محمد اسامہ حفیظ
رکن ختم نبوت فورم
ایک یہ کہ عقلی دلائل سے کسی دین کے عقائد صاف اور پاک ثابت ہوں۔ دوسری یہ کہ جو دنی اختیارکرنے کی علت غائی ہے یعنی نجات اس کے علامات اور انوار اس دین کی متابعت سے ظاہر ہو جائیں کیونکہ جو کتاب دعویٰ کرتی ہے کہ میں اندرونی بیماریوں اور تاریکیوں سے لوگوں کو شفا دیتی ہوں بجز میرے دوسری کتاب نہیں دیتی تو ایسی کتاب کے ضرور ہے کہ اپنا ثبوت دے۔ پس انہیں دونوں طریقوں کی نسبت ثابت کر کے دکھلایا گیا ہے کہ یہ صرف اسلام میں پائے جاتے ہیں۔ اسلام وہ پاک مذہب ہے کہ جس کی بنیاد عقائد صحیحہ پر ہے کہ جس میں سراسر جلال الٰہی ظاہر ہوتا ہے۔ قرآن شریف ہر ایک جزو کمال خدا کیلئے ثابت کرتا ہے اور ہر ایک نقص و زوال سے اس کو پاک ٹھہراتا ہے۔ اس کی نسبت قرآن شریف کی یہ تعلیم ہے کہ وہ بیچون و بیچگون ہے اور ہرایک شبہ و مانند سے منزہ ہے اور ہر ایک شکل اور مثال سے مبرا ہے۔ وہ مبداء ہے عام فیضوں کا اور جامع ہے تمام خوبیوں کا اور مرجع ہے تمام امور کا اور خالق ہے تمام کائنات کا اور پاک ہے ہر ایک کمزوری اور ناقدرتی اور نقصان سے اور واحد ہے اپنی ذات میں اور صفات میں اور الوہیت میں اور معبودیت میں۔ نہیں مشابہ اس سے کوئی چیز اور نہیں جائز کسی سے اس کا اتحاد اور حلول۔ مگر افسوس آپ کا اعتقاد سراسر اس کے برخلاف ہے اور ایسی روشنی چھوڑ کر تاریکی ظلمت میں خوش ہو رہے ہیں۔ اب چونکہ میں نے اس روشنی کو آپ جیسے لوگوں کی سمجھ کے موافق نہایت صاف اور سلیس اُردو میں کھول کر دکھلایا ہے اور اس بات کا قطعی فیصلہ کر دیا ہے کہ آپ لوگ ایک سخت ظلمت میں پڑے ہوئے ہیں یہاں تک کہ جس کے سہارے پر تمام دنیا جیتی ہے اس کی نسبت آپ کا یہ اعتقاد ہے کہ وہ تمام فیضوں کا مبدأ نہیں اور تمام ارواح یعنی جیو اور اُن کی روحانی قوتیں اور استعدادیں اور ایسا ہی تمام اجسام صغائر یعنی پر کرتی خود بخود انادی طور پر قدیم سے چلے آتے ہیں اور تمام ہُنر گُن جو ان میں سے ہیں وہ خود بخود ہیں اور اس فیصلہ کو صرف عقلی طور پر نہیں چھوڑا بلکہ اسلام کے پاک گروہ میں وہ آسمانی نشان بھی ثابت کئے ہیں کہ جو خدا کے بُرگزیدہ قوم میں ہونے چاہئیں اور ان نشانوں کے گواہ صرف مسلمان لوگ ہی نہیں بلکہ کئی آریہ سماج والے بھی گواہ ہیں اور بفضل خداوندکریم دن بدن لوگوں پر کھلتا جاتا ہے کہ برکت اور روشنی اور صداقت صرف قرآن شریف میں ہے اور دوسری کتابیں ظلمت اور تاریکی سے بھری ہوئی ہیں۔ لہٰذا یہ خط آپ کے پاس رجسٹری کرا کر بھیجتا ہوں اگر آپ کتاب براہین احمدیہ کے مطالعہ کے لئے مستعد ہوں تو میں وہ کتاب آپ کو مفت بلا قیمت آپ کو بھیج دوں گا۔ آپ اس کوغور سے پڑھیں اگر اس کے دلائل کو لاجواب پاویں تو حق کے حقول کرنے میں توقف نہ کریں کہ دنیا روزے چند ۔آخر کار باخداوند۔ میں ابھی اس کتاب کو بھیج سکتا تھا مگر میں نے سنا ہے کہ آپ اپنے خیالات میں محو ہو رہے ہیں اور دوسرے شخص کی تحقیقاتوں سے فائدہ اُٹھانا ایک عار سمجھتے ہیں۔ سو میں آپ کو دوستی اور خیر خواہی کی راہ سے لکھتاہوں کہ آپ کے خیالات صحیح نہیں ہیں۔ آپ ضرور ہی میری کتاب کو منگا کر دیکھیں اُمید کہ اگر حق جوئی کی راہ سے دیکھیں گے تو اس کتاب کے پڑھنے سے بہت سے حجاب اور پردے آپ کے دور ہو جائیں گے اور اگر آپ اُردو عبارت نہ پڑھ سکیں تا ہم کسی لکھے پڑھے آدمی کے ذریعہ سمجھ سکتے ہیں۔ آپ اپنے جواب سے مجھ کو اطلاع دیں اور جس طور سے آپ تسلی چاہیں خداوند قادر ہے۔ صرف سچی طلب اور انصاف اور حق جوئی درکار ہے جواب سے جلد تر اطلاع بخشیں کہ میں منتظر ہوں اور اگر آپ خاموش رہیں تو پھر اس سے یہی سمجھا جائے گا کہ آپ کو صداقت اور روشنی اور راستی سے کچھ غرض نہیں ہے۔
(۲۰؍ اپریل ۱۸۸۳ء مطابق ۱۲؍ جمادی الثانی ۱۳۰۰ھ)
خط جو مختلف مذاہب کے لیڈروں کے نام بھیجا گیا
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
بعد ما وجب گزارش ضروری یہ ہے کہ یہ عاجز (مؤلف براہین احمدیہ) حضرت قادر مطلق جلشانہٗ کی طرف سے مامور ہوا ہے کہ نبی ناصری اسرائیلی (مسیح) کے طرز پر کمال مسکینی و فروتنی و غربت و تذلل و تواضع سے اصلاح خلق کے لئے کوشش کرے اور ان لوگوں کو جو راہ راست سے بیخبر ہیں صراطِ مستقیم (جس پر چلنے سے حقیقی نجات حاصل ہوتی ہے اور اسی عالم میں بہشتی زندگی کے آثار اور قبولیت اور محبوبیت کے انوار دکھائی دیتے ہیں) دکھاوے اسی غرض سے کتاب براہین احمدیہ تالیف پائی ہے جس کے ۳۷ جز چھپ کر شائع ہو چکی ہیں اور اس کا خلاصہ مطلب اشتہار ہمراہی خط ہذا میں مندرج ہے………………… لیکن چونکہ پوری کتاب کا شائع ہونا ایک طویل مدت پر موقوف ہے اس لئے یہ قرار پایا ہے کہ بالفعل بغرض اتمام حجت یہ خط (جس کی دو سَو چالیس کاپی چھپوائی گئی ہیں، معہ اشتہار انگریزی جس کی آٹھ ہزار کاپی چھپوائی گئی ہیں) شائع کیا جاوے اور اُس کی ایک ایک کاپی بخدمت معزز برہمو صاحبان و آریہ صاحبان و نیچری صاحبان و حضرت مولوی صاحبان جو وجود خوارق و کرامت سے منکر ہیں اور اس وجہ سے اس عاجز پر بدظن ہیں ارسال کی جاویں یہ ان حضرات نیچریہ یا مولوی صاحبان کو کہا جاتا ہے جو اسلام کو مانتی ہیں اور پھر وجود خوارق اور کرامات سے منکر اور اس عاجز پر بدظن ہیں۔ یہ تجویز اپنی فکر اور اجتہاد سے نہیں قرار پائی ہے بلکہ حضرت مولیٰ کریم کی طرف سے اس کی اجازت ہوئی ہے اور بطور پیشگوئی یہ بشارت ملی ہے کہ اس خط کے مخاطب (جو خط پہنچنے پر رجوع کریں گے) ملزم و لاجواب و مغلوب وال جواب و مغارب ہو جاویں گے بناء علیہ پر یہ خط چھپوا کر آپ کی خدمت میں (اس نظر سے کہ آپ اپنی قوم میں معزز اور مشہور اور مقتدر ہیں) ارسال کیا جاتا ہے اور آپ کی کمال علم اور بزرگی کی نظر سے امید ہے کہ آپ حبۃ اللہ اس خط کے مضمون کی طرف سے توجہ فرما کر طلب حق میں کوشش کریں گی اگر اپنی اس کی طرف توجہ نہ کی تو آپ پر حجت تمام ہوگی اور اس کارروائی کے (کہ آپ کو خط رجسٹری شدہ ملا اور پھر آپ نے اُس کی طرف توجہ کو مبذول نہ فرمایا) حصہ پنجم کتاب براہین احمدیہ میں پوری تفصیل سے بحث کی جاوے گی اور اصل مدعا خط جس کی ابلاغ کیلئے میں مامور ہوا ہوں یہ ہے کہ دین حق جو خدا کی مرضی کے موافق ہے صرف اسلام ہے اور کتاب حقانی جو منجاب اللہ محفوظ اور واجب العمل ہے صرف قرآن ہے اس دین کی حقانیت اور قرآن شریف کی سچائی پر عقلی دلائل کے سوا آسمانی نشانوں کی (خوارق و پیشگوئیوں) شہادت بھی پائی جاتی ہے جس کو طالب صادق اس خاکسار (مؤلف براہین احمدیہ) کے صحبت اور صبر اختیار کرنے سے بمعائنہ چشم تصدیق کر سکتا ہے آپ کو اس دین کی حقانیت یا ان آسمانی نشانوں کی صداقت میں شک ہو تو آپ طالب صادق بن کر قادیان میں تشریف لاویں اور ایک سال تک اس عاجز کی صحبت میں رہ کر آسمانی نشانوں کو بچشم خود مشاہدہ کر لیں ولیکن اس شرط و نیت سے (جو طالب صادق کی نشانی ہے) کہ بمجرد معائنہ آسمانی نشانوں کے اِسی جگہ قادیان میں مشرف اظہار اسلام یا تصدیق خوارق سے مشرف ہو جاویں گے۔ اس شرط و نیت سے آپ آویں گے تو ضرور انشاء اللہ ، اللہ تعالیٰ آسمانی نشان مشاہدہ کرے گی۔ اس امر کا خدا کی طرف سے وعدہ ہو چکا ہے جس میں تخلف کا امکان نہیں۔ اب آپ تشریف نہ لاویں تو آپ پر خدا کا مواخذہ رہا اور بعد انتظار تین ماہ کے آپ کی عدم توجہی کا حال درج حصہ پنجم کتاب ہوگا اور اگر آپ آویں اور ایک سال تک رہ کر کوئی آسمانی نشان مشاہدہ نہ کریں تو دو سَو روپیہ ماہوار کے حساب سے آپ کو حرجانہ یا جرمانہ دیا جاوے گا۔ اس دو سَو روپیہ ماہوارہ کو آپ اپنی شایان شان نہ سمجھیں یا تو اپنی حرج اوقات کا عوض یا ہماری وعدہ خلافی کا جرمانہ جو آپ اپنی شان کے لائق قرار دیں گے ہم اُس کو بشرط استطاعت قبول کریں گے۔ طالبان حرجانہ یا جرمانہ کے لئے ضروری ہے کہ تشریف آوری سے پہلے بذریعہ رجسٹری ہم سے اجازت طلب کریں اور جو لوگ حرجانہ یا جرمانہ کے طالب نہیں ان کو اجازت طلب کرنے کی نہیں۔ اگر آپ بذات خود تشریف نہ لا سکیں تو آپ اپنا وکیل جس کے مشاہدہ کو آپ معتبر اور اپنا مشاہدہ سمجھیں روانہ فرما دیں مگر اس شرط سے کہ بعد مشاہدہ اس شخص کے آپ اظہار اسلام یا (تصدیق خوارق) میں توقف نہ فرماویں آپ اپنی شرط اظہار اسلام (تصدیق خوارق) ایک سادہ کاغذ پر جس پر چند ثقات مختلف مذاہب کی شہادتیں ہوں تحریر کر دیں جس کومتعدد انگریزی اُردو اخباروں میں شائع کیا جاوے گا ہم سے اپنی شرط دو سَو روپیہ ماہور حرجانہ یا جو آپ پسند کریں اور ہم اُس کی ادائی کی طاقت بھی رکھیں۔عدالت میں رجسٹری کرائیں بالآخر یہ عاجز حضرت خداوندکریم جلشانہ کا شکریہ ادا کرتا ہے جس نے اپنے سچے دین کے براہین ہم پر ظاہر کئے اور پھر اُن کی اشاعت کیلئے ایک آزاد سلطنت کی حمایت میں جو گورنمنٹ انگلشیہ ہے ہم کو جگہ دی۔ اس گورنمنٹ کا بھی حق شناسی کی رو سے یہ عاجز شکریہ ادا کرتا ہے۔ والسلام علی من اتبع الہدی فقط
راقم خاکسار غلام احمدی قادیانی
۸؍ مارچ ۱۸۸۵ء مطابق ۲۹؍ جمادی الاوّل ۱۳۰۲ھ)
خط بنا اِندر من مراد آبادی
اندر من مراد آبادی نے دعوت یکسالہ کیلئے چوبیس سَو روپیہ مانگا تھا جو مسلمانوں کے ایک معزز ڈیپوٹیشن کے ہاتھ بھیجا گیا اور یہ خط ساتھ لکھا گیا مگر اندرمن کہیں بھاگ گیا آخر یہ خط شائع کیا گیا۔
نقل اشتہار
منشی اندر من صاحب مراد آبادی نے میرے اس مطبوع خط (جس کی ایک ایک کاپی غیر مذاہب کے رؤساء و مقتداؤں کے نام خاکسار نے روانہ کی تھی) جس کے جواب میں پہلے نابھہ سے پھر لاہور سے یہ لکھا تھاکہ تم ہمارے پاس آؤ اور ہم سے مباحثہ کر لو اور نہ موعود اشتہار پیشگی بنک میں داخل کرو۔ وغیرہ وغیرہ۔ اس کے جواب میں خاکسار نے رقمیہ ذیل معہ دو ہزار چار سَو روپیہ نقد ایک جمعیت اہل اسلام کے ذریعہ سے ان کی خدمت میں روانہ لاہور کیا۔ جب وہ جماعت منشی صاحب کے مکان موعود میں پہنچی تو منشی صاحب کو وہاں نہ پایا۔ وہاں سے اُن کو معلوم ہوا کہ جس دن منشی صاحب نے خاکسار کے نام خط روانہ کیا تھا۔ اُسی دن سے وہ فرید کوٹ تشریف لے گئے ہوئے ہیں باوجودیکہ اُس خط میں منشی صاحب نے ایک ہفتہ تک منتظر جواب رہنے کا وعدہ تحریر کیا تھا۔ یہ امر نہایت تعجب اور تردّد کا موجب ہوا لہٰذا یہ قرار پای کہ اس رقیمہ کو بذریعہ اشتہار مشتہر کیا جاوے اور اُس کی ایک کامنشی صاحبکے نام حسب نشان مکان موجود بذریعہ رجسٹری روانہ کی جاوے۔ وہ یہ ہے۔
مشفقی اِندر من صاحب آپ نے میرے خط کا جواب نہیں دیا ایک نئی بات لکھی ہے۔ جس کی اجابت مجھ کو اپنے عہد کے رُو سے واجب نہیں ہے۔ میری طرف سے یہ عہد تھا کہ جو شخص میرے پاس آوے اور صدق دل سے ایک سال میرے پاس ٹھہرے اس کو خدا تعالیٰ کوئی نہ کوئی آسمانی نشان مشاہدہ کرادے گا جس سے قرآن اور دین اسلام کی صداقت ثابت ہو۔ اب اُس کے جواب میں اوّل تو مجھے اپنا (نابھہ میں پھر لاہور میں) بُلاتے ہیں اور خود آنے کا ارادہ ظاہر فرماتے ہیں تو مباحثہ کے لئے نہ آسمانی نشان دیکھنے کیلئے۔ اس پر طفہ یہ کہ روپیہ اشتہار پیشگی طلب فرماتے ہیں جس کا میں نے پہلے وعدہ نہیں دیا۔ اب آپ خیال فرما سکتے ہیں کہ میری تحریر سے آپ کا جواب کہاں تک متفاوت و متجاوز ہے۔ بہ بین تفاوت راہ از کجاست تابکجا۔ لہٰذا میں اپنے اسی پہلے اقرار کی رُو سے پھر آپ کو لکھتا ہوں کہ آپ ایک سال رہ کر آسمانی نشانوں کا مشاہدہ فرماویں اگر بالفرض کسی آسمانی نشان کو آپ کو مشاہدہ ہو تو میں آپ کو چوبیس سَو روپیہ دے دونگا اور اگر آپ کو پیشگی لینے پر بھی اصرار ہو تو مجھے اس سے بھی دریغ وعذر نہیں بلکہ آپ کے اطمینان کیلئے سردست چوبیس سَو روپیہ نقد ہمراہ رقیمہ ہذا ارسال خدمت ہے مگر چونکہ آپ نے یہ ایک امر زائد چاہا ہے اس لئے مجھے بھی حق پیدا ہو گیا ہے کہ میں امر زائد کے مقابلہ میں کچھ شروط آپ سے لوں جن کا ماننا آپ پر واجبات سے ہے۔
(۱) جب تک آپ کا سال گذر نہ جائے کوئی دوسرا شخص آپ کے گروہ سے زرموعود پیشگی لینے کا مطالبہ نہ کرے کیونکہ ہر شخص کو زر پیشگی دینا سہل و آسان نہیں ہے۔
(۲) اگر آپ مشاہدہ نشان آسمانی کے بعد اظہار اسلام میں توقف کریں اور اپنے عہد کو پورا نہ کریں تو پھر حرجانہ یا جرمانہ دو امر سے ایک امر ضرور ہو۔
(الف) سب لوگ آپ کے گروہ کے جو آپ کو مقتدا جانتے ہیں یا آپ کے حامی اور مربی ہیں اپنا عجز اور اسلام کے مقابلہ میں اپنے مذہب کا بے دلیل ہونا تسلیم کر لیں۔ وہ لوگ ابھی سے آپ کو اپنا وکیل مقرر کر کے اس تحریر کا آپ کو اختیار دیں۔ پھر اس پر اپنے دستخط کریں۔
(ب) درصورت تخلف وعدہ جانب سامی سے اس کا مالی جرمانہ یا معاوضہ جو آپ کی اور آپ کے مربیوں اور حامیوں اور مقتدیوں کی حیثیت کے مطابق ہو ادا کریں تا کہوہ اس مال سے اس وعدہ خلافی کی کوئی یادگار قائم کی جائے (ایک اخبار تائید اسلام میں جاری ہو یا کوئی مدرسہ تعلیم نو مسلم اہل اسلام کے لئے قائم ہو) آپ ان شرائط کو تسلیم نہ کریں تو آپ مجھ سے پیشگی روپیہ نہیں لے سکتے اور اگر آپ آسمانی نشان کے مشاہدہ کے لئے نہیں آنا چاہتے صرف مباحثہ کیلئے آنا چاہتے ہیں تو اس امر سے میری خصوصیت نہیں۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے اس اُمّتِ محمدیہ میں علماء اور فضلا اور بہت ہیں جو آپ سے مباحثہ کرنے کو تیار ہیں میں جس امر سے مامور ہوچکا ہوں اُس سے زیادہ نہیں کر سکتا اور اگر مباحثہ بھی مجھ سے ہی منظور ہے تو آپ میری کتاب کا جواب دیں۔ یہ صورت مباحثہ کی عمدہ ہے اور اس میں معاوضہ بھی زیادہ ہے۔ بجائے چوبیس سَو روپیہ کے دس ہزار روپیہ۔
(۳۰ ؍ مئی ۱۸۸۵ء)
اکبر آباد آریہ سماج کے ایک ممبر رام چرن نامی کے نام
(ایک سوال کا جواب جو بذریعہ اخبار عام مورخہ ۱۰؍ مئی ۱۸۸۵ء میں دیا گیا۔ ایڈیٹر)
آج ایک سوال از طرف رام چرن نامی جو آریہ سماج اکبر آباد کے ممبروں میں سے ہے میری نظر سے گزرا سو اگر چہ لغو اور بے حقیقت سوالات کی طرف متوجہ ہونا ناحق اپنے وقت کو ضائع کرنا ہے لیکن ایک دوست کے الحاح اور اصرار سے لکھتا ہوں۔ سوال یہ ہے کہ خدا نے شیطان کو پیدا کر کے کیوں آپ ہی لوگوں کو گناہ اور گمراہی میں ڈالا گیا اُس کا یہ ارادہ تھا کہ لوگ ہمیشہ بدی میں مبتلا رہ کر کبھی نجات نہ پاویں۔ ایسا سوال اُن لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوتا ہے جنہوں نے کبھی غور اور فکر سے دینی معارف میں نظر نہیں کی یا جن کی نگاہیں خود ایسی پست ہیں کہ بجز نکتہ چینیوں کی اور کوئی حقیقت شناسی کی بات اور محققانہ صداقت ان کو نہیں سوجھتی۔ اب واضح ہو کہ سائل کے اس سوال سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ اصول اسلام سے بکلی بیگانہ اور معارف ربانی سے سراسر اجنبی ہے کیونکہ وہ خیال کرتا ہے کہ شریعت اسلام کا یہ عقیدہ ہے کہ گویا شیطان صرف لوگوں کو بہانے اور ورغلانے کے لئے خدا تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اور اسی اپنے وسوسہ کو پختہ سمجھ کر تعلیم قرآنی پر اعتراض کرتا ہے حالانکہ تعلیم قرآنی کا ہرگز یہ منشاء نہیں ہے اور نہ یہ بات کسی آیت کلام الٰہی سے نکلتی ہے بلکہ عقیدہ حقہ اہل اسلام جس کو حضرت خداوند کریم جلشانہٗ نے خود اپنے کلام پاک میں بیان کیا ہے یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسان کے لئے دونوں اسباب نیکی اور بدی کی مہیا کر کے اور ایک وجہ کا اُس کو اختیار دے کر قدرتی طور پر ہر دو قسم کے محرک اس کے لئے مقرر کئے ہیں ایک داعی خیر یعنی ملائکہ جو نیکی کی رغبت دل میں ڈالتی ہیں۔ دوسری داعی شر یعنی شیطان جو بدی کی رغبت دل میں ڈالتا ہے لیکن خدا نے داعی خیر کو غلبہ دیا ہے کہ اُس کی تائید میں عقل عطا کی اور اپنا کلام نازل کیا اور خوارق اور نشان ظاہر کئے اور ارتکاب جرائم پر سخت سخت سزائیں مقرر کیں۔ سو خدا تعالیٰ نے انسان کو ہدایت پانے کے لئے کئی قسم کی روشنی عنایت کی اور خود اس کے دلی انصاف کو ہدایت قبول کرنے کے لئے مستعد پیدا کیا اور داعی شر بدی کی طرف رغبت دینے والا ہے تا انسان اُس کی رغبت دہی سے احتراز کر کے اُس ثواب کو حاصل کرے جو بجز اس قسم کے امتحان کے حاصل نہیں کر سکتا تھا اور ثبوت اس بات کا کہ ایسے دو داعی یعنی داعی خیر و داعی شر انسان کے لئے پائے جاتے ہیں۔ بہت صاف اور روشن ہے کیونکہ خود انسان بدیہی طور پر اپنے نفس میں احساس کرتا ہے کہ وہ ہمیشہ دو قسم کے جذبات سے متاثر ہوتا رہتا ہے کبھی اُس کے لئے ایسی حالت صاف اور نورانی میسر آ جاتی ہے کہ نیک خیالات اور نیک ارادے اس کے دل میں اُٹھتے ہیں اور کبھی اُس کی حالت ایسی پُرظلمت اور مکدر ہوتی ہے کہ طبیعت اس کی بدخیالات کی طرف رجوع کرتی ہے اور بدی کی طرف اپنے دل میں رغبت پاتا ہے۔ سو یہی دونو داعی ہیں جن کو ملائک اور شیاطین سے تعبیر کیا جاتا ہے اور حکمائے فلسفہ نے انہیں دونوں داعی خیر اور داعی شر کو دوسری طور پر بیان کیا ہے۔ یعنی اُس کے گمان میں خود انسان ہی کے وجود میں دو قسم کی قوتیں ہیں۔ ایک قوت ملکی جو داعی خیر ہے۔
دوسری قوت شیطانی جو داعی شر ہے۔ قوت ملکی نیکی کی طرف رغبت دیتی ہے اور چپکے سے انسان کے دل میں خود بخود یہ پڑ جاتا ہے کہ میں نیک کام کروں۔ جس سے میرا خدا راضی ہو اور قوت شیطانی بدی کی طرف محرک ہوتی ہے۔ غرض اسلامی عقائد اور دنیا کے کل فلاسفہ کے اعتقاد میں صرف اتنا ہی فرق ہے کہ اہل اسلام دونوں محرکوں کو خارجی طور پر دو وجود قرار دیتے ہیں اور فلسفی لوگ انہیں دونوں وجودوں کو دو قسم کی قوتیں سمجھتے ہیں جو خود انسان ہی کے نفس میں موجود ہیں لیکن اس اصل بات میں کہ فی الحقیقت انسان کے لئے دو محرک پائے جاتے ہیں خواہ وہ محرک خارجی طور پر کوئی وجود رکھتے ہوں یا قوتوں کے نام سے اُن کو موسوم کیا جاوے یہ ایسا اجماعی اعتقاد ہے جو تمام گروہ فلاسفہ اس پراتفاق رکھتے ہیں اور آج تک کسی عقلمند نے اس اجماعی اعتقاد سے انحراف اور انکار نہیں کیا وجہ یہ کہ یہ بدیہی صداقتوں میں سے ایک اعلیٰ درجہ کی بدیہی صداقت ہے جو اس شخص پر بہ کمال کھل سکتی ہے کہ جو اپنے نفس پر ایک منٹ کے لئے توجہ اور غور کرے اور دیکھے کہ کیونکر نفس اس کا مختلف جذبات میں مبتلا ہوتا رہتا ہے اور کیونکر ایک دم میں کبھی زاہدانہ خیالات اس کے دل میں بھر جاتے ہیں اور کبھی رندانہ وساوس اس کو پکڑ لیتے ہیں سو یہ ایک ایسی روشنی اور کھلی کھلی صداقت ہے جو ذوالعقول اس سے منکر نہیں ہو سکتی ہاں جو لوگ حیوانات کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں اور کبھی انہوں نے اپنے نفس کے حالات کی طرف توجہ نہیں کی ان کے دلوں میں اگر ایسے ایسے پوچ وساوس اُٹھیں تو کچھ بعید نہیں ہے کیونکہ وہ لوگ بباعث نہایت درجہ کی غفلت اور کور باطنی کے قانون قدرت الٰہی سے بکلی بے خبر اور انسانی خواص اور کیفیات سے سراسر ناواقف ہیں اور اُن کے اس جہل مرکب کا بھی یہی علاج ہے کہ وہ ہمارے اس بیان کو غور سے پڑھیں تا کہ اُن کو کچھ ندامت حاصل ہو کہ کس قدر تعصب نے اُن کو مجبور کر رکھا ہے کہ باوجود انسان کہلانے کے جو انسانیت کی عقل ہے اس سے بالکل خالی اور تہی دست ہیں اور ایسی اعلیٰ درجہ کی صداقتوں سے انکار کر رہے ہیں جن کو ایک دس برس کا بچہ بھی سمجھ سکتا ہے پھر بھی سائل اپنے سوال کے اخیر میں یہ شُبہ پیش کرتا ہے کہ قرآن شریف میں لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے آدم کو تسلی دی تھی کہ شیطان تجھ کو بہکا نہیں سکے گا لیکن اُسی قرآن میں لکھا ہے کہ شیطان نے آدم کو بہکایا یہ وسوسہ قلبی بھی سراسر قلت فہم اور کور باطنی کی وجہ سے سائل کے دل میں پیدا ہوا کیونکہ قرآن شریف میں کوئی ایسی آیت نہیں جس سے معلوم ہوتا ہو کہ شیطان آدم کو بہکانے اور گمراہ کرنے کا قصد نہیں گرے گا یا آدم اس کے بہکانے میں کبھی نہیں آئے گا۔ ہاں قرآن شریف میں ایسی آیتیں بکثرت پائی جاتی ہیں کہ خدا تعالیٰ کے نیک بندے شیطان کے بہکانے سے ایسے وبال میں نہیں پڑتے جس سے اِن کا انجام بدہو بلکہ حضرت خداوندکریم جلشانہٗ جلد تر اُن کا تدارک فرماتا ہے اور اپنے ظل حفاظت میں لے لیتا ہے سو ایسا ہی آدم کے حق میں اُس نے کہا کہ آدم صفی اللہ خلیفۃ اللہ ہے اس کاانجام ہرگز بد نہیں ہوگا اور خدا کے محبوب بندوں میں رہے گا۔ چنانچہ یہ امر ایسا ہی ظہور میں آیا اور خدا نے آخر میں بھی آدم کوایسا ہی چن لیا جیسا کہ پہلے برگزیدہ تھا۔ غرض یہ اعتراض معترض بھی سراسر تعصب اور جہالت پر مبنی ہے نہ عقلمندی اور انصاف پر۔ والسلام علی من اتبع الہدی۔ فقط
دیوسماج کے بانی مبانی پنڈت شونرائن صاحب سیتانند اَگنی ہوتری سے خط و کتاب
الہام ایک القاء غیبی ہے کہ جس کا حصول کسی طرح کی سوچ اور تردد اور تفکر اور تدبر پر موقوف نہیں ہوتا اور ایک واضح اور منکشف احساس سے کہ جیسے سامع کو متکلم سے یا مضروب کو ضارب سے یا ملموس کو لامس سے ہو محسوس ہوتا ہے اور اس سے نفس کو مثل حرکات فکریہ کے کوئی الم روحانی نہیں پہنچتا بلکہ جیسے عاشق اپنے معشوق کی رویت سے بلاتکلف انشراح اور انبساط پاتا ہے ویسا ہی روح کو الہام سے ایک ازلی اور قدیمی رابطہ ہے کہ جس سے روح لذت اُٹھاتی ہے۔ غرض یہ ایک منجاب اللہ اعلام لذیر ہے کہ جس کو نفس فی الروع اور وحی بھی کہتے ہیں۔
دلیل لمی نمبر اوّل الہام کی ضرورت
کوئی قانون عاصم ہمارے پاس ایسا نہیں ہے کہ جس کے ذریعہ سے ہم لزوماً غلطی سے بچ سکیں یہی باعث ہے کہ جن حکیموں نے قواعد منطق کے بنائے اور مسائل مناظرہ کے ایجاد کئے اور دلائل فلسفہ کے گھڑے وہ بھی غلطیوں میں ڈوبتے رہے اور صدہا طور کے باطل خیال اور جھوٹا فلسفہ اور نکمی باتیں اپنی نادانی کی یادگاریں چھوڑ گئے۔ پس اس سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ اپنی ہی تحقیقات سے جمیع امور حقّہ اور عقائد صحیحہ پر پہنچ جانا اور کہیں غلطی نہ کرنا ایک محال عادی ہے کیونکہ آج تک ہم نے کوئی فرد بشر ایسا نہیں دیکھا اور نہ سنا اور نہ کسی تاریخی کتاب میں لکھا ہوا پایا یا جو اپنی تمام نظر اور فکر میں سہو اور خطا سے معصوم ہو۔ پس بذریعہ قیاس استقرائی کے یہ صحیح اور سچا نتیجہ نکلتا ہے کہ وجود ایسے اشخاس کا جنہوں نے صرف قانون قدرت میں غور اور فکر کر کے اور اپنے ذخیرہ کانشنس کو واقعات عالم سے مطابقت دے کر اپنی تحقیقات کو ایسے اعلیٰ پایہ صداقت پر پہنچا دیا ہو کہ جس میں غلطی کا نکلنا غیر ممکن ہو خود عادتاً غیر ممکن ہو۔
اب بعد اس کے جس امر میں آپ بحث کر سکتے ہیں اور جس بحث کا آپ کو حق پہنچتا ہے وہ یہ ہے کہ اس کے برخلاف ہمارے اس استقرا کے کوئی نظیر دے کر ہمارے اس استقرا کو توڑ دیں یعنی ازردے وضع مستقیم مناظرہ کے جواب آپ کا صرف اس امر میں محصور ہے کہ اگر آپ کی نظر میں ہمارا اِستقرا غیر صحیح ہے تو آپ بفرض بطال ہمارے اس استقرا کے کوئی ایسا فرد کامل ارباب نظر اور فکر اور حدس میں سے پیش کریں کہ جس کی تمام راؤں اور فیصلوں اور جج منٹوں میں کوئی نقص نکالنا ہرگز ممکن نہ ہو اور زبان اور قلم اُس کی سہود خطا سے بالکل معصوم ہوتا ہم بھی تو دیکھیں کہ وہ درحقیقت ایسا ہی معصوم ہے یا کیا حال ہے۔ اگر معصوم نکلے گا تو بیشک آپ سچے اور ہم جھوٹے ورنہ صاف ظاہر ہے کہ جس حالت میں نہ خود انسان اپنے علم اور واقفیت سے غلطی سے بچ سکے اور نہ خدا (جو رحیم و کریم اور ہر ایک سہود خطا سے مبرا اور ہر امر کی اصل حقیقت سے واقف ہے) بذریعہ اپنے سچے الہام کے اپنے بندوں کی مدد کرے تو پھر ہم عاجز بندے کیونکر ظلمات جہل اور خطا سے باہر آویں اور کیونکہ آفات شک و شُبہ سے نجات پائیں لہٰذا میں مستحکم رائے سے یہ بات ظاہر کرتا ہوں کہ مقتضائے حکمت اور رحمت اور بندہ پروری اُس قادر مطلق کا یہی ہے کہ وقتاً فوقتاً جب مصلحت دیکھے ایسے لوگوں کو پیدا کرتا رہے کہ عقائد حقہ کے جاننے اور اخلاق صحیحہ کے معلوم کرنے میں خدا کی طرف سے الہام پائیں اور تفہیم تعلیم کا ملکہ وہبی رکھیں تا کہ نفوس بشریہ کی سچی ہدایت کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اپنی سعادت مطلوبہ سے محروم نہ رہیں۔
راقم آپ کا نیاز مند
غلام احمد عفی عنہ
۲۱؍ مئی ۱۸۷۹ء)
(۲۰؍ اپریل ۱۸۸۳ء مطابق ۱۲؍ جمادی الثانی ۱۳۰۰ھ)
خط جو مختلف مذاہب کے لیڈروں کے نام بھیجا گیا
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
بعد ما وجب گزارش ضروری یہ ہے کہ یہ عاجز (مؤلف براہین احمدیہ) حضرت قادر مطلق جلشانہٗ کی طرف سے مامور ہوا ہے کہ نبی ناصری اسرائیلی (مسیح) کے طرز پر کمال مسکینی و فروتنی و غربت و تذلل و تواضع سے اصلاح خلق کے لئے کوشش کرے اور ان لوگوں کو جو راہ راست سے بیخبر ہیں صراطِ مستقیم (جس پر چلنے سے حقیقی نجات حاصل ہوتی ہے اور اسی عالم میں بہشتی زندگی کے آثار اور قبولیت اور محبوبیت کے انوار دکھائی دیتے ہیں) دکھاوے اسی غرض سے کتاب براہین احمدیہ تالیف پائی ہے جس کے ۳۷ جز چھپ کر شائع ہو چکی ہیں اور اس کا خلاصہ مطلب اشتہار ہمراہی خط ہذا میں مندرج ہے………………… لیکن چونکہ پوری کتاب کا شائع ہونا ایک طویل مدت پر موقوف ہے اس لئے یہ قرار پایا ہے کہ بالفعل بغرض اتمام حجت یہ خط (جس کی دو سَو چالیس کاپی چھپوائی گئی ہیں، معہ اشتہار انگریزی جس کی آٹھ ہزار کاپی چھپوائی گئی ہیں) شائع کیا جاوے اور اُس کی ایک ایک کاپی بخدمت معزز برہمو صاحبان و آریہ صاحبان و نیچری صاحبان و حضرت مولوی صاحبان جو وجود خوارق و کرامت سے منکر ہیں اور اس وجہ سے اس عاجز پر بدظن ہیں ارسال کی جاویں یہ ان حضرات نیچریہ یا مولوی صاحبان کو کہا جاتا ہے جو اسلام کو مانتی ہیں اور پھر وجود خوارق اور کرامات سے منکر اور اس عاجز پر بدظن ہیں۔ یہ تجویز اپنی فکر اور اجتہاد سے نہیں قرار پائی ہے بلکہ حضرت مولیٰ کریم کی طرف سے اس کی اجازت ہوئی ہے اور بطور پیشگوئی یہ بشارت ملی ہے کہ اس خط کے مخاطب (جو خط پہنچنے پر رجوع کریں گے) ملزم و لاجواب و مغلوب وال جواب و مغارب ہو جاویں گے بناء علیہ پر یہ خط چھپوا کر آپ کی خدمت میں (اس نظر سے کہ آپ اپنی قوم میں معزز اور مشہور اور مقتدر ہیں) ارسال کیا جاتا ہے اور آپ کی کمال علم اور بزرگی کی نظر سے امید ہے کہ آپ حبۃ اللہ اس خط کے مضمون کی طرف سے توجہ فرما کر طلب حق میں کوشش کریں گی اگر اپنی اس کی طرف توجہ نہ کی تو آپ پر حجت تمام ہوگی اور اس کارروائی کے (کہ آپ کو خط رجسٹری شدہ ملا اور پھر آپ نے اُس کی طرف توجہ کو مبذول نہ فرمایا) حصہ پنجم کتاب براہین احمدیہ میں پوری تفصیل سے بحث کی جاوے گی اور اصل مدعا خط جس کی ابلاغ کیلئے میں مامور ہوا ہوں یہ ہے کہ دین حق جو خدا کی مرضی کے موافق ہے صرف اسلام ہے اور کتاب حقانی جو منجاب اللہ محفوظ اور واجب العمل ہے صرف قرآن ہے اس دین کی حقانیت اور قرآن شریف کی سچائی پر عقلی دلائل کے سوا آسمانی نشانوں کی (خوارق و پیشگوئیوں) شہادت بھی پائی جاتی ہے جس کو طالب صادق اس خاکسار (مؤلف براہین احمدیہ) کے صحبت اور صبر اختیار کرنے سے بمعائنہ چشم تصدیق کر سکتا ہے آپ کو اس دین کی حقانیت یا ان آسمانی نشانوں کی صداقت میں شک ہو تو آپ طالب صادق بن کر قادیان میں تشریف لاویں اور ایک سال تک اس عاجز کی صحبت میں رہ کر آسمانی نشانوں کو بچشم خود مشاہدہ کر لیں ولیکن اس شرط و نیت سے (جو طالب صادق کی نشانی ہے) کہ بمجرد معائنہ آسمانی نشانوں کے اِسی جگہ قادیان میں مشرف اظہار اسلام یا تصدیق خوارق سے مشرف ہو جاویں گے۔ اس شرط و نیت سے آپ آویں گے تو ضرور انشاء اللہ ، اللہ تعالیٰ آسمانی نشان مشاہدہ کرے گی۔ اس امر کا خدا کی طرف سے وعدہ ہو چکا ہے جس میں تخلف کا امکان نہیں۔ اب آپ تشریف نہ لاویں تو آپ پر خدا کا مواخذہ رہا اور بعد انتظار تین ماہ کے آپ کی عدم توجہی کا حال درج حصہ پنجم کتاب ہوگا اور اگر آپ آویں اور ایک سال تک رہ کر کوئی آسمانی نشان مشاہدہ نہ کریں تو دو سَو روپیہ ماہوار کے حساب سے آپ کو حرجانہ یا جرمانہ دیا جاوے گا۔ اس دو سَو روپیہ ماہوارہ کو آپ اپنی شایان شان نہ سمجھیں یا تو اپنی حرج اوقات کا عوض یا ہماری وعدہ خلافی کا جرمانہ جو آپ اپنی شان کے لائق قرار دیں گے ہم اُس کو بشرط استطاعت قبول کریں گے۔ طالبان حرجانہ یا جرمانہ کے لئے ضروری ہے کہ تشریف آوری سے پہلے بذریعہ رجسٹری ہم سے اجازت طلب کریں اور جو لوگ حرجانہ یا جرمانہ کے طالب نہیں ان کو اجازت طلب کرنے کی نہیں۔ اگر آپ بذات خود تشریف نہ لا سکیں تو آپ اپنا وکیل جس کے مشاہدہ کو آپ معتبر اور اپنا مشاہدہ سمجھیں روانہ فرما دیں مگر اس شرط سے کہ بعد مشاہدہ اس شخص کے آپ اظہار اسلام یا (تصدیق خوارق) میں توقف نہ فرماویں آپ اپنی شرط اظہار اسلام (تصدیق خوارق) ایک سادہ کاغذ پر جس پر چند ثقات مختلف مذاہب کی شہادتیں ہوں تحریر کر دیں جس کومتعدد انگریزی اُردو اخباروں میں شائع کیا جاوے گا ہم سے اپنی شرط دو سَو روپیہ ماہور حرجانہ یا جو آپ پسند کریں اور ہم اُس کی ادائی کی طاقت بھی رکھیں۔عدالت میں رجسٹری کرائیں بالآخر یہ عاجز حضرت خداوندکریم جلشانہ کا شکریہ ادا کرتا ہے جس نے اپنے سچے دین کے براہین ہم پر ظاہر کئے اور پھر اُن کی اشاعت کیلئے ایک آزاد سلطنت کی حمایت میں جو گورنمنٹ انگلشیہ ہے ہم کو جگہ دی۔ اس گورنمنٹ کا بھی حق شناسی کی رو سے یہ عاجز شکریہ ادا کرتا ہے۔ والسلام علی من اتبع الہدی فقط
راقم خاکسار غلام احمدی قادیانی
۸؍ مارچ ۱۸۸۵ء مطابق ۲۹؍ جمادی الاوّل ۱۳۰۲ھ)
خط بنا اِندر من مراد آبادی
اندر من مراد آبادی نے دعوت یکسالہ کیلئے چوبیس سَو روپیہ مانگا تھا جو مسلمانوں کے ایک معزز ڈیپوٹیشن کے ہاتھ بھیجا گیا اور یہ خط ساتھ لکھا گیا مگر اندرمن کہیں بھاگ گیا آخر یہ خط شائع کیا گیا۔
نقل اشتہار
منشی اندر من صاحب مراد آبادی نے میرے اس مطبوع خط (جس کی ایک ایک کاپی غیر مذاہب کے رؤساء و مقتداؤں کے نام خاکسار نے روانہ کی تھی) جس کے جواب میں پہلے نابھہ سے پھر لاہور سے یہ لکھا تھاکہ تم ہمارے پاس آؤ اور ہم سے مباحثہ کر لو اور نہ موعود اشتہار پیشگی بنک میں داخل کرو۔ وغیرہ وغیرہ۔ اس کے جواب میں خاکسار نے رقمیہ ذیل معہ دو ہزار چار سَو روپیہ نقد ایک جمعیت اہل اسلام کے ذریعہ سے ان کی خدمت میں روانہ لاہور کیا۔ جب وہ جماعت منشی صاحب کے مکان موعود میں پہنچی تو منشی صاحب کو وہاں نہ پایا۔ وہاں سے اُن کو معلوم ہوا کہ جس دن منشی صاحب نے خاکسار کے نام خط روانہ کیا تھا۔ اُسی دن سے وہ فرید کوٹ تشریف لے گئے ہوئے ہیں باوجودیکہ اُس خط میں منشی صاحب نے ایک ہفتہ تک منتظر جواب رہنے کا وعدہ تحریر کیا تھا۔ یہ امر نہایت تعجب اور تردّد کا موجب ہوا لہٰذا یہ قرار پای کہ اس رقیمہ کو بذریعہ اشتہار مشتہر کیا جاوے اور اُس کی ایک کامنشی صاحبکے نام حسب نشان مکان موجود بذریعہ رجسٹری روانہ کی جاوے۔ وہ یہ ہے۔
مشفقی اِندر من صاحب آپ نے میرے خط کا جواب نہیں دیا ایک نئی بات لکھی ہے۔ جس کی اجابت مجھ کو اپنے عہد کے رُو سے واجب نہیں ہے۔ میری طرف سے یہ عہد تھا کہ جو شخص میرے پاس آوے اور صدق دل سے ایک سال میرے پاس ٹھہرے اس کو خدا تعالیٰ کوئی نہ کوئی آسمانی نشان مشاہدہ کرادے گا جس سے قرآن اور دین اسلام کی صداقت ثابت ہو۔ اب اُس کے جواب میں اوّل تو مجھے اپنا (نابھہ میں پھر لاہور میں) بُلاتے ہیں اور خود آنے کا ارادہ ظاہر فرماتے ہیں تو مباحثہ کے لئے نہ آسمانی نشان دیکھنے کیلئے۔ اس پر طفہ یہ کہ روپیہ اشتہار پیشگی طلب فرماتے ہیں جس کا میں نے پہلے وعدہ نہیں دیا۔ اب آپ خیال فرما سکتے ہیں کہ میری تحریر سے آپ کا جواب کہاں تک متفاوت و متجاوز ہے۔ بہ بین تفاوت راہ از کجاست تابکجا۔ لہٰذا میں اپنے اسی پہلے اقرار کی رُو سے پھر آپ کو لکھتا ہوں کہ آپ ایک سال رہ کر آسمانی نشانوں کا مشاہدہ فرماویں اگر بالفرض کسی آسمانی نشان کو آپ کو مشاہدہ ہو تو میں آپ کو چوبیس سَو روپیہ دے دونگا اور اگر آپ کو پیشگی لینے پر بھی اصرار ہو تو مجھے اس سے بھی دریغ وعذر نہیں بلکہ آپ کے اطمینان کیلئے سردست چوبیس سَو روپیہ نقد ہمراہ رقیمہ ہذا ارسال خدمت ہے مگر چونکہ آپ نے یہ ایک امر زائد چاہا ہے اس لئے مجھے بھی حق پیدا ہو گیا ہے کہ میں امر زائد کے مقابلہ میں کچھ شروط آپ سے لوں جن کا ماننا آپ پر واجبات سے ہے۔
(۱) جب تک آپ کا سال گذر نہ جائے کوئی دوسرا شخص آپ کے گروہ سے زرموعود پیشگی لینے کا مطالبہ نہ کرے کیونکہ ہر شخص کو زر پیشگی دینا سہل و آسان نہیں ہے۔
(۲) اگر آپ مشاہدہ نشان آسمانی کے بعد اظہار اسلام میں توقف کریں اور اپنے عہد کو پورا نہ کریں تو پھر حرجانہ یا جرمانہ دو امر سے ایک امر ضرور ہو۔
(الف) سب لوگ آپ کے گروہ کے جو آپ کو مقتدا جانتے ہیں یا آپ کے حامی اور مربی ہیں اپنا عجز اور اسلام کے مقابلہ میں اپنے مذہب کا بے دلیل ہونا تسلیم کر لیں۔ وہ لوگ ابھی سے آپ کو اپنا وکیل مقرر کر کے اس تحریر کا آپ کو اختیار دیں۔ پھر اس پر اپنے دستخط کریں۔
(ب) درصورت تخلف وعدہ جانب سامی سے اس کا مالی جرمانہ یا معاوضہ جو آپ کی اور آپ کے مربیوں اور حامیوں اور مقتدیوں کی حیثیت کے مطابق ہو ادا کریں تا کہوہ اس مال سے اس وعدہ خلافی کی کوئی یادگار قائم کی جائے (ایک اخبار تائید اسلام میں جاری ہو یا کوئی مدرسہ تعلیم نو مسلم اہل اسلام کے لئے قائم ہو) آپ ان شرائط کو تسلیم نہ کریں تو آپ مجھ سے پیشگی روپیہ نہیں لے سکتے اور اگر آپ آسمانی نشان کے مشاہدہ کے لئے نہیں آنا چاہتے صرف مباحثہ کیلئے آنا چاہتے ہیں تو اس امر سے میری خصوصیت نہیں۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے اس اُمّتِ محمدیہ میں علماء اور فضلا اور بہت ہیں جو آپ سے مباحثہ کرنے کو تیار ہیں میں جس امر سے مامور ہوچکا ہوں اُس سے زیادہ نہیں کر سکتا اور اگر مباحثہ بھی مجھ سے ہی منظور ہے تو آپ میری کتاب کا جواب دیں۔ یہ صورت مباحثہ کی عمدہ ہے اور اس میں معاوضہ بھی زیادہ ہے۔ بجائے چوبیس سَو روپیہ کے دس ہزار روپیہ۔
(۳۰ ؍ مئی ۱۸۸۵ء)
اکبر آباد آریہ سماج کے ایک ممبر رام چرن نامی کے نام
(ایک سوال کا جواب جو بذریعہ اخبار عام مورخہ ۱۰؍ مئی ۱۸۸۵ء میں دیا گیا۔ ایڈیٹر)
آج ایک سوال از طرف رام چرن نامی جو آریہ سماج اکبر آباد کے ممبروں میں سے ہے میری نظر سے گزرا سو اگر چہ لغو اور بے حقیقت سوالات کی طرف متوجہ ہونا ناحق اپنے وقت کو ضائع کرنا ہے لیکن ایک دوست کے الحاح اور اصرار سے لکھتا ہوں۔ سوال یہ ہے کہ خدا نے شیطان کو پیدا کر کے کیوں آپ ہی لوگوں کو گناہ اور گمراہی میں ڈالا گیا اُس کا یہ ارادہ تھا کہ لوگ ہمیشہ بدی میں مبتلا رہ کر کبھی نجات نہ پاویں۔ ایسا سوال اُن لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوتا ہے جنہوں نے کبھی غور اور فکر سے دینی معارف میں نظر نہیں کی یا جن کی نگاہیں خود ایسی پست ہیں کہ بجز نکتہ چینیوں کی اور کوئی حقیقت شناسی کی بات اور محققانہ صداقت ان کو نہیں سوجھتی۔ اب واضح ہو کہ سائل کے اس سوال سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ اصول اسلام سے بکلی بیگانہ اور معارف ربانی سے سراسر اجنبی ہے کیونکہ وہ خیال کرتا ہے کہ شریعت اسلام کا یہ عقیدہ ہے کہ گویا شیطان صرف لوگوں کو بہانے اور ورغلانے کے لئے خدا تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اور اسی اپنے وسوسہ کو پختہ سمجھ کر تعلیم قرآنی پر اعتراض کرتا ہے حالانکہ تعلیم قرآنی کا ہرگز یہ منشاء نہیں ہے اور نہ یہ بات کسی آیت کلام الٰہی سے نکلتی ہے بلکہ عقیدہ حقہ اہل اسلام جس کو حضرت خداوند کریم جلشانہٗ نے خود اپنے کلام پاک میں بیان کیا ہے یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسان کے لئے دونوں اسباب نیکی اور بدی کی مہیا کر کے اور ایک وجہ کا اُس کو اختیار دے کر قدرتی طور پر ہر دو قسم کے محرک اس کے لئے مقرر کئے ہیں ایک داعی خیر یعنی ملائکہ جو نیکی کی رغبت دل میں ڈالتی ہیں۔ دوسری داعی شر یعنی شیطان جو بدی کی رغبت دل میں ڈالتا ہے لیکن خدا نے داعی خیر کو غلبہ دیا ہے کہ اُس کی تائید میں عقل عطا کی اور اپنا کلام نازل کیا اور خوارق اور نشان ظاہر کئے اور ارتکاب جرائم پر سخت سخت سزائیں مقرر کیں۔ سو خدا تعالیٰ نے انسان کو ہدایت پانے کے لئے کئی قسم کی روشنی عنایت کی اور خود اس کے دلی انصاف کو ہدایت قبول کرنے کے لئے مستعد پیدا کیا اور داعی شر بدی کی طرف رغبت دینے والا ہے تا انسان اُس کی رغبت دہی سے احتراز کر کے اُس ثواب کو حاصل کرے جو بجز اس قسم کے امتحان کے حاصل نہیں کر سکتا تھا اور ثبوت اس بات کا کہ ایسے دو داعی یعنی داعی خیر و داعی شر انسان کے لئے پائے جاتے ہیں۔ بہت صاف اور روشن ہے کیونکہ خود انسان بدیہی طور پر اپنے نفس میں احساس کرتا ہے کہ وہ ہمیشہ دو قسم کے جذبات سے متاثر ہوتا رہتا ہے کبھی اُس کے لئے ایسی حالت صاف اور نورانی میسر آ جاتی ہے کہ نیک خیالات اور نیک ارادے اس کے دل میں اُٹھتے ہیں اور کبھی اُس کی حالت ایسی پُرظلمت اور مکدر ہوتی ہے کہ طبیعت اس کی بدخیالات کی طرف رجوع کرتی ہے اور بدی کی طرف اپنے دل میں رغبت پاتا ہے۔ سو یہی دونو داعی ہیں جن کو ملائک اور شیاطین سے تعبیر کیا جاتا ہے اور حکمائے فلسفہ نے انہیں دونوں داعی خیر اور داعی شر کو دوسری طور پر بیان کیا ہے۔ یعنی اُس کے گمان میں خود انسان ہی کے وجود میں دو قسم کی قوتیں ہیں۔ ایک قوت ملکی جو داعی خیر ہے۔
دوسری قوت شیطانی جو داعی شر ہے۔ قوت ملکی نیکی کی طرف رغبت دیتی ہے اور چپکے سے انسان کے دل میں خود بخود یہ پڑ جاتا ہے کہ میں نیک کام کروں۔ جس سے میرا خدا راضی ہو اور قوت شیطانی بدی کی طرف محرک ہوتی ہے۔ غرض اسلامی عقائد اور دنیا کے کل فلاسفہ کے اعتقاد میں صرف اتنا ہی فرق ہے کہ اہل اسلام دونوں محرکوں کو خارجی طور پر دو وجود قرار دیتے ہیں اور فلسفی لوگ انہیں دونوں وجودوں کو دو قسم کی قوتیں سمجھتے ہیں جو خود انسان ہی کے نفس میں موجود ہیں لیکن اس اصل بات میں کہ فی الحقیقت انسان کے لئے دو محرک پائے جاتے ہیں خواہ وہ محرک خارجی طور پر کوئی وجود رکھتے ہوں یا قوتوں کے نام سے اُن کو موسوم کیا جاوے یہ ایسا اجماعی اعتقاد ہے جو تمام گروہ فلاسفہ اس پراتفاق رکھتے ہیں اور آج تک کسی عقلمند نے اس اجماعی اعتقاد سے انحراف اور انکار نہیں کیا وجہ یہ کہ یہ بدیہی صداقتوں میں سے ایک اعلیٰ درجہ کی بدیہی صداقت ہے جو اس شخص پر بہ کمال کھل سکتی ہے کہ جو اپنے نفس پر ایک منٹ کے لئے توجہ اور غور کرے اور دیکھے کہ کیونکر نفس اس کا مختلف جذبات میں مبتلا ہوتا رہتا ہے اور کیونکر ایک دم میں کبھی زاہدانہ خیالات اس کے دل میں بھر جاتے ہیں اور کبھی رندانہ وساوس اس کو پکڑ لیتے ہیں سو یہ ایک ایسی روشنی اور کھلی کھلی صداقت ہے جو ذوالعقول اس سے منکر نہیں ہو سکتی ہاں جو لوگ حیوانات کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں اور کبھی انہوں نے اپنے نفس کے حالات کی طرف توجہ نہیں کی ان کے دلوں میں اگر ایسے ایسے پوچ وساوس اُٹھیں تو کچھ بعید نہیں ہے کیونکہ وہ لوگ بباعث نہایت درجہ کی غفلت اور کور باطنی کے قانون قدرت الٰہی سے بکلی بے خبر اور انسانی خواص اور کیفیات سے سراسر ناواقف ہیں اور اُن کے اس جہل مرکب کا بھی یہی علاج ہے کہ وہ ہمارے اس بیان کو غور سے پڑھیں تا کہ اُن کو کچھ ندامت حاصل ہو کہ کس قدر تعصب نے اُن کو مجبور کر رکھا ہے کہ باوجود انسان کہلانے کے جو انسانیت کی عقل ہے اس سے بالکل خالی اور تہی دست ہیں اور ایسی اعلیٰ درجہ کی صداقتوں سے انکار کر رہے ہیں جن کو ایک دس برس کا بچہ بھی سمجھ سکتا ہے پھر بھی سائل اپنے سوال کے اخیر میں یہ شُبہ پیش کرتا ہے کہ قرآن شریف میں لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے آدم کو تسلی دی تھی کہ شیطان تجھ کو بہکا نہیں سکے گا لیکن اُسی قرآن میں لکھا ہے کہ شیطان نے آدم کو بہکایا یہ وسوسہ قلبی بھی سراسر قلت فہم اور کور باطنی کی وجہ سے سائل کے دل میں پیدا ہوا کیونکہ قرآن شریف میں کوئی ایسی آیت نہیں جس سے معلوم ہوتا ہو کہ شیطان آدم کو بہکانے اور گمراہ کرنے کا قصد نہیں گرے گا یا آدم اس کے بہکانے میں کبھی نہیں آئے گا۔ ہاں قرآن شریف میں ایسی آیتیں بکثرت پائی جاتی ہیں کہ خدا تعالیٰ کے نیک بندے شیطان کے بہکانے سے ایسے وبال میں نہیں پڑتے جس سے اِن کا انجام بدہو بلکہ حضرت خداوندکریم جلشانہٗ جلد تر اُن کا تدارک فرماتا ہے اور اپنے ظل حفاظت میں لے لیتا ہے سو ایسا ہی آدم کے حق میں اُس نے کہا کہ آدم صفی اللہ خلیفۃ اللہ ہے اس کاانجام ہرگز بد نہیں ہوگا اور خدا کے محبوب بندوں میں رہے گا۔ چنانچہ یہ امر ایسا ہی ظہور میں آیا اور خدا نے آخر میں بھی آدم کوایسا ہی چن لیا جیسا کہ پہلے برگزیدہ تھا۔ غرض یہ اعتراض معترض بھی سراسر تعصب اور جہالت پر مبنی ہے نہ عقلمندی اور انصاف پر۔ والسلام علی من اتبع الہدی۔ فقط
دیوسماج کے بانی مبانی پنڈت شونرائن صاحب سیتانند اَگنی ہوتری سے خط و کتاب
الہام ایک القاء غیبی ہے کہ جس کا حصول کسی طرح کی سوچ اور تردد اور تفکر اور تدبر پر موقوف نہیں ہوتا اور ایک واضح اور منکشف احساس سے کہ جیسے سامع کو متکلم سے یا مضروب کو ضارب سے یا ملموس کو لامس سے ہو محسوس ہوتا ہے اور اس سے نفس کو مثل حرکات فکریہ کے کوئی الم روحانی نہیں پہنچتا بلکہ جیسے عاشق اپنے معشوق کی رویت سے بلاتکلف انشراح اور انبساط پاتا ہے ویسا ہی روح کو الہام سے ایک ازلی اور قدیمی رابطہ ہے کہ جس سے روح لذت اُٹھاتی ہے۔ غرض یہ ایک منجاب اللہ اعلام لذیر ہے کہ جس کو نفس فی الروع اور وحی بھی کہتے ہیں۔
دلیل لمی نمبر اوّل الہام کی ضرورت
کوئی قانون عاصم ہمارے پاس ایسا نہیں ہے کہ جس کے ذریعہ سے ہم لزوماً غلطی سے بچ سکیں یہی باعث ہے کہ جن حکیموں نے قواعد منطق کے بنائے اور مسائل مناظرہ کے ایجاد کئے اور دلائل فلسفہ کے گھڑے وہ بھی غلطیوں میں ڈوبتے رہے اور صدہا طور کے باطل خیال اور جھوٹا فلسفہ اور نکمی باتیں اپنی نادانی کی یادگاریں چھوڑ گئے۔ پس اس سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ اپنی ہی تحقیقات سے جمیع امور حقّہ اور عقائد صحیحہ پر پہنچ جانا اور کہیں غلطی نہ کرنا ایک محال عادی ہے کیونکہ آج تک ہم نے کوئی فرد بشر ایسا نہیں دیکھا اور نہ سنا اور نہ کسی تاریخی کتاب میں لکھا ہوا پایا یا جو اپنی تمام نظر اور فکر میں سہو اور خطا سے معصوم ہو۔ پس بذریعہ قیاس استقرائی کے یہ صحیح اور سچا نتیجہ نکلتا ہے کہ وجود ایسے اشخاس کا جنہوں نے صرف قانون قدرت میں غور اور فکر کر کے اور اپنے ذخیرہ کانشنس کو واقعات عالم سے مطابقت دے کر اپنی تحقیقات کو ایسے اعلیٰ پایہ صداقت پر پہنچا دیا ہو کہ جس میں غلطی کا نکلنا غیر ممکن ہو خود عادتاً غیر ممکن ہو۔
اب بعد اس کے جس امر میں آپ بحث کر سکتے ہیں اور جس بحث کا آپ کو حق پہنچتا ہے وہ یہ ہے کہ اس کے برخلاف ہمارے اس استقرا کے کوئی نظیر دے کر ہمارے اس استقرا کو توڑ دیں یعنی ازردے وضع مستقیم مناظرہ کے جواب آپ کا صرف اس امر میں محصور ہے کہ اگر آپ کی نظر میں ہمارا اِستقرا غیر صحیح ہے تو آپ بفرض بطال ہمارے اس استقرا کے کوئی ایسا فرد کامل ارباب نظر اور فکر اور حدس میں سے پیش کریں کہ جس کی تمام راؤں اور فیصلوں اور جج منٹوں میں کوئی نقص نکالنا ہرگز ممکن نہ ہو اور زبان اور قلم اُس کی سہود خطا سے بالکل معصوم ہوتا ہم بھی تو دیکھیں کہ وہ درحقیقت ایسا ہی معصوم ہے یا کیا حال ہے۔ اگر معصوم نکلے گا تو بیشک آپ سچے اور ہم جھوٹے ورنہ صاف ظاہر ہے کہ جس حالت میں نہ خود انسان اپنے علم اور واقفیت سے غلطی سے بچ سکے اور نہ خدا (جو رحیم و کریم اور ہر ایک سہود خطا سے مبرا اور ہر امر کی اصل حقیقت سے واقف ہے) بذریعہ اپنے سچے الہام کے اپنے بندوں کی مدد کرے تو پھر ہم عاجز بندے کیونکر ظلمات جہل اور خطا سے باہر آویں اور کیونکہ آفات شک و شُبہ سے نجات پائیں لہٰذا میں مستحکم رائے سے یہ بات ظاہر کرتا ہوں کہ مقتضائے حکمت اور رحمت اور بندہ پروری اُس قادر مطلق کا یہی ہے کہ وقتاً فوقتاً جب مصلحت دیکھے ایسے لوگوں کو پیدا کرتا رہے کہ عقائد حقہ کے جاننے اور اخلاق صحیحہ کے معلوم کرنے میں خدا کی طرف سے الہام پائیں اور تفہیم تعلیم کا ملکہ وہبی رکھیں تا کہ نفوس بشریہ کی سچی ہدایت کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اپنی سعادت مطلوبہ سے محروم نہ رہیں۔
راقم آپ کا نیاز مند
غلام احمد عفی عنہ
۲۱؍ مئی ۱۸۷۹ء)