اس وقت کے مسلمانوں کو جو اسے نبی کریمؐ کی حدیث کہتے تھے انہیں تو اس بات کا علم نہیں ہوا کہ یہ محض محمد بن علی کا قول ہے نبی کریمؐ کا نہیں۔اور وہ ہؤیوہی غلط طور پر اسے نبی کریمؐ کی طرف منسوب کرتے چلے گئے اور گناہ کے مرتکب ہوتے گئے اور یوں ہی جو نبی کریمؐ نے مہدی کے ظہور کا وقت بتا یا تھا اس وقت میں مہدی کے ظہور اور اس کی اس علامت کے ظہور کا انتظار کرتے رہے؟
یہ سب فضول باتیں معلوم ہوتی ہیں شاید آپ کو لیکن مسلمان اس بات کو بہت اہمیت دیتے رہے ہیں۔اور جب حضرت مرزا صا حب نے امام مہدی ہونے کا دعوی کیا تو اس وقت کے آپ کے مخالفین آپ سے اس نشان کا مطالبہ کرتے رہے۔کیا یہ سب فرضی باتیں تھیں جن پر مسلمانوں نے اپنی عمارت کھڑی کر رکھی تھی؟
دوسری بات یہ کہ خدا تعالیٰ نے کائنات کے قوانین قدرت بنا رکھے ہیں۔قوانین قدرت میں یہ بات داخل ہے کہ چاند کو پہلی رات میں اور سورج کو نصف مہینے میں گرہن نہیں لگا کرتا۔احادیث کے الفاظ پر غور کرنے اور قوانین قدرت کو سامنے رکھتے ہوئے اس کے اور معنے نہیں کئے جاسکتے سوائے اس کے کہ چاند کو اس کی گرہن کی تواریخ میں سے پہلی تاریخ کو اور سورج کو اس کے گرہن کی تواریخ میں سے درمیانی تاریخ کو گرہن لگے گا۔
چنانچہ عین چودھویں صدی کے سر پر چاند گرہن کیلئے مقرر تاریخوں (۱۳‘۱۴‘۱۵) میں سے پہلی رات یعنی تیرہ رمضان ۱۳۱۱ھ بمطابق ۲۳ مارچ ۱۸۹۴ء کو اور سورج گرہن کیلئے مقرر تاریخوں (۲۷‘۲۸‘۲۹) میں سے درمیانی تاریخ یعنی ۲۸ رمضان بمطابق ۶۔اپریل ۱۸۹۴ء کو گرہن لگا۔
اپ نے کہا قوانین قدرت میں یہ بات داخل ہے کہ کہ چاند کو پہلی رات اور سورج کو نصف مہینے میں گرہین نہین لگا کرتا
تو اپکی پیش کردہ ضعیف روایت میں ہی درج ہے کہ ایسا پہلے کبھی نہین ہوا ہوگا۔ یعنی چاند کی پہلی رات اور سورج کو نصف مہینے میں گرہن پہلے نہں لگا وگا یہ قوانین قدرت کے مخالف جا کر ہوگا تب ہی تو نشانی ہوگی۔
, وَلَمْ تَكُونَا مُنْذُ خَلَقَ اللَّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ
مرزا صاحب کے زمانے میں جو ہوا کیا وہ قوانین قدرت کے مخالف تھا اور پہلی دفعہ ہوا تھا یا اس سے پہلے بھی ہوتا رہا ہے؟