• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

مکتوبات احمدیہ

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
ایک یہ کہ عقلی دلائل سے کسی دین کے عقائد صاف اور پاک ثابت ہوں۔ دوسری یہ کہ جو دنی اختیارکرنے کی علت غائی ہے یعنی نجات اس کے علامات اور انوار اس دین کی متابعت سے ظاہر ہو جائیں کیونکہ جو کتاب دعویٰ کرتی ہے کہ میں اندرونی بیماریوں اور تاریکیوں سے لوگوں کو شفا دیتی ہوں بجز میرے دوسری کتاب نہیں دیتی تو ایسی کتاب کے ضرور ہے کہ اپنا ثبوت دے۔ پس انہیں دونوں طریقوں کی نسبت ثابت کر کے دکھلایا گیا ہے کہ یہ صرف اسلام میں پائے جاتے ہیں۔ اسلام وہ پاک مذہب ہے کہ جس کی بنیاد عقائد صحیحہ پر ہے کہ جس میں سراسر جلال الٰہی ظاہر ہوتا ہے۔ قرآن شریف ہر ایک جزو کمال خدا کیلئے ثابت کرتا ہے اور ہر ایک نقص و زوال سے اس کو پاک ٹھہراتا ہے۔ اس کی نسبت قرآن شریف کی یہ تعلیم ہے کہ وہ بیچون و بیچگون ہے اور ہرایک شبہ و مانند سے منزہ ہے اور ہر ایک شکل اور مثال سے مبرا ہے۔ وہ مبداء ہے عام فیضوں کا اور جامع ہے تمام خوبیوں کا اور مرجع ہے تمام امور کا اور خالق ہے تمام کائنات کا اور پاک ہے ہر ایک کمزوری اور ناقدرتی اور نقصان سے اور واحد ہے اپنی ذات میں اور صفات میں اور الوہیت میں اور معبودیت میں۔ نہیں مشابہ اس سے کوئی چیز اور نہیں جائز کسی سے اس کا اتحاد اور حلول۔ مگر افسوس آپ کا اعتقاد سراسر اس کے برخلاف ہے اور ایسی روشنی چھوڑ کر تاریکی ظلمت میں خوش ہو رہے ہیں۔ اب چونکہ میں نے اس روشنی کو آپ جیسے لوگوں کی سمجھ کے موافق نہایت صاف اور سلیس اُردو میں کھول کر دکھلایا ہے اور اس بات کا قطعی فیصلہ کر دیا ہے کہ آپ لوگ ایک سخت ظلمت میں پڑے ہوئے ہیں یہاں تک کہ جس کے سہارے پر تمام دنیا جیتی ہے اس کی نسبت آپ کا یہ اعتقاد ہے کہ وہ تمام فیضوں کا مبدأ نہیں اور تمام ارواح یعنی جیو اور اُن کی روحانی قوتیں اور استعدادیں اور ایسا ہی تمام اجسام صغائر یعنی پر کرتی خود بخود انادی طور پر قدیم سے چلے آتے ہیں اور تمام ہُنر گُن جو ان میں سے ہیں وہ خود بخود ہیں اور اس فیصلہ کو صرف عقلی طور پر نہیں چھوڑا بلکہ اسلام کے پاک گروہ میں وہ آسمانی نشان بھی ثابت کئے ہیں کہ جو خدا کے بُرگزیدہ قوم میں ہونے چاہئیں اور ان نشانوں کے گواہ صرف مسلمان لوگ ہی نہیں بلکہ کئی آریہ سماج والے بھی گواہ ہیں اور بفضل خداوندکریم دن بدن لوگوں پر کھلتا جاتا ہے کہ برکت اور روشنی اور صداقت صرف قرآن شریف میں ہے اور دوسری کتابیں ظلمت اور تاریکی سے بھری ہوئی ہیں۔ لہٰذا یہ خط آپ کے پاس رجسٹری کرا کر بھیجتا ہوں اگر آپ کتاب براہین احمدیہ کے مطالعہ کے لئے مستعد ہوں تو میں وہ کتاب آپ کو مفت بلا قیمت آپ کو بھیج دوں گا۔ آپ اس کوغور سے پڑھیں اگر اس کے دلائل کو لاجواب پاویں تو حق کے حقول کرنے میں توقف نہ کریں کہ دنیا روزے چند ۔آخر کار باخداوند۔ میں ابھی اس کتاب کو بھیج سکتا تھا مگر میں نے سنا ہے کہ آپ اپنے خیالات میں محو ہو رہے ہیں اور دوسرے شخص کی تحقیقاتوں سے فائدہ اُٹھانا ایک عار سمجھتے ہیں۔ سو میں آپ کو دوستی اور خیر خواہی کی راہ سے لکھتاہوں کہ آپ کے خیالات صحیح نہیں ہیں۔ آپ ضرور ہی میری کتاب کو منگا کر دیکھیں اُمید کہ اگر حق جوئی کی راہ سے دیکھیں گے تو اس کتاب کے پڑھنے سے بہت سے حجاب اور پردے آپ کے دور ہو جائیں گے اور اگر آپ اُردو عبارت نہ پڑھ سکیں تا ہم کسی لکھے پڑھے آدمی کے ذریعہ سمجھ سکتے ہیں۔ آپ اپنے جواب سے مجھ کو اطلاع دیں اور جس طور سے آپ تسلی چاہیں خداوند قادر ہے۔ صرف سچی طلب اور انصاف اور حق جوئی درکار ہے جواب سے جلد تر اطلاع بخشیں کہ میں منتظر ہوں اور اگر آپ خاموش رہیں تو پھر اس سے یہی سمجھا جائے گا کہ آپ کو صداقت اور روشنی اور راستی سے کچھ غرض نہیں ہے۔
(۲۰؍ اپریل ۱۸۸۳ء مطابق ۱۲؍ جمادی الثانی ۱۳۰۰ھ)
خط جو مختلف مذاہب کے لیڈروں کے نام بھیجا گیا
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
بعد ما وجب گزارش ضروری یہ ہے کہ یہ عاجز (مؤلف براہین احمدیہ) حضرت قادر مطلق جلشانہٗ کی طرف سے مامور ہوا ہے کہ نبی ناصری اسرائیلی (مسیح) کے طرز پر کمال مسکینی و فروتنی و غربت و تذلل و تواضع سے اصلاح خلق کے لئے کوشش کرے اور ان لوگوں کو جو راہ راست سے بیخبر ہیں صراطِ مستقیم (جس پر چلنے سے حقیقی نجات حاصل ہوتی ہے اور اسی عالم میں بہشتی زندگی کے آثار اور قبولیت اور محبوبیت کے انوار دکھائی دیتے ہیں) دکھاوے اسی غرض سے کتاب براہین احمدیہ تالیف پائی ہے جس کے ۳۷ جز چھپ کر شائع ہو چکی ہیں اور اس کا خلاصہ مطلب اشتہار ہمراہی خط ہذا میں مندرج ہے………………… لیکن چونکہ پوری کتاب کا شائع ہونا ایک طویل مدت پر موقوف ہے اس لئے یہ قرار پایا ہے کہ بالفعل بغرض اتمام حجت یہ خط (جس کی دو سَو چالیس کاپی چھپوائی گئی ہیں، معہ اشتہار انگریزی جس کی آٹھ ہزار کاپی چھپوائی گئی ہیں) شائع کیا جاوے اور اُس کی ایک ایک کاپی بخدمت معزز برہمو صاحبان و آریہ صاحبان و نیچری صاحبان و حضرت مولوی صاحبان جو وجود خوارق و کرامت سے منکر ہیں اور اس وجہ سے اس عاجز پر بدظن ہیں ارسال کی جاویں یہ ان حضرات نیچریہ یا مولوی صاحبان کو کہا جاتا ہے جو اسلام کو مانتی ہیں اور پھر وجود خوارق اور کرامات سے منکر اور اس عاجز پر بدظن ہیں۔ یہ تجویز اپنی فکر اور اجتہاد سے نہیں قرار پائی ہے بلکہ حضرت مولیٰ کریم کی طرف سے اس کی اجازت ہوئی ہے اور بطور پیشگوئی یہ بشارت ملی ہے کہ اس خط کے مخاطب (جو خط پہنچنے پر رجوع کریں گے) ملزم و لاجواب و مغلوب وال جواب و مغارب ہو جاویں گے بناء علیہ پر یہ خط چھپوا کر آپ کی خدمت میں (اس نظر سے کہ آپ اپنی قوم میں معزز اور مشہور اور مقتدر ہیں) ارسال کیا جاتا ہے اور آپ کی کمال علم اور بزرگی کی نظر سے امید ہے کہ آپ حبۃ اللہ اس خط کے مضمون کی طرف سے توجہ فرما کر طلب حق میں کوشش کریں گی اگر اپنی اس کی طرف توجہ نہ کی تو آپ پر حجت تمام ہوگی اور اس کارروائی کے (کہ آپ کو خط رجسٹری شدہ ملا اور پھر آپ نے اُس کی طرف توجہ کو مبذول نہ فرمایا) حصہ پنجم کتاب براہین احمدیہ میں پوری تفصیل سے بحث کی جاوے گی اور اصل مدعا خط جس کی ابلاغ کیلئے میں مامور ہوا ہوں یہ ہے کہ دین حق جو خدا کی مرضی کے موافق ہے صرف اسلام ہے اور کتاب حقانی جو منجاب اللہ محفوظ اور واجب العمل ہے صرف قرآن ہے اس دین کی حقانیت اور قرآن شریف کی سچائی پر عقلی دلائل کے سوا آسمانی نشانوں کی (خوارق و پیشگوئیوں) شہادت بھی پائی جاتی ہے جس کو طالب صادق اس خاکسار (مؤلف براہین احمدیہ) کے صحبت اور صبر اختیار کرنے سے بمعائنہ چشم تصدیق کر سکتا ہے آپ کو اس دین کی حقانیت یا ان آسمانی نشانوں کی صداقت میں شک ہو تو آپ طالب صادق بن کر قادیان میں تشریف لاویں اور ایک سال تک اس عاجز کی صحبت میں رہ کر آسمانی نشانوں کو بچشم خود مشاہدہ کر لیں ولیکن اس شرط و نیت سے (جو طالب صادق کی نشانی ہے) کہ بمجرد معائنہ آسمانی نشانوں کے اِسی جگہ قادیان میں مشرف اظہار اسلام یا تصدیق خوارق سے مشرف ہو جاویں گے۔ اس شرط و نیت سے آپ آویں گے تو ضرور انشاء اللہ ، اللہ تعالیٰ آسمانی نشان مشاہدہ کرے گی۔ اس امر کا خدا کی طرف سے وعدہ ہو چکا ہے جس میں تخلف کا امکان نہیں۔ اب آپ تشریف نہ لاویں تو آپ پر خدا کا مواخذہ رہا اور بعد انتظار تین ماہ کے آپ کی عدم توجہی کا حال درج حصہ پنجم کتاب ہوگا اور اگر آپ آویں اور ایک سال تک رہ کر کوئی آسمانی نشان مشاہدہ نہ کریں تو دو سَو روپیہ ماہوار کے حساب سے آپ کو حرجانہ یا جرمانہ دیا جاوے گا۔ اس دو سَو روپیہ ماہوارہ کو آپ اپنی شایان شان نہ سمجھیں یا تو اپنی حرج اوقات کا عوض یا ہماری وعدہ خلافی کا جرمانہ جو آپ اپنی شان کے لائق قرار دیں گے ہم اُس کو بشرط استطاعت قبول کریں گے۔ طالبان حرجانہ یا جرمانہ کے لئے ضروری ہے کہ تشریف آوری سے پہلے بذریعہ رجسٹری ہم سے اجازت طلب کریں اور جو لوگ حرجانہ یا جرمانہ کے طالب نہیں ان کو اجازت طلب کرنے کی نہیں۔ اگر آپ بذات خود تشریف نہ لا سکیں تو آپ اپنا وکیل جس کے مشاہدہ کو آپ معتبر اور اپنا مشاہدہ سمجھیں روانہ فرما دیں مگر اس شرط سے کہ بعد مشاہدہ اس شخص کے آپ اظہار اسلام یا (تصدیق خوارق) میں توقف نہ فرماویں آپ اپنی شرط اظہار اسلام (تصدیق خوارق) ایک سادہ کاغذ پر جس پر چند ثقات مختلف مذاہب کی شہادتیں ہوں تحریر کر دیں جس کومتعدد انگریزی اُردو اخباروں میں شائع کیا جاوے گا ہم سے اپنی شرط دو سَو روپیہ ماہور حرجانہ یا جو آپ پسند کریں اور ہم اُس کی ادائی کی طاقت بھی رکھیں۔عدالت میں رجسٹری کرائیں بالآخر یہ عاجز حضرت خداوندکریم جلشانہ کا شکریہ ادا کرتا ہے جس نے اپنے سچے دین کے براہین ہم پر ظاہر کئے اور پھر اُن کی اشاعت کیلئے ایک آزاد سلطنت کی حمایت میں جو گورنمنٹ انگلشیہ ہے ہم کو جگہ دی۔ اس گورنمنٹ کا بھی حق شناسی کی رو سے یہ عاجز شکریہ ادا کرتا ہے۔ والسلام علی من اتبع الہدی فقط
راقم خاکسار غلام احمدی قادیانی
۸؍ مارچ ۱۸۸۵ء مطابق ۲۹؍ جمادی الاوّل ۱۳۰۲ھ)
خط بنا اِندر من مراد آبادی
اندر من مراد آبادی نے دعوت یکسالہ کیلئے چوبیس سَو روپیہ مانگا تھا جو مسلمانوں کے ایک معزز ڈیپوٹیشن کے ہاتھ بھیجا گیا اور یہ خط ساتھ لکھا گیا مگر اندرمن کہیں بھاگ گیا آخر یہ خط شائع کیا گیا۔
نقل اشتہار
منشی اندر من صاحب مراد آبادی نے میرے اس مطبوع خط (جس کی ایک ایک کاپی غیر مذاہب کے رؤساء و مقتداؤں کے نام خاکسار نے روانہ کی تھی) جس کے جواب میں پہلے نابھہ سے پھر لاہور سے یہ لکھا تھاکہ تم ہمارے پاس آؤ اور ہم سے مباحثہ کر لو اور نہ موعود اشتہار پیشگی بنک میں داخل کرو۔ وغیرہ وغیرہ۔ اس کے جواب میں خاکسار نے رقمیہ ذیل معہ دو ہزار چار سَو روپیہ نقد ایک جمعیت اہل اسلام کے ذریعہ سے ان کی خدمت میں روانہ لاہور کیا۔ جب وہ جماعت منشی صاحب کے مکان موعود میں پہنچی تو منشی صاحب کو وہاں نہ پایا۔ وہاں سے اُن کو معلوم ہوا کہ جس دن منشی صاحب نے خاکسار کے نام خط روانہ کیا تھا۔ اُسی دن سے وہ فرید کوٹ تشریف لے گئے ہوئے ہیں باوجودیکہ اُس خط میں منشی صاحب نے ایک ہفتہ تک منتظر جواب رہنے کا وعدہ تحریر کیا تھا۔ یہ امر نہایت تعجب اور تردّد کا موجب ہوا لہٰذا یہ قرار پای کہ اس رقیمہ کو بذریعہ اشتہار مشتہر کیا جاوے اور اُس کی ایک کامنشی صاحبکے نام حسب نشان مکان موجود بذریعہ رجسٹری روانہ کی جاوے۔ وہ یہ ہے۔
مشفقی اِندر من صاحب آپ نے میرے خط کا جواب نہیں دیا ایک نئی بات لکھی ہے۔ جس کی اجابت مجھ کو اپنے عہد کے رُو سے واجب نہیں ہے۔ میری طرف سے یہ عہد تھا کہ جو شخص میرے پاس آوے اور صدق دل سے ایک سال میرے پاس ٹھہرے اس کو خدا تعالیٰ کوئی نہ کوئی آسمانی نشان مشاہدہ کرادے گا جس سے قرآن اور دین اسلام کی صداقت ثابت ہو۔ اب اُس کے جواب میں اوّل تو مجھے اپنا (نابھہ میں پھر لاہور میں) بُلاتے ہیں اور خود آنے کا ارادہ ظاہر فرماتے ہیں تو مباحثہ کے لئے نہ آسمانی نشان دیکھنے کیلئے۔ اس پر طفہ یہ کہ روپیہ اشتہار پیشگی طلب فرماتے ہیں جس کا میں نے پہلے وعدہ نہیں دیا۔ اب آپ خیال فرما سکتے ہیں کہ میری تحریر سے آپ کا جواب کہاں تک متفاوت و متجاوز ہے۔ بہ بین تفاوت راہ از کجاست تابکجا۔ لہٰذا میں اپنے اسی پہلے اقرار کی رُو سے پھر آپ کو لکھتا ہوں کہ آپ ایک سال رہ کر آسمانی نشانوں کا مشاہدہ فرماویں اگر بالفرض کسی آسمانی نشان کو آپ کو مشاہدہ ہو تو میں آپ کو چوبیس سَو روپیہ دے دونگا اور اگر آپ کو پیشگی لینے پر بھی اصرار ہو تو مجھے اس سے بھی دریغ وعذر نہیں بلکہ آپ کے اطمینان کیلئے سردست چوبیس سَو روپیہ نقد ہمراہ رقیمہ ہذا ارسال خدمت ہے مگر چونکہ آپ نے یہ ایک امر زائد چاہا ہے اس لئے مجھے بھی حق پیدا ہو گیا ہے کہ میں امر زائد کے مقابلہ میں کچھ شروط آپ سے لوں جن کا ماننا آپ پر واجبات سے ہے۔
(۱) جب تک آپ کا سال گذر نہ جائے کوئی دوسرا شخص آپ کے گروہ سے زرموعود پیشگی لینے کا مطالبہ نہ کرے کیونکہ ہر شخص کو زر پیشگی دینا سہل و آسان نہیں ہے۔
(۲) اگر آپ مشاہدہ نشان آسمانی کے بعد اظہار اسلام میں توقف کریں اور اپنے عہد کو پورا نہ کریں تو پھر حرجانہ یا جرمانہ دو امر سے ایک امر ضرور ہو۔
(الف) سب لوگ آپ کے گروہ کے جو آپ کو مقتدا جانتے ہیں یا آپ کے حامی اور مربی ہیں اپنا عجز اور اسلام کے مقابلہ میں اپنے مذہب کا بے دلیل ہونا تسلیم کر لیں۔ وہ لوگ ابھی سے آپ کو اپنا وکیل مقرر کر کے اس تحریر کا آپ کو اختیار دیں۔ پھر اس پر اپنے دستخط کریں۔
(ب) درصورت تخلف وعدہ جانب سامی سے اس کا مالی جرمانہ یا معاوضہ جو آپ کی اور آپ کے مربیوں اور حامیوں اور مقتدیوں کی حیثیت کے مطابق ہو ادا کریں تا کہوہ اس مال سے اس وعدہ خلافی کی کوئی یادگار قائم کی جائے (ایک اخبار تائید اسلام میں جاری ہو یا کوئی مدرسہ تعلیم نو مسلم اہل اسلام کے لئے قائم ہو) آپ ان شرائط کو تسلیم نہ کریں تو آپ مجھ سے پیشگی روپیہ نہیں لے سکتے اور اگر آپ آسمانی نشان کے مشاہدہ کے لئے نہیں آنا چاہتے صرف مباحثہ کیلئے آنا چاہتے ہیں تو اس امر سے میری خصوصیت نہیں۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے اس اُمّتِ محمدیہ میں علماء اور فضلا اور بہت ہیں جو آپ سے مباحثہ کرنے کو تیار ہیں میں جس امر سے مامور ہوچکا ہوں اُس سے زیادہ نہیں کر سکتا اور اگر مباحثہ بھی مجھ سے ہی منظور ہے تو آپ میری کتاب کا جواب دیں۔ یہ صورت مباحثہ کی عمدہ ہے اور اس میں معاوضہ بھی زیادہ ہے۔ بجائے چوبیس سَو روپیہ کے دس ہزار روپیہ۔
(۳۰ ؍ مئی ۱۸۸۵ء)
اکبر آباد آریہ سماج کے ایک ممبر رام چرن نامی کے نام
(ایک سوال کا جواب جو بذریعہ اخبار عام مورخہ ۱۰؍ مئی ۱۸۸۵ء میں دیا گیا۔ ایڈیٹر)
آج ایک سوال از طرف رام چرن نامی جو آریہ سماج اکبر آباد کے ممبروں میں سے ہے میری نظر سے گزرا سو اگر چہ لغو اور بے حقیقت سوالات کی طرف متوجہ ہونا ناحق اپنے وقت کو ضائع کرنا ہے لیکن ایک دوست کے الحاح اور اصرار سے لکھتا ہوں۔ سوال یہ ہے کہ خدا نے شیطان کو پیدا کر کے کیوں آپ ہی لوگوں کو گناہ اور گمراہی میں ڈالا گیا اُس کا یہ ارادہ تھا کہ لوگ ہمیشہ بدی میں مبتلا رہ کر کبھی نجات نہ پاویں۔ ایسا سوال اُن لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوتا ہے جنہوں نے کبھی غور اور فکر سے دینی معارف میں نظر نہیں کی یا جن کی نگاہیں خود ایسی پست ہیں کہ بجز نکتہ چینیوں کی اور کوئی حقیقت شناسی کی بات اور محققانہ صداقت ان کو نہیں سوجھتی۔ اب واضح ہو کہ سائل کے اس سوال سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ اصول اسلام سے بکلی بیگانہ اور معارف ربانی سے سراسر اجنبی ہے کیونکہ وہ خیال کرتا ہے کہ شریعت اسلام کا یہ عقیدہ ہے کہ گویا شیطان صرف لوگوں کو بہانے اور ورغلانے کے لئے خدا تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اور اسی اپنے وسوسہ کو پختہ سمجھ کر تعلیم قرآنی پر اعتراض کرتا ہے حالانکہ تعلیم قرآنی کا ہرگز یہ منشاء نہیں ہے اور نہ یہ بات کسی آیت کلام الٰہی سے نکلتی ہے بلکہ عقیدہ حقہ اہل اسلام جس کو حضرت خداوند کریم جلشانہٗ نے خود اپنے کلام پاک میں بیان کیا ہے یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسان کے لئے دونوں اسباب نیکی اور بدی کی مہیا کر کے اور ایک وجہ کا اُس کو اختیار دے کر قدرتی طور پر ہر دو قسم کے محرک اس کے لئے مقرر کئے ہیں ایک داعی خیر یعنی ملائکہ جو نیکی کی رغبت دل میں ڈالتی ہیں۔ دوسری داعی شر یعنی شیطان جو بدی کی رغبت دل میں ڈالتا ہے لیکن خدا نے داعی خیر کو غلبہ دیا ہے کہ اُس کی تائید میں عقل عطا کی اور اپنا کلام نازل کیا اور خوارق اور نشان ظاہر کئے اور ارتکاب جرائم پر سخت سخت سزائیں مقرر کیں۔ سو خدا تعالیٰ نے انسان کو ہدایت پانے کے لئے کئی قسم کی روشنی عنایت کی اور خود اس کے دلی انصاف کو ہدایت قبول کرنے کے لئے مستعد پیدا کیا اور داعی شر بدی کی طرف رغبت دینے والا ہے تا انسان اُس کی رغبت دہی سے احتراز کر کے اُس ثواب کو حاصل کرے جو بجز اس قسم کے امتحان کے حاصل نہیں کر سکتا تھا اور ثبوت اس بات کا کہ ایسے دو داعی یعنی داعی خیر و داعی شر انسان کے لئے پائے جاتے ہیں۔ بہت صاف اور روشن ہے کیونکہ خود انسان بدیہی طور پر اپنے نفس میں احساس کرتا ہے کہ وہ ہمیشہ دو قسم کے جذبات سے متاثر ہوتا رہتا ہے کبھی اُس کے لئے ایسی حالت صاف اور نورانی میسر آ جاتی ہے کہ نیک خیالات اور نیک ارادے اس کے دل میں اُٹھتے ہیں اور کبھی اُس کی حالت ایسی پُرظلمت اور مکدر ہوتی ہے کہ طبیعت اس کی بدخیالات کی طرف رجوع کرتی ہے اور بدی کی طرف اپنے دل میں رغبت پاتا ہے۔ سو یہی دونو داعی ہیں جن کو ملائک اور شیاطین سے تعبیر کیا جاتا ہے اور حکمائے فلسفہ نے انہیں دونوں داعی خیر اور داعی شر کو دوسری طور پر بیان کیا ہے۔ یعنی اُس کے گمان میں خود انسان ہی کے وجود میں دو قسم کی قوتیں ہیں۔ ایک قوت ملکی جو داعی خیر ہے۔
دوسری قوت شیطانی جو داعی شر ہے۔ قوت ملکی نیکی کی طرف رغبت دیتی ہے اور چپکے سے انسان کے دل میں خود بخود یہ پڑ جاتا ہے کہ میں نیک کام کروں۔ جس سے میرا خدا راضی ہو اور قوت شیطانی بدی کی طرف محرک ہوتی ہے۔ غرض اسلامی عقائد اور دنیا کے کل فلاسفہ کے اعتقاد میں صرف اتنا ہی فرق ہے کہ اہل اسلام دونوں محرکوں کو خارجی طور پر دو وجود قرار دیتے ہیں اور فلسفی لوگ انہیں دونوں وجودوں کو دو قسم کی قوتیں سمجھتے ہیں جو خود انسان ہی کے نفس میں موجود ہیں لیکن اس اصل بات میں کہ فی الحقیقت انسان کے لئے دو محرک پائے جاتے ہیں خواہ وہ محرک خارجی طور پر کوئی وجود رکھتے ہوں یا قوتوں کے نام سے اُن کو موسوم کیا جاوے یہ ایسا اجماعی اعتقاد ہے جو تمام گروہ فلاسفہ اس پراتفاق رکھتے ہیں اور آج تک کسی عقلمند نے اس اجماعی اعتقاد سے انحراف اور انکار نہیں کیا وجہ یہ کہ یہ بدیہی صداقتوں میں سے ایک اعلیٰ درجہ کی بدیہی صداقت ہے جو اس شخص پر بہ کمال کھل سکتی ہے کہ جو اپنے نفس پر ایک منٹ کے لئے توجہ اور غور کرے اور دیکھے کہ کیونکر نفس اس کا مختلف جذبات میں مبتلا ہوتا رہتا ہے اور کیونکر ایک دم میں کبھی زاہدانہ خیالات اس کے دل میں بھر جاتے ہیں اور کبھی رندانہ وساوس اس کو پکڑ لیتے ہیں سو یہ ایک ایسی روشنی اور کھلی کھلی صداقت ہے جو ذوالعقول اس سے منکر نہیں ہو سکتی ہاں جو لوگ حیوانات کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں اور کبھی انہوں نے اپنے نفس کے حالات کی طرف توجہ نہیں کی ان کے دلوں میں اگر ایسے ایسے پوچ وساوس اُٹھیں تو کچھ بعید نہیں ہے کیونکہ وہ لوگ بباعث نہایت درجہ کی غفلت اور کور باطنی کے قانون قدرت الٰہی سے بکلی بے خبر اور انسانی خواص اور کیفیات سے سراسر ناواقف ہیں اور اُن کے اس جہل مرکب کا بھی یہی علاج ہے کہ وہ ہمارے اس بیان کو غور سے پڑھیں تا کہ اُن کو کچھ ندامت حاصل ہو کہ کس قدر تعصب نے اُن کو مجبور کر رکھا ہے کہ باوجود انسان کہلانے کے جو انسانیت کی عقل ہے اس سے بالکل خالی اور تہی دست ہیں اور ایسی اعلیٰ درجہ کی صداقتوں سے انکار کر رہے ہیں جن کو ایک دس برس کا بچہ بھی سمجھ سکتا ہے پھر بھی سائل اپنے سوال کے اخیر میں یہ شُبہ پیش کرتا ہے کہ قرآن شریف میں لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے آدم کو تسلی دی تھی کہ شیطان تجھ کو بہکا نہیں سکے گا لیکن اُسی قرآن میں لکھا ہے کہ شیطان نے آدم کو بہکایا یہ وسوسہ قلبی بھی سراسر قلت فہم اور کور باطنی کی وجہ سے سائل کے دل میں پیدا ہوا کیونکہ قرآن شریف میں کوئی ایسی آیت نہیں جس سے معلوم ہوتا ہو کہ شیطان آدم کو بہکانے اور گمراہ کرنے کا قصد نہیں گرے گا یا آدم اس کے بہکانے میں کبھی نہیں آئے گا۔ ہاں قرآن شریف میں ایسی آیتیں بکثرت پائی جاتی ہیں کہ خدا تعالیٰ کے نیک بندے شیطان کے بہکانے سے ایسے وبال میں نہیں پڑتے جس سے اِن کا انجام بدہو بلکہ حضرت خداوندکریم جلشانہٗ جلد تر اُن کا تدارک فرماتا ہے اور اپنے ظل حفاظت میں لے لیتا ہے سو ایسا ہی آدم کے حق میں اُس نے کہا کہ آدم صفی اللہ خلیفۃ اللہ ہے اس کاانجام ہرگز بد نہیں ہوگا اور خدا کے محبوب بندوں میں رہے گا۔ چنانچہ یہ امر ایسا ہی ظہور میں آیا اور خدا نے آخر میں بھی آدم کوایسا ہی چن لیا جیسا کہ پہلے برگزیدہ تھا۔ غرض یہ اعتراض معترض بھی سراسر تعصب اور جہالت پر مبنی ہے نہ عقلمندی اور انصاف پر۔ والسلام علی من اتبع الہدی۔ فقط
دیوسماج کے بانی مبانی پنڈت شونرائن صاحب سیتانند اَگنی ہوتری سے خط و کتاب
الہام ایک القاء غیبی ہے کہ جس کا حصول کسی طرح کی سوچ اور تردد اور تفکر اور تدبر پر موقوف نہیں ہوتا اور ایک واضح اور منکشف احساس سے کہ جیسے سامع کو متکلم سے یا مضروب کو ضارب سے یا ملموس کو لامس سے ہو محسوس ہوتا ہے اور اس سے نفس کو مثل حرکات فکریہ کے کوئی الم روحانی نہیں پہنچتا بلکہ جیسے عاشق اپنے معشوق کی رویت سے بلاتکلف انشراح اور انبساط پاتا ہے ویسا ہی روح کو الہام سے ایک ازلی اور قدیمی رابطہ ہے کہ جس سے روح لذت اُٹھاتی ہے۔ غرض یہ ایک منجاب اللہ اعلام لذیر ہے کہ جس کو نفس فی الروع اور وحی بھی کہتے ہیں۔
دلیل لمی نمبر اوّل الہام کی ضرورت
کوئی قانون عاصم ہمارے پاس ایسا نہیں ہے کہ جس کے ذریعہ سے ہم لزوماً غلطی سے بچ سکیں یہی باعث ہے کہ جن حکیموں نے قواعد منطق کے بنائے اور مسائل مناظرہ کے ایجاد کئے اور دلائل فلسفہ کے گھڑے وہ بھی غلطیوں میں ڈوبتے رہے اور صدہا طور کے باطل خیال اور جھوٹا فلسفہ اور نکمی باتیں اپنی نادانی کی یادگاریں چھوڑ گئے۔ پس اس سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ اپنی ہی تحقیقات سے جمیع امور حقّہ اور عقائد صحیحہ پر پہنچ جانا اور کہیں غلطی نہ کرنا ایک محال عادی ہے کیونکہ آج تک ہم نے کوئی فرد بشر ایسا نہیں دیکھا اور نہ سنا اور نہ کسی تاریخی کتاب میں لکھا ہوا پایا یا جو اپنی تمام نظر اور فکر میں سہو اور خطا سے معصوم ہو۔ پس بذریعہ قیاس استقرائی کے یہ صحیح اور سچا نتیجہ نکلتا ہے کہ وجود ایسے اشخاس کا جنہوں نے صرف قانون قدرت میں غور اور فکر کر کے اور اپنے ذخیرہ کانشنس کو واقعات عالم سے مطابقت دے کر اپنی تحقیقات کو ایسے اعلیٰ پایہ صداقت پر پہنچا دیا ہو کہ جس میں غلطی کا نکلنا غیر ممکن ہو خود عادتاً غیر ممکن ہو۔
اب بعد اس کے جس امر میں آپ بحث کر سکتے ہیں اور جس بحث کا آپ کو حق پہنچتا ہے وہ یہ ہے کہ اس کے برخلاف ہمارے اس استقرا کے کوئی نظیر دے کر ہمارے اس استقرا کو توڑ دیں یعنی ازردے وضع مستقیم مناظرہ کے جواب آپ کا صرف اس امر میں محصور ہے کہ اگر آپ کی نظر میں ہمارا اِستقرا غیر صحیح ہے تو آپ بفرض بطال ہمارے اس استقرا کے کوئی ایسا فرد کامل ارباب نظر اور فکر اور حدس میں سے پیش کریں کہ جس کی تمام راؤں اور فیصلوں اور جج منٹوں میں کوئی نقص نکالنا ہرگز ممکن نہ ہو اور زبان اور قلم اُس کی سہود خطا سے بالکل معصوم ہوتا ہم بھی تو دیکھیں کہ وہ درحقیقت ایسا ہی معصوم ہے یا کیا حال ہے۔ اگر معصوم نکلے گا تو بیشک آپ سچے اور ہم جھوٹے ورنہ صاف ظاہر ہے کہ جس حالت میں نہ خود انسان اپنے علم اور واقفیت سے غلطی سے بچ سکے اور نہ خدا (جو رحیم و کریم اور ہر ایک سہود خطا سے مبرا اور ہر امر کی اصل حقیقت سے واقف ہے) بذریعہ اپنے سچے الہام کے اپنے بندوں کی مدد کرے تو پھر ہم عاجز بندے کیونکر ظلمات جہل اور خطا سے باہر آویں اور کیونکہ آفات شک و شُبہ سے نجات پائیں لہٰذا میں مستحکم رائے سے یہ بات ظاہر کرتا ہوں کہ مقتضائے حکمت اور رحمت اور بندہ پروری اُس قادر مطلق کا یہی ہے کہ وقتاً فوقتاً جب مصلحت دیکھے ایسے لوگوں کو پیدا کرتا رہے کہ عقائد حقہ کے جاننے اور اخلاق صحیحہ کے معلوم کرنے میں خدا کی طرف سے الہام پائیں اور تفہیم تعلیم کا ملکہ وہبی رکھیں تا کہ نفوس بشریہ کی سچی ہدایت کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اپنی سعادت مطلوبہ سے محروم نہ رہیں۔
راقم آپ کا نیاز مند
غلام احمد عفی عنہ
۲۱؍ مئی ۱۸۷۹ء)
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
مکرمی جناب مرزا صاحب! عنایت نامہ پہنچا۔ آپ نے الہام کی تعریف اور اس کی ضرورت کے بارے میں جو کچھ لکھاہے افسوس ہے کہ میں اس سے اتفاق نہیں کر سکتا ہوں میرے اتفاق نہ کرنے کی جو جو وجوہات ہیں اُنہیں ذیل میں رقم کرتا ہوں۔
اوّل: آپ کی اس دلیل میں (جس کو آپ لمی قرار دیتے ہیں) علاوہ اس خیال کے کہ وہ الہام کے لئے جس کو آپ معلول تصور کرتے ہیں علت ہوسکتی ہے یا نہیں ایک صریحاً غلطی ایسی پائی جاتی ہے کہ وہ واقعات کے خلاف ہے۔ مثلاً آپ ارقام فرماتے ہیں کہ ’’کوئی قانون عاصم ہمارے پاس ایسا نہیں ہے کہ جس کے ذریعہ سے ہم لزوماً غلطی سے بچ سکیں اور یہی باعث ہے کہ جن حکیموں نے قواعد منطق کے بنائے اور مسائل مناظرے کے ایجاد کئے اور دلائل فلسفہ کے گھڑے وہ بھی غلطیوں میں ڈوبتے رہے اور صد ہا طور کے باطل خیال اور جھوٹا فلسفہ اور نکمی باتیں اپنی نادانی کی یادگار چھوڑ گئے‘‘۔ اس سے کیا آپ کا یہ مطلب ہے کہ انسان نے اپنی تحقیقات میں ہزاروں برس سے آج تک جو کچھ مغز زنی کی ہے اور اس میں ہاتھ پیر مارے ہیں اُس میں بجز باطل خیال اور جھوٹا فلسفہ اور نکمی باتوں کے کوئی صحیح خیال اور کوئی راست اور حق امر باقی نہیں چھوڑا گیا ہے؟ یا اب جو محقق نیچر کی تحقیقات میں مصروف ہیں وہ صرف ’’نادانی کے ذخیرہ کو زیادہ کرتے ہیں اور حق امر پر پہنچنے سے قطعی مجبور ہیں؟ اگر آپ ان سوالوں کا جواب نفی میں نہ دیں تو صاف ظاہر ہے کہ آپ سینکڑوں علوم اور اُن کے متعلق ہزاروں باتوں کی راست اور صحیح معلومات سے دنیا کی ہر ایک قوم کم و بیش مستفید ہو رہی ہے صریحاً انکار کرتے ہیں۔ مگر میں یقین کرتا ہوں کہ شاید آپ کا یہ مطلب نہ ہوگا اور اس بیان سے غالباً آپ کی یہ مراد ہوگی کہ انسان سے اپنی تحقیقات اور معلومات میں سہو اور خطا کا ہونا ممکن ہے۔ مگر یہ نہیں کہ نیچر نے انسان کو فی ذاتہٖ ایسا بنایا ہے کہ جس سے وہ کوئی معلومات صحت کے ساتھ حاصل ہی نہیں کر سکتا؟ کیونکہ ایسے اشخاص آپ نے خود یکھے اور سنے ہونگے اور نیز تاریخ میں ایسے لوگوں کا ذکر پڑھا ہوگا کہ جو اپنی ’’تمام نظر اور فکر میں‘‘ اگرچہ آپ کے نزدیک سہو اور خطا سے معصوم نہ ہوں مگر بہت سی باتوں میں اُن کی معلومات قطعی راست اور درست ثابت ہوئی ہے اور صدہا امور کی تحقیقات جو پچھلے اور حال کے زمانہ میں وقوع میں آئی ہے اس میں غلطی کا نکلنا قطعی غیر ممکن ہے اور اس بیان کی تصدیق آپ علوم طبعی ریاضی اور اخلاقی وغیرہ کے متعلق صدہا معلومات میں بخوبی کر سکتے ہیں۔ کُل معلومات جو انسان آج تک حاصل کر چکا ہے اور نیز آئندہ حاصل کرے گا اس کے حصول کا کُل سامان ہر فرد بشر میں نیچر نے مہیا کر دیا ہے۔ اس اس سامان کو انسان فرداً فرداً اور نیز بہ ہئیت مجموعی جس قدر اپنی محنت اور جانفشانی سے روز بروز زیادہ سے زیادہ نفیس اور طاقتور بنانے کے ساتھ ترقی کی صورت میں لاتا جاتا ہے اور جس قدر اس کے مناسب استعمال کی تمیز پیدا کرتا جاتا ہے اسی قدر وہ نیچرکی تحقیقات میں زیادہ سے زیادہ تر صحت کے ساتھ اپنی معلومات کے حصول میں کامیاب ہوتا جاتا ہے۔
اس مختصر بیان سے میں یقین کرتا ہوں کہ آپ اس بات کے تسلیم کرنے سے انکار نہ کریں گے کہ انسان سے اپنی تحقیقات میں اگرچہ غلطی کرنا ناممکنات سے ہے مگر یہ نہیں کہ ہر ایک معلومات میں اس کے غلطی موجود ہے بلکہ بہت کچھ معلومات اس کی صحیح ہیں اور ظاہر ہے کہ جن معلومات میں اس کی غلطی موجود نہیں ہے وہ جس قاعدہ یا طریق کے برتاؤ کے ساتھ ظہور میں آئی ہے وہ بھی غلطی سے مبرا تھا کیونکہ غلط قاعدہ کے عملدرآمد سے کبھی کوئی صحیح نتیجہ برآمد نہیں ہوتا ہے پس جو معلومات اس کی صحیح ہے اس میں اسے حقیقت کے حصول کے لئے جو سامان نیچر نے اُسے عطا کیا تھا اس کا صحیح اور مناسب استعمال ظہور میں آیا مگر جہاں اس نے اپنی معلومات میں غلطی کھائی ہے وہاں اس کی مناسب نگہداشت نہیں ہوئی گویا ایک شخص جس کے پاس دور بین موجود ہے اور اُس کی نلی بھی وہ کھولنا جانتا ہے مگر ٹھیک فوکس نہ پیدا کرنے کے باعث جس طرح مقابل کی شَے کو یا تو دیکھنے سے محروم رہتا ہے یا بشرط دیکھنے کے صاف اور اصل حالت میں نہیں دیکھ سکتا ہے۔ ایک شخص اسی طرح اپنی تحقیقات میں حسبِ مذکورہ بالا نیچری سامان کی دوربین کھولتے وقت مناسب درجہ کے فوکس میں قائم کرنے سے رہ جاتا ہے تو وہ یا تو حقیقت کی تصویر کے دیکھنے سے اسی محروم ہو جاتا ہے یا وہ تصویر جیسی ہے ویسی نہیں دیکھ٭ سکتا مگر جو شخص برخلاف اس شخص کے صحیح فوکس کے پیدا کرنے کے قابل ہوتا ہے وہ پہلے شخص کی غلطی کو دریافت کر لیتا ہے اور حق الامر کو پہنچ جاتا ہے۔
اب اس بیان سے (کہ جو نہایت سیدھا اور صاف ہے) یہ بخوبی ثابت ہے کہ اوّل تو انسان بعض صورتوں میں اپنے نیچری سامان کے مناسب استعمال کے ساتھ پہلے ہی حق امر کو دریافت کر
٭ دنیا میں جیسے ہاتھ پیر اور صحت بدنی رکھتے ہوئے بھی ہزاروں اور لاکھوں اشخاص بلامشقت سستی اور کاہلی کے ساتھ ہی شکم پوری کرنے کو مستعد رہتے ہیں ویسے ہی معلومات کے متعلق بھی لاکھوں اور کروڑوں اشخاص باوجود تحقیقات کیلئے نیچری سامان سے مشرف ہونے کے پھر اپنے دماغ کو پریشان کرنا نہیں چاہتے ہیں اور جن باتوں کی اصلیت کو اپنے تھوڑے سے فکر سے بھی معلوم کر سکتے ہیں ان کے لئے بھی خود تکلیف اُٹھانا نہیں چاہتے ہیں اور محض اندھوں کی طرح ایک ہی تقلید کے ساتھ مطلب براری کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ دنیا میں آج تک ایک کی غلطی لاکھوں کروڑوں روحوں پر مؤثر دیکھی جاتی ہے۔
لیتا ہے۔ دوم بشرط مناسب استعمال میں نہ لانے یا نہ لا سکنے کی اگر غلطی کھاتاہے تو کوئی دوسرا جسے اس کے ٹھیک استعمال کا موقع مل جاتا ہے وہ اس غلطی کو رفع کر دیتا ہے چنانچہ انسانی معلومات کی کل تاریخ اس قسم کے دلچسپ سلسلہ سے پُر ہے اور اس سلسلہ میں جو ہزاروں برس کاتجربہ ظاہر کرتا ہے کسی محقق کے لئے اس نتیجہ پر پہنچنا بہت دشوار نہیں رہتا ہے کہ انسان فی ذاتہٖ تمام ضروری اعضاء جسمانی اور قواعد دماغی و اختلافی سے مشرف ہو کر اس دنیا میں (جو اس کے تمام نیچر کے حسب حال اور باہمی ربط و علاقہ کے ساتھ وابستہ کی گئی ہے) آپ اپنا راستہ ڈھونڈھے اور خو داپنی جسمانی روحانی بھلائی اور بہتری کے وسائل کا علم حاصل کرے اور فائدہ اُٹھائے۔
پس اس قانون قدرت کو پس انداز کر کے یا حکیم حقیقی کی دانائی کے خلاف اگر ہم ایک فرضی دلیل قائم کریں کہ چونکہ انسان کو اپنے چاروں طرف دیکھنا ضروریات سے ہے اور دیکھنے کیلئے جو دو آنکھیں اس کے چہرے پر قائم کی گئی ہیں وہ جس وقت سامنے کی اشیاء کے دیکھنے میں مصروف ہوتی ہیں اُس وقت پیچھے سے اپس کے اگر اُس کی ہلاکت کا سامان کیا گیا ہوتو وہ بشرط آگے کی دو ہی آنکھوں کے ہونے کے ضرور ہے کہ پیچھے کے حال کے دیکھنے سے محروم رہے۔ پس ممکن نہ تھا کہ خدا جو رحیم اور کریم اور حکیم ہے وہ اسے سر کے پیچھے کی طرف بھی دو آنکھیں ایسی عطا نہ کرتا کہ جس سے وہ مذکورہ بالا خطرہ سے نجات پانے کی تدبیر کر سکتا۔ پس جب کہ سر کے پیچھے کی طرف دو آنکھیں ہونے کی ضرورت ہے لہٰذا لازم ہوا کہ خدا اپنے بندوں کی مزید حفاظت کی غرض سے ایسی آنکھیں عطا کرے یا اسی قسم کی ایک اور دلیل ہم یہ قائم کریں کہ چونکہ انسان کی عقل خطا کرتی ہے اور اسے یہ علم بھی آج تک حاصل نہیں ہے کہ بمبئی سے جس جہاز پر وہ ولایت کو روانہ ہوتا ہے اس کی روانگی کی تاریخ سے ہفتہ یا ڈیڑھ ہفتہ بعد جو خطرناک طوفان سمندر میں آنے والا ہے اور جس میں اس کا جہاز غرق ہونے کو ہے اسے پہلے سے جان سکے۔ پس جس حالت میں نہ خود انسان اپنے علم اور واقفیت سے اپنے تئیں طوفان کے مہلک اور خوفناک اثر سے محفوظ کر سکتا ہے اور وہ خدا (جو رحیم و کریم اور ہر ایک سہو و خطا سے مبرا اور ہر امر کی حقیقت پر واقف ہے) بذریعہ اپنے نج کے پیغام کے فوراً اپنے بندوں کی مدد کرے تو پھر ہم عاجز بندے کیونکر اپنی جان کو ہلاکت کے طوفان سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ پس مقتضائے حکمت اور رحمت اور بندہ پروری اُس قادر مطلق کا یہی ہے کہ وقتاً فوقتاً وہ ہم کو طوفان کے آنے کی اس قدر عرصہ سے پہلے خبر دیتا رہے کہ جس سے ہمیں اپنے اور اپنے جہاز کے بچانے کا موقع مل سکے۔
اب ظاہر ہے کہ جو لوگ حقیقت کے سمجھنے کا کافی ملکہ رکھتے ہیں اور منطق کے اصول کا بخوبی علم رکھتے ہیں وہ ہماری ان دونوں دلیلوں کو قطعی لنگڑی اور بے بنیاد خیال کریں گے کیوں؟ اس لئے کہ اوّل دونوں دلیلوں میں ’’ضرورت‘‘ کا جو کچھ قیاس قائم کیا گیا ہے جسے ہم نے اپنے نتیجہ کی علت قرار دیا ہے وہ محض ہمارا ایک وہمی اور فرضی قیاس ہے قوانین نیچر سے اُس کی تائید نہیں ہوتی بلکہ ہم اُلٹا قوانین نیچر کو پس انداز کر کے خدا کی خود دانائی پر حاشیہ چڑھاتے ہیں۔ دوم چونکہ ہماری علت فرضی ہوتی ہے پس اس سے جو نتیجہ ہم قائم کرتے ہیں وہ بھی فرض ہوتا ہے اور واقعات نیچر خود اُس کی تردید کرتے ہیں۔ چنانچہ جیسی پہلی مثال کے متعلق ہمارا نتیجہ واقعات کے خلاف ہے اور درحقیقت انسان کے سر کے پیچھے دو آنکھیں اور زائد قائم نہیں کی گئیں میں دوسری مثال میں بھی ویسے ہی باوجود اس کے کہ سینکڑوں جہاز آج تک سمندر میں غرق ہو چکے ہیں اور ہزاروں اور لاکھوں جانیں اُن کے ساتھ ضائع ہو چکی ہیں مگر آج تک خدا نے کسی جہاز والے کے پاس کوئی نج کا پیغام اس قسم کا نہیں بھیجا جس کا دوسری مثال میں ذکر ہوا ہے پس دونوں صورتوں میں ہماری ’’ضرورت‘‘ کا قیاس خدا کی دانائی یا قوانین قدرت کے موافق نہ تھا اس لئے اس کا نتیجہ بھی خدا کی حکمت کے خلاف ہونے کے باعث نیچر کے واقعات سے تصدیق نہ پا سکا اور محض فرضی ثابت ہوا۔ اب صاف ظاہر ہے کہ آپ نے اپنے الہام کی ضرورت پر جو دلیل پیش کی ہے وہ بجسنہ ہماری دونوں دلیوں کے متشابہ ہے۔ کیونکہ آپ فرماتے ہیں کہ ’’جس حالت میں نہ خود انسان اپنے علم اور واقفیت سے غلطی٭ سے بچ سکتے اور نہ خدا (جو رحیم و کریم اور ہر ایک سہو اور خطا سے مبرا اور ہر امر کی اصل حقیقت پر واقف ہے) بذریعہ اپنے سچے الہام کے اپنے بندوں کی مدد کرے تو پھر ہم عاجز بندے کیونکر ظلمات جہل اور خطا سے باہر آویں اور کسی طرح آفات شک و شبہ سے نجات پائیں لہٰذا میں مستحکم رائے سے یہ بات ظاہر کرتا ہوں کہ متقضائے حکمت اور رحمت بندہ پروری اس قادر مطلق کا یہی ہے کہ وقتاً فوقتاً جب مصلحت دیکھے ایسے لوگوں کو پیدا کرتا رہے کہ عقائد حقہ کے جاننے اور اخلاق صحیحہ کے معلوم کرنے
٭ کل حالتوں میں انسان اپنے علم اور واقفیت‘‘ میں غلطی نہیں کرتا۔ ایڈیٹر برادر ہند
میں خدا کی طرف سے الہام پاویں‘‘۔
پس جس صورت میں آپ کی اس دلیل میں بھی ’’ضرورت‘‘ کا قیاس مثل ہماری دونوں دلیلوں کے ہے اور قوانین نیچر اس کی تصدیق کرنے سے انکاری ہیں تو پھر ایسا قیاس بجز فرضی اور وہمی ہونے کے اور کچھ ثابت نہیں ہوتا کیونکہ ہم خود تو بات بات میں ایسے سینکڑوں ضرورتیں قائم کر سکتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ خدا کی حکمت بھی ہماری فرضی ضرورتوں کو تسلیم کرتی ہے۔ یا نہیں؟ محققوں کے نزدیک وہی ’’ضرورت‘‘ ’’ضرورت‘‘ ہو سکتی ہے جس کو نیچر یا خدا کی حکمت نے قائم کیا ہو جیسے ہماری بھوک کے دفعیہ کیلئے غذا اور سانس لینے کے لئے ہوا کی ضرورت ہماری فرضی نہیں بلکہ نیچری ہے اور اسی لئے اُس کا ذخیرہ بھی انسان کی زندگی کے لئے اُس نے فراہم کر دیا ہے۔ مگر جو ضرورت کہ نیچر کے نزدیک قابل تسلم نہیں ہے اور اُسے خود ہم اپنے وہم سے قائم کرتے ہیں وہ ایک طرف جس طور پر محض فرضی ہوتی ہے دوسری طرف اُسی طور پر اُسے علت ٹھہرا کر جو نتیجہ قائم کرتے ہیں وہ بھی فرضی ہونے کے باعث واقعات کے ساتھ مطابق نہیں ہوتا ہے اور یہ صورت ہم نے اپنے مثالوں میں بخوبی ظاہر کر دی ہے۔
دوم اس بات کی نسبت کہ آپ نے الہام کی تعریف میں جوکچھ عبارت رقم کی ہے اُس کا آپ کی دلیل سے کہاں تک ربط ہے۔ اسی قدر لکھنا کافی ہے کہ جس حالت میں آپ نے اپنے الہام کی کل بنیاد ’’ضرورت‘‘ پر قائم کی ہے درحقیقت وہ ضرورت جب کہ خود بے بنیاد ہے یعنی نیچر کے نزدیک وہ ضرورت قابل تسلیم نہیں ہے تو پھر اگر یہ بھی مانا جاوے کہ جو عمارت آپ نے کسی اپنی بنیاد پر کھڑی کی ہے وہ اچھے مصالحہ کے ساتھ بھی تعمیر کی ہے تا ہم وہ بے بنیاد ہونے کے باعث بجزوہم کے اور کہیں نہیں ٹھہر سکتی اور جیسے اس کی بنیاد فرضی ہے ویسے ہی وہ بھی آخر کار فرضی رہتی ہے۔
الہام کے اس غلط عقیدہ کے باعث دنیا میں لوگوں کو جس قدر نقصان پہنچا ہے اور جس قدر خرابیاں برپا ہوئی ہیں اور انسانی ترقی کو جس قدر روک پہنچی ہے اس کے ذکر کرنے کو اگرچہ میرا دل چاہتا ہے مگر چونکہ امر متناقصہ سے اُس کا اس وقت کچھ علاقہ نہیں ہے اس لئے اس کابیان یہاں پر ملتوی رکھتا ہوں۔
لاہور۔ ۳؍ جون ۱۸۷۹ء
آپ کا نیاز مند
شیونرائن۔ اگنی ہوتری
مکرمی جناب پنڈت صاحب
آپ کا عنایت نامہ عین انتظار کے وقت پہنچا۔ کمال افسوس سے لکھتا ہوں جو آپ کوتکلیف بھی ہوئی اور مجھ کوجواب بھی صحیح صحیح نہ ملا۔ میرے سوال کا تو یہ ماحصل تھا کہ جب کہ ہماری نجات (کہ جس کے وسائل کا تلاش کرنا آپ کے نزدیک بھی ضروری ہے) عقائد حقہ اور اخلاق صحیحہ اورعمال حسنہ کے دریافت کرنے پر موقوف ہے کہ جن میں وہ امور باطلہ کی ہرگز آمیزش نہ ہو تو اس صورت میں ہم بجز اس کے کہ ہمارے علوم دینیہ اور معارف شرعیہ ایسے طریق محفوظ سے لئے گئے ہوں جو دخل مفاسد اور منکرات سے بکلی معصوم ہو اور کسی طریق سے نجات نہیں پا سکتے۔ اس کے جواب میں اگر آپ وضع استقامت پر چلتے اور داب مناظرہ کو مرعی رکھتے تو از روئے حصر عقلی کے جواب آپ کا (اور حالت انکار) صرف تین باتوں میں سے کسی ایک بات میں محصور ہوتا ہے۔
اوّل یہ کہ آپ سرے سے نجات کا ہی انکار کرتے اور اس کے وسائل کو مفقود الوجود اور ممتنع الحصول ٹھہراتے اور اس کی ضرورت کو چار آنکھوں کی ضرورت کی طرح صرف ایک طبع خام سمجھتے۔
دوم یہ کہ نجات کے قائم ہوتے لیکن اُس کے حصول کے لئے عقائد اور اعمال کا ہر ایک کذب اور فساد سے پاک ہونا ضروری جانتے ہیں بلکہ محض باطل یاامور مخلوطہ حق اور باطل کو بھی موجب نجات کا قرار دیتے۔
سوم یہ کہ حصول نجات کو صرف حق محض سے ہی (جو امتزاج باطل سے بکلی منزہ ہو) مشروط رکھتے اور یہ دعویٰ کرتے کہ طریقہ مجوزہ عقل کا حق محض ہی ہے اور اس صورت میں لازم تھا کہ بغرض اثبات اپنے اس دعویٰ کے ہمارے قیاس استقرائی کو (جو حجت کی اقسام ثلثہ میں سے تیسری قسم ہے جس کو مضمون سابق میں پیش کر چکے ہیں) کوئی نظیر معصوم عن الخطاء ہونے کسی عاقل کے پیش کر کے اور اس کے علوم نظریہ عقلیہ میں سے کوئی تصنیف دکھلا کر توڑ دیتے پھر اگر حقیقت میں ہمارا قیاس استقرائی ٹوٹ جاتا اور ہم اُس تصنیف کی کوئی غلطی نکالنے سے عاجز رہ جاتے تو آپ کی ہم پر خاصی ڈگری ہو جاتی مگر افسوس کہ آپ نے ایسا نہ کیا ہزاروں مصنفوں کا ذکر تو کیا مگر نام ایک کابھی نہ لیا اور نہ اس کی کسی عقلی نظیری تصنیف کا کچھ حوالہ دیا۔ اب اس تکلیف دہی سے میری غرض یہ ہے کہ اگر الہام کی حقیقت میں جناب کو ہنوز کچھ تامل ہے تو بغرض قائم کرنے ایک مسلک بحث کے شقوق ثلثہ متذکرہ بالا میں سے کسی ایک شق کو اختیار کیجئے اور پھر اس کا ثبوت دیجئے کیونکہ جب میں ضرورت الہام پر حجت قائم کر چکا تو از روئے قانون مناظرہ کے آپ کا یہی منصب ہے جو آپ کسی حیلہ قانونی سے اس حجت کوتوڑیں اور جیسا میں عرض کر چکا ہوں اس حیلہ انگیزی کے لئے آپ کے پاس صرف تین ہی طریق ہیں جن میں سے کسی ایک کو اختیارکرنے میں آپ قانونًا مجاز ہیں اور یہ بات خاطر مبارک پر واضح رہے کہ ہم کو اس بحث سے صرف اظہار حق منظور ہے۔ تعصب اور نفسانیت جو سفہا کا طریقہ ہے کہ ہرگز مرکوز خاطر نہیں میں دلی محبت سے دوستانہ یہ بحث آپ سے کرتا ہوں اور دوستانہ راست طبعی کے جواب کا منتظر ہوں۔
راقم آپ کا نیاز مند
غلام احمد عفی عنہ
۵؍جون ۱۸۷۹ء





مکرمی جناب مرزا صاحب
آپ کا عنایت نامہ مرقومہ پانچویں ماہ حال مجھے ملا۔ نہایت افسوس ہے کہ میں نے آپ کے الہام کے بارے میں جو کچھ بطور جواب لکھا تھا اس سے آپ تشفی حاصل نہ کر سکے۔ میرا افسوس اور بھی زیادہ بڑھتا جاتا ہے کہ جب میں دیکھتا ہوں کہ آپ نے میرے جواب کے عدم تسلیم کی نسبت کوئی صاف اور معقول وجہ بھی تحریر نہیں فرمائی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اُس کے پڑھنے اور سمجھنے میں غور اور فکر کر دخل نہیں دیا۔
پھر آپ کے اس عنایت نامہ میں ایک اور لطف یہ موجود ہے کہ آپ ایک جگہ پر قائم رہتے معلوم نہیں ہوتے۔ پہلے آپ نے الہام کی ضرورت اس دلیل کے ساتھ قائم کی کہ چونکہ انسان کی عقل حقیقت کے معلوم کرنے میں عاجز ہے اور وہ اپنی تحقیقات میں خطا کرتی ہے پس ضرور ہے کہ انسان خدا کی طرف سے الہام پاوے۔ میں نے جب آپ کی اس ضرورت کو فرض ثابت کر دیا اور دکھلا دیا کہ خدا کی حکمت اس ضرورت کو تسلیم نہیں کرتی ہے تو آپ نے پہلے مقام کو چھوڑ کر اب دوسری طرف کا راستہ لیا اور بجائے ہماری تحریر کے تسلیم کرنے یا بشرط اعتراض کسی معقول حجت کے پیش کرنے کے اب اُس سلسلہ کو نجات کے مسئلہ کو لے بیٹھے اور اب اس نئے قضیہ کے ساتھ ایک نئی بحث کے اصولوں کو قائم کرنے لگے۔ پھر اس پر ایک طرفہ یہ کہ آپ اخیر خط میں لکھتے ہیں کہ
’’اگر الہام کی حقیت میں جناب کو ہنوز کچھ تامل ہے تو بغرض قائم کرنے ایک مسلک بحث شقوق ثلثہ متذکرہ بالا میں سے کسی ایک شق کو اختیار کیجئے اور پھر اس کا ثبوت دیجئے کیونکہ جب میں ضرورت الہام پر حجت قائم کر چکا تو اب از روئے قانون مناظرہ کے آپ کا بھی منصب ہے جو آپ کسی حیلہ قانونی سے اس حجت کو توڑدیں‘‘۔
گویا یک نہ شُد دو شُد آپ نے ضرورت الہام پر جو حجت قائم کی تھی وہ تو جناب من میں ایک دفعہ توڑ چکا اور اُس فرضی ضرورت پر جو عمارت الہام کی آپ نے قائم کی تھی اسے بے بنیاد ٹھہرا چکا مگر افسوس ہے ایک عرصہ دراز کی عادت کے باعث اُس کی تصویر ہنوز آپ کی نظروں میں سمائی ہوئی ہے اور وہ عادت باوجود اس کے کہ آپ کو ’’اس بحث میں صرف اظہار حق منظور ہے‘‘ مگر پھر آپ کو حقیتق کے پاس پہنچنے میں سَد راہ ہے۔ تحقیق حق اُس وقت تک اپنا قدم نہیں جما سکتی ہے جب تک کہ ایک خیال جو عادت میں داخل ہو گیا ہے اُس کو ایک دوسر ی عادت کے ساتھ جدا کرنے کی مشق حاصل نہ کی جائے کسی عیسائی کا ایک چھوٹا سا لڑکا بھی گنگا کے پانی کو صرف دریا کا پانی سمجھتا ہے اور اس سے زیادہ گنگا سے نجات وغیرہ کا خیال اس سے متعلق نہیں کرتا۔ مگرایک پُرانے خیال کے معتقد بڈھے ہندو کے نزدیک اس پانی میںایک غوطہ مارنے سے انسان کے کُل گناہ دفع ہو جاتے ہیں۔
ایک عیسائی کے نزدیک خدا کی تثلیث برحق ہے مگر ایک مسلمان یا براہمو کے نزدیک وہ بالکل لغو ہے۔ اگر کسی ایسے ہندو یا عیسائی سے بحث کر کے اس کے خیال کی لغویت کو ظاہر بھی کر دو( کہ جس کا ظاہر کرنا کچھ مشکل بات نہیں) مگر وہ اس کی لغویت کو تسلیم نہیں کرتا ہے حتی کہ جب جواب سے عاجز آتا ہے تو یہ کہہ کر کہ ’’گو میں ٹھیک جواب نہیں دے سکتا ہوں مگر میں اُس کا قائل ہوں اور دل سے اُسے ٹھیک جانتا ہوں‘‘۔ یہ دل کی گواہی اس کی وہی عادت ہے کہ جوحکماء کے نزدیک طبیعت ثانی کے نام سے موسوم ہوتی ہے۔ پس جس الہام کے آپ قائل ہیں اُس کی بھی وہی کیفیت ہے۔ آپ کے نزدیک ایک عرصہ دراز کی عادت کے باعث وہ خیال ایسا پختہ اور صحیح ہو گیا ہے کہ آپ اس کے مخالف ہماری مضبوط سے مضبوط دلیل بھی قابل اطمینان نہیں پاتے ہیں اور جب ایک طرف سے اپنی دلیل کو کمزور دیکھتے ہیں تو دوسری طر ف بدل کر چل دیتے ہیں۔ اس طور پر فیصلہ ہونا محال ہے۔ آج تک کسی سے ہوا بھی نہیںاور نہ آئندہ ہونے کی اُمید ہے۔ آپ مجھ سے اُن مصنفوں کے نام طلب کرتے ہیں جن کی تصنیف یا تحقیقات میں غلطی نہیں ہے حالانکہ جن علوم کا میں نے ذکر کیاتھا اُس کے جاننے والوں کے نزدیک اِن کی تصنیف کی کیفیت پوشیدہ نہیں ہے کیا آپ نے علم ریاضی کی تصنیفات خود ملاحظہ نہیں کی ہیں؟ کیا علم طبیعات کی کتب آپ کی نظر سے نہیں گزری ہیں؟ بیشک جدید تصنیفات جو انگریزی سے فارسی یا عربی میں ترجمہ نہیں ہوئیں شاید اُن کی کیفیت آپ سے پوشیدہ ہو مگر بعض یونانیوں کی تصنیف مثل اقلیدس کے علم ہندسہ وغیرہ سے غالباً آپ واقفیت رکھتے ہونگے اور ظاہر ہے کہ علم ہندسہ کے راست اور صحیح ہونے میں آج تک دنیا میں کسی عالم کو خواہ (وہ الہام کا مقر ہو یا منکر خدا پرست ہو یا دہریہ) کلام نہیں ہے۔ اگر آپ کی رائے میں وہ درست نہ ہو تو آپ براہ مہربانی مجھ کو اس کی غلطیوں سے مطلع فرمائیں۔
پھر آپ یہ بھی لکھتے ہیں کہ میں نے آپ کے مضمون کے جواب دینے میں داب مناظرہ کو مرعی نہیں رکھا۔ اس کے جواب میں میں صرف اس قدر عرض کرنا کافی سمجھتا ہوں کہ جس وقت میری اور آپ کی کل تحریریں رسالہ برادر ہند میں مشتہر ہو جاویں گی اُس وقت انصاف پسند ناظرین خود ہی تصیفہ کر لیں گے۔ آپ کا یہ فرمانا صحیح ہے یا غیر صحیح۔
اگر آپ لکھیں تو اگلے مہینہ کے رسالہ سی اس بحث کو مشتہر کرنا شروع کر دوں۔
لاہور ۱۲؍ جون ۱۸۷۹ء
آپ کا نیاز مند
شیونارائن۔ اگنی ہو تری








مکرمی جناب پنڈت صاحب
آپ کا مہربانی نامہ عین اُس وقت میں پہنچا کہ جب میںبعض ضروری مقدمات کے لئے امرتسر کی طرف جانے کو تھا چونکہ اس وقت مجھے دو گھنٹہ کی بھی فرصت نہیں اس لئے آپ کا جواب واپس آ کر لکھوں گا اور انشاء اللہ تعالیٰ تین روز بغایت درجہ چار روز کے بعد واپس آ جاؤں گا اور پھر آتے ہی جواب لکھ کر خدمت گرامی میں ارسال کروں گا۔آپ فرماتے ہیں کہ یہ مضامین برادر ہند میں درج ہونگے۔ مگر میری صلاح یہ ہے کہ ان مضامین کے ساتھ دو ثالثوں کی رائے بھی ہو تب اندراج پاویں مگر اب مشکل یہ کہ ثالث کہاں سے لاویں ناچار یہی تجویز خوب ہے کہ آپ ایک فاضل گرامی صاحب تالیف و تصنیف کا براہم سماج کے فضلاء میں سے منتخب کر کے اطلاع دیں جو ایک خدا ترس اور فروتن اور محقق اور بے نفس اور بے تعصب ہو اور ایک انگریز کہ جس کی قوم کی زیرکی بلکہ بے نظیری کے آپ قائل ہیں انتخاب فرما کر اس سے بھی اطلاع بخشیں تو اغلب ہے کہ میں ان دونوں کو منظور کروں گا اور میں نے بطور سرسری سنا ہے کہ آپ کے برہمو سماج میں ایک صاحب کیشب چندر نام لئیق اور دانا آدمی ہیں اگر یہی سچ ہے تو وہی منظور ہیں اُن کے ساتھ ایک انگریز دیجئے۔ مگر مصنفوں کو یہ اختیار نہ ہوگا کہ صرف اتناہی لکھیں کہ ہماری رائے میں یہ ہے یا وہ ہے بلکہ ہر ایک فریق کی دلیل کو اپنے بیان سے توڑنا یا بحال رکھنا ہوگا۔ دوسرے یہ مناسب ہے کہ اس مضمون کو رسالہ میں متفرق طور پر درج نہ کیا جائے کہ اس میں منصف کو دوسرے نمبروں کا مدت دراز تک انتظار کرنا پڑتا ہے بلکہ مناسب ہے کہ یہ سارا مضمون ایک ہی دفعہ برادر ہند میں درج ہو یعنی تین تحریریں ہماری طرف سے اور تین ہی آپ کی طرف سے ہوں اور اُن پر دونوں منصفوں کی مفصل رائے درج ہو اور اگر آپ کی نظر میں اب کی دفعہ منصفوں کی رائے درج کرنا کچھ دقت ہو تو پھر اس صورت میں یہ بہتر ہے کہ جب میں بفضلہ تعالیٰ امرتسر سے واپس آ کر تحریر ثالث آپ کے پاس بھیج دوں تو آپ بھی اُس پر کچھ مختصر تحریر کر کے تینوں تحریریں یکدفعہ چھاپ دیں اور ان تحریروںکے اخیر میں یہ بھی لکھا جائے کہ فلاں فلاں منصف صاحب اس پر اپنا اپنا موجہ رائے تحریر فرمائیں اور پھر دو جلدیں اس رسالہ کی منصفوں کی خدمت میں بھیجی جائیں آئندہ جیسے آپ کی مرضی ہو اس سے اطلاع بخشیں اور جلد اطلاع بخشیں اور میں نے چلتے چلتے جلدی سے یہ خط لکھ ڈالا ہے کمی بیشی الفاظ سے معاف فرمائیں۔ راقم
آپ کا نیاز مند
غلام احمد عفی عنہ
۱۷؍ جون ۱۸۷۹ء
نوٹ: ابھی تک مجھے پنڈت شونرائن صاحب اگنی ہوتری کے متعلق اسی قدر خطوط ملے ہیں۔ اس آخری خط سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کوئی مفصل خط لکھا ہے اگر اس کتاب کے طبع ہوجانے تک مجھے وہ خط بھی میسر آ گیا تو انشاء اللہ العزیز اسی کتاب میں درج ہو جائے گا۔ وباللہ التوفیق۔ خاکسار۔ یعقوب علی تراب۔ احمدی







پنڈت لیکھرام صاحب آریہ مسافر کشتہ اعجاز مسیحائی کے نام
پنڈت لیکھرام صاحب آریہ مسافر کا نام مشہور ہے یہ وہ شخص ہے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اپنی قضا و قدر کے متعلق نشان مانگا تھا اور آخر اللہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ بندہ کو اطلاع دی اور ایک پیشگوئی اس کے متعلق شائع کی گئی کہ سال کے اندر وہ ایک خارق عادت عذاب سے ہلاک ہوگا۔ عذاب کی نوعیت بھی اشتہار مذکور میں ظاہر کی گئی تھی جیسا کہ اس شعر سے ظاہر ہے۔
الا اے دشمن نادان و بے راہ
بترس از تیغ براّن محمد
فرمودہ الٰہی موافق ۶؍ مارچ ۱۸۹۷ء کو یہ پیشگوئی پوری ہوگئی۔ اس پیشگوئی کی تفصیل اور تشریح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتابوں میں درج ہے یہاں مجھے اس کی مزید تصریح کی ضرورت نہیں۔ صرف اس مقصد کے لئے یہ نوٹ لکھ دیا ہے کہ تا کہ پڑھنے والوں کو ایک سرسری علم پنڈت لیکھرام صاحب کشتہ اعجاز مسیحائی کے متعلق ہو جاوے وہ اشتہار جو حضرت مسیح موعود نے مختلف لیڈران مذاہب کے نام بغرض مقابلہ روحانی دیا تھا جس کے لئے پنڈت اندرمن مراد آبادی نے آمادگی ظاہر کی تھی اور بالآخر جب روپیہ اس کے پاس بھیجا گیا تو وہ لاہور سے بھاگ گئے اسی اشتہار کے سلسلہ میں پنڈت لیکھرام صاحب نے بھی نشان بینی کے لئے اپنے آپ کو پیش کیا اور خط و کتابت شروع کی چنانچہ اس سلسلہ میں جو خطوط مسیح موعود علیہ السلام نے پنڈت لیکھرام صاحب کو لکھے وہ انشاء اللہ العزیز ذیل میں درج ہونگے۔ یہ ظاہر کر دینا بھی ضروری ہے کہ ان خطوط کے اندراج میں کسی خاص ترتیب کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔ بلکہ صرف جمع کر دینا زیر نظر ہے۔
(یعقوب علی عفی اللہ عنہ)
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
از عاید باللہ الصمد مرزا غلام احمد بطرف پنڈت صاحب۔ بعد ماوجب۔ آپ کا خط ملا آپ لکھتے ہیں کہ خط مطبوعہ مطبع مرتضائی لاہوری مطالعہ سے گزرا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ابھی تک یہ خط آپ نے مطالعہ نہیں کیا کیونکہ تحریر آپ کی شرائط مندرجہ خط مذکورہ بالا سے بکلی برعکس ہے۔ اوّل اس عاجز نے اپنے خط مطبوعہ کے مخاطب وہ لوگ ٹھہرائے ہیں کہ جو اپنی قوم میں معزز علماء اور مشہور اور مقتدا ہیں جن کاہدایت پاناایک گروہ کثیر پر مؤثر ہو سکتا ہے۔ مگر آپ اس حیثیت اور مرتبہ کے آدمی نہیں ہیں اگر میں نے اس رائے میں غلطی کی ہے اور آپ فی الحقیقت مقتدا و پیشوائے قوم ہیں تو بہت خوب ، میں زیادہ تر آپ کو تکلیف دینا نہیں چاہتا صرف اتنا کریں کہ پانچ آریہ سماج میں یعنی آریہ سماج قادیان، آریہ سماج لاہور، آریہ سماج پشاور، آریہ سماج امرتسر، آریہ سماج لودہیانہ میں جس قدر ممبر ہیں سب کی طرف سے ایک اقرار نامہ حلفاً اس مضمون کا پیش کریں کہ جو پنڈت لیکھرام صاحب ہم سب لوگوں کے مقتدا اور پیشوا ہیں۔ اگر اس مقابلہ میں مغلوب ہو جائیں گے اور کوئی نشان آسمانی دیکھ لیں تو ہم سب لوگ بلاتوقف شرف اسلام سے مشرف ہو جائیں گے۔ پس اگر آپ مقتصدائے قوم ہیں تو ایسا اقرار نامہ پیش کرنا آپ پر مشکل نہیں ہوگا بلکہ تمام لوگ آپ کا نام سنتے ہی اقرار نامہ پر دستخط کر دیں گے کیونکہ آپ پیشوائے قوم ہو ہوئے۔ لیکن اگر آپ اپنا مقتدائے قوم ہونا ثابت نہ کر سکیں اور آپ اقرار نامہ مرتب کر کے دو ہفتہ تک میرے پاس نہ بھیج دیںتو آپ ایک شخص عوام الناس سے سمجھے جائیں گے جو قابل خطاب نہیں۔ یہبات آپ پر واضح رہے کہ اس معاملہ میں خط مطبوعہ میں شرط بھی درج ہے کہ مقتدائے قوم ہو (دیکھ سرط دہم خط مطبوعہ) اب مقتدا ہونا بجز مقتدیوں کے اقرار کے کیونکر ثابت ہو اور یہ بات کہ ہم نے اپنے خط مطبوعہ میں یہ شرائط لازمی کیوں رکھی کہ شخص ممتحن متقدائے قوم ہو عوام الناس نہ ہو اس شرط کی وجہ یہ ہے کہ عوام الناس میں سے کسی کو مغلوب اور قائل کرنا دوسروں پر مؤثر نہیں ہو سکتا بلکہ ایسے شخص کے تجربہ کو خواص لوگ سادہ لوحی اور عدم بصیرتی پر حمل کرتی ہیں اور بجائے اس کے کہ کوئی گروہ اس کا اتباع کر کے راہ راست پر آوے حق کی ہدایت یابی کو کسی غرض نفسانی پر مبنی سمجھ لیتے ہیں ماسوا اُس کے ان خطوط مطبوعہ کے بھیجنے سے میری غرض تو یہ ہے کہ تا ہر ایک قوم پرحجت پوری ہوکر حصہ پنجم میں اس اتمام حجت کا حال درج کیا جاوے لیکن ایک عامی آدمی قائل اور مسلمان ہو جانے سے قوم پر کیونکر حجت پوری ہو جائے گی۔ عامی کا عدم وجود قوم کے نزدیک برابر ہے کیا اس جگہ کے بعض آریہ سماج کے ممبروں کی شہادت سے جنہوں نے بچشم خود بعض نشانوں کو دیکھا ہے آپ لوگ مسلمان ہو سکتے ہیں تو پھر کیونکر امید رکھیں کہ آپ کی شہادت قوم پر مؤثر ہوگی۔ حالانکہ آپ قادیان کے بعض آریوں سے جنہوں نے بعض نشانوں کو مشاہدہ کیا ہے حیثیت اور عزت اور لیاقت میں زیادہ نہیں ہیں۔ بہرحال ہم کو اس خط مطبوعہ پر عمل کرنا لازم ہے جس کو آپ بنظر سرسری دیکھ چکے ہیں۔ اگر قوم کے مقتدا مخاطب ہونے کے لئے مخصوص نہ ہوں تو یہ سلسلہ قیامت تک ختم نہ ہوگا۔ مناسب ہے کہ آپ بہت جلد اس کا جواب لکھیں کیونکہ اگر آپ مقتدا قوم کے قرار پا گئے تو دوسرے مراتب اس کے بعد طے ہونگے اور وج مبلغ دو سَو روپیہ ماہواری کے حساب سے دو ہزار چار سَو روپیہ سال بصورت مغلوبیت دینا تجویز کیا ہے یہ بھی اسی لحاظ سے یعنی مقتدائے قوم کی وجہ سے قرار پایا ہے۔ پھر خواہ وہ مقتدا تمام روپیہ آپ رکھے یا قوم جو اقرار نامہ پر دستخط کرے گی اپنے اپنے حصہ ٹھہرا لیں۔ اب خلاصہ کلام آپ یہ یاد رکھیں کہ ہم نے تین ماہ تک حصہ پنجم کا چھپنا ملتوی کر کے ہر ایک قوم کے سرکردہ کو خطوط مطبوعہ رجسٹری بھیجے ہیں کیونکہ قوم کے سرکردہ کل قوم کا حکم رکھتے ہیں عوام الناس سے ہم کو کچھ سروکار نہیں اور نہ اس طور سے بحث کا سلسلہ کبھی ختم ہو سکتا ہے۔ جو شخص ہمارے مقابل پر آناچاہے ( آپ ہوں یا کوئی اور ہوں) اوّل اُس کو یہ ثبوت دینا چاہئے کہ وہ درحقیقت مقتدائے قوم ہے اور اس کی قوم کے لوگ اس بات پر مستعد ہیں کہ اس کے قائل اور اقرار ہو جانے سے بلا حجت و حیلہ دین اسلام میں داخل ہو جائیں گے۔ سو مناسب ہے کہ آپ سعی و کوشش کر کے پانچویں آریہ سماج کے جس قدر ممبر ہوں اُن سے حلفاً اقرار نامہ لے لیں اور نام بنام دستخط کرائیں اور اس اقرار نامہ پر دس یا بیس ثقہ مسلمانوں اور بعض پادریوں کے بھی دستخط ہوں تا کہ وہ اقرار نامہ معہ آپ کے اقرار نامہ اور ہمارے اقرار کے چند اخباروں میں چھپوایا جاوے لیکن جب تک آپ اس طور سے اپنا سرکردہ ہونا ثابت نہ کریں تب تک آپ عوام الناس میں سے محسوب ہونگے۔ ہمارے خط کو غور سے دیکھو اور اس کے منشاء کے موافق قدم رکھو ان خطوط سے اصل مطلب تو ہمارا یہی تھا کہ قوموں کے سرکردہوں کو قائل یا لاجواب کر کے کل قوموںپر (ہندو ہوں یا عیسائی) اتمام حجت کیا جاوے۔ پس جو لوگ سرکردہ ہی نہیں ان کے لاجواب یا قائل کرنے سے ہمارا مطلب کیونکر پورا ہوگا اور حصہ پنجم کے چھپنے کی نوبت کب آئے گی اور اگر خدا توفیق دیوے تو اپنے آریہ بھائیوں کی شہادت کو ہی کافی سمجھو۔ کیونکہ وہ بھی تمہارے بھائی ہیں۔ والدعاء
(مورخہ ۱۷؍ اپریل ۱۸۸۵ء مطابق یکم رجب ۱۳۰۲ھ)
٭٭٭
بسم اللّہ الرحمٰن الرحیم
مشفق پنڈت لکھیرام صاحب۔ بعد ماوجب آپ کا خط مرقومہ ۹؍ اپریل ۱۸۸۵ء مجھ کو ملا آپ نے بجائے اس کے کہ میرے جواب پر انصاف اور صدق دلی سے غور کرتے ایسے الفاظ دُور از تہذیب و ادب اپنے خط میں لکھے ہیں جو میں خیال نہیں کر سکتا کہ کوئی مہذب آدمی کسی سے خط و کتابت کر کے ایسے الفاظ لکھنا روا رکھے۔ پھر آپ نے اسی اپنے خط میں تمسخر اور ہنسی کی راہ سے دین اسلام کی نسبت توہین اور ہتک کے کلمات تحریر کئے ہیں اور بغیر سوچے سمجھے کے ہجو ملیح کے طرح مکروہ اور نفرتی باتوں کو پیش کیا ہے اگرچہ اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ آپ کس قدر طالب حق ہیں لیکن پھر بھی میں نے مناسب سمجھا کہ آپ کے سخت اور بدبودار باتوں پر صبر کرکے دوبارہ آپ کو اپنے منشاء سے مطلع کروں کیونکہ یہ بھی خیال گزرتا ہے کہ شاید آپ نے میرے پہلے خط کو غور سے نہیں پڑھا اور اشتعال طبع مانع تفکر و تدبر ہو گیا سو اب میں پھر اپنے اُسی جواب کو دوہرا کر تحریر کرتا ہوں صاحب من میں نے جو پہلے خط میں لکھا تھا اس کا خلاصہ مطلب یہی ہے کہ جو اَب میں گزارش کرتا ہوں یعنی ان دنوں میں اتمام حجت کی غرض سے میںنے یہ مناسب سمجھا کہ سات سَو خط چھپوا کر اُن مخالفین مذہب کی طرف روانہ کروں جو اپنی اپنی قوم کے سرکردہ اور میر مجلس ہیں اور یہ قرار پایا کہ چونکہ ہر ایک قوم میں اوسط اور ادنیٰ درجہ کے آدمی ہزار ہا بلکہ لکھوکھا ہوا کرتے ہیں اس لئے یہی مناسب ہے کہ یہ خطوط مطبوعہ ان چیدہ چیدہ اور اعلیٰ درجہ کے لوگوں کی طرف روانہ کئے جائیں کہ جو خواص اور قلیل الوجود آدمی ہیں۔ پھر ساتھ ہی یہ بھی سوچا گیا کہ ایسے لوگ اگر قادیان میں ایک برس تک ٹھہرنے کے لئے بلائے جائیں تو ان کی دنیوی عزت اور آمدنی کے لحاظ سے دو سَو روپیہ ماہواری ان کے لئے شرط مقرر کرنا مناسب ہوگا کیونکہ یہ خیال کیا گیا کہ وہ لوگ جس قدر اپنے اپنے مکانات میں بذریعہ نوکری یا تجارت وغیرہ وجوہ معاش حاصل کرتے ہیں وہ غالباً اس اندازہ کے قریب قریب ہوگا۔ غرض جو دو سَو روپیہ کی رقم مقرر کی گئی وہ محض بنظر اندازہ وجود معاش اُن اعلیٰ درجہ کے سرگروہوں کے مقرر ہوئی تا وہ لوگ یہ عذر پیش نہ کریں کہ قادیان میں ٹھہرنے سے ہمارا دو سَو روپیہ ماہواری کا ہرج متصور ہے اور اسی غرض سے خطوط مطبوعہ میں یہ بھی اندراج پایا کہ اگر دو سَو روپیہ ماہوار سے کچھ زیادہ دیا جائے گا اب آپ جو تحریر فرماتے ہیں کہ وہ دو سَو روپیہ کہ جو اعلیٰ درجہ کے لوگوں کیلئے بہ لحاظ حیثیت دنیوی اُن کے خطوط مطبوعہ میں اندراج پایا ہے اُسی قدر روپیہ ملنے کی شرط ہے۔ میں قادیان میں آتا ہوں سو آپ خود انصاف فرما لیویں کہ آپ کیونکر اس قدر روپیہ پانے کی شرط کر سکتے ہیں۔ ہاں اگر آپ کسی جگہ دو سَو روپیہ ماہواری پاتے ہیں تو پھر اس صورت میں مجھے کسی طور سے عذر نہیںہے۔ آپ مجھ پر ثابت کر دیں کہ میں اسی حیثیت کا آدمی ہوں اگر ایسا ثابت نہ کر سکیں تو پھر آپ کے لئے یہ منظور کرتا ہوں کہ جس قدر آپ نوکری کی حالت میں تنخواہ پاتے رہے ہیں وہی تنخواہ حسبِ شرائط متذکرہ خطوط مطبوعہ آپ کو دوں گا لیکن آپ خود انصاف کر لیوں کہ جو تنخواہ اعلیٰ درجہ کے لوگوں کے لئے اُن کی ماہواری آمدنی کے لحاظ سے اور اُن کے ہرجہ کثیرہ کے خیال سے خطوط مطبوعہ میں لکھی گئی ہے وہ کیونکر اُن لوگوں کو دی جاوے جو اس درجہ کے آدمی نہیں ہیں اور اگر ہر ایک ادنیٰ اعلیٰ کے لئے دو سَو روپیہ ماہواری دینا تجویز کروں تو اس قدر روپیہ کہاں سے لاؤوں۔ آپ تحکم کی راہ سے کام نہ کریں اور جو میں نے خطوط کے چھاپنے کے وقت انتظام کیا ہے اُس کو خوب سوچ لیں اور میرے نزدیک بہتر یہ ہے کہ آپ دو تین روز کے لئے قادیان میں آجائیں اور بالمواجہہ گفتگو کر کے اس بات کا تصفیہ کریں مجھے یہ بھی منظور ہے کہ دو تین شریف اور معزز آریہ جیسے منشی جیونداس لاہور میں ہیں وہ مجھ سے ملاقات کر کے جو اس بارہ میں تصفیہ کریں وہی قرار پاجائے۔ میں ناحق کی ضد کرنا نہیں چاہتا نہ کوئی حیلہ بہانہ کرنا چاہتا ہوں۔ آپ غور سے میرے خط کو پڑھیں اور یہ جو آپ نے اپنے خط کے اخیر پر لکھ دیاہے کہ قادیان کے آریہ لوگوں سے آپ کی کراماتی مایہ کی قلعی کھل چکی ہے یہ الفاظ بھی منصفین کے سامنے پیش کرنے کے لائق ہیں جس حالت میں قادیان کے بعض آریہ جو میرے پاس آمدو رفت رکھتے ہیں اب تک زندہ موجود ہیں اور اس عاجز کے نشانوں اور خوارق کے قائل اور مقر ہیں تو پھر نہ معلوم کہ آپ نے کہاں سے اور کس سے سن لیا کہ وہ لوگ منکر ہیں اگر آپ راستی کے طالب تھے تو مناسب تھا کہ آپ قادیان میں آ کر میرے روبرو اور میرے مواجہ میں اُن لوگوں سے دریافت کرتے تا جو امر حق ہے آپ پر واضح ہو جاتا۔ مگر یہ بات کس قدر دیانت اور انصاف سے بعید ہے کہ آپ دور بیٹھے قادیان کے آریوں پر ایسی تہمت لگارہے ہیں ذرا آپ سوچیں کہ جس حالت میں میں نے اُنہیں آریوں کا نام حصہ سوم و چہارم میں لکھ کر اُن کا شاہد خوارق ہونا حصص مذکورہ میں درج کر کے لاکھوں آدمیوں میں اس واقعہ کی اشاعت کی ہے تو پھر اگر یہ باتیں دروغ بے فروغ ہوں تو کیونکر وہ لوگ اب تک خاموش رہتے بلکہ ضرور تھا کہ اس صریح کے جھوٹ کے ردّ کرنے کے لئے کئی اخباروں میں اصل کیفیت چھپواتے اور مجھ کو ایک دنیا میں رسوا اور شرمندہ کرتے۔ سو منصف آدمی سمجھ سکتا ہے کہ وہ لوگ باوجود شدت مخالفت اور عناد کے اسی وجہ سے خاموش اور لاجواب رہے کہ جو جو میں نے شہادتیں اُن کی نسبت لکھیں وہ حق محض تھا اور آپ پر لازم ہے کہ آپ اس ظن فاسد سے مخلصی حاصل کرنے کے لئے قادیان آ کر اس بات کی تصدیق کر جائیں ۔
تا سیہ رد شود کہ دروغن باشد
جواب سے جلد تر مطلع کریں۔ والدعاء
(راقم مرزا غلام احمد از قادیان۔ ۱۲؍ اپریل ۱۸۸۵ء)
٭٭٭
مشفقی پنڈت لیکھرام صاحب بعد ماوجب۔ اگرچہ اس خاکسار نے آپ کو اُن خطوط کے جواب میں جن میں آپ نے قادیان میں ایک سال تک ٹھہرنے کی درخواست کی تھی یہ لکھا تھا کہ چوبیس سَو روپیہ لینے کی شرط پر آپ کا ایسی درخواست کرنا آپ کی عزت اور حیثیت عرفی کے برخلاف ہے لیکن چونکہ آپ اب تک اسی بات پر اصرار کئے جاتے ہیں کہ میں آریہ سماج کے گروہ میں ایک بڑا عزت دار آدمی ہوں اور بزرگوار اور عالی مرتبت ہونے کی وجہ سے تمام آریہ سماجوں میں مشہور و معروف ہوں بلکہ میں نے سنا ہے کہ آپ نے اپنے اسی دعویٰ کو بعض اخباروں میں چھپوا کر جا بجا مجھے بدنام کرنا چاہا ہے اور یہ لکھا ہے کہ جس حالت میں میں ایسا عزت دار آدمی ہوں اور پھر طالب حق تو پھر کیوں مجھے آسمانی نشان کے دکھلانے اور اسلام کی حقیت مشاہدہ کرانے سے محروم رکھا جاتا ہے اور کیوں چوبیس سَو روپیہ دینے کی شرط پر مجھ کو قادیان میں ایک سال تک ٹھہرا کر آسمانی نشانوں کے آزمانے کیلئے اجازت نہیں دی جاتی۔ سو آپ پر واضح ہو کہ ہم نے آج تک آپ کی درخواست منظور کرنے میں توقف کیا تو اس کی یہی وجہ تھی کہ ہم اپنے خط مطبوع میں یہ شرـط درج کر چکے ہیں کہ ہمارا مقابلہ عوام الناس سے نہیں ہے بلکہ ہر قوم کے چیدہ اور منتخب اور صاحب عزت لوگوں سے ہے اور ہر چند ہم نے کوشش کی مگر ہم پر یہ ثابت نہیں ہوا کہ آپ اُن معزز اور ذی مرتبت لوگوں میں سے ہیں جو بوجہ حیثیت عرفی اپنی کے دو سَو روپیہ ماہواری خرچہ پانے کے مستحق ہیں مگر چونکہ آپ کا اصرار اپنے اس دعویٰ پر غایت درجہ تک پہنچا گیا ہے کہ فی الحقیقت میں ایسا ہی عزت دار ہوں اور پشاور سے بمبئی تک جس قدر آریہ سماج ہیں وہ سب مجھ کو معزز اور قوم میں سے ایک بزرگ اور سرگردہ سمجھتے ہیں۔ اس لئے آپ کی طرف لکھا جاتا ہے کہ اگر آپ سچ مچ ایسے ہی عزت دار ہیں تو ہم آپ کی درخواست منظور کرلیتے ہیں اور جہاں چاہو چوبیس سَو روپیہ جمع کرانے کو تیار و مستعد ہیں لیکن جیسا کہ آپ شرائط مندرجہ خطوط مطبوعہ سے تجاوز کر کے اپنی پوری پوری تسلی کرنے کے لئے مجھ سے چوبیس سَو روپیہ نقد کسی دوکان یا بنک سرکار میں جمع کرانا چاہتے ہیں تو اس صورت میں مجھے بھی حق پہنچتا ہے کہ میں بھی آپ کے اس اقرار کو … دیکھنے کسی آسمان نشان کے بلاتوقف قادیان میں ہی مسلمان ہو جاؤں گا۔ آپ ہی کے اعتبار پر چھوڑدوں بلکہ جیسے آپ روپیہ روصول کرنے کے باب میں اپنی پوری پوری تسلی کریں گے ایسا ہی میں بھی آپ کے مسلمان ہونے کے لئے کوئی ایسی تدبیر کر لوں جس سے مجھے بھی پورا یقین اور کامل تسلی ہو جائے کہ آپ بھی درحالت انکار اسلام اپنی عہد شکنی کے ضرر سے محفوظ نہیں رہ سکیں گے۔ سو عدات کی بات جس میں میں اور آپ برابر ہیں یہ ہے کہ ایک طرف خاکسار چوبیس سَو روپیہ حسب نشاندہی آپ کے کسی جگہ جمع کرا دے اور ایک طرف آپ بھی اسی قدر روپیہ حسب نشاہدہی اس عاجز کے بوجہہ تاوان انکار اسلام کسی مہاجن کی دوکان پر رکھوا دیں تا جس کو خدا تعالیٰ فتح بخشے اُس کیلئے یہ روپیہ فتح کی یادگار رہے۔ یہ تجویز کسی فریق پر ظلم نہیں بلکہ فریقین کیلئے موجب تسلی اور سراسر انصاف ہے کیونکہ جیسے آپ کو یہ اندیشہ ہے کہ آپ بصورت مغلوب ہونے اس عاجز کے چوبیس سَو روپیہ جبراً وصول نہیں کر سکتے۔
علی ہذا لقیاس مجھے بھی یہ فکر ہے کہ میں بھی بعد مغلوب ہونے آپ کے آپ کو جبراً مسلمان نہیں کر سکتا۔ سو یہ انتظام حقیقت میں نہایت عمدہ اور مستحن ہے کہ ایک طرف آپ وصول روپیہ کے لئے اپنی تسلی کر لیں اور ایک طرف میں بھی ایسا بندوبست کر لوں کہ درحالت عدم قبول اسلام آپ بھی شکست کے اثر سے خالی نہ جانے پاویں اور اگر آپ اسلام کے قبول کرنے میں صادق النیت ہیں تو آپ کو روپیہ جمع کرنے میں کچھ نقصان اور اندیشہ نہیں کیونکہ جب آپ بصورت مغلوب ہونے کے مسلمان ہو جائیں گے تو ہم کو آپ کے روپیہ سے کچھ سروکار نہیں ہوگا بلکہ یہ روپیہ تو صرف اُس حالت میں بطور تاوان آپ سے لیا جائے گا کہ جب آپ عہد شکنی کر کے اسلام کے قبول کرنے سے گریز یا روپوشی اختیار کریں گے سو یہ روپیہ بطور ضمانت آپ کی طرف سے جمع ہوگا اور صرف عہد شکنی کی صورت میں ضبط ہوگا نہ اور کسی حالت میں۔ رہا یہ امر کہ آپ اس قدر روپیہ کہاں سے لائیں گے تو اس کا فیصلہ تو آپ ہی کے اقرار سے ہو گیا جب کہ آپ نے اقرار کر لیا کہ میں بڑا عزت دار آدمی اور قوم میں مشہور و معروف ہوں کیونکہ جس حالت میں آپ اتنے بڑے عزت دار ہیں تو اوّل یہ روپیہ آپ کے آگے کچھ چیز نہیں بلکہ اس سے بھی بہت زیادہ آپ کے دولت خانہ میں جمع ہوگا اور اگر کسی اتفاق سے آپ پر افلاس طاری ہے تو قوم کے لوگ ایسے معزز اور سرگردہ سے امداد وغیرہ کے بارے میں کب دریغ کریں گے بلکہ وہ تو سنتے ہی ہزار ہا روپیہ آپ کے قدموں پر رکھ دیں گے اور صرف آپ کی ایک زبان کے اشارہ سے روپیوں کا ڈھیر جمع ہو جائے گا۔ خدانخواسہ ایسا کیوں ہونے لگا کہ آریہ سماج کے دولتمند اور ذی مقتدرت لوگ آپ کو چند روز کے لئے بطور امانت روپیہ دینے سے انکار کریں اور آپ کی دیانتداری اور امانت گزاری میں اُن کو کلام ہو کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ ادنیٰ ادنیٰ آدمی جیسے چوہڑے چمار یا سانسی اپنی قوم میں کچھ ذرا سا اعتبار رکھتے ہیں وہ بھی اپنی برادری میں اس قدر مسلم العزت ہوتے ہیں کہ قوم کے ذی مقدرت لوگ کسی مشکل کے وقت صدہا روپیہ سے بطور قرضہ وغیرہ اُن کی مدد کرتے ہیں اور آپ تو بقول آپ کے بڑے ذی عزت آدمی ہیں جن کی عزت سارے آریہ سماجوں میں تسلیم و قبول کی گئی ہے۔ ماسوا اس کے جو روپیہ صرف کچھ مدت کے لئے امانت کے طور پر آپ کے ہاتھ میں دیں گے یہ نہیں کہ وہ روپیہ آپ کی ملک کر دیں گے۔ قصہ کوتاہ کہ آج ہم یہ خط رجسٹری کرا کر آپ کی خدمت میں بھیجتے ہیں اور اگر بیس دن تک آپ نے ہمارا جواب نہ بھیجا اور قادیان میں آ کر ایک سال تک ٹھہرنے کیلئے بات نہ ٹھہرائی اور ان شرائط کو جو عین انصاف اور حق پرستی پر مبنی ہیں قبول نہ کیا تو پھر بعد گزرنے بیس روز کے یہ حال کنارہ کشی آپ کا چند اخباروں میں شائع کرا کر لوگوں پر ثابت کیا جاوے گا کہ آپ کا ایک سال تک قادیان میں ٹھہرنے کے لئے مجھ سے دریافت کرنا سراسر لاف و گذاف پر مبنی تھا نہ آپ کی نیت صاف و درست تھی نہ آپ کی ایسی حیثیت و عزت تھی جس کا آپ نے وعدہ کیا تھا۔
اب ہم اس خط کو ختم کرتے ہیں اور مدت مقررہ تک ہر روز آپ کے جواب کے منتظر رہیں گے۔
والسلام علی من اتبع الہدیٰ
از قادیان ضلع گورداسپور
مورخہ ۱۷؍ جولائی ۱۸۸۵ء
خاکسار
مرزا غلام احمد






لالہ بھیم سین صاحب کے نام
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے ہم مکتب ایک لالہ بھیم سین صاحب تھے اور زمانہ قیام سیالکوٹ میں حضرت اقدس کی ان کے ساتھ بڑی راہ و رسم تھی۔ لالہ بھیم سین صاحب کی بابت اس خط کے شائع کرتے وقت مجھے معلوم نہیں کہ وہ زندہ ہیں یا فوت ہوچکے ہیں مگر اس میں کوئی کلام نہیں کہ ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بڑی محبت تھی اور خط وکتابت بھی رہتی تھی۔ جن ایام میں گورداسپور میں مقدمات کا سلسلہ شروع تھا تو لالہ بھیم سین صاحب نے اپنے بیٹے کی خدمات بھی پیش کی تھیں جو بیرسٹری کا امتحان پاس کر کے آ چکے تھے۔ حضرت مسیح موعود نے شکریہ کے ساتھ ان کی خدمات کو کسی دوسرے وقت پر عندالضرورت ملتوی کر دیا تھا۔ غرض حضرت صاحب کو لالہ بھیم سین صاحب سے محبت اور لالہ بھیم سین کو حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام سے اخلاص تھا۔
۱۴؍ جون ۱۹۰۳ء کو حضرت مسیح موعود نے لالہ بھیم سین کو ایک خط لکھا تھا جو ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔ میں لالہ بھیم سین صاحب کے فرزند ارجمند سے خط و کتابت کر کے حضرت اقدس کی بعض اور تحریریں بھی جو میسر آ سکیں حاصل کرنی چاہتا ہوں مگر سردست یہ ایک خط یہاں درج کر دیا جاتا ہے جو ہمارے ہاتھ میں ہے۔
(خاکسار یعقوب علی عفی اللہ عنہ)
٭٭٭
آپ نے اپنے خط میں کچھ مذہبی رنگ میں بھی نصائح تحریر فرمائی تھیں مجھ کو اس بات سے بہت خوشی ہوئی کہ آپ کو اس عظیم الشان پہلو سے بھی دلچسپی ہے۔ درحقیقت چونکہ دنیا ایک مسافر خانہ ہے اور تھوڑی دیر کے بعد ہم سب لوگ اصلی گھر کی طرف واپس کئے جائیںگے۔ اس لئے ہر ایک کا فرض ہونا چاہئے کہ دین اور مذہب کے عقائد کے معاملہ میں پورے غور سے سوچے پھر جس طریق کو خدا تعالیٰ کی رضا مندی کے موافق پاوے اُسی کے اختیار کرنے میں کسی ذلت اور بدنامی سے نہ ڈرے اور نہ اہل و عیال اور خوشیوں اور فرزندوں کی پروا رکھے۔ ہمیشہ صادقوں نے ایسا ہی کیا ہے۔ سچائی کے اختیار کرنے میں اُنہوں نے بڑے بڑے دُکھ اُٹھائے۔
یہ تو ظاہر ہے کہ خواہ عقائد ہوںیا اعمال دو حال سے خالی نہیں یا سچے ہوتے ہیں یاجھوٹے۔ پھر جھوٹے کو اختیار کرنا دھرم نہیں ہے مثلاً وید کی طرف یہ ہدایت منسوب کی جاتی ہے کہ اگر کسی عورت کے چند سال تک بیٹا نہ ہو بیٹیاں ہی ہوں تو اس کا خاوند اپنی عورت کو دوسرے سے ہمبستر کرا سکتاہے اور ایسا سلسلہ اُس وقت تک جاری رہ سکتا ہے جب تک ایک بیگانہ مرد کے نطفہ سے گیارہ فرزند نریہ پیدا ہو جائیں اور شاکت مت میں جو وید کی طرف ہی اپنے تئیں منسوب کرتے ہیں یہ ہدایت ہے کہ اُن کے خاص مذہبی میلوں میں ماں اور بہن سے بھی جماع درست ہے اور ایک شخص دوسرے کی عورت سے زنا کر سکتا ہے۔ اسی طرح دنیا میں ہزار ہا ایسے مذہب ہیں کہ اگر ان کا انکار کیا جاوے تو آپ انگشت بدنداں رہیں گے پھر کیونکر ممکن ہے کہ انسان صلح کاری اختیار کرکے اُن لوگوں کی ہاں سے ہاں ملاوے ایسا ہی عقائد کا حال ہے بعض لوگ دریاؤں کی پوجا کرتے ہیں، بعض لوگ آگ کی، بعض سورج کی، بعض چاند کی، بعض درختوں کی، بعض سانپوں اور بلیوں اور بعض انسانوں کو درحقیقت خدا سمجھتے ہیں تو کیا ممکن ہے کہ ان سب کو راستباز سمجھا جاوے۔
جو لوگ دنیا کی اصلاح کے لئے آتے ہیں اُن کا فرض ہوتا ہے کہ سچائی کو زمین پر پھیلا دیں اور جھوٹ کی بیخ کنی کریں۔ وہ سچائی کے دوست اور جھوٹ کے دشمن ہوتے ہیں۔ مثلاً اگر کسی راستباز کو چند ڈاکو یا چور یہ ترغیب دیں کہ بذریعہ ڈاکو یا کیسہ بُری یا نقب زنی کے کوئی مال حاصل کرنا چاہئے تو کیا جائز ہوگا کہ وہ راستباز اُن کیساتھ ہو کر ایسے جرائم کا ارتکاب کرے۔ پس مذہب کسی چیز کا نام ہے اسی بات کا نام تو مذہب ہے کہ جو عقائد یا اعمال بُرے اور گندے اور ناپاک ہوں اُن سے پرہیز کیا جاوے اور ایسی کتابیں جو ناپاک عقائد یا اعمال سکھلاتی ہیں اُن کو اپنا پیشوا اور رہبر نہ بنایا جاوے۔ میں اس بات کو کسی طرح سمجھ نہیں سکتا کہ ہر ایک مذہب سے صلح رکھی جاوے اور اُن کی ہاں میں ہاں ملائی جاوے۔ کیونکہ اگر ایسا کیا جاوے تو دنیا میں کوئی بدی بدی نہیں رہے گی اور ہر قسم کے بدعقائد اور بداعمال نیکیوں میں داخل ہو جائیں گے حالانکہ جو شخص ایک نظر دنیا کے مذاہب پر ڈالے تو اُس کو معلوم ہو جائے گا کہ خدا شناسی ہی کے بارے میں کئی عقائد ہیں بعض ناستک مست یعنی دہریہ ہیں وہ خدا کے قائل نہیں ہیں اور بعض انسانوں یا حیوانوں یا اجرام سماوی یا عناصر کو خدا بناتے ہیں۔ خاص آریہ سماجی جو اپنے تئیں ویدوں کے وارث ٹھہراتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ خدا نے ایک ذرّہ بھی پیدا نہ کیا اور نہ ارواح پیدا کئے بلکہ یہ تمام چیزیں اور ان کی تمام قوتیں خود بخود ہیں۔ پرمیشور کا ان میں کچھ بھی دخل نہیں مگر مجھے ان باتوں کے بیان کرنے سے صرف یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ ایک راستباز کے لئے ممکن نہیں کہ ان تمام متناقص امور کو مان لے اور اُن پر ایمان لے آوے۔ جن لوگوں نے خدا تعالیٰ کی عظمت اور توحید اور قدرت کاملہ پر داغ لگایا ہے یا بدکاری کو جائز رکھا ہے میں اس جگہ اُن کی نسبت اور اپن کی کتاب کی نسبت کچھ نہیں کہتا صرف آپ کو یاد دلاتا ہوں کہ انسان کے لئے ممکن نہیں کہ ناپاک کو بھی ایسا ہی تسلیم کرے جیسا کہ پاک کو کرتا ہے یہ سچ ہے کہ پاک ہونے سے خدا ملتا ہے۔ لیکن ایسے طریقوں سے جو ناپاک عقائد اور ناپاک اعمال پر مشتمل ہیں کیونکر خدا مل سکتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ خدا تعالیٰ سے محبت کرنا بہشتی زندگی تک پہنچاتا ہے لیکن جو شخص راجہ رام چندر یا راجہ کرشن یا حضرت عیسیٰ کو خدا سمجھتا ہے یا خدائے قیوم کو ایسا عاجز اور ناقص خیال کرتا ہے کہ ایک ذرّہ یا ایک روح کے پیدا کرنے پر بھی قادر نہیں وہ کیونکر اس پاک ذوالجلال کی حقیقی محبت سے حصہ لے سکتا ہے۔ حقیقی اور سچے خدا کو اُس کی پاک اور کامل صفات کے ساتھ جاننا اور اُس کی پاک راہوں کے مطابق چلنا ہی حقیقی نجات ہے اور اُس حقیقی نجات کے مخالف جو طریق ہیں وہ سب گمراہی کے طریق ہیں پھر کیونکر ان طریقوں میں پھنسے رہنے سے انسان حقیقی نجات پا سکتا ہے۔
دنیا میں اکثر یہ واقعہ مشہور ہے کہ ہر ایک شخص اُن خیالات پر بہت بھروسہ رکھتا ہے جن خیالات میں اُن نے پرورش پائی ہے یا جن کو سننے کا اُس کو بہت موقعہ ملا ہے چنانچہ ایک عیسائی بے تکلف کہہ دیتا ہے کہ عیسیٰ ہی خدا ہے اور ایک ہندو اس بات کے بیان کرنے سے کچھ شرم نہیں کرتا کہ رام چندر کرشن درحقیقت خدا ہیں یا دریائے گنگ اپنے پرستاروں کو مرادیں دیتا ہے یا اُن کا ایک ایسا خدا ہے جس نے کچھ بھی پیدا نہیں کیا صرف موجودہ اجسام یا اراوح کو جو کسی اتفاق سے خودبخود قدیم سے چلے آتے ہیں جوڑنا اس کا کام ہے لیکن یہ تمام بھروسے بے اصل ہیں ان کے ساتھ کوئی دلیل نہیں۔ زندہ خدا کو خوش کرنا نجات کے طالب کا اصول ہونا چاہئے۔دنیا رسوم و عادات کی قید میں ہے ہر ایک شخص جو کسی مذہب میں پیدا ہوتا ہے اکثر بہرحال اُسی کی حمایت کرتا ہے لیکن یہ طریق صحیح نہیں ہے بلکہ صحیح یہ بات ہے کہ جس مذہب کی رو سے زندہ خدا کا پتہ مل سکے اور بڑے بڑے نشانوں اور معزات سے ثابت ہو کہ وہی خدا ہے اس مذہب کو اختیار کرنا چاہئے کیونکہ اگر درحقیقت خدا موجود ہے اور اُس کی ذات کی قسم کہ درحقیقت وہ موجود ہے تو یہ اس کا کام ہے کہ وہ بندوں پر اپنے تئیں ظاہر کرے اورانسان جو محض اپنی اٹکلوں سے خیال کرتا ہے کہ اس جہان کا ایک خدا ہے اور وہ اٹکلیں سچی تسلی دینے کیلئے کافی نہیں اور جیسا کہ ایک محجوب اُن روپوں پر بھروسہ کرتا ہے جو اُس کے صندوق میں بند ہیں اور اُس زمین پر جو اُس کے قبضہ میں ہے اور اُن باغات پر جو ہمیشہ صدہا روپیہ کی آمدنی نکالتے ہیں اور اُن لائق بیٹوں پر جو بڑے بڑے عہدوں پر سرفراز ہیں اور ماہ بماہ اپنے باپ کو ہزار ہا روپیہ سے مدد کرتے ہیں وہ محجوب ایسا بھروسہ خدا تعالیٰ پر ہرگز نہیں کر سکتا اس کا کیا سبب ہے یہی سبب ہے کہ اُس پر حقیقی ایمان نہیں۔ ایسا ہی ایک غافل جیسا کہ طاعون سے ڈرتا ہے اور اُس گاؤں میں داخل نہیں ہوتا جو طاعون سے ہلاک ہو رہا ہے اور جیسا کہ وہ سانپ سے ڈرتا ہے اور اُس سوراخ میں ہاتھ نہیں ڈالتا جس میں سانپ ہو یا سانپ ہونے کا گمان ہو اور جیسا کہ وہ شیر سے ڈرتا ہے اور اُس بن میں داخل نہیں ہوتا جس میں شیر ہو۔ ایسا ہی وہ خدا سے نہیں ڈرتا اور دلیری سے گناہ کرتا ہے اس کا سبب یہی ہے کہ اگرچہ وہ زبان سے کہتا ہے مگر دراصل خدا تعالیٰ سے غافل اور بہت دور ہے۔ خدا تعالیٰ پر ایمان لانا کوئی امر سہل نہیں ہے۔ بلکہ جب تک خدا تعالیٰ کے کھلے کھلے نشان ظاہر نہ ہوں اُس وقت تک انسان سمجھ بھی نہیں سکتا کہ خدا بھی ہے۔ گو تمام دنیا اپنی زبان سے کہتی ہے کہ ہم خداپر ایمان لائے مگر اُن کے اعمال گواہی دے رہے ہیں کہ وہ ایمان نہیں لائے۔ سچا ایمان تجربہ کے بعد حاصل ہوتا ہے مثلاً جب انسان باربار کے تجربہ سے معلوم کر لیتا ہے کہ سم الفار ایک زہر ہے جو نہایت قلیل مقدار اُس کی قاتل ہے تو وہ سم الفار کھانے سے پرہیز کرتا ہے۔ تب اُس وقت کہہ سکتے ہیں کہ وہ سم الفار کے قاتل ہونے پر ایمان لایا۔ سو جو شخص کسی پہلو سے گناہ میں گرفتار ہے وہ ہنوز خدا پر ایمان ہرگز نہیں لایا اور نہ اس کو شناخت کیا۔
دنیا بہت سی فضولیوں سے بھری ہوئی ہے اور لوگ ایک جھوٹی منطق پر راضی ہو رہے ہیں۔ مذہب وہی ہے جو خدا تعالیٰ کو دکھلاتا ہے اور خدا سے ایسا قریب کر دیتا ہے کہ گویا انسان خدا کو دیکھتا ہے اور جب انسان یقین سے بھر جاتا ہے تو خدا تعالیٰ سے اس کا خاص تعلق ہو جاتا ہے۔ وہ گناہ سے اور ہر ایک ناپاکی سے خلاصی پاتا ہے اور اس کا سہارا صرف خدا ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ اپنے خاص نشانوں سے اور اپنی خاص تجلی سے اور اپنے خاص کلام سے اس پر ظاہر کر دیتا ہے کہ میں موجود ہوں تب اس روز سے وہ جانتا ہے کہ خدا ہے اور اسی روز سے وہ پاک کیا جاتا ہے اور اندرونی آلائشیں دور کی جاتی ہیں۔ یہی معرفت ہے جو بہشت کی کنجی ہے مگر یہ بغیر اسلام کے اور کسی کو بھی میسر نہیں آتی۔ یہی خدا تعالیٰ کا ابتداء سے وعدہ ہے جو وہ اُنہی پر ظاہر ہوتا ہے جو اُس کے پاک کلام کی پیروی کرتے ہیں۔ تجربہ سے زیادہ کوئی گواہی نہیں۔ پس جب کہ تجربہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ خدا اپنے تئیں بجز اسلام کے کسی پر ظاہر نہیں کرتا اور کسی سے ہمکلام نہیں ہوتا اور کسی کی اپنے زبردست معجزات سے مدد نہیں کرتا تو ہم کیونکر مان لیں کہ دوسرے مذہب میں ایسا ہو سکتاہے۔
ابھی تھوڑے دن کی بات ہے کہ لیکھرام نامی ایک برہمن جو آریہ تھا قادیان میں میرے پاس آیا اور کہا کہ وید خدا کا کلام ہے۔ قرآن شریف خدا کا کلام نہیں ہے۔ میں نے اُس کو کہا کہ چونکہ تمہارا دعویٰ ہے کہ وید خدا کا کلام ہے مگر میں اُس کو اُس کی موجودہ حیثیت کے لحاظ سے خدا کا کلام نہیں جانتا کیونکہ اس میں شرک کی تعلیم ہے اور کئی ناپاک تعلیمیں ہیں۔ مگر میں قرآن شریف کو خدا کا کلام جانتا ہوں کیونکہ نہ اس میں شرک کی تعلیم ہے اور نہ کوئی اور ناپاک تعلیم ہے اور اُس کی پیروی سے زندہ خدا کا چہرہ نظر آ جاتا ہے اور معجزات ظاہر ہوتے ہیں۔ پس بہت سہل طریق یہ ہے کہ تم وید والے خدا سے میری نسبت کوئی پیشگوئی کرو اور میں قرآن شریف والے خدا سے وحی پا کر پیشگوئی کروں گا۔ پس اُس نے میری نسبت یہ پیشگوئی کہ یہ شخص تین برس تک ہیضہ کی بیماری سے مر جائے گا اور میرے خدانے یہ ظاہر کیا کہ چھ برس تک لیکھرام بذریعہ قتل نابود ہو جائے گا کیونکہ وہ خدا کے پاک نبی کی بے ادبی میں حد سے گزر گیا اور میرے پر ظاہر کیا گیا کہ اس کے مرنے کے تھوڑی مدت کے بعد پنجاب میں طاعون پھیل جائے گی۔ تمام پیشگوئی میں نے اپنی کتابوں میں بار بار شائع کر دی اور یہ بھی شائع کر دیا کہ وید درحقیقت خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے تو اَب آریہ سماج والوں کو چاہئے کہ لیکھرام کی نسبت اپنے پرمیشور سے بہت دعا کریں تا وہ اُس کو بچا لے کیونکہ میرے پر ظاہر کیا گیا ہے کہ ان کا پرمیشور اِن کو بچا نہیں سکے گا اور ایسا ہی لیکھرام نے بھی میری نسبت اپنی کتاب میں شائع کر دیا کہ یہ شخص تین برس میں ہیضہ کی بیماری سے فوت ہو جائے گا۔ آخر لیکھرام اپنے قتل ہونے پر گواہی دے گیا کہ وید خدا کی طرف سے نہیں ہے۔
اسی طرح نہ ایک نشان بلکہ ہزار ہا نشان ظاہر ہوئے جو انسان کی طاقت سے بالا تر ہیں جن سے روز روشن کی طرح کھل گیا کہ دین اسلام ہی دنیا میں سچا مذہب ہے اور سب انسانوںکے اختراع ہیں اور یا کسی وقت سچے تھے اور بعد میں وہ کتابیں بگڑ گئیں۔ اے عزیز ہم آپ کی باتوں کو کہ جو کوئی روشن دلیل ساتھ نہیں رکھتیں کیونکر مان لیں آپ نے جو کچھ لکھا ہے وہ صرف دعویٰ ہے جس کے ساتھ کوئی دلیل نہیں دنیا میں ایک ادنیٰ مقدمہ بھی جب کسی عدالت میں پیش ہوتا ہے تو ثبوت کے سوائے کسی حاکم کے نزدیک قابل سماعت نہیں ہوتا اور ایسا مدعی ڈگری حاصل نہیں کر سکتا تو پھر نہ معلوم آپ ان خیالات پر کیونکر بھروسہ رکھتے ہیں جو بے ثبوت ہیں اور کیونکر ہم ان سب باتوں کو سچی مان سکتے ہیں کہ عیسیٰ خدا ہے اور رام چندر خدا ہے اور کرشن خدا ہے اور یا کہ خدا ایسا عاجز ہے کہ ایک ذرّہ بھی اُس نے پیدا نہیں کیا۔ وہ مذہب قبولیت کے لائق ہے جو ثبوت کا روشن چراغ اپنے ساتھ رکھتا ہے اور وہ اسلام ہے۔ اگر آپ یہ کہیں کہ جو زبردست نشان اور معجزات اسلام میں ظاہر ہوتے ہیں وہ کسی دوسرے مذہب میں بھی ہوتے ہیں تو ہم آپ کی اس بات کو بشوق سنیں گے بشرطیکہ آپ اس بات کا ثبوت دیں مگر یاد رکھیں کہ یہ آپ کے لئے ہرگز ممکن نہیں ہوگا کہ اس زمانہ میں کوئی ایسا زندہ شخص بھی دکھلا سکیں کہ وہ برکات اور آسمانی نشان جو مجھے ملے ہیں ان میں وہ مقابلہ کر کے دکھلاوے اب میں آپ کے بعض خیالات کی غلطی کو رفع کرتا ہوں۔
قول آں عزیز: خدا نے کافر اور مومن کو اس دنیا میں یکساں حصہ بخشا ہے۔
اقوال چونکہ خدا نے ہر ایک کو اپنی طرف بلایا ہے اس لئے سب کو ایسی قوتیں بخشی ہیں کہ اگر وہ ان قوتوں کو ٹھیک طور پر استعمال کریں تو منزل مقصود تک پہنچ جائیں مگر تجربہ سے ثابت ہے کہ بجز اس کے کوئی اسلام پر قدم مارے ہر ایک شخص ان قوتوں کو بے اعتدالی سے استعمال میں لاتا ہے اور منزل مقصود تک نہیں پہنچتا۔
قول آں عزیز: بہت مشکل ہے کہ تمام لوگ ایک ہی مذہب پر چلیں۔
اقول سچے طالب کے لئے ہر ایک مشکل سہل کی جاتی ہے۔
قول آں عزیز: اگرچہ ریل پر چلنے والے بہت آرام پاتے ہیں لیکن اگر کوئی پیادہ پا سفر اختیار کرے تو ریل والے اس کو کافر نہیں کہتے۔
اقول یہ قول دینی معاملہ پر چسپاں نہیں ہے اور قیاس مع الفارق ہے۔ خدا کے ملنے کی ایک خاص راہ ہے یعنی معجزات اور نشانوں سے یقین حاصل ہونا۔ اسی پر تزکیہ نفس موقوف ہے اور یقین کے اسباب بجز اسلام کے کسی مذہب میں نہیں۔
قول آں عزیز: خدا بے انت ہے۔ سو ہم بے انت کو اُسی وقت محسوس کر سکتے ہیں جب پابندی شرع سے باہر ہو جائیں۔
اقول شرع عربی لفظ ہے جس کے معنی ہی راہ۔ یعنی خدا کے پانے کی راہ۔ پس آپ کے کلام کا خلاصہ یہ ہوا کہ جب ہم خدا کے پانے کی راہ چھوڑ دیں تب ہمیں ملے گا۔ اب آپ خود سوچ لیں کہ یہ کیسا مقولہ ہے۔
قول آں عزیز: ذات پات نہ پوچھے کو ۔ہر کو بھجے سو ہرکا ہو۔
اقول یہ سچ بات ہے اس سے اسلام بحث نہیں کرتا کہ کس قوم اور کس ذات کا آدمی ہے جو شخص راہِ راست طلب کرے گا خواہ وہ کسی قوم کا ہو خدا سے ملے گا۔ مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ خواہ کسی مذہب کا پابند ہو خدا کو مل سکتا ہے۔ کیونکہ جب تک پاک مذہب اختیار نہیں کرے گا تب تک خدا ہرگز نہیں پائے گا۔ مذہب اور چیز ہے اور قوم اور چیز۔
قول آں عزیز: یہی وجہ ہے کہ پیروان وید نے کسی شخص کی پیروی نجات کے لئے محصور نہیں رکھی۔
اقول جس شخص کے نزدیک وید کے مؤلف کی پیروی نجات کے لئے محصور نہیں وہ وید کا مکذب ہے۔ آپ خود بتلائیں کہ اگر مثلاً ایک شخص وید کے اصولوں اور تعلیموں کو نہیں مانتا نہ نیوگ کو مانتا ہے نہ اس بات پر راضی ہوتا ہے کہ اولاد کی خواہش کے لئے اپنی زندگی میں اپنی جورو کو ہمبستر کرا دے اور یا وہ اس بات کو نہیں مانتا کہ پرمیشور نے کچھ بھی پیدا نہیں کیا اور تمام روحیں اپنے اپنے وجود کی آپ ہی خدا ہے اور یا وہ اگنی،ٔ دایو، سورج وغیرہ کی پرستش کو نہیں مانتا غرض وہ بہرطرح وید کو ردی کی طرح خیال کرتا ہے یہاں تک کہ جس پرمیشور کو وید نے پیش کیا ہے اُس کو پرمیشور ہی نہیں جانتا تو کیاایسے آدمی کے لئے نجات ہے یا نہیں۔ اگر نجات ہے تو آپ وید سے ایسی شرتی پیش کریں جو ان معنوں پر مشتمل ہو اور اگر نجات نہیں تو پھر آپ کا یہ قول صحیح نہ ہوا کیونکہ ہم لوگ بھی تو صرف اس قدر کہتے ہیں کہ جو شخص قرآن شریف کی تعلیموں کو نہیں مانتا اُس کو ہرگز نجات نہیں اور اس جہان میں وہ اندھے کی طرح بسر کرے گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ومن یتبغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ وھوفی الاخرت من الخسرین۔ یعنی قرآن نے جو دین اسلام پیش کیا ہے جو شخص قرآنی تعلیم کو قبول نہیں کرے گا وہ مقبول خدا ہرگز نہ ہوگا اور مرنے کے بعد وہ زیاں کاروں میں ہوگا۔ یہ کہنا کہ کسی شخص کی پیروی وید کی رو سے درست نہیں یہ غلط ہے جب اُس کی کتاب کی پیروی کی تو خود اُس کی پیروی ہوگئی۔ اگر ہندوصاحبان وید کی پیروی نہیں کرتے تو پھر وید کو پیش کیوں کرتے ہیں۔
قول آں عزیز: ہر ملت اور ہر مذہب میں صاحب کمال گزرے ہیں۔
اقول: زمانہ موجودہ میں بطور ثبوت کے کسی صاحب کمال کو پیش کرنا چاہئے۔کیا آپ کے نزدیک پنڈت لیکھرام صاحب کمال تھا یا نہیں جس کو آج تک آریہ سماجی لوگ روتے ہیں۔
میںنے آں محب کی دلجوئی کے لئے باوجود کم فرصتی کے یہ چند سطریں لکھی ہیں امید کہ اس پر غور فرمائیں گے۔
خاکسار
غلام احمد۔ قادیان
۱۴؍ جون ۱۹۰۳ء





پنڈت کھڑک سنگھ کے نام
پنڈت کھڑک سنگھ ایک آریہ تھا۔ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے آج سے ۳۴ برس پیشتر قادیان میںگفتگو کرنے آیا اور بعض مذہبی مسائل پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے گفتگو بھی کی اور لاجواب ہو گیا۔ پھر جب وہ قادیان سے گیا تو آریہ مذہب سے بیزار ہو چکا تھا چنانچہ بالآخر وہ آریہ تو نہ رہا اور عیسائی ہو گیا اور آریہ مذہب کی تردید کا جو طریق حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام سے سیکھا تھا اسی طریق پر عیسائی ہو کر آریوں کے خلاف کئی رسالے رکھ ڈالے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السام نے اس پر اتمام حجت کی غرض سے قرآن مجید کے کلام الٰہی ہونے کے ثبوت میں مندرجہ ذیل سوال لکھ کر بھیجا تھا۔ مگر آخری وقت تک پنڈت کھڑک سنگھ اس کا جواب نہ دے سکا اور اس سوال کو ہی ہضم کر گیا۔ یہ مضمون تقریباًآج سے ۳۴برس پیشتر کا لکھا ہوا ہے۔ (یعقوب علی عفی اللہ عنہ)
٭٭٭
قرآن مجید کے کلام الٰہی ہونے کی بڑی بھاری نشانی یہ ہے کہ اُس کی ہدایت سب ہدایتوں سے کامل تر ہے اور اس دنیا کی حالت موجودہ میں جو خرابیاں پڑی ہوئی ہیں قرآن مجید سب کی اصلاح کرنے والا ہے۔ دوسری نشانی یہ ہے کہ قرآن مجید اور کتابوں کی طرح مثل کتھا کی نہیں ہے بلکہ مدلل طور پر ایک ہر ایک امر پر دلیل قائم کرتا ہے۔ اس دوسری نشانی پر… بنام کھڑک سنگھ وغیرہ ہم نے پانچ سَو روپیہ کا اشتہار بھی دیا تا کوئی پنڈت وید میں یہ صفت ثابت کر کے دکھلا دے کہ وید نے کن دلائل سے اپنے عقائد کو ثابت کیا ہے۔ مگر آج تک کسی کو توفیق نہ ہوئی کہ دم بھی مار سکے۔ ہم سچ سچ کہتے ہیں کہ وید میں نہ انجیل میں نہ توریت میں ہرگز طاقت نہیں کہ کسی فرقہ مخالف کا رد مثلاً دہریہ کا ردّ یا طبیعہ کا رد یا ملحدوں کا رد یا منکر الہام کا رد یا منکر نبوت کا رد یا بت پرست کا رد یا منکر نجات کا رد یا منکر عذاب کا رد یا منکر واحدانیت باری کا رد یا کسی اور منکر کا رد لائل قطعیہ سے کر کے دکھا دے۔ یہ سب کتابیں تو مثل مردہ کے پڑی ہیں کہ جس میں جان نہ ہو۔ کھڑک سنگھ جو لڑکوں کو بہکاتا ہے کہ وید میں سب کچھ لکھا ہے جو وہ سچا ہے تو ہم اُس کو پانچ سَو روپیہ دینا کرتے ہیں ہم سے ٹوبنو لکھا لے کسی فرقہ کی رد میں جو وید میں درج ہوں دو تین جز بمقابلہ فرقان مجید لکھ کر دکھا دے۔ یا خدا کی خالقیت سے عاجز ہونے پر یا نجات ابدی دینے سے عاجز ہونے پر بمقابلہ ہمارے دلائل کی وید سے دلائل نکال کر لکھے اور پانچ سَو روپیہ فی الفور ہم سے لے لے اور وہ جو کہتا ہے کہ فرقان مجید توریت و انجیل سے نکالا گیا ہے تو اُس کو چاہئے کہ اگر وید سے کام نہیں بنتا تو توریت و انجیل سے مدد لے اور اگر توریت یا انجیل وہ دلائل جو فرقان مجید پیش کرتا ہے پیش کر دیں گے تو ہم تب بھی کھڑک سنگھ کو پانچ سَو روپیہ نقد دیں گے ایک تو … تعداد پانچ سَو روپیہ بھی لکھ کر ہم بھیج دیتے ہیں لیکن اگر اس کے جواب میں خاموش رہے اور کچھ غیرت اور شرم اُس کو نہ آوے تو معلوم کرنا چاہئے کہ بڑا بے حیا اور بے شرم ہے کہ ایسی پاک اور مقدس کتاب کی ہتک کرتا ہے کہ جس کی ثانی حکمت اور فلسفہ میں اور کوئی کتاب نہیں تین ماہ سے بنام اُس کے بوعدہ انعام پانچ سَو روپیہ ہمارا مضمون چھپ رہا ہے اُس نے آج تک کون سے دلائل وید کے پیش کرے۔ شرم چہ کتی است کہ پیش مرداں بیاید اور پہلی نشانی جو ہم نے عنوان اس مضمون میں لکھی ہے اُس کا مطلب یہ ہے کہ فرقان مجید اپنے احکام میں سب کتابوں سے کامل تر ہے اور ہماری موجودہ حالت کے عین مطابق ہے اور جس قدر فرقان مجید میں احکام ہدایت حسب حالت موجودہ دنیا کے مندرج ہیں کسی اور کتاب میں ہرگز نہیں۔ اگر کھڑک سنگھ وید، توریت، انجیل میں یہ سب احکام نکال دیں تو اس پر بھی ہم پانچ سَو روپیہ دینے کی شرط کرتے ہیں اگر کچھ شرم ہوگی تو ضرور بمقابلہ اُس کے وید سے بحوالہ پتہ و نشان لکھے گا ورنہ خود یہ لڑکے جن کو یہ بہکا رہا ہے سمجھ جائیں گے یہ جھوٹا ہے۔ کون منصف اس عذر کو سن سکتا ہے کہ ایک آدمی کہتا ہے کہ تمہارا وید محض ناقص ہے۔ تم یہ احکام وید سے نکال دو اگر ناقص نہیں تم یہ جواب دیتے ہو۔ ہمیں فرصت نہیں۔ وید یہاں موجود نہیں۔ بھلا یہ کیاجواب ہے۔ اس جواب سے تو تم جھوٹے ٹھہرتے ہو۔ جس حالت میں ہم پانچ سَو روپیہ نقد دینا کرتے ہیں ٹوبنو لکھ دیتے ہیں رجسٹری کرا دیتے ہیں تو پھر تمہارا وید بھی اگر کچھ چیز ہے تو کس دن کے واسطے رکھا ہوا ہے دن بیس دن کی مہلت لے لو دیانند کو اپنا مددگار بنا لو ہم کو وہ احکام نکال دو جو ہم نیچے فرقان مجید سے نکال کر لکھیں گے یا یہ اقرار کرو کہ یہ احکام ہمارے نزدیک ناجائز ہیں تب پھر اُن کے ناجائز ہونے کا نمبر وار وید سے حوالہ ضرور دو۔ غرض تم ہمارے ہاتھ سے کہاں بھاگ سکتے ہو اور یہ جو تم محض شرارت سے بارادہ توہین حضرت خاتم الانبیاء کی نسبت بدزبانی کرتے ہو یہ محض تمہاری بداصلی ہے اپنے پرچہ میں بھی تم نے ایسی ایسی اہانت سب پیغمبروں کی نسبت لکھی ہے ہم کو خدا نے یہ شرف بخشا ہے کہ ہم سب پیغمبروں کی تعظیم کرتے ہیں اور جیسا کہ خدا نے ہم کو فرمایا ہے نجات سب مخلوقات کی اسلام میں سمجھتے ہیں تم کو اگر حضرت خاتم الانبیاء پر کچھ اعتراض ہے تو زبان تہذیب سے وہ اعتراض جو سب سے بھاری ہو تحریر کر کے پیش کرو ہم تمسک لکھ دیتے ہیں کہ اگر وہ اعتراض تمہارا صحیح ہوا تو ہزار روپیہ ہم تم کو دے دیں گے اور تم ایک تو نموں لکھ دو کہ اگر وہ اعتراض جھوٹا نکلا تو سَو روپیہ بطور حرجانہ تم ہم کو دو گے اور اب اگرہماری یہ تحریر سن کر چپ ہو جاؤ اور اس شرط پر بحث شروع نہ کرو تو ہر ایک منصف سمجھ جائے گا کہ وہ سب توہین تم نے بے ایمانی سے کی ہے۔ اکثر لوگوں کا اکثر قاعدہ ہے کہ آفتاب پر تھوکتے ہو اور بجھا ہوا چراغ لے بیٹھے ہو دنیا کو بڑی چیز سمجھ رکھا ہے کہ موت سے ڈرتے نہیں۔ ورنہ ایسے آفتاب کی توہین کرنا جو نور دنیا کا ہے نری بے ایمانی ہے۔ جھوٹے آدمی کی یہ نشانی ہے کہ جاہلوں کے روبرو تو بہت لاف و گزاف مارتے ہیں مگر جب کوئی دامن پکڑ کر پوچھے کہ ذرا ثبوت تو دے کر جاؤ حیران ہو جاتے ہیں… اب ہم نیچے وہ احکام فرقان مجید لکھتے ہیں کہ جن میں ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ وید میں یہ تمام احکام ضروریہ ہر گز موجود نہیں اس لئے وید ناقص تعلیم ہے اور تم کہتے ہو کہ ہیں اور ہم کہتے ہیں ہرگز نہیں اور لغت اُس شخص پر کہ جھوٹا ہے۔
اوّل خدا کی نسبت جو احکام فرقان مجید کے ہیں۔ خلاصہ آیات کا نیچے لکھتا ہوں۔
(۱) تم خدا کو اپنے جسموں اور روحوں کا ربّ سمجھو۔ جس نے تمہارے جسموں کو بنایا اور جس نے تمہاری روحوں کو بنایا۔ وہی تم سب کا خالق ہے اُس میں کوئی چیز موجود نہیں ہوتی۔
(۲) آسمان اور زمین اور سورج اور چاند اور جتنی نعمتیں زمین آسمان میں نظر آتی ہیں یہ کسی عمل کنندہ کے عمل کی پاداش نہیں۔ محض خدا کی رحمت ہے کسی کو یہ دعویٰ نہیں پہنچتا کہ میری نیکیوں کی عوض میں خدا نے سورج بنایا یا زمین بچھائی یا پانی پیدا کیا۔
(۳) تو سورج کی پرستش نہ کر تو چاند کی پرستش نہ کر تو آگ کی پرستش مت کر تو پتھر کی پرستش مت کر تو مشتری ستارہ کی مت پوجا کر تو کسی آدم زاد یا کسی اور جسمانی چیز کو خدا مت سمجھ کہ یہ سب چیزیں تیری ہی نفع کے واسطے ہم نے پیدا کی ہیں۔
(۴) بجز خدا کے کسی چیز کی بطور حقیقی تعریف مت کر کہ سب تعریفیں اُسی کی طرف راجع ہیں بجز اس کے کسی کو اُس کا وسلیہ مت سمجھ کہ وہ تجھ سے تیری رگ جان سے بھی زیادہ نزدیک ہے۔
(۵) تو اس کو ایک سمجھ کہ جس کا کوئی ثانی نہیں تو اس کو قادر سمجھ جو کسی فعل قابل تعریف سے عاجز نہیں تو اُس کو رحیم اور فیاض سمجھ کہ جس کی رحم اور فیض پر کسی عالم کے عمل کو سبقت نہیں۔ دوئم حالت موجودہ دنیا کی مطابق گناہوں کے نسبت۔
(۱) تو سچ بول اور سچی گواہی دے اگرچہ اپنے حقیقی بھائی پر ہو یا باپ پر ہو یا ماں پر یا کسی اور پیارے پر ہو اور حقانی طرف سے الگ مت ہو۔
(۲) تو خون مت کر کیونکہ جس نے ایک بے گناہ کو مار ڈالا وہ ایسا ہے کہ جس نے سارے جہان کو قتل کر دیا۔
(۳) تو اولاد کشی اور دختر کشی مت کر تو اپنے نفس کو آپ قتل مت کر تو کسی کافر و ظالم کا مددگار مت ہو تو زنا مت کر۔
(۴) تو کوئی ایسا فعل مت کر جو دوسرے کا ناحق باعث آزار ہو۔
(۵) تو قمار بازی نہ کر تو شراب مت پی تو سود مت لے اور جو اپنے لئے اچھا سمجھتا ہے وہی دوسرے کے لئے کر۔
(۶) تو نامحرم پر ہرگز آنکھ مت ڈال نہ شہوت سے نہ خالی نظر سے کہ یہ تیرے لئے ٹھوکر کھانے کی جگہ ہے۔
(۷) تم اپنی عورتوں کو میلوں اور محفلوں میں مت بھیجو اور اُن کو ایسے کاموں سے بچاؤ کہ جہاں وہ ننگی نظر آویں۔ تم اپنی عورتوں کو زیور چھنکاتی ہوئی خوش اور پسند لباس کوچوں اور بازاروں اور میلوں کی سیر سے منع کرو اور اُن کو نامحرموں کی نظر بازی سے بچاتے رہو۔
تم اپنی عورتوںکو تعلیم دو اور دین اور عقل اور خدا ترسی میں اُن کو پختہ کرو اور اپنے لڑکوں کو علم پڑھاؤ۔
(۸) تو جب حاکم ہو کر کوئی مقدمہ کرے تو عدالت سے کر اور رشوت مت لے اور جب تو گواہ ہو کر پیش ہو تو سچی سچی گواہی دے دے اور جب تیرے نام حاکم کی طرف سے بغرض ادا کسی گواہی کے حکم طلبی کا صادر ہو تو خبردار حاضر ہونے سے انکار مت کیجیو اور عدولی حکمی مت کریو۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
(۹) تو خیانت مت کر تو کم وزنی مت کر اور پورا پورا تول تو جنس ناقص کو عمدہ کی جگہ مت بیچ تو جعلی دستاویز مت بنا اور اپنی تحریر میں جعلسازی نہ کر تو کسی پر تہمت مت لگا اور کسی کو الزام مت دے کہ جس کی تیرے پاس کوئی دلیل نہیں۔
(۱۰) تو چغلی نہ کر تو گلہ نہ کر تو نمامی مت کر اور جو تیرے دل میں نہیں وہ زبان پر مت لا۔
(۱۱) تیرے پر تیرے ماں باپ کا حق ہے جنہوں نے تجھے پرورش کیا۔ بھائی کا حق ، محسن کا حق ہے، سچے دوست کا حق ہے، ہمسایہ کا حق ہے، ہم وطنوں کا حق ہے، تمام دنیا کا حق ہے۔ سب سے رتبہ برتبہ ہمدردی سے پیش آ۔
(۱۲) شرکاء کے ساتھ بدمعاملگی مت کر، یتیموں اور ناقابلوں کے مال کو خوردبرد مت کر۔
(۱۳) اسقاط حمل مت کر، تمام قسموں زنا سے پرہیز کر کسی عورت کی عزت میں خلل ڈالنے کیلئے اُس پر کوئی بہتان مت لگا۔
(۱۴) روبخدا ہو اور روبدنیا نہ ہو کہ دنیا ایک گذر جانے والی چیز ہے اور وہ جہاں ابدی جہان ہے بغیر ثبوت کامل کے کسی پر نالائق تہمت مت لگا کہ دلوں اور کانوں اور آنکھوں سے قیامت کے دن مواخذہ ہوگا۔
(۱۵) کسی سے جبراً کوئی چیز مت چھین اور فرض کو عین وقت پر ادا کر اور اگر تیرا قرضدار نادار ہے تو اُس کو قرض بخش دے اور اگر اتنی طاقت نہیں تو قسطوں سے وصول کر لیکن تب بھی اُس کی وسعت وقت دیکھ لے۔
(۱۶) کسی کے مال میں لاپروائی سے نقصان مت پہنچا اور نیک کاموں میں مدد دے۔
(۱۷) اپنے ہمسفر کی خدمت کر اور اپنے مہمان سے تواضع سے پیش آ۔ سوال کرنے والے کو خالی مت پھیر اور ہر ایک جاندار بھوکے پیاسے پر رحم کر۔
(۱۸) لوگوں کے راز جوئی مت کر اور کسی کے گھر میں بغیر اُس کی اجازت کے اندر مت جا اور کسی شخص کو دھوکہ دینے کی نیت سے کوئی کام مت کر دغا اور فریب اور نفاق سے دور رہ اور ہر ایک شخص سے صفا دلی سے معاملہ کر اور یتیموں اور ہمسایوں اور غریبوں خواہ رشتہ دار ہوں خواہ غیر رشتہ دار ہوں خواہ غیر تعلق والے ہوں اور ساتھ والے مسافروں اور راہ گیروں اور غلاموں پر مہربانی کرو۔ (خاکسار غلام احمد عفی اللہ عنہ)
٭٭٭
ڈاکٹر جگن ناتھ صاحب ملازم ریاست جموں کے نام
ڈاکٹر جگن ناتھ صاحب ملازم ریاست جموں سے آسمانی نشان دکھلانے کے متعلق جو خط و کتابت بتوسل حضرت مولوی نور الدین صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ ہوئی تھی اُس کے متعلق کسی انٹروڈکٹری نوٹ کی مجھے ضرورت نہیں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود اس خط سے پہلے جس کا یہاں درج کرنا مقصود ہے ایک تمہیدی نوٹ لکھ دیا ہے میں اسے ہی درج کر دیتا ہوں۔
(یعقوب علی)
ڈاکٹر جگن ناتھ صاحب ملازم ریاست جموں کو آسمانی نشانوں کی طرف دعوت میرے مخلص دوست اور للہی رفیق اخویم حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب فانی فی ابتغاء مرضات ربانی ملازم و معالج ریاست جموں نے ایک عنایت نامہ مورخہ ۷؍ جنوری ۱۸۹۲ء اس عاجز کی طرف بھیجا ہے٭ اوروہ یہ ہے ۔ خاکسار بابکار نورالدین بحضور خدام والا مقام حضرت مسیح الزمان سلمہ الرحمن السلام علیکم
٭ حضرت مولوی صاحب کے محبت نامہ موصوفہ کے چند فقرے لکھتا ہوں۔ غور سے پڑھنا چاہئے نہ معلوم کہ کہاں تک رحمانی فضل سے ان کو انشراح صدرو صدق قدم و یقین کامل عطا کیا گیا ہے اور وہ فقرات یہ ہیں۔ ’’عالی جناب مرزا جی مجھے اپنے قدموں میں جگہ دو۔ اللہ کی رضا مندی چاہتا ہوں اور جس طرح وہ راضی ہو سکے تیار ہوں اگر آپ کے مشن کوانسان خون کی آبپاشی ضرور ہے تو یہ نابکار (مگر محب انسان) چاہتا ہے کہ اس کام میں ک ام آوے‘‘۔ تمام کلامہ جزاد اللہ
حضرت مولوی جو انکسار اور ادب اور ایثار مال و عزت اور جان فشانی میں فانی ہیں وہ خود نہیں بولتے بلکہ اُن کی روح بول رہی ہے۔ درحقیقت ہم اُس وقت سچے بندے ٹھہر سکتے ہیں کہ جو خداوند منعم نے ہمیں دیا ہم اُس کو واپس دیں یا واپس دینے کیلئے تیار ہو جائیں ہماری جان اُس کی امانت ہے اور وہ فرماتا ہے کہ الا دوا لا مانات الیح اھلھا
سر کہ نہ در پائے عزیزش رود
بار گراں است کشیدن بدوش
منہ
ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کے بعد بہ کمال ادب عرض پرداز ہے۔ غریب نواز، پریروز ایک عرضی خدمت میں روانہ کی اس کے بعد یہاں جموں میں ایک عجیب طوفان بے تمیزی کی خبر پہنچی جس کو بضرورت تفصیل کے ساتھ لکھنا مناسب سمجھتا ہوں ازالہ اوہام میں حضور والا نے ڈاکٹر جگن ناتھ کی نسبت ارقام فرمایا ہے کہ وہ گریز کر گئے اب ڈاکٹر صاحب نے بہت سے ایسے لوگوں کو جو اس معاملہ سے آگاہ تھے کہاہے۔ سیاہی سے یہ بات لکھی گئی ہے۔ سرخی سے اس پر قلم پھیر دو۔ میں نے ہرگز گریز نہیں کیا اور نہ کسی نشان کی تخصیص چاہی۔ مردہ کا زندہ کرنا میں نہیں چاہتا اور نہ خشک درخت کا ہرا ہونا۔ یعنی بلا تخصیص کوئی نشان چاہتا ہوں جو انسانی طاقت سے بالا تر ہو۔
اب ناظرین پر واضح ہو کہ ڈاکٹر صاحب موصوف نے اپنے ایک خط میں نشانوں کوتخصیص کے ساتھ طلب کیا تھا جیسے مردہ زندہ کرنا وغیرہ اس پر ان کی خدمت میں خط لکھا گیا کہ تخصیص ناجائز ہے۔ خدا تعالیٰ اپنے ارادہ اور اپنے مصالح کے موافق نشان ظاہر کرتا ہے اور جب کہ نشان کہتے ہی اس کو ہیں جو انسانی طاقتوں سے بالاتر ہو تو پھر تخصیص کی کیا حاجت ہے۔ کسی نشان کے آزمانے کے لئے یہی طریق کافی ہے کہ انسانی طاقتیں اُس کی نظیر نہ پیدا کر سکیں۔ اس خط کا جواب ڈاکٹر صاحب نے کوئی نہیں دیا تھا اب پھر ڈاکٹر صاحب نے نشان دیکھنے کی خواہش ظاہر کی اور مہربانی فرما کر اپنی اُس پہلی قید کو اُٹھا لیا ہے اور صرف نشان چاہتے ہیں۔ کوئی نشان ہو مگر انسانی طاقتوں سے بالاتر ہو لہٰذا آج ہی کی تاریخ یعنی ۱۱؍ جنوری ۱۸۹۲ء کو بروز دوشنبہ ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں مکرراً دعوت حق کے طور پر ایک رجسٹری شدہ بھیجا گیا ہے جس کا یہ مضمون ہے کہ آپ بلاتخصیص کسی نشان دیکھنے پر سچے دل سے مسلمان ہونے کے لئے تیار ہیں تو اخبارات ۱؎ مندرجہ حاشیہ میں حلفاً یہ اقرار اپنی طرف سے شائع کر دیں کہ میں جو فلاں ابن فلاں ساکن بلدہ فلاں ریاست جموں میں برعہدہ ڈاکٹری متعین ہوں اس وقت حلفاً یہ اقرار صحیح سراسر نیک نیتی اور حق طلبی اور خلوص دل سے کرتا ہوں کہ اگر میں اسلام کی تائی دمیں کوئی نشان دیکھوں جس کی نظیر مشاہدہ کرانے سے میں عاجز آ جاؤں اور انسانی طاقتوں میں اُس کا کوئی نمونہ اُنہیں تمام لوازم کے ساتھ دکھلا نہ سکوں تو بلا توقف مسلمان ہو جاؤں گا۔ اس اشاعت اور اس اقرار کی اس لئے ضرورت ہے کہ خدائے قیوم و قدوس بازی اور کھیل کی طرح
۱؎ پنجاب گزٹ سیالکوٹ اور رسالہ انجمن حمایت اسلام لاہور اور ناظم الہند لاہور اور اخبار عام لاہور۔ اور نور افساں لودیانہ۱۲
کوئی نشان دکھلانا نہیں چاہتا جب تک کوئی انسان پوری انکسار و ہدایت یابی کی غرض سے اُس کی طرف رجوع نہ کرے تب تک وہ بنظر رحمت رجوع نہیں کرتا اور اشاعت سے خلوص اور پختہ ارادہ ثابت ہوتا ہے اور چونکہ عاجز نے خدا تعالیٰ کے اعلام سے ایسے نشانوں کے ظہور کے لئے ایک سال کے وعدہ پر اشتہار دیا ہے سو وہی میعاد ڈاکٹر صاحب کے لئے قائم رہے گی۔ طالب حق کے لئے یہ کوئی بڑی میعاد نہیں۔ اگر میں ناکام رہا تو ڈاکٹر صاحب جو سزا اور تاوان میری مقدرت کے موافق میرے لئے تجویز کریں وہ مجھے منظور ہے اور بخدا مجھے مغلوب ہونے کی حالت میں سزائے موت سے بھی کچھ عذر نہیں۔
ہماں بہ کہ جاں در رہ او فشانم
جہاں را چہ نقاں اگر من نہ مانم
والسلام علی من اتبع الھدی
٭٭٭
بنام پنڈت لیکھرام آریہ مسافر
اصل خط نہیں ملا صرف اس خط کے اقتباس لیکھرام کی تکذیب سے لئے ہیں۔ اس لئے ان کو ہی مفصل درج کر دیا جاتا ہے بہرحال اس اقتباس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا لکھا ہوگا۔ (ایڈیٹر)
پہلے اشتہار میں … (۲۴۰۰) دینے کا وعدہ ضرور ہوا ہے مگر پیشگی جمع کر دینے کی شرط نہیں کی تھی چونکہ آپ نے میرے وعدہ کو معتبر نہ سمجھا اور یہ زائد شرط لگائی کہ زرِ معہودہ کسی بنک سرکاری میں جمع کر دیا جائے اس صورت میں میرے لئے بر خلاف اس اشتہار کے استحقاق پیدا ہو گیا کہ چوبیس سَو روپیہ بالمقابل پیشگی امانت رکھاؤں۔
اخیر پر آپ اس قسم کے نشانوں کو قبول کرتے ہیں کہ ستاروں، آفتاب و ماہتاب کے تغیر و تبدل وغیرہ پر مشتمل ہوں۔
پنڈت صاحب! ہمارا یہ کام ہرگز نہیں کہ ہم جس طور سے کوئی شخص زمین و آسمان میں انقلاب پیدا کرنا چاہے اس طور سے انقلاب کر کے دکھا دیں۔ ہم صرف بندہ مامور ہیں ہمیں کچھ معلوم نہیں کہ خدا تعالیٰ کس طور پر کا نشان ظاہر کرے گا۔ ہم جانتے اور سمجھتے ہیں کہ نشان اس شے کا نام ہے کہ انسانی طاقت سے بالاتر ہو ہمارا دعویٰ صرف اس قدر ہے کہ خدا تعالیٰ صرف ایسا نشان دکھائے گا جس کے مقابلہ سے انسانی طاقتیں عاجز ہوں۔
لفظ نشان کو اپنی اصطلاح میں معجزہ قرار دے کر یہ تعریف لکھتے ہو کہ اس کے مقابلہ سے انسانی طاقتیں عاجز ہوں تو واقعی یہ معنی معجزہ کے درست ہیں کہ مشاہدیں فوراً عاجز ہو کر مشاہدہ کرانے والے پر ایمان لاویں اور دور تک مؤثر ہووے۔ غرضیکہ اظہر من الشمس ہونا چاہئے۔
خاکسار
مرزا غلام احمد
از قادیان
(۳۱؍ جولائی ۱۸۸۵ء)
٭٭٭
مینیجر گروکل گوجرانوالہ کے نام
فروری ۱۹۰۷ء کو گوجرانوالہ گروکل کے مینیجر کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں متواتر خطوط وہاں کی مذہبی کانفرنس میں شمولیت کیلئے آئے یہ کانفرنس آریوں کی طرف سے قرار پائی تھی۔ اس کانفرنس میں مختلف مذہب کے لیڈروں کو مدعو کیا گیا تھا اور ہر ایک کے لئے نصف گھنٹہ مقرر کیا تھا کہ وہ تقریر کریں نصف گھنٹہ میں مذہب جیسی چیز کا فیصلہ آریوں کے نزدیک آسان ہو تو یہ امر دیگر ہے لیکن جو شخص مذہب کی حقیقت اور صداقت کو کھول کر بیان کرنا چاہتا ہو اس کے لئے یہ ہنسی کی بات ہے۔بہرحال وہاں کے مینیجر صاحب نے حضرت اقدس کی خدمت میں متواتر خطوط لکھے اور وقت کی توسیع کے لئے جب ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے یہی کہا کہ آپ جلسہ مذاہب میں ضرور تشریف لاویں سب کے واسطے نصف گھنٹہ مقرر کیا ہے اور ایک عالم کے واسطے یہ وقت کافی ہے اس خط کا جواب حضرت اقدس نے مفتی صاحب (برادرم محمد صادق) کو زبانی فرما دیا کہ یہ لکھ دو۔ چنانچہ مفتی صاحب نے وہ خط لکھ دیا۔ چونکہ یہ حضرت اقدس ہی کی طرف سے ہے اور حضرت ہی کے کلمات ہیں اس لئے اس کو درج کیا جاتا ہے۔ (ایڈیٹر)
٭٭٭
جناب مینیجر صاحب گروکل گوجرانوالہ تسلیم
آپ کا دوسرا خط حضرت کی خدمت میں پہنچا جس میں آپ نے ظاہر کیا ہے کہ آپ نصف گھنٹہ سے زیادہ وقت نہیں دے سکتے اور کہ ایک عالم کے واسطے بہ سبب اس کے علم کے اتنا وقت کافی ہے۔ بجواب گزارش ہے کہ حضرت فرماتے ہیں:
کہ اہم مذہبی امور پر گفتگو کرنے کے واسطے اتنا تھوڑا وقت کسی صورت میں کافی نہیں ہو سکتا۔ اس واسطے ہم ایسی مجلس میں شریک نہیں ہو سکتے۔ اگر آپ کم از کم تین گھنٹہ وقت ہمارے مضمون کے واسطے رکھتے تو ممکن تھا کہ ہم خود جاتے یا اپنا کوئی فاضل دوست اپنا مضمون دے کر بھیج دیتے ہم کسی طرح سمجھ ہی نہیں سکتے کہ ایسے مضامین عالیہ میں صرف آدھ گھنٹے کی تقریر کافی ہے ہم رسوم کے پابند نہیں بلکہ ہم پابند احقاق حق ہیں۔ باقی آپ کا یہ فرمانا کہ بڑے عالم کے واسطے نصف گھنٹہ ہی کافی ہے مجھے تعجب ہے کہ یہ بات آپ کیونکر درست قرار دیتے ہیں جب کہ آپ کے وید مقدس لکھنے والوں نے اپنی باتوں کو ختم نہ کیا جب تک کہ وہ ایک گدھے کے بوجھ کے برابر ہوگئے تو پھر آپ ہم سے یہ امید کیونکر رکھتے ہیں۔ ایک نکتہ معرفت کاقبل از تکمیل گلا گھونٹا درحقیقت سچائی کا خون کرنا ہے جس کو کوئی راستباز پسند نہ کرے گا۔ اگر علم و فضل کا معیار حد درجہ کے اختصار اور تھوڑے وقت میں ہوتا تو چاہئے کہ وید صرف چند سطروں میں ختم ہو جاتا۔ مجھے افسوس ہے کہ اس تھوڑے وقت نے مجھے اس اشتراک سے محروم رکھا کیا خدا تعالیٰ کی ذات صفات کی نسبت کچھ بیان کرنا اور پھر روح اور مادہ میں جو کچھ فلاسفی مخفی ہے اس کو کھولنا آدھ گھنٹہ کا کام ہے؟ ہرگز نہیں۔ بلکہ یہ لفظ ہی سوء ادب میں داخل ہے۔
جن لوگوں کو محض شراکت کا فخر حاصل کرنا مقصود ہے وہ جو چاہیں کریں مگر ایک محقق ناتمام تقریر پر خوش نہیں ہو سکتا۔ سچائی کو ناتمام چھوڑنا ایسا ہے جیسا کہ بچہ اپنے پورے دنوں سے پہلے پیٹ سے ساقط ہو جائے۔ آئندہ آپ کا جو اختیار ہے۔
خادم مسیح موعود علیہ السلام
محمد صادق عفی اللہ عنہ
(۱۷؍ فروری ۱۹۰۷ء)
٭٭٭
سوامی دیانند سرستی کے نام اعلان
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک مضمون ابطال تناسخ پر بوعدہ انعام پانچ سَو روپیہ لکھ کر رسالہ ہندو باندھو لاہور میں چھپوایا تھا۔ سوامی دیانند صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مباحثہ کی دعوت دی اور تین آریوں کی معرفت پیام بھی بھیجا۔ حضرت مسیح موعود نے پسند نہ کیا کہ یہ کارروائی مخفی رہے۔ اس لئے سوامی جی کی دعوت مباحثہ کا جواب بذریعہ ایک چھپے ہوئے اعلان کے جو بمنزلہ کھلی چٹھی تھا دے دیا۔ اس کو میں یہاں درج کرتا ہوں اور اس لحاظ سے کہ ناظرین پورا لطف اُٹھا سکیں اس سے پہلے وہ مضمون درج کر دیا جاتا ہے تا کہ جہاں ایک طرف ریکارڈ مکمل ہو جاوے وہاں ناظرین کو اصل کیفیت کے سمجھنے میں سہولت ہو اس اعلان کے مطالعہ سے یہ بھی معلوم ہوگا کہ حضرت حجۃ اللہ علیہ السلام کو اعلائے کلمۃ الاسلام کے لئے ایک خاص جوش بخشا گیا تھا اور آپ کسی ایسے موقعہ کو ہاتھ سے نہیں دیتے تھے یہ اعلان ۱۸۷۸ء کا ہے گویا آج سے قریباً ۳۵ سال پہلے کی بات ہے جب کہ نہ کوئی دعویٰ تھا نہ جماعت تھی ہاں خدا تعالیٰ کی تائید آپ کے ساتھ تھی اور وہ ابتدائی وقت تھا جب کہ خدا تعالیٰ کا کلام آپ پر نازل ہو رہا تھا۔ بہرحال وہ مضمون اعلان حسبِ ذیل ہے۔ (ایڈیٹر)

ابطال تناسخ ومقابلہ وید و فرقان
اعلان متعلقہ مضمون ابطال تناسخ و مقابلہ وید و فرقان مع اشتہار پانچ سَو روپیہ جو پہلے بھی بہ مباحثہ باوا صاحب مشتہر کیا گیا تھا۔
ناظرین انصاف آئین کی خدمت بابرکت میں واضح ہو کہ باعث مشتہر کرنے اس اعلان کا یہ ہے کہ عرصہ چند روز کا ہوا ہے کہ پنڈت کھڑک سنگھ صاحب ممبر آریہ سماج امرتسر قادیان میں تشریف لائے اور مستدعی بحث کے ہوئے۔ چنانچہ حسب خواہش ان کے دربارہ تناسخ اور مقابلہ وید و قرآن کے گفتگو کرنا قرار پایا۔ برطبق اس کے ہم نے ایک مضمون جو اس اعلان کے بعد میں تحریر ہوگا ابطال تناسخ میں اس التزام سے مرتب کیا کہ تمام دلائے اس کے قرآن مجید سے لئے گئے اور کوئی بھی ایسی دلیل نہ لکھی جس کا ماخذ اور منشاء قرآن مجید نہ ہو اور پھر مضمون جلسہ عام میں پنڈت صاحب کی خدمت میں پیش کیا گیا تا کہ پنڈت صاحب بھی حسب قاعدہ ملتزمہ ہمارے کے اثبات تناسخ میں وید کی شرتیاں پیش کریں اور اس طور سے مسئلہ تناسخ کا فیصلہ پا جائے اور وید اور قرآن کی حقیقت بھی ظاہر ہو جائے کہ ان میں سے کون غالب اور کون مغلوب ہے اس پر پنڈت صاحب نے بعد سماعت تمام مضمون کے دلائل وید کے پیش کرنے سے عجز مطلق ظاہر کیا اور صرف دو شرتیاں رگوید سے پیش کیں کہ جن میں اُن کے زعم میں تناسخ کا ذکر تھا اور اپنی طاقت سے بھی کوئی دلیل پیش کردہ ہماری کو ردّ نہ کر سکے حالانکہ اُن پر واجب تھا کہ بمقابلہ دلائل فرقانی کے اپنے وید کا بھی کچھ فلسفہ ہم کو دکھلانے اور اس دعویٰ کو جو پنڈت دیانند صاحب مدت دراز سے کر رہے ہیں کہ وید سرچشمہ تمام علوم فنون کا ہے ثابت کرتے لیکن افسوس کہ کچھ بھی نہ بول سکے اور دم بخود رہ گئے او رعاجز لاچار ہو کر اپنے گاؤں کی طرف سدھار گئے۔ گانوں میں جا کر پھر ایک مضمون بھیجا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کو ابھی بحث کرنے کا شوق باقی ہے اور مسئلہ تناسخ میں مقابلہ وید اور قرآن کا بذریعہ کسی اخبار چاہتے ہیں سو بہت خوب ہم پہلے ہی تیار ہیں۔ مضمون ابطال تناسخ جس کو ہم جلسہ عام میں گوش گزار پنڈت صاحب موصوف کر چکے ہیں وہ تمام مضمون دلائل و براہین قرآن مجید سے لکھا گیا ہے اور جا بجا آیات فرقانی کا حوالہ ہے۔ پنڈت صاحب پر لازم ہے کہ مضمون اپنا دلائل بید سے بمقابلہ مضمون ہمارے کے مرتب کیا ہو۔ پرچہ سفیر ہند یا برادر ہند یا آریا درپن میں طبع کراویں۔ پھر آپ ہی دانا لوگ دیکھ لیں گے اور بہتر ہے کہ ثالث اور منصف اس مباحثہ تنقیح فضیلت وید اور قرآن میں دو شریف اور فاضل آدمی مسیحی مذہب اور برہمو سماج سے جو فریقین کے مذہب سے بے تعلق ہیں مقرر کئے جاویں سو میری دانست میں ایک جناب پادری رجب علی صاحب جو خوب محقق مدقق ہیں اور دوسرے جناب پنڈت شیونرائن صاحب جو برہمو سماج میں اہل علم اور صاحب نظر دقیق ہیں۔ فیصلہ اس امر متنازعہ فیہ میں حَکَم بننے کے لئے بہت اولیٰ اور انسب ہیں اس طور سے بحث کرنے میں حقیقت میں چار فائدے ہیں اوّل یہ کہ بحث تناسخ کی یہ تحقیق تمام فیصلہ پا جائے گی دوم اس موازنہ اور مقابلہ سے امتحان وید اور قرآن کا بخوبی ہو جائے گا اور بعد مقابلہ کے جو فرق اہل انصاف کی نظر میں ظاہر ہوگا وہی فرق قول فیصل متصور ہوگا۔ سوم یہ فائدہ کہ اس التزام سے ناواقف لوگوں کو عقائد مندرجہ وید اور قرآن سے بکلی اطلاع ہو جائے گی۔ چہارم یہ فائدہ کہ بحث تناسخ کی کسی ایک شخص کی رائے خیال نہیں کی جائے گی بلکہ محول بہ کتاب ہو کر اور معتاد طریق سے انجام پکڑ کر قابل تشکیک اور تزئیف نہیں رہے گی اور اس بحث میں یہ کچھ ضرور نہیں کہ صرف پنڈت کھڑک سنگھ صاحب تحریر جواب کے تن تنہا محنت اُٹھائیں بلکہ میں عام اعلان دیتا ہوں کہ صاحبان مندرجہ عنوان مضمون ابطال تناسخ جو ذیل میں تحریر ہوگا کوئی صاحب ارباب فضل و کمال میں سے متصدی جواب ہوں اور اگر کوئی صاحب بھی باوجود اس قدر تاکید مزید کے اس طرح متوجہ نہیں ہونگے اور دلائل ثبوت تناسخ کے فلسفہ متدعویہ وید سے پیش کریں گے یا در صورت عاری ہونے وید کے ان دلائل سے اپنی عقل سے جواب نہیں دیں گے تو ابطال تناسخ کی ہمیشہ کے لئے ان پر ڈگری ہو جائے گی اور نیز دعویٰ وید کا کہ گویا ہو تمام علوم فنون پر متضمن ہے محض بیدلیل اور باطل ٹھہرے گا اور بالآخر بغرض توجہ دہانی یہ بھی گزارش ہے کہ میں نے جو قبل اس سے فروری ۱۸۷۸ء میں ایک اشتہار تعدادی پانچ سَو روپیہ بابطال مسئلہ تناسخ دیا تھا وہ اشتہار اب اس مضمون سے بھی بعینہٖ متعلق ہے۔ اگر پنڈت کھڑک سنگھ صاحب یا کوئی اور صاحب ہمارے تمام دلائل کو نمبروار جواب دلائل مندرجہ وید سے دے کر اپنی عقل سے توڑیں گے تو بلاشبہ رقم اشتہار کے مستحق ٹھہریں گے اور بالخصوص بخدمت پنڈت کھڑک سنگھ صاحب کہ جن کا یہ دعویٰ ہے کہ ہم پانچ منٹ میں جواب دے سکتے ہیں یہ گزارش ہے کہ اب اپنی اُس استعداد علمی کو روبروئے فضلاء نامدار ملت مسیحی و برہمو سماج کے دکھلاویں اور جو جو کمالات اُن کی ذات سامی میں پوشیدہ ہیں منصہ ظہور میں لاویں اور نہ عوام کالانعام کے سامنے دم زنی کرنا صرف لاف گزاف ہے۔ اس سے زیادہ نہیں۔ اب میں ذیل میں مضمون موعودہ لکھتا ہوں۔
مضمون ابطال تناسخ و مقابلہ فلسفہ وید و قرآن جس کے طلب جواب میں صاحبان فضلاء آریہ سماج یعنی پنڈت کھڑک سنگھ صاحب، سوامی پنڈت دیانند صاحب، جناب باوا نرائن سنگھ صاحب، جناب منشی کنہیا لال صاحب، جناب منشی بختاورسنگھ صاحب۔ ایڈیٹر آریہ درپن، جناب بابو ساروا پرشاد صاحب، جناب منشی شرم پت صاحب سیکرٹری آریہ سماج قادیان، جناب منشی اندر من صاحب مخاطب ہیں بوعدہ انعام پانچ سَو روپیہ۔
آریا صاحبان کا پہلا اصول جو مدار تناسخ ہے یہ ہے کہ دنیا کا کوئی پیدا کرنے والا نہیں اور سب ارواح مثل پرمیشور کے قدیم اور انادی ہیں اور اپنے اپنے وجود کے آپ ہی پرمیشور ہیں میں کہتا ہوں کہ یہ اصول غلط ہے اور اس پر تناسخ کی ٹپڑی جمانا بنیاد فاسد پر فاسد ہے۔ قرآن مجید کہ جس پر تمام تحقیق اسلام کی مبنی ہے اور جس کے دلائل کو پیش کرنا بغرض مطالعہ دلائل وید اور مقابلہ باہمی فلسفہ مندرجہ وید اور قرآن ہم وعدہ کر چکے ہیں ضرورت خالقیت باری تعالیٰ کو دلائل قطعیہ سے ثابت کرتا ہے۔ چنانچہ وہ دلائل بہ تفصیل ذیل ہیں۔
دلیل اوّل جو برہان لمی ہے یعنی علت سے معلول کی طرف دلیل گئی ہے دیکھو سورہ رعد الجزو۱۳۔ اللّٰہ خالق کل شئی وھو الواحد القہار یعنی خدا ہر ایک چیز کا خالق ہے کیونکہ وہ اپنی ذات اور صفات میں واحد ہے اور واحد بھی ایسا کہ قہار ہے یعنی سب چیزوں کو اپنے ماتحت رکھتا ہے اور ان پر غالب ہے یہ دلیل بذریعہ شکل اوّل کے جو بدیہی الانتاج ہے اس طرح پر قائم ہوتی ہے کہ صغریٰ اس کا یہ ہے جو خداواحد اور قہار ہے اور کبریٰ یہ کہ ہر ایک جو واحد اور قہار ہو وہ تمام موجودات ماسوائے اپنے کا، خالق ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جو خدا تمام مخلوقات کا خالق ہے اثبات قضیہ اولیٰ یعنی صغریٰ کا اس طور سے ہے کہ واحد اور قہار ہونا خدا تعالیٰ کا اصول مسئلہ فریق ثانی بلکہ دنیا کا اصول ہے اور اثبات قضیہ ثانیہ یعنی مفہوم کبریٰ کا اس طرح پر ہے کہ اگر خدا تعالیٰ باوصف واحد اور قہار ہونے کے وجود ماسوائے اپنے کا خالق نہ ہو بلکہ وجود تمام موجودات کا مثل اس کے قدیم سے چلا آتا ہو تو اس صورت میں وہ واحد اور قہار بھی نہیں ہو سکتا۔ واحد اس باعث سے نہیں ہو سکتا کہ واحدانیت کے معنی سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ شرکت غیر سے بکلی پاک ہو اور جب خدا تعالیٰ خالق ارواح نہ ہو تو اس سے دو طور کا شرک لازم آیا۔ اوّل یہ کہ سب ارواح غیر مخلوق ہوکر مثل اس کے قدیم الوجود ہوگئے۔ دوم یہ کہ ان کے لئے بھی مثل پروردگار کے ہستی حقیقی ماننی پڑے۔ جو مستفاض عن الغیر نہیں پس اسی کا نام شرکت بالغیر ہے اور شرک بالغیر ذات باری کا بہ بداہت عقل باطل ہے کیونکہ اس سے شریک الباری پیدا ہوتا ہے اور شریک الباری ممتنع اور محال ہے۔ پس جو امر مستلزم محال ہو وہ بھی محال ہے اور قہار اِس باعث سے نہیں ہو سکتا کہ صفت قہاری کے یہ معنی ہیں کہ دوسروں کو اپنے ماتحت میں کر لینا اور اُن پر قابض اور متصرف ہو جانا سو غیر مخلوق اور روحوں کو خدا اپنے ماتحت نہیں کر سکتا کیونکہ جو چیزیں اپنی ذات میں قدیم اور غیر مصنوع ہیں وہ بالضرورت اپنی ذات میں واجب الوجود ہیں اس لئے کہ اپنی تحقیق وجود میں دوسرے کسی علت کے محتاج نہیں اور اسی کا نام واجب ہے جس کو فارسی میں خدا یعنی خود آئندہ کہتے ہیں۔ پس جب ارواح مثل ذات باری تعالیٰ کے خدا اور واجب الوجود ٹھہرے تو اُن کا باری تعالیٰ کے ماتحت رہنا عندالعقل محال اور ممتنع ہوا کیونکہ ایک واجب الوجود دوسرے واجب الوجود کے ماتحت نہیں ہو سکتا۔ اس سے دور یا تسلسل لازم آتا ہے۔ لیکن حال واقعہ جو مسلم فریقین ہے یہ ہے کہ سب ارواح خدا تعالیٰ کے ماتحت ہیں کوئی اُس کے قبضۂ قدرت سے باہر نہیں۔ پس اس سے ثابت ہوا کہ وہ سب حادث اور مخلوق ہیں کوئی ان میں سے خدا اور واجب الوجود نہیں اور یہی مطلب تھا۔
دلیل دوم جو اِنّی ہے یعنی معلول سے علت کی طرف دلیل لی گئی ہے دیکھو سورۃ الفرقان جزو۱۸ لم یکن لہ شریک فی الملک و خلق کل شئی فقدرہ تقدیرا یعنی اس کے ملک میں کوئی اس کا شریک نہیں وہ سب کا خالق ہے اور اُس کے خالق ہونے پر یہ دلیل واضح ہے کہ ہر ایک چیز کو ایک اندازہ مقرری پر پیدا کیا ہے کہ جن سے وہ تجاوز نہیں کر سکتی۔ بلکہ اُسی اندازہ میں محصور اور محدود ہے اس کی شکل منطقی اس طرح پر ہے کہ ہر جسم اور روح ایک اندازہ مقرری میں محصور اور محدود ہے اور ہر ایک وہ چیز کہ کسی اندازہ مقرری میں محصور اور محدود ہو اس کا کوئی حاصر اور محدود ضرور ہوتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہر ایک جسم اور روح کے لئے ایک حاضر اور محددہے۔ اب اثبات قضیہ اولیٰ کا یعنی محدود القدرہونے اشیاء کا اس طرح پر ہے کہ جمیع اجسام اور ارواح میں جو جو خاصیتیں پائی جاتی ہیں عقل تجویز کر سکتی ہے کہ اُن خواص سے زیادہ خواص اُن میں پائے جاتے ہیں مثلاً انسان کی دو آنکھیں ہیں اور عندالعقل ممکن تھا کہ اُس کی چار آنکھیں ہوتیں دو منہ کی طرف اور دو پیچھے کی طرف تا کہ جیسا آگے کی چیزوں کو دیکھتا ہے ویسا ہی پیچھے کی چیزوں کو بھی دیکھ لیتا اور کچھ شک نہیں کہ چار آنکھ کا ہونا بہ نسبت دو آنکھ کے کمال میں زیادہ اور فائدہ میں دو چند ہے اور انسان کے پَر نہیں اور ممکن تھا کہ مثل اور پرندوں کے اُس کے پَر بھی ہوتے اور علی ہذا القیاس نفس ناطقہ انسانی بھی ایک خاص درجہ میں محدود ہے جیسا کہ وہ بغیر تعلیم کسی معلم کے خود بخود مجہولات کو دریافت نہیں کر سکتا۔ قاسر خارجی سے کہ جیسے جنون یا مخموری ہے سالم الحال نہیں رہ سکتا بلکہ فی الفور اس کی قوتوں اور طاقتوں میںتنزل واقع ہو جاتا ہے۔ اسی طرح بذاتہ ادراک جزئیات نہیں کرسکتا کہ اس کو شیخ محقق بوعلی سینا نے نمط سابع اشارات میں بتصریح لکھا ہے حالانکہ عندالعقل ممکن تھا کہ ان سب آفات اور عیوب سے بچا ہوا ہوتا۔ پس جن جن مراتب اور فضائل کو انسان اور اُس کی روح کے لئے عقل تجویز کر سکتی ہے وہ کس بات سے ان مراتب سے محروم ہے۔ آیا تجویز کسی اور مجوز سے یا خود اپنی رضامندی سے اگر کہو کہ اپنی رضا مندی سے تو یہ صریح خلاف ہے۔ کیونکہ کوئی شخص اپنے حق میں نقص روا نہیں رکھتا اور اگر کہو کہ تجویز کسی اور مجوز سے تو مبارک ہو کہ وجود خالق ارواح اور اجسام کا ثابت ہو گیا اور یہی مدعا تھا۔
دلیل سوم قیاس الخلف ہے اور قیاس الخلف اُس قیاس کانام ہے جس میں اثبات مطلوب کا بذریعہ ابطال نقیض اُس کے کیا جاتا ہے اور اس قیاس کا علم منطق میں خلف اس جہت سے کہتے ہیں کہ خلف لغت میں بمعنی باطل کے ہیں اور اسی طرح اس قیاس میں اگر مطلوب کو کہ جس کی حقیقت کا دعویٰ ہے سچا نہ مان لیا جاوے تو نتیجہ ایسا نکلے گا جو باطل کو مستلزم ہوگا اور قیاس مذکورہ یہ ہے دیکھو سورہ الطور الجزو ۲۷۔ ام خلقوا من غیر شی ام ھم الخلقون۔ ام خلقوا السموات والارض لایقنون۔ ام عندھم خزائن ربک ام ھم المصیطرون۔ یعنی کیا یہ لوگ جو خالقیت خدا تعالیٰ سے منکر ہیں بغیر پیدا کرنے کسی خالق کے یوں ہی پیدا ہوگئے یا اپنے وجود کو آپ ہی پیدا کر لیا یا خود علت العلل ہیں جنہوں نے زمین و آسمان پیدا کیا یا ان کے پاس غیر متناہی خزانے علم اور عقل کے ہیں جن سے اُنہوں نے ان سے معلوم کیا کہ ہم قدیم الوجود ہیں یا وہ آزاد ہیں اور کسی کے قبضہ قدرت میں مقہور نہیں ہیں یہ گمان ہو کہ جب کہ ان پر کوئی غالب اور قہار ہی نہیں تو وہ اُن کا خالق کیسے ہو۔ اس آیت شریف میں یہ استدلال لطیف ہے کہ ہر پنج شقوں قدامت ارواح کہ اس طرز مدلل سے بیان فرمایا ہے کہ ہر ایک شق کے بیان سے ابطال اُس شق کا فی الفور سمجھا جاتا ہے اور تفصیل اشارات لطیفہ کی یوں ہے کہ شق اوّل یعنی ایک شے معدوم کا بغیر فعل کسی فاعل کے خود بخود پیدا ہو جانا اس طرح پر باطل ہے کہ اس سے ترجیح بلا مرجح لازم آتی ہے کیونکہ عدم سے وجود کا لباس پہننا ایک مؤثر مرجح کو چاہتا ہے جو جانب وجود کو جانب عد م پر ترجیح دی لیکن اس جگہ کوئی مؤثر مرجح موجود نہیں اور بغیر وجود مرجح کے خود بخود ترجیح پیدا ہو جانا محال ہے۔
اور شق دوم یعنی اپنے وجود کا آپ ہی خالق ہونا اس طرح پر باطل ہے کہ اس سے تقدم شے کا اپنے نفس پر لازم آتا ہے کیونکہ اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ ہر ایک شے کے وجود کی علت موجبہ اُس شے کا نفس ہے تو بالضرورت یہ اقرار اس اقرار کو مستلزم ہوگا کہ وہ سب اشیاء اپنے وجود سے پہلے موجود تھیں اور وجود سے پہلے موجود ہونا محال ہے۔
اور شق سوم یعنی ہر ایک شے کا مثل ذات باری کے علت العلل اور صانع عالم ہونا تعدد خداؤں کو مستلزم ہے اور تعدد خداؤں کا بالاتفاق محال ہے اور نیر اس سے دور یا تسلسل لازم آتا ہے اور وہ بھی محال ے۔ اور شق چہارم یعنی محیط ہونا نفس انسان کا علوم غیر متناہی پر اس دلیل سے محال ہے کہ نفس انسانی باعتبار تعین تشخیص خارجی کے متناہی ہے اور متناہی میں غیر متناہی سما نہیں سکتا۔ اس سے تحدید غیر محدود کی لازم آتی ہے۔
اور شق پنجم یعنی خود مختار ہونا اور کسی کے حکم کے ماتحت ہونا ممتنع الوجود ہے کیونکہ نفس انسان کا بضرورت استکمال ذات اپنی کے ایک مکمل کا محتاج ہے اور محتاج کا خود مختار ہونا محال ہے۔ اس سے اجتماع نقیضین لازم آتا ہے۔پس جب کہ بغیر ذریعہ خالق کے موجود ہونا موجودات کا بہرصورت ممتنع اور محال ہوا تو بالضرور یہی ماننا پڑا کہ تمام اشیاء موجودہ محدودہ کاایک خالق ہے جو ذات باری تعالیٰ ہے اور شکل اس قیاس کی جو ترتیب مقدمات صغریٰ کبریٰ سے باقاعدہ منطقیہ مرتب ہوتی ہے اس طرح ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ یہ قضیہ فی نفسہِ صادق ہے کہ کوئی شے بجز ذریعہ واجب الوجود کے موجود نہیں ہو سکتی کیونکہ اگر صادق نہیں ہے تو پھر اس کی نقیض صادق ہوگی کہ ہر ایک شے بجز ذریعہ واجب الوجود کے وجود پکڑ سکتی ہے اور یہ دوسرا قضیہ ہماری تحقیقات مندرجہ بالا میں ابھی ثابت ہوچکا ہے کہ وجود تمام اشیاء ممکنہ کا بغیر ذریعہ واجب الوجود کے محالات خمسہ کو مستلزم ہے۔ پس اگر یہ قضیہ حیح نہیں ہے کہ کوئی شے بجز ذریعہ واجب الوجود کے موجود نہیں ہو سکتی تو یہ قضیہ صحیح ہوگا کہ وجود تمام اشیاء کو محالات خمسہ لازم ہیں لیکن وجود اشیاء کا باوصف لزوم محالات خمسہ کے ایک امر محال ہے۔ پس نتیجہ نکلا کہ کسی شے کا بغیر واجب الوجود کے موجود ہونا امر محال ہے۔ اور یہی مطلوب تھا۔
دلیل چہارم قرآن مجید میں بذریعہ مادۂ قیاس اقترانی قائم کی گئی ہے۔ جاننا چاہئے کہ قیاس حجت کی تین قسموں میں سے پہلی قسم ہے اور قیاس اقترانی وہ قیاس ہے کہ جس میں عین نتیجہ کا یا نقیض اس کی بالفعل مذکور نہ ہو بلکہ بالقوہ پائی جائے اور اقترانی اس جہت سے کہتے ہیں کہ حدود اس کے یعنی اصغر اور اوسط اور اکبر مقترن ہوتی ہیں اور بالعموم قیاس حجت کے تمام اقسام سے اعلیٰ اور افضل ہے کیونکہ اس میں کلی کے حال سے جزئیات کے حال پر دلیل پکڑی جاتی ہے کہ جو بباعت استیفاتام کے مفید یقین کامل کے ہے پس وہ قیاس کہ جس کی اتنی تعریف ہے اس آیت شریفہ میں درج ہے اور ثبوت خالقیت باری تعالیٰ میں گواہی دے رہا ہے دیکھو سورہ الحشر جزو ۲۸۔ ھواللّٰہ الخالق الباری المصور لہ الاسماء الحسنی۔ وہ اللہ خالق ہے یعنی پیدا کنندہ ہے وہ باری ہے یعنی روحوں اور اجسام کو عدم سے وجود بخشنے والا ہے۔ وہ مصور ہے یعنی صورت جسمیہ اور صورت نوعیہ عطا کرنے والا ہے کیونکہ اس کے لئے تمام اسماء حسنہ ثابت ہیں۔ یعنی جمیع صفات کاملہ جو باعتبار کمال قدرت کے عقل تجویز کر سکتی ہے اُس کی ذات میں جمع ہیں لہٰذا نیست سے ہست کرنے پر بھی وہ قادر ہے کیونکہ نیست سے ہست کرنا قدرتی کمالات سے ایک اعلیٰ کمال ہے اور ترتیب مقدمات اس قیاس کی بصورت شکل اوّل کے اس طرح پر ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ پیدا کرنا اور محض اپنی قدرت سے وجود بخشنا ایک کمال ہے اور سب کمالات ذات کامل واجب الوجود کو حاصل ہیں۔ پس نتیجہ یہ ہوا کہ نیست سے ہست کرنے کاکمال بھی ذات باری کو حاصل ہے۔ ثبوت مفہوم صغری کا یعنی اس بات کا کہ محض اپنی قدرت سے پیدا کرنا ایک کمال ہے اس طرح پر ہوتا ہے کہ نقیض اس کی یعنی یہ امر کہ محض اپنی قدرت سے پیدا کرنے میں عاجز ہونا جب تک باہر سے کوئی مادہ آ کر معاون و مددگار نہ ہو ایک بھاری نقصان ہے۔ کیونکہ اگر ہم یہ فرض کریں کہ مادہ موجودہ سب جا بجا خرچ ہوگیا تو ساتھ ہی یہ فرض کرنا پڑتا ہے کہ اب خدا پیدا کرنے سے قطعاً عاجز ہے حالانکہ ایسا نقص اُس ذات غیر محدود اور قادر مطلق پر عائد کرنا گویا اس کی الوہیت سے انکار کرنا ہے۔
سوائے اس کے علم الہٰیات میں یہ مسئلہ بدلائل ثابت ہوچکا ہے کہ مستجمع الکمالات ہونا واجب الوجود کا تحقیق الوہیت کے لئے شرط ہے یعنی یہ لازم ہے کہ کوئی مرتبہ کمال کا مراتب ممکن التصور سے جو ذہن اور خیال میں گذر سکتا ہے اس ذات کامل سے فوت نہ ہو پس بلاشبہ عقل اس بات کو چاہتی ہے کہ کمال الوہیت باری تعالیٰ کا یہی ہے کہ سب موجودات کا سلسلہ اسی کی قدرت تک منتہی ہو نہ یہ کہ صفت قدامت اور ہستی حقیقی کے بہت سے شریکوں میں بٹی ہوئی ہو اور قطع نظر ان سب دلائل اور براہین کے ہر ایک سلیم الطبع سمجھ سکتا ہے کہ اعلیٰ کام بہ نسبت ادنیٰ کام کے زیادہ تر کمال پر دلالت کرتا ہے۔ پس جس صورت میں تالیف اجزاء عالم کمال الٰہی میں داخل ہے تو پھر پیدا کرناعالم کا بغیر احتیاج اسباب کے جو کروڑ ہا درجہ زیادہ تر قدرت پر دلالت کرتا ہے کس قدر اعلیٰ کمال ہوگا۔ پس صغری اس شکل کا بوجہ کامل ثابت ہوا اور ثبوت کبری کا یعنی اس قضیہ کا کہ ہر ایک کمال ذات باری کو حاصل ہے اس طرح پر ہے کہ اگر بعض کمالات ذات باری کو حاصل نہیں تو اس صورت میں یہ سوال ہوگا کہ محرومی ان کمالات سے بخوشی خاطر ہے یا بہ مجبوری ہے۔ اگر کہو کہ بخوشی خاطر ہے تو یہ جھوٹ ہے کیونکہ کوئی شخص اپنی خوشی سے اپنے کمال میں نقص روا نہیں رکھتا اور نیز جب کہ یہ صفت قدیم سے خدا کی ذات سے قطعاً مفقود ہے تو خوشی خاطر کہاں رہی اور اگر کہو کہ مجبوری سے تو وجود کسی اور قاسر کا ماننا پڑا کہ جس نے خدا کو مجبور کیا اور نفاذ اختیارات خدائی سے اس کو روکا یا یہ فرض کرنا پڑا کہ وہ قاسر اس کا اپناہی ضعف اور ناتوانی ہے کوئی خارجی قاسر نہیں بہرحال وہ مجبور ٹھہرا تو اس صورت میں وہ خدائی کے لائق نہ رہا۔ پس بالضرورت اس سے ثابت ہوا کہ خداوند تعالیٰ داغ مجبوری سے کہ بطلان الوہیت کو مستلزم ہے پاک اور منزہ ہے اور صفت کاملہ خالقیت اور عدم سے پیدا کرنے کی اس کو حاصل ہے اور یہی مطلب تھا۔
دلیل پنجم فرقان مجید میں خالقیت باری تعالیٰ پر بمادہ قیاس استثنائی قائم کی گئی ہے اور قیاس استثنائی اس قیاس کو کہتے ہیں کہ جس میں عین نتیجہ یا نقیض اس کی بالفعل موجود ہو اور دو مقدموں سے مرکب ہو یعنی ایک شرطیہ اور دوسرے وضیعہ سے۔ چنانچہ آیت شریف جو اس قیاس پر متصمن ہے یہ ہے دیکھو سورہ الزم جزو ۲۳۔ یخلقکم فی بطون امھتکم خلقاً من بعد خلق فی ظلمات ثلاث ذالکم اللّٰہ ربکم یعنی وہ تم کو تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں تین اندھیرے پردوں میں پیدا کرتا ہے اس حکمت کاملہ سے کہ ایک پیدائش اور قسم کی اور ایک … اور قسم کی بناتا ہے یعنی ہر عضو کو صورت مختلف اور خاصیتیں اور طاقتیں الگ الگ بخشتا ہے یہاں تک کہ قالب بیجان میں جان ڈال دیتا ہے نہ اس کو اندھیرا کام کرنے سے روکتا ہے اور نہ مختلف قسموں اور خاصیتوں کے اعضا بنانا اُس پر مشکل ہوتا ہے اور نہ سلسلہ پیدائش کے ہمیشہ جاری رکھنے میں اس کو کچھ دقت اور حرج واقعہ ہوتا ہے۔ ذالکم اللّٰہ ربکم وہی جو ہمیشہ اس سلسلہ قدرت کو برپا اور قائم رکھتا ہے وہی تمہارا ربّ ہے۔ یعنی اسی قدرت تامہ سے اس کی ربوبیت تامہ جو عدم سے وجود اور وجود سے کمال وجود بخشنے کو کہتے ہیں ثابت ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ ربّ الاشیاء نہ ہوتا اور اپنی ذات میں ربوبیت تامہ نہ رکھتا اور صرف مثل ایک بڑھئی یا کاریگر کے اِدھر اُدھر سے لے کر گزارہ کرتا تو اس کو قدرت تام ہرگز حاصل نہ ہوتی اور ہمیشہ اور ہر وقت کامیاب نہ ہو سکتا بلکہ کبھی نہ کبھی ضرور ٹوٹ آ جاتی اور پیدا کرنے سے عاجز رہ جاتا۔ خلاصہ آیت کا یہ ہے کہ جس شخص کا فعل ربوبیت تامہ سے نہ ہو یعنی از خود پیدا کنندہ نہ ہو اس کو قدرت تامہ مخفی حاصل نہیں ہو سکتی لیکن خدا کو قدرت تامہ حاصل ہے کیونکہ قسم قسم کی پیدائش بنانا اور ایک بعد دوسرے کے بلاتخالف ظہور میں لانا اور کام کو ہمیشہ برابر چلانا قدرت تامہ کی کامل نشانی ہے پس اس سے ثابت ہوا کہ خدا تعالیٰ کو ربوبیت تامہ حاصل ہے اور درحقیقت وہ ربّ الاشیاء ہے نہ صرف دنیا اور اس کے کارخانہ کا کبھی کا خاتمہ ہو جاتا کیونکہ جس کا فعل اختیار تام سے نہیں وہ ہمیشہ اور ہر وقت اور ہر تعداد پر ہرگز قادر نہیں ہو سکتا۔
اور شکل اس قیاس کی جو آیت شریف میں درج ہے باقاعدہ منطقیہ اس طرح پر ہے کہ جس شخص کا فعل کسی وجود کے پیدا کرنے میں بطور قدرت تامہ ضروری ہو اس کے لئے صفت ربوبیت تامہ یعنی عدم سے ہست کرنا بھی ضروری ہے لیکن خدا کا فعل مخلوقات کے پیدا کرنے میں بطور قدرت تامہ ضروری ہے۔ پس نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے لئے صفت ربوبیت تامہ کی بھی ضروری ہے۔
ثبوت صغریٰ کا یعنی اس بات کا جس صانع کے لئے قدرت تامہ ضروری ہے اس کے لئے صفت ربوبیت تامہ کی بھی ضروری ہے اس طرح پر کہ عقل اس بات کی ضرورت کو واجب ٹھہراتی ہے کہ جب کوئی ایسا صانع کہ جس کی نسبت ہم تسلیم کر چکے ہیں کہ اس کو اپنی کسی صنعت کے بنانے میں حرج واقعہ نہیں ہوتا کسی چیز کا بنانا شروع کرے تو سب اسباب تکمیل صنعت کے اُس کے پاس موجود ہونے چاہئیں اور ہر وقت اور ہر تعداد تک میسر کرنا ان چیزوں کا جو وجود مصنوع کے لئے ضروری ہیں اس کے اختیار میں ہونا چاہئے اور ایسا اختیار نام بجز اس صورت کے اور کسی صورت میں مکمل نہیں کہ صانع اس مصنوع کا اس کے اجزا پیدا کرنے پر قادر ہو کیونکہ ہر وقت اور ہر تعداد تک اُن چیزوں کا میسر ہو جانا کہ جن کا موجود کرنا صانع کے اختیار تام میں نہیں عندالعقل ممکن التخلف ہے اور عدم تخلف پر کوئی برہان فلسفی قائم نہیں ہوتی اور اگر ہوتی ہے تو کوئی صاحب پیش کرے وجہ اس کی ظاہر ہے کہ مفہوم اس عبارت کا کہ فلاں امر کا کرنا زید کے اختیار تام میں نہیں اس عبارت کے مفہوم سے مساوی ہے کہ ممکن ہے کہ کسی وقت وہ کام زید سے نہ ہو سکے۔ پس ثابت ہوا کہ صانع تام کا بجز اس کے ہرگز کام نہیں چل سکتا کہ جب تک اس کی قدرت بھی تام نہ ہو اسی واسطے کوئی مخلوق اہل حرفہ میں سے اپنے حرفہ میں صانع تام ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا بلکہ کل اہل صنائع کا دستور ہے کہ جب کوئی بار بار اُن کی دوکان پر جا کر ان کو دق کرے کہ فلاں چیز ابھی مجھے بنا دو تو آخر اُس کے تقاضے سے تنگ آ کر اکثر بول اُٹھتے ہیں کہ میاں میں کچھ خدا نہیں ہوں کہ صرف حکم سے کام کر دوں فلاں فلاں چیز ملے گی تو پھر بنا دوں گا۔ غرض سب جانتے ہیں کہ صانع تمام کے لئے قدرت تام اور ربوبیت شرط ہے۔ یہ بات نہیں کہ جب تک زید نہ مرے بکر کے گھر لڑکا پیدا نہ ہو۔ یا جب تک خالد فوت نہ ہو ولید کے قالب میں جو ابھی پیٹ میں ہے جان نہ پڑ سکے۔ پس بالضرورت صغری ثابت ہوا۔
اور کبریٰ شکل کا یعنی یہ کہ مخلوقات کے پیدا کرنے میں بطور قدرت تامہ کے ضروری ہے۔ خود ثبوت صغریٰ سے ثابت ہوتا ہے اور نیز ظاہر ہے کہ اگر خدا تعالیٰ میں قدرت ضروریہ تامہ نہ ہو تو پھر قدرت اس کی بعض الفاقی امور کے حصول پر موقوف ہوگی اور جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں عقل تجویز کر سکتی ہے کہ اتفاقی امور وقت پر خدا تعالیٰ کو میسر نہ ہو سکیں کیونکہ وہ اتفاقی ہیں ضروری نہیں۔ حالانکہ تعلق پکڑنا روح کا جنین کے جسم سے بر وقت تیاری جسم اس کے لازم ملزوم ہے۔ پس ثابت ہوا کہ فعل خداتعالیٰ کا بطور قدرت تامہ کے ضروری ہے اور نیز اس دلیل سے ضرورت قدرت تامہ کی خدا تعالیٰ کے لئے واجب ٹھہرتی ہے کہ بموجب اصول متقررہ فلسفہ کے ہم کو اختیار ہے کہ یہ فرض کریں کہ مثلاً ایک مدت تک تمام ارواح موجودہ ابدان متناسبہ اپنے سے متعلق ہیں۔ پس جب ہم نے یہ امر فرض کیا تو یہ فرض ہمارا اس دوسرے فرض کو بھی مستلزم ہوگا کہ اب تا انقضائے اس مدت کے ان جنینوں میں جو رحموں میں تیار ہوئے ہیں کوئی روح داخل نہیں ہوگا حالانکہ جنینوں کا بغیر تعلق روح کے معطل پڑے رہنا بہ بداہت عقل باطل ہے پس جو امر مستلزم باطل ہے وہ بھی باطل۔ پس ثبوت متقدمین سے یہ نتیجہ ثابت ہو گیا کہ خدا تعالیٰ کے لئے صفت ربوبیت تامہ کی ضروری ہے اور یہی مطلب تھا۔
دلیل ششم قرآن مجید میں بماوہ قیاس مرکب قائم کی گئی اور قیاس مرکب کی یہ تعریف ہے کہ ایسے مقدمات سے مؤلف ہو کر اُن سے ایسا نتیجہ نکلے کہ اگرچہ وہ نتیجہ خود بذاتہٖ مطلب کو ثابت نہ کرتا ہو لیکن مطلب بذریعہ اس کے اس طور سے ثابت ہو کہ اُسی نتیجہ کو کسی اور مقدمہ کے ساتھ ملا کر ایک دوسرا قیاس بنایا جائے۔ پھر خواہ نتیجہ مطلوب اسی قیاس دوم کے ذریعہ سے نکل آوے یا اور کسی قدر اسی طور سے قیاسات بنا کر مطلوب حاصل ہو دونوں صورتوں میں اس قیاس کو قیاس مرکب کہتے ہیں اور آیت شریف جو اس قیاس پر متضمن ہے یہ ہے دیکھو سورہ بقر الجزو۳۔ اللّٰہ لا الہ الا ھو الحی القیوم لاتاخذہ سنۃ ولانوم لہ مافی السموات وما فی الارض۔ یعنی خدا اپنی ذات میں سب مخلوقات کے معبود ہونے کا ہمیشہ حق رکھتا ہے جس میں کوئی اس کا شریک نہیں۔ اس دلیل روشن سے کہ وہ زندہ ازلی ابدی ہے اور سب چیزوں کا وہی قیوم ہے یعنی قیام اور بقا ہر چیز کا اسی کے بقا اور قیام سے ہے اور وہی ہر چیز کو ہر دم تھامے ہوئے ہے نہ اس پر اونگ طاری ہوتی ہے نہ نیند اُسے پکڑتی ہے۔ یعنی حفاظت مخلوق سے کبھی غافل نہیں ہوتا۔ پس جب کہ ہر ایک چیز کی قائمی اسی سے ہے پس ثابت ہے کہ ہر ایک مخلوقات آسمانوں کا اور مخلوقات زمین کا وہی خالق ہے اور وہی مالک اور شکل اس قیاس کی جو آیت شریف میں وارد ہے باقاعدہ منطقیہ اس طرح پر ہے (جز اوّل قیاس مرکب کی) (صغریٰ) خدا کو بلا شرکتہ الغیر تمام مخلوقات کے معبود ہونے کا حق ازلی ابدی ہے (کبری) اور جس کو تمام مخلوقات کے معبود ہونے کا حق ازلی ابدی ہو وہ زندہ ازلی ابدی اور تمام چیزوں کا قیوم ہوتا ہے (نتیجہ) خدا زندہ ازلی ابدی اور تمام چیزوں کا قیوم ہے۔ (جز ثانی قیاس مرکب کی کہ جس میں نتیجہ قیاس اوّل کا صغریٰ قیاس کا بنایا گیا ہے (صغری) (خداوند ازلی ابدی اور تمام چیزوں کا قیوم ہے۔ (کبریٰ) اور جو زندہ ازلی ابدی اور تمام چیزوں کا قیوم ہو وہ تمام اشیاء کا خالق ہوتا ہے) (نتیجہ)(خدا تمام چیزوں کا خالق ہے) صغریٰ جزو اوّل قیاس مرکب کا یعنی یہ قضیہ کہ خدا کا بلاشرکتہ الغیرے تمام مخلوقات کے معبود ہونے کا حق ازلی ابدی ہے باقرار فریق ثانی ثابت ہے۔ پس حاجت اقامت دلیل کی نہیں اور کبریٰ جز اوّل قیاس مرکب کا یعنی یہ قضیہ کہ جس کو تمام اشیاء کے معبود ہونے کا حق ازلی، ابدی ہو وہ زندہ ازلی ابدی اور تمام اشیاء کا قیوم ہوتا ہے اس طرح پر ثابت ہے کہ اگر خدا تعالیٰ ازلی ابدی زندہ نہیں ہے تو یہ فرض کرنا پڑا کہ کسی وقت پیدا ہو یا آئندہ کسی وقت باقی نہیں رہے گا۔ دونوں صورتوں میں ازلی ابدی معبود ہونا اس کا باطل ہوتا ہے کیونکہ جب اس کا وجود ہی نہ رہا تو پھر عبادت اس کی نہیں ہو سکتی کیونکہ عبادت معدوم کی صحیح نہیں ہے اور جب وہ بوجہ معدوم ہونے کے معبود ازلی ابدی نہ رہا تو اس سے یہ قضیہ کاذب ہوا کہ خدا کو معبود ہونے کا حق ازلی ابدی ہے۔ حالانکہ ابھی ذکر ہوچکا ہے کہ یہ قضیہ صادق ہے۔ پس ماننا پڑا کہ جس کو تمام اشیاء کے معبود ہونے کا حق ازلی ابدی ہو وہ زندہ ازلی ابدی ہوتا ہے۔
اسی طرح اگر خدا تمام چیزوں کا قیوم نہیں ہے یعنی حیات اور بقا دوسروں کی اس کی حیات اور بقا پر موقوف نہیں تو اس صورت میں وجود اس کا بقاء مخلوقات کے واسطے کچھ شرط نہ ہوگا بلکہ تاثیر اس کی بطور مؤثر بالقسر ہوگی۔ نہ بطور علت حقیقۃ حافظ الاشیاء کے کیونکہ مؤثر بالقسر اسے کہتے ہیں کہ جس کا وجود اور بقاء اس کے متاثر کے بقاء کے واسطے شرط نہ ہو جیسے زید نے مثلاً ایک پتھر چلایا اور اُسی وقت پتھر چلاتے ہی مر گیا تو بیشک اسی پتھر کو جو ابھی اس کے ہاتھ سے چھٹا ہے بعد موت زید کے بھی حرکت رہے گی۔ پس اسی طرح اگر بقول آریہ سماج والوں کے خدا تعالیٰ کومحض مؤثر بالقسر قرار دیا جائے تو اس سے نعوذ باللہ یہ لازم آتا ہے کہ اگر پرمیشور کی موت بھی فرض کریں تو بھی ارواح اور ذرات کا کچھ بھی حرج نہ ہو کیونکہ بقول پنڈت دیانند صاحب کے کہ جس کو اُنہوں نے سیتارتھ پرکاش میں درج فرما کر توحید کا ستیاناس کیا ہے اور نیز بقول پنڈت کھڑک سنگھ صاحب کے جنہوں نے بغیر سوچے سمجھے تقلید پنڈت دیانند صاحب کی اختیار کی ہے۔ وید میں یہ لکھا ہے کہ سب ارواح اپنی بقا اور حیات میں بالکل پرمیشور سے بے غرض ہیں اور جیسے بڑھئی کو چوکی سے اور کمہار کو گھڑے سے نسبت ہوتی ہے وہی پرمیشور کو مخلوقات سے نسبت ہے۔ یعنی صرف جوڑنے جاڑنے سے ٹنڈا پرمیشر گری کا چلاتا ہے اور قیوم چیزوں کا نہیں ہے۔ لیکن ہر ایک دانا جانتا ہے کہ ایسا ماننے سے یہ لازم آتا ہے کہ پرمیشور کا وجود بھی مثل کمہاروں اور نجاروں کے وجود کے بقا اشیاء کے لئے کچھ شرط نہ ہو بلکہ جیسے بعد موت کمہاروں اور بڑھیوں کے گھڑے اور چوکیاں اسی طرح سے بنے رہتے ہیں اسی طرح بصورت فوت ہونے پر پرمیشور کے بھی اشیاء موجودہ میں کچھ بھی خلل واقع نہ ہو سکے۔ پس ثابت ہوا کہ یہ خیال پنڈت صاحب کا جو پرمیشور کو صانع ہونے میں کمہار اور بڑھئی سے مشابہت ہے قیاس مع الفارق ہے۔ کاش اگر وہ خدا کو قیوم اشیاء کا مانتے اور نجاروں سا نہ جانتے تو ان کو یہ تو کہنا نہ پڑتا کہ پرمیشور کی موت فرض کرنے سے روحوں کا کچھ بھی نقصان نہیں۔ لیکن شاید وید میں بھی لکھا ہوگا ورنہ میں کیونکر کہوں کہ پنڈت صاحب کو قیومت پروردگار جو اجلیٰ بدیہیاتت ہے کچھ شک نہیں ہے اور اگر پنڈت صاحب پرمیشور کو قیوم سب چیزوں کا مانتے ہیں تو پھر اس کو کمہاروں اور معماروں سے نسبت دینا کس قسم کی بدیا ہے اور وید میں اس پر دلیل کیا لکھی ہے۔ دیکھو فرقان مجید میں صفت قیومی پروردگار کی کئی مقام میں ثابت کی ہے جیسا کہ مکرر اس دوسری آیت میں بھی فرمایا ہے۔ سورۃ النور اللّٰہ نور السموات والارض یعنی خدا آسمان و زمین کا نور ہے۔ اسی سے طبقہ سفلی اور علوی میں حیات اور بقا کی روشنی ہے۔ پس اس ہماری تحقیق سے جز اوّل قیاس مرکب کی ثابتہوئی اور صغریٰ جز ثانی قیاس مرکب کا وہی ہے جو جز اوّل قیاس کا نتیجہ ہے اور جز اوّل قیاس مرکب کی ابھی ثابت ہوچکی ہے پس نتیجہ بھی ثابت ہو گیا اور کبریٰ جزو ثانی کا جو زندہ ازلی ابدی اور قیوم سب چیزوں کا ہو وہ خالق ہوتا ہے اس طرح پر ثابت ہے کہ قیوم اُسے کہتے ہیں کہ جس کا بقا اور حیات دوسری چیزوں کے بقا اور حیات اور اُن کے کل مایحتاج کے حصول کا شرط ہو… اور شرط کے یہ معنی ہیں کہ اگر اُس کا عدم فرض کیا جائے تو ساتھ ہی مشروط کا عدم فرض کرنا پڑے۔ جیسے کہیں کہ اگر خدا تعالیٰ کا وجود نہ ہو تو کسی چیز کا وجود نہ ہو پس یہ قول کہ اگر خدا تعالیٰ کا وجود نہ ہو تو کسی چیز کا وجود نہ ہو بعینہٖ اس قول کے مساوی ہے کہ خدا تعالیٰ کا وجود نہ ہوتا تو کسی چیز کا وجود نہ ہوتا۔
پس اس سے ثابت ہوا کہ خدا تعالیٰ کا وجود دوسری چیزوں کے وجود کا علت ہے اور خالقیت کے بجز اس کے اور کوئی معنی نہیں کہ وجود خالق کا وجود مخلوق کے لئے علت ہو۔ پس ثابت ہو گیا کہ خدا خالق ہے اور یہی مطلب تھا۔ الراقم
مرزا غلام احمد۔رئیس قادیان
سوامی دیانند صاحب کے نام کھلا خط بصورت اعلان
سوامی دیانند صاحب نے بجواب ہماری اس بحث کے جو ہم نے روحوں کا بے انت ہونا باطل کر کے غلط ہونا مسئلہ تناسخ اور قدامت سلسلہ دنیا کا ثابت کیا ہے معرفت تین کس آریہ سماج والوں کے یہ پیغام بھیجا ہے کہ اگر ارواح حقیقت میں بے انت نہیں لیکن تناسخ اس طرح پر ہمیشہ رہتا ہے کہ جب سب ارواح مکتی پا جاتے ہیں تو پھر بوقت ضرورت مکتی خانہ سے باہر نکالے جاتے ہیں اب سوامی صاحب فرماتے ہیں کہ اگر ہمارے اس جواب میں کچھ شک ہو تو بالمواجہ بحث کرنی چاہئے چنانچہ اس بارے میں سوامی صاحب کا خط بھی آیا۔ اس خط میں بحث کا شوق ظاہرکرتے ہیں اس واسطے بذریعہ اس اعلان کے ظاہر کیا جاتا ہے کہ یہ بحث بالمواجہ ہم کو بسرو چشم منظور ہے۔ کاش سوامی صاحب کسی طرح ہمارے سوالوں کا جواب دیں۔ مناسب ہے کہ سوامی صاحب کوئی مقام اور ثالث بالخیر اور انعقاد جلسہ کی تجویز کر کے بذریعہ کسی مشہور اخبار کے مشتہر کر دیں لیکن اس جلسہ میں شرط یہ ہے کہ یہ جلسہ بحاضری چند منصفان صاحب لیاقت اعلیٰ کہ تین صاحب ان میں سے ممبران برہم سماج اور تین صاحب مسیحی مذہب ہونگے قرار پاوے گا۔ اوّل تقریر کرنے کا ہمارا حق ہوگا کیونکہ ہم معترض ہیں۔ پھر پنڈت صاحب برعایت شرائط جو چاہیں گے جواب دیں گے۔ پھر ان کاجواب الجواب ہماری طرف سے گزارش ہوگا اور بحث ختم ہو جائے گی۔ ہم سوامی صاحب کی اس درخواست سے بہت خوش ہوئے ہم تو پہلے ہی کہتے تھے کہ کیوں سوامی صاحب اور اور دھندوں میں لگے ہوئے ہیں اور ایسی بحث اور اعتراضوں کا جواب نہیں دیتے جس نے سب آریہ سماج والوں کا دم بند کر رکھا ہے۔ اب اگر سوامی صاحب نے اس اعلان کا کوئی جواب مشتہر نہ کیا تو پس یہ سمجھو کہ سوامی صاحب صرف باتیں کر کے اپنے موافقین کے آنسو پونچھتے ہیں اور مکت پایوں کی واپسی میں جو مفاسد ہیں مضمون مشتملہ متعلقہ اِس اعلان میں درج ہیں۔ ناظرین پڑھیں اور انصاف فرمائیں۔
مرزا غلام احمد رئیس قادیان
(۱۰؍ جون ۱۸۷۸ء)
باوا صاحب کی شرائط مطلوبہ پرچہ سفیر ہند ۲۳؍ فروری کا ایفاء اور نیز چند امور واجب العرض بتفصیل ذیل
(۱) اوّل ذکر کرنا اس بات کا قرین مصلحت ہے کہ اشتہار مندرجہ ذیل میں جو حسب درخواست ہماری معزز دوست باوا نرائن سنگھ صاحب وکیل کے لکھا جاتا ہے لفظ فرمانہ کا جو بجائے لفظ انعام کے ثبت ہوا ہے محض بغرض رضا جوئی باوا صاحب موصوف کے درج کیا گیا ہے ورنہ ظاہر رہے کہ ایسا اندراج مطابق منشاء اصول قوانین مجریہ سرکار کے ہرگز نہیں ہے کیونکہ یہ زر موعودہ کسی مجرمانہ فعل کا تاوان نہیں تا اس کا نام جرمانہ رکھا جائے بلکہ یہ وہ حق ہے جو خود مشتہر نے بطیب نفس و رضائے خاطر بلااکراہ غیرے کسی مجیب مصیبت کو بپاداش اُس کے جواب باصواب کے دینا مقرر کیا ہے۔ اس صورت میں کچھ پوشیدہ نہیں کہ یہ رقم درحقیقت بصلہ اثبات ایک امر غیر مثبت کے ہے جس کو ہم انعام سے تعبیر کر سکتے ہیں جرمانہ نہیں ہے اور نہ از روئے حکم کسی قانون گورنمنٹ برطانیہ کے کوئی سوال نیک نیتی سے کرنا یا کسی امر میں بصدق نیت کچھ رائے دینا داخل جرم ہے تا اس نکتہ چینی کی کچھ بنیاد ہو سکے غرض اس موقعہ پر ثبت لفظ جرمانہ کا بالکل غیر معقول اور مہمل اور بے محل ہے لیکن چونکہ باوا صاحب ممدوح پرچہ مقدم الذکر میں بزمرہ دیگر شرائط کے یہ شرط بھی لگاتے ہیں کہ بجائے لفظ انعام کے لفظ جرمانہ کا لکھا جاوے تب ہم جواب دیں گے سو خیر میں وہی لکھ دیتا ہوں کاش باوا صاحب کسی طرح جواب اُس سوال اشتہاری کا دیں۔ ہر چند میں جانتا ہوں جو باوا صاحب اس جرح قانونی میں بھی غلطی پر ہیں اور کوئی ایسا ایکٹ میری نظر سے نہیں گزرا جو نیک نیتی کے سوال کو جرم میں داخل کرے۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
(۲) شرط دوئم باوا صاحب کی اس طرح پوری کر دی گئی ہے جو ایک خط بقلم خود تحریر کر کے باقرار مضمون مشتہرہ کے خدمت مبارک باوا صاحب میں ارسال کیا گیا ہے باوا صاحب خوب جانتے ہیں جو اوّل تو خود اشتہار کسی مشتہر کا جو باضابطہ کسی اخبار میں شائع کیا جاوے قانوناً تاثیر ایک اقرار نامہ کی رکھتا ہے بلکہ وہ بلحاظ تعدد نقول کے گویا صد ہا تمسک ہیں علاوہ ازاں چٹھیات خانگی بھی جو کسی معاملہ متنازعہ فیہ میں عدالت میں پیش کئے جاویں ایک قومی دستاویز ہیں اور قوت اقرار نامہ قانونی کے رکھتے ہیں۔ سو چٹھی خاص بھی بھیجی گئی ماسوائے اس کے جب کہ اس معاملہ میں اشتہارات زبانی ثالثوں کے بھی موجود ہوگی تو پھر باوجود اس قدر انواع و اقسام کے ثبوتوں کے حاجت کسی عہد نامہ خاص کی کیا رہی۔ لیکن چونکہ مجھ کو اتمام حجت مطلوب ہے اس لئے میں وعدہ کرتا ہوں کہ اگر اس ثبوت پر کفایت نہ کر کے پھر باوا صاحب اقرار نامہ اشٹام کا مطالبہ کریں گے تو فوراً اقرار نامہ مطلوبہ اُن کا معرفت مطبع سفیر ہند کے یا جیسا مناسب ہو خدمت میں اُن کی بھیجا جاوے گا۔ لیکن باوا صاحب پر لازم ہوگا کہ درصورت مغلوب رہنے کے قیمت اشٹام کی واپس کریں۔
(۳) شرط سوم میںباوا صاحب روپیہ وصول ہونے کا اطمینان چاہتے ہیں سو واضح ہو اگر باوا صاحب کا اس فکر سے دل دھڑکتا ہے کہ اگر روپیہ وقت پر ادا نہ ہو تو کس جائداد سے وصول ہوگا تو اس میں یہ عرض ہے کہ اگر باوا صاحب کو ہماری املاک موجودہ کا حال معلوم نہیں تو صاحب موصوف کو ایسے قلیل معاملہ میں زیادہ آگاہ کرنا ضروری نہیں صرف اس قدر نشاندہی کافی ہے کہ درصورت تردد کے ایک معتبر اپنا صرف بٹالہ میں بھیج دیں اور ہمارے مکانات اور اراضی جو قصبہ مذکور میں قیمتی چھ سات ہزار روپیہ کے موجود اور واقعہ ہیں اُن کی قیمت تخمینی دریافت کر کے اپنے مضطرب دل کی تسلی کر لیں اور نیز یہ بھی واضح ہو جو بمجرد جواب دینے کے مطالبہ پر روپیہ کا نہیں ہو سکتا جیسا کہ باوا صاحب کی تحریر سے مفہوم ہوتا ہے بلکہ مطالبہ کا وہ وقت ہوگا کہ جب کل آرائے تحریری ثالثان اہل انصاف کے جن کے اسماء مبارکہ تنقیح شرط چہارم میں ابھی درج کروں گا سفیرہند میں بشرائط مشروطہ پرچہ ہذا کے طبع ہو کر شائع ہو جائیں گی۔
(۴) شرط چہارم میں باوا صاحب نے صاحبان مندرجہ ذیل کو منصفان تنقید جواب قرار دیا ہے مولوی سید احمد خان صاحب، منشی کنہیا لال صاحب، منشی اندر من صاحب مجھ کو منصفان مجوزہ باوا صاحب میں کسی نہج کا عذر نہیں بلکہ میں اُن کا شکریہ ادا کرتا ہوں جو انہوں نے تجویز تقرر ثالثان میں مولوی سید احمد خان صاحب کا نام بھی جو ہم سے اخوت اسلام رکھتے ہیں درج کر دیا۔ اس لئے میں بھی اپنے منصفان مقبولہ میں ایک فاضل آریہ صاحب کو جن کی فضیلت میں باوا صاحب کو بھی کلام نہیں باعتماد طبیعت صالحانہ اور رائے منصفانہ اُن کی کے داخل کرتا ہوں جن کے نام نامی یہ ہیں سوامی پنڈت دیانند سرستی، حکیم محمد شریف صاحب امرتسری، مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب لاہوری لیکن اتنی عرض اور ہے کہ علاوہ ان صاحبوں کے کہ فریقین کے ہم مذہب ہیں دو صاحب مسیحی مذہب بھی ممبر تنقید جواب کے قرار پانے چاہئیں۔ سو میری دانست میں پادری رجب علی صاحب اور بابو رلارام صاحب جو علما وہ فضیلت علمی اور طبیعت منصفانہ کے اس بحث جاری شدہ سے بخوبی واقف ہیں بشرطیکہ صاحبین موصوفین براہ مہربانی اس شوریٰ میں داخل ہونا منظور کر لیں۔ اور آپ کو بھی اس میں کچھ کلام نہ ہو بہتر اور انسب ہیں۔ ورنہ بالآخر اس طرح تجویز ہوگی کہ ایک صاحب مسیحی مذہب آپ کو قبول کر کے اطلاع دے دیں اور ایک کے اسم مبارک سے میں مطلع کروں گا اور تصفیہ اس طرح پر ہوگا کہ بعد طبع ہونے کے جواب آپ کے اُن سب صاحبوں کو جو حسب مرضی فریقین ثالث قرار پائے ہیں بذریعہ خانگی خطوط کے اطلاع دی جائے گی لیکن ہر ایک فریق ہم دونوں میں سے ذمہ دار ہوگا کہ اپنے منفصین مجوزہ کو آپ اطلاع دے۔ تب صاحبان منصفین اوّل ہمارے سوال نمبر۱ کو دیکھیں گے اور بعد اُس کے تبصرہ مشمولہ شرائط ہذا کو جس میں آپ کے جواب الجواب کا جو ۱۸؍ فروری آفتاب پنجاب میں طبع ہوا تھا ازالہ ہے بغور ملاحظہ فرمائیں گے۔ پھر آپ کا جواب بتدبر تمام پڑھ کر جانچیں گے کہ آیا اس جواب سے وجوہات ہمارے ردّ ہوگئے یا نہیں اور یہ بھی دیکھیں گے کہ آپ نے باثبات دونو امر مندرجہ اشتہار کے کیا کیا وجوہات پیش کئے ہیں لیکن یہ امر کسی منصف کے اختیار میں نہ ہوگا کہ صرف اس قدر رائے ظاہر کرے کہ ہماری دانست میں یہ ہے یا وہ ہے بلکہ اگر کوئی ایسی رائے ظاہر کرے تو یہ سمجھا جائے گا کہ گویا اُس نے کوئی رائے ظاہر نہیں کیا۔ غرض کوئی رائے شہادت میں نہیں لیا جائے گا جب تک اس صورت سے تحریر نہ ہو کہ اصل وجوہات متخاصمین کو پورا پورا بیان کر کے بتقریر مدلل ظاہر کرے کہ کس طور سے یہ وجوہات ٹوٹ گئیں یا بحال رہیں اور علاوہ اس کے یہ سب منصفانہ آرا سے سفیر ہند میں درج ہونگے۔ نہ کسی اور پرچہ میں بلکہ صاحبان منصفین اپنی اپنی تحریر کو براہ راست مطبع ممدوح الذکر میں ارسال فرمائیں گے باستثناء بابورلارام صاحب کے کہ اگر وہ اس شوریٰ تنقید جواب میں داخل ہوئے تو اُن کو اپنا رائے اپنے پرچہ میں طبع کرنا اختیار ہوگا اور جب کہ یہ سب آرائے بقید شرائط متذکرہ بالا کے طبع ہو جائیں گی تو اُس وقت کثرت رائے پر فیصلہ ہوگا اور اگر ایک نمبر بھی زیادہ ہوا تو باوا صاحب کوڈگری ملے گی ورنہ آنحضرت مغلوب رہیں گے۔
اشتہار مبلغ پانچ سَو روپیہ
میں راقم اُس سوال کا جو آریہ سماج کی نسبت پرچہ ۹؍ فروری اور بعد اُس کے سفیر ہند میں بدفعات درج کر چکا ہے اقرار صحیح قانونی اور عہد جائز شرعی کر کے لکھ دیتا ہوں کہ اگر باوا نرائن سنگھ صاحب یا کوئی اور صاحب منجملہ آریہ سماج کے جو اُن سے متفق الرائے ہوں ہماری اُن وجوہات کا جواب جو سوال مذکورہ میں درج ہے اور نیز اُن دلائل کے تردید جو بتصرہ مشمولہ اشتہار ہذا میں مبیں ہے پورا پورا ادا کر کے بدلائل حقہ یقیننیہ یہ ثابت کر دے کہ ارواح بے انت ہیں اور پرمیشور کو اُن کی تعداد معلوم نہیں تو میں پانچ سَو نقد اُس کو بطور جرمانہ کے دوں گا اور درصورت نہ ادا ہونے روپیہ کے مجیب مثبت کو اختیار ہوگا کہ امداد عدالت سے وصول کرے تنقید جواب کی اُس طرح عمل میں آوے گی جیسے تنقیح شرائط میں اوپر لکھا گیا ہے اور نیز جواب باوا صاحب کا بعد طبع اور شائع ہونے تبصرہ ہماری کے مطبوع ہوگا۔
المشتہر
مرزا غلام احمد رئیس قادیان
جواب الجواب
باوا نرائن سنگھ صاحب سیکرٹری آریہ سماج امرتسر مطبوعہ پرچہ آفتاب ۱۸؍ فروری
اوّل باوا صاحب نے یہ سوال کیا ہے کہ اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ خداروحوں کا خالق ہے اوران کو پیدا کر سکتا ہے۔ اس کے جواب الجواب میں قبل شروع کرنے مطلب کے یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ از روئے قاعدہ فن مناظرہ کے آپ کا ہرگز یہ منصب نہیں ہو سکتا کہ آپ روحوں کے مخلوق ہونے کا ہم سے ثبوت مانگیں بلکہ یہ حق ہم کو پہنچتا ہے کہ ہم آپ سے روحوں کے بِلا پیدائش ہونے کی سند طلب کریں کیونکہ آپ اسی پرچہ مذکور العنوان میں خود اپنی زبان مبارک سے اقرار کر چکے ہیں کہ پرمیشور قادر ہے اور تمام سلسلہ عالم کا وہی منتظم ہے ۔ اب ظاہر ہے کہ ثبوت دینا اس امر جدید کا آپ کے ذمہ ہے کہ پرمیشور اوّل قادر ہو کر پھر غیر قادر کس طرح بن گیا ہمارے ذمہ ہرگز نہیں کہ ہم ثبوت کرتے پھریں کہ پرمیشور جو قدیم سے قادر ہے وہ اب بھی قادر ہے۔ سو حضرت یہ آپ کو چاہئے تھا کہ ہم کو اس بات کا ثبوت کامل دیتے کہ پرمیشور باوصف قادر ہونے کے پھر روحوں کے پیدا کرنے سے کیوں عاجز رہے گا ہم پر یہ سوال نہیں ہو سکتا کہ پرمیشور (جو قادر تسلیم ہو چکا ہے) روحوں کے پیدا کرنے کی کس قدر قدرت رکھتا ہے۔ کیونکہ خدا کے قادر ہونے کو تو ہم اور آپ دونوں مانتے ہیں پس اس وقت تک تم ہم میں اور آپ میں کچھ تنازعہ نہ تھا۔ پھر تنازعہ تو آپ نے پیدا کیا جو روحوں کے پیدا کرنے سے اس قادر پرمیشور کو عاجز سمجھا۔ اس صورت میں آپ خود منصف ہوں اور بتلائیں کہ بار ثبوت کس کے ذمہ ہے؟ اور اگر ہم بطریق تنزل یہ بھی تسلیم کر لیں کہ اگرچہ دعویٰ آپ نے کیا مگر ثبوت اس کا ہمارے ذمہ ہے پس آپ کو مژدہ ہو کہ ہم نے سفیر ہند ۲۱؍ فروری میں خدا کے خالق ہونے کا ثبوت کامل دے دیا ہے۔ جب آپ بنظر انصاف پرچہ مذکور کو ملاحظہ فرمائیں گے تو آپ کی تسلی کامل ہو جائے گی اور خود ظاہر ہے کہ خدا تو وہی ہونا چاہئے جو موجد مخلوقات ہو نہ یہ کہ زور آور سلاطین کی طرح صرف غیروں پر قابض ہو کر خدائی کرے۔
اور اگر آپ کے دل میں یہ شک گزرتا ہے کہ پرمیشور جو اپنی نظیر نہیں پیدا کر سکتا شاید اُسی طرح ارواح کے پیدا کرنے پر بھی قادر نہ ہوگا۔ پس اس کا جواب بھی پرچہ مذکور ۹؍ فروری میں پختہ دیا گیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ خدا ایسے افعال ہرگز نہیں کرتا جن سے اُس کی صفات قدیم کا زوال لازم آوے جیسے وہ اپنا شریک نہیں پیدا کر سکتا۔ اپنے آپ کو ہلاک نہیں کر سکتا کیونکہ اگر ایسا کرے تو اُس کی صفات قدیمہ جو وحدت ذاتی اور حیات ابدی ہے زائل ہو جائیں گی۔ پس وہ قدوس خدا کوئی کام برخلاف اپنی صفات ازلیہ کے ہرگز نہیں کرتا۔ باقی سب افعال پر قادر ہے۔ پس آپ نے جو روحوں کی پیدائش کو شریک الباری کی پیدائش پر قیاس کیا تو خطا کی۔ میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ یہ آپ کا قیاس مع الفارق ہے۔ ہاں اگر یہ ثابت کر دیتے کہ پیدا کرنا ارواح کا بھی مثل پیدا کرنے نظیر اپنی کے خدا کی کسی صفت عظمت اور جلال کے برخلاف ہے تو دعویٰ آپ کا بلاشبہ ثابت ہو جاتا۔
پس آپ نے جو تحریر فرمایا ہے کہ یہ ظاہر کرنا چاہئے کہ خدا نے روح کہاں سے پیدا کئے اس تقریر سے صاف پایا جاتا ہے آپ کو خدا کے قدرتی کاموں سے مطلق انکار ہے اور اس کو مثل آدم زاد کے محتاج باسباب سمجھتے ہیں۔ اور اگر آپ کا اس تقریر سے یہ مطلب ہے کہ ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ کس طرح پرمیشور روحوں کو پیدا کر لیتا ہے تو اس وہم کے دفع میں پہلے ہی لکھا گیا تھا کہ پرمیشور کی قدرت کاملہ میں ہرگز یہ بہ شرط نہیں کہ ضرور انسان کی سمجھ میں آ جایا کرے۔ دنیا میں اس قسم کے ہزار ہا نمونہ موجود ہیں کہ قدرت مدرکہ انسان کی ان کی کنہ حقیقت تک نہیں پہنچ سکتی اور علاوہ اس کے ایک امر عقل میں نہ آنا اور چیز ہے اور اس کا محال ثابت نہیں کر سکتا کہ خدا سے روح نہیں بن سکتے تھے کیونکہ عدم علم سے عدم شے لازم نہیں آتا کیا ممکن نہیں جو ایک کام خدا کی قدرت کے تحت داخل تو ہو لیکن عقل ناقص ہماری اس کے اسرار تک نہ پہنچ سکے؟ بلکہ قدرت تو حقیقت میں اسی بات کا نام ہے جو داغ احتیاج اسباب سے منزہ اور پاک اور ادراک انسانی سے برتر ہو۔ اوّل خدا کو قادر کہنا اور پھر یہ زبان پر لانا کہ اس کی قدرت اسباب مادی سے تجاوز نہیں کرتی حقیقت میں اپنی بات کو آپ ردّ کرنا ہے کیونکہ اگر وہ فی حد ذاتہِ قادر ہے تو پھر کسی سہارے اور آسرے کا محتاج ہونا کیا معنی رکھتا ہے۔ کیا آپ کی پستکوں میں قادر اور سرب شکتی مان اسی کو کہتے ہیں جو بغیر توسل اسباب کے کارخانہ قدرت اس کی کا بندر ہے۔ اور نراہ اس کے حکم سے کچھ بھی نہ ہو سکے۔ شاید آپ کے ہاں لکھا ہوگا مگر ہم لوگ تو ایسے کمزور کو خدا نہیں جانتے ہمارا تو وہ قادر خدا ہے کہ جس کی یہ صفت ہے کہ جو چاہا سو ہو گیا اور جو چاہے گا سو ہوگا۔
پھر باوا صاحب اپنے جواب میں مجھ کو فرماتے ہیں کہ جس طرح تم نے یہ مان لیا کہ خدا دوسرا خدا نہیں بنا سکتا اسی طرح یہ بھی ماننا چاہئے کہ خدا روح نہیں پیدا کر سکتا۔ اس فہم اور ایسے سوال سے اگر میں تعجب نہ کروں تو کیا کروں صاحب من تو میں تو اس وہم کا کئی دفعہ آپ کو جواب دے چکا اب میں بار بار یہاں تک لکھوں میں حیران ہوں کہ آپ کو یہ بین فرق کیوں سمجھ میں نہیں آتا اور کیوں دل پر سے یہ حجاب نہیں اُٹھتا کہ جو روحوں کے پیدا کرنے کو دوسرے خدا کی پیدائش پر قیاس کرنا خیال فاسد ہے کیونکہ دوسرا خدا بنانے میں وہ صفت ازلی پرمیشور کی جو واحد لاشریک ہونا ہے نابود ہو جائے گی۔ لیکن پیدائش ارواح میں کسی صفت واجب الوجود کا ازالہ نہیں بلکہ ناپید کرنے میں ازالہ ہے کیونکہ اس سے صفت قدرت کی جو پرمیشور میں بالاتفاق تسلیم ہو چکی ہے زاویہ اختفا میں رہے گی اور بپایہ ثبوت نہیں پہنچے گی اس لئے کہ جب پرمیشور نے خود ایجاد اپنے سے بلاتوسل اسباب کے کوئی چیز محض قدرت کاملہ اپنی سے پیدا ہی نہیں کی تو ہم کو کہاں سے معلوم ہو کہ اس میں ذاتی قدرت بھی ہے اگر یہ کہو کہ اس میں کچھ ذاتی قدرت نہیں تو اس اعتقاد سے وہ پرادھین یعنی محتاج بالغیر ٹھہرے گا اور یہ بہ بداہت عقل باطل ہے۔ غرض پرمیشور کا خالق ارواح ہونا تو ایسا ضروری امر ہے جو بغیر تجویز مخلوقیت ارواح کے سب کارخانہ خدائی کا بگڑ جاتا ہے لیکن دوسرا خدا پیدا کرنا صفت وحدت ذاتی کے برخلاف ہے پھر کس طرح پرمیشور ایسے امر کی طرف متوجہ ہو کہ جس سے اس کی صفت قدیمہ کا بطلان لازم آوے اور نیز اس صورت میں جو روح غیر مخلوق اور بے انت مانے جائیں کل ارواح صفت انادی اور غیر محدود ہونے میں خدا سے شریک ہو جائیں گی اور علاوہ اس کے پرمیشور بھی اپنی صفت قدیم سے جو پیدا کرنا بلا اسباب ہے محروم رہے گا اور یہ ماننا پڑے گا کہ پرمیشور کو صرف روحوں پر جمعداری ہی جمعداری ہے اور ان کا خالق اور واجب الوجود نہیں۔
پھر بعد اس کے باوا صاحب اسی اپنے جواب میں روحوں کے انتہا ہونے کا جھگڑا لے بیٹھے ہیں جس کو ہم پہلے اس سے ۹ اور ۱۶؍ فروری سفیر ہند میں ۱۴ دلائل پختہ سے ردّ کر چکے ہیں لیکن باوا صاحب اب تک انکار کئے جاتے ہیں۔ پس ان پر واضح رہے کہ یوں تو انکار کرنا اور نہ ماننا سہل بات ہے اور ہر ایک کو اختیار ہے کہ جس بات پر چاہے رہے پر ہم تو تب جانتے کہ آپ کسی دلیل ہماری کو ردّ کر کے دکھلاتے۔ اور بے انت ہونے کی وجوہات پیش کرتے آپ کو سمجھنا چاہئے کہ جس حالت میں ارواح بعض جگہ نہیں پائے جاتے تے بے انت کس طرح ہوگئے کیا بے انت کا یہی حال ہوا کرتا ہے کہ جب ایک جگہ تشریف لے گئے تو دوسری جگہ خالی رہ گئی اگر پرمیشوربھی اسی طرح کا بے انت ہے تو کارخانہ خدائی کا معرض خطر میں ہے۔ افسوس کہ آپ نے ہمارے اُن پختہ دلائل کو کچھ نہ سوچا اور کچھ غور نہ کیا اور یونہی جواب لکھنے کو بیٹھ گئے حالانکہ آپ کی منصفانہ طبیعت پر یہ فرض تھا کہ اپنے جواب میں اس امر کا التزام کرتے کہ ہر ایک دلیل ہماری تحریر کر کے اس کے محاذات میں اپنی دلیل لکھتے پر کہاں سے لکھتے اور تعجب تو یہ ہے کہ اسی جواب میں آپ کا یہ اقرار بھی درج ہے کہ ضرور سب ارواح ابتدا سر شٹی میں زمین پرجنم لیتے ہیں اور مدت سوا چار ارب سلسلہ دنیا کابنا رہتا ہے اس سے زیادہ نہیں۔ اب اے میرے پیارو اور دوستو اپنے دل میں آپ ہی سوچو۔ اپنے قول میں خود ہی غور کرو کہ جو پیدائش ایک مقرری وقت سے شروع ہوئی اور ایک محدود مقام میں اُن سب نے جنم لیا اور ایک محدود مدت تک اُن کے توالد و تناسل کا سلسلہ منقطع ہو گیا تو ایسی پیدائش کس طرح بے انت ہوسکتی ہے۔ آپ نے پڑھا ہوگا کہ بموجب اصول موضوعہ فلسفہ کے یہ قاعدہ مقرر ہے کہ جو چند محدود چیزوں میں ایک محدود عرصہ تک کچھ زیادتی ہوتی رہی تو بعد زیادتی کے بھی وہ چیزیں محدود رہیں گی اس سے یہ ثابت ہوا کہ اگر متعدد جانور ایک متعدد عرصہ تک بچہ دیتے رہیں تو اُن کی اولاد بموجب اصول مذکور کے ایک مقدار متعدد سے زیادہ نہ ہوگی اور خود ازروئے حساب کے ہر ایک عاقل سمجھ سکتا ہے کہ جس قدر پیدائش سوا چار ارب میں ہوتی ہے اگر بجائے اُس مدت کے ساڑھے آٹھ ارب فرض کریں تو شک نہیں کہ اس صورت مؤخر الذکر میں پہلی صورت سے پیدائش دوچند ہوگی۔ حالانکہ یہ بات اجلی بدیہات ہے کہ بے انت کبھی قابل تضغیف نہیں ہو سکتا اگر ارواح بے انت ثابت ہوتے تو ایسی مدت معدود میں کیوں محصور ہو جاتے کہ جن کے اضعاف کو عقل تجویز کر سکتی ہے اور نہ کوئی دانا محدود زمانی اور مکانی کو بے انت کہے گا۔ باوا صاحب برائے مہربانی ہم کو بتلا دیں کہ اگر سوا چار ارب کی پیدائش کا نام بے انت ہے تو ساڑھے آٹھ ارب کی پیدائش کا نام کیا رکھنا چاہئے۔ غرض یہ قول صریح باطل ہے کہ ارواح موجودہ محدود زمانی اور امکان ہو کر پھر بھی بے انت ہیں کیونکہ مدت معین کا توالد و تناسل تعداد معینہ سے کبھی زیادہ نہیں اور اگر یہ قول ہے کہ سب ارواح بدفعہ واحد زمین پر جنم لیتے ہیں سو بطلان اس کا ظاہر ہے کیونکہ زمین محدود ہے اور ارواح بقول آپ کے غیر محدود پھر غیر محدود کس طرح محدود میں سما سکے۔
اور اگر یہ کہو کہ بعض حیوانات باوصف مکتی نہ پانے کے نئی دنیا میں نہیں آتے سو یہ آپ کے اصول کے برخلاف ہے کیونکہ جب کہ پیشتر عرض کیا گیا ہے آپ کا یہ اصول ہے کہ ہر نئی دنیا میں تمام وہ ارواح جو سرشٹی گزشتہ میں مکتی پانے سے رہ گئے تھے اپنے کرموں کا پھل بھوگنے کے واسطے جنم لیتے ہیں کوئی جیو جنم لینے سے باہر نہیں رہ جاتا۔اب قطع نظر ان دلائل سے اگر اسی ایک دلیل پر جو محدود فی الزماں ووالمکان ہونے کے ہے غور کیا جائے تو صاف ظاہر ہے کہ آپ کو ارواح کے متعدد ماننے سے کوئی گریز گاہ نہیں اور بجز تسلیم کے کچھ بن نہیںپڑتا بالخصوص اگر اُن سب دلائل کو جو سوال نمبر۱ میں درج ہوچکے ہیں ان دلائل کے ساتھ جو اس تبصرہ میں اندراج پائیں ملا کر پڑھا جائے تو کون منصف ہے جو اس نتیجہ تک نہیں پہنچ سکتا کہ ایسے روشن ثبوت سے انکار کرنا آفتاب پر خاک ڈالنا ہے۔ پھر افسوس کہ باوا صاحب اب تک یہی تصور کئے بیٹھے ہیں کہ ارواح بے انت ہیں اور مکتی پانے سے کبھی ختم نہیں ہونگے۔ اور حقیقت حال جو تھا سو معلوم ہوا کہ کُل ارواح پانچ ارب کے اندر اندر ہمیشہ ختم ہو جاتے ہیں اور نیز ہر پرلے کے وقت پر اُن سب کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ اگر بے انت ہوتے تو اُن دونوں حالتوں مقدم الذکر میں کیوں ختم ہونا اُن کا رکن اصول آریہ سماج کا ٹھہرتا۔ عجب حیرانی کا مقام ہے کہ باوا صاحب خود اپنے ہی اصول سے انحراف کر رہے ہیں۔ اتنا خیال نہیں فرماتے کہ جو اشیاء ایک حالت میں قابل اختتام ہیں وہ دوسری حالت میں بھی یہی قابلیت رکھتے ہیں۔ یہ نہیں سمجھتے کہ مظروف اپنے ظرف سے کبھی زیادہ نہیں ہوتا پس جب کہ کُل ارواح ظروف مکانی اور زمانی میں داخل ہو کر اندازہ اپنا ہر نئی دنیا میں معلوم کرا جاتے ہیں اور پیمانہ زمان مکان سے ہمیشہ ماپے جاتے ہیں تو پھر تعجب کہ باوا صاحب کو ہنوز ارواح کے محدود ہونے میں کیوں شک باقی ہے۔ میں باوا صاحب سے سوال کرتا ہوں کہ جیسے بقول آپ کے یہ سب ارواح جو آپ کے تصور میں بے انت ہیں سب کے سب دنیا کی طرف حرکت کرتے ہیں اگر اسی طرح اپنے بھائیوں مکتی یافتوں کی طرف حرکت کریں تو اس میں استبعاد عقلی ہے اور کونسی حجب منطقی اس حرکت سے ان کو روکتی ہے اور کسی برہان لمی یا اِنّیسے لازم آتا ہے کہ دنیا کی طرف انتقال اُن سب کا ہر سرشٹی کے دورہ میں جائز بلکہ واجب ہے۔ لیکن کوچ اُن سب کا مکتی یافتوں کے کوچہ کی طرف ممتنع اور محال ہے۔ مجھ کو معلوم نہیں ہوتا کہ اس عالم دنیا کی طرف کونسی پختہ سڑک ہے کہ سب ارواح اس پر بآسانی آتے جاتے ہیں ایک بھی باہر نہیں رہ جاتی۔ اور اُن مکتی یافتوں کے راستہ میں کونسا پتھر پڑا ہوا ہے کہ اس طرف اُن سب کا جانا ہی محال ہے کیا وہ خدا جو سب ارواح کو موت اور جنم دے سکتا ہے سب کو مکتی نہیں دے سکتا۔ جب ایک طور پر سب ارواح کی حالت متغیر ہو سکتی ہے تو پھر کیا وجہ کہ دوسرے طور سے وہ حالت قابل تغیر نہیں اور نیز کیا یہ بات ممکن نہیں جو خدا اُس سب ارواح کا یہ نام رکھ دے کہ مکتی یاب ہیں۔ جیسا اب تک یہ نام رکھا ہوا ہے کہ مکتی یاب نہیں کیونکہ جن چیزوں کی طرف نسبت سلبی جائز ہو سکتی ہے بیشک اُن چیزوں کی طرف نسبت ایجابی بھی جائز ہے اور نیز یہ بھی واضح رہے کہ یہ قضیہ کہ سب ارواح موجودہ نجات پا سکتے ہیں اس حیثیت سے زیر بحث نہیں کہ محمول اس قضیہ کا جو نجات عام ہے مثل کسی جزئی حقیقی کے قابل تنقیع ہے بلکہ اس جگہ مجوث عنہ امر کلی ہے یعنی ہم کلی طور پر بحث کرتے ہیں کہ ارواح موجودہ نے جو ابھی مکتی نہیں پائی آیا بموجب اصول آریہ سماج کے اس امر کی قابلیت رکھتے ہیں یا نہیں کہ کسی طور کا عارضہ عام خواہ مکتی ہو یا کچھ اور ہو اُن سب پر طاری ہو جائے سو آریہ صاحبوں کے ہم ممنون بمنت ہیں جو اُنہوں نے آپ ہی اقرار کر دیا کہ یہ عارضہ عام بعض صورتوں میں سب ارواح پر واقع ہے جیسے موت اور جنم کی حالت سب ارواح پر عارض ہو جاتی ہے۔ اب باوا صاحب خود ہی انصاف فرماویں کہ جس حالت میں دو مادوں میں اس عارضہ عام کے خود ہی قائل ہوگئے تو پھر اس تیسرے مادے میں جو سب کا مکتی پانا ہے انکار کرنا کیا وجہ ہے۔
پھر باوا صاحب یہ فرماتے ہیں کہ علاوہ زمین کے سورج اور چاند اور سب ستاروں میں بھی بکثرت جانور آباد ہیں اور اس سے یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ بس ثابت ہو گیا کہ بس بے انت ہیں۔ پس باوا صاحب پر واضح رہے کہ اوّل تو یہ خیال بعض حکماء کا ہے جس کو یورپ کے حکیموں نے اخذ کیا ہے اور ہماری گفتگو آریہ سماج کے اصول پر ہے۔ سوا اس کے اگر ہم یہ بھی مان لیں کہ آریہ سماج کا بھی یہی اصول ہے تو پھر بھی کیا فائدہ کہ اس سے بھی آپ کا مطلب حاصل نہیں ہوتا۔ اس سے تو صرف اتنا نکلتا ہے کہ مخلوقات خدا تعالیٰ کی بکثرت ہے۔ ارواح کے بے انت ہونے سے اس دلیل کو کیا علاقہ ہے پر شاید باوا صاحب کے ذہن میں مثل محاورہ عام لوگوں کے یہ سمایا ہوا ہوگا کہ بے انت اُسی چیز کو کہتے ہیں جو بکثرت ہو۔ باوا صاحب کو یہ سمجھنا چاہئے کہ جس حالت میں یہ سب اجسام ارضی اور اجرام سماوی بموجب تحقیق فن ہئیت اور علم جغرافیہ کے معدود اور محدود ہیں تو پھر جو چیزیں ان میں داخل ہیں کس طرح غیر محدود ہو سکتی ہیں اور جس صورت میں تمام اجرام و اجسام زمین و آسمان کے خدانے گنے ہوئے ہیں تو پھر جو کچھ ان میں آباد ہے وہ اس کی گنتی سے کب باہر رہ سکتا ہے۔ سو ایسے دلائل سے آپ کا دعویٰ ثابت نہیں ہوتا۔ کام تو تب بنے کہ آپ یہ ثابت کریں کہ ارواح موجودہ تمام حدود و قیود ظروف مکانی اور فضائے عالم سے بالاتر ہیں کیونکہ خدا بھی انہیںمعنوں پر بے انت کہلاتا ہے اگر ارواح بے انت ہیں تو وہی علامات ارواح میں ثابت کرنی چاہئیں۔ اس لئے کہ بے انت ایک لفظ ہے کہ جس میں بقول آپ کے ارواح اور باری تعالیٰ مشارکت رکھتے ہیں اور اس کا حدتام بھی ایک ہے۔ یہ باتنہیں کہ جب لفظۃ بے انت کا خدا کی طرف نسبت کیا جائے تو اس کے معنی اور ہیں اور جب ارواح کی طرف منسوب کریں تو اور معنی۔
پھر بعد اس کے باوا صاحب فرماتے ہیں کہ کسی نے آج تک روحوں کی تعداد نہیں کی۔ اس لئے لاتعداد ہیں۔ اس پر ایک قاعدہ حساب کا بھی جو مانحن فیہ سے کچھ تعلق نہیں رکھتا پیش کرتے ہیں اور اس سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ لاتعداد کی کمی نہیں ہو سکتی۔ پس باوا صاحب پر واضح رہے کہ ہم تخمینی اندازہ ارواح کا بموجب اصول آپ کے بیان کر چکے ہیں اور اُن کا ظروف مکانی اور زمانی میں محدود ہونا بھی بموجب انہی کے اصول کے ذکر ہوچکا ہے اور آپ اب تک وہ حساب ہمارے روبرو پیش کرتے ہیں جو غیر معلوم اور نامفہوم چیزوں سے متعلق ہے۔ اگر آپ کا یہ مطلب ہے کہ جس طرح خزانچی کو اپنی جمع تحویل شدہ کا کل میزان روپیہ آنہ پائی کا معلوم ہوتا ہے اسی طرح اگر انسان کل کُل تعداد ارواح کا معلوم ہو تو تب قابل کمی ہونگے ورنہ نہیں۔ سو یہ بھی آپ کی غلطی ہے کیونکہ ہر عاقل جانتا ہے کہ جس چیز کا اندازہ تخمینی کسی پیمانہ کے ذزیعہ سے ہوچکا تو پھر ضرور عقل یہی تجویز کرے گی کہ جب اُس اندازہ معلومہ سے نکالا جاوے تو بقدر تعداد خارج شدہ کے اصلی اندازہ میں کمی ہو جائے گی۔ بھلا یہ کیا بات ہے کہ جب مکتی شدہ سے ایک فوج کثیر مکتی شدہ ارواح میں داخل ہو جائے تو نہ وہ کچھ کم ہوں اور نہ یہ کچھ زیادہ ہوں۔ حالانکہ وہ دونوں محدود ہیں اور ظروف مکانی اور زمانی میں محصور اور جو یہ باوا صاحب فرماتے ہیں کہ تعداد روحوں کی ہم کو بھی معلوم ہونی چاہئے تب قاعدہ جمع تفریق کا اُن پر صادق آوے گا۔ یہ قول باوا صاحب کابھی قابل ملاحظہ ناظرین ہے ورنہ صاف ظاہر ہے کہ جمع بھی خدا نے کی اور تفریق بھی وہی کرتا ہے اور اُس کو ارواح موجودہ کے تمام افراد معلوم ہیں اور فرد فرد اس کے زیر نظر ہے اس میں کیا شک ہے کہ جب ایک روح نکل کر مکتی یابوں میں ہو جاوے گی تو پرمیشور کو معلوم ہے کہ یہ فرد اس جماعت میں سے کم ہو گیا اور اُس جماعت میں سے بباعث داخل ہونے اس کے ایک فرد کی زیادتی ہوئی یہ کیا بات ہے کہ اس داخل خارج سے وہی پہلی صورت بنی رہی۔ نہ مکتی یاب کچھ زیادہ ہوں اور نہ وہ ارواح کہ جن سے کچھ روح نکل گئی بقدر نکلنے کے کم ہو جائیں او رنیز ہم کو بھی کوئی برہان منطقی مانع اس بات کے نہیں کہ ہم اس امر متیقن متحقق طور پر رائے نہ لگا سکیں کہ جن چیزوں کا اندازہ بذریعہ ظرف مکانی اور زمانی کے ہم کو معلوم ہو چکا ہے وہ دخول و خروج سے قابل زیادت اور کمی ہیں مثلاً ایک ذخیرہ کسی قدر غلہ کا کسی کوٹھے میں بھرا ہوا ہے اور لوگ اس سے نکال کر لے جاتے ہیں سو گو ہم کو اُس ذخیرہ کا وزن معلوم نہیں لیکن ہم بہ نظر محدود ہونے اس کے رائے دے سکتے ہیں کہ جیسا نکالا جائے گا کم ہوتا جائے گا۔
اور یہ جو آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ خدا کا علم غیر محدود ہے اور روح بھی غیر محدود ہیں اس واسطے خدا کو روحوں کی تعددا معلوم نہیں یہ آپ کی تقریر بے موقع ہے۔ جناب من یہ کون کہتا ہے کہ جو خدا کا علم غیر محدود نہیں۔ کلام و نزاع تو اس میں ہے کہ معلومات خارجیہ اس کے جو تعینات وجود یہ سے مقید ہیں اور زمانہ واحد میں پائے جاتے ہیں اور ظروف زمانی و مکانی میں محصور اور محدود ہیں آیا تعداد اُن اشیاء موجودہ محدودہ معینہ کا اس کو معلوم ہے یا نہیں آپ اُس اشیاء موجودہ محدودہ کو غیر موجود اور غیر محدود ثابت کریں تو بت کام بنتا ہے۔ ورنہ علم الٰہی کہ موجود اور غیر موجود دونوں پر محیط ہے اس کے غیر متناہی ہونے سے کوئی چیز جو تعینات خارجیہ میں مفید ہو غیر متناہی نہیں بن سکتی اور آپ نے خدا کے علم کو خوب غیر محدود بنایا کہ جس سے روحوں کا احاطہ بھی نہ ہو سکا اور شمار بھی نہ معلوم ہوا باوصف یہ کہ سب موجود تھے کوئی معدوم نہ تھا۔ کیا خوب بات ہے کہ آسمان اور زمین نے تو روحوں کو اپنے پیٹ میں ڈال کر بزبان حال اُن کی تعداد بتلائی پھر خدا کو کچھ بھی تعداد معلوم نہ ہوئی یہ عجیب خدا ہے اور اس کا علم عجیب تر۔ بھلا میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ خدا کو جو ارواح موجودہ کا علم ہے یہ اُس کے علوم غیر متناہیہ کا جز ہے یا کل ہے۔ اگر کل ہے اس سے لازم آتا ہے کہ خدا کوسِوا روحوں کے اور کسی چیز کی خبر نہ ہو اور اس سے بڑھ کر اس کا کوئی عالم نہ ہو اور اگر جز ہے تو محدود ہو گیا۔ کیونکہ جز کل سے ہمیشہ چھوٹا ہوتا ہے۔ پس اسے بھی یہی نتیجہ نکلا کہ ارواح محدود ہیں اور خود یہی حق الامر تھا۔ جس شخص کو خدا نے معرفت کی روشنی بخشی ہو وہ خوب جانتا ہے کہ خدا کے بے انتہا علوم کے دریا زمین سے علم ارواح موجودہ کا اس قدر بھی نسبت نہیں رکھتا کہ جیسے سوئی کو سمندر میں ڈبو کر اس میں کچھ ترقی باقی رہ جاتی ہے۔
پھر باوا صاحب یہ تحریر فرماتے ہیں کہ ’’یہ اعتراض کرنا بیجا ہے کہ بے انت اور انادی ہونا خدا کی صفت ہے اور اگر روح بھی بے انت اور انادی ہوں تو خدا کے برابر ہو جائیں گے کیونکہ کسی جزوی مشارکت سے مساوات لازم نہیں آتی۔ جیسے آدمی بھی آنکھ سے نہیں دیکھتا ہے اور حیوان بھی۔ پر دونوں مساوی نہیں ہو سکتے‘‘۔
یہ دلیل باوا صاحب کی تغلیط اور نسقیط ہے۔ ورنہ کون عاقل اس بات کو نہیں جانتا کہ جو صفات ذات الٰہی میں پائی جاتی ہیں وہ سب اس ذات بے مثل کے خصائص میں کوئی چیز ان میں شریک سہیم ذات باری کے نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ اگر ہو سکتی ہے تو پھر سب صفات اس کی میں شراکت غیر کی جائز ہوگی اور جب سب صفات میں شراکت جائز ہوئی تو ایک اور خدا پیدا ہو گیا بھلا اس بات کا آپ کے پاس کیا جواب ہے کہ جو خدا کی صفات قدیمہ میں سے جو انادی اور بے انت ہونے کی صفت ہے وہ تو اس کے غیر میں بھی پائی جاتی ہیں لیکن دوسری صفات اس کی اس سے مخصوص ہیں ذرا آپ خیال کر کے سوچیں کہ کیا خدا کی تمام صفات یکساں ہیں یا متقارب ہیں۔ پس ظاہر ہے کہ اگر ایک صفت میں صفات مخصوصہ اس کی سے اشتراک بالغیر جائز نہ ہوگا اور اگر نہیں تو سب نہیں اور یہ جو آپ نے نظیر دی جو حیوانات مثل انسان کے آنکھ سے دیکھتے ہیں لیکن اس رویت سے انسان نہیں ہو سکتانہ اس کے مساوی یہ نظیر آپ کی بے محل ہے۔ اگر آپ ذرا بھی غور کرتے تو ایسی نظیر کبھی نہ دیتے۔ حضرت سلامت یہ کون کہتا ہے کہ ممکنات کو عوارض خارجیہ میں باہم مشارکت اور مجانست نہیں۔ امر متنازعہ فیہ تو یہ ہے کہ خصائص الٰہیہ میں کسی غیر اللہ کو بھی اشتراک ہے۔ یا صفات اُس کے اس کی ذات سے مخصوص ہیں۔ آپ مدعی اس امر متنازعہ کے ہیں اور نظیر ممکنات کی پیش کرتے ہیں جو خارج از بحث ہے آپ امر متنازعہ کی کوئی نظیر دیں تب حجت تمام ہو ورنہ ممکنات کے تشارک تجابس سے یہ حجت تمام نہیں ہوتی نہ ذات باری کے خصائص کو ممکنات کے عوارض پر قیاس کرنا طریق دانشوری ہے۔ علاوہ اس کے جو ممکنات میں بھی خصائص ہیں وہ بھی اُن کے ذوات سے مخصوص ہیں جیسا کہ انسان کی حدتام یہ ہے جو حیوان ناطق ہے اور ناطق ہونا انسان کے خصائص ذاتی میں سے اور اس کا فصل اور ممیز عن الغیر ہے یہ فصل اس کا نہیں کہ ضرور بینا بھی ہو اور آنکھ سے بھی دیکھتا ہو کیونکہ اگر انسان اندھا بھی ہو جائے تب بھی انسان ہے۔بلکہ انسان کے خصائص ذاتیہ سے وہ امر ہے جو بعد مفارقت روح کے بدن سے اس کے نفس میں بنا رہتا ہے۔ ہاں یہ بات سچ ہے جو ممکنات میں اس وجہ سے جو وہ سب ترکیب عنصری میں متحد ہیں بعض حالات خارج از حقیقت تامہ ہیں ایک دوسرے کی مشارکت بھی ہوتے ہیں جیسے انسان اور گھوڑا اور درخت کہ جوہر اور صاحب العباد ثلاثہ اور قوت نامیہ ہونے میں یہ تینوں شریک ہیں اور حساس اور متحرک بالارادہ ہونے میں انسان اور گھوڑا مشارکت رکھتے ہیں لیکن ماہیت تامہ ہر ایک کی جدا جدا ہے۔ غرض یہ صفت عارضی ممکنات کی حقیقت تامہ پر زائد ہے جس میں کبھی کبھی تشارک اور کبھی تغائر ان کا ہو جاتا ہے اور باوصف مختلف الحقائق اور متغائر الماہیت ہونے کے کبھی کبھی بعض مشارکات میں ایک جنس کے تحت میں داخل ہو جاتے ہیں بلکہ کسی ایک حقیقت کے لئے ایک اجناس ہوتے ہیں اور یہ بھی کچھ سمجھا کہ کیوں ایسا ہوتا ہے یہ اس واسطے ہوتا ہے کہ ترکیب مادی ان کی اصل حقیقت اُن کے پر زائد ہے اور سب کی ترکیب مادی کا ایک ہی استقس یعنی اصل ہے۔ اب آپ پر ظاہر ہوگا کہ یہ تشارک ممکنات کا خصائص ذاتیہ میں تشارک نہیں بلکہ عوارض خارجیہ میں اشتراک ہے باطنی آنکھ انسان کی جس کو بصیرت قلبی (این لائن منٹ) کہتے ہیں دوسرے حیوانات میں ہرگز نہیں پائی جاتی۔
اخیر میں باوا صاحب اپنے خاتمہ جواب میں یہ بات کہہ کر خاموش ہوگئے ہیں کہ سب دلائل معترض کے توہمات ہیں۔ قابل تردید نہیں اس کملہ سے زیرک اور ظریف آدمیوں نے فی الفور معلوم کر لیا ہوگا کہ باوا صاحب کو یہ لفظ کیوں کہنا پڑا۔ بات یہ ہوئی اوّل اوّل تو ہمارے معزز دوست جناب باوا صاحب جواب دینے کی طرف دوڑے اور جہاں تک ہو سکا ہاتھ پاؤں مارے اور کودے اُچھلے لیکن جب اخیر کچھ پیش نہ گئی اور عقدہ لاینحل معلوم ہوا تو آخر ہانپ کر بیٹھ گئے اور یہ کہہ دیا کہ کیا تردید کرنا ہے یہ تو توہمات ہیں۔ لیکن ہر عاقل جانتا ہے کہ جن دلائل کی مقدمات یقینیہ پر بنیاد ہے وہ کیوں توہمات ہوگئے۔ اب ہم اس مضمون کو ختم کرتے ہیں اور آئندہ بلا ضرورت نہیں لکھیں گے۔
راقم
مرزا غلام احمد۔ رئیس قادیان



بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
عرض حال
الحمدللّٰہ رب العالمین والصلوٰۃ والسلام علی رسولہ محمد الامین و خاتم النبیین واعلیٰ آلہٖ اصحابہ الطیبین وعلی خلفائہِ راشدین۔
اما بعد خاکسار ایڈیٹر الحکم نہایت خوشی اور مسرت قلبی سے اس امر کا اظہار کرتا ہے کہ جب سے اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے اس کو اس چشمہ ہدایت کی طرف رہنمائی فرمائی اور اپنے فل ہی سے اس کے ہاتھ میں قلم اور دل و دماغ میںقوت بخشی اور اسے سلسلہ کی قلمی خدمت کے لئے جوش عطا فرمایا تب ہی سے اس کو یہ آرزو رہی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ملفوظات اور مکتوبات کو جمع کروں محض فضل ربانی ہی نے اس کی دستگیری کی اور اس کو اس خدمت کے ایک حد تک قابل کر دیا۔ الحکم کے ذریعہ اس سلسلہ میں بہت بڑا کام ہوچکا ہے اور پُرانی تحریروں کے جمع کرنے میںبھی اس حد تک کامیابی ہوئی کہ آج میں اس سلسلہ میں یہ تیسرا مجموعہ شائع کرنے کی توفیق پاتا ہوں۔ والحمدللّٰہ علی ذالک
مکتوبات کے سلسلہ میں اس وجہ سے پہلی جلد کی اشاعت کے وقت خیال کیا گیا تھا کہ دوسری جلد حضرت خلیفۃ المسیح مدظلہا العالی کے مکتوبات کی ہوگی مگر بعد میں میری رائے ترتیب کے متعلق یوں ہوئی کہ پہلے ان جلدوں کو شائع کرنا چاہئے جو مختلف مذاہب کے ہادیوں اور لیڈروں کے نام کے مکتوبات ہیں۔ چنانچہ اس جلد میں ان مکتوبات کو جمع کیا گیا ہے جو ہندو، آریہ اور براہمو لوگوں کے نام ہیں۔ تیسری جلد میں وہ مکتوبات انشاء اللہ ہونگے جو عیسائی مذہب کے لیڈروں کے نام آپ نے لکھے ہیں۔ غالباً اس امر کا اظہار بھی ضروری ہے کہ ۲۴؍ دسمبر ۱۹۰۸ء میں پہلی جلد شائع ہوئی تھی اور قریباً چار سال بعد دوسری جلد شائع ہوتی ہے اس توقف اور تعویق کا موجب ظاہری وہ مالی مشکلات تھیں جو کارخانہ الحکم کو بوجہ خسارہ مشین پیش آئیں لیکن اب چونکہ میرے مکرم بھائی منشی محمد وزیر خاں صاحب اورسیئر نے جو سلسلہ کے ایک مخلص اور جوشیلے ممبر ہیں اور میرے ساتھ اُنہیں دیرینہ محبت ہے اس سلسلہتالیفات مکتوبات میں مدد کرنے کا وعدہ فرمایا ہے اس لئے میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ چاہے تو باقی جلدیں جلد شائع ہوسکیں گی۔ والامربیہ اللّٰہ
احباب اگر اس سلسلہ تالیفات کی خریداری میں میری حوصلہ افزائی کریں تو خدا کے فضل سے وہ وقت قریب آ سکتاہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی تائید اور توفیق سے اُس عظیم الشان کام کو شروع کر دوں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سوانح عمری کا کام ہے۔ یہ سوانح عمری حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سوانح عمری ہی نہ ہوگی بلکہ یہ سلسلہ عالیہ احمدیہ کی ایک تاریخ ہوگی۔
یہ معمولی محنت کا کام نہیں اس کے لئے ایک خاص سٹاف کی ضرورت ہوگی اور ہزاروں ہزار صفحات کی ورق گردان اور واقعات کا جمع کرنا اور تالیف و ترتیب کا کام ہوگا۔ میں اپنے مخلص احباب کا شکر گزار ہوں کہ وہ مجھے اس کا اہل سمجھتے ہیں اور میں خدا تعالیٰ کے اس فضل کا شکر گزار ہوں میں اس امر کا اظہار بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سوانح کا میٹریل میں نے قریباً جمع کر لیا ہے اس کی ترتیب اور طبع ہی کا کام اب باقی ہے اور یہ اس وقت شروع ہو سکے گا جب اللہ تعالیٰ ایسے مخلص قلوب کو تحریک کرے گا جو اس راہ میں اپنا مال نثار کر سکیں ساری توفیقیں اللہ کو ہی ہیں۔ یہ کتاب صرف ایک ہزار چھاپی گئی ہے جس قدر جلد احباب اس کی اشاعت میں حصہ لیں گے اسی قدر جلد وہ مجھے دوسری جلد کی اشاعت کا موقع دیں گے۔
والسلام
احقر یعقوب علی تراب احمد
ایڈیٹر الحکم قادیان
(دفتر الحکم قادیان دارالامان ۲۴؍ دسمبر ۱۹۱۲ء)

مکتوبات ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد 3

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پرانی تحریروں کا سلسلہ نمبر
اَلْمَکَتُوْبُ نَصْفُ الْمُلاقَاتُ
مکتوبات احمدیہ
(جلدسوم)


مرتبہ
حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ

ملنے کا پتہ
عبدالعظیم مالک احمدیہ بک ڈپو قادیان دارالامان
ہدیہ ایک روپیہ پچیس نئے پیسے
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
مکتوبات احمدیہ جلد سوم
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے
پادریوں کے نام خطوط
چوں مرا نورے پئے قوم مسیحی دادہ اند
مصلحت را ابن مریم نام من بنہادہ اند
مکتوب نمبر۱
پادری سوفٹ صاحب کے نام
یہ ایک پُرانہ خط ہے جو پادری سوفٹ صاحب کے نام لکھا گیا تھا۔ یہ پادری صاحب گوجرانوالہ میں رہتے تھے۔ انہیں عام پادریوں کی نسبت عیسوی تہیالوجی کا بڑا دعویٰ تھا۔ افسوس اس خط کے نقل کرنے والے نے بھی تاریخ و سنہ کے لکھنے سے جو سخت ضروری بات تھی تامل کیا۔ بہرحال یہ ۱۸۸۴ء سے کم عرصہ کا یہ خط نہیں۔ اس سے بڑا بھاری فائدہ یہ حاصل ہوتا ہے کہ حضرت امام الزمان اپنے دعاوی کے صادقانہ لہجے میں برابر مستقیم اور غیر مبتدل چلے آتے ہیں اور یہ افتراء اختلاق کے ردّ کی بڑی بھاری دلیل ہے۔ والحمدللّٰہ علٰی ذٰلک۔ (ایڈیٹر)

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
بعد ماوجب۔ آپ کا عنایت نامہ جس پر کوئی تاریخ درج نہیں بذریعہ ڈاک مجھ کو ملا آپ نے پہلے تو بے تعلق اپنے خط میں یہ قصہ چھیڑ دیا ہے کہ حقیقت میں خدائے قادر مطلق خالق و مالک ارض و سما مسیح ہے اور وہی نجات دہندہ ہے لیکن میں سوچ میں ہوں کہ آپ صاحبوں کی طبیعت کیونکر گوارا کر لیتی ہے کہ ایک آدم زاد خاکی نہاد عاجز بندہ کی نسبت آپ لوگ یہ خیال کر لیتے ہیں کہ وہی ہمارا پیدا کنندہ اور ربّ العلمین ہے یہ خیال آپ کا حضرت مسیح کی نسبت ایسا ہی ہے جیسے ہندو لوگ راجہ رامچند کی نسبت رکھتے ہیں۔ صرف اتنا فرق ہے کہ ہندو لوگ کشلیا کے بیٹھے کو اپنا پرمیشر بنا رہے ہیں اور آپ حضرت مریم صدیقہ کے صاحبزادہ کو۔ نہ ہندؤوں نے کبھی ثابت کر دکھایا کہ زمین و آسمان میں کوئی ٹکڑا کسی مخلوق کا رامچندر یا کرشن نے پیدا کیا ہے اور نہ آج تک آپ لوگوں نے حضرت مسیح کی نسبت کچھ ایسا ثبوت دیا۔ افسوس کہ جو قومیں عقل اور ادراک اور فہم و قیاس کے آپ صاحبوں کی فطرت کو عطا کی گئی تھیں آپ لوگوں نے ایک ذرا ان کا قدر نہیں کیا اور علوم طبعی اور فلسفی کو پڑھ پڑھا کر ڈبودیا اور عقلی علوم کی روشنی آپ لوگوں کے دلوں پر ایک ذرا نہ پڑی سادی اور ناسمجھی کے زمانہ میں جو کچھ گھڑا گیا انہیں باتوں کو آپ لوگوں نے اب تک اپنا دستور العمل بنا رکھا۔ کاش اس زمانہ میں دو چار دن کیلئے حضرت مسیح اور راجہ رامچندر اور کرشن وبدھ وغیرہ کہ جن کو مخلوق پرستوں نے خدا بنایا ہوا ہے پھر دنیا میں اپنا درش کرا جاتے۔ تا خود ان لوگوں کا انصاف دلی ان ان کو ملزم کرتا کہ کیا ان آدمزادوں کو خدا خدا کر کے پکارنا چاہئے اور تعجب تو یہ ہے کہ باوجود ان تمام رسوائیوں کے جو آپ لوگوں کے عقاید میں پائی جاتی ہیں پھر آپ لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہمارے عقائد اور غیر متغیر جلال چھوڑ کر ایک عورت کے پیٹ میں حلول اور ناپاک راہ سے تولد پایا اور دکھ اور تکلیف اُٹھاتا رہا اور مصلوب ہو کر مر گیا اور پھر یہ کہ وہ تین بھی ہے اور ایک بھی اور انسان کامل بھی ہے اور خدائے کامل بھی۔ وہ ایسے عقائد کو کیونکہ عقل کے مطابق کر سکتے ہیں اور ایسی نئی فلسفی کونسی ہے۔ جس کے ذزیعے سے یہ لغویات معقول ٹھہر سکتے ہیں۔ پھر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جب آپ لوگ معقول طور پر اپنے خوش عقیدہ کی سچائی ثابت نہیں کر سکتے تو پھر لاچار ہو کر نقل کی طرف بھاگتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ یہ باتیں ہم نے پہلی کتابوں میں یعنی بائبل میں دیکھی ہیں۔ اسی وجہ سے ہم ان کو مانتے ہیں لیکن یہ جواب بھی سراسر پوچ اور بے معنی ہے کیونکہ ان کتابوں میں ہرگز یہ بات درج نہیں ہے کہ حضرت مسیح خدا کے بیٹے یا خود ربّ العلمین ہیں اور دوسرے لوگ خدا کے بندے ہیں بلکہ بائبل پر غور کرنے والے خوب جانتے ہیں کہ خدا کا بیٹا کر کے کسی کو پکارنا یہ ان کتابوں کا عام محاورہ ہے۔ بلکہ بعض جگہ خدا کی بیٹیاں بھی لکھی ہیں اور ایک جگہ یہ بھی لکھا ہے کہ تم سب خدا ہو۔ تو پھر اس حالت میں حضرت مسیح کی کیا خصوصیت رہی ماسوا اس کے ہر ایک عاقل جانتا ہے کہ منقولات اور اخبار میں صدق اور کذب اور تغیر اور تبدل کا احتمال ہے۔ خصوصاً جو جو صدمات عیسائیوں اور یہودیوں کی کتابوں کو پہنچے ہیں اور جن جن خیانتوں اور تحریفوں کاانہوں نے آپ اقرار کر لیاہے ان وجوہ سے یہ احتمال زیادہ تر قوی ہو جاتا ہے اور یہ بھی آپ کو سوچنا چاہئے کہ اگر ہر یک تحریر بغیر ثبوت باضابطہ کے قابل اعتبار ٹھہر سکتی ہے تو پھر آپ لوگ ان قصوں کو کیوں معتبر نہیں سمجھتے کہ جو ہندؤوں کے پستکوں میں رام چندر اور کرشن اور برہما اور بشن وغیرہ کے معجزات کی نسبت اور ان کے بُرے بُرے کاموں کے بارہ میں اب تک لکھے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ جیسے مہادیو کے لٹوں سے گنگا کا نکلنا اور مہادیو کا پہاڑ کو اُٹھالینا اور ایسا ہی ارجن کے بھائی راجہ پلیہم کے مقابل پر مہادیو کا کشتی کیلئے آنا جس کی پرانوں میںیہ کتھا لکھی ہے کہ مہادیو جی ملہنسی کا روپ دھار کر راجہ پلیہم کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔ پلیہم نے چاہا کہ ان سے لڑے۔ مہادیو جی بھاگ نکلے۔ بیہم نے ان کا پیچھا کیا تب وہ زمین میں گھس گئی۔ بیہم نے دیکھ کربڑی زور سے ان کی پونچھ پکڑ لی اور کہا کہ اب میں نہ جانے دوں گا۔ سو پونچھ اور پچھلا دھڑ تو بیہم کے ہاتھ میں رہ گیا اور منہ نیپال کے پہاڑ میں جا نکلا۔ اسی وجہ سے منہ کی پوجا نیپال میں ہوتی ہے اور پونچھ اور پچھلے دھڑ کی کدار ناتھ میں۔
اب دیکھئے کہ جو کچھ عقیدہ آپ نے بنا رکھا ہے کہ گویا خدا تعالیٰ کی روح حضرت مریم کے رحم میں گھس گئی اور گھسنے کے بعد اُس نے ایک نیا روپ دھار لیا جس سے وہ کامل خدا بھی بنے رہے اور کامل انسان بھی ہوگئے۔ کیا یہ قصہ بیہم اور مہادیو کے قصہ سے کچھ کم ہے۔
پھر آپ یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم کو مسیح کے کفارہ پر ایمان لانے سے نجات حاصل ہوگئی ہے۔ مگر میں آپ لوگوں میں نجات کی کوئی علامت نہیں دیکھتا اور اگر میں غلطی پر ہوں تو آپ مجھ کو بتلا دیں کہ وہ کون سے انوار اور برکات اور قبولیت الٰہی کے نشان آپ لوگوں میں پائے جاتے ہیں جس نے دوسرے لوگ محروم رہے ہوئے ہیں۔ میں اس بات کو نہیں مانتا ہوں کہ ایمانداروں اور بے ایمانوں اور ناجیوں اور غیر ناجیوں میں ضرور مابہ الامتیاز ہونا چاہئے۔ مگر پادری صاحب آپ ناراض نہ ہوںوہ علامات جو ایمانداروں میںہوتے ہیں اور ہونے چاہئیں جن کو حضرت مسیح علیہ السلام نے بھی دو تین جگہ انجیل میں لکھا ہے۔ وہ آپ لوگوں میں مجھ کو نظر نہیں آتے۔ بلکہ وہ نشان سچے مسلمانوں میں پائے جاتے ہیں اور انہیں میں ہمیشہ پائے گئے ہیں اور انہیں نشانوں کے ظاہر کرنے کیلئے اس عاجز نے آپ صاحبان کی خدمت میں رجسٹری کرا کر خط لکھے اور بیس ہزار اشتہار تقسیم کیا اور کوئی دقیہ ابلاغ اور اتمام حجت کا باقی نہ رکھا تا خدا کرے کہ آپ لوگوں کو حق کے دیکھنے کیلئے شوق پیدا ہو اور جو مقبول اور مردود میں فرق ہونا چاہئے۔ وہ آپ بچشم خود دیکھ لیں اور اچھے درختوں کے اچھے پھل اور اچھے پھول بذات خود ملاحظہ کر لیں۔ مگر افسوس کہ میری اس قدر سعی اور کوشش سے آپ لوگوں میں سے کوئی صاحب میدان میں نہیں آئے۔ اب آپ نے یہ خط لکھا ہے مگر دیکھئے کہ اس کا کیا انجام ہوتا ہے۔ آپ نے اپنے خط میںتین شرطیں لکھی ہیں۔ پہلے آپ یہ لکھتے ہیں کہ چھ سَو روپیہ یعنی تین ماہ کے تنخواہ بطور پیشگی ہمارے پاس گوجرانوالہ میں پہنچائی جاوے اور نیز مکان وغیرہ کا انتظام اس عاجز کے ذمہ رہے اور اگر کسی نوع کی دقت پیش آوے تو فوراً آپ گوجرانوالہ میں واپس آ جاویں گے اور جو روپیہ آپ کو مل چکا ہو اس کو واپس لینے کا استحقاق اس عاجز کو نہیں رہے گا۔ یہ پہلی شرط ہے جو آپ نے تحریر فرمائی ہے لیکن گزارش خدمت کیا جاتا ہے کہ روپیہ کسی حالت میں قبل از انفصال اس امر کے جس کے لئے بحالت مغلوب ہونے کے روپیہ دینے کا اقرار ہے آپ کو نہیں مل سکتا۔ ہاں البتہ یہ روپیہ آپ کی تسلی اور اطمینان قلبی کیلئے کسی بنک سرکاری میں جمع ہو سکتا ہے یا کسی مہاجن کے پاس رکھا جا سکتا ہے۔ غرض جس طرح چاہیں روپیہ کی بابت ہم آپ کی تسلی کرا سکتے ہیں لیکن آپ کے ہاتھ میں نہیں دے سکتے اور یہ بات سچ اور قریب انصاف بھی ہے کہ جب تک فریقین میں جو امر متنازعہ فیہ ہے وہ تصفیہ نہ پا جاوے تب تک روپیہ کسی ثالث کے ہاتھ میں رہنا چاہئے۔ امید ہے کہ آپ جو طالب حق ہیں اس بات کو سمجھ جائیںگے اور اس کے برخلاف اصرار نہیں کریں گے اور جو اسی شرط کے دوسرے حصہ میں آپ نے یہ لکھا ہے کہ اگر مکان وغیرہ کے بارے میں کسی نوع کی ہم کو دقت پہنچی تو ہم فوراً گوجرانوالہ میں آویں گے اور جو روپیہ جمع کرایا گیا ہے ہمارا ہو جائے گا۔ یہ شرط آپ کی بھی ایسی وسیع التاویل ہے کہ ایک بہانہ جُو آدمی کو اس سے بہت گنجائش مل سکتی ہے کیونکہ مکان بلکہ ہر یک چیز میں نکتہ چینی کرنا بہت آسان ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس جگہ کا آب وہوا ہم کو مخالف ہے، ہم بیمار ہوگئے، مکان میں بہت گرمی ہے، فلاں چیز ہم کو وقت پر نہیں ملتی، فلاں فلاں ضروری چیزوں سے مکان خالی ہے وغیرہ وغیرہ۔ اب ایسی ایسی نکتہ چینیوں کا کہاں تک تدارک کیا جائے گا۔ سو اس بات کا انتظام اس طرح پر ہو سکتا ہے کہ آپ ایک دو دن کیلئے خود قادیان میں آ کر مکان کو دیکھ بھال لیں اور اپنے ضروریات کا بالمواجہہ تذکرہ اور تصفیہ کر لیں تا جہاں تک مجھ سے بن پڑے آپ کو خواہشوں کے پورا کرنے کیلئے کوشش کروں اور پھر بعد میں نکتہ چینی کی گنجائش نہ رہے ماسوا اس کے یہ عاجز تو اس بات کا ہرگز دعویٰ نہیں کرتا کہ کسی کو اپنے مکان میں فروکش کر کے جو کچھ نفس امّارہ اُس کا اسباب عیش و تنعم مانگتا جاوے وہ سب اس کے لئے مہیا کرتا جاؤں گا بلکہ اس خاکسار کا یہ عہد و اقرار ہے کہ جو صاحب اس عاجز کے پاس آئیں ان کو اپنے مکان میں سے اچھا مکان اور اپنی خوراک کے موافق خوراک دی جائے گی اور جس طرح ایک عزیز اور پیارے مہمان کی حتی الوسع دلجوئی و خدمت و تواضع کرنی چاہئے اسی طرح ان کی بھی کی جائے گی۔ اپنی طاقت اور استطاعت کے موافق برتاؤ اور اپنے نفس سے زیادہ اَکل و شرب میں ان کی رعایت رکھتی جاوے گی۔ ہاں اگر کوئی اس قسم کی تکلیف ہو جس کو اس گاؤں میں ہم لوگ اُٹھاتے ہیں اور اس کا دفع اور ازالہ ہماری طاقت اور استطاعت سے باہر ہے۔ اس میں ہمارے مہمان ہماری حالت کے شریک رہیں گے اور اس بات کو آپ سمجھیں یا نہ سمجھیں مگر ہر یک منصف سمجھ سکتا ہے کہ جس حالت میں ہم نے دو سَو روپیہ ماہواری دینا قبول کیا اور اس کے ادا کے لئے ہر طرح تسلی بھی کر دی تو ہم نے اپنے اس فرض کو ادا کر دیا یا جو کسی کا پورا پورا ہرجہ دینے کیلئے ہمارے سر پر تھا۔ رہا تجویز مکان و دیگر لوازم مہمانداری سو یہ زواید ہیں جن کو ہم نے محض حسن اخلاق کیطور پر اپنے ذمہ آپ لے لیا ہے۔ ورنہ ہر یک باانصاف آدمی جانتا ہے کہ جس شخص کو پورا پورا ہرجہ اس کی حیثیت کے موافق بلکہ اس سے بڑھ کر دیا جائے تو پھر اور کوئی مطالبہ اس کا بیجا ہے۔ اس کو تو خود مناسب ہے کہ اگر زیادہ تر آرام پسند اور آسائش دوست ہے تو اپنی آسائش کے لئے آپ بندوبست کرے۔ جیسا اس حالت میں بندوبست کرتا کہ جب وہ دو سَو روپیہ نقد کسی اور جگہ سے بطور نوکری پاتا۔ غرض جس قدر علاوہ ادائے ہرجہ کے ہم سے کسی کی خدمت ہو جاوے اس میں تو ہمارا ممنون ہونا چاہئے کہ ہم نے علاوہ اصل شرط کے بطور مہمانوں کے اس کو رکھا نہ کہ الٹی نکتہ چینی کی جائے کیونکہ یہ تو تہذیب اور اخلاق اور انصاف سے بہت بعید ہے اور اس مقام میں مجھ کو ایک سخت تعجب یہ ہے کہ اگر ایسے شرائط جو آپ نے پیش کئے کوئی اور شخص کسی فرقہ مخالف کا پیش کرتا تو کچھ بعید نہ تھا۔ مگر آپ لوگ تو حضرت مسیح علیہ السلام کے خادم اور تابع کہلاتے ہیں اور ان کے نقش قدم پر چلنے کا دم مارتے ہیں۔ سو یہ کیسی بھول کی بات ہے کہ آپ حضرت مسیح کی سیرت کو چھوڑے جاتے ہیں کیا آپ کو معلوم نہیں کہ حضرت مسیح ایک مسکین اور درویش طبع آدمی تھے جنہوں نے اپنی تمام زندگی میں کوئی اپنا گھر نہ بنایا اور کسی نوع کا اسباب عیش و عشرت اپنے لئے مہیا نہ کیا تو پھر آپ فرماویں کہ آپ کو ان کی پیروی کرنا لازم ہے یا نہیں؟ جب تک آپ کی زندگی مسیح کی زندگی کا نمونہ نہ بنیں تب تک آپ کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ ہم حضرت مسیح کے سچے پیرو ہیں۔ سو اب آپ غور کر لیں کہ یہ کس قدر نازیبا بات ہے کہ جو آپ پہلے ہی اپنے عیش و عشرت کے لئے مجھ سے شرطیں کر رہے ہیں آپ پر واضح ہو کہ یہ عاجز مسیح کی زندگی کے نمونہ پر چلتا ہے کسی باغ میں امیرانہ کوٹھی نہیں رکھتا اور اس عاجز کا گھر اس قسم کی عیش و نشاط کا گھر نہیں ہو سکتا جس کی طرف دنیا پرستوں کی طبیعتیں راغب اور مائل ہیں۔ ہاں اپنی حیثیت اور طاقت کے موافق مہمانوں کیلئے خالصًا لِلّٰہ مکاناب بنا رکھے ہیں اور جہاں تک بس چل سکتا ہے ان کی خدمت کے لئے آمادہ حاضر ہوں سو اگر ایسے مکانات میں گزارہ کرنا چاہیں تو بہتر ہے کہ اوّل آ کر اُن کو دیکھ لیں۔ لیکن اگر آپ تنعم پسند لوگوں کی طرح مجھ سے یہ درخواست کریں کہ میرے لءآ ایک ایسا شیش محل چاہئے جو ہر ایک طرح کے فرش فروش سے آراستہ ہو۔ جا بجا تصویریں لگی ہوئی اور مکان سجا ہوا اور بوتلوں میں مست اور متوالا کرنے والی چیز بھری ہوئی رکھی اور اِردگرد مکان کے ایک خوشنما باغ اور چاروں طرف اس کے نہریں جاری ہوں اور دس بیش خدمتگار غلاموں کی طرح حاضر ہوں تو ایسا مکان پیش کرنے سے مجبور اور معذور ہوں بلکہ ایک سادہ مکان جو ان تکلیفات سے خالی لیکن معمولی طور پر گزارہ کرنے کا مکان ہو موجود اور حاضر ہے اور مکرر کہتا ہوں کہ آپ کو پُرتکلف مکانات اور دوسرے لوازم سے گریز کرنا چاہئے تا آپ میں مسیح کی زندگی کے علامات ظاہر ہو جائیں اور میں ہرگز خیال نہیں کرتا کہ یہ مکان آپ کو کچھ تکلیف دہ ہوگا۔ بلکہ مجھے کامل تسلی ہے کہ ایک شکرگزار آدمی ایسے مکان میں رہ کر کوئی کلمہ شکوہ شکایت کا منہ پر نہیں لائے گا کیونکہ مکان وسیع موجود ہے اور گزارہ کرنے کے لئے سب کچھ مل سکتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اگر آپ بعدملاحظہ مکان چند معمولی اور جایز باتوں میں جو ہماری طاقت میں ہوں فرمائش کریں تو وہ بھی بفضلہ تعالیٰ میسر آ سکتے ہیں۔ مگر بہرحال پہلے آپ کا تشریف لانا ازبس ضروری ہے۔ پھر آپ دوسری شرط میں یہ لکھتے ہیں کہ الہام اور معجزہ کا ثبوت ایسا چاہئے جیسے کتاب اقلیدس میں ثبوت درج ہیں۔ جن سے ہمارے دل قائل ہو جائیں۔ اس میں اوّل عاجز کی اس بات کو یاد رکھیں کہ ہم لوگ معجزہ کا لفظ صرف اُسی محل میں بولا کرتے ہیں جب کوئی خارق عادت کسی بنی اور رسول کی طرف منسوب ہو لیکن یہ عاجز نہ نبی۱؎ نہ رسول ہے صرف اپنے نبی معصوم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ادنیٰ خادم اور پیرو ہے اور اسی رسول مقبول کی برکت و متابعت سے یہ انوار برکات ظاہر ہو رہے ہیں۔ سو اس جگہ کرامت کا لفظ موزوں ہے نہ معجزہ کا اور ایسا ہی ہم لوگوں کے بول و چال میں آتا ہے اور جو اقلیدس کی طرح ثبوت مانگتے ہیں۔ اس میں یہ عرض ہے کہ جس قدر بفضلہ تعالیٰ روشن نشان آپ کو دکھلائے جائیں گے بمقابلہ اُن کے ثبوت اقلیدس کا جو اکثر دوائرہ موہومہ پر مبنی ہے ناکارہ اور ہیچ ہے۔ اقلیدس کے ثبوتوں میں کئی محل گرفت کی جگہ ہیں اور ان ثبوتوں کی ایسی ہی مثال ہے کہ جیسے کوی کہے کہ اگر اوّل آپ بلادلیل کسی ایک چارپایہ کی نسبت یہ مان لیجئے کہ یہ چارپایہ نجاست کھا لیتا ہے اور میں میں کرتا ہے اور بدن پر اس کے اون ہے تو ہم ثابت کر چکے ہیں کہ وہ بھیڈ کا بچہ ہے۔ ایسا ہی اقلیدس کے بیانات میں اکثر جگہ تناقص ہے۔ جیسے اوّل وہ آپ ہی لکھتا ہے۔ نقطہ وہ شئے ہے جس کی کوئی جز نہ ہو یعنی بالکل قابل انقسام نہ ہو۔ پھر وہ دوسری جگہ آپ ہی تجویز کرتا ہے کہ ہر یک خط کے دو ٹکڑے ایسے ہو سکتے ہیں کہ وہ دونوں اپنے اپنے مقدار میں برابر ہوں۔ اب فرض کرو کہ ایک خط مستقیم ایسا ہے جو نو لفظوں سے مرکب ہے اور بموجب دعویٰ اقلیدس کے ہم چاہتے ہیں جو اس کے دو مساوی ٹکڑے کریں تو اس صورت میں یا تو یہ امر خلاف قرار داد پیش آئے گا کہ ایک نقطہ کے دو ٹکڑے ہو جائیں اور یا یہ دعویٰ اقلیدس کا کہ ہر یک خط مستقیم دو ٹکڑے مساوی ہو سکتا ہے غلط ٹھہرے گا۔ غرض
۱؎ یہ آپ کی سچائی کی دلیل ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ نے آپ پر اس روز نبوت کو نہیں کھولا آپ نی بھی دعویٰ نہ کیا۔ (ایڈیٹر)
اقلیدس بہت سی وہمی اور بے ثبوت باتیں بھری ہوئی ہیں جن کو جاننے والے خوب جانتے ہیں۔ مگر آسمانی نشان تو وہ چیز ہے کہ وہ خود منکر کی ذات پر ہی وارد ہو کر حق الیقین تک اس کو پہنچا سکتا ہے اور انسان کو بجز اس کے ماننے کے کچھ بن نہیں پڑتا۔ سو آپ تسلی رکھیں کہ اقلیدس کے ناچیز خیالات کو اُن عالی مرتبہ نشانوں سے کچھ نسبت نہیں۔
’’چہ نسبت خاک را با عالم پاک‘‘
اور یہ نہیں کہ صرف اس عاجز کے بیان پر ہی ہررہے گا بلکہ یہ فیصلہ بذریعہ ثالثوں کے ہو جائے گا اور جب تک ثالث لوگ جو فریقین کے مذہب سے الگ ہوں گے یہ شہادت نہ دیں کہ ہاں فی الحقیقت یہ خوارق اور پیشگوئیاں انسانی طاقت سے باہر ہیں تب تک آپ غالب اور یہ عاجز مغلوب سمجھا جائے گا لیکن درصورت مل جانے ایسی گواہیوں کے جو ان خوارق اور پیشگوئیوں کو انسان طاقت سے بالا تر قرار دیتی ہوں تو آپ مغلوب اور میں بفضلہ تعالیٰ غالب ہوں گا اور اسی وقت آپ پر لازم ہوگا کہ اسی جگہ قادیان میں بشرف اسلام مشرف ہو جائیں۔ پھر آپ اپنے خط کے اخیر پر یہ لکھتے ہیں کہ اگر شرائط مذکورہ بالا کو قبول نہیں فرماؤ گے تو آپ کا حال اور یہ شرائط چند اخبار ہند میں شائع کئے جائیں گے۔ سو مشفق من جو کچھ حق حق تھا آپ کی خدمت میں لکھ دیا گیا ہے اور یہ عاجز آپ کے حالات شائع کرنے کرانے سے ہرگز نہیں ڈرتا۔ بلکہ خدا جانے آپ کب اور کس وقت اپنی طرف سے اخباروں میں یہ مضمون درج کرائیں گے مگر یہ خاکسار تو آج ہی کی تاریخ میں ایک نقل اس خط کی بعض اخباروں میں درج کرنے کیلئے روانہ کرتا ہے اور آپ کو یہ خوشخبری پہلے سے سنا دیتا ہے تا آپ کی تکلیف کشی کی حاجت نہ رہے اور من بعد جو کچھ آپ کی طرف سے ظہور میں آئے گا وہ بھی بیس روز تک انتظار کر کے چند اخباروں میں چھپوا دیا جاوے گا اور اگر آپ کچھ غیرت کو کام میں لاکر قادیان میں آگئے تو پھر آپ دیکھیں کہ خداوند کریم کس کے ساتھ ہے اور کس کی حمایت اور نصرت کرتا ہے اور پھر اس وقت آپ پر یہ بھی کھل جائے گا کہ کیا سچا اور حقیقی خدا جو خالق اور مالک ارض و سما ہے وہ وہ حقیقت میں ابن مریم ہے یا وہ خدا ازلی و ابدی غیر متغیر و قدوس جس پر ہم لوگ ایمان لائے ہیں سو میںاُسی خدائے کامل اور صادق کی آپ کو قسم دیتا ہوں کہ آپ ضرور تشریف لاویں ضرور آئیں اگر وہ قسم آپ کے دل پر مؤثر نہیں تو پھر تمام الزام کی نیت سے آپ کو حضرت مسیح کی قسم ہے کہ آپ آنے میں ذرا توقف نہ کریں تا حق اور باطل میں جو فرق ہے وہ آپ پر کھل جائے اور جو صادقوں اور کاذبوں میں مابہ الامتیاز ہے وہ آپ پر روشن ہو جائے۔ والسلام علی من اتبع الہدیٰ
بوقت صبح شود ہمچو روز معلومت
کہ باکہ باختہ عشق در شب دلجور
من ایستادہ ام اینک توہم بباشتاب
کہ تا سیاہ شود روئے کاذب مغروب
خاکسار
آپ کا خیرخواہ
مرزا غلام احمد
قادیان ضلع گورداسپور
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
مکتوب نمبر۲
پادری جوالا سنگھ کے نام
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مشفقی پادری جوالا سنگھ صاحب
بعد ما وجب چند روز ہوئے کہ آپ کا ایک طول طویل خط پہنچا مگر میں اپنے ضروری کاموں کے باعث جواب نہ لکھ سکا۔ مجھے افسوس ہے کہ آپ نے کس قدر جلدی اپنے پہلے خط کے مضمون کے مخالف یہ خط لکھ دیا۔ آپ کا خط موجود ہے جس میں آپ نے دعویٰ کیا تھا کہ جو نشان چاہویں میں دکھلا سکتا ہوں اور خداوند مسیح میری آواز سنتا ہے۔ اسی بنا پر میں نے جواب لکھا تھاکہ مجھے ضرور نہیں کہ میں اپنی طرف سے درخواست کروں کہ ایسا نشان دکھلاؤ بلکہ واجب ہے کہ ان نشانوں کے موافق دکھلاؤ جو خود آپ کے خداوند نے آپ کی ایمان داری کی نشانیاں قرار دی ہیں اور اگر ایسا نشان دکھلا نہ سکو تو دو باتوں میں سے ایک بات ماننے پڑے گی یا تو یہ کہ آپ ایمان دار نہیں اور یا یہ کہ جس نے ایسی نشانیاں قرار دی ہیں وہ کذاب اور دروغ گو ہے جو جھوٹے وعدوں کی بنا پر اپنے مذہب کو چلانا چاہتا ہے۔ اب میں پوچھتا ہوں کہ آپ نے میرے اس سوال کا کیا جواب دیا۔ کیا یہ سچ نہیں کہ آپ نے اپنے خط میں ایسا ہی لکھا ہے کہ میں جو نشان چاہو دکھلا سکتا ہوں اور خداوند مسیح میری آواز سنتا ہے۔ اور اگر یہ سچ ہے تو اب آپ کو اس خداوند مسیح کی نسبت اتنی جلدی کیوں شک پڑ گیا اور آپ کا اپنے دوسرے خط میں یہ جواب لکھنا کہ پہلے آپ نشان دکھلاؤ۔ پھر اس قسم کا نشان میں دکھلاؤں گا۔ یہ صریح وعدہ شکنی ہے۔ دعویٰ کر کے پھر اس دعویٰ سے منہ پھیر لینا کیا یہ حق کے طالبوں کی نشانی ہے۔ جو شخص کسی نشان دکھلانے کیلئے توفیق دیا گیا ہے وہ پہلے بھی دکھا سکتا ہے اور بعد بھی۔ اچھا ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ آپ نشان دیکھنے کے بعد ہی نشان دکھلا دیں لیکن آپ صاف طور پر اپنا اقرار تحریری لکھ بھیجیں کہ کسی نشان کے دیکھنے کے بعد یا تو میں اس کے مقابل یہ نشان دکھلاؤں گا اور یا بلاتوقف مسلمان ہو جاؤں گا اور اگر ایسا نہ کروں تو خدا تعالیٰ کی *** میرے پر ہو۔ پھر اس تحریر کے بعد ہم آپ کی پہلی تحریر کا آپ سے مؤاخذہ کریں گے اور یہ آپ کا کہا کہ ہم کسی کوٹھڑی میں بیٹھ جائیں اور اس میں نشان دکھلاویں گے یہ قرآن کریم کی تعلیم نہیں اور انجیل میں بھی پائی نہیں جاتی۔ شاید کوٹھڑیوں کا پُرانہ خیال ہندؤوں کی تعلیم سے آپ کے دل میں باقی رہا ہو۔ ہم لوگ اپنے ربّ کریم کی تعلیم سے قدم باہر نہیں رکھ سکتے۔ ہمیں یہ حکم ہے کہ میدانوں میں آؤ اور میدانوںمیں اپنے دشمنوں کو ملزم کرو۔ سو ہم اپنے روشن چراغ کو کسی کوٹھڑی کے اندر چھپا نہیں سکتے بلکہ میدان کی اس اونچی جگہ پر رکھیں گے جس سے دور دور تک روشنی جائے ۔ اور پھر آپ لکھتے ہیں کہ ان خطوط کی دوسرے کو خبر نہ ہو میں نہیں سمجھتا کہ یہ قول کس تعلیم کی بنا پر ہے۔ ہم کسی کام میں مخلوق سے نہیں ڈرتے۔ اگر یہ ثابت ہو کہ درحقیقت ابن مریم خدا ہے تو سب سے پہلے ہم اس پر ایمان لاویں اور کسی بے غیرتی اور مرنے سے نہ ڈریں لیکن ہم جانتے ہیں کہ وہ عاجز انسان ہے اور ہم میں سے ایک کی بھی آواز نہیں سن سکتا اور پھر اگر آپ طألب حق ہیں تو اس بحث کو کیوں چھپاتے ہیں کیا یہ اندیشہ ہے کہ اگر پادریوں کو خبر ہوگئی تو آپ نوکری سے برخاست کئے جائیں گے یا کوئی وظیفہ بند کیا جائے گا۔ چھپ چھپ کر بحث کرنا ایمان داروں کا کام نہیں۔ اور پھر آپ کا یہ فرمانا کہ قرآن مسیح کے معجزات کا مصدق ہے کس قدر آپ کی بے خبری ثابت کرتا ہے۔ قرآن تو کہتا ہے کہ مسیح تو ایک عاجز بندہ تھا کبھی اُس نے خدائی کا دعویٰ نہ کیا اور اگر خدائی کا دعویٰ کرتا تو میں اُسے جہنم میں ڈالتا اور پھر قرآن کہتا ہے کہ مسیح کو جو کچھ بزرگی ملی وہ بوجہ تابعداری حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے ملی کیونکہ مسیح کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود کی خبر دی گئی اور مسیح آنجناب پر ایمان لایا اور بوجہ اس ایمان کے مسیح نے نجات پائی۔ پس قرآن کے رو سے مسیح کے منجی پاک ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ پھر قرآن مجید نے ایسے مسیح کی تصدیق کہاں کی جو اپنے تئیں خدا ٹھہراتا ہے بلکہ اس مسیح کی تصدیق کی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا اور ایک عاجز بندہ کہلوایا۔ یہ سچ ہے کہ قرآن کریم سے ثابت ہوتا ہے کہ مسیح ابن مریم سے جو خدا تعالیٰ کا ایک عاجز بندہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والا ہے بعض معجزات بھی صادر ہوئے ہیں مگر کیا اس سے یہ ثابت ہو جائے گا کہ مسیح کی وہی تعلیم تھی جس پر آپ لوگ اصرار کر رہے ہیں اور کیا اس سے یہ ثابت ہو جائے گا کہ جس ایمان کی طرف مسیح نے آپ کو بلایا تھا وہ ایمان آپ کو حاصل ہے۔
اے عزیز! ہر گز نہیں ہوگا۔ ہرگز ثابت نہیں ہوگا۔ جب تک مسیح کے قول کے موافق آپ میں ایمانداروںکی نشانیاں پائی نہ جائیں اور اگر آپ قرآن کریم کی اس تصدیق سے کچھ فائدہ اُٹھانا چاہتے ہیں کہ اس نے مسیح کو صاحب معجزہ قرار دیا ہے اور اس کی تصدیق سے مسلمانوں پر اپنی حجت قائم کرنا چاہتے ہیں تو اوّل لازم ہے کہ مسیح کی شرط کے موافق اپنے تئیں ایمان دار ثابت کریں مسیح تو ایک طور پر آپ لوگوں کو بے ایمان کہہ چکا۔ گویا کہ چکا کہ ان لوگوں سے دور رہو۔ یہ مجھ میں سے نہیں ہیں تو اس صورت میں آپ کو مسیح سے تعلق کیا اور مسیح کو آپ سے کیا اور آپ کو مسلمانوں سے بحث کرنے کا حق نہیں پہنچتا۔ جب تک کہ انجیل کے رو سے اپنے تئیں سچا مسیحی ثابت نہ کریں۔ مجھے یاد ہے تھوڑے دن ہوئے ہیں کہ پادری ڈاکٹر وائٹ برنحیٹ صاحب جو مشن بٹالہ میں متعین ہیں ملاقات کیلئے معہ ایک دیسی عیسائی کے میرے مکان پر آئے تو میں نے کہا کہ پادری صاحب سچ کہیں کہ اس وقت کے عیسائی انجیل کے علامات کے رو سے سچے عیسائی کہلا سکتے ہیں تو پادری صاحب کے منہ سے صاف یہی نکل گیا کہ نہیں! پادری صاحب بٹالہ میں زندہ موجود ہیں دریافت کر لیں کہ آیا یہ میرا بیان صحیح ہے یا نہیں؟ پھر اگر قرآن نے مسیح کی تصدیق کی تو آپ لوگوں کو اس تصدیق سے کیا فائدہ جب تک انجیل کے علامات کے رو سے اپنے تئیں ایمان دار ثابت نہ کریں اور یاد رکھیں کہ یہ ہرگز ممکن نہیں تمام باتیں آپ کی دروغ اور لاف ہے۔ انسان کا پرستار آسمان سے مدد نہیں پا سکتا۔ جواب سے جلدی مسرور فرماویں اور بعض الفاظ اگر تلخ ہوں تو معاف فرماویں کیونکہ راست گوئی کو تلخی لازم پڑی ہوئی ہے۔
خاکسار
غلام احمد
از قادیان
۳۱؍ جون ۱۸۹۳ء
مکتوب نمبر۳
پادری فتح مسیح کے نام
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَالسَّلَامُ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰے۔ اما بعد واضح ہو کہ چونکہ پادری فتح مسیح متعین فتح گڑھ ضلع گورداسپور نے ہماری طرف ایک خط نہایت گندہ بھیجا اور اس میں ہمارے سیّد و مولا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر زنا کی تہمت لگائی اور سوائے اس کے اور بہت سے الفاظ بطریق سب و شتم استعمال کئے اس لئے قرین مصلحت معلوم ہوا کہ اس کے خط کا جواب شائع کر دیا جاوے۔ لہٰذا جواب شائع کیا گیا۔ امید کہ پادری صاحبان اس کو غور سے پڑھیں اور اس کے الفاظ سے رنجیدہ خاطر نہ ہوں کیونکہ یہ تمام پیرایہ میاں فتح مسیح علیہ السلام کی شان مقدس کا بہرحال لحاظ ہے اور صرف فتح مسیح کے سخت الفاظ کے عوض میں ایک فرضی مسیح کا بالمقابل ذکر کیا گیا ہے اور وہ بھی سخت مجبوری سے کیونکہ اس نادان نے بہت ہی شدت سے گالیاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نکالی ہیں اور ہمارا دل دکھایا ہے اور اب ہم اس کے خط کا جواب ذیل میں لکھتے ہیں۔ وھوہذا
مشفقی پادری صاحب۔ بعد ماوجب اس وقت مجھے بہت کم فرصت مگر میں نے جب آپ کا وہ خط دیکھا جو آپ نے اخویم مولوی عبدالکریم صاحب کے نام بھیجا تھا۔ مناسب سمجھا کہ اپنے اس رسالہ کی جو زیر تالیف ہے خود ہی آپ کو بشارت دوں تا آپ کو زیادہ تکلیف اُٹھانے کی ضرورت نہ رہے۔ یاد رکھیں یہ رسالہ ایسا ہوگا کہ آپ بہت ہی خوش ہو جائیںگے۔ آپ کی اُن مہربانیوں کی وجہ سے جو اَب کے دفعہ آپ کے خط میں بہت ہی پائی جاتی ہیں میں نے مصمم ارادہ کر لیا ہے کہ اس رسالہ کی وجہ اشاعت صرف آپ ہی کی درخواست قرار دی جاوے کیونکہ جس مضمون کے لکھنے کیلئے اب ہم تیار ہیں اگر آپ کا یہ خط نہ آیا ہوتا جس میں جناب مقدس نبوی اور حضرت عائشہ صدیقہ اور سودہ کی نسبت آپ نے بدزبانی کی ہے تو شاید وہ مضمون دیر کے بعد نکلتا۔ یہ آپ کی بڑی مہربانی ہوئی کہ آپ ہی محرک ہوگئے۔ امید ہے کہ دوسرے پادری صاحبان آپ پر بہت ہی خوش ہونگے اور کچھ تعجب نہیں کہ ہمارا رسالہ نکلنے کے بعد آپ کی کچھ ترقی بھی ہو جاوے۔ پادری صاحب ہمیں آپ کی حالت پر رونا آتا ہے کہ آپ زبان عربی سے تو بے نصیب تھے ہی مگر وہ علوم جو دینیات سے کچھ تعلق رکھتے ہیں جیسے طبعی اور طبابت ان سے بھی آپ بے بہرہ ہی ثابت ہوئے۔ آپ نے جو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ذکر کر کے نو برس کی رسم شادی کا ذکر لکھا ہے۔ اوّل تو نو برس کا ذکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ثابت نہیں اور نہ اس میں کوئی وحی ہوئی اور نہ اخبار متواتر سے ثابت ہوا کہ ضرور نو برس ہی تھے۔ صرف ایک راوی سے منقول ہے۔ عرب کے لوگ تقویم پترے نہیں رکھا کرتے تھے کیونکہ اُمّی تھے اور دو تین برس کی کمی بیشی ان کی حالت پر نظر کر کے ایک عام بات ہے۔ جیسے کہ ہمارے ملک میں بھی اکثر ناخواندہ لوگ دو چار برس کے فرق کو اچھی طرح محفوظ نہیں رکھ سکتے۔ پھر اگر فرض کے طور پر تسلیم بھی کر لیں کہ فی الواقع دن دن کا حساب کر کے نو برس ہی تھے لیکن پھر بھی کوئی عقلمند اعتراض نہیں کرے گا۔ مگر احمق کا کوئی علاج نہیں۔ ہم آپ کو اپنے رسالہ میں ثابت کر کے دکھاویں گے کہ حال کے محقق ڈاکٹروں کا اس پر اتفاق ہوچکا ہے کہ نو برس تک بھی لڑکیاں بالغ ہو سکتی ہیں بلکہ سات برس تک بھی اولاد ہو سکتی ہے اور بڑے بڑے مشاہدات سے ڈاکٹروں نے اس کو ثابت کیا ہے اور خود صدہا لوگوں کی یہ بات چشمدید ہے کہ اسی ملک میں آٹھ آٹھ نو نو برس کی لڑکیوں کے یہاں اولاد موجود ہے۔ مگر آپ پر تو کچھ بھی افسوس نہیں اور نہ کرنا چاہئے کیونکہ آپ صرف متعصب ہی نہیں بلکہ اوّل درجہ کے احمق بھی ہیں۔ آپ کو اب تک اتنی خبر بھی نہیں کہ گورنمنٹ کے قانون عوام کی درخواست کے موافق انکی رسم اور سوسائٹی کی عام وضح کی بنا پر تیار ہوتے ہیں۔ اُن میں فلاسفروں کی طرز پر تحقیقات نہیں ہوتی اور جو بار بار آپ گورنمنٹ انگریزی کا ذکر کرتے ہیں۔ یہ بات بالکل سچ ہے کہ ہم گورنمنٹ انگریزی کے شکر گزار ہیں اور اس کے خیرخواہ ہیں اور جب تک زندہ ہیں رہیں گے مگر تا ہم ہم اس کو خطا سے معصوم نہیں سمجھتے اور نہ اس کے قوانین کو حکیمانہ تحقیقاتوں پر مبنی سمجھتے ہیں بلکہ قوانین بنانے کا اصول رعایا کی کثرت رائے ہے۔ گورنمنٹ پر کوئی وحی نازل نہیں ہوتی تا وہ اپنے قوانین میں غلطی نہ کرے۔ اگر ایسے ہی قوانین محفوظ ہوتے تو ہمیشہ نئے نئے قانون کیوں بنتے رہتے۔ انگلستان میں لڑکیوں کی بلوغ کا زمانہ ۱۸ برس قرار دیا گیا ہے اور گرم ملکوں میں تو لڑکیاں بہت جلد بالغ ہو جاتی ہیں۔ آپ اگر گورنمنٹ کے قوانین کو کالوحی من السماء سمجھتے ہیں کہ اُن میں امکان غلطی نہیں تو ہمیں بواپسی ڈاک اطلاع دیں تا انجیل اور قانون کاتھوڑا سا مقابلہ کر کے آپ کی کچھ خدمت کی جائے غرض گورنمنٹ نے اب تک کوئی اشتہار نہیں دیا کہ ہمارے قوانین بھی توریت اور انجیل کی طرح خطا اور غلطی سے خالی ہیں اگر آپ کو کوئی اشتہار پہنچا ہو تو اس کی ایک نقل ہمیں بھی بھیج دیں پھر اگر گورنمنٹ کے قوانین خدا کی کتابوں کی طرح خطا سے خالی نہیں تو اُن کا ذکر کرنا یا توحمق کی وجہ سے ہے یا تعصب کے سبب سے مگر آپ معذور ہیں۔ اگر گورنمنٹ کے اپنے قانون پر اعتماد تھا تو کیوں ان ڈاکٹروں کو سزا نہیں دی جنہوں نے حال میں یورپ میں بڑی تحقیقات سے نو برس بلکہ سات برس کو بھی بعض عورتوں کے بلوغ کا زمانہ قرار دے دیا ہے اور ۹ برس کے متعلق آپ اعتراض کر کے پھر توریت یا انجیل کا کوئی حوالہ نہ دے سکے۔ صرف گورنمنٹ کے قانون کاذکر کیا اس سے معلوم ہوا کہ آپ کا توریت اور انجیل پر ایمان نہیں رہا۔ ورنہ نو برس کی حرمت یا تو توریت سے ثابت کرتے یا انجیل سے ثابت کرنی چاہئے تھی ۔ پادری صاحب یہی تو دجل ہے کہ الہامی کتب کے مسائل میں آپ نے گورنمنٹ کے قانون کو پیش کر دیا۔ اگر آپ کے نزدیک گورنمنٹ کے قانون کی تمام باتیں خطا سے خالی ہیں اور الہامی کتابوں کی طرح بلکہ ان سے افضل ہیں تو میں آپ سے پوچھتا ہوںکہ جن نبیوں نے خلاف قانون انگریزی کئی لاکھ شیر خوار بچے قتل کئے اگر وہ اس وقت ہوتے تو گورنمنٹ اُن سے کیا معاملہ کرتی۔ اگر وہ لوگ گورنمنٹ کے سامنے چالان ہو کر آتے جنہوں نے بیگانی کھیتیوں کے خوشے توڑ کر کھا لئے تھے تو گورنمنٹ ان کو اور ان کے اجازت دینے والے کو کیا کیا سزا دیتی۔ پھر میں پوچھتا ہوں کہ وہ شخص جو انجیر کا پھل کھانے دوڑا تھا اور انجیل سے ثابت ہے کہ وہ انجیر کا درخت اس کی ملکیت نہ تھا بلکہ غیر کی مِلک تھا اگر وہ شخص گورنمنٹ کے سامنے یہ حرکت کرتا تو گورنمنٹ اس کو کیا سزا دیتی انجیل سے یہ بھی ثابت ہے کہ بہت سے سور جو بیگانہ مال تھے اور جن کی تعداد بقول پادری کلارک دو ہزار تھی مسیح نے تلف کئے۔ اب آپ ہی بتلائیں کہ تعزیرات کی رو سے اس کی سزا کیا ہے۔ بالفعل اسی قدر لکھنا کافی ہے جواب ضرورت لکھیں تا اور بہت سے سوال کئے جائیں۔
پادری صاحب آپ کا یہ خیال کہ نو برس کی لڑکی سے جماع کرنا زنا کے حکم میں ہے، سراسر غلط ہے۔ آپ کی ایمانداری یہ تھی کہ آپ انجیل سے اس کو ثابت کرتے۔ انجیل نے آپ کو دھکے دیئے اور وہاں ہاتھ نہ پڑا تو گورنمنٹ کے پیروں میں آ پڑے یا درکھیں کہ یہ گالیاں محض شیطانی تعصب سے ہیں جناب مقدس نبوی کی نسبت فسق و فجور کی تہمت لگانا یہ افتراء شیطانوں کا کام ہے۔ ان دو مقدس نبیوں پر یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح علیہ السلام پر بعض بدذات اور خبیث لوگوں نے سخت افترا کئے ہیں۔ چنانچہ ان پلیدوں نے لعنۃ اللّٰہ علیھم پہلے نبی کو زانی قرار دیا جیسا کہ آپ نے اور دوسرے کو ولد زنا کہا جیسا کہ پلید طبع یہودیوں نے۔ آپ کو چاہئے کہ ایسے اعتراضوں سے پرہیز کریں۔
اور یہ اعتراض کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیوی سودہ کو پیرانہ سالی کے سبب سے طلاق دینے کیلئے مستعد ہوگئے تھے، سراسر غلط اور خلاف واقعہ ہے اور جن لوگوں نے ایسی روائتیں کی ہیں وہ اس بات کا ثبوت نہیں دے سکتے کہ کس شخص کے پاس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ارادہ ظاہر کیا۔ پس اصل حقیقت جیسا کہ کتب معتبرہ احادیث میں مذکور ہے یہ ہے کہ خود سودہ نے ہی اپنی پیرانہ سالی کی وجہ سے دل میں یہ خوف کیا کہ اب میری حالت قابل رغبت نہیں رہی ایسا نہ ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بباعث طبعی کراہت کے جو نشاء بشریت کو لازم ہے مجھ کو طلاق دے دیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی امر کراہت کا بھی اس نے اپنے دل میں سمجھ لیا ہو اور اس سے طلاق کا اندیشہ دل میں جم گیا ہو کیونکہ عورتوں کے مزاج میں ایسے معاملات میں وہم اور وسوسہ بہت ہوا کرتا ہے۔ اس لئے اس نے خود بخود ہی عرض کر دیا کہ میں اس کے سوا کچھ نہیں چاہتی کہ آپ کی ازواج میں میرا حشر ہو چنانچہ نیل الاوطار کے صفحہ ۱۴۰ میں یہ حدیث ہے۔
قال السودۃ بنت زمعۃ حین سنت وخافت ان یفار قھار رسول اللّٰہ یا رسول اللّٰہ وھبت یومی لعائشہ فقبل ذلک منھا ورواہ ایضاً سعد و سعید ابن منصور والترمذی وعبدالرزاق قال الحافظہ فی الفتح فتو اردت ھٰذہ الروایات علی انھا خشیت الطلاق
یعنی سودہ بنت زمعہ کو جب اپنی پیرانہ سالی کی وجہ سے اس بات کا خوف ہوا کہ اب شاید میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا ہو جاؤں گی تو اُس نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے اپنی نوبت عائشہ کو بخش دی آپ نے اس کی یہ درخواست قبول فرمائی ابن سعد اور سعید ابن منصور اور ترمذی اور عبدالرزاق نے بھی یہی روایت کی ہے اور فتح الباری میں لکھا ہے کہ اسی پر روایتوں کا توارد ہے کہ سودہ کو آپ ہی طلاق کا اندیشہ ہوا تھا۔ اب اس حدیث سے ظاہر ہے کہ دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی ارداہ ظاہر نہیں ہوا بلکہ سودہ نے اپنی پیرانہ سالی کی حالت پر نظر کر کے خود ہی اپنے دل میں یہ خیال قائم کر لیا تھا اور اگر ان روایات کے توارد اور تظاہر کو نظر انداز کر کے فرض بھی کر لیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے طبعی کراہت کے باعث سودہ کو پیرانہ سالی کی حالت میں پا کر طلاق کا ارادہ کیا تھا تو اس میں بھی کوئی بُرائی نہیں اور نہ یہ امر کسی اخلاقی حالت کے خلاف ہے کیونکہ جس امر پر عورت مرد کے تعلقات مخالطت موقوف ہیں۔ اگر اس میں کسی نوع سے کوئی ایسی روک پیدا ہو جائے کہ اس کے سبب سے مرد اس تعلق کے حقوق کی بجا آواری پر قادر نہ ہو سکے تو ایسی حالت میں اگر اصول تقویٰ کے لحاظ سے کوئی کارروائی کرے تو عندالعقل کچھ جائے اعتراض نہیں۔
پادری صاحب! آپ کا یہ سوال کہ اگر آج ایسا شخص جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تھے گورنمنٹ انگریزی کے زمانہ میں ہوتے تو گورنمنٹ اس سے کیا کرتی؟
آپ کو واضح ہو کہ اگر وہ سید الکونین اس گورنمنٹ کے زمانہ میں ہوتے تو یہ سعادت مند گورنمنٹ اُن کی کفش برداری اپنا فخر سمجھتی جیسا کہ قیصر روم صرف تصویر دیکھ کر اُٹھ کھڑاہوا تھا۔ آپ کی یہ نالائقی اور ناسعادتی ہے کہ اس گورنمنٹ پر ایسی بدظنی رکھتے ہیں کہ گویا وہ خدا کے مقدسوں کی دشمن ہے یہ گورنمنٹ اس زمانہ میں ادنیٰ ادنیٰ امیر مسلمانوں کی عزت کرتی ہے۔ دیکھو نصراللہ خان جو اُس جناب کے غلاموں جیسا بھی درجہ نہیں رکھتا۔ ہماری قیصر ہند دام اقبالہا نے کیسی اُس کی عزت کی ہے۔ پھر وہ عالی جناب مقدس ذات جو اس دنیا میں بھی وہ مرتبہ رکھتا تھا کہ بادشاہ اس کے قدموں پر گرتے تھے۔ اگر وہ اس وقت میں ہوتا تو بے شک یہ گورنمنٹ اس کی جناب سے خادمانہ اور متواضعانہ طور پر پیش آتی۔ الٰہی گورنمنٹ کے آگے انسانی گورنمنٹوں کو بجز عجز و نیاز کے کچھ بن نہیں پڑتا۔ کیا آپ کو خبر نہیں کہ قیصر روم جو آنجناب کے وقت میں عیسائی بادشاہ اور اس گورنمنٹ سے اقبال میں کچھ کم نہ تھا وہ کہتا ہے کہ اگر مجھے یہ سعادت حاصل ہوسکتی کہ میں اس عظیم الشان نبی کی صحبت میں رہ سکتا تو میں آپ کے پاؤں دھویا کرتا۔ سوجو قیصر روم نے کہا یقینا یہ سعادت مند گورنمنٹ بھی وہی بات کہتی بلکہ اس سے بڑھ کر کہتی۔ اگر حضرت مسیح کی نسبت اس وقت کے کسی چھوٹے سے جاگیر دار نے بھی یہ کلمہ کہا ہو جو قیصر روم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کہا جو آج تک نہایت صحیح تاریخ اور احادیث صحیحہ میں لکھا ہوا موجود ہے تو ہم آپ کو ابھی ہزار روپیہ نقد بطور انعام دیں گے۔ اگر آپ ثابت کر سکیں اور اگر اس کا ثبوت نہ دے سکیں تو اس ذلیل زندگی سے آپ کے لئے مرنا بہتر ہے کیونکہ ہم نے ثابت کر دیا ہے کہ قیصر روم اس گورنمنٹ عالیہ کا ہمرتبہ تھا بلکہ تاریخ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں اس کی طاقت کے برابر اور کوئی طاقت دنیا میں موجود نہ تھی۔ ہماری گورنمنٹ تو اس درجہ تک نہیں پہنچی پھر جب کہ قیصر باوجود اس شہنشاہی کے آہ کھینچ کر یہ بات کہتا ہے کہ اگر میں اس عالی جناب کی خدمت میں پہنچ سکتا تو آنجناب مقدس کے پاؤں دھویا کرتا تو کیا یہ گورنمنٹ اُس سے کم حصہ لیتی؟ میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ ضرور یہ گورنمنٹ اس آسمانی بادشاہ سے منکر نہیں جس کی طاقتوں کے آگے انسان ایک مرے ہوئے کیڑے کی برابر نہیں اور ہم نے ایک معتبر ذریعے سے سنا ہے کہ ہماری قیصرہ ہند ادام اللہ اقبالہا درحقیقت اسلام سے محبت رکھتی ہے اور اس کے دل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت تعظیم ہے۔ چنانچہ ایک ذی علم مسلمان سے وہ اُردو بھی پڑھتی ہے۔ اُن کی ایسی تعریفوں کو سن کر میں نے اسلام کی طرف ایک خاص دعوت سے حضرت ملکہ معظمہ کو مخاطب کیا تھا۔ پس یہ نہایت غلطی ہے کہ آپ لوگ اس مراتب شناس گورنمنٹ کو بھی ایک سفلہ اور کمینہ پادری کی طرح خیال کرتے ہیں جن کو خدا ملک اور دولت دیتا ہے اُن کوزیر کی اور عقل بھی دیتا ہے۔ ہاں اگر یہ سوال پیش ہو کہ اگر کوئی ایسا شخص اس گورنمنٹ کے ملک میں یہ غوغا مچاتا کہ میں خدا ہوں یا خدا کا بیٹا ہوں تو گورنمنٹ اس کا تدارک کیا کرتی؟ تو اس کا جواب یہی ہے کہ یہ مہربان گورنمنٹ اُس کو کسی ڈاکٹر کے سپرد کرتی تا اس کے دماغ کی اصلاح ہو اس بڑے گھر میں محفوظ رکھتی جس میں بمقام لاہور اس قسم کے بہت لوگ جمع ہیں۔
جب ہم حضرت مسیح اور جناب خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا اس بات میں بھی مقابلہ کرتے ہیں کہ موجودہ گورنمنٹوں نے ان کے ساتھ کیا برتاؤ کیا اور کس قدر اُن کے ربانی رعب یا الٰہی تائید نے اثر دکھایا یا تو ہمیں اقرار کرنا پڑتا ہے کہ حضرت مسیح میں بمقابلہ جناب مقدس نبوی خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی خدائی تو کیا نبوت کی شان بھی پائی نہیں جاتی۔ جناب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے جب بادشاہوں کے نام فرمان جاری ہوئے تو قیصر روم نے آہ کھینچ کر کہا کہ میں تو عیسائیوں کے پنجے میں مبتلا ہوں۔ کاش اگر مجھے اس جگہ سے نکلنے کی گنجائش ہوتی تو میں اپنا فخر سمجھتا کہ خدمت میں حاضر ہو جاؤں اور غلاموں کی طرح جناب مقدس کے پاؤں دھویا کروں مگر ایک خبیث اور پلید دل بادشاہ کسریٰ ایران کے فرمانروا نے غصہ میں آ کر آپ کے پکڑنے کیلئے سپاہی بھیج دیئے وہ شام کے قریب پہنچے اور کہا کہ ہمیں گرفتاری کاحکم ہے۔ آپ نے اس بیہودہ بات سے اعراض کر کے فرمایا تم اسلام قبول کرو۔ اس وقت آپ صرف دو چار اصحاب کے ساتھ مسجد میں بیٹھے تھے مگر ربّانی رعب سے وہ دونوں بید کی طرح کانپ رہے تھے۔ آخر انہوں نے کہا کہ ہمارے خداوند کے حکم یعنی گرفتاری کی نسبت جناب عالی کا کیا جواب ہے تو ہم جواب ہی لے جائیں۔ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا کل تمہیں جواب ملے گا صبح کو جو وہ حاضر ہوئے تو آنجناب نے فرمایا کہ وہ جسے تم خداوند کہتے ہو وہ خداوند نہیں ہے خداوند وہ ہے جس پر موت اور فنا طاری نہیں ہوتی مگر تمہارا خداوند آج رات کو مارا گیا۔ میرے سچے خداوند نے اسی کے بیٹے شیردیہ کو اس پر مسلط کر دیا۔ سو وہ آج رات اس کے ہاتھ سے قتل ہو گیا اور یہی جواب ہے۔ یہ بڑا معجزہ تھا۔ اس کو دیکھ کر اس ملک کے ہزار ہا لوگ ایمان لائے کیونکہ اُسی رات درحقیقت خسروپرویز یعنی کسریٰ مارا گیا تھا اور یاد رکھنا چاہئے کہ یہ بیان انجیلوں کی بے سروپا اور بے اصل باتوں کی طرح نہیں بلکہ احادیث صحیحہ اور تاریخی ثبوت اور مخالفوں کے اقرار سے ثابت ہے چنانچہ ڈیلونپورٹ صاحب نے بھی اس قصہ کو اپنی کتاب میں لکھا ہے لیکن اس وقت کے بادشاہوں کے سامنے حضرت مسیح کی جو عزت تھی وہ آپ پر پوشیدہ نہیں وہ اوراق شاید اب تک انجیل میں موجود ہوں گے جن میں لکھا ہے کہ ہیرودیس نے حضرت مسیح کو مجرموں کی طرح پلاطوس کی طرف چالان کیا اور وہ ایک مدت تک شاہی حوالات میں رہے کچھ بھی خدائی پیش نہیں گئی اورکسی بادشاہ نے یہ نہ کہا کہ میرا فخر ہوگا اگر میں اس کی خدمت رہوں اور اس کے پاؤں دھویا کروں بلکہ پلاطوس نے یہودیوں کے حوالے کر دیا کہ یہی خدائی تھی عجیب مقابلہ ہے۔ دو شخصوں کو ایک ہی قسم کے واقعات پیش آئے اور دونوں نتیجے میں ایک دوسرے سے بالکل ممتاز ثابت ہوتے ہیں ایک شخص کے گرفتار کرنے کو ایک متکبر جبار کا شیطان کے وسوسہ سے برانگیختہ ہونا اور خود آخر *** الٰہی میں گرفتار ہو کر اپنے بیٹے کے ہاتھ سے بڑی ذلت کے ساتھ قتل کیا جانا اور ایک دوسرا انسان ہے جسے قطع نظر اپنے اصلی دعوؤں کے خلو کرنے والوں نے آسمان پر چڑھا رھا ہے۔ سچ مچ گرفتار ہو جاناچالان کیا جانا اور عجیب ہئیت کے ساتھ ظالم پولیس کی حوالت میں ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل کیا جانا۔ افسوس یہ عقل کی ترقی کا زمانہ اور ایسے بیہودہ عقائد۔ شرم! شرم! شرم!!!
اگر یہ کہو کہ کس کتاب میں لکھا ہے کہ قیصر روم نے یہ تمنا کی کہ اگر میںجناب مقدس نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ سکتا تو میں ایک ادنیٰ خادم بن کر پاؤں دھویا کرتا۔ اس کے جواب میں آپ کے لئے اصح الکتب بعدہ کتاب اللہ صحیح بخاری کی عبارت رکھتا ہوں۔ ذرا آنکھیں کھول کر پڑھو اور وہ یہ ہے:۔
وقد کنت اعلمانہ خارج ولم اکن اظن انہ منکم فلوا انی اعلم انی اخلص الیہ لتجشمت لقایۃ ولو کنت عندہ لغسلت عن قدمہٖ (صفحہ۴)
یعنی یہ تو مجھے معلوم تھا کہ نبی آخر الزمان آنے والا ہے مگر مجھ کر یہ خبر نہیں تھی کہ وہ تم میں سے ہے (اے اہل عرب) پیدا ہوگا۔ پس اگر میں اس کی خدمت میں پہنچ سکتا تو میں بہت ہی کوشش کرتا کہ اس کا دیدار مجھے نصیب ہو اور اگر میں اس کی خدمت میں ہوتا تو میں اس کے پاؤں دھویا کرتا۔ اب اگر کچھ غیرت اور شرم ہے تو مسیح کیلئے یہ تعظیم کسی بادشاہ کی طرف سے جو اس کے زمانہ میں تھا پیش کرو اور نقد ہزار روپیہ ہم سے لو اور کچھ ضرورت نہیں کہ انجیل ہی سے بلکہ پیش کرو ۔ اگرچہ کوئی نجاست میں پڑا ہوا ورق ہی پیش کر دو اور اگر کوئی بادشاہ یا امیر نہیں تو کوئی چھوٹا سا نواب ہی پیش کر دو۔اور یاد رکھو کہ ہرگز ہرگز پیش نہ کر سکو گے۔ پس یہ عذاب بھی جہنم کے عذاب سے کچھ کم نہیں کہ آپ ہی بات کو اُٹھا کر پھر آپ ہی ملزم ہوگئے۔ شاباش! شاباش! شاباش!!!
مسیح کا چال چلن کیا تھا۔ ایک کھاؤ پیو، شرابی، نہ زاہد، نہ عابد، نہ حق کا پرستار، متکبر، خودبین، خدائی کا دعویٰ کرنے والا۔ مگر اس سے پہلے اور بھی کئی خدائی کا دعویٰ کرنے والے گزر چکے ہیں۔ ایک مصر میں ہی موجود تھا۔ دعوؤں کو الگ کر کے کوئی اخلاقی حالت جو فی الحقیقت ثابت ہو ذرا پیش تو کرو تا حقیقت معلوم ہو کسی کی محض باتیں اس کے اخلاق میں داخل نہیں ہو سکتیں۔ آپ اعتراض کرتے ہیں کہ وہ مرتد جو خود خونی اور اپنے کام سے سزا کے لائق ٹھہر چکے تھے بے رحمی سے قتل کئے گئے مگر آپ کو یاد نہ رہا کہ اسرائیلی نبیوں نے تو شیرخوار بچے بھی قتل کئے ایک دو نہیں بلکہ لاکھوں تک نوبت پہنچی یا ان کی نبوت سے منکر ہو یا وہ خدا کا حکم نہیں تھا یا موسیٰ کے وقت خدا اور تھا اور جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت کوئی اور خدا تھا۔
اے ظالم پادری! کچھ شرم کر آخر مرنا ہے مسیح بیچارا تمہاری جگہ جوابدہ نہیں ہو سکتا۔ اپنے کاموں سے تمہیں پکڑے جاؤ گے اس سے کوئی پُرسش نہ ہوگی۔ اے نادان! تو اپنے بھائی کی آنکھ میں تنکا دیکھتا ہے اور اپنی آنکھ کا شہتیر کیوں تجھے نظر نہیں آتا۔تیری آنکھیں کیا ہوئیں جو تو اپنی آنکھوں کو دیکھ نہیں سکتا۔
زینب کے ننکاح کا قصہ جوآپ نے زنا کے الزام سے ناحق پیش کردیا۔ بجز اس کے کیا کہیں۔
بد گھر از خطا خطا نکند
اے نالائق! متبنٰی کی مطلقہ سے نکاح کرنا زنا نہیں۔ صرف منہ کی بات سے نہ کوئی بیٹا بن سکتا ہے اور نہ کوئی باپ بن سکتا ہے اور نہ ماں بن سکتی ہے۔ مثلاً اگر کوئی عیسائی اپنی بیوی کو ماں کہہ دے تو کیا وہ اس پر حرام ہو جائے گی اور طلاق واقع ہو جائے گی بلکہ وہ بدستور اسی ماں سے مجامعت کرتا رہے گا پس جس شخص نے یہ کہا کہ طلاق بغیر زنا کے واقع ہو سکتی۔ اس نے خود قبول کر لیا کہ صرف اپنے منہ سے کسی کو ماں یا باپ یا بیٹا کہہ دینا کچھ چیز نہیں ورنہ وہ ضرور کہہ دیتا کہ ماں کہنے سے طلاق پڑ جاتی ہے۔ مگر شاید کہ مسیح کو وہ عقل نہ تھی جو فتح مسیح کو ہے۔ اب تم پر فرض ہے کہ اس بات کا ثبوت انجیل میں سے دو کہ اپنی عورت کو ماں کہنے سے طلاق پڑ جاتی ہے یا یہ کہ اپنے مسیح کو ناقص مان لو یا یہ ثبوت دو کہ بائبل کے رو سے متبنّٰی فی الحقیقت بیٹا ہو جاتا اور بیٹے کی طرح وارث ہو جاتا ہے اور اگر کچھ ثبوت نہ دے سکو تو بجز اس کے اور کیا کہیں لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ مسیح بھی تم پر *** کرتا ہے۔ کیونکہ مسیح نے انجیل میں کسی جگہ نہیں کہا کہ اپنی عورت کو ماں کہنے سے اس پر طلاق پڑ جاتی ہے اور آپ جانتے ہیں کہ یہ تینوں امرہمشکل ہیں اگر صرف منہ کے کہنے سے ماں نہیں بن سکتی تو پھر بیٹا بھی نہیں بن سکتا اور نہ باپ بن سکتا ہے۔ اب اگر کچھ حیا ہو تو مسیح کی گواہی قبول کر لو یا اس کا کچھ جواب دو اور یاد رکھو کہ ہرگز نہیں دے سکو گے۔ اگرچہ فکر کرتے کرتے مر ۱؎ہی جاؤ۔ کیونکہ تم کاذب ہو اور
۱؎ اس کا جواب نہ ہو سکا اور فتح مسیح مر گیا (ایڈیٹر)
مسیح تم سے بیزار ہے اور آپ کا یہ شیطانی وسوسہ کہ خندق کھودنے کے وقت چاروں نمازیں قضا کی گئیں۔ اوّل آپ لوگوں کی علمیت تو یہ ہے کہ قضا کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اے نادان! قضا نماز ادا کرنے کو کہتے ہیں۔ ترک نماز کا نام قضا ہرگز نہیں ہوتا۔ اگر کسی کی نماز ترک ہو جاوے تو اس کا نام فوت ہے اسی لئے ہم نے پانچ ہزار روپے کا اشتہار دیا تھا کہ ایسے بیوقوف بھی اسلام پر اعتراض کرتے ہیں جن کو ابھی قضا کے معنی بھی معلوم نہیں۔ جو شخص لفظوں کو بھی اپنے محل پر استعمال نہیں کر سکتا۔ وہ نادان کب یہ لیاقت رکھتا ہے کہ امور دقیقہ پر نکتہ چینی کر سکے۔ باقی رہا یہ کہ خندق کھودنے کے وقت چار نمازیں جمع کی گئیں۔ اس احمقانہ وسوسہ کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دین میں حرج نہیں ہے۔ یعنی ایسی سختی نہیں جو انسان کی تباہی کا موجب ہو۔ اس لئے اس نے ضرورتوں کے وقت اور بلاؤں کی حالت میں نمازوں کے جمع کرنے اور قصر کرنے کا حکم دیا ہے۔مگر اس مقام میں ہماری کسی معتبر حدیث میں چار جمع کرنے کا ذکر نہیں بلکہ فتح الباری شرح صحیح بخاری میں لکھا ہے کہ واقعہ صرف یہ ہوا تھا کہ ایک نماز یعنی صلوٰۃ العصر معمول سے تنگ وقت میں ادا کی گئی۔ اگر آپ اس وقت ہمارے سامنے ہوتے تو ہم ذراآپ کو بٹھا کر پوچھتے کہ کیا یہ متفق علیہ روایت ہے کہ چار نمازیں فوت ہوگئی تھیں چار نمازیں تو خود شرع کے رو سے جمع ہو سکتی ہیں یعنی ظہر اور عصر اور مغرب اور عشاء۔ ہاں ایک روایت ضعیف میں ہے کہ ظہر اور عصر اور مغرب اور عشاء کو اکٹھی کر کے پڑھی گئیں تھیں لیکن دوسری صحیح حدیثیں اس کو ردّ کرتی ہیں اورصرف یہی ثابت ہوتا ہے کہ عصر تنگ وقت میں پڑھی گئی تھی۔ آپ عربی علم سے محض بے نصیب اور سخت جاہل ہیں ذرا قادیان کی طرف آؤ اور ہمیں ملو تو پھر آپ کے آگے کتابیں رکھی جائیں گی تا جھوٹے مفتری کو کچھ سزا تو ہو۔ ندامت کی سزا ہی سہی اگرچہ ایسے لوگ شرمندہ بھی نہیں ہوا کرتے۔
مال مسروقہ کو آپ کے مسیح کے رو برو بزرگ حواریوں کاکھانا یعنی بیگانے کھیتوں کی بالیاں توڑنا کیایہ درست تھا؟ اگر کسی جنگ میں کفّارکے بلوے اور خطرناک حالت کے وقت نماز عصر تنگ وقت پر پڑھی گئی تو اس میں صرف یہ بات تھی کہ دو عبادتوں کے جمع ہونے کے وقت اس عبادت کو مقدم سمجھا گیا۔ جس میں کفّار کے خطرناک حملہ کی روک اور اپنے حقوق نفس اور قوم اور ملک کی جائز اور بجا محافظت تھی اور یہ تمام کارروائی اس شخص کی تھی جو شریعت لایا اور یہ بالکل قرآن کریم کے منشاء کے مطابق تھی خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا ینطق عن الھٰویٰ اِنْ ھُوَ الاَّوَحْیٌ یُوْحٰی (یعنی نبی کی ہر ایک بات خدا تعالیٰ کے حکم سے ہوتی ہے۔ نبی کا زمانہ نزول شریعت کا زمانہ ہوتا ہے اور شریعت وہی ٹھہر جاتی ہے جو نبی عمل کرتا ہے۔ ورنہ جو جو کارروائیاں مسیح نے توریت کے برخلاف کی ہیں یہاں تک کہ سبت کی بھی پرواہ نہ رکھی اور کھانے پر ہاتھ نہ دھوئے وہ سب مسیح کو مجرم ٹھہراتے ہیں۔ ذرا توریت سے ان سب کا ثبوت تو دو مسیح پطرس کو شیطان کہہ چکا تھا۔ پھر اپنی بات کیوں بھول گیا اور شیطان کو حواریوں میں کیوں داخل رکھا۔
اور پھر آپ کا اعتراض ہے کہ بہت سی عورتوں اور لونڈیوں کو رکھنا یہ فسق و فجور ہے۔ اے نادان! حضرت داؤد علیہ السلام نبی کی بیبیاں تجھ کو یاد نہیں جس کی تعریف کتاب مقدس میں ہے کیا وہ اخیر عمر تک حرام کاری کرتا رہا۔ کیا اسی حرامکاری کی یہ پاک ذرّیت ہے جس پر تمہیں بھروسہ ہے جس خدا نے اوریا کی بیوی کے بارہ میں داؤد پر عتاب کیا کیا؟ وہ داؤد کے اس جرم سے غافل رہا؟ جو مرتے دم تک اس سے سرزد ہوتا رہا بلکہ خدا نے اس کی چھاتی گرم کرنے کو ایک اور لڑکی بھی اُسے دی اور آپ کے خدا کی شہادت موجود ہے کہ داؤد اورا کے قصہ کے سوا اپنے کاموں میں راستباز ہے کیا کوئی عقلمند قبول کر سکتا ہے کہ اگر کثرت ازدواج خدا کی نظر میں بُری تھی تو خدا اسرائیلی نبیوں کو جو کثرت ازدواج میں سب سے بڑھ کر نمونہ ہیں ایک مرتبہ بھی اس فعل پر سرزنش نہ کرتا پس یہ سخت بے ایمانی ہے کہ جو بات خدا کے پہلے نبیوں میں موجود ہے اور خدا نے اُسے قابل اعتراض نہیں ٹھہرایا۔ اب شرارت اور خباثت سے جناب مقدس نبوی کی نسبت قابل اعتراض ٹھہرائی جاوے۔ افسوس یہ لوگ ایسے بے شرم ہیں کہ اتنا بھی نہیں سوچتے کہ اگر ایک سے اوپر بیوی کرنا زنا کاری ہے تو حضرت مسیح جو داؤد کی اولاد کہلاتے ہیں ان کی پاک ولادت کی نسبت سخت شُبہ پیدا ہوگا اور کون ثابت کر سکے گا کہ ان کی بڑی نانی حضرت داؤد کی پہلی ہی بیوی تھی۔
پھر آپ حضرت عائشہ صدیقہؓ کانام لے کر اعتراض کرتے ہیں کہ جناب مقدس نبوی صلعم کا بدن سے بدن لگانا اور زبان چوسنا خلاف شرع تھا اس ناپاک تعصب پر کہاں تک روویں۔ اے نادان! جو حلال اور جائز نکاح ہیں ان میں یہ سب باتیں جائز ہوتی ہیں یہ اعتراض کیسا ہے۔ کیا تمہیں خبر نہیں کہ مردی اور رجولیت انسان کی صفات محمودہ میں سے ہے۔ ہیجڑا ہونا کوئی اچھی صفت نہیں ہے جیسے بہرہ اور گونگاہونا کسی خوبی میں داخل نہیں ہاں! یہ اعتراض بہت بڑا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام مردانہ صفات کی اعلیٰ ترین صفت سے … نصیب محض ہونے کے باعث ازواج سے سچی اور کامل حسن معاشرت کا کوئی عملی نمونہ نہ دے سکے۔ اس لئے یورپ کی عورتیں نہایت قابل شرم آزادی سے فائدہ اُٹھا کر اعتدال کے دائرہ سے اِدھر اُدھر نکل گئیں اور آخر ناگفتنی فسق و فجور تک نوبت پہنچی۔
اے نادان! فطرت انسانی اوراس کے سچے پاک جذبات سے اپنی بیویوں سے پیار کرنا اور حسن معاشرت کے ہر قسم جائز اسباب کو برتنا انسان کا طبعی اور اضطراری خاصہ ہے اسلام کے بانی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی اُسے برتا اور اپنی جماعت کو نمونہ دیا۔ مسیح نے اپنے نقص تعلیم کی وجہ سے اپنے ملفوظات اور اعمال میں یہ کمی رکھ دی۔ مگر چونکہ طبعی تقاضا تھا اس لئے یورپ اور عیسویت نے خود اس کے لئے ضوابط نکالے۔ اب تم خود انصاف سے دیکھ لو کہ گندی سیاہ بدکاری اور ملک کا ملک رنڈیوں کا ناپاک چکلہ بن جانا ہائیڈ پارکوں میں ہزاروں ہزار کا روز روشن میں کتوں اور کتیوں کی طرح اوپر تلے ہونا اور آخر اس ناجائز آزادی سے تنگ آ کر آہ و فغاں کرنا اور برسوں دیویثوں اور سیاہ رویئوں کے مصائب جھیل کر اخیر میں مسودہ طلاق پاس کرانا یہ کس بات کا نتیجہ ہے؟ کیا اس مقدس مطہر، مزکی، نبی اُمّی صلعم کی معاشرت کے اس نمونہ کا جس پر خباثت باطنی کی تحریک سے آپ معترض ہیں یہ نتیجہ ہے اور ممالک اسلامیہ میں یہ تعفن اور زہریلی ہوا پھیلی ہوئی ہے یا ایک سخت ناقص نالائق کتاب پولوسی انجیل کی مخالف فطرت اور ادھوری تعلیم کا یہ اثر ہے؟
اب دو زانو ہو کر بیٹھو اور یوم الجزاء کی تصویر کھینچ کر غور کرو۔
ہاں! مسیح کی دادیوں اور نانیوں کی نسبت جو اعتراض ہے اس کا جواب بھی کبھی آپ نے سوچا ہوگا؟ ہم تو سوچ کر تھک گئے اب تک کوئی عمدہ جواب خیال میں نہیں آیا۔ کیا ہی خوب خدا ہے جس کی دادایاں اور نانیاں اس کمال کی ہیں۔ آپ یاد رکھیں کہ ہم بقول آپ کے مرد میدان بن کر ہی رسالہ لکھیں گے! اور آپ کو دکھائیں گے کہ وساوس کی بیخ کنی اسے کہتے ہیں۔ اس جاہل گمراہ کا شکست دینا کونسی بڑی بات ہے جو انسان کو خدا بناتا ہے۔ مگر آپ براہ مہربانی ان چند باتوں کا جو میں نے دریافت کی ہیں ضرور جواب لکھیں اور ان الفاظ سے ناراض نہ ہوں جو لکھے گئے ہیں کیونکہ الفاظ محل پر چسپاں ہیں اور آپ کی شان کے شایان ہیں جس حالت میں آپ نے باوجود بے علمی اور جہالت کے آنحضرت صلعم پر جو سیّد المطہرین ہیں زنا کی تہمت لگائی جو اس پلید اور جھوٹ افتراء کا یہی جواب تھا جو آپ کو دیا گیا ہم نے بہتیرا چاہا کہ آپ لوگ بھلے مانس بن جاویں اور گالیاں نہ دیا کریں مگر آپ لوگ نہیں مانتے۔ آپ ناحق اہل اسلام کا دل دکھاتے ہیں۔ آپ نہیں جانتے کہ ہمارے نزدیک وہ نادان ہر ایک زنا کار سے بدتر ہے جو انسان کے پیٹ سے نکل کر خدا ہونے کا دعویٰ کرے۔ اگر آپ لوگ مسیح کے خیر خواہ ہوتے تو ہم سے جناب مقدس نبوی کے ذکر میں بادب پیش آتے۔ ایک صحیح حدیث میں ہے کہ تم اپنے باپ کو گالی مت دو۔ لوگوں نے عرض کی کہ کوئی باپ کو بھی گالی دیتا ہے۔ آپ نے فرمایا ہاں! جب تو کسی کے باپ کو بھی گالی دے گا تو وہ ضرور تیرے باپ کو بھی گالی دے گا۔ تب وہ گالی اس نے نہیں دی بلکہ تو نے دی ہے۔ اسی طرح آپ لوگ جانتے ہیں کہ آپ کے بودے جھوٹے خدا کی بھی اچھی طرح بھگت سنواری جائے ۔ اب ہم یہ خط بطور نوٹس کے آپ کو بھیجتے ہیں کہ اگر پھر ایسے ناپاک لفظ آپ نے استعمال کئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جناب میں ناپاک تہمت لگائی تو ہم بھی آپ کے فرضی اورجعلی خدا کی وہ خبر لیں گے جس سے اس کی تمام خدائی ذلّت کی نجاست میں گرے گی۔
اے نالائق! کیا تو اپنے خط میں سرور انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو زنا کی تہمت لگاتا ہے اور فاسق فاجر قرار دیتا ہے اور ہمارا دل دکھاتا ہے ہم کسی عدالت کی طرف رجوع نہیں کرتے اور نہ کریں گے مگر آئندہ کیلئے سمجھاتے ہیں کہ ایسی ناپاک باتوں سے باز آ جاؤ اور خدا سے ڈرو جس کی طرف پھرنا ہے اور حضرت مسیح کو بھی گالیاں مت دو یقینا جو کچھ تم جناب مقدس نبوی کی نسبت بُرا کہو گے وہی تمہارے فرضی مسیح کو کہا جائے گا مگر ہم اس سچے مسیح کو مقدس اور بزرگ اور پاک جانتے اور مانتے ہیں جس سے نہ خدائی کا دعویٰ کیا نہ بیٹا ہونے کا اور جناب محمد مصطفی احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کی خبر دی اور ان پر ایمان لایا۔
٭٭٭
اشتہار نہیں تو نور افشاں میں چھپوا دیں۔ آپ جانتے ہیں کہ میں نے کوئی قلمی تحریر آپ کی طرف نہیں بھیجی بلکہ ہزار روپیہ کا اشتہار چھپوا کر بھیجا ہے۔ تو اس صورت میں طریق مقابلہ یہی ہے کہ جیسا کہ میں نے ایک دعویٰ کو چھاپ کر پبلک کے سامنے رکھ دیا ہے اور ہر ایک کو نظر اور غور کرنے کا موقعہ دیا ہے۔ آپ بھی ویساہی کریں اور وہ عمدہ کتابیں جو آپ کی دانست میں اعتماد کے لائق ہیں اور اہل الرائے نے ان پر کوئی جرح نہیں کیا اور نہ ان مفتریات میں سے ٹھہرایا ہے۔ ان کا وہ مقام شائع کر دیں آپ کی اس سے بڑی نیک نامی ہوگی کیونکہ جب کہ میں اس وسوسہ کے استیصال کیلئے جواب الجواب چھپوا دوں گا اور پبلک کی نظر میں وہ نکما ثابت ہوگا تو گویا پبلک آپ کو ہزار روپیہ پانے کی ڈگری دے دے گی۔ اس صورت میں ہر ایک کی نظر میں آپ ہزار روپیہ پانے کے مستحق ٹھہر جاویں گے اور مجھ کو دینا پڑے گا اورنیز اس صورت میں یہ بات بھی یقینی ہے کہ آپ کی اس معرکہ کی فتح کے بعد کچھ ترقی بھی ضرور ہوگی کیونکہ جب کہ آپ یسوع صاحب کی عزت ثابت کریں گے تو ضرور لوگ آپ کی عزت کریں گے۔ میری نظر میں تو سوائے حوالات میں رہنے اور چوتڑوں پر کوڑے کھانے کے انجیل سے اور کچھ ثابت نہیں ہوتا۔ اگر اسی کا نام عزت ہے تو بے شک اُس وقت کے مخالف مذہب والیان ملک نے یسوع کی بڑی عزت کی۔ خیر اوّل اس خط کو جو میری طرف بھیجا ہے چھپوا دیں اور جلد چھپوا دیں اور ایک کاپی میرے نام بھیج دیں پھر آپ دیکھ لیں گے کہ میں کیسی ان اسناد کی وقعت اور یسوع صاحب کی عزت ثابت کرتا ہوں اور آپ نے یہ بھی لکھا ہے کہ نور القرآن میں مجھ کو گالیاں دیں ہیں۔ آپ یاد رکھیں کہ گالیاں دینا اور توہین کرنا اور افتراء کرنا وہ سب اس زمانہ کے پادری صاحبوں کے حصہ میں آ گیا ہے۔ کون سی گالی ہے جو آپ لوگوں نے ہمارے سیّدو مولیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دی۔ کونسی توہین ہے جو اس جناب کی آپ لوگوں نے نہیں کی۔ نہ ایک نہ دو بلکہ ہزاروں کتابیں آپ لوگوں کے ہاتھ سے ایسی نکلی ہیں جو گالیوں سے بھری ہوئی ہیں۔ اگر وہی الفاظ آپ صاحبوں کے باپ یا ماں یا یسوع کی نسبت استعمال کئے جائیں تو کیا آپ برداشت کر سکتے ہیں؟ ہمارے دلوں کو آپ لوگوں نے ایسا دکھایا جس کی نظیر دنیا میں نہیں پائی جاتی۔ یہ مردہ پرستی کی شامت ہے کہ آپ لوگوں کے دلوں سے راستبازی کا نور بالکل جاتا رہا۔ ہر ایک سوال شرارت کے ساتھ ملا کر بیان کیا جاتا ہے ہر ایک اعتراض میں افتراء کی ملونی سے رنگ دیا جاتا ہے۔ ہر ایک بات ٹھٹھے اور ہنسی سے مخلوط ہوتی ہے کیا یہ نیک انسانوں کا کام ہے۔ پھر جس حالت میں آپ اُس عالی جناب کی عزت نہیں کرتے جس کو زمین و آسمان کے خالق نے عزت دے رکھی ہے اور جس کے آستانہ پر پچانوے کروڑ آدمی سر جھکاتے ہیں (نئی تحقیقات سے مسلمانوں کی تعداد ۹۵ کروڑ تمام روئے زمین پر ثابت ہوئی ہے) پھر آپ ہم سے کس عزت کو چاہتے ہیں۔ ہم نے بہتیرا چاہا کہ آپ لوگ تہذیب سے پیش آویں تا ہم بھی تہدیب سے پیش آویں مگر آپ لوگ ایسا کرنا نہیں چاہتے کیا یہ صحیح نہیں ہے کہ جن اعتراضات کو آپ تہذیب اور نرمی سے پیش کر سکتے ہیں ان کو آپ توہین اور تحقیر سے پیش کرتے ہیں مثلاً زینب کے قصہ میں جو متبنٰی کی بیوی کو نکاح میں لانا آپ لوگوں کی نظر میں محل اعتراض ہے اور اسی اعتراض کو دل دکھانے کیلئے توہین اور تحقیر کے پیرایہ میں پیش کرتے ہیں۔ اگر آپ کے دل میں طلب حق اور زبان پر تہذیب ہو تو اس طور سے اعتراض پیش کریں کہ ہماری توریت اور انجیل کی رو سے متبنٰی کی بیوی سے نکاح کرنا حرام ہے اور توریت انجیل کے رو سے جس مرد کو بیٹا کہا جاوے یا عورت کو بیٹی کہا جائے تو اس مرد کی بیوی حرام ہو جاتی ہے اور اس عورت کو نکاح میں لانا حرام ہو جاتا ہے یا اگر نکاح میں ہوتو اس پر طلاق پڑ جاتی ہے اور نیز فلاں فلاں عقلی دلیل سے ثابت ہے کہ متبنٰی اصل بیٹے کی مانند ہو جاتا ہے مگر اسلام نے متبنٰی کی بیوی سے بعد طلاق نکاح جائز رکھا ہے تو ایسے اعتراض سے کوئی مسلمان ناراض نہ ہو یا مثلاً کثرت ازدواج پر آپ اعتراض کریں اور نرمی سے توریت اور انجیل کی آیات ثبوت میں لکھیں کہ صریح ان کتابوں میں لکھا ہے کہ ایک سے زیادہ بیوی کرنا حرام ہے اور جو شخص ایسا کرتا ہے وہ زنا کرتا ہے اور معقول طور سے بھی دوسری بیوی کی کوئی ضرورت نہیں معلوم ہوئی تو اس اعتراض پر کون ناراض ہو سکتاہے۔ اگر خدا تعالیٰ آپ لوگوں کو یہ اخلاق نصیب کرے تو ہم بچوں کی طرح آپ لوگوں کو شفقت اور رحمت سے تعلیم دے سکتے ہیں اور محبت اور خلق سے ہر ایک بات میں آپ کی تسلی کر سکتے ہیں مگر آپ تو درندوں کی طرح ہم پر گرتے ہیں۔ پھر آخر ہم نے جوش غصہ سے بلکہ تادیب کیلئے سخت الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ ہاں اگر آپ حقیقی خلق برتنے اور درندگی کے چھوڑنے کیلئے تیار ہیں تو ہم بھی محبت اور خلق اور عزت کرنے کیلئے تیار ہیں۔ ورنہ آپ کی مرضی۔ یقینا ایک وہ زمانہ تھا جو بقول آپ کے یسوع مصلوب ہوا اور اب وہ گھڑی بہت نزدیک ہے جو تثلیت مصلوب ہو جاوے گی اور توریت کے مفہوم کے موافق لکڑی پر لٹکائی جاوے گی۔ والسلام علی من اتبع الہدیٰ
(از قادیان ضلع گورداسپور۔یکم فروری ۱۸۹۶ء)
نور القرآن کا جواب جلد شائع کر دیں انہیں اعتراض کیلئے رجسٹری شدہ خط بھیجتا ہوں۔ (غلام احمد)
ایک عیسائی کے چند سوالوں کا جواب
انجمن حمایت اسلام لاہور کے ذریعہ ایک عیسائی نے کچھ سوال اسلام پر کئے تھے انجمن نے ان سوالات کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفۃ المسیح مدظلہ العالی کے پاس بھیج دیا اور آقا و غلام نے ان سوالات کے جواب لکھ کر انجمن کو بھیج دیئے تھے۔ چونکہ وہ ایک عیسائی کے خط کا جواب بذریعہ ایک کھلے خط کے تھا اس لئے انہیں درج کر دیا جاتا ہے۔ وباللّٰہ التوفیق (ایڈیٹر)
سوال: اگر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پیغمبرہوتے تو اس وقت کے سوالوں کے جواب میں لاچار ہو کر یہ نہ کہتے کہ خدا کو معلوم یعنی مجھ کو معلوم نہیں اور اصحابِ کہف کی بابت ان کی تعداد میں غلط بیانی نہ کرتے اور یہ نہ کہتے کہ سورج چشمہ دلدل میں چھپتا ہے یا عرض ہوتا ہے حالانکہ سورج زمین سے نوکروڑ گنا بڑاہے وہ کس طرح دلدل میں چھپ سکتا ہے؟
جواب: پوشیدہ نہ رہے کہ ان دونوں آیتوں سے معترض کا مدعا جو استدلال پر نفی معجزات ہے ہرگز ثابت نہیں ہوتا بلکہ برخلاف اس کے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ضرور ایسے معجزات ظہور پذیر ہوتے رہے ہیں کہ جو ایک صادق و کامل نبی سے ہونی چاہئیں۔ چنانچہ تصریح اس کی نیچے کے بیانات سے بخوبی ہو جائے گی۔
پہلی آیت جس کا ترجمہ معترض نے اپنے دعویٰ کی تائید کیلئے عبارات متعلقہ سے کاٹ کر پیش کر دیا ہے مع اس ساتھ کی دوسری آیتوں کے جن سے مطلب کہتا ہے یہ ہے۔
قالوا لولا انزل علیہ ایت من ربّہٖ قل انما اِلاَّیت عند اللّٰہِ و انما انا نذیر مبینo اولم یکفھم انا انزلنا علیک الکتٰب یتلی علیھم ان فی ذٰلِک لرحمۃ و ذکری لقوم یومنونo ویستعجلونک بالعذاب ولولا اجل مسمی لجاء ھم لعذاب ولیاتینھم بغتۃً وَّھُمْ لایشعرونo
یعنی کہتے ہیں کیوں نہ اُتریں اس پر نشانیاں کہ وہ نشانیاں جو تم مانگتے ہو یعنی عذاب کی نشانیاں وہ تو خدا تعالیٰ کے پاس اور خاص اس کے اختیار میں ہیں اور میں تو صرف ڈرانیوالا ہوں یعنی میرا کام فقط ہے کہ عذاب کے دن سے ڈراؤں نہ یہ کہ اپنی طرف سے عذاب نازل کروں اور پھر فرمایا کہ ان لوگوں کیلئے (جو اپنے پر کوئی عذاب کی نشانی وارد کرانی چاہتے ہیں۔ یہ رحمت کی نشانی کافی نہیں جو ہم نے تجھ پر (اے رسول اُمّی) وہ کتاب (جو جامع کمالات ہے) نازل کی جو ان پر پڑھی جاتی ہے یعنی قرآن شریف جو ایک رحمت کا نشان ہے جس سے درحقیقت وہی مطلب نکلتا ہے جو کفّار عذاب کے نشانوں سے پورا کرنا چاہتے ہیں کیونکہ کفّار مکہ اس غرض سے عذاب کا نشان مانگتے تھے کہ تا وہ ان پر وارد ہو کر انہیں حق الیقین تک پہنچ جاوے۔ صرف دیکھنے کی چیزنہ رہے کیونکہ مجرد رویّت کے نشانوں میں ان کو دھوکے کا احتمال تھا اور چشم بندی وغیرہ کا خیال سو اس وہم اور اضطراب کے دور کرنے کے لئے فرمایا کہ ایسا ہی نشان چاہتے ہو جو تمہارے وجودوں پر وارد ہو جاوے تو پھر عذاب کے نشان کی کیا حاجت ہے کیا اس مدعا کے حاصل کرنے کے لئے رحمت کا نشان کافی نہیں۔ یعنی قرآن شریف جو تمہاری آنکھوں کو اپنے پُر نور اور تیز شعاعوں سے خیرہ کر رہا ہے اور اپنی ذاتی خوبیاں اور اپنے حقائق اور معارف اور اپنی فوق العادت خواص اس قدر دکھلا رہا ہے جس کے مقابلہ و معارضہ سے تم عاجز رہ گئے ہو اور تم پر اور تمہاری قوم پر ایک خارق عادت اثر ڈال رہا ہے٭ اور دلوں پر وارد ہو کر عجیب در عجیب تبدیلیاں دکھلا رہا ہے مدت ہائے دراز کے مردے اس سے زندہ
٭ یہ تمام خارق عادت خاصیتیں قرآن شریف کی جن کی رو سے وہ معجزہ کہلاتا ہے انمفصلہ ذیل سورتوں میں بہ تفصیل ذیل کہتے ہیں۔ سورۃ البقر، سورۃ اٰل عمران، سورۃ النساء، سورۃ المائدہ، سورۃ الانعام) سورۃ الاعراف، سورۃ الانفال، سورۃ التوبہ، سورۃ یونس، سورۃ ھود، سورۃ رعد، سورۃ ابراہیم، سورۃ الحجر، سورۃ واقعہ، سورۃ النمل، سورۃ الحج، سورۃ النبیہ، سورۃ المجادلہ چنانچہ بطور نمونہ چند آیات ی ہیں قال عزو جل۔
یھدی بہ اللہ من التبع رضوانہ سبل السلام ویحزجھم من الظلمت الی النور شفائٌ لما فی الصدور انزل من السماء ماء فاحیابہ الارض بعد موتہا انزل من السماء مائً فسالت اودیۃ بقدرھا۔ انزل من السماء مائً افتصبح الارض مخضریۃ تقشعرمنہ جلود الذین یخشون ربھم ثم تلین جلودھم وقلوبھم الٰی ذکر اللّٰہ الا بذکر اللّٰہ تطمئن القلوب اولئک کتب فی قلوبھم الایمان وایدیھم بروح منہ۔ قل نزلہ روح القدس من ربک لیثبت الذین امنوا وھدًی وبشر للمسلمین۔ انا نحن نزلنا لحفظون۔فیھا کتب قیئمہ قل لئن اجتمعت الامن والجن علی ان یاتوا بمثل ھذا القران لایاتون بمثلہ ولوکان بعضھم لبعضٍ ظھیرًاo یعنی قرآن کے ذریعہ سے سلامتی کی راہوں کی ہدایت ملتی ہے اور لوگ نور کی طرف نکالے جاتے ہیں وہ ہر ایک اندرونی بیماری کو اچھا کرتا ہے۔ خدا نے ایک ایسا پانی اُتارا ہے جس سے ہر ایک وادی میں بقدر اپنی وسعت کے بہہ نکلا ہے۔ ایسا پانی اُتارا جس سے گلی سڑی ہوئی
ہوتے چلے جاتے ہیں اور مادر زاد اندھے جو بے شمار پشتوں سے اندھے ہی چلے آتے تھے۔ آنکھیں کھول رہے ہیں اور کفر اور المحاد کی طرح طرح کی بیماریاں اس سے اچھی ہوتی چلی جاتی ہیں اور تعصب کے سخت جزامی اس سے صاف ہوتے جاتے ہیں۔ اس سے نور ملتا ہے اور ظلمت دور ہوتی ہے اور وصل الٰہی میسر آتا ہے اور اس کے علامات پیدا ہوتے ہیں۔ سو تم کیوں اس رحمت کے نشان کو چھوڑ کر جو ہمیشہ کی زندگی بخشتا ہے عذاب اور موت کا نسان مانگتے ہو۔ پھر بعد اس کے فرمایا کہ یہ قوم تو جلدی سے عذاب ہی مانگتی ہے۔ رحمت کے نشانوں سے فائدہ اُٹھانا نہیں چاہتی۔ اُن کو کہہ دے کہ اگر یہ بات نہ ہوتی کہ عذاب کی نشانیاں وابستہ باوقات ہوتی ہیں تو یہ عذابی نشانیاں بھی کب نازل ہوگئی ہوتیں اور عذاب ضرور آئے گا اور ایسے وقت میں آئے گا کہ ان کو خبر بھی نہیں ہوگی۔ اب انصاف سے دیکھو! کہ اس آیت میں کہاں معجزات کا انکار پایا جاتا ہے یہ آیتیں تو بآواز بلند پکار رہی ہیں کہ کفّار نے ہلاکت اور عذاب کا نشان مانگا تھا۔ سو اوّل انہیں کہا گیا کہ دیکھو تم میں زندگی بخش نشان موجود ہے یعنی قرآن جو تم پر وارد ہو کر تمہیں ہلاک کرنا نہیں چاہتا بلکہ ہمیشہ کی حیات بخشتا ہے مگر جب عذاب کا نشان تم پر وارد ہوا تو وہ تمہیں ہلاک کرے گا پس کیوں ناحق اپنا مرنا ہی چاہتے ہو اور اگر تم عذاب ہی مانگتے ہو تو یاد رکھو کہ وہ بھی جلد آئے گا۔ پس اللہ جل شانہ نے ان آیات میں عذاب کے نشان کا وعدہ دیا ہے اور قرآن شریف میں جو رحمت کے نشان ہیں اور دلوں پر وارد ہو کر اپنا خارق عادت اثر ان پر ظاہر کرتے ہیں ان کی طرف توجہ دلائی۔ پر معترض کا یہ گمان کہ اس آیت میں لا نافیہ جنس معجزات کی نفی پر دلالت کرتا ہے۔ جس سے کل معجزات کی نفی لازم آتی ہے۔ محض صَرف ونحو سے ناواقفیت کی وجہ سے ہے۔ یاد رکھنا چاہئے کہ نفی کا اثر اُسی حد تک محدود ہوتا ہے۔ جو متکلّم کے
(بقیہ حاشیہ صفحہ گذشتہ) ہوئی زمین سرسبز ہوگئی۔ اس سے خدا کے خوف سے بندوں کی جلدیں کانپتی ہیں۔ پھر ان کی جلدیں اور ان کے دل ذکر الٰہی کیلءآ نرم ہو جاتے ہیں یاد رکھو کہ قرآن سے دل اطمینان پکڑتے ہیں جو لوگ قرآن کے تابع ہو جائیں اُن کے دلوں میں ایمان لکھا جاتا ہے اور روح القدس انہیں ملتا ہے۔ روح القدس نے ہی قرآن کو اُتارا تا قرآن ایمانداروں کے دلوں کو مضبوط کرے اور مسلمین کیلئے ہدایت اور بشارت کا نشان ہو۔ ہم نے قرآن کو اُتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرتے والے ہیں یعنی کیا صورت کے لحاظ سے اور کیا خاصیت کے لحاظ سے ہمیشہ قرآن اپنی اصلی حالت پر رہے گا اور الٰہی حفاظت کا ان پر سایہ ہوگا۔ پھر فرمایا کہ قرآن میں تمام معارف و حقائق و صداقتیں ہیں جو حقانی کتابوں میں پائی جاتی ہیں اور اس کی مثل بنانے پر کوئی انسان و جن قادر نہیں اگرچہ اس کام کیلئے باہم ممدومعاون ہو جائیں۔ منہ۱۲
ارادہ میں متعین ہوتی ہے۔ خواہ وہ ارادۃً تصریحاً بیان کیا گیا ہو یا اشارۃً۔ مثلاً کوئی کہے کہ اب سردی کا نام و نشان باقی نہیں رہا تو ظاہر ہے کہ اس نے اپنے بلدہ کی حالت موجودہ کے موافق کہا ہے اور گو اس نے بظاہر اپنے شہر کا نام بھی نہیں لیا مگر اس کے کلام سے یہ سمجھنا کہ اس کا یہ دعویٰ ہے کہ کل کوہستانی ملکوں سے بھی سردی جاتی رہی اور سب جگہ سخت اور تیز دھوپ پڑنے لگی اور اس کی دلیل یہ پیش کرنا کہ جس لا کو اس نے استعمال کیا ہے وہ نفی جنس کا لا ہے۔ جس کا تمام جہان پر اثر پڑنا چاہئے درست نہیں۔ مکہ کے مغلوب بت پرست جنہوں نے آخر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور آطجناب کے معجزات کو معجزہ کر کے مان لیا اور جو کفر کے زمانہ میں بھی صرف خشک منکر نہیں تھے بلکہ روم اور ایران میں بھی جا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو متعجبانہ خیال سے ساحر مشہور کرتے تھے اور گو بیجا پیرائیوں میں ہی سہی مگر نشانوں کا اقرار کر لیا کرتے تھے۔ جن کے اقرار قرآن شریف میں موجود ہیں وہ اپنے ضعیف اور کمزور کلام میں جو انوار ساطحہ نبوت محمدیہ کے نیچے دبے ہوئے تھے۔ کیوں لا نافیہ استعمال کرنے لگا۔ اگر ان کو ایسا ہی لمبا چوڑا انکار ہوتا تو وہ بالآخر نہایت درجہ کے یقین سے جو انہوں نے اپنے خونوں کے بہانے اور اپنی جانوں کے فدا کرنے سے ثابت کر دیا تھا۔ مشرف باسلام کیوں ہو جاتے اور کفر کے ایام میں جو اُن کے بار بار کلمات قرآن شریف میں درج ہیں وہ یہی ہیں کہ وہ اپنی کوتہ بینی کے دھوکہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ساحر رکھتے تھے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وان یروا ایۃ یعرضوا ویقولوا سحر مستمر یعنی جب کوئی نشان دیکھتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پکا جادو ہے۔ پھر دوسری جگہ فرماتا ہے وعجبوا ان جاء ھُمْ منذرمنھم وقال الکفرون ھذا ساحرٌ کذاب یعنی انہوں نے اس بات سے تعجب کیا کہ انہیں میں سے ایک شخص اُن کی طرف بھیجاگیا اور بے ایمانوں نے کہا کہ یہ تو جادو گر کذّاب ہے۔ اب ظاہر ہے کہ جب کہ وہ نشانوں کو دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جادو گر کہتے تھے اور پھر اس کے بعد انہیں نشانوں کو معجزہ کر کے مان بھی لیا اور جزیرہ کا جزیرہ مسلمان ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاک معجزات کا ہمیشہ کیلئے سچے دل سے گواہ بن گیا تو پھر ایسے لوگوں سے کیونکر ممکن ہے کہ وہ عام طور پر نشانوں سے صاف منکر ہو جاتے اور ان کا معجزات میں ایسا لا نافیہ استعمال کرتے جو اُن کی حد حوصلہ سے باہر اور ان کی حد حوصلہ سے باہر اور ان کی مستمرائے سے بعید تھا بلکہ قرائن سے آفتاب کی طرح ظاہر ہے کہ جس جگہ پر قرآن شریف میں کفّار کی طرف سے یہ اعتراض لکھا گیا ہے کہ کیوں اس پیغمبر پر کوئی نشانی نہیں اُترتی۔ ساتھ ہی یہ بھی بتلا دیا گیا ہے کہ اُن کا مطلب یہ ہے کہ جو نشانیاں ہم مانگتے ہیں۔ اُن میں سے کوئی نشانی کیوں نہیں اُترتی۔
اب٭ قصہ کوتاہ یہ کہ آپ نے آیت متذکرہ بالا کے لا نافیہ کو قرائن کی حد سے زیادہ کھیتی ہے یا ایسا لا نافیہ عربوں کے کبھی خواب میں بھی نہیں آیا ہوگا۔ ان کے دل تو اسلام کی حقیقت سے بھرے ہوئے تھے۔ تبھی تو سب کے سب بجز معدودے چند کہ جو اس عذاب کو پہنچ گئے تھے اور اس لا نافیہ
٭ واضح ہو کہ قرآن شریف میں نشان مانگنے کے سوالات کفّار کی طرف سے ایک دو جگہ نہیں بلکہ کئی مقامات میں یہی سوال کیا گیا ہے اور اب سب مقامات کو بنظر یکجائی دیکھنے سے ثابت ہوتا ہے کہ کفّار مکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تین قسم کے نشانات مانگا کرتے تھے۔
(۱) وہ نشان جو عذاب کی صورت میں فقط اپنے افتراح سے کفّار مکہ نے طلب کئے تھے۔
(۲) دوسرے وہ نشان جو عذاب کی صورت میں یا مقدمہ عذاب کی صورت میں پہلی اُمتوں پر وارد کئے گئے تھے۔
(۳) تیسرے وہ نشان جس سے پردہ غیبی بُکلّی اُٹھ جائے جس کا اُٹھ جانا ایمان بالغیب کے بُکلّی برخلاف ہے۔ سو عذاب کے نشان ظاہر ہونے کے لئے جو سوال کئے گئے ہیں ان کا جواب تو قرآن شریف میں بھی دیا گیا ہے کہ تم منتظر رہو عذاب نازل ہوگا۔ ہاں ایسی صورت کا عذاب نازل کرنے سے انکار کیا گیا ہے جس کی پہلے تکذیب ہوچکی ہے تا ہم عذاب نازل ہونے کا وعدہ دیا گیا ہے جو آخر غزوات کے ذریعہ سے پورا ہو گیا لیکن تیسری قسم کا نشان دکھلانے سے بُکلّی انکار کیا گیا ہے اور خود ظاہر ہے کہ ایسے سوال کا جواب انکار ہی نہ تھا نہ اور کچھ۔ کیونکہ کفّار کہتے تھے کہ تب ہم ایمان لاویں گے کہ جب ہم ایسا نشان دیکھیں کہ زمین سے آسمان تک نرد بان رکھی جائے اور تو ہمارے دیکھتے دیکھتے اس نرد بان کے ذریعہ سے زمین سے آسمان پر چڑھ جائے اور فقط تیرا آسمان پر چڑھنا ہم ہرگز قبول نہیں کریں گے جب تک آسمان سے ایک کتاب نہ لادے جس کو ہم پڑھ لیں اور پڑھیں بھی اپنے ہاتھ میں لے کر۔ یا تو ایسا کر کہ مکہ کی زمین میں جو ہمیشہ پانی کی تکلیف رہتی ہے۔ شام اور عراق کے ملک کی طرح نہریں جاری ہو جاویں اور جس قدر ابتداء دنیا سے آج تک ہمارے بزرگ مر چکے ہیں سب زندہ ہو کر آ جائیں اور اس میں قصی بن کلاب بھی ہو کیونکہ وہ بڈھا ہمیشہ سچ بولتا تھا۔ اس سے ہم پوچھیں گے کہ تیرا دعویٰ حق ہے یا باطل۔ یہ سخت سخت خود تراشیدہ نشان تھے جو وہ مانگتے تھے اور پھر بھی نہ صاف طور پر بلکہ شرط پر شرط لگانے سے جس کا ذکر جا بجا قرآن شریف میں آیا ہے۔ پس سوچنے والے کے لئے عرب کے شریروں کی ایسی درخواستیں ہمارے سیّد و مولیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات ظاہرہ و آیات بینہ و رسولانہ ہئیت پر صاف صاف اور کھلی کھلی دلیل ہے خدا جانے ان دل کے اندھوں کو ہمارے مولیٰ و آقا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے انوار صداقت نے کس درجہ تک عاجز و تنگ کر رکھا تھا اور کیا کچھ آسمانی تائیدات و برکات کی بارشیں ہو رہی تھیں کہ جن سے خیرہ ہو کر اور جن کی ہیبت سے منہ پھیر کر سراسرٹالنے
سے بڑھ کر اور کونسا لانافیہ ہوگا۔
پھر دوسری آیت کا ترجمہ پیش کیا گیاہے اس میں بھی سیاق و سباق کی آیتوں سے بالکل الگ کر کے اس اعتراض را ردّ کر دیا ہے مگر اصل آیت اور اس کے متعلقات پر نظر ڈالنے سے ہر ایک منصف بصیر سمجھ سکتا ہے کہ آیت میں ایک بھی ایسا لفظ نہیں ہے کہ جو انکار معجزات پر دلالت کرتا ہے بلکہ تمام الفاظ صاف بتلا رہے ہیں کہ ضرور معجزات ظہور میں آئے چنانچہ وہ آیت سعہ اس کے دیگر آیات متعلقہ کے یہ ہے۔
وَاِنْ مِّنْ قَرْیَۃٍ اِلاَّ نَحْنُ مُھْلِلُوْھَا قَبْلَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ او مُعَذِّبُوْھَا عَذَابًا شَدِیْدًا کَانَ ذٰلِکَ فِیْ الْکِتٰبِ مَسْطُوْرًاo وَمَا مَنَعَنَا اَنْ نُرْسِلَ بِا لْاٰیٰتِ اِلاَّ اَنْ کَذَّبَبِھَا الْاَوَّلُوْنَo وَایَیْنَا ثَمُوْدَ النَّاقَۃَ مُبْصِرَۃ فَظَلمُوْابِھَا وَمَا نُرْسِلَ بِالْاٰیٰتِ اِلاَّ تَخْوِیْفًاo فرماتا ہے عزوجل کہ یوں قیامت سے پہلے ہر ایک بستی کو ہم نے ابھی ہلاک کرنا ہے یا عذاب شدید نازل کرنا ہے یہی کتاب میں مندرج ہوچکا ہے۔ مگر اس وقت ہم بعض ان گذشتہ قہری نشانوں کے (جو عذاب کی صورت میں پہلی اُمتوں پر نازل ہو چکے ہیں) اس سے نہیں بھیجتے جو پہلے اُمت کے لوگ اس کی تکذیب کر چکے ہیں۔ چنانچہ ہم نے ثمود کو بطور نشان کے جو مقدمہ عذاب کا تھا ناقہ دیا جو حق نما نشان تھا۔ جس پر انہوں نے ظلم کیا۔ یعنی وہی ناقہ جس کی بسیار خوری اور بسیار نوشی کی وجہ سے شہر حجر کے باشندوں کے لئے جو قوم ثمود میں تھے۔ پانی تالاب کے لئے کوئی چراگاہ رہتی تھی اور ایک سخت تکلیف اور رنج اور بلا میں گرفتار ہوگئی تھی اور قہری نشانوں کے نازل کرنے
(بقیہ حاشیہ گزشتہ صفحہ) اور بھاگنے کی غرض سے ایسی دور از صواب درخواستیں پیش کرتے تھے ظاہر ہے کہ اس قسم کے معجزات کا دکھلانا ایمان بالغیب کی حد سے باہر ہے یوں تو اللہ جلشانہٗ قادر ہے کہ زمین سے آسمان تک زیۃ رکھ دیوے۔ جس کو سب لوگ دیکھ لیویں اور وہ چار ہزار کیا دو کروڑ آدمیوں کو زندہ کر کے ان کے منہ سے اُن کی اولاد کے سامنے صدق نبوت کی گواہی دلا دیوے۔ یہ سب کچھ وہ کر سکتا ہے مگر ذرا سوچ کر دیکھو کہ اس انکشاف تام سے ایمان بالغیب جو مدار ثواب اور اجر ہے دور ہو جاتا ہے اور دنیا نمونہ محشر ہو جاتی ہے۔ پس جس طرح قیامت کے میدان میں جو انکشاف تام کا وقت ہوگا۔ ایمان کام نہیں آتا اِسی طرح ان انکشاف تام سے بھی ایمان لانا کچھ مفید نہیں بلکہ ایمان اسی حد تک ایمان کہلاتا ہے کہ جب کچھ خفا بھی باقی ہے جب سارے پردے کھل گئے تو پھر ایمان ایمان نہیں رہتا۔ اسی وجہ سے سارے نبی ایمان بالغیب کی رعایت سے معجزے دکھلاتے رہے ہیں کبھی کسی نبی نے ایسا نہیں کیا کہ ایک شہر کا شہر زندہ کر کے ان سے اپنی نبوت کی گواہی دلاوے یا آسمان تک نرد بان رکھ کر اور سب کے روبرو چڑھ کر تمام دنیا کو تماشا دکھلاوے۔
سے ہماری غرض یہی ہوتی ہے کہ لوگ اُن سے ڈریں۔ یعنی قہری نشان تو صرف تخویف کیلئے دکھلائے جاتے ہیں۔ پس ایسے قہری نشانوں کے طلب کرنے سے کیا فائدہ جو پہلی اُمتوں نے دیکھ کر انہیں جھٹلا دیا اور اُن کے دیکھنے سے کچھ بھی تخویف و ہراساں نہ ہوئے۔
اس جگہ واضح ہو کہ نشان دو قسم کے ہوتے ہیں۔
(۱) نشان تخویف تعذیب جن کو قہری نشان بھی کہہ سکتے ہیں۔
(۲) نشان تبشیر و تسکین جن کو نشان رحمت سے بھی موسوم کرسکتے ہیں۔ تخویف کے نشان سخت کافروں اور کج دلوں اورنافرمانوں اور بے ایمانوں اور فرعونی طبیعت والوں کیلئے ظاہر کئے جاتے ہیں تا وہ ڈریں اور خدا تعالیٰ کی قہری اور جلالی ہیبت ان کے دلوں پر طاری ہو اور تبشیر کے نشان اُن حق کے طالبوں اور مخلص مومنوں اور سچائی کے متلاشیوں کیلئے ظہور پذیر ہوتے ہیں جو دل کی غربت اور فروتنی سے کامل یقین اور زیادت ایمان کے طلبگار اور تبشیر کے نشانوں سے ڈرانا اور دھمکانا مقصود نہیں ہوتا بلکہ اپنے اُن مطیع بندوں کو مطمئن کرنا اور ایمانی اور یقینی حالات میں ترقی دینا اور ان کے مضطرب سینہ پر دست شفقت و تسلی رکھنا مقصود ہوتا ہے۔ سو مومن قرآن شریف کے وسیلہ سے ہمیشہ تبشیر کے نشان پاتا رہتا ہے اور ایمان اور یقین میں ترقی کرتا جاتا ہے۔ تبشیر کے نشانوں سے مومن کو تسلی ملتی ہے اور وہ اضطراب جو فطرتًا انسان میں ہے جاتا رہتا ہے اور سکینت دل پر نازل ہوتی ہے۔ مومن ببرکت اتباع کتاب اللہ اپنی عمر کے آخری دن تک تبشیر کے نشانوں کو پاتا رہتا ہے اور تسکین اور آرام بخشنے والے نشان اس پر نازل ہوتے رہتے ہیں تا وہ یقین اور معرفت میں بے نہایت ترقیاں کرتا جائے اور حق الیقین تک پہنچ جائے اور تبشیر کے نشانوں میں ایک لطف یہ ہوتا ہے کہ جیسے مومن کے ان نزول سے یقین اور معرفت اور قوت ایمان میں ترقی کرتا ہے ایسا ہی وہ بوجہ مشاہدہ الاء و نعماء الٰہی و احسانات ظاہرہ و باطنہ و جلیہ و خفیہ حضرت باری عزاسمہٗ جو تبشیر کے نشانوں میں بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ محبت وعشق میں بھی دن بدن بڑھتا جاتا ہے سو حقیقت میں عظیم الشان اور قوی الاثر اور مبارک اور موصل الی المقصود تبشیر کے نشان ہی ہوتے ہیں جو سالک کو معرفت کاملہ اور محبت ذاتیہ کی اس مقام تک پہنچا دیتے ہیں جو اولیاء اللہ کے لئے منتہیٰ المقامات ہے اور قرآن شریف میں تبشیر کے نشانوں کا بہت کچھ ذکر ہے۔ یہاں تک کہ اس نے اُن نشانوں کو محدود نہیں رکھا بلکہ ایک دائمی وعدہ دے دیا ہے کہ قرآن شریف کے سچے متبع ہمیشہ ان نشانوں کو پاتے رہیں گے جیسا کہ وہ فرماتا ہے لھم البشریٰ فی الحیوۃ الدنیا و فی الاخرۃ لاتبدیل لکمت اللہ ذٰلک ھو الفوز العظیم۔ یعنی ایماندار لوگ دنیوی زندگی اور آخرت میں بھی تبشیر کے پاتے رہیں گے۔ جن کے ذریعے سے وہ دنیا اور آخرت میں معرفت اور محبت کے میدانوں میں ناپیداکنار ترقیاں کرتے جائیں گے یہ خدا کی باتیں ہیں جو کبھی نہیں ٹلیں گی اور تبشیر کے نشانوں کو پا لینا یہی فوز عظیم ہے (یعنی یہی ایک امر ہے جو محبت اور معرفت کے منتہیٰ مقام تک پہنچا دیتا ہے)۔
اب جاننا چاہئے کہ خدا تعالیٰ نے اس آیت میں جو معترض نے بصورت اعتراض پیش کی ہے صرف تخویف کے نشانوں کا ذکر کیا ہے۔ جیسا کہ آیت وَمَا نُرْسِلُ بِالْاٰیٰتِ اِلاَّ تَخْوِیْفًاسے ظاہر ہو رہا ہے کیونکہ اگر خدا تعالیٰ کے کل نشانوں کو قہری نشانوں میں ہی محصور سمجھ کر اس آیت کے یہ معنی کئے جائیں کہ ہم تمام نشانوں کو محض تخویف ہی کی غرض سے بھیجا کرتے ہیں اور کوئی دوسری غرض نہیں ہوتی۔ تو یہ معنی بہ بداہت باطل ہیں جیسا کہ ابھی بیان ہوچکا ہے کہ نشان دو غرضوں سے بھیجے جاتے ہیں یا تخویف کی غرض سے یا تبشیر کی غرض سے انہیں دو قسموں کو قرآن شریف اور بائبل بھی جا بجا ظاہر کر رہی ہے۔ پس جب کہ نشان دو قسم کے ہوئے تو آیت ممدوح بالا میں جو لفظ آیات ہے (جس کے معنی وہ نشانات) بہرحال اسی تاویل پر بصحت منطبق ہوگا کہ نشانوں سے قہری نشان مراد ہیں کیونکہ اگر یہ معنی نہ لئے جائیں تو پھر اس سے یہ لازم آتا ہے کہ تمام نشانات جو تحت قدرت الٰہی داخل ہیں۔ تخویف کے قسم میں ہی محصور ہیں حالانکہ فقط تخویف کی قسم میں ہی سارے نشانوں کا حصر سمجھنا سراسر خلاف واقعہ ہے کہ جو نہ کتاب اللہ کی رو سے اور نہ عقل کی رو سے اور نہ کسی پاک دل کے کانشنس کی رو سے درست ہو سکتا ہے۔
اب چونکہ اس بات کا صاف فیصلہ ہو گیا کہ نشانوں کے دو قسموں میں سے صرف تخویف کے نشانوں کا آیات موصوفہ بالا میں ذکر ہے تو یہ دوسرا مرتنقیح طلب باقی رہا کہ کیا اس آیت کے (جو مامنعنا الخ ہے) یہ معنی سمجھنے چاہئیں کہ تخویف کا کوئی نشان خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر ظاہر نہیں کیا یا یہ سمجھنے چاہئیں کہ تخویف کے نشانوں میں سے وہ نشان ظاہر نہیں کئے گئے جو پہلی اُمتوں کو دکھلائے گئے تھے اور یا یہ تیسرے معنی قابل اعتبار ہیں کہ دونوں قسم کے تخویف کے نشان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے ظاہر ہوتے رہیں۔ بجز ان خاص قسم کے بعض نشانوں کے جن کو پہلی اُمتوں نے دیکھ کر جھٹلا دیا تھا اور ان کو معجزہ نہیں سمجھا تھا۔
سو واضح ہو کہ آیات متنازعہ فیہا پر نظر ڈالنے سے بتمام تر صفائی کھل جاتا ہے کہ پہلے اور دوسرے معنی کسی طرح درست نہیں کیونکہ آیت ممدوحہ بالا کے یہ معنی لینا کہ تمام انواع و اقسان کے وہ تخویفی نشان جو ہم بھیج سکتے ہیں اور تمام وہ وراء الوراء تعذیبی نشان جن کے بھیجنے پر غیر محدود طور پر ہم قادر ہیں اس لئے ہم نے نہیں بھیجے کہ پہلی اُمتیں اس کی تکذیب کر چکی ہیں یہ معنی سراسر باطل ہیں کیونکہ ظاہر ہے کہ پہلی اُمتوں نے انہیں نشانوں کی تکذیب کی جو انہوں نے دیکھے تھے وجہ یہ کہ تکذیب کیلئے یہ ضرور ہے کہ جس چیز کی تکذیب کی جائے۔ اوّل اس کا مشاہدہ بھی ہو جائے جس نشان کو ابھی دیکھا ہی نہیں اس کی تکذیب کیسی۔ حالانکہ نادیدہ نشانوں میں سے ایسے اعلیٰ درجہ کے نشان بھی تخت قدرت باری تعالیٰ ہیں جن کی کوئی انسان تکذیب نہ کر سکے اور سب گردنیں ان کی طرف جھک جائیں کیونکہ خدا تعالیٰ ہر ایک رنگ کا نشان دکھلانے پر قادر ہے اور پھر چونکہ نشان ہائے قدرت باری تعالیٰ غیر محدود اور غیر متناہی ہیں تو پھر یہ کہنا کیونکر درست ہو سکتا ہے کہ محدود زمانہ میں وہ سب دیکھے بھی گئے اور ان کی تکذیب بھی ہوگئی۔ وقت محدود میں تو وہی چیز دیکھی جائے گی جو محدود ہوگی۔ بہرحال اس آیت کے یہی معنی صحیح ہوں گے کہ جو بعض نشانات پہلے کفّار دیکھ چکے تھے اور ان کی تکذیب کر چکے تھے۔ ان کا دوبارہ بھیجنا عیب سمجھا گیا جیسا کہ قرینہ بھی انہیں معنوں پر دلالت کرتا ہے یعنی اس موقعہ پر جو ناقہ ثمود کا خدا تعالیٰ نے ذکر کیا ہے وہ ذکر ایک بھاری قرینہ اس بات پر ہے کہ اس جگہ گذشتہ اور ردّ کردہ نشانات کا ذکر ہے جو تخویف کے نشانوں میں سے تھے اور یہی تیسرے معنی ہیں جو صحیح اور درست ہیں۔
پھر اس جگہ ایک اور بات منصفین کے سوچنے کے لائق ہے جس سے اُن پر ظاہر ہوگا کہ آیت وما منعنا ان ترسل بالایت الخ سے ثبوت معجزات ہی پایا جاتا ہے نہ نفی معجزات کیونکہ الایت کے لفظ پر جو الف لام واقعہ ہے وہ بموجب قواعد نحو کے دو صورتوں سے خالی نہیں یا کل کے معنی دے گا یا خاص کے۔ اگر کل کے معنی دے گا تو یہ معنی کئے جائیں گے کہ ہمیں کل معجزات کے بھیجنے سے کوئی امر مانع نہیں ہوا مگر اگلوں کا ان کو جھٹلانا اور اگر خاص نشانیوں کے بھیجنے سے (جنہیں منکر طلب کرتے ہیں) کوئی امر مانع نہیں ہوا مگر یہ کہ ان نشانیوں کو اگلوں نے جھٹلایا بہرحال ان دونوں صورتوں میں نشانوں کا آنا ثابت ہوتا ہے۔ کیونکہ اگر یہ معنی ہوں کہ ہم نے ساری نشانیاں بوجہ تکذیب امم گذشتہ نہیں بھیجیں تو اس سے بعض نشانوں کا بھیجنا ثابت ہوتا ہے جیسے مثلاً اگر کوئی کہے کہ میں نے اپنا سارا مال زید کو نہیں دیا تو اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ اس نے کچھ حصہ اپنے مال کا زید کو ضرور دیا ہے اور اگر یہ معنی لیں کہ بعض خاص نشان ہم نے نہیں بھیجے تو بھی بعض دیگر کا بھیجنا ثابت ہے۔ مثلاً اگر کوئی کہے کہ بعض خاص چیزیں میں نے زید کو نہیں دیں تو اس سے صاف پایا جائے گا کہ بعض دیگر ضروری ہیں بہرحال جو شخص اوّل اس آیت کے سیاق و سباق کی آیتوں کو دیکھے کہ کیسی وہ دونوں طرف کے عذاب کے نشانوں کا قصہ بتلا رہی ہیں اور پھر ایک دوسری نظر اُٹھاوے اور خیال کرے کہ کیا یہ معنی صحیح اور قرین قیاس ہیں کہ خدا تعالیٰ کے تمام نشانوں اور عجائب کاموں کی جو اس کی بے انتہا قدرت سے وقتاً فوقتاً پیدا ہونے والے اور غیر محدود ہیں پہلے لوگ اپنے محدود زمانہ میں تکذیب کرچکے ہوں اور پھر ایک تیسری نظر منصفانہ سے کام لے کر سوچے کہ کیا اس جگہ تخویف کے نشانوں کا ایک خاص بیان ہے یا تبشیر اور رحمت کے نشانوں کا بھی کچھ ذکر ہے اور پھر ذرا چوتھی نگاہ الایات کے الف لام پر بھی ڈال دیوے کہ وہ کن معنوں کا افادہ کر رہا ہے تو اس چار طور کی نظر کے بعد بجز اس کے کہ کوئی تعصب کے باعث حق پسندی سے بہت دور جا پڑا ہو ہر ایک شخص اپنے اندر سے نہ ایک شہادت بلکہ ہزاروں شہادتیں پائے گا کہ اس جگہ نفی کا حرف صرف نشانوں کے ایک قسم خاص کی نفی کیلئے آیا ہے جس کا دوسرے اقسام پر کچھ اثر نہیں بلکہ اس سے ان کا متحقق الوجود ہونا ثابت ہو رہا ہے اور ان آیات میں نہایت صفائی سے اللہ جلشانہ بتلا رہا ہے کہ اس وقت تخویفی نشان جن کی یہ لوگ درخواست کرتے ہیں صرف اس وجہ سے نہیں بھیجے گئے کہ پہلی آیتیں ان کی تکذیب کر چکی ہیں۔ سو جو نشان پہلے ردّ کئے گئے اب بار بار انہیں کو نازل کرنا کمزوری کی نشانی ہے اور غیر محدود قدرتوں والے کی شان سے بعید۔ پس ان آیات میں یہ صاف اشارہ ہے کہ عذاب کے نشان ضرورنازل ہوں گے مگر اور رنگوں میں یہ کیا ضرورت ہے کہ وہی نشان حضرت موسیٰ علیہ السلام کے یا وہی نشان حضرت نوع علیہ السلام اور قوم لوط علیہ السلام اور عاد علیہ السلام اور ثمود علیہ السلام کے ظاہر کئے جائیں۔ چنانچہ ان آیات کی تفصیل دوسری آیات میں زیادہ تر کئی گی ہے جیسا کہ اللہ جلشانہ فرماتا ہے۔
وان یروا کل اٰیۃ لا یؤمنوا بھا حتی اذا جاؤک یجادو لونک واذا جاء تھم اٰیۃ قالوا لن نؤمن حتی نؤتی مثل ما اوتی رسلہ اللّٰہ اللّہٗ اعل حیث یجعل رسالتہٗ قل انی علی بینۃ من ربی وکذبتم بہ ماعندی ماتستعجلون بہ ان الحکم الا اللّٰہ یقص الحق وھو خیر الفاصلینo قد جاء کم بصائر منربکم فمن ابصر فلنفسہ و من عمی فعلیھا وما انا علیکم بحفیظo ویستعجلونک بالعذابo قل ھوالقادر علی ان یبعث علیکم عذابا من فوقھما ومن تحت ارجلکم اویلبسکم شیعا یذیق بعضکم باس بعضo قل الحمدللّٰہ سبریکم ایایتہ فتعرفونھا قل لکم میعاد یوم لا تستاخرون ساعۃ ولا تستقدمون ویسئلونک احق ھو قل ای دربی انہ الحق وما انتم بمعجزینo سندیھم ایاتنا فی الافاق رفی انفسھم حتی یتبین لھم انہ الحق خلق الانسان من عجل ساریکم ایتی فلا تستعجلونo یعنی یہ تمام لوگ نشانوں کو دیکھ کر ایمان نہیں لاتے۔ پھر جب تیرے پاس آتے ہیں تو تجھ سے لڑتے ہیں اور جب کوئی نشان پاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم کبھی نہیں مانیں گے۔ جب تک ہمیں خود ہی وہ باتیں حاصل نہ ہوں جو رسولوںکو ملتی ہیں کہ میں کامل ثبوت لے کر اپنے ربّ کی طرف سے آیا ہوں اور تم اس ثبوت کو دیکھتے ہو اور پھر تکذیب کر رہے ہو جس چیز کو تم جلدی سے مانگتے ہو (یعنی عذاب) وہ تو میرے اختیار میں نہیں۔ حکم اخیر صادر کرنا تو خدا ہی کا منصب ہے وہی حق کو کھول دے گا اور وہی خیر الفاصلین ہے جو ایک دن میرا اور تمہارا فیصلہ کر دے گا خدا نے میری رسالت پر روشن نشان تمہیں دیئے ہیں۔ سو جو ان کو شناخت کرے اس نے اپنے نفس کو فائدہ پہنچایا اور جو اندھا ہو جائے اس کا وبال بھی اسی پر ہے میں تم پر نگہبان نہیں اور تجھ سے عذاب کیلئے جلدی کرتے ہیں کہ وہی پروردگار اس بات پر قادر ہے کہ اوپر سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے کوئی عذاب تم پر بھیجے اور چاہے تو تمہیں دو فریق بنا کرایک فریق کی لڑائی کا دوسرے کو مزا چکھا دے اور کہ سب خوبیاں اللہ کے لئے ہیں۔ وہ تمہیں ایسے نشان دکھلائے گا جنہیں تم شناخت کر لو گے اور کہ تمہارے لئے ٹھیک ٹھیک ایک برس کی میعاد ہے٭ نہ اس سے تم تاخیر کر سکو گے نہ تقدیم اور تجھ سے
٭ یوم سے مراد اس جگہ برس ہے۔ چنانچہ بائبل میں بھی یہ محاورہ پایا جاتا ہے سو پورے برس کے بعد بدر کی لڑائی کا عذاب مکہ والوں پر نازل ہوا۔ جو پہلی لڑائی تھی۔
پوچھتے ہیں کہ کیا یہ سچ بات کہ ہاں مجھے قسم ہے اپنے ربّ کی کہ یہ سچ ہے اور تم خدا تعالیٰ کو اس کے وعدوں سے روک نہیں سکتے ہم عنقریب ان کواپنے نشان دکھلائیں گے۔ ان کے ملک کے اردگرد میں اور خود اُن میں بھی یہاں تک کہ اُن کپر کھل جائے گا کہ یہ نبی سچا ہے۔ انسان کی فطرت میں جلدی ہے میں عنقریب تمہیں اپنے نشان دکھلاؤں گا۔ سو تم مجھ سے تو جلدی مت کرو۔
اب دیکھو کہ ان آیات میں نشان مطلوبہ کے دکھلانے کے بارے میں کیسے صاف اور پختہ وعدے دیئے گئے ہیں۔ یہاں تک کہ یہ بھی کہا گیا کہ ایسے کھلے کھلے نشانات دکھلائے جائیں گے کہ تم ان کو شناخت کر لو گے اور اگر کوئی کہے کہ یہ تو ہم نے مانا کہ عذاب کے نشانوں کے بارے میں جابجا قرآن شریف میں وعدے دیئے گئے ہیں کہ وہ ضرور کسی دن دکھلائے جائیں گے اور یہ بھی ہم نے تسلیم کیا کہ وہ سب وعدے اس زمانہ میںپورے بھی ہوگئے کہ جب کہ خدا تعالیٰ نے اپنی خداوندی قدرت دکھلا کر مسلمانوں کی کمزوری اور ناتوانی کو دور کر دیا اور معدودے چند سے ہزار ہا تک ان کی نوبت پہنچا دی اور ان کے ذریعہ سے ان تمام کفّار کو تہ تیغ کیا جو مکہ میں اپنی سرکشی اور جو رو جفا کے زمانہ میں نہایت تکبر سے عذاب کا نشان مانگا کرتے تھے لیکن اس بات کا ثبوت قرآن شریف سے کہاں ملتا ہے کہ بجز اُن نشانوں کے اور بھی نشان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھلائے تھے سو واضح ہو کہ نشانوں کے دکھلانے کا ذکر قرآن شریف میں جا بجا آیا ہے۔ بعض جگہ اپنے پہلے نشانوں کا حوالہ بھی دیا ہے دیکھو آیت کمالم یومنوا بہ اوّل مرۃ الجزو نمبر۷ سورۃ انعام۔ بعض جگہ کفّار کی ناانصافی کا ذکر کر کے ان کا اس طور کا اقرار درج کیا ہے کہ وہ نشانوں کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ وہ جادو ہے۔ دیکھو آیت وان یروا ایۃً یعرضوا ویقولو سحر مستمرہ (الجزو نمبر۲۷ سورۃ القمر) بعض جگہ جو نشان کے دیکھنے کا صاف اقرار منکرین نے کر دیا ہے وہ شہادتیں ان کی پیش کی ہیں۔ جیسا کہ فرماتا ہے۔
وشھدوا ان الرسول حق وجاء ھم البینٰت یعنی انہوں نے رسول کے حق ہونے پر گواہی دی اور کھلے کھلے نشان ان کو پہنچ گئے اور بعض جگہ بعض معجزات کو بتصریح بیان کر دیا ہے جیسے معجزہ شق القمر جو ایک عظیم الشان معجزہ اور خدائی قدرت کا ایک کامل نمونہ ہے جس کی تصریح ہم نے کتاب سرمہ چشم آریہ میں بخوبی کر دی ہے جو شخص مفصل دیکھنا چاہے اس میں دیکھ سکتا ہے۔ اس جگہ یہ بھی یاد رہے کہ جو لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے خود تراشیدہ نشان مانگا کرتے تھے اکثر وہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نشانوں کے آخر کار گواہ بھی بن گئے تھے کیونکہ آخر وہی لوگ تو تھے جنہوں نے مشرف باسلام ہو کر دین اسلام کو مشارق و مغارب میں پھیلایا اور نیز معجزات اور پیشگوئیوں کے بارے میں کتب حدیث میں اپنی رویت کی شہادتیں قلمبند کرائیں۔ پس اس زمانہ میں ایک عجیب طرز ہے کہ ان بزرگان دین کے اس زمانہ جاہلیت کے انکاروں کو بار بار پیش کرتے ہیں جن سے بالآخر خود وہ دست کش اور تائب ہوگئے تھے لیکن اُن کی اُن شہادتوں کو نہیں مانتے جو راہ راست پر آنے کے بعد انہوں نے پیش کی ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات تو چاروں طرف سے چمک رہے ہیں وہ کیونکر چھپ سکتے ہیں صرف معجزات جو صحابہ کی شہادتوں سے ثابت ہیں وہ تین ہزار معجزہ ہے اور پیش گوئیاں تو شاید دس ہزار سے بھی زیادہ ہوں گی جو اپنے وقتوں پر پوری ہوگئیں اور ہوتی جاتی ہیں۔ ماسوائے اس کے بعض معجزات و پیشگوئیاں قرآن شریف کی ایسی ہیں کہ وہ ہمارے لئے جو اس زمانہ میں ہیں مشہود و محسوس کا حکم رکھتی ہیں اور کوئی ان سے انکار نہیں کر سکتا چنانچہ وہ یہ ہیں۔
(۱) عذابی نشان کا معجزہ جو اس وقت کے کفّار کو دکھلایا گیا تھا یہ ہمارے لئے بھی فی الحقیقت ایسا ہی نشان ہے جس کو چشمدید کہنا چاہئے وجہ کہ یہ نہایت یقینی مقدمات کا ایک ضروری نتیجہ ہے جس سے کوئی موافق اور مخالف کسی صورت سے انکار نہیں کر سکتا اور یہ مقدمہ جو بطور بنیاد معجزہ کے ہے نہایت بدیہی اور مسلم الثبوۃ ہے کہ یہ عذابی نشان اس وقت مانگا گیا تھا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور چند رفیق آنجناب کہ مکہ میں دعوت حق کی سے خود صدہا تکالیف اور دوروں اور دکھوں میں مبتلا تھے اور وہ ایام دین اسلام کے لئے ایسے ضعف اور کمزوری کے دن تھے کہ خود کفار مکہ ہنسی اور ٹھٹھہ کی راہ سے مسلمانوں کو کہا کرتے تھے کہ اگر تم حق پر ہو تو اس قدر عذاب اور مصیبت اور دکھ اور درد ہمارے ہاتھ سے کیوں تمہیں پہنچ رہا ہے اور وہ خدا جس پر تم بھروسہ کرتے ہو وہ کیوں تمہاری مدد نہیں کرتا اور کیوں تم کوایک قدر قلیل جماعت جو عنقریب نابود ہونے والی ہے اور اگر تم سچے ہو تو کیوں ہم پر عذاب نازل نہیں ہوتا ان سوالات کے جواب میں جو کچھ کفّار کو قرآن شریف کے متفرق مقامات میں ایسے زنانہ تنگی و تکالیف میں کہا گیا وہ دوسرا مقدمہ اس پیشگوئی کی عظمت شان سمجھنے کیلئے ہے کیونکہ وہ زمانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہؓ پر ایسا نازک زمانہ تھا کہ ہر وقت اپنی جان کا اندیشہ تھا اور چاروں طرف ناکامی منہ دکھلا رہی تھی سو ایسے زمانہ میں کفّار کو اُن سے عذابی نشان مانگنے کے وقت صاف صاف طور پر یہ کہا گیا تھا کہ عنقریب تمہیں اسلام کی فتح مندی اور تمہارے سزایاب ہونے کا نشان دکھلایا جائے گا اور اسلام جو اَبْ ایک تخم کی طرح نظر آتا ہے کسی دن ایک بزرگ درخت کی مانند اپنے تئیں ظاہر کرے گا اور وہ جو عذاب کا نشان مانگتے ہیں وہ تلوار کی دھار سے قتل کئے جائیں گے اور تمام جزیرہ عرب کفر اور کافروں سے صاف کیا جائے گا اور تمام کی حکومت مومنوں کے ہاتھ میں آ جائے گی اور خدا تعالیٰ دین اسلام کو عرب کے ملک میں ایسے طور سے جمادے گا کہ پھر بت پرستی کبھی پیدا نہیں ہوگی اور حالت موجودہ جو خوف کی حالت ہے بکلی امن کے ساتھ بدل جائے گی اور اسلام قوت پکڑے گا اور غالب ہوتا چلا جائے گا۔ یہاں تک کہ دوسرے ملکوں پر اپنی نصرت اور فتح کا سایہ ڈالے گا اور دور دور تک اس کی فتوحات پھیل جائے گی اور ایک بڑی بادشاہت قائم ہو جاوے گی جس کا اخیر دنیا تک زوال نہیں ہوگا۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
اب جو شخص پہلے ان دونوں مقدمات پر نظر ڈال کر معلوم کر لیوے کہ وہ زمانہ جس میں یہ پیشگوئی کی گئی اسلام کے لئے کیسی تنگی اور ناکامی اور مصیبت کا زمانہ تھا اور جو پیشگوئی کی گئی وہ کسی قدر حالت موجودہ سے مخالف اور خیال اور قیاس سے نہایت بعید بلکہ صریح محالات عادیہ سے نظر آتی تھی۔ پھر بعد اس کے اسلام کی تاریخ جو دشمنوں اور دوستوں کے ہاتھ میں موجود ہے۔ ایک منصفانہ نظر ڈالے کہ کیسی صفائی سے یہ پیشگوئی پوری ہوگئی اور کس قدر دلوں پر ہیبت ناک اثر اس کا پڑا اور کیسے مشارق اور مغارب میں تمام تر قوت اور طاقت کے ساتھ اس کا ظہور ہوا تو اس پیشگوئی کو یقینی اور قطعی طور پر چشمدیدہ معجزہ قرار دے گا جس میں اس کو کوئی شک و شبہ نہ ہوگا۔
پھر دوسرا معجزہ قرآن شریف کاجو ہمارے لئے حکم مشہود و محسوس کا رکھتا ہے وہ عجیب و غریب تبدیلیاں ہیں جو اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ببرکت پیروی قرآن شریف و اثر صحبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ظہور میں آئیں۔ جب ہم اس بات کو دیکھتے ہیں کہ وہ لوگ مشرف باسلام ہونے سے پہلے کیسے اور کس طریق اور عادت کے آدمی تھے اور پھر بعد شرف صحبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم و اتباع قرآن شریف کس رنگ میں آ گئے اور کیسے اخلاق میں عقاید میں چلن میں گفتار میں رفتار میں کردار میں اور اپنی جمیع عادات میں خبیث حالت سے منتقل ہو کر نہایت طیب اور پاک حالت میں داخل کئے گئے تو ہمیں اس تاثیر عظیم کو دیکھ کر جس نے ان کے زنگ خوردہ وجودوں کو ایک عجیب تازگی اور دشمنی اور چمک بخش دی تھی۔ اقرار کرنا پڑتا ہے کہ یہ تصرف ایک خارق عادت تصرف تھا جو خاص خدا تعالیٰ کے ہاتھ نے کیا۔ قرآن شریف میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے ان کو مردہ پایا اور زندہ کیا اور جہنم کے گڑھے میں گرتے دیکھا تو حولناک حالت سے چھڑایا۔ بیمار پایا اور اُسے اچھا کیا۔اندھیرے میں پایا انہیں روشنی بخشی اور خدا تعالیٰ نے اس اعجاز کے دکھلانے کے لئے قرآن شریف میں ایک طرف عرب کے لوگوں کی وہ خراب حالتیں لکھیں ہیں جو اسلام سے پہلے وہ رکھتے تھے اور دوسری طرف ان لوگوں کے وہ پاک حالات بیان فرمائے ہیں جو اسلام لانے کے بعد ان میں پیدا ہوگئے تھے کہ تا جو شخص ان پہلے حالات کو دیکھے جو کفر کے زمانہ میں تھے اور مقابل اس کے وہ حالت پڑھے جو اسلام لانے کے بعد ظہور پذیر ہوگئی تو ان دونوں طور کے سوانح پر مطلع ہونے سے بہ یقین کامل سمجھ لیوے گا کہ یہ تبدیلی ایک خارق عادت تبدیلی ہے جسے معجزہ کہنا چاہئے۔
پھر تیسرا معجزہ قرآن شریف کا جو ہماری نظروںکے سامنے موجود ہے اس کے حقائق و معارف و نکات لطائف ہیں جو اس کی بلیغ و فصیح عبارات میں بھرے ہوئے ہیں۔ اس معجزہ کو قرآن شریف میں بڑی شدومد سے بیان کیا گیا ہے اور فرمایا ہے کہ تمام جن و انس اکٹھے ہو کر اس کی نظیر بنانا چاہیں تو اُن کے لئے ممکن نہیں یہ معجزہ اس دلیل سے ثابت اور متحقق الوجود ہے کہ اس زمانہ تک کہ تیرہ سَو برس سے زیادہ گزر رہا ہے باوجود یہ کہ قرآن شریف کی ندا دنیا کے ہر ایک نواح میں ہو رہی ہے کہ بڑے زور سے ھل من معارض کا نقارہ بجایا جاتا ہے۔ مگر کبھی کسی طرف سے آواز نہیں آئی۔ پس اس سے اس بات کا صریح ثبوت ملتا ہے کہ تمام انسانی قوتیں قرآن شریف کے مقابلہ و معارضہ سے عاجز ہیں بلکہ اگر قرآن شریف کی صدہا خوبیوں میں سے صرف ایک خوبی کو پیش کر کے اس کی نظیر مانگی جائے تو انسان ضعیف البیان سے یہ بھی ناممکن ہے کہ اس کے ایک جزو کی نظیر پیش کر سکے۔ مثلاً قرآن شریف کی خوبیوں میں سے ایک یہ بھی خوبی ہے کہ وہ تمام معارف دینیہ پر مشتمل ہے اور کوئی دینی سچائی جو حق اور حکمت سے تعلق رکھتی ہے۔ ایسی نہیں جو قرآن شریف میں پائی نہ جاتی ہو۔ مگر ایسا شخص کون ہے کہ کوئی دوسری کتاب ایسی دکھلائے جس میں یہ صفت موجود ہو اور اگر کسی کو اس بات میں شک ہو کہ قرآن شریف جامع تمام حقائق دینیہ ہے تو ایسا متشکک خواہ عیسائی ہو خواہ آریہ اور خواہ برہمو ہو خواہ دہریہ اپنی طرز اور طور پر امتحان کر کے اپنی تسلی کرا سکتا ہے درہم تسلی کر دینے کے ذمہ دار ہیں۔ بشرطیکہ کوئی طالب حق ہماری طرف رجوع کرے۔ بائبل میں جس قدر پاک صداقتیں ہیں یا حکماء کی کتابوں میں جس قدر حق و حکمت کی باتیںہیں جن پر ہماری نظر پڑی ہے یا ہندوؤں کے وید وغیرہ ہیں جو اتفاقاً بعض سچائیاں درج ہوگئی ہیں یا باقی رہ گئی ہیں جن کو ہم نے دیکھا ہے یا صوفیوں کی صدہاکتابوں میں جو حکمت و معرفت کے نکتے ہیں۔ جن پر ہمیں اطلاع ہوئی ہے اُن سب کو ہم قرآن شریف میں پاتے ہیں اور اس کامل استقراء سے جو چونتیس برس کے عرصہ میں نہایت عمیق اور محیط نظر کے ذریعہ سے ہم کو حاصل ہے نہایت قطع اور یقین سے ہم پر یہ بات کھل گئی ہے کہ کوئی روحانی صداقت جو تکمیل نفس اور دماغی اور دلی قویٰ کی تربیت کے کئے اثر رکھتی ہے ایسی نہیں جو قرآن شریف میں درج نہ ہو اور یہ صرف ہمارا ہی تجربہ نہیں بلکہ یہی قرآن شریف کا دعویٰ بھی ہے جس کی آزمائش نہ فقط میںنے کی بلکہ ہزار ہا علماء ابتداء سے کرتے آئے اور اس کی سچائی کی گواہی دیتے چلے آئے ہیں۔
پھر چوتھا معجزہ قرآن شریف کا اس کے روحانی تاثیرات ہیں جو ہمیشہ اس میں محفوظ چلے آتے ہیں یعنی یہ کہ اس کی پیروی کرنے والے قبولیت الٰہی کے مراتب کو پہنچ ہیں اور مکالمات الٰہیہ سے مشرف کئے جاتے ہیں۔ خدا تعالیٰ ان کی دعاؤں کو سنتا اور انہیں محبت اور رحمت کی راہ سے جواب دیتا ہے اور بعض اسرار غیبیہ پر نبیوں کی طرح ان کو مطلع فرماتا ہے اور اپنی تائید اور نصرت کے نشانوں سے دوسرے مخلوقات سے انہیں ممتاز کرتا ہے۔ یہ بھی ایسا نشان ہے کہ جو قیامت تک اُمت محمدیہ میں قائم رہے گا اور ہمیشہ ظاہر ہوتا چلا آیا ہے اور اب بھی موجود اور محقق الوجود ہے مسلمانوں میں سے اب بھی ایسے لوگ دنیا میں پائے جاتے ہیں کہ جن کو اللہ جلشانہٗ اپنی تائیدات خاصہ سے موید فرما کر الہامات صحیحہ و صادقہ و مبشرات و مکاشفات یبہ سے سرفراز فرماتا ہے۔
اب اے حق کے طالبو اور سچے نشانوں کے بھوک اور پیاس انصاف سے دیکھو اور ذرا پاک نظر سے غور کرو کہ جن نشانوں کا خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں ذکر کیا ہے کس اعلیٰ درجہ کے نشان ہیں اور کیسے ہر زمانہ کیلئے مشہود محسوس کا حکم رکھتے ہیں۔ پہلے نبیوں کے معجزات کا اب نام و نشان باقی نہیں صرف قصی ہیں۔ خدا جانے ان کی اصلیت کہاں تک درست ہے۔ بالخصوص حضرت مسیح کے معجزات و انجیلوں میں لکھے ہیں باجود قصوں اور کہانیوں کے رنگ میں ہونے کے اور باوجود بہت سے مبالغات کے جو ان میں پائے جاتے ہیں۔ ایسے شکوک و شبہات ان پر وارد ہوتے ہیں کہ جن سے انہیں بُکلّی صاف و پاک کر کے دکھلانا بہت مشکل ہے اور اگر ہم فرض کے طور پر تسلیم بھی کر لیں کہ جو کچھ اناجیل مروجہ میں حضرت مسیح کی نسبت بیان کیا گیا ہے کہ لولے اور لنگڑے اور مفلوج اور اندھے وغیرہ بیمار ان کے چھونے سے اچھے ہو جاتے تھے۔ یہ تمام بیان بلامبالغہ ہے اور ظاہر پر ہی محمول ہے کوئی اور معنی اس کے نہیں۔ تب بھی حضرت مسیح کی ان باتوں سے کوئی بڑی خوبی ثابت نہیں ہوتی۔ اوّل تو انہیں دنوں میں ایک تالاب بھی ایسا تھا کہ اس میں ایک وقت خاص میں غوطہ مارنے سے ایسی سب مرضیں فی الفوردور ہو جاتی تھیں۔ جیسا کہ خود انجیل مذکور ہے۔ پھر ماسوائے اس کے زنانہ دراز کی تحقیقاتوں نے اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ بلکہ صلب امراض منجملہ علوم کے ایک علم ہے جس کے اب بھی بہت لوگ مشاق پائے جاتے ہیں جس میں شدت توجہ اور دماغی طاقتوں کے خرچ کرنے اور جذب خیال کا اثر ڈالنے کی مشق درکار ہے۔ سو اس علم کو نبوت سے کچھ علاقہ نہیں بلکہ مرد صالح ہو نا بھی اس کے لئے ضروری نہیں اور قدیم سے یہ علم رائج ہوتا چلا آیا ہے۔ مسلمانوں میں بعض اکابر جیسے محی الدین عربی صاحب فصوص اور بعض نقشبندیوں کے اکابر اس کام میں مشاق گزرے ہیں۔ ایسے کہ ان کے وقت میں ان کی نظیر پائی نہیں گئی بلکہ بعض کی نسبت ذکر کیا گیا ہے کہ وہ اپنی کامل توجہ سے باذنہٖ تعالیٰ تازہ مردوں سے باتیں کر کے دکھلا دیتے تھے٭ اور دو دو تین تین سَو بیماروں کو اپنے دائیں بائیں بٹھلا کر ایک ہی نظر سے تندرست کر دیتے تھے اور بعض جو مشق میں کمزو رتھے وہ ہاتھ لگا کر یا کپڑے کو چھو کر شفا بخشتے تھے۔ اس مشق میں عامل کچھ ایسا احساس کرتا ہے کہ گویا اس کے اندر سے بیمار پر اثر ڈالنے کے وقت ایک قرت نکلتی ہے اور بسا اوقات بیمار کو بھی یہ مشہود ہوتا ہے کہ اس کے اندر سے ایک زہر یا مادہ حرکت کر کے سفلی اعضاء کی طرف اُترتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ بُکلّی … ہو جاتا ہے۔ اس علم میں اسلام میں بہت سی تالیفیں موجود ہیں اور میں خیال کرتا ہوں کہ
٭ تازہ مردوں کا عمل توجہ سے چند منٹ یا چند گھنٹوں کیلئے زندہ ہو جانا قانون قدرت کے منافی نہیں جس حالت میں ہم بچشم خود دیکھتے ہیں کہ بعض جاندار کے مرنے کے بعد کسی دوا سے زندہ ہو جاتے ہیں تو پھر انسان کا زندہ ہونا کیا مشکل اور کیوں دور از قیاس ہے۔
ہندوؤں میں بھی اس کی کتابیں ہونگی۔ حال میں جو انگریزوں نے فن مسمریزم نکالا ہے حقیقت میں وہ بھی اسی علم کی ایک شاخ ہے۔ انجیل پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح کو بھی کسی قدر اس علم میں مشق تھی۔ مگر کامل نہیں تھی۔ اس وقت کے لوگ بہت سادہ اور اس علم سے بے خبر تھے۔ اسی وجہ سے اس زمانہ میں یہ عمل اپنی حد سے زیادہ قابل تعریف سمجھا گیا تھا۔ مگر پیچھے سے جوں جوں اس علم کی حقیقت کھلتی گئی لوگ اپنے علو اعتقاد سے تنزل کرتے گئے۔ یہاں تک کہ بعضوں نے یہ رائے ظاہر کی کہ ایسی مشقوں سے بیماروں کو چنگا کرنایامجنونوں کو شفا بخشنا کچھ بھی کمال کی بات نہیں۔ بلکہ اس میں ایماندار ہونا بھی ضرور نہیں۔ چہ جائیکہ نبوت یا ولایت پر یہ دلیل ہو سکے ان کا یہ بھی قول ہے کہ عمل سلب امراض بدنیہ کی کامل مشق اور اُسی شغل میں دن رات اپنے تئیں ڈالے رکھنا روحانی ترقی کیلئے سخت مضر ہے اور ایسے شخص کے ہاتھ سے روحانی تربیت کا کام بہت ہی کم ہوتا ہے اور قوت منورہ اس کے قلب کی بغایت درجہ گھٹ جاتی ہے۔ خیال ہو سکتا ہے کہ اسی وجہ سے حضرت مسیح علیہ السلام اپنی روحانی تربیت میں بہت کمزور نکلے جیسا کہ پادری ٹیلر صاحب جو باعتبار عہدہ و نیز بوجہ لیاقت ذاتی کے ایک ممتاز آدمی معلوم ہوتے ہیں۔ وہ نہایت افسوس سے لکھتے ہیں کہ مسیح کی روحانی تربیت بہت ضعیف اور کمزور ثابت ہوتی ہے اور اُن کے صحبت یافتہ لوگ جو حواریوں کے نام سے موسوم تھے اپنے روحانی تربیت یافتہ ہونے میں اور انسانی قوتوں کی پوری تکمیل سے کوئی اعلیٰ درجہ کا نمونہ دکھلا نہ سکے (کاش حضرت مسیح نے اپنے ظاہری شغل سلب امراض کی طرف کم توجہ کی ہوتی اور وہی توجہ اپنے حواریوں کی باطنی کمزوریوں اور بیماریوں پر ڈالتے خاص کر یہودا اسکریوطی پر) اس جگہ صاحب موصوف یہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر نبی عربی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے صحابہؓ کے مقابلہ پر حواریوں کی روحانی تربیت یابی اور دینی استقامت کا موازنہ کیا جائے تو ہمیں افسوس کے ساتھ اقرار کرنا پڑتا ہے کہ حضرت مسیح کے حواری روحانی طور پر تربیت پذیر ہونے میں نہایت ہی کچے اور پیچھے رہے ہوئے تھے اور ان کے دماغی اور دلی قویٰ کو حضرت مسیح کی صحبت نے کوئی ایسے توسیع نہیں بخشی تھی جو صحابہ نبی عربی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے مقابل پر کچھ قابل تعریف ہو سکے بلکہ حواریوں کے قدم قدم میں بزدلی سست اعتقادی تنگدلی و دنیا طلبی بیوفائی ثابت ہوتی تھی۔ مگر صحابہؓ نبی عربی (صلی اللہ علیہ وسلم) سے وہ صدق وفا ظہور میں آیا جس کی تغیر کسی دوسرے نبی کے پیروؤں میں ملنا مشکل ہے سو یہ اس روحانی تربیت کا جو کامل طور پر ہوئی تھی اثر تھا جس نے اس کو بُکلّی مبدل کر کے کہیں کا کہیں پہنچا دیا تھا۔ اسی طرح سے بہت سے دانشمند انگریزوں نے حال میں ایسی کتابیں تالیف کی ہیں کہ جن میں اُنہوں نے اقرار کر لیا ہے کہ اگر ہم نبی عربی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی حالت رجوع الی اللہ و توکل استقامت ذاتی و تعلیم کامل و مطہر و القائے تاثیر و اصلاح خلق کثیر از مفسدین و تائیدات ظاہری و باطنی قادر مطلق کو ان معجزات سے الگ کر کے بھی دیکھیں جو بمد منقول ان کی نسبت بیان کی جاتی ہیں۔ تب یہی ہمارا انصاف اس اقرار کے لئے ہمیں مجبور کرتا ہے کہ یہ تمام امور جو ان سے ظہور میں آئے۔ یہ بھی بلاشبہ فوق العادت اور بشریٰ طاقتوں سے بالاتر ہیں اور نبوت صحیحہ صادقہ کے شناخت کرنے کیلئے قوی اور کافی نشان ہیں کوئی انسان جب تک اس کے ساتھ خدا تعالیٰ نہ ہو کبھی ان سب باتوں میں کامل اور کامیاب نہیں ہو سکتا اور نہ ایسی غیبی تائیدیں اُس کے شامل ہوتی ہیں۔
سوال: محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی کبھی کوئی معجزہ نہ ملا۔ جیسا کہ سورۃ عنکبوت میں درج ہے (ترجمہ عربی کام اور کہتے ہیں کیوں نہ اُتریں اس پر نشانیاں یعنی کوئی بھی کیونکہ لا مافیہ اس آیت میں جو کہ جنسی ہے کل جنس کی نفی کرتا ہے اس کے ربّ سے اور سورہ بنی اسرائیل میں بھی اور ہم نے موقوف کیں نشانیاں بھیجی کہ اگلوں نے ان کو جھٹلایا۔ اس سے صاف صاف ظاہر ہے کہ خدا نے کوئی معجزہ نہیں دیا حقیقت میں اگر کوئی معجزہ ملتا تو وہ نبوت اور قرآن پر متشکی نہ ہوتے؟
فاما الجواب: جن خیالات کو عیسائی صاحب نے اپنی عبارت میں بصورت اعتراض پیش کیا ہے وہ درحقیقت اعتراض نہیں ہیں بلکہ وہ تین غلط فہمیاں ہیں جو لوجہ قلت تدبر اُن کے دل میں پیدا ہوگئی ہیں۔ ذیل میں ہم ان غلط فہمیوں کو دور کرتے ہیں۔
پہلی غلط فہمی کی نسبت جواب یہ ہے کہ نبی برحق کی یہ نشانی ہرگز نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرح ہر ایک مخفی بات کا بالاستقلال اس کو علم بھی ہو بلکہ اپنے دناتی اقتدار اور اپنی ذاتی خاصیت سے عالم الغیب ہونا خدا تعالیٰ کی ذات کا ہی خاصہ ہے۔ قدیم سے اہل حق حضرت واجب الوجود کے علم غیب کی نسبت دجوب ذاتی کا عقیدہ رکھتے ہیں اور دوسرے تمام ممکنات کی نسبت امتناع ذاتی اور امکان بالواجب غراسمہ کا عقیدہ ہے یعنی یہ عقیدہ کہ خدا تعالیٰ کی ذات کے لئے عالم الغیب ہونا واجب ہے اور اس کے ہویت حقہ کی یہ ذاتی خاصیت ہے کہ عالم الغیب ہو مگر ممکنات کے جو ہالکۃ الذات اور باطلہ الحقیقت ہیں اس صفت میں اور ایسا ہی دوسری صفات میں شراکت بحضرۃ باری غراسمہ جائز نہیں اور جیسا ذات کے رو سے شریک الباری ممتنع ہے ایسا ہی صفات کے رو سے بھی ممتنع ہے۔ پس ممکنات کیلئے نظر اعلیٰ ذاتہم عالم الغیب ہونا ممقات میں سے ہے۔ خواہ نبی ہوں یا ولی ہوں ہاں الہام الٰہی سے اسرار غیبیہ کو معلوم کرنا یہ ہمیشہ خاص اور برگزیدہ کو حصہ ملتا رہا ہے جس کو ہم تابعین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں پاتے ہیں نہ کسی اور میں عادۃ اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ وہ کبھی کبھی اپنے مخصوص بندوں کو اپنے بعض اسرار خاصہ پر مطلع کر دیتا ہے اور اوقات مقررہ اور مقدرہ میں رشح فیض غیب ان پر ہوتا ہے بلکہ کامل مقرب اللہ اُسی آزمائے جاتے ہیں اور شناخت کئے جاتے ہیں کہ بعض اوقات آئندہ کی پوشیدہ باتیں یا کچھ چھپے اسرار نہیں بتلائے جاتے ہیں۔ مگر یہ نہیں کہ ان کے اختیار اور ارادہ اقتدار سے بلکہ خدا تعالیٰ کے ارادہ اور اختیار اور اقتدار سے یہ سب نعمتیں انہیں ملتی ہیں۔
وہ جو اس کی مرضی پر چلتے ہیں اور اُسی کے ہو رہتے ہیں اور اسی میں کھوئے جاتے ہیں۔ اس خیر محض کی ان سے کچھ ایسی ہی عادت ہے کہ اکثر ان کی سنتا اور اپنا گزشتہ فعل یا آئندہ کا منشاء بسا اوقات ان پر ظاہر کر دیتا ہے۔ مگر بغیر اعلام الٰہی انہیں کچھ بھی معلوم نہیں ہوتا وہ اگرچہ خدا تعالیٰ کے مقرب تو ہوتے ہیں مگر خدا تو نہیں ہوتے سمجھائے سمجھتے ہیں بتلائے جانتے ہیں۔ دکھلائے دیکھتے ہیں بولائے بولتے ہیں اور اپنی ذات میں کچھ بھی نہیں ہوتے جب طاقت عظمیٰ انہیں اپنے الہام کی تحریک سے بلاتی ہے تو وہ بولتے ہیں اورجب دکھاتی ہے تو دیکھتے ہیں اور جب سناتی ہے تو سنتے ہیں اور جب تک خدا تعالیٰ ان پر کوئی پوشیدہ بات ظاہر نہیں کرتا تب تک انہیں اس بات کی کچھ خبر نہیں ہوتی۔ تمام نبیوں کے حالات زندگی (لایف) میں اس کی شہادت پائی جاتی ہے۔ حضرت مسیح علیہ السلام کی طرف ہی دیکھو کہ وہ کیونکر اپنی لاعلمی کا اقرار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس دن اور اس گھڑی کی بابت سوا باپ کے نہ تو فرشتے جو آسمان پر ہیں نہ بیٹا کوئی نہیں جانتا۔ باب ۱۳۔ آیت ۳۲۔ مرقس
اور پھر وہ فرماتے ہیں کہ میں آپ سے کچھ نہیں کرتا (یعنی کچھ نہیں کر سکتا) مگر جو میرے باپ نے سکھلایا وہ باتیں کہتا ہوں کسی کو راستبازوں کے مرتبہ تک پہنچانا میرے اختیار میں نہیں مجھے کیوں نیک کہتا ہے نیک کوئی نہیں مگر ایک یعنی خدا۔ مرقس
غرض کسی نبی نے بااقتدار یا عالم الغیب ہونے کا دعویٰ نہیں کیا دیکھو اس عاجز بندہ کی طرف جس کو مسیح کر کے پکارا جاتا ہے اور جسے نادان مخلوق پرستوں نے خدا سمجھ رکھا ہے کہ کیسے اس نے ہر مقام میں اپنے قول اور فعل سے ظاہر کر دیا کہ میں ایک ضعیف اور کمزور اور ناتواں بندہ ہوں اور مجھ میں ذاتی طور پر کوئی بھی خوبی نہیں اور آخری اقرار جس پر ان کا خاتمہ ہوا کیسا پیارے لفظوں میں ہے۔ چنانچہ انجیل میں لکھا ہے کہ وہ
یعنی مسیح اپنی گرفتاری کی خبر پا کر گھبرانے اور بہت دلگیر ہونے لگا اور ان سے (یعنی حواریوں سے) کہا کہ میر ی جان کا غم موت کا صا ہے اور وہ تھوڑا آگے جا کر زمین پر گر پڑا (یعنی سجدہ کیا) اور دعا مانگی کہ اگر ہوسکے تو یہ گھڑی مجھ سے ٹل جائے اور کہا کہ اے ابّا اے باپ سب کچھ تجھ سے ہو سکتا ہے اس پیالہ کو مجھ سے ٹال دے یعنی تو قادر مطلق ہے اور میں ضعیف ہوں اور عاجز بندہ ہوں تیرے ٹالنے سے یہ بلا ٹل سکتی ہے اور آخر ایلی ایلی لما سبقتنی کہہ کر جان دی۔ جس کاترجمہ یہ ہے کہ ’’اے میرے خدا ! اے میرے خدا!! تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا‘‘
اب دیکھئے کہ اگرچہ دعا قبول نہ ہوئی کیونکہ تقدیر مبرم تھی۔ ایک مسکین مخلوق کی خالق کے قطعی ارادہ کے آگے کیا پیش جاتی تھی۔ مگر حضرت مسیح نے اپنی عاجزی اور بندگی کے اقرار کو نہایت تک پہنچا دیا۔ اس امید سے کہ شاید قبول ہو جاوے۔ اگر انہیں پہلے سے علم ہوتا کہ دعا رد کی جائے گی ہرگز قبول نہیں ہوگی تو وہ ساری رات برابر فجر تک اپنے بچاؤ کے لئے کیوں دعا کرتے رہتے اور کیوں اپنے تئیں اور اپنے حواریوں کو بھی تقید سے اس لا حاصل مشقت میں ڈالتے۔
سو بقول معترض صاحب ان کے دل میں یہی تھا کہ انجام خدا کو معلوم ہے۔ مجھے معلوم نہیں پھر ایسا ہی حضرت مسیح کی پیشگوئی کا صحیح نہ نکلنا دراصل اسی وجہ سے تھا کہ بباعث عدم علم براسرار مخفیہ اجتہادی طور پر تشریح کرنے میں اُن سے غلطی ہو جاتی تھی۔ جیسا کہ آپ نے فرمایا تھا کہ جب نئی خلقت میں ابن آدم اپنے جلال کے تخت پر بیٹھے گا تو بھی (اے میرے بارہ حواریو) بارہ تختوں پر بیٹھو گے۔ دیکھو باب ۲۰۔ آیت ۲۸۔ متی‘‘۔
لیکن اسی انجیل سے ظاہر ہے کہ یہودہ اسکریوطی اس تخت سے بے نصیب رہ گیا۔ اس کے کانوں نے تخت نشینی کی خبر سن لی مگر تخت پر بیٹھنا اُسے نصیب نہ ہوا۔ اب راستی اور سچائی سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر حضرت مسیح کو اس شخص کے مرتد اور بد عاقبت ہونے کا پہلے سے علم ہوتا تو کیوں اس کو تخت نشینی کی جھوٹی خبر سناتے۔ ایسا ہی ایک مرتبہ آپ ایک انجیر کا درخت دور سے دیکھ کر انجیر کھانے کی نیت سے اس کی طرف گئے مگر جا کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ اس پر ایک بھی انجیر نہیں تو آپ بہت ناراض ہوئے اور غصہ کی حالت میں اس انجیر کو بدعا دی جس کا کوئی بد اثر انجیر پر ظاہر نہ ہوا۔ اگر آپ کو کچھ غیب کا علم ہوتا تو بے ثمر درخت کی طرف اس کا پھل کھانے کے ارادہ سے کیوں جاتے۔
ایسا ہی ایک مرتبہ آپ کے دامن کو ایک عورت نے چھوا تھا تو آپ چاروں طرف پوچھنے لگے کہ کس نے میرا دامن چھوا ہے۔ اگر کچھ علم غیب سے حصہ ہوتا تو دامن چھونے والے کا پتہ معلوم کرنا تو کچھ بڑی بات نہ تھی اور ایک مرتبہ آ پ نے یہ پیشگوئی بھی کی تھی کہ اس زمانہ کے لوگ گزر نہ جائیں گے جب تک یہ سب کچھ (یعنی مسیح کا دوبارہ دنیا میں آنا اور ستاروں کا گرنا وغیرہ) ظاہر نہ ہولے۔ لیکن ظاہر ہے کہ نہ اس زمانہ میں کوئی ستارہ آسمان کا زمین پر گرا اور نہ حضرت مسیح عدالت کیلئے دنیا میں آئے اور وہ صدی تو کیااس پر اٹھارہ صدیاں اور بھی گزر گئیں اور انیسویں گزرنے کو عنقریب ہے۔ سو حضرت مسیح کے علم غیب سے بے بہرہ ہونے کے لئے یہی چند شہادتیں کافی ہیں جو کسی اور کتاب سے نہیں بلکہ چاروں انجیل سے دیکھ کر ہم نے لکھی ہیں۔ دوسرے اسرائیلی نبیوں کا بھی یہی حال ہے حضرت یعقوب ہی تھے مگر انہیں کچھ خبر نہ ہوئی کہ اُسی گاؤں کے بیابان میں میرے بیٹے پر کیا گزر رہا ہے۔ حضرت دانیال اس مدت تک کہ خدائے نے بخت النصر کے رؤیا کی ان پر تعبیر کھول دی کچھ بھی علم نہیں رکھتے تھے کہ خواب کیا ہے اور اس کی تعبیر کیا ہے؟
پس اس تمام تحقیق سے ظاہر ہے کہ نبی کا یہ کہنا کہ یہ بات خدا کو معلوم ہے مجھے معلوم نہیں بالکل سچ اور اپنے محل پر چسپاں اور سراسر اس نبی کا شرف اور اس کی عبودیت کا فخر ہے بلکہ ان باتوں سے اپنے آقائے کریم کے آگے اس کی شان بڑھتی ہے نہ یہ کہ اس کے منصب بنوۃ میں کچھ فتور لازم آتا ہے ہاں اگر یہ تحقیق منظور ہو کہ خدا تعالیٰ کے اعلام سے جو اسرار غیب حاصل ہوتے ہیں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کس قدر ہوئے ہیں تو میں ایک بڑا ثبوت اس بات کا پیش کرنے کیلئے تیار ہوں کہ جس قدر توریت و انجیل اور تمام بائبل میں نبیوں کی پیشگوئیاں لکھی ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئیاں کماً و کیقاً ہزار حدیث سے بھی ان سے زیادہ ہیں جن کی تفصیل احادیث نبویہ کے رو سے جو بڑی تحقیق سے قلم بند کی گئی ہیں معلوم ہوتی ہے اور اجمالی طور پر مگر کافی اور اطمینان بخش اور نہایت مؤثر بیان قرآن شریف میں موجود ہے پھر دیگر اہل مذاہب کی طرح مسلمانوں کے ہاتھ میں صرف قصہ ہی نہیں بلکہ وہ تر ہر صدی میں غیر قوموں کو کہتے رہے ہیں اور اب بھی کہتے ہیں کہ یہ سب برکات اسلام میں ہمیشہ کے لئے موجود ہیں۔ بھائیو! آؤ اوّل آزماؤ پھر قبول کرو۔ مگر اُن آواروں کو کوئی نہیں سنتا۔ حجت الٰہی ان پر پوری ہے کہ ہم بلاتے ہیں وہ نہیں آتے اور ہم دکھاتے ہیں وہ نہیں دیکھتے انہوں نے آنکھوں اور کانوں کا بُکلّی ہم سے پھیر لیا تا نہ ہو کہ وہ سنیں اور دیکھیں اور ہدایت پائیں۔
دوسری غلط فہمی جو معترض نے پیش کی ہے یعنی یہ کہ اصحاب کہف کی تعداد کی بابت قرآن شریف میں غلط بیان ہے۔ یہ نرا دعویٰ ہے معترض نے اس بارے میں کچھ نہیں لکھا کہ وہ بیان کیوں غلط ہے اور اس کے مقابل پر صحیح کونسا بیان ہے اور اس کی صحت پر کون سے دلائل ہیں تا اس کے دلائل پر غور کی جاتی اور جواب شافی دیا جائے۔ اگر معترض کو فرقانی بیان پر کچھ کلام تھا تو اس کے وجوہات پیش کرنے چاہئیں تھے۔ بغیر پیش کرنے وجوہات کے یونہی غلط ٹھہرانا متلاشی حق کا کام نہیں ہے۔
تیسری غلط فہمی معترض کے دل میں یہ پیدا ہوئی ہے کہ قرآن شریف میں لکھا ہے کہ ایک بادشاہ (جس کی سیر و سیاست کا ذکر قرآن شریف میں ہے) سیر کرتا کرتا کسی ایسے مقام تک پہنچا جہاں اُسے سورج دلدل میں چھپتا نظر آیا۔ اب عیسائی صاحب مجازی سے حقیقت کی طرف رُخ کر کے یہ اعتراض کرتے ہیں کہ سورج اتنا بڑا ہو کر ایک چھوٹے سے میں کیونکر چھپ گیا۔ یہ ایسی بات ہے کہ جیسے کوئی کہے کہ انجیل میں مسیح کو خدا کا برّہ لکھا ہے یہ کیونکر ہو سکتا ہے۔ بّرہ تو وہ ہو سکتا ہے جس کے سر پر سینگ اور بدن پر پشم وغیرہ بھی ہو اور چاریوں کی طرح سرنگون چلتا اور وہ چیزیں کھاتا ہو جو برّے کھایا کرتے ہیں؟
اے صاحب آپ نے کہاں سے اور کس سے سن لیا کہ قرآن شریف تو فقط بمنصب نقل خیال اس قدر فرماتا ہے کہ اس شخص کو اس کی نگاہ میں سورج دلدل میں چھتا ہوا نظر آیا سو یہ تو ایک شخص کی رویت کا حال بیان کیا گیا ہے کہ وہ ایسی جگہ پہنچا جس جگہ سورج کسی پہاڑ یا آبادی یا درختوں کی اوٹ میں چھپتا ہوا نظر آتا تھا۔ جیسا کہ عام دستور ہے بلکہ دلدل میں چھپتا ہوا معلوم دیتا تھا۔ مطلب یہ کہ اُس جگہ کوئی آبادی یا درخت یا پہاڑ نزدیک نہ تھے بلکہ جہاں تک نظر وفا کرے ان چیزوں میں سے کسی چیز کا نشان نظر نہیں آتا تھا۔ فقط ایک دلدل تھا جس میں سورج چھپتا دکھائی دیتا تھا۔
ان آیات کا سیاق سباق دیکھو کہ اس جگہ حکیمانہ تحقیق کا کچھ ذکر بھی ہے۔ فقط ایک شخص کی دور دراز سیاحت کا ذکر ہے اور ان باتوں کے بیان کرنے سے اسی مطلب کا اثبات منظور ہے کہ وہ ایسے غیر آباد مقام پر پہنچا۔ سو اس جگہ ہیئت کے مسائل لے بیٹھنا بالکل بے محل نہیں تو اور کیا ہے؟ مثلاً اگر کوئی کہے کہ آج رات بادل وغیرہ سے آسمان خوب صاف ہو گیا تھا اور ستارے آسمان کے نقطوں کی طرح چمکتے ہوئے نظر آتے تھے اور اس سے یہ جھگڑا لے بیٹھیں کہ کیا ستارے لفظوں کی مقدار پر ہیں اور ہیئت کی کتابیں کھول کر پیش کریں تو بلاشبہ یہ حرکت بے خبروں کی سی حرکت ہوگی کیونکہ اس وقت متکّلم کی نیت میں واقعی امر کا بیان کرنا مقصود نہیں وہ تو صرف مجازی طور پر جس طرح ساری دنیا جہان بولتا ہے بات کر رہا ہے۔ اے وہ لوگ جو عشائے ربّانی میں مسیح کا لہو پیتے اور گوشت کھاتے ہو کیا ابھی تک تمہیں مجازات اور استعارات کے استعمال کانہایت وسیع دروازہ کھلا ہے اور وحی الٰہی انہیں محاورات و استعارات کے استعمال کا نہایت وسیع دروازہ کھلا ہے اور وحی الٰہی انہیں محاورات و استعارات کو اختیار کرتی ہے جو سادگی سے روز مرہ عوام الناس نے اپنے روز مرہ کی بات چیت اور بول چال میں اختیار کر رکھی ہے فلسفہ کی دقیق اصطلاحات کی ہر جگہ اور ہر محل میں پیروی کرنا وحی کی طرز نہیں کیونکہ روئے سخن عوام الناس کی طرف ہے پس ضرور ہے کہ ان کی سمجھ کے موافق اور ان کے محاورات کے لحاظ سے بات کی جائے۔ حقائق و دقائق کا بیان کرنا بجائے خود ہے مگر محاورات کا چھوڑنا اور مجازات اور استعارات عادیہ سے یک لخت کنارہ کش ہونا ایسے شخص کے لئے ہرگز روا نہیں جو عوام الناس کے مذاق پر بات کرنا اس کا فرض منصب ہے تا وہ اس کی بات کو سمجھیں اور ان کے دلوں پر اس کا اثر ہو لہٰذا یہ مسلم ہے کہ کوئی ایسی الہامی کتاب نہیں۔ جس میں مجازات اور استعارات سے کنارہ کیا گیا ہو یا کنارہ کرنا جائز ہو کیا کوئی کلام الٰہی دنیا میں ایسا بھی آیا ہے؟ اگر ہم غور کریں تو ہم خود ہر روزہ بول و چال میں صدہا مجازات و استعارات بولے جاتے ہیں اور کوئی بھی ان پر اعتراض نہیں کرتا۔ مثلاً کہا جاتا ہے کہ ہلال بال سا باریک ہے اور ستارے نقطہ سے ہیں یا چاند بادل کے اندر چھپ گیا اور سورج ابھی جوجو پھر دن چڑھا ہے نیز پھر اوپر آیا ہے یا ہم نے ایک رکابی پلاؤ کی کھا لی یا ایک پیالہ شربت کا پی لیا تو ان سب باتوں سے کسی کے دل میں یہ دھڑکا شروع نہیںہو تا کہ ہلال کیونکر بال سا باریک ہو سکتا ہے اور ستارے کس وجہ سے بقدر نقطوں کے ہو سکتے ہیں یا چاند بادل کے اندر کیونکر سما سکتا ہے اور کیا سورج نے باوجود اپنی اس تیز حرکت کے جس سے وہ ہزار ہا کوس ایک دن میں طے کر لیتا ہے۔ ایک پہر میں فقط بقدر نیز کے اتنی مسافت طے کری ہے اور نہ رکابی پلاؤ کی کھانے یا پیالہ شربت کا پینے سے کوئی یہ خیال کر سکتا ہے کہ رکابی اور پیالہ کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے کھا لیا ہوگا بلکہ یہ سمجھیں گے کہ جو ان کے اندر چاول اور پانی ہے وہی کھایا پیا ہوگا۔ نہایت صاف بات پر اعتراض کرنا کوئی مخالف بھی پسند نہیں کرتا۔ انصاف پسند عیسائیوں سے ہم نے خود سنا ہے کہ ایسے ایسے اعتراض ہم میں سے وہ لوگ کرتے ہیں جو بے خبر یا سخت درجہ کے متعصب ہیں۔ بھلا یہ کیا حق روی ہے؟ کہ اگر کلام الٰہی میں مجاز بااستعارہ کی صورت پر کچھ وارد ہو تو اس بیان کو حقیقت پر حمل کر کے … اعتراض بنایا جاوے اس صورت میں کوئی الہامی کتاب بھی اعتراض سے نہیں بچ سکتی۔ جہاز میں بیٹھنے والے اور اگنبوٹ پر سوار ہونے والے ہر روز یہ تماشا دیکھتے ہیں کہ سورج پانی میں سے ہی نکلتا ہے اور پانی میں ہی غروب ہوتا ہے اور صدہا مرتبہ آپس میں جیسا دیکھتے ہیں بولتے بھی ہیں کہ وہ نکلا اور غروب ہوا۔ اب ظاہر ہے کہ اس بول چال کے وقت میں علم ہیئت کے دفتر اُن کے آگے کھولنا اور نظام شمسی کا مسئلہ لے بیٹھنا گویا یہ جواب سننا ہے کہ اے پاگل کیا یہ علم تجھے ہی معلوم ہے۔ ہمیں معلوم نہیں۔
عیسائی صاحب نے قرآن شریف پر تو اعتراض کیا۔ مگر انجیل کے وہ مقامات جن پر حقًّا و حقیقتاً اعتراض ہوتا ہے بھولے رہے۔ مثلاً بطور نمونہ دیکھو کہ انجیل متی و مرقس میں لکھا ہے کہ مسیح کو اس وقت آسمان سے خلق اللہ کی عدالت کے لئے اُترتا دیکھو گے جب سورج اندھیرا ہو جائے گا اور چاند اپنی روشنی نہیں دے گا اور ستارے آسمان سے گر جائیں گے۔ اب ہیئت کاعلم ہی نہ اشکال پیش کرتا ہے کہ کیونکر ممکن ہے کہ تمام ستارے زمین پر گر پڑیں اور سب ٹکڑے ٹکڑے ہو کر زمین کے کسی گوشہ میں جا پڑیں اور بتی آدم کو ان کے گرنے سے کچھ بھی حرج اور تکلیف نہ پہنچے اور سب زندہ اور سلامت رہ جائیں حالانکہ ایک ستارہ کا گرنا بھی مکان الارض کی تباہی کیلئے کافی ہے پھر یہ امر بھی قابل غور ہے کہ جب ستارے زمین پر گر کر زمین والوں کو صفحہ ہستی سے بے نشان و نابود کر دیں گے تو مسیح کا قول کہ تم مجھے بادلوں میں آسمان سے اُترتا دیکھو گے کیونکر درست ہوگا جب لوگ ہزاروں ستاروں کے نیچے دبے ہوئے مرے پڑے ہوں گے تو مسیح کا اُترنا کون دیکھے گا اور زمین جو ستاروں کی کشش سے ثابت و برقرار ہے کیونکر اپنی حالت صحیحہ پر قائم اور ثابت رہے گی اور مسیح برگزیدوں کو دور دور سے (جیسا کہ انجیل میں ہے) بلائے گا اوکن کو سرزنش اور تنبیہ کرے گا کیونکہ ستاروں کاگرنا تو ببداہت مستلزم عام فنا اور عام موت بلکہ تختۂ زمین کے انقلاب کا موجب ہوگا اب دیکھئے کہ یہ سب بیانات علم ہیئت کے برخلاف ہیں یا نہیں؟ ایسا ہی ایک اور اعتراض علم ہیئت کے رو سے انجیل پر ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ انجیل متی میں دیکھو وہ ستارہ جو انہوں نے (یعنی مجوسیوں نے) یورپ میں دیکھاتھا ان کے آگے چل رہا اور اس جگہ کے اوپر جہاں وہ لڑکا تھا جا کر ٹھہرا۔ (باب ۲۔ آیت ۹ متی)
اب عیسائی صاحبان براہ مہربانی بتلا دیں کہ علم ہیئت کے رو سے اس عجیب ستارہ کا نام کیاہے جو مجوسیوں کے ہم قدم اور ان کے ساتھ ساتھ چلا تھا اور یہ کس قسم کی حرکت اور کن قواعد کے رو سے مسلم الثبوت ہے۔ مجھے معلوم نہیں کہ انجیل متی ایسے ستارہ کے بارے میں ہیئت والوں سے کیونکر پیچھا چھڑا سکتی ہے۔ بعض صاحب تنگ آ کر یہ جواب دیتے ہیں کہ یہ مسیح کا قول نہیں متی کا قول ہے۔ متی کے قول کے ہم الہامی نہیں جانتے یہ خواب خواب ہے جس سے انجیل کے الہامی ہونے کی بخوبی قلعی کھل گئی اور میں بطور تنزل کہتا ہوں کہ گو یہ مسیح کا قول نہیں متی یا کسی اور کا قول ہے مگر مسیح کا قول بھی تو (جس کو الہامی مانا گیا ہے اور جس پر ابھی ہمارے طرف سے اعتراض ہوچکا ہے) اُسی کا ہم رنگ اور ہم شکل ہے ذرا اُسی کو اصولی ہیئت سے مطابق کر کے دکھلائیے اور نیز یہ بھی یاد رہے کہ یہ قول الہامی نہیں بلکہ انسان کی طرف سے انجیل میں ملایا گیا ہے تو پھر آپ لوگ ان انجیلوں کو جو آپ کے ہاتھ میں ہیں تمام بیانات کے اعتبار سے الہامی کیوں کہتے ہو؟ صاف طور پر کیوں مشتہر نہیں کر دیتے کہ بجز ان چند باتوں کے جو حضرت مسیح کے منہ سے نکلی ہیں۔ باقی جو کچھ اناجیل میں لکھا ہے وہ مؤلفین نے صرف اپنے خیال اور اپنی عقل اور فہم کے مطابق لکھا ہے جو غلطیوں سے مبرا متصور نہیں ہو سکتا۔ جیسا کہ پادری صاحبوں کی عام تحریروں سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ یہ رائے عام طور پر مشتہر بھی کی گئی ہے۔ یعنی بالاتفاق انجیلوں کے بارے میں یہ تسلیم کر لیا گیا ہے کہ جو کچھ تاریخی طور پر معجزات وغیرہ کا ذکر ان میں پایا جاتا ہے وہ کوئی الہامی امر نہیں بلکہ انجیل نویسوں نے اپنے قیاس یا سماعت وغیرہ وسائل خارجیہ سے لکھ دیا ہے غرض پادری صاحبوں نے اس اقرار سے ان بہت سے حملوں سے جو انجیلوں پر ہوتے ہیں اپنا پیچھا چھوڑانا چاہا ہے اور ہر ایک انجیل میں تقریباً دس حصے انسان کا کلام اور ایک حصہ خدا کا کلام مان لیا ہے اور ان اقرارات کی وجہ سے جو نقصان انہیں اُٹھانے پڑے۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ عیسوی معجزات ان کے ہاتھ سے گئے اور ان کا کوئی شافی کافی ثبوت ان کے پاس نہ رہا کیونکہ ہر چند انجیل نویسوں نے تاریخی طور پر فقط اپنی طرف سے مسیح کے معجزات انجیلوں میں لکھی ہیں مگر مسیح کا اپنا خالص بیان جو الہامی کہلاتا ہے حواریوں کے بیان سے صریح مبائن و مخالف معلوم ہوتا ہے بلکہ اُسی کی ضد و نقیض ہے۔ وجہ یہ ہے کہ مسیح نے اپنے بیان میں جس کو الہامی کہا جاتا ہے جا بجا معجزات کے دکھلانے سے انکار ہی کیا ہے اور معجزات کے مانگنے والوں کو صاف جواب دے دیا ہے کہ تمہیں کوئی معجزہ دکھلایا نہیں جائے گا۔ چنانچہ ہیرو دیس نے بھی مسیح سے معجزہ مانگا تو اُس نے نہ دکھلایا اور بہت سے لوگوں نے اس کے نشان دیکھنے چاہے اور نشانوں کے بارے میں اس سے سوال بھی کیا مگر وہ صاف منکر ہو گیا اور کوئی نشان دکھلا نہ سکا بلکہ اس نے تمام رات جاگ کر خدا تعالیٰ سے یہ نشان مانگا کہ وہ یہودیوں کے ہاتھ سے محفوظ رہے تو یہ نشان بھی اس کو نہ ملا اور دعا ردّ کی گئی۔
پھر مصلوب ہونے کے بعد یہودیوں نے سچے دل سے کہا کہ اگر وہ اب صلیب پر سے زندہ ہو کر اُتر آوے تو ہم سب کے سب اس پر ایمان لائیں گے مگر وہ اُتر بھی نہ سکا پس ان تمام واقعات سے صاف ظاہر ہے کہ جہاں تک انجیلوں میں الہامی فقرات ہیں وہ مسیح کو صاحب معجزات ہونے کے بارے میں کچھ خیال کر سکیں تو حقیقت میں وہ فقرہ ذوالوجوہ ہے جس جس کے اور اور معنی بھی ہو سکتے ہیں اور کچھ ضروری نہیں معلوم ہوتا کہ اس کو ظاہر پر بھی محمول کیا جائے یا خواہ نخواہ کھینچ تان کر ان معجزات کا ہی مصداق ٹھہرایا جاوے جن کا انجیل نویسوں نے اپنی طرف سے ذکر کیا ہے اورکوئی فقرہ خاص حضرت مسیح کی زبان سے نکلا ہوا ایسا نہیں کو جو وقوع اور ثبوت معجزات پر صاف طور پر دلالت کرتا ہو بلکہ مسیح کے خاص اور پُرزور کلمات کی اسی امر پر دلالت پائی جاتی ہے کہ اُن سے ایک بھی معجزہ ظہور میں نہیں آیا (قرآن شریف میں صرف اس مسیح کے معجزات کی تصدیق ہے جس نے کبھی خدائی کا دعویٰ نہیں کیا کیونکہ مسیح کئی ہوئے ہیں اور ہوں گے اور پھر قرآنی تصدیق ذوالوجوہ ہے جو انجیل نویسوں کے بیان کی ہرگز مصداق نہیں) تعجب ہے کہ عیسائی لوگ کیوں ان باتوں پر اعتماد و اعتبار نہیں کرتے جو مسیح کا خاص بیان اور الہامی کہلاتی ہیں اور خاص مسیح کے منہ سے نکلی ہیں اور ایسی باتوں پر کیوں اعتماد کیا جاتا ہے اور کیوں ان کے قدر سے زیادہ ان پر زور دیا جاتا ہے جو عیسائیوں کے اپنے اقرار کے موافق الہامی نہیں ہیں بلکہ تاریخی طور پر انجیلوں میں داخل ہیں اور الہام کے سلسلہ سے بُکلّی خارج ہیں اور الہامی عبارات سے ان کا تناقض پایا جاتا ہے پس جب الہامی اور غیر الہامی عبارات میں تناقض ہو تو اس کے دور کرنے کیلئے بجز اس کے اور کیا تدبیر ہے کہ جو عبارتیں الہامی نہیں ہے وہ ناقابل اعتبار سمجھی جائیں اور صرف انجیل نویسوں کے مبالغات یقین نہ کئے جائیں۔ چنانچہ جا بجا ان کا مبالغہ کرنا ظاہر بھی ہے جیسا کہ یوحنا کی انجیل کی آخری آیت جس پر وہ مقدس انجیل ختم کی گئی ہے یہ ہے پر اور بھی بہت سے کام ہیں جو یسوع نے کئے اور اگر وہ جدا جدا لکھے جاتے تو میں گمان کرتا ہوں کہ کتابیں جو لکھی جائیں دنیا میں سما نہیں سکتیں۔ دیکھو کس قدر مبالغہ ہے زمین و آسمان کے عجائبات تو دنیا میں سما گئے مگر مسیح کی تین یا اڑھائی برس کی سوانح دنیا میں سما نہیں سکتی۔ ایسے مبالغے کرنے والے لوگوں کی روایت پر کیونکر اعتبار کر لیا جاوے۔
ہندوؤں نے بھی اپنے اوتاروں کی نسبت ایسی ہی کتابیں تالیف کی تھیں اور اسی طرح خوب جوڑ جوڑ سے ملا کر جھوٹ کا پل باندھا تھا۔ سو اس قوم پر بھی اس افترا کا نہایت قوی اثر پڑا اور اس سرے سے ملک کے اس سرے تک رام رام اور کرشن کرشن دلوں میں رچ گیا۔ بات یہ ہے کہ مرتب کردہ کتابیں جن میں بہت سا افتراء بھرا ہوا ہو اُن قبروں کی طرح ہوتے ہیں جو باہر سے خوب سفید کی جائیں اور چمکائی جائیں پر اندر کچھ ہو اندر کا حال ان بے خبر لوگوں کو کیا معلوم ہو سکتا ہے جو صدہا برسوں کے بعد پیدا ہوئے اور بنی بنائی کتابیں اور بے لوث ظاہر کر کے ان کو دی گئیں کہ گویا وہ اسی صورت اور وضح کے ساتھ آسمان سے اُتری ہیں۔ سو وہ کیا جانتے ہیں کہ دراصل یہ مجموعہ کس طرح تیار کیا گیا۔ دنیا میں ایسی تیز نگاہیں جو پردوں کو چیرتی ہوئی اندر گھسی جائیں اور اصل حقیقت پراطلاع پا لیں اور چور کو پکڑ لیں بہت کم ہیں اور افتراء کے جادو سے متاثر ہونے والی روحیں اس قدر ہیں جن کا اندازہ کرنا مشکل ہے اسی وجہ سے ایک عالم تباہ ہو گیا اور ہوتا جاتا ہے نادانوں نے ثبوت یا عدم ثبوت کے ضروری مسئلہ پر کچھ بھی غور نہیں کی اور انسانی منصوبوں اور بندشوں کا جو ایک مستمرہ طریقہ اور نیچرلی امر ہے جو نوع انسان میں قدیم سے چلا آتا ہے اس سے چوکس رہنا نہیں چاہا اور یونہی شیطانی دام کو اپنے پر لے لیا۔ مکاروں نے اس شریر کیمیا گر کی طرح جو ایک سادہ لوح سے ہزار روپے نقد لے کر دس بیس لاکھ روپیہ کا سونا بنا دینے کا وعدہ کرتا ہے۔ سچا اور پاک ایمان نادانوں کا کھویا اور ایک جھوٹی راستبازی اور جھوٹی برکتوں کا وعدہ دیا جن کا خارج میں کچھ بھی وجود نہیں اور نہ کچھ ثبوت آخر شرارتوں میں مکروں میں دنیا پرستوں میں نفس امارہ کی پیروی میں اپنے سے بدتر ان کو کر دیا۔ بالآخر یہ نکتہ یاد رکھنے کے قابل ہے اور اعجازات اور پیشگوئیوں کے بارے میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے وقوع میں آئیں قرآن شریف کے ایک ذرہ شہادت انجیلوں کے ایک تودہ عظیم سے جو مسیح کے اعجاز وغیرہ کے بارے میں ہو ہزار ہا درجہ بڑھ کر ہے؟ اسی وجہ سے کہ خود باقرار تمام محقق پادریوں کے انجیلوں کا بیان خود حواریوں کا اپنا ہی کلام ہے اور پھر اپنا چشم دید بھی نہیں اور نہ کوئی سلسلہ راویوں کا پیش کیا ہے اور نہ کہیں ذاتی مشاہدہ کا دعویٰ کیا۔ لیکن قرآن شریف میں اعجازات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جو کچھ لکھا گیا ہے وہ خاص خدائے صادق و قدوس کی پاک شہادت ہے۔ اگر وہ صرف ایک ہی آیت ہوتی تب بھی کافی ہوتی۔ مگر الحمدللہ کہ ان شہادتوں سے سارا قرآن شریف بھرا ہوا ہے اب موازنہ کرنا چاہئے کہ کجا خدا تعالیٰ کی پاک شہادت جس میں کذب ممکن نہیں اور کجا دیدہ جھوٹ اور مبالغہ آمیر شہادتیں۔
بہ نزدیک دانائے بیدار دل
جوئے سیم بہتر ز صد تودہ گل
افترائی باتوں پر کیوں تعجب کرنا چاہئے ایسا بہت کچھ ہوا ہے اور ہوتا ہے عیسائیوں کو آپ اقرار ہے کہ ہم میں سے بہت سے لوگ ابتدائی زمانوں میں اپنی طرف سے کتابیں لکھ کر بہت کچھ کمالات اپنے بزرگوں کے ان میں لکھ کر پھر خدا تعالیٰ کی طرف اُن کو منسوب کرتے رہے ہیں اور دعویٰ کر دیا جاتا تھا کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کتابیں ہیں۔ پس جب کہ قدیم عادت عیسائیوں اور یہودیوں کی یہی جعلسازی چلی آئی ہے تو پھر کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی کہ متی وغیرہ انجیلوں کو اس عادت سے کیوں باہر رکھا جاوے حالانکہ اس ساہوکار کی طرح اس کا روزنامچہ اور بہی کھاتہ بوجہ صریح تناقض اور مشکوکیت سے پوشیدہ حال کو ظاہر کر رہا ہو ہر چہار انجیلوں سے وہ کارستانی ظاہر ہو رہی ہے جس کو انہوں نے چھپانا چاہتا تھا۔ اسی وجہ سے یورپ اور امریکہ میں غور کرنے والوں کی طبیعتوں میں ایک طوفان شکوک پیدا ہو گیا اور جس ناقص اور متغیر اور مجسم خدا کی طرف انجیل رہنمائی کر رہی ہے اس کے قبول کرنے سے وہ دہریہ رہنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ چنانچہ میرے ایک دوست فاضل انگریز نے امریکہ سے بذریعہ اپنی کئی چٹھیوں کے مجھے خبر دی ہے کہ ان ملکوں میں دانشمندوں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں کہ عیسائی مذہب کو نقص سے خالی سمجھتا ہو اور اسلام کے قبول کرنے کے لئے مستعد نہ ہو اور گو عیسائیوں نے قرآن شریف کے ترجمے محرف اور بدنما کر کے یورپ اور امریکہ کے ملکوں میں شائع کئے ہیں مگر ان کے اندر جو نور چھپا ہوا ہے وہ پاکیزہ دلوں پر اپنا کام کر رہا ہے غرض امریکہ اور یورپ آج کل ایک جوش کی حالت میں ہے اور انجیل کے عقیدوں نے جو برخلاف حقیقت میں بُری گھبراہٹ میں انہیں ڈال دیا ہے جہاں تک کہ بعضوں نے رائے ظاہر کی کہ مسیح یا عیسیٰ نام خارج میں کوئی شخص کبھی پیدا نہیں ہوا بلکہ اس سے آفتاب مراد ہے اور ۱۲ حواریوں سے بارہ برج مراد ہیں اور پھر اس مذہب عیسائی کی حقیقت زیادہ تر اس بات سے کھلتی ہے کہ جن نشانیوں کو حضرت مسیح نے فرمایا تھا کہ اگر تم میری پیروی کرو گے تو ہر ایک طرح کی برکت اور قبولیت میں میرا ہی روپ بن جاؤ گے اور معجزات اور قبولیت کے نشان تم کو دیئے جائیں گے اور تمہارے مومن ہونے کی یہی علامت ہوگی کہ تم طرح طرح کے نشان دکھلا سکو گے اور جو چاہو گے تمہارے لئے وہی ہوگا اور کوئی بات تمہارے لئے ناممکن نہیں ہوگی۔ لیکن عیسائیوں کے ہاتھ میں ان برکتوں میں سے کچھ بھی فائدہ نہیں وہ اس خدا سے ناآشنا محض ہیں جو اپنے مخصوص بندوں کی دعائیں سنتا ہے اور انہیں آمنے سامنے شفقت اور رحمت کا جواب دیتا ہے اور عجیب عجیب کام ان کے لئے کر دکھاتا ہے لیکن سچے مسلمان جو اُن راستبازوں کے قائم مقام اور وارث ہیں جو ان سے پہلے گذر چکے ہیں وہ اس خدا کو پہنچانتے اور اس کی رحمت کے نشانوں کو دیکھتے ہیں اور اپنے مخالفوں کے سامنے آفتاب کی طرح جو ظلمت کے مقابل ہو مابہ الامتیاز رکھتے ہیں۔ ہم بار بار لکھ چکے ہیں کہ اس دعویٰ کو بلا دلیل نہیں سمجھناچاہئے سچے اور جھوٹے مذہب میں ایک آسمان پر فرق ہے اور ایک زمین پر۔ زمین کے فرق سے مراد وہ فرق ہے جو انسان کی عقل اور انسان کا کانشنس اور قانون قدرت اس عالم کا اس کی تشریح کرتا ہے۔ سو عیسائی مذہب اور اسلام کو جب اس محک کی رو سے جانچا جائے تو صاف ثابت ہوتا ہے کہ اسلام وہ فطرتی مذہب ہے جس کے اصولوں میں کوئی تصنع اور تکلف نہیں اور جس کے احکام میں کوئی مستحدث اور بناوٹی امر نہیں اور کوئی ایسی بات نہیں جو زبردستی منوانی پڑے اور جیسا کہ خدا تعالیٰ نے جا بجا آپ فرمایا ہے۔ قرآن شریف صحیفۂ فطرت کے تمام علوم اور اس کی صداقتوں کا یاد دلاتا ہے اور اس کے اسرارِ غامضہ کو کھولتا ہے اور کوئی نئے امور برخلاف اس کے پیش نہیں کرتا بلکہ درحقیقت اسی کے معارف دقیقہ ظاہر کرتا ہے برخلاف اس کے عیسائیوں کی تعلیم جس کا انجیل پر حوالہ دیا جاتا ہے ایک نیا خدا پیش کر رہی ہے جس کی خود کشی پر دنیا کی گناہ اور عذاب سے نجات موقوف اور اس کے دکھ اُٹھانے پر خلقت کا آرام موقوف اور اس کے بے عزت اور ذلیل ہونے پر خلقت کی عزت موقوف خیال کی گئی ہے۔ پھر بیان کیا گیا ہے کہ وہ ایک ایسا عجیب خدا ہے کہ ایک حصہ اس کی عمر کا تو منزہ عن الجسم و عن عیوب الجسم میں گزرا ہے اور دوسرا حصہ عمر کا (کسی نامعلوم بدبختی کی وجہ سے) ہمیشہ کے تجسم اور تخیر کی قید میں اسیر ہو گیا اور گوشت پوست استخوان وغیرہ سب کے سب اس کی روح کے لئے لازمی ہوگئے اور اس تجسم کی وجہ سے کہ اب ہمیشہ اس کے ساتھ رہے گا انواع و اقسام کے اس کو دکھ اُٹھانے پڑے آخر دکھوں کے غلبہ سے مر گیا اور پھر زندہ ہوا اور اُسی جسم نے پھر آ کر اس کو پکڑ لیا اور ابدی طور پر اُسے پکڑے رہے گا۔ کبھی مخلصی نہیں ہوگی اب دیکھو کہ کیا کوئی فطرت صحیحہ اس اعتقاد کو قبول کر سکتی ہے؟ کیا کوئی پاک کانشس اس کی شہادت دے سکتا ہے؟ کیا قانون قدرت کا ایک جزو بھی خدا بے عیب و بے نقص وغیرہ متغیر کے لئے یہ حوادث و آفات روا رکھ سکتا ہے کہ اس کو ہمیشہ ہر ایک عالم کے پیدا کرنے اور پھر اس کو نجات دینے کیلئے ایک مرتبہ مرنا درکار ہے اور بجز خود کشی اپنے کسی افاضۂ غیر کے صفت کو ظاہر نہیں کر سکتا اور نہ کسی قسم کا اپنی مخلوقات کو دنیا یا آخرت میں آرام پہنچا سکتا ہے ظاہر ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کو اپنی رحمت بندوں پر نازل کرنے کیلئے خود کشی کی ضرورت ہے تو اُس سے لازم آتا ہے کہ ہمیشہ اس کو حادثہ موت کا پیش آتا رہے اور پہلے بھی بے شمار موتوں کا مزہ چکھ چکا ہو اور نیز لازم آتا ہے کہ ہندوؤں کے پرمیشور کی طرح معطل الصافت ہو۔ اب خود ہی سوچو کہ کیا ایسا عاجز اور درماندہ خدا ہو سکتا ہے کہ جو بغیر خودکشی کے اپنی مخلوقات کو کبھی اور کسی زمانہ میں کوئی نفع پہنچا نہیں سکتا کیا ہی حالت ضعف اور ناتوانی کی خدائے قادر مطلق کے لائق ہے پھر عیسائیوں کے خدا کی موت کا نتیجہ دیکھے تو کچھ بھی نہیں ان کے خدا کی جان گئی۔ مگر شیطان کے وجود اور اس کے کارخانے کا ایک بال بھی بینگا نہ ہوا۔ وہی شیطان اور وہی اس کے چیلے جو پہلے تھے اب بھی ہیں۔ چوری، ڈکیتی، زنا، قتل، دروغ گوئی، شراب خواری، قماربازی، دنیا پرستی، بے ایمانی، کفر شرک، دہریہ پن اور دوسرے صدہا طرح کے جرائم جو قبل از مصلوبیت مسیح تھے اب بھی اُسی زور و شور میں ہیں بلکہ کچھ چڑھ، بڑھ کر مشلاً دیکھئے کہ اس زمانہ میں کہ جب ابھی مسیحیوں کا خدا زندہ تھا عیسائیوں کی حالت اچھی تھی جبھی کہ اس خدا پر موت آئی جس کو کفّارہ کہا جاتا ہے۔ تبھی سے عجیب طور پر شیطان اس قوم پر سوار ہو گیا اور گناہ اور نافرمانی اور نفس پرستی کے ہزار ہا دروازے کھل گئے۔ چنانچہ عیسائی لوگ خود اس بات کے قائل ہیں اور پادری فنڈر صاحب مصنف میزان الحق فرماتے ہیں کہ عیسائیوں کی کثرت نگاہ اور اُن کی اندرونی بدچلنی اور فسق و فجور کے پھیلنے کی وجہ سے ہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم بغرض سزا دہی اور تنبیہ عیسائیوں کے بھیجے گئے تھے۔ پس ان تقریروں سے ظاہر ہے کہ زیادہ تر گناہ اور معصیت کا طوفان مسیح کے مصلوب ہونے کے بعد ہی عیسائیوں میں اُٹھا ہے اس سے ثابت ہے کہ مسیح کا مرنا اس غرض سے نہیں تھا کہ گنناہ کی … اس کی موت سے کچھ روبکمی ہو جائے گی۔ مثلاً اس کے مرنے سے پہلے اگر لوگ بہت شراب پیتے تھے یا اگر بکثرت زنا کرتے تھے یا اگر پکے دیندار تھے تو مسیح کے مرنے کے بعد یہ ہر یک قسم کے گناہ دور ہو جائیں گے کیونکہ یہ بات مستغنی عن الثبوت ہے کہ جس قدر اب شراب خوری و دنیا پرستی و زنا کاری خاص کر یورپ کے ملکوں میں ترقی پر ہے کوئی دانا ہرگز خیال نہیں کر سکتا کہ مسیح کی موت سے پہلے ہی طوفان فسق و فجور کا برپا ہو رہا تھا بلکہ اس کا ہزارم حصہ بھی ثابت نہیں ہو سکتا اور انجیلوں پر غور کر کے بکمال صفائی کھل جاتا ہے کہ مسیح کو ہرگز منظور نہ تھا کہ یہودیوں کے ہاتھ میں پکڑا جائے اور مارا جائے اور صلیب پر کھینچا جائے کیونکہ اگر یہی منظور ہوتا تو ساری رات اس بلا کے دفعہ کرنے کیلئے کیوں روتا رہتا اور رو رو کر کیوں یہ دعا کرتا کہ اے ابّا! اے باپ!! تجھ سے سب کچھ ہو سکتا ہے یہ پیالہ مجھ سے ٹال دے بلکہ سچ یہی ہے کہ مسیح بغیر اپنی مرضی کے ناگہانی طور پر پکڑا گیا اور اس نے مرتے وقت بھی رو رو کر یہی دعا کی کہ ایلی ایلی کما سبقتنی کہ اے میرے خدا اے میرے خدا تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا۔
اس سے بوضاحت ثابت ہوتا ہے کہ مسیح زندہ رہنا اور کچھ اَوْر دن دنیا میں قیام کرنا چاہتا تھا اور اس کی روح نہایت بے قراری سے تڑپ رہی تھی کہ کسی طرح اس کی جان بچ جائے لیکن بلا مرضی اس کے یہ سفر اس کو پیش آ گیا تھا اور نیز یہ بھی غور کرنے کی جگہ ہے کہ قوم کے لئے اس طریقہ پر مرنے سے جیسا کہ عیسائیوں نے تجویز کیا ہے۔ مسیح کو کیا حاصل تھا اور قوم کو اُس سے کیا فائدہ اگر وہ زندہ رہتا تو اپنی قوم میں بڑی بڑی اصلاحیں کرتا بڑے بڑے عیب اوّل سے دور کر کے دکھاتا۔ مگر اس کی موت نے کیا کر کے دکھایا بجز اس کے کہ اس کے بے وقت مرنے سے صدہا فتنے پیدا ہوئے اور ایسی خرابیاں ظہور میں آئیں جن کی وجہ سے ایک عالم ہلاک ہو گیا۔ یہ سچ ہے کہ جوانمرد لوگ قوم کی بھلائی کیلئے اپنی جان بھی فدا کر دیتے ہیں یا قوم کے بچاؤ کے لئے جان کو معرض ہلاکت میں ڈالتے ہیں مگر نہ ایسے لغو اور بیہودہ طور پر جو مسیح کی نسبت بیان کیا جاتا ہے بلکہ جو شخص دانشمند طور سے قوم کے لئے جان دیتا ہے یا جان کو معرض برکت میں ڈالتا ہے وہ تو معقول اور پسندیدہ اور کارآمد اور صریح مفید طریقوں میں سے کوئی ایسا اعلیٰ اور بدیحی النفع طریقہ فدا ہونے کا اختیار کرتا ہے جس طریقے کے استعمال سے گو اس کو تکلیف پہنچ جائے یا جان ہی جائے۔ یہ تو نہیں کہ پھانسی لے کر یا زہر کھا کر یا کسی کوئیں میں گرنے سے خود کشی کا مرتکب ہو اور پھر یہ خیال کرے کہ میری خود کشی قوم کے لئے بہبودی کا موجب ہوگی۔ ایسی حرکت تو دیوانی کا کام ہے نہ عقلمندوں دینداروں کا بلکہ یہ موت موتِ احترام ہے اور بجز سخت جاہل اور سادہ لوح کے کئی اس کا ارادہ نہیں کرتا۔ میں سچ کہتا ہوں کہ کامل اور اوالوالعزم آدمی کا مرنا بجز اُس حالت کے کہ بہتوں کے بچاؤ کے لئے کسی معقول اور معروف طریق پر مرنا ہی پڑے قوم کے لئے اچھا نہیں بلکہ بڑی مصیبت اور ماتم کی جگہ ہے اور ایسا شخص جس کی ذات خلق اللہ کو طرح طرح کا فائدہ پہنچ رہا ہے اگر خودکشی کا ارادہ کرے تو وہ خدا تعالیٰ کا سخت گنہگار ہے اور اس کا گناہ دوسرے ایسے مجرموں کی نسبت بہت زیادہ ہے پس ہر ایک ایسے کامل کے لئے لازم ہے کہ اپنے لئے جناب باری تعالیٰ سے درازی عمر مانگے تا وہ خلق اللہ کے لئے ان سارے کاموں کو بخوبی انجام دے سکے۔ جن کے لئے اس کے دل میں جوش ڈالا گیا ہے ہاں شریر آدمی کا مرنا اس کے لئے بہتر ہے تا شرارتوں کا ذخیرہ زیادہ نہ ہوتا جائے اور خلق اللہ اس کے ہر روز کے فتنہ سے تباہ نہ ہو جائے اور اگر یہ سوال کیا جائے کہ تمام پیغمبروں میں سے قوم کے بچاؤ کے لئے اور الٰہی جلال کے اظہار کی غرض سے معقول طریقوں کے ساتھ اور ضروری حالتوں کے وقت میں کس پیغمبر نے زیادہ تر معرض ہلاکت میں ڈالا اور قوم اپنے تئیں فدا کرنا چاہا آیا مسیح یا کسی اور نبی یا ہمارے سیّد و مولیٰ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اس کا جواب جس جوش اور روشن دلائل اور آیات بینات اور تاریخی ثبوت سے میرے سینہ میں بھرا ہوا ہے میں افسوس کے ساتھ اس جگہ اس کا لکھنا چھوڑ دیتا ہوں کہ وہ بہت طویل ہے یہ تھوڑا سا مضمون اس کی برداشت نہیں کر سکتا۔ انشاء اللہ القدیر اگر عمر نے وفا کی تو آئندہ ایک رسالہ مستقلہ اس بارہ میں لکھوں گا لیکن بطور مختصر اس جگہ بشارت دیتا ہوں کہ وہ فرد کامل جو قوم پر اور تمام بنی نوع پر اپنے نفس کو فدا کرنے والا ہے وہ ہمارے نبی کریم ہیں یعنی سیّدنا و مولانا وحیدنا و فرید نا احمد مجتبیٰ محمد مصطفی الرسول النبی الامی العربی القریشی صلی اللہ علیہ وسلم۔
حاشیہ: تازہ اخبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ تیرہ کروڑ ساٹھ ہزار پونڈ کا ہر سال سلطنت برطانیہ میں شراب نوشی میں خرچ ہوتا ہے (اور ایک نامہ نگار ایم اے کی تحریر ہے) کہ شراب کی بدولت لنڈن میں صدہا خودکشی کی وارداتیں ہو جاتی ہیں اور خاص لنڈن میں شاید منجملہ تیس لاکھ آبادی کے دس ہزار آدمی مے نوش نہ ہوں گے ورنہ سب مرد عورت خوشی اور آزادی سے شراب پیتے اور پلاتے ہیں۔ اہل لنڈن کا کوئی ایسا جلسہ اور سوسائٹی اور محفل نہیں ہے کہ جس میں سب سے پہلے برانڈی اور سری اور لال شراب کا انتظام نہ کیا جاتا ہو ہر ایک جلسہ کا جزو اعظم شراب کو قرار دیا جاتا ہے اور طرفہ براں یہ کہ لنڈن کے بڑے بڑے کشیش اور پادری صاحبان بھی باوجود دیندار کہلانے کے مئے نوشی میں اوّل درجہ ہوتے ہیں۔ جتنے جلسوں میں مجھ کو بطفیل مسٹر نکلیٹ صاحب شامل ہونے کا اتفاق ہوا ہے ان سب میں ضرور دو چار نوجوانوں پادری اور ریورنڈ بھی شامل ہوتے دیکھے۔ لنڈن میں شراب نوشی کو کسی بڑی مد میں شامل نہیں سمجھا گیا اور یہاں تک شراب نوشی کی علانیہ گرم بازاری ہے کہ میں نے بچشم خود ہنگام سیر لنڈن اکثر انگریزوں کو بازار میں پھرتے دیکھا کہ متوالے ہو رہے ہیں اور ہاتھ میں شراب کی بوتل ہے۔ علی ہذا القیاس لنڈن میں عورتیں دیکھی جاتی تھیں کہ ہاتھ میں بوتل پکڑی لڑکھڑاتی چلی جاتی ہیں۔ بیسیوں لوگ شراب سے مدہوش اور متوالے اچھے بھلے مانس مہذب بازاروں کی نالیوں میں گرے ہوئے دیکھے۔ شراب نوشی کی طفیل اور برکت سے لنڈن میں اس قدر خود کشی کی وارداتیں واقعہ ہوتی رہتی ہیں کہ ہر ایک سال اُن کا ایک مہلک وبا پڑتا ہے (یکم فروری ۱۸۸۳ء رہبر ہند لاہور)
اسی طرح ایک صاحب نے لنڈن کی عام زناکاری اور فریب ستر ستر ہزار کے ہر سال ولدالزنا کا پیدا ہونا ذکر کر کے وہ باتیں ان لوگوں کی بے حیائی کی لکھی ہیں کہ جن کی تفصیل سے قلم رُکتا ہے بعض نے یہ بھی لکھا ہے کہ یورپ کو اوّل درجہ کے مہذب اور تعلیم یافتہ لوگوں کے اگر دس حصے کئے جائیں تو بلاشبہ نوحصے ان میں سے دہریہ ہوں گے جو مذہب کی پابندی اور خدا تعالیٰ کے اقرار اور جزاوسزا کے اعتقاد سے فارغ ہو بیٹھے ہیں اور یہ مرض دہریت کا دن بدن یورپ میں بڑھتا جاتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ دولت برطانیہ کی کشادہ دلی نے اس کی ترقی سے کچھ بھی کراہت نہیں کی۔ یہاں تک کہ بعض پکے دہریہ پارلیمنٹ کی کرسی پر بھی بیٹھ گئے اور کچھ پرواہ نہیں کی گئی۔ نامحرم لوگوں کا نوجوان عورتوں کا بوسہ لینا صرف جائز ہی نہیں بلکہ یورپ کی نئی تہذیب میں ایک مستحن امر قرار دیا گیا ہے کہ کوئی دعویٰ سے نہیں کہہ سکتا ہے کہ انگلستان میں کوئی ایسی عورت بھی ہے کہ جس کا عین جوانی کے دنوں میں کسی نامحرم جوان نے بوسہ نہ لیا ہو۔ دنیا پرستی اس قدر ہے کہ آروپ الگزنڈر صاحب اپنی ایک چٹھی میں (جو میرے نام بھیجی ہے) لکھتے کہ تمام مہذب اور تعلیم یافتہ جو اس ملک میں پائے جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک بھی میری نظر میں ایسا نہیں جس کی نگاہ آخرت کی طرف لگی ہوئی ہو بلکہ تمام لوگ سر سے پیر تک دنیا پرستی میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ اب ان تمام بیانات سے ظاہر ہے کہ مسیح کے قربان ہونے کی وہ تاثیریں جو پادری لوگ ہندوستان میں آ کر سادہ لوحوں کو سناتے ہیں سراسر پادری صاحبوں کا افتراء ہے اور دراصل حقیقت یہی ہے کہ کفّارہ کے مسئلہ کو قبول کر کے جس طرح عیسائیوں کی طبیعتوں نے پلٹا کھایا ہے وہ وہی ہے کہ شراب خوری بکثرت پھیل گئی۔
اس جگہ میں نے سچے اور جھوٹے مذہب کی تفریق کیلئے وہ فرق جو زمین پر موجود ہے یعنی جو باتیں عقل اور کانشنس کے ذریعہ سے فیصلہ ہو سکتی ہیں کسی قدر لکھ دیا ہے لیکن جو فرق آسمان کے ذریعہ سے کھلتا ہے وہ بھی ضروری ہے کہ بجز اس کے حق اور باطل میں امتیاز بین نہیں ہو سکتا اور وہ یہ ہے کہ سچے مذہب کے پیرو کے ساتھ خدا تعالیٰ کے ایک خاص تعلقات ہو جاتے ہیں اور وہ کامل پیرو اپنے نبی متبوع کا مظہر اور اس کے حالات روحانیہ اور برکات باطنیہ کا ایک نمونہ ہو جاتا ہے اور جس طرح بیٹے کے وجود درمیانی کی وجہ سے پوتا بھی بیٹا ہی کہلاتا ہے اسی طرح جو شخص زیر سایہ متابعت نبی پرورش یافتہ ہے اس کے ساتھ بھی وہی لطف اور احسان ہوتا ہے جو نبی کے ساتھ ہوتا ہے اور جیسے نبی کو نشان دکھائے جاتے ہیں ایسا ہی اس کی خاص طور پر معرفت بڑھانے کیلئے اس کو بھی نشان ملتے ہیں۔ سو ایسے لوگ اس دین کی سچائی کے لئے جس کی تائید کے لئے وہ ظہور فرماتے ہیں زندہ نشان ہوتے ہیں۔ خدا تعالیٰ آسمان سے ان کی تائید کرتا ہے اور بکثرت ان کی دعائیں قبول فرماتا ہے اور قبولیت کی اطلاع بخشتا ہے ان پر مصیبتیں بھی نازل ہوتی ہیں نہ اس لئے کہ اُنہیں ہلاک کریں بلکہ اس لئے کہ تا آخر ان کی خاص تائید سے قدرت کے نشان ظاہر کئے جائیں وہ بے عزتی کے بعد بھی عزت پا لیتے ہیں اور مرنے کے بعد پھر زندہ ہو جایا کرتے ہیں تا خدا تعالیٰ کے خاص کام ان میں ظاہر ہوں۔
اس جگہ یہ نکتہ یاد رکھنے کے لائق ہے کہ دعا کا قبول ہونا دو طور سے ہوتا ہے ایک بطور ابتلا اور ایک بطور اصطفاء بطور ابتلا تو کبھی کبھی گنہگاروں اور نافرمانوں بلکہ کافروں کی دعا بھی قبول ہو جاتی ہے۔ مگر ایسا قبول ہونا حقیقی قبولیت پر دلالت نہیں کرتا بلکہ از قبیل استدراج و امتحان ہوتا ہے۔ لیکن جو بطور اصطفا دعا قبول ہوتی ہے اس میں یہ شرط ہے کہ دعا کرنے والا خدائے تعالیٰ کے برگزیدے بندوں میں سے ہو اور چاروں طرف کے برگزیدگی کے انوار و آثار اس میں ظاہر ہوں کیونکہ خداتعالیٰ حقیقی قبولیت کے طور پر نافرمانوں کی دعا ہرگز نہیں سنتا بلکہ انہیں کی سنتا ہے کہ جو اس کی نظر
بقیہ حاشیہ: خدا تعالیٰ کی عبادت سچی ایسے کرنا اور کلی روبحق ہونا یہ سب باتیں موقوف ہوگئیں ہاں انتظامی تہذیب یورپ میں بے شک پائی جاتی ہے۔ یعنی باہم رضامندی کے برخلاف جو گناہ ہیں جیسے سرقہ اور قتل اور زنا بالجبر وغیرہ جن کے ارتکاب سے شاہی خوانین نے بوجہ مصالح ملکی روک دیا ہے ان کا انسداد بے شک ہے مگر ایسے گناہوں کے انسداد کی یہ وجہ نہیں کہ مسیح کے کفّارہ کا اثر ہوا ہے بلکہ رعب قوانین اور سوسائٹی کے دباؤ نے یہ اثر ڈالا ہوا ہے کہ اگر یہ موانع درمیان نہ ہوں تو حضرات مسیحیاں سب کچھ کر گزریں اور پھر یہ جرائم بھی تو اور ملکوں کی طرح یورپ میں بھی ہوتے رہتے ہیں انسداد کلی تو نہیں۔
میں راستباز اور اس کے حکم پر چلنے والے ہوں۔ سو ابتلا اور اصطفاء کی قبولیت ادعیہ میں مابہ الامتیاز یہ ہے کہ جو ابتلا کے طور پر دعا قبول ہوتی ہے اس میں متقی اور خدا دوست ہونا شرط نہیں اور نہ اس میں یہ ضرورت ہے کہ خدا تعالیٰ دعا کو قبول کر کے بذریعہ اپنے مکالمہ خاص کے اس کی قبولیت سے اطلاع بھی دیوے اور نہ وہ دعائیں ایسی اعلیٰ پایہ کی ہوتی ہیں جن کا قبول ہونا ایک امر عجیب اور خارق عادت متصور ہو سکے لیکن جو دعائیں اصطفاء کی وجہ سے قبول ہوتی ہیں ان میں یہ نشانیاں نمایاں ہوتی ہیں۔
(۱) اوّل یہ کہ دعا کرنے والا ایک متقی اور راست باز اور کامل فرد ہوتا ہے۔
(۲) دوسرے یہ کہ بذریعہ مکالمات الٰہیہ اس دعا کی قبولیت سے اس کو اطلاع دی جاتی ہے۔
(۳) تیسری یہ کہ اکثر وہ دعائیں جو قبول کی جاتی ہیں نہایت درجہ کی اور پیچیدہ کاموں کے متعلق ہوتی ہیں جن کی قبولیت سے کھل جاتا ہے کہ یہ انسان کا کام اور تدبیر نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کا ایک خاص نمونہ قدرت ہے جو خاص بندوں پر ظاہر ہوتا ہے۔
(۴) چوتھی یہ کہ ابتلائی دعائیں تو کبھی کبھی شاذو نادر کے طور پر قبول ہوتی ہیں لیکن اصطفائی دعائیں کثرت سے قبول ہوتی ہیں۔ بسا اوقات صاحب اصطفائی دعا کا ایسی بڑی بڑی مشکلات میں پھنس جاتا ہے کہ اگر اور شخص ان میں مبتلاہو جاتا تو بجز خودکشی کے اور کوئی حیلہ اپنی جان بچانے ہرگز اُسے نظر نہ آتا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوتا بھی ہے کہ جب کبھی دنیا پرست لوگ جو خدا تعالیٰ سے مہجور و دور ہیں بعض بڑے بڑے ہموم و غموم و امراض و اسقام و بلیات لاینحل میں مبتلا ہو جاتے ہیں تو آخر وہ بباعث ضعف ایمان خدا تعالیٰ سے ناامید ہو کر کسی قسم کا زہر کھا لیتے ہیں یا کنوئیں میں گرتے ہیں یا بندوق وغیرہ سے خود کشی کر لیتے ہیں لیکن ایسے نازک وقتوں میں صاحب اصطفاء کا بوجہ اپنی قوت ایمانی اور تعلق خاص کے خدا تعالیٰ کی طرف سے نہایت عجیب در عجیب مدد دیا جاتا ہے اور عنایت الٰہی ایک عجیب طور سے اس کا ہاتھ پکڑ لیتی ہے یہاں تک کہ ایک محرم راز کا دل بے اختیار بول اُٹھتا ہے کہ یہ شخص مؤید الٰہی ہے۔
(۵) پانچویں یہ کہ صاحب اصطفائی دعا کا مورد عنایات الٰہیہ کا ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ اس کے تمام کاموں میں اس کا متولی ہو جاتا ہے اور عشق الٰہی کا نور اور مقبولانہ کبریائی کی مستی اور روحانی لذت یابی اور متغم کے آثار اس کے چہرہ میں نمایاں ہوتے ہیں جیسا کہ اللہ جلشانہٗ فرماتا ہے۔
تُعِرْفُ وُجُوْھِھِمْ نَصْرَاۃً النِعَّیْمِ اَلَا اِنَّ اَوْلِیآء اللّٰہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَo الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَo لَھُمُ الْبُشْریٰ فِی الْحیوٰۃ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ لَاتَبْدِیْلَ لِکَلِمٰتِ اللّٰہِ ذٰلِکَ ھُوَالْفَوْزُ الْعَظِیْمo اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْ تَتَنَزَّلُ عَلَیْھِمُ الْمٰلئِکَۃُ اِلاَّتَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوعَدُوْنَo نَحْنُ اَوْلِیَآئُ کُمْ فِی الْحیرۃَ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ وَلَھُمُ فِیْھَا مَا تَشْتَھِیْ اَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیْھَا مَاتَدَّعُوْنَo وَاِذَ اسَئَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّی فَاَنِّی قَرِیْبٌ اُجِیْبُ الدَّعْوَۃَ الدَّاعِ اِذْا دَعَانِ فَلْیَسْتَجْیِبُوْلِیْ وَالْمومُنْوبیِ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَo ۱؎
ترجمہ: خبردار ہو یعنی یقینا سمجھے کہ جو لوگ اللہ جلشانہٗ کے دوست ہیں یعنی جو لوگ اللہ تعالیٰ سے سچی محبت رکھتے ہیں اور خدا تعالیٰ ان سے محبت رکھتا ہے تو ان کی یہ نشانیاں ہیں کہ نہ ان پر خوف مستولی ہوتا ہے کہ وہ کیا کھائیں گے یا کیا پئیں گے یا فلاں بلا سے کیونکر نجات ہوگی۔ کیونکہ وہ تسلی دیئے جاتے ہیں اور نہ گزشتہ کے متعلق کوئی حزن و اندوہ نہیں ہوتا ہے کیونکہ وہ صبر دیئے جاتے ہیں۔ دوسری یہ نشانی ہے کہ انہیں (بذریعہ مکالمہ الٰہیہ و رویائے صالحہ) بشارتیں ملتی رہتی ہیں اس جہان میں بھی اور دوسرے جہان میں بھی خدا تعالیٰ کاان کی نسبت یہ عہد ہے جو ٹل نہیں سکتا اور یہی پیارا درجہ ہے جو انہیں ملا ہوا ہے۔ یعنی مکالمہ الٰہیہ و رویائے صالحہ سے خدا تعالیٰ کے مخصوص بندوں کو جو اس کے ولی ہیں ضرور حصہ ملتا ہے اور ان کی ولایت کا بھاری نشان یہی ہے کہ مکالمات و مخاطبات الٰہیہ سے مشرف ہوں (یہی قانون قدرت اللہ جلشانہ کا ہے) کہ جو لوگ ارباب متفرقہ سے منہ پھیر کر اللہ جلشانہٗ کو اپنا ربّ سمجھ لیں اور کہیں کہ ہمارا تو ایک اللہ ہی ربّ ہے (یعنی اور کسی کی ربوبیت پر ہماری نظر نہیں) اور پھر آزمائشوں کے وقت میں مستقیم رہیں (کیسے ہی زلزلے آویں آندھیاں چلیں تاریکیاں پھیلیں ان میں ذرا تزلزل اور تغیر اور اضطراب پیدا نہ ہو پوری پوری استقامت پر رہیں) تو ان پر فرشتے اُترتے ہیں یعنی الہام اور رؤیائے صالحہ کے ذریعہ سے انہیں بشارتیں ملتی رہتی ہیںکہ دنیا و آخرت میں ہم تمہارے دوست اور متولی اور متکفل ہیں اور آخرت میں جو کچھ تمہارے جی چاہیں گے وہ سب تمہیں ملے گا۔ یعنی اگر دنیا میں کچھ مکروہات بھی پیش آویں تو کوئی اندیشہ کی بات نہیں کیونکہ آخرت
۱؎ یاد رہے یہ قرآن مجید کی مختلف مقامات کی آیتیں ہیں۔ (ایڈیٹر)
میں تمام غم دور ہو جائیں گے اور سب مرادیں حاصل ہوں گی اگر کوئی کہے کہ یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ آخرت میں جو کچھ انسان کا۔
اب جاننا چاہئے کہ محبوبیت اور قبولیت اور ولایت حقہ کا درجہ جس کے کسی قدر مختصر طو رپر نشان بیان کر چکا ہوں۔ یہ بجز اتباع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہرگز حاصل نہیں ہو سکتا۔ نفس چاہے اس کو ملے۔ میں کہتا ہوں کہ یہ ہونا نہایت ضروری ہے اور اسی بات کا نام نجات ہے ورنہ اگر انسان نجات پا کر بعض چیزوں کو چاہتا رہا اور ان کے غم میں کباب ہوتا اور جلتا رہا مگر وہ چیزیں اس کو نہ ملیں تو پھر نجات کاہے کی ہوئی۔ ایک قسم کا عذاب تو ساتھ ہی رہا۔ لہٰذا ضرور ہے کہ جنت یا بہشت یا مکتی خانہ یا سرگ جو نام اس مقام کا رکھا جائے جو انتہائے سعادت پانے کا گھر ہے وہ ایسا گھر چاہئے کہ انسان کو من کل الوجوہ اس میں مصفا خوشی حاصل ہو اور کوئی ظاہری یا باطنی رنج کی بات درمیان نہ ہو اور کسی ناکامی کی سوزش دل پر غالب نہ ہو۔ ہاں یہ سچ بات ہے کہ بہشت میں نالائق و نامناسب باتیں نہیں ہوں گی۔ مگر مقدس دلوں میں ان کی خواہش بھی پیدا نہ ہوگی بلکہ ان مقدس اور مطہر دلوں میں جو شیطانی خیالات سے پاک کئے گئے ہیں انسان کی پاک فطرت اور خالق کی پاک مرضی کے موافق پاکیزہ خواہشیں پیدا ہوں گی تا انسان اپنی ظاہری اور باطنی اور بدنی اور روحانی سعادت کو پورے طور پر پا لیوے اور اپنے جمیع قویٰ کے کامل ظہور سے کامل انسان کہلاوے کیونکہ بہشت میں داخل کرنا انسان نفس کے مٹا دینے کی غرض سے نہیں جیسا کہ ہمارے مخالف عیسائی اور آریہ خیال کرتے ہیں بلکہ اس غرض سے ہے کہ تا انسانی فطرت کے نقوش ظاہراً و باطناً بطور کامل چمکیں اور سب بے اعتدالیاں دور ہو کر ٹھیک ٹھیک وہ امور جلوہ نما ہو جائیں جو انسان کامل کے لئے بلحاظ ظاہری و باطنی خلقت اس کے ضروری ہیں۔
اور پھر فرمایا کہ جب میرے مخصوص ندے (جو برگزیدہ ہیں) میرے بارے میں سوال کریں اور پوچھیں کہ کہاں ہیں تو انہیں معلوم ہو کہ میں بہت ہی قریب ہوں اپنے مخلص بندوں کی دعا سنتا ہوں جبھی کہ کوئی مخلص بندہ دعا کرتا ہے (خواہ دل سے یا زبان سے) سن لیتا ہوں (پس اسی سے قرب ظاہر ہے) مگر چاہئے کہ وہ اپنی ایسی حالت بنائے رکھیں جس سے میں ان کی دعائیں سن لیا کروں۔ یعنی انسان اپنا حجاب آپ ہو جاتا ہے اور سچے متبع کے مقابل پر اگر کوئی عیسائی یا آریہ یا یہودی قبولیت کے آثار و انوار دکھلانا چاہے تو یہ اس کے لئے ہرگز ممکن نہ ہوگا ایک نہایت صاف طریق امتحان کا یہ ہے کہ اگر ایک مسلمان صانع کے مقابل پر جو سچا مسلمان اور سچائی سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا متبع ہو کوئی دوسرا شخص عیسائی وغیرہ معارضہ کے طور پر کھڑا ہو اور یہ کہے کہ جس قدر تجھ پر آسمان سے کوئی نشان ظاہر ہوگا یا جس قدر اسرارِ غیبیہ تجھ پر کھلیں گے یا جو کچھ قبولیت دعاؤں سے تجھے مدد دی جائے گی یا جس طور سے تیری عزت اور شرف کے اظہار کے لئے کوئی نمونہ قدرت ظاہر کیا جائے گا یا اگر انعامات خاصہ کا بطور پیش گوئی تجھے وعدہ دیا جائے گا یا اگر تیرے کسی موذی مخالف پر کسی تنبیہ کے نزول کی خبر دی جائے گی تو اُن سب باتوں میں جو کچھ تجھ سے ظہور میں آ جائے گا اور جو کچھ تود کہا جائے گا وہ میں بھی دکھلاؤں گا تو ایسا معارضہ کسی مخالف سے ہرگز ممکن نہیں اور ہرگز مقابل پر نہیں آئیں گے کیونکہ اُن کے دل شہادت دے رہے ہیں کہ وہ کذاب ہیں انہیں اس سچے خدا سے کچھ بھی تعلق نہیں کہ جو راستبازوں کا مددگار اور صدیقوں کا دوستدار ہے۔ جیسا کہ ہم پہلے بھی کسی قدر بیان کر چکے ہیں۔ وھذا اخر کلا منا والحمدللّٰہ اولاد اخر و ظاہرا و باطنا ھومولینا نعم المولی ونعم الوکیل۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
بشپ صاحب لاہور سے ایک سچے فیصلہ کی درخواست
میں نے سنا ہے کہ بشپ صاحب لاہور نے مسلمانوں کو اس بات کی دعوت کی ہے کہ اگر وہ چاہیں تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مقابل پر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معصوم ہونا ثابت کر کے دکھلا دیں میرے نزدیک بشپ صاحب موصوف کا یہ بہت عمدہ ارادہ ہے کہ وہ اس بات کا تصفیہ کرنا چاہتے ہیں کہ ان دونوں بزرگ نبیوں میں سے ایسا نبی کون ہے جس کی زندگی پاک اور مقدس ہو لیکن میں سمجھ نہیں سکتا کہ اس سے ان کی کیا غرض ہے کہ کسی نبی کا معصوم ہونا ثابت کیا جائے یعنی پبلک کو یہ دکھلایا جائے کہ اس نبی سے اپنی عمر میں کوئی گناہ صادر نہیں ہوا۔ میرے نزدیک یہ ایسا طریق بحث ہے جس سے کوئی عمدہ نتیجہ پیدا نہیں ہوگا کیونکہ تمام قوموں کا اس پر اتفاق نہیں ہے کہ فلاں قول اور فعل گناہ میں داخل ہے اور فلاں گفتار اور کردار گناہ میں داخل نہیں ہے مثلاً بعض فرقے شراب پینا سخت گناہ سمجھتے ہیں اور بعض کے عقیدہ کے موافق جب تک روٹی توڑ کر شراب میں نہ ڈالی جائے اور ایک نو مرید مع بزرگان دین کے اس روٹی کو نہ کھاوے اور اس شراب کو نہ پیوے تب تک دیندار ہونے کی پوری سند حاصل نہیں ہو سکتی۔ ایسا ہی بعض کے نزدیک اجنبی عورت کو شہوت کی نگاہ سے دیکھنا بھی زنا ہے مگر بعض کا یہ مذہب ہے کہ ایک خاوند والی عورت بیگانہ مرد سے بیشک اس صورت میں ہمبستر ہو جائے جب کہ کسی وجہ سے اولاد ہونے سے نومیدی ہو اور یہ کام نہ صرف جائز بلکہ بڑے ثواب کا موجب ہے اور اختیار ہے کہ دس یا گیارہ بچوں کے پیدا ہونے تک ایسی عورت بیگانہ مرد سے بدکاری میں مشغول رہے۔ ایسا ہی ایک کے نزدیک جوں یا پسو مارنا بھی حرام ہے اور دوسرا تمام جانوروں کو سبز ترکاریوں کی طرح سمجھتا ہے اور ایک کے مذہب میں سُؤر کا چھونا بھی انسان کو ناپاک کر دیتا ہے اور دوسرے کے مذہب میں سفید و سیاہ سُؤربہت عمدہ غذا ہیں۔ اب اس سے ظاہر ہے کہ گناہ کے مسئلہ میں دنیا کو کلی اتفاق نہیں ہے۔ عیسائیوں کے نزدیک حضرت مسیح خدائی کا دعویٰ کر کے پھر بھی اوّل درجہ کے معصوم ہیں مگر مسلمانوں کے نزدیک اس سے بڑھکر کوئی بھی گناہ نہیں کہ انسان اپنے تئیں یا کسی اور کو خدا کے برابر ٹھہرا دے غرض یہ طریق مختلف فرقوں کے لئے ہر گز حق شناسی کا معیار نہیں ہو سکتا جو بشپ صاحب نے اختیار کیا ہے ہاں یہ طریق نہایت عمدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا علمی اور عملی اور اخلاقی اور تقدسی اور برکاتی اور تاثیراتی اور ایمانی اورعرفانی اور افاضۂ خیر اور طریق معاشرت وغیرہ وجوہ فضائل ہیں باہم موازنہ اور مقابلہ کیا جائے یعنی یہ دکھلایا جاوے کہ ان تمام امور میں کس کی فضیلت اور فوقیت ثابت ہے اور کس کی ثابت نہیں کیونکہ جب ہم کلام کلی کے طور پر تمام طریق فضیلت کو مدنظر رکھ کر ایک نبی کے وجودہ فضائل بیان کریں گے تو ہم پر یہ طریق بھی کھلا ہوگا کہ اُسی تقریب پر ہم اُس نبی کی پاک باطنی اور تقدس اور طہارت اور معصومیت کے وجوہ بھی جس قدر ہمارے پاس ہوں بیان کر دیں اور چونکہ اس قسم کا بیان صرف ایک جزوی بیان نہیں ہے بلکہ بہت سی اور شاخوں پر مشتمل ہے اس لئے پبلک کے لئے آسانی ہوگی کہ اس تمام مجموعہ کو زیر نظر رکھ کر اس حقیقت تک پہنچ جاویں کہ ان دونوں نبیوں میں سے درحقیقت افضل اور اعلیٰ شان کس نبی کو حاصل ہے اور گو ہر ایک شخص فضائل کو بھی اپنے مذاق پرہی قرار دیتا ہے مگر چونکہ یہ انسانی فضائل کا ایک کافی مجموعہ ہوگا اس لئے اس طریق سے افضل اور اعلیٰ کے جانچنے میں وہ مشکلات نہیں پڑیں گے جو صرف معصومیت کی بحث میں پڑتی ہیں۔ بلکہ ہر ایک مذاق انسان کے لئے اس مقابلہ اور موازنہ کے وقت رور ایک ایسا قدر مشترک حاصل ہو جائے گا جس سے بہت صاف اور سہل طریقہ پر نتیجہ نکل آئے گا کہ ان تمام فضائل میں سے فضائل کثیرہ کا مالک اور جامع کون ہے۔ پس اگر ہماری بحثیں محض خدا کے لئے ہیں تو ہمیں وہی راہ اختیار کرنی چاہئے جس میں کوئی اشتباہ اور کدورت نہ ہو کیا یہ سچ نہیں ہے کہ معصومیت کی بحث میں پہلے قدم میں ہی یہ سوال پیش آئے گا کہ مسلمانوںاور یہودیوں کے عقیدہ کے رو سے جو شخص عورت کے پیٹ سے پیدا ہو کر خدا یا خدا کا بیٹا ہونا اپنے تئیں بیان کرتا ہے وہ سخت گناہگار بلکہ کافر ہے تو پھر اس صورت میں معصومیت کیا باقی رہی اور اگر کہو کہ ہمارے نزدیک ایسا دعویٰ نہ گناہ نہ کفر کی بات ہے تو پھر اُسی الجھن میں آپ پڑ گئے جس سے بچنا چاہئے تھا کیونکہ جیسا آپ کے نزدیک حضرت مسیح کے لئے خدائی کادعویٰ کرنا گناہ کی بات نہیں ہے ایسا ہی ایک شاکت مت والے کے نزدیک ماں بہن سے بھی زنا کرنا گناہ کی بات نہیں ہے اور آریہ صاحبوں کے نزدیک ہر ایک ذرّہ کو اپنے وجود کا آپ ہی خدا جاننا اور اپنی پیاری بیوی کو باوجود اپنی موجودگی کے کسی دوسرے سے ہمبستر کا دینا کچھ بھی گناہ کی بات نہیں اور سناتن دھرم والوں کے نزدیک راجہ رامچندر اور کرشن کو اوتار جاننا اور پرمیشور ماننا اور پتھروں کے آگے سجدہ کرنا کچھ گناہ کی بات نہیں اور ایک گبر کے نزدیک آگ کی پوجا کرنا کچھ گناہ کی بات نہیں اور ایک فرقہ یہودیوں کے مذہب کے موافق غیر قوموں کے مال کی چوری کر لینا اور ان کو نقصان پہنچانا کچھ گناہ کی بات نہیں اور بجز مسلمانوں کے سب کے مذہب کے نزدیک سود لینا کچھ گناہ کی بات نہیں تو اب ایسا کون فارغ ہے کہ ان جھگڑوں کا فیصلہ کرے اس لئے حق کے طالب کے لئے افضل اور اعلیٰ نبی کی شناخت کے لئے یہی طریق کھلا ہے جو میں نے بیان کیا ہے اور اگر ہم فرض بھی کر لیں تو تمام قومیں معصومیت کی وجوہ ایک ہی طور سے بیان کرتی ہیں یعنی اس بیان میں اگر تمام مذہبوں والے متفق بھی ہوں کہ فلاں فلاں امر گناہ میں داخل ہے جس سے باز رہنے کی حالت میں انسان معصوم کہلا سکتا ہے تو گو ایسا فرض کرنا غیر ممکن ہے تا ہم محض اس امر کی تحقیق ہونے سے کہ ایک شخص شراب نہیں پیتا، رہزنی نہیں کرتا، ڈاکہ نہیں مارتا، خون نہیں کرتا، جھوٹی گواہی نہیں دیتا ایسا شخص صرف اس قسم کی معصومیت کی وجہ سے انسان کامل ہونے کا ہرگز مستحق نہیں ہو سکتا اور نہ کسی حقیقی اور اعلیٰ نیکی کا مالک ٹھہر سکتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی کسی کو اپنا یہ احسان جتلائے کہ باوجودیکہ میں نے کئی دفعہ یہ موقعہ پایا کہ تیرے گھر کو آگ لگا دوں اور تیرے شیرخوار بچے کا گلا گھونٹ دوں مگر پھر بھی میں نے آگ نہیں لگائی اور نہ تیرے بچے کا گلا گھونٹا۔ تو ظاہر ہے کہ عقلمندوں کے نزدیک یہ کوئی اعلیٰ درجہ کی نیکی نہیں سمجھی جائے گی اور نہ ایسے حقوق اور فضائل کو پیش کرنے والا بھلا مانس انسان خیال کیا جائے گا۔ ورنہ ایک حجام اگر یہ احسان جتلا کر ہمیں ممنون بنانا چاہے کہ بالوںکے کاٹنے یا درست کرنے کے وقت مجھے یہ موقع ملا تھا کہ میںتمہارے سر یا گردن یا ناک پر استرہ مار دیتا مگر میں نے یہ نیکی کی کہ نہیں مارا؟ تو کیا اس سے وہ ہمارا اعلیٰ درجہ کا محسن ٹھہر جائے گا اور والدین کے حقوق کی طرح اس کے حقوق بھی تسلیم کئے جائیں گے؟ نہیں بلکہ وہ ایک طور کے جرم کا مرتکب ہے جو اپنی ایسی صفات ظاہر کرتا ہے اور ایک دانشمند حاکم کے نزدیک ضمانت لینے کے لائق ہے۔ غرض یہ کوئی اعلیٰ درجہ کا احسان نہیں ہے کہ کسی نے بدی کرنے سے اپنے تئیں بچائے رکھا کیونکہ قانون سزا بھی تو اُسے روکتا تھا۔ مثلاً اگر کوئی شیریر نقب لگائے یا اپنے ہمسایہ کا مال چرانے سے رک گیا ہے تو کیا اس کی یہی وجہ ہوسکتی ہے کہ وہ اس شرارت سے باز رہ کر اس سے نیکی کرنا چاہتا تھا بلکہ قانون سزا بھی تو اُسے ڈرا رہا تھا کیونکہ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اگر میں نقب زنی کے وقت یا کسی کے گھر میں آگ لگانے کے وقت یا کسی بے گناہ پر پستول چھوڑنے کے وقت یا کسی بچے کا گلا گھوٹنے کے وقت پکڑ گیا تو پھر گورنمنٹ پوری سزا دے کر جہنم تک پہنچائے گی۔ غرض اگر یہی حقیقی نیکی اور انسان کا اعلیٰ جوہر ہے تو پھر ہم تمام جرائم پیشہ ایسے لوگوں کے محسن ٹھہر جائیں گے جن کو انہوں نے کوئی ضرر نہیں پہنچایا۔ لیکن جن بزرگواروں کو ہم انسان کامل کا خطاب دینا چاہتے ہیں کیا ان کی بزرگی کے اثبات کیلئے ہمیں بھی وجوہ پیش کرنے چاہئیں کہ کبھی انہوں نے کسی شخص کے گھر کو آگ نہیں لگائی، چوری نہیں کی، کسی بیگانہ عورت پر حملہ نہیں کیا، ڈاکہ نہیں مارا، کسی بچے کا گلا نہیں گھونٹا حاشاوکلا یہ کمینہ باتیں ہرگز کمال کی وجوہ نہیں ہو سکتیں بلکہ ایسے ذکر سے تو ایک طور سے ہجو نکلتی ہے۔مثلاً اگر یہ کہوں کہ میری دانست میں زید جو ایک شہر کا معزز اور نیک نام رئیس ہے فلاں ڈاکہ میں شریک نہیں ہے یا فلاں عورت کو جو چند آدمی زنا کے لئے بہلا کرلے گئے تھے۔ اس سازش سے زید کا کچھ تعلق نہ تھا تو ایسے بیان میں مَیں زید کی ایک طریق سے ازالہ حیثیت عرفی کر رہا ہوں کیونکہ پوشیدہ طور پر پبلک کو احتمال کا موقع دیتا ہوں کہ وہ اس مادہ کا آدمی ہے گو اس وقت شریک نہیں ہے پس خدا کے نبیوں کی تعریف اسی حد تک ختم کر دینا بلاشبہ ان کی ایک سخت مذمت ہے اور ابھی بات کو ان کا بڑا کمال سمجھنا کہ جرائم پیشہ لوگوں کی طرح ناجائز تکالیف عامہ سے انہوں نے اپنے تئیں بچایا ان کے مرتبہ عالیہ کی بڑی ہتک ہے۔ اوّل تو بدی سے باز رہنا جس کومعصومیت کہا جاتا ہے کوئی اعلیٰ صفت نہیں ہے دنیا میں ہزاروں اس قسم کے لوگ موجود ہیں کہ ان کو موقع نہیں ملا کہ وہ نقب لگائیں یادھاڑا ماریں یا خون کریں یا شیر خوار بچوں کا گلا گھونٹیں یا بیچاری کمزور عورتوں کا زیور کانوں سے توڑ کر لے جائیں۔ پس ہم کہاں تک اس ترک شر کی وجہ سے لوگوں کو اپنے محسن ٹھہراتے جائیں اور ان کو محض اسی وجہ سے انسان کامل مان لیں؟ ماسوائے اس کے ترک شر کے لئے جس کو دوسرے لفظوں میں معصومیت کہتے ہیں بہت سے وجوہ ہیں ہر ایک کو یہ لیاقت کب حاصل ہے کہ رات کو اکیلا اُٹھے اور حربہ نقب ہاتھ میں لے کر اور لنگوٹی باندھ کر کسی کوچے میں گھس جائے اور عین موقعہ پر نقب لگا دے اور مال قابو میں کرے اور پھر جان بچا کربھاگ جائے۔ اس قسم کی مشقیں نبیوں کو کہاں ہیں اور بغیر لیاقت اور قوت کے جرأت پیدا ہی نہیں ہوسکتی۔ ایسا ہی زناکاری بھی قوت مردمی کی محتاج ہے اور اگر مرد ہو بھی تب بھی محض خالی ہاتھ سے غیر ممکن ہے بازاری عورتوں نے اپنے نفس کو وقف تو نہیں کر رکھا وہ بھی آخر کچھ مانگتی ہیں۔ تلوار چلانے کیلئے بھی بازو چاہئے اور کچھ اٹکل بھی اور کچھ بہادری اور دل کی قوت بھی بعض ایک چڑیا کو بھی نہیں مار سکتے اور ڈاکہ مارنا بھی ہر ایک بزدل کا کام نہیں اب اس بات کا کون فیصلہ کرے کہ مثلاً ایک شخص جو ایک پُر ثمر باغ کے پاس پاس جا رہا ھا اس نے اس باغ کا اس لئے بے اجازت پھل نہیں توڑا کہ وہ ایک بڑا مقدس انسان تھا کیا وجہ کہ ہم یہ نہ کہیں کہ اس لئے نہیں توڑا کہ دن کا وقت تھا پچاس محافظ باغ میںموجود تھے۔ اگر توڑتا تو پکڑا جاتا مار کھاتا بے عزت ہوتا۔ اس قسم کی نبیوں کی تعریف کرنا اور بار بار معصومیت پیش کرنا اور دکھلانا کہ انہوں نے ارتکاب جرائم نہیں کیا سخت مکروہ اور ترک ادب ہے۔ ہاں ہزاروں صفات فاضلہ کی ضمن میں اگر یہ بھی بیان ہو تو کچھ مضائقہ نہیں۔ مگر صرف اتنی ہی بات کہ اس نبی نے کبھی کسی بچے کا دوچار آنہ کے طمع کے لئے گلا نہیں گھونٹا یا کسی اور کمینہ بدی کا مرتکب نہیں ہوا یہ بلاشبہ ہجو ہے یہ ان لوگوں کے خیال ہیں جنہوں نے انسان کی حقیقی نیکی اور حقیقی کمال میں کبھی غور نہیں کیا۔ جس شخص کا نام ہم انسان کامل رکھتے ہیں ہمیں نہیں چاہئے کہ محض ترک شر کے پہلو سے اس کی بزرگی کا وزن کریں کیونکہ اس وزن سے اگر کچھ ثابت ہو تو صرف یہ ہوگا کہ ایسا انسان بدمعاشوں کے گروہ میں سے نہیں ہے معمولی بھلے مانسوں میں سے ہے کیونکہ جیسا کہ ابھی میں نے بیان کیا ہے محض شرارت سے باز رہنا کوئی اعلیٰ خوبیوں کی بات نہیں ایسا تو کبھی سانپ بھی کرتا ہے کہ آگے سے خاموش گزر جاتا ہے اور حملہ نہیں کرتا اور کبھی بھیڑیا بھی سامنے سے سرنگوں گزر جاتا ہے۔ ہزاروں بچے ایسی حالت میں مر جاتے ہیں اور کوئی ضرر بھی کسی انسان کو انہوں نے نہیں پہنچایا تھا بلکہ انسان کامل کی شناخت کے لئے کسب خیر کا پہلو دیکھنا چاہئے یعنی یہ کہ کیاکیا حقیقی نیکیاں اس سے ظہور میں آئیں اور کیا کیا حقیقی کمالات اس کے دل اور دماغ اور کانشنس میں موجود ہیں اور کیا کیا صفات فاضلہ اس کے اندر موجود ہیں۔ سو یہی وہ امر ہے جس کو پیش نظر رکھ کر حضرت مسیح کے ذاتی کمالات اور انواع خیرات اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالات اور خیرات کو ہر ایک پہلو سے جانچنا چاہئے۔ مثلاً سخاوت، فتوت مواسات، حقیقی حلم جس کے لئے قدرت سخت گوئی شرط ہے۔ حقیقی عفو جس کے لئے قدرت انتظام شرط ہے۔ حقیقی شجاعت جس کے لئے خوفناک دشمنوں کا مقابلہ شرط ہے حقیقی عدل جس کے لئے قدرت ظلم شرط ہے۔ حقیقی رحم جس کے لئے قدرت سزا شرط ہے اور اعلیٰ درجہ کی زیرکی اور اعلیٰ درجہ کا حافظہ اور اعلیٰ درجہ کی فیض رسانی اور اعلیٰ درجہ کی استقامت اور اعلیٰ درجہ کا احسان جن کے لئے نمونے اور نظیریں شرط ہیں۔ پس اس قسم کی صفات فاضلہ میں مقابلہ اور موازنہ ہونا چاہئے نہ صرف ترک شر میں جس کا بشپ صاحب معصومیت نام رکھتے ہیں کیونکہ نبیوں کی نسبت یہ خیال کرنا بھی گناہ ہے کہ انہوں نے چوری ڈاکہ وغیرہ کا موقع پرا کر اپنے تئیں بچایا یا یہ جرائم ان پر ثابت نہ ہو سکے بلکہ حضرت مسیح کا یہ فرمانا کہ ’’مجھے نیک مت کہو‘‘ یہ ایک ایسی وصیت تھی جس پر پادری صاحبوں کو عمل کرنا چاہئے تھا۔
اگر بشپ صاحب تحقیق حق کے درحقیقت شائق ہیں تواس مضمون کا اشتہار دے دیں کہ ہم مسلمانوں سے اس طریق سے بحث کرنا چاہتے ہیں کہ ان دونوں نبیوں میں سے کمالات ایرانی واخلاقی و برکاتی و تاثیراتی و قولی و فعلی و ایمانی و عرفانی و علمی و تقدسی اور طریق معاشرت کے رو سے کون نبی افضل و اعلیٰ ہے اگر وہ ایسا کریں اور کوئی تاریخ مقرر کر کے ہمیں اطلاع دیں تو ہم وعدہ کرتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی شخص تاریخ مقرر پر ضرور جلسہ قرار دادہ پر حاضر ہو جائے گا ورنہ یہ طریق محض ایک دھوکہ دینے کی راہ ہے جس کا یہی جواب کافی ہے اور اگر وہ قبول کر لیں تو یہ شرط ضروری ہوگی کہ ہمیں پانچ گھنٹہ سے کم وقت نہ دیا جائے۔
راقم خاکسار
مرزا غلام احمد (مسیح موعود)
از قادیان
۲۵؍ مئی ۱۹۰۰ء


خط
یہ خط حضرت مسیح موعود نے لکھا تھا اور ایک مجلس کی طرف سے بھیجا گیا تھا آخر میں جو اسماء کی فہرست ہے وہ میں نے چھوڑ دی ہے۔ (ایڈیٹر)
جناب فضیلت مآب مکرم رائٹ ریورنڈ جارج لیفرائے
ڈی ڈی بشپ صاحب لاہور
بعد آداب نیاز مندانہ بکمال ادب خدمت عالی میں یہ گزارش ہے کہ چونکہ یہ مختصر زندگی دنیا کی بہت جلد اپنے دورہ کو پورا کر رہی ہے اور عنقریب وہ زمانہ آتا ہے کہ ہمارے وجود کا نام و نشان بھی …ہوگا۔ اس لئے ہم لوگوں کے دلوں میں یہ غم دامنگیر ہے کہ کسی طرح راست روی اور سچی خوشحالی کے ساتھ یہ سفر انجام پذیر ہو اور اس مذہب پر خاتمہ ہو جو درحقیقت خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق ہے اور اگر ہم حق پر نہیں ہیںتو ہمارے دل اس سچائی کے قبول کرنے کے لئے تیار ہیں جو روشن دلیلوں کے ساتھ پیش کی جائے اور اگر کوئی بزرگ میدان بن کر عیسائی مذہب کی حقانیت ہم پر ثابت کرے تو اس احسان سے بڑھ کر ہمارے نزدیک کوئی احسان نہیں ہوگا۔ اس تحقیق کے لئے ہمارا دل درد مند ہے اور ہم دلی شوق سے چاہتے ہیں کہ اسلام اور عیسائی مذہب کا ایک مقابلہ ہو کر ہم اس رسول صادق کے آستانہ پر اپنا سر رکھیں جو پاکیزگی اور خوبی اور الٰہی طاقت اور اخلاقی کمالات میں تمام نوع انسان سے سبقت لے جانے والا ثابت ہو جائے اور اس دن سے جو آپ نے بمقام لاہور اس مضمون پر تقریر کی کہ نبی معصوم اور زندہ رسول کون ہے۔ ہمارے دل بول اُٹھے کہ اس ملک میں آپ ہی ایک ہیں جو عیسائی مذہب میں جلیل القدر فاضل ہیں۔ تب سے ہمارے دل میں یہ خیال پیدا ہوا ہے کہ اس کام کے لئے عیسائی صاحبوں میں سے بہتر اور کوئی نہیں ملے گا کیونکہ آپ کے معلومات بہت وسیع معلوم ہوتے ہیں اور آپ عربی اور فارسی اور اُردو میں عمدہ دخل رکھتے ہیں آپ کے اخلاق بھی بہت پسندیدہ اور بزرگانہ ہیں اور دوسری طرف مسلمانوں کے اہل علم کی طرف سے جو ہم نے نظر کی تو ہماری رائے میں اس کام کے لئے مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے برابر اور کوئی نہیں جو مسیح موعود ہونے کا نہ صرف دعویٰ کرتے ہیں بلکہ بہت سے قطعی دلائل سے ثابت کر دیا ہے کہ یہ وہی ہیں جن کے دنیا میں آنے کا انجیل اور قرآن میں وعدہ ہے جس کو دنیا کے مختلف حصوں میں تقریباً تیس ہزار لوگوںنے تسلیم کر لیا ہے۔ غرض اس وقت پنجاب اور ہندوستان کے تمام فاضل اور اہل علم عیسائیوں میں سے آپ کا وجود از بس غنیمت ہے اور مسلمانوں میں سے مرزا صاحب موصوف ہیں جو خدا کے انتخاب کردہ اور ممسوح ہیں ہماری خوش قسمتی ہے کہ ایسا عمدہ موقع ہمیں پیش آ گیا ہے کہ ایک طرف تو آپ موجود ہیں اور دوسری طرف وہ جو خدا کا مسیح کہلاتا ہے۔
اسی بنا پر ہم لوگوں کی طرف سے جن کے نام نیچے لکھے ہیں یہ درخواست ہے کہ چند مختلف فیہ مسائل میں آپ اور جناب مسیح موعود موصوف باہم مباحثہ کریں اور حضرت مسیح موعود اس بات کو قبول فرماتے ہیں کہ پانچ مسائل میں باہم تحریری بحث ہو جائے۔ اور وہ یہ ہے:۔
(۱) ان دونوں نبیوں یعنی حضرت مسیح علیہ السلام اور جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں سی کسی نبی کی نسبت اس کی کتاب کی رو سے نیز دوسرے دلائل سے ثابت ہے کہ وہ کامل طور پر معصوم ہے۔
(۲) دونوں بزرگوار نبیوں علیہم السلام میں سے کون سا وہ نبی ہے جس کو اس کی کتاب وغیرہ دلائل کے رو سے زندہ رسول کہہ سکتے ہیں جو الٰہی طاقت اپنے اندر رکھتا ہے۔
(۳) ان دونوں بزرگوار علیہما السلام سے کونسا وہ نبی ہے جس کو اس کی آسمانی کتاب وغیرہ دلائل کے رو سے شفیع کہہ سکتے ہیں۔
(۴) ان دونوں مذہبوں عیسائیت اور اسلام میں سے کونسا وہ مذہب ہے جس کو ہم زندہ مذہب کہہ سکتے ہیں۔
(۵) ان دونوں تعلیموں انجیلی تعلیم اور قرآنی تعلیم میں سے کونسی وہ تعلیم ہے جس کو ہم اعلیٰ اور تعلیم کہہ سکتے ہیں اور تعلیم میں توحید اور تثلیث کی بحث بھی داخل ہے۔
یہ پانچ سوال ہیں جن میں بحث ہوگی۔ اس بحث کے لئے شرائط مندرجہ ذیل کی پابندی ضروری ہوگی۔
۱۔ شرط اوّل یہ کہ ہر ایک امر کی بحث کے متعلق جو مندرجہ بالا پانچ نمبروں میں لکھے گئے ہیں۔ ایک ایک دن خرچ ہوگا یعنی یہ کہ کل بحث پانچ دن میں ختم ہوگی۔
۲۔ شرط دوم یہ ہے کہ ہر ایک فریق کو اپنے اپنے بیان کے لئے پورے تین تین گھنٹے موقع دیا جائے گا اور اس طرح پر ہر ایک دن کا جلسہ چھ بجے صبح سے ۱۲ بجے تک پورا ہو جائے گا۔
۳۔ شرط سوم یہ ہے کہ ہر ایک فریق محض اپنے نبی یا کتاب کی نسبت ثبوت دے گا۔ دوسرے فریق کے نبی یا کتاب کی نسبت حملہ کرنے کا مجاز نہیں ہوگا کیونکہ ایسا حملہ محض فضول اور بسا اوقات دلشکنی کا موجب ہوتا ہے اور مقابلہ کرنے کے وقت پبلک کو خود معلوم ہو جائے گا کہ کس کا ثبوت قوی اور کس کا ثبوت ضعیف اور کمزور ہے۔ ہاں ہر ایک فریق کو اختیار ہوگا کہ جس جس موقع پر حملہ کا احتمال ہے ان احتمالی سوالات کا اپنے بیان میں آپ جواب دے دے۔
۴۔ بحث تحریری ہوگی۔ مگر تحریر کا یہ طریق ہوگا کہ ہر ایک فریق کے ساتھ ایک کاتب ہوگا وہ بولتا جائے گا اور کاتب لکھتا جائے گا اور ہر ایک کے پاس ایک ایسا شخص بھی ہوگا کہ مضمون ختم ہونے کے بعد حاضرین کو سنا دیا کرے گا اور سنانے کے بعد ایک نقل اس کی بعد دستخط فریق مخالف کو دی جائے گی۔
۵۔ یہ بحث بمقام لاہور ہوگی اور آپ کے اختیار میں رہے گا کہ جہاں چاہیں اس بحث کے لئے مجلس منعقد فرما لیں اور جیسا چاہیں مناسب انتظام کر لیں۔
۶۔ جب اس بحث کے دن ختم ہو جائیں گے تو دونوں فریق میں سے ایک فریق یا دونوں اس مضمون کو بصورت رسالہ چھاپ کر شائع کر دیں اور کسی کو اختیار نہیں ہوگا کہ اپنی طرف سے بعد میں کچھ ملاوے۔
یہ شرائط ہیں جو ہم نے حضرت مرزا صاحب مسیح موعود سے منظور کرا لئے ہیں اور چونکہ یہ شرائط بہت صاف اور سراسر انصاف پر مبنی ہیں لہٰذا امید ہے کہ جناب بھی ان کو منظور فرما کر مطلع فرمائیں گے کہ ایسی بحث کیلئے کب اور کس مہینے میں آپ تیار ہیں۔ ہم درخواست کنندوں کی طرف سے نہایت التجا اور ادب کے ساتھ گزارش ہے کہ جناب ضرور اس طریق بحث کو منظور فرمائیں اور ہم حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام کی عزت کا واسطہ جناب کی خدمت میں ڈال کر یہ عاجزانہ سوال کرتے ہیں اور جناب اس پیارے مقبول نبی کے نام پر ہماری یہ درخواست منظور فرما کر بذریعہ اشتہار مطبوعہ منظوری سے مطلع فرمائیں۔ اس درخواست میں کوئی فوق الطاقت یا بیہودہ امر نہیں اور طریق بحث سراسر مہذبانہ اور سراپا نیک نیتی اور طلب حق پر مبنی ہے اور باایں ہمہ جب کہ جناب جیسے ایک بزرگ صاحب مرتبہ کو حضرت یسوع مسیح علیہ السلام کی قسم دی گئی ہے تو اس لئے ہم سائلوں کو بکلّی یقین ہے کہ جناب اس عاجزانہ درخواست کو گو کیسی ہی کم فرصتی ہو بہرحال بغیر کسی تنسیخ ترمیم کے حضرت کے نام کی عزت کے لئے ضرور منظور فرمائیں گے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اگر ایسی منصفانہ درخواست ہم لوگوں سے حضرت مسیح کی عزت کا واسطہ درمیان لا کر کی جائے تو ہم سخت گناہ اور سؤ ادب سمجھیں گے کہ اس درخواست کو منظور نہ کریں تو پھر آپ کو تو حضرت مسیح علیہ السلام کی محبت کا بہت دعویٰ ہے جس کے امتحان کا ہم غریبوں کو یہ پہلا موقع ہے۔ زیادہ کیا تکلیف دیں۔ صرف جواب کے منتظر ہیں اور جواب بنام مولوی محمد علی صاحب ایم۔ اے۔ ایل۔ ایل۔ بی وکیل بمقام قادیان ضلع گورداسپور آنا چاہئے کیونکہ وہی اس مجلس کے سیکرٹری ہیں اور درخواست کرنے والوں کے نام یہ ہیں۔ (نام چھوڑ دیئے گئے ہیں)۔





نقل خط جو حضرت مسیح موعود مرزا غلام احمد صاحب کی طرف سے مسیحان جنڈیالہ کی طرف ۳؍ مئی ۱۸۹۳ء کو رجسٹری کر کے بھیجا گیا!
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
بخدمت مسیحان جنڈیالہ بعد ہاوجب۔ آج میں نے آپ صاحبوں کی وہ تحریر جو آپ نے میاں محمد بخش صاحب۱؎ کو بھیجی تھی اوّل سے آخر تک پڑھی جو کچھ آپ صاحبوں نے سوچا ہے مجھے اتفاق رائے ہے بلکہ درحقیقت میں اس مضمون کے پڑھنے سے ایسا خوش ہوا کہ میں مختصر خط میں اس کی کیفیت بیان نہیں کر سکتا۔ یہ بات سچ اور بالکل سچ ہے کہ یہ روز کے جھگڑے اچھے نہیں اور ان سے دن بدن عداوتیں بڑھتی ہیں اور فریقین کی عافیت اور آسودگی میں خلل پڑتا ہے اور یہ بات تو ایک معمولی سی ہے۔ اس سے بڑھ کر نہایت ضروری اور قابل ذکر یہ بات ہے کہ جس حالت میں دونوں فریق مرنے والے اور دنیا کو چھوڑنے والے ہیں تو پھر اگر بحث کر کے اظہار حق نہ کریں تو اپنے
۱؎ وہ خط جو ڈاکٹر مارٹن کلارک صاحب نے محمد بخش پاندھا کو لکھا۔
بخدمت شریف میاں محمد بخش و جملہ شرکاء اہل اسلام جنڈیالہ۔
جناب من۔ بعد سلام کے واضح رائے شریف ہو کہ چونکہ ان دنوں قصبہ جنڈیالہ میں مسیحوں اور اہل اسلام کے درمیان دینی چرچے بہت ہوتے ہیں اور چند صاحبان آپ کے ہم مذہب دین عیسوی پر حرف لاتے ہیں اور کئی ایک سوال وجواب کرتے اور کرنا چاہتے ہیں اور نیز اسی طرح سے مسیحوں نے بھی دین محمدی کے حق میں کئی ایک تحقیقاتیں کر لی ہیں اور مبالغہ از حد ہو چلا ہے لہٰذا راقم رقیمہ ہذا کی دانست میں طریقہ بہتر اور مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک جلسہ عام کیا جائے جس میں صاحبان اہل اسلام مع علماء و دیگر بزرگان دین کے جن پر کہ ان کی تسلی ہو موجود ہوں اور اسی طرح سے مسیحوں کی طرف بھی کوئی صاحب اعتبار پیش کئے جاویں تا کہ جو باہمی تنازعہ ان دنوں میں ہو رہے ہیں خوب فیصل کئے جاویں اور نیکی اور بدی اور حق اور خلاف ثابت ہوویں لہٰذا چونکہ اہل اسلام جنڈیالہ کے درمیان آپ صاحبِ ہمت گنے جاتے ہیں ہم آپ کی خدمت میں از طرف مسیحان جنڈیالہ التماس کرتے ہیں کہ آپ خواہ خواہ یا اپنے ہم مذہبوں سے مصلحت کر کے ایک وقت مقرر کریں اور
نفسوں اور دوسروں پر ظلم کرتے ہیں۔ اب میں دیکھتا ہوں کہ جنڈیالہ کے مسلمانوں کا ہم سے کچھ زیادہ حق نہیں بلکہ جس حالت میں خداوندکریم اور رحیم نے اس عاجز کو انہیں کاموں کیلئے بھیجا ہے تو ایک سخت گناہ ہوگا کہ ایسے موقع پر خاموش رہوں۔ اس لئے میں آپ لوگوں کو اطلاع دیتا ہوں کہ اس کام کے لئے میں ہی حاضر ہوں۔ یہ تو ظاہر ہے کہ فریقین کا یہ دعویٰ ہے کہ ان کو اپنا اپنا مذہب بہت سے نشانوں کے ساتھ خدا تعالیٰ سے ملا ہے اور یہ بھی فریقین کو اقرار ہے کہ زندہ مذہب وہی ہو سکتا ہے کہ جن دلائل پر ان کی صحبت کی بنیاد ہے وہ دلائل بطور قصہ کے نہ ہوں بلکہ دلائل ہی کے رنگ میں اب بھی موجود اور نمایاں ہوں۔ مثلاً اگر کسی کتاب میں بیان کیا گیا ہو کہ فلاں نبی نے بطور معجزہ ایسے ایسے بیماروں کو اچھا کیا تھا تو یہ اور اس قسم کے اَوْر امور اس زمانہ کے لوگوں کے لئے ایک قطعی اور یقینی دلیل نہیں ٹھہر سکتی بلکہ ایک خبر ہے جو منکر کی نظر میں صدق اور کذب دونوں کا احتمال رکھتی ہے بلکہ منکر ایسی خبروں کو صرف ایک قصہ سمجھے گا۔ اسی وجہ سے یورپ کے فلاسفر مسیح کے معجزات سے جو انجیل میں مندرج ہیں کچھ بھی فائدہ نہیں اُٹھا سکتے بلکہ اس پر قہقہ مار کر ہنستے ہیں۔ پس جب کہ یہ بات ہے تو یہ نہایت آسان مناظرہ ہے اور وہ یہ ہے کہ اہل اسلام کا کوئی فرد اس تعلیم اور علامات کے موافق جو کامل مسلمان ہونے کے لئے قرآن میں موجود ہیں اپنے نفس کو ثابت کرے اور اگر نہ کر سکے تو دروغ گو ہے نہ مسلمان؟ اور ایسا ہی عیسائی صاحبوں میں سے ایک فرد اس تعلیم اور علامات کے موافق جو انجیل شریف میں موجود ہیں اپنے نفس کو ثابت کر کے دکھلائے اور اگر وہ ثابت نہ کر سکے تو دروغ گو ہے نہ عیسائی۔ جس حالت میں دونوں فریق کا یہ دعویٰ ہے کہ جس نور کو ان کے انبیاء
بقیہ حاشیہ: جس کسی بزرگ پر آپ کی تسلی ہو اُسے طلب کریں اور ہم بھی وقت معین پر محفل شریف میں کسی اپنے بزرگ کو پیش کریں گے کہ جلسہ اور فیصلہ امورات مذکورہ بالا کا بخوبی ہو جاوے اور خداوند صراط مستقیم سب کو حاصل کرے۔ ہم کسی ضد اور فساد یا مخالفت کے رو سے اس جلسہ کے درپے نہیں ہیں۔ مگر فقط اس بنا سے کہ جو باتیں راست برحق اور پسندیدہ ہیں سب صاحبان پر خوب ظاہر ہوں۔ دیگر التماس یہ ہے کہ اگر صاحبان اہل اسلام ایسے مباحثہ میں شریک نہ ہونا چاہیں تو آئندہ کو اپنے اسپ کلام کو میدان گوفتگو میں جولانی نہ دیں اور وقت منادی یا دیگر موقعوں پر حجت بے بنیاد و لاحاصل سے باز آ کر خاموشی اختیار کریں۔ از راہ مہربانی اس خط کا جواب جلدی عنایت فرماویں تا کہ اگر آپ ہماری دعوت کو قبول کریں تو جلسہ کا اور ان مضامین کا جن کی بابت مباحثہ ہونا معقول انتظام کیا جائے۔ فقط۔ زیادہ سلام
(الراقم مسیحان جنڈیالہ مارٹن کلارک امرتسر (دستخط انگریزی میں ہیں)
لائے تھے وہ نور فقط لازمی نہ تھا بلکہ متعدی تھا تو پھر جس مذہب میں یہ نور متعدی ثابت ہوگا اسی کی نسبت عقل تجویز کرے گی کہ یہی مذہب زندہ اور سچا ہے کیونکہ اگر ہم ایک مذہب کے ذریعہ سے وہ زندگی اور پاک نور معہ اس کی تمام علامتوں کے حاصل نہیں کر سکتے جو اس کی نسبت بیان کیا جاتا ہے تو ایسا مذہب بجز لاف و گزاف کے زیادہ نہیں اگر ہم فرض کر لیں کہ کوئی نبی پاک تھا مگر ہم میں سے کسی کو بھی پاک نہیں کر سکتا اور صاحب خوارق تھا مگر کسی کو صاحب خوارق نہیں بنا سکتا اور الہام یافتہ تھا مگر ہم میں سے کسی کو مہلم نہیں بنا سکتا تو ایسے نبی سے ہمیں کیا فائدہ۔ الحمدللہ والمنتہ کہ ہمارا سید و رسول خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ایسا نہیں تھا اس نے ایک جہان کو وہ نور حسب مراتب استعداد بخشا کہ جو اس کو ملا تھا اور اپنے نورانی نشانوں سے وہ شناخت کیا گیا وہ ہمیشہ کے لئے نور تھا جو بھیجا گیا اور اس سے پہلے کوئی ہمیشہ کے لئے نور نہیں آیا اگر وہ نہ آتا اور نہ اس نے بتلایا ہوتا تو مسیح کے نبی ہونے پر ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں تھی کیونکہ اس کا مذہب مر گیا اور اس کا نور بے نشان ہو گیا اور کوئی وارث نہ رہا جو اس کو کچھ نور دیا گیا ہو۔ اب دنیا میں زندہ مذہب اسلام ہے اور اس عاجز نے ذاتی تجارب سے دیکھ لیا اور پرکھ لیا کہ دونوں قسم کے نور اسلام اور قرآن میں اب بھی ایسے ہی تازہ بتازہ موجود ہیں جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت موجود تھے اور ہم ان کے دکھلانے کے لئے ذمہ وار ہیں اگر کسی کو مقابلہ کی طاقت ہے تو ہم سے خط و کتابت کرے۔ والسلام علی من اتبع الہدی۔
بالآخر یہ بھی واضح رہے کہ اس عاجز کے مقابلہ پر جو صاحب کھڑے ہوں وہ کوئی بزرگ نامی اور معزز انگریز پادری صاحبوں میں سے ہونے چاہئیں کیونکہ جو بات اس مقابلہ اور مباحثہ سے مقصود ہے اور جس کا اثر عوام پر ڈالنا مدنظر ہے وہ اسی امر پر موقوف ہے کہ فریقین اپنی اپنی قوم کے خواص میں سے ہوں۔ ہاں بطور تنزل اور اتمام حجت مجھے یہ بھی منظور ہے کہ اس مقابلہ کے لئے پادری عمادالدین صاحب یا پادری ٹھاکر داس صاحب یا مسٹر عبداللہ آتھم صاحب عیسائیوں کی طرف سے منتخب ہوں اور پھر اُن کے اسماء کسی اخبار کے ذریعہ شائع کر کے ایک پرچہ اس عاجز کی طرف بھی بھیجا جاوے اور اس کے بھیجنے کے بعد یہ عاجز بھی اپنے مقابلہ کا اشتہار دے دے گا اور ایک پرچہ صاحب مقابلہ کی طرف بھیج دے گا مگر واضح رہے کہ یوں تو ایک مدت دراز سے مسلمانوں اور عیسائیوں کا جھگڑا چلا آتا ہے اور تب سے مباحثات ہوئے اور فریقین کی طرف سے بکثرت کتابیں لکھی گئیں اور درحقیقت علمائے اسلام نے بہ تمام تر صفائی سے ثابت کر دیا کہ جو کچھ قرآن کریم پر اعتراض کئے گئے ہیں وہ دوسرے رنگ میں توریت پر اعتراض ہیں اور جو کچھ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں نکتہ چینی ہوئی وہ دوسرے پیرایہ میں تمام انبیاء کی شان میں نکتہ چینی ہے۔ جس سے حضرت مسیح بھی باہر نہیں بلکہ ایسی نکتہ چینوں کی بنا پر خدا تعالیٰ بھی مورد اعتراض ٹھہرتا ہے۔ سو یہ بحث زندہ مذہب یا مردہ مذہب کی تنقیح کے بارہ میں ہوگی اور دیکھا جائے گا کہ جن روحانی علامات کا مذہب اور کتاب نے دعویٰ کیا ہے وہ اب بھی اس میں پائے جاتے ہیں کہ نہیں اور مناسب ہوگا کہ مقام بحث لاہور یا امرتسر ہو اور فریقین کے علماء کے مجمع میں یہ بحث ہے۔
خاکسار
مرزا غلام احمد
از قادیان ضلع گورداسپور






ڈاکٹر مارٹن کلارک کے نام
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
مشفق مہربان پادری صاحب
بعد ما وجب یہ وقت کیا مبارک ہے کہ میں آپ کی اس مقدس جنگ کیلئے تیار ہو کر جس کا آپ نے اپنے خط۱؎ میں ذکر فرمایاہے۔ اپنے چند عزیز دوست بطور سفیر منتخب کر کے آپ کی خدمت میں روانہ کرتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ اس پاک جنگ کیلئے آپ مجھے مقابلہ پر منظور فرماویں گے۔ جب آپ کا پہلا خط جو جنڈیالہ کے بعض مسلمانوں کے نام مجھ کو ملا اور میں نے یہ عبارتیں پڑھیں کہ کوئی ہے کہ ہمارا مقابلہ کرے تو میری روح اسی وقت بول اُٹھی کہ ہاں میں ہوں جس کے ہاتھ پر خدا تعالیٰ مسلمانوں کو فتح دے گا اور سچائی کو ظاہر کرے گا۔ وہ حق جو مجھ کو ملا ہے اور وہ آفتاب جس نے ہم میں طلوع کیا ہے وہ اب پوشیدہ رہنانہیں چاہتا۔ میں دیکھتا ہوں کہ اب وہ زور دار شعاعوں کے ساتھ نکلے گا اور دلوں پر اپنا ہاتھ ڈالے گا اور اپنی طرح کھینچ لائے گا لیکن اس کے نکلنے کیلئے کوئی تقریب چاہئے تھی سو آپ صاحبوں کا مسلمانوںکو مقابلہ کیلئے بلانا نہایت مبارک اور نیک تقریب ہے مجھے امید نہیں کہ آپ اس بات پر ضد کریں کہ ہمیں تو جنڈیالہ کے مسلمانوں سے کام ہے نہ کسی اَوْر سے۔ آپ جانتے ہیں کہ جنڈیالہ میں کوئی مشہور اور نامی فاضل نہیں اور یہ آپ کی شان سے بعید ہوگا کہ آپ عوام سے اُلجھتے پھریں اور اس عاجز کا حال آپ پر مخفی نہیں کہ آپ صاحبوںکے مقابلہ کیلئے دس برس کا پیاسا ہے اور کئی ہزار خط اُردو و انگریزی اسی پیاس کے جوش سے آپ جیسے معزز پادری صاحبان کی خدمت میں روانہ کر چکا ہوں اور پھر جب کچھ جواب نہ آیا تو آخر ناامید ہو کر بیٹھ گیا۔ چنانچہ بطور نمونہ اُن خطوں میں سے کچھ روانہ بھی کرتا ہوں تا کہ آپ کو معلوم ہو کہ آپ کی اس توجہ کا اوّل مستحق میں ہی ہوں اور سوائے اس کے اگر میں کاذب ہوں تو ہر ایک سزا بھگتنے کیلئے تیار ہوں میں پورے دس سال سے میدان میں کھڑا ہوں جنڈیالہ میں میری ذات میں ایک بھی نہیں جو میدان کا سپاہی تصور کیا جاوے اس لئے بادب مُکلّف ہوں کہ اگر یہ مرا مطلوب ہے کہ روز کے قصے طے ہو جائیں اور جس مذہب کے ساتھ خدا ہے اور جو لوگ سچے خدا پر ایمان لائے ہیں ان کی کچھ امتیازی انوار ظاہر ہوں تو اس عاجز سے مقابلہ کیا جائے آپ لوگوں کا یہ ایک بڑا دعویٰ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام درحقیقت خدا تھے اور وہی خالق ارض و سما تھے اور ہمارا یہ بیان ہے کہ وہ سچے نبی ضرور تھے۔ رسول تھے۔ خدا تعالیٰ کے پیارے تھے مگر خدا نہیں تھے سو انہیں امور کے حقیقی فیصلہ کیلئے یہ مقابلہ ہوگا مجھ کو خدا تعالیٰ نے براہ راست اطلاع دی ہے کہ جس تعلیم کو قرآن لایا ہے وہی سچائی کی راہ سے اس پاک توحید کو ہر یک نبی نے اپنی اُمت تک پہنچایا ہے مگر رفتہ رفتہ لوگ بگڑ گئے اور خدا خداتعالیٰ کی جگہ انسانوں کو دے دی۔ غرض یہی امر ہے جس پر بحث ہوگی اور میںیقین رکھتا ہوں کہ وہ وقت آ گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کی غیرت اپنا کام دکھلائے گی اور میں امید رکھتا ہوں کہ اس مقابلہ سے ایک دنیا کیلئے مفید اور اثر انداز نتیجے نکلیں گے اور کچھ تعجب نہیں کہ اب کل دنیا یا ایک بڑا بھاری حصہ اُس کا ایک ہی مذہب قبول کرلے جو سچا اور زندہ مذہب ہو اور جس کے ساتھ ساتھ خدا تعالیٰ کی مہربانی کا بادل ہو چاہئے کہ یہ بحث صرف زمین تک محدود نہ رہے بلکہ آسمان بھی اس کے ساتھ شامل ہو اور مقابلہ صرف اس بات میں ہو کہ روحانی زندگی اور آسمانی قبولیت اور روشن ضمیری کس مذہب میں ہے اور میں اور میرا مقابل اپنی اپنی کتاب کی تاثیریں اپنے اپنے نفس میں ثابت کریں ہاں اگر یہ چاہیں کہ معقولی طور پر بھی ان دونوں عقیدوں کا بعد اس کے تصفیہ ہو جائے تو یہ بھی بہتر ہے مگر اس سے پہلے روحانی اور آسمانی آزمائش ضرور چاہئے۔
والسلام علی من اتبع الہدی
خاکسار
غلام احمد قادیان ضلع گورداسپور
۲۳؍ اپریل ۱۸۹۳ء


رجسٹرڈ خط جو ۲۵؍ اپریل کو پادری صاحب کے ۲۴؍ اپریل کے خط کے جواب میں بھیجا گیا
مشفق مہربان پادری صاحب سلامت۔ بعد ماوجب میں نے آپ کی چٹھی ۱؎کو اوّل سے آخر تک سنا۔ میں اُن تمام شرائط کو منظور کرتا ہوں جن پر آپ کے اور میرے دوستوں کے دستخط ہو چکے ہیں لیکن سب سے پہلے یہ بات تصفیہ پا جانی چاہئے کہ اس مباحثہ اور مقابلہ سے علت غائی کیا ہے کیا یہ انہیں معمولی مباحثات کی طرح ایک مباحثہ ہوگا جو سالہائے دراز سے عیسائیوں اور مسلمانوں میں پنجاب اور ہندوستان میں ہو رہے ہیں جن کا ماحصل یہ ہے کہ مسلمان تو اپنے خیال میں یہ یقین رکھتے ہیں کہ ہم نے عیسائیوں کو ہر ایک بات میں شکست دی ہے اور عیسائی اپنے گھر میں یہ باتیں کرتے ہیں کہ مسلمان لاجواب ہوگئے ہیں اگر اسی قدر ہے تو یہ بالکل بے فائدہ اور تحصیل حاصل ہے اور بجز اس بات کے اس کا آخری نتیجہ کچھ نظر نہیں آتا کہ چند روز بحث مباحثہ کا شور و غوغا ہو کر پھر ہر یک فضول گو کو اپنی ہی طرف کا غلبہ ثابت کرنے کیلئے باتیں بنانے کا موقعہ ملتا رہے مگر میں یہ چاہتا ہوں کہ حق کھل جائے اور ایک دنیا کو سچائی نظر آ جائے۔ اگر فی الحقیقت حضرت مسیح علیہ السلام خدا ہی ہیں اور وہی ربّ العالمین اور خالق السموات والارض ہے تو بیشک ہم لوگ کافر کیا اَکفر ہیں اور بیشک اس صورت میں دین اسلام حق پر نہیں ہے لیکن اگر حضرت مسیح علیہ السلام صرف ایک بندہ خدا تعالیٰ کا نبی اور مخلوقیت کی تمام کمزوریاں اپنے اندر رکھتا ہے تو پھر یہ عیسائی صاحبوں کا ظلم عظیم اور کفر کبیر ہے کہ ایک عاجز بندہ کو خدا بنا رہے ہیں اور اس حالت میں قرآن کے کلام اللہ ہونے میں اِس سے بڑھ کر
۱؎ خلاصہ چٹھی: امرتسر ۲۴؍ اپریل ۱۹۹۳ء ۔ بخدمت مرزا غلام احمد صاحب رئیس قادیان۔ جناب من مولوی عبدالکریم صاحب معہ معزز سفارت یہاں پہنچے اور مجھے آپ کا دستی خط دیا۔ جناب نے جو مسلمانوں کی طرف سے مجھے مقابلہ کیلئے دعوت کی ہے اس کو میں بخوشی قبول کرتا ہوں آپ کی سفارت نے آپ کی طرف سے مباحثہ اور شرائط ضروریہ کا فیصلہ کر لیا ہے اور میں یقین کرتا ہوں کہ جناب کو بھی وہ انتظام اور شرائط منظور ہوں گے اس لئے مہربانی کر کے اپنی فرصت میں اطلاع بخشیں کہ آپ ان شرائط کو قبول کرتے ہیں یا نہیں۔
آپ کا تابعدار۔ ایچ مارٹن کلارک۔ ایم۔ ڈی۔ سی۔ ایم۔ راڈنبرا ۔ ایم۔ آر۔ اے۔ ایس۔ سی
اور کوئی عمدہ دلیل نہیں کہ اُس نے نابود شدہ توحید کو پھر قائم کیا اور جو اصلاح ایک سچی کتاب کو کرنی چاہئے تھی وہ کر دکھائی اور ایسے وقت میں آیا جس وقت میں اس کے آنے کی ضرورت تھی یوں تو یہ مسئلہ بہت ہی صاف تھا کہ خدا کیا ہے اور اس کی صفات کیسی ہونی چاہئے مگر چونکہ اب عیسائی صاحبوں کو یہ مسئلہ سمجھ میں نہیں آتا اور معقولی اور منقولی بحثوں نے اس ملک ہندوستان میں کچھ ایسا ان کو فائدہ نہیں بخشا اس لئے ضرور ہوا کہ اب طرز بحث بدل لی جائے سو میری دانست میں اس کے انسب طریق اور کوئی نہیں کہ ایک روحانی مقابلہ مباہلہ کے طور پر کیا جائے اور یہ کہ اوّل اسی طرح ہر چھ دن تک مباحثہ ہو جس مباحثہ کو میرے دوست قبول کر چکے ہیں اور پھر ساتویں دن مباہلہ ہو اور فریقین مباہلہ میں یہ دعا کریں مثلاً فریق عیسائی یہ کہے کہ وہ عیسیٰ مسیح ناصری جس پر میں ایمان لاتا ہوں وہی خدا ہے اور قرآن انسان کا … ہے خدا تعالیٰ کی کتاب نہیں اور اگر میں اس بات میں سچا نہیں تو میرے پر ایک سال کے اندر کوئی ایسا عذاب نازل ہو جس سے میری رسوائی ظاہر ہو جائے
بقیہ شرائط انتظام مباحثہ قرار یافتہ مابین عیسائیاں و مسلمانان
(۱) یہ مباحثہ امرتسر میں ہوگا (۲) ہر ایک جانب میں صرف پچاس اشخاص ہونگے۔ پچاس ٹکٹ مرزا غلام احمد صاحب عیسائیوں کو دیں گے اور پچاس ٹکٹ ڈاکٹر مارٹن کلارک صاحب مرزا صاحب کو مسلمانوں کیلئے دیں گے۔ عیسائیوں کے ٹکٹ مسلمان جمع کریں گے اور مسلمانوں کے عیسائی۔ (۳) مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسلمانوں کی طرف سے اور ڈپٹی عبداللہ آتھم خاں صاحب عیسائیوں کی طرف سے مقابلہ میں آئیں گے۔ (۴) سوائے ان صاحبوں کے اور صاحب کو بولنے کی اجازت نہ ہوگی۔ ہاں یہ صاحب تین شخصوں کو بطور معاون منتخب کر سکتے ہیں مگر ان کو بولنے کا اختیار نہ ہوگا (۵)مخالف جانب صحیح صحیح نوٹ بغرض اشاعت لیتے رہیں گے (۶) کوئی صاحب کسی جانب سے ایک گھنٹہ سے زیادہ نہ بول سکیں گے (۷) انتظامی معاملات میں صدر انجمن کا فیصلہ ناطق مانا جائے گا (۸) دو صدر انجمن ہوں گے یعنی ایک ایک ہر طرف سے جو اس وقت مقرر کئے جائیں گے (۹) جائے مباحثہ کا تقرر ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک صاحب کے اختیار میں ہوگا (۱۰) وقت مباحثہ ۶ بجے صح سے ۱۱ بجے صبح تک ہوگا (۱۱) کل وقت مباحثہ دو زمانوں پر تقسیم ہوگا۔ (۱۲) ۶ دن یعنی روز پیر مئی ۲۲ سے ۲۷ مئی تک ہوگا اس وقت میں مرزا صاحب کو اختیار ہوگا کہ اپنا یہ دعویٰ پیش کریں کہ ہر ایک مذہب کی صداقت زندہ نشان سے ثابت کرنی چاہئے جیسے کہ انہوں نے اپنی چٹھی ۴؍ اپریل ۱۸۹۳ء موسومہ ڈاکٹر کلارک صاحب میں ظاہر کیا ہے (۱۳) پھر دوسرا سوال اُٹھایا جائے گا پہلے مسئلہ الوصیت مسیح پر اور مرزا صاحب کو اختیار ہوگا کہ کوئی اور سوال جو چاہیں پیش کریں مگر ۶ دن کے اندر اندر (۱۴) دوسرا زمانہ بھی ۶ دن ہوگا یعنی مئی ۲۹ سے جون ۳ تک (اگر اس قدر ضرورت ہوئی) اس زمانہ میں مسٹر عبداللہ آتھم خان صاحب کو اختیار ہوگا کہ اپنے سوالات بہ تفصیل ذیل پیش کریں۔
اور ایسا ہی یہ عاجز دعا کرے گا کہ اے کامل اور بزرگ خدا میں جانتا ہوں کہ درحقیقت عیسی مسیح ناصری تیرا بندہ اور تیرا رسول ہے خدا ہرگز نہیں اور قرآن کریم تیری پاک کتاب اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میرا پیار اور برگزیدہ رسول ہے اور اگر میں اس بات میں سچا نہیں تو میرے پر ایک سال کے اندر کوئی ایسا عذاب نازل کر جس سے میری رسوائی ظاہرہو جائے اور اسے خدا میری رسوائی کیلئے یہ بات کافی ہوگی کہ ایک برس کے اندر تیری طرف سے میری تائید میں کوئی ایسا نشان ظاہر نہ ہو جس کے مقابلہ سے تمام مخالف عاجز رہیں اور واجب ہوگا کہ فریقین کے دستخط سے یہ تحریر چند اخبارات میں شائع ہو جائے کہ جو شخص ایک سال کے اندر مورد غضب الٰہی ثابت ہو جائے اور یا یہ کہ ایک فریق کی تائید میں کچھ ایسے نشان آسمانی ظاہر ہوں کہ دوسرے فریق کی تائید میں ظاہر و ثابت نہ ہو سکیں تو ایسی صورت میں فریق مغلوب یا فریق غالب کا مذہب اختیار کرے اور یا اپنی کل جائیداد کا نصف حصہ اس مذہب کی تائید کیلئے فریق غالب کو دے دے جس کی سچائی ثابت ہو۔
(خاکسار مررا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور)
بقیہ حاشیہ: (الف) رحم بلا مبادلہ (ب) جبر اور قدر (ج) ایمان بالجبر (د) قرآن کے خدائی کلام ہونے کا … (س) اس بات کا ثبوت کہ محمد صاحب (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) رسول اللہ ہیں وہ اور سوال بھی کر سکتے ہیں بشرطیکہ ۶ دن سے زیادہ نہ ہو جائے۔
(۱۵) ٹکٹ ۱۰ مئی تک جاری ہو جانے چاہئیں وہ ٹکٹ مفصلہ ذیل نمونہ ہوں گے۔ (۱۶) عیسائیوں اور ڈپٹی عبداللہ آتھم خان صاحب کی طرف سے یہ قواعد واجب الاطاعت اور یہ صحیح تحریر فرمائی گئی۔
بطور شہادت میں (جن کے دستخط نیچے درج ہیں) مسٹر عبداللہ آتھم خان صاحب کی طرف سے دستخط کرتا ہوں اور مذکورہ بالا شرائط میں سے کسی شرط کا توڑنا فریق توڑنے والے کی طرف سے ایک اقرار گریز خیال کیا جائے گا۔ (۱۷)تقریروں پر صاحباں صدر اور تقرر کنندگان اپنے اپنے دستخط اُن کی صحت کی ثبوت میں ثبت کریں گے۔
دستخط ہنری کلارک ایم۔ ڈی وغیرہ امرتسر۔۲۴؍ اپریل ۱۸۹۳ء
مباحثہ مابین ڈپٹی عبداللہ آتھم خاں صاحب امرتسری اور مباحثہ مابین ڈپٹی عبداللہ آتھم خان صاحب امرتسری اور
مرزا غلام احمد صاحب قادیانی ٹکٹ داخلہ عیسائیوں کیلئے مرزا غلام احمد صاحب قادیانی ٹکٹ داخلہ فریق مسلمان کیلئے
داخل کرہ … کو نمبر (دستخط مرزا صاحب داخل کرو… کو نمبر (دستخط ڈاکٹر کلارک صاحب)
(امرتسر ۲۴… ۱۸۹۳ء)
مسٹر عبداللہ آتھم کے خط کا جواب
آج اس اشتہار کے لکھنے سے ابھی میں فارغ ہوا تھا کہ مسٹر عبداللہ آتھم صاحب کا خط بذریعہ ڈاک مجھ کو ملا یہ خط اس خط کا جواب ہے جو میں نے مباحثہ مذکورہ بالا کے متعلق صاحب موصوف اور نیز ڈاکٹر کلارک صاحب کی طرف لکھا تھا سو اب اس کا بھی جواب ذیل میں بطور قولہ اور اقوال کے لکھتا ہوں۔
قولہ: ہم اس امر کے قائل نہیں ہیں کہ تعلیمات قدیم کے لئے معجزہ جدید کی کچھ بھی ضرورت ہے اس لئے ہم معجزہ کیلئے نہ کچھ حاجت اور نہ استطاعت اپنے اندر رکھتے ہیں۔
اقول: صاحب من میں نے معجزہ کا لفظ اپنے خط میں استعمال نہیں کیا بیشک معجزہ دکھلانا نبی اور مرسل من اللہ کا کام ہے نہ ہر یک انسان کا لیکن اس بات کو تو آپ مانتے اور جانتے ہیں کہ ہر ایک درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے اور ایمانداری کے پہلوں کا ذکر جیسا کہ قرآن کریم میں ہے انجیل شریف میں بھی ہے مجھے امید ہے کہ آپ سمجھ گئے ہوں گے اس لئے طول کلام کی ضرورت نہیں مگر میں دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ کیا ایمانداری کے پھل دکھلانے کی بھی آپ کو استطاعت نہیں۔
قولہ: بہرکیف اگر جناب کسی معجزہ کے دکھلانے پر آمادہ ہیں تو ہم اس کے دیکھنے سے آنکھیں بند نہ کریں گے اور جس قدر اصلاح اپنی غلطی کی آپ کے معجزہ سے کر سکتے ہیں اس کو اپنا فرض عین سمجھیں گے۔
اقول: بیشک یہ آپ کا مقولہ انصاف پر مبنی ہے اور کسی کے منہ سے یہ کامل طور پر نکل نہیں سکتا جب تک اس کو انصاف کا خیال نہ ہو لیکن اس جگہ یہ آپ کا فقرہ کہ جس قدر اصلاح اپنی غلطی کی ہم آپ کے معجزہ سے کر سکتے ہیں اُس کو اپنا فرض عین سمجھیں گے تشریح طلب ہے یہ عاجز تو محض اس غرض کیلئے بھیجا گیا ہے کہ تا یہ پیغام خلق اللہ کو پہنچا دے کہ دنیا کے تمام مذاہب موجودہ میں سے وہ مذہب حق پر اور خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق ہے جو قرآن کریم لایا ہے اور دارالنجات میں داخل ہونے کے لئے دروازہ لاالہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ ہے وبس اب کیا آپ اس بات پر تیار اور مستعد ہیں کہ نشان دیکھنے کے بعد اس مذہب کو قبول کر لیں گے آپ کا فقرہ مذکورہ بلا مجھے امید دلاتا ہے کہ آپ اس سے انکار کریں گے پس اگر آپ مستعد ہیں تو چند سطریںتین اخباروں یعنی نور افشان اور منشور محمدی اور کسی آریہ کے اخبار میں چھپوا دیں کہ ہم خدا تعالیٰ کو حاضر و ناصر جان کر یہ وعدہ کرتے ہیں کہ اگر اس مباحثہ کے بعد جس کی تاریخ ۲۲؍ مئی ۱۸۹۳ء قرار پائی ہے مرزا غلام احمد کی خدا تعالیٰ مدد کرے اور کوئی ایسا نشان اس کی تائید میں خدا تعالیٰ ظاہر فرماوے کہ جو اس نے قبل ازوقت بتلا دیا ہو اور جیسا کہ اُس نے بتلایا ہو وہ پورا بھی ہو جاوے تو ہم اس نشان کے دیکھنے کے بعدبلاتوقف مسلمان ہو جائیں گے اور ہم یہ بھی وعدہ کرتے ہیں کہ ہم اس نشان کو بغیر کسی قسم کے بیہودہ نکتہ چینی کے قبول کر لیں گے اور کسی حالت میں وہ نشان نامعتبر اور قابل اعتراض نہیں سمجھا جائے گا بغیر اس صورت کے کہ ایسا ہی نشان اسی برس کے اندر ہم بھی دکھلا دیں مثلاًاگر نشان کے طور پر یہ پیشگوئی ہو کہ فلاں وقت کسی خاص فرد پیر یا ایک گروہ پر فلاں حادثہ وارد ہوگا اور وہ پیشگوئی اس میعاد میں پوری ہو جائے تو بغیر اس کے کہ اس کی نظیر اپنی طرف سے پیش کریں بہرحال قبول کرنے پڑے گی اور اگر ہم نشان دیکھنے کے بعد دین اسلام اختیار نہ کریں اور نہ اس کے مقابل پر اسی برس کے اندر اس کی مانند کوئی خارق عادت نشان دکھلا سکیں تو عہد شکنی کے تاوان میں نصف جائداد اپنی امداد اسلام کیلئے اس کے حوالہ کریں گے اور اگر ہم اس دوسری شق پر بھی عمل نہ کریں اور عہد کو توڑ دیں اور اس عہد شکنی کے بعد کوئی قہری نشان ہماری نسبت مرزا غلام احمد شائع کرنا چاہئے تو ہماری طرف سے مجاز ہوگا کہ عام طور پر اخباروں کے ذریعہ سے یا اپنے رسائل مطبوعہ میں اس کو شائع کرے فقط یہ تحریر آپ کی طرف سے بقید نام مذہب و ولدیت و سکونت ہو اور فریقین کے پچاس پچاس معزز اور معتبر گواہوں کی شہادت اُس پرثبت ہو تب متن اخباروں میں اس کو آپ شائع کرا دیں جب کہ آپ کا منشاء اظہار حق ہے اور یہ معیار آپ کے اور ہمارے مذہب کے موافق ہے تو اب برائے خدا اِس کے قبول کرنے میں توقف نہ کریں اب بہرحال وہ وقت آ گیا ہے کہ خدا تعالیٰ سچے مذہب کے انوار اور برکات ظاہر کرے اور دنیا کو ایک ہی مذہب پر کر دیوے سو اگر آپ دل کے قوی کر کے سب سے پہلے اس راہ میں قدم ماریں اور پھر اپنے عہد کو بھی صدق اور جوانمردی کے ساتھ پورا کریں تو خدا تعالیٰ کے نزدیک صادق ٹھہریںگے اور آپ کی راستبازی کا یہ ہمیشہ کیلئے ایک نشان رہے گا۔
اور اگر آپ یہ فرماویں کہ ہم تو یہ سب باتیں کر گزریں گے اور کسی نشان کے بعد دین اسلام قبول کر لیں گے یا دوسری شرائط متذکرہ بالا بجا لائیں گے اور یہ عہد پہلے ہی سے تین اخباروں میں چھپوا بھی دیں گے لیکن اگر تم ہی جھوٹے نکلے اور کوئی نشان دکھا نہ سکے تو تمہیں کیا سزاہوگی تو میں اس کے جواب میں حسب منشاء توریت سزائے موت اپنے لئے قبول کرتا ہوں اور اگر یہ خلاف قانون ہو تو کل جائداد اپنی آپ کو دوں گا جس طرح چاہیں پہلے مجھ سے تسلی کر لیں۔
قولہ: لیکن یہ جناب کو یاد رہے کہ معجزہ ہم اسی کو جانیں گے جو ساتھ تحدی مدعی معجزہ کے بہ ظہور آوے اور کہ مصدق کسی امر ممکن کا ہو۔
اقول: اس سے مجھے اتفاق ہے اور تحدی اسی بات کا نام ہے کہ مثلاً ایک شخص منجاب اللہ ہونے کا دعویٰ کر کے اپنے دعویٰ کی تصدیق کیلئے کوئی ایسی پیشگوئی کرے جو انسان کی طاقت سے بالاتر ہو اور پیشگوئی سچی نکلے تو وہ حسب منشاء توریت استثنا ۱۸۔۱۸۹ سچا ٹھہرے گا ہاں یہ سچ ہے کہ ایسا نشان کسی امر ممکن کا مصدق ہونا چاہئے ورنہ یہ تو جائز نہیں کہ کوئی انسان مثلاً یہ کہے کہ میں خدا ہوں اور اپنے خدائی کے ثبوت میں کوئی پیشگوئی کرے اور وہ پیشگوئی پوری ہو جائے تو پھر وہ خدا مانا جاوے۔
لیکن میں اس جگہ آپ سے دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ جب اس عاجز نے ملہم اور مامور من اللہ ہونے کا دعویٰ کیا تھا تو ۱۸۸۸ء میں مرزا امام الدین نے جس کو آپ خوب جانتے ہیں چشمہ نور امرتسر میں میرے مقابل پر اشتہار چھپوا کر مجھ سے نشان طلب کیا تھا تب بطور نشان نمائی ایک پیشگوئی کی گئی تھی جو نور افشاں ۱۰؍ مئی ۱۸۸۸ء میں شائع ہوگئی تھی جس کا مفصل ذکر اس اخبار میں اور نیز میری کتاب آئینہ کمالات کے صفحہ ۲۷۹،۲۸۰ میں موجود ہے اور وہ پیشگوئی ۳۰؍ ستمبر ۱۸۹۲ء کو اپنی میعاد کے اندر پوری ہوگئی سو اب بطور آزمائش آپ کے انصاف کے آپ سے پوچھتا ہوں کہ یہ نشان ہے یا نہیں اور اگر نشان نہیں تو اس کی کیا وجہ ہے اور اگر نشان ہے اور آپ نے اس کو دیکھ بھی لیا اور نہ صرف نور افشاں ۱۰؍ مئی ۱۸۸۸ء میں بلکہ میرے اشتہار مجریہ ۱۰؍ جولائی ۱۸۸۸ء میں بقیہ میعاد یہ شائع بھی ہو چکا ہے تو آپ کا اس وقت فرض عین ہے یا نہیں کہ اس نشان سے بھی فائدہ اُٹھاویں اور اپنی غلطی کی اصلاح کریں اور براہ مہربانی مجھ کو اطلاع دیں کہ کیا اصلاح کی اور کس قدر عیسائی اصول سے آپ دستبردار ہوگئے کیونکہ یہ نشان تو کچھ پرانا نہیں ابھی کل کی بات ہے کہ نور افشاں اور میرے اشتہار ۱۰؍ جولائی ۱۸۸۸ء میں شائع ہوا تھا اور آپ کے یہ تمام شرائط کے موافق ہے میرے نزدیک آپ کے انصاف کا یہ ایک معیار ہے اگر آپ نے اس نشان کو مان لیا اور حسب اقرار اپنے اپنی غلطی کی بھی اصلاح کی تو مجھے پختہ یقین ہوگا کہ اب آئندہ بھی آپ اپنی بڑی اصلاح کیلئے مستعد ہیں اس نشان کا اس قدر تو آپ پر اثر ضرور ہونا چاہئے کہ کم سے کم آپ یہ اقرار اپنا شائع کر دیں کہ اگرچہ ابھی قطعی طور پر نہیں مگر ظن غالب کے طور پر دین اسلام ہی مجھے سچا معلوم ہوتا ہے کیونکہ تحدی کے طور پر اُس کی تائید کے بارہ میں جو پیشگوئی کی گئی تھی وہ پوری ہوگئی آپ جانتے ہیں کہ امام الدین دین اسلام سے منکر اور ایک دہریہ آدمی ہے اور اس نے اشتہار کے ذریعہ سے دین اسلام کی سچائی اور اس عاجز کے ملہم ہونے کے بارے میں ایک نشان طلب کیا تھا جس کو خداتعالیٰ نے نزدیک کی راہ سے اُسی کے عزیزوں پر ڈال کر اس پر اتمام حجت کی۔ آپ اِس نشان کے رؤیا قبول کے بارے میں ضرور جواب دیں ورنہ ہمارا یہ ایک پہلا قرضہ ہے جو آپ کے ذمے رہے گا۔
قولہ: مباہلات بھی از قسم معجزات ہی ہیں مگر ہم بروئے تعلیم انجیل کسی کے لئے *** نہیں مانگ سکتے جناب صاحب اختیار ہیں جو چاہیں مانگیں اور انتظار جواب ایک سال تک کریں۔
اقول: صاحب من مباہلہ میں دوسرے پر * ڈالنا ضروری نہیں بلکہ اتنا کہنا کافی ہوتا ہے کہ مثلاً ایک عیسائی کہے کہ میں پورے یقین سے کہتا ہوں کہ درحقیقت حضرت مسیح خدا ہیں اور قرآن خداتعالیٰ کی طرف سے نہیں اور اگر میں اس بیان میں کاذب ہوں تو خدا تعالیٰ میرے پر * کرے سو یہ صورت مباہلہ انجیل کے مخالف نہیں بلکہ عین موافق ہے آپ غور سے انجیل کو پڑھیں۔
ماسوائے اس کے میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ اگر آپ نشان نمائی کے مقابلہ سے عاجز ہیں تو پھر یکطرفہ اس عاجز کی طرف سے سہی مجھ کو بسروچشم منظور ہے آپ اقرار نامہ حسب نمونہ مرقومہ بالا شائع کریں اور جس وقت آپ فرماویں میں بلاتوقف امرتسر حاضر ہو جاؤں گا یہ تو مجھ کو پہلے ہی سے معلوم ہے کہ عیسائی مذہب اسی دن سے تاریکی میں پڑا ہوا ہے جب سے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو خدا کی جگہ دی گئی اور جب کہ حضرات عیسائیوں نے ایک سچے اور کامل اور مقدس نبی افضل الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کیا اس لئے میں یقینا جانتا ہوں کہ حضرت عیسائی صاحبوں میں سے یہ طاقت کسی میں بھی نہیں کہ اسلام کے زندہ نوروں کا مقابلہ کر سکیں میں دیکھتا ہوں کہ وہ نجات اور حیات ابدی جس کا ذکر عیسائی صاحبوں کی زبان پر ہے وہ اہل اسلام کے کامل افراد میں سورج کی طرح چمک رہی ہے اسلام میں یہ ایک زبردست خاصیت ہے کہ وہ ظلمت سے نکال کر اپنے نور میں داخل کرتا ہے جس نور کی برکت سے مومن میں کھلے کھلے آثار قبولیت پیدا ہو جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ کا شرف مکالمہ میسر آ جاتا ہے اور خدا تعالیٰ اپنی محبت کی نشانیاں اس میں ظاہر کر دیتا ہے میں زور سے اور دعویٰ سے کہتا ہوں کہ ایمانی زندگی صرف کامل مسلمان کو ہی ملتی ہے اور یہی اسلام کی سچائی کی نشانی ہے۔
اب آپ کے خط کا ضروری جواب ہو چکا اور یہ اشتہار ایک رسالہ کی صورت پر مرتب کر کے آپ کی خدمت میں اور نیز ڈاکٹر مارٹن کلارک صاحب کی خدمت میں بذریعہ رجسٹری روانہ کرتا ہوں اب میری طرف سے حجت پوری ہوچکی آئندہ آپ کو اختیار ہے۔
راقم خاکسار
میرزا غلام احمد
از قادیان ضلع گورداسپور
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
قبل اس کے کہ اس خط کا ترجمہ درج کیا جاوے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے امریکہ کے اس مفتری الیاس کو بطور چیلنج لکھا تھا یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ پہلے ناظرین کو مختصر طور پر اس شخص سے تعارف کرا دی جاوے پس یاد رہے کہ جان الگزینڈر ڈوئی سکاٹ لینڈ کا اصل باشندہ تھااور امریکہ میں پہلے پہل ۱۸۸۸ء میں پہنچا۔ سان فرانسسکو میں اُترا اس سے پہلے کچھ مدت وہ ٹسمانیہ کے جیل خانہ میں بھی رہ چکا تھا۔ ۱۸۹۲ء میں اس نے وعظ کرنا شروع کیا اور اس کے ایک الگ فرقہ کی بنیاد رکھنی شروع کی۔ اس کا دعویٰ تھا کہ مَیں لوگوں کو بیماریوں سے شفا دے سکتا ہوں اور اسی دعویٰ کی وجہ سے کئی زود اعتقاد اور توہم پرست لوگ اس کے ساتھ شامل ہوگئے ان لوگوں کے روپے سے وہ ایک امیر آدمی بن گیا اور ۱۹۰۰ء میں موجودہ شہر سہیون کی زمین خریدی جس کے ٹکڑے پھر اپنے ہی مریدوں کے ہاتھ ایک بڑے گراں نرخ پر بیچے اور یہ ظاہر کیا کہ عنقریب مسیح موعود اسی شہر میں نازل ہوگا۔ ۲؍ جون ۱۹۰۱ء کو اس نے یہ دعویٰ اپنا شائع کیا کہ میں الیاس ہوں جو مسیح کی آمد کیلئے لوگوں کو تیار کرنے آیا ہوں۔ اس دعویٰ سے اس کے روپے اور مریدوں میں اور بھی ترقی ہوئی روپے کی کثرت یہاں تک ہوئی کہ سال کے شروع میں وہ دس لاکھ ڈالر یعنی تیس لاکھ روپے سے بھی زیادہ روپیہ اپنے مریدوں سے نئے سال کے تحفے کے طور پر مانگا کرتا تھا اور جب سفر کرتا تو اعلیٰ درجے کے عیش و عشرت کے سامان اس کے ساتھ ہوتے۔ ۱۹۰۴ء میں اس نے یہ پیشگوئی شائع کی کہ اگر مسلمان صلیبی مذہب کو قبول نہ کریں گے تو وہ سب کے سب ہلاک کر دیئے جائیں گے اور بھی وہ ہر طرح سے اسلام کی ہتک اور توہین نہایت بیباکی سے کرتا۔ جب اس نے اسلام پر ایسے ایسے حملے کئے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ مسیح موعود کے دل میں غیرت کا جوش ڈالا اور آپ نے ستمبر ۱۹۰۲ء میں اسے انگریزی میں ایک چٹھی لکھی جو اسی رسالہ ریویو آف ریلینجز کے ستمبر ۱۹۰۴ء کے پرچہ میں شائع ہوچکی ہے جس میں حضرت مسیح موعود نے اُسے مباہلہ کے لئے دعوت کی۔ خلاصہ اس ساری چٹھی کا یہ تھا کہ دونوں فریق دعا کریں کہ جو شخص ہم سے جھوٹا ہے خدا تعالیٰ اُسے سچے کی زندگی میں ہلاک کرے۔ یہ ڈوئی کی اس پیشگوئی کا جواب تھا جو اس نے تمام اہل اسلام کی ہلاکت کیلئے کی تھی یہ چٹھی بڑی کثرت سے امریکہ کے اخباروں میں شائع ہوئی اور انگلستان کے بعض نے بھی شائع کیا۔ یہاں تک کثرت سے اس کی اشاعت ہوئی کہ ہمارے پاس بھی ایسی بہت سی اخباریں پہنچ گئیں جن میں اس مباہلہ کاذکر تھا۔
یہاں چونکہ مفصل واقعات لکھنا مقصود نہیں اس لئے اسی قدر پر اکتفا کیا جتا ہے یہ شخص پیشگوئی کے موافق مر گیا۔ (ایڈیٹر)
اصل خط کا ترجمہ
ہر ایک کو جو حق کا طالب ہے معلوم ہو کہ یہ قدیم سے سنت اللہ ہے کہ جب زمین پر بدعقیدگی اور بداعمالی پھیل جاتی ہے اور لوگ اس سچے خدا کو چھوڑ دیتے ہیں جو آدم پر ظاہر ہوا اور پھر شیث پر اور پھر نوح پر اور ایسا ہی ابراہیم پر اور اسماعیل اور پر اسحاق پر اور یعقوب پر اور یوسف پر اور موسیٰ پر اور آخر میں جناب سیّد الرسل محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر تو ایسے زمانہ میں جب کہ شرک ناپاکی اور بدکاری اور دنیا پرستی اور غافلانہ زندگی سے زمین ناپاک ہو جاتی ہے خدا تعالیٰ کسی بندہ کو مامور کر کے اور اپنی طرف سے اس میں روح پھونک کر دنیا کی اصلاح کیلئے بھیج دیتا ہے اور اس کو اپنی عقل میں سے عقل بخشتا ہے اور اپنی طاقت میں سے طاقت اور اپنے علم میں سے علم عطا کرتا ہے اورخدا کی طرف سے ہونے کا اس میں یہ نشان ہوتا ہے کہ دنیا اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی اگر معارف حقائق کی رو سے کوئی شخص اس کے مقابل پر آوے تو وہی حقائق اور معارف میں غالب آتا ہے اور اگر اعجازی نشانوں کو مقابلہ ہو تو غلبہ اُسی کو ہوتا ہے اور اگر کوئی اس طور سے اس کے ساتھ بالمقابل یا بطور خود مباہلہ کرے کہ جو شخص ہم دونوں میں سے جھوٹاہے وہ پہلے مر جائے تو ضرور اس کا دشمن پہلے مرتا ہے۔ اب اس زمانہ میں جب خدا نے دیکھا کہ زمین بگڑ گئی اور کروڑ ہا مخلوقات نے شرک کی راہ اختیار کر لی اور چالیس کروڑ سے بھی زیادہ لوگ دنیا میںپیدا ہوگئے کہ ایک عاجز انسان مریم کے بیٹے کو خدا بنا رہے ہیں اور ساتھ ہی شراب خواری اور بیقدری اور دنیا پرستی اور غافلانہ زندگی انتہا کو پہنچ گئی تو خداتعالیٰ نے مجھے اس کام کیلئے مامور کیا کہ تا میں ان خرابیوں کی اصلاح کروں سو اب تک میرے ہاتھ پر ایک لاکھ کے قریب انسان بدی سے اور بدعقیدگی اور بداعمالی سے توبہ کر چکا ہے اور ڈیڑھ سَو سے زیادہ نشان ظاہر ہوچکا ہے جس کے اس مُلک میں کئی لاکھ انسان گواہ ہیں اور میں بھیجا گیا ہوں تا کہ زمین پر دوبارہ توحید کو قائم کروں اور انسان پرستی یا سنگ پرستی سے لوگوں کو نجات دے کر خدائے واحد لاشرک کی طرف ان کو رجوع دلاؤں اور اندرونی پاکیزگی اور راستبازی کی طرف ان کو توجہ دوں چنانچہ میں دیکھتا ہوں کہ لوگوں میں ایک تحریک پیدا ہو گئی ہے اور ہزار ہالوگ میرے ہاتھ پر توبہ کرتے جاتے ہیں اور آسمان سے ہوا بھی ایسی چل رہی ہے کہ اب توحید کے موافق طبیعتیں ہوتی جاتی ہیں اور صریح معلوم ہوتا ہے کہ اب خدا تعالیٰ کا یہ ارادہ ہے کہ انسان پرستی کو دنیا سے معدوم کر دے اس ارادہ کے پورا کرنے کیلئے صد ہا اسبات پیدا کئے گئے ہیں۔ افسوس کہ مخلوق پرست لوگ جن سے مراد میری اس جگہ وہ عیسائی ہیں جو مریم کے صاحبزادہ کو خدا جانتے ہیں ابھی اپنے مشرکانہ مذہب کی اس ترقی پر خوش نہیں ہوئے جو اَب تک ہوگئی ہے بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ تمام دنیا حقیقی خدا کو چھوڑ کر اس ضعیف اور عاجز انسان کو خدا کر کے مانے جس کو ذلیل یہودیوں نے پکڑ کر صلیب پر کھینچا تھا اس خواہش کا بجز اس کے اور کوئی سبب نہیں کہ مخلوق پرستی کی عادت نہایت بدعادت ہے جس میں گرفتار ہو کر پھر انسان دیکھتا ہوا اندھا ہو جاتاہے مگر پادریوں کی اس قدر دلیری بہت ہی قابل تعجب ہے کہ وہ نہیں چاہتے کہ زمین پر ایک ایسا شخص رہے کہ وہ اس اصلی خدا کو ماننے والا ہو جو ابن مریم اور اس کی ماں کے پیدا ہونے سے بھی پہلے ہی موجود تھا بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ کل دنیا اور کل نوع انسان جو آسمان کے نیچے ہے ابن مریم کو ہی خدا سمجھ لے اور اسی کو اپنا معبود اور خالق اور خداوند اور منجی مان لے اور میں دیکھتا ہوں کہ ان کے ارادوں کے مقابل پر خدائے ذوالجلال… بہت صبر کیا ہے اس کی عزت عاجز بندہ کو دے دی گئی ہے اس کے جلال کو خاک میں ملایا گیا مگر اُس نے اَب تک صبر کیا کیونکہ جیسا کہ وہ غیور ہے ویسا ہی وہ صابر بھی ہے ان ظالم مخلوق پرستوں نے تمام خدائی صفات یسوع ابن مریم کو دیئے۔ اب ان کی نظر میں جو کچھ ہے یسوع ہے اس کے سوا کوئی نہیں اب سچے خدا کی مثال یہ ہے کہ ایک امیر نے اپنے عزیزوں کیلئے ایک نہایت عمدہ گھر بنایا اور اس کے ایک حصہ میں ایک بستان سرائے تیار کیا جس میں طرح طرح کے پھول اور پھل اور سایہ دار درخت تھے اور اس گھر کے ایک حصہ میں اپنے ان عزیزوں کو رکھا اور ایک حصہ میں اپنا مال و حشمت اور قیمتی اسباب مقفل کیا اور ایک حصہ بطور سرائے کے مسافروں کیلئے چھوڑا لیکن جب مالک چند روز کیلئے سیر کو گیا تو ایک شوخ دیدہ اجنبی نے اس کے اس گھر پر جو بطور سرائے کے تھا دخل اور تصرف کر لیااور تمام گھر بجز چند حجروں کے جس میں اس مالک کے عزیز تھے یا جن میں اس مالک کا قیمتی اسباب مقفل تھا خود بخود استعمال میں لانے لگا اور اس سرائے کو اپنا گھر بنا لیا اور پھر پر کفایت نہ کی بلکہ اس گھر سے اس مالک کے عزیزوں کو نکال دیا اور مقفل مکانوں کے قفل توڑ دیئے اور تمام اسباب پر اپنا قبضہ کر لیا اب مالک جو صرف اس گھر کا مالک نہیں ہے بلکہ اس مُلک کا بادشاہ بھی ہے جب اس شہرمیں آئے گا اور اس ظلم اور شوخی کو دیکھے گا تو کیا کرے گا۔ اس کا یہی حواب ہے کہ جو کچھ مقتضا اس کی سلطنت اور غیرت اور جبروت کا ہے سب کچھ عمل میں لائے گا اور اس گھر کو اس ظالم سے خالی کرا کر پھر اپنے مظلوم عزیزوں کو اس میں داخل کرے گا اور وہ تمام مال جو غصب کیا گیا ان کو دے گا اور وہ مسافر خانہ بھی انہیں عطا کردے گا تا آئندہ ان کے مرضی کے برخلاف کوئی اس میں زیادہ ٹھہر نہ سکے اسی طرح اب وہ زمانہ گیا کہ تمام مذہبی جھگڑوں کا فیصلہ کر دیوے۔ انسانوں میں بہت سی لڑائیاں ہوئیں بہت سے جنگ ہوئے لیکن ان کے جنگوں یا جہادوں سے یہ فیصلہ نہ ہو سکا آخر ان کی تلواریں ٹوٹ کر رہ گئیں اس سے انسانوں کو یہ سبق ملا کہ مذہبی جھگڑوں کا تلوار سے فیصلہ نہیں کر سکتی لیکن ہم جانتے ہیں کہ اب آسمانی فیصلہ نزدیک ہے کیونکہ خدائے غیور کی زمین پر نہایت تحقیر ہو رہی ہے ہر ایک عیسائی مشنری یہ جوش اپنے دل میں رکھتا ہے کہ وہ خدا جس کی نسبت توریت میں اب تک صحیح تعلیم موجود ہے اس کو بالکل معطل کر کے ایک ابن مریم کو اس کا تخت دیا جائے اور دنیا میں ایک بھی اس خدا کانام لیوا نہ ہو اور ہر ایک قوم کے منہ سے اور ہر ایک ملک سے یہی آواز نکلے کہ یسوع مسیح خدا اور ربّ العالمین اور خداوندوں کا خداوند ہے اور یہ صرف آرزو نہیں بلکہ یسوع کو خدا بنانے کیلئے جس قدر روپیہ صرف کیا گیا ہے جس قدر کتابیں لکھی گئیں جس قدر ہر ایک تدبیر کی گئی دنیا کی ابتدا سے آج تک اس کی نظیر موجود نہیں اور افسوس کہ ایک مدت سے مسلمانوں کی یہ عادت ہے کہ معقول اور سیدھے طور پر اس مذہب کا مقابلہ نہیں کرتے بلکہ اگر خاص مجمعوں میں کبھی یہ ذکر آتا ہے تو بڑا ذریعہ اپنی ترقی کا جہاد کو ٹھہراتے ہیں اور ایسے زمانہ کے منتظر ہیں کہ گویا اس وقت ان کا کوئی مہدی اور مسیح تلوار سے تمام قوموں کو نابود کر دے گا گویا وہ اعتراض جو نادانوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار پر کیا تھا اس کا جواب بھی آخر کار تلوار ہی ہوگا۔ میری دانست میں یہی سبب مسلمانوں کے تنزل کا ہے کہ انسانی رحم کی قوت ان کے دلوں سے بہت گھٹ گئی ہے میں ہر ایک مسلمان کو ایسا نہیں سمجھتا لیکن میں اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ کروڑہا انسان ابھی ان میں ایسے موجود ہیں کہ بنی نوع کے خون کے پیاسے ہیں مجھے تعجب ہے کہ کیا وہ پسند کرتے ہیں کہ ان کو کوئی قتل کر دے اور ان کے یتیم بچے اور ان کی بیوہ عورتیں بیکسی کی حالت میں رہ جائیں پھر وہ دوسروں کی نسبت ایسا کرنا کیوں روا رکھتے ہیں مجھے یقین ہے کہ یہ مرض مسلمانوں کے لاحق حال نہ ہوتی تو وہ تمام یورپ کے دلوں کو فتح کر لیتے ہر ایک پاک کانشنس گواہی دے سکتا ہے کہ عیسائی مذہب کچھ بھی چیز نہیں انسان کو خدا بنا دینا کسی عقلمند کا کام نہیں یسوع مسیح میں اور انسانوں کی نسبت ایک ذرّہ خصوصیت نہیں بلکہ بعض انسان اس سے بہت بڑھ کر گزرے ہیں اور اب بھی یہ عاجز اسی لئے بھیجا گیا ہے کہ تا خدائے قادر لوگوں کو دکھلاوے اور اس کا فضل اس عاجز پر اس مسیح سے بڑھ کر ہے اور پھر یہ غلطیاں کہ گویا یسوع مسیح اب تک زندہ ہے اور گویا وہ آسمان پر ہے اور گویا وہ سچ مُچ مردے زندہ کیا کرتا تھا اور اس کے مرنے پر یروشلم کے تمام مردے جو آدم کے وقت سے لے کر مسیح کے وقت تک مر چکے تھے زندہ ہو کر شہر میں آ گئے تھے۔ یہ سب جھوٹی کہانیاں ہیں جیسا کہ ہندوؤں کے پورانوں میں ہیں اور سچ صرف اس قدر ہے کہ اس نے بھی بعض معجزات دکھلائے جیسا کہ نبی دکھلاتے تھے اور جیسا کہ اب خدا تعالیٰ اب اس عاجز کے ہاتھ سے دکھلا رہا ہے مگر سچ کے کام تھوڑے تھے اور جھوٹ ان میں بہت ملایا گیا۔ کس قدر قابل شرم جھوٹ ہے کہ وہ زندہ ہو کر آسمان پر چڑھ گیا مگر اصل حقیقت صرف اس قدر ہے کہ وہ صلیب پر مرا نہیں واقعات صاف گواہی دیتے ہیں کہ مرنے کی کوئی بھی صورت نہیں تھی تین گھنٹہ کے اندر صلیب پر سے اُتارا گیا شدت درد سے بیہوش ہو گیا خدا کو منظور تھا کہ یہودیوں کے ہاتھ سے نجات دے۔ اس سلئے اس وقت بباعث کسوف خسوف سخت اندھیرا ہو گیا یہودی ڈر کر اس کو چھوڑ گئے اور یوسف نام ایک پوشیدہ مرید کے وہ حوالہ کیا گیا اور وہ تین روز ایک کوٹھ میں جو قبر کے نام سے مشہور کیا گیا رکھ کر آخر افاقہ ہونے پر ملک سے نکل گیا اور نہایت مضبوط دلائل سے ثابت ہو گیا ہے کہ پھر وہ سیر کرتا ہوا کشمیر میں آیا باقی حصہ عمر کا کشمیر میں بسر کیا۔ سری نگر محلہ خان یار میں اس کی قبر ہے افسوس خواہ نخواہ افترا کے طور پر آسمان پر چڑھایا گیا اور آخر قبر کشمیر میں ثابت ہوئی اس بات کے ایک دو گواہ نہیں بلکہ بیس ہزار سے زیادہ گواہ ہیں۔
اس قبر کے بارے میں ہم نے بڑی تحقیق سے ایک کتاب لکھی ہے جو عنقریب شائع کی جائے گی مجھے اس قوم کے مشنریوں پر بڑا ہی افسوس آتا ہے جنہوں نے فلسفہ طبعی ہیئت سب پڑھ کر ڈبو دیا ہے اور خواہ نخواہ ایک عاجز انسان کو پیش کرتے ہیں کہ اس کو خدا مان لو۔ نانچہ حال میں ملک امریکہ میں یسوع مسیح کا ایک رسول پیدا ہوا ہے جس کا نام ڈوئی ہے اس کا دعویٰ ہے کہ یسوع مسیح نے بحیثیت خدائی دنیا میں اس کو بھیجا ہے تا سب کو اس بات کی طرف کھینچے کہ بجز مسیح کے اور کوئی خدا نہیں مگر یہ کیسا خدا ہے کہ یہودیوں کے ہاتھ سے اپنے آپ کو بچا نہ سکا ایک دعا باز شاگرد نے اس کو پکڑوا دیا اس کا کچھ بندوبست نہ کر سکا انجیر کے درخت کی طرف دوڑا گیا اور یہ خبر نہ ہوئی کہ اس پر پھل نہیں اور جب قیامت کے بارے میں اس سے پوچھا گیا کہ کب آئے گی تو بے خبری ظاہر کی اور لنعت جس کے یہ معنی ہیں کہ دل ناپاک ہو جائے اور خدا سے بیزار ہو جائے اور خدا سے اس کی رحمت سے دور جاپڑے وہ اس پر پڑی اور پھر وہ آسمان کی طرف اس لئے چڑھا کہ باپ اس سے بہت دور تھا کروڑ ہا کوس سے بھی زیادہ دور تھا اور یہ دوری کسی طرح دور نہیں ہو سکتی تھی جب تک وہ مع جسم آسمان پر نہ چڑھتا۔ دیکھو کس قدر کلام کا تناقض ہے ایک طرف تو یہ کہتا ہے کہ میں اور باپ ایک ہیں اور ایک طرف کروڑ ہا کوس کا سفر کر کے اس کے ملنے کو جاتا ہے جب کہ باپ اور بیٹا ایک تھے تو اس قدر مشقت سفر کی کیوں اُٹھائی جہاں ہوتا وہیں باپ بھی تھا دونو ایک جو ہوئے اور پھر وہ کس کے دہنے ہاتھ بیٹھا۔
اب ہم ڈوئی کو مخاطب کرتے ہیں جو یسوع مسیح کو خدا بناتا اور اپنے تئیں اس کا رسول قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ توریت استثنا ۱۸ باب آیت پندرہ کی پیشگوئی میرے حق میں ہے اور میں ہی ایلیا اور میں ہی عہد نامہ کا رسول ہیں، نہیں جانتا کہ یہ مصنوعی خدا اس کا موسیٰ کے کبھی خواب خیال میں بھی نہیں تھا۔ موسیٰ نے بنی اسرائیل کو یہی بار بار کہا کہ … کسی مجسم چیز انسان یا حیوان کو خدا قرار نہ دینا آسمان پر سے نہ زمین سے۔ خدا نے تم سے باتیں کیں مگر تم نے اس کی کوئی صورت نہیں دیکھی تمہارا خدا صورت اور مجسم سے پاک ہے مگر اب ڈوئی موسیٰ کے خدا سے برگشتہ ہو کر وہ خدا پیش کرتا ہے جس کے چار بھائی اور ایک ماں ہے اور بار بار اپنے اخبار میں لکھتا ہے کہ اس کے خدا یسوع مسیح نے اس کو خبر دی ہے کہ تما مسلمان تباہ اور ہلاک ہو جائیں گے اور دنیا میں کوئی زندہ نہیں رہے گا بجز ان لوگوں کے جو مریم کے بیٹے کو خدا سمجھ لیں اور ڈوئی کو اس مصنوعی خدا کا رسول قرار دیں۔ ہم ڈوئی کو ایک پیغام دیتے ہیں کہ اس کو تمام مسلمانوں کے مارنے کی کیا ضرورت ہے غریب مریم کے عاجز بیٹے کو خدا کیونکر مان لیں بالخصوص اس زمانہ میں جب کہ ڈوئی کے خدا کی قبر بھی اس مُلک میں موجود ہے اور ان میں وہ مسیح موعود بھی موجود ہے جو چھٹے ہزار کے اخیر اور ساتویں ہزار کے سر پر ظاہر ہوا جس کے ساتھ بہت سے نشان ظہور میں آئے اور ڈوئی کا یہ الہام کہ تمام مسلمان ہلاک ہو جائیں گے اور وہی لوگ باقی رہیں گے جو یسوع مسیح کو خدا مانیںگے اور ساتھ ہی ڈوئی کو بھی خدا کا رسول مان لیں گے اس الہام کے رو سے تو باقی عیسائیوں کو بھی خبر نہیں کیونکہ گو وہ مریم کے صاحبزادہ کو خدا مانتے ہیں مگر یہ جھوٹا رسول جو ڈوئی ہے اب تک انہوں نے تسلیم نہیں کیا اور ڈوئی نے صاف طور پر یہ الہام شائع کر دیا ہے کہ صرف یسوع مسیح کو خدا ماننا کافی نہیں جب تک ڈوئی کو بھی ساتھ ہی نہ مان لیں اور چاہئے کہ صاف اقرار کرے کہ ڈوئی ایلیا اور ڈوئی کا عہد نامہ رسول اور ڈوئی کے حق میں ہی وہ پیشگوئی ہے جو توریت استثنا باب ۱۸ آیت پندرہ میں ہے تب بچیں گے ورنہ ہلاک ہو جائیں گے۔ غرض ڈوئی بار بار لکھتا ہے کہ عنقریب یہ سب لوگ ہلاک ہو جائیں گے بجز اس گروہ کے جو یسوع کی خدائی مانتا ہے اور ڈوئی کی رسالت اس صورت میں یورپ اور امریکہ کے تمام عیسائیوں کو چاہئے کہ بہت جلد ڈوئی کو مان لیں تاہلاک نہ ہو جائیں اور جب کہ انہوں نے ایک نامعقول امر کو مان لیا ہے یعنی یسوع مسیح کی خدائی کو چلو یہ دوسرا نامعقول امر بھی مان لو کہ اس خدا کا ڈوئی رسول ہے۔
رہے مسلمان سو ہم ڈوئی صاحب کی خدمت میں بادب عرض کرتے ہیں کہ اس مقدمہ میں کروڑہا مسلمانوں کے مارنے کی کیا حاجت ہے ایک سہل طریق ہے جس سے اس بات کا فیصلہ ہو جائے گا کہ آیا ڈوئی کاخدا سچا خدا ہے یا ہمارا خدا۔ وہ بات یہ ہے کہ وہ ڈوئی صاحب تمام مسلمانوں کو بار بار موت کی پیشگوئی نہ سناویں بلکہ ان میں سے صرف مجھے اپنے ذہن کے آگے رکھ کر یہ دعا کر دیں کہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے وہ پہلے مر جائے کیونکہ ڈوئی یسوع مسیح کو خدا جانتا ہے مگر میں اس کو ایک بندہ عاجز مگر نبی جانتا ہوں اب فیصلہ طلب یہ امر ہے کہ دونوں میں سے سچا کون ہے چاہئے کہ اس دعا کو چھاپ دے اور کم سے کم ہزار آدمی کی اس پر گواہی لکھے اور جب وہ اخبار شائع ہو کر میرے پاس پہنچے گی تب میں بھی بجواب اس کے یہی دعا کروں گا کہ انشاء اللہ ہزار آدمی کی گواہی لکھ دوں گا اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ڈوئی کے اس مقابلہ سے اور تمام عیسائیوں کیلئے حق کی شناخت کیلئے ایک راہ نکل آئے گی میں نے ایسی دعا کے لئے سبقت نہیں کی بلکہ ڈوئی نے اس کی سبقت دیکھ کر غیور خدا نے میرے اندر یہ جوش پیدا کیا اور یاد رہے کہ میں اس مُلک میں معمولی انسان نہیں ہوں میں وہی مسیح موعود ہوں جس کا ڈوئی انتظار کر رہا ہے صرف یہ فرق ہے کہ ڈوئی کہتا ہے مسیح موعود پچیس برس کے اندر اندر پیدا ہو جائے گا اور میں بشارت دیتا ہوں کہ وہ مسیح پیداہو گیا اور وہ میں ہی ہوں صدہا نشان زمین سے اور آسمان سے میرے لئے ظاہر ہوچکے ایک لاکھ کے قریب میرے ساتھ جماعت ہے جو زور سے ترقی کر رہی ہے ڈوئی بیہودہ باتیں اپنے ثبوت میں لکھتا ہے کہ میں ہے نے ہزار ہا بیمار توجہ سے اچھے کئے ہیں ہم اس کا جواب دیتے ہیں کہ کیوں پھر اپنی لڑکی کو اچھا نہ کر سکا جو بچہ ہی … کر مر گئی اور ڈاکٹر اس کی بیماری پر بلایا گیا مگر وہ گزر گئی یا درہے کہ اس مُلک کے صدہا عام لوگ اس قسم کے عمل کرتے ہیں اور سلب امراض میں بہتوں کو مشق ہو جاتی ہے اور کوئی ان کی بزرگی کا قائل نہیں ہوتا پھر امریکہ کے سادہ لوحوں پر نہایت تعجب ہے کہ وہ کس خیال میں پھنس گئے کیا ان کے لئے مسیح کو ناحق خدا بنانے کا بوجھ کافی نہ تھا کہ یہ دوسرا بوجھ بھی انہوں نے اپنے گلے ڈال لیا گر ڈوئی اپنے دعویٰ میں سچا ہے اور درحقیقت یسوع مسیح خدا ہے تو یہ فیصلہ ایک ہی آدمی کے مرنے سے ہو جائے گا کیا حاجت ہے کہ تمام مُلکوں کے مسلمانوں کو ہلاک کیا جائے لیکن اگر اس نے اس نوٹس کا جواب نہ دیا اور یا پنے لاف و گزاف کے مطابق دعا کر دی اور پھر دنیا سے قبل میری وفات کے اُٹھایا گیا تو یہ تمام امریکہ کے لئے ایک نشان ہوگا مگر یہ شرط ہے کہ کسی کی موت انسانی ہاتھوں سے نہ ہو بلکہ کسی بیماری سے یا بجلی سے یا سانپ کے کاٹنے سے یا کسی درندہ کے پھاڑنے سے ہو اور ہم اس جواب کیلئے ڈوئی کو تین ماہ تک مہلت دیتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ خدا سچوں کے ساتھ ہو۔ آمین
یاد رہے کہ صادق اور کاذب میں فیصلہ کرنے کیلئے ایسے امور ہرگز … نہیں ٹھہر سکتے جو دنیا کی قوموں میں مشترک ہیں کیونکہ کم و بیش ہر ایک قوم میں وہ پائے جاتے ہیں انہیںامور میں سے طریق سلب امراض بھی ہے یہ طریق نامعلوم وقت سے ہر ایک قوم میں رائج ہے ہندو بھی ایسے کرتب کیا کرتے ہیں اور یہودیوں میں بھی یہ طریق چلے آتے ہیں اور مسلمانوں میں بھی بہت سے لوگ سلب امراض کے مدعی ہیں اور بیج بات یہ ہے کہ اس طریق کو حق اور باطل کے فیصلہ کرنے کیلئے کوئی دخل نہیں کیونکہ اہل حق اور اہل باطل دونوں اس میں دخل پیدا کر سکتے ہیں چنانچہ انجیلوں سے بھی ثابت ہے کہ جب حضرت عیسیٰ اس طریق توجہ سے بعض امراض کو اچھا کرتے تھے تو ان کی زندگی میں ہی ایسے لوگ بھی موجود تھے کہ ان کے مرید اور حواری نہ تھے مگر اسی طرح امراض کو اچھا کر لیتے تھے جیسا کہ حضرت عیسیٰ کر لیتے تھے اور اس وقت ایک تالاب بھی ایسا تھا جس میں غوطہ لگا کر اکثر امراض اچھی ہو جاتی تھیں تو یہ مشق توجہ اور سلب امراض کی جو عام طور پر قوموں کے اندر پائی جاتی ہے یہ سچے مذہب کیلئے کامل شہادت نہیں ٹھہر سکتی ہاں اس صورت میں کامل شہادت ٹھہر سکتی ہے کہ وہ فریق جو اپنے اپنے مذہب کی سچائی کے مدعی ہیں وہ چند بیمار مثلاً بیس بیمار قرعہ اندازی سے باہم تقسیم کر لیں اور پھر ان دونوں میں سے جس کے بیمار فریق مقابل سے بہت زیادہ اچھے ہو جائیں اس کو حق پر سمجھا جائے گا چنانچہ گزشتہ دنوں میں ایسا ہی میں نے اس ملک میں اشتہار دیا تھا مگر کسی نے اس کا مقابلہ نہ کیا مگر میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر ڈوئی یا اور کوئی ڈوئی کا ہم جنس اس مقابلہ کیلئے میرے مقابل آئے تو میرا خدا اس کو سخت ذلیل کرے گا کیونکہ وہ جھوٹا ہے اور اس کا خدا بھی محض باطل کا پتلا ہے لیکن افسوس کہ اس قدر دوری میں یہ مقابلہ میسر نہیں آ سکتا مگر خوشی کی بات ہے کہ ڈوئی نے خود یہ طریق فیصلہ پیش کیا ہے کہ مسلمان جھوٹے ہیں اور ہلاک ہو جائیں گے اس طریق فیصلہ میں ہم اس قدر ترمیم کرتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی ضرورت نہیں اس طرح پر تو ڈوئی کے ہاتھ میںمکار لوگوں کی طرح یہ عذر باقی رہ جائے گا کہ مسلمان ہلاک نہ ہوںگے مگر پچاس یا ساٹھ یا سَو برس کے بعد اتنے میں ڈوئی خود مر جائے گا تو کوئی اس کی قبر پر جا کر اس کو ملزم کرے گا کہ تیری پیشگوئی جھوٹی نکلی پس اگر ڈوئی کی سیدھی نیت ہے اور وہ جانتا ہے کہ یہ سبق درحقیقت مریم کے صاحبزادہ ہی نے اس کو دیا ہے جو اس کے نزدیک خدا ہے تو یہ ٹھگوں والا طریق اس کو اختیار نہیں کرنا چاہئے کہ اس سے کوئی فیصلہ نہیں ہوگا بلکہ طریق یہ ہے کہ وہ اپنے مصنوعی خدا سے اجازت لے کر میرے ساتھ اس معاملہ میں مقابلہ کرے میں ایک آدمی ہوں جو پیرانہ سالی تک پہنچ چکا ہوں میری عمر غالباً چھیاسٹھ سال سے بھی کچھ زیادہ ہے اور ذیابیطس اور اسہال کی بیماری بدن کے نیچے کے حصہ میں اور دوران سر اور کمی دوران خون کی بیماری بدن کے اوپر کے حصہ میں ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ میری زندگی میری صحت سے نہیں بلکہ میرے خدا کے حکم سے ہے پس اگر ڈوئی کا مصنوعی خدا کچھ طاقت رکھتا ہے تو ضرور میرے مقابل اس کو اجازت دے گا اگر تمام مسلمانوں کے ہلاک کرنے کے عوض میں صرف میرے ہلاک کرنے سے ہی کام ہو جائے تو ڈوئی کے ہاتھ میں ایک بڑا نشان آ جائے گا پھر لاکھوں انسان مریم کے بیٹے کو خدا مان لیں گے اور نیز ڈوئی کی رسالت کو بھی اور میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر تمام دنیا کے مسلمانوں کی نفرت عیسائیوں کے خدا کی نسبت ترازو کے ایک پلہ میں رکھی جائے اور دوسرے پلہ میں میری نفرت رکھی جائے تو میری نفرت اور بیزاری عیسائیوں کے بناوٹی خدا کی نسبت تمام مسلمانوں کی نفرت سے وزن میں زیادہ نکلے گی۔
میں سب پرندوں سے زیادہ کبوتر کا کھانا پسند کرتا ہوں کیونکہ وہ عیسائیوں کا خدا ہے معلوم نہیں ڈوئی کی اس میں کیا رائے ہے کیا وہ بھی اس کی نرم نرم ہڈیا دانتوں کے نیچے چباتے ہیں یا خدائی کی مشابہت کی وجہ سے اس پر کچھ رحم کرتے اور اس کی حرمت کے قائل ہیں اس ملک کے ہندوؤں نے جب سے گائے کو پرمیشر کا اوتار مانا ہے تب سے وہ گائے کو ہرگز نہیں کھاتے ہیں پس وہ ان عیسائیوں سے اچھے رہے جنہوں نے اس کبوتر کی کچھ عظمت نہ کی جس کی شبیہہ میں ان کا وہ خدا ظاہر ہو جس نے مسیح کو آسمان سے آواز دی کہ تو میرا پیارا بیٹا ہے پس اس رشتہ کے لحاظ سے جیسا کہ سمجھا جاتا ہے کبوتر مسیح کا باپ ہوا گویا خداک ا باپ ٹھہرا مگرتب بھی عیسائیوں نے اس کے کھانے سے پرہیز نہیں کیا حالانکہ وہ اس لائق تھا کہ اس کو خداوند خدا کہا جائے۔ خدا نے جب کہ توریت میںیہ کہا کہ آدم کو میں نے اپنی صورت میں پیدا کیا تبھی سے انسان کا گوشت انسانوں پر حرام کیا گیا پھر کیا وجہ اور کیا سبب کہ کبوتر جو عیسائیوں کے خدا کا باپ ہے جس نے مسیح کو بیٹے کا خطاب دیا وہ کھایا جاتا ہے اور نہ صرف کھایا جاتا بلکہ اس کے گوشت کی تعریف بھی کی جاتی ہے جیسا کہ انسائیکلوپیڈیا صفحہ۸۵ جلد ۱۹ میں لکھاہے کہ کبوتر کا گوشت تمام پرندوں سے زیادہ لذیز ہوتا ہے جن لوگوں کو کبوتر کی قسم فروٹ پجن کھانے کا اتفاق خوش قسمتی سے ہوا ہے انہوں نے یہ شہادت دی ہے کہ اور یہود کی شریعت کے مطابق جس کو بکرا ذبح کرنے کی توفیق نہ ہو وہ کبوتر ذبج کرے (لوقا ۲۴: ۲) اور مریم نے بھی وہ کبوتر ذبح کئے تھے کیونکہ وہ غریب تھی۔ (لوقا۲۴:۲) اب دیکھو ایک طرف تو کبوتر کو خدا بنایا اور ایک طرف کبوتر پر ہمیشہ چھری پھیر دی جاتی ہے۔ مسیح تو صرف ایک دفعہ صلیب پر چڑھ کر تمام عیسائیوں کا شفیع بن گیا مگر بیچارہ کبوتر کو اس شفاعت سے کچھ حصہ نہ ملا جس کی بوٹی بوٹی ہمیشہ دانتوں کے نیچے پیسی جاتی ہے چنانچہ ہم نے بھی کل ایک سفید کبوتر کھایا تھا لہٰذا روح القدس کی تائید سے یہ تحریک پیدا ہوئی اور انسائیکلوپیڈیا میں جو پانسو قسم کبوتر کی لکھی ہے یہ بھی میری رائے میں ناقص ہے کیونکہ اس میں اس کبوتر شامل نہیں کیا گیا جس کی شبیہہ میں عیسائیوں کاخدا ظاہر ہوا تھا اس لئے اس بیان کی یوں صحیح کرنی چاہئے کہ کبوتر کی اقسام ۵۰۱ ہیں اور اس کی تصریح کر دینی چاہئے کہ یہ ایک نئی قسم وہ داخل کی گئی ہے جس میں خدا مسیح پر نازل ہوا تھا۔
میں ایسے شخص کا سخت دشمن ہوں کہ جو کسی عورت کے پیٹ سے پیدا ہو کر پھر خیال کرے کہ میں خدا ہوں گو میں مسیح ابن مریم کو اس تہمت سے پاک قرار دیتا ہوں کہ اُس نے کبھی خدائی کا دعویٰ کیا تا ہم میں دعویٰ کرنے والے کو تمام گنہگاروں سے بدتر سمجھتا ہوں میں جانتا ہوں اور مجھے دکھایا گیا ہے کہ مسیح ابن مریم اس تہمت سے بری اور راستباز ہے اور اس نے کئی دفعہ مجھ سے ملاقات کی لیکن ہر ایک دفعہ اپنی عاجزی اور عبودیت ظاہر کی ایک دفعہ میں نے اور اس نے عالم کشف میں جو گویا بیداری کا عالم تھا ایک جگہ بیٹھ کر ایک ہی پیالہ میں گائے کا گوشت کھایا اور اس نے اپنی فروتنی اور محبت سے میرے پر ظاہر کیا کہ وہ میرا بھائی ہے اور میں نے بھی محسوس کیا کہ وہ میرا بھائی ہے تب سے میں اس کو اپنا ایک بھائی سمجھتا ہوں سو جو کچھ میں نے دیکھا ہے اس کے موافق میرا یہی عقیدہ ہے کہ وہ میرا بھائی ہے گو مجھے حکمت اور مصلحت الٰہی نے اس کی نسبت زیادہ کام سپرد کیا ہے اور اس کی نسبت زیادہ فضل و کرم کے وعدے دئے ہیں مگر پھربھی میں اور وہ روحانیت کے رو سے ایک ہی جوہر کے دو ٹکڑے ہیں اسی بنا پر میرا آنا اسی کا آنا ہے جو مجھ سے انکار کرتا ہے وہ اس سے بھی انکار کرتا ہے اس نے مجھے دیکھا اور خوش ہوا پس وہ جو مجھے دیکھتا اور ناخوش ہوتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے نہ مجھ میں سے اور نہ مسیح ابن مریم میں سے۔ اور مسیح ابن مریم مجھ میں سے ہے اور میں خدا سے ہوں مبارک وہ جو مجھے پہچانتا ہے اور بدقسمت وہ جس کی آنکھوں سے میں پوشیدہ ہوں۔
خاکسار
مرزا غلام احمد قادیانی

ڈوئی کے نام دوسرا کھلا خط
ڈوئی نے اس خط کا جب کچھ جواب نہ دیا تو حضرت مسیح موعود نے ایک اَور خط عام اعلان کے طور پر شائع کیا۔ جو یہ ہے ( ایڈیٹر)
زمین جب گناہ اور شرک سے آلودہ ہو جاتی ہے اور اس حقیقت سے بے خبر ہو جاتی ہے جو انسان کی پیدائش کی اصل غرض ہے تب خدائی رحمت تقاضا کرتی ہے کہ ایک کامل الفطرت انسان کو اپنی ذات سے پاک تعلق بخش کر اور اپنے مکالمہ سے اُس کو مشرف کر کے اور اپنی محبت میں اُس کو انتہا تک پہنچا کر اُس کے ذریعہ سے دوبارہ زمین کو پاک و صاف کرے۔ انسان خدا تو نہیں ہو سکتا مگر بڑے بڑے تعلقات اس سے پیدا کر لیتا ہے جب وہ بالکل خدا کیلئے ہو جاتا ہے اور اپنے تئیں صاف کرتا ایک مصفّہ آئینہ کی طرح بن جاتا ہے تب اس آئینہ میں عکسی طور پر خدا کاچہرہ نمودار ہوتا ہے اُس صورت میں وہ بشریٰ اور خدائی صفات میں ایک مشترک چیز بن جاتا ہے اور کبھی اس سے صفات الٰہیہ صادر ہوتی ہیں کیونکہ اس کے آئینہ وجود میں خدا کا چہرہ منعکس ہے اور کبھی اُس سے بشریٰ صفات صادر ہوتی ہیں کیونکہ وہ بشر ہے اور ایسے انسانوں کو دیکھنے والے کبھی دھوکا کھا کر اور صرف ایک پہلو کا کرشمہ دیکھ کر ان کو خدا سمجھنے لگتے ہیں اور دنیا میں مخلوق پرستی اسی وجہ سے آتی ہے اور صدہا انسان اسی دھوکا سے خدا بنائے گئے ہیں مگرہمارے اس زمانہ میں جس قدر عیسائیوں کا وہ فرقہ جو حضرت مسیح کو خدا جانتا ہے اس دھوکا میں مبتلا ہے اس قدر کوئی اور قوم مبتلا نہیں مسیح سے صدہا برس پہلے جو لوگ خدا بنائے گئے تھے جیسے راجہ رامچندر، راجہ کرشن، گوتم بدھ ہمارے اس زمانہ میں ان کے پیرو متنبہ ہو جاتے ہیں کہ یہ ان کی غلطیاں تھیں مگر افسوس حضرت مسیح کے پیرو اب تک اس زمانہ میں بھی خواہ نخواہ خدائی کا خطاب ان کو دے رہے ہیں اگر اس خیال کا بطلان ایسا بدیہی تھا کہ کسی دلیل کی ضرورت نہ تھی مگر افسوس کہ عیسائی ابھی تک اُس زمانہ کی ہوا سے بھی دور بیٹھے ہیں بلکہ بعض لوگوں نے جب دیکھا کہ ایسے لغو خیالات کا زمانہ ہی دن بدن مخالف ہوتا جاتا ہے تو انہوں نے اپنی معمولی طریقوں سے مایوس ہو کر یہ ایک نیا طریق اختیار کیا کہ کوئی ان میں سے الیاس بن گیا اور کسی نے یہ دعویٰ کر دیا کہ میں مسیح ابن مریم ہوں اور میں ہی خدا ہوں۔ اس مجمل فقرہ سے مراد میری یہ ہے کہ لنڈن میں تو مسٹر پگٹ نے خدائی اور مسیحیت کا دعویٰ کیا اور امریکہ میں مسٹر ڈوئی الیاس بن بیٹھے اور پیشگوئی کر دی کہ مسیح ابن مریم پچیس برس تک دنیا میں آجائے گا۔ دونوں میں فرق یہ ہے کہ ڈوئی نے تو بزدلی دکھلائی اور الیاس بننے میں بھی اپنی پردہ دری سے ڈرتا رہا اور مسیح نہ بنا بلکہ مسیح کا خادم بنا اور پگٹ نے بڑی ہمت دکھلائی کہ خود مسیح بن گیا نہ صرف مسیح بلکہ خداہونے کا بھی دعویٰ کیا۔ اب لنڈن والوں کو کسی بیماری، آفت، مصیبت کا کیا اندیشہ ہے جن کے شہر میں خدا اُترا ہوا ہے مگر میں نے سنا ہے کہ لنڈن میں کچھ یہودی بھی رہتے ہیں اس لئے بے شک یہ اندیشہ ہے کہ ان کو طبعاً یہ خیال پیدا ہو کہ یہ تو وہی مسیح ہے جو صلیب سے بوجہ غشی کے غلطی کے ساتھ زندہ اُتارا گیا اور پھر موقع پا کر مشرقی بلاد کی طرف بھاگ گیا۔ آخر اب ایسے طور سے اس کو صلیب دیں کہ کام تمام ہو جائے اور پھر کسی طرف بھاگ نہ سکے اور ساتھ ہی یہ فکر بھی ہے کہ مبادا عیسائیوں کو بھی خیال آ جاوے کہ پہلا کفّارہ پُرانا اور بودہ ہو چکا ہے اور شراب خوری اور فسق و فجور کی کثرت سے ثابت بھی کر دیا ہے کہ اس کفّارہ کی تاثیر جاتی رہی ہے اس لئے اب ایک نئے خون کی ضرورت ہے۔ سو میں ہمدردی سے کہتا ہوں کہ مسٹر پگٹ کو ان ہر دو فرقوں سے چوکس رہنا چاہئے القصہ ان دنوں میں جب کہ زمین میں ایسے ایسے جھوٹے اور ناپاک دعویٰ کئے گئے ہیں اس لئے خدا نے جو زمین پر بدی اور ناپاکی کا پھیلنا پسند نہیں کرتا مجھے اپنا مسیح کر کے بھیجا تا وہ زمین کی تاریکی کو اپنی توحید سے روشن کرے اور شرک کی نجاست سے دنیا کو مخلصی بخشے۔ پس میں وہی مسیح موعود ہوں جو ایسے وقت میں آنے والا تھا اور میں صرف اپنے منہ سے نہیں کہتا کہ میں مسیح موعود ہوں بلکہ وہ خدا جس نے زمین و آسمان بنایا میری گواہی دیتا ہے اس نے اس گواہی کے پورا کرنے کے لئے صدہا نشان میرے لئے ظاہر کئے اور کر رہا ہے میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس کا فضل اُس مسیح سے مجھ پر زیادہ ہے جو مجھ سے پہلے گزر چکا ہے میرے آئینہ میں اس کا چہرہ اس سے زیادہ وسیع طور پر منعکس ہوا ہے جو اُس کے آئینہ میںہوا تھا اگر میں صرف اپنے منہ سے کہتا ہوں تو میں جھوٹا ہوں لیکن اگر وہ میرے لئے گواہی دیتا ہے تو کوئی مجھے جھوٹا قرار نہیں دے سکتا میرے لئے اس کی ہزار ہا گواہیاں ہیں جن کو میں شمار نہیں کر سکتا۔ مگر منجملہ ان کے ایک یہ بھی گواہی ہے کہ یہ دلیر دروغگو یعنی پگٹ جس نے خدا ہونے کا لنڈن میں دعویٰ کیا ہے وہ میری آنکھوں کے سامنے نیست ونابود ہو جائے گا۔ دوسری یہ گواہی ہے کہ مسٹر ڈوئی اگر میری درخواست مباہلہ قبول کرے گا اور صراحتًا یا اشارۃً میرے مقابلہ پر کھڑا ہوگا تو میرے دیکھتے دیکھتے بڑی حسرت اور دکھ کے ساتھ اس دنیائے فانی کوچھوڑ دے گا۔ یہ دو نشان ہیں جو یورپ اور امریکہ کے لئے خاص کئے گئے ہیں کاش وہ ان پر غور کریں اور ان سے فائدہ اُٹھائیں۔
یاد رہے کہ اب تک ڈوئی نے میری اس درخواست مباہلہ کا کچھ جواب نہیں دیا اور نہ اپنے اخبار میں کچھ اشارہ کیا ہے اس لئے میں آج کی تاریخ سے جو ۲۳؍ اگست ۱۹۰۳ء ہے اس کو پورے سات ماہ کی اور مہلت دیتا ہوں اگر وہ اس مہلت میں میرے مقابلہ پر آگیا اور جس طرح سے مقابلہ کرنے کی میں نے تجویز کی ہے جس کو میں شائع کر چکا ہوں اس تجویر کو پورے طور پر منظور کر کے اپنے اخبار میں عام اشتہار دے دیا تو جلد تر دنیا دیکھ لے گی کہ اس مقابلہ کا انجام کیا ہوگا۔ میں عمر میں ۷۰ برس کے قریب ہوں اور وہ جیسا کہ بیان کرتا ہے پچاس برس کا جوان ہے جو میری نسبت گویا ایک بچہ ہے لیکن میں نے اپنی بڑی عمر کی کچھ پرواہ نہیں کی کیونکہ اس مباہلہ کا فیصلہ عمروں کی حکومت سے نہیں ہوگا بلکہ وہ خدا جو احکم الحاکمین ہے وہ اس کا فیصلہ کرے گا اور اگر مسٹر ڈوئی اس مقابلہ سے بھاگ گیا تو دیکھو آج میں تمام امریکہ اور یورپ کے باشندوں کو اس بات پر گواہ کرتا ہوں کہ یہ طریق اس کا بھی شکست کی صورت سمجھی جائے گی اور نیز اس صورت میں پبلک کو یقین کرنا چاہئے کہ یہ تمام دعویٰ اس کا الیاس بننے کا محض زبان کا مکر اور فریب تھا اور اگرچہ وہ اس طرح سے موت سے بھاگنا چاہے گا لیکن درحقیقت ایسے بھاری مقابلہ سے گریز کرنا بھی ایک موت ہے۔ پس یقین سمجھو کہ اس کے صیہوں پر جلد تر ایک آفت آنے والی ہے کیونکہ ان دونوں صورتوں میں سے ضرور ایک صورت اس کو پکڑ لے گی۔ اب میں اس مضمون کو اس دعا پر ختم کرتا ہے کہ
اے قادر اور کامل خدا جو ہمیشہ نبیوں پر ظاہر ہوتا رہا اور ظاہر ہوتا رہے گا یہ فیصلہ جلد کر کہ پگٹ اور ڈوئی کاجھوٹ لوگوں پر ظاہر کر دے کیونکہ اس زمانہ میں تیرے عاجز بندے اپنے جیسے انسانوں کی پرستش میں گرفتار ہو کر تجھ سے بہت دور جا پڑے ہیں۔ سو اے ہمارے پیارے خدا ان کواس مخلوق پرستی کے اثر سے رہائی بخش اور اپنے وعدوں کو پورا کر جو اس زمانہ کے لئے تیرے تمام نبیوں نے کئے ہیں۔ ان کانٹوں میں سے زخمی لوگوں کو باہر نکال اور حقیقی نجات کے سرچشمہ سے ان کو سیراب کر کیونکہ سب نجات تیری معرفت اور تیری محبت میں ہے کسی انسان کے خون میں نجات نہیں۔ اے رحیم و کریم خدا ان کی مخلوق پرستی پر بہت زمانہ گزر گیا ہے اب اُن پر تو رحم کر اور ان کی آنکھیں کھول دے۔ اے قادر اور رحیم خدا سب کچھ تیرے ہاتھ میں ہے اب تو ان بندوں کو اس اسیری سے رہائی بخش اور صلیب اور خون مسیح کے خیالات سے ان کو بچا لے۔ اے قادر کریم خدا ان کے لئے میری دعا سن اور آسمان سے ان کے دلوں پر ایک نور نازل کر تا وہ تجھے دیکھ لیں ۔ کون خیال کر سکتا ہے کہ وہ تجھے دیکھیں گے کس کے ضمیر میں ہے کہ وہ مخلوق پرستی کو چھوڑ دیں گے اور تیری آواز سنیں گے۔ پر اے خدا تو سب کچھ کر سکتا ہے تو نوح کے دنوں کی طرح ان کو ہلاک مت کر کہ آخر وہ تیرے بندے ہیں بلکہ اُن پر رحم کر اور ان کے دلوں کو سچائی کے قبول کرنے کے کھول دے۔ہر ایک قفل کی تیرے ہاتھ میںکنجی ہے جب کہ تو نے مجھے اس کام کے لئے بھیجا ہے سو میں تیرے منہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ میںنامرادی سے مروں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ جو کچھ تو نے اپنی وحی سے مجھے وعدے دیئے ہیں ان وعدوں کو تو ضرور پورا کرے گا کیونکہ تو ہمارا خدا صادق خداہے۔ اے میرے رحیم خدا اس دنیا میں میرا بہشت کیا ہے۔ بس یہی کہ تیرے بندے مخلوق پرستی سے نجات پاجائیں سو میرا بہشت مجھے عطا کر اور ان لوگوں کے مردوں اور ان لوگوں کی عورتوں اور ان کے بچوں پر یہ حقیقت ظاہر کر دے کہ وہ خدا جس کی طرف توریت اور دوسری پاک کتابوں نے بلایا ہے اس سے وہ بے خبر ہیں۔ اے قادر کریم میری سن لے کہ تمام طاقتیں تجھ کو ہیں۔ اٰمین ثم اٰمین


مکتوبات ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد 4


حضرت اقدس حجۃ اللہ علی الارض مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پرانی تحریروں کا سلسلہ نمبر۴
اَلْمَکْتُوْبُ نِصْفُ الْمُلاَقَاتِ
مکتوبات احمدیہ
(۴)
(جلدچہارم)
حضرت اقدس حجۃ اللہ علی الارض امام ربانی و مرسل یزدانی
حضرت میرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود و مہدی مسعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مکتوبات جو آپ نے اپنے ہاتھ سے مولوی محمد حسین بٹالوی کے نام تحریر فرمائے
جنکو
خاکسار یعقوب علی تراب احمدی ایڈیٹر الحکم ورسالہ احمدی خاتون و مرتب تفسیر القرآن و ترجمۃ القرآن و ایڈیٹر حیاۃ النبی (سیرت مسیح موعود) وغیرہ نے جمع کر کے ترتیب دیا۔
اور انوار احمدیہ پریس مدینۃ المسیح قادیان دارالامان میں چھپا
بار دوم جلد۸۰۰ قیمت فی جلد علاوہ محصول ڈاک صرف آٹھ آنے (۸؍)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
عرض حال
الحمد اللّٰہ رب العالمین الرحمن الرحیم مالک یوم الدین والصلوٰۃ والسلام علی رسولہ محمد الامین خاتم النبیین والہ واصحابہ الطبیبن و علی خلفائہ الراشدین المھدین اما بعدخاکسار ایڈیٹر الحکم نہایت خوشی اور مسرت قلبی سے اس امر کا اظہار کرتا ہے کہ جب سے اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے اس کو اس چشمۂ ہدایت کی طرف رہنمائی فرمائی اور اپنے فضل ہی سے اس کے ہاتھ میں قلم اور دل و دماغ میں قوت بخشی اور سلسلہ عالیہ احمدیہ کی قلمی خدمت کیلئے اسے ایک جوش عطا فرمایا۔ تب ہی سے اسے یہ آرزو ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ملفوظات۔ مکتوبات اور ہر ایسی تحریروں کو جمع کروں جو حضور کے قلم سے کبھی نکلی ہوں اور وہ کسی منتشر حالت میں ہوں یا یہ اندیشہ ہو کہ وہ نایاب نہ ہو جائیں۔ محض اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اسے یہ موقع دیا کہ وہ الحکم کے ذریعہ آپ کے ملفوظات اور الہامات اور مکتوبات وغیرہ کو ایک حد تک جمع کرسکا۔ الحکم کے ذریعہ اس سلسلہ میں فضل ربی سے بہت بڑا کام ہوا۔ پُرانی تحریروں کو جمع کرنے میں بھی ایک حد تک کامیابی ہوئی ہے پُرانی تحریروں کے سلسلہ ہی میں مکتوبات کا سلسلہ شامل کر دیا گیا تھا۔ خدا کا شکرہے کہ مکتوبات کے سلسلہ میں پانچویں جلد کا پہلا حصہ تک شائع کرنے کی توفیق پائی پہلی جلد مکتوبات کی جب شائع کی گئی تھی اُس وقت میرا خیال تھا کہ دوسری جلد میں حضرت مولانا مولوی نور الدین صاحب کے نام کے مکتوبات درج کروں۔ لیکن بعد میں میرا خیال ہوا کہ مخالفین اسلام کے نام کے مکتوبات کی جلدوں کوپہلے چھاپ دوں اور مخلص خدام کے مکتوبات کا سلسلہ بعد میں رکھوں۔ چنانچہ آریوں، ہندوؤں، برہموں کے نام کے مکتوبات دوسری جلد میں اور عیسائی مذہب کے لیڈروں کے نام کے مکتوبات تیسری جلد میں شائع ہو چکے ہیں۔ اس چوتھی جلد میں سلسلہ عالیہ کے تلخ ترین دشمن مولوی محمد حسین بٹالوی کے نام کے مکتوبات ہیں۔ پانچویں جلد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخلصین کی جلد ہے۔ اس کے متعدد حصے ہونگے۔ چنانچہ جس کا پہلا حصہ شائع ہوچکا ہے اور حصہ دوم میں حضرت چوہدری رستم علی صاحب مرحوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام کے مکتوبات ہیں۔
میں یہ بھی کوشش کر رہا ہوں کہ آئندہ جو مکتوبات طبع ہوں وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اپنے ہی خط کے عکس میں شائع ہوں مگر یہ بہت محنت اور کوشش اور صرف کاکام ہے۔ احباب نے میری حوصلہ افزائی کی اور اس کام میں میری مالی مدد کی تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بعید نہیں اس میں کامیاب ہو جاؤں کیونکہ اصل مکتوبات میرے پاس موجود۔ اللہ تعالیٰ ہی کی اوّل و آخر حمد ہے۔
سلسلہ عالیہ کا ادنیٰ خدمت گزار
خاکسار یعقوب علی تراب احمدی ایڈیٹر الحکم
تراب منزل قادیان دارالامان
الحکم آفس ۱۵؍ نومبر ۱۹۱۹ء
حضرت مولانا مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ عنہ تعالیٰ کے ملفوظات
حضرت مخدوم الملۃ مولانا مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ عنہ سلسلہ احمدیہ کے اُن مشاہیر صحابہ میں سے ہیں جونہ صرف السابقون الاوّلون من المہاجرین کے گروہ میں داخل ہیں بلکہ انہوں نے سلسلہ کے لئے بڑی بڑی قربانیاں کیں اور سلسلہ ہمیشہ ان کے وجود پر اس لحاظ سے فخر کرے گا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عرفانی نشانوں میں سے ایک ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی اس وحی میں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر نازل ہوئی ان کا نام مسلمانوں کا لیڈر رکھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ ان کی لوح مزار لکھی جس میں فرمایا
کے تواں کردن شمار خوبی عبدالکریم
اسی مخدوم ملت کے ملفوظات کو سلسلہ وار چھوٹے چھوٹے رسالوں میں شائع کرنے کا میں نے قصد کیا ہے تا اس نیاز مندی اور محبت کے تعلقات کا اظہار کروں جو مولانا ممدوح سے مجھے ان کی کمال شفقت اور توجہ کی وجہ سے پیدا ہوئے تھے۔ اس سلسلہ میں مولانا ممدوح کے خطبات، مکتوبات، ان کی تقریریں اور لیکچر ہوں گے اور ان کی اشاعت کے بعد انشاء اللہ العزیز حیات صوفی یعنی مولانا ممدوح کی سوانح عمری ہوگی۔ لیکچروں کے سلسلہ میں یہ پہلا لیکچر ہے یہ رسالے صرف اسی قدر طبع ہونگے جو نکل سکیں۔ کاغذ اور سامان طباعت کی گرانی مجھے اس وقت تک ۴۰۰ سے زیادہ چھاپنے کی اجازت نہیں دیتی۔ اگر چالیس احباب اس سلسلہ کے دس دس رسالوںکے مستقل خریدار ہو جائیں تو میں اس تعداد کو دو چند کر دوں گا۔ یہ فرض شناس قوم کے اہل دل احباب اور مخدوم الملۃ کے مخلص دوستوں کا فرض ہوگا کہ وہ اس سلسلہ کی سرپرستی کریں۔ اس سلسلہ کا پہلا نمبر لیکچر ’’گناہ‘‘ چھپ کر تیار ہو گیا اور اس لیکچر گناہ کے بعد مخدوم الملۃ کا رسالہ القول الفصیح شائع ہو گا۔ قیمت فی رسالہ ۴؍ ہوگی۔ تمام درخواستیں اس پتہ پر ہوں۔
خاکسار
یعقوب علی تراب احمدی
ایڈیٹر الحکم و رسالہ احمدی خاتون قادیان
کُلیاتِ حَامد
حضرت میر حامد شاہ صاحب سیالکوٹی رضی اللہ عنہ کی تصنیفات نظم و نثر کا مجموعہ کامل
مارچ ۱۹۱۸ء کے اوائل میں حضرت میر حامد شاہ صاحب رضی اللہ عنہ نے کلیاتِ حامد کی ترتیب و اشاعت کا کام میرے سپرد فرمایا اور اس کے کل اخراجات طبع اپنے ذمے لئے اور فرمایا کہ اخراجات میں دوں گا اور اس کی آمدنی اعانت الحکم میں صرف ہوگی۔ چنانچہ ۱۴؍ مارچ ۱۹۱۸ء کے الحکم میں کلیات حامد کا اعلان کیا گیا اور میں نے حضرت شاہ صاحب کے تمام مضامین اور رسائل کو جمع کرنا شروع کیا اللہ تعالیٰ کی مشیت یہی تھی کہ شاہ صاحب کی زندگی میں یہ کام ختم نہ ہو۔ چنانچہ شاہ صاحب ۱۵؍ نومبر ۱۹۱۸ء کو تین بجے صبح کے رفیق اعلیٰ سے جا ملے اور کلیات کا کام ناتمام رہ گیا۔ اب میں سمجھتا ہوں کہ اس کو حضرت شاہ صاحب رضی اللہ عنہ کی یادگار کے طور پر شائع کروں۔ کلیاتِ حامد میں حضرت شاہ صاحب کی تمام تصانیف اور تمام مضامین نظم و نثر جمع کئے جائیں گے اور اس کے اوّل شاہ صاحب قبلہ کی مختصر لائف مع فوٹو ہوگی۔
حضرت شاہ صاحب سلسلہ احمدیہ کے درخشندہ گوہر اور ممتاز رکن تھے ان کا نام میری کسی معرفی کا محتاج نہیں۔ جماعت کے تمام افراد میں شاہ صاحب اپنی اعلیٰ درجہ کی متقیانہ اور نمونہ کی زندگی کے باعث نمایاں تھے میں ان کے دوستوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ مجھے اپنے مخدوم بزرگ کی یادگار قائم رکھنے میں مدد دیں سالانہ جلسہ تک کلیات حامد کی ایک جلد شائع کرنا چاہتا ہوں یہ دو جلدوں میںہوگی پہلا حصہ نثر کا اور دوسرا نظم کا ہوگا۔ مکمل کلیات حامد کی قیمت ۸؍ ہوگی۔ اگر ایک سَو احباب صرف چار چار جلدیں خرید لیں اور پیشگی قیمت بھیج دیں تو اس کام میں سہولت اور آسانی پیداہو سکتی ہے ورنہ اللہ تعالیٰ جس طرح چاہے گا پورا کرنے کی توفیق دے گا۔ سالانہ جلسے تک انشاء اللہ یہ مجموعہ شائع ہو سکے گا۔وباللہ التوفیق۔تمام درخواستیں ذیل کے پتہ پر آنی چاہئیں۔
خاکسار
یعقوب علی تراب احمدی
ایڈیٹر الحکم و رسالہ احمدی خاتون قادیان
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
مکتوبات احمدیہ جلد چہارم۴
مکتوبات احمدیہ جلد چہارم میں ان مکتوبات کے اندراج کا ارادہ کیا گیا تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مختلف اوقات میں مخالف الرائے علماء اور صوفیاء کو لکھے تھے لیکن ان تمام مخالفین میں سے مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب بٹالوی کے نام اس قدر خطوط ہیں کہ مناسب معلوم ہوا صرف مولوی محمد حسین کے نام کے خطوط کی ایک جداگانہ جلد تربیت دی جاوے۔ میرا یہ بھی ارادہ تھا کہ ان خطوط پر مناسب موقعہ حواشی لکھتا چونکہ پہلی جلدوں میں یہ التزام نہیں کیاگیا۔ اس موقعہ پر بھی میں نے اصل خطوط ہی کو شائع کر دینا مناسب سمجھا ہے جن جملوں یا الفاظ کو میں نے جلی کر دیا ہے وہ پڑھنے والوں کی خاص توجہ چاہتے ہیں۔
علاوہ بریں بعض جگہ میں نے مناسب سمجھا ہے کہ مولوی محمد حسین صاحب کے اُن خطوط کو حاشیہ میں درج کر دوں جس کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے گرامی نامہ لکھا ہے۔ ہاں اتنا میں شروع میں عرض کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے خطوط میں ناظرین دیکھیں گے کہ کس انکساری، فروتنی اور خدا ترسی سے کام لیا گیا ہے اور برخلاف اس کے مولوی محمد حسین کے خطوط میں تیزی اور جوش تدریجاً بڑھتا گیا ہے۔ (ایڈیٹر)



جواب نمبر۱
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
مخدومی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ عنایت نامہ پہنچا۔ عاجز کی طبیعت علیل ہے۔ اخویم منشی عبدالحق صاحب کو تاکید فرماویں کہ جہاں تک جلد ممکن ہو معمولی گولیاں ارسال فرمائیں۔ توجہ سے کہہ دیں۔ افسوس کہ میری علالت طبع کے وقت آپ عیادت کیلئے بھی نہیں آئے اور آپ کے استفسار کے جواب میں صرف ’’ہاں‘‘ کافی سمجھتا ہوں۔
والسلام
خاکسار
(غلام احمد ۵؍ فروری ۱۸۹۱ء)
جواب نمبر۲
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ
مخدومی مکرمی اخویم مولوی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ اگرچہ خداوند کریم خوب جانتا ہے کہ یہ عاجز اُس کی طرف سے مامور ہے اور ایسے امور میں جہاں عوام کے فتنے کا اندیشہ ہے۔ جب تک کامل اور قطعی اور یقینی طور پر اس عاجز پر ظاہر نہیں کیا جاتا۔ ہرگز زبان پر نہیں لاتا لیکن اس میں کچھ حکمت خداوند کریم کی ہوگی کہ اس نزول مسیح کے مسئلے میں جس کو اصل اور لب اسلام سے کچھ تعلق نہیں اور ایک مسلمان پر اُس کی اصل حقیقت کھولی گئی ہے۔ جس پر بوجہ اخوت حسن ظن بھی کرنا چاہئے۔ آنمکرم کو مخالفانہ تحریر کے لئے جوش دیا گیا ہے اور میں جانتا ہوں کہ آپ کی اِس میں نیت بخیر ہوگی۔ اور اگرچہ مجھے آپ کے استعجال کی نسبت شکایت ہو اور اس کو روبرو یا غائبانہ بیان بھی کروں۔ مگر آپ کی نیت کی نسبت مجھے حسن ظن ہے اور آپ کو زمانہ حال کے اکثر علماء بلکہ اگر آپ ناراض نہ ہوں تو بعض للّہی جدوجہد کے کاموں کے لحاظ سے مولوی نذیر حسین صاحب سے بھی بہتر سمجھتا ہوں اور اگرچہ میں آپ سے ان باتوں کی شکایت کروں تا ہم مجھے بوجہ آپ کی صفائی باطن کے آپ سے محبت ہے۔ اگر میں شناخت نہ کیا جاؤں تو میں سمجھوں گا کہ میرے لئے یہی مقدر تھا مجھے فتح اور شکست سے بھی کچھ تعلق نہیں بلکہ عبودیت و اطاعت سے غرض ہے۔ میں جانتا ہوں کہ اس خلاف میں آپ کی نیت بخیر ہوگی۔ لیکن میرے نزدیک بہتر ہے کہ آپ اوّل مجھ سے بات چیت کر کے اور میری کتابوں کو یعنی رسالہ ثلثہ کو دیکھ کر کچھ تحریر کریں۔ مجھے اِس سے کچھ غم اور رنج نہیں کہ آپ جیسے دوست مخالفت پر آمادہ ہوں۔ کیونکہ یہ مخالفت رائے بھی حق کے لئے ہوگی۔ کل میں نے اپنے بازو پر یہ لفظ اپنے تئیں لکھتے ہوئے دیکھا کہ میں اکیلا ہوں اور خدا میرے ساتھ ہے اور اُس کے ساتھ مجھے الہام ہوا۔ ان معی ربّ سیھدین۔ سو میں جانتا ہوں کہ خداوند تعالیٰ اپنی طرف سے کوئی حجت ظاہر کر دے گا۔ میں آپ کے لئے دعا کروں گا۔ مگر ضرور ہے کہ جو آپ کے لئے مقدر ہے وہ سب آپ کے ہاتھ سے پورا ہو جائے۔ حضرت موسیٰ کی جو آپ نے مثل لکھی ہے اشارۃ النص پایا جاتا ہے کہ ایسا نہیں کرنا چاہئے۔ جیسا کہ موسیٰ نے کیا۔ اس قصے کو قرآن شریف میں بیان کرنے سے غرض بھی یہی ہے کہ تا آئندہ حق کے طالب معارف روحانیہ اور عجائبات مخفیہ کے کھلنے کے شائق ہیں۔ حضرت موسیٰ کی طرح جلدی نہ کریں حدیث صحیح بھی اسی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
اب مجھے آپ کی ملاقات کے لئے صحت حاصل ہے اگر آپ بٹالے میں آ جائیں تو اگرچہ میں بیمار ہوں اور دوران سر اس قدر ہے کہ نماز کھڑے ہو کر نہیں پڑھی جاتی تا ہم افتاں و خیزاں آپ کے پاس پہنچ سکتا ہوں۔ بقول رنگین
وہ نہ آئے تو تو ہی چل رنگین
اس میں کیا تیری شان جاتی ہے
ازالۃ الاوہام ابھی چھپ کر نہیں آیا۔ فتح اسلام اور توضیح المرام ارسال خدمت ہیں۔
(الراقم غلام احمد از قادیان)
جواب نمبر۳
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ :السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محبت نامہ پہنچا چونکہ آنمکرم عزم پختہ کر چکے ہیں تو پھر میں کیا عرض کر سکتا ہوں۔ اس عاجز کی طبیعت بیمار ہے۔ دوران سر اور ضعف بہت ہے۔ ایسی طاقت نہیں کہ کثرت سے بات کروں جس حالت میں آنمکرم کسی طور سے اپنے ارادہ سے باز نہیں رہ سکتے اور ایسا ہی یہ عاجز اس بصیرت اور علم سے اپنے تئیں نابینا نہیں کر سکتا جوحضرت احدیت جل شانہٗ نے بخشا ہے۔ اس صورت میں گفتگو عبث ہے۔ رسالہ ابھی کسی قدر باقی ہے ناقص کو میں بھیج نہیں سکتا۔ اس جگہ آنے کیلئے آنمکرم کو یہ عاجز تکلیف دینا نہیں چاہتا۔ مگر ۲۶؍ فروری ۱۸۹۱ء کو یہ عاجز انشاء اللہ القدیر لودیانہ کے ارادہ سے بٹالہ میں پہنچے گا۔ وہاں صرف آپ کی ملاقات کرنے کا شوق ہے گفتگو کی ضرورت نہیں اور یہ عاجز للہ آپ کے ان الفاظ کے استعمال سے جو مخالفانہ تحریر کی حالت میں کبھی حد سے بڑھ جاتے ہیں یا اپنے بھائی کی تذلیل اور بدگمانی تک نوبت پہنچاتے ہیں معاف کرتاہے۔ واللّٰہ علی ماقلت شہید
چند روز کا ذکر ہے کہ پرانے کاغذات کو دیکھتے دیکھتے ایک پرچہ نکل آیا جو میں نے اپنے ہاتھ سے بطور یادداشت کے لکھا تھا اُس میں تحریر تھا کہ یہ پرچہ ۵؍ جنوری ۱۸۸۸ء کو لکھا گیا ہے مضمون یہ تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ مولوی محمدحسین صاحب نے کسی امر میں مخالفت کر کے کوئی تحریر چھپوائی ہے اور اُس کی سرخی میری نسبت ’’تحمیذ‘‘ رکھی ہے۔معلوم نہیں اس کے کیا معنے ہیں اور وہ تحریر پڑھ کرکہا ہے کہ آپ کو میں نے منع کیا تھا پھر آپ نے کیوں ایسا مضمون چھپوایا۔ ھذا مارایت واللّٰہ اعلم بتاویلہ
چونکہ حتی الوسع خواب کی تصدیق کیلئے کوشش مسنون ہے اس لئے میں آنمکرم کو منع کرتا ہوں کہ آپ اس ارادہ سے دست کش رہیں۔ خدائے تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ میں اپنے دعویٰ میں صادق ہوں اور اگر صادق نہیں تو پھر ۱؎کی تہدید پیش آنے والی ہے۔ لاتقف ما لیس
۱؎ المومن: ۲۹
لک بہٖ علم ولا تدخل نفسک فیما لا تعلم حقیقۃ یا اخی وافوض امری الی اللّٰہ یوتک اجر صبرک یا اخی وانا انظر الی السماء وارجوتائید اللّٰہ واعلم من اللّٰہ مالاتعلمون۔
والسلام علی من اتبع الھدی
حضرت اخویم حبی فی سبیل اللہ مولوی حکیم نورالدین اور آنمکرم کی تحریرات میں یہ عاجز دخل دینا نہیں چاہتا۔ (خاکسار غلام احمد)
جواب نمبر۴
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ
از عاجز عائذ باللہ الصمد غلام احمد عافاہ اللہ و ایدہ بخدمت محبی اخویم مکرم ابو سعید محمد حسین صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا چونکہ یہ عاجز اپنی دانست میں ناتمام مضمون ازالۃ الاوہام کا آنمکرم کو دکھلانا مناسب نہیں سمجھتا اس لئے اجازت نہیں دے سکتا۔ مگر اس عاجز کی رائے میں صرف بیس پچیس روز تک رسالہ ازالۃ الاوہام چھپ جائے گا کچھ بہت دیر نہیں ہے۔ پھر انشاء اللہ القدیر سب سے پہلے یہ عاجز آنمکرم کی خدمت میں بھیج دے گا۔ آنمکرم کو معلوم ہوگا کہ درحقیقت ان رسالوں میں کوئی نیا دعویٰ نہیں کیا گیا بلکہ بلا کم و بیش یہ وہی دعویٰ ہے جس کا براہین احمدیہ میں بھی ذکر ہو چکا ہے۔ جس کی آنمکرم نے اپنے رسالہ اشاعت السنۃ میں امکانی طور پر تصدیق کر چکے ہیں۔ پھر متعجب ہوں کہ اب پھر دوسری مرتبہ آنمکرم کو دیکھنے کی حاجت ہی کیا ہے کیا وہی کافی نہیں۔ جو پہلے آنمکرم اشاعۃ السنۃ نمبر۶ جلد۷ میں تحریر فرما چکے ہیں جبکہ اوّل سے آخر تک وہی دعویٰ وہی مضمون وہی بات ہے تو پھر آپ جیسے محقق کی نگاہ میں نہ معلوم ہو۔ کس قدر تعجب ہے۔
یہ عاجز رسالہ ازالۃ الاوہام میں آنمکرم کے ریویو کی بعض عبارتیں درج بھی کر چکا ہے اس عاجر نے جو ۵؍ جنوری ۱۸۸۸ء کو خواب دیکھی تھی اُس کی سرخی ’’کمینہ‘‘ تھا۔ جس کی حقیقت مجھے معلوم نہیں۔ واللّٰہ اعلم بالصواب
پھر بھی میں آنمکرم کو للہ نصیحت کرتا ہوں کہ اس سماوی امر میں آپ کا دخل دینا مناسب نہیں۔ مثیل مسیح کا دعویٰ کوئی امر عند الشرع مستبعد نہیں۔
اگر آپ ناراض نہ ہوں تو اس عاجز کی دانست میں اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب کے مقابل آپ کی تحریر میں کسی قدر سختی تھی۔ خدا تعالیٰ انکسار اور تذلل کو پسند کرتا ہے اور علماء کے اخلاق اپنے بھائیوں کے ساتھ سب سے اعلیٰ درجے کے چاہئیں۔ جس دین کی حمایت اور ہمدردی کے لئے دن رات کوششیں ہو رہی ہیں وہ کیا ہے؟ صرف یہی کہ اللہ اور رسول کی منشاء کے موافق ہمارے جمیع احوال و افعال و حرکات سکنات ہو جائیں۔
میرے خیال میں اخلاق کے تمام حصوں میں سے جس قدر خدا تعالیٰ تواضع اور فروتنی اور انکسار اور ہر ایک ایسے تذلل کو جو منافی نخوت ہے پسند کرتا ہے ایسا کوئی شعبہ خلق کا اس کو پسند نہیں۔
مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ ایک سخت بے دین ہندو سے اس عاجز کی گفتگو ہوئی اور اس نے حد سے زیادہ تحقیر دین متین کے الفاظ استعمال کئے۔ غیرت دینی کی وجہ سے کسی قدر اس عاجز نے ۱؎ پر عمل کیا مگر چونکہ وہ ایک شخض کو نشانہ بنا کر درشتی کی گئی تھی اس لئے الہام ہوا کہ تیرے بیان میں سختی بہت ہے رفق چاہئے رفق۔ اور اگر ہم انصاف سے دیکھیں تو ہم کیا چیز اور ہمارا علم کیا چیز۔ اگر سمندر میں ایک چڑیا منقار مارے تو اس سے کیا کم کرے گی۔ ہمارے لئے یہی بہتر ہے کہ جیسے ہم درحقیقت خاکسار ہیں۔ خاک ہی بنے رہیں۔ جب کہ ہمارا مولیٰ ہم سے تکبر اور نخوت پسند نہیں کرتا تو کیوں کریں۔ ہمارے لئے ایسی عزت سے بے عزتی اچھی ہے جس سے ہم مورد عتاب ہو جائیں۔
آپ کی تحریر اگر اس طرح پر ہوتی کہ جس قدر خداوند تعالیٰ نے میرے پر کھولا ہے۔ اگر آپ مہربانی فرما کر ملیں یا میں ملوں۔ تو بیان کرونگا تو کیا اچھا ہوتا۔
یہ قاعدہ ہے کہ جس حالت اندرونی سے انسان کے منہ سے الفاظ نکلتے ہیں وہی رنگ الفاظ میں بھی آ جاتا ہے۔
میں نے اس فیصلہ میں مولوی نورالدین صاحب کا کچھ لحاظ نہیں کیا اور محض للہ آنمکرم کی خدمت میں عرض کی گئی ہے۔ اس عاجز کو پختہ طور پر معلوم نہیں کہ کس تاریخ اس جگہ سے یہ عاجز روانہ ہو۔ بعض موانع پیش آگئے ہیں مگر معلوم ہوتا ہے کہ شاید ایک ہفتہ کے اندر اندر وانہ ہو جاؤں اس صورت میں بالفعل ملاقات مشکل معلوم ہوتی ہے لہٰذا اطلاعاً آپ کی خدمت میں لکھتا ہوں کہ اس عاجز کیلئے بٹالہ میں تشریف نہ لاویں کیونکہ کوئی پختہ معلوم نہیں جس وقت خدا تعالیٰ چاہے گا ملاقات ہو جائے گی۔
والسلام
( خاکسار غلام احمد از قادیان ۱۳؍فروری ۱۸۹۱ء)
جواب نمبر۵
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ
مخدومی اخویم مولوی صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج لدہیانہ میں آپ کا محبت نامہ مجھ کو ملا بظاہر مجھے گفتگو میں کچھ فائدہ معلوم نہیں دیتا۔ مجھے خداتعالیٰ نے ایک علم بخشا ہے جس کومیں چھوڑ نہیں سکتا۔ ایسا ہی آپ بھی اپنی رائے کو چھوڑنے والے نہیں مجھے ایک ایسا سبیل بخشا گیا ہے جو معرض بحث میں نہیں آ سکتا۔ ولیس الخیر کالمعانیۃ ۱؎
ہاں اس نیت سے میں مجلس علما میں حاضر ہو سکتا ہوں کہ شاید خداتعالیٰ حاضرین میں سے کسی کے دل کو اس سچائی کی طرف کھینچے جو اس نے اس عاجز پر ظاہر کی ہے سو اگر شرائط مندرجہ ذیل آپ قبول فرماویں تو میں حاضر ہو سکتا ہوں۔
(۱) اس مجمع میں حاضر ہونے والے صرف چند ایسے مولوی صاحب نہ ہوں جو مدعی کا حکم رکھتے ہیں کیونکہ وہ مجھ سے بجز اُس صورت کے ہرگز راضی نہیں ہو سکتے کہ میں ان کے خیالات و اجتہادات کا اتباع کروں اور میری طرف سے بار بار ان کو یہی جواب ہے کہ۲؎ اگر یہ مجمع کسی قدر عام مجمع ہوگا اور ہر ایک مذاق اور طبیعت کے آدمی اس میں ہوں گے تو شاید کوئی دل حق کی طرف توجہ کرے اور مجھے اس کا ثواب ملے سو میں چاہتا ہوں کہ یہ مجلس صرف چند مولوی صاحبوں میں محدود نہ ہو۔
(۲)دوسری شرط یہ ہے کہ یہ بحث جو محض اظہار اللحق ہوگی تحریری ہو کیونکہ بارہا تجربہ ہو چکا ہے کہ صرف زبانی باتیں کرنا آخر منجر بفتنہ ہوتی ہیں اور بجز حاضرین کے دوسروں کو ان کی نسبت رائے لگانے کا موقعہ نہیں دیا جاتا اور کیسی ہی عمدہ اور محققانہ باتیں ہوں جلدی بھول جاتی ہیں اور جن لوگوں کو غلو یا دروغ بیانی کی عادت ہے خواہ وہ کسی گروہ کے ہیں ان کوجھوٹ بولنے کیلئے بہت سی گنجائش نکل آتی ہے کوئی شخص محنت اُٹھا کر اور ہر ایک قسم کے اخراجات سفر کا متحمل ہو کر اور بہت سی مغز خواری کرنے کے بعد کب روا رکھ سکتا ہے کہ غیر منتظم فریق کی وجہ سے تمام محنت اس کی ضائع جائے اور طالب حق کو اس کی تقریر سے فائدہ نہ پہنچ سکے سو تحریری بحث کا ہونا ایک شرط ہے۔
(۳) اس مجمع بحث میں وہ الہامی گروہ بھی ضرور شامل چاہئے۔ جنہوں نے اپنے الہامات کے ذریعہ سے اس عاجز کو جہنمی ٹھہرایا ہے اور ایسا کافر جو ہدایت پذیر نہیں ہو سکتا اور مباہلہ کی درخواست کی ہے۔ الہام کی رو سے کافر اور ملحد ٹھہرانے والے تو میاں مولوی عبدالرحمن لکھوکے والے ہیں۔ اور جہنمی ٹھہرانے والے میاں عبدالحق غزنوی ہیں۔ جن کے الہامات کے مصدق و پیرو میاں مولوی عبدالجبار ہیں۔ سو ان تینوں کا جلسہ بحث میں حاضر ہونا ضروری ہے تا کہ مباہلہ کا بھی ساتھ ہی قضیہ طے ہو جائے اور اگر مولوی صاحب باہم مسلمانوں کے مباہلہ کو صورت پیش آمدہ میں ناجائز قرار نہ دیں تو مباہلہ بھی اسی مجلس میں ہو جائے کیونکہ یہ عاجز اکثر بیمار رہتا ہے۔ بار بار سفر کی طاقت نہیں۔
(۴) یہ کہ تحریری بحث کیلئے تمام مخالف الرائے مولوی صاحبوں کی طرف سے آپ منتخب ہوں۔ کیونکہ یہ عاجز نہیں چاہتا کہ خواہ نخواہ لعن طعن ہو اور تو تو میں میں متفرق لوگوں کا سُنے۔ ایک مہذب اور شائستہ آدمی تحریری طور پر سوالات پیش کرے۔ کہ اس عاجز کے اس دعویٰ میں جس کے الہام الٰہی پر بنا ہے۔ کیا خرابیاں ہیں اور کیا وجہ ہے کہ اس کو قبول نہ کیا جاوے۔ سو اس عاجز کی دانست میں اس کام کیلئے آپ سے بہتر اور کوئی نہیں۔
(۵) یہ آپ کا اختیار ہے کہ جس تاریخ میں آپ گنجائش سمجھے مجھے اور اخویم مولوی نورالدین صاحب کو اطلاع دیں۔ چونکہ یہ عاجز بیمار ہے اور مرض صدر و دَوار سے لاچار اور ضعیف بہت ہے۔ اس لئے اخویم مولوی نورالدین صاحب کا شامل آنا مناسب سمجھتا ہوں کہ اگر خدانخواستہ اس عاجز کی طبیعت زیادہ علیل ہو جائے جیسا کہ اکثر دورہ مرض کا ہوتا رہتا ہے اور زیادہ بات کرنے سے سخت دورہ مرض کا ہوتا ہے اس صورت میں مولوی صاحب موصوف حسب منشاء اس عاجز کے مناسب وقت کارروائی کر سکتے ہیں۔
(۶)اگر آپ ہندوستان کی طرف سفر کرنا چاہتے ہیں تو لدھیانہ راہ میں ہے کیا بہتر نہیں کہ لدہیانہ میں ہی یہ مجلس قرار پائے یہ عاجز بیمار ہے حاضری سے عذر کچھ نہیں مگر ایسی صورت میں مجھے بیماری کی حالت میں شدائد سفر اُٹھانے سے امن رہے گا۔ ورنہ جس جگہ غزنوی صاحبان اور مولوی عبدالرحمن (اس عاجز کو ملحد اور کافر قرار دینے والے) یہ جلسہ منعقد ہونا مناسب سمجھیں تو اسی جگہ یہ عاجز حاضر ہو سکتا ہے۔ والسلام
مکرر یہ کہ ۲۳؍ مارچ ۹۱ء تاریخ جلسہ مقرر ہوگئی ہے اور یہ قرار پایا ہے کہ بمقام امرتسر یہ جلسہ ہو۔ اشتہارات عام طور پر اپنے واقف کاروں میں یہ عاجز شائع کر دے گا ایسا ہی آپ کو بھی اختیار ہے آپ بواپسی ڈاک جواب سے مطلع فرماویں کہ جواب کا انتظار ہے۔
خاکسار۔ غلام احمد از لدہیانہ محلہ اقبال گنج
مکان شہزادہ غلام حیدر ۸؍ مارچ ۱۸۹۱ء
نمبر ۶
نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ
مخدومی مکرمی اخویم مولوی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا اس عاجز کے لئے بڑی مشکل کی بات یہ ہے کہ طبیعت اکثر دفعہ ناگہانی طور پر ایسی علیل ہو جاتی ہے کہ موت سامنے نظر آتی ہے اور کچھ کچھ علالت تو دن رات شامل حال ہے اگر زیادہ گفتگو کروں تو دورہ مرض شروع ہو جاتا ہے اگر زیادہ فکر کروں تو وہی دورہ شامل حال ہے چونکہ آپ کا آخری خط آیا معلوم ہوتا تھا کہ گویا بشمولیت مولوی عبدالجبار صاحب لکھا گیا ہے اس لئے جواب اس طرز سے لکھا گیا تھا یہ عاجز غلبہ مرض سے بالکل نکما ہو رہا ہے یہ طاقت کہاں ہے کہ مباحث تقریری یا تحریری شروع کروں محض خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ تینوں رسالے لکھے گئے اور وہ بھی اس طرح سے کہ اکثر دوسرا شخص اس عاجز کی تقریر کو لکھتا گیا اور نہایت کم اتفاق ہوا کہ اپنے ہاتھ سے کچھ لکھا ہو اتنی فرصت نہیں ہوتی کہ عبارت کو عمدگی سے درست کر دیا جاوے۔ آپ کے معلومات حدیث میں بہت وسیع ہیں یہ عاجز ایک اُمی اور جاہل آدمی ہے نہ عبادت ہے، نہ ریاضت، نہ علم، نہ لیاقت، غرض کچھ بھی چیز نہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک امر تھا اور قطعی اور یقینی تھا اس عاجز نے پہنچا دیا ماننا نہ ماننا اپنی اپنی رائے اور سمجھ پر موقوف ہے درحقیقت میرے لئے یہ کافی تھا کہ میں صرف الہام الٰہی کو ظاہر کرتا لیکن میں نے اپنے رسالوں میں قال اللہ اور قال الرسول کا بیان اس لئے کچھ مختصر سا کر دیا ہے کہ شاید لوگ اس سے نفع اُٹھاویں مجھے اس سے کچھ بھی انکار نہیں کہ خدا تعالیٰ آئندہ کسی کو اس کی روحانی حالت کے لحاظ سے درحقیقت مسیح بنا کر دمشق کی مشرقی طرف اسی طور سے اُتار دے جیسے مسافر ایک جگہ سے دوسری جگہ جا اُترتے ہیں کچھ تعجب نہیں کہ اس زمانے میں دجال بھی ہو حضرت مہدی بھی ہوں اور پھر اسلام میں سیفی طاقت پیدا ہو جائے اور تمام لوگ مسلمان ہو جاویں مگر جو خداتعالیٰ نے اس عاجز پر کھولا ہے صرف اتنا ہے کہ یہ عاجز روحانی طور پر مثیل مسیح ہے اور روحانی طور پر موعود بھی ہے اور نیز یہ کہ کوئی مسیح آسمان سے خاکی وجود کے ساتھ اُترنے والا نہیں۔ ظلّی اور مثالی طور پر مسیح کے آنے سے مجھے انکار نہیں بلکہ ایک کیا ایک ہزار مسیح بھی کہا جائے تو میرے نزدیک ممکن ہے میرے نزدیک احادیث صحیحہ بھی حقیقی طور پر مسیح کے اُترنے کے بارے میں وہ زور نہیں دیتیں جو آج کل کے علماء خیال کر رہے ہیں مسیح کا اُترنا سچ مگر ظلی اور مثالی طور پر۔
مولوی عبدالرحمن صاحب اپنے الہامات کے حوالہ سے اس عاجز کو ضال و مضل قرار دے چکے ہیں اور ایسا کافر کہ جس کو کبھی ہدایت نہیں ہوگی اور میاں عبدالحق غزنوی بھی اپنے الہام کے حوالہ سے اس عاجز کو جہنمی قرار دے چکے ہیں اور مولوی عبدالجبار صاحب فرماتے ہیں کہ جو کچھ میاں عبدالحق صاحب کے الہام ہیں میں اُن پر ایمان لاتا ہوں کہ وہ صحیح اور درست ہیں اب آپ کے کہنے سے وہ کیا سمجھیں گے اور آپ انہیں کیا سمجھائیں گے یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے جس طرح چاہے گا اس کی راہ پیدا کر دے گا اگر آپ کی ملاقات ہو تو میں خوشی سے چاہتا ہوں مگر آپ کے آنے کا کرایہ میرے ذمے رہے میں آپ کو مالی تکلیف دینی نہیں چاہتا یہ بہتر ہے کہ آپ اس جگہ آ جائیں بہرحال ملاقات کی خوشی تو اس بیماری کی حالت میں ہوگی۔ ازالۃ الاوہام عنقریب تیار ہوتا ہے بھیج دوں گا ابھی کچھ باقی ہے۔ والسلام
(غلام احمد)
نمبر۷
نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ مخدومی مکرمی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ آپ کا خط آج کی ڈاک میں مجھ کو ملا اور اس کے پڑھنے سے مجھ کو بہت ہی افسوس ہوا کہ آپ مکالات الٰہیہ کے امر کو لہو ولعب میں داخل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ اس عاجز نے براہین احمدیہ کے صفحہ ۴۹۸ و ۴۹۹ میں اس ظاہری عقیدے کی پابندی سے جو مسلمانوں میں مشہور ہے یہ عبارت لکھی ہے کہ یہ آیت حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ دنیا میں آئیں گے تو ان کے ہاتھ سے دین اسلام جمیع آفاق میں پھیل جائے گا چونکہ اس عاجز کو حضرت مسیح سے مشابہت تامہ ہے اس لئے خداوندکریم نے مسیح کی پیشگوئی میں ابتداء سے اس عاجز کو شریک رکھا ہے فقط ان عبارتوں کو اس کے لئے دستاویز ٹھہرانا کہ براہین میں اوّل یہ اقرار ہے اور پھر اس کے مخالف یہ دعویٰ اور ایسا خیال سراسرغلط اور دور از حقیقت ہے۔
اے میرے عزیز دوست اس عاجز کے اس دعویٰ کی جو فتح اسلام میں شائع کیا گیا ہے اپنے علم اور عقل پر بنا نہیں تا ان دونوں بیانات میں بوجہ اتحاد بناء صورت میں تناقض پیدا ہو بلکہ براہین کی مذکورہ بالا عبارتیں تو صرف اس ظاہری عقیدے کے رو سے ہیں جو سرسری طور پر عام طور پر اس زمانہ کے مسلمان مانتے ہیں اور اس دعویٰ کی بنا الہام الٰہی اور وحی ربّانی پر ہے پھر تناقض کے کیا معنے ہیں۔ میں خود یہ مانتا ہوں اور تسلیم کرتا ہوں کہ جب تک خدا تعالیٰ کسی امر پر بذریعہ اپنے خاص الہام کے مجھے آگاہ نہ کرے میں خود بخود آگاہ نہیں ہو سکتا اور یہ امر میرے لئے کچھ خاص نہیں اس کی نظیریں انبیاء کی سوانح میں بہت ہیں ملہم لوگ بغیر سمجھائے نہیں سمجھتے لاعلم لی الا ما علّمنی ربی بلکہ خدا تعالیٰ کا سمجھانا بھی جب تک صاف طور پر نہ ہو انسان ضعیف البیان اس میں بھی دھوکا کھا سکتا ہے۔
فذھب وھلی۱؎ کی حدیث آپ کو یاد ہی ہوگی۔
اب خدا تعالیٰ نے فتح اسلام کی تالیف کے وقت مجھے سمجھا یا تب میں سمجھا اِس سے پہلے کوئی اس بارے میں الہام نہیں ہوا کہ درحقیقت وہی مسیح آسمان سے اُتر آئے گا اگر ہے تو آپ کو پیش کرنا چاہئے ہاں یہ عاجز روحانی طور پر مثیل موعود ہونے کا براہین میں دعویٰ کر چکا ہے جیسا کہ اسی
۱؎ بخاری کتاب المناقب باب علامات النبوۃ فی الاسلام حدید نمبر۳۴۲۵
صفحہ۴۹۸ میں موعود ہونے کی نسبت یہ اشارہ ہے صدق اللّٰہ و رسولہ چونکہ آپ نے اپنے ریویو میں اس دعویٰ کا ردّ نہیں کیا اس لئے اپنے اس معرض بیان میں سکونت اختیار کر کے۔ اگرچہ ایمانی طور پر نہیں مگر امکانی طور پر مان لیا۔
اب خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس عاجز نے خدا تعالیٰ سے الہام پا کر براہین احمدیہ میں ابن مریم کے موعود یا غیر موعود ہونے کے بارہ کچھ بھی ذکر نہیں کیا صرف ایک مشہور عقیدہ کے طور سے ذکر دیا تھا آپ کو اس جگہ اسے پیش کرنے سے کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بھی بعض اعمال میں جب وحی نازل نہیں ہوتی تھی انبیاء بنی اسرائیل کی سنن مشہورہ کا اقتداد کیا کرتے تھے اور وحی کے بعد جب کچھ ممانعت پاتے تھے تو چھوڑ دیتے تھے اس کو تو ایک بچہ بھی سمجھ سکتا ہے آپ جیسے فاضل کیوں نہیں سمجھیں گے۔ مجھے نہایت تعجب ہے کہ آپ یہی طریق انصاف پسندی کا قرار دیتے ہیں کیا اس عاجز نے کسی جگہ دعویٰ کیا ہے کہ میرا ہر ایک نطق وحی اور الہام میں داخل ہے اگر آپ طریق فیصلہ سے اسی کو ٹھہراتے ہیں تو بسم اللہ میرے رسالہ کا جواب لکھنا شروع کیجئے۔ آخر حق کو فتح ہوگی۔ میں نے آپ کو ایک صلاح دی تھی کہ عام جلسہ علماء کا بمقام امرتسر منعقد ہو اور ہم دونوں حجۃ للہ و اظہارً اللحق اس جلسہ میں تحریری طور پر اپنی اپنی وجوہات بیان کریں اور پھر وہی وجوہات حاضرین کو پڑھ کر سنا دیں اور وہی آپ کے رسالہ میں چھپ جائیں دور نزدیک کے لوگ خود دیکھ لیں گے جس حالت میں آپ اس کام کے لئے ایسے سرگرم ہیں کہ کسی طرح رُکنے میں نہیں آتے اور جب تک اشاعۃ السنۃ میں عام طور پر اپنے مخالفانہ خیال کو شائع نہ کر دیں صبر نہیں کر سکتے تو کیا اِس تحریری مباحثہ میں کسی فریق کی کسر شان ہے۔
میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں اس جلسہ میں خاک کی طرح متواضع ہو کر حاضر ہو جاؤں گااور اگر کوئی اسی سخت دشنامی بھی کرے جو انتہا تک پہنچ گئے ہو تو میں اس پر بھی صبر کروں گا اور سراسر تہذیب اور نرمی سے تحریر کروں گا خدا تعالیٰ خوب جانتا ہے جو اس نے مجھے مامور کر کے بھیجا ہے۔
اگر آپ مجھے اب بھی اجازت دیں تو میں اشتہارات سے اس جلسہ کیلئے عام طور پر خبر کر دوں اب میری دانست میں خفیہ طور پر آپ کا مجھ سے ذکر کرنا مناسب نہیں جب آپ بہرحال اشاعت پر مستعد ہیں تو محض للہ اس طریق کو منظور کریں۔ وماقول الاللّٰہ والسلام علی من اتبع الھدی
خاکسار
غلام احمد از لودھیانہ
محلہ اقبال گنج ۱۴؍مارچ ۹۱ء
نمبر ۸
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ
از عایذ باللہ الصمد غلام احمد عافاہ اللہ وایدہ
بخدمت اخویم مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا تار جس میں یہ لکھا تھا کہ تمہارے وکیل بھاگ گئے ان کو لوٹاؤ یا آپ آؤ ورنہ شکست یافتہ سمجھے جاؤ گے۔ پہنچا۔ اے عزیر شکست اور فتح خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے جس کو چاہتا ہے فتح مند کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے شکست دیتا ہے کون جانتا ہے کہ واقعی طور پر فتحمند کون ہونے والا ہے اور شکست کھانے والاکون ہے جو آسمان پر قرار پا گیا ہے وہی زمین پر ہوگا گو دیرسے ہی سہی لیکن اس عاجز کو تعجب ہے کہ آپ نے کیونکر یہ گمان کر لیا حبی فی اللہ مولوی حکیم نورالدین صاحب آپ سے بھاگ کر چلے آئے۔ آپ نے ان کو کب بلایا تھا کہ تا وہ آپ سے اجازت مانگ کر آتے۔ اصل بات تو اس قدر تھی کہ حافظ محمد یوسف صاحب نے مولوی صاحب ممدوح کی خدمت میں خط لکھا تھا کہ مولوی عبدالرحمن اس جگہ آئے ہوئے ہیں ہم نے ان کو دو تین روز کے لئے ٹھہرا لیا ہے تا کہ ان کے روبُرو ہم بعض مشبہات اپنے آپ سے دور کرا لیں اور یہ بھی لکھ کہ ہم اس مجلس میں مولوی محمد حسین صاحب کو بھی بلا لیں گے چونکہ مولوی صاحب موصوف حافظ صاحب کے اصرار کی وجہ سے لاہور میں پہنچے اور منشی امیرالدین صاحب کے مکان پر اُترے اور اس تقریب پر حافظ صاحب نے اپنی طرف سے آپ کو بھی بلا لیا۔ تب مولوی عبدالرحمن صاحب تو عین تذکرہ میں اُٹھ کر چلے گئے اور جن صاحبوں نے آپ کو بلایا تھا انہوں نے مولوی صاحب کے آگے بیان کیا کہ ہمیں مولوی محمد حسین صاحب کا طریق بحث پسند نہیں آیا۔ یہ سلسلہ تو دو برس تک بھی ختم نہیں ہوگا۔ آپ خود ہمارے سوالات کا جواب دیجئے۔ ہم مولوی محمد حسین صاحب کے آنے کی ضرورت نہیں دیکھتے اور نہ انہوں نے آپ کو بلایا ہے تب جو کچھ ان لوگوں نے پوچھا مولوی صاحب موصوف نے بخوبی ان کی تسلی کر دی۔ یہاں تک کہ تقریر ختم ہونے کے بعد حافظ محمد یوسف صاحب نے بانشراح صدر آواز سے کہا کہ اے حاضرین میری تومِن کل الوجود تسلی ہوگئی اور میرے دل میں نہ کوئی شبہ اور نہ کوئی اعتراض باقی ہے پھر بعد اس کے یہی تقریر منشی عبدالحق صاحب و منشی امیر دین صاحب اور مرزا امان اللہ صاحب نے کی اور بہت خوش ہو کر اُن سب نے مولوی صاحب کا شکریہ ادا کیا اور تہہ دل سے قائل ہوگئے کہ اب کوئی شک باقی نہیں اور مولوی صاحب کو یہ کہہ کر رخصت کیا کہ ہم نے محض اپنی تسلی کرانے کیلئے آپ کو تکلیف دی تھی سو ہماری بکلّی تسلی ہوگئی آپ بلاجرح تشریف لے جائیے سو انہوں نے ہی بلایا اور انہوں نے ہی رخصت کیا آپ کا تو درمیان قدم ہی نہ تھا پھر آپ کا یہ جوش جو تار کے فقرات سے ظاہر ہوتا ہے کس قدر بے محل ہے آپ خود انصاف فرماویں جب کہ ان سب لوگوں نے یہ کہہ دیا کہ ہم مولوی محمد حسین صاحب کو بلانا نہیں چاہتے ہماری تسلی ہوگئی اور وہی تو تھے جنہوں نے مولوی صاحب کو لدہیانہ سے بُلایا تھا تو پھر مولوی صاحب آپ سے کیوں اجازت مانگتے کیا آپ نہیں سمجھ سکتے اور اگر آپ کی یہ خواہش ہے کہ بحث ہونی چاہئے جیسا کہ آپ اپنے رسالہ میں تحریر فرماتے ہیں تو یہ عاجز بسروچشم حاضر ہے مگر تقریری بحثوں میں صدہا طرح کا فتنہ ہوتا ہے صرف تحریری بحث چاہئے اور وہ یوں ہو کہ مساوی طور پر چار ورق کاغذ پر آپ جو چاہیں لکھ کر پیش کریں اور لوگوں کو بآوازبلند سناویں اور ایک نقل اس کی اپنے دستخط سے مجھے دے دیں پھر بعد اس کے میں بھی چار ورق پر اس کا جواب لکھوں اور لوگوں کو سنا دوں ان دونوں پرچوں پر بحث ختم ہو جائے اور فریقین میں سے کوئی ایک کلمہ تک تقریری طور پر اس بحث کے بارہ میں نہ کرے جو کچھ ہو تحریر میں ہو اور پرچے صرف دو ہوں اوّل آپ کی طرف سے ایک چورقہ پرچہ جس میں آپ میرے مشہور کردہ دعویٰ کا قرآن کریم اور حدیث کی رو سے ردّ لکھیں اور پھر دوسرا پرچہ چورقہ اس تقطیع کا میری طرف سے ہو جس میں اللہ جلشانہٗ کے فضل و توفیق سے ردّ الرد لکھوں اور انہوں دونوں پرچوں پر بحث ختم ہو جائے اگر آپ کو ایسا منظور ہو تو میں لاہور میں آ سکتا ہوں اور انشاء اللہ تعالیٰ امن قائم رکھنے کیلئے انتظام کرا دوں گا یہی آپ کے رسالہ کا بھی جواب ہے۔ اب اگر آپ نہ مانیں تو پھر آپ کی طرف سے گریز تصور ہوگی۔
راقم خاکسار
غلام احمد از لدھیانہ
محلہ اقبال گنج ۱۶؍ اپریل ۱۸۹۱ء
مکرر یہ کہ جس قدر ورق لکھنے کیلئے آپ پسند کر لیں اس قدر اوراق پر لکھنے کی مجھے اجازت دی جائے لیکن یہ پہلے سے جلسہ میں تصفیہ پا جانا چاہئے کہ آپ اس قدر اوراق لکھنے کے لئے کافی سمجھتے ہیں اور آنمکرم اس بات کو خوب یاد رکھیں کہ پرچے صرف دو ہوں گے اوّل آپ کی طرف سے ان دونوں بیانات کا ردّ ہوگا جو میں نے لکھا ہے کہ میں مثیل مسیح ہوں اور نیز یہ کہ حضرت مسیح ابن مریم درحقیقت وفات پا گئے ہیں پھر اس ردّکے ردّ الردّ کیلئے میری طرف سے تحریر ہوگی۔ غرض پہلے آپ کا یہ حق ہوگاکہ جو کچھ ان دعاوی کے بطلان کیلئےآپ کے پاس ذخیرۂ نصوص قرآنیہ و حدیثہ موجود ہے وہ آپ پیش کریں پھر جس طرح خدا تعالیٰ چاہئے گا یہ عاجز اس کا جواب دے گا اور بغیر اس طریق کے جس کے انصاف پر بنا اور نیز امن رہنے کیلئے احسن انتظام ہے اور کوئی طریق اس عاجز کو منظور نہیں اگر یہ طریق منظور نہ ہو تو پھر ہماری طرف سے یہ آخری تحریر تصور فرماویں اور خود بھی خط لکھنے کی تکلیف روا نہ رکھیں اور بحالت انکار ہرگز کوئی تحریر یا کوئی خط میری طرف نہ لکھیں اگر پوری اور کامل طور پر بلا کم و بیش میری رائے ہی منظور ہو تو صرف اس حالت میں جواب تحریر فرماویں ورنہ نہیں۔
آج بھوپال سے ایک کارڈ مرقومہ ۹؍ اپریل ۱۸۹۱ء اخویم مولوی محمد احسن صاحب مہتمم مصارف ریاست پڑھ کر آپ کے اخلاق کریمانہ اور مہذبانہ تحریر کا نمونہ معلوم ہوگیا آپ اپنے کارڈ میں فرماتے ہیں کہ میں نے مرزا غلام احمد کے اس دعویٰ جدید کی اپنے ریویو میں تصدیق نہیں کی بلکہ اس کی تکذیب خود براہین میں موجود ہے آپ بلارویت مرزا پر ایمان لے آئے آپ ذرا ایک دفعہ آ کر اس کو دیکھ تو لیں تَسْمَعُ بِالبعید سے خَیْرٌ مِنْ أنْ امراہ اشاعت السنۃ میں اب ثابت ہوتا رہے گا کہ یہ شخص ملہم نہیں ہے فقط حضرت مولوی صاحب من آنم کہ من دانم۔ آپ جہاں تک ممکن ہے ایسے الفاظ استعمال کیجئے میں کہتا ہوں اور میری شان کیا بے شک آپ جو چاہیں لکھیں اور اس وعدہ تہذیب کی پرواہ نہ رکھیں جس کو آپ چھاپ چکے ہیں۔ ربی یسمیع ویری
والسلام علی من اتبع الھدی۔
خاکسار
غلام احمد
آج ۱۶؍ اپریل ۱۸۹۱ء کو آپ کی خدمت میں خط بھیجا گیا ہے اور ۲۰؍ اپریل ۱۸۹۱ء تک آپ کے جواب کے انتظار رہیں گے اگر ۲۰؍ اپریل ۱۸۹۱ء تک آپ کا جواب نہ پہنچا تو یہی خط آپ کے رسالہ کے جواب میں کسی اخبار میں شائع کر دیا جاوے گا۔ فقط
مرزا غلام احمد
بقلم خود
۱۶؍ اپریل ۱۸۹۱ء
۹
از عاجز عائذ باللہ الصمد مرزا غلام احمد عافاہ اللہ و ایدہ۔
بخدمت اخویم مکرم مولوی ابوسعیدمحمد حسین صاحب سلمہٗ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ باعث تعجب ہوا آپ نہ تو اظہارِحق کی غرض سے بحث کرنا چاہتے ہیں اور نہ اس جوش بے اصل سے باز رہ سکتے ہیں۔ عزیز من رحمکم اللہ یہ عاجز آپ کو کوئی الزام دینا نہیں چاہتا مگر آپ ہی کا قول و فعل آپ کو الزام دے رہا ہے آپ کا آدھی رات کو تار پہنچا کہ ابھی آؤ ورنہ شکست یافتہ سمجھے جاؤ گے کس قدر آپ کی تار پود سے مخالف ہے جو آپ اب پھیلا رہے ہیں۔ افسوس کہ آپ نے بحث کرنے کیلئے بذریعہ تار بلایا پھر آپ گریز کر گئے اور اب آپ کاخط مشت بعد از جنگ کا نمونہ ہے فضول باتوں کو پیش کر کے اور بھی تعجب میں ڈالتا ہے چنانچہ ذیل میں آپ کے اقوال کا جواب دیتا ہوں۔
قولہ: دو باتیں جن سے آپ کو ڈھیل دیتاہوں لکھتا ہوں۔
اقول: حضرت یہ تو آپ حیلہ حوالہ سے اپنے تئیں ڈھیل دے رہے ہیں میں نے کب کہا تھا کہ مجھے ڈھیل دیں آپ کی آدھی رات کو تار آئی میں تیار ہو گیا آپ کی اصل حقیقت معلوم کرنے کیلئے خرچ دے کر بلاتوقف اپنا آدمی روانہ کیا۔ بحث منظور کر لی سب انتظام مجلس اپنے ذمہ لے لیا مگر آپ ہماری تیاری کا نام سنتے ہی کنارہ کش ہوگئے اب سوچیں کہ کیا میں نے بحث کو ڈھیل میں ڈال دیا یا آپ نے اگر میں آپ ہی لاہور میں پہنچتا تو کس قدر تکلیف ہوتی آپ کی اس حرکت نے نہ صرف آپ کو شرمندہ کیا بلکہ آپ کی تمام عقلمند پارٹی کو خجالت کا حصہ دیا اس کنارہ کشی کا آپ پر بڑا بار ہے کہ جو بودے عذروں سے دُور نہیں ہو سکتا آپ نے ناگوار طریقہ سے مقابل پر آنے کی دھمکی تو دی مگر آخر آپ ہی نہ ٹھہر سکے کیا اس دعویٰ کے ساتھ جو آپ کو بھی گریز ہے آپ کی علمی وجاہت پر دھبہ نہیں لگاتے۔
قولہ: اگر آپ عین مباحثہ کے جلسہ میں اصول کی تمہید و تسلیم سے ڈریں تو میں اُن اصول کو آپ کے پاس وہاں بھیج دیتا ہوں تا آپ کو آپ کے سمجھنے کیلئے کافی مہلت مل جائے۔ ناگہانی ابتلا سے بچ جائیں اور وہ حال نہ ہو جو آپ کے حواری کا ہوا۔
اقول: حضرت آپ کو خود مناسب ہے کہ آپ ان اصولوں سے ڈریں کوئی عقلمند ان بیہودہ باتوں سے ڈر نہیں سکتا اور میں تو آپ کے ان اصولوں کو محض لغو سمجھتا ہوں اور ایسے لغویات کی طرف سے مجھے یہ آیت روکتی ہے جو اللہ جلشانہٗ فرماتا ہے۔ ۱؎ اور نیز یہ حدیث نبوی کہ من حسن الاسلام المرء ترکہ مالا یعنیہ ۲؎
یہ بات ظاہر ہے کہ جو بات ضرورت سے خارج ہے وہ لغو ہے اب دیکھنا چاہئے کہ اس بحث کے لئے شرعی طور پر آپ کو کس بات کی ضرورت ہے سو ادنیٰ تامل سے ظاہر ہوگا کہ آپ صرف اس بات کے مستحق ہیں کہ مجھ سے تشخیص دعویٰ کرا دیں سو میں نے بذریعہ فتح اسلام و توضیح مرام اور نیز بذریعہ اس حصہ ازالہ اوہام کے جو قول فصیح میں شائع ہو چکا ہے اچھی طرح اپنا دعویٰ بیان کیا ہے اور میں اقرار کرتا ہوں کہ اس سے زیادہ اور کوئی میرا دعویٰ نہیں۔ آپ پر مخفی ہو اور وہ دعویٰ یہی ہے کہ میں الہام کی بنا پر مثیل مسیح ہونے کا مدعی ہوں اور ساتھ ہی یہ بھی کہتا ہوں کہ حضرت مسیح ابن مریم درحقیقت فوت ہوگئے۔ پس سو اس عاجز کا مثیل مسیح ہونا تو آپ اشاعۃ السنۃ میں امکانی طو رپر مان چکے ہیں اور میں اس سے زیادہ آپ سے تسلیم بھی نہیں کراتا اگر میں حق پر ہوں تو خود اللہ جلشانہٗ میری مدد کرے گا اور اپنے زور آور حملوں سے میری سچائی ظاہر کر دے گا۔
رہا ابن مریم کا فوت ہونا سو فوت ہونے کے دلائل لکھنا میرے پر کچھ فرض نہیں کیونکہ میں نے کوئی ایسا دعویٰ نہیں کیا جو خدا تعالیٰ کی سنت قدیمہ کے مخالف ہو بلکہ مسلسل طور پر ابتدائے حضرت آدم سے یہی طریق جاری ہے جو پیدا ہوا وہ آخر ایک دن جوانی کی حالت میں یا بڈھا ہو کر مرے گا جیسا کہ اللہ جلشانہٗ فرماتے ہیں۳؎ پس جب کہ میرے پر یہ فرض ہی نہیں کہ میں مسیح کے فوت ہونے کے دلائل لکھوں اور ان کا فوت ہونا تو میں بیان ہی کر چکا۔ تو اب اگر میں آپ سے پہلے لکھوں تو فرمائیے کیا لکھوں یہ تو آپ کا حق ہے کہ میرے بیان کے ابطال کیلئے پہلے آپ قلم اُٹھائیں اور آیات اور احادیث سے ثابت کر دکھائیں کہ سارا جہان تو اس دنیا سے رخصت ہوتا گیا اور ہمارے نبی کریم ؐبھی وفات پاگئے مگر مسیح اب تک وفات پانے سے باقی رہا ہوا ہے۔ کسی مناظر کو پوچھ کر دیکھ لیں کہ داب مناظرہ کیا ہے۔
اب یہ بھی یاد رہے کہ آپ کی دوسری سب بحثیں مسیح کے زندہ مع الجسد اُٹھائے جانے کے فرع ہیں۔ اگر آپ یہ ثابت کر دیں گے کہ مسیح زندہ بجسدہ العنصری آسمان کی طرف اُٹھایا گیا تو پھر آپ نے سب کچھ ثابت کر دیا غرض پہلے تحریر کرنا آپ کا حق ہے اگر اب بھی آپ مانتے نہیں تو چند غیر قوموں کے آدمیوں کو منصف مقرر کر کے دیکھ لو۔
اور اخویم حکیم مولوی نورالدین صاحب کب آپ کے بلائے لاہور میں گئے تھے جنہوں نے بلایا انہوں نے مولوی صاحب موصوف سے اپنی پوری تسلی کرالی اور آپ کے ان لغو اصولوں سے بیزاری ظاہر کی تو پھر اگر مولوی صاحب آپ سے اعراض نہ کرتے تو اور کیا کرتے اعراض کا نام آپ نے فرار رکھا۔ اس لئے خدا تعالیٰ نے دست بدست آپ کو دکھا دیا کہ فرار کس سے ظہور میں آیا۔ یہ مولوی صاحب کی راستبازی کی کرامت ہے جس نے آپ پر یہ مصرعہ سچا کر دیا۔ ع
مرا خواندی و خود بدام آمدی
قولہ: اگر آپ میری اس شرط کو قبول نہ کریں اور مباحثہ سے پہلے ازالہ اوہام بھیج نہ سکیں تو میں
۱؎ المؤمنون: ۴ ۲؎ سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب کف اللسان فی الفتنۃ حدیث نمبر۳۹۷۶
۳؎ النحل: ۷۱
اس شرط کی تسلیم سے آپ کو بری کرتا ہوں بشرطیکہ پہلی تحریرات آپ کی ہوں اور بعد میں میری۔
اقول: حضرت آپ ازالہ اوہام کے اکثر اوراق دیکھ چکے اب مجھے کس شرـط سے بری کرتے ہو اور میں ابھی ثابت کر چکا ہوں کہ پہلے تحریر کرنا آپ کا ذمہ ہے۔ اب دیکھئے یہ آپ کا آخری ہتھیار بھی خطا گیا۔ عنقریب یہ آپ کا خط بھی بذریعہ اخبارات پبلک کے سامنے پیش کیا جاوے گا تا لوگ دیکھ لیں کہ آپ کی تحریرات کہاں تک راستی اور حق پسندی اور حق طلبی ہے۔
بالآخر ایک مثال بھی سنیئے زید ایک مفقود الخبر ہے۔ جس کے گم ہونے پر مثلاً دو سَو برس گذر گیا۔ خالد اور ولید کا اس کی حیات اور موت کی نسبت تنازع ہے اور خالد کو ایک خبر دینے والے نے خبر دی کہ درحقیقت زید فوت ہو گیا لیکن ولید اُس خبر کا منکر ہے اب آپ کی کیا رائے ہے بار ثبوت کس کے ذمہ ہے کیا خالد کو موافق اپنے دعویٰ کے زید کا مر جانا ثابت کرنا چاہئے یا ولید زید کا اس مدت تک زندہ رہنا ثابت کرے کیا فتویٰ ہے۔
راقم خاکسار
غلام احمد
از لودہیانہ اقبال گنج
۲۰؍ اپریل ۱۸۹۱ء
نوٹ: اس مثال سے یہ غرض ہے کہ جس پر بار ثبوت ہے اس کی طرف سے ثبوت دینے کیلئے پہلے تحریر چاہئے۔
۱۰
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ
محبی اخویم مولوی صاحب سلمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ اس عاجز کو کوئی نئی بات معلوم نہیں ہوتی۔ جس کا جواب لکھا جائے اس عاجز کے دعویٰ کی بناء الہام پر تھی مگر آپ ثابت کرتے کہ قرآن اور حدیث اس دعویٰ کے مخالف ہے اور پھر یہ عاجز آپ کے ان دلائل کو اپنی تحریر سے توڑ نہ سکتا تو آپ تمام حاضرین کے نزدیک سچے ہو جاتے اور بقول آپ کے میں اس الہام سے توبہ کرتا لیکن خدا جانے آپ کو کیا فکر تھی جو آپ نے اس راہ راست کو منظور نہ کیا۔ خیر اب ازالہ اوہام کے ردّ لکھنا شروع کیجئے لوگ خود دیکھ لیں گے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
اس کارڈ کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسی سلسلہ میں خط و کتابت کو گونہ بند کر دیا تھا۔ اس لئے کہ مولوی محمد حسین صاحب اصل مطلب کی طرف آتے نہ تھے آپ نے اتمام حجت کے لئے اشتہار ۳؍ مئی ۱۸۹۱ء میں علماء لودہانہ کو خطاب کیا اور اس میں مولوی محمد حسن صاحب کو بھی مخاطب فرمایا مولوی محمد حسین صاحب نے مولوی محمد حسن صاحب کو آڑ بنا کر پھر خط و کتابت کا سلسلہ شروع کیا ہر چند وہ خطوط مولوی محمد حسن صاحب کے ہاتھ کے تھے لیکن دراصل ان کی تہہ میں مولوی محمدحسین صاحب کا ہاتھ اور قلم تھا اس لئے جو خطوط اس موقعہ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھے انہیں بھی درج سلسلہ کر دیتا ہوں۔ (مرتب)
٭٭٭
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ
مخدومی و مکرمی مولوی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ عاجز بسر و چشم تحریری گفتگو کے لئے موجود ہے۔ اصول پیش کرنے کو بھی میں مانتا ہوں چند سوال آپ کی طرف سے چند سوال میری طرف سے ہوں اور امر مبحوث عنہ وفات یا حیات مسیح ہوگا۔ کیونکہ اس عاجز کا دعویٰ اسی بناء پر ہے جب بناء ٹوٹ جاوے گی تو یہ دعویٰ خود ٹوٹ جاوے گا اصل امر وہی ہے۔
اس وقت بارہ بجے تک مجھے بباعث بعض نج کے کاموں کے بالکل فرصت نہیں بہتر ہے کہ آنمکرم عید کے بعد یعنی شنبہ کے دن کو بحث کے لئے مقرر کریں تا فرصت اور فراغت سے ہر ایک شخص حاضر ہو سکے۔
خاکسار
غلام احمد
۹؍ مئی ۱۸۹۱ء
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ
مکرمی حضرت مولوی صاحب سلمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جناب آپ خوب جانتے ہیں کہ اصلی امر اس بحث میں جناب مسیح ابن مریم کی وفات یاحیات ہے اور میرے الہام میں بھی یہی اصل قرار دیا گیا ہے کیونکہ الہام یہ ہے کہ ’’مسیح ابن مریم رسول اللہ فوت ہو چکا ہے اور اس کے رنگ میں ہو کر وعدہ کے موافق تو آیا ہے‘‘۔ سو پہلا اور اصل امر الہام میں بھی یہی ٹھہرایا گیا ہے کہ مسیح ابن مریم فوت ہوچکا ہے۔ اب ظاہر ہے اور ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ اگر آپ حضرت مسیح کا زندہ ہونا ثابت کر دیں گے تو جیسا کہ پہلا فقرہ الہام کا اس سے باطل ہوگا ایسا ہی دوسرا فقرہ بھی باطل ہو جائے گا کیونکہ خدا تعالیٰ نے میرے دعویٰ کی شرطِ صحت مسیح کا فوت ہونا بیان فرمایا ہے اور بحکم اذافات الشرط فات المشروط مسیح کی زندگی کے ثبوت سے دوسرا دعویٰ میرا خود ہی ٹوٹ جائے گا۔ ماسوا اس کے میرے دعویٰ مثیل مسیح میں کسی پر جبر واکراہ تو نہیں کہ خواہ مخواہ اس کو قبول کرو صرف یہ کہا جاتا ہے کہ جس پر مسیح ابن مریم کا فوت ہو جانا ثابت ہو جائے پھر وہ خدا تعالیٰ سے ڈر کر میری صحبت میں رہ کر میرے دعویٰ کی آزمائش کرے اب ظاہر ہے کہ پھر وفات و حیات پر قرعہ پڑا۔ بہرحال یہی امر حقیقی اور طبعی طور پر مبحوث عنہ اور متنازعہ فیہ ٹھہرتا ہے۔ ماسوا اس کے آپ کی غرض دوسری بحث سے جو آپ کے دل میں ہے وہ اس بحث میں بھی بخوبی حاصل ہو جاتی ہے۔ کیونکہ میں اقرار کرتا ہوں اور حلفاً کہتا ہوں کہ اگر آپ مسیح کا زندہ ہونا کلام الٰہی سے ثابت کر دیں گے تو میں اپنے دعویٰ سے دست بردار ہو جاؤں گا اور الہام کو شیطانی القا سمجھ لوں گا اور توبہ کروں گا۔ اب حضرت اس سے زیادہ کیا کہوں خدا تعالیٰ آپ کے دل کو آپ سمجھاوے۔ مکرر یہ کہ اوّل قرآن کریم کی رو سے دیکھا جائے گا کہ کس کس آیت کو آپ حضرت مسیح ابن مریم کے زندہ ہونے کے ثبوت میں پیش کرتے ہیں اور اگر بغیر کسی جرع قدح کے وہ ثبوت آپ کا مسلم ٹھہرے گا تو بھلا پھر کس کی مجال ہے کہ اس سے انکار کر جائے لیکن اگر قرآن شریف سے آپ ثابت کریں گے تو پھر آپ کو اختیار ہوگا کہ بعد تحریری اقرار اس بات کے کہ قرآنی ثبوت پیش کرنے سے ہم عاجز ہیں اور احادیث صحیحہ غیر متعارضہ کو اس ثبوت کیلئے آپ پیش کریں اور جب آپ ایسا ثبوت دے چکیں گے تو منصفین ترازو سے انصاف لے کر خود جانچ لیں گے کہ کس طرف پلہ ثبوت بھاری ہے۔
والسلام علی من التبع الھدی
راقم میرزا غلام احمد
۹؍ مئی ۱۸۹۱ء
٭…٭…٭
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ
مخدومی مکرمی اخویم حضرت مولوی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس عاجز کی گزارش یہ ہے کہ اب فتنہ مخالفت ہر جگہ بڑھتا جاتا ہے اور مولوی محمدحسین صاحب جس جگہ پہنچتے ہیں یہی وعظ شروع کی ہے کہ یہ شخص ملحد اور دین سے خارج اور کذاب اور دجال ہے میں نے اوّل نرمی سے یہ عرض کیا تھا کہ میرا مسیح ہونے کا دعویٰ مبنی بر الہام ہے اور جو امور محض الہام پر مبنی ہوں وہ زیر بحث نہیں آ سکتے بلکہ خدا تعالیٰ رفتہ رفتہ ان کی سچائی آپ ظاہر کرتا ہے ہاں مسیح کی وفات یا حیات کا مسئلہ گو میرے الہام کا اصل الاصول ہے مگر بباعث ایک شرعی امر ہونے کے زیر بحث آ سکتا ہے اور اگر مسیح کی زندگی ثابت ہو جائے۔ تو میرا دعویٰ مؤخر الذکر خود ہی ٹوٹ جاتا ہے۔ لیکن یہ عرض میری منظور نہیں کی گئی اور اصل حقیقت کو محرف کر کے منشی سعد اللہ صاحب نے جو چاہا چھپوا دیا اور لوگوں کو فتنہ میں ڈالنے کی کوشش کی اور میرے پر یہ الزام بھی لگایا جاتاہے کہ وہ لیلۃ القدر سے منکر ہیں اور اس کے خلاف اجماع معنی کرتے ہیں اور یہ بھی الزام لگایا گیا ہے کہ ملائکہ کے وجود سے منکر ہیں اور اور ملائکہ کو صرف قوتیں سمجھتے ہیں حالانکہ یہ سارے الزام محض بہتان ہیں یہ عاجز اسی طرح ان سب باتوں پر ایمان رکھتا ہے۔ جو قال اللہ و قال الرسول سے ثابت ہیں اور سلف صالحین کا گروہ ان کو مانتا ہے سو اس وقت مجھے خیال ہے کہ میرا ہر حال میں خدا ناصر ہے۔ مجھے ہر طرح سے اتمام حجت کرنا چاہئے لہٰذا مکلف ہوں کہ میں نے مولوی محمد حسین صاحب کی یہ درخواست بھی منظور کی کہ مسیح موعود میں بحث کی جائے مگر بحث تحریری ہوگی اور تحریر میںکسی دوسرے کا ہرگز دخل نہیں ہوگا کیونکہ اب میں ایک مہجور کی طرح آدمی ہوں میرے ہاتھوں کی طرح کسی دوسرے کے ہاتھ یہ کام نہیں کریں گے۔ مولوی محمد حسین صاحب بھی اپنے ہاتھ سے لکھیں اور میں اپنے ہاتھ سے لکھوں گا درمیانی شرائط کا تصفیہ بحث سے ایک دن پہلے ہو جائے لیکن دس روز پہلے مجھے خبر ملنی چاہئے تا لوگ جو شکوک و شبہات میں غرق ہوگئے ہیں ان کو بذریعہ خطوط و اشتہارات میں بلا لوں اور تا اس بحث سے ایک عام نفع مترتب ہو اور ہر روز کا جھگڑا طے ہو جائے۔ آپ پر یہ فرض ہے کہ آپ براہ مہربانی آج محمد حسین صاحب کو اطلاع دے دیں اور بحث سے دس دن پہلے مجھے بھی مطلع فرماویں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۲۷؍ مئی ۱۸۹۱ء
٭…٭…٭
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ
مخدومی مکرمی حضرت مولوی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا شرائط مندرجہ ذیل ہونی چاہئیں۔
(۱) جلسہ بحث آپ کے مکان پر ہو اور امن قائم رکھنے کیلئے تمام انتظامات آپ کے ذمہ ہوگا۔ یہ بات قریب یقین کے ہے کہ چھ سات ہزار آدمی تک اس جلسہ میں جمع ہو جاویں گے ایسا مکان تجویز کرنا آپ کے ہی ذمہ ہوگا۔ میرے نزدیک یہ بات نہایت ضروری ہوگی کہ کوئی یورپین افسر اس جلسے میں ضرور تشریف رکھتے ہوں کیونکہ اس طرف چندآدمی اور دوسری طرف صد ہا آدمی ہونگے اور اکثر بدزبان اور مکفر ہونگے بغیر حاضری کسی یورپین کے ہرگز انتظام نہیں ہو سکتا لیکن اگر آپ کے نزدیک یورپین افسر کی ضرورت نہیں تو اوّل مجھے اپنے دستخطی تحریر سے مطلع فرما دیجئے کہ میں کامل انتظام گروہ مفسد خیال لوگوں کاکر لونگا اور ان کا منہ بند رہے گا اور کسی یورپین افسر کی کچھ ضرورت نہیں ہوگی۔ اس صورت میں مَیں یہ شرط بھی چھوڑ دونگا پھر اس تحریر کے بعد ہر ایک نتیجہ کے آپ ہی ذمہ وار ہونگے۔
(۲) بحث تحریری ہر ایک فریق اپنے ہاتھ سے لکھے اور جو لکھنے سے عاجز ہو وہ اوّل یہ عذر ظاہر کر کے کہ میں لکھنے سے عاجز ہوں دوسرے سے لکھا دیوے کیونکہ اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا اوّل درجے پر سند کے لائق ہوتا اور دوسروں کی تحریریں اگرچہ تصدیق کی جائیں مگر پھر بھی اس درجے پر نہیں پہنچتیں کیونکہ ان میں تحریف کاتب کا عذر ہو سکتا ہے۔
(۳) پرچے پانچ ہونے چاہئیں جو صاحب اوّل لکھے ایک پرچہ زائد ان کا حق ہے اور مولوی محمد حسین صاحب کو اختیار ہو گا چاہیں وہ پہلا پرچہ لکھنا منظور کر لیں یا اس عاجز کا لکھنا منظور رکھیں۔ جس طرح پسند کریں مجھے منظور ہے۔
(۴) ہر ایک پرچہ فریقین کی ایک ایک نقل بعد دستخط صاحب راقم فریق ثانی کو اسی وقت بلاتوقف دی جاوے اور پھر جلسہ عام میں وہ پرچہ بآواز بلند سنا دیا جاوے۔
(۵) اس بحث میں تقریرا ًیا تحریراً کسی تیسرے آدمی کا ہرگز دخل نہ ہو۔ نہ تصریحاً نہ اشارتاً نہ کنایۃً اور جلسہ بحث میں کسی کتاب سے مدد نہ لی جائے بلکہ جو کچھ فریقین کو زبانی یاد ہے وہی لکھا جاوے تا تکلف اور تصنع کو اس میں دخل نہ ہو لیکن اگر کوئی فریق یہ ظاہر کرے کہ میں بغیر کتابوں کے کچھ لکھ نہیں سکتا تو پہلے یہ تحریری اقرار اپنی عجز بیانی کا دے کر پھر اس کتاب سے مدد لینے کا اختیار ہوگا۔
(۶) اگر کوئی فریق بعض امور تمہیدی قبل از اصل بحث پیش کرنا چاہے تو فریق ثانی کو بھی اختیار ہوگا کہ ایسے ہی امور تمہیدی وہ بھی پیش کرے مگر دونوں کی طرف سے یہ تمہیدی امور ایک ایک پرچہ تحریری طور پر پیش ہونگے ایسے پرچہ کی نسبت فریقین کو اختیار ہوگا۔
خط بخدمت شیخ محمد حسین صاحب بٹالوی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ
بخدمت شیخ محمد حسین صاحب ابو سعید بٹالوی۔ ۔ ۱؎ اما بعد میںافسوس سے لکھتا ہوں کہ میں آپ کے فتویٰ تکفیر کی وجہ سے جس کا یقینی نتیجہ احدالفریقین کا کافر ہونا ہے اس خط میں سلام مسنون یعنی السلام علیکم سے ابتدا نہیں کر سکا لیکن چونکہ آپ کی نسبت ایک منذر الہام مجھ کو ہوا اور چند مسلمانوں بھائیوں نے بھی مجھ کو آپ کی نسبت ایسی خوابیں سنائیں جن کی وجہ سے میں آپ کے خطرناک انجام سے بہت ڈر گیا تب بوجہ آپ کے ان حقوق کیجو بنی نوع کو اپنے نوع انسان سے ہوتے ہیں اور نیز بوجہ آپ کی ہم وطنی اور قرب و جوار کے میرا رحم آپ کی اس حالت پر بہت جنبش میں آیا اور میں اللہ جلشانہٗ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے آپ کی حالت پر نہایت رحم ہے اور ڈرتا ہوں کہ آپ کو وہ امور پیش نہ آ جائیں جو ہمیشہ صادقوں کے مکذبوں کو پیش آتے رہے ہیں اسی وجہ سے میں آج رات کو سوچتا سوچتا ایک گرداب تفکر میں پڑ گیا کہ آپ کی ہمدردی کے لئے کیا کروں آخر مجھے دل کے فتویٰ نے یہی صلاح دی کہ پھر دعوت الی الحق کے لئے ایک خط آپ کی خدمت میں لکھوں کیا تعجب کہ اسی تقریب سے خدا تعالیٰ آپ پر فضل کر دیوے اور اس خطرناک حالت سے نجات بخشے سو عزیز من آپ خدا تعالیٰ کی رحمت
۱؎ النمل: ۶۰
سے نومید نہ ہوں وہ بڑا قادر ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے اگر آپ طالب حق بن کر میری سوانح زندگی پر نظر ڈالیں تو آپ پر قطعی ثبوتوں سے یہ بات کھل سکتی ہے کہ خدا تعالیٰ ہمیشہ کذب کی ناپاکی سے مجھ کو محفوظ رکھتا رہا ہے یہاں تک کہ بعض وقت انگریزی عدالتوں میں میری جان اور عزت ایسے خطرہ میں پڑ گئی کہ بجز استعمال کذب اور کوئی صلاح کسی وکیل نے مجھ کو نہ دی لیکن دی لیکن اللہ جلشانہٗ کی توفیق سے میں سچ کیلئے اپنی جان اور عزت سے دست بردار ہو گیا اور بسا اوقات مالی مقدمات میں محض سچ کے لئے میں نے بڑے بڑے نقصان اُٹھائے اور بسا اوقات محض خدا تعالیٰ کے خوف سے اپنے والد اور اپنے بھائی کے برخلاف گواہی دی اور سچ کو ہاتھ سے نہ چھوڑا اس گاؤں میں اور نیز بٹالہ میں بھی میری ایک عمر گذر گئی ہے مگر کون ثابت کر سکتا ہے کہ کبھی میرے منہ سے جھوٹ نکلا ہے پھر جب میں نے محض للہ انسانوں پر جھوٹ بولنا ابتدائے سے متروک رکھا اور بارہا اپنی جان اور مال کو صدق پر قربان کیا تو پھر میں خدا تعالیٰ پر کیوں جھوٹ بولتا۔
اور اگر آپ کو یہ خیال گذرے کہ یہ دعویٰ کتاب اللہ اور سنت کے برخلاف ہے تو اس کے جواب میں بادب عرض کرتا ہوں کہ یہ خیال محض کم فہمی کی وجہ سے آپ کے دل میں ہے اگر آپ مولویانہ جنگ و جدال کو ترک کر کے چند روز طالب حق بن کر میرے پاس رہیں تو امید رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ آپ کی غلطیاں نکال دے گا اور مطمئن کر دے گا اور اگر آپ کو اس بات کی بھی برداشت نہیں تو آپ جانتے ہیں کہ پھر آخری علاج فیصلہ آسمانی ہے۔ مجھے اجمالی طور پر آپ کی نسبت کچھ معلوم ہوا ہے اگر آپ چاہیں تو چند روز توجہ کر کے اور تفصیل پر بفضلہ تعالیٰ اطلاع پا کر چند اخباروں میں شائع کر دوں۔
اس کے شائع کرنے کیلئے آپ کی خاص تحریر سے مجھ کو اجازت ہونی چاہئے میں اس خط کو محض آپ پر رحم کر کے لکھتا ہوں اور بہ ثبت شہادت چند کس آپ کی خدمت میں روانہ کرتا ہوں اور آخر دعا پر ختم کرتا ہوں۔ ۱؎ آمین
الراقم خاکسار
غلام احمد
از قادیان ضلع گورداسپورہ
۱؎ الاعراف: ۹۰ ۳۱؍ دسمبر ۱۸۹۲ء
گواہان حاشیہ
(۱) خدا بخش اتالیق نواب صاحب (۲) عبدالکریم سیالکوٹی (۳) قاضی ضیاء الدین ساکن کوٹ قاضی ضلع گوجرانوالہ (۴) مولوی نورالدین (۵) محمد احسن امروہی (۶) شادی خان ملازم سرراجہ امر سنگھ صاحب بہادر (۷) ظفر احمد کپور تھلی (۸) عبداللہ سنوری (۹) عبدالعزیز دہلوی (۱۰)علی گوہر جالندھری (۱۱) فضل الدین حکیم بھیروی (۱۲) حافظ محمدصاحب پشاوری (۱۳) حکیم محمد اشرف علی ہاشمی خطیب بٹالہ (۱۴) عبدالرحمن برادر زادہ مولوی نور الدین (۱۵) محمد اکبر ساکن بٹالہ (۱۶) قطب الدین ساکن بدوملی
اس عاجز کے خط مندرجہ بالا کے جواب میں جو شیخ بٹالوی صاحب کا خط آیا وہ ذیل میں مع جواب الجواب درج کیا جاتا ہے لیکن چونکہ وہ جواب الجواب اس طرف سے بٹالوی صاحب کی خدمت میں روانہ کیا گیا ہے اس میں ان کی تمام ہذیانات و بہتانات کا جواب نہیں ہے جو ان کے خط میں درج ہیں اور ممکن ہے کہ ان کا خط پڑھنے والے ان افتراؤں سے بے خبر ہوں جو اس خط میں دھوکہ دینے کی غرض سے درج ہیں اس لئے ہم نے مناسب سمجھا کہ اس خط کی تحریر سے پہلے شیخ صاحب کے بعض افتراؤں اور لافوں اور بہتانوں کا جواب دیں سو بطور قولہ و اقول ذیل میں جواب درج کیا جاتا ہے۔
قولہ: میں قرآن اور پہلی کتابوں اور دین اسلام اور پہلے نبیوں کو اور نبی آخر الزمان اور پہلے نبیوں کو سچا جانتا ہوں اور مانتا ہوں اور اس کا لازمہ اور شرط ہے کہ آپ کو جھوٹا جانوں۔
اقول: شیخ صاحب اگر آپ قرآن کو سچا جانتے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی صادق مانتے تو مجھ کو کافر نہ ٹھہراتے کیا قرآن کریم اور حضرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سچا ماننے کے یہی معنی ہیں کہ جو شخص اللہ اور رسول پر ایمان لاتا ہے اور قبلہ کی طرف نماز پڑھتا ہے اور کلمہ لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ کا قائل ہے اور اسلام میں نجات محدود سمجھتا اور بدل و جان اللہ اور اس کے رسول کی راہ میں فدا ہے اس کو آپ کافر بلکہ اکفر ٹھہراتے ہیں اور دائمی جہنم اس کے لئے تجویز کرتے ہیں اُس پر *** بھیجتے ہیں اس کو دجال کہتے ہیں اور اس کو قتل کرنا اور اسکے مال کو بطور سرقہ لینا سب جائز قرار دیتے ہیں رہے وہ کلمات اس عاجز کے جن کو آپ کلمات کفر ٹھہراتے ہیں اُن کا جواب اس رسالہ میں موجود ہے ہر ایک منصف خود پڑھ لے گا اور آپ کی دیانت اور آپ کا فہم قرآن اور فہم حدیث اُس سے بخوبی ظاہر ہو گیا ہے علیحدہ لکھنے کی حاجت نہیں۔
قولہ: عقائد باطلہ مخالفہ دیں اسلام و ادیان سابقہ کے علاوہ جھوٹ بولنا اور دھوکا دینا آپ کا ایسا وصف لازم بن گیا ہے کہ گویا وہ آپ کی شرست کا ایک جزو ہے۔
اقول: شیخ صاحب جو شخص متقی اور حلال زادہ ہو اوّل تو وہ جرأت کر کے اپنے بھائی پر بے تحقیق کامل کسی فسق اور کفر کا الزام نہیں لگاتا اور اگر لگاوے تو پھر ایسا کامل ثبوت پیش کرتا ہے کہ گویا دیکھنے والوں کے لئے دن چڑھا دیتا ہے پس اگر آپ ان دونوں صفتوں مذکورہ بالا سے متصف ہیں تو آپ کو اُس خداوند قادر ذوالجلال کی قسم ہے جس کی قسم دینے پر حضرت بنی صلی اللہ علیہ وسلم بھی توجہ کے ساتھ جواب دیتے تھے کہ آپ حسب خیال اپنے یہ دونوں قسم کا خبث اس عاجز میں ثابت کر کے دکھلاویں یعنی اوّل یہ کہ میں مخالف دیں اسلام اور کافر ہوں اور دوسرے یہ کہ میرا شیوہ جھوٹ بولنا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اپنی رؤیا میں صادق تر وہی ہوتا ہے جو اپنی باتوں میں صادق تر ہوتا ہے اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صادق کی یہ نشانی ٹھہرائی ہے کہ اس کی خوابوں پر سچ کا غلبہ ہوتا ہے اور ابھی آپ یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتا ہوں پس اگر آپ نے یہ بات نفاق سے نہیں کہی اور آپ درحقیقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے قول میں سچے ہیں تو آؤ ہم اور تم اس طریق سے ایک دوسرے کو آزما لیں کہ بموجب اس محک کے کون صادق ثابت ہوتا ہے اور کس کی شرست میں جھوٹ ہے اور ایسا ہی اللہ جلشانہٗ قرآن کریم میں فرماتا ہے ۱؎ یعنی یہ مومنوں کا ایک خاصہ ہے کہ بہ نسبت دوسروں کے اُن کی خوابیں سچی نکلتی ہیں اور آپ ابھی دعویٰ کر چکے ہیں کہ میں قرآن پر بھی ایمان لاتا ہوں بہت خوب آؤ قرآن کریم کے رو سے بھی آزما لیں کہ مومن ہونے کی نشانی کس میں ہے یہ دونوں آزمائشیں یوں ہو سکتی ہیں کہ بٹالہ یا لاہور یا امرتسر میں ایک مجلس مقرر کر کے فریقین کے
۱؎ یونس: ۶۸
شواہد رؤیا ان میں حاضر ہو جائیں اور پھر جو شخص ہم دونوں میں سے یقینی اور قطعی ثبوتوں کے ذریعہ سے اپنی خوابوں میں اصدق ثابت ہو اس کے مخالف کا نام کذاب اور دجال اور کافر اور اکفر اور ملعون یا جو نام تجویز ہوں اُسی وقت اس کو یہ تمغہ پہنایا جائے اور اگر آپ گزشتہ کے ثبوت سے عاجز ہوں تو میں قبول کرتا ہوں بلکہ چھ ماہ تک آپ کو رخصت دیتا ہوں کہ آپ چند اخباروں میں اپنی ایسی خوابیں درج کرادیں جو امور غیبیہ پر مشتمل ہوں اور میں نہ صرف اسی پر کفایت کروں گا کہ گذشتہ کا آپ کو ثبوت دوں بلکہ آپ کے مقابل پر بھی انشاء اللہ القدیر اپنی خوابیں درج کراؤں گا اور جیسا کہ آپ کا دعویٰ ہے کہ میں قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتا ہوں یہی میرا دعویٰ ہے کہ میں بدل و جان اس پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اُس پیاری کتاب قرآن کریم پر ایمان رکھتا ہوں اب اس نشانی سے آزمایا جائے گا کہ اپنے دعویٰ میں سچا کون ہے اور جھوٹا کون ہے اگر میں اُس علامت کے رو سے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم نے قرار دی ہے مغلوب رہا تو پھر آپ سچے رہیں گے اور میں بقول آپ کے کافر، دجال، بے ایمان، شیطان اور کذاب اور مفتری ٹھہروں گا اور اس صورت میں آپ کے وہ تمام ظنون فاسدہ درست اور برحق ہوں گے کہ گویا میں نے ’’براہین احمدیہ‘‘ میں فریب کیا اور لوگوں کا روپیہ کھایا اور دعا کی قبولیت کے وعدہ پر لوگوں کا مال خورد برد کیا اور حرام خوری میں زندگی بسر کی اگر خدا تعالیٰ کی اس عنایت نے جو مومنوں اور صادقوں اور راستبازوں کے شامل حال ہوتی ہے مجھ کو سچا کر دیاتو پھر آپ فرماویں کہ یہ نام اس وقت آپ کی مولویانہ شان کے سزاوار ٹھہریں گے یا اس وقت بھی کوئی کنارہ کشی کا راہ آپ کے لئے باقی رہے گا آپ نے مجھ کو بہت دکھ دیا اور ستایا میں صبر کرتا گیا مگر آپ نے ذرہ اس ذات قدیر کا خوف نہ کیا جو آپ کی تہہ سے واقف ہے اس نے مجھے بطور پیشگوئی آپ کے حق میں اور پھر آپ کے ہم خیال لوگوں کے حق میں خبر دی کہ اِنی مہین من اراداھانتک یعنی میں اس کو خوار کروں گا جو تیرے خوار کرنے کی فکر میں ہے۔
سو یقینا سمجھو کہ اب وہ وقت نزدیک ہے جو خدا تعالیٰ ان تمام بہتانات میں آپ کا دروغگو ہونا ثابت کر دے گا اور جو بہتان تراش اور مفتری لوگوں کو ذلتیں اور ندامتیں پیش آتی ہیں اُن تمام ذلتوں کی مار آپ پر ڈالے گا آپ کاد عویٰ ہے کہ میں قرآن کریم اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتا ہوں پس اگر آپ اس قول میں سچے ہیں تو آزمائش کے لئے میدان میں آویں تا خدا تعالیٰ ہمارا اور تمہارا خود فیصلہ کرے اور جو کاذب اور دجال ہے روسیاہ ہو جائے اور میرے دل سے اس وقت حق کی تائید کے لئے ایک بات نکلتی ہے اور میں اس کو روک نہیں سکتا کیونکہ وہ میرے نفس سے نہیں بلکہ القا ء ربی ہے جو بڑے زور سے جوش مار رہا ہے اور وہ یہ ہے کہ جب کہ آپ نے مجھے کافر ٹھہرایا اور جھوٹ بولنا میری سرشت کا خاصہ قرار دیا تو اب آپ کو اللہ جلشانہٗ کی قسم ہے کہ حسبِ طریق مذکورہ بالا میرے مقابلہ پر فی الفور آجاؤ تا دیکھا جائے کہ قرآن کریم اور فرمودہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے رو سے کون کاذب اور دجال اور کافر ثابت ہوتا ہے اور اگر اس تبلیغ کے بعد ہم دونوں میں سے کوئی شخص متخلف رہا اور باوجود اشد غلو اور تکفیر اور تکذیب اور تفسیق کے میدان میں نہ آیا اور شغال کی طرح دُم دبا کر بھاگ گیا تو وہ مندرجہ ذیل انعام کا مستحق ہوگا۔
(۱) لــــعـــــــــــــــنـــــــــــت
(۲) لــــعـــــــــــــــنـــــــــــت
(۳) لــــعـــــــــــــــنـــــــــــت
(۴) لــــعـــــــــــــــنـــــــــــت
(۵) لــــعـــــــــــــــنـــــــــــت
(۶) لــــعـــــــــــــــنـــــــــــت
(۷) لــــعـــــــــــــــنـــــــــــت
(۸) لــــعـــــــــــــــنـــــــــــت
(۹) لــــعـــــــــــــــنـــــــــــت
(۱۰) لــــعـــــــــــــــنـــــــــــت
تلک عشرۃ کاملۃ
یہ وہ فیصلہ ہے جو خدا تعالیٰ آپ کر دے گا کیونکہ اس کا وعدہ ہے کہ مومن بہرحال غالب رہے گا چنانچہ وہ خود فرماتا ہے۔ ۱؎ یعنی ایسا
۱؎ النساء: ۱۴۲
ہرگز نہیں ہوگا کہ کافر مومن پر راہ پاوے اور نیز فرماتا ہے۔ ۱؎ یعنی اے مومنو اگر تم متقی بن جاؤ تو تم میں اور تمہارے غیر میں خدا تعالیٰ ایک فرق رکھ دے گا۔ وہ فرق کیا ہے کہ تمہیں ایک نور عطا کیا جائے گا جو تمہارے غیر میں ہرگز نہیں پایا جائے گا یعنی نور الہام اور نور اجابتِ دعا اور نور کراماتِ اصطفا
اب ظاہر ہے کہ جس نے جھوٹ کو بھی ترک نہیں کیا وہ کیونکر خدا تعالیٰ کے آگے متقی ٹھہر سکتا ہے اور کیونکر اس (سے) کرامات صادر ہو سکتی ہیں غرض اس طریق سے ہم دونوں کی حقیقت مخفی کھل جائے گی اور لوگ دیکھ لیں گے کہ کون میدان میں آتا ہے اور کون بموجب آیت کریم ۲؎ اور حدیث نبوی اصد قکم حدیثا۳؎ کے صادق ثابت ہوتا ہے معہذا ایک اور بات بھی ذریعہ آزمائش صادق ہو جاتی ہے جس کو خدا تعالیٰ آپ ہی پیدا کرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ کبھی انسان کسی ایسی بلا میں مبتلا ہوتا ہے کہ اُس وقت بجز کذب کے اور کوئی حیلہ رہائی اور کامیابی کا اس کو نظر نہیں تب اُس وقت وہ آزمایا جاتا ہے کہ آیا اس کی شرست میں صدق ہے یا کذب اور آیا اس نازک وقت میں اس کی زبان پر صدق جاری ہوتا ہے یا اپنی جان اور آبرو اور مال کا اندیشہ کر کے جھوٹ بولنے لگتا ہے اس قسم کے نمونے بھی عاجز کو کئی دفعہ پیش آئے ہیں جن کا مفصل بیان کرنا موجب تطویل ہے تا ہم تین نمونے اِس غرض سے پیش کرتا ہوں کہ اگر اُن کے برابر بھی کبھی آپ کو آزمائش صدق کے موقع پیش آئے ہیں تو آپ کو اللہ جلشانہٗ کی قسم ہے کہ آپ اُن کو معہ ثبوت اُن کے ضرور شائع کریں تا معلوم ہو کہ آپ کا صرف دعویٰ نہیں بلکہ امتحان اور بلا کے شکنجہ میں بھی آ کر آپ نے صدق نہیں توڑا ازاں جملہ ایک یہ واقعہ ہے کہ میرے والد صاحب کے انتقال کے بعد مرزا اعظم بیگ صاحب لاہوری نے شر کا ملکیت قادیان سے مجھ پر اور میرے بھائی مرحوم مرزا غلام قادر پر مقدمہ دخل ملکیت کا عدالت ضلع میں دائر کر دیا اور میں بظاہر جانتا تھا کہ اُن شرکاء کو ملکیت سے کچھ غرض نہیں کیونکہ وہ ایک گم گشتہ چیز تھی جو سکھوں کے وقت میں نابود ہو چکی تھی اور میرے والد صاحب نے تن تنہا مقدمات کر کے اس ملکیت اور دوسرے دیہات کے بازیافت کے لئے آٹھ ہزار کے
۱؎ الانفال: ۳۰ یونس: ۶۸ ۳؎ مسلم کتاب الرؤیا باب فی کون الرؤیا من اللّٰہ وانھا جزء من النبوۃ حدیث نمبر۵۹۰۵
قریب خرچ و خسارہ اُٹھایا تھا وہ شر کا ایک پیسہ کے بھی شریک نہیں تھے سو اُن مقدمات کے اثنا میں جب میں نے فتح کے لئے دعا کی تو یہ الہام ہوا کہ اُجیب کل دعائک الافی شرکائک یعنی میں تیری ہر یک دعا قبول کروں گا مگر شرکاء کے بارے میں نہیں سومیں نے اس الہام کو پا کر اپنے بھائی اور تمام زن و مرد و عزیزوں کو جمع کیا جو اُن میں سے بعض اب تک زندہ ہیں اور کھول کر کہہ دیا کہ شرکا کے ساتھ مقدمہ مت کرو یہ خلاف مرضی حق ہے مگر انہوں نے قبول نہ کیا اور آخر ناکام ہوئے لیکن میری طرف سے ہزار ہا روپیہ کا نقصان اُٹھانے کیلئے استقامت ظاہر ہوئی اس کے وہ سب جو اَبْ دشمن ہیں گواہ ہیں چونکہ تمام کاروبار زمینداری میرے بھائی کے ہاتھ میں تھا اس لئے میں نے بار بار ان کو سمجھایا مگر انہوں نے نہ مانا اور آخر نقصان اُٹھایا۔
ازاں جملہ ایک یہ واقعہ ہے کہ تخمیناً پندرہ سال کا عرصہ گذرا ہوگا یا شاید اس سے کچھ زیادہ ہو کہ اس عاجز نے اسلام کی تائید میں آریوں کے مقابل پر ایک عیسائی کے مطبع میں جس کا نام رلیا رام تھا اور وہ وکیل بھی تھا اور امرتسر میں رہتا تھا اور اس کا ایک اخبار بھی نکلتا تھا۔ ایک مضمون بغرض طبع ہونے کے ایک پیکٹ کی صورت میں جس کی دونوں طرفیں کھلی تھیں بھیجا اور اس پیکٹ میں ایک خط بھی رکھ دیا تھا چونکہ خط میں ایسے الفاظ تھے جن میں اسلام کی تائید اور دوسرے مذاہب کے بطلان کی طرف اشارہ تھا اور مضمون کے چھاپ دینے کیلئے تائید بھی تھی اس لئے وہ عیسائی مخالفت کی وجہ سے افروختہ ہوا اور اتفاقاً اس کو دشمنانہ حملہ کے لئے یہ موقع ملا کہ کسی علیحدہ خط کا پیکٹ میں رکھنا قانوناً ایک جرم تھا۔ جس کی اس عاجز کو کچھ بھی اطلاع نہ تھی اور ایسے جرم کی سزا میں قوانین ڈاک کے رو سے پانچ سَو روپیہ جرمانہ یا چھ ماہ تک قید ہے سو اس نے مخبر بن کر افسران ڈاک سے اس عاجز پر مقدمہ دائر کرا دیا اور قبل اس کے جو مجھ سے اس مقدمہ کی کچھ اطلاع ہو۔ رؤیا میں اللہ تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا کہ رلیا رام وکیل نے ایک سانپ میرے کاٹنے کیلئے مجھ کو بھیجا ہے اور میں نے اسے مچھلی کی طرح تل کر واپس بھیج دیا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ آخر وہ مقدمہ جس طرز سے عدالت میں فیصلہ پایا وہ ایک ایسی نظیر ہے جو وکیلوں کے کام میں آ سکتی ہے۔ غرض میں اس جرم میں صدر گورداسپور میں طلب کیا گیا اور جن جن وکلا سے مقدمہ کے لئے مشورہ لیا گیا انہوں نے یہی مشورہ دیا کہ بجز دروغگوئی کے اور کوئی راہ نہیں اور یہ صلاح دی کہ اس طرح اظہار دے دو کہ ہم نے پیکٹ میں خط نہیں ڈالا۔ رلیا رام نے خود ڈال دیا ہوگا اور نیز بطور تسلی دے کر کہا کہ ایسا بیان کرنے سے شہادت سے فیصلہ ہو جائے گا اور دو چار جھوٹے گواہ دے کر بریت ہو جائے گی۔ورنہ صورت مقدمہ سخت مشکل ہے اور کوئی طریق رہائی نہیں۔ مگر میں نے ان سب کو جواب دیا کہ میں کسی حالت میں راستی کو چھوڑنا نہیں چاہتا جو ہوگا سو ہوگا۔
تب اسی دن یا دوسرے دن مجھے ایک انگریز کی عدالت میں پیش کیا گیا اور میرے مقابل پر ڈاکخانہ جات کا افسر بحیثیت سرکاری مدعی ہونے کے حاضر ہوا اس وقت حاکم عدالت نے اپنے ہاتھ سے میرا اظہار لکھا اور سب سے پہلے مجھ سے یہی سوال کیا کہ کیا یہ خط تم نے اپنے پیکٹ میں رکھ دیا تھا اور یہ خط اور یہ پیکٹ تمہارا ہے تب میں نے بلاتوقف جواب دیا کہ یہ میرا ہی خط میرا ہی پیکٹ ہے اور میں نے اس خط کو پیکٹ کے اندر رکھ کر روانہ کیا تھا مگرمیں نے گورنمنٹ کی نقصان رسانی محصول کے لئے بدنیتی سے یہ کام نہیں کیا بلکہ میں نے اس خط کو اس مضمون سے کچھ علیحدہ نہیں سمجھا اور نہ اس میں کوئی نج کی بات تھی۔ اس بات کوسنتے ہی خدا تعالیٰ نے اس انگریز کے دل کو میری طرف پھیر دیا اور میرے مقابل پر افسر ڈاکخانہ جات نے بہت شور مچایا اور لمبی لمبی تقریریں انگریزی میں کیں جن کو میں نہیں سمجھتا مگر اس قدر میں سمجھتا تھا کہ ہر ایک تقریر کے بعد زبان انگریزی میں وہ حاکم نو نو کر کے اس کی سب باتوں کو ردّ کر دیتا تھا۔ انجام کار وہ افسر مدعی اپنے تمام وجوہ پیش کر چکا اور اپنے تمام بخارات نکال چکا تو حاکم نے فیصلہ لکھنے کی طرف توجہ کی اور شاید سطر یا ڈیڑھ سطر لکھ کر مجھ کو کہا کہ اچھا آپ کے لئے رخصت۔ یہ سن کر میں عدالت کے کمرہ سے باہر ہوا اور اپنے محسن حقیقی کا شکر بجا لایا جس نے ایک افسر انگریز کے مقابل پر مجھ کو ہی فتح بخشی اور میں خوب جانتا ہوں کہ اس وقت صدق کی برکت سے خدا تعالیٰ نے اس بلا سے مجھ کو نجات دی۔ میں نے اس سے پہلے یہ خواب بھی دیکھی تھی کہ ایک شخص نے میری ٹوپی اُتارنے کیلئے ہاتھ مارا میں نے کہا کیا کرنے لگا ہے تب اس نے ٹوپی کو میرے سر پر ہی رہنے دیااور کہا کہ خیر ہے خیر ہے۔
ازانجملہ ایک نمونہ یہ ہے کہ میرے بیٹے سلطان احمد نے ایک ہندو پر بدیں بنیاد نالش کی کہ اس نے ہماری زمین پر مکان بنا لیا ہے اور مسماری مکان کا دعویٰ تھا اور ترتیب مقدمہ میں ایک امر خلاف واقعہ تھا۔ جس کے ثبوت سے وہ مقدمہ ڈسمس ہونے کے لائق پڑتا تھا اور مقدمہ کے ڈسمس ہونے کی حالت میں نہ صرف سلطان احمد کو بلکہ مجھ کو بھی نقصان تلف ملکیت اُٹھانا پڑتا تھا تب فریق مخالف نے موقعہ پا کر میری گواہی لکھا دی اور میں بٹالہ میں گیا اور بابو فتح الدین سب پوسٹ ماسٹر کے مکان پر جو تحصیل بٹالہ کے پاس ہے جا ٹھہرا اور مقدمہ ایک ہندو منصف کے پاس تھا۔ جس کا اب نام یاد نہیں رہا مگر ایک پاؤں سے لنگڑا بھی تھا اس وقت سلطان احمد کا وکیل میرے پاس آیا کہ اب وقت پیشی مقدمہ ہے۔ آپ کیا اظہار دیں گے میں نے کہا کہ وہ اظہار دوں گا جو واقعی امر اور سچ ہے تب اس نے کہا کہ پھر آپ کے کچہری جانے کی کیا ضرورت ہے میں جاتا ہوں تا مقدمہ سے دست بردار ہو جاؤں۔ سو وہ مقدمہ میں نے اپنے ہاتھوں سے محض رعایت صدق کی وجہ سے آپ خراب کیا اور راست گوئی کو ابتغائً لمرضات اللّٰہ مقدم رکھ کر مالی نقصان کو ہیچ سمجھا۔ یہ آخری دو نمونے بھی بے ثبوت نہیں پچھلے واقعہ کا گواہ شیخ علی احمد وکیل گورداسپور اور سردار محمد حیات خان صاحب سی ایس۔ آئی ہیں اور نیز مثل مقدمہ دفتر گورداسپور میں موجود ہوگی اور دوسرے واقعہ کا گواہ بابو فتح الدین اور خود وکیل جس کا اس وقت مجھ کو نام یاد نہیں اور نیز وہ منصف جس کا ذکر کرچکا ہوں جو اب شاید لدہیانہ میں بدل گیا ہے غالباً اس مقدمہ کو سات برس کے قریب گزرا ہوگا ہاں یاد آیا اس مقدمہ کا ایک گواہ نبی بخش پٹواری بٹالہ بھی ہے۔
اب اے حضرت شیخ صاحب اگر آپ کے پاس بھی اس درجہ ابتلا کی کوئی نظیر ہو جس میں آپ کی جان و آبرو اور مال راست گوئی کی حالت میں برباد ہوتا آپ کو دکھائی دیا ہو اور آپ نے سچ کو نہ چھوڑا ہو اور مال اور جان کی کچھ پرواہ نہ کی ہو تو للّٰہ وہ واقعہ اپنا معہ اس کے کامل ثبوت کے پیش کیجئے۔ ورنہ میرا تو یہ اعتقاد ہے کہ اس زمانہ کے اکثر ملاّ اور مولویوں کی باتیں ہی باتیں ہیں ورنہ ایک پیسہ پر ایمان بیچنے کو تیار ہیں کیونکہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری زمانہ کے مولویوں کو بدترین خلائق بیان فرمایا ہے اور آپ کے مجدد صاحب نواب صدیق حسن خان مرحوم حجج الکرامہ میں تسلیم کر چکے ہیں کہ وہ آخری زمانہ یہی زمانہ ہے سو ایسے مولویوں کا زہد و تقویٰ بغیر ثبوت قبول کرنے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودہ کی تکذیب لازم آتی ہے سو آپ نظیر پیش کریں اور اگر پیش نہ کر سکیں تو ثابت ہوگا کہ آپ کے پاس صرف راست گوئی کا دعویٰ ہے مگر کوئی دعویٰ بے امتحان قبول کے لائق نہیں اندرونی حال آپ کا خدا تعالیٰ کو معلوم ہوگا کہ آپ کبھی کذب اور افترا کی نجاست سے ملوث ہوئے یا نہیں یا ان کو معلوم ہوگا جو آپ کے حالات سے واقف ہوں گے۔جو شخص ابتلا کے وقت صادق نکلتا ہے اور سچ کو نہیں چھوڑتا اس کے صدق پر مہر لگ جاتی ہے اگر یہ مہر آپ کے پاس ہے تو پیش کریں ورنہ خدا تعالیٰ سے ڈریں ایسا نہ ہو کہ وہ آپ کی پردہ دری کرے۔
آپ کی ان بیہودہ اور حاسدانہ باتوں سے مجھ کو کیا نقصان پہنچ سکتا ہے کہ آپ لکھتے ہو کہ تم مختاری اور مقدمہ بازی کا کام کرتے رہے ہو آپ ان افتراؤں سے باز آ جائیں آپ خوب جانتے ہیں کہ یہ عاجز ان پیشوں میں کبھی نہیں پڑا کہ دوسروں کے مقدمات عدالتوں میں کرتا پھرے۔ ہاں والد صاحب کے زمانہ میں اکثر وکلاء کی معرفت اپنی زمینداری کے مقدمات ہوتے تھے اور کبھی ضرورتاً مجھے آپ ہی جانا پڑتا تھا۔ مگر آپ کا یہ خیال کہ وہ جھوٹے مقدمات ہوں گے ایک شیطنت کی بدبو سے بھرا ہوا ہے کیا ہر یک نالش کرنے والا ضرور جھوٹا مقدمہ کرتا ہے یا ضرور جھوٹ ہی کہتا ہے۔
اے کج طبع شیخ خدا جانے تیری کس حالت میں موت ہوگی کیا جو شخص اپنے حقوق کی حفاظت کے لئے یا اپنے حقوق کے طلب کے لئے عدالت میں مقدمہ کرتا ہے اس کو ضرور جھوٹ بولنا پڑتا ہے ہرگز نہیں بلکہ جس کو خدا تعالیٰ نے قوت صدق عطا کی ہو اور سچ سے محبت رکھتا ہو وہ بالطبع دروغ سے نفرت رکھتا ہے اور جب کوئی دینوی فائدہ جھوٹ بولنے پر ہی موقوف ہو تو اس فائدہ کو چھوڑ دیتا ہے۔ مگر افسوس کہ نجاست خوار انسان ہر یک انسان کو نجاست خوار ہی سمجھتا ہے۔ جھوٹ بولنے والے ہمیشہ کہا کرتے ہیں کہ بغیر جھوٹ بولنے کے عدالتوں میں مقدمہ نہیں کر سکتے۔ سو یہ قول ان کا اس حالت میں سچا ہے کہ جب ایک مقدمہ باز کسی حالت میں اپنے نقصان کا روا دار نہ ہو اور خواہ مخواہ ہریک مقدمہ میں کامیاب ہونا چاہئے مگر جو شخص صدق کو بہرحال مقدم رکھے وہ کیوں ایسا کرے گا جب کسی نے اپنا نقصان گوارا کر لیا تو پھر وہ کیوں کذب کا محتاج ہوگا۔
اب یہ بھی واضح رہے کہ یہ سچ ہے کہ والد مرحوم کے وقت میں مجھے بعض اپنے زمینداری معاملات کے حق رسی کے لئے عدالتوں میں جانا پڑتا تھا مگر والد صاحب کے مقدمات صرف اس قسم کے ہوتے تھے۔ کہ بعض اسامیاں جو اپنے ذمہ کچھ باقی رکھ لیتی تھیں یا کبھی بلااجازت کوئی درخت کاٹ لیتی تھیں یا بعض دیہات کے نمبرداروں سے تعلق داری کے حقوق بذریعہ عدالت وصول کرنے پڑتے تھے اور وہ سب مقدمات بوجہ اس احسن انتظام کے کہ محاسب دیہات یعنی پٹواری کی شہادت اکثر ان میں کافی ہوتی تھی۔ پیچیدہ نہیں ہوتی تھی اور دروغگوئی کو ان سے کچھ تعلق نہیں تھا کیونکہ تحریرات سرکاری پر فیصلہ ہوتا تھا اور چونکہ اس زمانہ میں زمین کی بیقدری تھی۔ اس لئے ہمیشہ زمینداری میں خسارہ اُٹھانا پڑتا اور بسا اوقات کم مقدمات کاکاشتکاروں کے مقابل پر خود نقصان اُٹھا کر رعایت کرنی پڑتی تھی اور عقلمند لوگ جانتے ہیں کہ ایک دیانتدار زمیندار اپنے کاشتکاروں سے ایسے برتاؤ رکھ سکتا ہے جو بحیثیت پورے متقی اور کامل پرہیز گار کے ہو اور زمینداری اور نیکوکاری میں کوئی حقیقی مخالفت اور ضد باایں ہمہ کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ والد صاحب کے انتقال کے بعد کبھی میں نے بجز اس خط کے مقدمہ کے جس کا ذکر کرچکا ہوں کوئی مقدمہ کیا ہو اگر میں مقدمہ کرنے سے بالطبع متنفر نہ ہوتا میں والد صاحب کے انتقال کے بعد جو پندرہ سال کا عرصہ گذر گیا آزادی سے مقدمات کیا کرتا اور پھر یہ بھی یاد رہے کہ ان مقدمات کا مہاجنوں کے مقدمات پر قیاس کرنا کور باطن آدمیوں کا کام ہے۔ میں اس بات کو چھپا نہیں سکتا کہ کئی پشت سے میرے خاندان میں زمینداری چلی آتی ہے اور اب بھی ہے اور زمیندار کو ضرورتاً کبھی مقدمہ کی حاجت پڑتی ہے مگر یہ امر ایک منصف مزاج کی نظر میں جرح کا محل نہیں ٹھہر سکتا۔ حدیثوں کو پڑھو کہ وہ آخری زمانہ میں آنے والا اور اس زمانہ میں آنے والا کہ جب قریش سے بادشاہی جاتی رہے گی اور آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک تفرقہ اور پریشانی میں پڑی ہوئی ہوگی۔ زمیندار ہوگا اور مجھ کو خدا تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ وہ میں ہوں احادیث نبویہ میں صاف لکھا ہے کہ آخری زمانہ میں ایک موید دین و ملت پیدا ہوگا اور اس کی یہ علامت ہوگی کہ وہ حارث ہوگا یعنی زمیندار ہوگا۔
اس جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ہر ایک مسلمان کو چاہئے کہ اس کو قبول کر لیوے اور اس کی مدد کرے۔ اب سوچو کہ زمیندار ہونا تو میرے صدق کی ایک علامت ہے نہ جائے جرح اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قبول کرنے کے لئے حکم ہے نہ ردّ کرنے کیلئے چشم بد اندیش کہ برکندہ باد عیب نمائد ہنرش در نظر ۔ ہاں مقدمہ بازی آپ کے والد صاحب کی جائے جرح ہو تو کچھ تعجب نہیں کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ انگریزی عملداری میں اکثر سود خوروں کی مختار کاری میں ان کی عمر بسر ہوئی اور جس طرح بن پڑا انہوں نے بعض لوگوں کے مقدمے محنتانہ پر لئے گو وہ قانونی طور پر مختار نہ وکیل بلکہ فیل شدہ بھی نہیں تھے مگر پیٹ بھرنے کیلئے سب کچھ کیا لیکن یہ عاجز تو بجز اپنی زمینداری کے مقدمات کے جن میں اکثر آپ کے والد صاحب جیسے بلکہ عزت اور لیاقت میں ان سے بڑھ کر مختار بھی کئے ہوئے تھے دوسروں کے مقدمات سے بھی کچھ غرض نہیں رکھتا تھا اور مجھ کو یاد ہے بلکہ آپ کو بھی یاد ہوگا کہ ایک دفعہ آپ کے والد صاحب نے بھی مقام بٹالہ میں حضرت مرزا صاحب مرحوم کی خدمت میں اپنی تمنا ظاہر کی تھی کہ مجھ کو بعض مقدمات کیلئے نوکر رکھا جاوے تا بطور مختار عدالتوں میں جاؤں مگر چونکہ زمینداری مقدمات کی پیروی کی ان میں لیاقت نہیں تھی اس لئے عذر کر دیا گیا تھا۔
قولہ: آپ نے الہامی بیٹا تولد ہونے کی پیشگوئی کی یعنی جھوٹ بولا۔
اقول: آپ اپنے سفلہ پنے سے باز نہیں آتے خدا جانے آپ کس خمیر کے ہیں۔ اس پیشگوئی میں کونسی دروغ کی بات نکلی اگر آپ کا یہ مطلب ہے کہ پیشگوئی کے بعد ایک لڑکا پیدا ہوا اور مر گیا تو کیا آپ یہ ثبوت دے سکتے ہیں کہ کسی الہام میں یہ مضمون درج تھا کہ وہ موعود لڑکا وہی ہے اگر دے سکتے ہیں تو وہ الہام پیش کریں یاد رہے کہ ایسا کوئی الہام نہیں۔ ہاں اگر میں نے اجتہادی طور پر کہا ہو کہ شاید یہ لڑکا وہی موعود لڑکا ہے تو کیا اس سے یہ ثابت ہو جائے گا کہ الہام غلط نکلا آپ کومعلوم نہیں کہ کبھی ملہم اپنے الہام میں اجتہاد بھی کرتا ہے اور کبھی وہ اجتہاد خطا بھی جاتا ہے مگر اس سے الہام کی وقعت اور عظمت میں فرق نہیں آتاصد ہا مرتبہ ہر یک کو اتفاق پیش آتا ہے۔ کہ ایک خواب تو سچی ہوتی ہے مگر تعبیر میں غلطی ہو جاتی ہے یہ ہدایت اور یہ معرفت کا دقیقہ تو خاص قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے لیکن ان کے لئے جو آنکھیں رکھتی ہیں۔ میں ڈرتا ہوں کہ آج تو آپ نے مجھ پر اعتراض کیا کبھی ایسا نہ ہو کہ کل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی اعتراض کر دیں اور کہیں کہ آنجناب نے جس وحی کی تصدیق کیلئے یعنی طواف کی غرض سے دو سَو کوس کا سفر اختیار کیا تھا وہ طواف اس سال نہ ہو سکا اور اجتہادی غلطی ثابت ہوئی افسوس کہ فرط تعصب سے فذہب وہلی ۱؎ کی حدیث بھی آپ کو بھول گئی مجھے تو آپ کے انجام کا فکر لگا ہوا ہے دیکھیں کہ کہاں تک نوبت پہنچتی ہے۔
۱؎ بخاری کتاب المناقب باب علامات النبوۃ فی الاسلام حدیث نمبر۳۴۲۵ و بخاری کتاب التعبیر باب اذارای بقراً تخر حدیث نمبر۶۶۲۹
اور لڑکے کی پیشگوئی تو حق ہے ضرورپوری ہوگی اور آپ جیسے منکروں کو خدا تعالیٰ رسوا کرے
گا۔ اے دشمن حق جب کہ تمام پیشگوئیوں کے مجوعی الفاظ یہ ہیںکہ بعض لڑکے فوت بھی ہونگے اور ایک لڑکا خداتعالیٰ سے ہدایت میں کمال پائے گا تو پھر آپ کا اعتراض اس بات پر کھلی کھلی دلیل ہے کہ آپ کا باطن مسخ شدہ ہے ۔ یہ تو یہودیوں کے علماء کا آپ نے نقشہ اُتار دیا اب آگے دیکھیں کیا ہوتا ہے۔
قولہ: اس سے ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے کہ جو شخص بندوں پر جھوٹ بولنے میں دلیر ہو وہ خدا پر جھوٹ بولنے سے کیونکر رک سکتا ہے۔
اقول: ان باتوں سے ثابت ہے کہ آپ کی فطرت ان الزمات سے خالی نہیں جن کو آپ کے والد صاحب جن کے بعض خطوط آپ کی فطرت اور آپ کے اوصاف حمیدہ کے متعلق میرے پاس بھی غالباً کسی بستہ میں پڑے ہوئے ہونگے بزبان خودمشہور کر گئے ہیں۔ اے نیک بخت اوّل ثابت تو کیا ہوتا کہ فلاں فلاں شخص کے روبرو اس عاجز نے کبھی جھوٹ بولا تھا اپنے التزام صدق کے جو ہیں نے نظریں پیش کی ہیں ان کے مقابل پر بھلا کوئی نظیر پیش کرو تا آپ کا منہ اس لائق ٹھہرے کہ آپ اس شخص کی نکتہ چینی کر سکو جو سخت امتحان کے وقت صادق نکلا اور صدق کو ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ میں حیران ہوں کہ کونسا جن آپ کے سر پر سوار ہے جو آپ کی پردہ دری کرا رہا ہے۔
آخر میں یہ بھی آپ کو یاد رہے کہ یہ آپ کا سراسر افتراء ہے کہ الہام کلب یموت علی کلب کو اپنے اوپر وارد کر رہے ہیں۔ میں نے ہرگز کسی کے پاس یہ نہیں کہا کہ اس کامصداق آپ ہیں اور جو بعض درشت کلمات کی آپ شکایت کرتے ہیں یہ بھی بیجا ہے آپ کی سخت بدزبانیوں کے جواب میں آپ کے کافر ٹھہرانے کے بعد آپ کے دجال اور شیطان اور کذاب کہنے کے بعد اگر ہم نے آپ کی موجودہ حالت کے مناسب آپ کو کچھ حق حق کہہ دیا………تو کیا بُرا کیا آخر ۱؎ کا بھی تو ایک وقت ہے۔
آپ کا یہ خیال کہ گویا یہ عاجز براہین احمدیہ کے فروخت میں دس ہزار روپیہ لوگوں سے لے کر خوردبرد کر گیا ہے یہ اس شیطان نے آپ کو سبق دیا ہے جو ہر وقت آپ کے ساتھ رہتا ہے آپ کو کیونکر معلوم ہو گیا کہ میری نیت میں براہین کا طبع کرنا نہیں اگر براہین طبع ہو کر شائع ہوگئی تو اس دن
۱؎ التوبہ: ۷۳
شرم کا تقاضا نہیںہوگا۔ کہ آپ غرق ہو جائیں ہر یک دیر بدظنی پر مبنی نہیںہو سکتی اور میں نے تو اشتہار بھی دے دیا تھا کہ ہر ایک مستعجل اپنا روپیہ واپس لے سکتا ہے اور بہت سار وپیہ واپس بھی کر دیا۔ قرآن کریم جس کی خلق اللہ کو بہت ضرورت تھی اور لوح محفوظ میں قدیم سے جمع تھا۔ تئیس سال میں نازل ہوا اور آپ جیسے بدظنیوں کے مارے ہوئے اعتراض کرتے رہے۔ کہ ۱؎
قولہ: جب سے آپ نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ مشتہر کیا ہے اس دن سے آپ کی کوئی تحریر کوئی تقریر کوئی تصنیف جھوٹ سے خالی نہیں۔
اقول: اے شیخ نامہ سیاہ اس دروغ بے فروغ کے جواب میں کیا کہوں اور کیا لکھوں خدا تعالیٰ تجھ کو آپ ہی جواب دیوے کہ اب تو حد سے بڑھ گیا۔ اے بدقسمت انسان تو ان بہتانوں کے ساتھ کب تک جئے گا کب تک تو اس لڑائی میں جو خدا تعالیٰ سے لڑ رہا ہے موت سے بچتا رہے گا اگر مجھ کو تو نے یا کسی نے اپنی نابینائی سے دروغگو سمجھا تو یہ کچھ نئی بات نہیں آپ کے ہم خصلت ابوجہل اور ابولہب بھی خدا تعالیٰ کے نبی صادق کو کذاب جانتے تھے انسان جب فرط تعصب سے اندھا ہو جاتا ہے تو صادق کی ہر ایک بات اس کو کذب ہی معلوم ہوتی ہے لیکن خدا تعالیٰ صادق کا انجام بخیر کرتا ہے اور کاذب کے نقش ہستی کو مٹا دیتا ہے۔ ۲؎
قولہ: کہ (آپ نے) بحث سے گریز کر کے انواع اتہام اور اکاذیب کا اشتہار دیا۔
اقول: یہ سب آپ کے دروغ بے فروغ ہیں جو بباعث تقاضاء فطرت بے اختیار آپ کے منہ سے نکل رہے ہیں ورنہ جو لوگ میری اور آپ کی تحریروں کو غور سے دیکھتے ہیں وہ خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ آیا اتہام اور کذب اور گریز اس عاجز کا خاصہ ہے یا خود آپ ہی کاچالاکی کی باتیں اگر آپ نہ کریں تو اور کون کرے ایک تو قانون گو شیخ ہوئے ۔ دوسرے چار حرف پڑھنے کا دماغ میں کیڑا مگر خوب یاد رکھو وہ دن آتا ہے کہ خود خداوند تعالیٰ ظاہر کر دے گا کہ ہم دونوں میں کون کاذب اور مفتری اور خدا کی نظر میں ذلیل اور رسوا ہے اور کس کی خداوند کریم آسمانی تائیدات سے عزت ظاہر کرتا ہے۔ ذرہ صبر کرو اور انجام کو دیکھو۔
۱؎ الفرقان: ۳۳ ۲؎ النحل: ۱۲۹
قولہ: آپ میں رحمت اور ہمدردی کا شمہ اثر بھی ہوتا تو جس وقت میں نے آپ کے دعویٰ مسیحائی سے اپنا خلاف ظاہر کیا تھا آپ فوراً مجھے اپنی جگہ بلاتے یا غریب خانہ پر قدم رنجہ فرماتے۔
اقول: اے حضرت آپ کو آنے سے کس نے منع کیا تھا یا میری ڈیوڑھی دربان تھے جنہوں نے اندر آنے سے روک دیا پہلے اس سے آپ پوچھ پوچھ کر آیا کرتے تھے آپ کے تو والد صاحب بھی بیماری کی حالت میں بھی بٹالہ سے افتان خیزان میرے پاس آجاتے تھے۔ پھر آپ کو نئی روک کونسی پیش آ گئی تھی اور جب کہ آپ اپنے ذاتی بخل اور ذاتی حسد اور شیخ نجدی کے خصائل اور کبر اور نخوت کو کسی حالت میں چھوڑانے والے نہیں تھے تو میں آپ کو مکان پر بلا کر کیا ہمدردی اور رحمت کرتا۔ ہاں میں نے آپ کے مکان پر بھی جانا خلاف مصلحت سمجھا کیونکہ میں نے آپ کی مزاج میں کبر اور نخوت کا مادہ معلوم کر لیا تھا اور میرے نزدیک یہ قرین مصلحت تھا کہ آپ کو ایک مسہل دیا جائے اور جہاں تک ہو سکے وہ مادہ آپ کے اندر سے باستیفا نکال دیا جائے سو اب تک تو کچھ تحفیف معلوم نہیں ہوتی۔ خدا جانے کس غضب کا مادہ آپ کے پیٹ میں بھرا ہوا ہے اور اللہ جلشانہٗ جانتا ہے کہ میں نے آپ کی بدزبانی پر بہت صبر کیا۔ بہت ستایا گیا اور آپ کو روکے گیا اور اب بھی آپ کی بدگوئی اور تکفیر پر بہرحال صبر کر سکتا ہوں لیکن بعض اوقات محض اس نیت سے پیرایہ درشتی آپ کی بدگوئی کے مقابلہ میں اختیار کرتا ہوں کہ تا وہ مادہ خبث کا جو مولویت کے باطل تصور سے آپ کے دل میں جما ہوا ہے اور جن کی طرح آپ کو چمٹا ہوا ہے وہ بکلی نکل جائے میں سچ سچ کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ میں اعلیٰ وجہ البصیرت یقین رکھتا ہوں کہ آپ صرف استخوان فروش ہیں اور علم اور درایت اور تفقہ سے سخت بے بہرہ اور ایک غبی اور پلید آدمی ہیں جن کو حقائق اور معارف کے کوچہ کی طرف ذرہ بھی گذر نہیں اور ساتھ اس کے یہ بلا لگی ہوئی ہے کہ ناحق کے تکبر اور نخوت نے آپ کو ہلاک ہی کر دیا ہے جب تک آپ کو اپنی اس جہالت پر اطلاع نہ ہو اور دماغ سے غرور کا کیڑا نہ نکلے تب تک آپ نہ کوئی دنیا کی سعادت حاصل کر سکتے ہیں نہ دین کی۔ آپ کا بڑا دوست وہ ہوگا جو اس کوشش میں لگا رہے جو آپ کی جہالتیں اور نخوتیں آپ پر ثابت کرے۔ میں نہیں جانتا کہ آپ کو کس بات پر ناز ہے۔
شرمناک فطرت کے ساتھ اور اس موٹی سمجھ اور سطحی خیال پر یہ تکبر اور یہ ناز نعوذ باللّٰہ من ھذہ الجھالۃ والحمق و ترک الحیاء والسخا فتدہ الضد اللّٰہ
اور آپ کا یہ خیال کہ میں نے اب فساد کیلئے خط بھیجا ہے تا کہ بٹالہ کے مسلمانوں میں پھوٹ پڑے۔ عزیز من یہ آپ کے فطرتی توہمات ہیں۔ میں نے پھوٹ کیلئے نہیں بلکہ آپ کی حالت زار پر رحم کر کے خط بھیجا تھا تا آپ تحت الثریٰ میں نہ گر جائیں اور قبل از موت حق کو سمجھ لیں۔ مسلمانوں میں تفرقہ اور فتنہ ڈالنا تو آپ ہی کا شیوہ ہے یہی تو آپ کا مذہب اور طریق ہے۔ جس کی وجہ سے آپ نے ایک مسلمان کو کافر اور بے ایمان اور دجال قرار دیا اور علماء کو دھوکے دے کر تکفیر کے فتویٰ لکھوائے اور اپنے استاد نذیر حسین پر موت کے دنوں کے قریب یہ احسان کیا کہ اس کے مونہہ سے کلمہ تکفیر کہلوایا اور اس کی پیرانہ سالی کے تقویٰ پر خاک ڈالی۔ آفرین بادہمت مردانہ تو۔ نذیر حسین تو ارزل عمر میں مبتلا اور بچوں کی طرح ہوش و حواس سے فارغ تھا یہ آپ ہی نے شاگردی کاحق ادا کیا کہ اس کے اخیر وقت اور لب بام ہونے کی حالت میں ایسی مکروہ سیاسی اس کی مونہہ پر مل دی کہ اب غالباً وہ گور میں ہی سیاسی کو لے جائے گا۔ خدائے تعالیٰ کی درگاہ خالہ جی کا گھر نہیں ہے۔ جو شخص مسلمان کو کافر کہتا ہے اس کو وہی نتائج بھگتنے پڑیں گے جن کا ناحق کے مکفرین کیلئے اس رسول کریم نے وعدہ دے رکھا ہے۔ جو ایسا عدل دوست تھا جس نے ایک چور کی سفارش کے وقت سخت ناراض ہو کر فرمایا تھا کہ مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر فاطمہ بنت محمدؐ چوری کرے تو اس کا بھی ہاتھ کاٹا جائے گا۔
قولہ: اس صورت میں قادیان پہنچ سکتا ہوں کہ مسلمانوں پر آپ کا جھوٹ اور فریب کھولوں لیکن مجھے اندیشہ ہے کہ آپ میری جان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے۔
اقول: اب آپ کسی حیلہ و بہانہ سے گریز نہیں کر سکتے اب تو دس لعنتیں آپ کی خدمت میں نذر کر دی ہیں اور اللہ جلشانہٗ کی قسم بھی دی ہے کہ آپ آسمانی طریق سے میرے ساتھ صدق اور کذب کا فیصلہ کر لیں۔ اگر آپ مجھ کو جھوٹا سمجھنے میں سچے ہیں تو میری اس بات کو سنتے ہی مقابلہ کیلئے کھڑے ہو جائیں گے ورنہ ان تمام لعنتوں کو ہضم کر جائیں گے اور کچے اور بیہودہ عذرات سے ٹال دیں گے اور میں آپ کو ہلاک کرنا نہیں چاہتا ایک ہی ہے جو آپ کو در حالت نہ باز آنے کے ہلاک کرے گا اور اپنے دین کو آپ کے اس فتنہ سے نجات دے گا اور آپ کے قادیان آنے کی کچھ ضرورت نہیں۔ اگر آپ اللہ اور رسول کے نشان کے موافق آزمائش کیلئے مستعد ہوں تو میں خود بٹالہ اور امرتسر اور لاہور میں آ سکتا ہوں تا سیاہ روئے شود ہر کہ دروغش باشد۔
جواب الجواب شیخ بٹالوی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۔۱؎ اما بعد آپ کا رجسٹری شدہ خط مؤرخہ ۴؍ جنوری ۱۸۹۳ء کو مجھ کو ملا۔ اگرچہ آپ کا یہ خط جو کذب اور تہمت اور بیجا افتراؤں کا مجموعہ ہے اس لائق نہیں تھا کہ میں اس کا جواب آپ کو لکھتا فقط اعراض کافی تھا لیکن چونکہ آپ نے اپنے خط کے صفحہ دو اور تین میں اس عاجز کی تین پیشگوئیوں کا ذکر کر کے بالآخر اس تیسری پیشگوئی پر حصر کر دیا ہے جو نور افشاں دہم مئی ۱۸۸۸ء اور نیز میرے اشتہار مشتہرہ ۱۰؍ جولائی ۱۸۸۸ء میں درج ہے اور آپ نے اقرار کیا ہے کہ اگر اس الہام کا سچا ہونا ثابت ہو جاوے تو آپ کو ملہم مان لوں گا اور یہ سمجھوں گا کہ میں نے آپ کے عقائد و تعلیمات کو مخالف حق اور آپ کو بد اخلاق اور گمراہ سمجھنے میں غلطی کی تھی اس لئے اس عاجز نے پھر آپ کی حالت پر رحم کر کے آپ کو اس الہامی پیشگوئی کے ثبوت کی طرف توجہ دلانا مناسب سمجھا۔ وہ پیشگوئی جیسا کہ آپ خود اپنے خط میں بیان کر چکے ہیں۔ یہی تھی کہ اگر مرزا احمد بیگ ہوشیارپوری اپنی بیٹی اس عاجز کو نہ دیوے اور کسی سے نکاح کر دیوے تو روز نکاح سے تین برس کے اندر فوت ہو جائے گا۔ اس پیشگوئی کی یہ بنیاد نہیں تھی کہ خواہ مخواہ مرزا احمد بیگ کی درخواست سے گئی تھی بلکہ یہ بنیاد تھی کہ یہ فریق مخالف جن میں سے مرزا احمد بیگ بھی ایک تھا۔ اس عاجز کے قریبی رشتہ دار مگر دین کے سخت مخالف تھے ایک ان میں سے عداوت میں اس قدر بڑھا ہوا تھا کہ اللہ جلشانہٗ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو علانیہ گالیاں دیتا تھا اور اپنا مذہب دہریہ رکھتا تھا اور نشان کے طلب کے لئے ایک اشتہار بھی جاری کر چکا تھا اور یہ سب کو مکار خیال کرتے تھے اور نشان مانگتے تھے اور صوم و صلوٰۃ اور عقاید اسلام پر ٹھٹھا کیا کرتے تھے۔ سو اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ ان پر اپنی حجت پوری کرے۔ سو اس نے نشان دکھلانے میں وہ پہلو اختیار کیا جس کا ان تمام بیدیں قرابتیوں پر اثر پڑتا تھا۔ خدا ترس آدمی سمجھ سکتا ہے کہ موت اور حیات انسان کے اختیار میں
۱؎ النمل: ۶۰
نہیں اور ایسی پیشگوئی جس میں ایک شخص کی موت کو اس کی بیٹی کے نکاح کے ساتھ جو غیر سے ہو وابستہ کر دیا گیا اور موت کی حد مقرر کر دی گئی۔ انسان کا کام نہیں ہے چونکہ یہ الہامی پیشگوئی صاف بیان کر رہی تھی کہ مرزا احمد بیگ کی موت اور حیات اس کی لڑکی کے نکاح سے وابستہ ہے اس لئے پانچ برس تک یعنی جب تک اس لڑکی کا نکاح کسی دوسری جگہ نہیں کیا گیا مرزا احمد بیگ زندہ رہا اور ۷؍ اپریل ۱۸۹۲ء میں احمد بیگ نے اس لڑکی کا ایک جگہ نکاح کر دیا اور بموجب پیشگوئی کے تین برس کے اندر یعنی نکاح کے چوتھے مہینہ میں جو ۳۰؍ ستمبر ۱۸۹۲ء تھی فوت ہو گیا اور اسی اشتہار میں یہ بھی لکھا تھا کہ اگرچہ روز نکاح سے موت کی تاریخ تین برس تک بتلائی گئی ہے مگر دوسرے کشف سے معلوم ہوا کہ کچھ بہت عرصہ نہیں گذرے گا چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ نکاح اور موت میں صرف چار مہینہ بلکہ اس سے کم فاصلہ رہا یعنی جیسا کہ میں لکھ چکا ہوں کہ ۷؍ اپریل ۱۸۹۲ء میں نکاح ہوا اور ۳۰؍ ستمبر ۱۸۹۲ء کو مرزا احمد بیگ اس جہان فانی سے رخصت ہو گیا اب ذرا خدا سے ڈر کر کہیں کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی یا نہیں اور اگر آپ کے دل کو یہ دھوکہ ہو کہ کیونکر یقین ہو کہ یہ الہامی پیشگوئی ہے کیوں جائز تھیں کہ دوسرے وسائل نجوم و رمل و جعفر سے ہو تو اس کا جواب یہ ہے کہ منجموں کی اس طور کی پیشگوئی نہیں ہوا کرتی جس میں اپنے ذاتی فائدہ کے لحاظ سے اس طور کی شرطیں ہوں کہ اگر فلاں شخص ہمیں بیٹی دے گا تو زندہ رہے گا ورنہ نکاح کے بعد تین برس تک بلکہ بہت جلد مر جائے گا اگر دنیا میں کسی منجم یا رمال کی اس قسم کی پیشگوئی ظہور میں آئی ہے تو اس کے ثبوت کے ساتھ پیش کریں علاوہ اس کے اس پیشگوئی کے ساتھ اشتہار میں ایک دعویٰ پیش کیا گیا ہے یعنی کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا ہوں اور مکالمہ الٰہیہ سے مشرف ہوں اور مامور من اللہ ہوں اور میری صداقت کا نشان یہ پیشگوئی ہے۔ اب اگرچہ آپ کچھ بھی اللہ جلشانہٗ کا خوف رکھتے ہیں تو سمجھ سکتے ہیں کہ ایسی پیشگوئی جو منجانب اللہ ہونے کیلئے بطور ثبوت پیش کی گئی ہے اسی حالت میں سچی ہو سکتی تھی کہ جب درحقیقت یہ عاجز منجانب اللہ ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ ایک مفتری کی پیشگوئی کو جو ایک جھوٹے دعویٰ کے لئے بطور شاہد صدق بیان کی گئی ہرگز سچی نہیں کر سکتا وجہ یہ کہ اس میں خلق اللہ کو دھوکا لگتا ہے۔ جیسا کہ اللہ جلشانہٗ خود مدعی صادق کیلئے یہ علامت قرار دے کر فرماتا ہے ۱؎
۱؎ مومن: ۲۹
اور فرمایا ۔۱؎ رسول کا لفظ عام ہے جس میں رسول اور نبی اور محدث داخل ہیں۔ پس اس پیشگوئی کے الہامی ہونے کے لئے ایک مسلمان کے لئے یہ دلیل کافی ہے جو منجانب اللہ ہونے کے دعویٰ کے ساتھ یہ پیشگوئی بیان کی گئی اور خدا تعالیٰ نے اس کو سچی کر کے دکھلا دیا اور اگر آپ کے نزدیک یہ ممکن ہے کہ ایک شخص دراصل مفتری ہو اور سراسر دروغگوئی سے کہے کہ میں خلیفۃ اللہ اور مامور من اللہ اور مجدد وقت اور مسیح موعود ہوں اور میرے صدق کا نشان یہ ہے کہ اگر فلاں شخص مجھے اپنی بیٹی نہیں دے گا اور کسی دوسرے سے نکاح کر دے گا تو نکاح کے بعد تین برس تک بلکہ اس سے بہت قریب فوت ہو جائے گا۔ اور پھر ایسا ہی واقعہ ہو جائے تو برائے خدا اس کی نظیر پیش کرو ورنہ یاد رکھو کہ مرنے کے بعد اس انکار اور تکذیب اور تکفیر سے پوچھے جاؤ گے خداتعالیٰ صاف فرماتا ہے ۲؎سوچ کر دیکھو کہ اس کے یہی معنی ہیں جو شخص اپنے دعویٰ میں کاذب ہو اس کی پیشگوئی ہرگز پوری نہیں ہوتی۔ شیخ صاحب اب وقت ہے سمجھ جاؤ اور اس دن سے ڈرو جس دن کوئی شیخی پیش نہیں جائے گی اور اگر کوئی نجومی یا رمال یا جفری اس عاجز کی طرح دعویٰ کر کے کوئی پیشگوئی دکھلا سکتا ہے تو اس کی نظیر پیش کرو اور چند اخباروں میں درج کرا دو اور یاد رکھو کہ ہر گز پیش نہیں کر سکو گے اور نجومی ہلاک ہوگا خدا تعالیٰ تو اپنے نبی کو فرماتا ہے کہ اگر وہ ایک قول بھی اپنی طرف سے بتاتا تو اس کی رگ جان قطع کی جاتی پھر یہ کیونکر ہو کہ بجائے رگ جان قطع کی جانے کے اللہ جلشانہٗ اس عاجز کو جو آپ کی نظر میں کافر مفتری دجال کذاب ہے دشمنوں کے مقابل پر یہ عزت دی کہ تائید دعویٰ میں پیشگوئی پوری کرے کبھی دنیا میں یہ ہوا ہے کہ کاذب کی خدا تعالیٰ نے ایسی مدد کی ہو کہ وہ گیارہ برس سے خدا تعالیٰ پر یہ افترا کر رہا ہو کہ اس کی وحی ولایت اور وحی محدثیت میرے پر نازل ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ اس کی رگ جان نہ کاٹے بلکہ اس کی پیشگوئیوں کو پورا کر کے آپ جیسے دشمنوں کو منفعل اور نادم اور لاجواب کر دے اور آپ کی کوشش کا یہ نتیجہ ہو کہ آپ کے تکفیر سے پہلے تو کل ۷۵ آدمی سالانہ جلسہ میں شریک ہوں اور بعد آپ کی تکفیر اورجانکاہی کے روکنے کے تین سَو ستائیس احباب اور مخلص جلسہ اشاعت حق پر دوڑے آویں۔ اب اس سے کیا لکھوں میں اس خط کو انشاء اللہ چھاپ کر شائع کر دوں گا اور مجھے اس
۱؎ الجن: ۲۷، ۲۸ ۲؎ المؤمن: ۲۹
بات کی ضرورت نہیں کہ اس الہامی پیشگوئی کی آزمائش کے لئے بٹالہ میں کوئی مجلس مقرر کرو مناسب ہے کہ آپ بھی اپنے اشاعۃ السنہ میں میرے اس خط کو شائع کر دیں اور یہ بات بھی ساتھ لکھ دیں کہ اب آپ کو قبول کرنے میں کیا عذر ہے جو منصف لوگ دیکھ لیں گے کہ وہ عذر صحیح یا غلط ہے۔
مکرر یہ کہ اللہ جلشانہٗ خوب جانتا ہے کہ میں اپنے دعویٰ میں صادق ہوں نہ مفتری ہوں نہ دجال نہ کذاب اس زمانہ میں کذاب اور دجال اور مفتری پہلے اس سے کچھ نہیں تھے تا خدا تعالیٰ صدی کے سر پر بھی بجائے ایک مجدد کے جو اس کی طرف سے مبعوث ہو ایک دجال کو قائم کر کے اور بھی فتنہ اور فساد ڈال دیتا ہے۔ مگر جو لوگ سچائی کو نہ سمجھیں اور حقیقت کو دریافت نہ کریں اور تکفیر کی طرف دوڑیں میںان کا کیا کروں۔ میں اس بیمار دار کی طرح جو اپنے عزیز بیمار کے غم میں مبتلا ہوتا ہے اس ناشناس قوم کے لئے سخت اندوہ گیں ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اے قادر ذوالجلال خدا ہمارے ہادی و رہنما ان لوگوں کی آنکھیں کھول اور آپ ان کو بصیرت بخش اور آپ ان کے دلوں کو سچائی اور راستی کا الہام بخش ۔اور یقین رکھتا ہوں کہ میری دعائیں خطا نہیں جائیں گی کیونکہ میں اس کی طرف سے ہوں اور اس کی طرف بلاتا ہوں۔ یہ سچ ہے اگر میں اس کی طرف سے نہیں ہوں اور ایک مفتری ہوں تو بڑے عذاب سے مجھ کو ہلاک کرے گا کیونکہ وہ مفتری کو وہ عزت نہیں دیتا کہ جو صادق کو دی جاتی ہے۔ میں نے جو ایک پیشگوئی جس پر آپ نے میرے صادق اور کاذب ہونے کا حصر کر دیا آپ کی خدمت میں پیش کی ہے یہی میرے صدق اور کذب کی شناخت کے لئے کافی شہادت ہے کیونکہ ممکن نہیں کہ خدا تعالیٰ کذاب اور مفتری کی مدد کرے۔ لیکن ساتھ اس کے میں یہ بھی کہتا ہوں کہ اس پیشگوئی کے متعلق دوپیشگوئی اور ہیں۔ جن میں اشتہار ۱۰؍ جولائی۱۸۸۸ء میں شائع کر چکا ہوں جن کا مضمون یہی ہے کہ خدا تعالیٰ اس عورت کو بیوہ کر کے میری طرف ردّ کرے گا۔ اب انصاف سے دیکھیں کہ نہ کوئی انسان اپنی حیات پر اعتماد کر سکتا ہے اور نہ کسی دوسرے کی نسبت دعویٰ کر سکتا ہے کہ وہ فلاں وقت تک زندہ رہے گا یا فلاں وقت تک مر جائے گا مگر میری اس پیشگوئی میں نہ ایک بلکہ چھ دعویٰ ہیں اوّل نکاح کے وقت تک میرا زندہ رہنا دوم نکاح کے وقت تک اس لڑکی کے باپ کا یقینا زندہ رہنا سوم پھر نکاح کے بعد اس لڑکی کے باپ کا مرنا جو تین برس تک نہیں پہنچے گا چہارم اس کے خاوند کا اڑھائی برس کے عرصہ تک مر جانا پنجم اس وقت تک کہ میں اس سے نکاح کروں اس لڑکی کا زندہ رہنا ششم پھر آخر یہ کہ بیوہ ہونے کی تمام رسموں کو توڑ کر باوجود سخت مخالفت اس کے اقارب کے میرے نکاح میں آجانا۔ اب آپ ایماناً کہیں کہ کیا یہ باتیں انسان کے اختیار میں ہیں اور ذرہ اپنے دل کو تھام کر سوچ لیں کہ کیا ایسی پیشگوئی پر جو لڑکی کے باپ کے متعلق ہے جو ۳۰؍ ستمبر ۱۸۹۲ء کو پوری ہوگئی آپ کا دل نہیں ٹھہرتا تو آپ اشاعۃ السنہ میں ایک اشتہار حسب اپنے اقرار کے دے دیں کہ اگر یہ دوسری پیشگوئیاں بھی پوری ہوگئیں تو اپنے ظنون باطلہ سے توبہ کروں گا اور دعویٰ میں سچا سمجھ لوں گا اور اس کے خدا تعالیٰ سے ڈر کر یہ بھی اقرار کریں کہ ایک تو ان میں سے پوری ہوگئی اور اگر اس پیشگوئی کے پورا ہو جانے کا آپ کے دل میں زیادہ اثر نہ ہو تو اس قدر تو ضرور چاہئے کہ جب تک آخر ظاہر نہ ہو کف لسان اختیار کریں جب ایک پیشگوئی پوری ہوگئی تو اس کی کچھ تو ہیبت آپ کے دل پر چاہئے آپ تو میری ہلاکت کے منتظر اور میری رسوائی کے دنوں کے انتظار میں ہیں اور خدا تعالیٰ میرے دعویٰ کی سچائی پر نشان ظاہر کرتا ہے اگر آپ اب بھی نہ مانیں تو میرا آپ پر زور ہی کیا ہے لیکن یاد رکھیں کہ انسان اپنے اوائل ایام انکار میں بباعث کسی اشتباہ کے معذور ٹھہر سکتا ہے لیکن نشان دیکھنے پر ہرگز معذور نہیں ٹھہر سکتا۔ کیا یہ پیشگوئی جو پوری ہوگئی۔ کوئی ایسا اتفاقی امر ہے جس کی خدا تعالیٰ کو کچھ بھی خبر نہیں کیا بغیر اس کے علم اور ارادہ کے ایک دجال کی تائید میں خود بخود یہ پیشگوئی وقوع میں آ گئی کیا یہ سچ نہیں کہ مدعی کاذب کی پیشگوئی ہرگز پوری نہیں ہوتی یہی قرآن کی تعلیم ہے اور یہی توریت کی اگر آپ میںانصاف کا کچھ حصہ ہے اور تقویٰ کا کچھ ذرّہ ہے تو اب زبان کو بند کر لیں خدا تعالیٰ کا غضب آپ کے غضب سے بہت بڑا ہے۔ ۱؎ والسلام علی من اتبع الھدی وما استکبرو ما ابی
عاجز
غلام احمد عفی اللہ عنہ
 
Top