا رو سے چاہیں مجھ کو ذبح کر دیں مجھے منظور ہے اور اگر مقابلہ کی طاقت نہ ہوتو کفر کے فتوی دینے والے جو الہاماً میرے مخاطب ہیں یعنی جن کو مخاطب ہونے کے لئے الہام الٰہی مجھ کو ہو گیاہے پہلے لکھ دیں او رشائع کرا دیں کہ اگر کوئی خارق عادت امر دیکھیں تو بلا چون و چرا دعوی کو منظور کر لیں۔ میں ا س کام کے لئے بھی حاضرہوں اورمیرا خدا وند کریم میرے ساتھ ہے لیکن مجھے یہ حکم ہے کہ میں ایسا مقابلہ صرف المۃ الکفر سے کروں انہی سے مباہلہ کروں اور انہی سے اگر وہ چاہیں یہ مقابلہ کروں مگر یاد رکھنا چاہئے کہ وہ ہر گز مقابلہ نہیں کریں گے کیونکہ حقانیت کے ان کے دلوں پر دعب ہیں اور وہ اپنے اور زیادتی کو خوب جانتے ہیں وہ ہر گز مباہلہ نہیں کریں گے مگر میری طرف عنقریب کتاب وافع الوساوس میں ان کے نام اشتہار جاری ہو جائیں گے۔
رہے احادالناس کہ جو امام اور فضلاء علم کے نہیں ہیں اور نہ ان کافتویٰ ہے ان کے لئے مجھے حکم ہے کہ اگر وہ خوارق دیکھنا چاہتے ہیں تو صحبت میں رہیں۔ خداتعالیٰ غنی بے نیاز ہے جب تک کسی میں تذلل اور انکسار نہیں دیکھتا اس کی طرف توجہ نہیں فرماتا۔ لیکن وہ اس عاجز کو ضائع نہیں کرے گا اور اپنی حجت دنیاپر پوری کردے گا اورکچھ زیادہ دیر نہ ہو گی کہ وہ اپنے نشان دکھلادے گا۔ لیکن مبارک وہ جو نشانوں سے پہلے قبول کر گئے۔ وہ خداتعالیٰ کے پیارے بندے ہیں او روہ صادق ہیں جن میں دغا نہیں۔ نشانوں کے مانگنے والے حسرت سے اپنے ہاتھوں کو کاٹیں گے کہ ہم کو رضائے الٰہی اور اس کی خوشنودی حاصل نہ ہوئی جوا ن بزرگ لوگوں کو ہوئی جنہوں نے قرائن سے قبول کیا اور کوئی نشان نہیں مانگا۔
سو یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ خداتعالیٰ اپنے اس سلسلہ کو بے ثبوت نہیں چھوڑے گا۔ وہ خود فرماتا ہے جو براہین احمدیہ میں درج ہے کہ :۔
دنیا میں ایک نذیر آیا۔ ہر دنیا نے ا س کو قبول نہ کیا۔ لیکن خدااسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کرے گا۔ جن لوگوں نے انکار کیا اور جو انکار کے لئے مستعد ہیں۔ ان کے لئے ذلت اور خواری مقدر ہے۔ انہوںنے یہ بھی سوچا کہ اگر یہ انسان کا افرا ہوتا تو کب کا ضائع ہوجاتا۔ کیونکہ خداتعالیٰ مفتری کا ایسا دشمن ہے کہ دنیا میں ایسا کسی کا دشمن نہیں۔ وہ بے وقوف یہ بھی خیال نہیں کرتے کہ کیا یہ استقامت اور جرات کسی کذاب میں ہو سکتی ہے۔ وہ نادان یہ بھی نہیں جانتے کہ جو شخص ایک غیبی پناہ سے بول رہا ہے وہ اس بات سے مخصوص ہے کہ اس کے کلام میں شوکت اور بیعت ہو اور یہ اسی کا جگر اور دل ہوتا ہے کہ ایک فرد تمام جہاں کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو جائے۔ یقینا منتظر رہو کہ وہ دن آتے ہیں بلکہ نزدیک ہیں کہ دشمن رو سیاہ ہو گا اور دوست نہایت ہی بشاش ہوں گے کون ہے دوست؟ وہی جس نے نشان دیکھنے سے پہلے مجھے قبول کیا اور جس نے اپنی جان اور مال اور عزت کو ایسا فدا کردیا ہے کہ گویا اس نے ہزاروں نشان دیکھ لئے ہیں۔ سو یہی میری جماعت ہے اور میرے ہیں جنہوں نے مجھے اکیلا پایا اور میری مدد کی اور مجھے غمگین دیکھا اورمیرے غمخوار ہوئے اور ناشنا سا ہو کر آشنائوں کا ادب بجا لائے۔ خداتعالیٰ کی ان پر رحمت ہو۔اگر نشانوں کے دیکھنے کے بعد کوئی کھلی صداقت کو مان لے گا تو مجھے کیا اور اس کو اجر کیا اور حضرت عزت میں اس کی عزت کیا۔ مجھے درحقیقت انہوں نے ہی قبول کیا ہے۔ جنہوں نے دقیق نظر سے مجھ کو دیکھا اور فراست سے میری باتوں ک وزن کیا اور میرے حالات کو جانچا اور میرے کلام کو سنا اور اس میں غور کی تب اسی قدر قرائن سے حق تعالیٰ نے ان کے سینوں کو کھول دیا اور میرے ساتھ ہوگئے۔ میرے ساتھ وہی ہے۔ جو میری مرضی کے لئے اپنی مرضی کو چھوڑتا ہے اوراپنے نفس کے ترک اور اخذ کے لئے مجھے حکم بتاتا ہے اور میری راہ پر چلتا ہے اوراطاعت میں فانی ہے اور امانیت کی جلد سے باہر آگیا ہے۔ مجھے آہ کھینچ کر یہ کہنا پڑتاہے کہ کھلے نشانوں کے طالب وہ تحسین کے لائق خطاب اورعزت کے لائق مرتبے خداوند کی جناب میں نہیں پا سکتے۔ جو ان راستبازوں کو ملیں گے۔ جنہوں نے چھپے ہوئے بھید کو پہنچان لیا اورجو اللہ جلشانہ کی چادر کے تحت میں ایک چھپا ہو ا بندہ تھا ۔ اس کی خوشبو ان کو آگئی۔ انسان کا اس میں کیا کمال ہے کہ مثلاً ایک شہزادہ کو اپنی فوج اور جاہ جلال میں دیکھ کر پھر اس کو سلام کر ے باکمال وہ آدمی ہے جو گدائوں کے پیرایہ میں اس کوپاوے اور شناخت کر لے۔ مگر میرے اختیار میں نہیں کہ یہ زیرکی کسی کو دوں ایک ہی ہے جو دیتا ہے۔ وہ جس کو عزیز رکھتا ہو ایمانی فراست اس کو عطا کرتا ہے۔ انہیں باتوں سے ہدایت پانے والے ہدایت پاتے ہیں اور یہی باتیں ان کے لئے جن کے دلوں میں کجی ہے۔ زیادہ تر کجی کا موجب ہو جاتی ہیں۔ اب میں جانتا ہوں کہ نشانوں کے بارہ میں بہت کچھ لکھ چکا ہوں اور خداتعالیٰ جانتا ہے کہ یہ بات صحیح اور راست ہے کہ اب تک تین ہزار کے قریب یا کچھ زیادہ وہ امور میرے لئے خداتعالیٰ سے صادر ہوئے ہیں۔ جو انسانی طاقتوں سے بالا تر ہیں اور آیندہ ان کا دروازہ بند نہیں۔ ان نشانوں کے لئے ادنیٰ ادنیٰ میعادوں کا ذکر کرنا یہ ادب سے دور ہے۔ خداتعالیٰ غنی بے نیاز ہے جب مکہ کے کافر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھتے تھے کہ نشان کب ظاہر ہوں گے تو خداتعالیٰ نے کبھی یہ جواب نہ دیا کہ فلاں تاریخ نشان ظاہر ہوں گے۔ کیونکہ یہ سوال ہی بے ادبی سے پر تھا اور گستاخی سے بھرا ہوا تھا۔ انسان اس نابکار اور بے بنیاد دنیا کے لئے سالہا سال انتظاروں میں وقت خرچ کردیتا ہے۔ ایک امتحان دینے میں کئی برسوں سے تیاری کرتا ہے۔ وہ عمارتیں شروع کرا دیتا ہے جوبرسوں میں ختم ہوں۔ وہ وپودے باغ میں لگاتا ہے۔ جن کا پھل کھانے کے لئے ایک دور زمانہ تک انتظار کرنا ضروری ہے پھر خداتعالیٰ کی راہ میں کیوں جلدی کرتا ہے۔ اس کا باعث بجز اس کے کچھ نہیں کہ دین کو ایک کھیل سمجھ رکھا ہے انسان خداتعالیٰ سے نشان طلب کرتا ہے اوراپنے دل میں مقرر نہیں کر تا کہ نشان دیکھنے کے بعد اس کی راہ میں کونسی جانفشانی کروں گا اور کس قدر دنیا کو چھوڑ دوں گا اورکہاں تک خدا تعالیٰ کے مامور بندے کے پیچھے ہوچلوں گا۔ بلکہ غافل انسان ایک تماشا کی طرح سمجھتا ہے حواریوں نے حضرت مسیح سے نشان مانگا تھا کہ ہمارے لئے مائدہ اترے تابعض شبہات ہمارے جو آپ کی نسبت ہیں دور ہو جائیں۔ پس اللہ جلشانہ قرآن کریم میں حکایتاً حضرت عیسیٰ کو فرماتا ہے کہ ان کو کہہ دے کہ میں اس نشان کو ظاہرکروں گا۔ لیکن پھر اگر کوئی شخص مجھ کو ایسا نہیں مانے گا کہ جو حق ماننے کا ہے۔ تو میں اس پر وہ عذاب نازل کروں گا جو آج تک کسی پر نہ کیا ہو گا۔ تب حواری اس بات کو سن کر نشان مانگنے سے تائب ہو گئے۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ جس قوم پر ہم نے عذاب نازل کیا ہے نشان دکھلانے کے بعد کیا ہے اور قرآن کریم میں کئی جگہ فرماتا ہے کہ نشان نازل ہونا عذاب نازل ہونے کی تہمید ہے۔ وجہ یہ کہ جو شخص نشان مانگتا ہے اس پر فرض ہو جاتا ہے کہ نشان دیکھنے کے بعد یک لخت دینا سے دست بردار ہو جائے اور فقیرانہ دلق پہن لے او رخداتعالیٰ کی حکمت اور ہیبت دیکھ کر اس کا حق اد اکرے۔ لیکن چو نکہ غافل انسان اس درجہ کی فرمابراداری کر نہیں سکتا۔ اس لئے شرطی طور پر نشان دیکھنا اس کے حق میں وبال ہو جاتا ہے۔ کیونکہ نشان کے بعد خداتعالیٰ کی حجت اس پر پوری ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر پھر کامل اطاعت کے بجالانے میں کچھ کسر رکھے تو غضب الٰہی مستولی ہوتا ہے اور اس کا نابود کر دیتاہے۔
تیسرا سوال آپ کا استخارہ کے لئے ہیں جو درحقیقت استخبارہ ہے۔ پس آپ پر واضح ہو کہ جو مشکلات آپ نے تحریر فرمائی ہیں۔ درحقیقت استخارہ میں ایسی مشکلات نہیں ہیں۔ میری مراد میری تحریر میں صرف اس قدر ہے کہ استخارہ ایسی حالت میں ہو کہ جب جذبات محبت اور جذبات عداوت کسی تحریک کی وجہ سے جوش میں نہ ہوں۔ مثلاً ایک شخص کسی شخص سے عداوت رکھتا ہے اورغصہ اور عداوت کے اشتعال میں سو گیا ہے۔ تب وہ شخص اس کا دشمن ہے۔ اس کو خواب میں کتے یاسور کی شکل میں نظر آیا ہے یا کسی اور درندہ کی شکل میں دکھائی دیا ہے۔ تو وہ خیال کرتا ہے کہ شائد درحقیقت یہ شخص عنداللہ کتا یا سو ر ہی ہے۔ لیکن یہ خیال اس کا غلط ہے۔ کیونکہ جوش عداوت میں جب دشمن خواب میں نظر آئے تو اکثر درندوں کی شکل میں یا سانپ کی شکل میں نظر آتا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ درحقیقت وہ بد آدمی ہے کہ جو ایسی شکل میں ظاہر ہوا ایک غلطی ہے بلکہ چونکہ دیکھنے والے کی طبیعت اور خیال میں وہ درندوں کی طرح تھا۔ اس لئے خواب میں درندہ ہو کر اس کو دکھائی دیا۔ سو میرا مطلب یہ ہے کہ خواب دیکھنے والا جذبات نفس سے خالی ہو اور ایک آرام یا فتہ اور سراسر روبحق دل سے محض اظہار حق کی غرض سے استخارہ کرے۔ میں یہ عہد نہیں کر سکتاکہ ہر ایک شخص کو ہر ایک حالت نیک یا بد میں ضرور خواب آجائے گی۔ لیکن آپ کی نسبت میں کہتا ہوں کہ اگر چالیس روز تک روبحق ہو کر بشرائط مندرجہ آسمانی استخارہ کریں تو میں آپ کے لئے دعاکروں گا۔ کیا خوب ہو کہ یہ استخارہ میرے روبرو ہو۔تا میری توجہ زیادہ ہو۔ آپ پر کچھ بھی مشکل نہیں۔ لوگ معمولی اور نفلی طور پر حج کرنے کو بھی جاتے ہیں۔ مگر اس جگہ نفلی حج سے ثواب زیادہ ہے اور غافل رہنے میں نقصان اور خطرہ۔ کیونکہ سلسلہ آسمانی ہے اور حکم ربانی۔
سچی خواب اپنی سچائی کے آثار آپ ظاہر کردیتی ہے اوردل پر ایک نور کااثر ڈالتی ہے اور میخ آہنی کی طرح اندر کھب جاتی ہے اوردل اس کو قبول کرلیتا ہے اور اس کی نورانیت اور ہیبت بال بال پر طاری ہوجاتی ہے۔ میں آپ سے عہد کرتا ہوں کہ اگر آپ میرے روبرو میری ہدایت اور تعلیم کے موافق اس کار میں مشغول ہوں تو آپ کے لئے بہت کوشش کروں گا۔ کیونکہ میرا خیال آپ کی نسبت بہت نیک ہے اور خداتعالیٰ سے چاہتا ہوں کہ آپ کو ضائع نہ کرے اور رشد اور سعادت میں ترقی دے۔ اب میں نے آپ کا بہت وقت لے لیا۔ ختم کرتا ہوں۔ والسلام ۔ علیٰ من اتبع الہدیٰ۔
آپ کا مکرر خط پڑھ کر ایک کچھ زیادہ تفصیل کی محتاج معلوم ہوئی اور یہ ہے کہ استخارہ کے لئے ایسی دعاکی جائے کہ ہر ایک شخص کا استخارہ شیطان کے دخل سے محفوظ ہو۔ عزیز من یہ بات خداتعالیٰ کے قانون قدرت کے برخلاف ہے کہ وہ شیاطین کو ان کے مواضع مناسبت سے معطل کر دیوے۔ اللہ جلشانہ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ وما ارسلنا من رسول ولا نبی الا اذا تمنی القی الشیطن فی امنیۃ فینسخ اللہ مایلقی الشیطان ثم یحکم اللہ ایۃواللہ علیھم الحکیمیعنی ہم نے کوئی ایسا رسول اور نبی نہیں بھیجا کہ اس کی یہ حالت نہ ہو کہ جب وہ کوئی تمنا کرے۔ یعنی اپنے نفس سے کوئی بات چاہے تو شیطان اس کی خواہش میں کچھ نہ ملاوے۔ یعنی جب کوئی رسول نہ کوئی نبی اپنے نفس کے جوش سے کسی بات کو چاہتا ہے تو شیطان اس میں بھی دخل دیتا ہے۔ تب وحی متلو جو شوکت اور ہبیت اور روشنی نام رکھتی ہے۔ اس دخل کو اٹھا دیتی ہے اور منشاء الٰہی کو مصفا کرکے دکھلا دیتی ہے۔ یہ بات اس کی طرف اشارہ ہے کہ نبی کے دل میںجو خیالات اٹھتے ہیں اور جو کچھ خواطر اس کے نفس میں پید اہوتی ہے۔ وماینطق عن الھویٰ ان ھو الاوحی یوحیٰ لیکن قرآن کی وحی دوسری وحی سے جو صرف منجانب اللہ ہوتی ہیں تمیز کلی رکھتی ہے اور نبی کے اپنے تمام اقوال وحی غیر متلّو میں داخل ہوتے ہیں۔ کیونکہ روح القدس کی برکت اور چمک ہمیشہ نبی کے شامل حال رہتی ہے اور ہر ایک بات اس کی برکت سے بھری ہوئی ہوتی ہے اور وہ برکت روح القدس سے اس کلام میں رکھی جاتی ہے۔ لہذا ہر ایک جو نبی کی توجہ نام سے اور اس کے خیال کی پوری مصروفیت سے اس کے منہ سے نکلتی ہے۔ وہ بلا شبہ وحی ہوتی ہے۔ تمام احادیث اسی درجہ کی وحی میں داخل ہیں۔ جن کو غیر متلوو حی ہوتی ہے۔ اب اللہ جلشانہ‘ آیت موصوفہ ممدوحہ میں فرماتا ہے کہ اس ادنی درجہ کی وحی جو حدیث کہلاتی ہے۔ بعض صورتوں میں شیطان کا دخل بھی ہوجاتا ہے اور وہ اس وقت کہ جب نبی کا نفس ایک بات کے لئے تمنّا کرتا ہے تو اس کا اجتہاد غلطی کرجاتا ہے اور نبی کی اجتہادی غلطی بھی درحقیقت وحی کی غلطی ہے کیونکہ نبی تو کسی حالت میں وحی سے خالی نہیں ہوتا۔ وہ اپنے نفس سے کھویا جاتا ہے اور خداتعالیٰ کے ہاتھ میں ایک اٰ لہ کی طرح ہوتا ہے۔ پس چونکہ ہر ایک بات جو اس کے منہ سے نکلتی ہے وحی کہلائے گی نہ اجتہاد کی اب خدا تعالیٰ اس کا جواب قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ کبھی نبی کی اس قسم کی وحی جس کو دوسرے لفظوں میں اجتہادی بھی کہتے ہیں مس شیطان سے مخلوط ہوجاتی ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے کہ جب بنی کوئی تمنّا کرتا ہے کہ یوں ہوجائے۔ تب ایساہی خیال اس کے دل میں گزرتا ہے۔ جس پر نبی مستقل رائے قائم کرنے کے لئے ارادہ کرلیتا ہے تب فی الفور وحی اکبر جو کلام الہیٰ اور وحی متلوّ شیطان کی دخل سے بکلی منزّہ ہوتی ہے کیونکہ وہ سخت ہیبت اور شوکت اور روشنی اپنے اندر رکھتی ہے اور قول ثقیل اور شدید النزول بھی ہے اور اس کی تیز شعائیں شیطان کو جلاتی ہے ۔ اس لئے شیطان اس کے نام سے دور بھاگتا ہے اور نزدیک نہیں آسکتااور نزدیک ملائک کی کامل محافظت اس کے ارد گرد ہوتی ہے لیکن وحی غیر متلوّ جس نبی کا اجتہاد بھی داخل ہے یہ قوت نہیں رکھتی ۔ اس لئے تمنّا کے وقت جو کھبی شاذ و نادر اجتہاد ک سلسلہ میں پیدا ہو جاتی ہے ۔ شیطان بنی یا رسول کے اجتہاد میں دخل دیتا ہے۔ پھر وحی متلوّ اس دخل کو اٹھادیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء کے بعض اجتہادات میں غلطی بھی ہوگئی ہے ۔ جو بعد میں رفع کی گئی۔
اب خلاصہ کلام یہ ہے کہ جس حالت میں خدا تعالیٰ کا یہ قانون قدرت ہے کہ بنی بلکہ رسول کی ایک قسم کی وحی میں بھی جو وحی غیر متلّوہے۔ شیطان کا دخل بموجب قرآن کی تصریح کے ہوسکتا ہے تو پھر کسی دوسرے شخص کو کب یہ حق پہنچتا ہے کہ اس قانون قدرت کی تبدیلی کی درخواست کرے۔ ماسواس کے صفائی اور راستی خواب کی اپنی پاک باطنی اور سچائی اور طہارت پر موقوف ہے۔ ہی قدیم قانون قدرت ہے جو اس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت ہم تک پہنچا ہے کہ سچی خوابوں کے لئے ضرور ہے کہ بیداری بیداری کی حالت میں انسان ہمیشہ سچا اور خدا تعالیٰ کے لئے راستبازہو اور کچھ شک نہیں کہ جو شخص اس قانون پر چلے گا اور اپنے دل کو راست گوئی اور راست روی اور راست منشیٰ کا پورا پابند کرلے گا۔ تواس کی خوابیں سچی ہوں گی۔ اللہ جل شانہ‘ فرماتا ہے قَد اَفلَحَ مَن زَکَّھَا یعنی جو شخص باطل خیالات اور باطل نیات اور باطل اعمال اور باطل عقائد سے اپنے نفس کو پاک کر لیوے۔ وہ شیطان کی بند سے رہائی پاجائے گا۔ آخرت میں عقو بات اخروی سے رستگار ہوگا اور شیطان اس پر غالب نہیں آسکے گا۔ ایسا ہی ایک دوسری جگہ فرماتا ہے انّ عبادی لیس لک علیھم سلطا یعنی اے شیطان میرے بندے جو ہیں جنہوں نے میری مرضی کی راہوں پر قدم مارا ہے۔ ان پر تیرا تسلط نہیں ہوسکتا۔ سوجب تک انسان تمام کجیوں اورنالائق خیالات اور بہیودہ طریقوں کو چھوڑ کر صرف آستانہ الٰہی پر گرا ہوا نہ ہوجائے۔ جب تک وہ شیطان کی کسی عادت سے مناسبت رکھتا ہے اور شیطان مناسبت کی وجہ سے اس کی طرف رجوع کرتا ہے اور اس پر دوڑتا ہے۔
اورجب کہ یہ حالت ہے تو میں الٰہی قانون قدرت کے مخالف کون سی تدبیر کرسکتا ہوں کہ کسی سے شیطان اس کے خواب میں دور رہے۔ جو شخص ان راہوں پر چلے گا جو رحمانی راہیں ہیں خود شیطان شیطان اس سے دور رہے گا۔
اب اگر یہ سوال ہو کہ جبکہ شیطان کے دخل سے بکلی امن نہیں تو ہم کیوں کر اپنی خوابوں پر بھروسہ کرلیں کہ وہ رحمانی ہیں۔ کیا ممکن نہیں کہ ایک خواب کو ہم روحانی سمجھیں اور در اصل وہ شیطانی ہو اور یا شیطانی خیال کریں اور دراصل وہ رحمانی ہو توا س وہم کا جواب یہ ہے کہ رحمانی خواب اپنی شوکت اور برکت اور عظمت اور نورانیت سے خود معلوم ہو جاتی ہے۔ جو چیز پاک چشمہ سے نکلی ہے وہ پاکیزگی اور خوشبو اپنے اندر رکھتی ہے اور چیز ناپاک اور گندے پانی سے نکلی ہے اس کا گند اور اس کی بدبو فی الفور آجاتی ہے۔ سچی خوابیں جو خداتعالیٰ کی طرف سے آتی ہیں۔ وہ ایک پاک پیغام کی طرح ہوتی ہیں۔ جن کے ساتھ پریشان خیالات کا کوئی مجموعہ نہیں ہوتا اور اپنے اندر ایک اثر ڈالنے والی قوت رکھتے ہیں اور دل ان کی طرف کھینچے جاتے ہیں اور روح گواہی دیتی ہے کہ یہ منجانب اللہ ہے کیونکہ اس کی عظمت اور شوکت ایک فولادی میخ کی طرح دل کے اندر دھس جاتی ہے اور بسااوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص سچی خواب دیکھتا ہے اور خداتعالیٰ اس کے کوئی ہمشکل دکھلاتا ہے۔ تب اس خواب کو دوسرے کی خواب سے قوت مل جاتی ہے۔ سو بہتر ہے کہ آپ کسی اپنے دوست کو رفیق خواب کر لیں جو صلاحیت اور تقویٰ رکھتا ہو اور اس کا کہہ دیں کہ جب کوئی خواب دیکھے لکھ کر دکھلا دے اور آپ بھی لکھ کر دکھلا دیں۔ تب امید ہے کہ اگر سچی خواب آئے گی تو ا س کے کئی اجزاء آپ کی خواب میں اور اس رفیق کی خواب میں مشترک ہوں گے اورایسا اشتراک ہو گا کہ آپ تعجب کریں گے افسوس کہ اگر میرے روبرو آپ ایساارادہ کرسکتے ہیں تو میں غالب امید رکھتا تھا کہ کچھ عجوبہ قدرت ظاہر ہوتا میری حالت ایک عجیب حالت ہے۔ بعض دن ایسے گزرتے ہیں کہ الہامات الٰہی بارش کی طرح برستے ہیں اور بعض پیشگوئیاں ایسی ہوتی ہیں کہ ایک منٹ کے اندر ہی پوری ہو جاتی ہیں اور بعض مدت دراز کے بعد پوری ہوتی ہیں۔ صحبت میں رہنے والا محروم نہیں رہ سکتا۔ کچھ نہ کچھ تائید الٰہی دیکھ لیتا ہے۔ جو اس کی باریک بین نظر کے لئے کافی ہوتی ہے۔ اب میں متواتر دیکھتا ہوں کہ کوئی امر ہونے والا ہے۔ میں قطعاً نہیں کہہ سکتا کہ وہ جلد یا دیر سے ہو گا۔ مگر آسمان پر کچھ تیاری ہورہی ہے۔ تاخداتعالیٰ بدظنوں کو ملزم اور رسوا کرے۔ کوئی دن یا رات کم گزرتی ہے۔ جو مجھ کو اطمینان نہیں دیا جاتا۔ یہی خط لکھتے لکھتے یہ الہام ہوا۔ الحی الحق ویکشف الصدق ویخسر الخاسرون یاتی قمر الانبیاء وامرک بتائی ان ربک فعال لما یرید یعنی حق ظاہر ہو گا اور صدق کھل جائے گا اور جنہوں نے بدظنیوں سے زیان اٹھایا وہ ذلت اوررسوائی کا زیان بھی اٹھائیں گے۔ نبیوں کا چاند آئے گا اور تیرا کام ظاہر ہو جائے گا۔ تیرا رب جو چاہتا ہے کہ کرتا ہے مگر میں نہیں جانتا کہ یہ کب ہوگا اور جو شخص جلدی کرتا ہے۔ خداتعالیٰ کو اس کی ایک ذرہ بھی پرواہ نہیں وہ غنی ہے دوسرے کا محتاج نہیں۔ اپنے کاموں کو حکمت اور مصلحت سے کرتا ہے اورہر ایک شخص کی آزمائش کر کے پیچھے سے اپنی تائید دکھلاتا ہے کہ پہلے نشان ظاہر ہوتے تو صحابہ کبار اور اہل بیت کے ایمان اور دوسرے لوگوں کے ایمانوں میں فرق کیا ہوتا۔ خداتعالیٰ اپنے عزیزوں اور پیاروں کی عزت ظاہر کرنے کے لئے نشان دکھلانے میں کچھ توقف ڈال دیتا ہے۔ تا لوگوں پر ظاہر ہو کہ خداتعالیٰ کے خاص بندے نشانوں کے محتاج نہیں ہوتے اور تا ان کی فراست اور دوربینی سب پر ظاہر ہو جائے اور ان کے مرتبہ عالیہ میں کسی کا کلام نہ ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بہتر آدمی اوائل میں اس بد خیال سے پھر گئے اور مرتد ہو گئے کہ آپ نے ان کو کوئی نشان نہیں دکھلاتا۔ ان میں سے بار ہ قائم رہے اور بارہ میں سے پھر ایک مرتد ہو گیا اور جو قائم رہے انہوںنے آخر میں بہت سے نشان دیکھے اور عنداللہ صادق شمار ہوئے۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
مکرر میں آپ کو کہتاہوں کہ اگر آپ چالیس روز تک میری صحبت میں آجائیں تو مجھے یقین ہے کہ میرے قرب وجوار کا اثر آپ پر پڑے اور اگرچہ میں عہد کے طور پر نہیں کہہ سکتا۔ مگر میرا دل شہادت دیتا ہے کہ کچھ ظاہر ہو گا جو آپ کو کھینچ کر یقین کی طرف لے جائے گا اور میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ کچھ ہونے والا ہے۔ مگر ابھی خداتعالیٰ اپنی سنت قدیمہ سے دو گروہ بنانا چاہتا ہے۔اگر ایک وہ گروہ جو نیک ظنی کی برکت سے میری طرف آتے جاتے ہیں۔ دوسرے وہ گروہ جو بد ظنی کی شامت سے مجھ سے دور پڑتے جاتے ہیں۔
میں نے آپ کے اس بیان کو افسوس کے ساتھ پڑھا جو آپ فرماتے ہیں کہ مجرو قیل وقال سے فیصلہ نہیں ہو سکتا۔ میں آپ کو ازراہ تو دودو مہربانی و رحم اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اکثر فیصلے دنیا میں قیل و قال سے ہی ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ صرف باتوں کے ثبوت یا عدم ثبوت کے لحاظ سے ایک شخص کو عدالت نہایت اطمینان کے ساتھ پھانسی دے سکتی ہے اور ایک شخص کو تہمت خون سے بری کر سکتی ہے۔ واقعات کے ثبوت یا عدم ثبوت پر تمام مقدمات فیصلہ پاتے ہیں۔ کسی فریق سے یہ سوال نہیں ہوتاکہ کوئی آسمانی نشان دکھلاوے۔ تب ڈگری ہو گی یا فقط اس صورت میں مقدمہ ڈسمس ہوگا کہ جب مدعا علیہ سے کوئی کرامت ظہور میں آوے بلکہ اگر کوئی مدعی بجائے واقعات کے ثابت کرنے کے ایک سوٹی کا سانپ بنا کر دکھلا دیوے یا ایک کاغذ کا کبوتر بنا کر عدالت میں اڑ دے تو کوئی حاکم صرف ان وجوہات کی رو سے اس کو ڈگری نہیں دے سکتا۔ جب تک باقاعدہ صحت دعویٰ ثابت نہ ہو اور واقعات پرکھے نہ جائیں۔ پس جس حالت میں واقعات کا پرکھنا ضروری ہے اور میر ایہ بیان ہے کہ میرے تمام دعاوی قرآن کریم اور احادیث نبویہ اور اولیاء گزشتہ کی پیشگوئیوں سے ثابت ہیں اور جو کچھ میری مخالف تاویلات سے اصل مسیح کو دوبارہ دنیا میں نازل کرنا چاہتے ہیں نہ صرف عدم ثبوت کا داغ ان پر ہے۔ بلکہ یہ خیال بہ بداہت قرآن کریم کی نصوص بینہ سے مخالف پڑا ہوا ہے اور اس کے ہرایک پہلو میں ا س قدر مفاسد ہیں اور اس قدر خرابیاں ہیں کہ ممکن نہیں کہ کوئی شخص ان سب کو اپنی نظر کے سامنے رکھ کر پھر اس کو بدیہی البطلان نہ کہہ سکے۔ تو پھر ان حقائق اور معارف اور دلائل اوربراہین کو کیونکر فضول قیل و قال کہہ سکتے ہیں۔ قرآن کریم بھی تو بظاہر قیل وقال ہی ہے جو عظیم الشان معجزہ اور تمام معجزات سے بڑھ کر ہے۔ معقولی ثبوت تو اوّل درجہ پر ضروری ہوئے ہیں۔ بغیر اس کے نشان ہیچ ہیں۔ یاد رہے کہ جن ثبوتوں پر مدعا علیہ کو عدالتوں میں سزائے موت دی جاتی ہے وہ ثبوت ا ن ثبوتوں سے کچھ بڑھ کرنہیں ہیں۔ جو قرآن اور حدیث اور اقوال اکابر او راولیاء کرام سے میرے پاس موجود ہیں۔ مگر غور سے دیکھنا اور مجھ سے سننا شرط ہے۔
میں نے ان ثبوتوں کو صفائی کے ساتھ کتاب آئینہ کمالات اسلام میں لکھا ہے اور کھول کر دکھلاتا ہے کہ جو لوگ اس انتظار میں اپنی عمر او ر وقت کو کھوتے ہیںکہ حضرت مسیح پھر اپنے خاکی قالب کے ساتھ دنیامیں آئیں گے وہ کس قدر منشاء کلام الٰہی سے دور جا پڑے ہیںاور کیسے چاروں طرف کے فسادوں او رخرابیوں نے ان کو گھیر لیا ہے۔ میں نے ا س کتاب میں ثابت کر دیا ہے مسیح موعود کا قرآن کریم میں ذکر ہے اور دجال کا بھی۔ لیکن جس طرز سے قرآن کریم میں یہ بیان فرماتا ہے وہ جبھی صحیح اور درست ہو گا جب مسیح موعود سے مراد کوئی مثیل مسیح لیا جائے جو اسی امت میں پید اہو اور نیز دجال سے مراد ایک گروہ لیا جائے او ردجال خود گروہ کو کہتے ہیں بلاشبہ ہمارے مخالفوں نے بڑی ذلت پہنچانے والی غلطی اپنے لئے اختیار کی ہے گویا قرآن اورحدیث کو یک طرف چھوڑ دیا ہے۔ وہ اپنی نہایت درجہ کی بلاہت سے اپنی غلطی پر متنبہ نہیں ہوتے اور اپنے موٹے اور سطحی خیالات پر مغرور ہیں۔ مگر ان کو شرمندہ کرنے والا وقت نزدیک آتا جاتا ہے۔
میں انہیں جانتا کہ میرے اس خط کا آپ کے دل پر کیا اثر پڑے گا۔ مگر میں نے ایک واقعی نقشہ آپ کے سامنے کھینچ کر دکھلا دیا ہے۔ ملاقات نہایت ضروری ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ جس طرح ہو سکے ۲۷؍ دسمبر ۱۹۹۲ء کے جلسہ میں تشریف لاویں۔ انشاء اللہ القدیر آپ کے لئے بہت مفید ہو گا اور للہ سفر کیا جاتا ہے۔ وہ عنداللہ ایک قسم عبادت کے ہوتا ہے۔ اب دعا پر ختم کر تاہوں۔ ایدکم اللہ من عندہ ورحمکم فی الدنیا والاخیر۔
والسلام
غلام احمد از قادیان
ضلع گورداسپور
۱۰؍ دسمبر ۱۸۹۲ء
نوٹ:۔ اس خط کو کم سے کم تین مرتبہ غور سے پڑھیں۔ یہ خط اگرچہ بظاہر آپ کے نام ہے اس بہت سی عبارتیں دوسروں کے اوہام دور کرنے کے لئے ہیں۔ گو آپ ہی مخاطب ہیں۔
مکتوب نمبر(۷)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی اخویم نواب صاحب سردار محمد علی خاں صاحب سلمہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کاعنایت نامہ مجھ کو آج کی ڈاک میں ملا۔ آتھم کے زندہ رہنے کے بارے میں میرے دوستوں کے بہت خط آئے۔ لیکن یہ پہلا خط ہے جو تذبذب او رتردد اور شک اور سو ظن سے بھر اہوا تھا ایسے ابتلاء کے موقعہ پر جو لوگ اصل حقیقت سے بے خبر تھے جس ثابت قدمی سے اکثر دوستوں نے خط بھیجے ہیں تعجب میں ہوں کہ کس قدر سوز یقین کا خداتعالیٰ نے ان کے دلوں میں ڈال دیا اوربعض نے ایسے موقعہ پر نئے سرے کی اس نیت سے تا ہمیں زیادہ ثواب ہو( ان سے دوبارہ بیعت کرنے والوں میں چودہری رستم علی رضی اللہ عنہ کا نام مجھے معلوم ہے۔ عرفانی) بہرحال آپ کا خط پڑھنے سے اگرچہ آپ کے ان الفاظ سے بہت رنج ہوا۔ جن کے استعمال کی نسبت ہرگز امید نہ تھی۔ لیکن چونکہ دلوں پر اللہ جل شانہ کا تصرف ہے اس لئے سوچا کہ کسی وقت اگر اللہ جلشانہ نے چاہا تو آپ کے لئے دعا کی ہے۔ نہایت مشکل یہ ہے کہ آپ کو اتفاق ملاقات کا کم ہوتا ہے اور دوست اکثر آمد ورفت رکھتے ہیں۔ کتنے مہینوں سے ایک جماعت میر ے پا س رہتی ہے۔ جو کبھی پچاس کبھی ساٹھ اور کبھی سو سے بھی زیادہ ہوتے ہیںا ورمعارف سے اطلاع پاتے رہتے ہیں اور آپ کا خط کبھی خواب خیال کی طرح آجاتا ہے اور اکثر نہیں۔
اب آپ کے سوال کی طرف توجہ کر کے لکھا ہوں کہ جس طرح آپ سمجھتے ہیں کہ ایسا نہیں بلکہ درحقیقت یہ فتح عظیم ہے۔ مجھے خداتعالیٰ نے بتلایا ہے کہ عبداللہ آتھم نے حق کی عظمت قبول کر لی اور سچائی کی طرف رجوع کرنے کی وجہ سے سزائے موت سے بچ گیا ہے اور اس کی آزمائش یہ ہے کہ اب اس سے ان الفاظ میں اقرار لیا جائے تا اس کی اندورنی حالت ظاہر ہو۔ یا اس پر عذاب نازل ہو۔ میں نے اس غرض سے اشتہار دیا ہے کہ آتھم کو یہ پیغام پہنچایا جائے کہ اللہ جلشانہ کی طرف یہ خبر ملی ہے کہ تو نے حق کی طرف رجوع کیا ہے اور اگر وہ اس کا قائل ہوجائے تو ہمارا مدعا حاصل ورنہ ایک ہزار روپیہ نقد بلاتوقف اس کو دیا جائے کہ وہ قسم کھاجائے کہ میں نے حق کی طرف رجوع نہیں کیا اور اگروہ اس قسم کے بعد ایک برس کے بعد (تک عرفانی) ہلاک نہ ہو تو ہم ہرطرح سے کاذب ہیں اور اگر وہ قسم نہ کھائے تو وہ کاذب ہے آپ اس کا سمجھ سکتے ہیں کہ اگر تجربہ سے اس نے مجھ کو کاذب یقین کر لیاہے اور وہ اپنے مذہب پر قائم ہے تو قسم کھانے میں اس کا کچھ حرج نہیں۔ لیکن اگر اس نے قسم نہ کھائی اور باوجود یہ کہ وہ کلمہ کے لئے ہزار روپیہ اس کے حوالے کیا جاتا ہے۔ اگر وہ گریز کر گیا تو آپ کیا سمجھیں گے۔ اب وقت نزدیک ہے۔ اشتہار آئے چاہتے ہیں۔ میں ہزار روپیہ کے لئے متردد تھاکہ کس سے مانگوں۔ ایسا دیندار کون ہے جو بلاتوقف بھیج دے گا۔ آخر میں نے ایک شخص کی طر ف لکھا ہے اگر اس نے دے دیا تو بہتر ہے ورنہ یہ دنیا کی نابکار جائیداد و بیچ کر خود اس کے آگے جاکر رکھوں گا۔ تا کامل فیصلہ ہو جائے۔
اور جھوٹوںکا منہ سیاہ ہو جائے اور خداتعالیٰ نے کئی دفعہ میرے پر ظاہر کیا ہے کہ اس جماعت پرایک ابتلاء آنے والا ہے۔ تا اللہ تعالیٰ دیکھے کہ کون سچا ہے اورکون کچا ہے اور اللہ جلشانہ کی قسم ہے کہ میرے دل میں اپنی جماعت کا انہیں کے فائدہ کے لئے جوش مارتا ہے۔ ورنہ اگر کوئی میرے ساتھ نہ ہوتو مجھے تنہائی میں لذت ہے۔ بے شک فتح ہو گی۔ اگر ہزار ابتلاء درمیان ہو تو آخر ہمیں فتح ہو گی۔ اب ابتلائوں کی نظیر آپ مانگتے ہیں ان کی نظیریں بہت ہیں۔ آپ کو معلوم نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے بادشاہ ہونے کا جو وعدہ کیا اور وہ ان کی زندگی میں پورا نہ ہوا۔ تو ستر آدمی مرتد ہو گئے۔ حدیبہ کے قصبہ میں تفسیر ابن کثیر میں لکھا ہے کہ کئی سچے آدمی مرتد ہو گئے۔ وجہ یہ تھی کہ اس پیشگوئی کی کفار مکہ کو خبر ہو گئی تھی اس لئے انہوں نے شہر کے اندر داخل نہ ہونے دیا اور صحابہ پانچ ہزار سے کم نہیں تھے۔ یہ امر کس قد رمعرکہ کا امر تھا۔ مگر خدا تعالیٰ نے صادقتوں کو بچایا۔ مجھے اور میرے خاص دوستوں کو آپ کے اس خط سے اس قدر افسوس ہو ا کہ اندازہ سے زیادہ ہے۔ یہ کلمہ آپ کا کہ مجھے ہلاک کیا کس قدر اس اخلاص سے دور ہے جو آپ سے ظاہر ہوتا رہا۔
ہمارا تو مذہب ہے کہ اگر ایک مرتبہ نہیں کروڑ مرتبہ لوگ پیش گوئی نہ سمجھیں۔ یا اس رات کے طور پر ظاہر ہو تو خداتعالیٰ کے صادق بندوں کا کچھ بھی نقصان نہیں۔ آخر وہ فتح یاب ہو جاتے ہیں۔ میں نے اس فتح کے بارے میں لاہور پانچ ہزار اشتہار چھپوایا ہے اور ایک رسالہ تالیف کیا ہے۔ جس کانام انوارالسلام ہے وہ بھی پانچ ہزار چھپے گا۔ آپ ضرور اشتہار اور رسالہ کو غور سے پڑھیں۔ اگر خداتعالیٰ چاہے تو آپ کو اس سے فائدہ ہوگا۔ ایک ہی وقت میں اور ایک ہی ڈاک میں آپ کا خط اور حضرت مولوی نورالدین صاحب کاخط پہنچا۔ مولوی صاحب کا اس صدق اور ثبات کا خط جس کا پڑھ کر رونا آتا تھا۔ ایسے آدمی ہیں جن کی نسبت میں یقین رکھتا ہوں کہ اس جہاں میں بھی میرے ساتھ ہوں گے اور اس جہاں میں بھی میرے ساتھ ہوں گے۔
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
نوٹ:۔ اس خط پر کوئی تاریخ نہیں اور لفافہ بھی محفوظ نہیں تاہم خط کے مضمون سے ظاہر ہے کہ ستمبر ۱۸۹۴ء کاخط ہے۔ حضرت نواب صاحب نے جس جرات اور دلیری سے اپنے شکوک کو پیش کیا ہے۔ اس سے حضرت نواب صاحب کی ایمانی اور اخلاقی جرات کا پتہ چلتا ہے۔ انہوںنے کسی چیز کو اندھی تقلید کے طور پر ماننا نہیں چاہا۔ جو شبہ پید اہوا اس کو پیش کر دیا۔ خداتعالیٰ نے جو ایمان انہیں دیا ہے۔ وہ قابل رشک ہے۔خداتعالیٰ نے اس کا ا جر انہیں یہ دیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نسبت فرزندی کی عزت نصیب ہوتی۔ یہ موقعہ نہیں کہ حضرت نواب صاحب کی قربانیوں کا میں ذکر کروں جو انہوںنے سلسلہ کے لئے کی تھیں۔
بہت ہیں جن کے دل میں شبہات پیدا ہوتے ہیں اور وہ ان کو اخلاقی جرات کی کمی کی وجہ سے اگل نہیں سکتے۔ مگر نواب صاحب کو خداتعالیٰ نے قابل رشک ایمانی قوت اور ایمانی جرات عطا کی ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک مرتبہ فرمایا کہ اگر کسی شخص کے دل میں کوئی شبہ پید اہو تو اسے قے کی طرح باہر نکال دینا چاہئے۔ اگر اسے اندر سے رہنے دیا جائے تو بہت برا اثر پیدا کر تا ہے۔ غرض حضرت نواب صاحب کے اس سوال سے جو انہوں نے حضرت اقدس سے کیا۔ ان کے مقام اور مرتبہ پر کوئی مضر اثر نہیں پڑتا بلکہ ان کی شان کو بڑھاتا ہے اور واقعات نے بتا دیا کہ وہ خداتعالیٰ کے فضل اور رحم سے اپنے ایمان میں سے بڑے مقام پر تھے۔ اللم زدفزد۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر(۸)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی نواب صاحب سلمہ ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
باعث تکلیف وہی یہ ہے کہ چونکہ اس عاجز نے پانچ سو روپیہ آں محب کا قرض دینا ہے۔ مجھے یا د نہیں کہ میعاد میں سے کیا باقی رہ گیاہے اور قرضہ کاایک نازک اور خطرناک معاملہ ہوتا ہے۔ میرا حافظہ اچھا نہیں یاد پڑتا ہے کہ پانچ برس میں ادا کرنے کا وعدہ کیا تھا اور کتنے برس گزر گئے ہوں گے۔ عمر کا کچھ اعتبار نہیں۔ آپ براہ مہربانی اطلاع بخشیں کہ کس قدر میعاد باقی رہ گئی ہے۔ تاحتی الوسع اس کافکر رکھ کر توفیق بار یتعالیٰ میعاد کے اندر اندر اد اہو سکے اور اگر ایک دفعہ نہ ہوسکے تو کئی دفعہ کر کے میعاد کے اندر بھیج دوں۔ امید کہ جلد اس سے م مطلع فرماویں۔ تا میں اس فکر میں لگ جائوں۔ کیونکہ قرضہ بھی دنیا کی بلائوں میں سے ایک سخت بلاہے اور راحت اسی میں ہے کہ اس سے سبکدوشی ہو جائے۔
دوسری بات قابل استفسار یہ ہے کہ مکرمی اخویم مولوی سید محمد احسن صاحب قریباً دو ہفتہ سے قادیان تشریف لائے ہوئے ہیں اور آپ نے جب آپ کا اس عاجز کا تعلق اور حسن ظن تھا۔ بیس روپیہ ماہوار ان کو سلسلہ کی منادی اور واعظ کی غرض سے دنیا مقرر کیا گیاتھا۔ چنانچہ آپ نے کچھ عرصہ ان کودیا امید کہ اس کا ثواب بہرحال آپ کو ہوگا۔ لیکن چند ماہ سے ان کو کچھ نہیں پہنچا۔ اب اگر اس وقت مجھ کو اس بات کے ذکر کرنے سے بھی آپ کے ساتھ دل رکتا ہے۔ مگر چونکہ مولوی صاحب موصوف اس جگہ تشریف رکھتے ہیں۔ اس لئے آپ جو مناسب سمجھیں میرے جواب کے خط میں اس کی نسبت تحریر کردیں۔ حقیقت میں مولوی صاحب نہایت صادق دوست اور عارف حقائق ہیں۔ وہ مدراس اور بنگلور کی طرف دورہ کر کے ہزار ہا آدمیوں کے دلوں سے تکفیر اور تکذیب کے غبار کو دور کر آئے ہیں اور ہزار ہا کو ا س جماعت میں داخل کر آئے ہیں اور نہایت مستفیم اور قوی الایمان اور پہلے سے بھی نہایت ترقی پر ہیں۔
ہماری جماعت اگرچہ غرباء اور ضعفاء کی جماعت ہے۔ لیکن العزیز یہی علماء اور محققین کی جماعت ہے اور انہی کو میں متقی اور خداترس اور عارف حقائق پاتا ہوں اورنیک روحوں اور دلوں کو دن بدن خدا تعالیٰ کھینچ کر اس طرف لاتا ہے۔ فالحمدللہ علیٰ ذالک۔
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
۹؍ دسمبر ۱۸۹۴ء
مکتوب نمبر(۹)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی اخویم نواب صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مولوی صاحب کو کل ایک دورہ مرض پھر ہوا۔ بہت دیر تک رہا۔ مالش کرانے سے صورت افاقہ ہوئی۔ مگر بہت ضعف ہے۔ا للہ تعالیٰ شفا بخشے۔
اس جگہ ہماری جماعت کا ایک قافلہ تحقیق السنہ کے لئے بہت جوش سے کام رہا ہے اور یہ اسلام کی صداقت پرایک نئی دلیل ہے۔ جو تیرہ سو برس سے آج تک کسی کی اس طرف توجہ نہیں ہوئی۔ اس مختصر خط میں آپ کو سمجھا نہیںسکتا کہ یہ کس پایہ کا کام ہے۔ اگر آپ کو ایک ماہ تک اس خدمت میں مرزا خدابخش صاحب کوشریک کریں اور وہ قادیان میں رہیں تو میری دانست میں بہت ثواب ہو گا۔ آیندہ جیسا کہ آپ کی مرضی ہو۔ دنیا کے کام نہ تو کسی نے پورے کئے اور نہ کرے گا۔ دنیا دار لوگ نہیں سمجھتے کہ ہم کیوں دنیامیں آئے اور کیوں جائیں گے۔ کون سمجھائے جبکہ خداتعالیٰ نے سمجھایا ہو۔ دنیا کے کام کرنا گناہ نہیں۔ مگر مومن وہ ہے جودرحقیقت دین کو مقدم سمجھے اورجس طرح اس ناچیز اور پلید دنیا کی کامیابیوں کے لئے دن رات سوچتا یہاں تک کہ پلنگ پر لیٹے بھی فکر کرتا ہے اور اس کی ناکامی پر سخت رنج اٹھاتا ہے۔ ایسا ہی دین کی غمخواری میں بھی مشغول رہے۔ دنیا سے دل لگانا بڑا دھوکا ہے۔ موت کاذرا اعتبار نہیں موت ہر ایک سال نئے کرشمے دکھلاتی رہتی ہے۔ دوستوں ک دوستوں سے جد اکرتی اور لڑکوں کو باپوں سے، اور باپوں کو لڑکوں سے علیحدہ کر دیتی ہے۔
مورکھ وہ انسان ہے جو اس ضروری سفر کا کچھ بھی فکر نہیں رکھتا۔ خداتعالیٰ اس شخص کی عمر بڑھا دیتا ہے۔ جو سچ مچ اپنی زندگی کاطریق بدل کر خد ا تعالیٰ ہی کاہو جاتا ہے۔ ورنہ اللہ جلشانہ فرماتاہے۔ قل ما یعباء بکم ربی لوکا دعاء کم
یعنی ان کو کہہ دو کہ خدا تعالیٰ تمہاری پرواہ کیا رکھتا ہے۔ا گر تم اس کی بندگی و اطاعت نہ کرو۔ سو جاگنا چاہئے اور ہوشیار ہو جانا چاہئے اور غلطی نہیں کھانا چاہئے کہ گھر سخت بے بنیاد ہے۔ میں نے اس لئے کہا کہ میں اگر غلطی نہیں کرتا تو مجھے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ان دنوں میں دنیوی غم وہم یں اعتدال سے زیادہ مصروف ہیں اور دوسرا پلہ ترازو کا کچھ خالی سا معلوم ہوتا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ یہ تحریریں آپ کے دل کیا اثر کریں یا کچھ بھی نہ کریں۔ کیونکہ بقول آپ کے وہ عتقادی امر بھی اب درمیان نہیں جو بظاہر پہلے تھے۔ میں نہیں چاہتا کہ ہماری جماعت میں سے کوئی ہلاک ہو۔ بلکہ چاہتا ہوں کہ خود خداتعالیٰ قوت بخشے اور زندہ کرے۔ کاش اگر ملاقات کی سرگرمی بھی آپ کے دل میں باقی رہتی تو کبھی کبھی ملاقات سے کچھ فائدہ ہو جاتا۔ مگر اب یہ امید بھی مشکلات میں پڑ چکی ہے۔ کیونکہ اعتقادی محرک باقی نہیں رہا۔اگر کوئی لاہور وغیرہ کسی انگریز حاکم کا جلسہ ہو جس میں خیالی طور پر داخل ہونا آپ اپنی دنیا کے لئے مفید سمجھتے ہوں تو کوئی دنیا کاکام آپ کو شمولیت سے نہیں روکے گا۔ خداتعالیٰ قوت بخشے۔
بیچارہ نورالدین جو دنیاکو عموماً لات مار کر اس جنگل قادیان میں آبیٹھا ہے بے شک قابل نمونہ ہے۔ بہتری تحریکیں اٹھیں کہ آپ لاہور میں رہیں اور امرتسر میں رہیں۔ دنیاوی فائدہ طباعت کی رو سے بہت ہو گا۔ مگر کسی کی بات انہوں نے قبول نہیں کی۔ میں یقینا سمجھتا ہون کہ انہوں نے سچی توبہ کر کے دین پر مقدم رکھ لیا ہے۔ خد اتعالیٰ ان کو شفاء بخشے اور ہماری جماعت کو توفیق عطا کرے کہ ان کے نمونہ پر چلیں آمین۔ کیا آپ بالفعل اس قدر کام کر سکتے ہیں کہ ایک ماہ کے لئے اور کاموں کو پس انداز کر کے مرزا خد ابخش صاحب کو ایک ماہ کے بھیج دیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۲۸؍ اپریل ۱۸۹۵ء
نوٹ:۔ آتھم کی پیشگوئی پر حضرت نواب صاحب کو بتلایا تھا اور انہیں کچھ شکوک پید ا ہوئے تھے۔ مگر وہ بھی اخلاص اور نیک نیتی پر منبی تھے۔ وہ ایک امر جوان کی سمجھ میں نہ آوے ماننا نہیں چاہتے تھے اور اسی لئے انہوں نے حضرت اقدس کو ایسے خطوط لکھے ہیں جن سے یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ گویا کوئی تعلق سلسلہ سے باقی نہ رہے گا۔ مگر خداتعالیٰ نے انہیں ضائع نہیں کیا اپنی معرفت بخشی اور ایمان میں قوت عطا فرمائی۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر(۱۰)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
عزیزی محبی اخویم خان صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا محبت نامہ پہنچا۔ میں بوجہ علالت طبع کچھ لکھ نہیں سکا۔ کیونکہ دورہ مرض کا ہو گیاتھا اور اب بھی طبیعت ضعیت ہے۔ خداتعالیٰ آپ کو اپنی محبت میں ترقی بخشے اور اپنی اس جادوانی دولت کی طرف کھینچ لیوے جس پر کوئی زوال نہیں آسکتا کبھی کبھی اپنے حالات خیریت آیات سے ضرور اطلاع بخشا کریں کہ خط بھی کسی قدر حصہ ملاقات کا بخشتا ہے۔ مجھے آپ کی طرف سے دلی خیال ہے اور چاہتا ہوں کہ آپ کی روحانی ترقیات بحشپم خود دیکھوں مجھے جس وقت جسمانی قوت میں اعتدال پید اہوا تو آپ کے لئے ہمیشہ توجہ کاشروع کروں گا۔ اللہ تعالیٰ اپنا فضل اور توفیق شامل حال کرے۔ آمین۔
والسلام
غلام احمد عفی عنہ
۱۴؍ دسمبر ۱۸۹۵ء
روز پنجشنبہ
مکتوب نمبر(۱۱)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویمنواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مبلغ دو سو روپیہ کے نصف نوٹ آج کی تاریخ آگئے۔ عمارت کا یہ حال ہے کہ تخمینہ کیا گیاہے کہ نو سو رپیہ تک پہلی منزل جس پر مکان مقصود بنانے کی تجویز ہے ختم ہو گی۔ کل صحیح طورپر تخمینہ کو جانچا گیا ہے۔ اب تک …… روپیہ تک لکڑی اور انیٹ اور چونہ اور مزدوروں کے بارے میں خرچ ہوا ہے۔ معماران کی مزدوری ……سے الگ ہے۔ اس لئے بہتر معلوم ہوتا ہے کہ پہلی منزل کے تیار ہونے کے بعد بالفعل عمارت کو بند کردیا جائے۔ کیونکہ کوئی صورت اس کی تکمیل کی نظر نہیں آتی۔ یہ اخراجات گویا ہرروز پیش آتے ہیں۔ ان کے لئے اوّل سرمایہ ہو تو پھر چل سکتے ہیں۔ شائد اللہ جلشانہ اس کا کوئی بندوبست کر دیوے۔ بالفعل اگر ممکن ہو سکے تو آں محب بجائے پانچ سو روپیہ کے سات سو روپیہ کی امداد فرما دیں۔ دو سو روپیہ کی جو کمی ہے وہ کنویں کے چندہ میں سے پوری کر دی جائے گی اور بالفعل کنواں بنانا موقوف رکھا جائے گا۔ پس اگر سات سو روپیہ آپ کی طرف سے ہو اور دو سو روپیہ کنویں کے اس طرح پر نو سو روپیہ تک منزل انشاء اللہ پوری ہو جائے گی اور کیا تعجب ہے کچھ دنوں کے بعد کوئی اور صاحب پیدا ہو جائیں تو وہ دوسری منزل اپنے خرچ سے بنوا لیں۔ نیچے کی منزل مردانہ رہائش کے لائق نہیں ہے۔ کیونکہ وہ زنانہ مکان سے ملی ہوئی ہے۔ مگر اوپر کی منزل اگر ہوجائے تو عمدہ ہے۔
مکان مردانہ بن جائے جس کی لاگت بھی اسی قدر یعنی نوسو یا ہزار روپیہ ہو گا۔ میں شرمندہ ہوں کہ آپ کو اس وقت میں نے تکلیف دی اور ذاتی طور پر مجھ کو کسی مکان کی حاجت نہیں۔ خیال کیا گیا تھا کہ نیچے کی منزل میں ایسی عورتوں کے لئے مکان تیار ہو گا جو مہمان کے طور پر آئیں اور اوپر کی منزل مردانہ مکان ہو۔ سو اللہ تعالیٰ جب چاہے گا اس خیال کو پورا کر دے گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۴؍ مئی ۱۸۹۷ء
نوٹ:۔ جب یہ مکان بن رہا تھا تو خاکسار عرفانی ان ایام میں یہاں تھا۔ گرمی کو موسم تھا۔ گول کمرے میں دوپہر کا کھانا حضرت کھایا کرتے تھے اور دستر خوان پر گڑنبہ ضرور آیا کرتا تھا۔ حضرت ان ایام میں بھی یہی فرمایا کرتے تھے کہ ذاتی طورپر ہمیں کسی مکان کی ضرورت نہیں۔ مہانوں کو جب تکلیف ہوتی ہے تو تکلیف ہوتی ہے۔ یہ لوگ خدا کے لئے آتے ہیں۔ ہمارا فرض ہے کہ ان کے آرام کا فکر کریں۔
خداتعالیٰ نے جیسا کہ اس خط میں آپ نے ظاہر فرمایا تھا ۔ آخر وہ تمام مکانات بنوا دئیے اور وسع مکانک کی پیشگوئی ہمیشہ پوری ہو تی رہتی ہے اور اس کی شان ہمیشہ جد اہوتی ہے۔ مبارک وہ جن کو اس کی تکمیل میں حصہ ملتا ہے۔ ابتدائی ایام میں حضرت نواب صاحب کو سابق ہونے کا اجر ملا۔ جزاہم اللہ احسن الجزا۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر(۱۲)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخو یم نو اب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آخر مولوی صاحب کی وہ پیاری لڑکی جس کی شدت سے بیماری کی وجہ سے مولوی صاحب آنہ سکے کل نماز عصر سے پہلے اس جہان فانی سے کوچ کر گئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔اس کی والدہ سخت مصیبت میں ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو صبر بخشے۔
والسلام
خاکسار
مرزا اغلام احمد عفی اللہ عنہ
۱۷؍ اپریل ۱۸۹۷ء
نوٹ:۔یہ لڑکی حضرت حکیم الامۃ کی چھوٹی لڑکی ایک سال کی تھی اور اس کی وفات کے متعلق حضرت حکیم الامۃ کو خدا تعالیٰ نے ایک رویا کے ذریعہ پہلے ہی بتا دیا تھا۔ یوں تو حضرت حکیم الامۃ خد اتعالیٰ کی مقادیر سے پہلے ہی مسالمت تامہ رکھتے تھے۔ مگر خداتعالیٰ نے جب قبل از وقت ان کو بتا دیا تھا تو انہیں نہ صرف ایک راحت بخش یقین اور معرفت پید اہوئی۔ بلکہ خدا تعالیٰ کے اس انعام اورفضل پر انہوں نے شکریہ کا اظہار کیا تھا۔ ان ایام میں نواب صاحب نے مولوی صاحب کو بلایا تھا۔ اسی وجہ سے آپ نہیں جا سکے تھے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا ہے۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر(۱۳)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
افسوس کہ مولوی صاحب اس قدر تکلیف کی حالت میں ہیں کہ اگر اور کوئی سبب بھی نہ ہوتا تب بھی اس لائق نہیں تھے کہ اس شدت گرمی میں سفر کرسکتے۔ ہفتہ میں ایک مرتبہ سخت بیمار ہوجاتے ہیں۔ پیرانہ سالی کے عوارض ہیں اور مولوی صاحب کی بڑی لڑکی سخت بیمار ہے کہتے ہیں اس کو بیماری سل ہو گئی ہے۔ علامات سخت خطرناک ہیں۔ نواسی بھی ابھی بیماری سے صحت یاب نہیںہوئی۔ ان وجوہ کی وجہ سے درحقیقت وہ سخت مجبور ہیں اور جو د وآدمی نکالے گئے تھے۔ یعنی غلام محی الدین اور غلام محمد۔ وہ کسی کی نمامی کی وجہ سے نہیں نکالے گئے۔ بلکہ خود مجھ کو کئی قراین سے معلوم ہوگیا تھاکہ ان کاقادیان میں رہنا خطرناک ہے اور مجھے سرکاری مخبر نے خبر دے دی تھی اور نہایت بد اور گندے حالات بیان کئے اور وہ مستعد ہو ا کہ میں ضلع میں رپورٹ کرتا ہوں۔ کیونکہ اس کے یہ کام سپرد ہے اور چاروں طرف سے ثبوت مل گیا کہ ان لوگوں کے حالات خراب ہیں۔ تب سخت ناچار ہو کر نرمی کے ساتھ ان کو رخصت کر دیا گیا۔ لیکن باوجود اس قدر نرمی کے غلام محی الدین نے قادیان سے نکلتے ہی طرح طرح کے افتراء اور میرے پر بہتان لگانے شروع کر دئیے۔ بٹالہ میں محمد حسین کے پاس گیا اور امرتسر میں غزنویوں کے گروہ میں گیا اور لاہور میں بد گوئی میں صدہا لوگوں میں وعظ کیا۔ چنانچہ ایک اشتہار زٹلی کا آپ کی خدمت میں بھیجتا ہوں ۔ جس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ یہ شخص کس قسم کا آدمی ہے اور چونکہ سرکاری مخبر بھی ہماری جماعت کے حال لکھتے ہیں۔ اس لئے مناسب نہ تھا کہ ایسا آدمی قادیان میں رکھا جاتا اور دوسرا آدمی اس کا دوست تھا۔
والسلام
خاکسار
مرزاغلام احمد عفی اللہ عنہ
نوٹ:۔ ا س خط پر کوئی تاریخ درج نہیں ہے۔ مگر نفس واقعات مندرجہ خط سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مئی ۱۸۹۸ء کا مکتوب ہے۔ اس میں غلام محی الدین نام جس شخص کا ذکر ہے وہ راہوں ضلع جالندھر کاباشندہ تھا اورخاکی شاہ اس کا عرف تھا۔ وہ عیسائی بھی رہ چکا تھا۔ قادیان میں آکر اور اپنی اس اباحتی زندگی کو جو عیسائیت میں رہ چکا تھا۔یہاں بھی جاری رکھنا چاہا۔ مگر حضرت اقدس تک جب اس کی شکایت پہنچی تو آپ نے اسے نکال دیا۔ اس کے ساتھ جس شخص غلام محمد کاذکر ہے۔ خو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے مکتوب میں اس کے متعلق اس قدر فرمایا ہے کہ وہ اس کادوست تھا۔ دراصل ہم وطنی اور ہم صحبتی نے اسے بھی اس وقت اس بہشت سے نکالا۔ لیکن چونکہ اس میں اخلاص اور سلسلہ کے لئے سچی محبت تھی۔ خدا نے اس کو ضائع نہیں کیا۔ وہ اور اس کاسارا خاندان خد اکے فضل اوررحم سے نہایت مخلص ہے۔ خاکی شاہ جیسا کہ خود حضرت نے لکھ دیا ہے۔ یہاں سے نکل کر اپنی بد باطنی سے عملی اظہار کر دیا۔ آخر وہ خائب خاسر رہ کر مر گیا۔ اب اس کامعاملہ خداتعالیٰ سے ہے۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر(۱۴)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نوا ب صاحب سلمہ تعالیٰ
آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ آپ کی شفاء کے لئے نماز میں اور خارج نماز میں دعا کرتا ہوں۔ خد اتعالیٰ کے فضل و کرم پر امید ہے کہ شفاء عطا فرمائے آمین ثم آمین۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ چیچک خاص طور کے دانے ہوں گے۔ جن میں تبزی نہیں ہوتی ۔ یہ خد ا تعالیٰ کا رحم ہے کہ چیچک کے موذی سم سے بچایا ہے اور چیچک ہو یاخسرہ ہو دونوں طاعون کے قائم مقام ہوتے ہیں۔ یعنی ان کے نکلنے سے طاعون کا مادہ نکل جاتاہے اور اس کے بعد طاعون سے امن رہتا ہے۔ امیدہے کہ آں محب ۵؍ اگست ۱۸۹۸ء سے پہلے مرزا خد ا بخش صاحب کو ادائے شہادت کے لئے روانہ قادیان فرمائیںگے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی اللہ عنہ
۲۶؍ جولائی ۱۸۹۸ء
مکتوب نمبر(۱۵)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا ۔ اللہ تعالیٰ آپ کو بکلی عطافرمائے۔ چونکہ ان دنوں بباعث ایام برسات موسم میں ایک ایسا تغیر ہے۔ جو تپ وغیرہ پیدا کرتا ہے۔ا س لئے درحقیقت یہ سفر کے دن نہیں ہیں۔ میں اس سے خوش ہوں کہ اکتوبر کے مہینہ میں آپ تشریف لائیں۔ افسوس کہ مولوی صاحب کے لئے نکاح ثانی کا کچھ بندوبست نہیں ہو سکا۔اگر کوٹلہ میں یہ بندوبست ہو سکے تو بہتر تھا۔ آپ نے سن لیا ہو گا کہ مولوی صاحب کی جوان لڑکی چند خورد سال بچے چھوڑ کر فوت ہو گئی ہے۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمدعفی اللہ عنہ
۴؍ ستمبر ۱۸۹۸ء
مکتوب نمبر(۱۶)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آں محب کے چار خط یکے بعد دیگرے پہنچے۔ آپ کے لئے دعا کرنا تو میںنے ایک لازمی امر ٹھہرا رکھا ہے۔ لیکن بے قرار نہیں ہونا چاہئے کہ کیوں اس کااثر ظاہر نہیں ہوتا۔ دعائوں کے لئے تاثیرات ہیں اور ضرور ظاہر ہوتی ہیں۔ ایک جگہ حضرت ابوالحسن خرقانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تیس برس میں نے بعض دعائیں کیں جن کا کچھ بھی اثر نہ ہوا اور گمان گزرا کہ قبول نہیں ہوئیں۔ آخر تیس برس کے بعد وہ تمام مقاصد میسر آگئے اور معلوم ہوا کہ تمام دعائیں قبول ہو گئیں ہیں۔ جب دیر سے دعا قبول ہوتی ہے تو عمر زیادہ کی جاتی ہے۔
جب جلد کوئی مراد مل جاتی ہے تو کمی عمر کااندیشہ ہے میں اس بات کو درست رکھتا ہوں کہ مطلب کے حصول کی بشارت خدا تعالیٰ کی طرف سے سن لوں۔ لیکن وہ مطلب دیر کے بعد حاصل ہونا موجب طول عمر ہو۔ کیو نکہ طول عمر او ر عمال صالحہ بڑی نعمت ہے۔
آپ نے اپنے گھر کے لوگوں کی نسبت جو لکھا تھا کہ بعض امور میں مجھے رنج پید ا ہوتا ہے۔ سو میں آپ کو اطلاع دیتا ہوں کہ میرا یہ مذہب نہیں ہے۔ میں اس حدیث پر عمل کرنا علامت سعادت سمجھتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اور وہ یہ ہے
خیر کم خیر کم لا ھلہیعنی تم میں سب سے اچھا وہ آدمی ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ اچھا ہو۔ عورتوں کی طبیعت میں خداتعالیٰ نے ا س قدر کجی رکھی ہوئی ہے کہ کچھ تعجب نہیںکہ بعض وقت خدا اور رسول یا اپنے خاوند یا خاوند کے باپ یا مرشد یا ماں یا بہن کو بھی برا کہہ بیٹھیں اور ان کے نیک ارادہ کی مخالفت کریں۔ سو ایسی حالت میں بھی کبھی مناسب رعب کے ساتھ اور کبھی نرمی سے ان کو سمجھا دیں اور ان کی تعلیم میں بہت مشغول رہیں۔ لیکن ان کے ساتھ ہمیشہ نیک سلوک کریں۔
اشتہار رشتہ کے لئے آپ کی شرط موجود نہیں۔ ایم۔ اے صاحب اگرچہ بہت صالح نیک چلن جوان خوش رو جنٹلمین ہر طرح سے لائق نیک چلن بہت سی نیک صفات اپنے اندر رکھتے ہیں۔ مگر افسوس کہ وہ نہ پٹھان ہیں نہ مغل۔ نہ سید نہ قریشی۔ بلکہ اس ملک کے زمینداروں میں سے ہیں۔ غریب خاندان میں سے ہیں۔ میری بیوی کا برادر حقیقی محمد اسمٰعیل اٹھارہ سالہ خاندانی سید ہے ایف۔ اے میں پڑھتا ہے۔ مگر افسوس کہ کوئی آمدنی ان کے پاس نہیں اوّل شائد سلاطین اسلامیہ کی طرف پچیس ہزار کی جاگیر تھی۔ وہ ۱۸۵۷ء میں ضبط ہو گئی اور کچھ تھوڑا ان لوگوں کو ملتا ہے۔ جس میں سے …… ماہوار میر صاحب کی والدہ کو ملتا ہے بس۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر(۱۷)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ الحمدللہ والمنۃ کہ آپ کو اس نے اپنے فضل و کرم سے شفابخشی۔ میں نے آپ کے لئے اب کی دفعہ غم اٹھایا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس جگہ قادیان میں جس بڑی عمر کے آدمی کو جو اسّی برس سے زیادہ کی عمر کاتھا۔ چیچک نکلی وہ جانبر نہ ہو سکا۔ ہمارے ہمسایوں میں دو جوان عورتیں اس مرض سے راہی ملک بقاہوئیں۔ آپ کو اطلاع نہیں دی گئی۔ یہ بیماری اس عمر میں نہایت خطرناک تھی۔ بالخصوص ا ب کی دفعہ یہ چیچک وبائی طرح پر ہوئی ہے۔ اس لئے نہایت اضطراب اور دلی درد سے نماز پنچگانہ میں اور خارج نماز گویا ہر وقت دعا کی گئی ۔ اصل باعث عاقبت خدا کا فضل ہے جو بموجب وعدہ اللہ سے بہت سی امیدیں اس کے فضل کے لئے ہو جاتی ہیں مجھے کثرت مخلصین کی وجہ سے اکثر زمانہ غم میں ہی گزرتا ہے۔ ایک طرف فراغت پاتا ہوں۔ دوسری طرف سے پریشانی لاحق حال ہو جاتی ہے۔ خداتعالیٰ کی بہت سی عنایات کی ضرورت ہے۔ جس کو میں مشاہدہ بھی کرتا ہوں۔ اب یہ غم لگا ہوا ہے کہ چند دفعہ الہامات اور خوابوں سے طاعون کاغلبہ پنجاب میں معلوم ہو اتھا۔ جس کے ساتھ یہ بھی تھا کہ لوگ توبہ توبہ کریں گے اورنیک چلن ہو جائیںگے۔ تو خد اتعالیٰ اس گھر کو بچا لے گا۔ لیکن نیک ہونے کاکام بڑا مشکل ہے اگرچہ بدچلن بدمعاش اور طرح طرح کے جرائم ملک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اگر پنجاب میں وبائے طاعون یا ہیضہ یا پھوٹا تو بڑی مصیبت ہوگی بہت سے گھروں میں ماتم ہو جائیں گے۔ بہت سے گھر ویران ہو جائیںگے۔ مرزا خد ابخش صاحب پہنچ گئے۔ ان کے گھر بیماری ہے۔ تپ روز چڑھتا ہے اور جگر اور معدہ ضعیف معلوم ہوتا ہے۔ مولوی صاحب کی دوسری لڑکی انہی دنوں سے بیمار ہے۔ جب کہ آپ نے بلایا تھا۔ اب بظاہر ان کی زندگی کی چنداں امید نہیں۔ حواس میں بھی فرق آگیا ہے اورمولوی صاحب بھی ہفتہ میں ایک مرتبہ بیمار ہوجاتے ہیں۔ بعض دفعہ خطرناک بیماری ہوتی ہے میرے دل میں خیال ہے کہ اپنے اور اپنی جماعت کے لئے خاص طو ر پر ایک قبرستان بنایا جائے جس طرح مدینہ میں بنایا گیا تھا۔ بقول شیخ سعدی۔ کہ ہداں رابہ نیکاں بہ بخشد کریم
یہ بھی ایک وسیلہ مغفرت ہوتا ہے۔ جس کو شریعت میں معتبر سمجھا گیاہے۔ اس قبرستان کی فکر میں ہوں کہ کہاں بنایا جائے امید کہ خداتعالیٰ کوئی جگہ میسر کر دے گا او راس کے اردگرد ایک دیوار چاہئے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
۶؍اگست ۱۸۹۸ء
مکتوب نمبر(۱۸)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ معہ مبلغ دو سو روپیہ مجھ کو ملا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو ہر ایک مرض اور غم سے نجات بخشے۔ آمین ثم آمین۔ خط میں سو روپیہ لکھا ہو اتھا اور حامل خط نے دو سو روپیہ دیا۔ اس کا کچھ سبب معلوم نہ ہوا۔ میں عنقریب دوائی طاعون آپ کی خدمت میں مع مرہم عیسیٰ روانہ کرتاہوں اور جس طورسے یہ دوائی استعمال ہو گی آج اس کااشتہار چھاپنے کی تجویز ہے امید ہے انشاء اللہ تعالیٰ اشتہار ہمراہ بھیج دوں گا۔ بہتر ہے کہ یہ دوا ابھی سے آپ شروع کر دیں۔ کیونکہ آیندہ موسم بظاہر وہی معلوم ہوتا ہے۔ جو کچھ الہاماً معلوم ہوا تھا۔ وہ خبر بھی اندیشہ ناک ہے۔ میرے نزدیک ان دنوں میں دینا کے غموم و ہموم کچھ مختصر کرنے چاہئیں۔ د ن بہت سخت ہیں جہاں تک ممکن ہوآپ اپنے بھایئوں کو بھی نصیحت کریں اور اگر باز نہ آئیں تو آپ کا فرض ادا ہو جائے گا اور جو گلٹیاں آپ کے نکلی ہیں۔ وہ ماشاء اللہ سنیک دینے اور دوسری تدبیروں سے جو مولوی صاحب تحریر فرمائیں گے اچھی ہو جائی گی۔ ان دنوں التزام نماز ضروری ہے مجھے تو یہ معلوم ہو ا ہے کہ یہ دن دنیا کے لئے بڑی بڑی مصیبتوں اور موت اور دکھ کے دن ہیں۔ اب بہرحال متبہ ہونا چاہئے۔ عمر کا کچھ اعتبار نہیں میں نے خط کے پڑھنے کے بعد آپ کے لئے بہت دعا کی ہے اور امید ہے کہ خد اتعالیٰ قبول فرمائے گا۔ مجھے اس بات کا خیال ہے کہ
اس شور قیامت کے وقت جس کی مجھے الہام الٰہی سے خبر ملی ہے۔ حتی الوسع اپنے عزیز دوست قادیان میں ہوں۔مگر سب بات خداتعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۲۱؍ جولائی ۱۸۹۸ء
مکتوب نمبر(۱۹)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبیعزیزی اخویم نواب سردار محمد علی خاں صاحب، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ خداتعالیٰ فرزند نوزاد کومبارک اور عمر دراز کرے آمین ثم آمین۔ میں نے سنا ہے کہ جب کم دنوں میں لڑکا پید اہوتا ہے تو دوسرے تیسرے روز ضرور ایک چمچہ کیسڑائل دے دیتے ہیں اور لڑکے کے بدن پر تیل ملتے رہتے ہیں۔ حافظ حقیقی خود حفاظت فرماوے اور آپ کے لئے مبارک کرے۔ آمین ثم آمین۔ دعا میں آپ کے لئے مشغول ہوں۔ اللہ تعالیٰ قبول فرماوے
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
۱۱؍ نومبر ۱۸۹۸ء
مکتوب نمبر(۲۰)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ انشاء اللہ تعالیٰ آپ کی بیوی مرحومہ کے لئے توجہ اور الحاح سے دعائے مغفرت کروں گا۔ اس جگہ موسمی بخار سے گھر میں اور بچوں کو بیماری ہے۔ اللہ تعالیٰ فضل کرے اور مرزا خدابخش صاحب کی بیوی بھی تپ ……اب طاعون بھی ہمارے ملک سے نزدیک آگئی ہے۔ خداتعالیٰ کارحم درکار ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد ازقادیان
مکتوب نمبر(۲۱)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ خسرہ کا نکلنا ایک طرح پر جائے خوشی ہے کہ اس سے طاعون کا مادہ نکلتا ہے اور انشاء اللہ تین سال امن کے ساتھ گزرتے ہیں۔ کیونکہ طبی تحقیق سے خسرہ اور چیچک کا مادہ اور طاعون کا مادہ ایک ہی ہے۔ آپ تین تین چار چار رتی جدوار رگڑ کر کھاتے رہیںکہ اس مادہ اور طاعون کے مادہ کایہ ترق ہے۔ میں ہر وقت نماز میں اورخارج نماز کے آپ کے لئے دعاکرتا ہوں۔ خط پہنچنے پر تردد ہوا۔ اس لئے جلدی مرزا خدا بخش آپ کی خدمت میں پہنچتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جلد شفا بخشے۔ آمین ثم آمین۔
میرے پر عدالت ضلع گورداسپور کی طرف سے تحصیل میں ایک مقدمہ انکم ٹیکس ہے۔ جس میں مولوی حکیم نورالدین صاحب اور چھ سات اور آدمی اور نیز مرزا خدا بخش صاحب میری طرف سے گواہ ہیںامید کہ تاریخ سے تین چار روز پہلے ہی مرزا صاحب کو روانہ قادیان فرماویں اور حالات سے جلد از جلد مطلع فرماتے رہیں۔ خد ا تعالیٰ حافظ ہو۔
(نوٹ:۔ اس خط پر حضرت اپنا نام بھول گئے ہیںاور تاریخ بھی درج نہیں ہوئی۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر(۲۲)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا عنایت نامہ معہ دوسرے خط کے جو آپ کے گھر کے لوگوں کی طرف سے تھا۔ جس میں صحبت کی نسبت لکھا ہوا تھا پہنچا۔ بعد پڑھنے کے دعا کی گئی۔ اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں ہر ایک بلا سے محفوظ رکھے۔ آمین ثم آمین۔ ہمدست مرزا خدابخش صاحب مبلغ تین سو روپیہ کے نوٹ بھی پہنچ گئے۔ جزاکم اللہ خیرا۔ا ن کے لڑکے کا حال ابھی قابل اطمینان نہیں ہے۔ گو پہلی حالت سے کچھ تخفیف ہے۔ مگر اعتبار کے لائق نہیں۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمدعفی اللہ عنہ
مکتوب نمبر(۲۳)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم (۱۸؍اپریل ۱۸۹۹) نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ا گرچہ آں محبت کی ملاقات پر بہت مدت گزر گئی ہے اور دل چاہتا ہے کہ او ر دوستوں کی طرح آپ بھی تین چارماہ تک میرے پاس رہ سکیں۔ لیکن اس خانہ داری کے صدمہ سے جو آپ کو پہنچ گیا ہے۔ بڑی مشکلات پید اہو گئی ہیں۔ یہ روک کچھ ایسی معلوم نہیں ہوتی کہ ایک دو سال تک بھی دور ہو سکے بلکہ یہ دائمی اور اس وقت تک ہے کہ ہم دنیا سے چلے جائیں۔ غرض سخت مزاحم معلوم ہوتی ہے۔ صرف یہ ایک تدبیر ہے کہ آپ کی طرف سے ایک زنانہ مکان بقدر کفالت قادیان میں تیار ہو اور پھر کبھی کبھی معہ قبائل اور سامان کے اس جگہ آجایا کریں اوردو تین ماہ تک رہا کریں لیکن یہ بھی کسی قدر خرچ کا کام ہے اور پھر ہمت کاکام ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے اسباب پیدا کردے اوراپنی طرف سے ہمت اور توفیق بخشے۔ دنیا گذشتنی و گذاشتتنی ہے وقت آخر کسی کو معلوم نہیں۔ اس لئے دینی سلسلہ کو کامل کرنا ہر ایک کے لئے ضروری ہے۔ دانشمند کے لئے فخر سے شام تک زندگی کی امید نہیں۔ کیونکہ خدا تعالیٰ نے کسی سے یہ عہد نہیں کیا کہ اس مدت تک زندہ رہے گا۔ ماسوا اس کے ہمارے ملک میں طاعون نے ایسے ہی پیرجمائے ہیں کہ دن بدن خطرناک حالت معلوم ہوتی ہے۔ مجھے ایک الہام میں معلوم ہوا تھا کہ اگر لوگوں کے اعمال میں اصلاح نہ ہوئی تو طاعون کسی وقت جلد پھیلے گی اور سخت پھیلے گی۔ ایک گائوں کو خدامحفوظ رکھے گا۔ وہ گائوں پریشانی سے بچایا جائے گا۔ میں اپنی طرف سے گمان کرتاہوں کہ وہ گائوں غالباً قادیان ہے اوربڑا اندیشہ ہے کہ شائد آیندہ سال کے ختم ہونے تک خطرناک صورت پر طاعون پھیل جائے اس لئے میں نے اپنے دوستوں کو یہ بھی صلاح دی تھی کہ وہ مختصر طور پر قادیان میں مکان بنا لیں۔ مگر یہی وقت ہے اور پھر شائد وقت ہاتھ سے جاتارہے۔ سو آں محب بھی ا س بات کو سوچ لیں اور عید کی تقریب پر اکثر احباب قادیان آئیں گے اور بعض دینی مشورے بھی اس دن پر موقوف رکھے گئے ہیں۔ سو اگر آں محب آنہ سکیں جیسا کہ ظاہر ی علامات ہیں تو مناسب ہے کہ ایک ہفتہ کے لئے مرزا خد ابخش صاحب کو بھیج دیں تا ان مشوروں میں شامل ہو جائیں۔ باقی سب خیریت ہے۔ مرزا خدا بخش صاحب کے گھر میں سب خیریت ہے۔
والسلام
راقم مرزا غلام احمد عفی عنہ از قادیان
مکتوب نمبر(۲۴)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم (۲۱؍ نومبر ۱۸۹۸ء) نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کل سے میرے گھر میں بیماری کی شدت بہت ہو گئی ہے او رمرزا خدا بخش صاحب کے گھر میں بھی تپ تیز چڑھتا ہے۔ا سی طرح تمام گھر کے لوگ یہاں تک کہ گھر کے بچے بھی بیمار ہیں۔ اگر مرزاخدابخش صاحب آجائیں تو اپنے گھر کی خبر لیں۔ اس قدر بیماری ہے کہ ایک شخص دوسرے کے حال کا پرساں نہیں ہو سکتا۔ حالات تشویش ناک ہیں۔ خداتعالیٰ فضل کرے امید ہے کہ آپ حسب تحریر میرے استقامت اور استواری سے کام لے کر جلد تر تجویز شادی فرماویں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر(۲۵)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم (۱۸؍اپریل ۱۸۹۹) نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج صدمہ عظیم کی تار مجھ کو ملی اور اس کے عوض کوئی آپ کو بھاری خوشی بخشے۔ میں اس درد کو محسوس کرتاہوں۔ جو ا س ناگہانی مصیبت سے آپ کو پہنچا ہو گا اور میں دعا رکرتا ہوں کہ آیندہ خدا تعالیٰ ہر ایک بلاسے آپ کو بچائے اورپردہ غیب سے اسباب راحت آپ کے لئے میسر کرے۔ میرا اس وقت آپ کے درد سے دل درد ناک ہے او ر سینہ غم سے بھرا ہے۔ خیال آتا ہے کہ
دنیا کیسی بے بنیاد ہے۔
ایک دم میں ایسا گھر کہ عزیزوں اور پیاروں سے بھرا ہو اہو ویران بیایان دکھائی دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے اس رفیق کو غریق رحمت کرے اور اس کی اولاد کو عمر اور اقبال اور سعادت بخشے۔ لازم ہے کہ ہمیشہ ان کو دعائے مغفرت میں یاد رکھیں۔ میری یہ بڑی خواہش رہی کہ آپ ان کو قادیان میں لاتے اور اس خواہش سے مدعا یہ تھا کہ وہ بھی سلسلہ بیعت میں داخل ہوکر اس گروہ میں شریک ہو جاتے کہ جو خداتعالیٰ تیار کررہا ہے۔ مگر افسوس کہ آپ کی بعض مجبوریوں سے یہ خواہش ظہور میں نہ آئی۔ اس کا مجھے بہت افسوس ہے۔
میں نے کچھ دن ہوئے خواب میں آپ کی نسبت کچھ بلا اور غم کو دیکھاتھا۔ ایسے خوابوں اور الہاموں کو کوئی ظاہر نہیں کرسکتا۔ مجھے اندیشہ تھا آخر اس کایہ پہلو ظاہر ہوا۔ یہ تقدیر مبرم تھی۔ جو ظہور میں آئی۔ معلوم ہوتا ہے علاج میں بھی غلطی ہوئی۔ یہ رحم کی بیماری تھی اوربباعث کم دنوں میں پید اہونے کے زہریلا مواد رحم میں ہو گا۔ اگر خداتعالیٰ چاہتا تو علاج یہ تھاکہ ایسے وقت پچکاری کے ساتھ رحم کی راہ سے آہستہ آہستہ یہ زہر نکالا جاتا اورتین چار دفعہ روز پچکاری ہوتی اور کیسڑائل سے خفیف سی تلین طبع بھی ہوتی اور عنبر اور مشک وغیرہ سے ہر وقت دل کو قوت دی جاتی اوراگر خون نفاس بند تھا تو کسی قدر رواں کیا جاتا اور اگر بہت آتا تھاتو کم کیا جاتا اور نربسی اورہینگ وغیرہ سے تشنج اور غشی سے بچایا جاتا۔ لیکن جب کہ خدا تعالیٰ کاحکم تھا تو ایسا ہونا ممکن نہ تھا۔ پہلی دو تاریں ایسے وقت میں پہنچیں کہ میرے گھر کے لوگ سخت بیمار تھے اور اب بھی بیمارہیں۔ تیسرا مہینہ ہے دست اور مروڑ ہیں۔ کمزور ہو گئے ہیں۔ بعض وقت ایسی حالت ہو جاتی ہے کہ ڈرتا ہوں کہ غشی پڑ گئی اورحاملہ کی غشی گویاموت ہے۔دعا کرتا ہوں مجھے افسوس ہے کہ آپ کے گھر کے لوگوں کے لئے مجھے دعا کا موقعہ بھی نہ ملا۔ تاریں بہت دیر سے پہنچیں۔ا ب میں یہ خط اس نیت سے لکھتا ہوں کہ آپ ہی بہت نحیف ہیں۔ میں ڈرتا ہوں کہ بہت غم سے آپ بیمار نہ ہو جائیں۔اب اس وقت آپ بہادر بنیں اور استقامت دکھلائیں۔ ہم سب لوگ ایک دن نوبت بہ نوبت قبر میں جانے والے ہیں۔ میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ غم کودل پر غالب ہونے نہ دیں۔ میں تعزیت کے لئے آپ کے پاس آتا۔ مگر میری بیوی کی ایسی حالت ہے کہ بعض وقت خطرناک حالت ہو جاتی ہے۔ مولوی صاحب کے گھر میں بھی حمل ہے۔ شاید چھٹا ساتواں مہینہ ہے۔ وہ بھی آئے دن بیمار رہتے ہیں۔ آج مرزا خدا بخش صاحب بھی لاہور سے قادیان آئے۔ شاید اس خط سے پہلے آپ کے پاس پہنچیں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
۸؍ نومبر ۱۸۹۸ء
مکتوب نمبر(۲۶)ملفوف
یہ خط مرزا خدا بخش صاحب کے نام ہے۔ چونکہ نواب صاحب کے ہی کے خط میں دوسرے ورق پر لکھ دیا گیاہے۔ اس لئے میں نے بھی اسی سلسلہ میں اسے درج کردیا ہے۔(عرفانی)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی اخویم مرزا خدابخشصاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کل میرے گھر میں والدہ محمود کو تپ او رگھبراہٹ اور بدحواسی کی سخت تکلیف ہوئی اورساتھ ہی عوارض اسقاط حمل کے ظاہر ہوئے۔ معلوم ہوتا تھا کہ گویا چند منٹوں کے بعد خاتمہ زندگی ہے۔ا ب اس وقت کسی قدر تخفیف ہے۔ مگر چونکہ تپ نوبتی ہے۔ا س کل اندیشہ ہے اور آپ کے گھر میں سخت تپ چڑھتا ہے۔ا ندیشہ زیادہ ہے۔اگر رخصت لے کر آجائیںتو بہتر ہے۔ آج کے تپ اندیشناک ہیں۔ اطلاعاً لکھا گیا ہے اور آتے وقت ایک روپیہ کے انار بیدانہ لے آویں اور کچھ نہ لاویں کہ تمام بچے بیمار ہیں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۲۲؍ نومبر ۱۸۹۸ء
مکتوب نمبر(۲۷)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس وقت حفظ ماتقدم کے طور پر امراض خون کے لئے گولیاں بھیجتا ہوں۔ جن سے انشاء اللہ القدیر مادہ جذام کا استیصال ہوتاہے۔ شرط یہ ہے کہ ایک گولی جو بقدر تین فلفل کے ہو۔ ہمراہ آپ زلال مہندی کھائی جائے۔ا س طرح پر کہ ایک ماشہ برگ حنا یعنی مہندی رات کو بھگویا جائے اور پانی صرف تین چار گھونٹ ہو صبح اس پانی کو صاف کر کے ہمراہ اس گولی کے پی لیں۔ شرینی نہیں ملانی چاہئے۔ پھیکا پانی ہو پانی تلخ ہوگا۔ مگر ضروری شرط ہے کہ پھیکا پیا جائے۔ یہ رعایت رکھنی چاہئے کہ ایک ماشہ سے زیادہ نہ ہو۔ جب برداشت ہو جائے تو دو ماشہ تک کرسکتے ہیں۔ ہر ایک میٹھی چیز سے حتی الوسع پرہیز رہے۔ کبھی کبھی کھالیں اور مہینہ میں ہمیشہ دس دن دوا کھا لیں کریں۔ بیس دن چھوڑ دیا کریں۔ یہ دوا انشاء اللہ نہایت عمدہ ہے ایسے امراض میں حفظ ماتقدم کے طور پر ہمیشہ دوا کو استعمال کرنا ضروری ہے۔ یعنی مہینہ میں دس دن۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
نوٹ:۔ اس خط پر کوئی تاریخ نہیں اور یہ خط بذریعہ ڈاک نہیں بھیجا گیا۔ بلکہ جیسا کہ اس خط پر ایک نوٹ سے ظاہر ہوتا ہے۔ ہمدسے میاں کریم بخش بھیجا گیا۔ مگر دوسرے خط سے جو اس دوائی کے متعلق ہے کہ جون ۱۸۹۹ء کا ہے۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر(۲۸)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میں بباعث علالت طبع چند روز جواب لکھنے سے معذور رہا۔ میری کچھ ایسی حالت ہے کہ ایک دفعہ ہاتھ پیر سرد ہو کر اور نبض ضعیف ہو کرغشی کے قریب قریب حالت ہو جاتی ہے اوردوران خون تک دفعہ ٹھہرجاتا ہے۔جس میں اگر خداتعالیٰ کافضل نہ ہوتو موت کا اندیشہ ہوتا ہے۔ تھوڑے دنوں میں یہ حالت دو دفعہ ہو چکی ہے۔ آج رات پھر اس کاسخت دورہ ہوا۔ا س حالت میں صرف عنبر یا مشک فائدہ کرتا ہے۔ رات دس خوراک کے قریب مشک کھایا پھر بھی دیر تک مرض کا جوش رہا۔ میں خیال کرتا ہوں کہ صرف خدا تعالیٰ کے بھروسہ پر زندگی ہے۔ ورنہ دل جو رئیس بدن ہے۔ بہت ضعیف ہو گیا ہے۔
آپ نے دوا کے بارے میں جو دریافت کیاتھا۔ ایام امید میں دوا ہرگز نہیں کھانی چاہئے اور نہ ہمیشہ کھانی چاہئے۔ کبھی ایک ہفتہ کھاکر چھوڑ دیں اور ایک دو ہفتہ چھوڑ کر پھرکھانا شروع کریں۔ مگر ایام حمل میں قطعاً ممنوع یعنی ہر گز نہیں کھانی چاہئے۔ جب تک بچہ ہوکر دو مہینہ نہ گزر جائیں۔ اگر سرعت تنفس با اختلاج قلب ہو تو تدبیر غذا کافی ہے۔ یعنی دودھ مکھن چوزہ کا پلائو استعمال کریں۔ بہت شیرینی سے پرہیز کریں۔ شیرہ بادام۔ مقشر الائچی سفید ڈال کر پیویں۔ موسم سرما میں اسکائش ایمکیش استعمال کریں۔ یعنی مچھلی کا تیل جوسفید اور جما ہوا شہد کی طرح یا دہی کی طرح ہوتا ہے۔ بدن کو فربہ کرتاہے۔ دل کو مقوی ہے۔ پھیپڑہ کوبہت فائدہ کرتا ہے۔ چہرہ پر تازگی اور رونق اور سرخی آتی ہے۔ لاہور سے مل سکتا ہے۔ مگر میری دانست میں ان دنوں میں استعمال کرنا جائز نہیں۔ کسی قدر حرارت کرتا ہے۔ ان دنوں سادہ مقوی غذائیں مکھن۔ گھی۔ دودھ اور مرغ پلائو استعمال کرنا کافی ہے اور کبھی کھبی شیرہ بادام استعمال کرنا وہ دوا یعنی گولیاں وہ ہمیشہ کے استعمال کے لئے نہیں ہے۔ ایک گولی خوراک کافی ہے۔ا گر مہندی کاپانی بھی پی سکیں تو یونہی کھا لیں۔ مگر یاد رہے کہ مہندی بھی ایک زہر کی قسم ہے۔اگر پانی پیا جائے تو صرف احتیاط ہے ایک ماشہ برگ مہندی بھگوئیں وزن کر کے بھگوئیں۔ ہر گز اس سے زہر نہ ہو۔ کیوں کہ زیادہ سخت تکلیف دہ ہے۔اس پانی کے ساتھ گولی کھائیں اوراگر پانی مہندی کا پیا نہ جائے تو عرق گائوزبان کے ساتھ کھائیں۔ ہمیشہ کثرت شیرینی سے پرہیز رکھنا ضروری ہے۔ زیادہ خیریت ہے اس وقت میری طبیعت بحال نہ تھی۔ لیکن بہرحال یہ خط میں نے لکھ دیا۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۲۰؍ جون ۱۸۹۹ء
مکتوب نمبر(۲۹)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مجھے منظور ہے کہ مرزا خد ا بخش صاحب کی روانگی ۱۰؍ ستمبر ۱۸۹۹ء تک ملتوی رکھی جائے اور آپ کی قادیان میں تشریف آوری کے لئے میں پسند نہیں کرتا کہ ۲۲؍ ستمبر ۱۸۹۹ء کے پہلے آپ تشریف لاویں۔ کیونکہ ۲۲؍ ستمبر ۱۸۹۹ء سے پہلے سخت گرمی اورپریشانی اور بیماریوں کے دن ہیں۔ ریل کی سواری بھی ان دنوں میں ایک عذاب کی صورت معلوم ہوتی ہے اورمعدہ ضعیف اور وبائی ہو احرکت میں ہوتی ہے۔ لیکن ۲۲؍ستمبر کے بعد موسم میں ایک صریح انقلاب ہو جاتا ہے اوررات کے وقت اندر سوسکتے ہیںاور اطمینان کے ساتھ حالت رہتی ہے۔ا س موسم میں ارادہ کو۲۲؍ستمبر پر مصمم فرماویں اوراس سے پہلے موسم کچا اور سفر کرنا خطرناک ہے یہی صلاح بہتر ہے۔ کوئی ایسی تجویز ہو آپ کے لئے اس جگہ کوئی سامان تیار ہو جائے۔ خدا تعالیٰ ہر ایک شے پر قادر ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
اس خط پر کوئی تاریخ تو درج نہیں۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ یہ جولائی کے آخر یا اگست ۱۸۹۹ء کے شروع کا ہے۔ حضرت اقدس نے جو خواہش نواب صاحب کے لئے مکان کی فرمائی تھی۔ خداتعالیٰ نے وہ بھی پوری کر دی۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر(۳۰)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
حال یہ ہے اگرچہ عرصہ بیس سال سے متواتر اس عاجز کوجو الہام ہو اہے اکثر دفعہ ان میں رسول یا نبی کا لفظ آگیاہے۔ جیسا کہ یہ الہام ھوالذی ارسل رسولہ یالھدی و دین الحق اورجیساکہ یہ الہام جری اللہ فی خلل لانبیاء اور جیسا کہ یہ الہام دنیا میں ایک نبی آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا۔
نوٹ:۔ایک قرات اس الہام کی یہ بھی ہے کہ دنیا میں ایک قدیر آیا اور یہی قرات براہین احمدیہ میں درج ہے اور فتنہ سے بچنے کے لئے یہ دوسری قرات درج نہیں کی گئی۔
ایسے ہی بہت سے الہام ہیں۔ جن میںاس عاجز کی نسبت نبی یا رسول کا لفظ آیا ہے۔ لیکن وہ شخص غلطی کرتا ہے۔ جو ایسا سمجھتا ہے۔ جو اس نبوت اور رسالت سے مراد حقیقی نبوت اور رسالت مراد ہے۔ جس سے انسان خود صاحب شریعت کہلاتا ہے۔ بلکہ رسول کے لفظ سے تو صرف اس قدر مرا د ہے کہ خداتعالیٰ کی طرف سے بھیجا گیا اور نبی کے لفظ سے صرف اس قدر مراد ہے کہ خد ا سے علم پا کر پیشگوئی کرنے والا یا معارف پوشیدہ بتانے والا۔ سو چونکہ ایسے لفظوں سے جو محض استعارہ کے رنگ میں ہیں۔ اسلام میں فتنہ ہوتا ہے اور اس کا نتیجہ سخت بد نکلتا ہے۔ اس لئے اپنی جماعت کی معمولی بول چال اور دن رات کے محاورات میں یہ لفظ نہیں آنے چاہئیں اور دلی ایمان سے سمجھ لینا چاہئے کہ نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہو گئی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ولکن رسول اللہ و خاتم النبیین او ر اس آیت کاانکار کرنا یا استحفاف کی نظر سے اس کودیکھنا درحقیقت اسلام سے علیحدہ ہونا ہے۔ جو شخص انکار میں حد سے گزر جاتا ہے۔ جس طرح کہ وہ ایک خطرناک حالت میں ہے۔ ایسا ہی وہ بھی خطرناک حالت میں ہے۔ شیعوں کی طرح اعتقاد میں حد سے گزر جاتا ہے۔
جاننا چاہئے کہ خداتعالیٰ اپنی تمام نبوتوں اور رسالتوں کو قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کر دیا ہے اور ہم محض دین اسلام کے خادم بن کر دنیا میں آئے اوردنیا میں بھیجے گئے نہ اس لئے کہ اسلام کو چھوڑ کر کوئی اور دین بناویں۔ ہمیشہ شیاطین کی راہ زنی سے اپنے تیئں بچانا چاہئے اوراسلام سے سچی محبت رکھنی چاہئے اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو پھیلانا چاہئے۔ ہم خادم دین اسلام ہیں اور یہی ہمارے آنے کی علت غائی ہے اور نبی اور رسول کے لفظ استعارہ اور نجاز کے رنگ میں ہیں۔ رسالت *** عرب میں بھیجے جانے کو کہتے ہیںاور نبوت یہ ہے کہ خد اسے علم پا کر پوشیدہ باتوں یا پوشیدہ حقائق اور معارف کو بیان کرنا۔ سو اس حد تک مفہوم کو زہن میں رکھ کر دل میں اس کے معنی کے موافق اعتقاد کرنا مذموم نہیں ہے۔ مگر چونکہ اسلام کی اصطلاح میں نبی اور رسول کے یہ بھی معنی ہوتے ہیں کہ وہ کامل شریعت لاتے ہیں۔ یا بعض احکام شریعت سابقہ کو منسوخ کرتے ہیں۔ یا نبی سابق کی امت نہیں کہلاتے اور براہ راست بغیر استفاضہ کسی نبی کے خداتعالیٰ سے تعلق رکھتے ہیں۔
اس لئے ہوشیار رہنا چاہئے کہ ا س جگہ بھی یہی معنی نہ سمجھ لیں۔ کیو نکہ ہماری کوئی کتاب بجز قرآن شریف نہیں ہے اور ہمار ا کوئی رسول بجز محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے نہیں ہے اور ہمارا کوئی دین بجز اسلام کے نہیں ہے اور ہم بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ ہمارا نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء اور قرآن شریف خاتم الکتب ہے۔ سو دین کو بچوں کا کھیل نہیں بنانا چاہئے اور یا د رکھنا چاہئے کہ ہمیں بجز خادم اسلام ہو نے کے اور کوئی دعویٰ بالمقابل نہیں ہے اور جو شخص ہماری طرف یہ منسوب کرے۔ وہ ہم پر افتراء کرتا ہے۔ ہم اپنے نبی کریم کے ذریعہ فیض برکات پاتے ہیں اورقرآن کریم کے ذریعہ سے ہمیں فیض معارف ملتا ہے۔ سو مناسب ہے کہ کوئی شخص اس ہدایت کے خلاف کچھ بھی دل میں نہ رکھے۔ ورنہ خد اتعالیٰ کے نزدیک اس کا جواب دہ ہو گا اگر ہم اسلام کے خادم نہیں ہیں تو ہمارا سب کاروبار عبث اور مردود اور قابل مواخذہ ہے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد ازقادیان
۷؍ اگست ۱۸۹۹ء
نوٹ:۔ اس مکتوب میں حضور نے اپنے دعوے نبوت و رسالت کی حقیقت کو خوب کھول کر بیان کر دیا ہے۔ آپ نے اپنے اس دعوی سے کبھی انکار نہیں کیا۔ البتہ اس کا مفہوم اور منطوق بھی کبھی قرار نہیں دیا۔ جو آپ کے معاندین ومنکرین نے آپ کی طرف منسوب کیا۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر(۳۱)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کسی قدر تریاق جدید کی گولیاں ہمدست مرزا خدا بخش صاحب آپ کی خدمت میں ارسال ہیں اورکسی قدر اس وقت دے دوں گا۔ جب آپ قادیان آئیںگے یہ دوا تریاق الٰہی سے فوائد میں بڑھ کر ہے۔ اس میں بڑی بڑی قابل قدر دوائیں پڑی ہیں۔ جسیے مشک۔ عنبر۔ نرلسبی۔ مروارید۔ سونے کاکشتہ۔ فولاد یا قوت احمر۔ کونین۔ فاسفورس۔ کہربا۔ مرجان۔ صندل۔ کیوڑہ۔ زعفران یہ تمام دوائیں قریب سے کے ہیں اور بہت سا فاسفورس اس میں داخل کیا گیا ہے۔ یہ دوا علاج طاعون کے علاوہ مقوی دماغ۔ مقوی جگر۔ مقوی معدہ۔ مقوی باہ اور مراق کو فائدہ کرنے والی مصفی خون ہے۔ مجھ کو اس کے تیار کرنے میں اوّل تامل تھا کہ بہت سے روپیہ پر اس کاتیا ر کرنا موقوف تھا۔ لیکن چونکہ حفظ صحت کے لئے یہ دوا مفید ہے۔ اس لئے اس قدر خرچ گوارا کیا گیا۔ چالیس تولہ سے کچھ زیادہ اس میں یا قوت احمر ہے۔ا گر خریدا جاتا تو شاید کئی سو روپیہ سے آتا۔ بہرحال یہ دوا خدا تعالیٰ کے فضل سے تیار ہو گئی ہے گو بہت ہی تھوڑی ہے۔ لیکن اس قدر بھی محض خدا تعالیٰ کی عنایت سے تیار ہوئی۔ خوراک اس کی اوّل استعمال میں دو رتی سے زیادہ نہیں ہونی چاہئے۔ تاگرمی نہ کرے۔ نہایت درجہ مقوی اعصاب ہے اور خارش اور ثبورات اور جذام اور ذبابیطس اور انواع و اقسام کے زہر ناک امراض کے لئے مفید ہے اور قوت باہ میں اس کو ایک عجیب اثر ہے۔ سرخ گولیاں میں نے نہیں بھیجی۔ کیونکہ صرف بواسیر اور جذام کے لئے ہیں اور ذیابیطیس کو بھی مفید ہے۔ا گر ضرورت ہو گی تو وہ بھی بھیج دوں گا موجود ہیں۔
مرزا خد ابخش کونصیبین میں بھیجنے کی پختہ تجویز ہے۔ خداتعالیٰ کے راضی کرنے کے کئی موقعے ہوتے ہیں۔ جو ہروقت ہاتھ نہیں آتے۔ کیا تعجب کہ خداتعالیٰ آپ کی اس خدمت سے آپ پر راضی ہو جائے اور دین اور دنیا میں آپ پر برکات نازل کرے کہ آپ چند ماہ اپنے ملازم خاص کوخد اتعالیٰ کاملازم ٹھہرا کر اور بد ستور تمام بوجھ اس کی تنخواہ اورسفر کا خرچ اپنے ذمہ پر رکھ کر اس کو روانہ نصیبین وغیرہ ممالک بلا و شام کریں۔ میرے نزدیک یہ موقعہ ثواب کا آپ کے لئے وہ ہو گا کہ شائد پھر عمر بھر ایسا موقعہ ہاتھ نہ آوے مگر یہ بھی ضروری ہے کہ وہ جانے سے پہلے دس بیس میرے پاس رہیں تا وقتاً فوقتاً ضروری یا داشتیں لکھ لیں۔ کیونکہ جس جگہ جائیں گے وہاں ڈاک نہیں پہنچ سکتی۔ جو کچھ سمجھایا جائے گا پہلے ہی سمجھایا جائے گا اور میرے لئے یہ مشکل ہے کہ سب کچھ مجھے ہی سمجھانا ہوتا ہے اور ابھی تک ہماری جماعت کے آدمی اپنے دماغ سے کم پید اکرتے ہیں۔ سو ضروری ہے کہ دو تین ہفتہ میرے پاس رہیں اور میں ہر ایک مناسب امر جیسا کہ مجھے یا د آتا جائے ان کی یاداشت میں لکھا دوں۔ جس وقت آپ مناسب سمجھیں ان کو اس طرف روانہ فرمادیں اور میں امید رکھتا ہوں کہ ۲۲؍ ستمبر ۱۸۹۹ء تک آپ قادیان میں ضرور تشریف لاویں گے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۲۹؍ اگست ۱۸۹۹ء
مکتوب نمبر(۳۲)ملفوف
اللہ ۹؍ نومبر ۱۸۹۹ء
محبی عزیزی اخویم نواب محمد علی خاں صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
پانچ سو روپیہ کا نوٹ اور باقی روپیہ یعنی ……۷۵ پہنچ گئے۔ جزاکم اللہ خیرا لجزاء دو آدمی جو نصیبین میں بر فاقت مرزا خدا بخش صاحب بھیجے جائیںگے۔ ان کے لئے پانچ سو روپیہ کی ضرورت ہو گی۔ لہذا تحریر آں محب اطلاع دی گئی ہے کہ پانچ سو روپیہ ان کی روانگی کے لئے چاہئے۔ مجھے یقین ہے کہ نومبر ۱۸۹۹ء تک آں محب تشریف لائیں گے باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
نوٹ:۔اس خط میں نواب صاحب کے آنے کی جو تاریخ لکھی ہے۔ وہ صاف پڑھی نہیں گئی۔ غالباً آخر نومبر کی کوئی تاریخ ہو گی نصیبین کا مشن بعد میں بعض مشکلات کی وجہ سے بھیجا نہ جاسکا۔ گو اس مقصد کو اللہ تعالیٰ نے پورا کر دیا۔
اس خط پر جیسا کہ حضرت کا عام معمول تھا۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی نہیں لکھا۔ مگر وہ نشان جس کے گرد میں نے حلقہ دے دیا ہے۔ جواللہ پڑھا جاتا ہے۔ درج ہے۔ بہرحال آپ نے بسم اللہ ہی اس کو شروع کرفرمایا ہے۔ (عرفانی)

مکتوب نمبر(۳۳)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم(۲۹؍ جنوری ۱۹۰۰) نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
یہ دوبارہ ہی لکھا ہے۔
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ ہمدست مولوی محمد اکرم صاحب مجھ کو ملا اور دل سے آخر تک پڑھا گیا۔ دل کو اس سے بہت درد پہنچا کہ ایک پہلو سے تکالیف اور ہموم و غموم جمع ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو ان سے مخلصی عطا فرماوے۔ مجھ کو (جہاں تک انسان کو خیال ہو سکتا ہے) یہ خیال جوش مار رہا ہے کہ آپ کے لئے ایسی دعا کروں جس کے آثار ظاہر ہوں۔ لیکن میں اس بات کا اقرار کرتا ہوں اور حیران ہو ں کہ باوجود یہ کہ میں آپ سے محبت کرتا ہوں اور آپ کو ان مخلصین میں سے سمجھتا ہوں جو صرف چھ سات آدمی ہیں۔ پھر بھی ابھی تک مجھ کو ایسی دعا کا پورا موقعہ نہیں مل سکا۔ دعا تو بہت کی گئی اور کرتا ہوں۔ مگر ایک قسم کی دعا ہوتی ہے جو میرے اختیار میں نہیں۔ غالباً کسی وقت کسی ظہور میں آئی ہو گی اور اس کااثر یہ ہو اہو گا کہ پوشیدہ آفات کو خدا تعالیٰ نے ٹال دیا۔ لیکن میری دانست میں ابھی تک اکمل اور اتم طور پر ظہور میں نہیں آئی۔ مرزا خدا بخش صاحب کا اس جگہ ہونا بھی یا ددہانی کا موجب ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ کسی وقت کوئی ایسی گھڑی آجائے گی کہ یہ مدعا کامل طور پر ظہور میں آجائے گا۔
اصل بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی عمر دراز کرے اور کامل طور پر قوت ایمان عطا فرماوے اور ہر طرح سے امن میں رکھے۔تب اس کے باقی ہموم وغموم کچھ چیز نہیں۔ میر ادل چاہتا ہے کہ آپ دو تین ماہ تک میرے پاس رہیں۔ نہ معلوم کہ یہ موقعہ کب ہاتھ آئے گا اورمدرسہ کے بارے میں انشاء اللہ استخارہ کروں گا۔ا گر کچھ معلوم ہوا تو اطلاع دوں گا۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام ۔خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر(۳۴)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم(۷؍ اگست ۱۹۰۰)نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کاتحفہ پارچات نفیس و عمدہ جو آپ نے نہایت درجہ کی محبت اور اخلاص سے عطا فرمائے تھے مجھ کو مل گئے ہیں اس کا شکریہ اد اکرتا ہوں۔ ہر ایک پارچہ کو دیکھ کر معلوم ہو تا ہے کہ آں محب نے بڑی محبت اور اخلاص سے ان کوتیار کرایا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے عوض میں اپنے بے انتہاء اور نہ معلوم کرم اور فضل آپ پر کرے اور لباس التقویٰ سے کامل طور سے اولیاء اور صلحاء کے رنگ سے مشرف فرماوے ایک بڑی خواہش ہے کہ آپ فرصت پا کر تشریف لاویں۔ کیونکہ اب تک ایک سوئی او رمخالطب کی صحت کا آپ کو اتفاق نہیں ہوا اورجو کچھ آن محب نے صاحب کمشنر کی زبانی سنا تھا۔ اس کی کچھ پرواہ نہیں ہے۔ ہمارا عقیدہ اور خیال انگریزی سلطنت کی نسبت بخیر اور نیک ہے۔اس لئے آخر انگریزوں کو معلوم ہو جائے گا کہ یہ سب کچھ تہمیتں ہیں۔ کوئی تردد کی جگہ نہیں اور علالت طبیعت کے بارے میں جو آپ نے لکھا تھا۔ خدا تعالیٰ کافضل درکار ہے۔ سب خیر ہے۔ میں بہت دعا کرتا ہوں۔ بہتر ہے کہ اکثر مچھلی کے تیل کا استعمال شروع رکھیں اورجو تریاق الٰہی میں نے بھیجا تھا۔ ان میں سے یعنی دونوں قسموں سے کھایا کریں بہت مفید ہے اور جو آپ نے اپنے گھر کی نسبت لکھا تھا کہ مجھ کوکچھ بہت خوش نہیں رکھتیں۔ اس میں میری طرف سے یہی نصیحت ہے کہ آپ اپنے گھر کے لوگوں سے بہت احسان اور خلق اور مدارت سے پیس آیا کریں اور غائبانہ دعا کریں۔ حدیث شریف میں ہے کہ خیر کم خیر لاہلہ۔
انشاء اللہ بہت سی خوبیاں پید اہوجائیںگی۔ دنیا ناپائیدار ہے۔ ہر ایک جگہ اپنی مروت اور جوان مردی کانمونہ دکھلانا چاہئے اورعورتیں کمزور ہیں وہ اس نمونہ کی بہت محتاج ہیں۔ حدیث سے ثابت ہے کہ مرد خلیق پرخدا تعالیٰ کا فضل ہوتا ہے۔ میں یہ سبب ایام صیام اور عید کے خط نہیں لکھ سکا۔ آج خط لکھا ہے۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
ایک ضروری نوٹ از خاکسار ایڈیٹر
مکتوبات کا یہ حصہ جو میں یہاں دے رہا ہوں۔ یہ مکرمی خان صاحب میاں عبدالرحمن خاں صاحب خلف الرشید حضرت نواب صاحب قبلہ کے ذریعہ مجھے میسر آیا۔ مجھے افسوس ہے کہ ان خطوط کے لفافہ نہیں رکھے گئے۔ ورنہ ہر خط (جس پر تاریخ درج نہیں تھی) تاریخ کابا آسانی پتہ لگ سکتاتھا۔ اب بھی واقعات کے تاریخی سلسلہ سے ان کی تاریخ کاپتہ لگانا مشکل نہیں۔ مگر میں دارلامان قادیان سے دور ساحل بمبئی پر انہیں ترتیب دے رہاہوں۔ جہاں اس قسم کا سامان مجھے میسر نہیںہے۔ اس لئے ہر خط پر نوٹ دینے کی بجائے میں نے مناسب سمجھا کہ ایک نوٹ ان خطوط سے پہلے دے دوں تاکہ پڑھنے والوں کو آسانی ہو۔ اگر کسی خط پر مزید صراحت کی ضرورت ہوئی ہے تو وہاں بھی میں نے نوٹ دے دیا ہے۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر(۳۵)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
دس روز کے قریب ہو گیا کہ آپ کودیکھا نہیں۔ غانبانہ آپ کی شفاء کے لئے دعا کرتا ہوں۔ مگر چاہتا ہوں کہ آپ کے پاس آکر سنت عیادت کا ثواب بھی حاصل کروں۔ آج سرگردانی سے بھی فراغت ہوئی ہے اورلڑکی کو بھی بفضلہ تعالیٰ آرام ہے۔
والسلام ۔خاکسار
مرزا غلام احمد
۶؍ اگست ۱۹۰۲ء
مکتوب نمبر(۳۶)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ مضمون پڑھ کر عزیزی عبدالرحمن خاں کو پھر بخار ہو گیاہے۔ نہایت قلق ہوا۔ خدا تعالیٰ شفا بخشے۔ اب میں حیران ہوں کہ اس وقت جلد آنے کی نسبت کیا رائے دوں۔ پھر دعا کرنا شروع کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ شفاء بخشے۔ اس جگہ طاعون سخت تیزی پر ہے۔ ایک طرف انسان بخار میں مبتلا ہوتا ہے اورصرف چند گھنٹوں میں مر جاتا ہے۔ خدا تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ کب تک یہ ابتلا دور ہو۔ لوگ سخت ہراساں ہو رہے ہیں زندگی کا اعتبار اٹھ گیا ہے۔ ہر طرف چیخوں اور نعروں کی آواز آتی ر ہتی ہے۔ قیامت برپا ہے۔ اب میں کیا کہوں اور کیا رائے دوں۔ سخت حیران ہوں کہ کیا کروں۔ اگر خد اتعالیٰ کے فضل سے بخار اتر گیا ہے اور ڈاکٹر مشورہ دے دے کہ اس قدر سفر میں کوئی حرج نہیں۔ تو بہت احتیاط اور آرام کے لحاظ سے عبدالرحمن کو لے آویں۔ مگر بٹالہ سے ڈولی کا انتظام ضرور چاہئے۔ اس جگہ نہ ماجیور ڈولی بردار ملتا ہے نہ ڈولی کا بندوبست ہو سکتا ہے۔ بٹالہ سے کرنا چاہئے۔ آپ کے گھر میں ہر طرح خیریت ہے۔ ام حبیبہ مرزا خدا بخش کی بیوی برابر آپ کے گھر میں سوتی ہے اوربچے چھوڑ کر چلی جاتی ہے۔ وہ اکثر روتے چیختے رہتے ہیں۔ کوئی عورت نہیں جوا ن کی حفاظت کرے اس لئے یہ تجویز خیال میں آتی ہے کہ اگر ممکن ہوتو چند روز مرزا خدا بخش آکر اپنے بچوں کو سنبھال لیں اوروہ بالکل ویرانہ حالت میں ہیں۔ باقی سب طرح خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکرر یہ کہ آتے وقت ایک بڑا بکس فینائل کا جو سولہ بیس روپیہ کا آتا ہے ساتھ لے آویں۔ اس کی قیمت اس جگہ دی جائے گی اور علاوہ اس کے آپ بھی اپنے گھر کے لئے فینائل بھیج دیں اورڈس انفکٹ کے لئے رسکپوراس قدر بھیج دیں۔ جو چند کمروں کے لئے کافی ہو۔
مکتوب نمبر(۳۷)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ مجھ کو ملا الحمد اللہ والمنۃ کہ اس نے اپنے فضل وکرم سے عزیزی عبدالرحمن خان کو صحت بخشی۔ گویا نئے سرے زندگی ہوئی ہے۔ اب میرے نزدیک تو یہی بہتر ہے کہ جس طرح ہو سکے قادیان میں آجائیں۔ لیکن ڈاکٹر کو مشورہ ضروری ہے۔ کیونکہ مجھے دور بیٹھے معلوم نہیں کہ حالات کیا ہیں اورصحت کس قدر ہے۔ بظاہر اس سفر میں چنداں تکلیف نہیں۔ کیوں کہ بٹالہ تک تو ریل کا سفر ہے اور پھر بٹالہ سے قادیان تک ڈولی ہو سکتی ہے اور گو ڈولی میں بھی کسی قدر حرکت ہوتی ہے۔ لیکن اگر آہستہ آہستہ یہ سفر کیا جائے تو بظاہر کچھ حرج معلوم نہیں ہوتا اور قادیان کی آب وہوا نہ نسبت لاہور کے عمدہ ہے۔ آپ ضرور ڈاکٹر سے مشورہ لے لیں اور پھر ان کے مشورہ کے مطابق بلا توقف قادیان میں چلے آویں۔ باقی اس جگہ زور طاعون کا بہت ہو ر ہا ہے۔ کل آٹھ آدمی مرے تھے۔ اللہ تعالیٰ اپنا فضل وکرم کرے۔ آمین
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۱۶؍ اپریل ۱۹۰۴ء
مکتوب نمبر(۲۸)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الحمدللہ والمنۃ عزیز عبدالرحمن خاں صاحب کی طبیعت اب روبہ صحت ہے الحمدللہ ثم الحمد للہ اب میرے نزدیک (واللہ اعلم) مناسب ہے کہ اگر ڈاکٹر مشورہ دیں تو عبدالرحمن کو قادیان میں لے آویں۔ اس میں آب وہوا کی تبدیلی ہو جائے گی۔ ریل میں تو کچھ سفر کی تکلیف نہیں۔ بٹالہ سے ڈولی کی سواری ہو سکتی ہے۔ بظاہر بات تو یہ عمدہ ہے۔ تفرقہ دور ہو جائے گا اس جگہ قادیان میں آج کل طاعون کا بہت زور ہے۔ ارد گرد کے دیہات تو قریباً ہلاک ہو چکے ہیں۔ باقی اس جگہ سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر(۳۹)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج کی ڈاک میں آپ کا خط مجھ کو ملا اس وقت تک خدا کے فضل و کرم اور جود اور احسان سے ہمارے گھر اور آپ کے گھر میں بالکل خیروعافیت ہے۔ بڑی غوثان کو تپ ہو گیا تھا۔ا س کوگھر سے نکال دیا ہے۔ لیکن میری دانست میں اس کو طاعون نہیں ہے۔ احتیاطاً نکال دیا ہے اورماسٹر محمد دین کوتپ ہو گیا اور گلٹی بھی نکل آئی ۔ اس کوبھی باہر نکال دیا ہے۔ غرض ہماری اس طرف بھی کچھ زور طاعون کا شروع ہے بہ نسبت سابق کچھ آرام ہے۔ میں نے اس خیال سے پہلے لکھا تھا کہ اس گائوں میں اکثر وہ بچے تلف ہوئے ہیں۔ جو پہلے بیمار یا کمزور تھے۔ اسی خیال نے مجھے اس بات کے کہنے پر مجبور کیا تھا کہ وہ د وہفتہ تک ٹھہر جائیں یا اس وقت تک کہ یہ جوش کم ہو جائے۔ اب اصل بات یہ ہے کہ محسوس طور پر تو کچھ کمی نظر نہیں آتی۔ آج ہمارے گھر میں ایک مہمان عورت کو جو دہلی سے آئی تھی بخار ہو گیا ہے۔ لیکن اس خیال سے کہ آپ سخت تفرقہ میں مبتلا ہیں۔ اس وقت یہ خیال آیا کہ بعد استخارہ مسنونہ خدا تعالیٰ پر توکل کرکے قادیان آجائیں۔ میں تو دن رات دعا کررہا ہوں اور اس قدر زور اور توجہ سے دعائیں کی گئی ہیں کہ بعض اوقات میں ایسا بیمار ہو گیا کہ یہ وہم گزرا کہ شاید دو تین منٹ جان باقی ہے اورخطرناک آثار ظاہر ہو گئے۔ اگر آتے وقت لاہور سے ڈس انفکیٹ کے لئے کچھ رسکپور اور کسی قدر فلنائل لے آویں اور کچھ گلاب اور سرکہ لے آویں تو بہتر ہو گا۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
۶؍ اپریل ۱۹۰۴ء
مکتوب نمبر(۴۰)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کاخط آج کی ڈاک میں پہنچا پہلے اس سے صرف بہ نظر ظاہر لکھا گیا تھا۔ اب مجھے یہ خیال آیا ہے کہ توکلا علی اللہ اس ظاہرکو چھوڑ دیں۔ قادیان ابھی تک کوئی نمایاں کمی نہیں ہے۔ ابھی اس وقت جو لکھ رہاہوں ایک ہندو بیجاتھ نام جس کاگھرگویا ہم سے دیوار بہ دیوار ہے۔ چند گھنٹہ بیمار رہ کر راہی ملک بقا ہوا۔ بہرحال خدا تعالیٰ کے فضل پر بھروسہ کر کے آپ کو اجازت دیتا ہوںکہ آپ بخیروعافیت تشریف لے آویں۔ شب بیداری اور دلی توجہات سے جو عبدالرحمن کے لئے کی گئی میرا دل ودماغ بہت ضعیف ہو گیا ہے۔ بسا اوقات آخری دم معلوم ہوتا تھا۔ یہی حقیت دعا ہے۔ کوئی مرے تا مرنے والے کو زندہ کرے۔ یہی الٰہی قانون ہے۔ سو میں اگرچہ نہایت کمزور ہوں لیکن میں نے مصمم ارادہ کر لیا ہے کہ آپ جب آویں تو پھر چند روز درد انگیز دعائوں سے فضل الٰہی کو طلب کیا جائے۔ خدا تعالیٰ صحت اور تندرستی رکھے۔ سو آپ بلا توقف تشریف لے آویں۔ اب میرے کسی اورخط کا انتظار نہ کریں۔
والسلام ۔خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر(۴۱)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
عزیزہ سعیدہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میں نے آپ کاخط غور سے پڑھ لیا ہے اور جس قدر آپ نے اپنی عوارض لکھی ہیں غور سے معلوم کر لئے ہیں۔ انشاء اللہ صحت ہو جائے گی۔ میں نہ صرف دوا بلکہ آپ کے لئے بہت توجہ سے دعا بھی کرتا ہوں۔مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو پوری شفاء دے گا۔ یہ تجویز جو شروع ہے۔ آپ کم سے کم چالیس روز تک اس کو انجام دیں اوردوسرے وقت کی دوا میں آپ ناغہ نہ کریں۔ وہ بھی خون صاف کرتی ہے اور دل کی گھبراہٹ کو دو رکرتی ہے اورآنکھوں کوبھی مفید ہے۔ مگر آپ بیچ میں ناغہ کر دیتے ہیں۔ جیسا کہ کل آپ نے دوا نہیں پی۔ ناغہ نہیں ہونا چاہئے اور نیز مصالحہ۔ مرچیں اورلونگ او رلہسن وغیرہ نہیں کھانا چاہئے یہ آنکھوں کے لئے مضر ہیں۔
آپ کے لئے یہ غذا چاہئے۔ انڈا۔ دودھ۔ پلائو گوشت ڈال کر۔ گوشت جس میں کچھ سبزی ہے۔ ثقیل یعنی بوجھل چیزوں سے پرہیز چاہئے۔ کچھ میٹھا یعنی شیرینی نہیں کھانی چاہئے۔ ایک جگہ بیٹھے نہیں رہنا چاہئے۔ کچھ حرکت چاہئے۔ عمدہ ہوار ربیع کی لینی چاہئے۔ غم نہیں کرنا چاہئے۔ اس علاج سے پھنسیاں وغیرہ انشاء اللہ دور ہو جائیں گی۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر(۴۲)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
خط میں نے پڑھا۔ اصل بات یہ ہے کہ اس بات کے معلوم ہونے سے کہ جس قدر بوجہ ہمسائیگی ہمدردی ضروری ہے۔ وہ آپ سے ظہور میں نہیں آئی۔ یعنی والدہ محمود جو قریباً دس ماہ تک تکالیف حمل میں مبتلا ہیں اور جان کے خطرہ سے اللہ تعالیٰ نے بچایا۔ اس حالت میں اخلاق کا تقاضا یہ تھا کہ آپ سب سے زیادہ ایسے موقعہ پر آمدور فت سے ہمدردی ظاہر کرتے اور اگر وہ موقعہ ہاتھ آناضروری تھا۔ بلکہ اس موقعہ پر برادرانہ تعلق کے طور پر آنا ضروری تھا۔ بلکہ اس موقع پر کم تعلق والی عورتیں بھی مبارک باد کے لئے آئیں۔ مگر آپ کی طرف سے ایسادروازہ بند رہا کہ گویا سخت ناراض ہیں۔اس سے سمجھا گیا کہ جب کہ اس درجہ تک آپ ناراض ہیں۔ تو پھر دروازہ کا کھلا رہنا نا مناسب ہے۔ ایسے دروازے محض آمدورفت کے لئے ہوتے ہیں اورجب آمدورفت نہیں تو ایسا دروازہ ایسی ٹہنی کی طرح ہے۔ جس کو کبھی کوئی پھل نہ لگتا ہو۔اس لئے اس دروازہ کو بند کر دیا گیا۔ لیکن خط سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ سخت بیمار تھے۔ اس وجہ سے آنے سے معذوری ہوئی۔اس عذر کے معلوم ہونے کے بعد میں نے وہ دروازہ کھلا دیا ہے اوردرحقیقت ایسی بیماری جس سے زندگی سے بھی بیزاری ہے کہی ایسی سخت بیماری کی حالت میں کیونکر آسکتے تھے۔ امید ہے کہ جس طرح نواب صاحب سچی ہمدردی رکھتے ہیں۔ آپ بھی اس میں ترقی کریں۔ خداتعالیٰ ہرایک آفت اور بیماری سے بچاوے۔ آمین۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر(۴۳)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ سید عنایت علی صاحب کو اس نوکری کی پرواہ نہیں ہے۔ ورنہ باوجود اس قدر بار بارلکھنے کے کیا باعث کہ جواب تک نہ دیا۔ اس صورت میں آپ کو اختیار ہے جس کو چاہیں مقرر کر دیں اور یہ بھی آپ کی مہربانی تھی۔ ورنہ نوکروں کے معاملہ میں بار بار کہنے کی کیا ضرورت تھی۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر(۴۴)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جب کہ وہ خود استعفاء بھیجتا ہے تو آپ حق ترحم ادا کرچکے۔ اس صورت میں اس جگہ بھیج سکتے ہیں۔ آپ پر کوئی اعتراض نہیں کہ آپ نے موجودہ حالت کے لحاظ سے یہ انتظام کیا ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر(۴۵)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس وقت تار کے نہ پہنچنے سے بہت تفکر اور تردد ہوا۔ خد اتعالیٰ خاص فضل کر کے شفاء بخشے۔اس جگہ دور بیٹھے کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ اصل حالت کیا ہے۔ اگر کوئی صورت ایسی ہو کہ عبدالرحمن کو ساتھ لے کر قادیان آجاویں۔ تو روبرو دیکھنے سے دعا کے لئے ایک خاص جوش پیدا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ شفاء بخشے اوروہ آپ کے دل کا ددر دور کرے۔ باقی سب طرح سے خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
۲۵؍ مارچ ۱۹۰۴ء
مکتوب نمبر(۴۶)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میںاس کام میں بالکل دخل نہیں دیتا۔ آپ کا کلی اختیار ہے۔ اس وقت مجھے وہی حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد آتی ہے۔ انتم اعلم بدنیا کم اور سرمایہ لنگر خانہ کا یہ حال ہے کہ گھر میں دیکھتا ہوں کہ کوئی ایسا دن نہیں گزرا کہ کچھ روپیہ نہیں دیا۔ مگر ساتھ ہی ساتھ اس کاخرچ متفرق ہوتا رہا۔ میرے پاس اس وقت شائد پانچ سوروپیہ کے قریب ہوگا۔ جو لنگر خانہ کے لئے جمع تھے۔ باقی سب خرچ ہوچکا ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ یہ بھی ایک ابتلاء ہے کہ خیال کیا جاتا ہے کہ روپیہ بہت جمع ہوتا ہے اور میرے پاس کچھ بھی نہیں رہتا۔ اگر کوئی ان اخراجات کا ذمہ وار ہو جو ہر ایک پہلو سے ہو رہے ہیں تو وہ اس روپیہ کو اپنے پاس رکھے تو مجھے اس رنج و بلا سے سبکدوشی ہو۔ خواہ مخواہ تفرقہ طبیعت ہر وقت لگا رہتا ہے اور موجب آزار ٹھہرتا ہے۔
مکتوب نمبر(۴۷)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس وقت مجھ کو آپ کا عنایت نامہ ملا۔ اس کا پڑھ کر اس قدر خوشی ہوئی کہ اندازہ سے باہر ہے۔ مجھے اوّل سے معلوم ہے کہ نور محمد کے لڑکے کی شکل اچھی نہیں ا ور نہ ان لوگوں کی معاشرت اچھی ہے۔اگر سادات میں کوئی لڑکی ہو۔جو شکل اور عقل میں اچھی ہو تو اس سے کوئی امر بہتر نہیں۔ا گر یہ نہ ہو سکے تو پھر دوسری شریف قوم میں سے ہو۔ مگر سب سے اوّل اس کے لئے کوشش چاہئے اور جہاں تک ممکن ہو جلد ہونا چاہئے۔ا گر ایسا ظہور میں آگیا تو مولوی صاحب کے تعلقات کوٹلہ سے پختہ ہوجائیںگے اور اکثر وہاںکے رہنے کا بھی اتفاق ہو گا۔ یہ بڑی خوشی کی بات ہے اور چند ہفتہ میں یہ مبارک کام ظہور میں آئیں تو کیا تعجب ہے کہ یہ عاجز بھی اس کارخیر میں مولوی صاحب کے ساتھ کوٹلہ میں آوے۔ سب امر اللہ تعالیٰ کے اخیتار میں ہے۔ امیدکہ پوری طرح آں محب کوشش فرماویں۔ کیونکہ یہ کام ہونا نہایت مبارک امرہے۔ خدا تعالیٰ پوری کر دیوے۔ آمین ثم آمین۔
اس عاجز نے دوسو روپیہ آں محب سے طلب کیا ہے۔ انیٹوں کی قیمت اور معماروں کی اجرت میں برسات اب سر پر ہے۔اگر اس وقت تکلیف فرما کر ارسال فرماویں تواس غم سے کہ ناگہانی طور پر میرے سر پر آگیا ہے مجھے نجات ہو گی ۔ مجھے ایسی عمارات سے طبعاً کراہت اور سخت کراہت ہے۔ اگر آپ کی نیت درمیان نہ ہوتی تو میں کجا اور ایسے بیہودہ کام کجا۔ آپ کی نیت نے یہ کام شروع کرایا۔ مگر افسوس اس وقت تک یہ بیکار ہے جب تک کہ اورپر کی عمارت نہ ہو۔ عمارت کے وقت تو یہ شعر نصب العین رہتا ہے۔
عمارت در سرائے دیگر انداز۔ کہ دنیا را اساسے نیست محکم
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ از قادیان
۱۸۹۷ء
مکتوب نمبر(۴۸)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا عنایت نامہ مجھ کو ملا۔ خداتعالیٰ آپ کوان مشکلات سے نجات دے۔ علاوہ اور باتوں کے میں خیال کرتا ہوں کہ جس حالت میں شدت گرمی کا موسم ہے اور بباعث قلنت برسات یہ موسم اپنی طبعی حالت پر نہیں اور آپ کی طبیعت پر سلسلہ اعراض اور امراض کا چلا جاتا ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ آپ درحقیقت بہت کمزور ا ور نحیف ہو رہے ہیںا ور جگر بھی کمزور ہے۔ عمدہ خون بکثرت پید انہیں ہوتا ۔ تو ایسی صورت میں آپ کاشدائد سفر تحمل کرنا میری سمجھ میں نہیں آتا۔ کیوں اور کیا وجہ کہ آپ کے چھوٹے بھائی سردار ذولفقار علی خاںجو صحیح اور تندرست ہیں۔ ان تکالیف کاتحمل نہ کریں۔اگر موسم سرما ہوتا تو کچھ مضائقہ بھی نہ تھا۔ مگر یہ بے صبری اور بیجا شتاب کاری سے دور نہیں ہو سکتیں۔ صبر اور متانت اور آہستگی اور ہوش مندی سے ان کا علاج کرنا چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ آپ اس خطرناک موسم میں سفر کریں اور خدانخواستہ کسی بیماری میں مبتلا ہو کر موجب شماتت اعدا ہوں۔ پہلے سفر میں کیسی کیسی حیرانی پیش آئی تھی اور لڑکے بیمار ہونے سے کس قدر مصائب کا سامنا پیش آگیا تھا۔ کیا یہ ضروری ہے کہ کمشنر کے پاس آپ ہی جائیں اور دوسری کوئی تدبیر نہیں۔ غرض میری یہی رائے ہے کہ یہ کاروبار آپ پر ہی موقوف ہے تو اگست اور ستمبر تک التوا کیا جائے اور اگر ابھی ضروری ہے تو آپ کے بھائی یہ کام کریں۔ ڈرتا ہوں کہ آپ بیمار نہ ہوجائیں۔ خط واپس ہے۔ اس وقت مجھے بہت سردرد ہے۔ زیادہ نہیں لکھ سکتا۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ‘
مکتوب نمبر(۴۹)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ‘ ونصلی علیٰ رسولہٰ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
میں نے آپ کے تمام خطوط مرسلہ پڑھ لئے۔ میرے نزدیک اب کفالت شعاری کے اصول کی رعایت رکھنا ضروریات سے ہے۔ اس لئے اب جواب کافی ہے۔ یعنی نسبت میر عنایت علی کہ چونکہ وقت پر وہ حاضر نہیں ہوسکے اس لئے بالفعل گنجائش نہیں اور آئندہ اگر گنجائش ہوئی تو اطلاع دے سکتے ہیں اور مرزا خدا بخش صاحب کے صاحبزادے چونکہ بباعث کمی استعداد تعلیم پانے کے لائق نہیں۔ ان کو بہ توقف رخصت کرنا بہتر ہے۔ ناحق کی زیر باری کی کیا ضرورت ہے اور افسوس کہ جس قدر آپ نے اپنے کاروبار میں تخفیف کی ہے۔ ابھی وہ قابل تعریف نہیں۔ شاید کسی وقت پھر نظر ثانی کریں تو اور تخفیف کی صورتیں پیدا ہو جائیں اور دعا تو کی جاتی ہے۔ مگر وقت پر ظہور اثر موقوف ہوتا ہے۔ خد اتعالیٰ تکالیف سے آپ کو نجات بخشے۔ آمین۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر(۵۰)ملفوف
(اصل خط نواب صاحب)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
التجا ہے کہ بعد ملا خطہ کل عریضہ حکم مناسب سے مطلع فرمایا جاوے۔
سیدی و مولائی طبیب روحانی سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مجھ کو جب کسی ملازم کو موقوف کرنا پڑتا ہے تو مجھ کو بڑی کوشش و پنج ہو تی ہے اور دل بہت کڑھتا ہے۔ اس وقت بھی مجھ کو دو ملازموں کو برخاست کرنے کی ضرورت پیش آئی ہے۔ ایک قدرت اللہ خاںصاحب اور دوسرے عنایت علی صاحب۔ یہ دونوں صاحب احمدی بھی ہیں۔ اس سے اور بھی طبیعت میں بیج وتاب ہے۔ میراجی نہیںچاہتا کہ کوئی لائق آدمی ہو اور اس کو بلاقصور موقوف کر دوں۔ اب وقت یہ پیش آئی ہے کہ سید عنایت علی کوئی پانچ سال سے میرے ہاں ملازم ہیں۔ مگر کام کی حالت ان کی اچھی نہیں۔ اب تک جس کام پر ان کو میں نے لگایا ہے ۔ اس کی سمجھ اب تک ان کو نہیں آئی اور انہوں نے کوئی ترقی نہیں کی اورمیرے جیسے محدود آمدنی کے لئے ایسے ملازم کی ضرورت ہے کہ جو کئی سال کام کرسکے۔ وہ اپنا مفوضہ کام پوری طرح نہیں چلا سکے۔ ہاں اس میں شک نہیں کہ نیک اور دیانت دار ہیں۔ مگر کام کے لحاظ سے بالکل ندارد ہیں اور اس پانچ سال کے تجربہ نے مجھے اس نتیجہ پر پہنچا دیا ہے کہ میں ان کی علیحدہ کر دوں۔ یہ میری سال گزشتہ سے منشاء تھی۔مگر صرف ا س سبب سے کہ وہ نیک ہیں۔دیانت دار ہیںا وراحمدی ہیں میں رکا تھا۔ مگر اب میں دیکھتا ہوں کہ جوفائدہ ان کی دیانت سے ہے اس سے زیادہ نقصان ان کی عدم واقفیت کام سے ہوتا ہے۔ پس اب میں نہایت ہی مترددہوںکہ ان کو موقوف کردوں کہ نہیں۔ کاش وہ میرا کام چلا سکتے تو بہت اچھا ہوتا۔ ایک وقت ہے کہ میںنے ان سے مختلف صیغوں میں کام لیا۔ مگر وہر جگہ ناقابل ہی ثابت ہوئے۔
مکتوب نمبر(۵۱)ملفوف (نواب صاحب کاخط)
سیدی مولانیٰ مکرمی معظمی طبیب روحانی سلمہ اللہ تعالیٰ
السلام علیکم۔ جو رنج اور قلق اس واقعہ سے جو ہماری بد قسمتی اور بے سمجھی سے پیش آیا ہے۔ یعنی میرے گھر سے حضور کی علالت کے موقعہ پر حاضر نہیں ہوئے۔ اب اس کے وجوہات کچھ بھی ہوں ہم کو اپنے قصور کا اعتراف ہے۔
ہم اپنی روحانی بیماریوں کے علاج کے لئے حاضر ہوئے ہیں۔ اب تک جو معافی قصور کے لئے درخواست کرنے میں دیر ہوئی۔ وہ میرے گھر کے لوگوں کو یہ سبب ایسے واقعات کے کبھی پیش نہ آنے کی وجہ سے اور زیادہ حجاب واقع ہو گیا اور ان کو شرم ہر ایک سے آنے لگی میں اب خاموش رہا کہ جب تک اس جھوٹی شرم سے خودہی باز نہ آئیں گے۔ جب تک میں خاموش رہوں۔ تاکہ دل سے ان کو یہ محسوس ہو اور خود دل سے معافی چاہیں۔ چنانچہ انہوں نے ایک پرچہ اپنے حال کا لفافہ میں رکھ کر بھیجا ہے تاکہ حضور کی خدمت میں پیش کروں۔ پس اب عرض ہے۔ بقول برما منگر یر کرم خویش مگر از خورد ان خطا واز بزرگان عطا۔ آپ میری بیوی کا یہ قصور معاف فرمادیں۔ (راقم محمدعلی خاں )
حضرت اقدس کا مکتوب
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جو کچھ میں نے رنج ظاہر کیا تھا۔ وہ درحقیقت ایساہی تھا جیسا کہ باپوں کو اپنی اولاد کے ساتھ ہوتا ہے۔ چونکہ میں تربیت کے لئے مامور ہوں۔ سو میری فطرت میں داخل کیا گیا ہے کہ میں ایک معلم ناصح اورشفیق مربی کی طرح اصلاح کی غرض سے کبھی رنج بھی ظاہر کر وں اور خطا کو معاف نہ کرنا خود عیب میں داخل ہے۔ اس لئے میں پورے دل کی صفائی سے اس خطا کومعاف کرتاہوں اور دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ آپ کو اور آپ کے اہل بیت کو اپنے فضل سے سچی پاکیزگی اور سچی دینداری سے پورے طور پر متمنع فرمائے۔ آمین ثم آمین اور اپنی محبت اور اپنے دین کی التقات عطا فرمائے۔ آمین۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام ا حمد عفی عنہ
 
Top