ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
کذبات مرزا ’’ازالہ اوہام‘‘ 42 ( دابۃُ الرض کے بعد ایمان لانا نافع نہ ہو گا)
۴۲… ’’
دابۃ الارض
‘‘ اس جگہ لفظ دابۃ الارض سے ایک ایسا طائفہ انسانوں کا مراد ہے۔ جو آسمانی روح اپنے اندر نہیں رکھتے۔ لیکن زمینی علوم وفنون کے ذریعہ سے منکرین اسلام کو لاجواب کرتے ہیں اور اپنا علم کلام اور طریق مناظرہ تائید دین کی راہ میں خرچ کر کے بجان ودل خدمت شریعت غرا بجا لاتے ہیں۔ سو وہ چونکہ درحقیقت زمینی ہیں اور آسمانی نہیں اور آسمانی روح کامل طور پر اپنے اندر نہیں رکھتے۔ اس لئے دابۃ الارض کہلاتے ہیں۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۵۰۲، خزائن ج۳ ص۳۶۹،۳۷۰)
ابوعبیدہ: سبحان اﷲ! رسول کریمﷺ تو فرماتے ہیں:
’’
ثلث اذا خرجن لا ینفع نفسا ایمانہا لم تکن اٰمنت من قبل او کسبت فی ایمانہا خیراً طلوع الشمس من مغربہا والدجال ودابۃ الارض
‘‘ (مشکوٰۃ ص۴۷۲، باب العلامات بین یدی الساعۃ وذکر الدجال)
’’یعنی جب تین چیزیں ظاہر ہو جائیں گی۔ اس کے بعد ایمان لانا بھی نفع نہ دے گا۔ اوّل سورج کا مغرب سے نکلنا۔ دوسرے دجال کا نکلنا۔ تیسرے دابۃ الارض کا نکلنا۔‘‘
تو کیا اب جس قدر مرزائی ہیں۔ یہ سب کافر ہیں۔ کیونکہ دابۃ الارض کے بعد مرزائی بنے ہیں۔
کذبات مرزا ’’ازالہ اوہام‘‘ 43 ( امام مجددالف ثانی پر جھوٹا بہتان)
۴۳… ’’مجدد الف ثانی صاحبؒ اپنے مکتوبات کی جلد ثانی مکتوب۵۵ میں لکھتے ہیں کہ مسیح موعود جب دنیا میں آئے گا تو علماء وقت کے بمقابل اس کے آمادہ مخالفت کے ہو جائیں گے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۵۴۵، خزائن ج۳ ص۳۹۳)
پھر (ص۲۴۰) پر لکھتے ہیں کہ: ’’مجدد ثانی نے ٹھیک لکھا ہے کہ جب مسیح آئے گا تو تمام مولوی ان کی مخالفت پر آمادہ ہو جائیں گے اور خیال کریں گے کہ اہل الرای ہے اور اجماع کو ترک کرتا ہے اور کتاب اﷲ کے معنی الٹاتا ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۵۸۰، خزائن ج۳ ص۴۱۳)
ابوعبیدہ: ہذا بہتان عظیم جو قادیانی یہ لفظ یا مضمون مجدد صاحب کی کتاب سے دکھا سکے۔ ہم سے انعام حاصل کرے۔ ان کی عبارت میں لکھا ہے۔ ’’عجب نہیں کہ علمائے ظاہر‘‘ ان الفاظ کو مرزاقادیانی ہضم ہی کر گئے ہیں۔ جن کی موجودگی میں معنوں میں زمین اور آسمان کا فرق ہو جاتا ہے۔
کذبات مرزا ’’ازالہ اوہام‘‘ 44 ( مسیح امت محمدیہ میں سے ہوں گے یا نہیں؟)
۴۴… ’’صاحب نبوت تامہ ہر گز امتی نہیں ہوسکتا اور جو شخص کامل طور پر رسول اﷲ کہلاتا ہے وہ کامل طور پر دوسرے نبی کا مطیع اور امتی ہو جانا نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ کی رو سے بکلی ممتنع ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۵۶۹، خزائن ج۳ ص۴۰۷)
ابوعبیدہ: مرزاقادیانی آپ کو قرآن اور حدیث کا صحیح مفہوم نصیب نہیں ہوا۔ کیا آپ کو آیت میثاق النبیین یاد نہیں۔ ہر ایک نبی سے اس میں عہد لیاگیا ہے کہ اگر محمدﷺ کو پاؤ تو اس پر ایمان لے آؤ۔ پھر رسول پاک کی حدیث کھول گئی۔ ’’
لوکان موسیٰ حیاً ماوسعہ الا اتباعی رواہ احمد وبیہقی
‘‘ (مشکوٰۃ ص۳۰، باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ)
یعنی فرمایا رسول پاکﷺ نے اگر موسیٰ علیہ السلام بھی زندہ ہوتے تو میری اطاعت کے بغیر انہیں چارہ نہ ہوتا۔ پھر مرزاقادیانی نے خود اسی (ازالہ ص۲۵۵) پر لکھا ہے: ’’یہ ظاہر ہے کہ مسیح ابن مریم اس امت (محمدی) کے شمار میں ہی آگئے ہیں۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۶۲۳، خزائن ج۳ ص۴۳۶)
پھر (ص۲۶۴) پر لکھا ہے کہ: ’’مسیح درحقیقت آخری خلیفہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا تھا۔‘‘ ( ازالہ اوہام ص۶۴۸، خزائن ج۳ ص۴۵۰)
پھر باوجود اس کے کہ حضرت مسیح کامل طور پر رسول اﷲتھے۔ مگر حضرت موسیٰ کے خلیفہ تھے۔ علاوہ ازیں آپ نے (ریویو آف ریلیجنز ج۱ نمبر۵ ص۱۹۶) پر اسی آیت مذکورہ بالا کے تحت میں ’’حضرت مسیح علیہ السلام کو حضرت رسول کریمﷺ کا امتی تسلیم کیا ہے۔‘‘
کذبات مرزا ’’ازالہ اوہام‘‘ 45 ( توفیتنی کے معنی میں تحریف)
۴۵… ’’لیکن افسوس کہ بعض علماء نے محض الحاد اور تحریف کی رو سے اس جگہ توفیتنی سے مراد رفعتنی لیا ہے اور اس طرف ذرا خیال نہیں کیا کہ یہ معنی نہ صرف لغت کے مخالف بلکہ سارے قرآن کے مخالف ہیں۔ پس یہی تو الحاد ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۶۰۰، خزائن ج۳ ص۴۳۴)
ابوعبیدہ: مرزاقادیانی کی سمجھ اور فہم کا قصور ہے۔ چمگادڑ کو دوپہر کے وقت اندھیرا نظر آتا ہے۔ علماء نے الحاد اور تحریف نہیں کی۔ بلکہ آپ نے کی ہے۔ ثبوت سنئے توفیتنی کے معنی رفعتنی حضرات صحابہ کرامؓ نے کئے۔ تمام مجددین امت نے جن کو فہم قرآن آپ کے نزدیک بھی دیاگیا تھا۔ (دیکھو عسل مصفیٰ ج۱ ص۱۶۳)
یہی معنی کئے ہیں۔ آپ تو عربی میں بے استادے اور علوم عربیہ میں محض کورے ہیں۔ (پڑھئے جھوٹ نمبر۸۳) تمام مفسرین نے جو عربی اور علوم عربیہ میں بحر ذخارئر تھے۔ یہی معنی کئے ہیں۔ پھر آپ کس منہ سے کہتے ہیں کہ توفیتنی کے معنی رفعتنی کرنا الحاد اور تحریف ہے۔ تف ہے آپ کی نبوت، مہدویت، مجددیت اور مسیحیت پر کہ جھوٹ بولتے ہوئے ذرا حجات نہیں آتا۔
کذبات مرزا ’’ازالہ اوہام‘‘ 46 (توفی کے معنی اور مرزا کی بے علمی)
۴۶… ’’توفی کے معنی حقیقت میں وفات دینے کے ہیں۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۶۰۱، خزائن ج۳ ص۴۲۵)
پھر (ص۳۸۷) ’’توفی کے حقیقی معنی وفات دینے اور روح قبض کرنے کے ہیں۔‘‘
ابوعبیدہ: مرزاقادیانی آپ کو حقیقت اور مجاز کے معنی بھی معلوم ہیں؟ ذرا دونوں کی تعریف کیجئے۔ پھر توفی کے حقیقی معنی وفات دینے کے ثابت کیجئے تو مزہ بھی آئے۔
کذبات مرزا ’’ازالہ اوہام‘‘ 47 ("فلما توفیتنی" اور مرزا کا جھوٹ اسی کی کتاب سے عیاں)
۴۷… ’’
اذ قال اﷲ یا عیسیٰ أنت قلت للناس… الیٰ آخر
‘‘ اور ظاہر ہے کہ قال کا صیغہ ماضی کا ہے اور اس کے اوّل اذ موجود ہے جو خاص واسطے ماضی کے آتا ہے۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ قصہ وقت نزول آیت زمانہ ماضی کا ایک قصہ تھا۔ نہ زمانہ استقبال کا۔ نیز ص۳۰۴ پر لکھتے ہیں کہ: ’’یہ سوال وجواب حضرت مسیح علیہ السلام سے عالم برزخ میں کیاگیا تھا۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۶۰۲، خزائن ج۳ ص۴۲۵)
ابوعبیدہ: اس میں دو جھوٹ ہیں۔ نمبر۴۷ مرزاقادیانی فرماتے ہیں کہ اس آیت کے نازل ہونے کے وقت یہ سوال وجواب حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور خدائے تعالیٰ کے درمیان ہوچکے تھے۔ پھر خود ہی اس کا جھوٹ ہونا۔ (کشتی نوح ص۶۹) پر اس طرح تسلیم کیا ہے۔ ’’جو اقرار اس (عیسیٰ علیہ السلام) نے آیت ’’
فلما توفیتنی
‘‘ کی رو سے قیامت کے دن کرنا ہے۔‘‘ (کشتی نوح ص۶۹، خزائن ج۱۹ ص۷۶)
نیز اﷲتعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام سے یہ باتیں قیامت کے دن کریں گے۔ (ملخصاً براہین احمدیہ حصہ۵ ص۴۰، خزائن ۲۱ ص۵۱)
کذبات مرزا ’’ازالہ اوہام‘‘ 48 (ماضی کے پہلے اذ آ جانے سے معنی استقبال کے مراد ہوتے ہیں۔)
۴۸… قرآن میں بیسیوں جگہ ماضی کے پہلے اذ آ جانے سے معنی استقبال کے مراد ہوتے ہیں۔ خود مرزاقادیانی (براہین احمدیہ حصہ۵ ص۶، خزائن ج۲۱ ص۱۵۹) پر لکھتے ہیں: ’’جس شخص نے کافیہ یا ہدایت النحو بھی پڑھی ہوگی۔ وہ خوب جانتا ہے کہ ماضی مضارع کے معنوں پر بھی آجاتی ہے۔‘‘ پھر یہ آیت بطور مثال پیش کی ہے۔
کذبات مرزا ’’ازالہ اوہام‘‘ 49، 50 ( وفات مسیحؑ ثابت کرنے کے لیے قرآن کریم میں تحریف)
۴۹… تیسویں آیت یہ ہے: ’’
او ترقی فی السماء قل سبحان ربی ہل کنت الا بشرا رسولاً
‘‘ ترجمہ یعنی کفار کہتے ہیں تو (اے محمدﷺ) آسمان پر چڑھ کر ہمیں دکھلا تب ہم ایمان لے آئیں گے۔ ان کو کہہ دے کہ میرا خدا اس سے پاک تر ہے کہ اس دار ابتلاء میں ایسے کھلے کھلے نشان دکھا دے اور میں بجز اس کے اور کوئی نہیں ہوں کہ ایک آدمی۔ اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ کفار نے آنحضرتﷺ سے آسمان پر چڑھنے کا نشان مانگا تھا اور انہیں صاف جواب ملا کہ یہ عادت اﷲ نہیں کہ کسی جسم خاکی کو آسمان پر لے جائے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۶۲۶، خزائن ج۳ ص۴۳۷،۴۳۸) ابوعبیدہ: یہاں مرزاقادیانی نے ایک تو خدا پر افتراء کیا ہے۔ ساری آیت نقل نہیں کی اور جتنی نقل کی ہے وہ بھی غلط۔ درمیان سے آیت کا ضروری حصہ ہضم ہی کر گئے ہیں۔ یہاں دھوکہ دینا مطلوب تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس آیت کے بعد دوسری آیت کی طرح حوالہ نہیں لکھا۔ حوالہ ہم سے سنئے۔ (سورہ اسرائیل:۹۳) جواب خط کشیدہ جملہ نہیں ملا تھا۔ بلکہ جواب یہ تھا کہ: ’’میں بشر ہوں۔ رسول ہوں۔ میں خود تمہارے لئے معجزہ تجویز نہیں کر سکتا۔‘‘ اور باقی کا ترجمہ تو بالکل تحریف مجسم ہے۔
۵۰… دوسرا جھوٹ اس میں یہ ہے۔ مرزاقادیانی کہتا ہے کہ: ’’یہ عادت اﷲ نہیں کہ کسی جسم خاکی کو آسمان پر لے جائے۔‘‘ توریت سے حضرت ایلیا علیہ السلام کا رفع جسمانی ثابت ہے۔ انجیل اور قرآن سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رفع جسمانی ساری پڑھی لکھی دنیا کو معلوم ہے۔ معراج کی رات حضرت رسول اﷲﷺ کا رفع جسمانی قرآن اور حدیث سے ایسے طریقہ سے ثابت ہے کہ جس کا انکار ایک شریف آدمی سے ممکن نہیں۔ خود مرزاقادیانی (ازالہ اوہام ص۲۸۹، خزائن ج۳ ص۲۴۷) پر لکھتے ہیں: ’’آنحضرتﷺ کے رفع جسمانی کے بارہ میں یعنی اس بارہ میں کہ وہ جسم کے ساتھ شب معراج آسمانی کی طرف اٹھا لئے گئے تھے۔ تقریباً تمام صحابہ کا یہی اعتقاد تھا۔‘‘ حضرت ایلیا کا رفع جسمی ملاحظہ ہو۔ (سلاطین۲، باب۲، آیت۱) اور مسیح کا رفع جسمی لوقا باب۲۴، آیت۵۰، اعمال باب۱۔
کذبات مرزا ’’ازالہ اوہام‘‘ 51 (اکثر احادیث صحیح ہونے کے باوجود مفید نہیں)
۵۱… ’’اکثر احادیث اگر صحیح بھی ہوں تو مفید ظن ہیں۔
والظن لا یغنی من الحق شیئاً
‘‘ (ازالہ اوہام ص۶۵۴، خزائن ج۳ ص۴۵۳)
ابوعبیدہ: مرزاقادیانی کا صریح کذب وبہتان ہے۔ اگر حدیث کا یہی مرتبہ ہوتا تو اﷲتعالیٰ اپنے کلام پاک میں یوں نہ فرماتے۔
۱… ’’
اطیعوا اﷲ واطیعو الرسول
(نساء:۵۹)‘‘
۲… ’’
قل ان کنتم تحبون اﷲ فاتبعونی یحببکم اﷲ
(آل عمران:۴۱)‘‘
۳… ’’
فلا وربک لا یؤمنون حتی یحکموک فیما شجر بینہم ثم لا یجدوا فی انفسہم حرج مما قضیت ویسلموا تسلیما
(نساء:۶۵)‘‘
’’
وما کان لمؤمن ولا مؤمنۃ اذا قضی اﷲ ورسولہ امراً ان یکون لہم الخیرہ من امرہم ومن یعص اﷲ ورسولہ فقد ضل ضلالا مبینا
(الاحزاب:۳۶)‘‘
پہلی آیت میں اﷲتعالیٰ نے کلام اﷲ اور صحیح حدیث نبوی کی اطاعت کا ایک جیسا حکم دیا ہے۔ دوسری آیت میں رسول کریمﷺ کی حدیث کی اطاعت کو اپنا محبوب ننے کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ تیسری آیت حدیث رسول اﷲﷺ کی اطاعت کو معیار ایمان قرار دیا ہے۔ چوتھی آیت میں اﷲ جس طرح کلام اﷲ کے مخالف اور منکر کو گمراہ قرار دے رہے ہیں۔ اسی طرح مخالف حدیث رسول کو بھی مردود ٹھہرا رہے ہیں۔ اس طرح کی آیات سے قرآن پاک بھرا پڑا ہے۔ جس کا جی چاہے۔ مطالعہ کرے یا اگر مزید ایسی آیات کی ضرورت ہو تو مجھ سے حوالے طلب کر سکتا ہے۔
تصدیق از مرزاقادیانی
(شہادت القرآن ص۳، خزائن ج۶ ص۲۹۹) ’’ہمیں اپنے دین کی تفصیلات احادیث نبویہ کے ذریعہ سے ملی ہیں۔ نماز، زکوٰۃ کے احکام کی تفاصیل معلوم کرنے کے لئے ہم بالکل احادیث کے محتاج ہیں… اسلامی تاریخ کا مبداء اور منبع یہی احادیث ہیں۔ اگر احادیث کے بیان پر بھروسہ نہ کیا جائے تو پھر ہمیں اس بات کو بھی یقینی طور پر نہیں ماننا چاہئے کہ درحقیقت حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ آنحضرتﷺ کے اصحاب تھے۔‘‘
’’اگر یہ مسیح ہے کہ احادیث کچھ چیز نہیں تو پھر مسلمانوں کے لئے ممکن نہ ہوگا کہ آنحضرتﷺ کی پاک سوانح میں سے کچھ بھی بیان کر سکیں۔‘‘ ’’اگر احادیث کی نسبت ایسی ہی رائیں قبول کی جائیں تو سب سے پہلے نماز ہی ہاتھ سے جاتی ہے۔ کیونکہ قرآن نے تو نماز پڑھنے کا نقشہ کھینچ کر نہیں دکھلایا۔ صرف یہ نمازیں احادیث کے بھروسہ پر پڑھی جاتی ہیں۔‘‘ (ملخص خزائن ج۶ ص۲۹۹تا۳۰۱)
اب فرمائیے حضرات نمبر۵۱ کس قدر زبردست جھوٹ ہے۔ جہاں حدیث صحیحہ کے حکم کو بھی حق کے خلاف قرار دے رہے ہیں۔
کذبات مرزا ’’ازالہ اوہام‘‘ 52 ،53 (قرآن مجید نے مسیحؑ کے نکلنے کی مدت 1400 برس بتائی ہے)
۵۲،۵۳… ’’قرآن شریف نے جو مسیح کے نکلنے کی ۱۴۰۰برس تک مدت ٹھہرائی ہے۔ بہت سے اولیاء بھی اپنے مکاشفات کی رو سے اس مدت کو مانتے ہیں۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۶۷۵، خزائن ج۳ ص۴۶۴)
ابوعبیدہ: یہاں بھی مرزاقادیانی نے دو جھوٹ بلکہ زبردست افتراء کر کے اپنا الوسیدھا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اوّل… قرآن شریف پر افتراء: قرآن شریف میں کوئی ایسی آیت نہیں جس میں ۱۴۰۰برس کے بعد مسیح کے نکلنے کی اطلاع ہو۔ یہ مرزاقادیانی کا دجل وفریب ہے۔ دوم… یہی دعویٰ بہت سے اولیاء اﷲ کی طرف بھی منسوب کیا ہے۔ اگر اس دعویٰ میں سچے ہوتو کم ازکم دوچار سو اولیاء اﷲکا نام تو لواور ان کی تحاریر پیش کرو۔ جنہوں نے ایسا لکھا ہے یا جن چند ہستیوں نے ایسا لکھا ہے۔ اگر آپ انہیں اولیاء اﷲ مانتے ہیں تو چلو ہمارے تمہارے اختلافات کا جو وہ فیصلہ کریں اس کو صحیح مان لو۔ اگر ذرا بھر بھی ایمانی جرأت ہو تو اعلان کردو۔